قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی تقوی لفظ ہے، اس کا مطلب ہے مکمل توجہ اور پوری طرح چوکنا رہنا۔ اس شخص کی طرح جو لمبا لباس پہن کر، علمائے دین کے لباسوں کی طرح، ایک خاردار راستے پر چل رہا ہے، تو وہ چوکنا رہتا ہے کہ کہیں کوئي کانٹا اس کے لباس میں نہ لگ جائے، قدم بہ قدم اور ہر لمحہ نگرانی۔ اپنے پیروں کے نیچے بھی دیکھے اور یہ بھی دیکھے کہ یہاں پر وہ جگہ کہاں ہے جہاں کانٹے کم ہیں کہ اسی طرف بڑھے۔ مطلب یہ کہ نیچے بھی دیکھے اور آگے بھی دیکھے، یہی تقوی ہے۔ "تقوی اللہ" کے معنی، جس کا ترجمہ عام طور یہ کیا جاتا ہے کہ انسان، اللہ سے ڈرے، خوف رکھے، یہی ہیں! تو خوف خدا کا مطلب یہ ہے، یعنی پوری شدت سے اس بات کا خیال رکھیے کہ خدا کے حکم کے خلاف، خدا کے اوامر و نواہی کے خلاف عمل نہ ہو، یہی تقوی ہے۔ ایسے ہی موقعوں پر جب قرآن مجید فرماتا ہے "ان تصبروا و تتقوا"(اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو) تو اس کی ایک خصوصیت ہے: یہ تقوی، دشمن کے مقابلے میں تقوی ہے۔ یعنی چوکنا رہنا، دشمن پر نظر رکھنا، اس کے حرکنات و سکنات پر گہری نظر رکھنا، اس کے مقابلے کے لئے اپنی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا، اس کی مشقوں اور سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔
امام خامنہ ای
28 اگست 2017
لوگوں کا سرگرم عمل رہنا بہت ضروری ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے بڑے شیطان، لوگوں کو بہکانے کے درپے ہیں، جیسا کہ ان کے سرغنہ نے کہا تھا: لاغوینّھم اجمعین یعنی میں ضرور ان سب کو بہکا کر رہوں گا۔ (سورہ، ص، آيت 82) تو مسلسل لوگوں کو بہکانے میں مصروف ہیں، ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے جنھوں نے آج کسی بھی بات کو، کسی بھی جھوٹ کو پہنچانا اور ہر غلط بات کو سنوارنا اور اس کا جواز پیش کرنا بہت آسان بنا دیا ہے۔ یہ لوگ مسلسل معاشرے کے ذہن میں کچھ نہ کچھ انڈیلتے رہتے ہیں، بہکاتے رہتے ہیں، لاغوینّھم اجمعین تاکہ لوگوں کو اس ایمان سے، اس یقین سے، اس امید سے، اس خود اعتمادی سے دور کر دیں، انھیں مایوس کر دیں ... دشمن یہ کام کر رہا ہے۔
امام خامنہ ای
10 مارچ 2022
قبائلی برادری کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد کی جانے والی کانفرنس کی منتظمہ کمیٹی نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایران میں قبائلی برادری کی خدمات، وفاداری اور قربانیوں کی قدردانی کی۔ آپ نے شہیدوں اور شہادت کے جذبے کے بنیادی محرکات کے بارے میں گفتگو کی اور کچھ ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 8 جون 2022 کو ادارہ حج و زیارات کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں حج کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور حجاج کرام کو چند اہم سفارشات کیں۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے قدیم مجاہد اور امام خمینی کے دیرینہ دوست حجۃ الاسلام سید محمود دعائی کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔رہبر انقلب اسلامی کے تعزیتی پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی تینتیسویں برسی پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عقیدت مندوں کے پرشکوہ اجتماع سے خطاب کیا۔ 4 جون 2022 کے اپنے خطاب میں آپ نے امام خمینی کی شخصیت، آپ کے مکتب فکر کے پہلوؤں اور ساتھ ہی دیگر موضوعات پر روشنی ڈالی۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے:
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر میں سب سے پہلی چیز جو موجود نظر آتی ہے وہ 'خالص محمدی اسلام' پر تاکید اور امریکی اسلام کی نفی ہے۔ امام خمینی نے خالص اسلام کو امریکی اسلام کی ضد قرار دیا ہے۔ امریکی اسلام کیا ہے؟ ہمارے زمانے میں، امام خمینی کے زمانے میں اور تمام ادوار میں جہاں تک ہماری معلومات ہے، ممکن ہے آئندہ بھی یہی رہے کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ہے ملحدانہ اسلام اور دوسری رجعت پسندانہ اسلام۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ان لوگوں کو جو الحادی فکر رکھتے تھے یعنی دین کو، سماج کو، انسانوں کے سماجی روابط کو اسلام سے الگ رکھنے کے قائل تھے، ہمیشہ ان لوگوں کے زمرے میں رکھا جو دین کے سلسلے میں بنیاد پرستانہ نظریہ رکھتے تھے۔ یعنی دین کے بارے میں ایسا قدامت پسندانہ نظریہ جو نئی فکر کے انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہو، جو متعصبانہ طور پر غلط بنیادوں پر اور بنیاد پرستی پر زور دیتا ہو۔ امام خمینی ان دونوں نظریات کے حامل لوگوں کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر کرتے تھے۔
آج اگر آپ غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ دنیائے اسلام میں ان دونوں شاخوں کے نمونے موجود ہیں اور دونوں کو دنیا کی توسیع پسند طاقتوں اور امریکا کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے۔ آج منحرف گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ وغیرہ کو بھی امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے اور اسی طرح ایسے حلقوں کو بھی امریکا کی سرپرستی حاصل ہے جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن اسلامی عمل اور اسلامی فقہ و شریعت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے عظیم قائد کی نگاہ میں خالص اسلام وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر استوار ہو۔ جو روشن فکری کے ساتھ، زمان و مکان کے تقاضوں سے واقفیت کے ساتھ، مسلمہ علمی طریقوں اور روشوں سے اور دینی درسگاہوں میں تکمیل کے مراحل طے پانے والے عمل کے ذریعے اخذ کیا جاتا ہے اور حاصل ہوتا ہے۔
دوم: امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اصولوں میں سے ایک ہے نصرت خداوندی پر اعتماد۔ اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد، دوسری جانب دنیا کی مستکبر اور استبدادی طاقتوں پر عدم اعتماد۔ اللہ تعالی نے مومنین سے وعدہ کیا ہے اور جو لوگ اس وعدے پر یقین نہیں رکھتے کلام خداوند میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے:۔ جو لوگ «اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا» اللہ کے وعدے پر یقین، اللہ کے وعدے کی صداقت پر ایقان۔ امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک ستون یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین و توکل کیا جائے۔
سوم؛ عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے آس لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ آپ نے پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل انجام دی، رضاکار فورس تشکیل دی۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ تشہیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔
چوتھا اصول ملک کے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ امام خمینی محروم و مستضعف طبقات کی حمایت پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ اقتصادی عدم مساوات کے شدید مخالف تھے۔ اشرافیہ کلچر کو ترش روئی سے مسترد کر دیتے تھے۔
