رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک فرمان جاری کرکے، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے نئے ٹرم کے اراکین کا تعین کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کا متن اس طرح ہے :
جو ملک کوئي ایسا کام کرے جو اس کی قومی خود مختاری اور اس کی اپنی اور اندرونی ترقی و پیشرفت میں معاون ہو ان کی (سامراجی نظام کی) نظر میں وہ لائق سرزنش ہے۔ وہ انڈسٹری دینے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ صنعت جو ان پر منحصر ہو ... ایٹمی توانائی، البتہ ایٹمی بجلی گھر کے معنی میں – ایٹمی بجلی پیدا کرنے والے کارخانے نہیں –طاغوتی پہلوی سلطنت جیسی پٹھو حکومت کو دینے کے لیے تیار ہیں کیونکہ وہ حکومت ان کی مٹھی میں تھی اور انہی کی تھی، لیکن جب اسلامی جمہوریہ کی باری آتی ہے تو وہ یہ کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، پھر جب وہ لوگ اسے ایندھن دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے اور اسلامی جمہوریہ اپنے نوجوانوں کی مدد سے، انجینیروں کی مدد سے، ڈاکٹروں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی مدد سے دن رات کام کر کے اور ایک اچھے مینیجمینٹ کے ذریعے خود ایندھن پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی حاصل کر لیتی ہے تو یہ بات ان کے لیے ناگوار ہے، یہ بات انھیں اچھی نہیں لگتی، اسی لیے اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
امام خامنہ ای
5/11/2004
یہ مجلس اور یہ گریہ، انسان ساز ہے، اس سے انسان کی تعمیر ہوتی ہے۔ یہ مجالس، یہ سید الشہداء کی مجالس عزا، یہ ظلم کے خلاف پروپیگنڈا، طاغوت کے خلاف پروپیگنڈا ہے۔ مظلوم پر جو ظلم ہوا ہے اس کا تذکرہ ہمیشہ باقی رہنا چاہیے ... جس نے اب تک ہر چیز کو محفوظ رکھا ہے، وہ یہی ہے۔ پیغمبر نے بھی فرمایا کہ انا من حسین یعنی دین کو وہی محفوظ رکھیں گے، اور اس قربانی نے دین اسلام کو بقاء عطا کی، ہمیں اسے محفوظ رکھنا چاہیے ... یہ مجلسیں ہیں جو عوام کے جذبات کو اس طرح ابھارتی ہیں کہ وہ ہر چیز کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے جوانوں کو کس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گيا اور انھوں نے کس طرح اپنے جوانوں کی قربانی دی تو لوگوں کے لیے اپنے جوانوں کی قربانی پیش کرنے کا مرحلہ آسان ہو جاتا ہے۔ ہماری قوم نے شہادت پسندی کے اس جذبے سے اس مشن کو آگے بڑھایا ہے۔
امام خمینی
25/11/1979
امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی مناسبت سے تہران میں حسینیہ امام خمینی میں طلبہ انجمنوں کی عزاداری کا پروگرام منعقد ہوا جس میں رہبر انقلاب اسلامی نے بھی شرکت کی۔ 17 ستمبر 2022 کو ہونے والے اس پروگرام میں رہبر انقلاب اسلامی نے خطاب کرتے ہوئے اربعین مارچ کے سلسلے میں انتہائی کلیدی نکات بیان کئے۔
خطاب حسب ذیل ہے:
ماں، بہترین طریقے سے اپنے بچوں کی پرورش کر سکتی ہے۔ ماں کے ذریعے بچے کی پرورش، اسکول کی کلاس میں ہونے والی پرورش کی طرح نہیں ہے، بلکہ عمل کے ذریعے ہے، بات کے ذریعے ہے، محبت کے ذریعے، عطوفت کے ذریعے ہے، لوریاں سنانے کے ذریعے ہے، ساتھ میں زندگی گزارنے کے ذریعے ہے۔ مائيں، اپنی زندگي جینے کے ذریعے بچے کی تربیت کرتی ہیں۔ عورت جتنی زیادہ نیک، عقلمند اور ذہین ہوگي، اتنی ہی یہ پرورش بہتر ہوگي۔ بنابریں خواتین کے ایمان کی سطح، تعلیم کی سطح اور ذہانت کی سطح بڑھانے کے لیے ملک میں منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔ اگر ہم عورت، گھرانے، ماں اور بیوی کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچ سکے، صحیح فیصلے کر سکے اور صحیح طریقے سے عمل کر سکے تو جان لیجیے کہ اس ملک کا مستقبل روشن ہو گيا۔
امام خامنہ ای
1/5/2013
مہدویت کا مسئلہ، چند بنیادی مسائل میں سے ایک اور اعلی دینی تعلیمات و معارف کی کڑیوں میں سے ایک ہے؛ جیسے نبوت کا مسئلہ ہے، مہدویت کے مسئلے کی اہمیت کو اس سطح کا سمجھنا چاہیے۔ کیوں؟ اس لیے کہ مہدویت جس چیز کی بشارت دیتی ہے، وہ وہی چیز ہے جس کے لیے سارے انبیاء آئے تھے، سارے پیغمبروں کو مبعوث کیا گيا تھا اور وہ چیز، ایک توحیدی دنیا کی تعمیر ہے جو عدل کی بنیاد پر قائم ہو اور اسے ان تمام استعدادوں اور گنجائشوں کو استعمال کر کے تعمیر کیا گيا ہو جو خداوند عالم نے انسان کے وجود میں رکھی ہیں۔ امام مہدی سلام اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کا زمانہ، اس طرح کا زمانہ ہے۔
امام خامنہ ای
9/7/2011
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آئین کی دفعہ ایک سو دس کی پہلی شق کے نفاذ کے تحت تشخیص مصلحت نظام کونسل سے مشورے کے بعد اور مساوات کے ساتھ معاشی پیشرفت کی ترجیح کے ساتھ ساتویں پروگرام کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن عمل درآمد کے لیے مجریہ، عدلیہ، مقننہ، تشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہوں اور مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف کے چیف کے نام جاری کر دیا ہے۔
