معروف مفکر و مصنف اور عظیم دانشور و عالم دین شہید مرتضی مطہری کے یوم شہادت کی مناسبت سے ایران میں منائے جانے والے یوم استاد کے موقع پر ملک کے اساتذہ اور ٹیچروں نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ 2 مئی 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے استاد، تعلیم، تربیت، ادارہ تعلیم و تربیت اور تعلیمی شعبے میں اصلاحات کی دستاویز جیسے موضوعات پر اہم گفتگو کی۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے :
سالہا سال کی مسلسل شخصی اور استبدادی حکومتوں نے ہماری قوم کو ایک لات زبوں حال اور نکمی قوم میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ قوم جو خداداد صلاحیتوں اور ممتاز قسم کی غیر معمولی اجتماعی عادتوں کی حامل ہے، ایک ایسی قوم جس کو اسلام کے بعد تاریخ کے طویل دور میں اس قدر سیاسی افتخارات کے ساتھ اس قدر علمی افتخارات حاصل رہے، ایک کمزور و ناتواں رسوا قوم میں تبدیل ہوگئی، بیرونی طاقتوں نے ایک مدت تک انگریزوں نے، ایک مدت روسیوں نے اور ایک مدت امریکیوں نے اور بعض مقامات ان کے گوشہ ؤ کنار میں بعض دوسری یورپی حکومتوں نے ہماری قوم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔۔۔ ہمارے عزیز ( و ناقابل شکست) امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے ملت ایران کی خوابیدہ غیرت اور قومی غرور و افتخار کو بیدار کردیا۔۔۔، ہمارے عوام اب محسوس کرتے ہیں کہ وہ اتنی قوت و توانائی رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کی مسلط کردہ پالیسیوں اور زبردستیوں کے مقابلے میں کھڑے رہ سکتے ہیں، یہ عزت و خود اعتمادی کی روح، قومی غرور، حقیقی اور اصلی افتخارات کی روح ہمارے امام نے ہماری ملت کے اندر بیدار کردی ہے۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ)
14/ جولائی /1989
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.(1)
آپ سب کو بہت بہت خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ ہماری لیبر سوسائٹی، جس کا چھوٹا سا نمونہ آپ لوگ ہیں، اس گلستان کا گلدستہ ہیں، ہمیشہ خدا کے لطف و کرم آپ کے شامل حال رہے اور آپ ملک کو روز بروز فیضیاب کرتے رہیں۔ اگر لیبر سوسائٹی پیشرفت کرے، اس کے مسائل حل ہو جائيں، وہ علمی، فکری اور روزگاری پیشرفت حاصل کر لے تو یقینا ملک کو ترقی حاصل ہوگي اور قوم کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گي۔
محترم وزیر کی باتیں اہم تھیں، ان کے بیان میں، بعد میں کیے جانے والے کاموں سے متعلق جو حصہ تھا، ان شاء اللہ اس کے بارے میں کوشش کریں، انھیں دیکھتے رہیں، یقینا نتیجہ خیز ہوں گے، ان شاء اللہ۔ جس حصے میں انھوں نے کہا کہ کام انجام پا چکے ہیں، اس میں اہم نکات تھے میں نے توجہ سے سنا۔ میں مرتضوی صاحب سے جس چیز کی درخواست کرنا چاہتا ہوں – چونکہ ان کے کام کا ریکارڈ اچھا ہے، پہلے جن جگہوں پر انھوں نے کام کیا تھا، وہاں اچھا کام کیا تھا – یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار پر گہری توجہ رکھیں، خاص طور پر بعض اہم شعبوں پر، جیسے روزگار کی فراہمی کا مسئلہ۔ مختلف حکومتوں میں کچھ کام ہوتے تھے، اعداد و شمار پیش کیے جاتے تھے، پھر جب انسان ان پر غور کرتا تھا تو ان میں تساہلی نظر آتی تھی، یہ کوشش کریں کہ ایسا نہ ہو، جیسے انشورنس کا مسئلہ، روزگار کا مسئلہ، ہاؤسنگ کا مسئلہ، جن چیزوں کا انھوں نے ذکر کیا وہ واقعی بہت اہم ہیں، کافی اہم ہیں۔ دھیان رکھیں کہ اعداد و شمار ایک دم صحیح ہوں، کیونکہ خود عہدیدار، خود وزیر تو ایک ایک کام نہیں دیکھ سکتا بلکہ اسے رپورٹ دی جاتی ہے۔ توجہ رکھیں کہ اعداد و شمار بالکل صحیح ہوں۔ جن کاموں کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انجام پائے ہیں، اگر وہ واقعی انجام پائے ہیں تو بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں اور واقعی یہ غنیمت ہے۔ ایسا کام کیجیے کہ ملک کے مزدوروں کی یہ بڑی تعداد، یہ ہمارے عزیز بھائي اور عزیز بہنیں، خوش ہو جائیں، ان کی حوصلہ افزائي ہو۔
اب آتے ہیں اس چیز کی طرف جو میں نے عرض کرنے کے لیے تیار کی ہے۔ یہ نشست جو ہر سال تشکیل پاتی ہے، اول تو یہ اس لیے ہے کہ سماج میں مزدور کی قدر و قیمت کو اونچی آواز سے بتایا جائے، جس چز کا ہمارا دل چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ مزدور کی قدر و قیمت کا پتہ چل جائے۔ البتہ مزدور کا مفہوم ایک بہت ہی وسیع مفہوم ہے، اس وقت میری مراد صنعتی، زرعی اور سروس کمنپیوں وغیرہ میں کام کرنے والے یہی مزدور ہیں – مجھے محققین اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہنا ہے، وہ بھی ایک طرح سے مزدور ہیں لیکن فی الحال وہ میرے مدنظر نہیں ہین – یہی آپ لوگ اور ملک کی لیبر سوسائٹی میرے مدنظر ہے۔ اس سوسائٹی کی قدر سمجھی جانی چاہیے۔ میرا اصرار ہے کہ یہ کام ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ذہن میں کچھ باتیں اور نصیحتیں آتی ہیں جنھیں ہم عہدیداران سے بھی اور خود عزیز مزدوروں سے بھی عرض کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان شاء اللہ لیبر سوسائٹی کو آگے لے جا سکیں۔
روزگار، مزدور اور مزدوروں کے سلسلے میں ہم سب کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کے بارے میں کچھ باتیں میں عرض کروں گا۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ہم مزدور کی اہمیت کس طرح سے سمجھیں؟ کام کی اہمیت سے۔ معاشرے میں کام کی کیا اہمیت ہے؟ کام کی اہمیت سے مزدور کی اہمیت بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ کام، معاشرے کی حیات ہے، کام، لوگوں کی زندگي کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کام نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کھانا ہم کھاتے ہیں، جو لباس ہم پہنتے ہیں، وہ وسائل جنھیں ہم اپنی زندگي میں استعمال کرتے ہیں اور ہماری زندگي ان سے وابستہ ہے، ان سب کا سرچشمہ کام ہے۔ کام کون کرتا ہے؟ مزدور۔ تو مزدور کی اہمیت کیا ہے؟ مزدور کی اہمیت، معاشرے کی حیات کی اہمیت جتنی ہے، لوگوں کی زندگي جتنی ہے، یہ بات سبھی جان لیں، یہ بات سبھی سمجھ لیں۔ خود مزدور بھی اس نکتے پر توجہ دیں، اپنی قدر و قیمت سمجھیے میں اپنی گفتگو کے آخر میں اس قدردانی کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔
اگر معاشرے میں کام نہ ہو تو یہ پورے کا پورا قومی سرمایہ ٹھپ پڑا رہے گا۔ ہمارے یہاں کانیں ہیں، وسائل ہیں، زمین ہے، پانی ہے، اگر کام ہو تو یہ ساری چیزیں برکت کا سر چشمہ ہوں گي، کانوں سے معدنیات نکالی جائيں گي، پانی اور مٹی کو استعمال کیا جائے گا، زندگي آگے بڑھتی رہے گي۔ اگر کام نہ ہوا تو یہ ساری صلاحتیں مردہ اور بےکار رہ جائيں گي۔ کام، صلاحیتوں کو نکھارتا ہے، یہ کام کی اہمیت ہے۔ جب ہم نے کام کی اہمیت کو سمجھ لیا تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مزدور کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ ایک بات ہوئي۔ پہلے مرحلے میں ہم سب کو اپنے بارے میں، مزدور کے بارے میں اور لیبر سوسائٹی کے بارے میں یہ شناخت ہونی چاہیے۔
جب ہم کام پیدا کرنے اور روزگار پیدا کرنے کی اہمیت کو سمجھ گئے، جسے روزگار کہا جاتا ہے، یعنی واقعی کام، بعض روزگار ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر واقعی کام نہیں ہوتا، جب اسے صرف کیا جاتا ہے تو مفید کام سامنے نہیں آتا، وہ مدنظر نہیں ہے، اگر ہم آٹھ گھنٹے، سات گھنٹے، پانچ گھنٹے، کچھ کم یا کچھ زیادہ فلاں مرکز میں جاتے اور آتے ہیں تو واقعی پانچ گھنٹے کام ہونا چاہیے، سات گھنٹے کام ہونا چاہیے، ہمیں کام پیدا کرنا چاہیے۔ کام کی پیداوار مختلف پہلوؤں سے اہم ہے: سب سے پہلے تو یہ کہ ملک کو کام کی ضرورت ہے، معاشرے کو کام کی ضرورت ہے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اگر کام نہ ہو تو زندگي نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ مزدور کو اپنی زندگي چلانے کے لیے کام کی ضرورت ہے۔ تیسرے یہ کہ مزدور کو کام کی ایک روحانی اور نفسیاتی ضرورت ہے، خداوند عالم نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ بے روزگاری اسے کاہل بنا دیتی ہے اور کام اسے نشاط عطا کرتا ہے۔ابریں کام کی ضرورت صرف زندگي گزارنے کے لیے نہیں ہے، روحانی لحاظ سے بھی ہمیں کام کی ضرورت ہے، انسان کو کام کی ضرورت ہے۔ چوتھے یہ کہ کام، بدعنوانی کو روکتا ہے، بے روزگاری بدعنوانی کی جڑ ہے۔