پانچواں نکتہ خارجہ امور سے متعلق ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ آشکارا طور پر عالمی استکبار اور بین الاقوامی غنڈوں کے مخالف محاذ کا حصہ تھے اور اس سلسلے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دنیا کی استبدادی طاقتوں، مستکبرین اور بین الاقوامی غنڈوں کے مقابلے میں مظلومین کا ساتھ دیتے تھے، مظلومین کی حمایت میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور بنیادی اصول ملک کی خود مختاری پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی ہے۔ یہ بھی بہت اہم باب ہے۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ تفرقہ اندازی کی سازشوں پر خواہ وہ تفرقہ مذہب و مسلک کے نام پر ہو، شیعہ سنی اختلاف کے نام پر یا قومیتوں کی بنیاد پر، فارس، عرب، ترک، کرد، لر اور بلوچ کے نام پر ہو، پوری توجہ رہنی چاہئے۔ تفرقہ انگیزی دشمن کی بہت اہم چال ہے اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے شروع ہی سے قومی اتحاد اور عوام الناس کی یکجہتی پر حد درجہ توجہ دی اور یہ آپ کے اہم اصولوں میں ہے۔ امریکی اب اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ باقاعدہ شیعہ اور سنی کا نام لیتے ہیں۔ شیعہ اسلام اور سنی اسلام، پھر ان میں سے ایک کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روز اول سے مسلکی اختلاف کے سلسلے میں بالکل مساویانہ موقف اختیار کیا۔ ہم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جو سنی ہیں بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا برتاؤ ہم نے حزب اللہ لبنان کے ساتھ کیا جو شیعہ تنظیم ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایک ہی نہج پر کام کیا ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2015
پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظرئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔
میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔ مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ «فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم» دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔
مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آ جاتا ہے، کوئی گڑھا آ جاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آ جائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آ جائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے؟ امام کا موقف تھا دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیا میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔
یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظرئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے جیسا کہ بعض سیاسی رہنما اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔
امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہوکر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔
اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر با وقار اور آزاد منش قوم کا فطری رد عمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔
دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔
مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔
پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مد نظر رکھنا چاہئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مد نظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ "جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔" یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مد مقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔ جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2019
اول: مخاصمتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہونے پر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا رد عمل بہت شجاعانہ اور فعالانہ ہوتا تھا۔ کبھی کمزوری اور پسپائی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ کبھی گھبراتے نہیں تھے، نہ کمزوری کا احساس کرتے تھے، نہ کبھی کمزوری ظاہر کرتے تھے۔ دشمنوں کے مد مقابل بڑے مقتدرانہ اور سرگرم انداز میں ڈٹ جاتے تھے۔
دوم: امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کبھی بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ الگ الگ حالات میں کبھی بھی وہ مضطرب اور ہیجان زدہ نہیں ہوتے تھے، کبھی بھی عقل و منطق سے عاری جذبات کی بنیاد پر کام نہیں کرتے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ شجاعانہ اور محکم جذبات پر مبنی ہوتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ عقلی تخمینوں پر استوار ہوتے تھے۔
سوم: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ترجیحات پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انقلابی تحریک کے زمانے مین آپ کا مقابلہ سلطنتی نظام سے تھا تو کبھی بھی فروعی مسائل کو کام کے میدان میں نہیں آنے دیتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں آپ کی ترجیح جنگ تھی تو آپ نے یہ بات بارہا کہی کہ تمام امور میں جنگ سر فہرست ہے، مقدس دفاع سر فہرست ہے اور امر واقعہ بھی یہی تھا۔ ہمیشہ ترجیحی مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور فروعی مسائل کو اپنی توجہ کے دائرے میں نہیں آنے دیتے تھے۔
چہارم: عوام الناس کی توانائیوں پر اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایرانی قوم کو بہت عظیم، آگاہ اور توانا قوم مانتے تھے۔ اس پر انھیں بھرپور اعتماد تھا۔ عوام کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے خاص طور پر نوجوانوں کے بارے میں۔ آپ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات میں دیکھئے کہ آپ کس قدر عوام کی طرف سے پرامید رہتے تھے، نوجوانوں کے بارے میں کتنے پرامید نظر آتے تھے۔
پنجم: دشمن پر عدم اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی نظام کے سربراہ کی حیثیت سے گزارے گئے اپنے دس سال کے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی دشمن پر اعتماد نہیں کیا۔ دشمن کی تجاویز کو ہمیشہ مشکوک نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے دکھاوے پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ دشمن کو حقیقی معنی میں دشمن سمجھتے تھے اور اس پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔
ششم: عوام کی یکجہتی اور اتحاد پر توجہ۔ اس دشمنی کے مقابلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں ہر وہ چیز مسترد کر دینے کے قابل تھی جو عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرے اور عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دے۔
ہفتم: نصرت خداوندی اور وعدہ پروردگار پر گہرا یقین و ایمان۔ یہ بھی بڑا بنیادی نکتہ تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نصرت خداوندی پر تکیہ کرتے تھے۔ وہ جی جان سے محنت کرتے تھے، اپنے پورے وجود سے میدان میں سرگرم عمل رہتے تھے لیکن ساری امیدیں نصرت خداوندی اور قدرت پروردگار سے وابستہ رکھتے اور قوت الہیہ پر تکیہ کرتے تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا 'اِحدی الحُسنَیین' پر گہرا ایقان تھا۔ ما لنا الّا اِحدی الحُسنَیین ان کا یہ نظریہ تھا کہ اگر اللہ کے لئے کام کیا جائے تو نقصان اور خسارے کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر کام اللہ کی خاطر انجام دیا جائے تو اس میں نقصان کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یا تو اس میں پیشرفت حاصل ہوگی اور اگر پیشرفت حاصل نہ ہوئی تب بھی ہم نے اپنا جو فریضہ تھا اسے پورا کر دیا، بنابریں بارگاہ خداوندی میں ہم سرخرو ہیں۔