دنیا اور آخرت ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔ ہماری آخرت، ہماری دنیا کے سکے کا دوسرا رخ ہے۔ "وَ انَّ جَھَنَّمَ لَمُحیطَۃٌ بِالکفِرین" (اور بلاشبہ جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ سورۂ توبہ، آيت 49) کافر اس وقت بھی جہنم میں ہے لیکن وہ جہنم کہ جسے وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اس وقت جہنم میں ہے، بعد میں جب وہ جہنم مجسّم ہو جائے گي تب وہ سمجھ پائے گا۔ "ای دریدہ پوستین یوســـفان - گرگ برخیزی از این خواب گران" (اے نیک لوگوں کو ایذائيں دینے والے! ایک دن تو اپنی اس گہری دنیوی نیند سے بھیڑیے کی صورت میں جاگے گا) اس وقت بھی وہ بھیڑیا ہے لیکن اپنے بھیڑیا ہونے کا اسے احساس نہیں ہے۔ ہماری بھی آنکھیں بند ہیں اور ہم بھی اسے بھیڑیا نہیں دیکھتے لیکن جب ہم جاگ جائيں گے تو دیکھیں گے یہ بھیڑیا ہے۔ تو دنیا اور آخرت کے ایک دوسرے سے جڑے ہونے کا مطلب یہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دنیا مثال کے طور پر لاٹری کے ٹکٹ کی طرح ہے، نہیں بالکل نہیں، آخرت، اس دنیا کا دوسرا رخ ہے، سکے کا دوسرا رخ ہے۔
امام خامنہ ای
1/12/2010
قرآن میں ایک جگہ کہا گيا ہے: "يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّہَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوہُ بُكْرَۃً وَاَصِيلًا" (اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔ سورۂ احزاب، آیہ 41 اور 42) یہ چیز انسان کے دل اور ذہن سے متعلق ہے لیکن ایک دوسری جگہ کہا گيا ہے: "الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّہِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا اَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ" (جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ تو اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جو کافر ہیں وہ شیطان کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ تو تم شیطان کے حامیوں سے جنگ کرو۔ سورۂ نساء، آیہ 76) یہ بھی ہے۔ یعنی اس "اذکرو اللہ" سے لے کر "فَقَاتِلُوا اَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ" تک کا یہ پورے کا پورا میدان، دین کے دائرہ تصرف میں ہے۔
ایک جگہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب کرتے ہوئے کہا گيا ہے: "قُمِ اللَّيْلَ اِلَّا قَلِيلًا نِّصْفَہُ اَوِ انقُصْ مِنْہُ قَلِيلًا اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا" (اے پیغمبر! رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کیجیے مگر (پوری رات نہیں بلکہ) تھوڑی رات۔ یعنی آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کر دیجیے یا اس سے کچھ بڑھا دیجیے! اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (اور واضح کر کے) پڑھا کیجیے۔ سورۂ مزمل، آيات 2، 3 اور 4) ایک جگہ پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے کہا گيا ہے: "فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّہِ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ (تو اے پیغمبر آپ اللہ کی راہ میں جہاد کیجیے آپ پر سوائے اپنی ذات کے کوئي ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی اور اہل ایمان کو (جہاد پر) آمادہ کیجیے۔ سورۂ نساء، آیہ 84) مطلب یہ کہ زندگي کے یہ سارے میدان، آدھی رات کی بیداری، اللہ کے حضور گڑگڑانے، توسل، دعا، گریہ اور نماز سے لے کر جہاد اور میدان جنگ میں شرکت تک سب اسی دائرے میں ہیں، پیغمبر کی زندگي بھی یہی دکھاتی ہے۔
امام خامنہ ای
24/10/2021
سامراج کی دشمنی اور ان تمام تر سازشوں کے باوجود بحمد اللہ ہماری قوم اور ہمارے عہدیدار، انقلاب کے طویل اور دشوار سفر کو جاری رکھنے اور ملک کی تعمیر میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ تعمیر روز بروز بڑھتی ہی جائے گي اور ان شاء اللہ ہم روز بروز سماجی انصاف کی طرف زیادہ آگے بڑھتے رہیں گے، اس ملک میں اسلام کی بنیادیں اور اسلام پر عقیدہ و عمل روز بروز زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ ان لوگوں کو، جنھوں نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ شاید کبھی عوام، اسلام اور اسلامی جمہوریہ سے منہ موڑ لیں گے، یہ جان لینا چاہیے کہ ان کا انجام بھی ان لوگوں کی طرح ہوگا جو اسلامی انقلاب کے اوائل میں یہ سوچتے تھے کہ انقلاب اگلے دو تین مہینے میں، اگلے چھے مہینے میں، اگلے ایک سال میں ختم ہو جائے گا! یا یہ سوچتے تھے کہ جنگ کے اوائل میں ایک ہفتے کے اندر ایران کو فتح کر لیں گے! جس طرح سے انھیں زبردست تھپڑ ملا، اسی طرح وہ لوگ بھی بھرپور تھپڑ کھائيں گے جو آج یہ سوچتے ہیں اور اس امید میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ عوام، اپنے دین سے، اپنے قرآن سے، اپنے اسلام سے، اپنے علمائے دین سے، اپنے امام خمینی سے منہ موڑ لیں گے۔