بہت سی بدعنوانیاں، بے روزگاری کی وجہ سے سامنے آتی ہیں۔
ہم نے آج سے کچھ سال پہلے، تین چار سال پہلے، اس وقت کی حکومت کے ساتھ سماجی مسائل کی شناخت کے لیے ایک کام شروع کیا تھا۔ یہاں تک کہ میں خود نشستوں میں شرکت کرتا تھا – کئي کئي گھنٹے کی نشستیں ہوتی تھیں – تاکہ سماجی مسائل کے بارے میں کام ہو سکے، سوچا جا سکے۔ میں خود جس نتیجے پر پہنچا، وہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے مسائل، بے روزگاری کی وجہ سے ہیں؛ نشے کی لت بے روزگاری کی وجہ سے ہے، بدعنوانی کی وجہ بے روزگاری ہے، چوری، بے روزگاری کی وجہ سے ہوتی ہے، طلاق اور گھرانے کے بکھراؤ کی وجہ بے روزگاری ہے۔ دیکھیے، وہ ادارے، جن پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری ہے – لیبر منسٹری پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے، زیادہ تر دوسری وزارتوں پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری ہے – جان لیں کہ کام پیدا کرنا، روزگار پیدا کرنا، حقیقی معنی میں معاشرے کے لیے کتنا اہم ہے، وہ سرمایہ کاری کریں۔ یہ ایک بات ہوئي۔
ایک دوسری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ آمدنی اور کام کے درمیان ایک براہ راست رابطہ ہو، یعنی ہمارے اس عزیز قاری نے جو یہ آیت پڑھی اس کے مطابق: لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعیٰ(2) آمدنی، کوشش اور محنت سے ہونی چاہیے، کام سے ہونی چاہیے، سعی و جدوجہد سے ہونی چاہیے۔ معاشرے کو اس طرح پروان چڑھانا چاہیے، یہ بہت سخت کام ہے، اس کا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ بہت سی بے حساب ثروت و مال و دولت کے حصول کا طریقہ غلط ہے۔ ہمیں ملک میں بغیر محنت کے حاصل ہونے والی کثیر رقم کے کلچر کو روکنا ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کام طویل المدت اور سخت ہے لیکن اسے انجام پانا چاہیے۔ بہت سے یہ واسطے، بہت سے یہ معاملات، بہت سی یہ دلالیاں، بعض جگہوں پر یہ رشوت دینا اور رشوت لینا، ملک کے بعض معاشی شعبوں میں یہ سود خوری، یہ وی آئي پی سسٹم کہ فلاں شخص سے تعلق اس بات کا سبب بنے کہ ایک بہت ہی آسان اور بغیر کام کیے ہوئے آمدنی انسان کو حاصل ہونے لگے، یہ سب معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آمدنی کا کام کے ساتھ سیدھا رابطہ ہونا چاہیے۔ میں نے جو کہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کل آپ، یا سرکاری ادارے یا میں خود، یہ کام انجام دے سکیں، میں چاہتا ہوں کہ سماج میں یہ کلچر فروغ پائے: کام سے آمدنی کے رابطے کا کلچر۔ بہت سے امتیازی سلوک، بہت سے تعیش پسندانہ کام، بہت سی یہ مضر دولت و ثروت – جس کی برائي کے اثرات انسان سماج میں دیکھتا ہے اور جو لوگ سماج میں مترفین(3) کا مصداق ہیں، جس کا قرآن میں ذکر ہوا ہے(4) – ان میں سے بہت سی چیزیں اس وجہ سے ہیں کہ کام سے آمدنی اور فائدے کا رابطہ کٹ گيا ہے، کام نہیں ہے لیکن آمدنی ہے، یہ نہیں ہو سکتا۔ آمدنی، کام کے سبب ہونی چاہیے۔
اگر ہم نے بدعنوانی سے جنگ کی تو ہم اس کلچر کو پھیلا سکیں گے۔ بدعنوانی سے جنگ کا مسئلہ اہم ہے۔ بدعنوانی کیا ہے؟ بدعنوانی، رشوت ہے، بدعنوانی، وی آئي پی کے نام پر کھانا ہے، بدعنوانی، سود ہے، یہ سب بدعنوانیاں ہیں، برائياں ہیں۔ ان سے جنگ میں جو بھی قدم اٹھایا جائے گا، وہ اس کلچر کے فروغ کی راہ میں ایک حقیقی قدم ہوگا، جسے میں نے عرض کیا۔ البتہ میں نے تقریبا بیس سال پہلے، بدعنوانی سے مقابلے کے سلسلے میں ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، سنہ دو ہزار یا دو ہزار ایک کی بات ہوگي(5) اس میں بھی میں نے کہا تھا کہ بدعنوانی سے مقابلے میں تسلسل چاہیے، ان قصے کہانیوں کے الفاظ میں کہیں تو بدعنوانی سات سروں والے ایک اژدہےکی طرح ہے کہ اگر آپ نے اس کا ایک سر کاٹ دیا تب بھی اس کے چھے سر زندہ باقی رہتے ہیں، حککام کرتے رہتے ہیں۔ یہ مقابلہ ہمہ گير ہونا چاہیے۔ اگر اسی وقت، محترم حکومتوں اور محترم عہدیداران نے اس سلسلے میں سنجیدگي سے کام کیا ہوتا تو بلاشبہہ آج ہماری پوزیشن بہتر ہوتی۔ بحمد اللہ اس بات کی امید ہے کہ عوامی حکومت اور انقلابی پارلیمنٹ، بدعنوانی سے مقابلے کے اس کام کو سنجیدگي سے آگے بڑھائے گي۔
میری عرض ہے کہ اگر ایک عہدیدار میں، داخلی بدعنوانی سے مقابلے کی ہمت نہیں ہوگي تو پھر اس میں غیر ملکی بدعنوانی سے مقابلے کی ہمت تو بالکل ہی نہیں ہوگي۔ مثال کے طور پر فلاں شخص، اجارہ داری والی تجارت سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے، تو اسے روکا جانا چاہیے، سخت ہے۔ فلاں شخص، بینک کے کریڈٹ سے غلط فائدہ حاصل کر رہا ہے، فلاں شخص بینک کے قرضے نہیں لوٹا رہا ہے، اس سے مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ یہاں مقابلہ نہیں کر سکے تو، وہاں جہاں امریکا جیسی یا کوئي دوسری منہ زور حکومت، جب اس بات پر اَڑ جائے گي کہ ایٹمی توانائي کے معاملے میں آپ کو ایسا کرنا ہوگا اور ویسا نہیں کرنا ہوگا تو آپ مقابلہ نہیں کر پائيں گے۔ جب آپ کے پاس یہاں مقابلے کی طاقت نہیں ہے تو وہاں بھی مقابلے کی طاقت نہیں ہوگي۔ بات یہ ہے۔
ایک دوسری بات، مزدور کے سلسلے میں ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں: یہ باتیں جو وزیر صاحب نے یہاں کہی ہیں، بہت اچھی ہیں، یہ بڑے اہم کام ہیں لیکن اس بات پر پوری توجہ رہے کہ یہ کام تمام تر جزئيات اور تفصیلات کے ساتھ انجام پانے چاہیے۔ مزدور کے سلسلے میں ذمہ داریاں، اکثر یہی ہیں جن کا ذکر کیا گيا۔ میں ایک اشارہ کرتا چلوں۔ ہم سبھی مزدوروں کی تعریف کرتے ہیں۔ مزدور کی تعریف اچھی بات ہے اور یہ لوگوں کو مزدور کے مرتبے سے آگاہ کرتی ہے لیکن زبانی تعریف کافی نہیں ہے۔ بقول شاعر: "قربان تعارف زبانیت شوم"(6) کام کرنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے، مدد کرنی چاہیے۔
ایک بات جسے سبھی کو جاننا چاہیے، سرکاری عہدیداروں کو بھی، انٹرپرینیورز اور سرمایہ کاروں کو بھی کہ بہت سے کام ان کے پیسے اور ان کے وسائل پر منحصر ہیں، سبھی کو جان لینا چاہیے کہ اگر اس بات کی کوشش کی گئي کہ مزدور کی زندگي کی سطح بہتر ہو تو ملک کی صورتحال بہتر ہوگي۔ جب مزدور کو ذہنی فکر لاحق نہیں ہوگي، وہ اپنے کام کی طرف سے آسودہ خاطر ہوگا، اسے سکون حاصل ہوگا اور اس کی زندگي آرام سے گزر رہی ہوگي تو کام کا معیار اوپر جائے گا، پروڈکٹ کی کوالٹی اوپر جائے گی۔ عالمی تجارت بلکہ داخلی تجارت میں بھی ہماری ایک مشکل، پروڈکٹ کی کوالٹی ہے۔ اگر مزدور خوش ہوگا اور وہ یہ جان لے گا کہ اس کی زندگي آسانی سے گزرے گي، وہ یہ جان لے گا کہ اسے کام کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسے سکون حاصل ہوگا تو ا س کا کام بہتر ہوگا، کام کا معیار بہتر ہوگا، کام کی سطح اوپر جائے گي، یہ بات سبھی کو جان لینی چاہیے۔ بنابریں مزدور کی زندگي کو بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش دراصل، کام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، پروڈکٹ کی کوالٹی بہتر بنانے کی کوشش ہے، ملک کی ترقی کے لیے کی جانے والی کوشش ہے، یعنی سرمایہ کاری ہے۔ اگر ہم لیبر سوسائٹی کے مسائل کو دور کرنے کے لیے کوشش کریں تو درحقیقت ہم نے سرمایہ کاری کی ہے، یہ خرچ نہیں ہے، یہ سرمایہ کاری ہے۔ یہ بات سبھی جان لیں، عہدیداران بھی جان لیں ان کاموں کے بارے میں جو ملک سے متعلق ہیں چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری اور اسی طرح کارخانوں کے مالکان، سرمایہ کار، انٹرپرینیورز وغیرہ بھی جان لیں۔
خیر، پیداوار ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے یعنی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پروڈکشن ہے اور پروڈکشن کی ریڑھ کی ہڈی مزدور ہے۔ ہمیں مزدور یعنی اس ریڑھ کی ہڈی کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہم نے اس سال، سال کے نعرے میں کہا: پیداوار میں پیشرفت۔ تو پروڈکشن میں پیشرفت کیسے ہوتی ہے؟ پروڈکشن میں پیشرفت کا ایک اہم حصہ، مزدوروں سے متعلق ہے۔ اگر وہ خوشی اور دلچسپی کے ساتھ کام کریں تو ایسا ہوتا ہے۔ بنابریں اس نکتے پر توجہ دیں، محترم عہدیداران بھی اور سرمایہ کاری کرنے والے، روزگار پیدا کرنے والے اور ورکشاپس وغیرہ بنانے والے بھی توجہ دیں کہ پروڈکشن میں پیشرفت کے لیے، صورتحال بہتر بنانے کے لیے انھیں مزدور کی زندگي کو بہتر بنانے کو ایک اہم اور بنیادی اصول سمجھنا چاہیے۔
