عورت کے ساتھ اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کا سلوک مودبانہ اور محترمانہ ہے، خیر اندیشانہ، دانشمندانہ اور توقیر آمیز ہے۔ یہ مرد و زن دونوں کے حق میں ہے۔ اسلام مرد و زن دونوں کے سلسلے میں اسی طرح تمام مخلوقات کے تعلق سے حقیقت پسندانہ اور حقیقی و بنیادی ضرورتوں اور مزاج و فطرت سے ہم آہنگ انداز اختیار کرتا ہے۔ یعنی کسی سے بھی قوت و توانائی سے زیادہ اور اس کو عطا کردہ وسائل سے بڑھ کر کوئی توقع نہیں رکھتا۔ عورت کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو سمجھنے کے لئے اس کا تین زاویوں سے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
اول: ایک انسان ہونے کی حیثیت سے روحانی و معنوی کمالات کی راہ میں اس کا کردار؛ اس زاویے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تاریخ میں جس طرح بہت سے با عظمت مرد گزرے ہیں، بہت سی عظیم اور نمایاں کردار کی حامل خواتین بھی گزری ہیں۔
دوم: سماجی، سیاسی، علمی اور معاشی سرگرمیاں؛ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے علمی، اقتصادی اور سیاسی فعالیت اور سرگرمیوں کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دے کر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کے در پے ہے یا سیاسی و سماجی امور سے لا تعلق رکھنے پر مصر ہے تو وہ در حقیقت حکم خدا کے خلاف عمل کر رہا ہے۔ عورتیں، جہاں تک ان کی ضروریات و احتیاج کا تقاضا ہو اور جسمانی توانائی جس حد تک اجازت دے، سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ جتنا ممکن ہو وہ سیاسی و معاشی و سماجی امور انجام دیں، شریعت اسلامی میں اس کی ہرگز مناہی نہیں ہے۔ البتہ چونکہ جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورت مرد سے نازک ہوتی ہے لہذا اس کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر طاقت فرسا کام مسلط کر دینا اس کے ساتھ زیادتی ہے، اسلام اس کا مشورہ ہرگز نہیں دیتا۔ البتہ اس نے (عورت کو ) روکا بھی نہیں ہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں:
المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ یعنی عورت پھول کی مانند ہے قہرمان نہیں۔
قہرمان یعنی با عزت پیش کار اور خدمت گار۔ آپ مردوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: عورتیں تمہارے گھروں میں گل لطیف کی مانند ہیں ان کے ساتھ بڑی ظرافت اور توجہ سے پیش آؤ۔ عورت آپ کی خادمہ اور پیش کار نہیں ہے کہ آپ سخت اور طاقت فرسا کام اس کے سر مڑھ دیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔
حجاب اور عورت کی سماجی ترقیاسلام چاہتا ہے کہ عورتوں کا فکری، علمی، سماجی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی ارتقاء اپنی بلند ترین منزل تک پہنچے اور ان کا وجود معاشرے اور انسانی کنبے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر ثمرات اور فوائد کا سرچشمہ قرار پائے۔ اسلام کی تمام تعلیمات منجملہ حجاب کی بنیاد اسی چیز پر رکھی گئی ہے۔ حجاب، عورت کو معاشرے سے الگ کر دینے کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر پردے کے سلسلے میں کسی کا تصور یہ ہے تو بالکل غلط ہے تصور ہے۔ حجاب، معاشرے میں مرد اور عورت کی بے ضابطہ آمیزش کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ یہ آمیزش معاشرے اور مرد و زن دونوں کے بالخصوص عورت کے نقصان میں ہے۔
غدیر کا تاریخی واقعہ
تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھنے والوں کو غدیر کے واقعے کے بارے میں یہ جان لینا چاہئے کہ غدیر کا واقعہ، ایک مسلم الثبوت واقعہ ہے اور اس میں کسی بھی طرح کا شک و شبہہ نہيں ہے۔ اس واقعے کو صرف شیعوں نے نقل نہيں کیا ہے بلکہ سنی محدثین نے بھی، چاہے وہ ماضی بعید سے تعلق رکھتے ہوں یا وسطی دور سے یا پھر اس کے بعد کے ادوار سے، ان سب نے اس واقعے کو نقل کیا ہے۔ یعنی اسی واقعے کو نقل کیا ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج
حج کی خصوصیاتمعرفت، حج کا پہلا تحفہحج، مسلم امہ کی تصویرناقابل توصیف خصوصیاتقومی اور بین الاقوامی یکجہتیمسلم معاشروں کے مسائل کا حلبا معنی شرکتحج کے معنوی پہلو حج کے آدابایک معنوی تجربہغرور کے مظاہر سے رہائیخودسازی کا موقعبصیرت افروز عبادتحج ابراہیمیجسم و جان کے ساتھ ایک سفرحج کے اصل اہدافعالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہمسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوفیکتا پرستی اور اتحاد کا پیغامحج کے وسیع و ہمہ گير اہدافہدف سے دوریحج، اتحاد کی کنجیاتحاد کی عظمت کا احساساس عظیم اجتماع کے مضمراتاتحاد کے مواقع کا غلط استعمالاتحاد کی راہ کے روڑےسامراج کی تفرقہ انگیزیمشرکین سے اعلان برائتحج کا ایک بنیادی ستونحقائق بیان کرنے کا موقعحج کی روحمشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت! حج حج کی خصوصیاتمعرفت، حج کا پہلا تحفہاگرچہ حج کی برکتیں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہیں اور رحمت کی یہ بے تحاشا بارش، دل کی خلوت اور انسان کے افکار سے لے کے سیاسی و سماجی میدانوں، مسلمانوں کی قومی طاقت و اقتدار اور اسلامی اقوام کے درمیان تعاون تک کو بہرہ مند اور زندگی کے ولولے سے لبریز کر دیتی ہے تاہم شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور جو حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی تمنا رکھتا ہے اور اشیا کو سمجھنے کی خداداد طاقت سے استفادہ کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ معرفت اور ایک ایسی شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ کہیں اور مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو حاصل نہیں ہوتی اور کوئي بھی دوسرا دینی و مذہبی موقع اس شناخت و معرفت کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا جو حج کے دوران دستیاب ہوتی ہیں۔ٹاپ حج، مسلم امہ کی تصویرحج کے ایام کی آمد ہر سال پورے عالم اسلام کے ان عاشق دلوں اور متمنی قلوب کے اشتیاق اور تڑپ کے ساتھ ہوتی ہے جومعبود کے گھر کے جوار اور محبوب کے دیار میں عشق و تقدیس کے آستانے پر جبین نیاز رکھنا اور اس مقام کی خاک پر تعبد اور تقرب کی پیشانی ٹیکنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان خاص ایام کو ذکر خدا اور دعا و مناجات میں گزاریں اور خداوند متعال کی رحمت و مغفرت کے سائے میں سکون حاصل کریں۔ دنیا کے چاروں کونے کے دور دراز ترین علاقوں سے آنے والے اپنے بھائیوں کو دیکھیں اور اسلامی امت کے شکوہ و جلال کے ایک زندہ اور مجسم نمونے کو محسوس کریں۔ حج امت اسلامیہ کا مظہر اور اس طرز عمل کی تعلیم دینے والا ہے جسے اس عظیم امت کو اپنی فلاح و سعادت کو یقینی بنانے کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔ حج کو ایک جملے میں ایک ہی سمت میں سب کی بامقصد، شعوری اور گوناگوں حرکت کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس حرکت کے بنیادی عناصر، ذکر خدا اور بندگان خدا کی یکجہتی ہے جبکہ اس کا مقصد انسان کی باسعادت زندگی کے لیے ایک مضبوط معنوی مرکز کی تعمیر ہے۔ ((جعل اللہ الكعبۃ البيت الحرام قياما للناس و الشہر الحرام و الہدى و القلائد۔))ٹاپ ناقابل توصیف خصوصیاتاگرچہ حج کے اسرار و رموز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں بیان کیا جا سکے تاہم ہر راز شناس آنکھ ان تمام باتوں کے درمیان اس کی امتیازی خصوصیت کو پہلی ہی نظر میں پہچان جاتی ہے۔ اول تو یہ کہ (حج) وہ واحد واجب ہے جس کی ادائیگی کے لیے خداوند متعال ان تمام مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے اور گھروں اور عبادت خانوں کی تنہائی سے ایک مرکز پر بلاتا ہے اور ان مخصوص ایام میں گوناگوں سعی و کوشش، حرکت، سکون، قیام اور قعود کے دوران انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ((ثُمَّ أَفيضُوا مِنْ حَيثُ أَفاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحيمٌ))ٹاپ قومی اور بین الاقوامی یکجہتیجب کسی قوم کے بہت سے افراد ایک خاص مقصد کے لیے، ایک ہی سفر پر ایک ہی ہدف لے کر جاتے اور واپس آتے ہیں تو لازمی طور پر ان کی یکجہتی میں اضافہ ہوتا ہے اور معنویت نیز قومی اخلاق کی سطح بلند ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا بین الاقوامی پہلو بھی ہے۔ کیونکہ اقوام کے درمیان مشترکہ خصوصیات کے ساتھ ہی آپس میں کچھ فرق بھی ہوتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایک دوسرے کے تئیں معاندانہ جذبات بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ حج اس بات کا سبب بنتا ہے کہ یہ فرق غیر اہم بن جائیں اور مختلف اقوام کے درمیان پائی جانے والی مشترکہ خصوصیات اور اتحاد مستحکم ہو۔ بنابریں اسلام میں اتنے وسیع اور عظیم پہلوؤں والا کوئی دوسرا فریضہ نہیں ہے۔ٹاپ مسلم معاشروں کے مسائل کا حلخداوند حکیم و عزیز کا شکر کہ اس نے اپنے بندوں پر احسان کیا اور انہیں اپنے گھر کے اطراف جمع ہونے کی دعوت دی، اپنے عظیم پیغمبر کو منارۂ تاریخ کی بلندی سے حج کی اذان بلند کرنے کی ذمہ داری سونپی، اپنے گھر کو امن و امان کی جگہ بنایا، اسے جاہلیت کے بتوں سے پاک کیا اور مومنوں کے طواف کا مرکز، دور دراز سے آنے والوں کے ایک دوسرے سے ملنے کا مقام، جماعت و اجتماع کا مظہر نیز امت اسلامی کے شکوہ کی جلوہ گاہ قرار دیا۔ اس نے بیت اللہ کو کہ جاہلیت اولی' کے عہد میں جس کے ۔۔۔۔مطاف و مسعی' کی خدمت گزاری کو تجارت کا بازار اور اپنی سرداری اور سیادت کی دکان بنا لیا گيا تھا، لوگوں کے لیے اور ان کے فائدے اور استفادے کے لیے قرار دیا اور اجارہ داروں کی خواہشوں کے برخلاف باہر سے آنے والوں اور وہیں رہنے والوں کو مساوی حقوق عطا کیے، حج کو مسلمانوں کی وحدت و عظمت اور ان کے درمیان ہماہنگی اور تعلقات کا راز اور اسی طرح ان مصائب و آلام کا حل قرار دیا کہ مسلمان افراد اور معاشرے اپنی اصلی شناخت اور حقیقت سے دور ہو جانے کے نتیجے میں جن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ جیسے اغیار نوازی و اپنوں سے دوری، سازشوں کی جانب سے بے توجہی، اللہ سے غفلت اور اہل دنیا کے ہاتھوں اسیری، اپنے بھائیوں کے سلسلے میں بد گمانی اور ان کے بارے میں دشمن کی باتوں پر یقین و اطمینان، امت اسلامیہ کی تقدیر کے سلسلے میں بے حسی بلکہ امت اسلامیہ نام کے اجتماعی پیکر سے ناآشنائی اور دیگر اسلامی علاقوں کے واقعات و حادثات سے بے خبری، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں دشمنوں کی نئی سازشوں سے غفلت اور دوسری بہت سے مہلک مصیبتیں جو اسلام کی تاریخ میں مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی زندگی پر نا اہلوں اور نا واقفوں کے مسلط ہو جانے کے نتیجے میں ہمیشہ مسلمانوں پر نازل ہوتی رہی ہیں اور گزشتہ صدی کے دوران علاقے میں سامراجی طاقتوں کی دراندازی اور ان کے بد عنوان و دنیا پرست مہروں کی موجودگی کے نتیجے میں وہ اور بھی تباہ کن شکل اختیار کر گئی ہیں۔ٹاپ با معنی شرکتدر حقیقت حج میں مسلمانوں کی شرکت ایک با معنی شرکت ہونی چاہیے ورنہ اگر صرف معنوی پہلو اور ذکر خدا مقصود ہوتا تو انسان اپنے گھر ہی میں بیٹھ کر ذکر خدا کر سکتا تھا۔ یہ جو کہا گيا ہے کہ ایک جگہ پر اکٹھا ہو، وہ اسی لیے ہے۔ ان مفادات کے لیے ہے جن کا مشاہدہ مسلمانوں کو حج کے دوران کرنا اور انہیں دیکھنا چاہیے۔ حج صحیح طریقے سے ہر ایک مسلمان کے اندر تبدیلی بھی لا سکتا ہے اور توحید، خدا سے رابطے اور اس پر توکل کی روح اس کے اندر پیدا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی اسلامی امت کے ایک دوسرے سے جدا ہو چکے افراد سے ایک واحد، کارآمد اور طاقتور پیکر بنا سکتا ہے۔ حج انہیں ایک دوسرے سے مطلع اور باہمی باتوں، مسائل، پیشرفت اور ضروریات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ہی ان کے تجربات کا آپس میں تبادلہ کر سکتا ہے۔ پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام کے اسی فریضے سے صحیح طریقے سے استفادہ کیا جائے تو یہ بہت جلد اسلامی امت کو اس عزت و اقتدار تک پہنچا دے گا جو اس کے شایان شان ہے۔ اپنے جوہر اور اپنی ماہیت کے لحاظ سے حج کے دو بنیادی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور اس کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی احکام کا خلاصہ بھی ہے۔ٹاپ حج کے معنوی پہلوحج کے آدابکتنے غافل ہیں وہ لوگ جو دنیوی امور میں مصروف رہ کر حج کی رسومات، حج کے ایام اور مناسک حج کی اہمیت کو کم کر دیتے ہیں؟! حج کو پوری توجہ، حضور قلب اور مکمل آداب کے ساتھ بجا لانا چاہیے۔ مناسک حج اور حج کی ظاہری صورت کو تشکیل دینے والے اعمال کے علاوہ کچھ آداب بھی ہیں جو حج کی روح ہیں۔ بعض لوگ حج کی اس ظاہری صورت کو تو بجا لاتے ہیں تاہم اس کی روح اور حقیقت سے غافل رہتے ہیں۔ حج کا ادب، خضوع، ذکر اور توجہ ہے۔ حج کا ادب ہر لحظہ پروردگار کے سامنے موجودگی کا احساس ہے۔ حج کا ادب، امن الہی کے دامن میں پناہ لینا ہے جسے مومنین اور پروردگار عالم کی ذات مقدس سے متمسک رہنے والوں کے لیے اس نے فراہم کیا ہے۔ اس بہشت کو پہچاننا اور اس میں داخل ہونا چاہیے۔ حج کو اس طرح سے سمجھنا چاہیے۔ حج کا ادب لوگوں کے ساتھ پر امن طریقے سے رہنا ہے۔ مومنین کے ساتھ تشدد کا سلوک کرنا، برادران کے ساتھ جھگڑا اور جنگ و جدال کرنا حج کے دوران ممنوع ہے۔ حج کا ادب، حج کی معنوی و روحانی حقيقت میں ڈوب جانا اور پوری زندگی کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا ہے۔ حج کا ادب، اخوت اور محبت و اتحاد پیدا کرنا ہے۔ مسلم اقوام اور اسلامی جماعتوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کا موقع صرف حج میں ملتا ہے۔ اتنے سارے انسانوں نے دنیا کے کونے کونے سے کعبے کے عشق میں، پیغمبر کے مزار کے عشق میں، ذکر الہی کے عشق میں اور طواف و سعی کے عشق میں اپنے آپ کو وہاں پہنچایا ہے، اخوت کے اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ٹاپ ایک معنوی تجربہکسی بھی فرد کے لیے حج کا موقع، معنویت کی لامتناہی فضا میں کسی انسان کے داخل ہونے کا موقع ہوتا ہے، وہ اپنی تمام آلودگیوں اور تمام کمیوں کے ساتھ اپنی معمولی زندگی سے اپنے آپ کو باہر نکالتا ہے اور پاکیزگی، معنویت اور خدا سے تقرب نیز اپنی اختیار کردہ ریاضت کی فضا چلا جاتا ہے۔ جیسے ہی آپ حج کے مناسک ادا کرنا شروع کرتے ہیں، ویسے ہی ایک معمول کی عام سی زندگی میں کچھ چیزیں جو مباح ہوتی ہیں انہیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں؛ احرام کا مطلب ان چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لینا ہے جو معمول کی اور عام زندگی میں مباح، رائج اور جائز ہوتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں غفلت کا سبب ہوتی ہیں جبکہ بعض انحطاط کی وجہ بنتی ہیں۔ مادی آلودگیوں سے اپنے آپ کو پاکیزہ کرنا، مسلسل، ہر جگہ اور ہر کام میں خدا کو دیکھنا؛ چاہے وہ کچھ دنوں کی تھوڑی سی مدت ہی کے لیے کیوں نہ ہو، انسان کے لیے ایک عظیم سرمایہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لیے ہیں کہ حاجی اس معنوی تجربے کو حاصل کرے اور اس لذت کو اپنے دل و جان میں محسوس کرے۔ حج کی معنویت، ذکر خدا ہے جسے روح کی مانند حج کے ہر عمل میں پھونک دیا گيا ہے۔ اس مبارک سرچشمے کو حج کے بعد بھی اسی طرح سے ابلتے رہنا چاہیے اور یہ کامیابی جاری رہنی چاہیے۔ٹاپ غرور کے مظاہر سے رہائیظاہری اور مادی غرور کے تمام وسائل ہم سے لے لیے جاتے ہیں؛ سب سے پہلے لباس۔ درجہ، منصب، لباس، اچھی پوشاک وغیرہ سب ہٹا دیئے جاتے ہیں اور سب لوگ ایک ہی لباس میں ملبوس ہو جاتے ہیں۔ آئینہ مت دیکھیے کہ یہ خود پسندی کا ایک مظہر ہے۔ خوشبو استعمال نہ کیجیے کہ یہ جلوہ گری کا ایک وسیلہ ہے۔ (احرام کی حالت میں) چلتے ہوئے، دھوپ اور بارش سے نہ بھاگیے، چھت کے نیچے نہ جائیے کہ یہ آرام پسندی اور راحت طلبی کا مظہر ہے؛ اور اسی طرح احرام کے دوسرے امور؛ اس مدت میں ان چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا جو مُحرِم کے لیے آرام اور نفسانی و جنسی تسکین کا باعث ہوں۔ چاہے غرور کا سبب ہوں یا پھر امتیاز کا سبب ہوں۔ ان سب کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ٹاپخودسازی کا موقعحاجیوں کے لیے سب سے پہلا قدم خود سازی یا تعمیر نفس ہے۔ احرام، طواف، نماز، مشعر، عرفات، منی'، قربانی، رمی جمرات، سر منڈانا یہ سب کے سب خداوند متعال کے مقابل انسان کے خشوع و انکسار اور اس کے ذکر، اس کے سامنے گڑگڑانے اور اس سے تقرب کے مقام کے مظاہر ہیں۔ ان با معنی مناسک کو غافلانہ انداز میں ادا نہیں کرنا چاہیے۔ دیار حج کے مسافر کو ان تمام اعمال و مناسک کے دوران اپنے آپ کو خداوند عالم کی بارگاہ میں حاضر سمجھنا چاہیے، اس جم غفیر میں بھی اپنے آپ کو محبوب کے ساتھ تنہا سمجھنا چاہیے، اس سے سرگوشیوں میں اپنے دل کی بات کہنی چاہیے، اسی سے مانگنا چاہیے اور اسی سے امید رکھنی چاہیے، اپنے دل سے شیطان اور ہوائے نفسانی کو دور کر دینا چاہیے، لالچ، حسد، ڈر اور شہوت کے زنگ کو اپنے دل سے کھرچ دینا چاہیے۔ خداوند عالم کی ہدایت اور اس کی نعمت پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے دل کو اس کی راہ میں جد و جہد کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ مومنین کے ساتھ نرمی و رحمدلی اور دشمنوں اور حق کے مخالفوں کے ساتھ بیزاری کے جذبات دل میں پروان چڑھانے چاہیے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لیے عزم مصمم کرنا چاہیے اور اپنے خدا کے ساتھ دنیا و آخرت کو آباد کرنے کا عہد باندھنا چاہیے۔ حج ایک بہت بڑا موقع ہے کہ یہ حقائق اور اسی قسم کے دوسرے بہت سے حقائق، جو اسلامی معرفت اور اسلامی ہدایت کی برکت سے ایران کی مسلم قوم کو حاصل ہوئے ہیں دنیا کے لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں تاکہ وہ بیدار ہو جائيں۔ اسلامی دنیا کے بہت سے دل بیدار ہیں؛ انہیں یہ محسوس ہونا چاہیے کہ پورے عالم اسلام میں ان کے افکار کے حامی موجود ہیں تاکہ انہیں ضروری شجاعت و جرئت حاصل ہو سکے۔ یہ سب، حج کی معنویت کے سائے تلے ہیں۔ حج کی معنویت، دعاؤں، زیارتوں اور قرآن مجید کی آیات کے اعلی' مفاہیم سے استفادے کے سلسلے میں غفلت نہ کیجیے۔ٹاپبصیرت افروز عبادتحج کا موقع ایک غیر معمولی موقع ہے۔ تمام عبادتیں، انسان کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو صحیح طریقے سے پہچانے۔ انسان، کائنات کی روح اور کائنات کی واحد حقیقت یعنی خداوند عالم کے سلسلے میں غفلت کی وجہ سے اپنے آپ سے، اپنے دل سے اور اپنی حقیقت سے غافل ہو جاتے ہیں۔(( نسوا اللہ فانساھم انفسھم)) انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اس نے ان سے خود انہیں کو فراموش کرا دیا۔ آج انسانیت کا ایک بہت بڑا درد یہی ہے۔ انسان، خداوند عالم کے تئیں غفلت برت کر اپنے آپ سے بھی غافل ہو گئے ہیں۔ انسان کی ضروریات، انسان کی حقیقت اور انسان کی تخلیق کے اہداف، مادیت کی چکاچوندھ میں پوری طرح سے بھلا دیئے گئے ہیں۔ جو چیز انسان کو خدا اور خدا پر توجہ کے سائے میں اپنی طرف، اپنی حقیقت کی طرف، اپنی ضروریات کی طرف اور اپنے دل کی طرف متوجہ کراتی ہے وہ دعا، عبادت اور خدا کے سامنے گڑگڑانا ہے اور حج اس لحاظ سے سب سے برتر عبادت ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے، مقام کے لحاظ سے اور مسلسل کیے جانے والے اعمال کے لحاظ سے جو حاجی کو عطا کیے گئے ہیں، یہ ایک غیر معمولی عبادت ہے۔ لہذا شہر مکہ اور مناسک حج، انسان کی سلامتی اور امن کا ایک ذریعہ ہیں۔ انسان، خضوع کے ساتھ، توجہ کے ساتھ، خدا کے سامنے گڑگڑا کر اور اللہ تعالی کی یاد میں ڈوب کر حج کے عظیم اعمال اور مناسک میں امن و سلامتی کا احساس کرتا ہے؛ یہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مادی طاقتوں اور مادی محرکات نے انسان کے اطراف میں جو جہنم پیدا کر دیا ہے انسان حج کی پناہ میں جا کر اس جگہ پر اور اس وقت میں اپنے لیے بہشت کی ٹھنڈک اور سلامتی حاصل کر سکتا ہے۔ جی ہاں! حج عبادت ہے اور ذکر و دعا و استغفار؛ تاہم ایسی عبادت و ذکر و استغفار جو اسلامی امت کو حیات طیبہ عطا کرنے اور اسے غلامی و ظلم کی زنجیروں نیز دولت و طاقت کے خداؤں سے نجات دلانے اور اس میں عزت و عظمت کی روح پھونکنے نیز اس کے اندر سے سستی اور تساہلی کو دور کرنے کے لیے ہے۔ یہ ہے وہ حج جو دین کے ستونوں میں شمار کیا جاتا ہے اور جسے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ میں اسلام کا علم، ہر ناتواں کا جہاد، غربت و تنگدستی کو دور کرنے والا اور اہل دین کے ایک دوسرے سے قریب ہونے کا ذریعہ بتایا ہے۔ٹاپ حج ابراہیمیحج ابراہیمی وہ حج ہے جس میں مسلمان افتراق و تفرقے سے اتحاد و اجتماع کی جانب آگے بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار عمارت اور شرک و بت پرستی سے برائت و نفرت کی علامت ہے، حقیقی معنی میں اور صحیح معرفت کے ساتھ طواف کریں اور مناسک حج کی ظاہری صورت سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی اور امت اسلامی کی حیات کے لیے استفادہ کریں۔ حج ابراہیمی وہی حج محمدی ہے جس میں توحید و اتحاد کی جانب حرکت، تمام مناسک اور شعائر کی روح ہے۔ یہ ایسا حج ہے جوبرکت و ہدایت نیز امت واحدہ کی حیات و قیام کا اصل ستون ہے، یہ ایسا حج ہے جو (معنوی) فائدوں سے مالامال اور ذکر خدا سے سرشار ہے۔ یہ ایسا حج ہے جس میں مسلم اقوام، ہمہ گیر اور وسیع امت محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کو محسوس کرتی ہیں اور اپنے آپ کو بھی اس میں پاتی ہیں۔ وہ اقوام کے درمیان اخوت اور قربت کے احساس سے کمزوری، ناتوانی اور ضعف کے احساس سے دور ہو جاتی ہیں۔ حج ابراہیمی، وہ حج ہے جس میں مسلمان تفرقے سے اتحاد کی جانب حرکت کریں۔ٹاپ جسم و جان کے ساتھ ایک سفرحج کوئی تفریح کا سفر نہیں بلکہ حج ایک معنوی سفر ہے۔ اللہ کی جانب جسم اور جان دونوں کے ساتھ سفر ہے۔ اہل سلوک و عرفان کے لیے اللہ کی جانب سفر، جسمانی نہیں ہوتا بلکہ قلبی اور روحانی سفر ہوتا ہے۔ یہاں ہم تمام لوگوں کے لیے اللہ کی جانب یہ سفر، جسم و جان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم صرف جسم کو وہاں لے جائیں، دل کو نہ لے جائیں یا خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ بعض افراد اس نعمت کی تکرار کے سبب، جنہیں بار بار حج، خانۂ خدا کو دیکھنے اور زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ان کی نظر میں حج کی اہمیت کم ہوتی چلی جائے اور پھر وہ اپنے اندر اس انقلاب کو نہ دیکھ سکیں، یہ کوئي اچھی چیز نہیں ہے۔ اپنے جوہر اور اپنی ذات میں حج کے دو اصلی عناصر ہے؛ افکار و اعمال میں خدا سے تقرب اور جسم و جان کے ساتھ طاغوت اور شیطان سے پرہیز۔ حج کے تمام اعمال اور حج کے دوران ترک کی جانے والی تمام باتیں، انہی دو عناصر کے لیے، ان کی راہ میں اور ان کے وسائل فراہم اور راہ ہموار کرنے کے لیے ہیں اور یہ در حقیقت اسلام اور تمام الہی دعوتوں کا خلاصہ بھی ہے۔ٹاپحج کے اصل اہدافعالم اسلام کے اہم مسائل کا جائزہایک اہم موضوع جسے حجاج کرام کو حج کے ہدف کے ایک حصے کے طور پر اہمیت دینی چاہیے وہ عالم اسلام کے اہم اور موجودہ مسائل ہیں۔ اگر حج، پوری دنیا کے مسلمانوں کا عظیم سالانہ اجتماع ہے تو بلاشبہ اس اجتماع کا سب سے فوری حکم دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں ہے۔ یہ مسائل، سامراجی پروپیگنڈوں میں اس طرح سے بیان کیے جاتے ہیں کہ ان سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو نہ تو سبق، تجربہ اور امید ملتی ہے اور اگر اس واقعے میں سامراج کی بد نیتی اور بد عملی مؤثر رہی ہو تو نہ کوئي مجرم رسوا ہوتا ہے اور نہ کوئی حقیقت ظاہر کی ہوتی ہے۔ حج وہ جگہ ہے جہاں اس تشہیراتی خیانت سے پردہ اٹھایا جانا، حقیقت کو آشکارا کیا جانا اور مسلمانوں کی عمومی آگہی کا راستہ ہموار کیا جانا چاہیے۔ وہ کون سی پیاسی روح ہے جو کوثر محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فیض اور زمزم حسینی کے چشمے سے سیراب ہو چکی ہو اور بدستور حج کے سیاسی مضمون کے بارے میں شک و شبہے کا شکار ہو؟ بغیر برائت کا حج، بغیر وحدت کا حج، بغیر تحرک اور قیام کا حج اور ایسا حج جس سے کفر و شرک کے لیے خطرہ پیدا نہ ہو، حج نہیں ہے اور اس میں حج کی روح اور حج کے معنی نہیں ہیں۔ٹاپ مسلمانوں کا اتحاد اور سامراج کا خوفخانۂ خدا کے حج کے سب سے بڑے اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے قریب آئيں۔ یہ جو خداوند عالم نے فرمایا ہے کہ (( و اذّن فی الناس بالحج یاتوک رجالا و علی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق)) اور یہ کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو مقررہ ایام میں اور عرفات، مشعر، منی' اور مسجد الحرام جیسی محدود جگہوں پر اکٹھا کرتا ہے تو یہ لوگ مسلمانوں کی ایک دوسرے سے شناسائي سے اس قدر خائف کیوں ہیں؟ بات یہ ہے کہ اسلامی اتحاد اور مسلمانوں کی رائے، نظریات اور باتوں میں اتحاد سامراج اور اس میں بھی سب سے زیادہ مکار امریکہ اور دنیا پر تسلط کے لیے اس کے ہتھکنڈوں کے لیے خطرناک ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا بیان کیا ہے۔ٹاپ یکتا پرستی اور اتحاد کا پیغامحج مسلمانوں کے ایک دوسرے سے قریب ہونے اور تمام مسلمانوں تک ان کی آواز پہنچانے کے لیے ہے۔ اتنے سارے قلوب کو جو چیز آپس میں جوڑتی ہے وہ، وہی پیغام ہے جو پہلی بار اس سرزمین سے نکلا تھا اور دنیا کے طول و عرض اور پوری تاریخ تک پہنچ گيا تھا؛ اور وہ تھا توحید اور اتحاد کا پیغام؛ خدا کی توحید اور امت کا اتحاد۔ توحید، طاغوتوں، سامراجیوں اور طاقت اور دھوکے سے کام لینے والوں کی خدائی کا انکار ہے اور اتحاد مسلمانوں کی عزت و اقتدار کا مظہر۔ کسی بھی تحریر یا تقریر سے زیادہ اس جاوداں پیغام کو ہر سال اپنے عظیم اجتماع کی صورت میں دہراتا اور پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے۔ عالم اسلام کے کسی بھی گوشے میں رہنے والے تمام مسلمانوں کو حج کے ایام میں ایک بار پھر اس حقیقت کو پہچاننا چاہیے کہ اسلامی ممالک کی ترقی، سربلندی اور ہمہ گیر کامیابی صرف انہی دو باتوں سے حاصل ہوگی: اپنے تمام انفرادی، اجتماعی اور سیاسی پہلوؤں کے ساتھ توحید اور صحیح نیز آج کی دنیا میں عملی جامہ پہننے کے قابل اس کے مفہوم کے ساتھ اتحاد۔ٹاپ حج کے وسیع و ہمہ گير اہدافاللہ تعالی کی بارگاہ میں مسلمان کی تنہائی کے عالم میں روحانی حاضری اور ذکر و خود شناسی اور قلب کو گناہ و غفلت کے زنگ سے پاکیزہ بنانے سے لیکر ایک جم غفیر میں اپنی موجودگی کے مسلمان شخص کے احساس، امت اسلامیہ کے ساتھ ہر مسلمان کے جڑے ہونے کے تاثر اور مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے پیدا ہونے والے احساس قدرت تک، روحانی بیماریوں یعنی گناہوں سے شفایابی کی ہر فرد کی کوششوں سے لیکر امت کے پیکر پر لگے گہرے زخموں اور دردوں کی شناخت اور مداوا کی کوششوں اور مسلم اقوام یعنی اس عظیم پیکر کے اعضاء کے سلسلے میں جذبہ ہمدردی تک یہ ساری کی ساری چیزیں حج اور اس کے گوناگوں اعمال و مناسک میں ضم کر دی گئی ہیں۔ ٹاپ ہدف سے دوریاس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے کہ اس فریضہ الہی کی انجام دہی کی موجودہ شکل اور اس کی مطلوبہ شکل کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ امام خمینی (رہ) نے اس سلسلے میں بڑی موثر کوششیں کیں اور حج ابراہیمی، با عظمت و پر وقار حج، تعمیری و باعث تغیر حج کی واضح تصویر مسلم امہ کے سامنے پیش کی اور اسی کے مطابق اب تک حج، عالم اسلام میں بے شمار برکتوں کا سرچشمہ بن گيا ہے لیکن اس جغرافیائی وسعت کے پیش نظر تمام مسلمان اقوام میں اس نظرئے اور طرز عمل کو عام کرنے کے لئے علمائے دین کی سعی و کوشش اور اسلامی ممالک کے حکام کے تعاون اور روشن خیالی کی ضرورت ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ اس انتہائی کلیدی فریضے پر وہ توجہ اور عمل کریں گے۔ ٹاپ حج،اتحاد کی کنجیاتحاد کی عظمت کا احساسحج مسلمانوں کے اتحاد و یکرنگی کا مظہر ہے۔ یہ جو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے ان افراد کو جو استطاعت رکھتے ہیں معینہ وقت پر مخصوص مقام پر طلب کیا ہے اور انہیں ایسے اعمال و حرکات کے سلسلے میں کئی شب و روز تک ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جو پر امن بقائے باہمی، نظم و ضبط اور ہم آہنگی کے مظہر ہیں، اس کا سب سے پہلا نمایاں ثمرہ ایک اک فرد میں اتحاد و اجتماعیت کا جذبہ، مسلمانوں کے اجتماع کی عظمت و جلالت کا نظارہ اور ان کے اندر احساس عظمت و وقار پیدا ہونا ہے۔ اس عظمت و وقار کے احساس کے ساتھ اگر مسلمان کسی پہاڑی درے میں بھی زندگی گزار رہا ہو تو کبھی خود کو اکیلا محسوس نہیں کرے گا۔ اسی حقیقت کے احساس کے نتیجے میں مسلمان تمام اسلامی ممالک میں اسلام کی دشمنی یعنی سرمایہ داری کے نظام اور اس کے مہروں اور ہم نواؤں کے سیاسی و اقتصادی تسلط اور نیرنگ و فتنہ انگیزی سے ٹکرا جانے کی جرئت و ہمت اپنے اندر پیدا کر سکیں گے۔ پھر ان پر مغربی سامراجیوں کا حقارت و بے بسی کا احساس پیدا کرنے والا جادو کارگر نہیں ہوگا جو یہ طاقتیں، قوموں کے سلسلے میں استعمال کرتی آئی ہیں۔ اسی عظمت و وقار کے نتیجے میں مسلمان حکومتیں اپنے عوام کا سہارا لیکر خود کو اغیار کے سہارے سے بے نیاز بنا سکتی ہیں اور پھر مسلمان عوام اور ان پر حکمرانی کرنے والے نظام کے درمیان یہ مصیبت بار فاصلہ بھی باقی نہیں رہےگا۔ اسی اتحاد و اجتماعیت کے احساس کے بعد ماضی و حال کے سامراجی نیرنگ یعنی انتہا پسندی پر مبنی فرقہ وارانہ تعصب کے جذبات بھڑکانے کی کوششیں مسلمان قوموں کے درمیان یہ وسیع و عمیق خلیج پیدا نہیں کر سکیں گی اور عرب، فارس، ترک، افریقی اور ایشیائی قومیتیں ایک دوسرے کی اسلامی شناخت و ماہیت کی حریف و مخالف ہونے کے بجائے اس کا جز اور تسلسل بن جائيں گی اور ایک وسیع ماہیت کی عکاسی کریں گی۔ بجائے اس کے کہ ہر قومیت دوسری قومیتوں کی نفی اور تحقیر کا وسیلہ بنے، ہر قوم دیگر اقوام کے درمیان اپنی تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات اور خوبیوں کی منتقلی کا ذریعہ بن جائے گی۔ ٹاپ اس عظیم اجتماع کے مضمراتاسلام میں ویسے تو نماز جماعت، نماز جمعہ اور نماز عید جیسی اجتماعی طور پر انجام دی جانے والی عبادتیں بھی موجود ہیں لیکن (حج کا) یہ عظیم اجتماع، ذکر و وحدانیت کو مرکزیت دینا اور دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمانوں کو نقطہ واحد پر لاکر جمع کر دینا بڑا ہی با معنی عمل ہے۔ یہ بات کہ پوری امت مسلمہ اور سارے مسلمان اپنے لسانی، نسلی، مسلکی اور ثقافتی اختلافات کے باوجود ایک جگہ پر جمع ہوں اور مخصوص اعمال کو آپس میں مل کر انجام دیں جو عبادتوں، گریہ و زاری، ذکر و مناجات اور توجہ و ارتکاز پر مشتمل ہیں، یہ بہت با معنی چیز ہے۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اور اسلامی نقطہ نگاہ سے قلوب و اذہان کا اتحاد میدان سیاست و جہاد میں ہی اہم نہیں بلکہ خانہ خدا میں جانا، قلوب کا ایک دوسرے کے نزدیک ہونا، جسموں اور جانوں کا ایک دوسرے کی معیت میں ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ بنابریں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے : واعتصموا بحبل اللہ جمیعا اللہ کی رسی کو اکیلے پکڑنے کا فائدہ نہیں ہے، ایک ساتھ مل کر پکڑنا ضروری ہے۔ ایک ساتھ مل کر اعتصام بحبل اللہ کیجئے۔ الہی تعلیم و تربیت و ہدایت کے محفوظ مرکز کو ایک ساتھ مل کر اپنائیے۔ معیت و ہمراہی ضروری ہے۔ دل ایک ساتھ ہوں، جانیں ایک ساتھ ہوں، فکریں ایک ساتھ ہوں، جسم ایک ساتھ ہوں۔ یہ جو آپ طواف کرتے ہیں، یہ ایک مرکز کے گرد دائرے کی شکل میں حرکت کرنا، یہ محور توحید کے ارد گرد مسلمانوں کی حرکت و پیش قدمی کی علامت ہے۔ ہمارے سارے کام، اقدامات اور حوصلے وحدانیت پروردگار اور ذات اقدس الہی کے محور کے ارد گرد ہونا چاہئے۔ یہ درس ہماری پوری زندگی کے لئے ہے۔ ٹاپاتحاد کے مواقع کا غلط استعمالیہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ کوئی شخص اتحاد کے اس ذریعے اور وسیلے کو اختلاف و خلیج پیدا کرنے کا حربہ بنا لے۔ یہ خطاب ہر ایک سے ہے۔ (میرا) خطاب صرف اس متعصب اور کفر کے فتوے صادر کرنے والے شخص سے نہیں ہے جو مدینے میں کھڑے ہوکر شیعوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرتا ہے، میرا خطاب سب سے ہے۔ حج کے امور کے ذمہ داران، کاروانوں کے ذمہ داران اور علماء سب ہوشیار رہیں کہ اتحاد کے اس موقع کو (بعض عناصر) تفرقہ انگیزی کا حربہ نہ بنا لیں، دلوں میں ایک دوسرے کی کدورتیں نہ بھر دیں۔ کون سی چیز ہے جو ایک شیعہ کے دل میں اپنے غیر شیعہ مسلمان بھائی کے تعلق سے کینہ بھر دیتی ہے، ایک سنی کے دل کو اپنے شیعہ مسلمان بھائی کی کدورت سے پر کر دیتی ہے۔ غور کیجئے کہ وہ کون سی چیزیں ہیں۔ ان کی نشاندہی اور انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ حج کو جو زخم کا مداوا، اتحاد کا ذریعہ اور عالم اسلام کے دلوں، نیتوں اور ارادوں کی یکسانیت و ہم آہنگی کا وسیلہ ہے انتشار اور بغض و عناد کا حربہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ اس مسئلے اور اس کے مصادیق کی شناخت کے لئے بہت ہوشیاری اور دقت نظر کی ضرورت ہے۔ ٹاپ اتحاد کی راہ کے روڑےجو لوگ حج میں تفرقہ اندازی، فتنہ انگیزی، خرافاتی اور رجعت پسندانہ افکار کی ترویج کی کوششوں میں مصروف ہیں وہی سامراج کے عمدی یا غیر عمدی مہرے ہیں جو اس عظیم موقع کو نابود کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اس اتحاد کی عظمت و جلالت اور شکوہ و وقار کو عظیم امت مسلمہ کی نظروں میں مجسم نہیں ہونے دیتے وہ ان افراد میں شامل ہیں جو اس عظیم ذخیرے اور سرمائے کو نابود اور ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جو لوگ تفاخر و امتیاز، دیگر قوموں کے استحصال و تذلیل، دنیا کے مستضعفین کے خلاف جنگ افروزی کا وسیلہ قرار پانے والی عظمت و جلالت نہیں بلکہ راہ خدا میں عظیم امت اسلامیہ کی عظمت و جلالت کو الہی اقدار کی راہ کی عظمت و جلالت کو اور وحدانیت کے راستے کی عظمت و جلالت کو عالم اسلام میں منعکس نہیں ہونے دینا چاہتے وہ پوری انسانیت پر ظلم کر رہے ہیں۔ اس وقت اس عظیم الہی ذخیرے اور سرمائے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عالم اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ٹاپ سامراج کی تفرقہ انگیزیاس وقت عالم اسلام میں سامراج اور امریکا کا ایک بنیادی ہدف اختلاف پیدا کرنا ہے اور اس کا بہترین راستہ شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر عراق کے مسائل کے سلسلے میں کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیسی زہر افشانی کر رہے ہیں اور بہ خیال خود نفاق کے کیسے بیج بو رہے ہیں؟! برسہا برس سے مغربی سامراج اور توسیع پسند طاقتوں کے ہاتھ ان حرکتوں میں مصروف ہیں۔ حج میں انہیں اس کا بڑا اچھا موقع مل جاتا ہے کہ شیعہ کو سنی کے اور سنی کو شیعہ کے خلاف مشتعل و برافروختہ کریں۔ ایک دوسرے کے مقدسات اور محترم ہستیوں کی توہین کے لئے ورغلائیں۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ صرف حج میں ہی نہیں بلکہ پورے سال اور سبھی میدانوں میں ہوشیار و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکا کی مرغوب ترین شئے ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل صف آرا ہونے والوں کی مانند ایک دوسرے کے سامنے بیٹھیں، بغض و کینے میں ڈوب کر ایک دوسرے کے خلاف بولیں، ایک دوسرے کو گالیاں دیں، بد کلامی کریں! بعید نہیں ہے کہ اس پر محن دور میں حج کے موقع پر اختلاف و انتشار پیدا کرنے کے لئے کچھ افراد کو کرائے پر حاصل کر لیا گيا ہو، لوگوں کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ کاروانوں میں شامل علمائے کرام اس مسئلے میں زیادہ ذمہ دارانہ انداز میں کام کریں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کی مرضی کیا ہے۔ یہ بہت بڑی غفلت اور سادہ لوحی ہے کہ انسان اس خیال کے تحت کہ وہ حقیقت کا دفاع کر رہا ہے، دشمن کی سازش کی مدد کرنے لگے اور دشمن کے لئے کام کرنے لگے۔ کچھ لوگ مزدوری لے کر، پیسے لیکر یہ کام کرتے ہیں، بسا اوقات سطحی فکر والے متعصب لوگوں کو ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف برانگیختہ اور مشتعل کرتے ہیں۔ اب اگر سامنے والا ویسا ہی شدید رد عمل دکھاتا ہے تو بلا شبہ ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے کیونکہ ان کا تو مقصد ہی یہی ہے۔ وہ ہمیں آپس میں دست بگریباں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مطمئن رہیں۔ ٹاپ مشرکین سے اعلان برائتحج کا ایک بنیادی ستوناس عظیم موقع پر جہاں ذکر خدا فاذکروا اللہ کذکرکم آبائکم او اشد ذکرا اور مشکرین سے اعلان برائت و اذان من اللہ و رسولہ الی الناّس یوم الحج الاکبر انّ اللہ بریء من المشرکین و رسولہ حج کے بنیادی ارکان میں شمار ہوتے ہیں وہیں دوسری طرف ہر اس عمل کے سلسلے میں احتیاط بھی بہت زیادہ ہے جس سے (دینی) بھائیوں یعنی اس امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان جدائی و دشمنی میں اضافہ ہو۔ حتی دو مسلمان بھائيوں کے ما بین وہ بحث و تکرار بھی جو معمول کی زندگی میں کوئی خاص بات نہیں سمجھی جاتی، حج میں ممنوع و حرام ہے فلا رفث و لا فسوق و لا جدال فی الحج۔ جس میدان میں مشرکین، یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اصلی دشمنوں سے اظہار برائت لازمی ہو جاتا ہے وہیں مسلمان بھائیوں یعنی یکتا پرست امت واحدہ کے اعضاء کے درمیان بحث و تکرار ممنوع و حرام ہو جاتی ہے۔ اس طرح حج میں اتحاد و اجتماعیت کا پیغام اور بھی آشکارا ہو جاتا ہے۔ در حقیقت حج غفلت و بے حسی کو دور کرنے کی اسلام کی اہم ترین تدبیر ہے۔ اس فریضے کا بین الاقوامی پہلو اس پیغام کا حامل ہے کہ امت مسلمہ پر اجتماعی حیثیت سے بھی غفلت و بے خبری کی گرد جھاڑنے کا فریضہ ہے۔ٹاپ حقائق بیان کرنے کا موقعحقائق کو بیان کرنے اور سامراج و امریکا سے اعلان برائت کے اس موقع کو گنوانا نہیں چاہئے۔ عالم اسلام کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ اسے کون سے مسائل در پیش ہیں؟ یہ (مواقع) عالم اسلام کے لئے جوش و ولولے اور حرکت و پیش قدمی کا وسیلہ بننا چاہئے۔ ایسے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ گویا اب تو کچھ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ سامراج کا غلبہ یقینی ہے اور اسے روکنا ناممکن۔ امر واقع یہ نہیں ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ امت اسلامیہ زندگی کی رعنائيوں سے سرشار ایک قدرت مند حقیقت ہے۔ اگر وہ چاہ لے اور ارادہ کرکے قدم بڑھا دے تو نہ امریکا کی کوئی چال کامیاب ہوگی اور نہ اس کے بڑوں کو کوئی راستہ سجھائی دے گا۔ قوموں کو چاہئے کہ جس طرح بھی ممکن ہو عالم اسلام کے مفادات اور مصلحتوں کی بہ نسبت اپنا قلبی لگاؤ ظاہر کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے عالم اسلام کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کریں۔ اسلام کی جانب سے معین کردہ حج میں انجام دیا جانے والا یہ کمترین کام ہے جس کی توقع کی جاتی ہے۔ ٹاپ حج کی روحاظہار برائت کو ہم نے باہر سے لاکر حج پر مسلط نہیں کیا ہے۔ یہ حج کا جز، حج کی روح اور حج کے عظیم اجتماع کا حقیقی مفہوم ہے۔ بعض افراد کو یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ دنیا کے گوشہ و کنار میں اخبارات اور اپنے بیانوں اور تنقیدوں میں مسلسل یہی رٹ لگائيں کہ آپ نے تو حج کو سیاسی رنگ دے دیا ہے، حج کو بھی سیاسی چیز بنا دیا ہے آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟! اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ ہم نے کسی سیاسی مفہوم کو شامل کر دیا ہے تو ان کے جواب میں یہی کہنا چاہئے کہ حج کبھی بھی سیاسی مفہوم سے خالی نہیں رہا۔ مشرکین سے برائت کا اعلان اور بتوں اور بتگروں سے بیزاری کا اظہار، مومنین کے حج پر حکمفرما روح ہے۔ حج میں قدم قدم پر دل و جان اللہ کے سپرد کر دینے، اس کی راہ میں سعی و کوشش، مشرکین سے برائت، اس شیطان پر کنکریاں مارنے اور اسے دتکارنے نیز اس کے مقابلے میں محاذ قائم کرنے کے مناظر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح حج میں جگہ جگہ اہل قبلہ کے اتحاد و یکجہتی اور غیر حقیقی امتیازات کی بے اعتباری اور حقیقی و ایمانی اخوت و اتحاد کی جلوہ افروزی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ حج انہیں دروس و اسباق کے سیکھنے اور دہرانے سے عبارت ہے۔ ٹاپ مشرکین سے اعلان برائت کی مخالفت!میرے لئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ وہ حکومت، جس نے بیت اللہ کے زائرین کی خدمت کی ذمہ داری قبول کی ہے، ایسے عمل پر پابندی عائد کر دے جو مسلمانوں کے اتحاد کا باعث، مسلمان قوموں کے وقار کا موجب اور سامراجیوں اور عالم اسلام کے دشمنوں سے نفرت کا آئینہ ہے۔ یہ عمل دنیا کی موجودہ گروہ بندی کے مطابق کس گروہ اور حلقے کے مفاد میں ہے؟ کیا مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کوئي جرم ہے؟ کیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکا اور دیگر سامراجیوں کی سازشوں کا افشاء فریضے کے برخلاف کوئی عمل ہے؟ کیا مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دینا اور تفرقہ انگیزی کے عوامل و عناصر سے اظہار نفرت قرآن کا صریحی حکم نہیں ہے؟ ان اہم ترین فرائض کو معطل کر دئے جانے سے جن کو فائدہ پہنچنے والا ہے وہ امریکا اور صیہونزم ہیں۔ اس وقت حج میں مسلمان کے منہ سے بلند ہونے والی برائت کی آواز، سامراج اور اس کے پیروکاروں سے بیزاری کی آواز ہے جو بد قسمتی سے اسلامی ممالک میں بڑی کامیابی سے اپنے پیر جما رہے ہیں اور اسلامی معاشروں پر اپنا شرک آلود نظام زندگی، ثقافت اور سیاست مسلط کرکے مسلمانوں کی زندگی میں عملی توحید و یکتا پرستی کی بنیادوں کو متزلزل اور انہیں غیر خدا کی عبادت و پرستش میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ان کی یکتا پرستی لقلقہ زبانی بن کر رہ گئی ہے، ان کی زندگی میں یکتا پرستی کے مفہوم کے آثار مفقود ہو چکے ہیں۔ ٹاپ