امام خامنہ ای
4 جون 2018
امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس عظیم ہنرمندی کا مظاہرہ کیا اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ سماج کے افراد کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو میدان میں اتارا اور انھیں میدان میں باقی رکھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یہ توانائی کہاں سے حاصل ہوئی۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر میں خاص طور پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا اور یہ آج ہمارے اور آپ کے لئے سبق آموز ہے۔ امام خمینی کی شخصیت میں بھی ایک خاص کشش تھی اور آپ کے نعروں میں بھی الگ کشش تھی، یہ کشش اتنی قوی تھی کہ مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان میدان عمل میں اتر پڑے۔ حالانکہ جدوجہد کے دور میں بھی اور انقلاب کی فتح کے بعد پہلے عشرے میں بھی نوجوانوں کے سامنے الگ الگ رجحانات، الگ الگ نظریات و افکار تھے۔ بائیں بازو کے رجحانات تھے، سرمایہ داری نظام سے تعلق رکھنے والے نظریات بھی تھے، یہ حلقے بھی رنگ برنگی باتیں کرتے تھے، گوناگوں باتیں کرتے تھے۔
اس کے علاوہ عام زندگی کی کشش بھی نوجوانوں کے سامنے موجود تھی۔ نوجوان ان راستوں کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ مگر نوجوانوں نے امام کا انتخاب کیا، امام کے راستے کے انتخاب کیا، تحریک کا، جدوجہد کا اور انقلاب کا انتخاب کیا۔ کیوں؟ اسی مقناطیسیت کی وجہ سے جو امام کے اندر تھی۔ کچھ مقناطیسی خصوصیات خود امام کی شخصیت سے تعلق رکھتی تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بڑی مستحکم اور توانا شخصیت کے مالک تھے، دشواریوں کا سامنا کرنے والے منفرد جذبہ استقامت کے مالک تھے۔ امام خمینی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے تھے اور صداقت کا پیکر تھے، ہمیشہ سچ بات کہتے تھے۔ ہر سننے والا شخص امام خمینی کی باتوں میں سچائی کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ سب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پرکشش خصوصیات تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ پر ایمان اور توکل آپ کے عمل اور بیان میں مساوی طور پر نمایاں تھا۔ ان کا عمل اور ان کا قول دونوں ہی اللہ تعالی پر ان کے ایمان اور توکل کا آئینہ تھے۔ یہ امام کی مقناطیسی خصوصیات تھیں۔
ان خصوصیات کے علاوہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کشش کا ایک حصہ ان اصولوں سے متعلق تھا جو آپ نے متعارف کرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عوام کے سامنے جو چیزیں پیش کیں ان میں ایک اسلام تھا، خالص محمدی اسلام۔ خالص اسلام یعنی وہ اسلام جو نہ تو رجعت پسندی کا اسیر ہے اور نہ خوشہ چینی میں مبتلا ہے۔ امام خمینی نے ایسے دور میں جب رجعت پسندی بھی تھی اور خوشہ چینی کا سلسلہ بھی تھا، حقیقی اسلام پیش کیا۔ یہ چیز مسلم نوجوانوں کے لئے پرکشش تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعلانیہ اصولوں میں خود مختاری، آزادی، سماجی انصاف، اقتصادی مساوات تھی۔ یہ امام کے اصول تھے جنھیں وہ برملا بیان کرتے تے۔ امام کا ایک اصول امریکی تسلط کے چنگل سے رہائی پر تاکید تھی۔ یہ امام خمینی کے اصول تھے، یہ سب پرکشش اصول ہیں۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے پرکشش اصول تھے اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آج بھی امریکی تسلط اور بالادستی سے باہر نکل جانا، ان ملکوں کے نوجوانوں کے لئے بھی پرکشش ہے جنھوں نے امریکہ کی فرماں برداری کے طویل المیعاد معاہدے کئے ہیں۔ مثلا سعودی عرب جیسے ملک میں جو امریکی مفادات کی خدمت پر خود کو مامور سمجھتا ہے، آپ اگر نوجوانوں سے پوچھئے تو آپ دیکھیں گے کہ سارے نوجوان امریکہ کی غلامی سے متنفر ہیں اور اس ظالمانہ تسلط سے نجات کے خواہش مند ہیں، اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔
امام نے جو اصول اور جو نعرے متعارف کرائے ان میں سے ایک عوامی بالادستی تھی۔ یعنی ملکی اقتدار عوام کے ہاتھوں میں رہے؛ عوام انتخاب کریں، وہ اپنی مرضی سے طے کریں، زندگی کے تمام شعبوں میں عوام اپنے ارادے کے مطابق عمل کریں۔
امام کا ایک اور نعرہ ملت کی خود اعتمادی تھی۔ یعنی وہ عوام کو تلقین کرتے تھے اور بار بار دہراتے تھے کہ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ کے اندر صلاحیت ہے۔ علم کے میدان میں، صنعت کے میدان میں، بنیادی کاموں کے شعبے میں، ملک کے انتظام و انصرام میں، ملک کے اہم اور حساس شعبوں کے مینیجمنٹ میں، معیشت وغیرہ جیسے میدانوں میں آپ حود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی توانائی رکھتے ہیں۔
امام خامنہ ای
4 جون 2017
امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کے عہد کو خالص اسلام کی فکری، علمی اور ثقافتی تشریح کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں امام زین العابدین علیہ السلام نے حقیقی اسلام کی تعمیر نو، امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلام کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس ڈھانچے پر دین کو استوار کرنے کا کام کیا۔ لہذا موافق اور سازگار حالات اور پچھلے امام کے کاموں کے نتیجے میں ہموار ہونے والی راہ، اس بات کا سبب بنی تھی کہ امام صادق علیہ السلام، اسی سچی امید کا مظہر بن جائيں، جس کا شیعہ برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ (پیشـوائے صادق، صفحہ 59)
چنانچہ امام صادق علیہ السلام اپنے عظیم المرتبت والد کی نظر میں اور ساتھ ہی شیعوں کی نظر میں بھی، امامت اور تشیع کے آئيڈیلز کا مظہر ہیں۔ گویا سلسلۂ امامت نے انھیں، امام زین العابدین اور امام باقر علیہما السلام کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک ذخیرے کے طور پر مدنظر رکھا ہے۔ گویا وہ وہی ہیں، جسے علوی حکومت اور توحیدی نظام کی تعمیر نو کرنی اور اسلام کا دوبارہ احیاء کرنا ہے۔ ان سے پہلے کے دو امام اس دشوار راہ کے ابتدائي مراحل طے کر چکے ہیں اور اب آخری قدم اٹھانے کی ان کی باری ہے۔ (پیشـوائے صادق، صفحہ 62)
اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام کا منصوبہ یہ تھا کہ امام باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد کاموں کو سمیٹیں، ایک اعلانیہ قیام برپا کریں، بنی امیہ کی حکومت کو گرا دیں اور خود خلافت کا پرچم بلند کریں۔(11/6/1979)
تاریخی لحاظ سے امام صادق علیہ السلام کی امامت کا زمانہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ پہلا حصہ، بنی امیہ کی حکومت کا آخری زمانہ ہے جس میں امام صادق علیہ السلام کی جدوجہد بہت پرجوش، ایک دم واضح اور بہت ٹھوس تھی۔ امام علیہ السلام کھلم کھلا خانۂ خدا میں، منیٰ میں اور عرفات میں لوگوں کی بھیڑ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ حاکم میں ہوں۔ (ہمرزمان حسین، صفحہ 195) امام کا یہ انداز بنی امیہ کے آخری دور میں ان کی جدوجہد کے عروج کی نشاندہی کرتا ہے۔ (6/9/1988)
امام صادق علیہ السلام کی امامت کا دوسرا حصہ، بنی عباس کی خلافت کے آغاز کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس حصے میں امام عالی مقام کو بہت زبردست جدت عمل سے کام لینا تھا۔ سب سے پہلے اپنے تبلیغی مشن کو پھر سے شروع کریں، دوسرے، شیعہ طرز فکر کو عوام کے درمیان رائج کریں، تیسرے ان لوگوں کی تربیت اور پرورش کریں جنھیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا، آگے بڑھنا اور قیام کرنا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان سارے کاموں میں مشغول تھے۔ (ہمرزمان حسین، صفحہ 199)