ایک دوسری بات کام کی آمدنی کی منصفانہ تقسیم ہے کہ ہم نے مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں اس سلسلے میں ایک شق رکھی تھی اور اس پر بحث کی تھی، کافی پہلے اس بات پر بحث و تمحیص ہو چکی ہے۔ انسانی سرمائے کی حیثیت سے مزدور کے حصے پر، جو کہ ایک انسانی ذخیرہ ہے، انسانی سرمایہ ہے جس کا اثر مادی سرمائے سے زیادہ ہے، کام کے نتیجے یعنی پروڈکٹ کی قدر و قیمت طے کرنے میں، توجہ دی جانی چاہیے۔ میں یہیں پر اس بات سے ایک نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پروڈکٹ کی قدر و قیمت میں مزدور کا حصہ زیادہ ہو تو ہمیں مزدور کی تعلیم، مہارت اور تجربے کو بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور یہ بات وزیر محترم کی گفتگو میں بھی تھی، اسے بہت سنجیدگي سے لینا چاہیے۔ کسی کام کے نتیجے کی قدر و قیمت طے کرنے میں ماہر، تجربہ کار، تعلیم یافتہ اور خلاقیت رکھنے والے مزدور کا حصہ، کافی زیادہ ہوتا ہے، اسی تناسب سے آمدنی میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اب اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم سرمایہ کار وغیرہ کے مقابلے میں محاذ کھڑا کرنا چاہتے ہیں، نہیں، میں کسی بھی صورت میں اس کی سفارش نہیں کروں گا۔ سرمایہ کار، انٹرپرینیور اور مزدور، ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اگر یہ نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کر سکتا، وہ نہ ہو تو یہ کچھ نہیں کر سکتا، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ جو چیز اس منصفانہ حصے کو یقینی بنا سکتی ہے وہ انصاف اور انصاف کا ماحول ہے، اس چیز کے برخلاف جس کا نعرہ کمیونسٹ لگاتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے، وہ جھوٹ بولتے تھے۔ وہ جنگ کے ماحول، ٹکراؤ کے ماحول اور ایسی ہی باتوں کی ترویج کرتے تھے، عملی طور پر یہ ثابت ہو گيا کہ انھیں غلط فہمی تھی، بہت بڑی غلطی تھی، انھیں کوئي نتیجہ بھی حاصل نہیں ہوا، عملی طور پر وہ اپنے نعروں کے پابند بھی نہیں تھے۔ انصاف کے ماحول، تعاون کے ماحول، یکجہتی کے ماحول، خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے کے ماحول کی حکمرانی ہونی چاہیے تاکہ کامیاب ہو سکیں۔ البتہ بعض مقامات پر سرمائے کا وسیلہ، ایک طرف مزدور کا حق پامال ہونے کا سبب بنتا ہے، اسے روکا جانا چاہیے۔ دوسری طرف بھی ممکن ہے کہ اس کے لیے کچھ محدودیت پائي جاتی ہو، اس پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہوا۔
ایک دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات جو میں نے کہی، اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ مزدور کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کرنا، ایک فریضہ ہے۔ ایک حدیث ہے جسے میں نے نوٹ کیا ہے، حدیث میں کہا گيا ہے: "مَن ظَلَمَ اَجیراً اَجرَہُ اَحبَطَ اللہُ عَمَلَہُ وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ" اگر کوئي کسی مزدور پر ظلم کرے، اس کی اجرت اور مزدوری کے سلسلے میں ظلم کرے تو اس کے سبھی نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں، حبط ہو جاتے ہیں – حبط یعنی تباہ ہو جانا، ختم ہو جانا – وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ اور خداوند عالم ایسے شخص کے لیے جنت کی خوشبو کو حرام کر دیتا ہے! مطلب یہ کام ایسا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ظلم ہے کیا؟ کیا ظلم یہ ہے کہ صرف اس کی مزدوری نہ دیں؟ ہاں ٹھیک ہے، یہ ایک بڑا ظلم ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ انشورینس، علاج معالجے، مہارت کی سطح کو اونچا اٹھانے، تعلیم، جدت عمل کا موقع نہ دینا وغیرہ جیسے یہ سبھی مسائل ظلم ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مزدور پر ظلم نہ ہو تو اس کی مہارت کی سطح کو اوپر اٹھانے کے وسائل فراہم کیجیے، راہ ہموار کیجیے، انشورینس کے مسئلے کو حل کیجیے، علاج معالجے کے مسئلے کو، فیملی کی صحت و سلامتی کے مسئلے کو، روزگار کی سیکورٹی کے مسئلے کو حل کیجیے، ان چیزوں کا نہ ہونا بھی ظلم ہے۔ خیر تو یہ بھی ایک بات ہوئي۔
ایک دوسرا نکتہ جو شاید ہمارے معروضات کی آخری بات ہو، یہ ہے کہ ہماری لیبر سوسائٹی آج تک انقلاب اور نظام کی وفادار رہی ہے۔ دیکھیے (لیبر سوسائٹی کے) یہ چودہ ہزار شہید، در حقیقت مزدوروں کے ہاتھ افتخار کے چودہ ہزار پرچم ہیں۔ یہ لوگ جو شہید ہوئے – چونکہ میں شہیدوں کے حالات زندگي کا مطالعہ کرتا ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ – ان میں سے بعض مزدور تھے، فیملی والے بھی تھے، ان کے دو، تین، چار بچے بھی تھے لیکن انھوں نے ذمہ داری محسوس کی، دیکھا کہ دشمن نے ملک، انقلاب اور نظام پر حملہ کیا ہے، انھوں نے اپنا فرض سمجھا اور بچوں کو خدا کی امید پر چھوڑ کر میدان جنگ میں گئے اور شہید ہو گئے۔ الحمد للہ ان سے کئي گنا زیادہ لوگ گئے تھے لیکن بحمد اللہ زندہ ہیں، شہید نہیں ہوئے لیکن بہرحال چودہ ہزار شہید! کوئي مذاق نہیں ہے۔
میرے خیال میں نظام سے لیبر سوسائٹی کی وفاداری کی سب سے اہم نشانی، ان عشروں کے دوران ان کا رویہ اور عمل رہا ہے۔ انقلاب کے اوائل میں کچھ گروپس کی کوشش تھی، ملک کے اندر کچھ گروپس کوشش کر رہے تھے اور ان کا ہدف تھا کہ مزدوروں کو سڑک پر لے آئیں، ورکشاپس اور کارخانے بند ہو جائيں اور انقلاب شکست سے دوچار ہو جائے، یہ ان گروہوں کی کوشش تھی۔ پھر رفتہ رفتہ وہ گروہ کنارے چلے گئے اور اس معاملے میں زیادہ تر غیر ملکی بدخواہ شامل ہو گئے، یہ سلسلہ آج تک جاری رہے، انھوں نے ورغلایا بھی اور لیبر سوسائٹی کو نظام کے سامنے لا کھڑا کرنے کے لیے سطحی اور غیر حقیقی نعروں کے ذریعے اقدامات بھی کیے۔ لیبر سوسائٹی نے ذہانت کا مظاہرہ کیا، ڈٹ گئي، یہ بہت اہم ہے۔ یہ کہ لیبر سوسائٹی ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ پر کیے جانے والے اتنے زیادہ پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہو، وہ کام نہ کرے جو دشمن چاہتے ہیں اور اسے پتہ ہو کہ وہ کیا کر رہی ہے، میرے خیال میں یہ لیبر سوسائٹی کا بڑا جہاد ہے، یہ بہت گرانقدر ہے، مزدوروں نے دشمن کی چالوں کے مقابلے میں ذہانت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ لیبر سوسائٹی کو نظام کے مقابلے پر لانے کی بہت کوشش کی گئي لیکن اللہ کی مدد و نصرت سے دشمن ایسا نہ کر سکے، اس کے بعد بھی وہ کوشش کر رہے ہیں، اس وقت بھی کوشش کر رہے ہیں، اس وقت بھی اور مستقبل میں بھی اللہ کی مدد و نصرت سے وہ ایسا نہیں کر پائيں گے۔ البتہ مزدوروں کے کچھ اعتراضات تھے، جن میں سے کچھ، جہاں تک میری معلومات ہیں، صحیح اور بجا تھے۔ تنخواہ دیر سے ملنے پر اعتراض، غلط طریقے سے کام اور جگہ سپرد کیے جانے پر اعتراض۔ کبھی کسی جگہ کو، کسی اہم کام کے مقام کو غلط طریقے سے، برے طریقے اور بدعنوانی سے کسی کے حوالے کر دیتے ہیں، مزدور وہاں موجود ہے، وہ سب کچھ قریب سے دیکھ رہا ہے، اعتراض کرتا ہے، یہ حکومت کی مدد ہے، یہ سسٹم کی مدد ہے، یہ نظام کو مطلع کرنا ہے۔ اس طرح کے جس معاملے میں بھی عدلیہ جیسے ذمہ دار اداروں نے چھان بین کی تو انھوں نے پایا کہ مزدور صحیح کہہ رہے ہیں، ان حالیہ معاملوں میں – مجھے ان میں سے بعض معاملوں کے بارے میں قریب سے اطلاع تھی – لیبر سوسائٹی نے دشمن سے حدبندی کر لی تھی، مزدوروں نے فلاں معاملے اور فلاں جگہ کے اعتراض سے دشمن کو فائدہ نہیں اٹھانے دیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کام پر اعتراض ہے لیکن ہم دشمن سے بھی بیزار ہیں، نظام کے دوست ہیں، ہمراہ ہیں۔ مزدوروں کا اقدام یہ ہے۔