امام خامنہ ای
6/4/1999
پچھلے کئي عشروں کے دوران مغرب میں خواتین کی آزادی کے ذریعے اخلاقی گراوٹ اور بے راہ روی اتنی زیادہ پھیل گئي کہ اس نے خود مغربی مفکرین کو دہشت میں مبتلا کر دیا! آج مغربی ملکوں میں ہمدرد، خیر خواہ، سمجھدار اور نیک نیتی رکھنے والے افراد، جو کچھ ہوا ہے، اس سے غمگین اور وحشت زدہ ہیں، مگر وہ اسے روک بھی نہیں سکتے۔ مغرب میں، عورت کی مدد اور اس کی خدمت کے نام پر، اس کی زندگي کو سب سے بڑی چوٹ پہنچائي گئي۔ کیوں؟ اس لیے کہ جنسی بے راہ کی وجہ سے، اخلاقی گراوٹ اور عورت مرد کے بے لگام اختلاط کی ترویج کی وجہ سے، گھرانے کی بنیاد ہی تباہ ہو گئي۔ وہ مرد جو سماج میں کھلم کھلا اپنی جنسی خواہشات پوری کر سکتا ہو اور وہ عورت جو سماج میں بغیر کسی اعتراض کے مختلف مردوں سے رابطہ رکھ سکتی ہو، کسی بھی صورت میں اچھے اور مناسب زن و شوہر نہیں ہو سکتے۔ اسی لیے گھرانے کی بساط ہی لپٹ گئي۔ ہمارے ملکوں میں گھرانوں کی جڑیں جتنی مضبوط اور گہری ہیں، اتنی آج مغرب میں شاذ و نادر ہی ہیں۔
امام خامنہ ای
12/10/1997
آج حضرت حجت امام زمانہ ارواحنا فداہ کا مقدس وجود، روئے زمین کے انسانوں کے درمیان، برکت، علم، روشنی، زیبائي اور تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ ہماری حقیر اور تاریک آنکھیں اس ملکوتی چہرے کو قریب سے نہیں دیکھ پاتیں لیکن وہ سورج کی طرح درخشاں ہے، دلوں سے متصل اور روحوں اور باطنوں سے جڑا ہوا ہے اور اس انسان کے لیے، جس کے پاس معرفت ہے، اس سے بڑی نعمت کوئي نہیں ہے کہ وہ محسوس کرے کہ ولی خدا، امام برحق، عبد صالح، پوری دنیا کے تمام انسانوں میں سب سے برگزیدہ بندہ اور روئے زمین پر خلافت الہی کا حقدار، اس کے ساتھ اور اس کے پاس ہے، اسے دیکھ رہا ہے اور اس سے جڑا ہوا ہے۔
امام خامنہ ای
24/11/1999
دعا کے ثمرات کیا ہیں؟ جب ہم خدا سے بات کرتے ہیں تو اسے اپنے قریب محسوس کرتے ہیں، اپنا مخاطب سمجھتے ہیں اور اس سے بات کرتے ہیں، یہ چیزیں دعا کے فوائد اور نتائج میں سے ہیں۔ دل میں خدا کی یاد کو زندہ رکھنا، غفلت کو دور کرتا ہے جو انسان کی تمام برائيوں اور انحرافات کی جڑ ہے۔ دعا، انسان کے دل سے غفلت کو دور کر دیتی ہے، اسے خدا کی یاد دلاتی ہے اور خدا کی یاد کو دل میں زندہ رکھتی ہے۔ دعا سے محروم لوگوں کو جو سب سے بڑا گھاٹا ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ خدا کی یاد ان کے دل سے نکل جاتی ہے۔ خداوند متعال کی طرف سے غفلت اور اسے بھول جانا، انسان کے لیے بہت ضرر رساں ہے۔
امام خامنہ ای
21/10/2005
تقوائے الہی کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اس بات کا خیال رکھے کہ جو کام اس کے لیے ضروری اور واجب ہے، اسے انجام دے اور جو کام اس کے لیے ممنوع ہے، اسے انجام نہ دے۔ اگر لوگوں کو یہ توفیق حاصل ہو جائے کہ اس طرح زندگی گزاریں تو ان کی زندگي، موجودہ زمانے اور ماضی کے زمانے کی اقوام کی زندگي میں آپ جو کچھ بھی پیشرفت دیکھتے ہیں، اس سے بھی بہتر ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید فرماتا ہے: ولو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء والارض (اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ سورۂ اعراف، آيت 96) مطلب یہ کہ ایمان اور تقوے کی خاصیت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان کا دل آباد ہو جاتا ہے، بلکہ انسانوں کے ہاتھ اور ان کی جیبیں بھی بھر جاتی ہیں، انسانوں کا دسترخوان بھی طرح طرح کی نعمتوں سے بھر جاتا ہے اور ان کے بازو بھی مضبوط ہو جاتے ہیں۔ ایمان اور تقوے کی یہ خصوصیت ہے۔
امام خامنہ ای
30/8/1999
امریکی حکام جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ ایران، ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جو لوگ تقریروں اور پروگراموں میں ان کی یہ بات سنتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ جیسا کہ یہ لوگ جہاں انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں، وہاں بھی ایسا ہی ہے۔ جب امریکی صدر عراق وغیرہ کے معاملات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا راگ الاپتے ہیں، تو وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں – جس چیز کے لیے وہ بالکل بھی کوشاں نہیں ہیں وہ انسانی حقوق اور ڈیموکریسی ہے – اور جو لوگ یہ باتیں سن رہے ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، وہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ ان کے اغراض و مقاصد، خود ان کے لیے پوری طرح واضح ہیں۔ ان کا مقصد، تسلط قائم کرنا ہے، ان کے لیے انسانی حقوق کی کوئي اہمیت ہے ہی نہیں۔ قیدیوں کے ساتھ ان کا رویہ، خاص طور پر گوانتانامو کے قیدیوں، عراق کی ابوغریب جیل کے قیدیوں کے ساتھ ان کا سلوک، عراقی عوام کے ساتھ ان کا رویہ، اپنے گھروں میں رہنے والی عورتوں اور بچوں کے ساتھ ان کا رویہ، اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکیوں کی نظر میں انسانی حقوق کا مسئلہ، بس ایک افسانہ ہے، وہ جانتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