پہلا باب: اقتصادی خود انحصاریاقتصادی خود انحصاری کا مفہوممعاشی خود انحصاری کی اہمیتاقتصادی خود انحصاری کے مقدماتاقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثراتاقتصادی خود انحصاری کی شرطیںاقتصادی تسلط و اجارہ داریسیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کرداردوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہمحاصرے میں ترقیاقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثراتایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفت اقتصادی خود انحصاری، معاشی پابندیوں کا مقابلہپہلا باب: اقتصادی خود انحصاریاقتصادی خود انحصاری کا مفہوممعاشی خود انحصاری یعنی یہ کہ ملک اور قوم اپنی اقتصادی سرگرمیوں میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور کسی کی محتاج نہ رہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو قوم اقتصادی لحاظ سے خود کفا ہے وہ دنیا میں کسی سے کوئی سودا اور لین دین نہیں کرتی۔ ایسا نہیں ہے، سودا اور لین دین کمزوری کی دلیل نہیں ہے۔ کوئی چیز خریدنا، کچھ فروخت کرنا، سودا کرنا، تجارتی مذاکرات انجام دینا، یہ کمزوری کی علامتیں نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب اس انداز سے انجام پانا چاہئے کہ قوم ایک تو اپنی بنیادی ضرورتیں خود ہی پوری کرنے پر قادر ہو اور دوسرے یہ کہ عالمی سودوں اور لین دین میں اس کا اپنا مقام ہو۔ دوسرے (ممالک) اسے بآسانی حاشئے پر نہ ڈال دیں، اس کا اقتصادی محاصرہ نہ کر لیں، اسے دوسرے ڈکٹیٹ نہ کریں۔ آج جو ممالک اقتصادی لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں، ان کے پاس طاقت ہے اور بد قسمتی سے عالمی سامراج کا حصہ ہیں اور سامراجی پالسیوں پر عمل پیرا ہیں، جب وہ کسی ملک سے کوئی سودا اور لین دین انجام دینا چاہتے ہیں، تعاون کرتے ہیں تو اس ملک پر کچھ چیزیں مسلط کر دیتے ہیں۔ ملک کی آزاد معیشت سے مراد یہ ہے کہ ملک کو جس چیز کی ضرورت ہے اسے ملک کے اندر ہی تیار کیا جا سکتا ہو۔ ملک کے کارخانے سب کچھ تیار کریں اور ملک کا محنت کش طبقہ اسے اپنا انسانی و دینی فریضہ تصور کرے۔ محنت کش صرف وہ نہیں ہے جو کسی کارخانے میں کام کرتا ہے۔ جو بھی ملک میں کوئی مفید و با مقصد کام انجام دے رہا ہے وہ محنت کش ہے۔ مصنف، فنکار، استاد، موجد اور محقق بھی محنت کش طبقے کے افراد شمار کئے جا سکتے ہیں۔ٹاپ معاشی خود انحصاری کی اہمیتاقتصادی خود انحصاری، سیاسی خود مختاری سے بالاتر ہے۔ ملک کے حکام، پارلیمنٹ کے اراکین اور معاشی شعبے سے جڑے افراد اس بات پر توجہ دیں کہ پیسے، اقتصادی سرگرمیوں اور اقتصادی امور میں دوسروں پر اپنا انحصار ختم کریں۔ ملک کے لئے معاشی خود کفائی انتہائی حیاتی ضرورت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب کسی ملک کی معیشت اغیار سے وابستہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پیکر کی رگ حیات اور اس کی سانس دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ بنابریں اختیارات بھی دوسروں کے ہی ہاتھ میں ہوں گے۔ بیشتر انقلابی ممالک کا رجحان ( گزشتہ صدی میں) مشرق کی جانب تھا۔ یہ ممالک مشرقی حکومتوں اور طاقتوں سے مدد لیتے تھے۔ مثال کے طور پر جب چین میں انقلاب آیا تو دس سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصے تک سویت یونین نے جو اس کا بڑا بھائی کہا جاتا تھا اور جو اشتراکی انقلاب میں سب سے آگے تھا، چین کی اقتصادی اور فنی مدد کی اور اس نے اس ملک کے لئے اپنے ماہرین بھیجے۔ دیگر کمیونسٹ ممالک کی بھی یہی صورت حال تھی۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے اقتصادی انحصار کو ختم کرنے کے لئے صرف اپنی قوم کی مضبوط قوت ارادی اور ایرانیوں کی درخشاں صلاحیتوں پر تکیہ کیا۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری کے مقدماتجو ممالک آزاد ہوتے ہیں ان کا سب سے پہلا قدم یہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی نظام کو خود مختاری دلاتے ہیں۔ یعنی بیرونی طاقتوں کے نفوذ سے آزاد ہوکر حکومت تشکیل دیتے ہیں۔ اس پر بھی وہ اکتفا نہیں کرتے بلکہ معاشی خود انحصاری کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ معاشی خود انحصاری، سیاسی حود مختاری سے زیادہ مشکل ہے اور اس کے لئے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے اقتصادی تسلط اور نفوذ کو آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی ملک اقتصادی خود کفائی کی منزل پر پہنچنا چاہتا ہے تو اسے ماہر افرادی قوت، آمدنی کے اچھے ذرائع، بے پناہ وسائل، سائنس، مہارت، عالمی سائنسی و فنی تعاون اور دیگر بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ انقلابی ممالک اور وہ مملکتیں جنہوں نے نئی نئی خود مختاری حاصل کی ہے اقتصادی خود کفائی کے ان وسائل اور ذرائع کے حصول میں مشکلات سے دوچار ہوتی ہیں۔ آزاد ملکوں کو چاہئے کہ اپنی ضرورت اور تشخیص کے مطابق اس صنعت، مصنوعات اور سامان کو ملک کے اندر موجود ذخائر اور وسائل کے سہارے تیار کر لیں۔ انہیں چاہئے کہ اپنی خلاقی صلاحیتوں، محنت و مشقت سے، اس پر حکمفرما انتظامی سسٹم اور آزادی و خود مختاری کی راہ میں قائم ہونے والے عوامی اتحاد سے، ساتھ ہی ساتھ دشمن کے تشہیراتی حربوں کی بابت پوری ہوشیاری و دانشمندی کے ذریعے مکمل اقتصادی خود انحصاری و آزادی کی سمت پیش قدمی کریں۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری میں ثقافتی سرمایہ کاری کے اثراتہر ملک کی افرادی قوت ہی اس کا سب کچھ ہوتی ہے۔ اگر افرادی قوت نہ ہو تو سب کچھ ہیچ ہے۔ کچھ ممالک میں ایران سے پہلے ہی انقلاب آیا گیا تھا اور اقتصادی، صنعتی، تکنیکی اور دیگر شعبوں میں انہیں کامیابیاں بھی ملیں۔ ان ملکوں نے اپنے انقلاب کے اوائل میں اپنے تمام منصوبے افرادی قوت کی تربیت کو محور قرار دیکر ترتیب دئے۔ عالم یہ ہے کہ آج بھی ان میں سے بعض ممالک ماہر افرادی قوت برآمد کر رہے ہیں۔ یعنی نہ صرف یہ کہ یہ ممالک بے پناہ افرادی قوت کی وجہ سے خود کفالت کی منزل پر پہنچ گئے بلکہ ان ممالک میں اتنے زیادہ ماہرین کے لئے جگہوں کی کمی ہے اور ان کی معیشت ایسی نہیں ہے کہ یہ تمام ماہرین اس میں کھپ سکیں۔ نتیجتا وہ دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں۔ اسی افرادی قوت نے انہیں اعلی سطح پر پہنچا دیا ہے جبکہ ان کے پاس تیل جیسے ذخائر بھی نہیں ہیں۔ اگر آج ثقافتی امور کے لئے بجٹ مختص کیا جا رہا ہے تو اس بات پر توجہ ہونا چاہئے کہ ممکن ہے کہ قلیل مدت میں یہ بجٹ اقتصادی امور اور معاشی سرگرمیوں کو فائدہ نہ پہنچائے لیکن اس قلیل مدت کے بعد اس کا فائدہ فی الفور ملک کو ملے گا ۔ اگر صحیح انداز سے فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تو اس سے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اگر ثقافتی امور بالخصوص تعلیمی شعبے کے لئے بجٹ اور وسائل کو استعمال کیا جا رہا ہے تو اس سے ملک کو ہرگز نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ اس سے آگے چل کر ملک کے لئے نئے وسائل پیدا ہوں گے۔ٹاپ اقتصادی خود انحصاری کی شرطیںپہلی شرط: سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ملک میں ہر کوئی اپنے فرائض کو بنحو احسن انجام دے۔ (پیغمبر اسلام) ارشاد فرماتے ہیں: رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ اللہ رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کام انجام دیتا ہے تو محکم انداز میں انجام دیتا ہے، بنحو احسن انجام دیتا ہے۔ یہ کوشش ہونا چاہئے کہ جب بھی کوئی کام انجام دیا جائے تو مکمل طور پر اور درست طریقے سے انجام دیا جائے۔ کوئی کسر باقی نہ رہے۔ یہ ایک اہم شرط ہے جو پوری ہو جائے تو اقتصادی خود انحصاری کی منزل پر پہنچا جا سکتا ہے۔ دوسری شرط: (خلاقیت اور نئی ایجادات) ملک کی اقتصادی سرگرمیوں اور کام کے شعبے میں خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا چاہئے۔ کتنی اچھی بات ہے کہ وہ کارخانے جو حکومت کے پاس ہیں یا وہ کارخانے جو نجی سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی آمدنی کا تھوڑا سا حصہ تحقیق اور اپنی مصنوعات کا معیار بلند کرنے اور کاموں کی پیشرفت کے لئے استعمال کریں۔ ترقی پذیر ممالک اس انتظار میں کیوں بیٹھیں کہ یورپ یا دنیا کے کسی اور گوشے میں کوئی آگے بڑھ کر تحقیق کرے تب یہ (ممالک) اس سے سیکھیں؟! خود بڑھ کر تحقیق کرنا چاہئے، نئی ایجاد کرنا چاہئے، پیداوار کو آگے بڑھانا چاہئے، صنعت کو آگے لے جانا چاہئے، پیداوار کو مقدار اور معیار کے لحاظ سے آگے لے جانا چاہئے۔ تیسری شرط: تیسری شرط یہ ہے کہ ملک کے علمی شعبے، معیشت کی مدد کے لئے آگے آئیں۔ یونیورسٹیوں کے مفکرین آئیں اور حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت ان مفکرین اور ماہرین کا سہارا لے جو یونیورسٹیوں میں علمی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ یہ خیال نہ پیدا ہو کہ اگر کسی یورپی مفکر نے کوئی تحقیق انجام دی ہے اور کوئی بات کہی ہے تو وہ پتھر کی لیکر بن گئی ہے۔ آج کوئی بات انہوں نے کہی، بیس سال بعد، دس سال بعد، پانچ سال بعد کوئی دوسرا محقق آکر اس بات کو غلط ثابت کر دیتا ہے اور نیا نتیجہ پیش کرتا ہے۔ مغرب والوں نے جو کچھ کہہ دیا ہے اسے آنکھیں بند کرکے کیوں قبول کر لیا جائے، کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی باتیں سنی اور قبول کی جاتی رہیں؟! آپ کو خود آگے بڑھ کر صحیح نظریہ قائم کرنا چاہئے۔ ہر ملک کے ماہرین اقتصادیات کو چاہئے کہ اپنی سرزمین کے حالات، وہاں کے عقائد اور اس مملکت کی خصوصیات نیز اقتصادی مسائل کے مطابق حل تلاش کریں۔ٹاپ اقتصادی تسلط و اجارہ داریسامراجی تسلط کی قربانی بننے والے ملکوں کے پاس کبھی بھی اطمینان بخش معیشت نہیں رہی ہے۔ کبھی کبھار ان کے ہاں ظاہری معاشی رونق نظر آتی تھی جیسا کہ (آج بھی) تسلط کا شکار بننے والے ملکوں میں ظاہری رونق نظر آتی ہے لیکن اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ جاتا ہے۔ یعنی اگر ان کا ایک دروازہ بند کر دیا جائے یا ان کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے تو سب کچھ شکست و ریخت کا شکار ہو جائے گا، نابود ہو جائے گا۔ ایک سرمایہ دار نے دو تین مہینے کے اندر جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کو دیوالیہ کر دیا۔ ان میں دو تین ملکوں میں اچھی خاصی اقتصادی ترقی تھی۔ انہی میں سے ایک ملک کے سربراہ کا انہی دنوں تہران آنا ہوا اور میری ملاقات بھی ہوئی۔ کہنے لگے کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہم راتوں رات فقیر ہو گئے! ایک امریکی یہودی سرمایہ دار نے بالکل اس طرح جیسے مٹی کا گھروندا ایک جھٹکے میں ختم ہو جاتا ہے ایک جھٹکے میں سب کچھ ختم کر دیا۔ امریکیوں کو جہاں ضرورت محسوس ہوئی پچاس، ساٹھ ارب ڈالر انجکٹ کر دئے، کہیں پچاس ارب اور کہیں تیس ارب، اور جہاں انہیں ضرورت نہیں محسوس ہوئی اسے تباہ کر دیا۔ البتہ انجکٹ کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اسی مٹی کے گھروندے کو ایک الگ انداز سے بنا دیا ہے۔ بہرحال ان ممالک کی معیشت کو مستحکم نہیں ہونے دیتے۔ٹاپ سیاسی و ثقافتی خود مختاری میں پائیدار معیشت کا کرداراسلامی انقلاب سے ملت ایران کو سیاسی خود مختاری کا تحفہ ملا۔ اس قوم کو یہ جرئت ملی کہ دنیا کے غیر منصفانہ اور تسلط پسندانہ نظام کے مد مقابل سینہ سپر ہو جائے۔ یہ قوم اگر سیاسی خود مختاری اور ثقافتی تشخص کو دنیا کی سامراجی طاقتوں سے محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کرنا ہوں گی۔ یہ ملک میں خود مختاری کی جڑوں کے مستحکم ہونے کے معنی میں ہے، اس کا دار و مدار پیداروار، کام، روزگار کی صورت حال میں بہتری، مختلف شعبوں میں نئی دریافتوں پر ہے۔ تحقیقاتی مراکز اور تجربہ گاہوں سے لیکر کارخانوں اور زراعت تک ہر جگہ نئی ایجادات ہونا چاہئے۔ ایسا ہو جانے پر ملت ایران کے گستاخ اور خونخوار دشمن ہاتھ مل کر رہ جائیں گے اور خاموشی سے گوشہ نشین ہو جائیں گے۔ ٹاپ دوسرا باب: اقتصادی پابندی و محاصرہمحاصرے میں ترقیاسلامی انقلاب نے تمام تر ترقی ایسے عالم میں کی کہ جب ایران کے دشمنوں یعنی امریکا اور اس کے ہمنواؤں نے سیاسی، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں ایران کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بلا وقفہ جاری رکھا۔ ہمیشہ ایران سے کہا گیا کہ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیا جائے گا۔ کہا گيا کہ آپ لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔ ہمیشہ تلقین کی گئی کہ اس ملک میں تعمیر و ترقی کی راہ مسدود ہو جائے گی۔ اسی طرح دیگر گوناگوں دھمکیاں۔ بحمد اللہ یہ جو ساری ترقی ہوئی ہے ان دھمکیوں، دشمنی اور دباؤ کے باوجود ہوئی ہے۔ٹاپاقتصادی ترقی میں معاشی پابندیوں کے اثراتجنگ کے آغاز کے وقت سے اب تک اسلامی جمہوریہ ایران زمین سے آسمان پر پہنچ چکا ہے۔ ایران کو اقتصادی پابندیوں اور معاشی محاصرے کی دھمکیاں دیتے ہیں! اس ملک نے اسی اقتصادی محاصرے کے عالم میں یہ بے شمار وسائل ایجاد کئے ہیں۔ اقتصادی محاصرہ سبب بنتا ہے کہ ملک کے اندر با استعداد و با ایمان افرادی قوت زیادہ تندہی سے کوششیں اور اقدامات کرے۔ اقتصادی پابندیوں کے سخت ترین مراحل میں ایرانی جوانوں نے ایسے ہتھیار تیار کئے کہ پوری دنیا میں امریکا اور اس کے ذریعے نوازی جانے والی ایک دو حکومتوں کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں تھے۔ یہی اینٹی ٹینک میزائل تاو اس ملک کے جوانوں نے کن حالات میں تیار کیا؟ ان پر سارے دروازے بند تھے لیکن انہوں نے بنا ڈالا۔ البتہ جوہری توانائی دنیا میں اپنی خاص اہمیت کے باعث ذرا زیادہ نمایاں ہوکر سامنے آئی ورنہ اسی سطح کے دوسرے مختلف شعبوں میں متعدد کارنامے انجام دئے گئے ہیں جن کی اہمیت اس (ایٹمی ٹکنالوجی) سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ البتہ ان کا دفاعی یا فوجی استعمال نہیں ہے۔ یہ سب کچھ اقتصادی محاصرے کے دوران ، شدید سیاسی و اقتصادی دباؤ میں اور ان حالات میں انجام دیا گيا جب حتی وہ حکومتیں بھی جن کے ایران سے اقتصادی تعلقات تھے ایران سے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کرتی تھیں۔ پھر بھی ایران کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک قوم کی عظیم صلاحیت ہے جو یہ کامیابیاں دلاتی ہے۔ اگر دنیا میں کچھ مقامات پر ایران کے لئے دروازے بند ہیں تو اس کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔ اگر دروازے کھلے ہوں تو انسان پر سستی اور کاہلی سوار ہونے لگتی ہے اور نتیجے میں وہ کسی مقام پر نہیں پہنچ پاتا۔ اہم کاموں میں محنتوں اور کاوشوں کے لئے عظیم جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو لوگ مسلسل نئی ایجادات اور نئی نئی دریافت میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ان کی علمی روش اور طرز عمل انہیں اس کے لئے حوصلہ عطا کرتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ان کے لئے یہ کام آسان ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ سامراجی طاقتوں کا پیسہ بھی انہیں دستیاب ہے۔ اس وقت مغرب والوں نے علم و سائنس کے ذریعے خود کو پوری دنیا پر مسلط کر رکھا ہے۔ ان کے اپنے عزائم ہیں۔ ان ممالک کو بھی جنہیں پسماندہ رکھا گیا ہے ترقی و حرکت کے لئے اپنے اندر جذبہ پیدا کرنا چاہئے۔ یہ جذبہ پیدا ہونے کے عوامل و اسباب میں ایک، دروازوں کا بند ہونا بھی ہے۔ٹاپ ایران کی پیشرفت و ترقی کی مخالفتسرمایہ داری اور سامراج کا خیمہ اپنی تمام تر سیاسی توانائيوں، اپنی پوری مالیاتی و اقتصادی طاقت کے ساتھ اور اپنے تشہیراتی چینلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حتی الوسع ملت ایران پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ عقب نشینی کر لے، ہتھیار ڈال دے۔ صرف ایٹمی شعبے میں نہیں یہ تو ملت ایران کے حقوق کا ایک حصہ ہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملت ایران عزت کی زندگی کے حق سے، خود مختاری کے حق سے، حق خود ارادیت سے، سائنسی میدان میں ترقی کے حق سے دستبردار ہو جائے۔ اس وقت ملت ایران سائنس و ٹکنالوجی کے میدانوں میں ترقی کی راہ پر گامزن اور طاغوتی (شاہی) دور کی دو سو سالہ پسماندگیوں سے باہر نکلنے پرکمربستہ ہے۔ یہ (دشمن) سراسیمہ ہیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ملت ایران جو دنیا کے حساس ترین علاقے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی شناخت حاصل کر چکی ہے، یہ کامیابیاں حاصل کرے، یہی وجہ ہے کہ وہ دباؤ ڈال رہے ہیں لیکن ملت ایران کے پائے ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ ٹاپ
حضرت عیسی مسیح علیہ السلام
مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح کی قدر و منزلت عیسائی مذہب کے پیروکاروں کی نظر میں ان کی قدر و منزلت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اس عظیم پیغمبر نے لوگوں کے درمیان اپنا پورا وقت جد و جہد کرتے ہوئے گزارا تا کہ ظلم و جارحیت، بد عنوانی و فساد اور ان لوگوں کا مقابلہ کریں جو دولت و طاقت کے ذریعے قوموں کو زنجیروں میں جکڑ کر دنیا و آخرت کے جہنم میں گھسیٹتے ہیں۔ اس عظیم پیغمبر نے بچپن سے ہی، چونکہ وہ بچپن میں ہی منصب نبوت پر فائز ہو گئے تھے، اسی راہ سارے رنج و الم میں برداشت کئے۔
پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی
اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرطاسلام اور اقتصادی ترقیترقی کا علاقائی نمونہاقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورتاسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہتعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوفتمام طبقات کا فریضہتعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیتتعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائلتعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں
دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل
کام
کام کی کیفیتاسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمتاقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ
محنت کش طبقہ
محنت کش کا تقدسمحنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرضمعاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمتسرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
خواتین
تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردارعورتوں کی اقتصادی سرگرمیاںاسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
کفایت شعاری
اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت
روحانیت و معنویت
اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت
نظم و ضبط
مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط
تیل
تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائےقومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت
منصوبہ بندی
اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ
صحیح انتظام
اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت
خود اعتمادی
تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت
اصلاح
اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت
صنعت
اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار
قومی اتحاد
قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط
اقتصادی تعمیر و ترقی
پہلا باب:اقتصادی تعمیر و ترقی
اقتصادی ترقی میں کامیابی کی شرط
اسلامی جمہوریہ ملک کی تعمیر و ترقی اور ایران کو استبدادی دور کی پسماندگیوں سے نجات دلانے کے دعوے کے ساتھ کام کر رہا ہے اور اس وقت سائنسی، اقتصادی اور صنعتی ترقی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اور جدید کاری کی ہر کوشش مقدس اسلامی جمہوری نظام کی حقانیت کا ثبوت اور اس دعوے کے صحیح ہونے کی دلیل ہے لیکن ملک کی تعمیر و ترقی اور اقتصادی پیشرفت کی راہ میں اٹھایا جانے والا ہر قدم اسی صورت میں کامیابی سے ہمکنار ہوگا جب وہ اسلامی اصولوں اور دینی طرز فکر پر استوار اور اسلامی انقلاب کے نعروں، اقدار اور امنگوں کی تقویت پر مرکوز ہو۔ اس صورت میں تعمیر و ترقی کی تحریک حقیقی اور ضمانت شدہ تحریک ہوگی اور ملک کو ترقی کے فریب میں مالیاتی و سیاسی و اخلاقی تنزلی اور انحصار کی کھائی میں نہیں لے جائے گی۔
ٹاپ
اسلام اور اقتصادی ترقی
اسلام قوموں کو خود مختاری اور آزادی عطا کرتا ہے۔ ان کی ذاتی زندگی میں انہیں آمروں، استبدادی طاقتوں اور کج فکری سے آزادی عطا کرتا ہے اور سامراج کے سیاسی دباؤ اور اقتصادی طاقت کے کمند سے بھی نجات دلاتا ہے۔ اسلامی قوموں کو سماجی انصاف پر مبنی رفاہ و اقتصادی آسودگی عطا کرتا ہے۔ وہ اقتصادی ترقی جو عوامی طبقات کے فاصلے کو بڑھائے اسلام کو پسند نہیں ہے۔ اقتصادی ترقی کا جو نسخہ آج مغربی ممالک پوری دنیا کے عوام کے لئے پیش کر رہے ہیں، جس سے کچھ طبقے تو عیش و عشرت میں پہنچ جاتے ہیں اور اقتصادی رونق میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ معاشرے کے کچھ دوسرے طبقے زیادہ غربت و افلاس اور دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اسلام کو پسند نہیں ہے۔
انصاف اور اخوت کے جذبے کے ساتھ اقتصادی خوشحالی اسلام کے زیر سایہ حاصل ہوتی ہے۔
ٹاپ
ترقی کا علاقائی نمونہ
اسلامی جمہوریہ میں ترقی کا نمونہ، عوام کے ایمان و عقیدے، ثقافتی و تاریخی حالات اور میراث کے تقاضے کے مطابق ایک مکمل مقامی اور ملت ایران سے مختص نمونہ ہے۔ کسی کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ عالمی بینک کی، نہ آئی ایم ایف کی، نہ کسی بائیں بازو کے ملک کی، نہ دائیں بازوں کے ملک کی کیونکہ ہر جگہ کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور (دوسروں کے) مسلط کردہ اور اکثر و بیشتر منسوخ شدہ نمونوں کی تقلید کرنے میں بہت فرق ہے۔
ٹاپ
اقتصادی ترقی کے لئے ہموار ثقافتی زمین کی ضرورت
معاشرے میں حقیقی معنی میں اقتصادی ترقی کے لئے ثقافتی کوششوں کی ضرورت ہے۔ جب تک محقق اور علمی کاوشوں میں مصروف انسان کے اندر اپنے کام سے لگاؤ اور فرض شناسی کا جذبہ اس انداز سے پیدا نہ ہوگا جو صحتمند ثقافت میں پایا جاتا ہے تو اس محقق کا وجود بے فائدہ رہے گا۔
مشکلات و مسائل کے حل کے دو معیار، جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط ہیں۔ سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں منظم رہنا۔ جن لوگوں سے عوام رجوع کرتے ہیں وہ رجوع کرنے والے لوگوں سے اپنے برتاؤ میں نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور جن لوگوں نے کچھ کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے وہ ان کاموں کی انجام دہی میں نظم و ضبط کے پابند رہیں۔ ان چیزوں سے ملک اور قوم میں شادابی آئے گی اور کام آگے بڑھیں گے۔
ٹاپ
اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ
عالمی سامراج اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ شائد ہی کوئی ہفتہ ایسا گزرے جس میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سرگرم عمل یہ درجنوں ریڈیو اور ٹی وی نشریات یہ بات نہ دہرائیں کہ اسلامی جمہوریہ کی معیشت بحران میں اور زوال و تباہی و نابودی کے دہانے پر ہے۔ ہاں کیوں نہیں، بالکل بحران میں ہے لیکن صرف انہی کے لئے، ایران کے عوام کے لئے تو ایران کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جارحوں اور ان افراد کے لئے جو ایران کے وسائل سے استفادہ کرنے کی فکر میں بیٹھے ہیں یقینا ایرانی معیشت بحرانی ہے۔ ایرانی عوام کے لئے بھلا کیا بحران ہو سکتا ہے؟ وہ تو اپنے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہیں جو ملک سلطنتی دور میں، وہ پہلوی سلطنت کا دور رہا ہو یا قاجاریہ دور، دنیا کے دیگر ملکوں کے سامنے اتنا کہنے کی جرئت نہیں رکھتا تھا کہ ہم بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ تیار کر سکتے ہیں ہم بھی اقدام کر سکتے ہیں، جو تیسرے اور چھوتھے درجے کا پوری طرح منحصر ملک تھا اور جس کے عمائدین بڑی طاقتوں کبھی برطانیہ تو کبھی امریکا اور کبھی روس کے دست نگر ہونے پر فخر کرتے تھے!
ٹاپ
تعمیر و ترقی کا اشتیاق و خوف
ملت ایران اپنے ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جتنا اشتیاق رکھتی ہے دشمن اس سے اتنے ہی ہراساں اور خشمگیں ہوتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ آباد اور مادی و روحانی رفاہ و فلاح سے مالامال معاشرے کی تعمیر میں ملت ایران کی کامیابی دوسری قوموں کے لئے اس عظیم ملت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب ثابت ہوگی اور اس کا مطلب ہوگا دنیا کی سامراجی طاقتوں کے مفادات اور مقاصد پر خط بطلان کھینچ دینا۔ یہیں سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف سامراج کی سازشوں کا طولانی قصہ شروع ہوتا ہے۔ جنگ مسلط کرنا، اقتصادی محاصرہ، سامراج، رجعت پسندی اور صیہونزم سے وابستہ عالمی ذرائع ابلاغ میں دائمی جھوٹے پرچار، انقلاب مخالف عناصر، بائیں بازو یا دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر اور روسیاہ منافقین اور انہی جیسے افراد کی حمایت یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ انقلابی ملت ایران کو تابناک مستقبل تک رسائی سے روک دیا جائے۔
ٹاپ
تمام طبقات کا فریضہ
اگر ایران ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے، رفاہ و اقتصادی رونق، ہمہ گیر پیشرفت، سیاسی عزت، سوشل سیکورٹی، روزگار کی سیکورٹی، سائنسی و تحقیقاتی ترقی اسی طرح روحانیت و معنویت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے تو دو چیزوں کو مد نظر رکھے۔ ان دو چیزوں کا خیال رکھنا تمام طبقات کا فرض ہے بالخصوص آگاہ طبقات کا۔ دوکاندار، کسان، صنعت کار، مزدور، طالب علم، استاد، علمی شخصیات اور دینی رہنما ان دونوں چیزوں پر توجہ دیں: ایک یہ ہے کہ ملک کی تعمیر و ترقی میں سب کے سب ایک ساتھ مل کر کوشش کریں اور دوسرے یہ کہ خودسازی کی بھی کوشش کریں۔
و توبوا الی اللہ جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون
فلاح و نجات کا دار و مدار اس پر ہے کہ سارے لوگ اللہ تعالی کی جانب توجہ، خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور توسل کو نورانی راستے کے عنوان سے اپنائیں۔ دونوں میں کوئی ایک کافی نہیں ہے۔
ٹاپ
تعمیر و ترقی میں خود اعتمادی کی اہمیت
ملک کے حکام اور اعلی عہدہ داروں کی خود اعتمادی ایران کے انقلاب کی اقدار کا حصہ ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو جائیں گی۔ ملک کے مختلف شعبوں میں سرگرم عمل عہدہ داروں میں اس خود اعتمادی اور اس نظرئے کی تقویت ہونا چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ، ملت ایران اور اسی سرزمین کے لوگ ملک کو ضرورت اور خواہش کے مطابق بلند ترین مقام پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ ممکن ہے کہ کبھی بعض عہدہ داروں اور ان لوگوں کی توجہ جو مختلف شعبوں میں مصروف کار ہیں، اقتصادی شعبے میں یا ثقافتی اور دیگر شعبوں میں، ان تجزیوں کی جانب مبذول ہو جو کسی دانشور اور مصنف کے نام سے کسی تحقیقاتی جریدے میں شائع ہوتے ہیں۔ (ممکن ہے کہ) یہ تجزیہ لوگوں کی نظروں کو اس طرح اپنی سمت مبذول کر لے کہ ان کی خود اعتمادی ختم ہو جائے اور ذہنوں کو اس پروگرام کی جانب سے غافل کر دے جو ملک کے زمینی حقائق کی بنیاد پر تیار کیا گيا ہے۔
یہ کوشش ہونا چاہئے کہ اسکولی طلبہ کے اندر اسکول پہنچنے کے وقت سے اسی طرح یونیورسٹی کے طلبہ اور ان لوگوں میں جو نئے نئے وارد میدان ہوئے ہیں جذبہ خود اعتمادی کو اور اس فکر کو تقویت پہنچے کہ ملک کے مسائل کے سلسلے میں وہ اپنے ادراک، جذبات اور تجزیوں کی بنیاد پر ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ فلاں غیر ملکی تجزیہ نگار اور اخبار نویس نے لکھ دیا کہ ایران کو ترقی اور اقتصادی مسائل سے نجات کے لئے فلاں راستے پر چلنا چاہئے تو اسی کو وحی منزل مان لیا جائے۔ جہاں تک علمی و سائنسی نظریات کی بات ہے تو وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اور جس کی زبان سے بھی نکلیں قابل توجہ ہیں لیکن یہ نہیں کہ انہیں آنکھیں بند کرکے قبول کر لیا جائے بلکہ ان کا تجزیہ کرنے کے بعد یعنی انسان ایک بات کو لے اس کا ملک کے گوناگوں حالات کی روشنی میں جائزہ لے اور کے بعد اس پر عمل درآمد کرے۔
ٹاپ
تعمیر و آبادکاری کے دور کے اقتصادی مسائل
تعمیر و آبادکاری کے دور میں کچھ اقتصادی مشکلات کا سامنے آنا فطری ہے۔ ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، بہت سے لوگوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔ ان مسائل کے حل کے لئے حکومتی سطح پر دگنا کوشش ہونا چاہئے۔ افراط زر کا مسئلہ کسی طرح حل کیا جانا چاہئے۔ ملکی کرنسی کی قدر کو مناسب تدبیروں اور بلا وقفہ کوششوں سے استحکام بخشنا چاہئے۔ البتہ یہ بنیادی قسم کے کام دراز مدت میں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ البتہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ غافل ہوکر بیٹھ رہا جائے اور کم مدتی اور میانہ مدتی طریقوں کو نظر انداز کر دیا جائے۔ یہی ملکی کرنسی کی قدر ملک کے بہت سے مسائل کے حل کی کنجی ہے۔ نچلے عوامی طبقات کی قوت خرید میں کمی اور زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں ان کی عاجزی اسی مسئلے کا نتیجہ ہے۔
ٹاپ
تعمیر نو اور آبادکاری کے دور کی آفتیں
چونکہ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور کاموں میں کئی گنا اضافے، ثروت جمع کر لینے، اقتصادی سرگرمیوں میں وسعت لانے کا دور اور ایسا وقت ہے جس میں اگر کوئی اقتصادی سرگرمیاں کرنا چاہے تو اس کے لئے راستہ کھلا ہوا ہوتا ہے بنابریں ان حالات میں جو دنیا پرست لوگ ہیں جن کے دل دنیا کی رنگینیوں میں غرق ہیں جو لوگ اپنے ذاتی مفادات کو ملک و قوم اور انقلاب کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ان کے لئے زراندوزی، دولت جمع کرنے، اسے غلط طریقے سے استعمال کرنے اور عیش و عشرت کی جانب بڑھنے کے لئے راستہ کھلا ہوتا ہے۔ تعمیر نو اور آبادکاری کا دور ملک کو بنانے سنورانے اور قوم کو ترقی کی منزلوں پر پہنچانے کا دور ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ دور معمولی لوگوں میں زراندوزی ، ذخیرہ اندوزی، تصنع، تعیش پرستی اور اقتصادی استحصال کی خو پیدا ہو جانے کا دور بھی ہوتا ہے لہذا ہر ایک کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے، عوام کو بھی اور حکام کو بھی۔
ٹاپ
دوسرا باب: اقتصادی ترقی کے بنیادی عناصر و عوامل
Kazi
کام کی کیفیت
مزدوروں کو یہ موقع ملنا چاہئے کہ وہ نظام کی خدمت اور قوم کی اقتصادی پیشرفت میں اپنا کردار ادا کریں اور بہترین انداز میں معیاری مصنوعات تیار کریں۔ رسول اسلام سے منقول ہے کہ
رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنھ
یعنی رحمت خدا ہو اس شخص پر جو کاموں کو بنحو احسن انجام دے۔ مزدور اپنے کام بہترین شکل میں انجام دیں اور یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ خواہ سرکاری یا غیر سرکاری ٹھیکیدار مزدوروں کی کد و کاوش کا احساس کرے یا نہ کرے انہیں مناسب محنتانہ دے یا نہ دے ان کے کام پیش خدا محفوظ ہیں۔ البتہ طریقہ تو یہی ہے کہ مزدوروں کی محنت کا احساس کرکے انہیں مناسب محنتانہ دیا جائے۔ کام کی بنحو احسن انجام دہی اللہ تعالی کو مطلوب ہے۔
ٹاپ
اسلامی ثقافت میں کام کی قدر و قیمت
قرآنی و اسلامی نقطہ نگاہ سے محنت و مشقت اور کام کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ اگرچہ کام صرف کارخانے، کھیت اور دیگر مقامات تک ہی محدود نہیں ہے تاہم جس عمل صالح پر قرآن میں اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ان کاموں پر بھی اس کا اطلاق یقینا ہوتا ہے۔ یعنی جب کام کرنے والا احساس ذمہ داری کے ساتھ کام انجام دیتا ہے، جذبہ عمل کے ساتھ کام کرتا ہے، سنجیدگی و تندہی کے ساتھ عمل کرتا ہے، خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے اور کام کرتے وقت ایک کنبے کے آذوقے کی فراہمی کی نیت ذہن میں رکھتا ہے تو یہی عمل صالح بن جاتا ہے۔
الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات
یہ عمل صالح کا مصداق بن جاتا ہے۔ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے کہ انسان کام کر رہا ہے کیونکہ اس کی زندگی اسی کام سے وابستہ ہے اور یہی کام عمل صالح کا مصداق بھی بن جائے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ قرار دیا گيا ہے۔
آمنوا و عملوا الصالحات
ٹاپ
اقتصادی ترقی میں کام اور عمل کا مقام و مرتبہ
اقتصادی ترقی میں کام کی ترغیب دلائی جانی چائے۔ کام کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یوں تو سرمایہ کاری کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا لیکن سرمایہ کاری کام کا ایک ستون ہے، اس کی بنیاد اور اساس مزدور کی محنت ہے۔ کام میں اگر لگاؤ، مہارت، لگن اور دشواریوں کے تحمل کرنے کا جذبہ نہ ہو تو اس سے ملک کو نجات کے ساحل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اس کیفیت والے کام کے بغیر ملک وہاں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں اسے پہنچنا ہے۔
ملت ایران آج اقتصادی خود انحصاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تیل پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس کوشش میں ہے کہ ملک کی معیشت کو ایسی ڈگر پر ڈال دیا جائے کہ (عالمی منڈیوں میں) تیل کی قیمت کی گراوٹ کا ملک کے اندر (منفی) اثر نہ پڑے۔ یہ کام کیسے ہوگا؟ ملت ایران اگر خود کو تیل سے بے نیاز کرنا چاہتی ہے تو کام اور کام کے نقطہ نگاہ پر توجہ دئے بغیر یہ چیز ممکن نہیں ہوگی۔
ٹاپ
محنت کش
محنت کش کا تقدس
عرف عام میں محنت کش کے لفظ کا ایک تقدس ہونا چاہئے۔ محنت کش کا ایک تقدس ہوتا ہے۔ محنت کش وہ انسان ہے جو اس لئے کام کر رہا ہے کہ قوم اور ملک خود مختاری کی نعمت سے بہرہ مند ہو۔ یہ خیال تمام لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جانا چاہئے۔ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ محنت کش کی کتنی اہمیت ہے۔ محنت کش طبقے کا ملک میں بہت اہم کردار ہے۔ پیداوار کا اصلی بوجھ محنت کش طبقے کے دوش پر ہے۔ یہ محنت کش کا عنوان ان تمام افراد پر صادق آتا ہے جو ملک کی ترقی، ملکی پیداوار میں اضافے اور ملک میں کام کی صورت حال کی بہتری کے لئے محنت و مشقت کر رہے ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اسلامی عہدہ داران کام اور محنت کشوں کے بارے میں بڑے احترام سے بات کرتے ہیں یہ محض لفاظی اور تکلفات نہیں ہیں۔ دنیا میں یقینا ایسے لوگ مل جائیں گے جو بیان بازی کی حد تک مزدوروں سے بڑی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں لیکن اس شخص میں جو لوگوں میں مقبولیت بڑھانے کے لئے نعرے دیتا ہے اور اس شخص میں جو کام کو حقیقت میں عمل صالح کا درجہ دیتا اور اسے مقدس سمجھتا ہے بہت فرق ہے۔ یہی آخر الذکر اسلام کا نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی محنت کش (کام کے وقت) عبادت کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کا کام عبادت ہے۔
ٹاپ
محنت کش طبقے کے سلسلے میں نظام کا فرض
یقینا اسلامی جمہوری نظام کا ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ محنت کش طبقے کو، جو ملک کی پیداوار اور معیشت کا پہیہ گھمانے میں سب سے بڑا کردار ادا کر رہا ہے، اس کے انسانی و اسلامی حقوق سے بہرہ مند کرے۔ محنت کشوں کی زندگی میں مادی و معنوی لحاظ سے بہتری آئے۔ مناسب قوانین کے اجراء اور روزگار کے نئے نئے مواقع ایجاد ہونے کے بعد ایرانی معاشرے میں غربت باقی نہیں رہنا چاہئے۔ مزدور جو معاشرے کے مستضعف طبقے میں شامل ہیں معاشی ترقیاتی منصوبوں میں انہیں ترجیح دی جانی چاہئے۔ اگر محنت کشوں کی ضروریات پوری ہوں تو کام زیادہ بہتر طریقے سے انجام پائے گا۔
ٹاپ
معاشرے میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
ملک کی خود مختاری کام پر موقوف ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی قوم کام کے سلسلے میں بے توجہی، بیکاری اور تعیش پسندی کے ساتھ کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتی۔ ممکن ہے کہ کسی ایک شعبے سے آمدنی ہو رہی ہو اور بظاہر عیش کے ساتھ زندگی گزر رہی ہو، غیر ملکی اشیاء معاشرے میں اٹی پڑی ہوں لیکن (معاشرہ) خود مختاری سے محروم ہوگا۔ خود مختاری کی نعمت سے مالامال قوم کے وقار کا دار و مدار کام پر ہی ہوتا ہے۔ یہ ہے کام کی قدر و قیمت۔ اسلامی نظام اس نقطہ نگاہ سے محنت کش طبقے کو دیکھتا ہے اور اسی نقطہ نگاہ کے تحت محنت کشوں کے ہاتھوں کو بوسہ دینے کو ثواب کا کام سمجھتا ہے۔ جس نے بھی کسی مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اس نے بالکل صحیح عمل انجام دیا ہے کیونکہ (ایسا کرکے) اس نے اپنی قوم اور اپنے ملک کی خود مختاری کے ایک اہم عامل اور عنصر کا احترام کیا ہے۔ کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے۔
ٹاپ
سرمایہ دارانہ، اشتراکی اور اسلامی نظاموں میں محنت کش طبقے کی قدر و قیمت
سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں مزدور محض ایک وسیلہ ہوتا ہے، کام کروانے والے کی خدمت کا ایک ذریعہ۔ محنت کش طبقے کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے نابود شدہ اشتراکی مکتب فکر میں امپلائر اور محنت کشوں کے ما بین جنگ اور ٹکراؤ کی کیفیت ہوتی تھی۔ یہ (اشتراکی) نظام اسی جنگ کی روٹی کھاتے تھے اور خود کو محنت کش طبقے کا حامی و طرفدار کہتے تھے۔ اس زمانے میں سابق سویت یونین کے نام نہاد اشتراکی نظام میں وہی سرمایہ داری کی بساط بچھی ہوئی تھی، وہی اسراف ہو رہا تھا، وہی گوناگوں مالی بد عنوانیاں تھیں البتہ مزدور اور محنت کش طبقے کی حمایت و دفاع کے نام پر۔ ان کی روش ٹکراؤ اور تنازعے کی روش تھی۔ اسلام، اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ ان دونوں میں سے کسی بھی روش سے متفق نہیں ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ امپلائر اور کام کے مواقع ایجاد کرنے والوں کا وجود ایک بازو ہے تو افرادی قوت دوسرا بازو۔ ان دونوں کا وجود اور باہمی تعاون ضروری ہے۔ حکومت کی ذمہ داری، تعاون کے لئے ان دونوں کے درمیان عدل و انصاف کی ایک لکیر کھینچنا ہے تاکہ کوئی بھی دوسرے کے حقوق پر تجاوز نہ کرے۔ اگر یہ صورت حال ہو تو معاشرہ پوری صحتمندی کے ساتھ حرکت کرے گا۔ نہ اسراف اور فضول خرچی کا چلن ہوگا اور نہ ایک طبقے کی محرومی کو اس طبقے کی (تقدیر اور) ثقافت کا جز تصور کیا جائے گا۔ یہ اسلامی جمہوری نظام کی منطق و روش ہے۔
ٹاپ
خواتین
تعمیر و آبادکاری کے دوران خواتین کا کردار
اسلامی ملک کی تعمیر و آبادکاری کے دور میں، جب قوم اور حکام اس کوشش میں ہیں کہ عظیم مملکت ایران مادی لحاظ سے بھی، سماجی نظم و ضبط کے لحاظ سے بھی اور روحانی و معنوی اعتبار سے بھی حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرے، سب سے زیادہ انحصار افرادی قوت پر ہے۔ یعنی اگر کوئی ملک حقیقی تعمیر و آبادکاری کی منزلیں طے کرنا چاہتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ تکیہ، توجہ اور ارتکاز افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہو تو ہمیں اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت ملک کی عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے بارے میں غلط نقطہ نگاہ اپنایا جائے تو وسیع سطح پر حقیقی تعمیر و آبادکاری ممکن نہیں ہوگی۔ خود خواتین کو بھی عورت کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کی پوری واقفیت و آگاہی ہونا چاہئے اور معاشرے کے تمام لوگ اور اسلامی ملک کے تمام مرد بھی یہ سمجیں کہ عورت کے تعلق سے اسلام کا نظریہ، زندگی کے شعبوں میں عورت کے کردار، فعالیت، تعلیمی سرگرمیوں، سماجی، سیاسی اور علمی امور سے متعلق کوششوں، گھر کے اندر اور گھر کے باہر عورت کے کردار کے بارے میں اسلام کا نظریہ کیا ہے؟
مسلمان مرد کی طرح مسلمان عورت کو بھی یہ حق ہے کہ حالات کے تقاضے کے مطابق جو فرائض اپنے دوش پر دیکھے انہیں پورا کرے اور جو خلا محسوس کرے اسے بھرنے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اگر کوئی لڑکی ڈاکٹر بننا چاہتی ہے یا اقتصادی سرگرمیاں انجام دینا چاہتی ہے اور دیگر علمی موضوعات پر کام کرنا چاہتی یا یونیورسٹی میں تعلیم و تدریس میں دلچسپی رکھتی ہے، یا سیاسی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے یا نامہ نگار بننا چاہتی ہے تو اس کے لئے دروازے کھلے ہونا چاہئے۔ اسلامی معاشرے میں عفت و پاکیزگی اور مرد و زن کے عدم اختلاط کی شرط کے ساتھ مرد و عورت دونوں کے لئے دروازے کھلے رکھے گئے ہیں۔ اس کا ثبوت اس موضوع کی وہ اسلامی تصنیفات ہیں جو (اس وقت بھی) موجود ہیں۔ تمام اسلامی احکامات میں مرد و زن کو یکساں طور پر سماجی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔
عورتوں کو بھی مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلام کے معاملات اور دنیا میں در پیش مسائل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے عمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ (ان کا) اسلامی فریضہ ہے۔
ٹاپ
عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورتوں کے لئے سیاسی، اقتصادی اور علمی سرگرمیوں اور محنت و مشقت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی اسلامی نظرئے کو بنیاد قرار دیکر عورت کو علمی سرگرمیوں سے محروم کرنے کی کوشش کرے، اقتصادی فعالیت سے دور رکھنے کی کوشش کرے یا سیاسی و سماجی کردار سے محروم کرنے کا ارادہ رکھے تو اس نے حکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے۔ عورتیں اپنی جسمانی توانائی اور ضرورتوں اور احتیاج کے مطابق سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ وہ اپنی طاقت و توانائی کے مطابق سیاسی، سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ البتہ چونکہ جسمانی لحاظ سے مرد کے مقابلے میں عورت نازک ہوتی ہے اس لئے اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ عورت پر بھاری کام مسلط کرنا اس کے حق میں نا انصافی ہے۔ اسلام اس کا مشورہ نہیں دیتا، البتہ (واضح طور پر) منع بھی نہیں کرتا۔ ہاں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ الصلاۃ و السلام سے (اس سلسلے میں) ایک روایت منقول ہے :
المرآۃ ریحانۃ و لیست بقھرمانۃ
یعنی عورت پھول ہے قھرمان نہیں۔ قہرمان آبرومند خادم کو کہتے ہیں۔ (مولا) فرماتے ہیں کہ آپ کے گھروں میں عورتیں لطیف پھول کی مانند ہیں ان سے بہت توجہ اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ عورت آپ کی خادمہ نہیں ہے کہ آپ بھاری اور محنت کے کام اس کے ذمے کرنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ٹاپ
اسلامی شریعت کے زاویہ نگاہ سے عورتوں کی اقتصادی سرگرمیاں
سماجی سرگرمیوں کے میدان میں جس میں اقتصادی سرگرمیاں، سیاسی سرگرمیاں، علمی سرگرمیاں، تعلیمی سرگرمیاں، تدریسی سرگرمیاں، راہ خدا میں جد و جہد، سب شامل ہیں، زندگی کے ان تمام میدانوں میں اسلام کے نقطہ نگاہ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اسلام کی نظر میں انسانی معاشرے سے متعلق تمام سرگرمیوں اور جملہ کارہائے زندگی میں عورت اور مرد کو (فعالیت کی) یکساں اجازت دی گئی ہے۔ البتہ کچھ کام ہیں جو عورتوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ ان کی جسمانی ساخت کے مطابق نہیں ہیں، بعض کام ہیں جو مردوں کے لئے نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کے مزاج اور جسمانی ساخت سے میل نہیں کھاتے۔ اس چیز کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ عورت سماجی سرگرمیوں کے میدان میں موجود رہ سکتی ہے یا نہیں۔ کام کی تقسیم وسائل، شوق و جذبے اور کام کے تقاضوں کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر عورت کو دلچسپی ہے تو وہ گوناگوں سماجی سرگرمیاں اور معاشرے سے متعلق کام انجام دے سکتی ہے۔