ایک اور بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا – کام پیدا کرنے کے مسئلے کے بارے میں، وہ یہ ہے کہ ملک کے عہدیداران کو تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں جوان ہیں، دو طرح کے نوجوان ہیں جن کے بارے میں سنجیدگي سے سوچنے کی ضرورت ہے: ایک وہ تعلیم یافتہ بے روزگار جوان ہیں جن کے پاس اپنی تعلیم کے لحاظ سے کام نہیں ہے، عوام سے رابطے کا ہمارا شعبہ کبھی کبھی فیمیلیز سے ملاقات کرتا ہے اور اس کی رپورٹ مجھے دی جاتی ہے، مجھے معلوم پڑتا ہے کہ مثال کے طور پر ایک سبجیکٹ کا تعلیم یافتہ جوان ہے، اس نے ڈپلومہ بھی کیا ہے لیکن اس وقت ایک بہت ہی معمولی کام کر رہا ہے، یعنی اپنے شایان شان کام نہیں کر رہا ہے، اس طرح کے بہت سے نوجوان ہیں، ان کے بارے میں سوچا جانا چاہیے، یہ بہت اہم کام ہے۔ یہ نوجوان، ملک کا سرمایہ ہیں، انھیں یوں ہی بے کار نہیں رہنا چاہیے۔ کچھ ایسے بھی نوجوان ہیں جو نہ پڑھنا چاہتے ہیں، نہ کام کرنا چاہتے ہیں، واقعی سیاسی، سماجی اور معاشی ماہرین اور صاحب رائے افراد کو بیٹھ کر ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے، حکومت کی مدد کریں تاکہ ان کے لیے کچھ سوچا جا سکے۔ افسوس کہ ملک میں اس طرح کے نوجوان بھی ہیں، ایسے نوجوان جن کے پاس کام نہیں ہے اور وہ کام کے متلاشی بھی نہیں ہیں، تعلیم حاصل نہیں کرتے اور تعلیم حاصل کرنا بھی نہیں چاہتے۔ ملک میں اس طرح کے نوجوانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ بھی سرمایہ ہے، اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ واقعی ان کے لیے بھی ضرور کچھ سوچا جانا چاہیے۔ یہ وہ کام ہے جسے معاشی اور انسانی امور کے ماہرین اور صاحب رائے افراد کو ضرور انجام دینا چاہیے۔
بہرحال لیبر سوسائٹی کے سلسلے میں میری رائے ایک طرف تحسین اور تعظیم کی ہے – ہم حقیقی معنی میں دل کی گہرائيوں سے آپ کا احترام کرتے ہیں اور آپ کی عظمت کو سمجھتے ہیں – ایک طرف ہمارا ماننا ہے کہ ملک میں مزدوروں کی زندگي کی سطح میں ایک زبردست تبدیلی آنی چاہیے، ان شاء اللہ جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان سے ضرور پیشرفت ہوگي، دوسری طرف دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنے اور دشمن کے بہکاوے میں نہ آنے کی وجہ سے طرف لیبر سوسائٹی کو ہم دل سے سراہتے ہیں اور آپ کے لیے خیر و برکت کی امید اور آرزو رکھتے ہیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو محفوظ رکھے، سلامت رکھے اور حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدس اور امام خمینی کی پاکیزہ روح کو آپ سب سے راضی و خوشنود رکھے۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں کوآپریٹو، لیبر اور سوشل ویلفیئر کے امور کے وزیر جناب سید صولت مرتضوی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) سورۂ نجم، آيت 39، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
(3) ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنھیں نعمت کی کثرت، غافل، مغرور اور عیش و عشرت مست بنا کر بغاوت کے لیے ورغلاتی ہے۔
(4) منجملہ سورۂ واقعہ، آيت 45
(5) انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے نام، معاشی بدعنوانیوں کے سلسلے میں آٹھ نکاتی فرمان (30/4/2001)
(6) ہر چند بہ دل دوست نداری ما را قربان محبت زبانیت شوم (اگرچہ تو ہمیں دل سے پسند نہیں کرتا لیکن میں تیری زبانی محبت پر ہی قربان ہو جاؤں۔)
شہید حجت الاسلام سلیمانی ہمیشہ نظام کی خدمت کرنے والی شخصیت
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک جان لیوا حملے میں حجت الاسلام عباس علی سلیمانی کی شہادت پر ایک تعزیتی پیغام جاری کیا ہے۔
رہبر انقلاب کے تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے 22 اپریل 2023 کو عید فطر کے دن اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں اور ایران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں نے ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے مسائل، توانائیوں اور ذمہ داریوں کے بارے میں بات کی۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی امامت میں تہران میں نماز عید الفطر ادا کی گئي۔ 22 اپریل 2023 کو لاکھوں کی تعداد میں اہل تہران نے بھرپور دینی جوش و جذبے کے ساتھ اس روحانی پروگرام میں شرکت کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے نماز کے بعد خطبے دئے۔
یہ بصیرت افروز خطاب حسب ذیل ہے؛
انقلاب کے نعرے آج بھی وہی ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ انقلاب صحیح راہوں پر گامزن ہے، نعرے انگلی کے اشاروں کی طرح اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اہداف کو مشخص کرتے ہیں، جب ایک نظام اور انقلاب میں باقی اور جاری رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے اہداف پہلی شکل میں باقی ہیں، اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مملکت کے ذمہ دار افراد اور عوام دونوں صراط مستقیم اور بنیادی مقاصد سے منحرف نہیں ہوئے ہیں، آج بھی ایرانی قوم کے نعرے وہی انقلاب کے ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں۔ ہماری زندگی اُن ہی بنیادی خطوط پر قائم و برقرار ہے، ہم نے ترقیاں کی ہیں، (البتہ) کمزوریاں اور نقائص بھی رہے ہیں، ہمیں اپنی ترقیوں کو سمجھنا چاہئے، ہمیں اپنی کمزوریوں کا بھی علم ہونا چاہیے، اگر ہم نے اپنی کمزوریوں کو چھپایا، نہیں جان سکے یا نہیں جاننے کا مظاہر کیا تو یہ کمزوریاں باقی رہ جائیں گی، نظام کا حصہ بن جائیں گی ، برطرف نہیں ہوسکیں گی، لہذا تمام قوی و ضعیف نقطوں سے واقف ہونا چاہئے۔
امام خامنہ ای
2/ جنوری /1998
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ماہ مبارک رمضان کے دوران ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اور اسٹوڈنٹس یونینوں کے نمائندوں سے انتہائی پرمغز اور تفصیلی ملاقات کی۔ 18 اپریل 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں، طلبہ اور نوجوانوں کے موضوعات پر گفتگو کی، ملکی حالات کا جائزہ لیا اور ساتھ ہی عالمی تغیرات کے بارے میں بات کی۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
استکبار پروپگنڈوں پر بہت دھیان دیتا ہے اور یقینا یہ چیز غلط بھی نہیں ہے ایک معنی میں استکباری مشینریاں یہ جو پروپگنڈوں پر دھیان دیتی ہیں غلط بھی نہیں کرتیں! در اصل استکبار کو پروپگنڈے کا پتہ ہے، مسلمان قوم کی راہ و روش تعلقات اور مواقف کے خلاف جنگ اس کا ہدف ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آج ایسا ہورہا ہے بلکہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں سے ہی یہ کام شروع ہوچکا تھا، لیکن در حقیقت قسمت نے استکبار کا ساتھ نہیں دیا، جیسا کہ آج بھی اس راہ میں تقدیر استکبار کے ساتھ نہیں ہے، وہ لوگ جو پروپگنڈے پر اس قدر توجہ دیتے ہیں اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے پروپگنڈے کے اثرات دنیا میں دیکھے ہیں، اس ملت (ایران) کا سابقہ استکبار کے ساتھ، جو ان ریڈیوز (یاذرائع ابلاغ) کے ڈائریکٹرز شمار ہوتے ہیں، مثلا امریکہ اور برطانیہ ، جنھوں نے سابق میں (قوم کے درمیان) فاصلوں اور شگاف کو اور بڑھایا ہے اُس ملت نے دسیوں سال ان کی خیانت، ملعونیت اور دشمنیوں کی مار تحمل کی ہے، ان کو بھلایا نہیں جاسکتا، انقلاب کے ابتدائی دنوں کے بعد سے آج تک ان کی خودغرضیاں ان کے پروپگنڈوں میں ملت نے مشاہدہ کی ہیں۔
امام خامنہ ای
2/ جنوری / 1998
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 16 اپریل 2023 کو ماہ مبارک رمضان کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کے کمانڈروں اور عہدیداروں سے ملاقات میں مسلح فورسز کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دفاعی شعبے کی اہمیت بیان کی اور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں دائمی دفاعی آمادگی پر تاکید کی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
