اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبہ اردبیل کے شہدا پر قومی سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے 13 اگست 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں اپنے خطاب میں اردبیل کے علاقے کی خصوصیات اور شہید و شہادت کے موضوع پر گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر 20 اگست 2023 کو کانفرنس کی افتتاحیہ تقریب میں جاری کی گئی۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
اسلام نے مرد کو ’’قوّام‘‘ (نگراں) اور عورت کو ’’ریحان‘‘ (خوشبو) قرار دیا ہے، یہ نہ تو عورت کی شان میں گستاخی ہے نہ ہی مرد کی شان میں، یہ نہ تو عورت کو اس کے حق سے محروم کرنا ہے نہ مرد کا حق پامال کرنا ہے۔
امام خامنہ ای
سن ۱۹۵۳۔۵۴ عیسوی سے اسلامی انقلاب کی کامیابی تک (یعنی ۱۹۷۹تک) برطانیہ اور امریکہ ایران میں تیل کے کنووں بلکہ در حقیقت ایرانی تیل کے ذخیروں پر (پھن کاڑھے) بیٹھے تھے اور جس حد تک بھی اُن سے ممکن تھا تیل نکالتے اور لے جاتے رہے، ملت ایران کا ان کی طرف سے کس طرح دل صاف ہوسکتا ہے؟ پہلوی حکومت برطانیہ اور امریکہ کی زرخرید غلام تھی اور محمد رضا (پہلوی) ایران میں واقعا امریکہ کے ایک ایجنٹ کی طرح کام کررہا تھا ، ایک وابستہ حکومت کا سربراہ امریکی ایجنٹ ک طور پر کہ جس کا اس کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں تھا کہ جب بھی اس سے کہیں کہ فلاں کو وزیر اعظم بنادو اور فلاں کو وزارت عظمی سے ہٹادو تو وہ اس پر عمل کرتا رہے؛ وہ لوگ جو کام بھی چاہتے تھے یہ حکومت کرتی رہتی تھی، تہران میں امریکہ اور برطانیہ کے سفراء اس مملکت کے بنیادی خطوط اور راہوں کو متعین کرتے تھے، اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ امریکیوں کو کس بات کا غصہ ہے ۔۔۔ در اصل، اسلامی انقلاب نے سب سے پہلا کام جو کیا یہ تھا کہ ایران میں برطانیہ اور امریکہ کے امتیازات (یعنی خصوصی مراعات) کا خاتمہ کردیا۔
امام خامنہ ای
03 / فروری / 1995
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے فلوٹیلا 86 کے کرہ ارض کا چکر لگا کر وطن واپس آنے کے مشن کو عظیم کارنامہ قرار دیا۔ 6 اگست 2023 کے اس خطاب میں آپ نے اس بحری بیڑے کے عملے کے افراد اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ ایران کی جہازرانی کی تاریخ میں یہ بے مثال کامیابی ہے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کے فلوٹیلا 86 کے کرہ ارض کا چکر لگا کر وطن واپس آنے کے مشن کو عظیم کارنامہ قرار دیا۔ 6 اگست 2023 کے اس خطاب میں آپ نے اس بحری بیڑے کے عملے کے افراد اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات میں فرمایا کہ ایران کی جہازرانی کی تاریخ میں یہ بے مثال کامیابی ہے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
اسلامی نظام میں عہدہ ؤ منصب پر فائز ہونے اور امور کی ذمہ داری سنبھالنے کا مسئلہ صرف عوام سے روبرو ہونا نہیں ہے، اگر خدا کے ساتھ رابطہ نہ ہو تو عوام کے لئے کام کرنا اور ان کے لئے کوئی خدمت انجام دینا یعنی وہی اصل ذمہ داری جو سنبھالی ہے اس میں رخنہ پڑ جائے گا اس فریضے اور ذمہ داری کی پشت پناہ اور سہارا وہی خدا سے رابطہ ہے، لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کے نام اپنے خط میں فرمایا ہے، اپنے اوقات جو مختلف کاموں کے لئے آپ معین کریں اور لگائیں، بہترین وقت اپنے اور اپنے خدا کے درمیان خلوت کے لئے مقرر کریں یعنی اپنے خدا کے ساتھ رابطے توبہ ؤ استغفار اور گریہ ؤ زاری کے اوقات تھکن اور اضمحلال کی حالت سے دوچار نہ ہوں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: اگرچہ جس وقت آپ حکومت اسلامی میں کسی عہدہ ؤ منصب پر فائز ہیں آپ کے تمام کام خدا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شرط یہ ہے کہ نیت میں اخلاص ہو، اور کوئی کام جوعوام کو تکلیف پہنچائے آپ انجام نہ دیں،لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کی وہ تمام کوششیں اور محنتیں اپنے اور اپنے خدا کے ساتھ خلوت کے لئے قرار دیں، اسلامی نظام میں اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے مکتب میں یہی ایک صاحب منصب (قوم کے خدمتکار) کا چہرہ ہے، (یعنی مملکت اسلامی کے ذمہ داران کو ایسا ہی ہونا چاہئے)