21/10/2005
اسلامی معاشرے کا نظام سنبھالنے اور اسلامی معاشرے کی پیشرفت کی ذمہ داری سبھی کے کندھوں پر ہے؛ عورت کے کندھے پر، مرد کے کندھے پر، ہر ایک پر اس کی اپنی صلاحیتوں کے حساب سے۔ اس میں کوئی بحث نہیں ہے کہ عورت گھر کے باہر کوئي ذمہ داری سنبھال سکتی ہے یا نہیں – وہ بالکل سنبھال سکتی ہے، اس میں کوئي شک نہیں ہے، اسلامی نظریہ بالکل بھی اس کی نفی نہیں کرتا – بلکہ بحث اس بات پر ہے کہ کیا عورت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھر سے باہر کے ماحول میں اس کے لیے جتنی بھی سازگار، دلچسپ اور شیریں چیزوں کا تصور کیا جا سکتا ہے، ان کی خاطر گھر میں اپنے کردار کو قربان کر دے؟ ماں کے کردار کو؟ بیوی کے کردار کو؟ اسے یہ حق ہے یا نہیں؟ ہم اس کردار پر زور دیتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ علم، تعلیم، معلومات، تحقیق اور روحانیت کے لحاظ عورت جس سطح کی بھی ہو، وہ جو سب سے اہم کردار ادا کر سکتی ہے، وہ ایک ماں اور ایک بیوی کا کردار ہے، یہ اس کے تمام کاموں سے زیادہ اہم ہے۔ یہ وہ کام ہے جسے عورت کے علاوہ کوئي دوسرا انجام دے ہی نہیں سکتا۔
امام خامنہ ای
4/7/2007
اہل بیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کا ساتواں اجلاس تہران میں منعقد ہوا جس میں شرکت کے لئے آنے والے 117 ملکوں کے مہمانوں نے 3 ستمبر 2022 کو حسینیہ امام خمینی میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس اسمبلی کی اہمیت اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ آپ انے اسلامی جمہوریہ کے بنیادی اصولوں اور اہداف کو بیان کیا اور عالم اسلام سے استکبار کی مقابلہ آرائی کے سلسلے میں اہم نکات بیان کئے۔ (1)
تقریر کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
آج انسان کا ذہن یہ جاننے، سمجھنے اور یقین کرنے کے لیے تیار ہے کہ ایک عظیم انسان آئے گا اور انسانیت کو ظلم و ستم سے نجات دلائے گا۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تمام پیغمبروں نے کوشش کی ہے، یہ وہی چیز ہے جس کا وعدہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعے قرآن مجید کی آيت میں کیا گيا ہے: "و یضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم." (اور وہ ان پر سے سنگین بوجھ اتارتا اور بندشیں کھولتا ہے۔ سورۂ اعراف، آيت 157) اللہ کا دست قدرت ایک عرشی انسان، ایک خدائي انسان، عالم غیب، معنوی دنیا اور ان دنیاؤں سے متصل انسان، جو ہم جیسے کوتاہ فکر انسانوں کے لیے قابل ادراک نہیں ہیں، انسانیت کی اس خواہش کو پورا کر سکتا ہے۔ لہذا دل، اشتیاق اور عشق اس نقطے کی جانب مرکوز ہے اور روز بروز زیادہ مرکوز ہوتا جا رہا ہے۔
امام خامنہ ای
24/11/1999
ہمیں اخلاق اسلامی کو جاننا بھی چاہیے – ہم سب کو، اس میں بچے اور بوڑھے کی کوئي بات نہیں ہے، لیکن نوجوان زیادہ اور بہتر ہیں – اور اسلامی اخلاق سے آراستہ بھی ہونا چاہیے ... ہر کسی کو اپنے دل کو، اپنے رویے کو مسلسل سدھارنا اور اپنے وجود کی برائيوں اور آلائشوں سے لگاتار جنگ کرنا چاہیے۔ دعائے مکارم الاخلاق کو، جو صحیفۂ سجادیہ کی بیسویں دعا ہے، زیادہ سے زیادہ پڑھیے تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ اس دعا میں امام زین العابدین علیہ السلام نے خداوند عالم سے جن چیزوں کی درخواست کی ہے، وہ کیا ہیں۔ ... ہم اپنے آپ کو ائمہ کے الفاظ سے، صحیفۂ سجادیہ کی دعاؤں سے، ہماری اخلاقی بیماریوں کے مداوے اور ہمارے وجود کے زخموں کے علاج کی صلاحیت رکھنے والی ان شفا بخش دواؤں سے، آشنا کریں۔ اس راہ سے حاصل ہونے والی دعا، توسل، توجہ، گریہ و زاری اور نورانیت کی قدر سمجھیں۔
امام خامنہ ای
12/10/1994
اسلام کی منطق کے تحت سبھی پر سماجی ضرورتوں کے لیے مدد کرنے کی ذمہ داری ہے ... معاشرے میں دولت و ثروت کا توازن قائم کرنے کے لیے، دولت کے لحاظ سے دو طبقوں والا معاشرہ پیدا نہ ہونے دینے کے لیے، فضول خرچی اور مالی بدعنوانی پیدا نہ ہونے دینے کے لیے، غربت پیدا نہ ہونے دینے کے لیے، سب سے اچھا راستہ اور سب سے کامیاب طریقہ، یہی انفاق اور مالی امداد کا طریقہ ہے۔ اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بہت سی آیتیں، دسیوں آیتیں انفاق کے بارے میں ہیں اور اس کے مختلف راستوں کے لیے منجملہ اللہ کی راہ میں جہاد سمیت، جس کے بارے میں میرے خیال میں قرآن مجید میں سات آٹھ آیتیں ہیں، مال کے ذریعے جہاد کو، جان کے ذریعے جہاد کے ساتھ رکھا گيا ہے۔ جس طرح سے جان کے ساتھ جہاد واجب ہے، اسی طرح مال کے ساتھ جہاد بھی واجب ہے۔ "و تجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم و انفسکم" (اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرو ،سورۂ صف، آيت 11) مال بھی اور جان بھی، دونوں پر ایک ہی صف میں، ایک ہی سطح پر اور ایک ہی لہجے میں توجہ دی گئي ہے۔