اب کوئی اسلامی نقطہ نگاہ کا حوالہ دیکر عورت کو اقصادی اور سماجی سرگرمیوں سے روک دے تو یہ غلط ہے۔ اسلام نے ہرگز ایسی کوئی بات نہیں کہی ہے۔ دوسری طرف اسلام نے یہ بھی نہیں کہا ہے کہ عورت کو طاقت فرسا کاموں، دشوار اقتصادی، سیاسی یا سماجی امور کی انجام دہی پر مجبور کیا جائے۔ یہ جو بعض افراد کہتے ہیں کہ عورت ہر حال میں کام کرے اور پیسہ کمائے، غلط ہے۔ یہ چیز خلاف شریعت تو نہیں لیکن اسلام ان چیزوں کی سفارش بھی نہیں کرتا۔ اسلام کا نقطہ نگاہ اعتدال پسندانہ نقطہ نگاہ ہے۔ یعنی اگر عورت کے پاس فرصت اور وقت ہے، بچے کی پرورش رکاوٹ نہیں بن رہی ہے اور اس میں جسمانی طاقت و توانائی اور شوق و جذبہ بھی ہے اور وہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدان میں وارد ہونا چاہتی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کہ اسے مجبور کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ وہ ہر صورت میں کام کرے اور روزانہ فلاں مقدار میں پیسہ کمائے تاکہ اس کی آمدنی سے گھر کے خرچ کا ایک حصہ پورا ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام نے عورتوں سے یہ مطالبہ نہیں کیا ہے۔ اس چیز کو عورت کے ساتھ ایک طرح کی زیادتی قرار دیتا ہے۔ اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ علمی، اقتصادی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں عورت کے ساتھ کوئی اجبار و اکراہ نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی اس کے سد راہ بننا چاہئے۔ اگر خواتین سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں تو کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ البتہ علمی سرگرمیاں بہت بہتر ہیں اور انہیں دیگر سرگرمیوں پر ترجیح حاصل ہے۔
ٹاپ
کفایت شعاری
اقتصادی ترقی میں کفایت شعاری کی اہمیت
کفایت شعاری کا مطلب خرچ نہ کرنا نہیں ہے۔ کفایت شعاری کا مطلب صحیح خرچ کرنا، بجا خرچ کرنا، سامان ضائع نہ کرنا، استعمال کو کارآمد اور ثمر بخش بنانا ہے۔ مال اور معیشت میں اسراف یہ ہے کہ انسان مال خرچ کرے اور اس کا کوئی فائدہ اور نتیجہ بھی نہ ہو۔ بے مقصد خرچ کرنا در حقیقت مال کو ضائع کرنا ہے۔ معاشرے میں پیداوار اور خرچ کے ما بین مناسب تناسب ہونا چاہئے۔ تناسب پیداوار کے حق میں ہونا چاہئے یعنی معاشرے کی پیداوار معاشرے کے خرچ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ معاشرہ ملک کی پیداوار سے استفادہ کرے اور جو بچ جائے اسے ملک کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں متعدد مقامات پر معاشی امور میں اسراف سے گریز پر زور دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے۔ اسراف سے اقتصادیات کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور ثقافت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ اگر معاشرہ اسراف کی بیماری سے دوچار ہو جاتا ہے تو ثقافتی لحاظ سے بھی اس پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بنابریں کفایت شعاری اور اسراف سے پرہیز کا مسئلہ صرف اقتصادی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی مسئلہ کے ساتھ ساتھ سماجی مسئلہ بھی ہے اور ثقافتی مسئلہ بھی ہے۔ اس سے ملک کے مستقبل کے لئے خطرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
ٹاپ
روحانیت و معنویت
اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ روحانیت و معنویت کی ضرورت
اسلامی انقلاب آیا تاکہ ملت ایران کو حیات طیبہ کا تحفہ پیش کرے۔ حیات طیبہ یعنی وہ چیز جس کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے فلنحیینھ حیاۃ طیبۃ اس انقلاب کا یہ نصب العین اور ثمرہ ہے۔ حیات طیبہ یعنی یہ کہ معاشرہ مادی اور روز مرہ کی زندگی کے لحاظ سے رفاہ و آسائش، تحفظ و سلامتی، علم و دانش، سیاسی وقار، اقتصادی خود مختاری، مالیاتی چہل پہل اور اقتصادی رونق سے بہرہ مند رہے اور معنوی و روحانی لحاظ سے بھی با ایمان، خدا شناس اور پرہیزگار انسان جو اعلی الہی اقدار و اخلاقیات سے آراستہ ہوں اس میں زندگی بسر کریں۔ یہی حیات طیبہ ہے۔
دنیا میں بعض جگہوں پر اقتصادی چہل پہل اور مادی رفاہ و آسائش تو کسی حد تک نظر آتی ہے لیکن روحانیت ناپید ہوتی ہے۔ جب معاشرے میں روحانیت نہ ہو تو اقتصادی آسودگی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے نہ تفریق ختم ہوتی ہے، نہ سماجی انصاف قائم ہوتا ہے، نہ بھکمری مٹتی ہے اور نہ بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ صرف اقتصادی چہل پہل ہی تو ملک کا سب کچھ نہیں ہے۔
آپ امریکی قوم کو دیکھئے! اقتصادی سرگرمیوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ان کی پیداوار بہت زیادہ ہے، ان کی علمی و سائنسی ترقی بہت زیادہ ہے، ان کے کارخانے (باقاعدگی سے) سے کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کو اپنی مصنوعات صادر کر رہے ہیں اور ملک کی آمدنی بڑی اچھی ہے۔ لیکن یہ قوم اس اقتصادی ترقی سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتی۔ کیوں؟ کیونکہ اس ملک میں روحانیت ہے نہ سلامتی، نتیجے میں خود کشی اور نوجوانوں کی گمراہی اور بے راہروی بہت زیادہ ہے۔ بچے بارہ تیرہ سال کی عمر سے قتل کرنا سیکھ جاتے ہیں، خاندان بکھرتے جا رہے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو اپنے لئے تکیہ گاہ تصور نہیں کر سکتے۔ نہ عورت کو اس پر اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا شوہر ہے اور نہ شوہر کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ اس کی بیوی موجود ہے! خاندان والی بات ہی نہیں ہے۔
آج خود امریکی کہتے ہیں، ان کے جرائد لکھتے ہیں، روشن فکر افراد اور سیاستداں حضرات کہتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں روحانیت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہاں دین و ایمان نہیں ہے۔ اقتصادی آسودگی کسی حد تک ہے لیکن یہ اقتصادی رفاہ و آسودگی بھی ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ اس ملک کی آمدنی بنیادی طور پر ایک مخصوص گروہ کے پاس جاتی ہے بقیہ افراد کو اس میں سے کچھ نہیں ملتا۔
یہ اس معاشرے کا حال ہے جس کے پاس مادیت ہے لیکن معنویت و روحانیت نہیں ہے۔ اسلام ایسا معاشرہ تشکیل نہیں دینا چاہتا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مادیت بھی ہو اور معنویت بھی، پیسہ و رفاہ بھی ہو اور دین و ایمان بھی، معاشرے میں اقتصادی ترقی و پیشرفت بھی ہو اور اخلاقی و روحانی ارتقاء بھی ہو۔ یہ ہے اسلام کی حیات طیبہ۔
ٹاپ
نظم و ضبط
مالیاتی و اقتصادی نظم و ضبط
مالی نظم و ضبط یعنی زیادہ روی اور اسراف کا مقابلہ۔ چیزوں کے استعمال اور پیسے کے خرچ میں زیادہ روی، فضول خرچی اور اسراف بالکل اچھی بات نہیں ہے۔ یہ جود و سخاوت ہے نہ کرم و عطا، یہ محض اقتصادی بد نظمی ہے۔ جو لوگ بلا وجہ خرچ کرتے ہیں، زیادہ خرچ کرتے ہیں، چیزوں کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں، اقتصادی وسائل کے لحاظ سے معاشرے کی حالت کا خیال نہیں رکھتے وہ مالی و اقتصادی نقطہ نگاہ سے بد نظم لوگ ہیں۔ ذاتی سرمائے اور حلال راستے سے کمائے گئے پیسے کا بھی بے تحاشہ خرچ نظم و ضبط کے منافی ہے۔ جو لوگ سرکاری مال اس طرح استعمال کرتے ہیں وہ تو اور بھی بدتر ہیں۔ حکام عوامی سرمائے کو ایسی جگہ خرچ کرنے سے شدت سے اجتناب کریں جو ترجیحات میں شامل نہیں ہے، ممکن ہے وہاں ضرورت ہو لیکن وہ ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ جب ترجیحی ضرورت اور غیر ترجیحی ضرورت کا معاملہ ہو تو اجتناب کریں۔ جہاں ضرورت اور احتیاج نہیں ہے وہاں کی تو خیر بات ہی اور ہے۔ اس جگہ بھی جہاں ضرورت و احتیاج ہے لیکن کسی دوسری جگہ اس سے زیادہ ضرورت ہے تب بھی وہاں پیسہ خرچ نہ کیا جائے بلکہ یہ پیسہ وہاں لگایا جائے جہاں زیادہ ضرورت ہے۔
ٹاپ
تیل
تیل کے کنؤں کو بند کر دیا جائے
میری سب سے بڑی آرزوی، جو ممکن ہے کہ اتنی جلدی پوری نہ ہو سکے، یہ ہے کہ ایران تیل کے کنؤوں کو بند کر دے اور تیل سے ہٹ کر دیگر مصنوعات اور پیداوار پر اپنی معیشت کی بنیاد رکھے۔ یعنی یہ فرض کر لیا جائے کہ ایران کے پاس تیل نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ یہ کام چند برسوں میں اور اتنی جلدی انجام نہ پا سکے کیونکہ ایران میں بد عنوان اور پٹھو پہلوی حکومت کے دور میں دشمنوں نے بے حد تباہی مچائی ہے اور ملت اور ملک کو اس طرح تیل پر منحصر کر دیا ہے کہ یہ کام آسانی سے انجام نہیں پا سکے گا۔ تاہم کبھی نہ کبھی یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے اور وہ ایسا دن ہوگا جب ملت ایران اپنا سرمایہ مفت میں ان لوگوں کو دینے کے بجائے جو خباثت آمیز انداز میں ملکوں کے سرمائے استعمال کر رہے ہیں، اپنے ذاتی وسائل کی بنیاد پر اپنے پیروں پر کھڑی ہو چکی ہوگی۔
افسوس کہ یہ کام اس وقت ممکن نہیں ہے۔ اس وقت تیل پیدا کرنے والے بعض ممالک کی خیانتوں اور عالمی لٹیروں کے ساتھ ان کی سازباز کا نتیجہ یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ تیل ان ممالک کے لئے جو تیل پیدا کرتے ہیں نفع بخش اور سیاسی و اقتصادی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہو، (تیل کے صارف) ممالک کا حربہ بنا ہوا ہے! بالکل اس سامان کی مانند جس کی کوئی مانگ اور ضرورت باقی نہ گئی ہو! جبکہ تیل ایسی چیز ہے کہ اگر آج اس کی فروخت بند کر دی جائے تو دنیا میں روشنی، حرارت اور صنعتی حرکت رک جائے گی۔ آج کی صنعتی تہذیب کی بنیاد مشینیں ہیں۔ اگر تیل نہ ہو تو یہ مشینیں ٹھپ پڑ جائیں گی۔ تیل کی اہمیت اتنی زیادہ ہے۔
ٹاپ
قومی معیشت کے تیل کی آمدنی پر عدم انحصار کی ضرورت
ایرانی قوم اور معیشت کو تیل سے الگ ہونا چاہئے۔ کیونکہ بد قسمتی سے آج دنیا میں تیل، لٹیری، پوری دنیا کو ہڑپ لینے کی خواہشمند اور سامراجیوں سے وابستہ کمپنیوں کی سیاست کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ در حقیقت تیل انہی کی مٹھی میں ہے۔ جب چاہتی ہیں تیل کی قیمت کم کر دیتی ہیں، اس کی پیداوار میں کمی یا زیادتی کر دیتی ہیں۔ تیل تو ان ملکوں کی دولت ہے جو اس کے ذخائر کے مالک ہیں لیکن اس کی پالیسیاں دوسروں کے ہاتھوں میں ہیں۔
تیل سے بے نیاز معیشت پر تکیہ ایک، دو سال اور پانچ سال میں ممکن نہیں ہے۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اور وقت گزرنے کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ملک کے حکام امور مملکت کو چلانے کے لئے، مختلف کاموں کی انجام دہی کے لئے، امپورٹ اور سروسز کے لئے، تعلیم و تربیت اور کرنٹ بجٹ کے لئے، تیل فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں جو ملت ایران کا سرمایہ ہے۔ اس کے بدلے گیہوں اور دودھ کا پاؤڈر امپورٹ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ خشت کج ہے جو پہلوی حکومت میں ( معروف شعر کی جانب اشارہ ہے: خشت اول چون نہد معمار کج، تا ثریا می رود دیوار کج) رکھی گئی ہے۔ پہلوی سلطنت نے جو دسیوں خیانت آمیز کام کئے ان میں ایک یہ ہے کہ اس نے ملک کی معیشت کو تیل پر منحصر کر دیا۔ اس صورت حال کو آسانی سے بدلا نہیں جا سکتا۔
ٹاپ
منصوبہ بندی
اقتصادی منصوبہ بندیوں میں کم آمدنی والے طبقے پر توجہ
حکومت کے اقتصادی منصوبوں میں جو نقص بڑی آسانی سے نظروں میں آ جاتا ہے یہ ہے کہ تیاروں کے آغاز سے حکومت کے مطلوبہ نتائج کے حصول تک کے درمیانی وقفے میں معاشرے کے کمزور طبقے کو بڑی دشواریاں تحمل کرنا پڑ جاتی ہیں۔ یہ چیز صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی اقتصادی پالسیوں کے بارآور ہونے اور مانگ اور پیداوار میں توازن قائم ہونے تک، وہ وقت آنے تک جب سارے لوگ پیداوار سے صحیح طور پر استفادہ کر سکیں ممکن ہے کچھ فاصلہ ہو۔ اس فاصلے میں یہ (کمزور) طبقے سختیاں برداشت کرتے ہیں۔
ٹاپ
صحیح انتظام
اقتصادی ترقی میں پر خلوص انتظامی کردار کی ضرورت
ایران معقول اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل کرنے پر قادر ہے۔ یہ جو بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ کام نہیں ہو پائے گا، پیشرفت ممکن نہیں ہے، مسائل کو حل کرنا ممکن نہیں ہے، یہ غلط نظریہ اور خود اعتمادی کی کمی ہے۔ ہمدرد و کارآمد انتظامی سسٹم، فرض شناسی اور انسانی صلاحیتوں اور استعداد کے استعمال سے بند دروازوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ جہاں بھی فرض شناس، مومن اور ہمدرد انتظامی عہدہ دار تھے اور انہوں نے عوام اور اسلامی نظام کے تعلق سے اپنے فرائض، اپنی عقل و تدبیر اور ایمان و اخلاص کے مطابق کام کیا وہاں اسلامی نظام کو کامیابیاں ملیں۔ ایران بعض پیچیدہ ترین صنعتوں کے میدان میں بھی کہ ایک وقت ایسا تھا جب ملک کے صنعت کار اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے، اپنی انتظامی صلاحیتوں اور درست اقدامات کی بنا پر مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا ہے۔ بہت سے حریف، دشمن اور اغیار اس حقیقت کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ لیکن بہرحال کبھی نہ کبھی تو انہیں یقین آئے گا، چونکہ وہ اس کے اثرات گوشہ و کنار میں دیکھ رہے ہیں۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ایران کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے؟! (مسلط کردہ) جنگ کے زمانے میں ایران معمولی ترین فوجی ساز و سامان تیار کرنے میں مشکلات سے دوچار تھا لیکن آج بہت سے انتہائی پیچیدہ ساز و سامان بھی، جو بہت سے ایسے ممالک کے پاس بھی نہیں ہیں جن کے پاس اس صنعت کا ایران سے زیادہ تجربہ ہے، انہی فرض شناس جوانوں اور با اخلاص انتظامی عہدہ داروں نے دفاعی صنعت کے شعبے میں تیار کر لیا ہے۔ صنعتی توانائی و استعداد کو محدود نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی ایک جگہ پر صلاحیت و توانائی ہے تو اسے پوری صنعت میں پھیلایا جا سکتا ہے۔ دیگر پیداواری شعبوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ ملک میں درجنوں ڈیم بنائے جا چکے ہیں۔ انقلاب کے اوائل میں ایک ڈیم میں رساؤ تھا۔ اس وقت بعض افراد جمع ہوئے اور انہوں نے یہ فیصلہ سنایا کہ جن انجینئروں نے اس ڈیم کی تعمیر کی ہے انہیں فلاں یورپی ملک سے بلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس رساؤ کو روکیں۔ لیکن با ایمان و فرض شناس جوانوں نے اور ایران کے جذبہ ہمدردی سے سرشار انہی انتظامی عہدہ داروں نے ان چند برسوں میں درجنوں ڈیم تعمیر کر ڈالے۔ بنابریں امور کی باگڈور فرض شناس اور جذبہ ہمدردی سے سرشار منتظمین کے ہاتھوں میں ہونا چاہئے۔ بلند ہمتی، فرض شناسی، ایمان، اسلامی نظام پر عقیدہ اور الہی محاسبے کا خوف منتظمین کے اندر ضروری ہے تاکہ یہ کام انجام پا سکیں۔
ٹاپ
خود اعتمادی
تعمیر و آبادکاری میں خود اعتمادی کی اہمیت
ملک کے حکام اور انتظامی امور کے ذمہ داروں میں خود اعتمادی کا موضوع ایران کے انقلاب کی بنیادی اقدار میں شامل ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ملک کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں متزلزل ہو سکتی ہیں۔ ملک کے مختلف شعبوں میں مصروف کار عہدہ داروں کے اندر خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو تقویت پہنچائی جانی چاہئے کہ اسلامی جمہوریہ ، ملت ایران اور اس ملک کے افراد اسے بلندیوں کے نقطہ کمال پر پہنچانے پر قادر ہیں۔ علاقے کے سب سے بڑے ڈیم کو، جو کرخہ ڈیم ہے، سپاہ پاسداران انقلاب کے جوانوں نے تعمیر کیا ہے۔ اس سے چند سال قبل جب کرخہ ڈیم کی تعمیر ہو رہی تھی میں نے جاکر اس کا معاینہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ ڈیم کے روبرو پہاڑ کے اوپر جلی حروف میں، جو کئی کلومیٹر کے فاصلے سے پڑھا جا سکتا تھا، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا یہ جملہ لکھا ہوا تھا ہم انجام دے سکتے ہیں جی ہاں بالکل کر سکتے ہیں۔
ٹاپ
اصلاح
اقتصادی ترقی میں اصلاح کی ضرورت
اصلاح ایک لازمی اور ضروری حقیقت ہے، ملک میں اسے انجام دیا جانا چاہئے۔ اصلاح تو ایران کے نظام کی دینی و انقلابی ماہیت و تشخص کا جز ہے۔ اگر بدلتے حالات کے ساتھ اصلاح انجام نہ دی جائے تو نظام تباہ ہو جائے گا، غلط راستے پر چل پڑے گا۔ اصلاح ایک فریضہ ہے۔ خود اصلاح ایک لازمی عمل ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اگر اصلاحات نہ ہوں تو دولت کی تقسیم غیر منصفانہ انداز میں انجام پاتی ہے، غربت پھیلتی ہے، زندگی دشوار ہو جاتی ہے، ملک کے ذخائر کا صحیح استعمال نہیں ہو پاتا، بڑے دماغ فرار ہونے لگتے ہیں اور جو دماغ باقی رہ جاتے ہیں ان سے بھرپور استفادہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن اگر اصلاحات ہوں تو یہ آفتیں، یہ نقصانات اور ایسی ہی دیگر درجنوں مصیبتیں پیش نہیں آتیں۔
ٹاپ
صنعت
اقتصادی ترقی میں صنعت کا کردار
ملکی معیشت کی ترقی کا ہراول دستہ صنعتی شعبہ ہوتا ہے۔ صنعتی شعبے کو بڑی سوجھ بوجھ کے ساتھ، انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر، عوامی سرمائے کے لئے میدان کھول کر اور راستہ صاف کرکے، تاکہ عوام صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں، صنعتی شعبے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ متعلقہ حکام کے سسٹم میں مالیاتی و اقتصادی بد عنوانی ملکی معیشت کے پیکر میں سرایت کر جاتی ہے لہذا اس کا سد باب کر دیا جانا چاہئے۔ سد باب کی اس کوشش کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔ یہ چیز اچھے سرمایہ کاروں کے اطمینان خاطر اور احساس تحفظ کا وسیلہ و ذریعہ ہے۔ سرمایہ کار غلط فائدہ تو اٹھانے کی فکر میں رہتا نہیں وہ نفع کمانا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بھی سرمایہ کاری کرتا ہے نفع حاصل کرنے کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے اور اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے، یہ نفع جائز ہے۔ جائز اور ناجائز فائدے و منافع کے درمیان فرق واضح ہونا چاہئے۔ ناجائز فائدے اور منافع کا سد باب کیا جانا چاہئے جو بنیادی طور پر فرائض کے سلسلے میں بے توجہی، ہمدردی کے جذبہ سے دوری اور گوناگوں لغزشوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اسمگلنگ کا صحیح معنی میں مقابلہ کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
قومی اتحاد
قومی اتحاد و یکجہتی، اقتصادی ترقی کی لازمی شرط
اگر کوئی قوم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ معاشی میدان میں قدم رکھتی ہے تو یقینی طور پر پیشرفت کرتی ہے۔ اسے جنگ در پیش ہو اور وہ میدان میں اترے تو وہاں بھی اس کی فتح ہوتی ہے۔ قومی اتحاد کے ذریعے قومی وقار کی بہتر طور پر حفاظت کی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی قوم ہو وہ قومی اتحاد کے زیر سایہ اپنے تمام اہم مقاصد اور بلند اہداف کی تکمیل کر سکتی ہے۔ اختلاف، تفرقہ و انتشار، دلوں کی آپس میں ایک دوسرے سے دوری و جدائی، حلقوں، جماعتوں، گروہوں، افراد اور شخصیات کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دینا، اس سے کوئی بھی خدمت نہیں کی جا سکتی، اس سے کوئی بھی مدد نہیں مل سکتی۔
ٹاپ
پہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:برعکس حقیقت:فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:بیت المقدس کی اہمیت:فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام عالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت: مسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت: ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت: فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:چوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:صیہونی حکومت پر دباؤ:تیل کا بطور حربہ کا استعمال:ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ: فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت: ملت فلسطین کی بیداری:عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینپانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:فلسطین سے عرب حکام کی غداری:چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:شجاع ملت فلسطین کا جہاد: صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:انتفاضہ مسجد الاقصی:انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:استقامت، نجات کا راستہ:ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:یقینی مستقبل:شمشیر پر خون کی فتح:فلسطینپہلا باب: فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی تاریخفلسطین پر قبضے کی روش:دشمن کے دسیوں اقدامات پر مشتمل ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں فلسطین، صیہونیوں کی بلا شرکت غیرے ملکیت بن گیا ہے۔ دنیا کے کچھ طاقتور یہودیوں کو یہودی آبادی کے لئے ایک الگ ملک کی تشکیل کا خیال پیدا ہوا۔ البتہ پہلے سے ہی وہ اس فکر میں تھے کہ یوگانڈا چلے جائیں اور وہاں اپنا ملک قائم کریں۔ کچھ دنوں تک وہ اس بارے میں غور کرتے رہے کہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کا رخ کریں لہذا انہوں نے جاکر اطالوی حکومت سے بات کی کیونکہ اس وقت طرابلس اسی کے قبضے میں تھا لیکن اطالویوں نے نفی میں جواب دیا۔ سرانجام برطانیہ سے ان کا معاہدہ طے پا گیا۔ اس زمانے میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے بہت اہم سامراجی اہداف تھے۔ اس نے سوچا کہ چلو اچھا ہے، یہ لوگ اس علاقے میں آ جائیں گے ( تو ان کے ذریعے) وہ اپنا مشکل ہدف بھی پورا کر لے گا۔ اس سرزمین پر قبضہ ایک کثیر المقاصد اور پیچیدہ منصوبے کے تحت کیا گيا جس کا ہدف مسلمانوں کو متحد ہونے سے روکنا اور دوبارہ طاقتور مسلمان حکومتوں کی تشکیل نہ ہونے دینا تھا۔ ایسے ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جرمن نازیوں سے صیہونیوں کے بڑے قریبی روابط تھے اور یہودیوں کے قتل عام کے مبالغہ آمیز اعداد و شمار در حقیقت رائے عام کی ہمدردیاں حاصل کرنے، فلسطین پر قبضے اور صیہونیوں کے جرائم کی پردہ پوشی کا حربہ تھا۔ اس کے بھی ثبوت ہیں کہ مشرقی یورپ کے کچھ غیر یہودی اوباشوں کو یہودیوں کی حیثیت سے ہجرت کراکے فلسطین لایا گيا تاکہ نسل پرستی کی قربانی بننے والوں کے پسماندگان کی حمایت کے نام پر قلب عالم اسلام میں ایک اسلام دشمن حکومت کا قیام عمل میں لایا جا سکے اور تیرہ صدیوں کے بعد عالم اسلام کے مغربی و مشرقی حصوں کو دو لخت اور ایک دوسرے سے الگ کر دیا جائے۔ شروعات میں تو مسلمان مات کھا گئے چونکہ صیہونیوں اور ان کے مغربی حامیوں کی سازش کی حقیقت سے واقف نہیں تھے۔ حکومت عثمانیہ کو شکست ہوئی۔ فاتح طاقتوں کے درمیان سائکس- پیکو کے نام سے مشرق وسطی کے مسلم علاقوں کی تقسیم کا خفیہ معادہ طے پایا۔ لیگ آف نیشنز نے فلسطین کو برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا۔ برطانیہ نے صیہونیوں سے مدد و تعاون کا وعدہ کر لیا اور طے شدہ منصوبوں کے مطابق یہودیوں کو فلسطین لایا گيا اور مسلمانوں کو ان کے گھر بار سے نکال دیا گیا۔ طے یہ پایا تھا کہ یہودی ابتدا میں تو ایک اقلیت کے طور پر وارد ہوں اور بعد میں بتدریج اپنا دائرہ بڑھائیں اور ایک گوشے کو جو انتہائی حساس گوشہ ہے یعنی فلسطینی ریاست جو حساس علاقے میں واقع ہے، اپنے قبضے میں کر لیں پھر وہاں حکومت بنائیں اور برطانیہ کے اتحادی بنے رہیں اور اس علاقے میں عالم اسلام بالخصوص عرب دنیا کا کوئی اتحادی باقی نہ رہنے دیں۔ جس دشمن کو باہر سے اس طرح کی حمایت حاصل ہو وہ جاسوسی اور دیگر حربوں سے اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس نے ایسا ہی کیا۔ کسی سے نزدیک ہو گیا، کسی پر ضرب لگا دی، کسی کو کچل دیا اور کسی سے سختی کا برتاؤ کیا۔ بنابریں سب سے پہلے درجے میں برطانیہ کی مدد ملی اور پھر بعض دیگر مغربی ممالک نے تعاون کیا۔ بعد میں یہ لوگ برطانیہ سے رفتہ رفتہ دور اور امریکا کے قریب ہوتے گئے۔ امریکا آج تک صیہونیوں کو اپنے سائے میں پناہ دئے ہوئے ہے۔ اس طرح ان لوگوں نے ایک ملک بنایا اور فلسطین پر قبضہ کیا۔ قبضے کا انداز یہ تھا کہ پہلے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا، پہلے مکر و حیلے سے کام لیا۔ پہلے جاکر فلسطینیوں کی بڑی زمینوں کو جس پر عرب کسان زراعت کیا کرتے تھے اور جو بہت سرسبز و زرخیز تھیں اور جن کے اصلی مالک یورپ اور امریکا میں رہتے تھے، ان کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر خرید لیا اور پھر ان زمینوں کو یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ ان کے پاس اس کے کچھ اچھے ذرائع بھی تھے جن میں سے ایک سید ضیا (سید ضیاء الدین طباطبائی) تھا جو انیس سو بیس کے آس پاس ہونے والی بغاوت میں رضا خان کا شریک کار تھا، اس نے فلسطین جاکر وہاں مسلمانوں سے زمین خرید کر یہودیوں اور اسرائیلیوں کو فروخت کرنے کی دلالی شروع کر دی۔ زمینوں کو خریدا گیا۔ جو زمینیں ان کی ملکیت میں آئیں ان کو بڑی سنگدلی اور درندگی کے ساتھ ان کسانوں سے خالی کرایا جانے لگا جو اس پر کھیتی کرتے تھے۔ کہیں بھی جاکر مار پیٹ کرتے تھے، لوگوں کو قتل کرتے دیتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ عالمی رائے عامہ کی ہمدردیاں بھی بٹورنے کی کوششیں جاری رکھتے تھے۔ ٹاپ برعکس حقیقت:عالمی سطح پر جاری تشہیراتی مہم میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن یہودیوں نے آکر فلسطین میں اپنے گھر بنائے ہیں وہ مظلوم و ستم رسیدہ اور ظلم و جارحیت سے پسے ہوئے لوگ ہیں جبکہ وہ عرب جو اپنے گھر واپس لینے کی کوششیں کر رہے ہیں بڑے جبرپسند اور تند مزاج لوگ ہیں جو کسی بھی اصول و قانون کے پابند نہیں۔ جب روسی یہودیوں اور صیہونیوں نے فلسطین کی جانب ہجرت شروع کی تو اس وقت وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ یہ غاصب ہیں، یہ فلسطین کے رہنے والے نہیں ہیں جو وہاں جا رہے ہیں، یہ روس، یوکرین، یورپی ممالک اور امریکا کے رہنے والے ہیں جن میں ہر ایک کے پاس اپنے وطن میں زمینیں، رہائش گاہیں، دولت و ثروت اور مال و منال ہے، اس سب کے باوجود وہ فلسطین جا رہے ہیں تاکہ فلسطینیوں کا حق غصب کریں اور ان سے اپنے گھر بسانے کا حق چھین لیں۔ ان باتوں کو زبان پر نہیں لاتے تھے! علاوہ ازیں صیہونی اور امریکی عناصر اپنے ذرائع ابلاغ میں کچھ تھکی ہاری اور خستہ حال یہودی عورتوں اور بچوں کی تصاویر دکھاتے تھے تاکہ دنیا والے کہیں کہ بڑی عجیب بات ہے! یہ عرب ان بیچارے مظلوموں کے ساتھ یہ برتاؤ کیوں کر رہے ہیں؟! ٹاپ فلسطین پر قبضے کے تین مراحل:فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین مراحل ہیں: ایک مرحلہ عربوں سے قسی القلبی کے برتاؤ کا ہے، فلسطین کے اصلی و حقیقی باسیوں کے ساتھ صیہونیوں کا برتاؤ بڑا سنگدلانہ اور تشدد پسندانہ تھا۔ ان کے ساتھ کسی طرح کی رو رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ دوسرا مرحلہ: عالمی رائے عامہ کے سامنے جھوٹ بولنے اور دروغ گوئی کا تھا۔ عالمی رائے عامہ سے دروغ گوئی ان کے حیرتناک حربوں میں سے ایک ہے۔ یہودیوں کے قبضے والے صیہونی ذرائع ابلاغ کے ذریعے انہوں نے عالمی رائے عامہ سے بے پناہ جھوٹ بولے، قبضے سے پہلے بھی اور قبضے کے بعد بھی۔ اسی جھوٹ کے سہارے یہودی سرمایہ داروں کو شیشے میں اتارا گیا! بہتوں کو ان کے جھوٹ پر یقین بھی آ گيا۔ حتی وہ فرانسیسی فلسفی و مصنف جان پال سارٹر تک کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی جان پال سارٹر نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا میں نے تقریبا تیس سال قبل مطالعہ کیا۔ اس نے لکھا کہ بغیر سرزمین کے عوام اور بغیر عوام کی سرزمین یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی زمین نہ تھی، وہ فلسطین آئے جو باشندوں سے خالی سرزمین تھی، انسانوں سے خالی ویران علاقہ تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ انسانوں سے خالی علاقہ تھا؟ جناب وہاں پوری ایک قوم آباد تھی جو کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ اس کے ثبوتوں کی کمی نہیں ہے۔ ایک غیر ملکی مصنف کہتا ہے کہ پوری سرزمین فلسطین میں گندم کے کھیت ہی کھیت تھے اور تا حد نگاہ انہی کھیتوں کی ہریالی نظر آتی تھی۔ دنیا کو یہ بتایا گيا کہ فلسطین ایک ویران اور متروک علاقہ تھا، ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ پوری رائے عامہ سے دروغ گوئی! ہمیشہ خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی۔ کسی یہودی خاندان کے ساتھ کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش آ جاتا تو ٹائم اور نیوز ویک جیسے امریکی جریدوں میں مہلوک کی تصویر، عمر، دیگر تفصیلات اور اس کے بچوں کی مظلومیت کی مفصل داستان شائع ہوتی لیکن فلسطینی نوجوانوں، لڑکوں، خاندانوں، بچوں اور عورتوں پر مقبوضہ فلسطین کے اندر اور لبنان میں مظالم کے جو پہاڑے توڑے جاتے ہیں ان کی جانب اشارہ تک نہیں کیا جاتا! تیسرا مرحلہ: ساز باز کا ہے۔ یعنی فلاں حکومت سے بات کرو، فلاں شخصیت سے رابطہ کرو، فلاں سیاستداں کو اپنے ساتھ ملاؤ، فلاں دانشور سے ملو، فلاں مصنف اور فلاں شاعر سے ساز باز کرلو! ان کی کوششیں ان تین مراحل میں جاری رہی ہیں اور وہ اس طرح ایک ملک کو فریب اور دھوکے سے ہڑپنے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہیں بیرونی ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی ہے جن میں سب سے پیش پیش برطانیہ تھا۔ اقوام متحدہ اور اس سے قبل لیگ آف نیشنز نے بھی جنہیں جنگ ہو جانے کے بعد امن کے قیام کے نام پر تشکیل دیا گيا تھا، سوائے چند مواقع کے ہمیشہ ان کی حمایت کی۔ انیس سو اڑتالیس میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد منظور کی اور فلسطین کو بغیر کسی معقول وجہ کے تقسیم کر دیا۔ اس قرارداد میں کہا گيا کہ فلسطینی سرزمین کا ستاون فیصدی حصہ یہودیوں کا ہے جبکہ اس سے قبل تک محض پانچ فیصدی زمین ہی ان کے پاس تھی! پھر کیا تھا یہودیوں نے ایک حکومت قائم کر لی جس کے بعد گاؤوں، شہروں اور گھروں پر حملے اور دوسری حرکتیں شروع ہو گئیں۔ البتہ عرب حکومتوں نے بھی کوتاہیاں کیں۔ کئی جنگیں ہوئیں۔ انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلیوں نے امریکا اور کچھ دیگر حکومتوں کی مدد سے مصر، شام اور اردن کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد انیس سو تہتر کی جنگ میں جو انہوں نے شروع کی بڑی طاقتوں کی مدد سے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں موڑ لیا اور مزید کچھ علاقے ہڑپ لئے۔ ٹاپ دوسرا باب: فلسطین کی اہمیتمسئلہ فلسطین کی اہمیت:حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ برسوں سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کو اس کا عادی بنا دیا گیا کہ ان کے گھر کا ایک حصہ اغیار کے قبضے میں رہے۔ البتہ بات مسلمانوں کے گھروں کے ایک حصے پر غاصبانہ قبضے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسی حصے کو مسلمانوں کی صفوں پر حملے کرنے اور ان کی خواہشات اور آرزؤں کو کچلنے کے لئے محاذ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں سب سے اہم ہدف و مقصد سرزمین فلسطین کو نجات دلانا ہے یعنی فلسطینی حکومت کو محو و نابود کرنا اور اس سلسلے میں انیس سو سڑسٹھ سے قبل اور بعد کے علاقوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ سرزمین فلسطین کا ایک بالشت حصہ بھی فلسطینیوں کے گھر کا ایک بالشت حصہ ہے۔ فلسطینی ریاست پر فلسطینی عوام اور مسلمانوں کی حکومت کے علاوہ کوئی بھی اقتدار غاصبانہ اقتدار ہوگا۔ بنابریں بنیادی بات وہی ہے جو امام خمینی نے فرمائی: اسرائیل کو نابود ہو جانا چاہئے فلسطین کے یہودی اگر اسلامی حکومت کو تسلیم کرتے ہیں تو وہاں شوق سے زندگی گزاریں۔ یہودیوں سے دشمنی برتنے کی بات نہیں ہے۔ مسئلہ مسلمانوں کے گھروں پر غاصبانہ قبضے کا ہے۔ مسلمان عمائدین اور زعما اگر بڑی عالمی طاقتوں کے زیر اثر اور ان کے دباؤ میں نہ ہوتے تو یہ مہم سر کر سکتے تھے لیکن افسوس انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ٹاپ بیت المقدس کی اہمیت:مسئلہ فلسطین کے ساتھ ہی بیت المقدس کا مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت اس مقدس شہر کو غصب کر لینے اور ہضم کر جانے اور شہر کے اسلامی آثار کو محو کر دینے کی گوناگوں صیہونی سازشیں چل رہی ہیں۔ اس شہر کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے۔ پورا بیت المقدس پورے فلسطین کا دارالحکومت ہے۔ مسلمان ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ دشمنوں کی ناپاک سازشیں عملی جامہ پہنیں، وہ ان سازشوں کا مقابلہ کریں گے۔ ٹاپ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف:اسلامی نقطہ نگاہ سے: مسئلہ فلسطین اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے بنیادی اور حیاتی مسئلہ ہے۔ تمام قدیم شیعہ سنی علما نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر اسلامی سرزمین کا کوئی ٹکڑا دشمنان اسلام کے قبضے میں چلا جائے تو سب کا فریضہ یہ ہے کہ دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوں یہاں تک کہ مقبوضہ علاقے کو آزاد کرا لیا جائے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ہر شخص کی توانائی اور امکان کے مطابق اس کی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ سب سے پہلے مرحلے میں اسلامی لحاظ سے ان کا فرض بنتا ہے۔ کیونکہ یہ زمین اسلامی سرزمین ہے، دشمنان اسلام کے قبضے میں ہے، اسے بازیاب کرایا جانا چاہئے۔ دوسرے مرحلے میں یہ کہ اسی لاکھ مسلمانوں کی بات ہے۔ ان میں بہت سے بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ بہتوں کا عالم یہ ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اندر پناہ گزینوں سے بھی ابتر حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ معمول کی آمد و رفت تک سے گھبراتے ہیں اور ڈرتے ہیں، اپنے دل کی بات آزادانہ بیان نہیں کر سکتے۔ ملک کے نظم و نسق کے لئے کوئی نمائندہ منتخب کرنے کی انہیں اجازت نہیں ہے۔ بسا اوقات تو انہیں نماز پڑھنے تک سے روک دیا جاتا ہے۔ مسجد الاقصی کو جو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے خطرے میں ڈال دیا گيا ہے، برسوں قبل ایک دن اسے آگ بھی لگا دی گئی۔ اس کے بعد وہاں کھدائی کا کام شروع کر دیا اور غیر قانونی حرکتیں انجام دی گئیں۔ وہ مسجد الاقصی کو مسلمانوں کے قبلہ اول کو اسلامی تشخص سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ انسانی نقطہ نگاہ سے: فلسطینی خاندانوں کی مظلومیت سے ہر انسان کے دوش پر کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں، ان لوگوں کی مظلومیت سے جو فلسطین کے اندر ہیں۔ ان پر ظلم کے کیسے کیسے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ بڑی حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں بھی نہیں معلوم کہاں مر گئی ہیں! یہ امریکی اور یہ مغرب والے جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ دنیا میں جمہوریت کا فروغ ان کا فریضہ ہے، اس مسئلے میں بڑی بے آبروئی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ نظروں کے سامنے ایک ایسی قوم ہے جسے اپنے ملک کے کسی بھی معاملے میں کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، جس کا کہیں کوئی اثر نہیں ہے اور جس کی کہیں کوئی بات نہیں کی جاتی، یہی ملت فلسطین ہے۔ انسانی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو ایک طرف یہ مظلوم لوگ اس نسل پرست ظالم حکومت کا سامنا کر رہے ہیں اور دوسری طرف امریکا اور عالمی تنظیموں اور نام نہاد مغربی دانشور ہیں جو جمہوریت کی حمایت کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ امن و سلامتی کے نقطہ نگاہ سے: اسرائیل، امن و سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے، پورے علاقے کی سلامتی کے لئے کیونکہ اسکے پاس ایٹمی ذخیرہ ہے اور وہ مزید اسلحے بنا رہا ہے! اقوام متحدہ بھی کئی بار انتباہ دے چکی ہے لیکن اسرائيل نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ اس کی اہم وجہ امریکا کی پشتپناہی اور حمایت ہے۔ یعنی صیہونیوں اور غاصب صیہونی حکومت کے جرائم بڑی حد تک امریکی حکومت کی گردن پر ہیں۔ ان دسیوں سال کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف تیس سے زائد قراردادیں منظور کی ہیں لیکن امریکا نے سب کو ویٹو کر دیا۔ اقتصادی لحاظ سے: اسرائیل علاقے کے لئے خطرہ ہے۔ فلسطین پر حکمفرما صیہونیوں نے جدید مشرق وسطی کے نام سے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے۔ جدید مشرق وسطی یعنی چہ؟ یعنی یہ کہ مشرق وسطی اسرائیل کی محوریت میں ترتیب پائے اور اسرائیل رفتہ رفتہ عرب ممالک، علاقے کے ممالک اور خلیج فارس کے تیل کی دولت سے مالامال علاقوں پر اقتصادی تسلط حاصل کر لے! اسرائیلیوں کا ہدف یہ ہے۔ بعض حکومتیں غفلت کی نیند سو رہی ہیں۔ جب ان پر اعتراض ہوتا ہے تو کہتی ہیں کہ اسرائیل سے ہمارے روابط نہیں ہیں، ہم نے تو صرف ان کے تاجروں کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے دی ہے! اسرائیل کی تو دلی مراد یہی تھی۔ ان (تاجروں) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسرائیل امریکا کی حمایت اور اپنے خطرناک اسلحہ خانے کی مدد سے بعض کمزور حکومتوں کی غفلت اور کمزوری کا فائدہ اٹھائے اور ان کے اندر قدم جما لے، ان کے اقتصادی و مالیاتی ذخائر پر قابض ہو جائے۔ یہ علاقے کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اللہ کبھی وہ دن نہ دکھائے اور انشاء اللہ نہیں دکھائے گا۔ مسلمان ہرگز اجازت نہیں دیں گے کہ ایسا ہو۔ ان تاجروں کا منصوبہ یہی ہے کہ معاشی طاقت کے سہارے ان ملکوں میں طاقت کے تمام مراکز کو اپنے کنٹرول میں لے لیں۔ بنابریں اسلامی نقطہ نگاہ سے، انسانی نقطہ نگاہ سے، اقتصادی نقطہ نگاہ سے، سکیورٹی کے نقطہ نگاہ سے اور سیاسی نقطہ نگاہ سے اس وقت اسرائیل کا وجود، علاقے کی قوموں اور ملکوں کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ٹاپ مسئلہ فلسطین اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ:اسلامی تحریک کے آغاز سے اور انیس سو باسٹھ سے ہی جب ایران میں مسئلہ فلسطین ہنوز خواص کے درمیان بھی عام نہیں ہوا تھا، امام خمینی کا موقف یہ تھا کہ اسرائیلی تسلط کی بابت سب کو محتاط اور ہوشیار ہو جانا چاہئے، سب کو چاہئے کہ اٹھ کھڑے ہوں اور مقابلہ کریں۔ اس کے بعد بھی آپ کا یہ موقف برقرار رہا۔ اس مرد الہی کا یہ اہم نعرہ رہا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک سے مسئلہ فلسطین کے پیکر میں ایک نئی جان پڑ گئی اور اسے اسلامی ایمان کا سہارا ملا جو ہمیشہ فداکارانہ جہاد کے ہمراہ ہوتا ہے۔ امام خمینی نے کبھی بھی دنیا کی استبدادی طاقتوں سے گھبرا کر مظلوموں کی حمایت بند نہیں کی۔ پورے وقت آپ مسئلہ فلسطین کو بنیادی مسئلہ ہی قرار دیتے رہے۔ امام خمینی نے اپنے وصیت نامے اور بیانوں میں مظلوم قوموں کی آواز استغاثہ پر لبیک کہے جانے کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ مظلوموں کے حقوق کا صریحی دفاع، ملت فلسطین کے حقوق کے دفاع میں صریحی موقف اور دیگر مظلوموں کی حمایت، یہ امام (خمینی رہ) کی راہ و روش ہے۔ یہی آپ کا شیوہ اور یہی آپ کی وصیت ہے۔ ایک فلسطینی مسلم نوجوان کہتا ہے: اس وقت مقبوضہ فلسطین کی جیلوں میں بند قیدی امام (خمینی رہ) کے عشق میں اور اسلامی انقلاب کے عظیم الشان بانی کی شان میں اشعار پڑھتے ہیں۔ ان کالی کوٹھریوں کے اندر تک انقلاب، امام (خمینی رہ) اور ملت ایران کی مجاہدت کا تذکرہ ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: فلسطین کی حمایتامت مسلمہ میں اختلاف و انتشار کے نتائج:اگر آج مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوتا اور اگر وہ اسلام کی روحانیت و معنویت پر تکیہ کرتے تو دشمن اس طرح کھلے عام فلسطینی قوم کے اس کے گھر کے اندر نہ کچل پاتا۔ فلسطین کے واقعات ہر غیرت مند انسان کے دل کو خواہ وہ بہت زیادہ دیندار نہ بھی ہو، خون کر دیتے ہیں اور اس کا چین و سکون چھین لیتے ہیں۔ ٹاپ فلسطینی قوم کے دفاع اور حمایت کا فریضہ:مظلوم فلسطینی قوم اور اس کے شجاعانہ و مظلومانہ قیام کا دفاع ہم سب کا اسلامی فریضہ ہے۔ آج ایک مسلم قوم بیچ میدان کارزار سے، خون آلود چہرے کے ساتھ، مسلم امہ کو مدد کے لئے پکار رہی ہے۔ مجھ سے اس فلسطینی خاتون کی فریاد کبھی نہیں بھولتی جو نامہ نگار کے کیمرے کے سامنے رندھی ہوئی آواز میں اے مسلمانو اے مسلمانو! پکار رہی تھی۔ تمام مسلمانوں اور عربوں کو چاہئے کہ فلسطینی عوام کے حق دفاع و مزاحمت کی حمایت کریں۔ عالمی اداروں کی سطح پر اس نکتے پر زور دیا جائے کہ بے سہارا عوام جن کے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں اور جو غاصبانہ قبضے میں دبے ہوئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، ان کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے جد و جہد اور مزاحمت کا حق ہے۔ لہذا انتفاضہ کا تسلسل اور فلسطینی عوام کی استقامت و مزاحمت ان کا قانونی حق ہے جسے عالمی قوانین میں بھی قابل احترام قرار دیا گيا ہے۔ حالانکہ عموما سامراج اور بڑی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ان قوانین کی تفسیر کی جاتی ہے۔ اب مزید یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان، فلسطینی قوم کی سرکوبی کا نظارہ کریں اور خاموش بیٹھے رہیں۔ اسرائیل کو فہمائش کر دی جانی چاہئے کہ فلسطینی عوام اور فلسطینی نشین علاقوں پر حملوں کا تسلسل تمام مسلمانوں اور عربوں کی جانب سے شدید، سنجیدہ اور عملی رد عمل کا موجب بنے گا۔ ٹاپمسئلہ فلسطین اور عالم اسلامعالم اسلام کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسئلہ فلسطین عالمی سطح پر اولیں اسلامی مسئلہ ہے۔ حقیقت میں اس وقت مسلمانوں کی زندگی اور اسلامی علاقوں کا کوئی بھی مسئلہ اتنا بڑا اور اہم نہیں ہے جتنا کہ مسئلہ فلسطین۔ یہ ایک قوم کے رنج و الم، مظلومیت اور نقل مکانی کا مسئلہ ہے۔ ایک ملک کو غصب کر لئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ اسلامی ممالک کے قلب اور اس جگہ کو سرطان میں مبتلا کر دینے کا معاملہ ہے جہاں عالم اسلام کے مشرق و مغرب ملتے ہیں۔ یہ بلا وقفہ جاری ظلم کا مسئلہ ہے جو پے در پے دو فلسطینی نسلوں پر سایہ فگن رہا۔ آج سرزمین فلسطین میں عوامی طاقت پر استوار خونیں اسلامی تحریک، بے ضمیر، انسانیت سے بے بہرہ اور جرائم کے خوگر غاصبوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی ہے۔ دشمن کی چالیں ہمیشہ سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہو گئی ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے کو اب ہمیشہ سے زیادہ سنجیدگی سے لیں اور اس کے بارے میں غور و فکر اور کوئی اقدام کریں۔ بنیادی طور پر یہودی حکومت کی تشکیل یا بہتر الفاظ میں یوں کہا جائے کہ صیہونی حکومت کی تشکیل وہ بھی عالم اسلام کے اس حصے میں دراز مدتی اور طویل المیعاد سامراجی عزائم کے تحت عمل میں آئی ہے۔ در حقیقت اس حساس علاقے میں ایک حکومت کا قیام، جو قلب عالم اسلام کا درجہ رکھتا ہے یعنی مغربی اسلامی دنیا یعنی افریقا کو مشرقی اسلامی دنیا یعنی مشرق وسطی اور مشرقی ایشیا سے متصل کرتا ہے اور جو ایشیا، افریقا اور یورپ کے لئے ایک تراہے کی حیثیت رکھتا ہے، اس ہدف کے تحت عمل میں لایا گیا کہ دراز مدت تک اس وقت کے سامراجیوں کا جن میں برطانوی حکومت سب سے پیش پیش تھی، اسلامی دنیا پر تسلط قائم رہے۔ غاصب حکومت کے مقابلے کا صحیح راستہ وہی ہے جسے آج فلسطینیوں نے اختیار کر رکھا ہے اور جس پر وہ مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس مقدس جد و جہد میں ان کی مدد کریں۔ اس وقت مسئلہ فلسطین کے سلسلے مسلمان حکومتوں کی بے توجہی کا کوئی بھی بہانہ اور عذر قابل قبول نہیں ہے۔ غاصب حکومت نے بربریت اور وحشی پنے کی حد کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے خطرناک توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے کسی بھی جرم کا ارتکاب کر سکتی ہے۔ فلسطینی قوم کی اسلامی تحریک نے بھی سب پر حجت تمام کر دی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ دشمن کے بھاری دباؤ اور دوستی کے دعویداروں کی خیانت کے باوجود استقامت و مزاحمت کا پودا خشک نہیں ہوا بلکہ اس کی جڑیں اور بھی گہرائیوں میں اترتی جا رہی ہیں اور یہ بارآور ہوتا جا رہا ہے۔ لہذا تمام حکومتوں اور قوموں کے لئے لازمی ہے کہ فلسطین کے اسلامی مسئلے کو اولیں اور سب سے بڑا مسئلہ سمجھیں اور اپنی بساط بھر مدد اور تعاون کی کوشش کریں۔ اسلامی مکاتب فکر میں اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور تمام علمائے دین اس پر متفق ہیں کہ اگر دشمنان اسلام اسلامی سرزمین کے کسی ٹکڑے کو اس سے الگ کر دیں اور اس ٹکڑے پر دشمنان اسلام کی حکومت قائم ہو جائے تو ہر ممکن جد و جہد اور سعی و کوشش کے ذریعے اس ٹکڑے کو اسلامی سرزمین سے دوبارہ جوڑنا ہر کسی کا فریضہ سمجھا جانا چاہئے۔ ملت فلسطین کو بھی جس کی جانب عالم اسلام کی توجہات مرکوز ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم امہ کے دلوں سے اس کے لئے دعائیں اور تعریفی کلمات نکل رہے ہیں، اگر امداد بھیجنے کا راستہ اس وقت کھلا ہوتا تو مسلم امہ امداد بھیجتی۔ خواہ حکومتیں اس سے راضی ہوتیں یا نہ ہوتیں۔ مسلم امہ فلسطین سے دستبردار نہیں ہو سکتی، فلسطینی قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی، فلسطینی نوجوانوں سے چشم پوشی نہیں کر سکتی۔ ٹاپمسلم حکومتوں کی جانب سے فلسطین کی حمایت:مسلم حکومتوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ اس قوم کو اپنے دفاع کے لئے ضروری وسائل فراہم کرائیں اور اسی طرح دنیا میں صیہونیوں کے مفادات کی حفاظت کرنے والوں پر سیاسی دباؤ ڈالیں۔ وہ باہمی اور دو طرفہ روابط، عالمی اداروں، عمومی تقاریر اور خصوصی مذاکرات میں یہ کام کر سکتی ہیں۔ اب جبکہ جارح اپنے جرائم سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہے تو فلسطینی قوم کو جو حق پر ہے اور جو اپنے حقوق کا دفاع کر رہی ہے، یہ توانائی ملنی چاہئے کہ اپنا دفاع کر سکے۔ ٹاپ ملت ایران کی جانب سے فلسطینی قوم کی حمایت:ایرانی قوم سامراج کی چکی میں پسنے والی مظلوم قوموں کی ہمیشہ سے حامی رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ ایرانی عوام نے ہمیشہ جرائم پیشہ صیہونیوں کے خلاف فلسطین کی مجاہد و دانشمند قوم کا ساتھ دیا ہے اور ساتھ دیتی رہیں گے، وہ اپنے فلسطینی بھائیوں سے کہتے ہیں کہ راہ خدا پر پیش قدمی یعنی غاصب دشمن اور اس کے حامیوں سے جنگ کو اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور اعتماد کے ساتھ غاصب صیہونی حکومت کے خاتمے تک جاری رکھیں۔ ایران کی عظیم قوم اور با ایمان رضاکار فورس فلسطینی قوم کے دفاع کو دینی فریضہ سمجھتی ہے اور اللہ تعالی کی راہ پر چلتے ہوئے کسی بھی ہدف کو دسترسی سے باہر نہیں مانتی۔ ٹاپ فلسطین کی حمایت میں تشہیراتی مہم سے استفادہ:دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں نے پوری دنیا میں اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئے سیکڑوں بلکہ ہزاروں فلمیں بنا ڈالیں تاکہ انہیں مظلوم اور ان کے مد مقابل کھڑے افراد کو ظالم و ستمگر سمجھا جائے۔ آج ملت فلسطین پر جو مظالم ہو رہے ہیں کبھی بھی کسی قوم کے ساتھ نہیں ہوئے جبکہ عالمی رائے عامہ کو اس کی اطلاع بھی نہیں ہے۔ اسے صحیح طور پر منظر عام پر لانا چاہئے۔ فلمیں بنائی جانی چاہئے، فن و ہنرے کا سہارا لیکر عالمی رائے عامہ کو حالات سے واقف کرایا جانا چاہئے۔ٹاپچوتھا باب: مسئلہ فلسطین کا حلمسئلہ فلسطین کا سفارتی حل:مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ سے دو طریقوں کی تجویز دی گئی جن میں ایک صحیح راہ حل ہے اور دوسری غلط۔۔ غلط راہ حل یہ ہے کہ اسی غاصب حکومت کے ساتھ، جو نہ تو انسانی اقدار کو خاطر میں لاتی ہے اور نہ ہی عالمی قوانین کو در خور اعتنا سمجھتی ہے، جس کی نظر میں عالمی اداروں کی قراردادوں کی بھی کوئی وقعت نہیں ہے، مذاکرات کئے جائیں اور مل جل کر کسی ایک نتیجے پر پہنچا جائے۔ یہ راہ حل جس شکل میں بھی سامنے آئے غلط ہے۔ اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے کسی بھی دستخط کا پابند نہیں ہے۔ اگر انہوں نے اتفاق رائے بھی کر لیا ہے اور اس پر دستخط بھی کر دئے ہیں تب بھی وہ اس کے پابند نہیں رہتے۔ یہ کہ جارح کے منہ میں ایک اور لقمہ ڈالا جائے تاکہ وہ اور طاقتور ہوکر اگلا قدم اٹھا سکے، راہ حل نہیں ہے۔ یہ فلسطین کا ساٹھ سالہ تجربہ ہے۔ اقوام متحدہ میں قرارداد منظور ہوئی۔ امریکا نے بھی جو صیہونیوں کی حمایت کرتا رہا ہے اس پر دستخط کئے تاہم یہ غاصب حکومت ان قراردادوں پر عمل کرنے سے مکر گئی۔ منطقی راہ حل یہ ہے کہ جسے دنیا کے سارے بیدار ضمیر افراد اور وہ لوگ جو عصری اصولوں سے واقف ہیں، تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، وہ ہے خود فلسطینی عوام کی رائے لینا ان تمام لوگوں سے جو فلسطین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے، البتہ وہ لوگ جو اپنی سرزمین اور اپنے گھروں کو لوٹنے پر مائل ہیں۔ یہ ایک منطقی بات ہے۔ یہ لوگ جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دیگر عرب ممالک میں سرگرداں ہیں وہ اپنے ملک اور اپنے گھر لوٹیں۔ انیس سو اڑتالیس سے قبل جو لوگ بھی فلسطین میں آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، سب کی خواہش معلوم کی جائے۔ یہ لوگ ایک ریفرنڈم میں شرکت کرکے فلسطینی سرزمین کے لئے حکومت کا تعین کریں۔ یہ جمہوری عمل بھی ہے۔ ساری دنیا کے لئے جمہوریت اچھی ہے تو فلسطینی عوام کے لئے کیوں اچھی نہیں ہے؟! کیوں دنیا بھر کے عوام کو اپنی تقدیر اور مستقبل کے فیصلے میں دخیل ہونے کا حق ہے اور فلسطینی عوام کو یہ حق نہیں؟! آج فلسطین میں جو حکومت قائم ہے اس کے بارے میں کسی کو ذرہ برابر شک و شبہہ نہیں ہے کہ طاقت کے زور پر اور مکر و حیلے کے ذریعے اس کا قیام عمل میں آیا ہے، اس میں کسی کو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے۔ صیہونی امن و آشتی کے طریقے سے اقتدار میں نہیں آئے ہیں۔ کچھ تو مکر و فریب کے ذریعے اور کچھ دیگر اسلحے کے زور پر اقتدار میں پہنچے ہیں۔ بنابریں یہ ایک مسلط کردہ حکومت ہے۔ فلسطینی مجتمع ہوں، ووٹ دیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ان کے ملک میں کیسی حکومت تشکیل پائے۔ پھر ویسی ہی حکومت قائم ہو اور انیس سو اڑتالیس کے بعد سرزمین فلسطین میں آکر بسنے والوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے۔ پھر وہ جو بھی فیصلہ کریں۔ اگر یہ فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہیں باقی رہیں تو وہ باقی رہیں اور اگر فیصلہ کیا گيا کہ یہ لوگ یہاں سے واپس جائیں تو واپس جائیں۔ یہ عوامی فیصلہ بھی ہوگا اور جمہوری عمل کا تقاضا بھی اس سے پورا ہوگا، یہ انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہوگی اور دنیا کے عصری اصولوں پر عمل آوری بھی۔ ٹاپ صیہونی حکومت پر دباؤ:جب غاصب میٹھی زبان سے منطقی و معقول راہ حل کو تسلیم نہ کرے تو پھر معاملے کے تمام فریق اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھیں اور محسوس کریں۔ عرب حکومتیں بھی، اسلامی حکومتیں بھی، دنیا بھر کی مسلمان قومیں بھی، خود ملت فلسطین بھی اور عالمی ادارے بھی۔ ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ اس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے پر اصرار کرے۔ کچھ لوگ یہ خیال نہ کریں کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں، عملی طور پر ایسا کرنا ناممکن ہے۔ جی نہیں! ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ بحر بالٹک کے ممالک چالیس سال تک سابق سویت یونین کا جز بنے رہنے کے بعد دوبارہ آزاد ہو گئے۔ قفقاز کے علاقے کے ممالک سویت یونین کی تشکیل سے تقریبا سو سال قبل روس کے زار حکمرانوں کے زیر نگیں تھے، وہ بھی آزاد ہو گئے۔ اس وقت قزاقستان، آذربائیجان، جارجیا، اور دیگر ممالک آزاد و خود مختار ممالک بن چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ ممکن ہے۔ لیکن اس کے لئے عزم و ارادے اور جرئت و دلیری ضروری ہے۔ قومیں دلیر بھی ہیں، وہ کسی سے نہیں ڈرتیں، وہ آمادہ بھی ہیں تو ایسے میں اب باری ہے حکومتوں کے فریضے کی انجام دہی کی۔ ان میں بھی سب سے پہلے عرب حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ آج عرب حکومتیں آگے بڑھ کر مسئلہ فلسطین میں اپنے عوام کی بھرپور حمایت حاصل کر سکتی ہیں، اپنی مقبولیت بڑھا سکتی ہیں۔ اگر کسی حکومت کو اپنے عوام اور قوم کی حمایت و تائيد حاصل ہو تو امریکا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ پھر آپ کو امریکا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پھر اسے امریکا کے اشارہ ابرو پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹاپ تیل کا بطور حربہ کا استعمال:جو بڑے قدم عرب حکومتیں اٹھا سکتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک تیل کے ہتھیار کو استعمال کریں۔ مغرب والوں نے دنیا بھر میں یہ جو واویلا مچا رکھا ہے کہ تیل کو اسلحے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، درست نہیں ہے۔ تیل قوموں کی دولت ہے اور اسے ان کے مفادات کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ امریکی تو گندم اور دیگر غذائی اشیاء تک کو اسلحے کے طور پر استعمال کر چکے ہیں اور کچھ جگہوں پر آج بھی کر رہے ہیں تو پھر عرب اور مسلمان ملکوں کو یہ حق کیوں نہیں ہے؟ علامتی اقدام کے طور پر ملت فلسطین کی حمایت میں صرف ایک مہینے کے لئے ان ممالک کو تیل کی برآمد روک دیں جن کے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ آج دنیا کے پاس حرکت، روشنی اور انرجی، زندگی کے تین اہم عنصر ہیں اور وہ ان تینوں کو مسلم ممالک کے تیل سے حاصل کرتی ہے۔ اگر انہیں تیل نہ دیا جائے تو کارخانوں کی حرکت، روشنی اور حرارت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔ ٹاپ ملت فلسطین کی مالی امداد:فلسطینیوں کی مالی مدد صرف حکومتوں سے مخصوص نہیں ہے کہ کسی حکومت کے اس اعلان کا انتظار کیا جائے کہ جناب ہم نے دس ملین ڈالر، بیس ملین ڈالر یا پچاس ملین ڈالر دے دئے ہیں جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ رقم کہاں دی گئی ہے، کس طرح دی گئی ہے، کس کو دی گئی ہے۔ آج فلسطینی قوم غذائی اشیاء کی محتاج ہے، دوا کی محتاج ہے۔ فلسطینی قوم کوئی فقیر قوم نہیں ہے۔ عظیم قوم ہے لیکن دشمن کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہے۔ سب کا فریضہ ہے کہ اس کی مدد کریں۔ فرض کیجئے کہ اگر پورے عالم اسلام میں، ایران اور دیگر ممالک میں ہر شخص ہزار تومان (ایک ڈالر سے کچھ زیادہ) فلسطینی عوام کو بطور امداد دے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہوگا؟! ایک ہزار ارب تومان (ایک ارب ڈالر) کا فلسطینی عوام اور ان کی زندگی پر کیا اثر ہوگا؟! ان کے لئے آذوقہ، دوائيں، وسائل اور استقامت و مزاحمت کے لئے ضروری تمام اشیاء مہیا کی جانی چاہئے۔ٹاپ فلسطین کی نجات کا راستہفلسطین کی نجات کا راستہ:گزشتہ چند عشروں کے دوران غاصب حکومت کی جانب سے فلسطینی ریاست اور عوام پر مصیبتوں کا جو بوجھ لاد دیا گيا ہے وہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لئے کافی ہے کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں اور علاقے میں ان کے اتحادیوں کی مدد سے فلسطین کی نجات کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ ایران کے عظیم اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا ہے کہ بڑی مشکلات کے حل کی کنجی خود قوموں کے پاس ہے۔ یہ انسانوں کا ارادہ ہے جو اللہ تعالی پر توکل اور وعدہ الہی پر اعتماد کی صورت میں دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی تدابیر اور خواہشات پر غالب آ جائے گا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات سے قوموں کے کردار کی اہمیت و افادیت پہلے سے زیادہ آشکارا ہو گئی ہے۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی درندہ صفت صیہونی حکومت کے مقابلے میں فلسطینی قوم کا عزم محکم ہی ٹک سکتا ہے اور شجاعانہ مزاحمت کے ذریعے ہی دشمن کو پسپائی اختیار کرنے اور شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ عرب سربراہان مملکت کی کانفرنسوں اور اجلاسوں سے فلسطینی قوم اپنی آزادی و مسلمہ حقوق کی بحالی کی امیدیں وابستہ نہ کرے اور وہ کر بھی نہیں سکتی۔ یہ نشست و برخاست فلسطینیوں کے لئے اگر شوم اور زیاں آور نہیں تو بے فائدہ اور لاحاصل ضرور ہے۔ ٹاپ فلسطینی قوم کی نجات کا واحد راستہ، مزاحمت و استقامت:اقوام متحدہ، تسلط پسند طاقتوں اور خاص طور پر صیہونی حکومت کی خوش آمد کرکے فلسطین کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ نجات کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ فلسطینیوں کا اتحاد اور کلمہ توحید ہی، جو جہادی تحریکوں کا بیکراں ذخیرہ ہے، کارساز ہے۔ اس مزاحمت کے ستون ایک طرف فلسطین کی مجاہد جماعتیں، با ایمان عوام ہیں جو فلسطین کے اندر اور باہر سرگرم عمل ہیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی مسلمان اور عرب حکومتیں بالخصوص علمائے دین، دانشور، سیاستداں اور یونیورسٹی سے وابستہ حلقے ہیں۔ اگر یہ دونوں مستحکم ستون اپنے اپنے مقام پر کھڑے ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بیدار ضمیر و دل و اذہان جو سامراج اور صیہونزم کی ابلاغیاتی شہنشاہیت کے افسوں سے مسحور نہیں ہوئے ہیں، دنیا کے ہر گوشے میں صاحب حق اور مظلوم کی مدد کے لئے دوڑ نہ پڑیں اور سامراجی نظام پر افکار و جذبات و عملی اقدامات کے سیلاب کی یلغار نہ ہو جائے۔ فلسطینی عوام اور مجاہدین کا صبر اور ان کی استقامت اور پورے عالم اسلام سے ان کی ہمہ جہتی حمایت سے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے شیطانی طلسم کو توڑا جا سکتا ہے۔ امت مسلمہ کی عظیم توانائیاں فوری حل طلب مسئلہ فلسطین سمیت عالم اسلام کے تمام مسائل کو حل کر سکتی ہیں۔ ٹاپ ملت فلسطین کی بیداری:خوش قسمتی سے ملت فلسطین کی اسلامی بیداری سے بہت حد تک مستقبل کے افق واضح اور نمایاں ہو گئے ہیں۔ آج نئی فلسطینی نسل قوت ایمانی کے سہارے اور اللہ تعالی کا نام لیکر جد و جہد کر رہی ہے۔ یہ بڑا امید افزا جہاد ہے۔ یہ بات بالکل نمایاں ہو گئی ہے کہ دشمن خواہ وہ صیہونی حکام ہوں، امریکا ہو، اسرائیل کے دیگر حامی ہوں یا علاقائی خائن عناصر اس نئی لہر سے سراسیمہ اور دہشت زدہ ہو گئے ہیں۔ وہ تحریک کی حقیقی سمت پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ دین ہی فلسطین کو نجات دلا سکتا ہے۔ اسلام فلسطین کو جارحوں کے چنگل سے چھڑا سکتا ہے۔ فلسطین کی نئی نسل کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ اگر وہ اپنے اوپر مسلط کر دی جانے والی ذلت و رسوائی اور زبوں حالی و شدید دباؤ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے مزاحمت و استقامت کے راستے پر چلنا ہوگا۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا کارساز نہیں ہے۔ مذاکرات کاروں کو اب تک کچھ بھی ہاتھ نہیں لگ سکا ہے۔ ٹاپ عرب نیشنلزم اور مسئلہ فلسطینکبھی کبھار سننے میں آتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ فلسطین عربوں کا مسئلہ ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر یہ مقصود ہے کہ عربوں میں اس مسئلے کے تعلق سے قوی قومی جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ زیادہ خدمت اور جد و جہد کرنے کے لئے آمادہ ہیں تو یہ اچھی اور پسندیدہ چیز ہے۔ لیکن اگر اس سے یہ مراد ہے کہ بعض عرب ممالک کے حاکم فلسطینی عوام کی آواز استغاثہ پر ذرہ برابر توجہ نہ دیں اور غزہ کے المئے جیسے اہم ترین معاملات میں غاصب و ظالم دشمن سے تعاون کریں اور ان افراد پر تیوریاں سکوڑیں جو فرض شناسی کے جذبے کے باعث ہر لمحہ مضطرب ہیں، ان سے کہیں کہ آپ کو غزہ کی امداد کی کیا پڑی ہے؟ تو اس صورت میں کوئی بھی مسلمان اور کوئی بھی غیور اور با ضمیر عرب اس بات کو قبول نہیں کرے گا اور ایسی بات کرنے والے کی مذمت اور سرزنش کئے بغیر نہیں رہے گا۔ ٹاپ پانچواں باب: آشتی و ساز بازآشتی کا حربہ:اس وقت صیہونیوں اور ان کے حامیوں کا جن میں سب سے پیش پیش امریکی حکومت ہے، ایک اہم حربہ یہ ہے کہ صلح و مفاہمت کے دلکش لفظ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آشتی و صلح اچھی چیز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کہاں اور کس سے آشتی ہو؟! ایک آدمی آپ کے گھر میں درانہ گھس آیا ہے، اس نے طاقت لگا کر آپ کے گھر کا دروازہ توڑ دیا ہے، اس نے آپ سے مار پیٹ کی ہے، آپ کی اولاد اور ناموس پر حملہ کیا ہے، اس نے آپ کے تین کمروں میں سے دو کمروں اور تیسرے کمرے کے نصف حصے پر قبضہ کر لیا ہے، اس پر بھی ستم بالائے ستم یہ کہ اسے اس پر اعتراض ہے کہ آپ لوگوں سے اس کی شکایت کیوں کر رہے ہیں، آپ مسلسل جھگڑا کیوں کر رہے ہیں، تنازعہ کیوں کھڑا کر رہے ہیں، آئیے آپس میں مفاہمت کر لیتے ہیں۔ اسے مفاہمت کہتے ہیں؟! جارحیت اس حکومت کی ماہمیت و سرشت میں شامل ہے۔ صیہونی حکومت کی تو تشکیل ہی تشدد، قسی القلبی اور طاقت کے استعمال کی بنیاد پر ہوئی ہے اور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے اس نے کوئی پیشرفت کی ہے نہ کر پائے گی۔ مطالبہ یہ ہے کہ اس حکومت سے آشتی و مفاہمت کر لیجئے! اگر وہ اپنے حق پر قناعت کر لیں، یعنی فلسطین کو جو فلسطینیوں کا خانہ و آشیانہ ہے ان کے حوالے کریں اور اپنا راستہ لیں یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں کہ ہم میں سے کچھ یا ہم سب یہیں رہ جائيں تو ان سے کوئی جنگ نہیں کرے گا۔ جنگ تو تب ہوتی ہے جب غاصب دوسروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں، انہیں ان کے گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں اور اس کے بعد بھی ان پر مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس وقت وہ علاقے کے تمام ممالک پر ظلم کر رہے ہیں اور پورے علاقے کے لئے ایک خطرے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ بنابریں یہ آشتی بھی کرتے ہیں تو وہ آئندہ کی جارحیت کی تیاری اور مقدمہ ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے مفاہمت کر لی ہے تو یہ در حقیقت آگے چل کر کسی اور انداز سے کسی درسری جارحیت کا مقدمہ بنے گی۔ ٹاپ اسرائیل سے فلسطین کی مفاہمت کا منصوبہ:ایک اہم ایشو جو آج کل اٹھایا جا رہا ہے اور جس کا مقصد یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے اور عالم اسلام کی رائے عامہ کو اسے موضوع بحث بنانے سے روکا جا سکے، یہی نام نہاد امن مذاکرات ہیں جو ایک فلسطینی گروہ اور اسرائیلیوں کے ما بین جاری ہیں، یعنی ساز باز کا مسئلہ یعنی نام نہاد خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کا مسئلہ ہے۔ یہ بھی اسرائیلیوں کا ایک مذموم حربہ اور جال ہے جس میں بد قسمتی سے کچھ مسلمان بلکہ کچھ فلسطینی بھی گرفتار ہو گئے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان لوگوں کے مذاکرات کے تمام تر مفروضے اور اسرائيلیوں کے وعدے عملی جامہ پہن لیں تب بھی اس فلسطینی گروہ کو جو حاصل ہوگا وہ چار فیصدی سے کچھ زیادہ زمین ہے! یعنی اس فلسطینی سرزمین سے جو فلسطینیوں کا حق اور ملکیت ہے جس کے مالک فلسطینی ہیں اس کا محض چار فیصدی ان کو ملے گا۔ یہ چار فیصدی بھی کیسا؟! یہ چار فیصدی بھی اکٹھا نہیں بلکہ پراکندہ ٹکڑوں کی شکل میں ہے۔ جن لوگوں سے اسرائیلیوں نے کہا بھی ہے کہ آپ آئیے اور اپنی حکومت تشکیل دیجئے انہیں بھی ہرگز اجازت نہیں دی ہے کہ ایک حکومت کی طرح کام کر سکیں۔ ان سے کہا ہے کہ آپ فلاں جگہ موجود رہئے اور اس بات کا خیال رکھئے کہ وہاں کے فلسطینی اسرائیل کے خلاف سرگرمیاں انجام نہ دے سکیں! یعنی پراکندہ علاقوں کو جس کا نظم و نسق چلانا انتہائی مشکل ہے، ایک آدھے ادھورے ملک کی حیثیت سے ان کے حوالے کر دیا! اس کے بدلے اس فلسطینی گروہ کو کیا کرنا ہے۔ یہ کرنا ہے کہ فلسطین کے سکیورٹی اداروں کے ساتھ ہی وہ بھی مجاہد فلسطینیوں کے خلاف کاروائیاں کرے! فلسطینیوں کے نام پر یہ حرکتیں کرنے والوں کی خیانت دوسری سبھی خیانتوں سے، جو اب تک فلسطینیوں کے ساتھ ہوئی ہے، زیادہ مذموم اور بھیانک ہے! انہوں نے عوام کے لئے نہ کوئی کام کیا ہے اور نہ کر سکتے ہیں۔ ٹاپ عرب اسرائیل مفاہمت کا فلسفہ:عرب حکومتیں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی تو نہیں بن سکتے! جو وہ چاہتے ہیں وہی ہونا چاہئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ اس میں سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی کے پہلوؤں کے ساتھ ہی الہی و اسلامی فرائض کا پہلو بھی ہے۔ جو شخص اللہ تعالی پر ایمان و ایقان نہیں رکھتا وہ اگر صرف فلسطینی عوام کے لئے کام کرنا چاہتا ہے تو اسے دیکھنا چاہئے کہ فلسطینی عوام کیا کہتے ہیں۔ آج ملت فلسطین کو دیکھنا ہے تو ان افراد کو دیکھئے جو گرفتار ہونے کے بعد غاصب حکومت کی جیلوں میں قید ہیں اور ان کے دسیوں گنا افراد سڑکوں، مسجد الاقصی، بازاروں اور پوری سرزمین فلسطین میں صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں، کاروائیاں کر رہ ہیں۔ ایک چھوٹی سی اقلیت جس نے لالچ میں آکر ساز باز کر لی ہے، اسے ملت فلسطین کا نام نہیں دیا جا سکتا کہ یہ کہا جائے کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ تو فلسطینی نہیں ہیں۔ٹاپ پہلی تحریک انتفاضہ کی ناکامی کے اسباب:انتفاضہ اول کے زمانے میں ساز باز اور مفاہمت کا ماحول علاقے پر چھایا ہوا تھا۔ کچھ لوگ امریکا کے دام میں اسیر تھے اور کچھ دیگر کا یہ خیال تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عالمی سیاسی دباؤ اور پروپیگنڈے کا سامنا نہیں کیا جا سکتا اور مفاہمت کی راہ کو وہ بھی امریکا اور اسرائیل کے شرائط پر قبول کر لینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت علاقے میں جو تبدیلیاں ہوئیں اس سے اس خیال کی تقویت کی زمین فراہم ہو گئی۔ اس وقت یعنی انتفاضہ اول کے موقع پر اسرائیل کے سلسلے میں دو طرح کے طرز عمل کی بات کی جاتی تھی: ایک تو یہ کہ عرب افواج اسرائیل کے مقابلے پر ڈٹ جائیں لیکن اس چیز کے تمام تجربات ناکام ثابت ہو چکے ہیں، دوسرا طرز عمل وہ تھا جس سے اسرائیل کی خواہشات پر امن طریقے سے پوری ہوتی تھیں اور اس کے بدلے اسے مقبوضہ علاقے کے ایک چھوٹے سے حصے سے عقب نشینی کرنا پڑتی جیسا کہ کیمپ ڈیوڈ میں ہوا۔ اس زمانے میں مزاحمت و استقامت کا موضوع زیادہ مقبول نہیں تھا اور یہی کہا جاتا تھا کہ اسے عوامی حمایت حاصل نہیں ہو پائے گی۔ ٹاپ اوسلو معاہدے کے نتائج:فلسطینی عوام کو پچھلی تحریک انتفاضہ میں بہت بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں اسلامی سرزمین کی آزادی اور اسلام کی راہ میں بڑی تعداد میں شہدا کی قربانی دینا پڑی اور سرانجام اوسلو مذاکرات نے اس سب پر پانی پھیر دیا۔ آج عالم یہ ہے کہ اوسلو معاہدے کے نظریہ پرداز اور اس کی حمایت کرنے والے بھی اس پر بات کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہو گیا ہے کہ اسرائیل صرف اپنی مشکل حل کرنا چاہتا تھا۔ یعنی سنگ بدست مجاہدین سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا اور اپنی کمزوریاں دور کرنے کی فکر میں تھا۔ اس نے مراعات کے نام پر معمولی ترین چیز جو فلسطینیوں کو دی اس کا واحد مقصد تحریک انتفاضہ کے شعلے کو خاموش کرنا اور اپنی کمزوریوں کو دور کرنا تھا۔ جیسے ہی اسے اپنے حالات معمول پر نظر آئے اور اسے یہ غلط فہمی ہوئی کہ فلسطینی عوام میں اب دوبارہ تحریک انتفاضہ شروع کرنے اور اس سے ٹکرانے یا مزاحمتی کاروائیاں کرنے کی توانائی نہیں رہ گئی ہے اس نے وہ معمولی ریاعتیں دینا بھی بند کر دیا اور اپنی توسیع پسندانہ ماہیت کو آشکارا کر دیا۔ اوسلو معاہدے کے عمل نے فلسطینی عوام کو ایسی حالت میں پہنچا دیا کہ انہیں پوری طرح احساس ہو گیا کہ قیام کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ ٹاپ فلسطینی اہداف اور امنگوں سے غداری:کوشش یہ ہو رہی ہے کہ فلسطین نام کی کوئی چیز ہی کسی کے ذہن میں باقی نہ رہے۔ گویا فلسطین نام کی کوئی سرزمین تھی اور نہ ہی اس سرزمین کی مالک کوئی قوم! اس طرح کی تیاریاں کی گئی ہیں۔ انسان حیرت و افسوس کے سمندر میں غوطے لگاتا ہے جب یہ دیکھتا ہے کہ بعض لوگ اس چیز کو تسلیم بھی کر رہے ہیں، یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ دنیا میں کہیں کوئی ایسا شخص ملے گا جو اتنی عجیب و غریب، سراسر ظالمانہ و ابلہانہ چیز کو قبول کر لے، لیکن ایسا دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک نام نہاد فلسطینی گروہ کو لاکر عظیم سرزمین فلسطین کے چھوٹے سے حصے میں جو اس کا چار فیصدی ہے اسے ایک جھوٹا اور ناقص اقتدار دے رہے ہیں اور اس کے بدلے اس سے جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین، سرزمین اور قوم کا مسئلہ پوری طرح فراموش کر دیا جائے۔ اگر کوئی شخص فلسطینی قوم، فلسطینی ریاست یا فلسطین کی تاریخ کی بات زبان پر لائے تو یہی گروہ جس نے یہ خسارت بار معاہدہ کیا ہے اس شخص کی سرکوبی کرے۔ ٹاپ فلسطین سے عرب حکام کی غداری:صیہونی حکومت، اس کے حامیوں اور ان میں سر فہرست امریکا نے مفاہمت و آشتی کے نعرے کے ذریعے جس کا مقصد صرف اور صرف فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو مستحکم تر بنانا ہے، اپنے حریفوں سے جہاں تک ممکن تھا اپنی پیروی کرائی۔ بعض مسلم حکومتوں نے ہراول دستے کی حیثیت رکھنے والے ملکوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا! اکثر عرب حکام کی حمایت آمیز خاموشی جو کہیں کہیں صریحی خیانت کا مظہر بھی رہی ہے علاوہ ازیں ملت فلسطین کی قیادت کے دعویداروں کے ذلت و خیانت آمیز موقف، ظلم و جارحیت و خیانت کی زنجیر کی ایک کڑی ہے جس کا مقصد اسلامی سرزمین فلسطین کو ہمیشہ غاصبانہ قبضے میں اور یہاں بسنے والی مظلوم قوم کو ہمیشہ قید و بند کی صعوبتوں میں باقی رکھنا ہے۔ بہت سی عرب حکومتوں کی غدارانہ خاموشی اور ساز باز اور ان میں بعض حکومتوں کا مسئلہ فلسطین اور فلسطین کے انجام اور مستقبل کے سلسلے میں لا تعلقی اور بے حسی کا مظاہرہ باعث بنا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت برسوں کی پردہ پوشی حتی انکار کے بعد اب دوبارہ وسیع اسرائیل کی خواہش زبان پر لانے لگی ہے اور بڑی بے حیائی اور بھونڈے پن کے ساتھ اسلامی سرزمینوں کے کسی اور حصے پر قبضہ کرنے کی اپنی پلید نیت کا اظہار کر رہی ہے۔ ٹاپ چھٹا باب: مزاحمت و استقامتقوموں کی طاقت:سامراج کو یہ علم نہیں کہ ایک ایسی طاقت بھی موجود ہے جو ان کے ہتھیاروں کی طاقت سے بالاتر ہے اور وہ ہے قوموں کی طاقت، انسانوں کی طاقت۔ جو قوم بھی فکری بنیاد، عزم راسخ اور منطقی اصولوں کی حامل ہوگی اور اپنے منطقی اصولوں کے لئے عزم راسخ کے ساتھ ڈٹ جائے گی اسے ایٹمی طاقت ہو یا اس سے بھی بڑی اور چھوٹی کوئی دوسری طاقت، مغلوب نہیں کر سکتی۔ ان لوگوں نے قوموں کی طاقت کو اور خدائے قدیر کی قوت کو جو قوموں کے عزم و ارادے اور جرئت عمل کی پشتپناہ ہوتی ہے، معمولی سمجھ لیا ہے۔ (کلا نمد ھولاء و ھولاء) جو جماعت بھی ان اہداف کے لئے جس پر اس کا عقیدہ ہے کام کرتی ہے اللہ تعالی اس کی نصرت و مدد کرتا ہے۔ اور اگر وہ جماعت اور قوم اللہ تعالی پر ایمان رکھتی ہو تو پھر اس سے ٹکرانا اور اسے شکست دینا دس گنا زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ٹاپ شجاع ملت فلسطین کا جہاد: اس وقت ملت فلسطین نے جو جد و جہد شروع کی ہے وہ دو فوجوں کے مابین ہونے والی جنگ نہیں ہے کہ کہا جائے کہ فلاں فوج کے پاس دس ٹینک ہیں اور دوسری کے پاس اس تعداد میں ٹینک ہیں۔ پہلی کے پاس زیادہ ہیں یا دوسری کے پاس زیادہ ہیں۔ یہ تو ان افراد کے جسم و جان کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ ہے جو موت بزیچہ اطفال سمجھتے ہیں۔ غاصب صیہونی حکومت کی فوج کے مقابلے پر آنے والا ایک فداکار و جاں نثار جوان اس پر پورے ایک لشکر کا خوف طاری کر دیتا ہے۔ اس جوان کا جواب نہ ٹینک و میزائل سے دیا جا سکتا ہے اور نہ طیارے اور آپاچی ہیلی کاپٹر سے۔ جب کوئی انسان خواہ وہ تن تنہا ہو، موت سے نہ ڈرے اور خود کو اللہ تعالی اور اپنے فریضے کی راہ میں فداکاری و جاں نثاری کے لئے آمادہ کر لے تو وہ بے انصاف دنیاداروں کے لئے بہت بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ شہادت پسندانہ کاروائیاں محض جذباتی کاروائیاں نہیں ہیں۔ ان کا سرچشمہ اسلام، یوم قیامت اور موت کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے۔ جہاں بھی اسلام اپنے حقیقی معنی میں موجود ہے، سامراج کے خلاف یہ خطرہ وہاں ضرور پایا جائے گا۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لئے سامراج، اسلام سے جنگ کرنے پر مجبور ہے اور اس جنگ سے اسے کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ واقع امر یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے گھربار اور خانہ و کاشانے سے محروم کر دیا گيا ہے، اس قوم کو پورا حق ہے کہ واپس جائے اور اپنا گھر واپس لے۔ یہ حق کے لئے لڑی جانے والی جنگ ہے۔ امریکا اس جد و جہد کو دہشت گردی کا نام دیتا ہے لیکن فلسطینی مجاہدین کے خلاف جاری صیہونی خباثتوں کو دہشت گردی نہیں مانتا۔ ملت فلسطین وہ مظلوم قوم ہے جو مظلومیت کے ساتھ ہی شجاعت کا مظہر بھی ہے۔ یہ قوم عالم غربت میں خالی ہاتھ بھی بڑی شجاعانہ جنگ کر رہی ہے اور اس نے دنیا کی مادی طاقتوں کو جو سرکوبی اور قتل عام کے تمام تر وسائل سے لیس ہیں بے دست و پا کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹاپ صیہونی حکومت سے جنگ کے بنیادی محور:غاصب صیہونی حکومت سے جنگ کی بنیادی روش یہ ہونا چاہئے: - مقبوضہ علاقے کی حدود کے اندر غاصب حکومت کو قیدی بنا دینا، اس کے لئے سیاسی و اقتصادی عرصہ حیات تنگ کر دینا اور اطراف سے اس کا رابطہ منقطع کر دینا۔ - حتمی کامیابی مل جانے تک فلسطینی قوم کا ملک کے اندر اپنی مزاحمت و استقامت کو جاری رکھنا انہیں ہر ضروری امداد بہم پہنچانا۔ ٹاپ فلسطینی مجاہدین کے لئے نمونہ عمل:کئی سال سے فلسطین غاصبانہ قبضے میں ہے۔ کئی سال قبل بھی فلسطینی قوم میں جوان تھے۔ یہ جوان جو آج اس طرح میدان عمل میں نکل آئے ہیں انہوں نے کس کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے؟ ان نوجوانوں کا نمونہ عمل با ایمان و با اخلاص لبنانی نوجوان ہے۔ غزہ پٹی اور دریائے اردن کے مغربی ساحل پر جو فلسطینی نشین علاقہ ہے جب مظاہرے ہوتے ہیں تو مظاہرین حزب اللہ لبنان کے قائد سید حسن نصر اللہ کی تصاویر اپنے ہاتھوں میں لئے آگے بڑھتے ہیں۔ انہوں نے حزب اللہ لبنان کا پرچم مسجد الاقصی کے گنبد پر نصب کیا۔ البتہ صیہونیوں نے اسے وہاں نہیں رہنے دیا لیکن بہرحال انہوں نے جاکر وہاں نصب تو کر ہی دیا۔ بنابریں وہ (لبنانی نوجوان) فلسطینی نوجوان کے لئے نمونہ عمل بن گیا۔ حزب اللہ لبنان کے ٹی وی چینل المنار کے سب سے زیادہ ناظرین مقبوضہ فلسطین میں ہیں! جو نہ صرف یہ کہ اس کے پروگراموں کو دیکھتے ہیں بلکہ کسی پیاسے کی مانند اسے آب شیریں کی طرح ایک ایک گھونٹ کرکے اپنے وجود میں اتارتے ہیں۔ٹاپ جہاد، امت مسلمہ کا فریضہ:فقہائے اسلام کے درمیان اس سلسلے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے کہ اگر دشمن، مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کر لے اور کسی ملک میں پیکر اسلامی خطرے میں پڑ جائے تو تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ایک ہمہ گیر اور وسیع جہاد کے ذریعے اس دشمن کو پسپا کریں، اسے اسلامی سرزمین سے نکالیں اور اسے اس کی سزا دیں۔ امت مسلمہ اگر ہوش میں آ جائے تو اسے صاف محسوس ہوگا کہ مسلمانوں پر حالیہ ادوار میں نازل ہونے والی مصیبتوں میں یہ سب سے بڑی بلا ہے۔ اس مسئلے کے سلسلے میں اسلامی حکم بالکل واضح ہے۔ مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اسلامی حکم کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو فقہ کی ان تمام کتابوں میں مذکور جن میں جہاد کی بحث کی گئی ہے۔ اگر کفار آکر مسلمانوں کے ملک پر قبضہ یا اس کا محاصرہ لیں تو اس صورت میں جہاد کے واجب عینی ہونے کے بارے میں جدید و قدیم مسلم علما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس سلسلے میں ایک ہی نظرئے کے حامل ہیں۔ وہ جہاد جو جنگ کے آغاز کے طور پر کیا جائے واجب کفائی ہے لیکن دوسرے مواقع پر جب جہاد دفاعی ہو، جو جہاد کا واضح ترین مصداق ہے، تو وہ واجب عینی ہو جاتا ہے۔ٹاپ انتفاضہ مسجد الاقصی:پہلی تحریک انتفاضہ، صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی تلقینوں اور افواہوں، فلسطینیوں کو پر امن طریقے سے مراعات دینے کے وعدوں، ساز باز کرنے والوں کے نفوذ اور امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں متوقف ہو گئی۔ لیکن دس سال گزرتے گزرتے واضح ہو گیا کہ اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے دنیا میں صیہونزم کے حامیوں کی تمام کوششیں مسلمانوں کے جد و جہد ان کی سراسیمگی کا نتیجہ تھیں اور جو وعدے فلسطینیوں سے کئے گئے تھے وہ صرف اور صرف ایک سراب تھا۔ انتفاضہ مسجد الاقصی، فلسطینی عوام کی جد و جہد میں بہت اہم باب ہے۔ فلسطینیوں کی جد و جہد متعدد نشیب و فراز سے گزری ہے، انواع و اقسام کی سازشوں سے نمٹتی رہی ہے، بڑی سخت آزمائشوں سے گزری ہے، گوناگوں اسلحے کی جھنکاروں، جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی گھن گرج کو سنتی رہی ہے۔ آج اسے بخوبی علم ہو چکا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر اور ان کے حامیوں کے چنگل سے نجات کا واحد راستہ جہاد اور سعی پیہم ہے جس کی تائید مسلم رائے عامہ بھی کرتی ہے۔ صیہونیوں نے اپنی اسٹریٹیجی ملت فلسطین کی تحقیر اور تذلیل کی بنیاد پر وضع کی تھی لیکن فلسطینیوں نے اس اسٹریٹیجی کے خلاف اور صیہونی حکومت سے ہونے والے ذلت آمیز معاہدوں، امریکا کے تسلط پسندانہ نظام اور اس کے ساتھ ساز باز کرنے والے عناصر کے خلاف قیام شروع کر دیا اور اپنے لئے عز و شرف کے راستے کا انتخاب کیا۔ جرائم پیشہ اسرائیلی حکومت کو اندرونی سطح پر متعدد بحرانوں اور سرحدوں پر تحریک انتفاضہ سے روبرو کر دیا۔ انتفاضہ اقصی کا محور بیت المقدس ہے۔ یعنی وہ چنگاری جو فلسطینی عوام کے غیظ و غضب کے آتشفشاں میں تبدیل ہو گئی وہ صیہونیوں کے ہاتھوں مسجد الاقصی کی بے حرمتی کے باعث وجود میں آئی۔ فلسطینی عوام نے مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مقام کی حفاظت کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے میدان میں قدم رکھا اور ایثار و قربانی کی شاندار مثال پیش کرتے ہوئے غاصب صیہونیوں کے خلاف جنگ اور مقدس جد و جہد کو شعلہ ور کیا۔ ساز باز اور مفاہمت کی روش بلکہ واضح طور پر یوں کہا جائے کہ اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطینیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے تھے، اس با برکت تحریک انتفاضہ سے فلسطین میں قومی اتحاد دوبارہ بحال ہوا۔ اس جد و جہد میں سارے عوام شامل ہیں اور اسلامی تنظیمیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ ٹاپ انتفاضہ مسجد اقصی کا سبب:فلسطینی عوام کے قیام اور ان کی تحریک کا سبب اسلامی جمہوریہ ایران اور لبنانی عوام نہیں ہیں۔ فلسطینی تحریک اور جد و جہد کا بنیادی عنصر خود فلسطینی ہیں۔ فلسطینی تحریک انتفاضہ کا سبب اس نوجوان نسل کے دلوں میں جمع ہو جانے والے رنج و غم تھے جو پوری امید و نشاط کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہے۔ بے شک ایرانی قوم ان کی مداح ہے اور انہیں اپنے جیسا سمجھتی ہے۔ فلسطین، پیکر اسلام کا جز ہے اور ملت ایران فلسطینی قوم کے تعلق سے جذبہ اخوت و برادری رکھتی ہے البتہ تحریک انتفاضہ کو وہی (فلسطینی) آگے بڑھا رہے ہیں۔ٹاپ فلسطین، اسلامی بیداری کی تحریک کا محور:گزشتہ عشروں میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تحریک کے ظہور پذیر ہو جانے کے بعد اسلامی تحریک اور دسرے لفظوں میں کہا جائے اسلامی بیداری کی تحریک پوری آب و تاب کے ساتھ علاقے اور عالم اسلام کی سطح پر نمایاں ہو گئی ہے۔ اس وقت اس تحریک کا محور مسئلہ فلسطین ہے۔ فلسطین کی تحریک انتفاضہ فلسطین کی جغرافیائی سرحدوں اور فلسطینی قوم کے باہر بھی عام مسلمانوں اور عربوں کو میدان میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ (مسجد الاقصی کی تحریک انتفاضہ کی حمایت میں) عالم اسلام کے مشرق سے مغرب تک مسلمان قوموں کے شاندار مظاہرے اور ان میں دسیوں لاکھ کی تعداد میں شرکت سے ثابت ہو گيا ہے کہ فلسطینی عوام ان قوموں کی حمایت پر بھروسہ کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد قائم کرنے کے سلسلے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جس وقت لبنان میں اسلامی مزاحمت لبنانی بہادروں کے حوصلہ و ہمت اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی حمایت و ہدایت کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی اس وقت لبنان کے دارالحکومت بیروت پر اسرائیل کا قبضہ تھا اور اس ملک کے سیاسی امور اور فیصلے اس کی مٹھی میں تھے۔ اس دن اسلامی مزاحمت نے زحفا زحفا نحو القدس رفتہ رفتہ قدس کی سمت پیش قدمی کا نعرہ بلند کیا۔ کچھ ناواقف لوگوں نے انہیں سادہ لوح کہا اور ان پر طنز کئے کہ آپ لبنانی اپنے ملک کے دارالحکومت میں داخل ہونے تک سے عاجز و قاصر ہیں اور اوپر سے آپ قدس کی جانب پیش قدمی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اس دن سے لیکر اسرائیل کے خلاف اسلامی مزاحمت کی فتح تک صرف اٹھارہ سال کا وقت لگا۔ قوموں کی جد و جہد کی تاریخ میں اٹھارہ سال کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہے۔ ٹاپ استقامت، نجات کا راستہ:انتفاضہ مسجد الاقصی ایک عوامی تحریک ہے جس نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی عوام مفاہمتی کوششوں سے ناامید ہوکر یہ سمجھ چکے ہیں کہ کامیابی کا واحد راستہ استقامت و مزاحمت ہے۔ استقامت و مزاحمت وہ واحد راستہ ہے جسے اختیار کرکے مسلمانوں نے پہلی بار اسرائیل کو بغیر کوئی سہولیت دئے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے میں کامیابی حاصل کی اور اس عرب ملک یعنی لبنان کے دارالحکومت میں اپنا پرچم چھوڑ جانے کی صیہونی حکومت کی خواہش کو زندہ در گور کر دیا۔ کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیل کی عقب نشینی کے بدلے میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ اسرائیل اپنی فوجیں شمالی صحرائے سینا میں تعینات نہ کرے لیکن جنوبی لبنان میں حالت یہ ہوئی کہ یہی اسرائیل اسلامی مزاحمت و استقامت کے باعث لرزہ بر اندام ہوکر خود التجا کرنے لگا کہ فلسطین اور لبنان کی سرحد پر لبنانی فوج تعینات ہو۔ یعنی اسلامی مزاحمت کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ اس نے جنوبی لبنان اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں لبنان کے قومی اقتدار اعلی کو بحال کیا۔ٹاپ ساتواں باب: فلسطین کی تقدیر اور مستقبل بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:اب غاصب حکومت کے عمائدین جو ایک اسلامی ملک فلسطین پر قابض ہیں اور ان کے امریکی حامی جو بڑے ہی احمقانہ و ابلہانہ انداز میں ان کی ہمہ جہت حمایت کر رہے ہیں، اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ فلسطین کا نام تاریخ اور عوام کی یاد داشت سے پوری طرح مٹا دیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں فلسطین نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ انیس سو سینتالیس، اڑتالیس میں جب فلسطین پر پوری طرح قبضہ کر لیا گیا اور صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آ گئی اس وقت سے اب تک وہ یہ کام نہیں کر سکے اور آئندہ بھی عشروں تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے۔ جبکہ فلسطین اور فلسطینی عوام کو جاویدانی ملے گی۔ یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا اور فلسطینی و لبنانی جیالوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ایک دن پرچم فلسطین بھی لہرائے گا۔ صیہونزم اور فلسطین میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کا مقدر فنا ہے۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کریں اور اس کی ذات پر توکل کریں۔ فلسطینی جوان، لبنانی جوان، تمام عالم اسلام کے جوان اور سبھی دانشور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔ غاصب و ظالم صیہونیوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانا چاہئے کہ لبنان و فلسطین کی زیور ایمان سے آراستہ یہ نوجوان نسل ناقابل تسخیر ہے۔ فلسطینی قوم کے جذبہ ایمانی و قوت صبر پر استوار جہاد کو سیاسی سازباز، فوجی دباؤ، سکیورٹی کی چالوں اور تشہیراتی ہلڑ ہنگاموں سے روکا نہیں جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عظیم الشان ملت ایران کی قوت مزاحمت اور بے مثال استقامت کو ان فرسودہ اور ناکارہ حربوں سے مغلوب نہیں کیا جا سکا جنہیں گزشتہ برسوں کے دوران صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے جی بھر کے استعمال کیا ہے۔ ٹاپ یقینی مستقبل:فلسطین کی موجودہ صورت اس یقینی انجام اور مستقبل کی نوید دے رہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے صادق و ثابت قدم مجاہدین سے کیا ہے، وہ وعدہ جس کا پورا ہونا یقینی ہے۔ بے رحم و ظالم صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکا اور عالمی صیہونزم کو یہ زعم ہے کہ مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکتوں سے ملت فلسطین کو مغلوب کر لے جائیں گے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اس بھول میں پڑنے والوں کو آگے چل کر بہت بڑی چپت لگنے والی ہے۔ فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے، جلد یا کچھ دیر میں غاصب حکومت کو سرانجام اس حقیقت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مجاہدین کے دوش پر یہ عظیم اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ حتمی وعدہ الہی پر بھروسہ کریں اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آس لگائیں اور اپنی امید و جذبہ ایمانی اور جہاد کے ذریعے اپنی قوم اور اپنے ملک کو اپنا عظیم تحفہ پیش کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی بلا وقفہ حمایت کے نتیجے میں فلسطین بفضل الہی ایک دن آزآد ہو جائے گا اور بیت المقدس، مسجد الاقصی اور اس اسلامی سرزمین کا گوشہ گوشہ دوبارہ عالم اسلام کی آغوش میں آ جائے گا۔ ٹاپ شمشیر پر خون کی فتح:عالم اسلام کی رائے عامہ بھی یہ جان لے کہ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتیں کبھی بھی اسلامی ممالک کے معاملات میں صدق دل اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ثالثی کا رول ادا نہیں کریں گی۔ ان کا موقف اور رخ ظالم و جارح کی حمایت کا معاندانہ رخ ہے۔ مسلمانوں کا فریضہ ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ یہ فریضہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور اس سے کوئی بھی خود کو سبکدوش نہ سمجھے۔ سب مل کر فلسطینی قوم کی مدد کریں، اسے ضرورت کی چیزیں اور وسائل فراہم کریں، اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنا شجاعانہ جہاد اسی انداز سے جاری رکھ سکے۔ آج ملت فلسطین اپنی استقامت و پائیداری کے ذریعے، بے مثال شجاعت و بہادری کے ذریعے یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ خون، شمشیر کا مقابلہ کرنے کی طاقت و توانائی رکھتا ہے اور ایک دن دنیا دیکھ لے گی کہ خون کو شمشیر پر فتح کیسے ملتی ہے؟! ٹاپ
پہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیاراسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلام، انسانی حقوق کا ضامناسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقام اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق معاشرے میں عورت کا کردار خاندان میں عورت پر ظلم عورتوں کا بنیادی مسئلہ عورت اور مرد کے حقوق کا توازنسامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتتشدد اور عدم تشدددوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولمغرب میں عورت کا مقام و مرتبہامریکی معاشرے کے اقدارانسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعوییورپ اور انسانی حقوق کی پامالیبرطانوی انسانی حقوقتیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی: جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت: ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام: سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی: اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط: اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ: اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:انسانی حقوقپہلا باب: اسلام میں انسانی حقوقاسلام میں انسانی حقوق کا معیارمکتب اسلام یعنی انسانیت اور انسانی اقدار کی حمایت کا مکتب، مروت و ہمدردی کی ترویج کا مکتب، اخوت و بھائی چارے کی حمایت کا مکتب، یہ وہ مکتب ہے جوسماجی حقوق کا معیار ہے: لن تقدس امۃ لا تؤخذ للضعیف فیھا حقہ من القوی غیر متمتع صورت حال یہ ہو کہ معاشرے میں کوئی ایسا شخص جس کے ہاتھ دولت اور پیسے سے خالی ہوں وہ بھی طاقتور سے اپنا حق بغیر کسی دقت کے حاصل کر لے۔ یہ اسلام کا پیغام ہے۔ یہ حقیقی اسلامی معاشرہ ہے۔ آج یہی پیغام قوموں کو گرویدہ بنا رہا ہے۔ دنیا کے کس گوشے میں یہ اصول نافذ ہے؟ کون سی جمہوریت، کون سا لبرلزم اور کون سے انسانی حقوق ہیں جن کے بارے میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں، جو اس چیز کو پیش کر سکتے ہوں اور اس منزل کی سمت حرکت کر رہے ہوں؟ آج اس کے بالکل بر عکس عمل کیا جا رہا ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں انسانی حقوق کی بنیاداسلامی جمہوری نظام نے دنیا کے سامنے جو نظریہ پیش کیا وہ بالکل نیا اور پوری طرح دین سے ماخوذ ہے۔ مادی تجزیوں اور نظریات میں یہ بات عام ہو گئی تھی کہ جدیدیت کو دینی افکار اور معنوی سوچ سے الگ رکھا جائے بلکہ ان کو ایک دوسرے کا متضاد سمجھا جائے۔ دین و مذہب اور روحانیت و معنویت سے متعلق باتوں کو خواہ وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی رجعت پسندی سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ جس چیز کو بھی ماڈرن اور جدید قرار دیا جاتا اس کے بارے میں یہی تاثر ابھرتا تھا کہ یقینی طور پر یہ غیر مذہبی اور غیر روحانی چیز ہے۔ دین کے سلسلے میں یہ غلط تصور عام تھا۔ آج اس کے بالکل بر عکس اسلامی جمہوریہ نے جو سماجی انصاف پیش کیا ہے اور اسلامی روش کے تحت انسانی حقوق کا جو نظریہ متعارف کرایا ہے وہ جمہوری دنیا میں پیش کئے جانے والے نظریات سے بدرجہا بہتر و بلندتر ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا سماجی انصاف نام نہاد سوشیلسٹ دنیا سے کہیں زیادہ جدید اور ماڈرن ہے۔ ایران میں انسانی حقوق اور آزادی نام نہاد جمہوری دنیا سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور دنیا اس کی معترف بھی ہے۔ ٹاپ اسلام، انسانی حقوق کا ضامنعالم اسلام کو جمہوریت اور انسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کے غلط آئیدیل کی ضرورت نہیں ہے جس کی بارہا خلاف ورزی بھی کی جا چکی ہے۔ اسلامی تعلیمات میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مقام بہت نمایاں ہے۔ اسلام، انسانی حقوق و حرمت کا پاسباں، اخلاقیات و صفات حسنہ کا ضامن اور امن و سکون کا علمبردار ہے۔ بد ترین دروغگوئی اور پست پرین الزام تراشی کے مرتکب تو وہ افراد ہو رہے ہیں جو اسلام کو انسانی حقوق، تہذیب و تمدن اور امن و سلامتی کا مخالف قرار دیتے ہیں اور اسے مسلم اقوام پر اپنی ظالمانہ جارحیت و توسیع پسندی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے مالک اشتر کے نام اپنے معروف (نہج البلاغۃ، 331 ویں) خط میں ہدایات دیتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کرو، ایسا سلوک کرو، وحشی بھیڑیئے کی مانند ان پر ٹوٹ نہ پڑو۔ اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں: فانھم صنفان عوام دو طرح کے ہیں۔ اما اخ لک فی الدین و اما نظیر لک فی الخلق یا تمہارے دینی بھائی ہیں یا انسانیت میں تمہارے شریک ہیں، یعنی تمہاری طرح انسان ہیں۔ بنابریں مظلوم کے دفاع اور انسان کو اس کا حق دلانے کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے نزدیک اسلام کی شرط نہیں ہے۔ ( آپ کی نظر میں) مسلم اور غیر مسلم دونوں اس سلسلے میں مساوی ہیں۔ ذرا غور تو کیجئے کہ یہ کتنی بلند فکر ہے اور کتنا عظیم پرچم ہے جو تاریخ میں حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ اس وقت کچھ لوگ دنیا میں انسانی حقوق کی رٹ تو لگاتے ہیں، لیکن یہ سراسر جھوٹ اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کہیں بھی، حتی خود ان کے ملکوں میں بھی انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا، پوری دنیا کی تو بات ہی الگ ہے! حقیقی معنی میں انسانی حقوق کو اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے متعارف کرایا اور اس پر عمل کیا۔ اسلام تو مجرمین کے حقوق کا بھی خیال رکھے جانے کا قائل ہے۔ کسی کو بھی اس شخص سے بد کلامی کی اجازت نہیں جسے پھانسی دی جانے والی ہے۔ کیونکہ یہ زیادتی ہوگی، گالی دینا ظلم شمار ہوگا، گالی دینا اس کی حق تلفی ہوگی لہذا اس (گالی دینے والے) کو روکا جانا چاہئے۔ یہ ہے سزائے موت کے مجرمین کے ساتھ سلوک کا انداز تو پھر جیل کی سزا پانے والے اور اس شخص کی بات ہی الگ ہے جس پر عائد الزام ابھی ثابت نہیں ہوا ہے یا وہ شخص جس کے خلاف تہمت کی حقیقت ابھی واضح اور ثابت نہیں ہوئی ہے، صرف اس کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے۔ انسانی حقوق اور لوگوں کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ حق کا ہر ایک کے سلسلے میں پاس و لحاظ کیا جانا چاہئے۔ ٹاپاسلامی انسانی حقوق میں عورت کا مقاماسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوقاسلام میں خواتین کی بیعت، خواتین کی مالکیت، سیاسی و سماجی میدانوں میں عورتوں کا کردار ایک مسلمہ چیز ہے۔ اذا جائک المؤمنات یبایعنک علی ان لا یشرکن باللہ عورتیں آکر پیغمبر اسلام کی بیعت کرتی تھیں۔ پیغمبر اسلام نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ مرد آکر بیعت کریں اور پھر مردوں کی رائے اور فیصلے کے مطابق عورتیں بھی عمل کریں۔ عورتوں کو بھی اس حاکمیت کو قبول کرنے اور اس سیاسی و سماجی نظام کو تسلیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ مغرب والے اس لحاظ سے اسلام سے تیرہ سو سال پیچھے ہیں۔ٹاپ معاشرے میں عورت کا کرداراگر ملک میں خواتین کے طبقے کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ان معارف اور حقائق سے روشناس کرا دیا جائے جس کا اسلام نے حکم دیا ہے تو ملک کی ترقی و پیشرفت میں کئی گنا کا اضافہ ہو جائے گا۔ جس میدان میں بھی عورتیں ذمہ داری اور فرائض کے ساتھ وارد ہوں گی، اس میں ترقی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ مختلف میدانوں میں خواتین کی موجودگی کی خصوصیت یہ ہے کہ جب گھر کی عورت کسی میدان میں قدم رکھتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے شوہر اور بچے بھی اس میدان میں اتر گئے ہیں۔ مرد کا وارد ہونا اس چیز کا ضامن نہیں ہے لیکن عورت کی موجودگی اس کی ضامن ہے۔ ٹاپ خاندان میں عورت پر ظلماگر عورتوں کو علم و دانش کے حصول کا پورا موقع نہ دیا گیا تو یہ ان پر ظلم ہے۔ اگر بہت زیادہ مصروفیات اور کاموں کی بنا پر عورت اپنے اخلاق، اپنے دین اور معرفت کی فکر نہ کر سکے تو یہ اس کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اگر عورت کو اس کی نجی ملکیت سے اس کے ارادے کے مطابق آزادانہ استفادے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ شادی کے وقت اگر عورت پر شوہر کو مسلط کر دیا جائے یعنی شوہر کے انتخاب میں اس کا کوئی کردار نہ ہو اور اس کا ارادہ و خواہش اس میں دخیل نہ ہو تو یہ سراسر ظلم ہے۔ ازدواجی زندگی کے دوران یا شوہر سے الگ ہو جانے کے بعد اگر عورت کو بچوں کے سلسلے میں اس کے جذبات کی تسکین کا موقع نہ دیا جائے تو یہ ظلم ہے۔ اگر عورت کے اندر صلاحیتیں ہیں، مثلا علمی صلاحیت، تحقیق و ایجادات کی صلاحیت، سیاسی توانائی، سماجی کاموں کی صلاحیت اور اسے اس استعداد سے استفادے اور اس صلاحیت کو نکھارنے کا موقع نہ دیا جائے تو یہ اس پر ظلم ہے۔ٹاپ عورتوں کا بنیادی مسئلہعورتوں کا بنیادی مسئلہ و معاملہ یہ نہیں ہے کہ انہیں روزگار ملا ہے یا نہیں۔ عورت کی بنیادی ضرورت، وہ جو بد قسمتی سے آج مغرب میں نظر انداز کر دی گئی ہے، سلامتی ہے۔ اسے احساس تحفظ کی ضرورت ہے، احساس طمانیت کی ضرورت ہے، صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے امکانات فراہم کئے جانے کی ضرورت ہے، معاشرے، ماں باپ کے گھر اور شوہر کے گھر میں ظلم اور نا انصافی سے محفوظ رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ عورت اور مرد کے حقوق کا توازناسلام انسانیت کے تکامل کی حمایت کرتے ہے۔ اس زاوئے سے اسلام کی نظر میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عورت اور مرد اسانیت کے وجود کے دو پہلو ہیں۔ انسانی اور روحانی پہلو سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ عورتوں کے حقوق کے دفاع سے اسلام کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں پر ظلم نہ ہو اور مرد خود کو عورتوں کا حاکم تصور نہ کریں۔ خاندانی زندگی میں کچھ حدیں اور حقوق ہوتے ہیں۔ مرد کے بھی حقوق ہیں تو عورت کے بھی کچھ حقوق ہیں اور یہ حقوق بڑے منصفانہ اور متوازن انداز میں بیان اور معین کئے گئے ہیں۔ اسلام میں انسانی اخلاق کو اہمیت دی گئی ہے، صلاحیتوں کو اہمیت دی گئی ہے۔ بنی آدم کی ہر فرد کے لئے کچھ فرائض رکھے گئے ہیں۔ بنابریں مزاج کو پہچاننا ضروری ہے۔ اسلام مرد اور عورت کے مزاج پر پوری توجہ دیتا ہے۔ اسلام نے توازن پر زور دیا ہے۔ یعنی انسانوں منجملہ مرد اور عورت کے درمیان عدل و انصاف کے تقاضوں کا پاس و لحاظ کرنا۔ اسلام میں مساوی حقوق کی بات کی گئی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مقام پر عورتوں اور مردوں کے احکام الگ الگ ہوں کیونکہ بعض چیزوں کے لحاظ سے عورت اور مرد کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بنابریں عورت اور مرد کے سلسلے میں مزاج اور خصلتوں کی بیشترین معلومات اور حقائق اسلامی تعلیمات میں موجود ہیں۔ ٹاپ سامراج کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے، اسلام کی مخالفتعالمی دشمنوں یعنی امریکا کی سرکردگی میں سامراج اور دیگر چھوٹے بڑے دشمنوں کی جانب سے دنیا کے ہر گوشے میں ایران کی مخالفت کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف محاذ کھولنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام کو غارتگروں کی راہ میں حائل پاتے ہیں اس لئے اسلام کے مخالف ہیں۔ ملکوں کی ثروت لوٹنے والے آوارہ کتوں کو اسلام سے پڑنے والی دتکار دیکھتے ہیں تو اسلام کی مخالفت کرنے لگتے ہیں اور اسے انسانی حقوق کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ اسلام لوگوں کے نظروں سے اتر جائے۔ جبکہ اسلام تو انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ انسانی حقوق کسے کہتے ہیں؟ کیا وہ فلسطینی جو اس سردی کے موسم میں خبیث صیہونیوں کے ہاتھوں آوارہ وطن کر دئے گئے، انسان نہیں ہیں؟! کیا ان کے کچھ حقوق نہیں ہیں؟ ان کے سلسلے میں انسانی حقوق کا اصول لاگو نہیں ہوتا۔ انسانی حقوق کے جس منشور کا یہ صاحبان بڑا دم بھرتے ہیں کیا اس کی اہم ترین شق یہ نہیں ہے کہ ہر انسان اپنے گھر کے انتخاب کے سلسلے میں آزاد ہے اور اپنی رہائش کے انتخاب کا حق رکھتا ہے؟ تو کیوں ان (فلسطینیوں) کے گھر میں درانہ گھس گئے اور انہیں ان ہی گھر سے نکال باہر کیا؟! کیا فلسطین، فلسطینیوں کا گھر نہیں؟ اسی کو انسانی حقوق کہتے ہیں؟ فلسطینی، انسان نہیں ہیں؟ آج کون ہے جو انسانی حقوق کے دعویداروں کے ان جھوٹے اور شیطانی حربوں سے واقف نہ ہو؟ٹاپ تشدد اور عدم تشددعدم تشدد اور تشدد یوں تو ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔ کہیں تشدد سے کام لینا پڑتا ہے اور کہیں عدم تشدد کو اپنایا جاتا ہے۔ بعض افراد جو عالمی سطح پر عدم تشدد اور انسانی حقوق کے دعوے کرتے ہیں وہی بد ترین تشدد اور انسانوں کے قتل عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور بعد میں عدم تشدد کی اور نرم ولطیف برتاؤ کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ تشدد اور عدم تشدد کے بارے میں بہت تصنع اور ریاکاری سے کام لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر سخت برتاؤ کرنا پڑتا ہے اور کچھ چیزوں کو نظر انداز اور ان سے چشم پوشی کرنا ممکن اور مناسب نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ مقامات پر نرمی اور احترام سے پیش آنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ دونوں ہی چیزیں موجود ہونا چاہئیں۔ٹاپدوسرا باب: مغرب میں انسانی حقوقانسانی حقوق کے سلسلے میں مغرب کی سیاہ کارکردگیانسانی حقوق کی سیاہ کارکردگی والے مغربی ممالک آج عالم اسلام کو انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا درس دینے کی کوشش کر رہے ہیں، امن و آشتی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جن لوگوں نے بیس سال کے اندر دو عالمی جنگیں برپا کر دیں اور دسیوں لاکھ انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ جن لوگوں نے ایٹم بم بنایا اور اس سے ہزاروں انسانوں کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، جن لوگوں نے افریقا میں، لاطینی امریکا میں اور ایشیا میں بے شمار جرائم کئے، انسانوں کا قتل عام کیا، جن کے جرائم کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا، ہندوستان میں کوئی بھی فرنگیوں کو فراموش نہیں کرے گا اور نہ الجزائر میں کوئی فرانسیسیوں کو بھلا سکے گا۔ کیمیاوی ہتھیار بنانے والے، انہیں استعمال کرنے والے اور ان ہتھیاروں سے صدام کو مسلح کرنے والے آج دنیا میں کیمیاوی ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والے داروغا کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے سب سے بڑے اسمگلر کو اسمگلنگ روکنے کا کام سونپ دیا جائے۔!ٹاپ انسانی حقوق کے نام پر مفادات کا حصولصیہونزم اور امریکا بلکہ در حقیقت دنیا کے لٹیرے سرمایہ داروں سے وابستہ تشہیراتی ادارے پوری عالمی برادری کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ گویا جمہوریت کے بڑے طرفدار ہیں جبکہ سراسر جھوٹ بولتے ہیں۔ خود کو انسانی حقوق کا طرفدار ظاہر کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر غلط بیانی ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے۔ یہ کمپنیاں، یہ ٹرسٹ جس چیز کی ذرہ برابر فکر نہیں کرتے اور جس چیز کا ان کی نظر میں کوئی احترام نہیں ہے وہ قوموں کے حقوق ہیں، وہ انسانی حقوق ہیں۔ٹاپ مغرب میں عورت کا مقام و مرتبہیورپ اور مغربی ممالک میں کچھ عرصہ قبل تک عورتیں مالی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہوتی تھیں۔ بیسویں صدی کے اوائل تک، تمام تر دعوؤں کے باوجود، مغرب میں روز بروز عجیب و غریب انداز سے بڑھنے والی بے پردگی کے باوجود، اس بے لگام جنسی آزادی کے باوجود، جسے وہ عورت کے احترام کا معیار قرار دیتے ہیں، مغرب میں عورتوں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنی ذاتی دولت کا آزادانہ استعمال کریں۔! شوہر کے سامنے اس کے اپنے مال پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا۔ یعنی جو عورت شادی کر لیتی تھی اس کا سارا مال و اسباب اس کے شوہر کا ہو جاتا تھا۔ اس کو اپنا یہ مال خرچ کرنے کا بھی حق نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بیسویں صدی کے اوائل سے عورتوں کو مالکانہ حقوق ملنے شروع ہوئے۔ حالانکہ یہ چیز انسانی حقوق کی بالکل بنیادی چیزوں میں ہے۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ ہمیں اس بات کا جواب دے کہ اس نے گزشتہ ادوار میں عورتوں کی اتنی توہین کیوں کی۔ٹاپ امریکی معاشرے کے اقدارآپ کیا سمجھتے ہیں، امریکی اقدار کیا ہیں؟ امریکی کچھ اصولوں کو امریکی اصول کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عالمی اصول ہیں۔ ان اصولوں میں انسانوں کی آزادی، فکر و نظر کی آزادی، انسانی وقار، انسانی حقوق وغیرہ جیسی چیزیں ہیں۔ کیا واقعی یہ امریکی اصول ہیں؟! کیا امریکی معاشرے کے یہی اوصاف ہیں؟! کیا آج امریکی حکومت کی یہی شناخت ہے جو آپ نے ذکر فرمائی ہے؟! کیا یہی حکومت نہیں تھی جس نے امریکی سرزمین کے اصلی باشندوں کا قتل عام کیا؟! جس نے امریکی ریڈ انڈینس کو نابود کر دیا؟ کیا اسی حکومت کے با اثر عناصر نہیں تھے جنہوں نے دسیوں لاکھ افریقیوں کو انہی کی سرزمین میں غلامی کی زنجیر پہنا دی۔ ان کے جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اغوا کر لیا اور ان کے ساتھ برسہا برس تک ظالمانہ برتاؤ کیا؟ uncle Tom`s cabin یا چچا ٹام کی کیبن نامی ناول شاید دنیا کی نہایت غم انگیز داستان ہے جس میں امریکا میں غلاموں کی زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ دو سو سال کے بعد بھی یہ ناول موجود ہے۔ امریکا اور امریکی حکومت کی اصلی تصویر یہ ہے۔ امریکی نظام کی اصلی تصویر اور پہچان یہی ہے، آزادی اور انسانوں کی برابری نہیں۔ کیسی برابری؟! آپ آج بھی سیاہ اور سفید فاموں کے درمیان مساوات کے قائل نہیں ہیں۔ آج بھی آپ کی نظر میں کسی محکمے کے لئے کسی شخص کے انتخاب میں اس کے ماں باپ میں سے کسی ایک کا بھی ریڈ انڈین ہونا اس کے لئے منفی پہلو سمجھا جاتا ہے۔ دعوی کرتے ہیں کہ امریکی اصولوں کی گیرائی عالمی ہے۔ آپ کون ہوتے ہیں انسانیت کے لئے ہمہ گیر اصول وضع کرنے والے؟! یہ کون سی منطق ہے کہ جو ہمارا اصول ہے وہی عالمی اصول ہے۔ اگر دنیا میں کوئی اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اسے جاکر ایٹم بم سے نابود کر دیا جائے؟! یہ کسی حریت پسند قوم کا طرز فکر ہے؟! کیا واقعی یہ اس حکومت کا طرز فکر ہو سکتا ہے جو حقیقی معنی میں انسانی وقار کی قائل ہے؟! آپ اس طرح انسانی معاشرے سے جھوٹ بولتے ہیں؟!ٹاپ انسانی حقوق کی حمایت کا جھوٹا دعویکس کو نہیں معلوم ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کے انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت کے دعوے فریب اور دھوکے کے علاوہ کچھ نہیں ہیں؟ ان برسوں میں قتل عام کی بد ترین مثالیں پیش کرنے والی امریکی حکومت، جس نے ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کی خود مختار حکومتوں کے خلاف سازشیں کیں، جس نے بغاوت کرنے والی اور عوام پر مسلط کر دی جانے والی رجعت پسند حکومتوں کی بھرپور حمایت کی، جس نے دنیا بھر میں مہلک ترین ہتھیاروں کی سپلائی کی، جس نے خطرناک ترین دہشت گردوں کو خود میدان میں بھیجا یا اپنی آغوش میں پالا، جس نے بے شمار عام شہریوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا، جس نے دنیا کی سب سے مظلوم قوم یعنی فلسطینیوں کو ان کے بنیادی ترین حقوق سے محروم کر دیا، جس نے درندہ صفت صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ مدد کی، جس نے جابر و بد عنوان پہلوی حکومت کو دسیوں سال باقی رکھا اور ملت ایران کے ساتھ اقتصادی، دفاعی اور سیاسی شعبوں میں بد ترین نا انصافی اور خیانت کی، آج وہی، ایران کے آزاد و خود مختار اور عوامی نظام پر دہشت گردوں کی حمایت، انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہتھیاروں کی پیداوار اور تجارت کا الزام لگاتی ہے۔ امریکی حکومت نے انیس سو پینتالیس سے اب تک چالیس خود مختار حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا جو امریکی حکومت کی تابع و فرمانبردار نہیں تھیں اور اس نے بیس سے زائد مواقع پر فوجی مداخلت کی! بلا شبہ ان مداختلوں کے دوران بڑے پیمانے پر قتل عام ہوئے اور بڑے المئے رونما ہوئے۔ البتہ بعض مواقع پر اسے کامیابی ملی اور بعض مواقع پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ منجملہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے وقت جاپان پر ایٹمی بمباری ہے۔ ویتنام کی خونیں جنگیں، وہ بھیانک لڑائياں، وہ ناقابل فراموش المئے جو آخرکار امریکا کی شکست پر ختم ہوئے۔ چلی کی مثال لے لیجئے، خود ایران کی مثال لے لیجئے کہ اٹھائیس مرداد مطابق انیس اگست کو امریکی نمائندہ ایران آتا ہے اور منصوبہ بندی میں جٹ جاتا ہے، یہ سب خود انہی کی جانب سے بعد میں منظر عام پر لایا گيا اور آج یہ اطلاعات سب کی دسترسی میں ہیں۔ اسی طرح دوسری جگہوں پر بھی ہوا۔ یہ سب کارستانیاں تھی بڑی اقتصادی کمپنیوں کی، امریکا کے بڑے سرمایہ داروں کی، جاہ طلب جماعتوں کی، با اثر صیہنی عناصر کی اور فکری و اخلاقی لحاظ سے بیمار ان شخصیات کی جن کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔ یہ بڑے سنگین جرائم کا ریکارڈ ہے، یہ بڑا شرمناک ماضی ہے۔ یہ معمولی چیزیں نہیں ہیں۔ ان لوگوں کے لئے انسانی جانوں کا ضیاع، ذخائر کی نابودی اور انصاف کی خلاف ورزی اور کسی انسانی المئے کا رونما ہو جانا کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ان کی راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنتیں۔ البتہ تصنع اور ریاکاری کے لئے ان کے پاس وسیع تشہیراتی وسائل اور ذرائع ابلاغ عامہ بھی موجود ہیں جسے بلندتر آواز کہنا مناسبت ہوگا۔ وہ اپنی اس بلند تر آواز کے ذریعے دنیا کی فضا کو ایسی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کے ہاتھوں رونما ہونے والے المئے کی پردہ پوشی ہو جائے، انہیں امن و جمہوریت اور انسانی حقوق کے حامی کے طور پر پہچانا جائے۔ سینئر بش کے دور صدارت میں سیاہ فاموں پر جو آشکارا مظاہم ہوئے ان کےنتیجے میں امریکا کی بعض ریاستوں میں بڑے پیمانے پر بغاوتیں شروع ہو گئیں۔ پولیس ان پر قابو نہ پا سکی تو فوج کو تعینات کیا گيا۔ اس کے بعد والے صدر کے زمانے میں مسیحی مذہب کی ایک شاخ داؤدیہ یا ڈیوڈین فرقے کے اسی افراد کو، جو حکومت کی پالیسیوں کے مخالف تھے اور ایک عمارت میں جمع تھے اور پولیس کے الٹی میٹم پر بھی باہر نہیں نکل رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی آنکھوں کے سامنے آگ میں زندہ جلا دیا گيا اور ان کی ابرو پر بل تک نہیں پڑے! انسانی حقوق کی پاسداری کا ان کا یہ انداز ہے! جونیئر بش کے دور صدارت میں شمالی افغانستان میں، جب وہ افغانستان پر قبضہ کر رہے تھے، لوگوں پر جو بم برسائے گئے، شہروں میں جو دردناک المئے برپا کئے وہ سب اپنی جگہ، ایک جیل میں قید بہت سے قیدیوں پر گولیاں برسا کر ان کا قتل عام کر دیا گیا۔ یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی بھی لیکن صحافتی ڈکٹیٹروں نے ان خبروں کو زیادہ دیر تک منظر عام پر رہنے نہیں دیا، فورا اس کے بارے میں گفتگو بند کر دی کہ کہیں لوگوں کہ ذہن نشین نہ ہو جائے۔ امریکا میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور دنیا بھر میں امریکیوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات بے شمار ہیں لیکن وہ الٹے دنیا کے عوام، ملت ایران، حکومت ایران اور اسلامی نظام پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے الزام عائد کرتے ہیں! انسانی حقوق کا پرچم ان افراد نے بلند کیا ہوا ہے جو در حقیقت سب سے زیادہ انسانی حقوق کو پامال کر رہے ہیں۔ ٹاپ یورپ اور انسانی حقوق کی پامالیگزشتہ صدی کے دوران یورپی ممالک نے سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کیا ہے۔ اگر کوئی سو سال سے قبل کی تاریخ کا جائزہ لے تو وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئے گی۔ ان سو سالوں میں ان یورپی حضرات نے دو خانماں سوز عالمی جنگیں برپا کیں۔ یہ دونوں عالمی جنگیں دسیوں سال قبل ہوئی تھیں، خود موجودہ دور میں بھی کن لوگوں نے عراق میں کیمیاوی اسلحے کا کارخانہ تیار کیا جس سے اتنا بھیانک المیہ رونما ہوا؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کس نے عراق میں ایٹم بم بنانے کے لئے ایٹمی تنصیبات کی تعمیر کی جس سے پورے خطے کے لئے خطرات پیدا ہو گئے تھے؟ انہی یورپی ملکوں نے۔ کون اسرائیل کے جرائم کے لئے زمین ہموار کر رہا ہے جس کی بنا پر وہ آئے دن نئے نئے جرائم انجام دے رہا ہے؟ یہی مغربی ممالک۔ٹاپ برطانوی انسانی حقوقانگریزوں نے خود کو پوری دنیا میں رواداری اور درگذر کے لئے مشہور کر رکھا ہے۔ ویسے لوگوں نے اس تسامح اور درگذر کا مشاہدہ عراق میں کر لیا ہے! اسلحے کے ساتھ لوگوں کے گھروں میں گھسنا، پرسکون زندگی کو جہنم بنا دینا، کمسن بچوں کو دہشت زدہ کر دینا، بغداد اور موصل میں اسی طرح دیگر جگہوں پر جن کی خبریں ہمیں موصول نہیں ہوئیں، عوامی مظاہروں پر گولیاں برسانا، یہی جمہوریت، انسان دوستی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کی پاسداری ہے؟! یہ عبرت کا مقام ہے۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ٹاپ تیسرا باب: ایران اور انسانی حقوقاسلامی جمہوری نظام میں انسانی حقوق:انسانی حقوق، اسلام اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ یقینی بنتے ہیں۔ اسلام ہے جو کہتا ہے: ان الحکم الا للہ امر الا تعبدوا الا ایاہ یہ حکم ہر ظالم حکومت کی نفی کرتا ہے۔ کسی کو عوام پر حکمرانی کا حق نہیں ہے سوائے اس کے جو مسلمہ معیاروں پر پورا اترے اور عوام میں اسے پذیرائی حاصل ہو۔ اسلام انسانی حقوق کا طرفدار ہے، کسی بھی مکتب فکر میں انسان کو وہ وقار، ارزش اور اہمیت نہیں دی گئی ہے جو اسلام نے دی ہے۔ اسلام کے تعارف کے موقع پر ایک اصول ہمیشہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کی توقیر ایک بنیادی اصول ہے۔ اسلام کے زیر سایہ انسانی حقوق کا دفاع ہوتا ہے اور انسانی حقوق کو معنی و مفہوم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام ہے جو اپنے احکام کے ذریعے، خواہ وہ عدالتی احکامات ہوں یا تعزیراتی احکامات، شہری احکامات ہوں، سماجی احکامات ہوں یا سیاسی مسائل و امور، انسانی حقوق کا دفاع کرتا ہے۔ لیکن اس کا دفاع نہیں جسے ان (مغرب کے) لوگوں نے عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کا نام دے دیا ہے۔ مغربی ممالک اسلامی جمہوریہ پر بہتان اور تہمت لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کا پاس و لحاظ نہیں کرتا۔ ان کا اشارہ اسلامی حدیں جاری کئے جانے کی طرف ہوتا ہے، کیونکہ اسلامی جمہوریہ میں اسلامی حدیں جاری کی جاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے: وتلک حدود اللہ و من یتعد حدود اللہ جو بھی الہی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ تعالی کے غضب و عقاب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام انسانی حقوق کا حامی و طرفدار ہے اور اس انتظار میں بیٹھنے والا نہیں کہ مغرب والے آکر اسے انسانی حقوق کی تعلیم دیں یا اسے انسانی حقوق کا پاس و لحاظ کرنے کی نصیحت کریں۔ اسلامی جمہوریہ اسلام کے احکامات و فرامین کے مطابق انسانی حقوق کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں میں شامل ہے۔ مغرب والے جو بات کہتے ہیں وہ محض فریب اور دھوکہ ہے۔ تو وہ رہی عورتوں کے حقوق کی ان کی طرفداری اور یہ ہے انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کا حال! دنیا کے استبدادی و سامراجی عناصر اور لٹیرے، قوموں کے حقوق کو در خور اعتنا نہ سمجھنے والے، کمزور قوموں کے مفادات کو کچل دینے والے اور کمزور ممالک پر غاصبانہ قبضہ کر لینے والے آج انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے نام نہاد دفاع کا پرچم اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمان قومیں ان پر بھروسہ کرنے والی نہیں ہیں۔ اسلام کے نورانی احکام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ موجودہ دور میں، ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر سمت سے انحرافی تشہیرات اور پروپیگنڈوں کا سیلاب جاری ہے، مسلمان عورت اس شجاعت و فکری آزادی کے ساتھ اپنی توانائیوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ یہ اسلام کی برکتیں ہیں۔ مسلمان عورت کی اسلامی و انقلابی تربیت اسلامی جمہوریہ کا طرہ امتیاز اور قابل فخر کامیابی ہے۔ ٹاپ اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کی آزادی:جمہوری نظام میں عوام کو آگاہ رکھنے کی اہمیت:عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔ٹاپ ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں پرنٹ میڈیا کا مقام:ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہیں ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔ٹاپ سرمایہ دارانہ نظاموں کے پرنٹ میڈیا کی آزادی:پ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ یہ تو کوئی آزادی نہیں ہوئی۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی کثرت کی شرط:میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔ٹاپ اسلامی نظام میں اخبارات و جرائد کا اولیں فریضہ:اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔ٹاپ اخبارات و جرائد کی نگرانی کی ضرورت:میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔ ٹاپ انسانی حقوق کے معاملے میں سیاسی پسپائی سے اجتناب:آج کل سیاسی اور ثقافتی امور میں سامراجی طاقتیں یہ حربہ اپناتی ہیں کہ دوسروں کو مغرب کے طرز فکر کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا کر دیں۔ عورتوں کا مسئلہ ہو، انسانی حقوق کا معاملہ ہو، جمہوریت کی بات ہو یا حریت پسند تحریکوں کا موضوع، اپنے فریق کو پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے مغربی حکومتیں بھاری ہنگامہ آرائی کرتی ہیں۔ اس طرح بات کرتی ہیں کہ ان کی مرضی معلوم کی جائے، یہی پسپائی ہے۔ جو لوگ در حقیقت انسانی حقوق کو ہرگز کوئی وقعت نہیں دیتے انہوں نے اسے دوسروں کو ہانکنے والا ڈنڈا بنا لیا ہے! امریکا دنیا میں انسانی حقوق کا ٹھیکیدار بن بیٹھا ہے۔ جنگ کے آغاز سے قبل تک امریکا کی نظر میں عراقی حکومت دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی ہمنوا و مددگار تھی، انیس سو اکاسی- بیاسی میں ایرانی جیالے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لے گئے اور انہوں نے اسے اپنی سرحدوں سے باہر نکال دیا۔ عراقی دشمن ایرانی بہادروں کا مقابلہ کرنے کے لئے کیمیاوی اور عام تباہی کے اسلحے استعمال کرنے یعنی جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے پر تیار ہو گیا، اسی موقع پر امریکی حکومت کو یہ احساس ہوا کہ عراقیوں کی مدد کرنا چاہئے تاکہ عراق کی بعثی حکومت اسلامی جمہوری نظام کے خلاف اپنا خیانت آمیز کردار کامیابی سے ادا کر سکے۔ انہی برسوں میں عراقی حکومت نے کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ اور ان لوگوں (امریکیوں) نے عراق کا نام دہشت گردی کی حامی حکومتوں کی فہرست سے نکال دیا! انسانی حقوق کے لئے ان کی حمایت کی حقیقت یہ ہے! دنیا میں جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے وہاں اس عمل کی سب سے زیادہ حمایت یہی امریکا جیسی سامراجی حکومتیں ہی کر رہی ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہی انسانی حقوق کی ٹھیکیدار بھی بنی بیٹھی ہیں اور اسے ان حکومتوں اور قوموں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جو ان سے بھڑ جاتی ہیں۔ ان حالات میں اگر کچھ لوگ آکر (ٹکرا جانے والی حکومتوں اور قوموں کو) منانے کی کوشش کریں تو یہ بالکل غلط پالیسی ہے کیونکہ اس کا مطلب دشمن کے مقابلے میں پسپائی ہے۔ حقوق نسواں کے سلسلے میں بھی یہی چیز ہے۔ بر حق حکومت کی تشکیل کے بعد اسلامی ملک ایران میں اللہ تعالی کے فضل و کرم سے عورتیں بڑی حد تک اپنا تشخص بحال کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ وہ مختلف شعبوں میں کردار ادا کرنے اور مسلمان عورت کے جذبات کی عظمت کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور مغرب والے ہیں کہ اسلامی جمہوری نظام میں عورتوں کے حقوق کی پامالی و خلاف ورزی کی ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ مغربی دنیا کو چاہئے کہ اپنا نقطہ نگاہ اسلامی جمہوریہ کے نقطہ نگاہ کے قریب اور اس سے ہم آہنگ کرے۔ مغرب والوں کو چاہئے کہ حقوق نسواں، انسانی حقوق، آزادی اور جمہوریت کے بارے میں اپنے غلط نقطہ نگاہ کی اصلاح کریں اور اسے اسلامی نظریات کی کسوٹی پر پرکھیں۔ ملت ایران نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کے ڈھیٹ پنے، توسیع پسندی اور تسلط پسندی کے سامنے ایک قدم بھی پسپائی اختیار کرنے والی نہیں ہے۔ یہ بڑی اچھی روش ہے۔ ٹاپ ایران اور مغرب میں انسانی حقوق کی دو طرفہ نگرانی:اگر انسانی حقوق کے سلسلے میں تشویش ہے، جیسا کہ ہم بھی یورپی ملکوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں تو فریقین اپنے اپنے نمائندے بھیجیں اور نگرانی کریں، دیکھیں۔ وہ لوگ یہاں آئیں اور ہم اپنے نمائندے ان کے ہاں بھیجیں جو یہ دیکھیں کہ جیلوں اور حکومتی و سماجی و شہری اداروں اور محکموں میں انسانی حقوق کی کیا صورت حال ہے اور انسانی حقوق کا کتنا پاس و لحاظ کیا جاتا ہے۔ یہ ایک منطقی و معقول تجویز ہے۔ ان اقدامات سے اسلامی جمہوریہ ایران اور مغرب کا باہمی رابطہ بھی فروغ کی منزلیں طے کرےگا۔ تشویش ناک باتوں کا جائزہ دونوں فریقوں کی جانب سے لیا جانا چاہئے۔ٹاپ
اسلام میں دولت کا حصولقومی ثروت کے اضافے کی شرائطاسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاددولت و ثروت کے حصول کی اہمیتپیداوارانصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںثروت کی تقسیمدولت کی تقسیم کا معیاراسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیمانٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفاسلامی معیشت میں دولت کا حصولاسلام میں دولت کا حصولقانونی اور جائز طریقے سے دولت مند بننے میں اسلام کی نظر سے کوئی قباحت نہیں ہے۔ حکومتی عہدہ داروں کو چاہئے کہ عوام کو اقتصادی سرگرمیوں اور فعالیت میں شراکت کی راہوں سے آشنا و آگاہ کریں۔ اس طرح کی پالیسیاں معاشرے کے لئے عمومی دولت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اسلام نے دولت کمانے سے ہرگز نہیں روکا ہے۔ البتہ دولت پیدا کرنے اور دوسروں کا سرمایہ لوٹنے میں بڑا فرق ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ کوئی عمومی سرمائے پر دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی شخص غیر قانونی طریقوں سے، قانون کی پابندی کو ترک کرکے مادی وسائل حاصل کرتا ہے، یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ لیکن اگر قانونی طریقے سے دولت حاصل کی جائے تو شریعت مقدسہ اور اسلام کی نظر سے یہ فعل پسندیدہ و مستحسن ہے۔ دولت حاصل کی جانی چاہئے لیکن اسراف سے بچنا چاہئے۔ اسلام کہتا ہے کہ دولت حاصل کیجئے لیکن اسراف نہ کیجئے۔ فضول خرچی کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے جو دولت حاصل کی ہے اس کو بنیاد اور ذریعہ بناکر مزید دولت حاصل کیجئے۔ پیسے کو جمود اور بانجھپن کا شکار نہ بنائیے۔ اسلام میں اس کو کنز تیار کرنے کا نام دیا گيا ہے۔ اسی طرح فضول خرچی اور پیسے کے خرچ میں بے احتیاطی سے پرہیز کیجئے، پیسہ غیر ضروری چیزوں پر خرچ نہ کیجئے۔ ان چیزوں کا بھی خیال کیجئے اور ساتھ ہی دولت بڑھانے کی بھی فکر میں رہئے۔ عوام کی دولت در حقیقت ملک کا عمومی سرمایہ ہے، اس سے سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔ٹاپ قومی ثروت کے اضافے کی شرائطقومی ثروت کے لحاظ سے ملک کو بے نیاز اور خود کفیل بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سرمایہ کاری، اقتصادی سرگرمیاں اور دولت کی پیداوار ملک کے تمام فعال افراد کے اختیار میں قرار پائيں۔ یعنی ہر ایک کو اس میدان میں کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس کی حمایت کرے اور قانون بھی اس میں ممد و معاون ثابت ہو۔ ٹاپ اسلامی اقتصادیات کی فکری بنیاداسلامی اقتصادیات میں دو اہم بنیادیں نظر آتی ہیں۔ ہر اقتصادی روش اور ہر اقتصادی نسخہ جس میں ان دونوں بنیادوں کا خیال رکھا گیا ہو، معتبر ہے جبکہ ہر وہ روش اور پروجیکٹ جو بظاہر دینی اساس پر استوار ہو لیکن ان دونوں بنیادوں سے عاری وہ اسلامی نہیں ہے۔ ان دونوں میں سے ایک بنیاد ہے: قومی ثروت میں اضافہ۔ اسلامی ملک کو دولت مند اور ثرورت مند ملک ہونا چاہئے۔ فقیر ملک نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں یہ صلاحیت ہو کہ اپنی ثروت سے اور اپنی اقتصادی توانائی سے عالمی سطح پر اپنے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکے۔ دوسری بنیاد، ثروت کی منصفانہ تقسیم اور معاشرے سے محرومیت کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں بنیادیں لازمی ہیں۔ پہلی بنیاد دوسری بنیاد کی شرط ہے۔ اگر ثروت کی پیداوار نہ ہو، اگر دولت حاصل نہ کی جائے تو غربت کو معاشرے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بنابریں یہ دونوں چیزیں لازمی ہیں۔ٹاپ دولت و ثروت کے حصول کی اہمیتدو چیزوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ایک چیز ثروت پیدا کرنا ہے، کوئی درست طریقے سے محنت کرکے ثروت پیدا کر رہا ہے۔ دوسری چیز ہے دولت کمانے کی روش اور خرچ کرنے کا انداز۔ پہلی چیز تو پسندیدہ ہے۔ کیونکہ معاشرے میں جو ثروت بھی آ رہی ہے وہ معاشرے کے مجموعی طور پر دولت مند بننے میں مددگار ہوگی۔ دوسری چیز جو بہت زیادہ اہم ہے، یہ ہے کہ کس طرح دولت پیدا کی جائے۔ یہ غیر قانونی طریقوں سے اور فریب اور بد عنوانی کے ذریعے نہیں ہونا چاہئے۔ اس کا استعمال بھی شرعی لحاظ سے ناجائز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ثروت معاشرے کی رگوں میں خون بن کے دوڑے اور غلط کاموں کے لئے استعمال نہ ہو۔ ٹاپ پیداواروسیع پیمانے پر پیداوار، قوم کا اہم نعرہ ہونا چاہئے۔ روزگار کی پیداوار، علم کی پیداوار، ٹکنالوجی کی پیداوار، دولت کی پیداوار، معرفت کی پیداوار، مواقع کی پیداوار، عزت و منزلت کی پیداوار، مصنوعات کی پیداوار اور ماہر افرادی قوت کی پیداوار۔ یہ سب پیداوار ہے۔ اسلامی نظام سرمایہ کاری کے نظرئے، اس کی اہمیت اور داخلی سرمایہ کاروں کے ہاتھوں کی ثروت و دولت کی پیداوار کو مثبت نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل ملک کی اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع ایجاد کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حکومت کو ایسی پالسیاں وضع کرنا چاہئے کہ پیداواری شعبوں اور یونٹوں میں ثروت و دولت کی پیداوار کے ساتھ ساتھ سماجی انصاف بھی قائم ہو۔ اگر معاشرے میں اقتصادی ترقی نہ ہو، اگر روزگار کے مواقع ایجاد نہ کئے جائیں تو یہی کمزور اور مستضعف طبقہ بالخصوص مزدوروں کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوگا۔ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس وقت حکام کی بہت اہم ذمہ داریاں ہیں، ایک طرف وہ لوگوں کو صحیح طریقے اور قانونی راستے سے اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا موقع فراہم کریں کیونکہ اسلام میں ثروت و دولت پیدا کرنا ناپسندیدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ غلط طریقے اپنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ دھوکے، فریب اور عمومی دولت کے غلط استعمال کا سد باب کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں ممنوع ہیں۔ ٹاپ انصاف سے عاری اقتصادی سرگرمیاںدنیا کے ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں نہ غربت کا خاتمہ ہو سکا ہے، نہ انصاف قائم ہو سکا ہے اور نہ ہی اخلاقیات کی ترویج ہو پائی ہے۔ دولت کی پیداوار تو بے پناہ ہے لیکن اخلاقیات تنزل اور انحطاط کا شکار ہیں۔ دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں کام اور اقتصادی سرگرمیوں کا نصب العین دولت کمانا ہے۔ اس نظام میں بنیاد، اقتصادی نشو نما، اقتصادی ترقی اور دولت و ثروت کا اضافہ ہے۔ جو دولت کمانے میں آگے ہے وہی سب سے اہم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ وہاں اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ طبقاتی فاصلہ بڑھے۔ آمدنی کے فاصلے اور بڑی تعداد میں عوام کا نادار ہونا سرمایہ دارانہ نظام کے لئے تشویش کی بات نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں وہ روش اور طریقے منفی اور ناقابل قبول ہیں جو ثروت کی تقسیم کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا کہنا ہے یہ تو بالکل بے معنی چیز ہے کہ آپ دولت جمع کیجئے تاکہ اسے آپ سے لیکر منصفانہ طور پر لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ بے معنی چیز ہے۔ اس طرح تو ترقی کا راستہ رک جائے گا۔ٹاپ ثروت کی تقسیمجو لوگ کہتے ہیں کہ انصاف، غربت و افلاس بانٹنے کا نام ہے، ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ انصاف کے چکر میں نہ پڑئے، پیداوار کی فکر کیجئے تاکہ تقسیم کے لئے ثروت تو حاصل ہو۔ انصاف کو نظر انداز کرکے ثروت کے حصول کا نتیجہ وہی نکلے گا جو آج سرمایہ دارانہ ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے دولت مند ترین ملک یعنی امریکا میں بھی ایسے افراد ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں، وہ حقائق ہیں جن کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظام کے لئے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے یہ ہے کہ ملک کے اندر سارے لوگ نعمتوں سے بہرہ مند ہوں، ملک میں محرومی نہ ہو، غربت نہ ہو، تفریق نہ ہو، وسائل و مواقع کا غیر مساویانہ استعمال نہ ہو، قانون کا امتیازی استعمال نہ کیا جائے۔ ٹاپ دولت کی تقسیم کا معیارجب انصاف کو نظر انداز کرکے دولت حاصل کی جاتی ہے تو نوبت یہ ہو جاتی ہے کہ معاشرے میں وہ لوگ جو زیادہ شاطر اور اور تیز قسم کے ہیں، راتوں رات دولت کا انبار لگا لیتے ہیں جبکہ اکثریت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ حسرت و محرومی میں زندگی بسر کرتی ہے جبکہ کچھ لوگ تو بڑی ہی قابل رحم حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔ بنابریں یہ کہنا کہ انصاف کی بات نہ کیجئے دولت و ثروت حاصل کرنے کی فکر کیجئے اور اس کے لئے یہ جواز بھی پیش کر دینا کہ جب دولت آ جائے گی تب انصاف کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا، درست نہیں ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جو وسائل ہیں وہ منصفانہ انداز میں اور معقول حد تک تقسیم ہوں۔ یہ بھی نہ ہو کہ بے حساب کتاب سب کچھ تقسیم کر دیا جائے۔ کوشش یہ ہونا چاہئے کہ وسائل میں مزید اضافہ ہو تاکہ سارے لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔ ٹاپ اسلامی معیشت میں ثروت کی تقسیماسلامی نظام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ ثروت مند ہونا چاہئے، پسماندہ او مفلس نہیں۔ اسلامی نظام اقتصادی ترقی پر یقین رکھتا ہے لیکن رفاہ عامہ اور سماجی انصاف کے لئے اقتصادی ترقی سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں افلاس و غربت نہ رہے۔ کوئی فقیر نہ ہو اور عمومی وسائل کے استعمال میں امتیاز و تفریق نہ ہو۔ جو بھی اپنے لئے کچھ وسائل تیار کر لے وہ اس کی ملکیت ہو لیکن جو چیزیں عمومی ہیں مثلا مواقع اور وہ وسائل جن کا تعلق پورے ملک سے ہے اس میں کوئی تفریق اور امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اسلامی نظام کا مقصد دولت کا انبار لگانا ہے۔ یعنی کچھ ہی لوگوں کو دولت پیدا کرنے کے مختلف وسائل و مواقع دستیاب ہوں۔ ملک کی اوسط شرح ترقی دو برابر ہو جائے یا مجموعی پیداوار دو گنا ہو جائے۔ البتہ یہ اعداد و شمار بعض حالات میں انصاف کی سمت پیش قدمی کی بھی علامت ہو سکتے ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ٹاپ انٹرنیشنل منی فنڈ یا آ ئی ایم ایفجو لوگ علمی و تحقیقاتی یا پلاننگ کے مراکز میں ہیں اور معیشت، سیاست، عالمی سیاست اور دیگر ملکوں کے حیاتی امور پر نظر رکھتے ہیں وہ اس فکر میں نہ پڑیں کہ مغربی فارمولوں کو، مغرب کے اقتصادی اصولوں کو، عالمی بینک یا آئی ایم ایف کے فارمولوں کو دیگر ملکوں کے امور میں نافذ کریں۔ یہ نظریہ ایران جیسے ملک کے لئے مفید نہیں ہے۔ البتہ ان کے علم و دانش سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جہاں بھی سائنسی ترقی ہو اور سائنسی تجربہ ہو اس سے یقینا استفادہ کیا جائے گا لیکن خاکہ اور منصوبہ قومی نظرئے اور ضروریات کے مطابق ہی طے پانا چاہئے۔ ملیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد جو واقعی بڑے محنتی، نکتہ سنج، سنجیدہ اور ذمہ دار شخصیت کے مالک ہیں، تہران آئے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مشرقی ایشیا میں گوناگوں تبدیلیاں ہوئی تھی۔ ملیشیا، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ میں اقتصادی زلزلہ آ گیا تھا۔ یہی صیہونی سرمایہ دار اور دوسرے سرمایہ داروں نے بینکنگ کے شعبدوں اور مالیاتی حربوں کے ذریعے کئی ملکوں کو دیوالیہ کر دیا تھا۔ اس وقت جناب مہاتیر محمد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے بس اتنا کہوں گا کہ ہماری حالت فقیروں والی ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اقتصادی طور پر منحصر ہو جاتا ہے دوسروں پر اور عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے اقتصادی فاومولوں پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے تو اسی انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ خود یہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بھی اسی شعبدے کا ایک حصہ ہیں۔ یہ بہت خطرناک ہے کہ دنیا کی تبدیلیوں کی باگڈور ایسے عالمی مافیاؤں کے پاس ہو جو اس وقت دنیا پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں۔ ٹاپ