امام خامنہ ای
15 / دسمبر / 2000
ایک قوم چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو، کتنی ہی دولتمند کیوں نہ ہو، اگر اس کے افراد کے درمیان اختلافات نے اپنی جڑیں پھیلالیں اور تفرقے کی آگ بھڑک اٹھی ناکام و بدبخت اور بے بس و لاچار ہوکر رہ جائے گی، اختلافات، کہ جس کا ذکر ہوا ہے، اس کا مطلب طریقہ ؤ روش کا اختلاف نہیں ہے اگر خط و راہ ، رخ اور سمت یا مذاق و طبیعت کا فرق ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اختلافات کا مطلب سیاسی مقابلہ آرائیوں تک پہنچ جانا جو فضا اور ماحول کو خراب اور متشنج کردیتی ہیں ... یہ قوم وہ قوم ہے کہ جس نے ’’اتحاد‘‘ سے ایک انقلاب برپا کردیا ’’متحد ‘‘ ہوکر، تھوپی گئی جنگ کی مانند عظیم مصیبت کو سر کرلیا، اتحاد و یکجہتی سے کام لیکر اب تک بڑی طاقتوں کی دشمنی کے خلاف خالص طور پر امریکی حکومت کی دشمنیوں کے مقابلے میں، جو اس قوم، اس حکومت اور اس نظام کا شدیدترین مخالف ہے، ثابت و استوار اپنی جگہ قائم ہے، آئندہ بھی اپنا اتحاد باقی رکھئے اور دشمن کو اجازت نہ دیجئے کہ وہ منحرف قسم کے نعرے بلند کرکے، جھوٹی دلکشیاں ایجاد کرکے یا مصنوعی چہرے سامنے لاکر آپ کے درمیان آپس میں دشمنی پیدا اور جھگڑے کرائے۔
امام خامنہ ای
25 / دسمبر / 1998
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے حجت الاسلام و المسلمین جناب الحاج شیخ حسن صانعی کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے اور انھیں امام خمینی کے ثابت قدم اور سب سے پرانے ساتھیوں میں سے ایک بتایا ہے۔ انھوں نے عقلمندی اور خیر خواہی کو دکھاوے سے دور رہنے والے مرحوم کی دو نمایاں خصوصیات بتایا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام میں سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کیے جانے کو انتہائي تلخ، سازش آمیز اور خطرناک واقعہ بتایا ہے اور زور دے کر کہا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو شدید ترین سزا دیے جانے پر تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے اور سویڈن کی حکومت کو چاہیے کہ یہ مجرمانہ فعل انجام دینے والے کو اسلامی ملکوں کی عدالتوں کے حوالے کرے۔
امام (خمینی) رحمت اللہ علیہ کے موقف کو بالکل صاف اور واضح انداز میں جیسا کہ خود انھوں نے کہا ہے اور جیسا کہ خود انھوں نے لکھا ہے بیان کیا جانا چاہئے، یہی امام (خمینی) کی راہ اور امام (خمینی) کے نشان قدم کا معیار اور انقلاب کا صراط مستقیم ہے، ان کی اور ان کی خوشامد کے لئے امام (خمینی) کی بعض حقیقی موقفوں کا انکار یا چھپانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے، بعض لوگ اس طرح کی فکر رکھتے ہیں اور یہ فکر غلط ہے کہ اس طرح امام (خمینی) کے پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہوجائے گی، وہ لوگ جو امام (خمینی) کے مخالف ہیں وہ لوگ بھی امام کے دوست بن جائیں گے، ہم کو چاہئے کہ امام کے بعض صاف و صریح موقف مخفی رکھیں یا ان کو بیان نہ کریں اور کمرنگ یا ہلکا کردیں، نہیں! امام خمینی (رح) کی پہچان ، ان کی شخصیت ان ہی موقف کے ساتھ ہے جیسا کہ خود انھوں نے اپنے صاف و صریح بیانات اور روشن و آشکار الفاظ و کلمات میں ان کو بیان فرمایا ہے۔ یہی باتیں تھیں کہ جس نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا، امام خمینی کو صاف و صریح طور پر بیچ میدان میں لانا اور استکباری قوتوں کے خلاف ان کے موقف کو، جمود کے خلاف ان کے موقفوں کو، مغرب کی لبرل جمہوریت کے خلاف ان کے موقفوں کو اور منافقین یا دوہرے چہرے والوں کے خلاف ان کے موقفوں کو صاف و صریح بیان کرنا چاہئے، وہ لوگ جو اس عظیم شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں انھوں نے ان پالیسیوں کو دیکھا اور ان کو قبول کیا ہے۔
امام خامنہ ای
04 / جون / 2010
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے دینی مدارس اور 'حوزہ علمیہ' (اعلی دینی تعلیمی و تحقیقی مراکز) سے تعلق رکھنے والے علما، طلبا اور مبلغین سے خطاب کیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں تبلیغ کی موجودہ صورت حال، ضرورتوں، تقاضوں اور شرایط پر روشنی ڈالی۔ آپ نے مبلغین کو اہم ہدایات دیں۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
