بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام برادران عزیز کو جنہیں سخت امتحان کا ایک دور گزارنے کا فخر حاصل ہے، خوش آمدید کہتا ہوں اور آپ میں سے ہر ایک کے لئے دلی انسیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے ملک کے تمام آزاد ہونے والے جنگی قیدیوں، انقلاب اور اسلامی نظام کے ان زندہ سپاہیوں سے پرخلوص قلبی تعلق کا اظہار کرتا ہوں اور ان کے اہل خاندان پر جنہوں نے اس المناک دور کی سختیوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا، سلام بھیجتا ہوں۔ میں اسی طرح ملک کے تمام بسیجی رضا کاروں اور امت حزب اللہ کے مخلص سپاہیوں کو بھی جن کا اولین ہدف اسلامی نظام کی حفاظت اور رضائے خدا کا حصول ہے، سلام کرتا ہوں۔
ان دنوں کو ایک سال ہو گئے جب ہماری قوم نے اپنے چہروں پر رنج و الم کے آثار لئے، برسوں کی مفارقت کے بعد آپ کو آغوش میں لیا اور آپ جو ملت ایران کے ہراول دستے اور اگلی صفوں کے سپاہی ہیں، ایک بار پھر اس قوم کے بحر عظیم الشان کی متلاطم امواج میں شامل ہوئے اور قلب لشکر اسلام میں واپس آئے۔ یہ ہمارے عوام کی خوشی کا دن تھا، یہ وہ دن تھا جب اس قوم کو حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی طرف سے عیدی ملی، اس دن ان لوگوں پر قدرت خدا ظاہر ہوئی جنہیں جلدی یقین نہیں آتا، یہ وہ دن تھا جب آپ اپنے وطن اور ایرانی قوم کی آغوش میں واپس آئے۔ ہمیں اس دن کی یاد ہمیشہ منانی چاہئے، اس دن کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے اور اس سے سبق حاصل کرنا چاہئے۔
کتنے ایسے اہداف ہیں جو دور نظر آتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ ان کا حصول بہت مشکل ہے لیکن خدا پر توکل، صبر اور استقامت کے ذریعے وہ اہداف حاصل ہو جاتے ہیں؛ جیسے آپ کی آزادی ہے۔ البتہ ابھی ہماری خوشی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ابھی ہمارے دل کے زخم پوری طرح مندمل نہیں ہوئے ہیں کیونکہ ابھی اس قوم کے کچھ جگر گوشے دشمن کی قید میں باقی رہ گئے ہیں۔ ابھی اس قوم کے سبھی جگر گوشے واپس نہیں آئے ہیں اور ہمیں صحیح طور پر معلوم نہیں ہے کہ ہمارے کتنے لوگ ابھی وہاں موجود ہیں۔ لیکن یقینا اب بھی ہمارے عزیزوں کی ایک تعداد، ملت ایران سے دشمن کی برہمی اور اس کی وحشیانہ خو کے پیش نظر شاید زیادہ سخت حالات میں زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم انہیں بھی آزاد کرانے کی کوششیں جاری رکھیں اور انہیں ہرگز فراموش نہ کریں۔ ان عزیزوں کو واپس لانے کے لئے ہم سے جو بھی ہو سکے انجام دینا چاہئے۔ یہ ہمارا شرعی اور انسانی فریضہ ہے جو ہمیں انجام دینا چاہئے۔ حکام کا فریضہ ہے کہ اس سلسلے میں تمام کوششیں بروئے کار لائیں تاکہ شاید انشاء اللہ ہم اپنے دیگر مظلوم سپاہیوں کو بھی جو ابھی قید میں ہیں، قوم کی آغوش میں واپس لا سکیں۔
ایک سال گزر گیا۔ یہ ایک سال ہمارے اور آپ کے لئے، ہم میں سے ہر ایک کے لئے، درس تھا اور ہے۔ آپ دیکھیں کہ انہی دنوں میں جب آپ اپنے ملک میں واپس آ رہے تھے، علاقے کے حالات کس طرح متغیر اور متلاطم ہو رہے تھے۔ خلیج فارس میں کیسی آگ شعلہ ور ہوئی۔ عراقی قوم کے کتنے افراد مغربی اور امریکی جارحین کے ذریعے یا خود بعثی وحشیوں کے ہاتھوں آگ اور گولوں کی بارش میں جاں بحق ہوئے یا اپنے عزیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جارح، گستاخ اور مستکبر امریکی حکومت نے اس ایک سال میں کیا کیا؟! عراق کی احمق، بیوقوف اور جاہ طلب حکومت نے اس ایک سال میں کیا کیا؟ عراق کے عوام اور مہاجرین پر کیا گزر گئی۔ ہم پر کیا گزری اور علاقے کو کن سختیوں کا سامنا ہوا۔
