امام خامنہ ای نے 24 اپریل 2024 کو اپنی تقریر میں مغرب کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پر پابندیاں عائد کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا تھا: "ان پابندیوں کا مقصد کیا ہے؟ وہ کچھ اہداف بیان کرتے ہیں لیکن جھوٹ بولتے ہیں، اہداف وہ نہيں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ جوہری توانائی کی بات کرتے ہیں۔ جوہری اسلحے کی بات کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، مسئلہ یہ سب نہیں ہے۔ ہم ایران پر اس لئے پابندی لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے! دہشت گرد کون ہیں؟ غزہ کے عوام!"
ہم برسوں سے امریکا اور یورپ کی سخت پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ پابندیوں کا مقصد کیا ہے؟ جھوٹ بولتے ہیں کہ ایٹمی اسلحے اور انسانی حقوق کی خاطر لگائی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ایران پر پابندی لگاتے ہیں دہشت گردی کی حمایت کی خاطر۔ ان کی نگاہ میں دہشت گردی کیا ہے؟ غزہ کے عوام۔
امام خامنہ ای
آج امریکا اور مغرب میں شاید ہی کوئي بیدار ضمیر انسان ہوگا جو حالیہ ایک صدی کے سب سے بھیانک جرائم میں سے ایک کے بارے میں خاموش اور لاتعلق ہو۔ اس جرم کے سبب غزہ میں اب تک بتیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار کے بقول یہ روانڈا میں نسل کشی کے بعد سے دنیا کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔(1) کوئي صیہونی حکومت کے سفارتخانے کے سامنے خودسوزی کر کے اس نسل کشی میں اپنے ملک کی شرکت پر اعتراض کرتا ہے(2) کوئي امریکی وزارت خارجہ کے اہم عہدے سے استعفیٰ دے کر(3) تو کوئي واشنگٹن، نیویارک اور سان فرانسسکو کی سڑکوں پر ہفتوں جنگ مخالف مظاہرے کر کے۔
کچھ لوگ اللہ کے احکام کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ امریکا، اسلامی انقلاب کو ماننے کے لیے کیوں تیار نہیں ہے؟ اس لیے کہ اس کے مفادات خطرے میں پڑ جائيں گے۔
امام خامنہ ای
مغربی تمدن یہ ہے۔ امریکا اور مغرب کی غیر انسانی پالیسیوں کی شرمناک صورتحال اس حد کو پہنچ گئي ہے کہ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ امریکی فضائيہ کا ایک افسر خودسوزی کر لیتا ہے۔ یعنی اس کلچر کے پروردہ نوجوان کے لیے بھی یہ بات بہت بھاری ہے، اس کے ضمیر کو بھی چوٹ پہنچتی ہے۔ اتفاق سے کسی ایک شخص کا ضمیر جاگ گيا اور اس نے خود سوزی کر لی۔ مغربی کلچر نے اپنا تعارف کرا دیا، اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دی، اپنی پول کھول دی کہ وہ کتنا بدعنوان ہے، کتنا منحرف ہے، کتنا ظالم ہے۔
امام خامنہ ای
عالم اسلام کی سرحد آج غزہ میں ہے۔ آج دنیائے اسلام کی نبض غزہ میں دھڑک رہی ہے۔ غزہ کے لوگ دنیائے کفر، طاغوت کی دنیا، سامراج کی دنیا، امریکا کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں۔
امام خامنہ ای
امریکا بڑی بے شرمی سے بمباری رکوانے اور جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے، پوری بے شرمی سے۔ ان میں کوئي فرق نہیں ہے، یہ سب ایک ہیں۔
امام خامنہ ای
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد کے قضیے میں امریکا مجرموں کا یقینی شریک کار ہے۔ ان جرائم میں امریکا کے ہاتھ کہنیوں تک مظلوموں، بچوں، بیماروں اور عورتوں کے خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ امریکا ہی ہے جو ایک الگ انداز سے مینیج کر رہا ہے... اگر امریکا کی حمایت اور اسلحہ جاتی مدد نہ ہوتی تو بد عنوان، جعلی اور جھوٹی صیہونی حکومت پہلے ہفتے میں ہی ختم ہو گئی ہوتی، سرنگوں ہو گئی ہوتی۔
امام خامنہ ای
یہ امریکا ہی ہے جو ہیروشیما سے ویتنام تک، عراق و افغانستان تک اور آج غزہ میں ماں باپ کے دلوں کو بے قصور بچوں اور نوجوانوں کا داغ دے رہا ہے۔
امام خامنہ ای
امریکا کے اندر دو تین سال پہلے الیکشن کے مسئلے پر دو الگ الگ دھڑے پیدا ہو گئے تھے، یہ دو دھڑے پوری شدت سے اب بھی باقی ہیں، یہ کمزوری ہی تو ہے!