دوسرے الفاظ میں امامت کی تشریح اور تشہیر؛ شیعہ فقہ کی طرز پر دینی احکام کا بیان اور ان کی تبلیغ، شیعی نظریات کی بنیاد پر قرآن مجید کی تفسیر اور خفیہ نظریاتی و سیاسی سسٹم کی تشکیل، (پیشوای صادق صفحہ 65) الہی تحریک اور اپنی جدوجہد میں امام عالی مقام کے اصلی اقدامات میں سے تھے۔
آخری بات یہ کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں، وقت نے انھیں ایک موقع دیا اور حضرت ایک ایسا کام کرنے میں کامیاب رہے کہ معاشرے میں صحیح اسلامی معرفت کی بنیادیں اتنی مضبوط ہو جائيں کہ پھر تحریفوں کے ذریعے ان بنیادوں کو نہ ہلایا جا سکے۔ آپ نے یہ کام کیا تاکہ یہ راستہ باقی رہے اور تاریخ کے کسی بھی حصے میں، جو لوگ اہل ہیں، وہ اس راہ پر چل سکیں اور اسلامی نظام اور اسلامی نظام پر مبنی ڈھانچہ وجود میں لا سکیں اور یہ اونچی عمارت تعمیر کر سکیں۔ یہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا کام ہے۔ (8/11/2005)
جنوب مغربی ایران کے خوزستان صوبے کے آبادان شہر میں ایک عمارت کے گر جانے کے سبب کئي افراد کے جاں بحق اور زخمی ہونے کے افسوسناک واقعے پر رہبر انقلاب اسلامی نے ایک پیغام میں اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو تعزیت پیش کی۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے متعلقہ عہدیداروں کو حکم دیا ہے کہ جانی نقصان کو روکنے کے لیے تیز کارروائي کے ساتھ ہی اس واقعے کے ذمہ داروں کو پکڑ کر عبرت ناک سزا دی جائے اور یقینی بنایا جائے کہ ملک میں اس قسم کے حادثات دوبارہ نہ ہوں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای مزاحمت و استقامت کی فتح کی بات کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ انہیں اس فتح کا پورا یقین ہے اور اس یقین کی وجہ ان کا عقیدہ اور ایمان ہے۔
1996 کے بعد آپ فرماتے تھے کہ اسرائیل دلدل میں پھنس چکا ہے، وہ نہ آگے بڑھ سکتا ہے کہ لبنان پر دوبارہ قبضہ کر لے اور نہ پسپائی اختیار کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا منتظر رہنا چاہئے کہ کیا واقعہ رونما ہونے والا ہے؟ تاہم یہ معاملہ اسلامی مزاحمت کی کارکرگی پر منحصر ہے۔
سنہ 1999 کے اواخر میں اسرائیل میں نیتن یاہو اور ایہود باراک کے درمیان وزارت عظمی کے لئے مقابلہ آرائی ہوئي۔ ایہود باراک نے اعلان کیا کہ جولائی میں اسرائیل، لبنان سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس وقت لبنان اور شام کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ یہ تاریخ آ جائے گی اور اسرائيل عقب نشینی نہیں کرے گا۔ باراک نے لبنان سے پسپائی اختیار کرنے کے وعدے کے جواب میں حکومت لبنان اور (شام کے صدر) حافظ الاسد سے ضمانتیں اور مراعات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں تاہم اسے ناکامی ہاتھ لگی جس کے بعد یہ خیال عام ہونے لگا کہ اسرائیل لبنان سے پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ جب اس وعدے کے ایفاء کا وقت آئے گا تو وہ کہہ دے گا کہ اس نے ضمانتیں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو اسے نہیں دی گئیں لہذا وہ لبنان کو چھوڑ کر پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اسلامی مزاحمتی تحریک (حزب اللہ) کی سطح پر ہم لوگوں کا بھی خیال تھا کہ یہی ہونے والا ہے۔
انہی ایام میں ہماری ملاقات آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ہوئی اور ہم نے اپنا خیال ظاہر کیا تو آپ نے بالکل مختلف رائے پیش کی اور کہا کہ لبنان میں آپ کی فتح بالکل قریب آ چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ نزدیک آ پہنچی ہے جتنا آپ سوچ سکتے ہیں۔ یہ بات دستیاب اطلاعات اور تجزیوں کے برخلاف تھی۔
اطلاعات تو یہ تھیں کہ اسرائیل کی جانب سے اس پسپائی کی کوئي تیاری بھی شروع نہیں کی گئی تھی۔ اس کے باوجود رہبر انقلاب نے ہم سے کہا کہ آپ خود کو اس کامیابی کے لئے تیار کیجئے اور اس بارے میں غور کیجئے کہ اسرائیل کی پسپائی کے بعد آپ کو کیا اقدامات کرنے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اسرائیل نے پسپائی اختیار کی تو ہمیں تعجب نہیں ہوا کیونکہ ہم اس کے لئے پہلے سے تیار تھے۔
سید حسن نصر اللہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی پارلیمنٹ 'مجلس شورائے اسلامی' کے ارکان نے بدھ 25 مئی 2022 کو رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ ملاقات حسینیہ امام خمینی میں انجام پائی جس میں پارلیمنٹ اسپیکر نے ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی کرتے ہوئے ایوان کی سرگرمیوں کی بریفنگ پیس کی۔ اس کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے۔
جب ہم نے اعلان کیا کہ خرمشہر کو کو ہم نے واپس لے لیا ہے۔ تو ایک دو دن تک دنیا کی نیوز ایجنسیاں اس خبر کو شائع کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ اسے بڑے شک و تردد سے دیکھ رہی تھیں۔ مگر یہ ہو چکا تھا۔ آخرکار سب کو اس فتح کا اقرار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس آپریشن میں ہمارے مجاہدین نے 15 ہزار سے زیادہ عراقی فوجیوں کو قیدی بنایا اور محاذوں کے پیچھے جنگی قیدیوں کے لئے بنائے گئے کیمپوں میں بھیجا۔
امام خامنہ ای
22 مئی 2002
جو نوجوان اسلام کی خدمت کی نیت سے پوری رات بیدار رہتا ہے، خود کو خطرات میں ڈالتا ہے، مجاہدت کرتا ہے، اس کے عمل کی قدر و قیمت کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کس قدر ہے۔ اس کی پاداش کیا ہے! کیا اللہ کے علاوہ کسی کے بس کی بات ہے کہ اس عمل کا اجر ادا کر سکے؟ کیا فطرت اور اس کی آرائشیں اس انسان کا اجر قرار پا سکتی ہیں جس نے اللہ کے لئے قیام کیا ہے اور اللہ کی خاطر خود کو خطرے میں ڈالا ہے؟ آپ نے اللہ کے لئے قیام کیا اور اللہ کے لئے جہاد کیا اور ان شاء اللہ آخر تک اللہ کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اور اس تحریک کو اللہ کی ہی خاطر فتح سے ہمکنار کریں گے۔ یہ جذبہ للہی آپ کو فتح کے ساحل تک پہنچائے گا۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ
17 ستمبر 1979
اخلاق پاکیزہ و لطیف ہوا کی مانند ہے، انسانی معاشرے میں اگر یہ موجود ہو تو لوگ اس فضا میں سانس لیکر صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر اخلاقیات نہ ہوں اور بے اخلاقی کا غلبہ ہو جائے، حرص و طمع، خواہشات، جہالتیں، دنیا طلبی، ذاتی نفرتیں، حسد، کنجوسی، ایک دوسرے کے بارے میں سوئے ظن عام ہو جائیں، جب یہ اخلاقی برائیاں پھیل جائیں تو زندگی بہت دشوار ہو جائے گی۔ فضا تنگ ہو جائے گی۔ انسان صحتمند ماحول میں سانس نہیں لے پائے گا۔ آج ہمیں، ایرانی عوام کو بھی اور اسلامی معاشرے کو بھی اخلاقی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
20 جولائی 2009
تمام ادیان کی بنیاد عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو مبعوث کیا، آسمانی صحیفے بھیجے 'لیقوم النّاس بالقسط' (سورہ حدید آیت 25) تو اصلی ہدف یہ تھا کہ لوگ عدل قائم کریں اور معاشرہ انصاف کے محور پر کام کرنے والا معاشرہ بن جائے۔ ہم ان میدانوں میں پیچھے ہیں۔ کافی کچھ کرنا ہے۔ بڑی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
