رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اصفہان میں 16 نومبر 1982 کے عظیم واقعے، عوام کے ایثار اور محرم آپریشن کے شہداء کے جلوس جنازہ کی سالگرہ کے موقع پر اصفہان کے لوگوں کے ایک اجتماع سے خطاب میں اصفہان علمی و مجاہدانہ ماضی کا ذکر کیا۔ 19 نومبر 2022 کو آپ نے اس خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران اور سامراجی طاقتوں کے مابین مقابلہ آرائی کے مختلف پہلوؤں اور ایران کے بعص شہروں میں ہونے والے ہنگاموں کے بارے میں اہم نکات پیش کئے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اصفہان سے ملاقات کے لئے آنے والے مختلف عوامی طبقات کے اجتماع سے خطاب میں ملت ایران سے امریکہ کی سرکردگی میں سامراج کی دشمنی کی وجوہات بیان کیں۔
بحمد اللہ اس وقت انتظار کے موضوع پر عالمانہ انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔ انتظار کے مسئلے میں باریک بینی کے ساتھ عالمانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عامیانہ اور جاہلانہ باتوں سے بہت سختی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو چیزیں خطرناک ہو سکتی ہیں ان میں یہی عامیانہ، جاہلانہ، معرفت سے عاری اور معتبر سند کے بغیر امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلے میں بحث کرنا ہے۔ کیونکہ اس طرح مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کے لئے زمین ہموار ہوتی ہے۔ غیر عالمانہ، غیر معتبر، پختہ دلائل اور سند سے عاری بحث در حقیقت وہم و خیال ہے۔ اس طرح کی باتیں لوگوں کو حقیقی انتظار سے دور کر دیتی ہیں اور دجال صفت دروغگو لوگوں کے لیے راستہ کھل جاتا ہے۔ لہذا ان باتوں سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
صوبہ قم کے شہیدوں پر سیمینار کے منتظمین نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی اور اپنے پروگراموں کی تفصیلات سے رہبر انقلاب اسلامی کو آگاہ کیا۔ اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے قم، شہید، شہادت، شہید کے ذکر اور اس کے پیغام جیسے موضوعات پر بصیرت افروز گفتگو کی۔ رہبر انقلاب اسلامی کی یہ تقریر آج 17 نومبر 2022 کو سیمینار میں دکھائی گئی۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے:
انقلابوں سمیت تمام بڑی سماجی تبدیلیوں کا اصل چیلنج، اس انقلاب یا اس تبدیلی کے اصلی اہداف اور پالیسیوں کا تحفظ ہے۔ یہ ہر اس بڑی سماجی تبدیلی کے سامنے موجود سب سے بڑا خطرہ ہے، جس کے کچھ اہداف ہیں اور وہ ان اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسروں کو دعوت دے رہی ہے۔ یہ اہداف اور یہ بنیادی پالیسیاں محفوظ رہنی چاہیے۔ اگر کسی انقلاب میں، کسی سماجی تحریک میں اہداف کی سمت آگے بڑھنے کے عمل کی حفاظت نہ ہو اور وہ محفوظ نہ رہے تو وہ انقلاب، خود اپنی ضد میں تبدیل ہو جائے گا، اپنے اہداف کی مخالف سمت میں بڑھنے لگے گا ... اس انحراف اور بنیادی پالیسیوں سے دوری کو روکنے کے لیے، کچھ طے شدہ معیاروں اور کسوٹیوں کی ضرورت ہے۔ راستے میں کچھ کسوٹیاں ہونی چاہیے ... خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سب سے بڑی کسوٹیوں میں سے ایک ہیں۔ امام خمینی کا رویہ اور کردار، ان کے اقوال، بحمد اللہ ان کے بیانات ہماری دسترس میں ہیں، اکٹھا کر دیے گئے ہیں، ان کا وصیت نامہ، انقلاب کے مستقبل کے لیے امام خمینی کے مکمل لائحۂ عمل کی تشریح کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
4/6/2010
ایسا نہیں ہے کہ جب ہم وہاں (امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے زمانے میں) پہنچیں گے تو دفعتا ایک تیز حرکت ہوگي اور پھر وہ رک جائے گی۔ نہیں، وہ جگہ ایک راستہ ہے۔ در حقیقت کہنا چاہیے کہ انسان کی اصلی زندگی اور اس کی مطلوبہ حیات کا وہیں سے آغاز ہوگا اور تب انسانیت اس راستے پر اپنے سفر کا آغاز کرے گی جو صراط مستقیم ہے اور اسے اس کی تخلیق کے مقصد تک پہنچائے گا، "انسانیت" کو پہنچائے گا، بعض انسانی گروہوں کو نہیں، کچھ انسانوں کو نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو۔
امام خامنہ ای
11/6/2014