وہ لوگ جو خود اسلام کی پہچان نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی تہہ دل سے اس طرح کا اسلام چاہتے تھے، مغرب کی طاغوتی حکومتوں کے خلاف پیٹھ دکھانے یا انہیں نظرانداز کرنے تک کی جراٴت نہیں رکھتے تھے، آج ادھر ادھر کہتے پھرتے ہیں کہ عوام کو 'ریفرنڈم' میں ’’اسلامیہ جمہوریہ‘‘ کی شناخت نہیں تھی! یہ لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیسے پہچان نہیں تھی؟ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ عوام اگر نہیں جانتے تھے تو کس طرح مسلط شدہ آٹھ سالہ جنگ کو قربانیاں دے کر آگے لے گئے؟ عوام خوب جانتے تھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں! اور آج بھی خوب جانتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں! یہ اقدار و معیارات جو معاشرے میں رائج ہیں اور اسلامی نظام کا ستون ہیں اولاً ان کو یکجا طور پر قبول کرلینا چاہئے کیونکہ اگر ان میں سے بعض کو قبول کرنا چاہیں اور بعض کو قبول نہ کریں تو یہ کام ناقص ہوگا ثانیاً یہ کہ خود انقلاب مثبت تغیر اور آگے بڑھتے رہنے کو کہتے ہیں۔ روز بروز غلط راہ و روش کی اصلاح ضروری ہے ، ہر روز ایک نیا قدم اٹھانا چاہئے تاکہ نتیجے تک پہنچ سکیں۔
امام خامنہ ای
12 / مئی / 2000
آپ نے یہ حدیث تو بارہا سنی ہے، البتہ انسان جب احادیث کو سنے تو ضروری ہے کہ اس کے رخ کو سمجھنے کی کوشش کرے، اسے علم ہونا چاہئے کہ اس کا رخ کیا ہے، کس چیز کی جانب رخ ہے۔ ہارون حج کے سفر پر جاتا ہے۔
جب وہ مدینے پہنچتا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم میں داخل ہوتا ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس کی خلافت کی بنیاد صحیح ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرکے کہتا ہے؛ "السلام علیک یابن عمّ" درود ہو آپ پر اے چچا زاد بھائی!
ظاہر ہے کہ چچیرے بھائی کی خلافت چچیرے بھائی کو ملے گی، دور کے رشتہ داروں کو تو نہیں ملے گی۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ بالکل واضح ہے۔ چچا زاد بھائی قریبی ہوتا ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ آپ جانتے ہیں یا نہیں کہ بنی عباس کا بھی ایک سلسلہ ہے بنی علی کی مانند۔ ہم کہتے ہیں کہ امام موسی ابن جعفر نے امام صادق سے حاصل کیا، انھوں نے امام باقر سے، انھوں نے امام سجاد سے، انھوں نے امام حسین سے، انھوں نے امام حسن سے اور انھوں نے علی ابن ابی طالب علیہم السلام سے اور انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے۔ بنی عباس نے بھی روایتوں کے لئے اپنا ایک سلسلہ تیار کر لیا تھا۔ کہتے تھے کہ منصور نے عبد اللہ سفاح ابو العباس سے حاصل کیا، اس نے اپنے بھائی ابراہیم امام سے، اس نے اپنے والد محمد سے اور اس نے اپنے والد علی سے اور اس نے اپنے والد عبد اللہ سے اور اس نے اپنے والد عباس سے اور عباس نے پیغمبر اکرم سے! انھوں نے اپنے لئے یہ سلسلہ تیار کر لیا تھا اور وہ خود کو امامت و خلافت کا حقدار ظاہر کرتے تھے۔
ہارون اسے ثابت کرنے کے لئے کہتا ہے؛ "السلام علیک یابن عمّ" امام موسی ابن جعفر حرم میں موجود ہیں۔ آپ نے جیسے ہی سنا کہ ہارون نے "السلام علیک یابن عمّ" کہا ہے آپ نے بلند آواز میں کہا؛ "السلام علیک یا اباہ"(بحارالانوار، علّامه محمّد باقر مجلسی، جلد 48، صفحہ 135 اور 136) سلام ہو آپ پر اے پدر! یعنی آپ نے فورا ہارون کو دنداں شکن جواب دیا کہ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ رسول کے چچازاد بھائی ہو لہذا خلافت تمہارا حق ہے تو میں رسول کا فرزند ہوں۔ اگر معیار یہ ہے کہ چچازاد بھائی کی حلافت قربت اور رشتہ داری کی وجہ سے چچازاد بھائی کو ملتی ہے تو پھر اپنے والد کی میراث یعنی خلافت و ولایت کا زیادہ حقدار میں ہوں۔ امام خامنہ ای،
کتاب ھمرزمان حسین