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلامی معیشت میں انفاق
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
اسلام میں نجی مالکیت
اسلام میں اقتصادی آزادی
اسلامی معاشرے میں اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزادی ہے لیکن یہ مطلق آزادی نہیں بلکہ اس کی کچھ حدود ہیں۔ ہر طرح کی آزادانہ فعالیت اور حرکت کی کچھ نہ کچھ حدود اور ضوابط ہوتے ہیں۔ اسلام میں یہ حدود خاص طرح کی ہیں۔ سوشیلسٹ معاشروں میں بھی دولت و ثروت رکھنے کی کچھ حدود و قیود ہیں لیکن وہ حدود اسلامی حدود سے مختلف ہیں اور اسی مقدار میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نقطہ نگاہ کمیونسٹ اور مارکسسٹ نظرئے سے مختلف ہے۔ شاید یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اسلامی نقطہ نگاہ بھی سرمایہ دارانہ مکتب فکر سے بھی اتنا ہی مختلف ہے جو مغرب میں اس وقت رائج ہے اور جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ آج جو صورت حال مغرب میں ہے اسلام کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے۔ سرمایہ داری جس مفہوم میں مغرب میں رائج ہے اسلام اس کی قطعی تائید نہیں کرتا بلکہ متعدد احکام ایسے ہیں جو اس کے مقابلے اور سد باب کا عندیہ دیتے ہیں۔ اسلامی اقتصاد کے تعلق سے جو باتیں بتائی گئی ہیں ان کا نمونہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے میں آزاد اقتصادی فعالیت کی حدود وہ چیزیں ہیں جنہیں فقہ کی کتابوں میں حرام کمائی اور حرام مال قرار دیا گيا ہے، یعنی سود کا لین دین، لاعلمی و فریب کا سودا، وہ سودا جس میں کسی کو دھوکا دیا جا رہا ہو یا نقصان پہنچایا جا رہا ہو۔ وہ تجارت جو حرام آمدنی سے کی جائے، ذخیرہ اندوزی جس سے کچھ لوگ بڑے مالدار بن جاتے ہیں، اس کے ذریعے سودا حرام ہے۔ اسی طرح دیگر چیزیں جو اسلام کی مقدس شریعت میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ اسلامی معاشرے میں آزاد اقصادی سرگرمیوں کی حدود ہیں۔
بعض چیزوں کا سودا حرام ہوتا ہے، مثلا شراب یا دیگر حرام اور نجس چیزیں، کچھ استثنائی مواقع کو چھوڑ کر ان کا سودا نہیں کیا جا سکتا۔ یا اسی طرح وہ مال جو کسی شخص کا نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا ہے جیسے انفال کچھ مخصوص مواقع کے علاوہ اس کا سودا عام لوگوں کے لئے یا غیر حکومتی سطح پر ناجائز ہے۔ اسلامی فقہ میں اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں جنہیں معین کیا گيا ہے اور بتایا گيا ہے کہ یہ آزادانہ تجارتی سرگرمیاں کس حد تک جائز ہیں اور کہاں ناجائز اور حرام و ممنوع ہیں۔
اسلامی معاشرے میں اقتصادی آزادی یہ ہے کہ اسلامی حکومت ایسی پالیسی اختیار کرے اور ایسے قانون وضع کرے جس کی بنا پر معاشرے کے تمام افراد آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے پر قادر ہوں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اقتصادی سرگرمیاں کرنے کا موقع حاصل ہو۔ یہ اسلام کے اقتصادی نظام اور مغربی نظام کا ایک بڑا فرق ہے۔ معاشرے میں حقیقی معنی میں آزاد معیشت وجود میں لانے کا طریقہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے انحصار اور اجارہ داری کو توڑا جائے۔ ایسی سہولتیں فراہم کی جائيں کہ معاشرے کے اکثر و بیشتر افراد، معاشرے کے بیشتر طبقات یا سارے کے سارے لوگ جو کام کرنے کی طاقت رکھتے ہیں، زمین، سمندر، میدانوں اور چراگاہوں کے وسائل و امکانات سے استفادہ کر سکیں۔
امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں: ما رئیت نعمۃ موفورۃ الا و فی جانبھا حق مضیع یعنی میں نے کہیں بھی نعمتوں کی کوئی ایسی ذخیرہ اندوزی نہیں دیکھی جس میں کسی کی حق تلفی نہ کی گئی ہو۔ اس حدیث کا ایک بڑا لطیف مفہوم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے وہ کچھ لوگوں کا حق غصب کئے جانے اور چوری کا نتیجہ ہے اور اس غاصب کا نشانہ بننے والے کچھ کمزور اور مظلوم افراد بھی ہیں۔ پھر اس حدیث پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے دیکھا ہے کہ بعض ایسے لوگوں کے پاس دولت ہے جنہوں نے چوری کی نہ کسی کا مال غصب کیا ہے بلکہ اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جہاں بھی نعمتوں کی فراوانی ہے، دولت زیادہ ہے، وسائل کی بہتات ہے، وہاں در حقیقت یہ دولت اور ثروت اپنے مالک کو زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے بہت زیادہ وسائل فراہم کر دیتی ہے اور ان وسائل کو دوسروں کی دسترسی سے نکال دیتی ہے۔ معاشرے میں جس کے پاس دولت زیادہ ہے وہ زیادہ دولت کما سکتا ہے اور ان چیزوں سے زیادہ بہتر استفادہ کر سکتا ہے جن کا تعلق عام لوگوں سے ہے، جبکہ یہ غریب کے بس کی بات نہیں ہے۔ لہذا جس کے پاس زیادہ دولت ہے اس کے پاس زیادہ مواقع ہیں، زیادہ وسائل ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کا میدان اس کے پاس ہے۔ اکثر ممالک میں ایسے ہی افراد اور طبقے کی منشاء کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے۔ اس طرح عوام کی اکثریت جس کے پاس اتنی دولت نہیں ہے، مواقع سے محروم رہتی ہے۔
بنابریں اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں آزاد معیشت کا راستہ یہ نہیں ہے کہ یہ آزادی صرف ان لوگوں کے قبضے میں رہے جو اقتصادی و مالی توانائی رکھتے ہیں، بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ جن افراد کے پاس مالی و اقتصادی طاقت ہے وہ اس انداز سے کام کریں کہ معاشرے اور نظام کی حالت اور معاشرے کے اندر پائے جانے والے تعلقات و روابط ایسی شکل اختیار کریں کہ جن کے پاس بھی کام کرنے کی طاقت ہے وہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں کریں اور اپنے کام سے مستفید ہوں۔
ٹاپ
اسلام میں نجی مالکیت کی حدود
اسلام میں نجی مالکیت کا احترام کیا جاتا ہے لیکن اس کی حد بھی معین کر دی گئی ہے۔ حد کا مطلب یہ نہیں کہ کتنا ریال، کتنا ڈالر، کتنا دینار یا کتنا درہم معین کر دیا جائے۔ کیونکہ یہ مقدار تو ہمیشہ یکساں نہیں رہتی۔ ملکیت کے لئے ضرر و ضرار کی حد رکھی گئی ہے۔ یعنی اگر کسی کی ذاتی دولت اور سرمائے سے امت مسلمہ یا مسلمانوں کی ایک تعداد کو نقصان پہنچنے لگے تو اس ملکیت کو ضرررساں بننے سے قبل کی حد پر روک دیا جائے گا۔ اسلام میں ذاتی اور نجی ملکیت کا احترام ہے اس وقت تک کہ جب تک وہ ذخیرہ اندوزی، استحصال، تفریق، انسانوں کی بے حرمتی اور سرکشی پر منتج نہ ہو جائے۔ بری بات استحصال، سرکشی، اسراف اور زیادہ روی ہے۔ ان چیزوں کے باعث ذاتی ملکیت بری ہو جاتی ہے۔ دولت بذات خود بری چیز نہیں ہے۔ تو نجی ملکیت کی یہ حدیں ہیں۔ اسلام نے ان برائیوں کی روک تھام پر توجہ دی ہے، اسراف کو مسترد اور اسراف کرنے والے کو قابل مذمت قرار دیا ہے اور اسلامی حاکم اور حاکم شرع کو اسراف، استحصال، تفریق، سرکشی اور ذخیرہ اندوزی کو روکنے کی اجازت دی ہے۔ بنابریں اسلامی حاکم اور اسلامی حکومت کے سربراہ کو یہ اختیار ہے کہ اپنے حکم سے اس زیادہ روی کو روکے۔
اسلامی نظام نجی ملکیت کو قبول کرتا ہے، لوگوں کی اقتصادی کوششوں اور سرگرمیوں کو بھی مانتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ضرورتمندوں اور محتاج لوگوں کے رفاہ و آسائش کے لئے بھی معاشرے کو ایک اک قدم آگے لے جاتا ہے۔ آزاد اسلامی معیشت میں اقتصادی آزادی کے تقاضے کے مطابق معاشرے کے اقتصادی امور کی ذمہ داری اور اقتصادی امور کا سنگین بار عوام کے دوش پر ہوتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی معیشت میں انفاق
اسلامی نظام میں لوگوں کو آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دینے کا حق ہوتا ہے، سب حکومت کے ملازم نہیں ہیں، لوگ خود کام کر سکتے ہیں، اپنے طور پر سعی و کوشش کر سکتے ہیں، خود اپنی آمدنی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ معاشرے کا مالی و اقتصادی خلا بھی خود عوام کے ذریعے بھرا جانا چاہئے۔ یعنی انفاق کیا جائے۔ قرآن میں جو انفاق کا ذکر موجود ہے وہ معاشرے کی آزادانہ اقتصادی سرگرمیوں کی ہی بنا پر ہے۔ جب لوگ خود پیسہ کما رہے ہیں تو انہیں معاشرے کی ضرورتیں بھی پوری کرنا چاہئے۔ خلا کو پر کرنا چاہئے۔ انفاق کا مطلب اسی خلا کو پر کرنا ہے۔
انفاق ایک اسلامی اصول ہے۔ انفاق کرنا، پیسہ دینا، اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرنا اور اقتصادی خلا کو بھرنا براہ راست عوام اور لوگوں کی ذمہ داری ہے جو معاشرے میں آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں اگر کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے جس کے باعث حکومت کو پیسے کی ضرورت پڑ جائے تو اس پیسے کا انتظام عوام کو کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے کو کوئی جنگ پیش آ جائے، کوئی تخریبی واقعہ ہو جائے، کوئی بیماری پھیل جائے، کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہو جائے تو اس سلسلے میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ عوام حتی الوسع مدد کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ چونکہ سارے لوگوں کی استطاعت یکساں نہیں ہے اس لئے جو زیادہ خوشحال ہیں، جن کے پاس زیادہ وسائل و امکانات ہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔
دولت اندوزی، عدم انفاق اسلام کی نظر میں غیر اخلاقی فعل اور گناہ ہے، اسے گناہ کبیرہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اپنے سرمائے کے ذریعے کام کرنے کا اختیار دیا گيا ہے تو انہیں حق ہے کہ وہ جائز طریقوں سے دولت کمائے اور جمع کرکے رکھ لیں خواہ معاشرے کو ان کے سرمائے اور ان کے وسائل کی شدید احتیاج ہو، وہ اللہ کی راہ میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے پیسہ خرچ نہ کریں۔ اسلام میں انفاق یعنی ضرورتمندوں پر پیسہ خرچ کرنا ایک اصول اور حکم ہے۔ اللہ کی راہ میں پیسہ خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا ہے کہ سودا نہ کیجئے، پیسہ نہ کمائیے۔ کمائیے لیکن خرچ بھی کیجئے۔ اسلام لوگوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ انہوں نے جو حاصل کیا ہے اس میں سے اپنی ضرورت اور احتیاج کے مطابق خرچ کریں۔ ایسا بھی نہیں کہ عسرت و تنگدستی میں زندگی بسر کریں، ایک عام سطح کی زندگی ایک حد تک آسائش و رفاہ کے ساتھ، اتنا اپنے اوپر خرچ کریں، اس کے بعد جو بچے اسے معاشرے میں رفاہ عامہ کے لئے صرف کریں۔ اگر کسی نے دولت حاصل کی اور اسے اسراف کے ساتھ، فضول خرچی کے ساتھ، ٹھاٹ باٹ، گراں قیمت غذا، گراں قیمت کپڑوں، گراں قیمت سواری، گراں قیمت رہائش پر خرچ کر دیا یا سارا پیسہ جمع کرکے بیٹھ گيا تو یہ اسلام کی نظر میں مذموم ہے۔ عدم انفاق مذموم اور منفور ہے اور اگر اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزی بھی ہو تو حرام ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ واللہ لا یحب کل مختال فخور الذین یبخلون و یامرون الناس بالبخل جو لوگ بخل اور کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کا راستہ دکھاتے ہیں، دوسروں کو بھی انفاق فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں اور خود بھی اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ اس بخل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ شرعی حقوق ادا نہیں کرتے بلکہ شرعی حقوق کے آگے کی بھی چیزیں روک لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کو ضرورت ہے اور کسی انسان کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو اسے شریعت کی جانب سے معین کردہ مقدار سے زیادہ خرچ کرنا چاہئے۔
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے عمومی وسائل کے ذریعے دولت جمع کر لی ہے۔ دولت صحیح اور جائز راستے سے جمع کی گئی ہے لیکن اگر معاشرے کو اس کی ضرورت ہے اور وہ اسے دبائے بیٹھے ہیں تو یہ چیز قابل قبول نہیں ہے۔ اسلام سے یہ درس نہیں ملا ہے بلکہ اسلام اس کے برعکس عمل کی تعلیم دیتا ہے۔ معروف آیۃ کریمہ ہے: الذین یکنزون الذھب والفضۃ و لا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم جو لوگ سیم و زر کا خزانہ جمع کر لیتے ہیں، ذخیرہ تیار کر لیتے ہیں اور اللہ کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے- یہ صرف سونے اور چاندی سے مختص نہیں بلکہ پیسہ، سرمایہ اور دولت کا بھی یہی حکم ہے- جمع کرکے رکھتے ہیں جبکہ معاشرے کو اس کی شدید احتیاج ہوتی ہے لیکن وہ راہ خدا میں اسے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہوتے ان پر بھی یکنزون الذھب و الفضۃ کا ہی اطلاق ہوگا۔ اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے: فبشرھم بعذاب الیم اگر یہ (ذخیرہ اندوزی) گناہ نہیں، اگر یہ گناہ کبیرہ نہیں تو فبشرھم بعذاب الیم کیوں کہا گیا؟ انہیں دردناک عذاب کی نوید سنا دیجئے۔ یعنی ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ تعالی کے دردناک عذاب ک لئے تیار رہیں، یہ دردناک عذاب دنیا میں ان کے ان اعمال کے فطری نتیجے اور عواقب کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جس کے اثرات خود انہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے عواقب آخرت میں سامنے آئیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں جگہ سامنے آئیں۔ یعنی اس کام پر دردناک عذاب دنیا میں بھی ملے گا اور آخرت میں بھی ملے گا۔ بنابریں انفاق واجب و ضروری فعل ہے۔
ٹاپ
کام اور پیداوار میں نجی سیکٹر سے استفادہ
نجی سیکٹر کو کام اور پیداوار کے میدان میں اترنے کے لئے ترغیب دلائی جانی چاہئے۔ ملک کی بیشتر پیداواری یونٹیں حکومت کے ہاتھ میں ہیں۔ البتہ ایک معینہ مقدار خود آئین نے مختص کی ہے جو اس موجودہ مقدار سے بہت کم ہے۔ حکومتی سیکٹر میں اس بھیڑ کی وجہ بعض پالیسیوں کی خرابی ہے۔ اس مقدار کے علاوہ جسے آئین نے معین کیا ہے اور جس کا حکومت کے ہی اختیار میں ہونا لازمی قرار دیا گيا ہے، بقیہ شعبوں میں نجی سیکٹر کو روزگار اور پیداوار کی ذمہ داری سنبھالنا چاہئے۔ البتہ یہ چیز واضح رہے کہ نجکاری صرف یہ نہیں ہے کہ حکومتی کمپنیوں کو کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح، ملک کا مفاد مد نظر رکھے بغیر غیر سرکاری سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ سرمایہ کار کو ترغیب دلانا چاہئے کہ میدان میں اترے۔ ذخائر اور وسائل کی اس طرح نشاندہی کی جانی چاہئے کہ نجی سیکٹر کو ترغیب ملے۔ یہ کام درست انداز میں اور معیاری سطح پر ہونا چاہئے۔ اس بات پر بھی توجہ رکھنا چاہئے کہ یہ یونٹیں پیداواری صلاحیت و توانائی رکھتی ہیں یا نہیں۔ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر ان میں یہ صلاحیت و توانائی ہے تب تو انہیں اس کا موقع دیا جانا چاہئے۔ بنابریں صلاحیت کے مطابق انتخاب کیا جائے، رشتہ داری، ناتے داری اور سیاسی دوستی و قربت کی بنا پر نہیں۔ اگر ان چیزوں کا خیال رکھا جائے تو نجی سیکٹر کو ترغیب ملے گی اور وہ میدان میں اترے گا۔
ٹاپ
اقتصادی آزادی کی دیکھ بھال
اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اسلامی حاکم کی دیکھ بھال میں ہونی چاہئے۔ اس دیکھ بھال کا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ یہ آزادی بد عنوانی اور فساد پر منتج نہ ہو۔ یہ آزادی دوسروں کے اختیارات سلب ہو جانے کا باعث نہ بنے۔ اظہار خیال کی آزادی، سیاسی آزادی اور ثقافتی آزادی کے سلسلے میں بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اقتصادی آزادی کا یہ مفہوم اخذ کیا جائے کہ جن افراد کے پاس اقتصادی سرگرمیوں کی طاقت و توانائی ہے وہ جس چیز کی چاہیں پیداوار کریں، جس طرح چاہیں چیزوں کو بازار میں لائیں، جب چاہیں سپلائی کریں، جیسے چاہیں فروخت کریں اور جس طرح چاہیں استعمال کریں، تو یہ یقینی طور پر اسلام کا نظریہ نہیں ہے۔ اسلام نے اقتصادی آزادی اور نجی مالکیت کے ساتھ جو اس نے معاشرے کے ہر فرد کو عطا کی ہے، ان سارے امور پر حکومت کی نظارت و نگرانی کو لازمی قرار دیا ہے۔ یعنی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ ہونے پائے۔ چیزوں کے خرچ میں بھی اس بات پر نظر رکھے کہ اسراف نہ ہونے پائے۔ البتہ ایک حد تک اسراف ذاتی اور انفرادی گناہ ہے، اپنے گھر میں کوئی کسی چیز کو فضول خرچی کے ساتھ استعمال کرے تو یہ یقینا ایک فعل حرام ہے، ایک گناہ ہے لیکن یہی چیز اس حد تک بڑھ جائے کہ اس سے معاشرے کے اقتصادی نظام کو خطرات لاحق ہو جائیں، معاشرے میں اس سے غربت و افلاس بڑھنے لگے، عوام کا بہت بڑا طبقہ محرومی کا شکار ہونے لگے، جو چیزیں انسانوں کی کد و کاوش کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اسے تلف اور ضائع کیا جائے تو پھر اسلامی حکومت پر یہ فرض آن پڑتا ہے کہ اس اسراف کا سد باب کرے، اس فضول خرچی کا مقابلہ کرے۔ البتہ یہ چیز ایک معاشرے تک محدود نہیں ہے۔ عالمی سطح پر بھی اسلام کا یہی سبق ہے۔ اس وقت جو ممالک غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف کر رہے ہیں، دنیا کے بعض دولتمند ممالک دنیا کی ستر فیصد غذائی اشیا استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی پینتیس چھتیس فیصدی ہے، اگر دنیا میں منصفانہ اقتصادی نظام ہو، اگر دنیا میں طاقتور مالیاتی ادارے ہوں تو ان چیزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا میں کچھ با ضمیر حکومتیں اور کچھ تنظیمیں سامنے آئیں اور اپنی طاقت دنیا کی قوموں اور انسانوں کے مفاد میں استعمال کریں ، مثلا ان حرکتوں کو روکیں کہ امریکا ہر سال کئی ملین ہکٹیئر زراعتی زمین پر کھیتی نہیں ہونے دیتا تاکہ غلے کی قیمت گرنے نہ پائے، جبکہ دنیا میں پانچ سال سے کم عمر کے کئی ہزار بچے روزانہ بھکمری کا شکار ہوکر تلف ہو رہے ہیں، جبکہ دنیا کے دس سے پندرہ فیصدی عوام خشکسالی کی مار جھیل رہے ہیں، دنیا کی بہت بڑی آبادی غذائی اشیاء کی قلت سے دوچار ہے۔ یا مثلا اس جیسے اقدامات کو روکا جائے کہ کئی سال قبل یورپ کے مشترکہ بازار نے بہت بڑی مقدار میں غذائی اشیاء اور غلے کو سمندر میں پھنکوا دیا تاکہ اناج کی قیمت میں گراوٹ نہ آئے اور عالمی منڈیوں میں قیمتییں نیچے نہ جائیں۔ بنابریں اسراف، پیسے کے ضیاع کو روکنا اور عالمی اقتصادی نظام میں زیادہ روی اور اسراف سے مقابلہ اسلام کی نظر میں اتنا ہی اہم ہے۔
معلوم ہوا کہ آزاد معیشت اور نجی مالکیت سے یہ مراد نہیں ہے کہ کوئی شخص جتنا چاہے خرچ کرے جبکہ اس کے اس اسراف سے بہت سے افراد بھکمری کا شکار ہیں، بہت سے لوگ بیماری میں مبتلا ہیں، بہت سے لوگ بنیادی ترین ضروتوں سے محروم ہیں۔ اسلام کی نظر میں یہ درست نہیں ہے اور اس سے سختی سے روکا گيا ہے۔
ٹاپ
آزاد معیشت اور معاشرے کا سیاسی مستقبل
اسلام میں ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ آزادانہ اقتصادی سرگرمیاں معاشرے کے سیاسی مستقبل کو متاثر کریں اور ساسی نظام میں مداخلت شروع کر دیں۔ اس وقت مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام والے ممالک میں جو صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ بڑے ملکوں کو حقیقی معنی میں بڑے سرمایہ دار ہی چلا رہے ہیں۔ ان کے کچھ عناصر حکومتی نظام کے اندر بھی موجود ہوتے ہیں جو تیل اور دیگر بڑی کمپنیوں کے بڑے شیئر ہولڈر ہوتے ہیں۔ اگر ان کے افراد حکومت میں نہ بھی ہوں تو وہ پردے کے پیچھے رہ کر انتخابات کو کنٹرول کرتے ہیں، صدر کا تعین کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں کسی شخص کی ترقی یا تنزلی سنیٹ یا ایوان نمایندگان میں کسی کا جانا یا باہر نکلنا ان کے اختیار میں ہوتا ہے۔ جو قوانین وضع کئے جاتے ہیں انہی کے مرضی کے مطابق ہوتے ہیں، ان کے مفادات کے تناظر میں ہوتے ہیں۔ بنابریں مغربی دنیا کو سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کہنا چاہئے۔ کیپیٹلزم کے معنی سرمایہ داری بتائے جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ بہتر ترجمہ سرمائے کی محوریت اور سرمائے کی حکومت اور معاشرے کے امور پر کمپنیوں، دولتمندوں اور سرمایہ داروں کا کنٹرول ہے۔ یہ چیز اسلام کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔ جس عمل کا بھی یہ نتیجہ ہے ہو اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
ٹاپ
سرمایہ داری کی عصری اصطلاح
سرمایہ داری یعنی عوام کے استحصال سے جمع کی جانے والی دولت کا استعمال، یعنی وہ سرمایہ جس کے ذریعے استحصال کیا جائے، وہ سرمایہ جس کا مالک کچھ نہ کرے بس بیٹھ کر اس کے ذریعے دوسروں کا استحصال کرے، دوسروں کو لوٹے، استحصال ظلم ہے اور ظلم حرام ہے۔ اس طرح کی سرمایہ داری کی اسلام میں گنجائش نہیں ہے۔ آج دنیا میں سرمایہ داری کا یہی مفہوم ہے۔ اگر نجی ملکیت فساد و ظلم و تفریق و امتیاز کا باعث بن سکتی ہے تو سرکاری مالکیت بھی ایسی ہو سکتی ہے۔ جن ملکوں میں سرکاری مالکیت کا رواج ہے وہاں بھی بد عنوانی و ظلم و تفریق ہے لیکن ایک الگ شکل میں اور کچھ دوسرے طبقات کے درمیان۔
ٹاپ
مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی اقتصادی آزادی
مغربی نظام حکومت میں جیسا کی دعوی کیا جاتا ہے آئین کی رو سے عوام اقتصادی سرگرمیوں کے لئے آزاد ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ آزادی سبھی لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ یہ عظیم ذخائر، یہ سمندر، یہ قدرتی ذخائر، یہ زرخیز میدان، یہ معدنیات، یہ سارے وسائل جنہیں معاشرے کی عمومی دولت کہا جاتا ہے۔ یہ چیزیں آسانی سے معاشرے کی ہر فرد کو دستیاب نہیں ہوتیں اور ہر طبقے کو بآسانی اس پر کام کرنے اور فائدہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ عملی طور پر تو یہ آزادی بس انہی لوگوں کو ہوتی ہے جن کے پاس دولت کا انبار لگا ہوا ہے۔ جن کے ہاتوں میں معاشرے کی اقتصادی شہ رگ ہی نہیں سیاسی باگڈور بھی ہوتی ہے۔ قدرتی ذخائر اور سرمائے پر در حقیقت انہی کا تسلط اور قبضہ ہوتا ہے، وہی اس سے منمانے انداز میں استفادہ کرتے ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ان وسائل کے استفادے کا راستہ محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام ہے خواہ وہ دولتمند ممالک ہوں یا تیسری دنیا کے سرمایہ دارانہ نظام والے غریب ممالک، ان میں عوام غربت و افلاس کی مار جھیل رہے ہیں۔ آبادی کا بیشتر حصہ تو غربت، بے روزگاری، محرومیت اور رہائش کی مشکلات سے دوچار ہے، بس ایک مخصوص طبقہ آزادنہ سرگرمیاں کر رہا ہے، دولت جمع کر رہا ہے، اس کے پاس کانیں موجود ہیں اور وہ مزید کانیں حاصل کرتا جا رہا ہے۔
کارخانے موجود ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر کی دولت سے استفادہ کر رہا ہے۔ در حقیقت تمام قدرتی ذخائر معاشرے کے اسی مخصوص طبقے کے پاس ہیں۔ بقیہ طبقات جن میں نوکری پیشہ افراد، مزدوروں کا طبقہ، کان کنوں کا طبقہ، کارخانوں میں کام کرنے والے افراد اور زراعتی کاموں میں مصروف افراد شامل ہیں، سب کے حصے میں بس وہی چیزیں آتی ہیں جو اس مخصوص طبقے سے بچ گئی ہیں اور جن کی اسے ضرورت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو پیداواری سرگرمیاں انجام دینے، ذخائر سے استفادہ کرنے، امکانات سے بہرہ مند ہونے اور حقیقی معنی میں دولت کمانے اور اکٹھا کرنے کا موقع نہیں ملتا، انہیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔
ٹاپ
سوشیلسٹ ممالک کی معیشت
سوشیلزم اور مارکسسٹ نظرئے پر استوار دیگر مکاتب فکر میں نجی مالکیت کے لئے کچھ حدیں رکھی گئی ہیں لیکن یہ حدیں اسلامی حدود سے مختلف ہیں۔ ان مکاتب فکر میں پیداوار کے ذرائع کسی کی ملکیت نہیں ہو سکتے۔ یعنی کوئی بھی فرد زمین، کارخانے اور اس جیسی چیزوں کا مالک نہیں بن سکتا جو پیداوار کی ذریعہ ہیں۔ مارکسسٹ نظرئے اور سوشیلسٹ معیشت میں خرید و فروخت، بیع و شراء اور سودا ایک مذموم فعل ہے، ایک غیر اخلاقی عمل تصور کیا جاتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے مطابق، جس شخص کے پاس سرمایہ ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ، خرید و فروخت ممنوع ہے۔ مارکسسٹ نظرئے کی رو سے خرید و فروخت اور سودا مذموم دلالی اور نا پسندیدہ فعل ہے۔
سوشیلسٹ ممالک اور ایسے معاشروں میں جہاں حکومت تمام کارخانوں، زمینوں اور پیداواری ذرائع کی مالک ہوتی ہے اور عوام اس کے ملازم، عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اگر معاشرے میں جنگ، زلزلہ، بیماری یا اسی طرح کی کوئی اور افتاد آن پڑے تو حکومت کے یہ ملازمین کیا کریں گے؟ ان کے پاس اپنے جسم و جان کے علاوہ دینے کے لئے کیا ہوگا؟
ٹاپ
عالمی یوم قدس نزدیک آکر دنیا کے غیور مسلمانوں کو مظلوم فلسطینی قوم کے دفاع و حمایت کی سنگین ذمہ داری کی، پہلے سے زیادہ تاکید کے ساتھ، یاد دہانی کراتا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس دن کا اعلان کرکے انسانی ضمیروں کی سطح پر مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھا اور صیہونی حکومت کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو (ایک نقطے) پر مرکوز کر دیا، نتیجے میں ہم ہر سال مسلمانوں میں اس دن (یوم قدس) کی وسیع پذیرائی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کے فرائض
قیام عدل و انصاف انصاف کی ضرورت انصاف کی بنیاد انصاف کی ضمانت
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف عالمی سطح پر انصاف بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات مجرمین کے خلاف کاروائی معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
عدلیہ سے شاکی افرادمجرم کا دفاع!معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
سوشل سکیورٹی اقتصادی سکیورٹی اخلاقی تحفظ و سلامتی
عدلیہ
عدلیہ کا فسلفہ وجودی
عدلیہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ معاشرے میں انسان مطمئن ہوکر زندگی بسر کرے۔ انہیں یہ یقین ہو کہ اگر کسی نے ان کے ساتھ نا انصافی کی تو ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو اس مسئلے میں مداخلت کرے گا۔ لوگوں کو یہ اطمینان رہے کہ اگر طاقتور ترین شخص حتی حکومت نے اگر کسی کا حق نظر انداز کیا ہے یا خدا نخواستہ حق مارا ہے تو عدلیہ شجاعانہ انداز میں اسے اس کا حق دلائے گی۔ اگر عدلیہ معاشرے میں یہ احساس اور تاثر قائم کر لے گئی تب تو وہ کامیاب ہے۔ اگر معاشرے میں یہ اطمینان پیدا ہو گیا تو کوئی بھی افواہ اور دشمنوں کے ذریعے بنائی جانے والی فضا اور ماحول ناکام و بے اثر رہے گا۔ کیونکہ عوام عملی میدان میں عدلیہ کے وجود کا مشاہدہ کریں گے اور انہیں بے باک و شجاع و فرض شناس جج صاحبان نظر آئیں گے جو کسی بھی دھونس اور دھمکی میں نہیں آتے۔ اگر لوگوں نے دیکھا کے جج کسی بھی دھونس اور دھمکی پر توجہ دئے بغیر اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے تو افواہوں اور الزام تراشی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
ٹاپ
جج، عدلیہ کا محور
عدلیہ کا محور جج ہوتا ہے جبکہ بقیہ امور اور ذیلی ادارے جج کے کام میں مدد کے لئے ہیں۔ عدالت کے اندر اور فیصلہ سنائے جانے کے عمل میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ الثمرۃ تنبا عن الشجرۃ یعنی یہ بتاتا ہے کہ اس صف اور اس محاذ کے پیچھے صورت حال کیسی ہے۔ جس دن سارے جج شجاع بن جائیں اور عدلیہ کے مختلف شعبے خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے فرائض بخوبی انجام دینے لگیں، آنکھیں کھلی رکھ کر فیصلے کرنے لگيں اس دن انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا حق ہے۔ کیونکہ اولئک علیھم صلوات من ربھم و رحمۃ دشوار حالات میں کسی عظیم اور انقلابی عمل کے لئے صبر و ضبط سے کام لینا صلوات و رحمت الہی کا مقدمہ ہوتا ہے۔ بنابریں انہیں اپنے اوپر فخر کرنے کا پورا حق ہے۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کا عمل کرام الکاتبین کے زیر نظر ہے۔ انسان کے اعمال کی تمام تر تفصیلات کو بہترین انداز میں محفوظ رکھنے والے اللہ تعالی کی جانب سے مامور فرشتے اس کے نگراں ہیں۔ اس جذبے اور خیال کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔
ٹاپ
عدلیہ کی نگرانی
عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔
ٹاپ
عدلیہ کے فرائض
اسلامی نظام ہی نہیں ہر نظام کو ایک ایسی عدلیہ کی ضرورت و احتیاج ہوتی ہے جو طاقتور بھی ہو اور معتمد علیہ بھی۔ یہ دونوں بنیادی شرطیں ایک ساتھ ضروری ہیں۔ معتمد علیہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اختیارات محدود کر دے۔ عدلیہ قانون کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام کا ایک ستون عدلیہ ہے۔ عدلیہ وہ ادارہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عظیم مقاصد کا بہت بڑا حصہ جس کی کارکردگی سے وابستہ اور اس پر موقوف ہے۔ عدل و انصاف کا مسئلہ، حقوق کے حصول کا مسئلہ، قانون کی بالادستی کا مسئلہ، تسلط پسندوں، جارحوں اور موقع پرست عناصر کے سامنے مزاحمت و استقامت، عوام کی زندگی میں احساس طمانیت و تحفظ پیدا کرنا وہ چیزیں ہیں جن کی اہمیت اسلامی جمہوری نظام میں ہرگز کم نہیں ہو سکتی اور یہ وہ فرائض ہیں جن کا تعلق عدلیہ سے ہے۔ عدلیہ ان کے لئے ذمہ دار ہیں۔ آئین میں اس محکمے کے لئے جو ذمہ داریاں معین کی گئی ہیں وہ مختلف پہلوؤں سے بڑی اہم اور اطمینان بخش ہیں۔ جو فرائض عدلیہ کے لئے رکھے گئے ہیں، اس محکمے کے عہدہ داروں کے لئے آئین اور دیگر متعلقہ قوانین میں اسلامی اصولوں کے مطابق جو شرطیں بیان کی گئی ہیں ان سب کا نصب العین یہ ہے کہ یہ محکمہ بخوبی اپنے فرائض کی انجام دہی کرے۔
ٹاپ
قیام عدل و انصاف
عدل و انصاف کی شجاعانہ پاسبانی عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ عمل کی روح یہی ہے۔ قانون پر عمل درآمد ہر کسی کے لئے ضروری ہے اور قوانین سے انحراف جرم ہے جس پر نظر رکھنے کا کام عدلیہ کرتی ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کے قوانین کا مجموعہ ایک نقطہ کمال پر مرکوز ہونا چاہئے اور وہ ہے عدل و انصاف۔ بالعدل قامت السموات و الارض
ٹاپ
انصاف کی ضرورت
فان فی العدل سعۃ و من ضاق علیہ العدل فالجور علیہ اضیق عدل میں کشادگی اور وسعت ہے ہر شخص کے لئے، حتی اس فرد کے لئے بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے، اگر عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا گيا ہے تو اگر اس شخص کو جس کے خلاف یہ فیصلہ گیا ہے اس میں سختی محسوس ہو تو اسے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ظلم کو معیار قرار دیا گیا تو فیصلہ اور زیادہ سخت اور ناقابل تحمل ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ ظالمانہ عدالت میں اسے ایک کامیابی مل جائے لیکن زندگی کے دوسرے سیکڑوں مراحل میں نا انصافی کا خطرہ اس کے گریبان گیر ہوگا۔ انصاف کیا جانا چاہئے اور دولت، طاقت، بیوروکریسی، اشرافیہ کچھ بھی عدل پر حاوی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر عدالت کے اختیارات سے عدل و انصاف کو نقصان پہنچے تو یہ بہت خطرناک ہے۔ عدلیہ کی برتری کو اس انداز سے یقینی بنایا جانا چاہئے کہ اس سے قیام عدل و انصاف میں مدد ملے کیونکہ عدل ہی معیار و اصول ہے۔ ایسا نہیں سوچنا چاہئے کہ جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے اس کے سلسلے میں عدل و انصاف بس یہ ہے کہ اسے جیل میں ڈال دیا جائے اور پھر مدت پوری ہو جانے کے بعد اسے رہا کر دیا جائے، یہ تو انصاف کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیل اس کے لئے ایسی جگہ نہ بنے جہاں وہ اور زیادہ منحرف ہو جائے، اس کی شخصیت تباہ ہو کر رہ جائے اور اس کا خاندان بد بختی کی زندگی بسر کرے۔
ٹاپ
انصاف کی بنیاد
دنیا و خلقت کے نظام میں انصاف کا کردار بڑا بنیادی و حیاتی ہے۔ خلقت کا مزاج انصاف پر استوار ہے۔ اگر کوئی سماجی نظام اسی مزاج اور خلقت کے الہی قانون کی سمت گامزن ہے تو وہ کامیاب اور زندہ جاوید بن جائے گا۔ انسان اسی وقت کامیاب ہو سکتا ہے جب وہ قدرت کے قوانین اور سنت الہی کے مطابق خود کو ڈھال لے جو ناقابل تغیر ہے۔ بنابریں عالم خلقت میں انصاف ایک فطری اور بنیادی عنصر ہے۔
ٹاپ
انصاف کی ضمانت
انصاف کی ضمانت دینے والا محکمہ عدلیہ کا محکمہ ہے۔ سارے اداروں کو چاہئے کہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کریں اور اس کے ساتھ ہی اگر محکموں نے انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں کوئی کوتاہی کی ہے تو بغیر کسی رو رعایت کے اس قانون شکنی کا تعین کرنے اور قانون شکن شخص کو اس کے جرم کی سزا دینے والا طاقتور ادارہ عدلیہ ہے۔ بنابریں اگر عدلیہ کا وجود نہ ہو یا اس کے پاس اختیارات اور طاقت نہ ہو یا ہمت و شجاعت نہ ہو یا کام کرنا اس کے لئے ممکن نہ ہو یا خدانخواستہ کمزوریوں کا شکار ہو جائے تو معاشرے میں انصاف کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہے گی۔ یہیں سے عدلیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا شجاعانہ دفاع عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔
ٹاپ
انصاف کا دائرہ
ملکی سطح پر انصاف
کبھی تو کسی نجی تنازعے کا فیصلہ کیا جاتا ہے مثلا پیسے کا تنازعہ، چند مربع میٹر زمین کا جھگڑا، مار پیٹ کا معاملہ وغیرہ۔ لیکن کبھی انصاف زیادہ اہم مسئلے میں نافذ کیا جاتا ہے جس کا تعلق عوام کی زندگی، حقوق اور تقدیر سے ہوتا ہے۔ کبھی کوئی بڑا مالی مسئلہ ہے۔ کچھ لوگوں نے عوام اور فقرا کے سرمائے کی جانب دست درازی کی ہے۔ مثال کے طور پر کسی گاؤں یا شہر میں ایک رقم خرچ کرکے سڑک یا کارخانے کی تعمیر کی جا سکتی ہے جس سے ہزاروں افراد یا ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے ان کے لئے کھیت اور روزگار کے مواقع مہیا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بے ایمان شخص آکر اس پیسے کو ہڑپ لے جس سے یہ سارے کام ہو سکتے تھے۔ ساری رقم لیکر اپنی طمع کو تسکین دینے کی کوشش کرے تو یہ جرم اس سے بہت بڑا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو طمانچہ مار دے البتہ یہ بھی جرم ہے اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ اسلام تو ارش الخدش یعنی ناخون سے کسی دوسرے کے جسم پر خراش ڈال دینے کو بھی نظر انداز نہیں کرتا تاہم جرائم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں۔ بعض جرائم وہ ہوتے ہیں جن کی اہمیت بیحد زیادہ ہوتی ہے۔ جب آپ اس شخص سے نمٹنا چاہتے ہیں جس نے کمال بے رحمی اور بے شرمی سے بیت المال یا عوام کی رقم ہڑپ لی ہے تو اس کے لئے عدالتی شجاعت و اقتدار کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدلیہ کے وقار و اعتبار کو ٹھیس پہنچتی ہے تو یہ عوام کی زندگی کے نظام پر لگنے والی بہت کاری ضرب ہوگی۔ اسے بھیانک جرم کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی یہ ضرب خود عدلیہ کے اندر سے لگے اور کبھی باہر سے وار ہو۔
ٹاپ
عالمی سطح پر انصاف
خود مختاری و خود اعتمادی کے زیور سے آراستہ اسلامی جمہوری نظام آج عالمی سامراجی نظام کی تسلط پسندی کے خلاف سینہ سپر ہے۔ آج ملت فلسطین کا حق پامال کرنے کے لئے امریکا، اس کے ہمنوا اور دنیا بھر کے صیہونی اور صف اول کے سرمایہ دار اپنی تمام سیاسی و تشہیراتی توانائی کو بروئے کار لاکر چند ملین فلسطینیوں کا گلا گھونٹ دینا چاہتے ہیں، انہیں عالمی معاملات سے یکسر نابود کر دینا چاہتے ہیں۔ جہاں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے اور حکومتوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا ہے لیکن جب ایران کی باری آتی ہے تو ان کی تلوار کند ہو جاتی ہے۔ انہیں محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں اور اپنے راستے کی اس رکاوٹ کو ختم کر دینے کے در پے ہیں۔ اگر سامراج اپنے مذموم و خباثت آمیز عزائم کے تحت مالی، سیاسی اور تشہیراتی وسائل کے ذریعے ملک کے اندر اپنا کوئی ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور کچھ فریب خوردہ عناصر کو ان کے اپنے ملک کے مفادات کے خلاف استعمال کر لے جائے اور وہ دشمن کی مرضی کے مطابق عمل کریں تو یہ جرم مالی جرم سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ ملت ایران کے حق میں ہونے والی اس بے انصافی کا راستہ کون روکے؟ اس کے لئے شجاعت و ارادے اور قوت و طاقت کی ضرورت ہے۔
ٹاپ
بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات
آئین کی رو سے عدلیہ کی ایک ذمہ داری بد عنوانی کے سد باب کے لئے پیشگی اقدامات کرنا ہے۔ پیشگی یا احتیاطی تدابیر کے اپنے خاص وسائل ہوتے ہیں، مناسب ادارے ہوتے ہیں۔ سکیورٹی کے اداروں، انٹلیجنس اداروں وغیرہ کی مدد سے احتیاطی تدابیر کی جا سکتی ہیں۔ اگر کسی اسلامی ملک میں کوئی بد عنوان شخص، کوئی حریص و چالاک شخص اگر عمومی دولت کو جس پر تمام طبقات کا حق ہے ہڑپ لے جبکہ معاشرے میں بہت سے غریب و نادار لوگ موجود بھی ہیں تو اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس سے نمٹنا چاہئے۔ واضح ہے کہ اس حرکت پر عدلیہ، مجریہ اور مقننہ تینوں محکموں کی جانب سے رد عمل آئے گا یہ ادارے خاموش نہیں بیٹھيں گے۔
ٹاپ
مجرمین کے خلاف کاروائی
ہر جگہ عدلیہ کا کام یہ ہے کہ قانون کے مطابق مجرم کے خلاف اقدام کرے۔ جس نے بھی حد سے تجاوز کیا ہے اسے قانون کے مطابق دوبارہ اس کی حد کے اندر بھیجے۔ اس سب کا اسلامی نظام کی ساخت، صحیح زندگی اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کی تکمیل میں بڑا اہم کردار ہے۔ قانون شکن قانون داں سب سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جنہیں قانون سے بخوبی واقفیت ہے جو قانون کے پیچ و خم سے باخبر ہیں، وہ قانون شکنی کرتے ہیں تو معلوم بھی نہیں ہو پاتا کہ قانون شکنی کہاں پر ہوئی ہے لیکن یہ چیز اسلامی نظام اور امام زمانہ علیہ السلام کے انتظار کے جذبے سے مکمل طور پر ناسازگار ہے۔ حکومتی اداروں اور دیگر محکموں میں بد عنوانی کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔ حکومت کے اندر بد عنوانی کو روکنے کے لئے سب سے پہلے خود سرکاری حکام، وزرا اور اعلی عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہئے، وہ اپنے عملے میں ہرگز بد عنوانی نہ ہونے دیں۔ اگر وہ مقابلہ کا ارادہ رکھتے ہوں اور سنجیدگی سے مقابلہ کریں تو دوسرے کسی بھی ادارے اور شخص سے بہتر انداز میں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ خیال ضرور رہے کہ ان کا اپنا دامن بے داغ ہو۔ جو شخص خود بد عنوانی میں غرق ہے وہ بد عنوانی کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے؟ حکام کو چاہئے کہ پوری احتیاط اور مستعدی کے ساتھ اس برائی سے نمٹیں۔ اگر خدانخواستہ حکام نے اپنے اداروں میں بد عنوانی سے نمٹنے میں کوتاہی کی تو پھر عدلیہ کا وارد عمل ہونا ناگزیر ہو جائے گا۔ عدلیہ کو چاہئے کہ کسی بھی امتیاز و تفریق کے بغیر جہاں کہیں بھی قانون کی خلاف ورزی نظر آئے اس کا مقابلہ کرے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدلیہ قانون کی ضامن
قانون کی بالادستی کی ضمانت کیسے ممکن ہے؟ اس ضمانت کا واحد راستہ ہے عدلیہ۔ عدلیہ نظام کا طاقتور بازو ہے۔ جو جارح اور قانون شکن کا گریبان پکڑ کر اسے اس کی حدود یاد دلاتا ہے تاکہ بقیہ افراد قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کر سکیں۔ بنابریں عدلیہ کی طاقت اور اس کا اختیار ایک بنیادی چیز ہے۔ تاہم یہ طاقت و اختیارات ایسے ہوں کہ اس سے عوام کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ جہاں کہیں بھی عدالت ہے اور اس سے لو گ، خواہ بہت کم تعداد میں، رجوع کرتے ہیں، اس عدالت کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ عوام کی معتمد علیہ ہو۔ سب کو یہ یقین و اطمینان حاصل ہو جائے کہ عدلیہ کی یہ یونٹ جو یہاں موجود ہے قانون اور انصاف کے مطابق ہی فیصلہ کرتی ہے۔
ٹاپ
عدلیہ سے شاکی افراد
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ کچھ افراد عدلیہ سے ناراض رہتے ہیں۔ و ان یکن لھم الحق یاتوا الیہ مذعنین قرآن کہتا ہے کہ وہ لوگ جن معاملات میں فیصلے پیغمبر سے کرواتے ہیں اگر ان میں فیصلہ ان کے حق میں ہو تو قبول کرتے ہیں اور اگر فیصلہ دوسرے فریق کے حق میں ہو تو اعتراض کرتے ہیں، کچھ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن معاشرے میں اگر عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قانون اور اپنے فرائض پر عمل کرتی ہے، کسی سے کوئی رو رعایت نہیں کرتی، قانون شکنی سے سختی سے نمٹتی ہے اور خاص طور پر اگر قانون شکن کا تعلق خود عدلیہ کے شعبے سے ہو تو اور زیادہ سختی سے پیش آتی ہے، اس عدلیہ کو دیکھ کر عوام مطمئن رہتے ہیں۔ یہ ہدف حاصل کرنا چاہئے، اس منزل تک رسائی حاصل کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بڑی تدبیروں کی ضرورت ہے۔ سارے امور واضح اور معین ہوں، عدلیہ کے اعلی عہدہ داروں کے لئے ہر لمحے کی اطلاعات حاصل کرنے کا چست و درست انتظام ہو، عدلیہ کی کارکردگی پر مکمل نظارت۔ سب سے بڑھ کر عدلیہ کی کارکردگی کا طے شدہ منصوبے اور نظام کے تحت انجام پانا ہے۔
ٹاپ
مجرم کا دفاع!