حقیقی قوت اس قومی قوت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اس بات کی آگاہی بھی ہو کہ اس کے گرد و پیش کیا کچھ ہو رہا ہے، دوسرے یہ کہ اپنے حق اور اپنی راہ پر ایمان رکھتی ہو، تیسرے یہ کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس راہ پر گامزن رہے گی، اگر کوئی قوم ان تین خصوصیتوں کی حامل ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس سے زیادہ قوی نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی حیثیت، اپنی عزت و شرافت، اپنے دین، اپنے انقلاب، اپنے انسانی حقوق اور اپنی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں، ہر قوم جو اپنے ان حقیقی حقوق کے بارے میں ایمان و آگاہی کے ساتھ فیصلہ کر لے قطعی طور پر کامیاب ہوگی، لہذا ہم اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہیں … ہماری یہ قوت اور اقتدار اس وقت سے ہے کہ جب ہم متحد اور ایک ہوں، ایک قوم جو متحد ہو ... اختلاف در اصل پوری حیات کو، آبرو کو اور اقتدار کو ملت سے چھین لیتا ہے۔ قوم کے اس اتحاد کی اگر آپ نے حفاظت کی آپ کا یہ اقتدار باقی رہے گا۔
امام خامنہ ای
14/ جولائی/ 1989
نواسہ رسول امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے، فارسی کے اساتذہ اور شعراء نے بڑے پر لطف اور بے تکلفانہ ماحول میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی اور بعض شعرا و شاعرات نے اپنا کلام پیش کیا۔ 5 اپریل 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فارسی شعر و ادب کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا اور کچھ نکات پر تاکید کی۔
(1) رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
دشمنوں سے جنھیں اسلام سے نقصان پہنچا ہے اور جن کو ضرب پڑی ہے اس بات کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کے سلسلے میں آرام سے خاموش بیٹھے رہیں گے؛ دشمن یقینا دشمنی دکھائے گا، دشمن کی طرف سے دشمنی کا منتظر رہنا چاہئے، مگر آگاہی اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کا سامنا کرنا اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے، عوامی مفادات کی حفاظت کے لئے بہترین راہ اپنانا اور پیش نظر رکھنا چاہئے؛ وہ چیز جس کو میں تمام چیزوں سے زیادہ لازم سمجھتا ہوں قوم کی ایک ایک فرد کا متحد رہنا اور ممتاز شخصیتیوں اور حکمرانوں کے درمیان بنیادی اصولوں میں اتحاد پایا جانا ہے، بہت سی چیزوں میں ایک بات جو ہمارے ملک کے لئے حقیقتا اہم ہے یہ ہے کہ ہمارے عوام سیاسی اور نفسیاتی امن و تحفظ کا احساسس کریں معاشرے کی نفستیاتی فضا بے چین و مضطرب نہ ہو۔ (دشمن) کوشش کررہے ہیں بے چینی اور اضطراب پھیلائیں، اصل چیزیہ ہے؛ یہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین کی پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔
امام خامنہ ای
19/ ستمبر/ 2008
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 13 رمضان المبارک 1444 ہجری قمری مطابق 4 اپریل 2023 کو ملک کے اعلی عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات میں ماہ رمضان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ملکی حالات اور اقتصادی صورت حال پر تفصیلی گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کی معاندانہ پالیسیوں کا بھی جائزہ لیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
بحمدللہ ملت ایران ان برسوں کے دوران انقلاب کی کامیابی سے آج تک ایک راہ مستقیم پر آگے بڑھی ہے اور یہ راہ مستقیم، اسلامی اصول اور بنیادوں پر ثابت قدم رہنے کا راستہ ہے، ملت ایران کوئی جمود کی شکار قوم بھی نہیں ہے، عصری تقاضوں کو سمجھتی ہے، صاحب علم ، صاحب تحقیق، صاحب فکر اور صاحب فہم ہے، ہماری ملت اس طرح کی ہے، ہر دور اور ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ہماری ملت نے ان تقاضوں کے مطابق عمل کیا ہے، ملت نے بحمداللہ اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ہے یہ راہ کمال کی راہ اور ارتقا کی راہ ہے۔ ہم اس بات کے دعویدار نہیں ہیں کہ اس انقلاب کے اعلی مقاصد یعنی حقیقی اسلامی معارف تک پہنچ چکے ہیں؛ نہیں! لیکن اس راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں، آگے کی طرف گامزن ہیں۔
امام خامنہ ای
19/ ستمبر/۲۰۰۸
پہلی رمضان المبارک سنہ 1444 ہجری قمری کو 'قرآن سے انس' کے عنوان سے روحانی نشست کا 23 مارچ 2023 کو انعقاد ہوا جس میں قاریان قرآن اور قرآن کے میدان میں مختلف پہلوؤں سے کام کرنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں قرآن اور تلاوت قرآن سے متعلق اہم نکات بیان کئے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 مارچ 2023 کو مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں اپنے خطاب میں، تبدیلی کے موضوع پر گفتگو کی کہ دشمن کیا تبدیلی چاہتا ہے اور رہبر انقلاب کے مد نظر کون سی تبدیلی ہے، آپ نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ کی مختلف میدانوں میں حاصل ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا اور سال نو کے نعرے اور نام کے تناظر میں اہم سفارشات کیں۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے:
امیرالمومنین کی سیاسی روش کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ لوگوں سے تکلفاً نہیں بلکہ سنجیدگی سے کہتے تھے کہ کوئی ان سے خوشامدانہ لہجے میں بات نہ کرے، چاپلوسی نہ کرے، دکھاوا نہ کرے ... ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہے: "فلا تکلمونی بما تکلم بہ الجبابرۃ" جس طرح تم بادشاہوں اور جابروں سے بات کرتے ہو، اس طرح مجھ سے بات نہ کرو۔ "ولا تتحفظوا منی بما یتحفظ بہ عند اھل البادرۃ" یہ جو تم خیال رکھتے ہو کہ فلاں بادشاہ کو کہیں یہ بات بری نہ لگ جائے، ناگوار نہ گزرے اور اسی خیال سے کچھ باتیں نہیں کہتے ہو اور کچھ باتوں کا خیال رکھتے ہو، میرے سامنے اس طرح کا کام نہ کرو۔ "ولاتخالطونی بالمصانعۃ و لا تظنوا بی استثقالا فی حق قیل لی" تم یہ نہ سوچو کہ اگر تم نے سچ بات کہہ دی تو علی کو وہ بات بری لگ سکتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی روش کی ایک خصوصیت ہے۔
امام خامنہ ای
10/9/2009
نئے ہجری شمسی سال 1402 (21 مارچ 2023 الی 19 مارچ 2024) کے آغاز پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حسب معمول پیغام نوروز جاری کیا جس میں آپ نے ختم ہونے والے سال کے اہم واقعات کا سرسری جائزہ لیا اور نئے سال کے اہم اہداف اور کلیدی نعرے پر روشنی ڈالی۔
پیغام حسب ذیل ہے:
عشرۂ فجر میں جو چیز لازمی ہے وہ دو شکریے ہیں: پہلا، اللہ کا شکر۔ پورے خضوع کے ساتھ، مکمل تواضع کے ساتھ ہم بارگاہ الہی میں سرجھکاتے ہیں کہ اس نے ایرانی قوم کو یہ توفیق عطا کی، یہ عظیم اقدام، یہ بڑا کام، یہ تاریخ رقم کرنے والی تحریک ایرانی قوم کے ہاتھوں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت میں تشکیل پائي، ایرانی قوم کا سفر اللہ کی جانب، الہی اہداف کی جانب اور الہی اقدار کی جانب شروع ہوا۔ اس سے بڑی کوئي نعمت نہیں ہے اور اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا، ہمیشہ ضروری ہے اور عشرۂ فجر کے ایام میں تو زیادہ ضروری ہے۔ دوسرا شکریہ، ایرانی قوم کا شکریہ ہے، لوگوں نے وفاداری دکھائي، جوانمردی کا مظاہرہ کیا، قربانیاں دیں، ایثار سے کام لیا، شجاعت کا مظاہرہ کیا، بصیرت سے کام لیا ... یہ پودا، تمام تر خطروں، تمام تر مشکلات کے باوجود روز بروز زیادہ تناور، زیادہ ثمردار اور زیادہ بالیدہ ہوتا گيا۔
امام خامنہ ای
1986/12/05
اگر میں کتاب "سیل نمبر 14" کے ذریعے آپ سے رابطہ قائم کر پایا ہوں گا، تو یہ خوشی کی بات ہوگی۔
وینیزوئیلا کے دارالحکومت کاراکاس میں کتاب "سیل نمبر 14" کے ہسپانوی ترجمے کی رسم اجراء کی تقریب میں پوری دنیا کے ہسپانوی زبان بولنے والوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا پیغام جاری کیا گيا۔ کتاب "سیل نمبر 14" امریکا کی پٹھو پہلوی حکومت کے خلاف جدوجہد کے زمانے میں جیل اور جلاوطنی کے دور میں آیت اللہ خامنہ ای کی سرگزشت بیان کرتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
آزادی یہ نہیں ہے کہ کوئي، اس کے نام پر جو بھی غلط فائدہ اٹھانا چاہے، اٹھائے جیسا کہ دنیا میں یہ کام ہوا ہے، جیسا کہ آزادی کے نام پر انسانوں پر سب سے بڑے بوجھ تھوپ دیے گئے ہیں، آزادی کے نام پر سب سے بڑے جرائم ہوئے ہیں، آزادی کے نام پر انسانی نسلوں کو اخلاقی اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا کر دیا گيا ہے۔ اگر ہم عورت کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہم دنیا کے مقروض نہیں ہیں۔ اگر سماج میں عورت کی حدود اور اس کی ذمہ داریاں طے ہو جائيں تو دنیا ہمارے اوپر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ سوال پوچھنے کا حق تو ہمیں ہے۔ اگر ہم آزادی کے مسئلے میں بھی اسلام کے نظریے کو صحیح طریقے سے بیان کریں، اس کی صحیح تشریح کریں تو دنیا کے اور ان ملکوں کے مقروض نہیں ہوں گے جو جھوٹی، جعلی اور گمراہ کن آزادی کا دم بھرتے ہیں۔ اسی لیے آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ بیان ہونا چاہیے۔