عدل و انصاف کی برقراری کے میدان میں امیرالمؤمنین کی حکومت مظلوم کی حمایت، ظالم سے مقابلے اور ہر حالت میں حق کی طرفداری اور پشتپناہی کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے، جس کی پیروی کرنا چاہئے، اس پر قدامت کی مہر بھی نہیں لگائی جاسکتی، دنیا کے مختلف علمی اور معاشرتی تمام حالات میں انسانوں کی سعادت و کامرانی کے لئے اس کو نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ اُس زمانے کے ادارہ جاتی طریقوں کی تقلید کریں اور کہیں یہ سب کچھ زمانے کے تغیرات کا حصہ ہیں، مثال کے طور پر روز بروز نئے نئے طریقے ایجاد ہوتے رہتے ہیں (بلکہ) ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی پالیسیاں جو تا ابد زندہ ہیں اُن کی پیروی کریں، مظلوم کی حمایت ہمیشہ باقی رہنے والی درخشاں اقدار میں ہے، ظالم کے ساتھ ہاتھ نہ ملانا زر و زور کے بندوں سے رشوت قبول نہ کرنا اور حق و حقیقت پر ڈٹے رہنا وہ معیارات ہیں جو دنیا میں کبھی بھی قدیم اور کہنہ نہیں ہوسکتے، مختلف حالات و کیفیات اور ماحول میں ہمیشہ یہ خصوصیات قدر و قیمت کے حامل رہے ہیں، ہم کو ان کی پیروی کرنا چاہئے، اصول یہ چیزیں ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں اصول پسند حکومت، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے جاوداں اقدار جو کبھی کہنہ نہیں ہوتے اس کے پیرو اور پابند رہیں۔
امام خامنہ ای
07 / دسمبر / 2001
عید قربان سے لیکر عید غدیر تک کا وقت در اصل ایک ایسا دورانیہ ہے جو امامت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: «و اذ ابتلى ابراهيم ربّه بكلمات فأتمّهنّ قال انّى جاعلك للنّاس اماما» (اور جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے کچھ کلمات کے ذریعے امتحان لیا اور انہوں نے اس آزمائش کو مکمل کیا تو ان سے کہا: میں تمہيں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں-بقرہ 124) ابراہیم کو خداوند عالم نے امامت کے منصب پر فائز کیا۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے سخت امتحان کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ اس کی ابتداء، عید الاضحی کے دن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ غدیر کا دن آن پہنچا کہ جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی امامت کا دن ہے۔ یہ بھی سخت امتحانات کے بعد ممکن ہوا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی پوری با برکت زندگی امتحانوں میں گزاری ہے اور ان سب امتحانوں میں کامیاب رہے ہيں۔ تیرہ یا پندرہ برس کی عمر سے، نبوت کی تصدیق سے لیکر، لیلۃ المبیت تک کہ جب آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور قربانی کے اس جذبے کی عملی شکل آپ نے پیغمبر اعظم کی ہجرت کے موقع پر پیش کی اور اس کے بعد بدر و احد و حنین و خیبر اور دیگر مواقع پر آپ نے بڑے بڑے مراحلے سر کئے۔ یہ عظيم عہدہ، انہی امتحانوں میں کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی اور عید غدیر کے درمیان ایک قسم کا رابطہ سا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عشرہ امامت کا نام دیتے ہيں اور یہ مناسب بھی ہے۔
امام خامنہ ای
25 نومبر 2009
مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ اسلامی آثار میں شیعہ کتابوں میں حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے انتظار کو انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے، اس فرج کا کیا مطلب ہے؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا۔ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو، کہیں کوئی گرہ پڑ گئی ہو، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ناخن تدبیر کے ذریعے الجھی ہوئی گرہ کھول دے۔ کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔
انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے۔ اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات دیں گے، انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے۔
امام خامنہ ای
17 / اگست / 2008
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتہ عدلیہ کے موقع پر اس ادارے کے سربراہ، ججوں، عہدیداروں اور کارکنان سے ملاقات میں اس ادارے کی ذمہ داریوں کے بارے میں گفتگو کی۔ 27 جون 2023 کو اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے کرپشن کے موضوع پر عدلیہ کی طرف سے خصوصی توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