28 اگست 2021
رہبر انقلاب اسلامی نے آبادی کے شعبے کے کارکنوں کے نام اپنے پیغام میں ملک میں افرادی قوت کو نوجوان بنائے جانے پر زور دیا ہے۔
آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ کے روز ایک پیغام میں آبادی کے شعبے کے فرض شناس کارکنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے افزائش نسل کے لیے کوشش، ملک میں افرادی قوت کو نوجوان بنائے رکھنے اور آبادی کے بوڑھے ہونے کے ہولناک مستقبل سے نجات دینے کی چارہ جوئي کو ایک حیاتی پالیسی اور سب سے ضروری ذمہ داریوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن، جو بدھ کو آبادی سے متعلق امور کے قومی ہیڈکوارٹر کے سیکریٹری ڈاکٹر فروتن نے پڑھا، حسب ذیل ہے:
حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(وہ جنگ جس میں رسول خدا خود شریک نہیں ہوئے) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ امام خامنہ ای25 جنوری 2022
رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے عالم و ناصح حجۃ الاسلام الحاج سید عبد اللہ فاطمی نیا کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
اگر گھر کے اندر عورت کو فکری و اخلاقی آسودگی حاصل ہو، سکون و چین حاصل ہو، شوہر واقعی زوجہ کے لئے 'لباس' کا کردار ادا کر رہا ہے اور اسی طرح زوجہ بھی شوہر کے لئے 'لباس' ہو۔ دونوں کے درمیان اسی انداز کی مہر و محبت ہو جس کی قرآن نے تاکید کی ہے۔ اگر خاندان کے اندر اس اصول 'و لھنّ مثل الذی علیھنّ' پر عمل کیا جا رہا ہو تو خاندان سے باہر کی فضا اور حالات اس عورت کے لئے قابل تحمل ہوں گے اور وہ ان کا سامنا کر سکے گی۔ اگر عورت اپنی رہائشگاہ کے اندر، اپنے اصلی محاذ کے اندر اپنی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یقینا معاشرے کی سطح پر بھی وہ اس میں کامیاب ہوگی۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جیسے ہی ہم بڑے شہروں سے باہر نکلتے تھے ایرانی ڈاکٹر بہت کم نظر آتے تھے۔ میں خود زاہدان میں، ایرانشہر میں رہ چکا ہوں۔ وہاں جو ڈاکٹر تھے ہندوستانی تھے۔ برے ڈاکٹر نہیں تھے لیکن بات یہ ہے ملک غیر ملکی ڈاکٹروں کا محتاج تھا۔ انقلاب کے اوائل میں امراض قلب کے لئے آٹھ سال، نو سال اور دس سال بعد کا نمبر ملتا تھا۔ یعنی دل کا مریض اسپتال جاتا تھا اور اسے آپریشن کے لئے دس سال بعد کا وقت دیا جاتا تھا۔ تب تک بیمار فوت ہو جاتا تھا۔ آج دور دراز کے شہروں میں بھی امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر اوپن ہارٹ سرجری انجام دے رہے ہیں۔ یہ حقیقی پیشرفت ہے۔
امام خامنہ ای
10 جون 2018
جو چیز میری نظر میں بڑی حیرت انگیز ہے وہ طاغوتی شاہی حکومت کی شکست نہیں بلکہ شیطان کی شکست اور آپ نوجوانوں کا فرض شناس افراد میں بدل جانا ہے۔ 7 ستمبر 1979
حالات کو بدلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص کسی انسان کو اس طرح بدل دے۔ فسق و فجور کے مرکز سے نکال کر عبادت و عرفان کی وادی میں پہنچا دے، کفار کے خلاف جنگ کے میدان میں اتار دے۔ اگر ہم سارے جمع ہو جاتے کہ صرف دس افراد کے اندر ایسی توانائي پیدا کر دیں تو ہرگز یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ ایک روحانی معاملہ جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح بقیہ چیزیں بھی اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ 11 فروری 1986
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ
یوم استاد کی مناسبت سے ایران بھر سے آئے ہوئے اساتذہ اور دانشوروں نے رہبر انقلاب سے 11 مئی 2022 کی صبح ملاقات کی۔
اس ملاقات میں آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تعلیم و تربیت کے ادارے کو ایک تمدن ساز نسل کی پرورش کرنے والا ادارہ بتایا اور ٹیچروں کی خدمات خاص طور پر کورونا کی وبا کے دوران ان کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے ان کے معاشی مسائل کو حل کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 9 مئی 2022 کو ملک کے لیبر طبقے سے خطاب کیا۔ تہران کے حسینیہ امام خمینی میں ہونے والی اس تقریر میں رہبر انقلاب اسلامی نے لیبر طبقے کی اہمیت، خدمات، ضرورتوں اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ (1)
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
خاندان اور کنبے سے متعلق بحث میں بار بار عورت کے کردار اور رول کا ذکر آتا ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ گھر کے اندر عورت کی پوزیشن مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشرے کو اس کی قدر و قیمت کا احساس ہونا چاہئے۔ گھر میں خواتین کے کاموں کی قدر و قیمت کا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ کچھ عورتیں ہیں جو باہر جاکر ملازمت وغیرہ بھی کر سکتی تھیں، کچھ ہائیر ایجوکیشن لے سکتی تھیں، کچھ تو ایسی بھی ہیں کہ جو اعلی تعلیم یافتہ خواتین تھیں لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کی پرورش کرنی ہے، تربیت کرنی ہے اس لئے ہم کام کے لئے باہر نہیں نکلے۔ ایسی خواتین کی قدردانی ہونی چاہئے۔ یہاں حضرات نے یہ کہا کہ ایسی خواتین کا انشورنس ہونا چاہئے۔ بیشک ہونا چاہئے۔ ان کی اقتصادی ضروریات کی تکمیل، ان کا بیمہ اور بقیہ ضروری چیزیں فراہم کی جانی چاہئے۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
نماز کی اہمیت اتنی ہے کہ اسے بیان کر پانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ لیس منی من استخف الصلاۃ جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ استخفاف کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔
اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے۔
امام خامنہ ای
19 نومبر 2008
میں آپ عزیزوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا ہے: "احی قلبک بالموعظۃ" اپنے دل کو وعظ و نصیحت سن کر زندہ کرو! یہ بات امیر المومنین علیہ السلام کہہ رہے ہیں، وہ بھی اپنے بڑے بیٹے، اپنے پیارے بیٹے امام حسن سے کہہ رہے ہیں اور آپ کے لیے یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ یہ خط امیر المومنین نے صفین سے واپسی میں، اپنے سامنے موجود بے شمار مسائل کے دوران لکھا تھا۔ یہ خط نہج البلاغہ میں موجود ہے، اگر آپ اس خط کا مطالعہ کریں تو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ احی قلبک بالموعظۃ؛ نصیحت بھی ضروری ہے۔
آج میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ سورۂ مریم کی ایک آيت ہے جو قرآن مجید کی ہلا دینے والی آيتوں میں سے ایک ہے۔ آیت میں کہا گيا ہے: وَ اَنذِرھُم یَومَ الحَسرَۃِ اِذ قُضِیَ الاَمرُ وَ ھُم فی غَفلَۃ یعنی اے ہمارے پیغمبر! ان لوگوں کو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، حسرت کے دن سے ڈرائیے۔
حسرت کا دن، قیامت کا دن ہے، اس دن کو یوم حسرت بھی کہا گيا ہے۔ اذا قضی الامر یعنی جب کام پورا ہو چکا ہوگا اور پھر کچھ بھی نہ کیا جا سکے گا۔ قضی الامر کا مطلب یہ ہے۔ آيت کہتی ہے کہ پیغمبر ان لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے۔ انسان قیامت میں دیکھے گا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ ایک چھوٹے سے کام سے یہاں ایک بڑا انعام حاصل کر لیا جائے۔ دنیا میں ایک چھوٹے سے کام کا یہاں پر بہت زیادہ سودبخش اور ابدی نتیجہ حاصل ہو جائے اور وہ کام، اس نے نہیں کیا ہے۔ اس پر انسان حسرت زدہ رہ جائے گا۔ یا وہ دنیا میں ایک پرہیز کے ذریعے، کسی کام سے اجتناب کر کے، کسی بات کو یا عمل کو ترک کرکے ایک دردناک عذاب کو خود سے دور کر سکتا تھا، لیکن اس نے نہیں کیا، کوشش نہیں کی۔
ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہ صحیح کام کریں، ہمیں صحیح عمل کرنے کا، صحیح بات کرنے کا، صحیح پروگرام تیار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے، حسرت کا دن، بہت سخت دن ہے۔ یہ کام اور یہ فیصلے جوانی میں ممکن ہیں، میرے اور میرے جیسی عمر کے لوگوں کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ کبھی کبھی ہم اس بڑی حسرت کے نمونے دنیا میں بھی دیکھتے ہیں۔ کوئي چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، ہم حاصل نہیں کر پاتے تو ہمیں حسرت ہوتی ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ ویسا کیوں نہیں کیا؟ البتہ یہ، قیامت کی حسرت کے مقابلے میں بہت چھوٹی چیز ہے۔ اس حسرت سے ہزاروں گنا چھوٹی ہے لیکن بہرحال حسرت ہی ہے۔ بحمد اللہ آپ کو آج یہ حسرت نہیں ہے، کیونکہ آپ جوان ہیں۔ یہ چیز ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے جو جوانی اور ادھیڑ عمر کو پار کر چکے ہیں، ہمیں کچھ کام کرنے چاہیے تھے، ہم نے نہیں کیے اور کچھ کام نہیں کرنے چاہیے تھے، وہ ہم نے کیے۔
امام خامنہ ای
26 اپریل 2022
آپ طلبہ سے میری پہلی سفارش بے عملی اور مایوسی سے پرہیز کی ہے۔ ہوشیار رہیے۔ یعنی اپنا خیال رکھیے، اپنے دل کا خیال رکھیے، ہوشیار رہیے کہ بے عملی کا شکار نہ بن جائيے، نا امیدی میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ آپ کو تو دوسرے شعبوں میں امید کا سرچشمہ بننا ہے۔ جی ہاں! مختلف شعبوں میں کچھ خرابیاں ہیں لیکن کیا ان خرابیوں کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا؟ بالکل کیا جا سکتا ہے، انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ وہ پہلی بات جس کی میں سفارش کروں گا یہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں تقوے سے کام لیجیے، تقوی یعنی مسلسل خود پر نظر رکھنا اور چوکنا رہنا۔ اپنی طرف سے ہوشیار رہیے کہ مایوسی، ناامیدی اور "نہیں ہو سکتا"، "کوئي فائدہ نہیں" اور اس جیسے خیالات میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔ اگر آپ نے اس سفارش کو نظر انداز کر دیا تو نہ صرف یونیورسٹی کے طالب علم کا کردار گر جائے گا بلکہ آگے لے جانے والے بقیہ انجن بھی ٹھپ ہو جائيں گے، سفر کی رفتار دھیمی پڑ جائے گي۔
امام خامنہ ای
26 اپریل 2022
تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور سے قبضہ ہو جائے، پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چہار سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسا دیا جائے۔ ایک حقیقی وجود کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔
فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر، مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصی، اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں، شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
تحریک انتفاضہ جو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں تیسری دفعہ شروع ہوئی ہے، ماضی کی دونوں انتفاضہ تحریکوں سے زیادہ مظلوم ہے، لیکن درخشندگی اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اذن پروردگار سے آپ دیکھیں گے کہ یہ تحریک انتفاضہ جدوجہد کی تاریخ میں بڑا اہم مرحلہ رقم کریگی اور غاصب حکومت کے ماتھے پر ایک اور شکست چسپاں کر دیگی۔ یہ سرطان شروع سے اب تک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا علاج بھی مرحلہ وار ہے اور چند انتفاضہ تحریکوں اور بے وقفہ مزاحمت نے بڑے اہم مراحل کے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور وہ اسی طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔
1973 عیسوی کی جنگ میں مختصر ہی سہی جو کامیابیاں ملیں ان میں مزاحمت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 1982 عیسوی سے عملی طور پر مزاحمت کی ذمہ داری فلسطین کے اندر موجود عوام کے دوش پر آن پڑی، اسی بیچ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک -حزب اللہ- کا طلوع ہوا جو فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی مددگار بنی۔ اگر مزاحمت نے صیہونی حکومت کو زمیں بوس نہ کر دیا ہوتا تو آج ہم علاقے کی دیگر سرزمینوں، مصر سے لیکر اردن، عراق، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں تک اس کی جارحیت کا مشاہدہ کرتے۔ ہاں یہ بہت بڑا ثمرہ ہے، لیکن مزاحمت کا یہی واحد ثمرہ نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ کی آزادی، فلسطین کو آزاد کرانے کے عمل کے دو اہم تدریجی اہداف کا حصول سمجھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع پسندی کا عمل برعکس سمت میں مڑ گیا۔
فلسطین کے عوام اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی ضرورتوں کی تکمیل بہت اہم اور حیاتی فریضہ ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔ اس عمل میں غرب اردن کے علاقے کے مزاحمتی محاذ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے جو اس وقت مظلومانہ تحریک انتفاضہ کا اصلی بوجھ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے۔
امام خامنہ ای
21 فروری 2017
فلسطین کا قضیہ حل کرنے اور اس پرانے زخم کا مداوا کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی تجویز بالکل واضح، معقول اور عالمی رائے عامہ کی سطح پر مسلمہ سیاسی امور کے مطابق ہے جسے پہلے ہی بالتفصیل پیش کیا جا چکا ہے۔
ہم نے نہ تو اسلامی ممالک کی روایتی جنگ کی تجویز دی ہے، نہ ہی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو سمندر میں غرق کر دینے کی بات کہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کی قضاوت کی پیشکش کی ہے۔ ہم نے فلسطینی قوم کے درمیان استصواب رائے کرانے کی تجویز دی ہے۔
دوسری اقوام کی طرح فلسطینی قوم کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے اور نظام کی تشکیل عمل میں لانے کا حق ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین نہیں، فلسطین کے اصلی عوام وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، فلسطین کے اندر رہتے ہوں یا پناہ گزیں کیمپوں میں یا پھر دیگر مقامات پر، سب ایک شفاف ریفرنڈم میں شرکت کریں اور فلسطین کے لئے نظام حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام اور حکومت جب امور کو سنبھال لے تب غیر فلسطینی مہاجرین کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں لاکر بسائے گئے ہیں۔
یہ ایک منصفانہ اور منطقی تجویز ہے جسے عالمی رائے عامہ بھی بخوبی سمجھتی ہے اور اس کے لئے خود مختار حکومتوں اور قوموں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہمیں غاصب صیہونیوں سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ آسانی سے اسے مانیں گے۔ اسی مرحلے کے لئے مزاحمتی تنظیموں، قوموں اور حکومتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ملت فلسطین کی مدد کا سب سے بنیادی طریقہ غاصب دشمن کی پشت پناہی بند کر دینا ہے جو اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا فریضہ ہے۔
امام خامنہ ای
1/10/2011
