آج اسلامی جمہوریہ ایران یعنی علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر مجسم ہو چکی ہے۔ اقبال جو اپنے اسلامی تشخص سے مسلمانوں کی بیگانگی سے نالاں تھے اور اسلامی معاشروں کے افراد کی شخصیت کی نابودی، فرومایگی اور مایوسی کو سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھ رہے تھے اور اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ مشرقی انسان بالخصوص مسلمان کی روح و ذات کے اندر سے اس تاریکی کو دور کرنے کے لئے کوشاں تھے، اگر آج زندہ ہوتے تو ایسی ملت کو دیکھتے جو اپنے  پیروں پر کھڑی ہے، اپنے بیش بہا اسلامی سرمایوں سے سیراب ہو رہی ہے اور اپنے وسائل پر تکیہ کئے ہوئے ہے، اسے مغرب کی وسوسہ انگیزی اور وہاں کے فکری نظام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اپنے اہداف خود معین کرتی ہے اور پھر ان کے حصول کے لئے روانہ ہو جاتی ہے۔ عشق کے مرکب پر سوار ہے اور قومیتی اور نیشنلسٹ رجحانات کی دیواروں میں محصور ہونا اسے پسند نہیں۔