طاغوتی نظام اور اُس سے قبل کی حکومتیں بھی ایران میں عوامی حکومتیں نہیں تھیں، عوام کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ایک شخص انگریزوں کی مدد سے (اقتدار میں) آگیا تھا، تہران میں فوجی بغاوت کردی تھی اور خود کو بادشاہ کا نام دے دیا تھا، بعد میں بھی جب وہ ایران سے جارہا تھا یعنی جب اس کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا اور ان کے کام کا نہیں رہ گیا تھا، اس نےاپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنا دیا، آخر یہ بیٹا کون ہے؟ اور کیا ہے؟ پھر عوام کس کام کے ہیں؟ اور ان کی رائے کا کیا ہوا؟ سرے سےاس کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس سے پہلے بھی قاجاری حکمراں تھے، ایک فاسق شخص مرتا تھا، دوسرا فاسق شخص اس کی جگہ لے لیتا تھا، عوام الناس حکومت کے تعین اور انتظام میں کوئی دخل نہیں رکھتے تھے، پوری طرح عضو معطل تھے، عوام ان کو پسند نہیں کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ حکومت ان کےاختیار میں ہو، حکومت ان کے ذریعے اقتدار میں آئے، ان کی رائے اس میں موثر ہے۔
امام خامنہ ای
12 / مئی /2000
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 25 جون 2023 کو بعض شہدا کے لواحقین سے ملاقات میں ملک کی حفاظت و پیشرفت میں شہدا کے کردار پر روشنی ڈالی اور شہیدوں کے لواحقین کے مقام و مرتبے کو بیان کیا۔
خطاب حسب ذیل ہے۔
کبھی کچھ مذاق اڑایا جانا اور توہین کیا جانا بڑے بڑے آدمیوں کو لاچار بنادیتا ہے اور اس طرح وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت کے ہمرنگ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بڑی طاقتیں اپنے ہاتھ ان کے دلوں پر رکھ دیتی ہیں، چھپ کر قہقہہ لگاتی ہیں کہ ان کا کام ہو گيا اور انھوں نے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹادیا۔ فلاں انقلابی تحریک کا اس قدر مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ صاف صاف لفظوں میں اپنے انقلابی نعروں اور اہداف و مقاصد سے دستبردار ہوجائے، ان میں شک کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ یہ وہ منزل ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ماننے والے ایک شیعہ کو آپ کی شجاعت سے سبق لینا چاہئے۔ "لاتستوحشوا فی طریق الھدی لقلۃ اھلہ" راہ ہدایت میں افراد کی کمی سے وحشت زدہ نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، دشمن منھ پھیر لے اور روگرداں ہوجائے تو تنہائی کا احساس نہ کیجئے، جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر دشمن کے مذاق اڑانے سے آپ کا ایمان کمزور نہ ہو کیونکہ وہ بڑا ہی قیمتی گوہر ہے، کبھی تمام نہ ہونے والے اس خزانے کو خود اپنے ملک کے اندر آپ نے کشف کیا ہے اور اسلام تک پہنچے ہیں، آزادی و خود مختاری حاصل کی ہے اور خود کو بیرونی قوتوں کے پنجوں سے آزاد کیا ہے۔
امام خامنہ ای
14 / ستمبر / 1984
وہ تمام چھوٹے بڑے ادارے جو دنیا میں مختلف عنوانوں سے پائے جاتے ہیں اور کمین میں بیٹھے ہیں کہ کسی گوشے میں ان ممالک میں کہ جن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کسی بھی سبب اچھے نہیں ہیں، کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو فورا بھونپو بجانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، آخر کیوں اپنے ہونٹ سیے، خاموش بیٹھے ہیں، بشریت کے دشمن خبیث صہیونیوں کی غاصب حکومت دسیوں افراد کو مار ڈالتی ہے اور سیکڑوں افراد کو مجروح کر دیتی ہے اور انسانی حقوق کے جو محافظ ادارے ہیں گلا گھونٹے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کہتے!! زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کہہ دیا جاتا ہے فلاں ادارے نے اس کی مذمت کی ہے؛ ’’مذمت کی ہے‘‘ کا کیا مطلب؟ یہ جملہ جو مذمت میں کہہ دیا فلسطینیوں کے کس کام کا ہے؟ یہ ادارے جو انسانی حقوق کی بحالی کے دعویدار ہیں اگر سچ کہہ رہے ہیں تو ان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا، پوری دنیا میں شور و ہنگامہ مچانا چاہئے تھا۔ یقینا ہماری باوقار ملت نے ہمیشہ اپنے موقف کا اعلان کیا ہے اور کوئی یہ نہ کہے کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟! ان مواقف (اور مخالفتوں) کا اعلان بہت اہم دباؤ ہے، جو غاصب حکومت پر پڑتا ہے، دنیا کے کسی بھی کونے سے یہ آواز کیوں نہ بلند ہوئی ہو غاصب دہل اٹھتا ہے۔