عالمی یوم قدس کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مسئلہ فلسطین کے تعلق سے انتہائی کلیدی نکات پر روشنی ڈالی۔ 27 رمضان المبارک 1443 ہجری قمری مطابق 29 اپریل 2022 کو رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب ٹی وی چینلوں اور نشریاتی اداروں سے براہ راست نشر کیا گيا۔
خطاب حسب ذیل ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 26 اپریل 2022 کو ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور اسٹوڈنٹس یونینوں کے نمائندوں سے بڑی تفصیلی ملاقات کی۔ ملاقات میں طلبہ نے اپنے خیالات بیان کئے جبکہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں طلبہ کے سوالات اور تبصروں کے جواب دئے اور ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر رہنما تقریر کی۔
کسی مسلم ملک کے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ امریکی صدر اعلانیہ کہے: "ہم اسے دودھ دینے والی گائے سمجھتے ہیں!"امریکہ کے صدر نے یہ بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ہم سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے سمجھتے ہیں۔ کسی حکومت اور کسی ملت کی اس سے زیادہ کیا تذلیل ہوگی؟ اس کا پیسہ بھی لے لیں اور پھر اسے دودھ دینے والی گائے کہیں اور اس کی توہین کریں۔ امام خامنہ ای 14 اپریل 2018
مسئلہ یمن کے تعلق سے میں سعودی حضرات سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ واقعی میری خیر خواہانہ نصیحت ہے: اس جنگ کو کیوں جاری رکھا ہے جس کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ جیت نہیں سکتے؟ کوئی امکان نہیں ہے۔ جس جنگ میں فتح کا کوئی امکان نہیں ہے اسے جاری رکھنے کا کیا تک ہے؟ کوئی راستہ تلاش کیجئے اور اس جنگ سے خود کو نجات دیجئے۔ امام خامنہ ای 12 اپریل 2022
کارٹون بشکریہ: arabic.Khamenei.ir
دوسرا برا نتیجہ کیا تھا؟ بے عملی۔ یہ چیز، غرور کے مقابلے میں ہے اور یہ بھی ایک بیماری ہے، یہ بھی ایک نقص ہے، یہ بھی انسان کو مصیبت میں ڈالنے والی چیز ہے۔ بے عملی کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کمزور قوت ارادی، خود کو کمزور اور ناتواں سمجھنا، یہ محسوس کرنا کہ اب ہم سے کچھ نہیں ہو سکے گا۔ امور میں تعطل کا احساس، کامیابی کے عدم امکان کا احساس، بے عملی ہے۔ رحمت الہی سے مایوسی، اس بے عملی کے اثرات میں سے ایک ہے جو گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ لَا تَیاَسوا مِن رَوحِ اللّہ گناہان کبیرہ میں جن گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک رحمت الہی سے مایوسی ہے۔ یہ بے عملی کا نتیجہ ہے کہ انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ بند گلی میں پہنچ گيا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مہلک زہر ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
غرور آیا تو زوال شروع
اگر غرور آ گيا تو یہ شکست کا پیش خیمہ ہے، زوال کا مقدمہ ہے۔ انسان میں جب غرور آ جائے تو اس کا اپنے اندر سے بھی زوال شروع ہو جاتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سماجی پوزیشن جو اس کے اطراف میں قائم ہوئی ہے وہ بھی ختم اور زائل ہو جاتی ہے۔ یہ آیت مبارکہ "لَقَد نَصَرَكُمُ اللہُ في مَواطِنَ كَـثيرَۃٍ وَ يَومَ حُنَينٍ اِذ اَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغنِ عَنكُم شَيئًا وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت" اسی بارے میں ہے۔ جنگ حنین، فتح مکہ کے بعد وہ پہلی جنگ تھی جس میں پیغمبر شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ جنگ بدر کے برخلاف، جس میں تین سو تیرہ لوگ تھے، یہاں کئي ہزار نو مسلم، اور مہاجر و انصار تھے جو فتح مکہ وغیرہ میں کامیاب ہوئے تھے، یہ لوگ طائف کی طرف جنگ حنین کے لیے گئے۔ جب انھوں نے خود پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ تعداد بہت زیادہ ہے، مغرور ہو گئے! خداوند متعال نے انھیں اس غرور کی وجہ سے بکھیر دیا۔ وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت، زمین اپنی تمام تر وسعت کے ساتھ تم پر تنگ ہو گئي۔ ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبِرين تم بھاگ نکلے۔ ان مواقع سے ایک، جہاں پیغمبر کے اطراف والے بھاگ کھڑے ہوئے اور صرف امیرالمومنین اور گنتی کے چند افراد ان کے پاس رہے، یہی جنگ حنین تھی۔ جنگ احد کی طرح۔ مغرور ہونے کا نتیجہ یہی تو ہے۔ البتہ اس کے بعد خداوند عالم نے ان کی مدد کی اور وہ فتحیاب ہوئے لیکن اپنے آپ پر گھمنڈ اور غرور کا نتیجہ یہ ہے۔
غرور ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے
اگر ہمارے اندر غرور پیدا ہو جائے تو اس کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ اپنے اوپر غرور اور مغرور ہونا، ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری نظروں میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور نتیجتا ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
غرور میں پڑے تو ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں ائيں گی
گھمنڈ ہمیں اپنے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں، جو ہم ہیں۔ غرور کا برا نتیجہ یہ ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو، جو کچھ ہم ہیں، اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں تو ہماری غلطیاں، ہماری نظروں میں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جب غلطیاں چھوٹی ہو گئيں تو ہم انھیں سدھارنے کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ خطاؤں کی اصلاح نہیں کرتے، انھیں غلطیوں کو جاری رکھتے ہیں اور ویسے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ سب مغرور ہونے کے برے نتائج ہیں۔ ان میں کتنی برائی ہے!
خیر خواہوں کی بھی تنقید ناقابل برداشت
گھمنڈ ہمیں خیر خواہانہ تنقید سننے سے محروم کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دشمنی میں، عناد میں ہم سے کچھ کہتا ہے، ممکن ہے ہم اس کی بات کو برداشت نہ کر پائيں اور غصے میں آ جائيں۔ لیکن کبھی کوئي ہمدردی میں اور خیر خواہانہ انداز میں ہم پر تنقید کرتا ہے لیکن ہم میں اسے بھی سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ تو یہ، مغرور ہونے کا نتیجہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
یہ شہادت ایسی مصیبت نہیں ہے کہ کسی زمانے میں رونما ہوئي ہو اور اب ہم اس کی یاد میں آنسو بہائیں! نہیں، یہ مصیبت، ہر زمانے کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کرنے کی مصیبت، اس "تھدّمت واللہ ارکان الھدی" نے صرف اس زمانے کو خسارہ نہیں پہنچایا، پوری تاریخ انسانی کے لیے خسارہ پیدا کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس تاریخ سے پچیس سال پہلے مدینے کی عورتوں سے فرمایا تھا: اگر علی کو بر سر اقتدار لایا گيا ہوتا تو "لسار بھم سیراً سُجُحاً" سجح کا مطلب ہوتا ہے ہموار، یعنی حضرت، لوگوں کی زندگي کے سفر کو ہموار کر دیتے۔ "لا یکلِمُ خُشاشہ" وہ ذرہ برابر نقصان نہ ہونے دیتے، یعنی اسلامی حکومت کی طاقت اور حکمرانی کے جذبے کو اسلامی معاشرے کے جسم پر کسی بھی طرح کا زخم لگانے نہیں دیتے، وہ اسلام کو آگے بڑھاتے اور ہر طرح کے نقصان کا سد باب کرتے۔