امام خامنہ ای
20/11/1987
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے عالم دانا حجۃ الاسلام و المسلمین جناب الحاج سید حسن مصطفوی کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عالم دانا حجۃ الاسلام و المسلمین جناب الحاج سید حسن مصطفوی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر میں ان کے معزز خانوادے، ان کے شاگردوں اور عقیدت مندوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہوں۔ ثقافتی اور عوامی مشغولیات کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ اور اسلامی فلسفے میں تحقیق و تدریس اس انقلابی اور مجاہد عالم دین کی سب سے نمایاں سرگرمیاں تھیں جو مرحوم کے لیے ایک شاندار ریکارڈ ہے۔ خداوند عالم سے مرحوم کے لیے اجر عظیم اور رحمت و مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
30 اگست 2022
اسلامی جمہوریہ، یعنی ایک نیا تشکیل پانے والا حکومتی نظام جو دنیا میں رائج کسی بھی نظام سے شباہت نہیں رکھتا۔ ایک نظام میں وہ تمام مثبت اور تعمیری خصوصیات، جن کا تصور کیا جا سکتا ہے، اسلامی جمہوریہ میں پائي جاتی ہیں: اسلام ہے، عوام کے ووٹ ہیں، عوام کا ایمان ہے، عزت و سربلندی کا احساس ہے، بندگي ہے، اسلامی احکام و قوانین ہیں، جو انسان کی زندگي کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں۔ جی ہاں! اگر ہم اسلام کو، امام خمینی کی جانب سے متعارف کرائے گئے معنی میں – یعنی اسی صحیح، خالص اور اصولی نظریات پر مبنی معنی میں – عملی جامہ پہنا دیں، تو یہ ہر مشکل کو حل کر دے گا؛ جیسا کہ ہم جس میدان میں بھی آئے، دفاع کیا اور ڈٹے رہیں وہاں اس کا فائدہ ہوا۔ یہ اسلام، حکومتی نظام میں کامیاب رہا، ثقافتی مسائل میں اور دشمن سے مقابلے میں کامیاب رہا۔ ہمارا ملک اور ہماری قوم ہمیشہ، مغربی ثقافت کی اسیر رہی تھی لیکن امام خمینی کے اقدام کی برکت سے یہ معاملہ دو طرفہ ہو گيا، ہمارے مرکز سے یعنی اسلامی معاشرے کی طرف سے بھی ایک ثقافتی لہر باہر کی طرف اور دنیا کے دوسرے ممالک تک جانے لگي۔
امام خامنہ ای
1/10/1999
بقول امام خمینی:
جو چیز حضرت امیر المومنین اور ان کے فرزند موقع ملنے کی صورت میں انجام دے سکتے تھے، خداوند متعال کی مرضی کے مطابق عدل و انصاف کا قیام ہے لیکن انھیں موقع ہی نہیں دیا گيا۔ اس عید کو زندہ رکھنا اس لیے نہیں ہے کہ چراغانی کی جائے، قصیدے پڑھے جائيں، مدح سرائي کی جائے، یہ چیزیں اچھی ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ سکھایا جائے کہ کس طرح پیروی کریں، ہم یہ بتائيں کہ غدیر کا تعلق صرف اس زمانے سے نہیں ہے، غدیر کو ہر زمانے میں ہونا چاہیے اور حضرت امیر المومنین نے اس حکومت میں جو روش اختیار کی ہے، وہی روش اقوام کی اور حکام کی ہونی چاہیے۔ غدیر کا معاملہ، حکومت کی تشکیل کا معاملہ ہے، یہی چیز ہے جو منصوب کرنے کے لائق ہے ورنہ معنوی درجات پر کسی کو منصوب نہیں کیا جا سکتا۔
امام خمینی
24/8/1986
اسلامی گھرانه
اسلام کی نظر میں گھرانہ بہت اہم ہے۔ گھر کے ماحول میں عورت اور مرد کا رابطہ کسی اور طرح کا ہے، معاشرے کے ماحول میں کسی دوسرے طرح کا ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان پردے کی حیثیت سے معاشرے کے ماحول میں جو قاعدے مقرر کیے ہیں، اگر انھیں توڑ دیا جائے تو، گھرانہ بگڑ جائے گا۔ گھرانے میں زیادہ تر عورتوں پر اور کبھی کبھی مرد پر ممکنہ طور پر ظلم ہو سکتا ہے۔ اسلامی ثقافت، عورت اور مرد کے آپس میں میل جول نہ رکھنے کی ثقافت ہے۔ اس طرح کی زندگي خوشحالی کے ساتھ جاری رہتی ہے اور صحیح طریقے سے اور عقلی معیاروں کا لحاظ کرتے ہوئے چل سکتی ہے اور آگے بڑھ سکتی ہے ... طاقتور، پیسے والے اور طاقت والے، ان کے مرد، ان کی عورتیں، ان کے ماتحت اور ان کے ساتھ اور ان کے لیے کام کرنے والے افراد ہمیشہ اس کے برخلاف کام کرتے رہے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عورت اور مرد کے درمیان پایا جانے والا یہ پردہ ختم ہو جائے اور یقینی طور پر یہ کام سماجی زندگی کے لیے نقصان دہ اور سماج کے اخلاق کے لیے برا ہے۔ معاشرے کی عفت و عصمت کے لیے مضر اور خاص طور پر گھرانے کے لیے ہر چیز سے زیادہ برا ہے۔ یہ گھرانے کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
12/10/1994
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے عالم ربانی اور عارف خدا آيۃ اللہ شیخ محمد علی ناصری کی وفات پر تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
مہدویت
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اہلبیت علیہم السلام پوری تاریخ میں ایسے آفتاب فروزاں رہے ہیں جنھوں نے کرۂ ارض کی انسانیت کو عالم غیب اور عرش الہی سے متصل کیا: "السبب المتصل بین الارض و السماء" (وہ جو زمین و آسمان کے پیوست رہنے کا وسیلہ ہے۔ دعائے ندبہ) پیغمبر اکرم کا گھرانہ، علم کا سرچشمہ، نیک اخلاق کا سرچشمہ، ایثار و قربانی کا سرچشمہ، صداقت و پاکيزگي کا سرچشمہ اور ہر عہد و عصر میں انسان کے وجود کی تمام نیکیوں، زیبائيوں اور درخشندگی کا سرچشمہ رہا ہے، ان میں سے ہر ایک اس طرح کا آفتاب فروزاں رہا ہے۔