امام خامنہ ای
04 / مارچ / 1994
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے محکمہ ایٹمی صنعت کے اعلی عہدیداروں، سائنسدانوں اور ماہرین سے خطاب میں ایٹمی صنعت کے گوناگوں ثمرات و فوائد، ملک کے اندر اور عالمی سطح پر اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ 11 جون 2023 کو اپنے اس خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاہدے اور آئی اے ای اے سے تعاون کے سلسلے میں اہم نکات پر تاکید کی۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
(جناب) جابر نے (حدیث کا یہ حصہ) امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے ’’وَالزَّکاۃُ تزیدُ فی الرِّزقِ‘‘ مسئلہ بظاہر ہماری مادی نگاہ میں یہ ہے کہ جس وقت ہم زکات نکالتے ہیں، یعنی صدقہ کے طور پر ایک رقم الگ کرتے ہیں در اصل اپنی چیز میں کچھ کمی کرتے ہیں، لیکن مسئلے کا باطنی پہلو یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ زکات رزق میں اضافہ کرتی ہے اور یہ بھی اس معنی میں ہے کہ زکات نکالنے کا قدرتی اثر یہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال اس کا بدلا انسان کو بھلائی کی صورت میں دیتا ہے اور رزق کو بڑھا دیتا ہے، اس سے زیادہ وسیع نگاہ سے جب انسان دیکھتا ہے، ذرا وسیع معنی میں جس وقت معاشرے میں زکات نکالنے کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں تو اقتصاد میں رونق آ جاتی ہے اور جب اقتصاد میں رونق پیدا ہو جائے عوام کے تمام طبقے، ہر طرح کے لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں عبادت کا اصل مضمون یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد فرمایا ہے کہ روزہ بھی اور حج بھی سکون دل کا سرچشمہ ہے، دل کا سکون خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، ’’سکینہ‘‘ یعنی دل کا سکون و آرام، یہ آرام جاں وہی چیز ہے جس کے اولیائے خدا حامل تھے اور بے شمار سختیوں اور مشکلات میں ان کی روح و جان کو آرام و سکون حاصل رہتا ہے۔
امام خامنہ ای
03 / فروری/ 2019
اسلامی انقلاب کے بانی اور اسلامی جمہوریہ کے معمار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چونتیسویں برسی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ 4 جون 2023 کو اس مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کے روضے میں عقیدتمندوں کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کو پوری تاریخ ایران کی سب سے عظیم شخصیت قرار دیا اور آپ کے ذریعے ایران، عالم اسلام اور دنیا کی سطح پر پیدا کی جانے والی تبدیلیوں کی تشریح کی۔ آپ نے ایمان اور امید کو امام خمینی کی سب سے بڑی طاقت قرار دیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
اعلی ترین شکل اور کامل ترین طریقہ زندگی پر گامزن وہ انسان ہے جو خدا کی راہ پر چل سکے اور اپنے خدا کو خود سے راضی رکھ سکے، خواہشیں اس کو اپنا اسیر نہ بنا سکیں، مادی انسان جو خواہشات، غضب نفسانی، ہوا ؤ ہوس اور اپنے جذبات و احساسات کا قیدی بن جائے ایک حقیر انسان ہے، چاہے وہ ظاہر میں کتنا ہی بڑا نظر آتا ہو اور صاحب مقام و منصب ہو۔ استغفار آپ کو اس حقارت سے نجات دلا سکتا ہے، استغفار آپ کے دل کی سیاپہوں کو ہٹا کر وہ نورانیت جو اللہ نے آپ کو عطا کی تھی دل کو صاف و منور کر دیتا ہے، ہر انسان نورانی ہے حتی وہ انسان جو خدا سے کوئی رشتہ اور آشنائی نہیں رکھتا، اپنی حقیقت اور جوہر میں نورانیت رکھتا ہے، البتہ معرفت نہ ہونے کے سبب گناہ اور خواہشات نے صفحہ دل کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ استغفار اس زنگ کو صاف کر دیتا ہے اور پھر سے نورانیت بخش دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
31/جنوری/1997