امام خامنہ ای
عام طور پر طاغوتی اور ظالم ملکوں میں کوئي بڑا عہدہ مل جانے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان ملکوں میں غیر سفید فاموں کا اہم عہدوں پر آنا، ان کی پالیسیوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے؟
امریکا کی چال یہ ہے کہ خود ہمارے ملک کے اندر ایسا کچھ کرے کہ ہم اس راستے پر، جس پر ہم نے چلنا شروع کیا ہے، چل نہ سکیں۔ ہمارے خلاف یہ اس کی داخلی سازش ہے جس پر ان لوگوں کے ذریعے عمل کیا جا رہا ہے جو ملک میں موجود ہیں اور ان کے آلہ کار ہیں۔ سازش یہ ہے کہ ایران کو ملک کے باہر ایسا ظاہر کیا جائے کہ نہ تو وہاں کی حکومت، ملک چلا سکتی ہے اور نہ ہی وہاں کی قوم ایسی ہے جو آزادی کے لائق ہو۔ یہ شیطان ہر جگہ ہنگامہ مچا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہر جگہ، چاہے یونیورسٹی ہو، چاہے صوبے اور کاؤنٹیاں ہوں، چاہے عدالتیں ہو، چاہے فورسز کے مراکز ہوں، پولیس کے مراکز، ہر جگہ ایک سازش کے ذریعے ہنگامہ مچانا چاہتے ہیں تاکہ یہ حکومت، مضبوطی سے قائم نہ ہو سکے۔ امریکا کو اسلام سے چوٹ پہنچی ہے اور وہ اسلام سے خوفزدہ ہے۔ اس نے ان جوانوں سے چوٹ کھائي ہے جنھوں نے قیام کیا، جان دی، قربانی دی۔ اسی لیے وہ تفرقہ پھیلا رہا ہے کہ وحدت اور اتحاد کے ذریعے جس قوم نے اپنے مقاصد کو اس حد تک حاصل کر لیا ہے، وہ آگے نہ بڑھنے پائے، اسے راستے میں ہی مفلوج کر دے۔
امام خمینی
7/1/1980
انقلاب کی سرکوبی اور انقلاب کو شکست دینا، جو ایک سامراجی منصوبہ تھا، اس خطے میں شکست کھا چکا ہے اور اس کے برخلاف انقلاب پر حملہ کرنے والے، امریکا جیسی بڑی اور طاقتور حکومت تک روز بروز شکست اور ہزیمت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہم خطے میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی واضح علامتیں اور نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اور ہمارے تجزیہ نگاروں کے لیے اہم نکات ہیں جن پر واقعی بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی روحانیت کے سہارے کھڑی ہونے والی عوامی فورس یا منہ زوری اور دھونس دھمکی کے سہارے ٹکی ہوئی مادی طاقت کے درمیان ٹکراؤ کی بڑی بحث جس پر سماجیات، اقوام کی نفسیات اور سماجی نفسیات کی بحثوں میں توجہ دی جانی چاہیے ... اس ملک اور اس قوم نے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور مادی و ابلاغیاتی دولت سے مالامال طاقتور ملکوں کی سازشوں کو اہم ترین میدانوں میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے اور انھیں شکست دی ہے۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