ہنگامہ کرنا، اقتدار پرستی سے کام لینا اور پھر سامراجی کیمپ کی افواج کے حملے کے مقابلے میں چوہے کی طرح بل میں گھس جانا اور اپنی حکومت اور سلطنت کی حفاظت کے لئے امریکا کی زور زبردستی کے سامنے جھک جانا اور اس کا بدلہ اپنی قوم سے لینا۔ عراقی قوم کو نقصان پہنچا۔ علاقے کو نقصان پہنچا۔ عراق تباہ ہوا۔ اسلامی ممالک ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گئے اور ان سب سے زیادہ خطرناک اور بری بات یہ ہوئی کہ امریکا نے اس علاقے میں اپنے طاقتور ہونے کا احساس کیا، یہاں قدم رکھا، (طاقت کے نشے میں چور ہوکے ) سینہ ٹھونکا اور دوسروں کو للکارا۔ یہ نقصان کس وجہ سے ہوا؟ یہ بے ایمانی، بے دینی، نفس پرستی اور ہوا و ہوس کا نتیجہ ہے کہ ایک قوم کی تقدیر ان کے ہاتھ میں چلی گئی۔
دیکھئے! انسانیت، اسلام کے لئے کیا قدر و قیمت رکھتی ہے۔ اگر بے ایمان اور انسانیت سے عاری بعثی حکام میں خدا پر ذرہ برابر ایمان ہوتا اور وہ خدا کے لئے کام کرتے تو حالت کس طرح اس سے مختلف ہوتی جو ہوئی ہے۔ دیکھئے کہ خودسری اور بے ایمانی سے انسانیت کو کیا نقصان پہنچتا ہے۔
میرے عزیزو! یہ ایک درس ہے۔ ہم اور آپ مستقل طور پر خودسری کے اس خطرے سے دوچار ہیں۔ ہمارے اندر جو شیطان ہے، وہ مستقل طور پر ہمیں برائی، دشمنی، خودسری اور گناہوں پر ورغلاتا رہتا ہے۔ اگر انسان اس باطنی شیطان کو نہ کچل سکے تو اس کا نقصان صرف اسی کو نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ ایک کنبہ، ایک شہر کے لوگ، ایک پوری قوم، پورا علاقہ اس سے دوچار ہو۔ جیسا کہ حالیہ حوادث میں آپ نے دیکھا۔ ایک خودسر، اقتدار پرست، انسانی اور خدائی اقدار سے نابلد حکومت نے ایسا کام کیا کہ اس کا خمیازہ پوری عراقی قوم بلکہ علاقے کی تمام اقوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
اس واقعے کا دوسرا سبق یہ ہے کہ ہماری قوم سمجھ لے اور ہمارا ایک ایک نوجوان اور آپ میں سے تمام بیدار اور زندہ ضمیر افراد اس بات پر پوری توجہ دیں کہ امت اسلامیہ کے خلاف کیسی سازشیں ہو رہی ہیں۔ دیکھئے! آج فلسطین کے بارے میں کیا کر رہے ہیں اور اس قوم اور درحقیقت پورے علاقے کے لئے انہوں نے کیا خواب دیکھا ہے۔ یہ بھی کسی حد تک انہی حوادث کا نتیجہ ہے جو حالیہ ایک سال میں رونما ہوئے ہیں۔
امریکا نے، توپ، ٹینک، جنگی بحری جہاز اور بمباری نیز اس قسم کے دیگر وسائل کے ساتھ اس علاقے میں آنے اور طاقت دکھانے کا موقع ملتے ہی، اصلی معاملے یعنی مسئلہ فلسطین کا رخ کیا۔ اس کے سر میں سودا سمایا اور اس نے سوچا کہ چونکہ علاقے کی ضعیف النفس حکومتیں خود کو اس کا احسان مند سمجھتی ہیں کیونکہ اس نے انہیں عراقی حکومت کے خطرے سے نجات دلائی ہے، بنابریں یہ وہ وقت ہے کہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا اور قدیمی سامراجی آرزو کی تکمیل کرنا چاہئے۔ وہ آرزو کیا ہے؟ وہ آرزو یہ ہے کہ فلسطینی اقدار کو غدار صیہونیوں کے قدموں پر قربان کر دیا جائے۔ وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ امت اسلامیہ اور مسلمان فلسطینی نوجوانوں کی غیرت کے سبب وہ اس بڑی خیانت میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔
دیکھئے، رحم و انسانیت سے عاری، خونخوار سامراج تیار بیٹھا ہے۔ اگر اس سے ہو سکے تو اپنی سامراجی خواہشات کی تکمیل کے لئے اسلامی اقوام اور ان کی آرزوؤں کو پامال کر دے۔ آج یہ فلسطین کا مسئلہ، اسلامی دنیا کا سب سے بڑا المیہ ہے اور آئندہ بھی (عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ) رہے گا۔ کیا یہ کوئی ہنسی کھیل ہے کہ ایک قوم کو اس کے گھر بار، ملک اور اس کی سرزمین سے نکال دیں اور اس کی جگہ خبیث زرخریدوں کو بسا دیں، ان کی ہر طرح سے مدد کریں، ان کے تمام جرائم کی حمایت کریں، ان کے ہاتھ کہنیوں تک علاقے کے عوام کے خون میں ڈوب جائیں لیکن وہ اس پر بھی اکتفا نہ کریں اور مسلمانوں اور اس گھر اور سرزمین کے اصلی مالکین سے اس بات پر دستخط کروانا چاہیں کہ یہ گھر غاصبوں کا ہے اور گھر کے اصلی مالک کا اس پر کوئی حق نہیں ہے؟ وہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں۔