فلسطین کا مسئلہ اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے ایک بنیادی مسئلہ اور ایک فریضہ ہے، تمام شیعہ، سنی علماء اور زمانہ ماضی کے قدماء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اگر کوئی اسلامی علاقہ اسلام دشمنوں کے تصرف (اور غاصبانہ قبضے) میں آجائے تو اس منزل میں سبھی کا فریضہ ہے کہ دفاع کریں کہ غاصبانہ قبضے میں جانے والی سرزمینوں کو واپس لے سکیں، ہر کوئی جس سے جو بھی بن پڑے ، جیسے بھی ممکن ہو دفاع کرے، فلسطین کے مسئلے میں ہر کسی کا فریضہ ہے، اسلامی سرزمین ہونے کے لحاظ سے فریضہ عائد ہوتا ہے، زمین اسلامی ہے جو اسلام دشمنوں کے قبضے میں ہے اور وہ واپس ہونا چاہئے، دوسرے یہ کہ اسّی لاکھ مسلمان جن میں کچھ آوارہ وطن ہیں اور کچھ مقبوضہ سرزمینوں میں آوارہ وطنوں سے ابتر زندگی گزار رہے ہیں، ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کا نام فراموشی کی نذر ہو جائے، لیکن آپ ایسا نہیں ہونے دیں گے، یوم قدس ایسا نہیں ہونے دے گا، امام خمینی نے اپنی فراست و تدبیر سے اس بات کی اجازت نہیں دی، یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔
امام خامنہ ای
31/دسمبر/1999
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 24 مئی 2023 کو ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مقننہ کی اہمیت، فرائض، طریقہ کار سمیت مختلف موضوعات پر گفتگو کی۔ آپ نے قانون سازی سے متعلق کلیدی نکات پر روشنی ڈالی اور چند اہم سفارشات کیں۔(1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے۔
اس مذہبی جذبے نے اس انقلاب میں وہ کام کیا ہے کہ انقلاب کے دوران کمترین نقصان پیش آیا۔ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کے مادی انقلابات خاص طور پر انقلاب اکتوبر کا مطالعہ کیا ہو اس چیز کو بہ خوبی سمجھ سکیں گے۔ انقلاب کامیاب ہو جانے کے بعد بھی جو حکومت انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آئی ایک اسلامی حکومت تھی، ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ دائیں بازو اور بائیں بازو کی طرف نہیں مڑی بلکہ دین کی سیدھی راہ پر گامزن رہی اور اسلامی جمہوریہ بھی جب تشکیل پا گئی تو وقت گزرنے کے ساتھ اس نے دین کی راہ کو نہیں چھوڑا بلکہ آئین کی تدوین، حکام کے انتخابات اور نظام کے کارگزاروں مثلا پارلمانی اراکین اور دیگر نمائندے عوام کے ذریعے اسلامی معیارات پر کئے گئے انتخاب کی بنیاد پر چنے گئے۔ دین انقلاب کی خصوصیت تھی اور ہے، یہ خصوصیت کسی بھی انقلاب میں نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دل میں اسلام کے لئے دھڑکنیں پائی جاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام پر گامزن ہے، اور کلمۂ اسلام کی سربلندی کی فکر میں ہے۔
امام خامنہ ای
09/ فروری / 1990
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک فرمان جاری کرکے جناب علی شمخانی کو تشخیص مصلحت نظام کونسل کا رکن اور رہبر انقلاب کا سیاسی مشیر منصوب کیا۔ فرمان حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آئین کے آرٹیکل 176 کے تحت ایک فرمان جاری کرکے جناب علی اکبر احمدیان کو قومی سلامتی کی سپریم کونسل میں اپنا نمائندہ منصوب کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا فرمان حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایرانی بحریہ کے فلوٹیلا86 کی بڑے مشن کی انجام دہی کے بعد کامیاب واپسی پر، اس فلوٹیلا کے بہادر کارکنوں کو مبارکباد پیش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام:
عازمین حج کی سرزمین وحی کے لئے روانگی سے قبل ادارہ حج کے عہدیداروں، کارکنوں اور بعض عازمین حج نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ 17 مئی 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے حج میں مضمر عمیق معانی و تعلیمات اور منفعتوں پر روشنی ڈالی اور ذمہ داریوں کے سلسلے میں ہدایات دیں۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