ہر فیصلے کے کچھ حامی اور کچھ مخالف ہوتے ہیں۔ فیصلے سے ناراض افراد دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ سماجی اصول و ضوابط کے پابند ہوتے ہیں۔ یعنی اگرچہ فیصلے سے ناخوش ہیں لیکن یہ نہیں کرتے کہ جج کو پھاڑ کھانے کو دوڑیں۔ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جو کسی اصول و ضابطے پر توجہ نہیں دیتے۔ جج جس نے شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے اور جو لائق قدردانی ہے اس پر حملہ کر دیتے ہیں اور مجرم کا دفاع کرتے ہیں جس کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔ مجرم کا دفاع جرم ہے۔ جس مجرم کو قانون کی رو سے سزا مل چکی ہے اس کا دفاع در حقیقت قانون کو چیلنج کرنے سے عبارت ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنا چاہئے کہ جج کو آزادانہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے کسی کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے۔ کسی ایک شخص کے ٹیلی فون اور حکم پر فیصلہ نہیں کیا جاتا، فیصلہ علم، دلیل اور ضمیر کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ جج پر مختلف انداز سے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ اخبار کی سرخیوں کے ذریعے، سیاسی حربے اختیار کرکے اور منفی ماحول تیار کرکے۔ جج کو چاہئے کہ وہ ہرگز ان چیزوں سے متاثر نہ ہو، عدالتی سسٹم اور محترم جج صاحبان کو ہرگز ان افراد کے غیر منطقی حربوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہئے جو عدلیہ کے خلاف ماحول بنا کر اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خود ان افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ غیر قانونی کام کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کچھ غیر قانونی کاموں کو ملک کے حکام ممکن ہے نظر انداز کر دیں لیکن اس صورت میں نہیں جب اسی کو وتیرہ بنا لیا جائے۔
ٹاپ
معاشرے میں عدالتی سکیورٹی کی ضرورت
عدالت کی سکیورٹی کا مسئلہ یعنی جب لوگ عدالت کے دروازے پر دستک دیں تو انہیں احساس تحفظ ہو، یہ بہت اہم ہے۔ اس کے لئے عدلیہ کی اندرونی سطح پر حساس، باریک بیں اور متجسس نظروں کی ضرورت ہے۔ اگر عدالتی سکیورٹی کو یقینی بنا لیا جائے تو سیاسی، سماجی، اقتصادی، اخلاقی و ثقافتی سکیورٹی کی بھی ضمانت مل جائے گی۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے دشمن ہیں آج اپنی دشمنی نکالنے کا بہترین راستہ انہوں نے یہ تلاش کر لیا ہے کہ ملک کی سلامتی کے لئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ دشمن کئی سال سے اخلاقی و ثقافتی سلامتی پر حملے کر رہا تھا اس کے علاوہ سیاسی سلامتی کے سلسلے میں بھی دشمن کی کوشش یہ ہے کہ نظام کے دراز مدتی سیاسی عمل کو درہم برہم کر دیں۔ اس سب کے ساتھ ہی دشمن نے سماجی اور شہری سلامتی کے لئے بھی مسائل و مشکلات کھڑی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بحمد اللہ ایران ان ممالک میں ہے جہاں سماجی و شہری سلامتی کی صورت حال بڑی اچھی ہے۔
ٹاپ
سوشل سکیورٹی
عوام کو سلامتی و تحفظ مہیا کرنے کی ذمہ داری کا ایک بڑا حصہ عدلیہ سے متعلق ہے۔ خواہ وہ سماجی سلامتی ہو، اقتصادی سلامتی ہو، اخلاقی سلامتی ہو یا عزت و وقار کی سلامتی ہو۔ یہ بات درست ہے کہ اجرائی ادارے ان امور میں کسی نہ کسی طرح عدلیہ کے شریک کار ہیں۔ مثال کے طور پر سماجی سکیورٹی میں محکمہ پولیس عدلیہ کا شریک کار ہے اور دونوں کو مل کر سکیورٹی مہیا کرانا ہے، یہاں پر عدلیہ کا کردار کیا ہے؟ عدلیہ کا کردار یہ ہے کہ جارح شخص کے ساتھ عدلیہ اس انداز سے پیش آئے کہ سب کو عبرت مل جائے۔
ٹاپ
اقتصادی سکیورٹی
اقتصادی سکیورٹی کے ذمہ دار افراد غالبا اجرائی اور انتظامی اداروں میں ہوتے ہیں مثلا وزارت خزانہ، مالیاتی ادارے اور بینک وغیرہ، یہ ذمہ دار ہیں لیکن عدلیہ کی بھی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ان اداروں کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے لین دین میں کوئی اقتصادی بد عنوانی ہو جائے تو عدلیہ کو اس سے اس طرح نمٹنا چاہئے کہ ان افراد کو سبق مل جائے جو عدلیہ کو بد عنوانی سے دوچار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ بذات خود اقتصادی سکیورٹی کے سلسلے میں بہت اہم ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ اقتصادی بد عنوانی کا مقابلہ اقتصادی سکیورٹی کے درہم برہم ہو جانے کا باعث ہوگا لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اقتصادی بد عنوانی کے خلاف کاروائی سے بد عنوانی سے پاک افراد یعنی عوام کی اکثریت کے لئے اقتصادی سکیورٹی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اقتصادی بد عنوانی میں ملوث افراد کی تعداد بہت کم ہے ان سے بہت سختی سے نمٹا جانا چاہئے تاکہ عوام کی اکثریت اور اقتصادی میدان میں سرگرم عمل افراد کو تحفظ کا احساس ہو اور ان کو محسوس ہو کہ جو راستہ انہوں نے منتخب کیا ہے وہی درست راستہ ہے۔
ٹاپ
اخلاقی تحفظ و سلامتی
اسلامی معاشرے میں لوگوں کی عزت و آبرو ایسے افراد کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے پائے جو کسی طرح کا احساس ذمہ داری نہیں رکھتے۔ اداروں کو چاہئے کہ اس سلسلے میں اقدام کریں۔ لوگوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کرنا ان کے خلاف الزام تراشی، عہدہ دار ہو یا عام انسان اس پر بے بنیاد سوالیہ نشان لگانا، ان کے خلاف افواہیں پھیلانا، اسلامی احکام کے سراسر منافی ہے۔ اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اسلامی روش کے بر عکس ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی شخص پر مالی بد عنوانی کا الزام لگایا گيا تاکہ وہ آکر خود کو بے گناہ ثابت کرے۔ اس میں اس کا بڑا وقت صرف ہو جائے گا۔ اسلامی معاشرے میں یہ چیزیں بہت اہم ہیں اور ان پر توجہ دینا چاہئے۔ عدلیہ اس سلسلے میں اور معاشرے میں یہ سکیوٹی قائم کرنے کے سلسلے میں بہت اہم کردار کی مالک ہے۔
ٹاپ
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہشورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہشورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکزشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامنشورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباںشورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشتآئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرقعوام کے ووٹوں کی حفاظتقائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد بابصحیح انتخابات کی خصوصیات
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیتنا اہل افراد کے لئے سد راہ شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدامشورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افرادانتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہشورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوتاہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصولشورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہےمسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عملشورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
شورائے نگہبان
پہلا باب: شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا مقام
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل ایک مقدس ادارہ
شورائے نگہبان ایک مقدس ادارہ ہے کیونکہ اس کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس ادارے میں ان افراد کو رکھا جاتا ہے جو عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا کسی ایک شخص کے درجہ اجتہاد پر فائز ہونے اور اس کے عادل ہونے کے لئے ولی فقیہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ جب ولی فقیہ نے کسی کو اس ادارے میں قرار دیا ہے تو وہ شخص عادل اور درجہ اجتہاد پر فائز ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، عوام کا امین ادارہ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل اپنی گفتگو، اقدام اور عمل میں امین و بھروسہ مند ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس ادارے کو امین کی حیثیت سے دیکھیں۔ جب کوئی جج فیصلہ سناتا ہے تو ممکن ہے اس وقت کسی شخص کے دل میں کوئی اعتراض ہو اور وہ اعتراض بھی بجا ہو لیکن جج کا فیصلہ ایک امین کا فیصلہ مانا جائے گا اور اس پر سب کو اعتماد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا بھی یہی عالم ہے۔ قوانین اور اجرائی امور میں اس ادارے پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ ہونا چاہئے اور بحمد اللہ انہیں بھروسہ ہے۔ کسی کو بھی اس ادارے کے مقام و منزلت میں کمی کرنے کی غرض سے اس پر سوالیہ نشان نہیں لگانا چاہئے۔ اس مقام و منزلت کی معرفت اور عمل کے ساتھ قائد انقلاب نگراں کونسل کی سرگرمیوں کے بارے میں کوئی بات کہتا ہے اور اس کے سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ کرتا ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان عوامی اعتماد کا مرکز
نگراں کونسل جس طرح حقیقی معنی میں عمومی اعتماد کا ذریعہ بنی ہے اسے اس اعتماد کا مظہر بھی ہونا چاہئے۔ انتخابات میں الگ الگ نظریات اور مکاتب فکر کے افراد کی شرکت جنتی زیادہ ہوگی اسلامی جمہوری نظام کے لئے یہ اتنی ہی اچھی بات ہوگی اور خود نگراں کونسل کے لئے بھی یہ اچھی چیز ہے۔ ایسا انتظام اور عمل ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کی راہ ہموار ہو۔ کسی بھی نظرئے کے افراد کو خواہ وہ کسی ایک ہی شہر تک محدود کیوں نہ ہوں یہ محسوس نہیں ہونا چاہئے کہ انتخابات میں ان کی شمولیت نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ ہر جگہ ہر شخص کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنے پسندیدہ اور مرضی کے شخص کا ازادانہ انتخاب کر سکتا ہے۔ یعنی اس سلسلے میں شورائے نگہبان کا عمل ایسا ہو کہ وہ عوام کے اعتماد کا مظہر بن جائے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام کی ضامن
اسلامی جمہوریہ ایران کا استحکام اس کی اسلامی شناخت پر منحصر ہے اور شورائے نگہبان اس چیز کی ضامن ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہوتی تو رفتہ رفتہ نظام کی ماہیت اور اس کے ستونوں میں تغیر پیدا ہوتا۔ شورائے نگہبان کے لئے بس یہی افتخار بھی کافی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد کے برسوں میں اس کا سارا ہم و غم یہ رہا کہ اسلام اور آئین سے مطابقت کے لحاظ سے نظام کے پیکر میں کوئی نقص نہ پیدا ہونے پائے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے جسے اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین نے اس نظام کی حقانیت کی ضمانت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اگر شورائے نگہبان نہ ہو یا کمزور پڑ جائے یا اپنا کام انجام نہ دے تو اس نظام کی اسلامی روش اور حرکت پر سوالہ نشان لگ جائے گا۔ کیونکہ نظام قوانین کی بنیاد پر آگے بڑھتا ہے، اگر قوانین اسلامی ہوئے تو ایران کا نظام بھی اسلامی رہے گا۔ کون سا ادارہ یہ طے کرے گا کہ قوانین اسلامی ہیں یا نہیں ہیں؟ ظاہر ہے شورائے نگہبان۔
اسلامی جمہوری نظام میں شورائے نگہبان بقیہ اداروں کی مانند نہیں ہے کہ کہا جائے کہ مختلف ادارے ہیں جن میں بعض بہت اہم ہیں اور بعض کی اہمیت اتنی نہیں ہے اور یہ بھی انہی میں سے ایک ادارہ ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ شورائے نگہبان اسلامی نظام کے آئين جیسی چیزوں کا درجہ رکھتی ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ جس نے درست عمل کیا تو اس نطام کے دین سے منحرف ہونے کا کوئی اندیشہ پیدا نہ ہوگا۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اسلامی جمہوریہ کے شرعی اور قانونی سرحدوں کی پاسباں
شورائے نگہبان اسلامی نظام کو دین و اسلام اور دوسرے درجے میں آئین کے دائرے سے باہر جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ آئين اس نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ در حقیقت نظام کے اعصاب کا اصلی مرکز ہے، معیار و کسوٹی ہے۔ شورائے نگہبان کا کام یہ ہے کہ وہ ملک کے اداروں کو آئین سے منحرف نہیں ہونے دیتی۔ آئین کے بر خلاف قانون کی منظوری اور عملدرآمد کا سد باب کرتی ہے۔ اتنے اہم ادارے کی ہیبت و وقار اور عزت و حرمت کا خیال رکھا جانا چاہئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توہین نا قابل برداشت
اگر کچھ لوگ شورائے نگہبان کو برا بھلا کہتے ہیں تو در حقیقت انہوں نے قانون شکنی کی ہے۔ قائد انقلاب خاموش تماشائی بن کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اسلامی جمہوری نظام کے رسمی ترین، اطمینان بخش ترین اور معتمد ترین ادارے کی کوئی شخص اس لئے توہین کرے کہ وہ بجا یا بے جا طور پر خشمگیں ہے۔ اگر شورائے نگہبان کے سلسلے میں بد کلامی کی تکرار ہوئی تو قائد انقلاب اپنے فرائض کے پیش نظر اسے تحمل نہیں کرے گا۔ اگر ملک کے ان قانونی اداروں میں سے کسی ایک پر چند افراد حملے کریں تو قائد انقلاب کا فریضہ ہے کہ اس قانونی ادارے کا دفاع کرے۔
ٹاپ
آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء اور شورائے نگہبان کا فرق
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان کا کردار آئینی انقلاب کے صف اول کے علماء سے زیادہ اہم ہے۔ صف اول کے علماء ان مذہبی رہنماؤں کو کہا جاتا تھا جن کا ذکر آئینی انقلاب کے بعد کے آئین میں کیا گیا تھا اور آئین کی رو سے یہ ضروری تھا کہ پارلیمنٹ میں منظور ہونے والے سارے قوانین صف اول کے علماء کی توثیق کے لئے بھیجے جائيں اور اگر یہ علما ان قوانین کو اسلام کے خلاف پائیں تو قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ صف اول کے علما کا ایک تو آئین کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا کام صرف شرعی امور تک محدود تھا، دوسرے یہ کہ آج جو لوگ شورائے نگہبان میں ہیں انہیں ملک کے مسائل، انقلاب کے مسائل اور انقلاب کی راہ میں موجود تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے بارے میں ان افراد سے زیادہ واقفیت ہے جو اس زمانے میں صف اول کے علماء کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ انقلاب میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ جیسی با بصیرت، با حکمت اور پختہ ارادے کی حامل شخصیت موجود تھی جس نے شورائے نگہبان کے ساتھ صف اول کے علماء جیسا سلوک نہیں ہونے دیا۔
Top
عوام کے ووٹوں کی حفاظت
عوام کے ووٹوں کی حفاظت و صیانت ہونا چاہئے۔ وزارت داخلہ کے متعلقہ حکام بھی اور شورائے نگہبان کے مبصرین بھی بہت محتاط رہیں اور ایک اک ووٹ کی حفاظت و نگہداشت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ البتہ قائد انقلاب کو اپنے حکام پر پورا اعتماد ہے لیکن انہیں بہت زیادہ محتاط اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ عوام کے ووٹ ان کے ہاتھ میں الہی امانت کی مانند ہیں۔
ٹاپ
قائد انقلاب، انتخابات میں بد عنوانی کا سد باب
بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابات میں کوئی یہ جرئت کرے کہ عوام کے ووٹوں سے چھیڑ چھاڑ کرے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ شورائے نگہبان ایک عادل، محتاط اور ہوشیار نگراں ادارہ ہے انتخابات کے سلسلے میں، وہ کسی بد عنوانی کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ دوسری بات یہ کہ وزارت داخلہ بھی ایک ووٹ بھی ادھر ادھر نہیں ہونے دیتی۔ یہ (انتخابات کے متعلقہ حکام) مسلمان، انقلابی، دیندار اور معتمد علیہ افراد ہیں۔ انہیں پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملا ہے۔ بفرض محال اگر کسی گوشے میں کوئی چھوٹی سی گڑبڑی ہوئی بھی ہے تو اس کا انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گی۔ قائد انقلاب کی طرف سے بھی پوری چوکسی اور احتیاط برتی جاتی ہے کہ کوئی بھی انتخابات میں بد عنوانی کی جرئت نہ کرے۔ یہ شریعت کے بھی خلاف ہے اور سیاسی و سماجی اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونے دیا جائے گا۔
ٹاپ
صحیح انتخابات کی خصوصیات
انتخابات کی صحت کا علم پولنگ اور ووٹوں کی شمارش کے وقت نہیں ہوتا۔ صحیح انتخابات کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابات سے قبل صحتمند فضا قائم کی جائے۔ ایسی فضا جس میں عوام کو فیصلہ کرنے اور درست انتخاب کرنے کا بھرپور موقع ملے۔ عوام کو یہ موقع ضرور ملنا چاہئے کہ وہ انتخاب کریں اور فیصلہ کریں۔ جو عمل بھی فضا کو غیر صحتمند بنا دے اور ہر وہ تشہیراتی روش اور اقدام جو عوام کی قدرت انتخاب کو متاثر اور کمزور بناتا ہو وہ انتخابات کو کمزور کرنے والا اقدام ہے۔ اس نکتے پر انتخابات سے قبل توجہ دی جانی چاہئے۔ جو انتخابی کیمپین چلائی جاتی ہے، جو اقدامات کئے جاتے ہیں، بالخصوص ذرائع ابلاغ عامہ جو کام کرتے ہیں افراد کم متعارف کرانے کے سلسلے میں یا ان کی شبیہ خراب کرنے کے سلسلے میں یا عوام کی برین واشنگ کے طور پر جو اقدامات انتخابات سے قبل انجام دئے جاتے ہیں اور جن سے لوگوں کا ذہن خاص سمت میں موڑا جاتا ہے، انتخابات سے قبل ایسی صورت حال نہیں پیدا کی جانی چاہئے کہ رائے دہندگان ذہنی طور پر الجھ کر رہ جائیں اور جو فیصلہ کریں وہ پورے ہوش و حواس کے ساتھ نہ ہو بلکہ جب انہیں ہوش آئے تو محسوس ہو کہ نہیں انہوں نے مناسب فیصلہ نہیں کیا۔ اگر انتخاباتی کیمپین میں شامل افراد یا ان کی تشہیراتی مہم اور ذرائع ابلاغ عامہ کی کارکردگی اس طرح کی صورت حال پر منتج ہو جس میں عوام کی انتخاب کی قدرت و توانائی ختم ہوکر رہ جائے تو اس سے انتخابات کا اعتبار مجروح ہوگا۔ شورائے نگہبان کو اس طرح کی صورت حال کو روکنے کیلئے مناسب انتظام رکھنا چاہئے۔
ٹاپ
دوسرا باب: شورائے نگہبان کی نگرانی کی اہمیت
انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں شورائے نگہبان کی نظارت کی اہمیت
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کو کام سونپنے کا مطلب ہے، اس کام کو زیادہ سے زیادہ معتبر اور لائق اعتماد بنانا۔ کسی بھی دیگر (ادارے) کو اگر انتخابات کی ذمہ داری سونپی گئی ہوتی تو ممکن تھا کہ شائد کچھ لوگوں کے ذہنوں میں کچھ سوال پیدا ہوتے۔ یعنی ملک میں سرکاری اداروں میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں تھا کہ انتخابات پر جس کی نظارت و نگرانی عوام اور حکام کی نظر میں اتنی معتبر ہوتی جتنی کہ شورائے نگہبان کی نظارت و نگرانی قابل اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان وہ ادارہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کی ساخت اور اس کا ڈھانچہ بجائے خود صرف ایسے افراد کو قبول کر سکتا ہو جن کا تقوا و ایمان بلند درجے پر ہو۔ اس کے علاوہ بھی شورائے نگہبان کے فقہا اور ممتاز دینی رہمنا قوم کے امام (خمینی رہ) کی جانب سے منصوب کردہ افراد ہیں۔ چونکہ یہ درجہ اجتہاد پر فائز عادل و متقی افراد ہیں لہذا ان کا ہر عمل عوام کی نظر میں اطمینان بخش ہے۔ بنابریں یہ کام بنحو احسن انجام دینے والا ادارہ شورائے نگہبان ہی ہے۔ معلوم ہوا کہ آئین میں انتخابات کی نظارت و نگرانی کی ذمہ داری شورائے نگہبان کے سپرد کئے جانے کا فیصلہ بڑی پختہ فکر کا نتیجہ تھا اور آئین نے بیدار قلوب اور با بصیرت اذہان اور انقلابی و مجاہد علماء کے درمیان سے ایک ایسے ادارے (کے اراکین) کو مامور کیا۔ انتخابات کے امور پر شورائے نگہبان کی نگرانی کے بعد انتخابات کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اور مشکل پیش نہیں آنا چاہئے۔ یہ سنگین ذمہ داری شورائے نگہبان کے دوش پر رکھی گئی ہے اور اس کے سپرد کی گئی ہے۔ تمام تر سیاسی تحفظات اور مکاتب فکر کی مصلحتوں سے یہ مصلحت بالاتر ہے کہ انتخابات صحیح طور پر عوامی رائے اور مرضی کا آئینہ ہوں۔
ٹاپ
نا اہل افراد کے لئے سد راہ
جو نمائندے پارلیمنٹ میں آتے ہیں، ان کا صالح اور اہل ہونا ضروری ہے۔ وہ علم و معرفت و صلاحیت کے کس درجے پر ہو اس کا تعین آئين میں کیا گيا ہے۔ عوام کو اپنے مفادات اور فلاح و بہبود کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔ شورائے نگہبان ایک معتمد علیہ ادارے کی حیثیت سے اس عمل میں ہر قسم کے خلل کو دور کرنے کے لئے موجود ہے۔ اگر کوئی بد عنوان ہے، مالی بد عنوانی یا دیگر اخلاقی، عقیدتی اور سیاسی بد عنوانی میں کوئی ملوث ہے، یا پھر کوئی فتنہ پرور ہے، نظام کو کمزور کر سکتا ہے، اداروں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے تو در حقیقت ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے وہ اس فورم کا اہل نہیں ہے۔ جن افراد کی رفتار و گفتار اس کی غماز ہے کہ وہ کسی بھی جذبے کے تحت، سیاسی جذبے یا ذاتی جذبے اور مخصوص خصلت کی بنا پر نظام کے مد مقابل کھڑا ہو سکتا ہے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں نہیں آنے دیا جانا چاہئے۔ اس چیز پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یقینی طور پر میدان سیاست میں وارد ہونے کے راستوں پر نظر رکھی جانی چاہئے کیونکہ میدان سیاست در حقیقت ملک کے انتظامی امور اور نظم و نسق کے میدان میں اترنے کا مقدمہ ہے۔ ملک کا سارا انتظام ایک شخص کے ہاتھ میں دینا ہے لہذا اس میدان میں داخل ہونے کے راستوں کی نگہبانی و نگرانی ضروری ہے۔ یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو شخص آ رہا ہے کون ہے؟ کچھ معیار رکھے گئے ہیں اور کچھ لوگوں کا تعین کیا گیا ہے جو اس معیار پر پرکھیں۔ اس کا اہتمام آئین نے کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ایران جوان ملک ہے(جوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے) لہذا ملک کے اس جوان چہرے کا تقاضا یہ ہے کہ پوری مجریہ میں جوش و خروش اور نشاط و شادابی نظر آئے۔ دیکھئے اور غور کیجئے کہ کون شخص حقیقت میں انقلاب اور دین کا حامی اور غریب و امیر کے ما بین تفریق اور فاصلے کا مخالف ہے۔ کس شخص میں اہلیت اور جوش و جذبہ عمل ہے، ایسے شخص کو تلاش کیجئے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان یا نگراں کونسل کا سنجیدہ اقدام
اگر شورائے نگہبان انتخابی امور پر نظارت کے تحت قوانین کے مطابق ایک نتیجے پر پہنچ جائے تو اسے چاہئے کہ سنجیدگی سے اقدام کرے۔ کوئی بھی چیز قانونی اقدام کی راہ میں حائل نہ ہونے پائے۔ تمام امور بالخصوص ایسے معاملات میں جن سے عوام کے جذبات و احساسات اور افکار و نظریات وابستہ ہیں سنجیدہ اور ٹھوس اقدام ضروری ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی آئین پر نگرانی
نظارت و نگرانی کے امور میں معیار، قانون اور ضابطہ ہونا چاہئے، ذاتی نظریہ اور موقف نہیں۔ شورائے نگہبان میں ہرگز ذاتی نظریات کو دخیل نہیں کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص خود ہی اپنی مرضی سے یہ فیصلہ کرے کہ فلاں شخص پارلیمنٹ کے لئے مفید ہے اور اگر یہ پارلیمنٹ میں نہ آیا تو اس سے پارلیمنٹ کا نقصان ہوگا، اور پھر اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر اسی ذاتی رائے کے مطابق فیصلہ کر لیا جائے۔ نگراں کونسل کے اراکین کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی اور اس کے بندوں کے سامنے بھی جواب دہ ہو سکیں۔
اگر شورائے نگہبان سے سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے فلاں امیدوار کو نااہل قرار دیا گیا ہے تو کونسل جواب دے سکے کہ پالنے والے! میں قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کرنے پر مجبور تھا۔ قانون کا یہی تقاضا تھا اور میں نے اسی بنا پر اس شخص کو نااہل قرار دے دیا یا یہ کہ اصول و قانون کے مطابق میں نے اس شخص کی اہلیت کی توثیق کی۔ یہ نہیں کہ میری یہی تشخیص تھی اور میری یہی رائے تھی۔ میں نے فلاں شخص کو مضر دیکھا اور فلاں کو مفید پایا۔ یہ چیزیں قابل قبول نہیں ہیں۔ اسے نہ اللہ تعالی قبول کرے گا نہ بندگان خدا۔ قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے اور کسی بھی چیز کو قانون پر عمل آوری کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہئے۔
ٹاپ
اسلامی نظام کے ستونوں پر دشمن کا حملہ
دشمن کو یہ موقع نہیں دینا چاہئے کہ وہ جو چاہے کر گزرے۔ دشمن ذہنوں کو متاثر کرتا ہے پھر نطام کی بنیادوں میں نفوذ پیدا کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرتا ہے۔ شورائے نگہبان کی مثال لے لیجئے۔ اس وقت شورائے نگہبان یا نگراں کونسل پر بڑے حملے ہو رہے ہیں۔ مقصد شورائے نگہبان کو کمزور کرنا اور اسلام مخالف، خمینی مخالف اور نظام مخالف عناصر کو قانون ساز اداروں میں پہنچوانا ہے۔ اس راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ شورائے نگہبان ہے۔ وہ اس خیال میں ہیں کہ اس کا بھی وہی انجام کر دیں گے جو علمائے طراز اول کے نام سے معروف علما کونسل کا کیا تھا۔ وہ شورائے نگہبان کے سلسلے میں اپنے عزائم ہرگز پورے نہیں کر سکیں گے اور یہ چیز کبھی نہیں ہو سکے گی۔ دشمن کے سیاسی، دفاعی اور نفسیاتی جنگ کے منصوبہ ساز اس خیال میں ہیں کہ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جائے تو دوسرے مرحلے میں پارلمینٹ میں نفوذ پیدا کیا جا سکتا ہے اور پارلیمنٹ میں نفوذ حکومت اور نظام کے دیگر ستونوں میں نفوذ کی راہ ہموار کرے گا۔ وہ اس طرح وارد میدان ہونا چاہتے ہیں۔
ٹاپ
تیسرا باب: انتخابات کی نگرانی
انتخابی مبصرین کے انتخاب کی شرائط
انتخابی مبصرین اور ناظروں کے انتخاب میں بہت توجہ اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری ہے وہ اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی ہے۔ بدیہی بات ہے کہ اس نہایت اہم عمل کی نگرانی کرنے والے شخص کا باہوش اور با فہم ہونا ضروری ہے۔ اس کا باخبر ہونا ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے، غلطی نہ کرے، تاہم سب سے اہم عنصر اس کی دینداری و ایمانداری ہے۔ دینداری انسان کو بڑی غلطیوں سے بچاتی ہے، اسے لغزش سے محفوظ رکھتی ہے۔
ٹاپ
انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار افراد
اسلامی جمہوریہ کا انتخابی قانون خوش قسمتی سے بہت اچھا ہے۔ آئین میں بھی انتخابات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ اجرائی عہدہ دار بھی ہے اور ناظر بھی۔ یعنی ناظر، اجرائی عہدہ دار سے الگ ہے۔ دونوں الگ الگ ہیں۔ انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار وزارت داخلہ ہے جبکہ نظارت کے فرائض شورائے نگہبان انجام دیتی ہے۔ یعنی ذمہ داریوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے اور اس پر دو زاویوں سے نظر ڈالی گئی ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ جو انتخابات کے انعقاد کی ذمہ دار ہے، عوام کی معتمد علیہ ہے اس پر مختلف اداروں کو اعتماد ہے۔ حکومت اور وزارت داخلہ قابل اعتماد ہیں لیکن غلطی کے امکان کو حد اقل سطح تک پہنچانے کے لئے شورائے نگہبان کو نگرانی کے فرائض سونپے گئے ہیں۔ شورائے نگہبان عادل اور مجتہد افراد پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں قائد انقلاب کی جانب سے منصوب کیا جاتا ہے۔ اگر وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں اپنے اپنے فرائض بخوبی انجام دیں، ہر ایک ادارہ انتخابات میں اپنا کردار پوری شجاعت اور توانائی کے ساتھ انجام دے تو ایران کے انتخابات میں کسی بھی طرح کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جائے گی۔
ٹاپ
انتخابات کے اجرائی عہدہ دار و ناظر اور قانون کی پابندی
بعض لوگ قانونی اداروں کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں۔ سرکاری محکمے منجملہ وزارت داخلہ جو انتخابات کا انعقاد کرواتی ہے اور شورائے نگہبان جو انتخابات کی نگرانی کے فرائض انجام دیتی ہے، ہر ایک کے اپنے فرائض اور اصول و ضوابط ہیں۔ کچھ لوگ اس بات پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اگر خود ان کے درمیان کسی مسئلے میں اختلاف رائے ہو تو انہیں آپس میں اسے دور کرنا ہوتا ہے۔ بعض افراد تنازعہ کھڑا کرنے کے عادی ہوتے ہیں، کبھی کسی شخص پر تو کبھی کسی دوسرے شخص پر، کبھی کسی عملے پر تو کبھی کسی اور عملے پر ایسے الزام عائد کرتے ہیں جو اسلامی ملک کے عہدہ دار کے شایان شان نہیں ہے۔ عوام کو چاہئے کہ انتخابات کے اجرائی عہدہ داروں اور ناظروں دونوں کو ایک نگاہ سے دیکھیں۔ انتخابات کے اجرائی عہدہ دار اور ناظر دونوں ہی قانون پر اپنی عمل آوری کا ثبوت دیں۔ معیار قانون ہے، لوگوں کی ذاتی رائے نہیں۔ جو قانون پارلیمنٹ میں منظور ہوا اور جس کی نگراں کونسل نے توثیق بھی کر دی ہے وہ سب کے لئے معتبر اور حجت ہے۔ اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند کرے اور اس کے لئے بھی جو اس قانون کو پسند نہ کرتا ہو۔ قانون جب تک ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے۔
ٹاپ
چوتھا باب: اہلیت کی تشخیص
اہلیت کی تشخیص، شورائے نگہبان کا فریضہ
شورائے نگہبان کی ذمہ داری یہ ہے کہ آئین سے ماخوذ معیاروں اور ضوابط کی بنا پر شرطیں پوری ہونے کا جائزہ لے اور اس فریضے کو سنبھالے۔ پارلمینٹ کے اراکین اور صدارتی انتخابات کے امیدواروں کے لئے کچھ شرطیں رکھی گئی ہیں اور شورائے نگہبان کا فریضہ یہ چیک کرنا ہے کہ امیدوار میں شرطیں پوری ہیں یا نہیں۔ کسی امیدوار کو مسترد کر دینے کے لئے اہلیت کا ثابت نہ ہونا کافی ہے، نا اہلی ثابت ہونا ضروری نہیں۔ بعض افراد جو مختلف عنوان سے بحث و جدل کرتے ہیں وہ عبث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کا دارومدار عقل و منطق پر ہے۔ یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو بھی انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اس کے لئے یہ شرطیں ضروری ہیں۔ شورائے نگہبان کا فریضہ اسی چیز کو چیک کرنے کا ہے کہ یہ شرطیں واقعی موجود ہیں یا نہیں۔ یعنی یہ بھی با قاعدہ شرط ہے کہ شورائے نگہبان کے لئے یہ واضح ہو کہ ساری شرطیں موجود ہیں یا نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ کہیں کہ بعض افراد کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ اگر کینڈیڈیٹ کے اندر صلاحیت ہے اور وہ انتخابات میں شرکت کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیت شورائے نگہبان کے لئے بھی ثابت ہو جائے تو اسے چاہئے کہ نگراں کونسل کے لئے اس کی سہولت فرائم کرے، اپنا ریکارڈ اور اگر اس کے حق میں کچھ شواہد ہیں تو وہ شورائے نگہبان کو ارسال کرے۔ یعنی اپنی اہلیت ثابت کرنے کی راہ ہموار کرے۔ البتہ متعلقہ اداروں کو بھی مدد کرنا چاہئے۔ شورائے نگہبان کا کام اہلیت کا جائزہ لینے کا ہے۔ اگر شورائے نگہبان کی نظر میں اہلیت ثابت نہ ہو سکی تو وہ امیدوار کو مسترد کر سکتی ہے خواہ اس کا نا اہل ہونا ثابت نہ بھی ہوا ہو۔
ٹاپ
شورائے نگہبان کی توثیق، انتخابی امیدوار کی اہلیت کا ثبوت
جن لوگوں کے نام انتخابی امیدوار کے طور پر پیش کر دئے گئے ہیں در حقیقت ان کی اہلیت کو تسلیم کر لیا گيا ہے۔ ان کے نام کا اعلان ان کی اہلیت کی توثیق ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ یہ توثیق بے توجہی کے ساتھ اور غلط انداز سے نہ کر دی جائے۔ کیونکہ یہ در حقیقت عوام سے جھوٹ بولنے کے مترادف ہوگا۔ اہلیت رکھنے والے شخص کو مسترد کرنا اور نا اہل کی توثیق کرنا دونوں ہی غلط کام اور قانون شکنی ہے۔ ادارے بہت محتاط رہیں کہ ان سے یہ قانون شکنی نہ ہونے پائے تاکہ جب انتخابات کا دن آئے تو لوگ دیکھیں، غور کریں اور جو شخص ان کی نظر میں سب سے زیادہ اہلیت و صلاحیت کا حامل ہے پوری آگاہی کے ساتھ اس کا انتخاب کریں۔
ٹاپ
اہلیت کا جائزہ ایک بین الاقوامی اصول
اہلیت کا جائزہ لینا اور صلاحیت کو چیک کرنا ایک عالمی روش اور اصول ہے۔ یہ صرف ایران اور ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے مختص نہیں ہے۔ جہاں بھی کسی کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ کسی بڑے کام کے لئے کسی شحص کو مامور کرے وہ اس شخص کے بارے میں تحقیق ضرور کرتا ہے کہ اس میں صلاحیت ہے یا نہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ کی رکنیت کی ذمہ داری ہے یا کسی اور ادارے کی ذمہ داری۔ تو یہ ایک معمول کی روش ہے جس پر دنیا کے ہر ملک میں عمل کیا جاتا ہے اور تمام عقلمند انسان ایسا کرتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دینے کے لئے پارلیمنٹ میں اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے پیش کیا جائے تو پارلیمنٹ بغیر تحقیق اور جائزے کے اسے اعتماد کا ووٹ تو نہیں دے گی۔ تحقیق کرے گی، تجزیہ کرے گی، مطالعہ کرے گی تاکہ یہ اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس شخص میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر اسے وہ شخص پسند نہ آیا تو اسے مسترد کر سکتی ہے۔ مسترد کرنے پر پارلیمنٹ پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ پارلیمنٹ کی نظر میں اس کی اہلیت ثابت نہیں ہو سکی اور اس نے اسے مسترد کر دیا۔ بالکل یہی چیز پارلیمنٹ کے اراکین کے سلسلے میں صادق آتی ہے۔ بنابریں یہ (جائزے کی) روش ایک معمول کی روش ہے جسے عوام بھی تسلیم کرتے ہیں اور آئین نے اس روش کی تائید کی ہے۔
ٹاپ
شورائے نگہبان، منتخب ہونے کے حق کا جائزہ لیتی ہے
بعض لوگ کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے شہری حق کو کسی سے سلب نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن منتخب ہونے کا شہری حق روزگار، نوکری، شہر میں رہائش، سڑکوں پر چلنے، گاڑی خریدنے وغیرہ جیسے شہری حق کے مثل نہیں ہے۔ یہ ایسا شہری حق ہے جس کے لئے کچھ اور صلاحیتیں بھی لازمی ہیں جن کے موجود ہونے کی بابت مطمئن ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحیتوں کا جائزہ صرف شورائے نگہبان نہیں لیتی۔ وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان دونوں مل کر ان صلاحیتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ صلاحیتوں کے جائزے کے سلسلے میں سب سے بہتر خود عوام ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری عوام کی ہے۔ جب انہیں کسی کی صلاحیت کے بارے میں اندازہ ہوجائے تو ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتائیں، اس شخص کے لئے راہ ہموار کریں تاکہ یہ اہل اور با صلاحیت شخص آگے جا سکے۔
ٹاپ
مسترد ہو جانے والے افراد پر تہمت سے گریز
اسلامی جمہوری نظام میں قائد انقلاب کو انتخابات کے کام انجام دینے والے اداروں پر پورا اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ وزارت داخلہ قائد انقلاب اسلامی کا معتمد علیہ ادارہ ہے۔ سب محنت کر رہے ہیں، مشقتیں برداشت کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے ان کے سلسلے میں شورائے نگہبان نے قانون اور ضوابط کے مطابق عمل کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ بے لیاقت انسان ہے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی ہے اس کے بارے میں ملک میں کہیں بھی کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ الزام تراشی کرے، یہ کہے کہ ضرور آپ کا کوئی سنگین مسئلہ ہے، آپ نے کوئی جرم کیا ہے، کوئی قانون شکنی کی ہے، بد عنوانی کا ارتکاب کیا ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانونی طور پر کچھ ضابطے رکھے گئے ہیں اور شورائے نگہبان ان قانونی ضوابط کے مطابق کچھ لوگوں کو اس فہرست میں رکھتی ہے جن کی اہلیت کی توثیق کی گئی ہے اور کچھ کو اس فہرست میں جگہ نہیں دیتی۔ جن ناموں کو جگہ نہیں ملی ہے وہ در حقیقت قانونی ضوابط پر پورے نہیں اترے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں بہت سے صالح اور نیک لوگ ہوں۔ البتہ ان (مسترد ہونے والے) لوگوں میں کچھ ناخلف قسم کے انسان بھی ہوتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ جس کی بھی اہلیت کی توثیق نہیں ہوئی اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خائن شخص ہے، نہیں ہرگز نہیں۔
ٹاپ
پانچواں باب: وزارت داخلہ اور شورائے نگہبان کا دفاع
قانون کے مطابق عمل
اسلامی جمہوریہ ایران کے قائد انقلاب اسلامی کی جانب سے وزارت داخلہ کا بھی دفاع کیا جاتا ہے اور شورائے نگہبان کا بھی دفاع کیا جاتا ہے۔ دونوں اسلامی جمہوری نظام کے فعال ادارے ہیں اور ہر ایک کے اپنے فرائض ہیں۔ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ باریک بینی کےساتھ قانون کے مطابق عمل کرے اور عوام کے ووٹوں میں کوئی بے ایمانی نہ ہونے دے۔ جہاں تک اس کے بس میں ہے عوام کے ووٹ جمع کرے اور پھر پوری امانت داری اور احتیاط کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کرے تاکہ نتیجہ معلوم ہو سکے۔ شورائے نگہبان بھی پوری ایمانداری کے ساتھ اس بات پر نظر رکھے کہ انتخابات میں کوئی بد عنوانی تو نہیں ہوئی۔ یہ عوام کا حق ہے کہ شورائے نگہبان اس قوم کے بدخواہوں کو مقننہ میں داخل ہونے سے روکے۔ شورائے نگہبان کو عوام کے اس حق کا پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ اسے یہ خیال رکھنا ہے کہ اس قوم کے بدخواہ، اس انقلاب کے بدخواہ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بدخواہ ملک کے منتخب ادروں میں داخل نہ ہونے پائیں۔
ٹاپ
شورائے نگہبان اور وزارت داخلہ پر قائد انقلاب کا اعتماد
وزارت داخلہ بڑی محنت کرتی ہے، شورائے نگہبان بھی بڑی محنت کرتی ہے اور دونوں پر قائد انقلاب کو اعتماد ہے۔ شورائے نگہبان پر بھی مکمل اعتماد ہے اور وزارت داخلہ پربھی۔ یہ ادارے واقعی بنحو احسن اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ بنابریں اگر کسی امتحان میں کچھ لوگ کامیاب اور کچھ ناکام ہو جاتے ہیں یا کسی کو اکثریت حاصل ہوتی اور دوسرا اکثریت حاصل نہیں کر پاتا تو یہ نہ ہو کہ کچھ انتخابی حلقوں میں کچھ فتہ پرور قسم کے افراد لوگوں کو اشتعال دلائیں کہ فلاں شخص کی اہلیت کی توثیق کیوں نہیں ہوئی۔ معترض افراد کو اپنے حکام پر اعتماد رکھنا چاہئے۔ عہدہ دار معتمد علیہ ہیں، انہوں نے یقینا کوئی وجہ دیکھی ہے جس کی بنا پر اہلیت کی توثیق نہیں کی۔ اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے تو تحریری طور پر حکام سے شکایت کرے۔ یہ نہیں کہ کچھ لوگ دھرنے پر بیٹھ جائیں، یہ تو فتنہ پرور عناصر کی اشتعال انگیزی ہے۔ فتنہ پرور سامراج سے وابستہ وہ عناصر ہیں جو حالات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کچھ ایسا کام کر دیں کہ انتخابات پرامن طریقے سے منعقد نہ ہونے پائیں۔ ایسے میں ان سے بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگوں کو ورغلائیں۔
ٹاپ
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوماسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوماستکباری طاقتیںسامراج و استکبار کا مظہراستکبار و سامراج کی بنیاداستکبار اور سامراج کی روشسامراج و استکبار کا منصوبہ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات مذاکرات کی تجویز شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا تفرقہ انگیزی عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ ماہرانہ سازشیں درباری علماء کا استعمال ثقافتی وسائل و حربے
سامراج کی کمزوریاں
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل دینی اسباب عللسامراج سے جہاد اکبراستکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوماستکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی تعلیم و تربیت قومی اتحاد اسلامی یکجہتی حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
سامراج کا آخری ہدف
سامراج و استكبار
پہلا باب: استکبار کا مفہوم
استكبار کا قرآنی مفہوم
استکبار کا مفہوم ایک قرآنی مفہوم ہے۔ بنابریں ایسا نہیں ہے کہ یہ اصطلاح اسلامی انقلاب کے لغت میں یونہی شامل ہو گئی ہو۔ استکبار کا مفہوم مسلمانوں، مومنین، اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی جانب سے استکبار کے خلاف جد و جہد کا متقاضی ہے اور وہ بھی مخصوص مواقع اور مصلحتوں کے تحت ہی نہیں بلکہ یہ مقابلہ آرائی دائمی ہے۔ یہ انقلاب کی ماہیت کا حصہ ہے۔ جب تک انقلاب ہے یہ مقابلہ بھی رہے گا۔
قرآن میں استکبار کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی عنصر یا شخص، گروہ یا جماعت خود کو حق وصداقت سے بالاتر تصور کرے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے بلکہ خود کو، اپنی قوت و طاقت کو حق و حقیقت کا معیار قرار دے! قرآن نے انسانوں کی جس تاریخ پر روشنی ڈالی ہے اس کی پہلی استکباری طاقت ابلیس ہے۔ ابی و استکبر وہ پہلا استکباری عنصر ہے۔ البتہ استکبار کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ استکبار تکبر سے مختلف چیز ہے۔ شائد یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تکبر سے قلبی و نفسانی صفت کا عندیہ ملتا ہے، یعنی کوئی انسان خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا اور قرار دیتا ہو جبکہ استکبار کا زیادہ تعلق تکبر کے عملی پہلو سے ہے۔ یعنی جو شخص متکبر ہے اور خود کو دوسروں سے بالاتر سمجھتا ہے، عملی طور پر بھی دوسروں کے ساتھ اس کا برتاؤ اور سلوک ایسا ہوتا ہے کہ تکبر کے آثار بالکل نمایاں ہوتے ہیں۔ دوسروں کی تحقیر کرتا ہے، توہین کرتا ہے، دوسروں کے کاموں میں مداخلت کرتا ہے اور دوسروں کے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ٹاپ
اسلامی انقلاب کے لغت میں استکبار کا مفہوم
ایران کے اسلامی انقلاب کی زبان میں استکبار ان چند بڑی طاقتوں کے گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنی سیاسی، فوجی، سائنسی اور اقتصادی توانائیوں کے سہارے اور انسان کے سلسلے میں اپنے امتیازی نقطہ نگاہ کے ساتھ بڑے انسانی مجموعے پر جس میں ممالک، قومیں اور حکومتیں شامل ہیں استبدادی اور تحقیر آمیز تسلط قائم کرکے اپنے مفادات کے مطابق ان پر دباؤ ڈالتا ہے اور ان کا استحصال کرتا ہے۔ ان کے کاموں میں مداخلت اور ان کی دولت و ثروت پر تجاوز کرتا ہےـ حکومتوں پر رعب جماتا ہے اور قوموں پر ظلم و ستم کرتا ہے اور ان کی ثقافت و روایات اور آداب و اطوار کا مذاق اڑاتا ہے۔
ٹاپ
استکباری طاقتیں
استکباری طاقتیں وہ ہیں جن کی دولت و طاقت کے تسلط میں دنیا کا بہت بڑا حصہ ہے۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک، امریکا کی غنڈہ حکومت، وہ مالیاتی ادارے جو اس ظالمانہ عالمی نظام کی بنیاد اور پشتپناہ ہیں۔ ان سب کا شمار استکباری طاقتوں میں کیا جاتا ہے۔
ٹاپ
سامراج و استکبار کا مظہر
آج دنیا میں اپنی تمام تر نفرت انگیزی کے ساتھ سامراج و استکبار کا مظہر امریکا ہے، یہ کسی ایک نسل، ایک قوم اور ایک ملک سے دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اپنا تشخص اور وقار ہوتا ہے اور وہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتی کہ کوئی بیرونی طاقت، فریب سے یا زبردستی اس کے وقار کو نابود کر دے۔ ہر قوم کی اپنی دولت و ثروت ہوتی ہے، وہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی کہ کوئی دشمن اسے لوٹ لے جائے۔ دشمن، یعنی وہی عالمی تسلط پسندی اور سامراج کا مرکز جس کا سب سے بڑا اور حقیقی نمونہ امریکا ہے۔ البتہ جب ہم کہتے ہیں امریکا تو اس سے مراد امریکی عوام نہیں ہوتے۔ امریکی عوام تو دنیا کی دیگر قوموں کی مانند ہیں، ان میں بھی کچھ اچھائیاں تو کچھ برائیاں ہیں۔ ملت ایران کی ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسلامی انقلاب کا خطاب امریکا کے حکمرانوں سے ہے جن کی پالیسیوں کی ایک اہم ترین بنیاد دنیا پر تسلط قائم کرنے کا نظریہ ہے۔ امریکی تسلط سے ہماری مراد امریکی حکومت اور اس کا تسلط ہے۔
ٹاپ
استکبار و سامراج کی بنیاد
سامراج و استکبار کی بنیاد ظلم و جور و عدوان پر رکھی گئی ہے۔ امریکی حکومت جو سامراج و استکبار کا عفریت سمجھی جاتی ہے آج سامراج کے لحاظ سے دنیا کی بدترین حکومت ہے۔ اس حکومت نے آج اپنا وتیرہ بنا لیا ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی ملک اور حکومت اس کے مفادات کی چوکی داری کرنے کو تیار نہ ہو اسے ختم کر دیا جائے۔ کیا اس سے بھی بد تر سامراج و استکبار ہو سکتا ہے؟! کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ اپنے گھر میں میرے کچھ مفادات ہیں جس کی میں حفاظت کر رہا ہوں تو مجھ سے کوئی بھڑنے کی کوشش نہ کرے۔ ٹھیک ہے، یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی کہ جناب ایک شخص کسی دوسرے شخص کے گھر میں جبرا داخل ہو جائے یا اس کے دروازے پر جاکر اسے پریشان کرے، اس کا جینا دوبھر کر دے اور جب صاحب خانہ سوال کرے کہ کیوں میرا سکون و چین چھین لیا ہے تو جواب دے کہ تم نے میرے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس کام میں میرے مفادات ہیں اور چونکہ تم نے ان کا خیال نہیں رکھا بنابریں میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟! آج عالمی سطح پر امریکا کا یہی رویہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
ٹاپ
استکبار اور سامراج کی روش
سامراج و استکبار کی روش جبر، طاقت کے غلط استعمال اور قتل و غارت کی روش ہے۔ بنابریں وہ دہشت گردی کا سب سے بڑا موجد ہے۔ آج دہشت گردی سے مقابلے کے نام پر امریکی دوسرے ملکوں میں گھس رہے ہیں اور اسی بہانے قوموں کو بیحد پریشان کر رہے ہیں، ان پر بمباری کرتے ہیں، مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نابود کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواز یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں! دہشت گردی کہتے کسے ہیں؟ کیا دہشت گردی یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے اہداف کے حصول کے لئے غیر قانونی طریقے سے طاقت کا استعمال کرے؟ آج امریکا عراق، افغانستان اور پاکستان میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ من و عن یہی چیز نہی ہے؟!
ٹاپ
سامراج و استکبار کا منصوبہ
ملت ایران کے خلاف عالمی سامراج کا منصوبہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے۔ اول نفسیاتی جنگ، دوسرے اقتصادی جنگ اور تیسرے ایران کی سائنسی ترقی و قدرت کا سد باب کرنا۔ ملت ایران سے سامراج کی دشمنی انہی تین باتوں کے ارد گرد گھومتی ہے۔
نفسیاتی جنگ کیا ہے؟ اس جنگ کا مقصد مرعوب کرنا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ ملت (ایران) تو مرعوب ہونے سے رہی۔ حکام اور سیاسی شخصیات کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں، جو لوگ حرص و طمع میں پڑ سکتے ہیں ان پر یہ حربہ آزمانا چاہتے ہیں، عمومی ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے اپنے معاشرے کے بارے میں صحیح ادراک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کے یہ مقاصد ہیں۔
اقتصادی جنگ بھی ایک اور (حربہ) ہے۔ وہ قوم کو معاشی لحاظ سے بحران سے دوچار کر دینا چاہتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ پابندیاں لگا دیں گے۔ لیکن پابندیوں سے ایران پر ضرب نہیں لگائی جا سکتی۔ کیا اب تک یہ پابندیاں نہیں رہی ہیں؟ ملت ایران پابندیوں کی حالت میں ایٹمی ٹکنالوجی، سائنسی ترقی اور وسیع پیمانے پر ملک کی تعمیر و پیشرفت کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ تو پابندیاں بعض حالات میں ملت ایران کے لئے مفید بھی واقع ہوئی ہیں۔ اس لحاظ سے کہ یہ پابندیاں ایرانیوں کے زیادہ بلند ہمتی اور تندہی سے کام کرنے کا موجب بنی ہیں۔
سائنسی ترقی کا سد باب؛ اس کی اہم ترین مثال یہ ایٹمی مسئلہ ہے۔ بیانوں، سیاسی مذاکرات وغیرہ میں کہتے ہیں کہ مغربی ممالک ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے متفق نہیں ہیں۔ کوئی بات نہیں متفق نہ رہیں۔ کیا ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے ایران نے کسی سے اجازت طلب کی تھی؟ کیا دوسروں کی اجازت سے ملت ایران اس وادی میں اتری تھی کہ کہا جا رہا ہے کہ ہم متفق نہیں ہے؟ نہ رہئے متفق؟ ملت ایران متفق ہے اور یہ ٹکنالوجی حاصل کرنے کے لئے کمربستہ۔ اس وقت امریکا، دنیا میں فتنہ و فساد کے منصوبہ ساز صیہونی اور دیگر سامراجی طاقتیں اس سلسلے میں بھی بہت حساس ہو گئی ہیں کہ دنیا میں انقلابی نظام کا حامل کوئی بھی ملک سائنسی میدان میں ترقی نہ کرنے پائے۔ یہ حساسیت اسلامی انقلاب کے سلسلے میں دوبالا ہے۔ یہ حساسیت کسی اور انقلاب کے سلسلے میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔
ٹاپ
استکبار کے حربے
میڈیا اور تشہیرات
عالمی سامراج کا ایک اہم حربہ میڈیا ہے۔ دنیا میں میڈیا کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ میڈیا اپنے مالکان کے لئے دنیا میں بہت بڑے بڑے کام انجام دیتا ہے۔ نیوز ایجنسیاں ہوں، ریڈیو نشریات ہوں، ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، جتنے بھی اہم ذرائع ابلاغ عامہ ہیں ان کا تعلق سرمایہ داروں سے ہے یعنی عالمی سامراج کے بنیادی ستونوں سے۔ جو کچھ بھی دنیا میں نشر اور شائع کیا جاتا ہے وہ انہی (سرمایہ داروں) کے مفادات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی آباد ہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عالمی سامراج، نیوز ایجنسیوں، اخبارات و جرائد، نشریات اور سیاستدانوں کے بیانوں کے ذریعے جو پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اسے اس قاعدے پر پرکھیں اور نتیجہ اخذ کریں کہ پورا سامراجی نظام اور اس کا سرپرست امریکا اس وقت سب کے سب اسلامی نظام، ایران اور ملت ایران کی غلط تصویر پیش کرنے پر تل گیا ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ٹاپ
مذاکرات کی تجویز
کہتے ہیں کہ ہم اسلامی جمہوریہ سے روابط برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ سراسر جھوٹ ہے۔ وہ صحتمند رابطہ چاہتے ہی نہیں۔ ایسا رابطہ چاہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی مسلط کر سکیں۔ وہ سامراجی رابطہ چاہتے ہیں۔ پست اور تنزل پذیر حکومتوں کے ساتھ امریکا کا جو رابطہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں۔
جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراج کے سرغنہ امریکا سے مذاکرات کرنا چاہئے، وہ یا تو سادہ لوحی میں پڑے ہوئے ہیں یا بہت زیادہ مرعوب ہیں۔ سامراج اپنی حقیقی طاقت اور توانائی سے زیادہ اپنی ہیبت اور رعب و دبدبے کی روٹی کھا رہا ہے بلکہ سامراج تو دھونس دھمکی، رعب و دبدبے اور خوف و ہراس پھیلانے کے اپنے حربوں پر ہی زندہ ہے۔
ٹاپ
شکوک و شبہات اور ناامیدی پھیلانا
دشمن، عوام کی نظر میں ان کے مستقبل کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرتے ہیں۔ اگر آپ دیکھیں کہ بعض افراد اقتصادی صورت حال اور ملک کے مستقبل کے بارے میں مایوس کن باتیں کر رہے ہیں تو جان لیجئے کہ یہ باتیں در حقیقت سامراجی طاقتوں کی ہیں۔ دشمن کا ایک تشہیراتی حربہ یہ ہے کہ لوگوں کو ذہنوں کو مستقبل کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کر دے۔ افسوس کہ بعض سادہ لوح افراد یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ملک تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہے، بجائے تعاون کرنے، مسائل کو آسان بنانے اور عوام کے سامنے صحیح تصویر پیش کرنے کے ساری چیزوں پر شکوک و شبہات کا پردہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عوام کو تشویش و بدگمانی سے دوچار کر دیں۔ جب بھی اچھی انتظامی صلاحیتیں بروئے کار لائی جائیں گی تو ترقی یقینی ہے تو پھر ایک قوم کی ترقی کے بارے میں کیوں شک کیا جائے؟ جو لوگ اظہار خیال کریں تو محتاط رہیں کہ کہیں دشمن اور سامراج کی مرضی کی باتیں نہ کرنے لگیں۔ دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کی یہی خواہش ہے کہ عوام اپنی سعی و کوشش اور ترقی کے سلسلے میں بے یقینی کا شکار ہو جائیں۔
ٹاپ
تفرقہ انگیزی
جہاں بھی مومنین اور اللہ تعالی کے نیک بندوں میں اتحاد ہے وہاں وحدانیت اور خدا ترسی بھی ہے۔ جہاں مومنین اور بندگان خدا کے درمیان اختلاف ہے وہاں بلا شبہ شیطان اور دشمن خدا کا غلبہ ہے۔ جہاں بھی آپ کو اختلافات نظر آئیں وہاں آپ غور کیجئے تو آپ کو آسانی سے شیطان کا عمل دخل نظر آ جائے گا۔ بنابریں تمام اختلافات کے پس پردہ انسانوں کی انانیت، جاہ طلبی اور خود غرضی ہے یا کوئی باہری شیطان یعنی دشمن عناصر، سامراج اور ظالم و ستگمر طاقتیں کارفرما ہیں۔
اس وقت تفرقے کی آگ بھڑکانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ہر کسی کو اپنے عقائد کا پابند رہنے اور اس پر دلیلیں قائم کرنے کا حق ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مختلف مذاہب کے ترجمان منبر پر بیٹھیں تو استدلال نہ کریں اور اپنا عقیدہ ثابت کرنے سے گریز کریں۔ نہیں ایسا نہیں ہے، استدلال قائم کریں ثابت کریں۔ لیکن عقیدہ کو ثابت کرنا ایک الگ چیز ہے اور دوسرے فریق کی دشمنی پر اتر آنا اور سامراج کی آواز میں آواز ملا کر اپنی ساری طاقت و توانائی مسلمانوں کی داخلی جنگ میں جھونک دینا ایک الگ چیز ہے۔ مسلمانوں کے ما بین مسلکی اختلافات کے سلسلے میں نئی بات یہ سامنے آئی کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس نئی فکر کے پورے عالم اسلام میں پھیل جانے کے بعد عالمی سامراج نے اس ہمہ گیر اسلامی لہر کو روکنے کے لئے یہ حربہ اختیار کیا کہ ایک طرف ایران کے اسلامی انقلاب کو ایک شیعہ تحریک یعنی عام اسلامی تحریک کے بجائے ایک مخصوص فرقے کی تحریک کی حیثیت سے متعارف کرانے کی کوشش کی اور دوسری جانب شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کی وسیع پیمانے پر کوشش کی۔ اس شیطانی مکر و حیلے کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران نے شروع سے ہی اتحاد بین المسلمین پر بے حد زور دیا اور اس فتنہ پروری کو بے اثر بنانے کی کوشش کی۔
ٹاپ
عظیم مشرق وسطی کا منصوبہ
عظیم مشرق وسطی کا امریکی منصوبہ در حقیقت اس علاقے میں موجود تمام مفادات ایک جگہ جمع کرکے اسے امریکی سامراج کی جاہ پسندانہ شیطانی آنت میں انڈیل لینے کی کوشش ہے۔ وہ اپنے موجودہ تسلط اور اثر و نفوذ سے مطمئن نہیں ہے۔ اسے مطلق غلبہ پسند ہے۔ پوری دنیا پر بلا شرکت غیرے حکمرانی کا خواہاں ہے۔ منجملہ اس علاقے پر جو قدرتی دولت اور افرادی قوت سے مالامال ایک حساس اور اہم علاقہ ہے۔