انہی میں سے ایک خورشید فروزاں اللہ کے فضل و کرم اور اس کے ارادے سے آج ہمارے زمانے میں بقیۃ اللہ فی ارضہ کے نام سے، حجۃ اللہ علی عبادہ کی حیثیت سے، صاحب الزمان اور اللہ کے مطلق ولی کی حیثیت سے روئے زمین پر موجود ہے۔ ان کے وجود کی برکتیں اور ان کے وجود سے نکلنے والے انوار، آج بھی انسان تک پہنچ رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
24/11/1999
درس اخلاق
استغفار کا مطلب ہے، گناہوں پر اللہ کی مغفرت اور معافی طلب کرنا۔ اگر یہ استغفار صحیح طریقے سے کیا جائے تو انسان پر اللہ کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ایک انسان اور ایک انسانی معاشرے کو اللہ کے الطاف میں جس چیز کی بھی ضرورت ہے – اللہ کا فضل و کرم، الہی ہدایت، رحمت الہی، اللہ کا نور، پروردگار کی جانب سے توفیق، کاموں میں مدد، مختلف میدانوں میں کامیابیاں – اس کا راستہ وہ گناہ بند کر دیتے ہیں جن کا ہم ارتکاب کرتے ہیں۔ گناہ ہمارے اور اللہ کی رحمت اور فضل و کرم کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ استغفار اس پردے کو ہٹا دیتا ہے اور اللہ کی رحمت اور فضل و کرم کا دروازہ ہم پر کھل جاتا ہے۔ یہ استغفار کا فائدہ ہے۔ اسی لیے آپ قرآن مجید کی کئي آيتوں میں دیکھتے ہیں کہ استغفار کے نتیجے میں کئي دنیوی اور کبھی کبھی اخروی فوائد کا ذکر کیا گيا ہے۔
امام خامنہ ای
17/1/1997
قرآن کی روشنی میں
... عید قربان کا دن، یہ حیرت انگیز اور متحیر کن قربانی، تاریخ میں بے مثال ہے۔ حضرت ابراہیم کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے نوجوان (بیٹے) کو اپنے ہاتھ سے قتل کریں – خدا کا حکم ہے، الہی امتحان ہے – وہ بھی ایسا بیٹا جس سے وہ برسوں محروم رہے تھے اور بڑھاپے میں الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِي وَھَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ اِسْمَاعِيلَ وَاِسْحَاقَ (شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے۔ سورۂ ابراھیم، آیت 39) خداوند عالم نے ابراہیم کو یہ بچہ دیا تھا اور واضح سی بات ہے کہ انسان اپنی عمر کے آخری حصے اور بڑھاپے کے بچے کو کتنا چاہتا ہے، اس سے کتنا دلبستہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اس بچے سے، جو اب، فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْيَ (جب وہ لڑکا ان کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گيا ... سورۂ صافات، آيت 102) بڑا ہو چکا ہے، نوجوان ہو چکا ہے، کہا کہ میں تمھیں قتل کرنا چاہتا ہوں، یہ خدا کا حکم ہے۔ اس نوجوان نے کہا: يَا اَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ستَجِدُنِي اِن شَاءَ اللَّہُ مِنَ الصَّابِرِينَ (بابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ بجا لائیے اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ سورۂ صافات، آيت 102) دیکھیے یہ دین کی تاریخ، دینداری کی تاریخ، ایمان کی تاریخ، اسلام کی تاریخ کے بڑے عجیب واقعات ہیں۔ ہمارے ماضی میں، ہماری دینداری کے ماضی میں یہ چیزیں موجود ہیں کہ بوڑھا باپ، اللہ کے حکم پر اپنے ہاتھوں سے اپنے جوان بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور وہ جوان بھی پورے شوق، رغبت اور اشتیاق سے کہتا ہے...۔
امام خامنہ ای
31/7/2020
اہم خطبے
خداوند عالم ہر میدان میں رسول اللہ کے ساتھ تھا اور رسول اکرم ہر میدان میں خدا سے مدد طلب کرتے تھے، انھوں نے اللہ تعالی سے مدد مانگی، غیر خدا سے نہیں ڈرے اور مرعوب نہیں ہوئے۔ خدا کے مقابلے میں پیغمبر اکرم کی عبدیت کا اصلی راز یہ ہے؛ خدا کے سامنے کسی بھی طاقت کو کچھ نہ سمجھنا، اس سے نہ ڈرنا، دوسروں کی خواہش کے لیے راہ خدا کو ترک نہ کرنا۔ ہمارے معاشرے کو اس اخلاق نبوی سے سبق لے کر پوری طرح ایک اسلامی معاشرے میں تبدیل ہو جانا چاہیے۔ انقلاب اس لیے نہیں کہ کچھ لوگ جائيں اور دوسرے (ان کی جگہ) آ جائيں۔ انقلاب اس لیے ہے کہ معاشرے کی اقدار میں تبدیلی آئے، انسان کی قدر و قیمت، خدا کی بندگي سے ہو، انسان خدا کا بندہ ہو، خدا کے لیے کام کرے، خدا سے ڈرے، غیر خدا سے نہ ڈرے، خدا سے مانگے، خدا کی راہ میں کام اور کوشش کرے، خدا کی آیتوں پر غور و فکر کرے، دنیا کی صحیح شناخت حاصل کرے، عالمی اور انسانی برائيوں کی اصلاح کے لیے کمر ہمت باندھ لے اور شروعات اپنی ذات سے کرے، ہم میں سے ہر کوئي اپنے آپ سے شروع کرے۔
امام خامنہ ای
29/7/1391
بقول امام خمینی:
اگر ہمارے اختلافات اور وہ بھی ایسے اختلافات جن کے بارے میں مجھے کوئي شک نہیں ہے کہ وہ خدا کے لیے نہیں بلکہ دنیا کی خاطر ہیں، لوگوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنے اور اس بات کا سبب بنے کہ اسلامی جمہوریہ کو شکست ہو جائے اور وہ صدیوں تک سر نہ اٹھا سکے تو کیا یہ ایسا جرم ہے جس کے لیے خدا ہمیں معاف کر دے گا؟ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ پر اعتراض کرتے ہیں، انھیں بیٹھ کر پوری سچائي سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آج ایران میں اسلام زیادہ ابھر کر سامنے آيا ہے یا باطل حکومت کے زمانے میں؟ باطل حکومت کے زمانے میں اسلامی عمل زیادہ تھے یا آج زیادہ ہیں؟ اگر کوئي اعتراض کرے اور کہے کہ "اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ہی ایسی ہے، ویسی ہے!" تو اس کی جڑ ایک شیطانی جڑ ہے جو اس انسان کے دل میں پیوست ہے۔
امام خمینی
19/7/1983
جان لیجیے کہ دنیا کے بہت سارے علاقوں کی مسلمان خواتین آپ کو دیکھتی ہیں اور آپ سے سیکھتی ہیں۔ یہ جو آپ دیکھتی ہیں کہ بعض ملکوں میں، اسلامی حجاب پر دشمنوں کے شدید حملے ہو رہے ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ عورتیں، حجاب کی طرف مائل ہیں۔ خاص طور پر روشن فکر خواتین اور بالخصوص طالبات، حجاب کی طرف مائل ہوئي ہیں، انھیں حجاب سے محبت ہوئي ہے، وہ حجاب کی طرف بڑھی ہیں اور اس کی حفاظت کی ہے، تو اس کے لیے آپ آئيڈیل ہیں، آپ نمونۂ عمل ہیں۔ جان لیجیے کہ آج دنیا میں کہیں بھی ہماری ان شہیدوں کی ماؤں کی طرح، دو شہیدوں کی ماں، تین شہیدوں کی ماں، چار شہیدوں کی ماں، ان جیسی عورتیں نہیں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان خصوصیات والی مائیں، جو بچوں کے باپ سے بہتر طریقے سے اور زیادہ مضبوطی اور زیادہ آگہی کے ساتھ ڈٹی رہی ہیں، بہت زیادہ ہیں۔ یہ وہی اسلامی تربیت ہے، یہ وہی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پاکیزہ، مطہر اور نورانی دامن ہے۔
امام خامنہ ای
20/9/2000
مہدویت
شیعوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ وہ تمام مسلمان فرقوں بلکہ تمام الہی مذاہب کی جانب سے قطعی طور پر تسلیم شدہ اس موعود الہی کو اس کے نام، صفات، خصوصیات اور تاریخ ولادت کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ہماری بہت سی اہم شخصیات نے اسی غیبت کے زمانے میں اس عزیز، عاشقوں اور مشتاقوں کے دلوں کے محبوب کی قریب سے زیارت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے قریب سے ان سے بیعت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے حوصلہ افزائي کی باتیں سنی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے لطف و کرم کی سعادت حاصل کی ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو، انھیں پہچانے بغیر ان کا لطف و کرم اور عنایت و محبت حاصل ہوئي اور وہ انھیں پہچان نہیں پائے ہیں۔
امام خامنہ ای
24/11/1999
ماتمی انجمنوں کی مرکزی کمیٹی، صوبۂ تہران کی ماتمی انجمنوں کے عہدیداروں اور صوبۂ تہران کی مبلّغ خواتین نے 3 اگست 1994 کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ماتمی انجمنوں، قیام امام حسین اور دینداری کے موضوع پر بڑے اہم نکات بیان کئے۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
مہدویت
مہدویت کا سب سے نمایاں نعرہ، عدل و انصاف کا قیام ہے۔ مثال کے طور پر دعائے ندبہ میں جب حضرت (امام مہدی علیہ السلام) کے صفات بیان کرنا شروع کرتے ہیں تو ان کے عظیم آباء و اجداد اور پاکیزہ خاندان کی نسبت بیان کرنے کے بعد ہم سب سے پہلا جو جملہ کہتے ہیں، وہ یہ ہے: این المعدّ لقطع دابر الظّلمۃ، این المنتظر لاقامۃ الامت و العوج، این المرتجی لازالۃ الجور و العدوان (کہاں ہے وہ جو ظالموں کی جڑ کاٹنے کے لیے تیار ہے؟ کہاں ہے وہ جس کے ہاتھوں دنیا کے اختلافات اور عیوب کی اصلاح کا انتظار ہے؟ کہاں ہے وہ جو ظلم اور دشمنی کے خاتمے کے سلسلے میں لوگوں کی امید کا مرکز ہے؟ الاقبال، صفحہ 297) مطلب یہ کہ انسانیت اس کی منتظر ہے کہ وہ نجات دہندہ آئےاور ظلم کو جڑ سے ختم کر دے اور ظلم و ستم کا، جو انسانیت کی تاریخ میں، گزشتہ زمانوں سے ہمیشہ موجود رہا ہے اور آج بھی پوری شدت سے موجود ہے، خاتمہ کر دے اور ظالموں کو ان کی اوقات سمجھا دے۔ یہ مہدی موعود کے منتظروں کی، ان کے ظہور سے پہلی درخواست ہے۔ یا زیارت آل یاسین میں جب، آپ ان حضرت کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں تو ان میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ الّذی یملا الارض عدلاً و قسطاً کما ملئتت جوراً و ظلماً. (وہ زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔ کمالالدین، جلد 1، صفحہ 287) انتظار یہ ہے کہ وہ پوری دنیا کو – کسی ایک علاقے کو نہیں – عدل و انصاف سے پر کر دیں اور ہر جگہ انصاف قائم کر دیں۔ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو روایات ہیں، ان میں بھی یہی بات موجود ہے۔ بنابریں مہدی موعود کے منتظرین کی سب سے پہلی توقع پہلے مرحلے میں، عدل و انصاف کا قیام ہے۔
امام خامنہ ای
22/10/2002
درس اخلاق