آج ہم علاقوں میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی نمایاں علامتیں اور نشانیاں دیکھ سکتے ہیں، ایک ملت ہماری ملت کی طرح جس کے پاس نہ ایٹم بم ہیں نہ علمی لحاظ سے اس کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ سو سال کی تاریخ میں علمی قافلوں کی طرح اگلی صفوں میں چلنے والوں کے قدم سے قدم ملاکر چل سکے اور بہت سے مواقع پر پسماندگی کا شکار رہی ہے، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی سرمایہ دار ملکوں تک نہیں پہنچتی لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ ملک؛ یہ قوم بڑی طاقتوں پر مشتمل ان ملکوں کی مجموعی سازشوں کو جو اسلحوں ٹکنالوجیوں، مادی دولت و ثروت اور ذرائع ابلاغ کے مالک ہیں اہم ترین میدانوں میں پسپائی پر مجبور کرنے اور ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ یہ نکتہ غور و فکر اور توجہ کا طالب ہے، اس مسئلے کا سیاسی اور معاشرتی علوم کے دانشوروں کو جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا چاہئے؛ دیکھیں ان معنویتوں کے کردار کس طرح جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ چیز آج ایمان میں نمایاں ہے، لہذا اس پر اٹھنے والی نگاہ عبرت انگیز و سبق آموز ہے، یہ منظر امریکہ کی استکباری قوت کی شکست و ریخت کا منظر ہے۔
امام خامنہ ای
14/ ستمبر /2007
امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ 'لیس منی من استخف الصلاۃ' جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ 'استخفاف' کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔ اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے؟!
امام خامنہ ای
19 نومبر 2008
امام صادق علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس بیش قیمتی ہیرا ہو تو ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ پتھر ہے، مگر چونکہ تمہیں علم ہے کہ یہ ہیرا ہے تم دنیا والوں کی بات کا اعتبار نہیں کروگے۔ اسی طرح اگر تمہارے ہاتھ میں پتھر ہے اور ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ قیمتی ہیرا ہے تو تم دنیا کی بات نہیں سنوگے کیونکہ تمہیں علم ہے کہ وہ پتھر ہے۔
جب بیش قیمتی جواہرات آپ کے پاس ہیں تو ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ تو بے وقعت شئے ہے، آپ کا علم یہی کہے گا کہ نہیں یہ بہت قیمتی شئے ہے۔ ہماری قوم کو علم ہے، وہ سمجھ چکی ہے، اسی لئے ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
امام خامنہ ای
13 فروری 2004
آئی آر آئی بی نامہ نگار: سلام عرض ہے۔ مزاج گرامی
آپ اقتصادی مسائل کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک عملی اقدام کے طور پر آپ گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی تہران بک فیئر میں تشریف لائے۔
اگر ممکن ہو تو یہ فرمائيں کہ ہماری ثقافت میں کتاب کا مقام کیا ہے؟ اور کتاب ثفافت کے ارتقا میں کیا مدد کر سکتی ہے؟
میرے عزیز جوانو! اور بچو! آپ سب کے سب اپنے ملکوں میں ایک کردار کے حامل بن سکتے ہیں۔۔۔ دینی مسائل، ثقافتی مسائل، سیاسی مسائل یا اخلاقی مسائل کے موضوع پر اپنے ارد گرد کے ماحول میں اچھے مستقبل کی فکر سرور و نشاط اور امید و اطمینان کی فضا ایجاد کرنے نیز اطاعت و بندگی اور شریعت اسلامی کی پابندی کی راہ میں جو افراد اور معاشرے کی سربلندی کا بہت بڑا سرمایہ ہے، مجاہدت کر سکتے ہیں، آپ سب مدرسوں میں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں، اپنے دفتروں اور کاروباری مرکزوں میں کردار ادا کر سکتے ہیں، ایک بیدار و آگاہ، پر نشاط و پر امید، پاکیزہ دامن جوان، ایک تاریخ کا پاسباں بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صیہونیوں ، سامراجی طاقتوں اور دنیا پر مسلط کمپنیوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کے جوانوں پر برسوں کام کیا ہے اور تلاش و کوشش کی ہے کہ شاید وہ جوان نسلوں کو خراب کرنے میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے عزم و ہمت اور امید و اطمینان کو ان سے سلب کر لیں، اُن کے مستقبل کو ان کی نگاہوں میں تیرہ ؤ تار کردیں وہ سب اپنے مستقبل کی طرف سے مایوس ہوجائیں اور ان کو اخلاقی اور اعصابی مشکلات سے دوچار کر دیں جو کچھ آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
30/ اکتوبر /1998