انقلاب کی کامیابی کے بعد، امریکا سے ہمارے تعلقات، ہماری جانب سے منقطع نہیں ہوئے۔ یعنی ایرانی قوم نے محکم پوزیشن میں پہنچ جانے کے بعد بھی اپنی ماضی کی مظلومیت کو نظر انداز کیا اور امریکی حکومت کو معاف کر دیا لیکن امریکی حکومت نے ایرانی قوم اور انقلاب کی اس عظمت و فراخدلی کو نظر انداز کر دیا۔ امریکیوں نے پہلے دن سے سازشیں تیار کرنا اور دشمنی برتنا شروع کر دیا۔ آج امریکی، جب امریکی حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیان دشمنی کی تاریخ بیان کرنا چاہتے ہیں تو سفارتخانے کے معاملے سے شروع کرتے ہیں۔ جبکہ اس کی تاریخ وہاں سے شروع نہیں ہوتی ہے، امریکی حملے، ان کی جانب سے پیٹھ میں خنجر گھونپنا، غداری کرنا، بغاوت کروانا، شہید نوژہ چھاؤنی میں بغاوت کا معاملہ اور اسی طرح کے دوسرے معاملے لگاتار اسلامی جمہوریہ کے خلاف مسلط کردہ جنگ تک جاری رہے۔ ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایرانی قوم، ان اقدامات اور ان مظالم کے مقابلے میں اس طرح ڈٹ کر کھڑی ہے۔
امام خامنہ ای
16 جنوری 1998
حقیقت انتظار میں ایک اور خصوصیت شامل کر دی گئی ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ انسان موجودہ صورت حال پر، اس وقت تک حاصل ہونے والی پیشرفت پر ہی قانع نہ ہو جائے بلکہ روز بروز اس ترقی میں اضافہ، ان حقائق اور روحانی و معنوی صفات کو اپنے اندر اور معاشرے کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ انتظار کی لازمی باتیں ہیں۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے پرہیزگار عالم دین حجۃ الاسلام و المسلمین عباس علی اختری کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب کے تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 13 آبان مطابق 4 نومبر کے یادگار دن کی مناسبت سے بدھ 2 نومبر کو طلبہ سے اپنے خطاب میں ایران میں 4 نومبر کی تاریخ کی اہمیت کو بیان کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے معروضی حالات، استکباری قوتوں کی روش اور نئے عالمی نظام کے سلسلے میں رہنما نکات بیان کئے۔ چار نومبر کو ایران میں طلبہ کے دن اور عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
اسلامی جمہوریہ، اس وقت حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ ہے جب وہ امام خمینی کے ٹھوس نظریات کی سمت میں سنجیدگي سے بڑھے، وہی چیزیں جو ان کی پاکیزہ حیات میں پیش کی گئي تھیں، جو نعروں کی صورت میں سامنے تھیں۔ ہم جہاں بھی ان نعروں کے ساتھ آگے بڑھے، ہم نے ترقی کی، ہمیں فتح حاصل ہوئي، سربلندی حاصل ہوئي، دنیوی فائدے بھی حاصل ہوئے۔ جہاں بھی ہم نے ان نعروں سے پسپائي اختیار کی اور تساہلی سے کام لیا، وہاں ہم نے میدان دشمن کے ہاتھوں میں دے دیا، ہم کمزور ہو گئے، ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا، ہمیں عزت حاصل نہیں ہوئي، دشمن زیادہ جری ہو گيا، وہ زیادہ آگے بڑھ آيا، مادی لحاظ سے بھی ہم نے نقصان اٹھایا ... اسلامی نظام کو حقیقی معنی میں، اسلامی ہونا چاہیے اور روز بروز اسلام کی بنیادی تعلیمات سے زیادہ قریب ہونا چاہیے، یہی چیز بند گرہوں کو کھولے گي، مشکلات کو حل کرے گي، یہی چیز معاشرے کو عزت و طاقت عطا کرے گي۔
امام خامنہ ای
11/9/2009
بشر کو اس انتظار کی ضرورت ہے اور امت اسلامیہ کو تو بدرجہ اولی اس کی احتیاج ہے۔ یہ انتظار انسان کے دوش پر کچھ فرائض ڈال دیتا ہے۔ جب انسان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کا مستقبل آنے والا ہے، چنانچہ قرآن کی آیات میں بھی اس کا ذکر ہے "و لقدكتبنا فى الزّبور من بعد الذّكر انّ الارض يرثھا عبادى الصّالحون. انّ فى ھذا لبلاغا لقوم عابدين" (اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ بےشک اس میں عبادت گزار لوگوں کے لیے بڑا انعام ہے۔ سورۂ انبيا، آيات 105 و 106) جو لوگ بندگی پروردگار سے مانوس ہیں، سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ خود کو آمادہ کریں، منتظر رہیں اور نظر رکھیں۔ انتظار کا لازمہ ہے خود کو آمادہ کرنا۔ اگر ہمیں علم ہے کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے اور ہم اس کے منتظر ہیں تو کبھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ابھی تو بڑا طویل عرصہ باقی ہے اس واقعے کے رونما ہونے میں اور نہ ہی ہم یہ کہیں گے کہ یہ واقعہ بالکل نزدیک ہے اورعنقریب رونما ہونے والا ہے۔ ہمیں ہمیشہ منتظر رہنا ہوگا، ہمیشہ نظر رکھنی ہوگی۔ انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اسی وضع قطع میں ڈھالے اور وہی اخلاق و انداز اختیار کرے جو اس زمانے کے لئے مناسب ہے جس کا اسے انتظار ہے۔ یہ انتظار کا لازمہ ہے۔ جب اس زمانے میں عدل و انصاف کی بالادستی قائم ہونے والی ہے، حق کا بول بالا ہونے والا ہے، توحید و اخلاص و عبودیت پروردگار کا پرچم لہرانے والا ہے، ان خصوصیات کا حامل دور آنے والا ہے اور ہم جو اس کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں تو خود کو ان صفات سے متصف کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں چاہئے کو عدل و انصاف کے حامی بنیں، خود کو انصاف کے لئے تیار کریں، خود کو حقانیت تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انتظار اس طرح کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شیراز میں حضرت احمد ابن موسی کاظم علیہ السلام المعروف بہ شاہچراغ کے روضے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد ایک پیغام جاری کیا ہے۔پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
ہماری قوم جیسی قوم، جس کے پاس نہ ایٹم بم ہے، نہ علمی و سائنسی لحاظ سے اسے پچھلے سو برس میں اس بات کا موقع دیا گيا ہے کہ وہ آگے بڑھنے والے سائنسی کارواں کے قدم سے قدم ملا کر چل سکے اور زیادہ تر موقعوں پر وہ پیچھے ہی رہی ہے، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی وہ ان دولتمند ممالک تک نہیں پہنچ پائي لیکن اس کے باوجود یہ ملک اور یہ قوم، ہتھیار، ٹیکنالوجی، مادی دولت اور میڈیا کی طاقت سے لیس تمام طاقتور ممالک کی سازشوں کو ناکام بنانے، اہم ترین میدانوں میں انھیں پسپائی پر مجبور کرنے اور شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ سوچنے اور غور کرنے کے لائق ہے۔ سیاسی و سماجی علوم کے دانشوروں کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ انھیں دیکھنا چاہیے کہ روحانیت کا یہ کردار کس طرح خود کو نمایاں کرتا ہے، جیسا کہ اس نے آج خود کو ایران میں نمایاں کیا ہے۔ بنابریں اس منظر کو عبرت حاصل کرنے اور سبق حاصل کرنے کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ منظر، امریکا کی سامراجی طاقت کی شکست کا منظر ہے۔ ہم بے بنیاد دعوی نہیں کرنا چاہتے، نہیں، یہ بہت واضح چیزیں ہیں اور وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
انتظار کا مسئلہ بھی مہدویت کے عقیدے کا لازمی جز ہے اور یہ بھی منزل کمال کی سمت امت مسلمہ کی عمومی و اجتماعی حرکت اور حقیقت دین کو سمجھانے میں بنیادی حیثیت رکھنے والے مفاہیم میں ہے۔ انتظار یعنی توجہ، انتظار یعنی ایک یقینی حقیقت پر نظر رکھنا۔ یہ ہے انتظار کا مفہوم۔ انتظار یعنی یہ مستقبل جس کے ہم منتظر ہیں یقینی ہے۔ بالخصوص اس لیے بھی کہ یہ انتظار ایک جیتے جاگتے انسان کا انتظار ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص پیدا ہونے والا ہے، منصۂ وجود پر آنے والا ہے۔ نہیں، وہ ایسی ہستی ہے جو موجود ہے، لوگوں کے درمیان موجود ہے۔ روایتوں میں منقول ہے کہ لوگ انہیں دیکھتے ہیں اور حضرت بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پہچانتے نہیں۔ بعض روایات میں حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی انھیں دیکھ رہے تھے حضرت یوسف ان کے سامنے تھے، ان کے قریب جاتے تھے لیکن وہ انھیں نہیں پہچان پاتے تھے۔ آپ کا وجود اس طرح کی نمایاں، واضح اور حوصلہ افزاء حقیقت ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 19 اکتوبر 2022 کو ملک کے جینیئس اور ممتاز علمی صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں سے خطاب کیا۔ حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس تقریر میں رہبر انقلاب اسلامی نے ممتاز علمی لیاقت کو اللہ کی نعمت قرار دیا، اس کے بہترین استعمال کے موضوع پر گفتگو کی۔ آپ نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی حیرت انگیز پیشرفت کے مصادیق کا ذکر کیا اور کچھ اہم ہدایات دیں۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