کیا غیور فلسطینی نوجوان مرگئے ہیں؟ کیا فلسطین کے پڑوسی اور دیگر اسلامی ممالک کے نوجوان مردہ ہو گئے ہیں؟ کہ دشمن، عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ اس طرح اپنے فائدے میں اور امت اسلامیہ کے نقصان میں حل کرنا چاہیں؟ آج اسلامی دنیا پر یہ کیسی خاموشی چھائی ہوئی ہے؟ کیا آج سے چند سال قبل تک کوئی غاصب اسرائیل سے گفتگو کی بات زبان پر لانے کی جرائت کرسکتا تھا؟ ایک خیانتکار، وہ مصری طاغوت (1) اس نے یہ جرائت کی، اقدام کیا اور پھر اپنے کئے کی تھوڑی سزا بھی اس کو مل گئی ۔
آج اس مسئلے کو ایک معمولی اور آسان مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکا ہے جو کہتا ہے کہ آؤ ان صیہونیوں سے، ان چوروں سے، ان قاتلوں سے، ان لوگوں سے جو چالیس سال سے ملت فلسطین کو ایذائیں دے رہے ہیں، پوری اسلامی دنیا کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں، خیانت کرتے ہیں، پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں اور اسلامی دنیا کی تمام مشکلات کی جڑ ہیں، آؤ ان سے مذاکرات کرو اور اس بات کی تائید اور اس پر دستخط کر دو کہ بیت المقدس، سرزمین فلسطین اور جولان کے علاقے صیہونیوں کے رہیں ۔
اس معاملے میں امریکا کون ہوتا ہے؟ امریکی حکومت خود کو یہ حق کس حیثیت سے دیتی ہے کہ اس مسئلے میں جو اس قوم اور اس علاقے سے تعلق رکھتا ہے، ایک سرپرست، صاحب اختیار اور غنڈے کی حیثیت سے مداخلت کرے اور اس کو اس کو حکم دے کہ تمہیں کیا کرنا ہے؟ تم سے کیا مطلب ہے؟ تم نے امریکی براعظم میں در اندازی اور جارحیت کی، بغیر اجازت کے وہاں گئے اور وہاں کے باشندوں کا قتل عام کیا، ابھی تمہارا جی نہیں بھرا؟ اس مشرق وسطی کے علاقے میں، ان اقوام کے تمام ہوشیار باخبر افراد کے دل تمہاری دشمنی اور عداوت سے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر تم نزدیک آ رہے ہو اور سوچتے ہو کہ مسئلہ فلسطین کو حل کر لوگے۔ کیا یہ راہ حل ہے؟ مسئلہ فلسطین کا حل یہ ہے کہ غاصب حکومت ختم ہو، اس سرزمین کے اصلی مالکین یہاں واپس آئیں اور یہاں حکومت تشکیل دیں اور مسلمان، عیسائی اور یہودی جو بھی ہوں، سب مل کر رہیں۔
آپ نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ اسلامی دنیا کا مسئلہ ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اسلامی دنیا سے خطرہ ٹل گیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ہم نے ان بارہ برسوں میں پیشرفت کی ہے، سیاسی میدان میں کچھ پوزیشن حاصل کی ہے۔ عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رہبری کی برکت اور اس قوم کی پامردی سے بہت سے کام انجام پائے ہیں اور آج ہم گذشتہ برسوں کی نسبت زیادہ قوی اور طاقتور ہوئے ہیں، ہماری عزت بڑھی ہے، دنیا کی اقوام نے اس قوم کی طاقت اور عظمت کو سمجھ لیا ہے اور اس کو قبول کیا ہے اور ہم نے دشمن کو بہت حد تک مایوس کر دیا ہے لیکن خطرات ختم نہیں ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ آج ہمارے ملک کا مسئلہ، کسی چیز کا کم یا زیادہ ہونا ہے۔ انقلاب، اسلامی نظام اور خود اسلام کو لاحق خطرہ، مسئلہ ہے۔ آج مسئلہ یہ ہے کہ یہ قوم امریکا کی توسیع پسندی اور خودسری کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ قوم ہے جو بولتی ہے اور بے حیا مستکبر دشمنوں کی پالیسیوں کی حقیقت کھولتی ہے۔ اس لئے اس قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔
ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتے اور دشمنان اسلام کی جارحیتوں اور اسلامی دنیا کی مصیبتوں پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ یہ قوم اسلام کی فوج ہے۔ اس قوم نے اسلام کے لئے انقلاب کیا، دشمنان اسلام کو اس مملکت سے نکال باہر کیا اور امریکا کے پیر کاٹ دیئے۔ ہم نے اسلام سے منہ نہیں موڑا ہے۔ اسلام ہمارا وجود اور ہمارے لئے سب کچھ ہے۔ دشمن اس سے برہم ہے اور ہمیں دھمکی دیتا ہے۔
آج آپ دیکھیں کہ معمولی ترین مسئلہ بھی جو اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور ہماری خدمتگزار حکومت کے خلاف دنیا میں ہنگامہ کھڑا کرنے کا بہانہ بن سکتا ہے، سامراج اپنے پروپیگنڈہ ایجنٹوں کے ذریعے اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور ہنگامہ آرائی کرتا ہے۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اس قوم میں تفرقہ ڈالیں، انتشار پھیلائیں اور یہ اتحاد ختم کر دیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اس قوم کو اسلام اور اسلامی اقدار سے دور کر دیں اور روز مرہ کے مسائل میں الجھا دیں ۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ اسلام اور علاقے کی مسلم اقوام سے یہ عظیم سہارا سلب کر لیں اور مزاحمت کے ان ستونوں کو منہدم کر دیں۔ بارہ سال سے امریکا اور سامراج، اس قوم کی وجہ سے خون دل پی رہا ہے اور انتقام لینا چاہتا ہے۔ ہوشیار رہیں۔
فلسطین کے بارے میں ہمارا نظریہ واضح اور روشن ہے۔ ہم اسرائیلی حکومت کے خاتمے کو مسئلہ فلسطین کی راہ حل سمجھتے ہیں۔ یہ نہ کہیں کہ نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہے۔ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے آگے بڑھنے میں جتنے بھی بڑے بڑے پہاڑ حائل ہوں ان سب کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ چالیس سال گزر گئے ہیں اور اگر مزید چالیس سال گزر جائیں تو بھی سرانجام اسرائیلی حکومت ختم ہونے والی ہے اور اس کو ختم ہونا ہے۔ آج سے کچھ دنوں قبل تک کوئی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ مشرقی سپر طاقت اس طرح ختم ہو سکتی ہے۔ اگر دو سال پہلے کوئی کہتا تھا کہ مشرقی سپر طاقت ختم ہو جائے گی تو کچھ لوگ فلسفیانہ انداز کہتے تھے کہ آپ سادہ لوح ہیں۔ جب امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے گورباچف کو خط لکھا کہ اب مارکسزم کو عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا تو کچھ لوگوں نے مذاق اڑایا۔ دو سال یا تین سال نہیں گزرے تھے کہ یہ پیشین گوئی صحیح ثابت ہو گئی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ سب کچھ دگرگوں ہو گیا۔ کیوں نہیں ہوگا؟
امریکا کی سامراجی طاقت بھی ختم ہوگی۔ وہ بھی نابود ہوگا۔ یہ جہنمی طاقت باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اسرائیل بھی باقی نہیں رہے گا۔ یہ اسلامی جمہوری نظام، اس کی قوم اور اس کی حکومت کا کہنا ہے اور یہی ہوگا۔ یہ آپ قوم والوں اور دیگر مسلم اقوام کی ہوشیاری سے عملی ہوگا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ کوشش کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
آپ جنگی قید سے رہا ہونے والوں کو اس سخت تجربے کے پیش نظر جس سے آپ گزرے ہیں اور اب الحمد للہ اس قوم کی آغوش میں واپس آئے ہیں، آپ میں سے ہر ایک کو ستارے کی مانند چمکنا اور اسلامی اقدار سے وفاداری، نیز راہ انقلاب پر گامزن رہنے پر اصرار اور سامراجی اہداف کی پردہ کشائی کا مظہر اور مثالی نمونہ عمل ہونا چاہئے۔
خداوند عالم سے ہماری دعا ہے کہ مسلم اقوام کو بیدار کرے، انہیں طاقت، قوت اور شجاعت عطا کرے، اسلامی ملکوں کی حکومتوں اور حکام کو ان کے عوام سے نزدیک کرے اور انہیں بد خواہوں کے شر اور دشمن کی سازشوں میں پھنسنے سے محفوظ رکھے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1- انور سادات