امام خامنہ ای
1986/12/05
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یوم شجر کاری اور ہفتۂ قدرتی ذخائر کی مناسبت سے پیر 6 مارچ کی صبح اپنے دفتر کے صحن میں تین پودے لگائے۔ پودے لگانے کے بعد انھوں نے ماحولیات کے تحفظ، شجرکاری اور کچھ دوسرے اہم موضوعات پر اختصار سے روشنی ڈالی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
ان شاء اللہ خداوند عالم حضرت علی اکبر علیہ السلام کے طفیل آپ جوانوں کی حفاظت کرے، آپ کو اسلام کے لیے محفوظ رکھے، ثابت قدم رکھے۔ نوجوان اس بات پر خاص توجہ رکھیں: وہ صراط مستقیم یا سیدھے راستے کو پہچان سکتے ہیں، اس سے لو لگا سکتے ہیں، اپنے آپ کو سیدھے راستے کے مطابق ڈھال سکتے ہیں لیکن اس راستے پر باقی رہنا دشوار ہے، صراط مستقیم پر اپنے آپ کو باقی رکھیے۔ بقول مرحوم امیری فیروزکوھی:
شباب عمر بہ دانش گذشت و شیب، بہ جہل
کتاب عمر مرا فصل و باب، پیش و پس است
(جوانی علم میں گزری جبکہ بڑھاپا جہالت میں گزر گيا، میری عمر کی کتاب کی فصل اور باب برعکس ہے)
بعض لوگوں کی نوجوانی اچھی تھی لیکن بڑھاپا! خدا کی پناہ، بوڑھے تو خیر ہوئے ہی۔ اس جوانی کو باقی رکھنے کی کوشش کیجیے۔ البتہ آپ لوگ اچھے ہیں، بحمد اللہ آپ لوگ انقلاب اور اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ یہی حالت باقی رہے۔ صحیح راستے پر ثابت قدم رہنا اور استقامت کرنا، ایک اچھی چیز ہے۔
امام خامنہ ای
8 مئي 2017
دشمن چاہتا ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان تنازعہ رہے، خاص طور سے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن، انقلابی اور اسلامی ایران اور دیگر اقوام کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے لیکن یہ انقلاب، قرآن کی بنیاد پر، توحید کی اساس پر، خالص اسلام کی بنیاد پر، تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت کی بنیاد پر آنے والا ایک اسلامی انقلاب ہے۔ یہ بات ہماری قوم نے شروع سے ہی کہی ہے اور امام خمینی نے بھی ببانگ دہل بیان کی ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائي جہاں بھی ہیں اور ان کا مسلک جو بھی ہے، ویسے ہی رہیں لیکن سبھی ایک دوسرے کے بھائي بنے رہیں اور اسلام، توحید اور قرآن کی راہ میں سامراج سے – جو اسلام، توحید اور قرآن کا دشمن ہے – جدوجہد کریں۔
امام خامنہ ای
27/9/1991
امام زین العابدین علیہ السلام تین کردار ادا کر رہے تھے۔ دو کردار ان کے اور بقیہ ائمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے سلسلے میں اپنی امامت کے ڈھائي سو سالہ عرصے میں ائمہ علیہم السلام جو اہم فریضہ ادا کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسلامی معارف، اسلامی احکام، اسلامی فقہ کی تشریح اور اسلام پر مسلط کیے جانے والے انحرافات، تحریف اور کجی سے اس کی حفاظت تھی اور دوسرا، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، ایک ایسا الہی معاشرہ جس کا انتظام حکومت علوی کے تحت چلایا جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام پر اپنی امامت کے دوران ایک دوسرا فریضہ، واقعۂ عاشورا کو زندہ رکھنے کا بھی تھا اور یہ بھی ایکی درس ہے۔ واقعۂ عاشورا، ایسا واقعہ تھا جو اس لیے رونما ہوا تاکہ تاریخ، آئندہ نسلیں اور آخری زمانے تک کے مسلمان اس سے درس حاصل کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی
قوم اس بات پر توجہ رکھے کہ اسلام کے دشمن اور آپ کے ملک کے دشمن ہر راستے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ راستے آپ نے دیکھے ہی ہیں کہ واضح ہے کہ وہ سازشیں کریں گے اور مثال کے طور پر ہنگامے مچائيں گے، بلوے کریں گے اور آپ یہ سب جانتے ہیں۔ ایک دوسرا راستہ جو اس وقت ان کی نظروں میں ہے، یہ ہے کہ ان مراکز کو، جو علمائے دین اور قوم کے رابطے سے جڑے ہوئے ہیں، کمزور کر دیں اور رفتہ رفتہ ختم کر دیں۔ مساجد سے امور چلائے جانے چاہیے۔ یہ مساجد ہی تھیں جنھوں نے ہماری قوم کے لیے اس فتح کو فراہم کیا، ہماری فتح مساجد کا انتظام چلانے کے لیے ہے، یہ وہ مراکز ہیں جو حقیقت اسلام کے فروغ کے لیے ہیں، اسلامی فقہ کے فروغ کے لیے ہیں اور یہ مسجدیں ہیں، انھیں خالی نہ رہنے دیجیے۔ یہ ایک سازش ہے کہ وہ رفتہ رفتہ مساجد کو خالی کرانا چاہتے ہیں۔
امام خمینی
11/7/1980
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا، مومن کا وسیلہ، مضطر و بے کس کا سہارا اور علم و قوت کے پرفیض سرچشمے سے کمزور اور نا واقف انسان کے رابطے کا ذریعہ ہے۔ خداوند عالم سے روحانی رابطے اور اس بے نیاز کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر انسان اپنی زندگي میں سرگرداں ہی رہے گا اور اس کی زندگي بے کار گزر جائے گي: "قل ما یعبؤا بکم ربیّ لولا دعاؤکم"(سورۂ فرقان، آيت 77) اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔
بہترین دعا وہ ہے جو خدا کی عاشقانہ معرفت اور انسان کی ضرورتوں کی عارفانہ بصیرت کے ساتھ کی گئي ہو اور یہ چیز صرف رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے پاکیزہ اہلبیت کے مکتب میں، جو پیغمبر کے علم کے ظروف اور ان کی حکمت و معرفت کے وارث ہیں، پائي جا سکتی ہے۔ بحمد اللہ ہمارے پاس اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کا لافانی ذخیرہ ہے جس سے انس معرفت، کمال، محبت اور پاکیزگي عطا کرتا ہے اور انسان کو آلودگیوں سے پاک رکھتا ہے۔
ماہ شعبان کی ماثورہ مناجات – جس کے بارے میں روایت ہے کہ اہلبیت علیہم السلام اسے کبھی ترک نہیں کرتے تھے – ان دعاؤں میں سے ایک ہے، جن کا عارفانہ لہجہ اور فصیح و دلنشیں زبان انتہائي اعلی مضامین اور اعلی معارف سے سرشار ہے اور اس کی مثال عام زبانوں اور بول چال میں ڈھونڈھی نہیں جا سکتی بلکہ بنیادی طور پر اس زبان میں یہ دعا کی ہی نہیں جا سکتی۔
یہ مناجات، اپنے معبود، اپنے محبوب اور پروردگار عالم کی مقدس ذات سے خدا کے سب سے برگزیدہ بندوں کی دعا، التجا، منت اور عاجزی کا ایک کامل نمونہ ہے۔ یہ معارف کا درس بھی ہے اور خدا سے مومن انسان کی التجا اور درخواست کا نمونہ بھی ہے۔
وہ پندرہ مناجاتیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئي ہیں، اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کی واضح خصوصیات تو رکھتی ہی ہیں، ساتھ ہی ان کی ایک نمایاں صفت یہ بھی ہے کہ انھیں ایک مومن انسان کے مختلف حالات کی مناسبت سے بیان کیا گيا ہے۔
خداوند عالم ان مبارک کلمات کی برکت سے سبھی کو فیض حاصل کرنے اور اپنے نفس کی تعمیر کی توفیق عطا کرے۔
امام خامنہ ای
22 دسمبر 1990
آیات و روایات وغیرہ کی رو سے میرے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت ایک ہوا ہے جو گھر کی فضا میں رچی بسی ہوئي ہے یعنی جس طرح آپ سانس لیتے ہیں تو اگر ہوا نہ ہو تو سانس لینا ممکن نہیں ہے، عورت اسی ہوا کی طرح ہے، گھر کی عورت اس ماحول میں سانس کی طرح ہے۔ یہ جو روایت میں کہا گيا ہے: "اَلمَراَۃُ رَیحانَۃٌ وَ لَیسَت بِقَھرَمانَۃ" وہ یہیں کے لیے ہے، گھرانے کے لیے ہے۔ ریحانہ کا مطلب ہے پھول، عطر، خوشبو، وہی ہوا جو فضا میں بس جاتی ہے۔ عربی زبان کا 'قہرمان' - لیست بقھرمانۃ" - فارسی زبان کے قہرمان کے معنی سے الگ ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں مزدور یا کام کرنے والا، عورت ایک قہرمانہ نہیں ہے۔ گھر میں ایسا نہیں ہے کہ آپ سوچیں کہ آپ نے شادی کر لی ہے تو سارے کام عورت کے کندھوں پر ڈال دیجیے، جی نہیں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئي کام کرنا چاہتی ہے تو کوئي بات نہیں۔
امام خامنہ ای
4/1/2023