ہم سب چوکنا رہیں کہ اسلامی جمہوری نظام - جو اسلامی نظام ہے، دینی نظام ہے، اس بات پر مفتخر ہے کہ دینی، اسلامی اور قرآنی احکام کے پیرائے میں آگے بڑھنا چاہتا ہے - کبھی ایسے نظام میں تبدیل نہ ہو جائے جس کا دین پر کوئی عقیدہ نہ ہو، بعض حضرات کے بقول سیکولر(دین مخالف) نظام اور ایسا نظام نہ بن جائے جس کا باطن سیکولر (دین مخالف) اور ظاہر دینی ہو، جس کا باطن مغربی ثقافت اور اس ثقافت کی علمبردار طاقتوں پر فریفتہ ہو اور اس کا ظاہر معمولی دینی نعروں اور مذہبی مسائل پر مبنی ہو۔ ایسا نہ ہونے پائے۔ اسلامی نظام حقیقی معنی میں اسلامی ہونا چاہیے اور اسے روز بروز اسلامی اصولوں سے زیادہ قریب اور ہماہنگ ہونا چاہیے۔ یہی چیز عقدہ کشا ہے، یہی چیز مشکلات کو حل کرتی ہے، یہی معاشرے کو عزت و وقار عطا کرتی، یہی پوری دنیا میں اسلامی جمہوری نظام کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔
امام خامنہ ای
11/9/2009
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 12 اکتوبر 2022 کو تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے ارکان سے خطاب میں ملکی و عالمی حالات، اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت اور دیگر کلیدی امور پر گفتگو کی۔ تقریر کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیغمبر ختمی مرتبت اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت اور ہفتۂ وحدت اسلامی کی مناسبت سے 14 اکتوبر 2022 کو اسلامی نظام کے سول و فوجی عہدیداران اور وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں پیغمبر اکرم، حضور کی بعثت، آپ کی تعلیمات، عالم اسلام اور مسلمانوں کے مسائل اور توانائیوں پر گفتگو کی۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
اسلام میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، یعنی یہ صرف شیعوں سے مختص نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سرانجام دنیا میں حضرت مہدی (علیہ الصلاۃ و السلام و عجل اللہ فرجہ) کے ہاتھوں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہوگی۔ مختلف حوالوں سے پیغمبر اسلام اور دیگر عظیم ہستیوں کی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں۔ بنابریں اس میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس درمیان شیعوں کا ایک خاصہ یہ ہے کہ مہدویت کا عقیدہ ان کے یہاں ذرہ برابر ابہام سے دوچار نہیں ہے، ان کے نزدیک ایسا پیچیدہ عقیدہ نہیں ہے جو لوگوں کے لئے قابل فہم نہ ہو۔ یہ بالکل واضح اور عیاں مسئلہ ہے جس کا بالکل واضح مصداق ہے۔ ہم اس مصداق کو جانتے ہیں، اس کی خصوصیات سے ہم واقف ہیں، اس ہستی کے آباء و اجداد سے ہم واقف ہیں، ان کے خاندان کو ہم جانتے ہیں، ان کی تاریخ ولادت ہمیں معلوم ہے، اس کی تفصیلات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس تعارف میں بھی صرف شیعہ علماء کی روایات نہیں ہیں، غیر شیعہ راویوں کی روایات بھی ہیں جو ان علامات کو واضح کرتی ہیں۔ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئے کہ ان روایات پر توجہ دیں تاکہ حقیقت ذہن نشین ہو جائے۔ تو اس عقیدے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں دوسروں سے پہلے خود ہمیں گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں محکم اور مدلل علمی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