جب آپ خدا سے چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا کام ہو جائے جس کی آپ کو ضرورت ہے تو دعا کے ساتھ ساتھ بھرپور محنت بھی کیجئے۔ مثال کے طور پر آپ اپنے اندر تساہلی محسوس کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ یہ احساس ختم ہو جائے تو دعا کے ساتھ ہی عزم و ارادے سے بھی کام لیجئے۔ یعنی یہاں بھی ایک دوسرا مادی اور فطری وسیلہ ہے جو عزم و ارادہ ہے۔ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ ہم گھر میں بیٹھ جائیں، کوشش اور اقدام نہ کریں، حتی ارادہ بھی نہ کریں اور صرف دعا میں مشغول رہیں تو خدا ہماری حاجت پوری کر دے گا۔ نہیں، ایسی چیز ممکن ہی نہیں ہے۔ دعا جدوجہد اور کوشش کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بعض دفعہ بہت سی کوششوں کا نتیجہ نہیں نکلتا لیکن جیسے ہی آپ دعا کرتے ہیں، نتیجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
امام خامنہ ای
17 فروری 1995
قرآن کی روشنی میں
اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ یہ چاہا ہے کہ مسلمانوں کو مضطرب اور پریشان رکھیں۔ پوری تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے مواقع پیش آئے ہیں، اسلام سے پہلے بھی عظیم جہادی اقدامات جو مرسل اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے کے انبیاء کے زمانے میں انجام پائے اور جن میں مومنین، راہ ایمان پر ثابت قدم رہے اور روحانی آسودگی حاصل کر سکے، اس روحانی سکون نے ان کے اقدامات کو ایمانی پہلوؤں کے دائرے میں رکھا ہے۔ وہ تشویش میں نہیں پڑے۔ اضطراب کا شکار نہیں ہوئے اور راستہ کھو نہیں بیٹھے کیونکہ تشویش و اضطراب کی صورت میں صحیح راستہ ڈھونڈنا دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ انسان جسے روحانی سکون حاصل ہو، صحیح انداز میں سوچتا ہے، صحیح فیصلے کرتا ہے اور صحیح سمت میں چلتا ہے۔ یہ تمام چیزيں الہی رحمت کی نشانیاں ہیں۔ آج ہمارے انقلابی معاشرے اور ہمارے مومن عوام کو اسی آسودگی اور اسی سکون کی ضرورت ہے۔ انہیں یہ سکون اور اطمینان و وقار اپنے یہاں زيادہ سے زيادہ پیدا کرنا چاہیے، الا بذکر اللہ تطمئنّ القلوب (سورۂ رعد، آيت 28) خدا کی یاد ہی دلوں کو دنیا اور زندگي کے طوفانی حوادث میں مضبوط رکھتی ہے، خدا کی یاد کو غنیمت سمجھیے۔
امام خامنہ ای
19/6/2009
خطبہ ہائے انقلاب
یہ زندہ قوم، ملک کی ضرورت کے مطابق اور اس کی جانب سے اس ضرورت کو محسوس کرنے اور یہ سمجھ لینے کے بعد کہ یہ ملک کی ضرورت ہے، بھرپور شوق و رغبت کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ ایسا ہی ہے اور ہمیشہ یہی صورت حال رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ بھی یہی صورتحال رہے گي۔ اسی وجہ سے ہمارے دشمنوں نے ہماری قوم اور حکام پر دباؤ ڈالنے کی جتنی بھی کوشش کی انھیں کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ وہ دھمکیاں دیتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن ان دھمکیوں سے اور اس پروپیگنڈے سے نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ بحمد اللہ ہماری قوم اپنے راستے پر آگے بڑھتی رہی۔ یہ راستہ کمال اور ترقی و پیشرفت کا ہے۔ ہم یہ دعوا تو نہیں کرتے کہ ہم اس انقلاب کے اعلی اہداف تک پہنچ چکے ہیں جو حقیقی اسلامی تعلیمات سے عبارت ہیں، نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ ہم اسی راستے پر گامزن ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
19 ستمبر 2008
بقول امام خمینی:
حج کے بڑے فلسفوں میں سے ایک، اس کا سیاسی پہلو ہے۔ جس دن سے حج وجود میں آیا ہے، اسی دن سے اس کے سیاسی پہلو کی اہمیت، اس کے عبادتی پہلو سے کم نہیں ہے۔ اس کا سیاسی پہلو، اپنی سیاست کے علاوہ خود عبادت بھی ہے۔ وہ حج جو خداوند متعال چاہتا ہے اور وہ حج جو اسلام نے ہم سے چاہا ہے، وہ ہے کہ جب آپ حج کے لیے جائيں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیدار کریں، متحد کریں، انھیں سمجھائيں کہ کیوں ایک ارب سے زیادہ مسلمان، دسیوں کروڑ کی آبادی والی دو بڑی طاقتوں کے دباؤ میں رہیں۔
امام خمینی
16 اگست 1983
اسلامی گھرانہ
انسان کو اپنے گھر والوں کے ساتھ خوش اخلاق ہونا چاہیے۔ ایک ایسی بلا ہے جس سے ہمارے بہت سے مومن اور اچھے لوگ بھی دوچار ہیں، اچھے لوگ ہیں لیکن اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بڑے بدمزاج، تندخو اور سخت گیر ہیں، جو بہت ہی بری چیز ہے۔ اگر آپ سوچیں اور غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس ایک جملے کے پیچھے کہ انسان کو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش مزاج ہونا چاہیے، گہرے راز پنہاں ہیں۔ البتہ یہ چیز زیادہ تر مردوں میں پائي جاتی ہے، کچھ عورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں لیکن یہ مشکل زیادہ تر مردوں کے ساتھ ہے جن کا رویہ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ کبھی کبھی شمر کی طرح ہوتا ہے۔ کسی اور بات پر ان کا موڈ خراب ہے، کسی نے ان کی بے عزتی کی ہے، برا بھلا کہا ہے، اس کا غصہ وہ بیوی بچوں پر نکالتے ہیں۔
امام خامنہ ای
15 فروری 2004