تمام مسلمان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اولیائے خدا سے مروی معتبر احادیث کی بنیاد پر مہدئ موعود کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت، عالم اسلام میں کہیں بھی ہماری قوم اور شیعوں کی طرح اتنی نمایاں نہیں ہے اور اس کا ایسا درخشاں چہرہ اور ایسی دھڑکتی ہوئي اور پرامید روح بھی کہیں اور نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی متواتر روایات کی برکت سے، مہدئ موعود کو ان کی خصوصیات کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ہمارے لوگ، اللہ کے اس عظیم الشان ولی اور زمین پر اس کے جانشین کو اور اسی طرح اہلبیت پیغمبر کے دوسرے افراد کو ان کے نام اور خصوصیات سے پہچانتے ہیں، جذباتی اور فکری لحاظ سے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، گلے شکوے کرتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں اور اس آئيڈیل زمانے – انسانی زندگي پر اللہ کے اعلی اقدار کی حکمرانی کے زمانے– کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار کی بہت زیادہ قدروقیمت ہے۔ اس انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کا وجود، انتظار کرنے والوں کے دلوں سے امید ختم نہیں کر پاتا۔ اگر اجتماعی زندگي میں یہ امید کا مرکز نہ ہو تو انسان کے پاس اس بات کے علاوہ کوئي دوسرا چارہ نہیں ہے کہ وہ انسانیت کے مستقبل کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا رہے۔
امام خامنہ ای
9/12/1992
ماہ شعبان بہت اہم مہینہ ہے؛ اَلَّذى کانَ رَسولُ اللَہِ صَلَّى اللَہُ عَلَیہِ وَ آلِہِ یَداَبُ فى صیامِہِ وَ قیامِہِ فى لَیالیہِ وَ اَیّامِہِ بُخوعاً لَکَ فى اِکرامِہِ وَ اِعظامِہِ اِلىٰ مَحَلِّ حِمامِہ. (اے خدا! یہ ماہ شعبان وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول خدا اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں قیام کیا کرتے تھے۔ تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے۔) پیغمبر اپنی عمر کے آخری دنوں تک اس مہینے میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ "فَاَعِنّا عَلَى الاِستِنانِ بِسُنَّتِہِ فیہ" (تو اس مہینے میں ان کی سنت کی پیروی کی ہمیں توفیق دے۔) خود وہ زبردست مناجات بھی جو اس مہینے کے لیے نقل ہوئي ہے (مناجات شعبانیہ)، اس ماہ کی عظمت کی گواہ ہے۔ ایک بار میں نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ جو دعائیں ہیں، ان کے درمیان آپ کس دعا کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا کس دعا سے زیادہ مانوس ہیں؟ مجھے اپنے جملے بعینہ یاد نہیں ہیں لیکن ایسا ہی کچھ سوال کیا تھا۔ انھوں کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ اتفاق سے یہ دونوں دعائيں، دعائے کمیل بھی واقعی ایک بہت ہی زبردست مناجات ہے، معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعض فقرے تو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں۔ خود یہ دعا بھی واقعی ایک نعمت ہے۔ اِلٰہی ھَب لی قَلباً یُدنیہِ مِنکَ شَوقُہُ وَ لِساناً یَرفَعُ اِلَیکَ صِدقُہُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُہُ مِنکَ حَقُّہ. (اے میرے معبود! مجھے ایسا دل عطا کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے، اور ایسی زبان جس کی سچائی اسے تیری جانب اوپر لے آئے اور ایسی نگاہ جس کی حقانیت اسے تیرے دائرہ قرب میں داخل کرے۔) واقعی خداوند متعال سے اس طرح بات کرنا، اپنی حاجت بیان کرنا، حق تعالی کے حضور اپنا اشتیاق ظاہر کرنا، بہت غیر معمولی چیز ہے، بہت عظیم ہے؛ یا یہ فقرہ کہ "اِلٰہی بِکَ عَلَیکَ اِلّا اَلحَقتَنى بِمَحَلِّ اَہلِ طاعَتِکَ وَ المَثوَى الصّالِحِ مِن مَرضاتِک" (اے میرے معبود! تجھے تیری ذات گرامی کا واسطہ! مجھے اپنے مطیع بندوں کے مرتبے اور اپنی خوشنودی کے نتیجے میں شائستہ منزلت تک پہنچا دے۔) یا یہ فقرہ جو اس دعا کا نقطۂ عروج ہے اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بار بار اپنے بیانوں میں دوہراتے تھے کہ "اِلٰہى ھَب لى کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِھا اِلَیکَ حَتَّى تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور. (اے میرے معبود! تیرے علاوہ تمام مخلوقات سے دور ہونے اور ان سے امید منقطع کرنے میں مجھے ایسا کمال عطا فرما کہ میں مکمل طور پر تجھ تک پہنچ سکوں اور ہمارے دلوں کی بصارتوں کو اپنی طرف مکمل توجہ کے نور سے روشنی عطا کرتے رہنا، یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔) واقعی ہم لوگ کس طرح یہ باتیں کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے سامنے تو یکے بعد دیگرے ظلمتوں کے پردے ہیں؛ جبکہ اس دعا میں درخواست یہ کی گئي ہے کہ حَتَّى تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور (یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔)
امام خامنہ ای
10 مارچ 2022
یہ شعبان کا مہینہ ہے، توسل، دعا اور تدبر کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ مبارک رمضان کا مقدمہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں پڑھی جانے والی خاص دعاؤں میں ہمارے لئے سعادت و خوش بختی کا راستہ روشن اور نمایاں ہے۔ اے پروردگار مجھے وہ دل عنایت کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے، ایسی زبان عطا کر جس کی صداقت تیری سمت بلند ہو، اور ایسی نظر دے جس کی درستگی اسے دیرے پاس لے جائے۔... اے میرے اللہ مجھے تیری بارگاہ کی طرف مکمل توجہ کی توفیق دے۔ (مناجات شعبانیہ کے فقرے) یہ اولیائے خدا کی اعلی و ارفع آرزوئیں ہیں جو الفاظ کے قالب میں ہمیں سکھائی گئی ہیں تا کہ ہمارے ذہنوں کی رہنمائی ہو ان اہداف کی جانب جن کا مطالبہ کیا جانا چاہئے، اس راستے کی جانب جس پر گامزن ہونا چاہئے، رابطے کی اس نوعیت کی جانب جو اللہ اور بندے کے رابطے میں ہونی چاہئے۔
امام خامنہ ای
7 مئی 2017
ایک ایسی قوم کے لیے جس نے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان ہتھیلی پر رکھ کر قیام کیا تھا اور اس کا قائد ایک عالم ربانی اور پیغمبروں کا جانشین تھا، مغربی نظام آئيڈیل نہیں بن سکتا تھا۔ تو ہم نے آئيڈیل نہ تو مشرقی حکومتوں سے لیا اور نہ ہی مغربی حکومتوں سے بلکہ ہم نے اسلام سے آئيڈیل حاصل کیا اور ہمارے عوام نے اسلام کی شناخت کی بنا پر اسلامی نظام کو منتخب کیا۔ ہمارے عوام نے اسلامی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، وہ احادیث و روایات سے آشنا تھے، قرآن سے آشنا تھے، انھوں نے مجالس میں شرکت کی تھی، پچھلی حکومت میں وہ جتنا بھی تلاش کرتے تھے، اس طرح کے اقدار کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ انقلاب، ان اقدار کے حصول کے لیے تھا۔ اگر ہم ان اقدار کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو میں کہوں گا، اسلام۔ ہماری قوم ان اقدار کی متلاشی تھی جو سب کی سب اسلام میں ہیں۔
امام خامنہ ای
21/4/2000
رضا خان کے کارندوں نے حجاب ختم کرنے کی جو سازش شروع کی تھی، اس کی تلخی اب بھی مجھے یاد ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے ان محترم خواتین کے ساتھ کیا کیا، معاشرے کے دیگر تمام طبقوں کے ساتھ کیا کیا؟ یہ لوگ تاجروں کو، دکانداروں کو، علمائے دین کو، جہاں بھی ان کا زور چلتا تھا، سب کو مجبور کرتے تھے کہ پارٹی رکھو اور اپنی عورتوں کو پارٹی میں لے کر آؤ، عمومی پارٹیوں میں لے کر آؤ۔ پھر اگر یہ لوگ مخالفت کرتے تھے تو انھیں زدوکوب کیا جاتا تھا، باتیں سنائي جاتی تھیں، ہر طرح کی باتیں ہوتی تھیں۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ عورتوں کو جوانوں کی تفریح کا سامان بنا دیں تاکہ جوان اہم کاموں میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ انھوں نے بے راہ روی کے مراکز قائم کر رکھے تھے اور تہران سے لے کر تجریش کے آخر تک سیکڑوں ایسے اڈے تھے جہاں عیاشی کی جاتی تھی، یہ سب زنانہ مراکز تھے اور اسی لیے ہمارے جوان، کلیدی مسائل پر، جن پر انھیں توجہ دینی چاہیے تھی، بالکل بھی توجہ نہیں دیتے تھے۔
امام خمینی
10/9/1980
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 فروری 2023 کو ستائیس رجب عید بعثت پیغمبر کی مناسبت سے ملک کے اعلی عہدیداروں اور اسلامی ملکوں کے سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے بعثت پیغمبر کو بے مثال خزانوں کا سرچشمہ قرار دیا۔ آپ نے عالم اسلام کے کلیدی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو کی۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