جو لوگ امام خمینی سے ٹکرائے، انھوں نے اپنے آپ کو رو سیاہ کر لیا۔ بدبخت ہیں وہ لوگ جنھوں نے صیہونیوں کا دل خوش کرنے، امریکا کو خوش کرنے اور رجعت پسندوں کے پیٹرو ڈالرز سے جیب بھرنے کے لیے حقیقت کو چھپایا اور ہمارے امام خمینی سے ٹکرا گئے۔ روسیاہ ہیں وہ لوگ جو اس مہربان باپ، استاد اور معلم کی مہربان آغوش میں آ سکتے تھے اور ان سے استفادہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی قسمت کو لات مار دی اور ان کے دشمنوں کی آغوش میں چلے گئے۔ یورپ، امریکا، لاطینی امریکا، عراق اور بعض دیگر ملکوں میں بھٹکنے والے اور دربدر پھرنے والے یہ بے چارے، سیہ بخت اور سرگرداں لوگ اور اسی طرح ملک کے اندر موجود بعض لوگ، ایک سمندر کے مقابلے میں قطرہ تھے لیکن وہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ وہ کتنے حقیر ہیں، کتنے چھوٹے ہیں ... مستقبل ان لوگوں کا ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلے۔
امام خامنہ ای
14/7/1989
رہبر انقلاب اسلامی نے 11 ستمبر 2022 کو اسپورٹس کے شعبے کے شہداء پر دوسرے قومی سیمینار کے منتظمین سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں انھوں نے جو تقریر کی تھی وہ آج پیر 10 اکتوبر 2022 کو اس سیمینار میں نشر کی گئي۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریر میں کھیل اور کھلاڑیوں کے اخلاقیات اور سماج میں ان کے اثرات کے بارے میں اہم گفتگو کی۔(1)
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے بااخلاص مذہبی شاعر جناب سید رضا مؤید کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کا تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
ان گزشتہ صدیوں میں انسانی قافلہ مختلف راستوں، دشوار گزار اور سخت وادیوں سے گزرا ہے، مختلف رکاوٹوں اور مشکلوں سے دوچار ہوا ہے، زخمی بدن اور لہولہان قدموں کے ساتھ ان راستوں پر چلا ہے کہ کسی صورت خود کو شاہراہ پر پہنچا دے۔ یہ شاہراہ وہی امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ ظہور کی شاہراہ ہے۔ ظہور کا زمانہ ہی در حقیقت بشر کے ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر مہدویت کا عقیدہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیائے الہی کی تمام تر سعی و کوشش، یہ دعوت حق، یہ بعثت رسل، یہ طاقت فرسا جفاکشی، سب کا سب سعی لاحاصل تھا، بے سود تھا۔ بنابریں مہدویت کا عقیدہ ایک بنیادی معاملہ ہے۔ بنیادی ترین الہی معارف کا جز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ادیان الہی میں جہاں تک ہمیں اطلاع ہے ماحصل اور نصب العین کا درجہ رکھنے والے اس عقیدے کا وجود ہے اور وہی حقیقت میں عقیدہ مہدویت ہے۔ البتہ اس عقیدے کی شکلیں الگ الگ اور تحریف شدہ ہیں، اس میں واضح طور پر اس عقیدے کو بیان نہیں کیا گيا ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
اسلامی خود آگہی نے، عالم اسلام کے قلب میں ایک متحیر کن اور معجزہ نما قوت پیدا کر دی ہے جس کے مقابلے میں سامراجی طاقتیں بری طرح پریشان ہیں۔ اس چیز کا نام 'استقامت' اور اس کی حقیقت، ایمان، جہاد اور توکل کی طاقت کا اظہار ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ایک نمونے کے بارے میں اسلام کے ابتدائي دور میں یہ آیت نازل ہوئي تھی: "الَّذِينَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ. فَانقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللَّہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْہُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ." (وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر اکٹھا کر لیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ تو یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا۔ اور وہ رضائے الہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔سورۂ آل عمران، آیت، 173 اور 174) فلسطین کے میدان میں اس حیرت انگیز چیز کی ایک جھلک نظر آتی ہے جس نے سرکش صیہونی حکومت کو جارحانہ اور رجزخوانی کی پوزیشن سے نکال کر دفاعی اور پسپائي کی حالت میں پہنچا دیا ہے اور اس پر موجودہ بڑی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔
امام خامنہ ای
5/7/2022
خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت اب باہری طاقتوں کی مسلط کردہ باتوں کو ماننے کے لیے مجبور نہیں ہے۔ باہری طاقتیں جو بھی چاہیں، ان کی خواہش کے مطابق انجام پانا چاہیے، اگر انھوں نے آپ کے ملکی مفادات کو بھی قربان کر دیا تو حکومت، خاموش رہے، اگر ملک کے قومی ذخائر پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی تب بھی کوئي کچھ نہ کہے، اگر قوم نے مخالفت کی تو حکومت اسے زد و کوب کرے! پہلوی دور حکومت میں یہی صورتحال تھی جسے ہم نے اپنے پورے وجود اور اپنی روح سے محسوس کیا ہے۔ انقلاب آيا اور اس نے ملک و قوم کو خودمختار بنا دیا۔ آج دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے ملک کے مسائل میں دخل نہیں دے سکتی اور ہمیں کسی کام کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ ملکی حکام دیکھتے ہیں اور جس چیز میں مصلحت سمجھتے ہیں، اسی کو انجام دیتے ہیں۔ قوم، حکام اور عہدیداروں کے کاموں کو دیکھتی ہے اور ان کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے، اگر انھیں پسند کرتی ہے تو ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور اگر پسند نہیں کرتی تو انھیں بدل دیتی ہے، اختیار قوم کے ہاتھ میں ہے۔
امام خامنہ ای
13/2/2004
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 3 اکتوبر 2022 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کے مشترکہ پاسنگ آؤٹ پروگرام میں شرکت کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی کی اہمیت اور اس میں مسلح فورسز کے کلیدی کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ایک نوجوان لڑکی کی موت کے بعد ایران میں ہونے والے فسادات کے تمام اہم پہلوؤں کا جائزہ پیش کیا۔ آپ نے امریکہ و اسرائیل کی سازش کا پردہ فاش کرتے ہوئے عدلیہ اور اداروں کو اہم ہدایات دیں۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر اور رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی موجودگي میں ڈیفنس یونیورسٹیوں کی مشترکہ پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب پیر کے روز تہران کی امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں منعقد ہوئي۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب کا امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں انعقاد، مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی شرکت۔
سابق صدر شہید رجائی اور سابق وزیر اعظم شہید باہنر کے یوم شہادت اور ہفتہ حکومت کی مناسبت سے صدر سید ابراہیم رئیسی نے اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ رہبر انقلاب اسلامی سے 30 اگست 2022 کو ملاقات کی۔ حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے خطاب کرتے ہوئے صدر رئیسی کی حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کے بارے میں کچھ نکات بیان کئے اور چند اہم سفارشات کیں۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ انسانیت نے ان گزشتہ صدیوں کے دوران انبیائے الہی کی تعلیمات کے زیر اثر جو کچھ کیا ہے وہ در حقیقت اس شاہراہ کی جانب بڑھنے کی کوشش ہے جو حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے زمانہ ظہور میں انسانیت کو اعلی اہداف کی جانب لے جائے گی۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے انسانوں کا ایک گروہ پہاڑی راستوں، دشوار گزار پہاڑیوں، دلدلوں، کانٹوں اور رہزنوں سے بھرے راستوں سے کچھ خاص ہستیوں کی تعلیمات کے سہارے آگے بڑھ رہا ہے کہ کسی صورت سے خود کو اس شاہراہ تک پہنچا دے۔ جب یہ کارواں شاہراہ پر پہنچ جائے گا تو پھر راستہ بالکل سیدھا، واضح اور ہموار ہوگا اور اس پر آگے بڑھنا آسان ہوگا۔ کارواں آسودہ خاطر ہوکر اس شاہراہ پر اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ شاہراہ پر پہنچ جانے کے بعد سفر ختم ہو جائے گا۔ جی نہیں، اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد ہی تو اعلی الہی اہداف کی سمت برق رفتاری سے سفر کا آغاز ہونے والا ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