ملک بھر میں انتقام کا جو مطالبہ عوام سے سنا گیا، یہ آواز در حقیقت ان میزائلوں کا ایندھن بنی جنہوں نے امریکی چھاونی کو تہہ و بالا کر دیا۔ یہ اس کی حیثیت پر چوٹ تھی، امریکا کی ہیبت پر چوٹ تھی، اس چوٹ کی کسی بھی چیز سے بھرپائی نہیں کی جا سکتی۔
یہ دن یوم اللہ ہے۔
امام خامنہ ای
17 جنوری 2020
جب تیرہ آبان (مطابق چار نومبر 1979) کا واقعہ ہوا تو ہم ایران میں نہیں تھے۔ میں اور ہاشمی (رفسنجانی) صاحب مکے میں تھے، حج کے ایام تھے اور مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم مکے میں چھت پر بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے اور سونا چاہ رہے تھے۔ ہم ریڈیو سن رہے تھے، ایران کے ریڈیو کے بارہ بجے کے خبرنامے میں بتایا گيا کہ امام خمینی کے پیروکار مسلمان طلباء نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہمیں یہ بات بہت اہم لگي، البتہ تھوڑی تشویش بھی ہوئي کہ یہ لوگ کون ہیں؟ جن طلباء نے یہ کام کیا ہے وہ کس دھڑے کے ہیں، کس گروہ کے ہیں؟ کیونکہ اس بات کا بھی امکان تھا کہ بائیں بازو کے دھڑے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کچھ اقدامات کریں اور شاید کچھ دلچسپ اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائيں۔ ہمیں سخت تشویش ہو رہی تھی لیکن بارہ بجے کے خبرنامے میں بتایا گيا کہ یہ کام امام خمینی کے پیروکار مسلمان طلباء نے کیا ہے۔
جیسے ہی ہم نے مسلمان اور امام خمینی کے پیروکار طلباء کا نام سنا، ہمیں اطمینان ہو گيا۔ یعنی ہم سمجھ گئے کہ نہیں، یہ کام بائیں بازو والوں، منافقوں اور موقع سے فائدہ اٹھانے والوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اپنے ہی مسلمان طلباء ہیں جنھوں نے یہ کام کیا ہے۔ اس کے بعد ہم وطن واپس لوٹے۔ جب ہم ایران لوٹے تو ابتدائي دنوں کے ہنگاموں کا سامنا ہوا۔ بہت زیادہ کھینچ تان تھیں، ایک طرف عبوری حکومت سخت ناراض تھی کہ یہ کیا صورتحال ہے؟ یہ کیسا واقعہ ہے؟ دوسری طرف عوام میں زبردست جوش و ولولہ تھا جس کی وجہ سے آخرکار عبوری حکومت کو استعفی دینا پڑا۔
ہم اس معاملے کو ان لوگوں کی نظر سے دیکھ رہے تھے جو صحیح معنی میں امریکا سے مقابلے پر یقین رکھتے ہیں۔ انقلابی کونسل میں بھی ہم طلباء کی اس کارروائي کا دفاع کر رہے تھے۔
میں نے اسی وقت جاسوسی کے اڈے کے اندر ایک تقریر بھی کی، ان لوگوں نے دس بارہ دن، وہاں مجلس بھی منعقد کی کیونکہ محرم کے ایام آ گئے تھے۔ تہران کی تمام انجمنیں، ماتم کرتے ہوئے وہاں جاتی تھیں۔ ہر رات وہاں اکٹھا ہوتے تھے اور مجلس و ماتم کا انعقاد ہوتا تھا۔ ہر رات ایک ذاکر وہاں جاتا تھا۔ ایک رات میں بھی وہاں گيا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ تقریر بڑی زبردست اور پرجوش ہوئي۔
جمہوری اسلامی پارٹی کی طلباء تنظیم سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے انٹرویو کا ایک حصہ (29/10/1984)