بعثت کا دن اور بعثت کی رات، وہ دن اور وہ رات ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو، جو خداوند عالم کے سب سے عظیم بندے ہیں، عالم وجود کا سب سے بڑا تحفہ عطا کیا گيا، جسے مبعث کی شب کی دعا میں "التجلی الاعظم" سے تعبیر کیا گيا ہے۔
قرآن مجید میں کئي جگہ، بعثت کے اہداف میں سب سے پہلے اخلاق اور تزکیۂ نفس کا ذکر کیا گيا ہے۔ ھُوَ الَّذی بَعَثَ فِی الاُمِّيّينَ رَسولاً مِنھُم يَتلوا عَلَيہِم آياتِہِ وَ يُزَكّيھِم پہلے تزکیہ ہے؛ اسی طرح دوسری آیتوں میں: لَقَد مَنَّ اللَّہُ عَلَى المُؤمِنينَ اِذ بَعَثَ فيھِم رَسولاً مِن اَنفُسِھِم يَتلوا عَلَيھِم آياتِہِ وَ يُزَکّيھِم. قرآن میں کئي اور جگہیں ہیں جہاں تزکیے کو بعثت کا ہدف و غایت، مقرر کیا گيا ہے؛ بعثت کے اہداف میں سر فہرست تزکیہ ہے۔
بعثت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت نے اس چیز کو عملی جامہ پہنایا جو ناممکن نظر آ رہی تھی، محال لگ رہی تھی، وہ کیا چیز تھی؟ وہ یہ تھی کہ اس نے جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگوں کو، میں ابھی یہ عرض کروں گا کہ ان کی خصوصیات کیا تھیں، مسلم امہ جیسی ایک بافضیلت قوم میں تبدیل کر دیا اور وہ بھی خود پیغمبر کے زمانے میں؛ یہ چیز عام نظروں سے ناممکن دکھائي دیتی ہے؛ جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگ، بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے کچھ خصوصیات کے حامل تھے جن میں سے بعض کا ذکر نہج البلاغہ میں ہے اور بعض کا تاریخ میں ہے؛ گمراہ، سرگرداں، بے ہدف، بری طرح جہالت میں مبتلا، بڑے بڑے فتنوں میں مبتلا، تعصب اور بڑی جہالتوں کی وجہ سے شروع ہونے والے فتنے، ان ساری صفات کے علاوہ لاعلمی، معرفت کا فقدان، ذرہ برابر بھی اخلاق کا نہ ہونا، کسی ہدف کا نہ ہونا اور اس کے باوجود بری طرح سے گھمنڈی، بہت زیادہ تشدد پسند، حق کو تسلیم نہ کرنے والے، اڑیل اور ہٹ دھرم، یہ جزیرۃ العرب، مکے اور اس وقت موجود دوسری جگہوں کے لوگوں کی صفات تھیں۔ ان کے بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک اور سرداروں سے لے کر ماتحتوں تک میں یہ باتیں پائي جاتی تھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختصر سی مدت میں انہی لوگوں کو ایسی قوم میں بدل دیا جو پوری طرح سے متحد تھی۔ آپ پیغمبر کے زمانے کے مسلمانوں کو دیکھیے، چاہے اس وقت کے ہوں جب وہ مدینے تک محدود تھے اور چاہے اس وقت کے ہوں جب مکے، طائف اور بعض دوسری جگہوں تک پھیل گئے تھے، متحد، بافضیلت، عفو و درگزر سے کام لینے والے، قربانی دینے والے اور اعلی ترین فضائل کے حامل تھے۔ پیغمبر نے انہی لوگوں کو، اس طرح کے انسانوں میں بدل دیا؛ یہ بظاہر ناممکن تھا، یہ چیز کسی بھی حساب کتاب سے ممکن نہیں لگتی تھی کہ ایک مختصر سی مدت میں اس طرح کی اخلاقی عادتوں اور خصوصیات کے حامل یہی لوگ، جب اسلام قبول کر لیتے ہیں تو بیس سال سے بھی کم عرصے میں ان کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگتا ہے، انھوں نے اپنے مشرق کی طرف سے، اپنے مغرب کی طرف سے، اپنی سوچ کو، اپنے نظریے کو اور اپنی عظمت کو پھیلا دیا، آج کل کی اصطلاح میں ہارڈ ویئر کے پہلو سے بھی اور سافٹ ویئر کے زاویے سے بھی اسے فروغ دیا۔ یہ وہ کام تھا جو اسلام نے انجام دیا اور واقعی یہ ناممکن کام تھا، ناممکن دکھائي دے رہا تھا لیکن اسلام نے اسے کر دکھایا؛ بعثت نے اسے عملی جامہ پہنا دیا۔
تو یہ وہ واقعہ ہے جو تاریخ میں رونما ہوا لیکن ہم آج اس واقعے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس معنی میں کہ یہ پوری تاريخ میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک بشارت ہے کہ جب بھی لوگ، اللہ کے ارادے کی سمت میں، اس کی راہ میں آ جائيں اور الہی ارادے کے تابع ہو جائيں تو وہ ایسے ایسے کام انجام دے سکتے ہیں جو ناممکن دکھائي دیتے ہیں، ایسے اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نظروں سے اور معمولی اندازوں سے انسان کی دسترس سے باہر معلوم پڑتے ہیں، ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ پوری تاریخ میں یہ نبوی تجربہ دوہرائے جانے کے لائق ہے؛ اگر انسان، اس سمت میں آ جائیں تو وہ ایسے اعلی اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نگاہوں سے اور عام اندازوں سے ناممکن نظر آتے ہیں۔
امام خامنہ ای
1 مارچ 2022
اسلام میں کام کے طریقے بہت اہم ہیں، یہ طریقے، اقدار کی طرح ہیں۔ اسلام میں جس طرح سے اقدار کی بہت اہمیت ہے، اسی طرح کام کے طریقوں کی بھی اہمیت ہے اور اقدار، ان طریقوں میں بھی دکھائي دینے چاہیے۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت، حقیقی معنی میں اسلامی ہو تو ہمیں بغیر کسی رو رعایت کے اسی راہ پر آگے بڑھنا چاہیے۔ مختلف شعبوں کے عہدیداروں، مجریہ، عدلیہ، مقننہ، اوسط درجے کے عہدیداروں سبھی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کاموں اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے صحیح اور اخلاقی طریقہ استعمال کریں۔ اس طریقے کا استعمال ممکن ہے بعض جگہوں پر طاقت کے حصول کے لحاظ سے ناکامیوں اور پریشانیوں کا سبب بنے لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ اسلام کی نظر میں اور امیرالمومنین کی نظر میں، غیر اخلاقی طریقوں کا سہارا لینا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے۔ علی علیہ السلام کا راستہ یہ ہے اور ہمیں اسی طرح آگے بڑھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
16/3/2001
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 18 فروری 1978 کے اہل تبریز کے تاریخی قیام کی سالگرہ کی مناسبت سے شہر تبریز اور صوبہ مشرقی آذربائیجان کے لوگوں سے ملاقات میں، اس قیام کی اہمیت بیان کی اور ساتھ ہی اس علاقے کے عوام کی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی۔ 15 فروری 2023 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی حالات کا جائزہ لیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
8 فروری 1979 کو فضائیہ کے ایک دستے نے امام خمینی کی بیعت کی جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب کی تیز رفتار تحریک کو مہمیز ملی۔ اسی دن کی مناسبت سے 8 فروری 2023 کو فوج کی فضائیہ اور ایئر ڈیفنس کے کمانڈروں اور جوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی حامنہ ای سے ملاقات کی۔ رہبر انقلاب نے اس گفتگو کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ کی مسلح فورسز کے اندر آنے والی عظیم تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے:
اسلام کے دشمن اور ایران کے دشمن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک سال، دو سال یا پانچ سال بعد عوام تھک جائیں گے، انہیں یاد بھی نہیں رہے گا، وہ انقلاب سے کنارہ کشی کر لیں گے، چنانچہ دنیا کے بہت سے انقلابوں کے سلسلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بہت سے انقلابوں میں ایسا ہوا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ تمام انقلابوں میں یہ صورت حال پیش آئی۔ یہ تمام انقلاب جو گزشتہ دو سو سال اور ڈھائی سو سال کے عرصے میں رونما ہوئے، جہاں تک مجھے علم ہے، یہی حالات ہوئے۔ تھوڑا وقت گزرا تو جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا، انقلاب کی لہر بیٹھ گئی اور سب کچھ پہلے والی حالت پر لوٹ گیا۔
امام خامنہ ای
3/6/2014
عوام نے دکھا دیا کہ وہ دشمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ البتہ دشمن، میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، جھوٹی بھیڑ، جعلی مجمع، آپ دشمن کے مختلف ذرائع ابلاغ میں دیکھتے ہی ہیں، وہ اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ غافل اور بے خبر انسان محسوس کرتا ہے کہ واقعی کچھ ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جو چیز نمایاں اور عظیم ہے وہ انقلاب کی خدمت میں اور انقلابی میدانوں میں عوام کی موجودگي ہے۔
امام خامنہ ای
19/11/2022