رعب میں آ جانے، ڈر جانے، مضطرب ہو جانے، ذہنی انتشار کے حالات میں انسان کے حتمی نظریات بھی فراموشی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مرعوب ہونے والا انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔ 'ڈر' عقل کو بھی زائل کر دیتا ہے، عزم کو بھی۔ خوفزدہ اور ڈرپوک انسان نہ تو صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے عزم و ارادے پر عمل کر سکتا ہے، وہ مستقل شش و پنج میں رہتا ہے، کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیرالمومنین سے اپنی مشہور وصیت میں فرمایا ہے: "و لا تشاورنّ جبانا لانہ یضیّق علیک المخرج." ڈرپوک انسان سے ہرگز مشورہ نہ لینا کیونکہ وہ بچنے کا راستہ اور امید کا دریچہ تم پر بند کر دے گا۔ جب انسان خوفزدہ نہیں ہوتا تو وہ صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے اور رکاوٹ کو عبور کر سکتا ہے لیکن جب وہ خوفزدہ ہوتا ہے تو "یضیّق علیک المخرج" ادھیڑ بن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہاتھ باندھ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اس لیے سکون و اطمینان بہت اہم ہے۔
امام خامنہ ای
27/5/2003
اس دین کا دائرہ، انسانی زندگي کے ہر شعبے پر محیط ہے، اس کے دل کی گہرائيوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل سے لے کر عالمی مسائل تک اور ہر اس مسئلے تک جس کا انسانیت سے تعلق ہے۔ قرآن مجید میں یہ بات پوری طرح واضح ہے، یعنی اگر کوئي اس بات سے انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے یقینی طور پر قرآن کے بیّنات (واضح احکام و امور) پر توجہ نہیں دی ہے ... مالی احکام میں قرآن مجید ایک جگہ فرماتا ہے: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ اَنفُسِھِمْ وَلَوْ كَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے انھیں خود (اس چیز کی) ضرورت ہو۔ سورۂ حشر، آيت 9) کہ جو ایک ذاتی فعل ہے اور ایک جگہ فرماتا ہے: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَۃً بَيْنَ الاَغْنِيَاءِ (تاکہ وہ (مال) تمھارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔ سورۂ حشر، آيت 7) یہ ثروت کی صحیح تقسیم ہے جو سو فیصد سماجی مسئلہ ہے، یا فرماتا ہے: لیقومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ سورۂ حدید، آيت 25) بنیادی طور پر سبھی انبیاء، اولیاء عدل و انصاف کے قیام کے لیے آئے ہیں، انصاف قائم کرنے کے لیے ... یعنی قرآن مجید، مالی مسائل کے تمام گوشوں اور تمام نکات کو اس بنیادی فکر، بنیادی نظریے اور بنیادی ہدایت کی شکل میں بیان کرتا ہے جن کے لیے عملی طور پر منصوبہ بندی ہونی چاہیے لیکن اس کی سمت اور اساسی نکات وہی ہیں جو قرآن بیان کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسائل پر اسلام کی نظر ہے۔
امام خامنہ ای
24/10/2021
اسلام میں جس طرح سے اقدار کی بہت اہمیت ہے، اسی طرح روشوں کی بھی اہمیت ہے اور اقدار، روشوں میں بھی ظاہر ہونی چاہئیں۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت حقیقی معنی میں اسلامی ہو تو ہمیں کسی بھی طرح رو رعایت کیے بغیر اسی راہ پر آگے بڑھنا ہوگا۔ مختلف شعبوں کے عہدیدار، مجریہ، مقننہ، عدلیہ، اوسط درجے کے عہدیدار ہر کسی کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنے کاموں اور اہداف کی تکمیل کے لیے صحیح اور اخلاقی روش اختیار کرے۔ اس روش سے استفادہ، ممکنہ طور پر کسی جگہ طاقت کے حصول کے لحاظ سے ناکامیاں اور پریشانیاں پیدا کرے لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ اسلام کی نظر میں اور امیرالمومنین علیہ السلام کی نظر میں غیر اخلاقی روشوں کا استعمال کسی بھی صورت میں صحیح نہیں ہے۔ علی (علیہ السلام) کا راستہ یہ ہے اور ہمیں اس طرح آگے بڑھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
16/3/2001
گھرانہ، معاشرے کا اصلی ستون ہے، معاشرے کی اصلی بنیاد ہے۔ اسلامی معاشرہ، نیک، زندہ دل اور پرنشاط گھرانے کی اکائي سے فائدہ اٹھائے بغیر ترقی و پیشرفت کر ہی نہیں سکتا۔ خاص کر ثقافتی میدانوں میں اور غیر ثقافتی میدانوں میں بھی اچھے گھرانوں کے بغیر پیشرفت کا امکان نہیں ہے۔ بنابریں گھرانہ ضروری ہے۔ اب آپ یہ اعتراض نہ کیجیے کہ مغرب میں گھرانہ نہیں ہے، پیشرفت ہے۔ آج مغرب میں گھرانے کی بنیادوں کی تباہی میں جو چیز روز بروز زیادہ نمایاں ہو رہی ہے، اس کا اثر سامنے آئے گا ہی، جلدبازی کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ عالمی واقعات اور تاریخی حادثات ایسے نہیں ہوتے کہ ان کا نتیجہ اور اثر جلدی سامنے آ جائے، یہ تدریجی طور پر اثر ڈالتے ہیں، جیسا کہ اب تک اثر انداز ہوئے ہیں۔ جس وقت مغرب نے یہ ترقی حاصل کی، اس وقت تک وہاں گھرانہ اپنی صحیح جگہ پر موجود تھا۔