پیغمبر اکرمۖ کے زمانے کا اسلامی معاشرہ کیا تھا؟ دس سال تک صرف ایک شہر تھا۔ کچھ ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر۔ پھر جب مکے اور طائف کو فتح کر لیا تو انتہائي محدود ثروت والا ایک محدود علاقہ۔ غربت ہر طرف پھیلی ہوئي تھی اور وسائل بہت ہی کم تھے۔ اسلامی اقدار کی بنیاد ایسے ماحول میں رکھی گئي۔ جس دن پیغمبر اکرم اس دنیا سے گئے ہیں، تب سے اب تک پچیس برس ہوئے ہیں۔ پچس سال کے اس عرصے میں اسلامی ملک کی وسعت دو تین اور دس گنا نہیں بلکہ سیکڑوں گنا بڑھ چکی ہے۔ مطلب یہ کہ جس دن امیر المومنین کو حکومت حاصل ہوئي، اس دن وسطی ایشیا سے لے کر شمالی افریقا یعنی مصر تک کا علاقہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ ابتدائي اسلامی حکومت کے زمانے کی دو بڑی ہمسایہ سلطنتیں یعنی ایران اور روم میں سے ایک پوری طرح سے تباہ ہو چکی تھی، جو کہ ایران کی سلطنت تھی۔ اس کے تمام علاقے اسلام کے اختیار میں آ چکے تھے۔ جبکہ سلطنت روم کے زیادہ تر علاقے بھی، جیسے شام، فلسطین، موصل اور دوسری جگہیں جو تھیں، اسلام کے زیر حکومت آ گئی تھیں۔ اتنا وسیع و عریض علاقہ، اسلام کے اختیار میں تھا۔ بنابریں بہت زیادہ ثروت وجود میں آ چکی تھی۔ اب غربت، محرومی اور کھانے پینے کی کمی نہیں تھی۔ سونے کے سکے رائج ہو گئے تھے۔ پیسہ زیادہ ہو گيا تھا، بے حساب دولت و ثروت آ چکی تھی۔ لہذا اسلامی مملکت دولتمند ہو چکی تھی۔ بہت سے لوگوں کو حد سے زیادہ عیش و آرام حاصل ہو گيا تھا۔
ان کچھ برسوں میں کچھ لوگوں نے بیت المال سے خود سرانہ طور پر پیسے نکالے تھے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: میں ان سب کو بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا، یہاں تک کہ اگر میں یہ دیکھوں کہ تم نے انھیں اپنی عورتوں کا مہر قرار دے دکھا ہے یا اپنے لیے کنیز خرید لی ہے، تب بھی میں انھیں بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا۔ لوگوں اور اکابرین کو جان لینا چاہیے کہ میرا طریقۂ کار یہ ہے۔
آج امیر المومنین کی شہادت کا دن ہے۔ میں ان کے مصائب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سلام ہو آپ پر اے امیر المومنین! کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج نجف میں امیر المومنین کی قبر اطہر کے قریب ہیں اور قریب سے ان کی قبر کی زیارت کر سکتے ہیں اور انھیں سلام کر سکتے ہیں۔ ہم بھی دور سے ایک بار پھر عرض کرتے ہیں: السّلام علیک یا امیرالمؤمنین، السّلام علیک یا امام المتقین، السّلام علیک یا سیّد الوصیین۔ جب انیسویں رمضان کی سحر کو وہ عظیم سانحہ رونما ہوا تو ہاتف غیبی کی آواز ہر جگہ گونجی: "تھدّمت واللہ ارکان الھدی." کوفے اور پھر بتدریج بعض دیگر شہروں کے لوگ، جن تک اس وقت یہ خبر پہنچ سکتی تھی، مسلسل اضطراب میں تھے۔ امیرالمومنین کوفے میں بہت زیادہ مقبول اور محبوب تھے۔ سب کو علی سے عقیدت تھی۔ عورتیں، مرد، بچے، بڑے خاص کر امیر المومنین کے بعض قریبی صحابی بہت زیادہ پریشان اور مضطرب تھے۔ ان کی شہادت سے ایک دن پہلے لوگ امیر المومنین کے گھر کے اطراف اکٹھا ہو گئے تھے، روایت کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اور امیر المومنین کی عیادت کے مشتاق ہیں تو انھوں نے فرمایا: بھائيو اور مومنین! امیر المومنین کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ لوگ ان سے نہیں مل سکتے۔ لہذا آپ چلے جائيے! انھوں نے لوگوں کو ہٹا دیا اور وہ چلے گئے۔ اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: میں نے حتی الامکان کوشش کی لیکن دیکھا کہ میں امیر المومنین کے گھر کے پاس سے نہیں جا سکتا، لہذا میں رکا رہا۔ تھوڑی دیر بعد امام حسن علیہ السلام، گھر سے باہر نکلے اور جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، انھوں نے کہا: اصبغ! کیا تم نے سنا نہیں کہ میں نے کہا چلے جاؤ؟ ان سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول! مجھ میں اب سکت نہیں ہے۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا۔ اگر ممکن ہو تو میں ایک لمحے کے لیے چل کر امیر المومنین کو دیکھ لوں۔ امام حسن علیہ السلام گھر کے اندر گئے اور پھر باہر آ کر مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ اصبغ کہتے ہیں: میں کمرے میں داخل ہوا، دیکھا کہ امیرالمومنین بستر بیماری پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے زخم کو پیلے کپڑے سے باندھ دیا گيا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کپڑا زیادہ پیلا ہے یا امیر المومنین کے چہرے کا رنگ؟ حضرت کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آتے۔ ایک بار جب وہ ہوش میں آئے تو اصبغ کا ہاتھ پکڑا اور ایک حدیث نقل کی۔ "ارکان الہدی" جو کہا جاتا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے۔ اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اور اتنی شدید تکلیف میں بھی، ہدایت ترک نہیں کرتے۔ ایک طولانی حدیث ان سے بیان کی اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد نہ تو اصبغ ابن نباتہ اور نہ ہی امیر المومنین کے کسی دوسرے صحابی نے علی کی زیارت کی۔ علی اسی اکیسویں کی رات میں جوار رحمت الہی میں پہنچ گئے اور ایک دنیا کو سوگوار اور ایک تاریخ کو سیاہ پوش کر گئے۔
امام خامنہ ای
5 نومبر 2004
امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اور جنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں "این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ "و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ" وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔
یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔
لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر "فزت و رب الکعبۃ" کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!
امام خامنہ ای
18 ستمبر 2008
وہ نصیحت جو میں آج کرنا چاہتا ہوں وہ دو برے نتائج پر توجہ سے متعلق ہے: ایک برا نتیجہ، غرور کا نتیجہ ہے۔ جبکہ دوسرا برا نتیجہ بے عملي کا نتیجہ ہے۔ یہ دو نقصانات اور برے نتائج ہیں جن کا آپ کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
غرور، شیطان کا ہتکنڈہ ہے۔ غرور، گھمنڈ، شیطان کا حربہ ہے۔ اس کی مختلف وجہیں ہیں۔ ویسے اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ کیا ہے: کبھی اس کی وجہ عہدہ اور منصب ہے۔ غرور کا ایک سبب، کامیابی ہے۔ آپ کو توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو کام آپ انجام دیتے ہیں اس میں پیشرفت ہوتی ہے۔ یہاں انسان کو اپنے اوپر غرور ہوتا کہ میں یہ کام انجام دینے میں کامیاب رہا۔ غرور کا ایک سبب، لطف خدا اور اس کی برکتوں پر مغرور ہونا ہے۔ جس کے بارے میں دعاؤں میں بہت زیادہ اور قرآن مجید تک میں آيا ہے: وَ لا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الغَرور غَرور کہ جو شیطان ہے، تمھیں خدا کے سلسلے میں مغرور نہ کر دے۔ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، خدا کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو جائے اور پھر اسے کسی چیز کی کوئي پروا نہ رہے۔ مثال کے طور پر وہ کہے کہ ہم تو اہلبیت کے دوستوں میں سے ہیں، خدا ہمیں کچھ نہیں کہے گا! یہ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونا ہے۔ وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك صحیفۂ سجادیہ کی دعا ہے، میرے خیال سے چھالیسویں دعا، جمعے کے دن کی دعا ہے: وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك۔ اے پروردگار! جو تیرے سلسلے میں مغرور ہو جائے اس کی بدبختی سب سے زیادہ ہے۔ یہ گھمنڈ کرنا ہے۔ مغرور ہونا یہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022