......میں یہیں پر اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے رنج و غم کا اظہار کرتا ہوں ہمارے پڑوس میں افغانستان میں پیش آنے والے واقعات پر جو ان افراد کے ہاتھوں رونما ہو رہے ہیں جو اسلام کے دعویدار ہیں جبکہ در حقیقت اسلام کی ان میں کوئی رمق نہیں ہے۔ اس وقت یعنی تقریبا ایک مہینے سے لیکر اب تک شاید تقریبا سات یا آٹھ دہشت گردانہ قتل عام کے واقعات ہو چکے ہیں۔ کسی واقعے میں ساٹھ ستر افراد شہید ہوئے، ایک واقعے میں پچاس افراد مارے گئے، کسی واقعے میں پچیس افراد جاں بحق ہو گئے۔ کابل میں، قندھار میں، دیگر علاقوں میں۔ اعلان کرتے ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ یہ حملہ ہم نے انجام دیا ہے۔ یہ کون ہیں؟ داعش کے افراد ہے۔ آپ توجہ کیجئے، وہی ہاتھ جنھوں نے داعش کی تشکیل کی خواہ وہ عراق کے اندر ہو یا شام کے اندر، اور تشکیل کے بعد داعش کے ذریعے وہ بھیانک جرائم انجام دئے، جن ہاتھوں نے داعش کو حربے کے طور پر استعمال کیا اور عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے، وہی ہاتھ اب داعش کو یہاں یعنی افغانستان منتقل کر رہے ہیں۔ وہاں انھیں شکست ہو گئی تو اب یہاں پر وہ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی شروعات ہے جس کے نتیجے میں ایک مہینے چالیس دن کی مدت میں انھوں نے اس بڑے پیمانے پر قتل عام کئے ہیں۔ شیعہ سنی سبھی کا قتل عام کیا گيا ہے بالکل عراق اور دیگر علاقوں کی مانند۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف شیعوں کا قتل عام کیا ہے۔ البتہ ایک سانحے میں بد قسمتی سے تقریبا پچاس یا ساٹھ شیعہ طالب علم ان کے ہاتھوں شہید کر دئے گئے، لیکن صرف شیعہ نہیں ہیں، دوسرے بے گناہ افراد بھی شیعہ سنی سب کابل میں اور دیگر جگہوں پر قتل کئے جا رہے ہیں۔ ان کی نظر میں کوئی فرق نہیں کیونکہ امریکہ کی نظر میں بھی کوئی فرق نہیں۔

امریکی سیاست کے اعتبار سے اس علاقے میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس علاقے میں امن و سکون نہ رہے۔ اس علاقے کی حکومتیں اور قومیں اپنے آپ میں الجھی رہیں تاکہ اس علاقے میں استکبار کے ایجنٹ یعنی صیہونزم کی طرف توجہ دینے کا موقع ہی نہ ملے۔ یہ ایک ہدف ہے۔ دوسرا ہدف یہ ہے کہ اس علاقے میں امریکہ کو اپنی موجودگی کا جواز مل جائے۔ جب افغانستان میں بدامنی رہے گی تو امریکہ اپنی موجودگی کا جواز آسانی سے پیش کر دے گا کہ 'جی ہاں یہاں پر ہم امن و سلامتی بحال کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔' حالانکہ بدامنی تو خود انھوں نے پیدا کی ہے۔ بد امنی خود انھوں نے پیدا کی ہے۔ بیس سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں جو کچھ واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ سب امریکہ اور اس کے آلہ کاروں کے ہاتھوں براہ راست یا بالواسطہ طور پر انجام پائے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس علاقے میں مذہب کے نام پر قتل عام ہو رہا ہے۔ اس وقت وہ پھر کام کر رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ علاقے میں ہمیشہ ایک ہنگامہ برپا رہے تاکہ یہاں ان کی موجودگی کا جواز بھی قائم  رہے اور وہ اپنے اقتصادی و سیاسی مفادات کی حفاظت کرتے رہیں۔ اللہ کی لعنت ہو استکبار پر، استکبار کے آلہ کاروں  پر، جرائم پیشہ صیہونی حکومت اور امریکہ پر ان کے مہروں اور آلہ کاروں پر جو عوام الناس کو، مسلمانوں کو اس طرح نابود کر رہے ہیں۔