امام خامنہ ای
4/1/2012
امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ دینی عقائد اور معارف کی چند اہم ترین بنیادوں میں ایک یہی عقیدہ ہے، جیسے عقیدہ نبوت ہے۔ امام مہدی علیہ السلام سے متعلق عقیدے کی اہمیت اسی طرح کی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ یہ عقیدہ جس چیز کی نوید دیتا ہے وہ وہی شئے ہے جس کے لئے تمام انبیاء و رسل کو مبعوث کیا گیا۔ یہ نصب العین ہے۔ انسان کو اللہ تعالی کی ودیعت کردہ تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر توحیدی معاشرے کی تشکیل کرنا ہے۔ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ انہی خصوصیات کا حامل زمانہ ہے۔ یہ توحیدی معاشرے کا زمانہ ہوگا، یہ یکتا پرستی کی بالادستی کا زمانہ ہوگا یہ انسانی زندگی کے گوشے گوشے میں دین و روحانیت کی حقیقی فرمانروائی کا زمانہ ہوگا، وہ انصاف کے مکمل قیام کا زمانہ ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انبیائے کرام کو اسی ہدف کے تحت بھیجا گیا تھا۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی مناسبت سے منائے جانے والے ہفتہ مقدس دفاع کے آغاز پر ایک پیغام جاری کیا۔
پیغام حسب ذیل ہے؛
فطری بات ہے کہ انسان، مادی حادثات سے مقابلے کے لیے اپنے جسم کو مضبوط بناتا ہے، مگر ان حادثات سے مقابلے کے لیے، جو کسی طرح انسان کی روح سے مربوط ہوتے ہیں، انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ میرا خیال یہ ہے کہ انسان کو اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہیے۔ اسے اپنے ایمان کو ایک بنیادی، اطمینان بخش اور محفوظ حد تک مستحکم بنانا چاہیے۔ جب ایسا ایمان ہوگا تو انسان اپنی زندگي کے کسی بھی مرحلے میں مایوسی کا شکار نہیں ہوگا۔ آپ نے غور فرمایا؟ بنیادی طور پر جو چیز انسان کو تباہ کر دیتی ہے، وہ مایوسی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کچھ نہیں کر پاتا اور یہ انسان کو تباہ کر دیتی ہے اور اس کی تمام قوتوں کو برباد کر دیتی ہے۔
امام خامنہ ای
26/7/1999
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 21 ستمبر 2022 کو مقدس دفاع کے سینیئر کمانڈروں اور سپاہیوں سے ملاقات میں مقدس دفاع کو ملت ایران کی تاریخ کا بڑا اہم دور قرار دیا جس میں قوم کی بے شمار خصوصیات پروان چڑھیں اور منصہ شہود پر آئیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے عالمی و علاقائی حالات کی تصویر کشی کی اور کچھ ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب کا خطاب حسب ذیل ہے؛
مہر و محبت سے معمور فضا اسلامی معاشرے کی ایک بنیادی خصوصیت ہے، اللہ سے محبت، لوگوں سے اللہ کی محبت، "یحبّھم و یحبّونہ" (جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔ سورۂ مائدہ، آيت 54) "ان اللہ یحـب التّوابیـن و یحـب المتطھرین" (بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ سورۂ بقرہ، آيت 222) "قل ان کنتم تحبّون اللہ فاتّبعونی یحببکم اللہ" (اے رسول! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو، تو میر ی پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ سورۂ آل عمران، آيت 31) محبت، عشق، بیوی سے محبت، بچے سے محبت، مستحب ہے کہ بچے کو چومیں، مستحب ہے کہ بچے سے محبت کریں، مستحب ہے کہ اپنی بیوی سے محبت کریں، عشق کریں، مستحب ہے کہ اپنے مسلمان بھائيوں سے محبت کریں، پیغمبر سے محبت، اہلبیت علیہم السلام سے محبت "الا المودۃ فـی القربـی" (اگر اجر رسالت کے طور پر کچھ دینا ہی ہے تو پیغمبر کے قرابت داروں سے محبت کرو۔ سورۂ شوری، آيت 23) پیغمبر نے یہ روش سکھائي اور معاشرے کو اس روش پر استوار کیا۔
امام خامنہ ای
8/5/1998