عالمی سامراج اور سامراجی طاقتوں نے شروع سے اب تک صیہونی حکومت کو علاقے کی عرب اور پھر تمام اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے اور دھونس جمانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ اسے محفوظ رکھا ہے اور ان کا منصوبہ یہ ہے کہ اس زہر آلود خنجر کو عالم اسلام کے سینے میں پیوست رکھیں۔ آج اس تربیت یافتہ کتے کی زنجیر شیطان بزرگ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ مذموم ترین شکل میں عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی، ہمسایہ ملکوں پر مسلسل جارحیت، کھلے عام دہشت گردانہ کاروائیاں اور اغوا کی وارداتیں، اور ایٹمی اور دیگر ہتھیاروں کا حصول یہ ساری چیزیں صیہونی انجام دیں تو قابل قبول ہیں جبکہ ان ہتھیاروں میں سے کوئی ایک بھی اگر دنیا کی کسی ایسی حکومت کو حاصل ہو جائے جو امریکا اور دیگر بڑی طاقتوں کی حاشیہ بردار نہیں ہے تو اس پر قیامت مچ جائے۔
ٹاپ
ماہرانہ سازشیں
عالمی سامراج کے پاس عالم اسلام کے لئے خاص مفکرین اور ماہرین موجود ہیں جو سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور مختلف قوموں، نظریوں، جذبوں اور مسلکوں کے بارے میں رپورٹیں تیار کرتے ہیں، اپنے تحقیقاتی، ثقافتی، سیاسی اور جاسوسی کے مراکز کے آرکائيو میں موجود سابقہ رپورٹوں کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہیں اور نئی تحقیقات انجام دیتے ہیں۔ اسرائیل میں اگر ایران میں اسلام اور تشیع کی شناخت کے عنوان سے سمینار منعقد کیا جاتا ہے تو وہ اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر مغربی ملکوں، سرمایہ داروں اور سامراج کی جانب سے تحقیقاتی سمینار اور نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں اسلام کا جائزہ لینے کے لئے نئی نئی تجاویز متعارف کرائی جاتی ہیں۔
سامراج امور کو اپنی مطلوبہ سمت و جہت میں رکھنے کے لئے بہت غور فکر سے کام لیتا ہے۔ اس کی حرکت پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ہوتی ہے۔ وہ عالمی امور کو سمت و رخ دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ خود کو محفوظ رکھ سکے کیونکہ اسے علم ہے کہ اگر اس نے سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے کام نہ لیا، اگر اس کے پاس صحیح اعداد و شمار موجود نہ رہے تو اس پر ضرب لگ سکتی ہے۔ چنانچہ ممتاز ترین فکری حلقے سامراج کے پاس موجود ہوتے ہیں۔
ٹاپ
درباری علماء کا استعمال
جن معاشروں میں علماء کو راستے سے ہٹانا ممکن نہ ہوا وہاں یہ کوشش کی گئی کہ علماء کو بد عنوان اور جابر حکومتوں اور درباروں سے جوڑ دیا جائے۔ دربار سے وابستہ علماء جن کی ہمارے عزیز امام (خمینی رہ) کے بیانوں میں بڑی مذمت کی گئی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے حق میں خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے زمانے کی ایک معروف شخصیت سے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے اپنی گردن کو ستمگروں کے لئے چکی کے پاٹ کا محور بنا دیا ہے تاکہ وہ آپ کی گردن کے محور پر اپنے مظالم کی چکی چلائیں اور آپ کے سہارے لوگوں پر ظلم کریں۔ جو عالم دین فاسد و ظالم حکومتوں کے مظالم کی توجیہ کرے وہ ان حکومتوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جو عالم دین سامراج کے اہداف کے مطابق عمل کرے، اس کے بد ترین اور پست ترین ہمنواؤں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ حق کی ظاہری صورت کا سہارا لیکر باطل کی ترویج کر رہا ہے۔
ٹاپ
ثقافتی وسائل و حربے
اس وقت ایک فکری و ثقافتی و سیاسی جنگ جاری ہے۔ جو شخص اس میدان جنگ کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہو جائے اور حقائق کو سمجھنے پر قادر ہو وہ میدان پر ایک نظر ڈال کر بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت دشمن ثقافتی حربوں کے ذریعے بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ بکے ہوئے قلم اور دل و ضمیر اور دین و ایمان کا سودا کر لینے والے روشن خیال حضرات کی تعداد کم نہیں ہے جو ملک کے باہر اچھی بڑی تعداد میں اور ملک کے اندر اکا دکا، سامراج کے مقاصد کے لئے طاقت فرسائی اور طبع آزمائی کرنے کے تیار ہیں اور کر رہے ہیں۔
ٹاپ
سامراج کی کمزوریاں
اس وقت دنیا میں ایک تضاد دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملت ایران مسلمان قوموں، علاقائی قوموں، ایشیائی قوموں، افریقی قوموں، لاطینی امریکا کی قوموں اور مشرق وسطی کی قوموں کی نظر میں ایک شجاع، حق و انصاف کی پاسباں اور جبر و استبداد کی مخالف قوم ہے، ملت ایران کو ان خصوصیات کے ساتھ پہچانا گیا ہے۔ وہ ملت ایران کی تعریف و ستائش کرتی ہیں لیکن یہی ملت ایران اور یہی اسلامی جمہوری نظام جو قوموں کے لئے قابل تعریف و ستائش ہے، تسلط پسند طاقتوں کی نظر مین انسانی حقوق کی پامالی کے لئے مورد الزام قرار پایا ہے۔ اس پر عالمی امن و سکون ختم کر دینے کا الزام ہے۔ اس پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے۔ یہ تو صاف صاف تضاد ہے۔ قوموں کی نظر اور بڑی طاقتوں کی خواہش کا تضاد۔ یہ تضاد عالمی استبدادی و تسلط پسندانہ نظام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ روز بروز یہ طاقتیں قوموں سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس طرح مغرب کی لبرل ڈیموکریسی میں مسلسل بڑھنے والی خلیج پیدا ہو گئی ہے۔ سامراج کی تشہیراتی مہم کچھ ہی عرصے تک حقائق کی پردہ پوشی کر سکتی ہے، ہمیشہ تو حقائق کو چھپائے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ قوموں میں دن بدن بیداری بڑھ رہی ہے۔ ملت ایران کا صدر ایشیائی ملکوں، افریقی ملکوں اور لاطینی امریکا کے ملکوں کا دورہ کرتا ہے تو عوام اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کی حمایت میں جلوس نکالتے ہیں جبکہ امریکی صدر اگر لاطینی امریکا کے ملکوں یعنی واشنگٹن کا آنگن کہے جانے والے ممالک کا سفر کرتا ہے تو عوام اس کی آمد کی مناسبت سے امریکی پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں۔ یہ لبرل ڈیموکریسی کے ستونوں کے متزلزل ہونے کی علامت ہے جس کا پرچم مغربی ممالک اور سب سے بڑھ کر امریکا نے بلند کر رکھا ہے۔ ان کی خواہشات اور عوامی مطالبات و مشاہدات میں تضاد دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ وہ دم تو جمہوریت، انسانی حقوق، عالمی سلامتی اور دہشت گردی سے جنگ کا بھرتے ہیں لیکن ان کا شر پسندانہ باطن ان کی عسکریت پسندی کی غمازی کرتا ہے، ان کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی کی چغلی کرتا ہے، دنیا کے توانائی کے ذخائر کے سلسلے میں ان کی حرص و طمع کا پتہ دیتا ہے۔ یہ چیزیں دنیا کی قومیں دیکھ رہی ہیں۔ روز بروز دنیا میں قوموں کی نظر میں لبرل ڈیموکریسی اور امریکا کہ جو لبرل ڈیموکریسی کا علمبردار سمجھا جاتا ہے، عزت و آبرو ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ اس کے برخلاف ایران اسلامی کا وقار بڑھ رہا ہے۔
ایک دن وہ تھا جب عالمی سامراج کے عمائدین یہ سمجھنے لگے تھے کہ اسلام تو ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے دنیا میں شہوت پرستی کی جو وبا پھیلا دی تھی اس سے اس غلط فہمی میں پڑ گئے تھے کہ مسلم قوموں میں اسلامی تعلیمات، اسلامی جذبات، اسلامی غیرت و حمیت، اسلامی تقوا و پرہیزگاری اور اسلامی خیالات سب مٹ گئے، بعد میں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ان کی بھول تھی۔ سب سے پہلے تو عظیم مملکت ایران اور اس با شرف قوم کے ذریعے اسلامی اقتدار کا پرچم بلند کئے جانے اور دوسرے مرحلے میں پورے عالم اسلام میں اسلامی بیداری کی لہر پھیل جانے سے وہ مبہوت ہوکر رہ گئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ اسلام بڑی درخشاں اور اٹل حقیقت ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔ اب عالم اسلام اور مسلمان قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے۔ آپ غور کیجئے کہ خود ان کے پاس جو اپنی اطلاعات ہیں وہ بھی یہی بتاتی ہیں کہ اسلامی ملکوں میں امریکا، صیہونزم، عالمی سامراج کے ان کے عمائدین کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ٹاپ
دوسرا باب: سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت
سامراج، آج جس کا مظہر امریکی حکومت ہے، اس سے مقابلہ بھی اس انقلاب کا لازمی جز اور اس قوم کی اہم اور دلی خواہش ہے۔ اگر یہ قوم سامراج سے مقابلہ ترک کر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اغیار کی مداخلت، ان کے ہاتھوں اپنی ذلت و رسوائی اور انقلاب سے قبل کی ان کی دھونس اور دھمکی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ سامراج سے جنگ اور اس کی مخالفت کے سلسلے میں یہی تاثر اور یہی نظریہ قوم کی ہر فرد کا ہے۔
ٹاپ
سامراج کے خلاف جد و جہد کے اسباب و علل
قومی اسباب علل
ایرانی عوام نے سامراج کے خلاف کیوں جنگ کی؟ اس نکتے پر آپ خاص توجہ دیجئے۔ سامراجی روح و خصلت کے سلسلے میں سب سے پہلا تاثر اور خیال جو کسی قوم کے ذہن میں ابھرتا ہے وہ دینی تاثر اور خیال نہیں بلکہ قومی حمیت کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے، اپنی شناخت اور تشخص کا احساس اور جذبہ ہوتا ہے۔ کیونکہ جب سامراج جب کسی ملک میں در آتا ہے اور اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے تو اس ملک کی قومی شناخت کی نفی پر تل جاتا ہے۔ اس ملک کے ذخائر کو لوٹتا ہے، اس ملک کے سیاسی امور میں مداخلت بھی کرتا ہے لیکن یہ سب کچھ در حقیقت اس قوم کی شناخت اور تشخص کی نفی کی فروعات ہیں۔ جب سامراج وارد ہوتا ہے تو پہلے ہرگز یہ نہیں کہتا کہ ہم آپ کی شناخت اور تشخص کی نفی کرنا چاہتے ہیں، وہ مختلف بہانوں سے داخل ہوتا ہے۔ جب اسے اندر آنے کا موقع مل جاتا ہے تو جو چیز اس کا سب سے اہم نشانہ ہوتی ہے وہ قوم کی شناخت ہے۔ یعنی ثقافت، دینی عقائد، ارادہ، خود مختاری، حکومت، معیشت اور اس قوم کی ہر چیز کو چھین کر اپنے قبضے میں کر لیتا ہے۔ جیسا کہ انقلاب سے قبل ایران میں تھا۔ اس حقیقت کا احساس قوموں کو سامراج کے خلاف بر انگیختہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو قومیں دیندار نہیں ہیں جو مسلمان بھی نہیں ہیں آج حتی الوسع امریکا کے مقابلے میں ڈٹ جاتی ہیں۔ البتہ یہ اب ہے، ماضی میں نہیں تھا۔ اس وقت تو کوئي امریکا کے سامنے سر اٹھانے کی جرئت نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ ملت ایران نے شروع کیا ہے۔
ٹاپ
دینی اسباب علل
سامراج کے خلاف ملت ایران کی جنگ کی دینی وجہ بھی ہے۔ قرآن میں استکبار، مستکبر اور اس کے بالمقابل استضعاف اور مستضعف کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جب ملت ایران اس جذبے کے ساتھ امریکا اور اس سے وابستہ بد عنوان نظام کے خلاف کھڑی ہوئی تو اس کے پیچھے عظیم دینی جذبہ اور ایمان و عقیدہ کارفرما تھا اور اسی چیز نے اس قوم کو کامیابی عطا کی۔
اس وقت دشمنان اسلام سے جنگ کا پرچم مکتب اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے پیروکاروں کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عظیم و شجاع قوم کے ہاتھوں میں ہے جو اللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتی۔ آج ملت ایران کا یہ عالم ہے۔ اس وقت استکبار سے وابستہ عناصر اور مہرے نیز وہ طاقتیں جو دنیا میں قوموں، حکومتوں، شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے لئے خوفناک عفریب بنی ہوئی ہیں ملت ایران کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت و ارزش نہیں ہے۔
ٹاپ
سامراج سے جہاد اکبر
استکبار اور استکباری شیاطین کے خلاف سب سے بڑی جنگ یہ ہے کہ انسان ان کی مرضی و خواہش کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہ کرے۔ اس وقت ملت ایران یہ جہاد کر رہی ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ہمارے لئے وا کیا، ملت ایران اسی راہ پر چلی ، بحمد اللہ آج عز و وقار کی بلندیوں پر ہے، آج بھی یہ قوم اسی راستے پر گامزن ہے۔
ٹاپ
استکبار مردہ باد کے نعرے کا مفہوم
ایرانی قوم جو استکبار مردہ باد کا نعرہ لگاتی ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ملت ایران ہر غیر مسلم ملک اور اس ملک کی حکومت کو للکار کر اس سے لڑنا چاہتی ہے جس کے مسلمان ہونے کو وہ تسلیم نہیں کرتی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے! اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے لئے جو چیز اہم ہے وہ ظلم، سرکشی و طغیانی اور ستمگر طاقتوں کے خلاف جنگ ہے۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم یہ ہے اصلی مسئلہ۔ جو لوگ حق و انصاف کی مخالفت پر اتر آتے ہیں اور ظلم و ستم کی تائید کرنے لگتے ہیں، ظالمانہ عمل میں مدد کرتے ہیں۔
ٹاپ
استکبار کے خلاف جد و جہد کے نعرے کی حفاظت
ملت ایران کو چاہئے کہ سامراج کے خلاف جد و جہد کو اپنے لئے پرچم اور مشعل راہ کے طور پر محفوظ رکھے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس لہراتے پرچم کی حفاظت نہ کی گئی اور نعرہ پھیکا اور کمزور پڑ گیا تو قوم اپنا راستہ گنوا دے گی۔ چونکہ اس دشمن کی دشمنی آشکارا ہے اور اہل نظر سے پوشیدہ بھی نہیں ہے، یہ کھلا ہوا دشمن اپنی دشمنی کے آشکارا ہونے کے باوجود فریب دہی کے کچھ حربے استعمال کرتا ہے۔ اکثر و بیشتر فریب کھانے والی قوموں اور غلط فہمی کا شکار ہونے والی حکومتوں سے غلطی یہ ہوتی ہے کہ وہ دشمن کی روش کو صحیح طور پر پہچان نہیں پاتیں۔ اگر دشمن کی روش کی شناخت نہ ہو اور اس دشمن کی جانب سے غفلت برتی جائے جو ایک انقلابی قوم کی نابودی کے در پے ہے تو ظاہر ہے وہ قوم اسی راستے پر چل پڑے گی جو دشمن کا پسندیدہ راستہ ہے یعنی نابودی کی راہ، ویرانی کی راہ اور بد عنوانی کی راہ۔
ٹاپ
سامراج سے جنگ کے طریقے اور راستے
اسلام کی سمت واپسی
مسلم قوموں کی تمام ناکامیوں اور رنج و غم کا علاج اسلام کی سمت واپسی اور اسلامی نظام کے دائرے میں اور اسلامی احکام کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا ہے۔ یہ وہ اکسیر ہے جو مسلمانوں کو ان کے عز و وقار، قدرت و توانائی اور رفاہ و تحفظ کی نعمت لوٹا سکتی ہے اور اس تلخ و ذلت آمیز انجام و مستقبل کو دگرگوں کر سکتی ہے جو سامراجی طاقتوں نے امت مسلمہ کی تقدیر میں لکھ دینے کی تیاری کی ہے۔
سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی نیٹ ورک، اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے مسلمانوں کی امید و نشاط کو مایوسی و یاس میں تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا کہ ملت ایران کے مشکل کشا اسلامی انقلاب کو ناکام ظاہر کریں اور یہ باور کرائیں کہ ایران مشکلات و دشواریوں سے دوچار ہو جانے کے بعد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حقیقی اسلام اور امام خمینی قدس سرہ کی روش سے کنارہ کشی پر مجبور ہو گیا۔
ٹاپ
تعلیم و تربیت
ثقافت و تعلیم و تربیت کا مسئلہ اسلامی جمہوری نظام میں اولیں مسئلہ ہے۔ دراز مدت میں کوئي بھی چیز تعلیم و تربیت جتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ ایرانی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے فرائض انجام دینے والے اساتذہ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ در حقیقت کفر و ظلم و عالمی سامراج اور دنیا کے سیاسی شیطانوں کی غنڈہ گردی کے خلاف جد و جہد کا محاذ یہی اسکول اور مدرسے اور تعلیم و تربیت و ثقافت کا محاذ ہے۔ جو طلبہ ملک کے تعلیمی اداروں کے سپرد کئے گئے ہیں اس قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ تعلیم و تربیت، استاد اور ثقافتی و تعلیمی محاذ کی قدر کیجئے۔
ٹاپ
قومی اتحاد
جو شخص سامراج کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرنا چاہتا ہے، بندگان خدا کے دل جیتنا اور دشمنان خدا کو رنجیدہ و مایوس کرنا چاہتا ہے اسے یہ کوشش کرنا چاہئے کہ قوم اور نظام کے حکام کے درمیان رابطہ روز بروز زیادہ مستحکم ہو۔ جو بھی اس کے بر عکس عمل کرے وہ در حقیقت سامراج کی پسندیدہ سمت میں بڑھ رہا ہے۔
ٹاپ
اسلامی یکجہتی
دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں مسلمان طویل عرصے سے عالمی سامراج اور عالمی تسلط پسندانہ سسٹم کے باعث نقصان نہیں اٹھا رہے ہیں اور دباؤ کا سامنا نہیں کر رہے ہیں؟! ایسے میں کیا چارہ ہے سوائے مسلمانوں کی استقامت و مزاحمت کے، سوائے مسلمانوں کے باہمی عہد و پیمان کے، سوائے مسلمانوں کے اتحاد کے، سوائے اسلامی معاشروں کی بیداری کے، سوائے پوری دنیا میں اسلام کی عظیم صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانے کے؟
ٹاپ
حکومتوں کی جانب سے اپنی قوموں کی حمایت
اسلامی مملکتوں کے سربراہوں کے اختیار میں بہت بڑی طاقت ہے اور وہ طاقت ہے مسلم قوموں کی۔ اس نا قابل تسخیر قوت کی مدد سے اسلامی حکومتیں سامراج کے اسلام مخالف محاذ کے سرغنہ امریکا جیسے سپر پاؤر کا مقابلہ کر سکتی ہیں، اپنی قوموں اور دیگر مظلوم مسلم اقوام کے حقوق کا دفاع کر سکتی ہیں۔ اسلام ایک قوم کی زندگی کو سنوارنے کی بہترین ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے سائے میں قومیں مکمل آزادی و خود مختاری سے بہرہ مند ہو سکتی ہیں، اس سے محظوظ ہو سکتی ہیں اور اس ہدف کے حصول کے لئے مسلمان نشین ملکوں کے عوام کا جذبہ ایمانی بہترین سہارا و کمک ہے۔ امریکا اور سامراج کے دیگر عمائدین مسلم ممالک کے سربراہوں کے دماغ میں اسلام کے تعلق سے جو خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مسلم حکومتوں سے یہ امید ہے کہ وہ اس سے متاثر ہونے کے بجائے اس الہی آئین کو قوموں کے نجات دہندہ اور مسلم قوموں یعنی امت مسلمہ کے ان اجزاء کے رشتے اور رابطے کی حیثیت سے دیکھیں اور اس کے سہارے اپنی طاقت و توانائی اور عز و وقار میں اضافہ کریں۔ یہ بذات خود قوموں کو اپنی سمت متوجہ کرنے اور ان کی حمایت و مدد کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ جس حکومت کو اپنی قوم کی حمایت حاصل ہو وہ کسی سے خوفزدہ نہ ہونے میں حق بجانب ہے۔
ٹاپ
سامراج کے عناد کی وجوہات
اسلام سے سامراج کے عناد کے اسباب و علل
اس وقت اسلام اور سامراج کے مابین جو تنازعہ ہے وہ کس بات پر ہے؟ آج سامراج، اسلام کے مقابل کھڑا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود انہوں نے (یعنی سامراجی عناصر نے) صریحی طور پر کہی ہے۔ امریکی صدر نے بے ساختہ صلیبی جنگ کی بات کی۔ سامراج کے تشہیراتی مہرے تواتر کے ساتھ مختلف موذیانہ طریقوں سے دنیا بھر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، فلمیں بنا رہے ہیں، کمپیوٹر گیمز بنا رہے ہیں، مقالے لکھ رہے ہیں، سب کچھ اسلام کے خلاف۔ وہ کیوں اسلام کے مخالف ہیں؟! یہ بہت اہم سوال ہے۔ وہ خود اپنی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اسلام کے مخالف ہیں کیونکہ اسلام جنگ، قتل و غارتگری اور نفرتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ عالمی رائے عامہ کے درمیان اس طرح آشکارا طور پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔ بہتان باندھ رہے ہیں۔ اس وقت تو دنیا میں نفرتیں پھیلانے کا کام سامراج کر رہا ہے۔ دنیا میں جنگ کی آگ امریکی بھڑکا رہے ہیں۔ قوموں اور ملکوں کے حقوق پر حملے اور دست درازی کرنے والے وہی لوگ ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے سے اپنے فوجی لاتے ہیں اور کبھی کسی ملک پر تو کبھی کسی اور ملک پر حملے کرتے ہیں، اس سرحد اور اس قوم کے خلاف جارحیت کرتے ہیں۔ آپ گزشتہ سو سالہ تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو یہی پائیں گے کہ بیشترین جنگیں مغرب والوں نے شروع کی ہیں۔ دنیا کی دونوں عالمی جنگیں یورپیوں نے شروع کیں۔ ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں بے شمار جنگیں امریکی اقتدار پر قابض حکومتوں نے لڑی ہیں۔ وہی ہیں جو قوموں کے درمیان نفرتیں پھیلاتی ہیں۔ اسلام ان تہمتوں سے مبرا ہے۔ جھگڑا اس بات کا نہیں ہے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں، تنازعہ اس بات کا ہے کہ اسلام قوموں کو خود مختاری و آزادی کی دعوت دیتا ہے، مسلمان قوموں کو ان کی عزت نفس کی یاد دلاتا ہے، مسلمان قوموں کو یہ درس دیتا ہے کہ اپنے حقوق کو پہچانیں، ان حقوق کے حصول کی کوشش کریں اور ان پر تجاوز کرنے والوں کا مقابلہ کریں۔ سامراج اس استقامت، اس دفاع اور اس واقفیت و آگاہی کا مخالف ہے۔ اسلام اور سامراج کا تنازعہ اسی بات پر ہے۔
ٹاپ
ملت ایران سے سامراج کی دشمنی کے اسباب و علل
ایران اسلامی، امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا ایران، اسلامی انقلاب والا ایران، مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک اور بیداری کا محور و مرکز ہے۔ اسی لئے دشمنیوں کا ہدف بھی بنا ہوا ہے۔ یہ چیز ملت ایران کے لئے غم و اندوہ نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ اس سے ایران وحشت زدہ نہیں بلکہ زیادہ پرامید ہوا ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت ایران بہت طاقتور ہے اور سامراج اور ڈاکوؤں اور غارتگروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہے۔ سامراج کی دشمنی کو دیکھ کر ملت ایران کو اور بھی یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے انقلاب کو آگے لے جانے اور ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے جس راہ کا انتخاب کیا ہے وہ بالکل صحیح، کامیاب اور درست ہے۔ اگر انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور ملک و انقلاب کی مصلحتوں کی تکمیل کے لئے اپنی مہم میں اس قوم نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا تو اتنی دشمنیاں برداشت نہ کرنا پڑتیں۔
ٹاپ
ایران کے اسلامی انقلاب سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
کیا وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی امام خمینی (رحمت اللہ علیہ) کا پیغام ہے اور قلوب اس کی سمت مائل اور قدم اس کے مقررہ اہداف کی راہ میں گامزن ہیں سامراج پیچ و تاب کھا رہا ہے؟ ان دشمنیوں کی وجوہات اس طرح ہیں؛ سب سے پہلی وجہ تو دین کا سیاست اور سماجی زندگی سے جدا نہ کیا جانا ہے۔ اسلامی جمہوریہ نے عملی طور پر ثابت کر دیا اور دکھا دیا کہ دین انسانوں کی زندگی میں دخیل ہے۔ مقدس دین اسلام اس لئے نہیں آیا کہ لوگوں کو عبادت خانوں کا گوشہ نشیں بنا دے بلکہ انسانی زندگی، سیاست کا میدان، عظیم سیاسی، سماجی اور اقتصادی امور مقدس اسلامی احکام کی قلمرو کے اندر آتے ہیں۔ دوسری وجہ بڑی طاقتوں کی خواہش و مرضی کو در خور اعتناء قرار نہ دینا ہے۔ امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں کی نظر میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک بڑا جرم یہ ہے کہ عالمی امور میں وہ امریکا اور اس کے ہمنواؤں کے نظریات اور منشا کے زیر اثر نہیں ہے۔ اس کی ایک واضح مثال مسئلہ فلسطین ہے۔ انہوں نے عرب اور بہت سے اسلامی ملکوں پر شدید دباؤ ڈالا کہ مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کر دیں، افسوس کہ بعض حکومتیں اس دباؤ کے آگے جھک بھی گئیں اور انہوں نے یہ مطالبہ مان لیا لیکن اسلامی جمہوریہ نے ایک بالکل واضح جملے میں اپنی بات بیان کر دی جسے دنیا کے تمام انصاف پسند افراد تسلیم کرتے ہیں۔ وہ جملہ یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے۔
ایران کے اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی تیسری وجہ یہ موقف ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بساط لپیٹی جانی چاہئے، یہودی فلسطین میں آباد رہ سکتے ہیں لیکن فلسطین میں حکومت کا حق ملت فلسطین کا ہے وہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح جسے چاہیں منتخب کرے۔
چوتھی وجہ ایران کی جانب سے ایسے تمام افراد کی سیاسی و اخلاقی حمایت ہے جو اسلام کی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں سعی و کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں بھی جو کوئی بھی اسلام کی شان و شوکت کے لئے قیام کرتا ہے ایران اس کی سیاسی و اخلاقی حمایت کرتا ہے۔ مسلمان قوموں کی یہ حمایت دشمن کو خشمگیں کرتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دشمنوں کی دشمنی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام پر مغربی ثقافت مسلط کئے جانے کا مخالف ہے۔ مغربی ثقافت ایسی ہے کہ اس میں جہاں خوبیاں ہیں وہیں بہت سے نقائص و عیوب بھی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ثقافتی تعلقات اور لین دین کا قائل ہے۔ ملت ایران جیسی قوم او دیگر مسلم اقوام دنیا کی ثقافتوں کو دیکھیں، ان کا جائزہ لیں اور ان ثقافتوں کے ان نکات کو اختیار بھی کریں جو ان کے لئے ضروری اور مفید ہوں اور ان باتوں کو جو مفید نہیں ہیں مسترد کر دیں۔
عالمی استکبار، اسلام و انقلاب سے دلی کینہ رکھتا ہے اور جب تک قوم اپنے اصولوں اور اپنے دین و مذہب سے دستبردار نہیں ہو جاتی اس وقت تک عالمی استکبار کی ابرو کا بل نہیں جاتا۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ : ولن ترضی عنک الیھود و لا النصاری حتی تتبع ملتھم بنابریں سامراج کے بغض و کینے کی وجہ (اسلامی انقلاب کی) حریت پسندی ، لا شرقی و لا غربی کا نعرہ اور اسلام پر عمل آوری ہے۔ سامراج کا کینہ ختم ہونے والا نہیں ہے لیکن اس کینے کے باوجود ملت ایران اللہ تعالی کے لطف و کرم سے پر امید ہے کہ انشاء اللہ جملہ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اپنے الہی اہداف کو حاصل کرے گی اور دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دے گی۔
ٹاپ
اسلامی جمہوری نظام سے سامراج کی دشمنی کی وجوہات
عوام کے ایمان کی مستحکم بنیادوں پر اسلامی نطام کی تعمیر کے بعد اس (سامراج) کے لئے بہت بڑا چیلنج معرض وجود میں آ گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ فطری طور پر یہ نظام دنیا کے سامراجی نظام کے آکٹوپس سے ٹکرانے والا تھا۔ اس ٹکراؤ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکا، برطانیہ یا کسی اور ملک سے جنگ کے لئے جائے بلکہ جب حساس جغرافیائی محل وقوع اور قدیم تہذیب و ثقافت کا مالک کوئی اسلامی ملک ابھر کر سامنے آتا ہے، کوئی نیا خیال اور نئی فکر پیش کرتا ہے اور پھر اس کی تقویت کے لئے جی جان سے کوشش کرتا ہے اور اس کی کامیابی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ سامراج کو اس پورے علاقے میں اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کے اس زمانے کے سامراجی نظام یعنی ایک طرف لبرل سرمایہ دارانہ نظام اور دوسری طرف نام نہاد سوشیلسٹ الحادی آمریت کا نظام، اسلامی جمہوریہ ایران سے الجھ پڑے۔ تعجب کی بات یہ تھی کہ ان دونوں نظاموں میں نوے فیصدی امور میں اختلافات تھے لیکن (اسلامی انقلاب کی) اس شمع فروزاں کو خاموش کرنے اور اس پودے کو اکھاڑ پھینکنے کی بات پر یہ دونوں متحد ہو گئے!
ٹاپ
سامراج کا آخری ہدف
اس وقت امریکا اور عالمی سامراج کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ انقلاب کو، اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو کسی صورت پسپا کر دیا جائے۔ وہ اعلان کر دے کہ اپنے موقف اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے موقف سے برگشتہ ہو گئی ہے۔ سامراج کی ساری سعی و کوشش یہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ امام (خمینی رہ) کے پیغام نے مسلم قوموں کو بیدار کر دیا ہے۔ آپ دنیا کی مختلف اقوام بالخصوص مسلمان قوموں کو دیکھئے! غور کیجئے کہ وہ کس طرح امام (خمینی رہ) کے پیغام سے متاثر ہوئی ہیں؟! سامراج کو یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ قوموں کو اسی صورت میں ساکت و خاموش رکھا جا سکتا ہے جب انہیں صحیح راستے سے منحرف کرکے اسی جگہ پر پہنچا دیا جائے جہاں سے انہوں نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ یہ قوموں دیکھیں کہ اسلامی ایران، امام خمینی کا ایران اپنے راستے سے برگشتہ ہو گیا ہے تاکہ سب کے سب مایوس ہو جائیں اور اپنی راہ چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں۔ سامراج اس چیز کو سمجھ گیا ہے اور وہ اس کے لئے بھرپور کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ سامراج اپنے تمام وسائل و امکانات کو بروئے کار لاکر اسلامی جمہوریہ کو مٹا دینے کی منصوبہ بندی میں لگا ہوا ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ واقعی یہ سامراج کا آخری ہدف ہے۔ البتہ وہ سیاستداں ہیں اور بخیال خود ایک اک زینہ طے کر رہے ہیں۔
پہلا زینہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کی امنگوں سے جدا کر دیں۔ دوسرا قدم یہ ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ کو اس کے محبوں سے محروم کر دیں، تیسرا قدم یہ ہے کہ حکومت اور حکام کو عوامی طبقات سے دور کر دیں اور دونوں کے درمیان شگاف ایجاد کریں۔ چوتھا قدم یہ ہے کہ اوباش اور شر پسند عناصر کو لائیں، جرائم پیشہ افراد کا سہارا لیں اور ان کی مدد سے اپنا ہدف پورا کریں۔ اگر اسلامی جمہوریہ کے حکام سے غفلت، سستی اور بے توجہی ہوئی تو کوتاہ مدت میں ہی یہ چاروں قدم اٹھائیں جائيں گے لیکن اگر حکام ہوشیار و بیدار رہے اور غفلت کا شکار نہ ہوئے تو صدیاں گزر جائیں گی لیکن پہلا قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہوگا۔
ٹاپ
فہرست
نظارت و نگرانی
نظارت کی اہمیت نگرانی کا معیار
مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت
نظارت اور مجریہ نظارت اور مقننہ نظارت اور عدلیہقائد انقلاب اور نظارت
ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش
شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی انتخابات کی نظارتعمومی نظارت
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار اخبارات و جرائد کی نظارتالہی نظارت
نظارت و نگرانی
نظارت کی اہمیت
ما تحت عملے پر نظارت رکھنا بہت اہم ہے۔ میں تاکید کر رہا ہوں کہ اعلی عہدہ داران اور دائریکٹر حضرات ما تحت عملے پر نظارت و نگرانی کو خاص اہمیت دیں۔ آپ کی کھلی نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں دوڑتی رہیں گی تب ہی کام کے صحیح طور پر آگے بڑھتے رہنے کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ انسانی عملے مشینوں کی طرح نہیں ہوتے کہ ایک بٹن دبا دیا اور مشین خود بخود کام کرنے لگی۔ انسانوں کے عملے میں ارادہ ہوتا ہے، فکر و نظر ہوتی ہے، ذوق اور رجحان ہوتا ہے، اچھی اور بری خواہشیں ہوتی ہیں۔ جو فیصلہ آپ نے کیا ہے اور جس کا انتظام کیا ہے اور جو کام آپ کے ما تحت عملے میں انجام پانا ہے، ممکن ہے اس میں کسی جگہ پر پہنچنے کے بعد انہی ارادوں، نقطہ نگاہ، ذوق یا خواہشوں کی شکل میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ جیسے بہتے ہوئے پانی کے سامنے کوئی پتھر آ جائے یا پانی کے ہلکے بہاؤ کے سامنے ریت آ جائے تو بہاؤ مڑ جائے گا۔ اب اس رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا اور ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے جب نظارت ہو۔ معلوم ہوا نظارت بہت اہم ہے۔
ٹاپ
نگرانی کا معیار
نظارت و نگرانی کے سلسلے میں قانون اور معینہ معیار ملحوظ رکھا جانا چاہئے، ذاتی ذوق اور رجحان نہیں۔ آپ ہرگز ذاتی ذوق کے مطابق آگے نہ بڑھئے۔ اس انداز سے کام کیجئے کہ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عمل آوری کے سلسلے میں کوئی رو رعایت نہ کیجئے۔ اخلاقی پہلوؤں پر توجہ دینا چاہئے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ذاتی امور کو بنیادی مسائل میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر سیاسی مسائل کو انقلابی ہونے یا انقلاب مخالف ہونے جیسے موقف سے چسپاں نہیں کرنا چاہئے۔ دوستی اور دشمنی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کبھی کسی کو ایک شخص پسند ہوتا ہے اور دوسرا نا پسند۔ ایسے میں بہت محتاط رہنا چاہئے کہ یہ چیز کسی بھی سطح پر آپ کو متاثر نہ کر دے۔ آپ بغیر تحقیق کے کسی پر بھی الزام نہ لگائیے۔ ظاہری طور پر انتہائی ابتدائی علامتیں دیکھ کر کسی کو مجرم قرار نہیں دینا چاہئے۔
ٹاپ
مجریہ، مقننہ، عدلیہ اور نظارت
نظارت اور مجریہ
یہ بیوروکریسی اور یہ انتظامیہ جو ناگزیر سسٹم ہے، اگر اس کی نگرانی نہ کی جائے تو بہت خطرناک چیز میں تبدیل ہو جائے گی۔ نگرانی آپ کو بآسانی آپ کے اہداف تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر مجریہ کا سسٹم آپ کے ہاتھ میں نہ ہو تو آپ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکتے، لیکن یہ سسٹم اگر چاہ لے تو آپ کو اس ہدف تک ہرگز پہنچنے نہ دے۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ اس کی تشکیل اور پورے سسٹم پر آپ کی نظارت کیسی ہے۔ اگر آپ نے اس پر بھرپور نگرانی رکھی تو یہ آپ کے اختیار میں رہے گا لیکن اگر آپ نے غفلت برتی تو پھر آپ خود اس کے دام میں اسیر ہو جائیں گے۔ پھر آپ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سے نمٹ نہیں پائیں گے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ صرف بہترین افراد کا ہی انتخاب کریں۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک معیار معین کرکے اپنے عملے کے ایک، دو یا دس ہزار افراد کو اول سے لیکر آخر تک اسی معیار پر پرکھا جائے؟! یہ کہاں ممکن ہے؟! مان لیجئے آپ نے اسی معیار پر سب کو تولا، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ سب ہمیشہ اچھے ہی رہیں۔ کیونکہ کیا اچھے انسانوں کو وسوسے منحرف نہیں کر دیتے؟! بنابریں سب سے قابل اعتماد چیز یہ ہے کہ آپ نظارت اور نگرانی کے لئے وقت دیجئے۔
اگر ایک اچھا ڈائریکٹر اپنا وقت تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا آدھا وقت اپنے ما تحت سسٹم کی نظارت پر اور باقی نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، منصوبہ سازی کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے وغیرہ میں صرف کرنا چاہئے۔ ما تحت سسٹم پر نظارت کا مطلب ہے کہ آپ ہمیشہ موجود رہئے۔ البتہ وزراء کے کاموں پر صدر مملکت کی نظارت وزراء کی اپنے کاموں میں آزادی و خود مختاری سے متصادم نہ ہونے پائے۔ وزراء کے قانونی فرائض ہوتے ہیں، وہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو وہ خود مختار ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وزراء کے سلسلے میں بھی نظارت لازمی ہے۔ ان کی آزادی عمل اپنی جگہ باقی ہے لیکن صدر کی جانب سے ان کی مکمل نگرانی کی جانی چاہئے۔
ٹاپ
نظارت اور مقننہ
ایسے قوانین وضع کرنا جو حکومت کو امور کا انتظام صحیح طور پر چلانے پر مامور اور ساتھ ہی اس پر قادر کریں اور پھر ان پر صحیح طریقے سے عملدرآمد کئے جانے کی نگرانی کرنا پارلیمنٹ کا اولیں فریضہ ہے۔ یہ فریضہ پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے درمیان تعاون اور ہم خیالی اور ساتھ ہی پارلیمنٹ کی جانب سے انتظامیہ کی حمایت کا متقاضی ہے۔ (در حقیقت) قانون سازی اور سرکاری حکام کی کارکردگی کی نگرانی مقننہ کا فریضہ ہے اور (اسلامی جمہوریہ ایران) کے آئین کی رو سے پارلیمنٹ، حکومت کی نگراں ہے۔ اگر مجریہ کسی مقام پر کجی کا شکار ہو جائے اور غلط سمت میں آگے بڑھنے لگے، یا خدا نخواستہ (اختیارات کا) غلط استعمال ہونے لگے یا کوئی بد عنوانی ہو جائے تو ایسے میں بد عنوانی اور انحراف کا سد باب کرنے والا مرکز(پارلیمنٹ ہی ہے)۔
پارلیمنٹ، خدمت گزار حکومت بالخصوص صدر کے ساتھ تعاون کرنے کے ساتھ ہی نگراں کے فرائض بھی انجام دیتی ہے، اس کی ایک مثال یہی احتساب کا ادارہ ہے۔ احتساب کا ادارہ بہت اہم وسیلہ ہے۔ عظیم قومی بجٹ انتظامیہ کو ملتا ہے۔ یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ یہ بجٹ کیسے خرچ کیا گيا۔ کاموں کی درستی یا نادرستی کا تعین کرنے کے لئے پارلیمنٹ کے پاس یہ اہم وسیلہ ہے۔ اس کی جانب سے غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ نگرانی کے وسائل سے استفادے کے سلسلے میں زیر نگرانی اجرائی شعبوں سے رابطہ بھی قانونی ہونا چاہئے۔ بعض رابطے نا درست ہوتے ہیں وہ آپ کے لئے نقصان دہ ہیں۔ یہ فرض کرنا محال نہیں کہ بعض زیر نگرانی اداروں کے ساتھ نادرست رابطے ہوں۔ اس سے نگرانی مختل ہوکر رہ جائے گی اور اس کی قوت تاثیر ختم ہوکر رہ جائے گی۔ آئین سے پارلیمنٹ کو جو وسیع توانائی ملی ہے اس کے اختیار سے نکل جائے گی، پھر پالیمنٹ بے اثر ہوکر رہ جائے گی۔
پارلیمنٹ کی جانب سے نگرانی بہت ضروری ہے، خواہ ادارہ احتساب جیسے وسائل کے ذریعے یا یہ کہ اراکین پارلیمنٹ بذات خود (نگرانی کریں) اور مثلا انتباہ، سوال کر لینا یا اس جیسے دیگر نگرانی کے اختیارات جو پارلیمنٹ کے پاس ہیں، یہ وسائل بہت اہم ہیں۔ ہاں یہ وسائل دو طاقتوں کے ما بین ٹکراؤ کا سبب نہ بن جائیں۔ قانون ساز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون سے ملک کی ترقی کی راہ ہموار اور تعمیری عمل کی رفتار تیز ہوتی ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پارلیمنٹ اپنے نگرانی کے فرائض میں کوئی کوتاہی کرے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ حکومت کے اعلی عہدہ داروں پر اپنے اعتماد کے لئے، ان کی فرض شناسی، تدین، افادیت، مہارت، نظام اور عوام سے وفاداری کو معیار قرار دے اور ان کی کارکردگی پر قانونی نگرانی کے سلسلے میں سنجیدگی سے کام کرے۔ یہ رابطہ اتنا صحتمند ہونا چاہئے کہ حکومت پارلیمنٹ کو بڑے کاموں کے سلسلے میں مشکل کشا تصور کرے اور اپنے دشوار فرائض کی انجام دہی میں اس (پارلیمنٹ) کی حکمت و دوراندیشی سے استفادہ کرے۔
ٹاپ
نظارت اور عدلیہ
عدلیہ کو چاہئے کہ قانون کی نگرانی کا خیر مقدم کرے۔ قانون، نگرانی کا ایک ذریعہ ہے۔ قانون خود عدلیہ کے اندر رکھا گیا ایک ایسا عنصر ہے جو عدلیہ پر نظارت کے لئے بہت اہم اور موثر ہے۔ معیار، قانون ہونا چاہئے اور قوانین کی ہرگز خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے، کسی کو مستثنی نہیں کیا جانا چاہئے۔ قانون کے دائرے کو کسی بھی وجہ سے کم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدلیہ کو چاہئے کہ نگرانی اور نظارت کا استقبال کرے۔ ہر طرح کی نظارت، ہر اظہار خیال اور حتی منصفانہ تنقید کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ مالی امور ہوں یا غیر مالی امور، جس کا حساب کتاب صاف ہے اسے احتساب کا کیا خوف؟ متعلقہ اداروں مثلا احتساب کے ادارے اور دیگر نگراں اداروے اسی طرح عدلیہ کے دائرے سے باہر کے افراد مثلا یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مرکز کے اہل نظر حضرات اور ملک کے قانون داں اپنی رائے ظاہر کریں، اپنی تجاویز پیش کریں، تنقیدیں کریں، اس سے عدلیہ کو تقویت ملے گی۔ اسے مزید استحکام حاصل ہوگا۔ بحمد اللہ عدلیہ بڑے اچھے ستونوں پر استوار ہے، اس کی بنیادیں بڑی اچھی اور اسلامی جمہوری نظام کے مقدس اصولوں سے ماخوذ ہیں اور ان کا تکیہ گاہ اسلامی احکام ہیں۔ یہ مستحکم ادارہ ہے اسے کسی سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کی جتنی زیادہ نظارت اور نگرانی کی جائے اور اس کے سامنے جتنے زیادہ قانونی چیلنج موجود ہوں اس کے لئے اتنا ہی بہتر ہے۔ اس طرح اس میں اور پختگی آئے گی۔
ٹاپ
قائد انقلاب اور نظارت
کوئی بھی نظارت سے بالاتر نہیں ہے۔ قائد انقلاب بھی اس سے مستثنی نہیں تو قائد انقلاب سے وابستہ اداروں کے مستثنی ہونے کا کیا سوال ہے؟ سب کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ ان لوگوں پر نظارت جو حکومت کر رہے ہیں، کیونکہ فطری طور پر حکومت قدرت اور دولت کے اجتماع سے عبارت ہے۔ یعنی قومی خزانہ اور سماجی و سیاسی اختیارات حکام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، تاکہ وہ ایمانداری سے کام کریں۔ (چیزوں کا) غلط استعمال نہ کریں، ان کا نفس سرکشی پر آمادہ نہ ہو جائے، یہ لازمی اور واجب ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔ قائد انقلاب سے وابستہ اور قائد انقلاب سے الگ اداروں والی تقسیم درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ آئین کی رو سے مجریہ، عدلیہ اور مقننہ تینوں، قائد انقلاب کے زیر نظر ادارے ہیں۔ اسی طرح دیگر ادارے بھی ہیں۔ قائد انقلاب کے زیر نظر ہونے سے یہ مراد نہیں ہے کہ قائد انقلاب کسی ادارے کا انتظام سنبھالتا ہے۔ خیر جو بھی ہو، سب کی نظارت ضروری ہے۔ تمام حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو چاہئے کہ احتساب سے ہرگز نہ گھرائیں۔ مشہور کہاوت ہے:
آن را کہ حساب پاک است از محاسبہ چہ باک است
اپنا حساب کتاب صاف رکھیں تاکہ احتساب سے انہیں کوئی گھراہٹ نہ ہو۔ تو ایسا نہیں ہے کہ جو ادارے قائد انقلاب سے وابستہ ہیں وہ نظارت سے مستثنی ہیں۔ نظارت کا عمل پوری سنجیدگی سے انجام دیا جانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں ماہرین کی کونسل کے اراکین اور دیگر افراد کے سامنے بارہا بیان کر چکا ہوں۔ میں نظارت کو پسند کرتا ہوں اور اگر کوئی کسی جگہ نظارت سے بھاگتا ہے تو مجھے اس سے شدید شکایت ہے۔ میری اپنی جتنی زیادہ نظارت کی جائے مجھے اتنی ہی خوشی ہوگی۔ یعنی نظارت مجھے بار محسوس نہیں ہوتی۔ بنابریں میں اس بات سے خوش ہوں گا کہ نظارت کی جائے۔ البتہ اگر کوئی نظارت کر رہا ہے اور اسے کچھ معلوم ہے تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے با خبر کرے، وہ یقینا اس سے استفادہ کرے گی۔
ٹاپ
ماہرین کی کونسل کی نظارتی روش
ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام قائد انقلاب کا انتخاب اور دوسرے مرحلے میں قائد انقلاب پر نظر رکھنا ہے، تاکہ اس کا اندازہ رہے کہ اس کی صلاحیت و اہلیت باقی ہے یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کا فہم و ادراک اور اس کا خلوص و صداقت برقرار ہے اور (یہ صفتیں) معیار سے نیچے تو نہیں آئی ہیں۔ اسے اس کی نظارت کرنا ہے۔ یہ ماہرین کی کونسل کا سب سے اہم کام ہے۔ ملک میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہو جو اس اہم کام کو انجام دے اور جسے اس کی اجازت ہو یا جس پر اس کی ذمہ داری ہو۔
ماہرین کی کونسل کی ایک تحقیقاتی ٹیم ہے۔ قائد انقلاب کے کاموں پر نظر رکھنے کی ذمہ دار یہی تحقیقاتی ٹیم ہے۔ اس ٹیم کا کام سال میں ایک بار نہیں ہوتا، اس کا کام جاری رہتا ہے اور قائد انقلاب کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے قائد انقلاب کے کام خفیہ نہیں ہوتے کیونکہ قائد انقلاب کے فرائض اور ذمہ داریاں معین اور واضح ہیں۔ یہ ٹیم آتی ہے تحقیق اور سوال و جواب کرتی ہے۔ یہ ٹیم ماہرین کی کونسل کو اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین اپنے ایک دو دنوں کے اجلاسوں میں کافی بحث کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک اعلامئے پر اکتفا کر لیتے ہوں۔ اس میں بڑی بحثیں ہوتی ہیں اور مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔ تو یہ لوگ اپنا کام انجام دیتے رہتے ہیں۔ اس اہم ادارے کا سال میں دو اجلاس کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ پہلے ماہرین کی کونسل کا ایک سالانہ اجلاس ہوتا تھا لیکن پچھلے کچھ سالوں سے ہر سال دو اجلاس منعقد ہو رہے ہیں۔ (نظارت کے لئے) ماہرین کی کونسل کے علاوہ خود عوام بھی ہیں۔
ٹاپ
شورائے نگہبان یعنی نگراں کونسل کے نظارتی فرائض
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی
اہلیت و صلاحیت کی نگرانی ایک قانونی چیز ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت قانون کے مطابق اور آئین سے ہم آہنگ ہے۔ اس کی بنیادیں اور جڑیں آئین میں موجود ہیں۔ یہ نظارت عام شہریوں کے لئے نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی نا مناسب، ضرررساں اور برا آدمی اس حساس مرکز میں داخل نہ ہونے پائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں ہے، صدر کے سلسلے میں بھی پائی جاتی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ پارلیمنٹ، صدارت یا دیگر عہدوں پر جن کے سلسلے میں یہ نظارت رکھی گئی ہے مثلا ماہرین کی کونسل یا دیگر اداروں جیسے حساس مقامات پر ایسے افراد نہ پہنچنے پائیں جو ملک کے قوانین کی رو سے اس کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اہلیت کی نگرانی ایک اچھی چیز ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جو لوگ تنقید اور اعتراض کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ نگراں کونسل کی موافقت یا عدم موافقت سیاسی رجحان اور نقطہ نگاہ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن یہ خیال درست نہیں، نگراں کونسل کے عہدہ داروں نے ہمیشہ اس کی تردید کی ہے۔ میں نے بھی نزدیک سے ان کی کارکردگی پر نظر رکھی ہے اور مجھے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ اب یہ ممکن ہے کہ کبھی کوئی کسی چیز کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکے، یہ الگ بات ہے لیکن (کام کی) بنیاد، قانونی بنیاد ہے۔
ٹاپ
انتخابات کی نظارت
انتخابات کی نظارت بہت اہم چیز ہے کیونکہ انتخابات کی صحتمندی سے پارلیمنٹ صحتمند ہوگی۔ پارلیمنٹ کی صحتمندی، قوانین اور ملک میں کاموں کی بنیادوں کی صحت مندی کا پیش خیمہ ہوگی۔ کوئی بھی اجرائی ادارہ، خواہ کتنا ہی کارآمد کیوں نہ ہو، اگر اس کو سونپے جانے والے قوانین صحیح، درست اور واضح نہ ہوں تو اس میں بہرحال انحراف ہو سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی صحت مندی اس میں آئین کی پابندی اور اسلامی پہلو کی پاسبانی پر موقوف ہے اور یہ چیز نگراں کونسل کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے۔ نظام کی صحت مندی کا دارومدار اس پر ہے کہ قوانین درست ہوں اور ان میں اسلام کو ملحوظ رکھا گیا ہو، چنانچہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ اگر اسلام سے مطابقت رکھنے والے قوانین وضع نہ کر سکے اور اس کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو بلا شبہ حکومت اور انتظامیہ پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ بنابریں نظام کی سلامتی کا دارومدار پارلیمنٹ کی سلامتی پر ہے۔ صحتمند، طاقتور، فعال اور مومن و اصول و ضوابط کے پابند اراکین والی پارلیمنٹ (ملک کے) نظام کی صحیح طور پر قانونی پشت پناہی کر سکے گی۔ نگراں کونسل بڑا قابل اعتماد ادارہ ہے جو انقلاب نے ملک کے نظام کو بخشا ہے۔ ہم نظام کی صحتمندی کی بابت مطمئن رہیں، اس کے لئے سب سے اہم، سب سے زیادہ فعال، سب سے زیادہ موثر اور نمایاں ادارہ نگراں کونسل ہے۔ نگراں کونسل انتخابات کے سلسلے میں امانتدار نگراں ہے۔
ٹاپ
عمومی نظارت
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، عمومی نظارت
(نظارت کا) جو پہلو سب سے پہلے مرحلے میں عوام سے متعلق ہے سماجی امور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ انفرادی امور کے سلسلے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے تقوی پر سب سے زیادہ تاکید فرمائی ہے، لیکن سماجی امور کے سلسلے میں عوام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زیادہ سنجیدہ، زندہ اور حوصلہ انگیز کوئی اور حکم نہ دیا گيا ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ امر بالمعروف یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی دعوت دینا اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو برے کاموں سے روکنا۔ امر اور نہی زبان سے انجام دی جاتی ہے لیکن زبان سے بھی پہلے قلب کا مرحلہ ہوتا ہے، اگر یہ مرحلہ پورا ہوا ہے تو زبان سے انجام پانے والا امر بالمعروف مکمل ہوگا۔ جب آپ اسلامی نظام کی مدد کی غرض سے لوگوں کو نیک کاموں کا حکم دیں گے مثلا فقراء کے ساتھ نیکی، صدقہ دینے، رازوں کی حفاظت، محبت، تعاون، کارہائے نیک، تواضع، حلم، صبر وغیرہ کے بارے میں آپ بات کریں اور کہیں کہ یہ کام کیجئے تو اگر اس نیک کام سے آپ کے دل کو بھی لگاؤ اور انسیت ہے تو آپ کا یہ حکم صادقانہ ہوگا۔ جب کسی کو برائیوں سے روکتے ہیں، مثلا ظلم کرنے، زیادتی کرنے، دوسروں (کے حقوق) پر تجاوز کرنے، عوام کے مال کو بے دردی سے خرچ کرنے، لوگوں کی ناموس کے سلسلے میں دست درازی کرنے، غیبت، جھوٹ، چغلی، سازش، اسلامی نظام کے خلاف سرگرمیاں انجام دینے اور اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تعاون کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ کام نہ کیجئے تو اگر ان کاموں سے آپ کا دل بیزار ہوگا تو آپ کی یہ نہی صادقانہ ہوگی اور آپ خود بھی اس امر و نہی کے مطابق عمل کریں گے۔ لیکن اگر خدانخواستہ آپ کا دل آپ کی زبان کے ہمراہ نہ ہوا تو آپ اس انسان لعن اللہ الآمرین بالمعروف التارکین لہ کا مصداق بن جائیں گے۔ جو شخص دوسروں کو تو نیک عمل کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا، لوگوں کو تو برائیوں سے روکتا ہے لیکن خود ان کا مرتکب ہو رہا ہے، ایسا شخص اللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے اور اس کا انجام بہت خطرناک ہوگا۔
اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے معنی اور ان کی حدود، عام لوگوں کے لئے واضح اور آشکارا ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی روابط کے سلسلے میں یہ سب سے زیادہ کارآمد، کارساز، شیریں اور جدید طریقہ ہے۔ یہ در حقیقت تعاون سے عبارت ہے، یہ عام نگرانی ہے۔ یہ اچھائیوں کا سرچشمہ ہے۔ یہ برائیوں اور شر پر قابو پانے میں مددگار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں گناہ کو ہمیشہ گناہ تصور کیا جائے۔ یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ کوئی وقت ایسا آئے جس میں معاشرے میں گناہ کو نیکی کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اچھے کام کو برا کہا جانے لگے اور پوری ثقافت ہی تبدیل ہو جائے۔ اگر معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج ہو تو گناہ کو عوام ہمیشہ گناہ ہی تصور کریں گے، اسے نیک اور ثواب کا کام نہیں سمجھیں گے۔ عوام کے خلاف سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ ایسی باتیں اور کام رائج کر دئے جائیں جن سے اچھے کام، جن کا دین نے حکم دیا ہے اور جن میں ان کی بھلائی ہے، لوگوں کی نظر میں برے بن جائیں اور برے کاموں کو اچھا قرار دے دیا جائے۔ یہ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔
بنابریں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سب سے پہلا فائدہ تو یہی ہے کہ اچھائی اور برائی کو اچھائی اور برائی ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب معاشرے میں گناہ عام ہو جائے اور عوام کو گناہوں کی عادت پڑ جائے تو جو شخص معاشرے کا ذمہ دار ہے اور عوام کو خیر و نیکی کی سمت لے جانا چاہتا ہے اس کا کام بہت مشکل ہو جاتا ہے، وہ ناکام ہو جائے گا، یا پھر آسانی سے اپنا کام نہیں کر پائے گا، یہ کام کرنے کے لئے اسے بہت کچھ صرف کرنا پڑے گا۔ ارشاد ہوتاہے لتامرن بالمعروف و لتنھون عن المنکر او لیسلطن اللہ علیکم شرارکم فیدعوا خیارکم فلا یستجاب لھم اپنے درمیان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر رائج کیجئے اور اس کے پابند رہئے، اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی آپ پر شر پسندوں، مفسدوں اور (دوسروں کے) آلہ کاروں کو مسلط کر دے گا۔ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو اور معاشرے میں چوری، غیر قانونی کام، بد عنوانی اور خیانت رائج ہو جائے اور (یہ صورت حال) رفتہ رفتہ معاشرے کی ثقافت کا حصہ بن جائے تو نابکار افراد کے بر سراقتدار آنے کی راہیں کھل جائيں گی۔
ٹاپ
حکام کی سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعدد میدان ہیں جن میں سب سے اہم حکام کا میدان ہے۔ یعنی عام لوگ حکام کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں۔ عوام حکام سے اچھے کام کا مطالبہ کریں، درخواست اور التماس کی صورت میں نہیں بلکہ تحکمانہ انداز میں۔ یہ بہت اہم میدان ہے، یہ فقط اسی میدان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے بھی میدان ہیں۔
سارے شعبوں میں نہی عن المنکر کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلا توانائی رکھنے والے افراد جو کام اپنے ہاتھ میں لیتے اور انجام دیتے ہیں اس میں قومی ذخائر کا جو غلط استعمال ہوتا ہے، یعنی ملکی امور میں یہی اقربا پرستی، امپورٹ کے معاملے میں، کمپنیوں کے سلسلے میں، پیداواری ذخائر سے استفادے کے سلسلے میں حکام جو اقربا پرستی کرتے ہیں۔ ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ دو تاجر آپس میں تعاون اور دوستی کی بنیاد پر کام کرتے ہیں، یہ الگ چیز ہے، اس کا حکم بھی الگ ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص سرکاری عہدے پر ہے اور جس کے پاس اختیارات ہیں کسی شخص سے خاص قسم کے تعلقات قائم کرتا ہے۔ یہ چیز ممنوع اور حرام ہے اور اس سے ان تمام لوگوں کو روکا گیا ہے جو ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ ہر ادارے میں ہر شخص پر وہ ماتحت ہو یا افسر (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) واجب ہے۔ اس طرح موقع پرست افراد کو روکا جا سکتا ہے۔
ٹاپ
اخبارات و جرائد کا نظارتی کردار
اسلامی جمہوری نظام ایک عوامی نظام ہے۔ عوامی نظام یعنی یہ کہ اس کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل میں عوام کا کردار ہے، یہ عوام کو بے خبر نہیں رکھ سکتا، اسے عوام کو با خبر رکھنا ہے، انہیں تجزئے اور تبصرے کا موقع فراہم کرنا ہے، انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات مہیا کرانا ہے۔ ایسے نظام میں اطلاعات پانی اور ہوا کی مانند حیاتی درجہ رکھتی ہیں، ہمارا نظام اسی انداز کا ہے۔ عوام جتنے زیادہ باخبر ہوں گے اسلامی نظام کو اتنا ہی زیادہ فائدہ پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام عوام کو واقف اور باخبر رکھنے کا متقاضی ہے۔
ہمارے معاشرے کے افراد کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی میدانوں میں وارد ہوکر باریک بینی سے جائزہ لیں اور مناسب رہنمائی اور ہدایات کے ذریعے سب کو فرائض کی بابت آگاہ کریں۔ بے شک عوام اور حکام کے درمیان میڈیا بالخصوص اخبارات، رابطے کی وسیع کڑی ہے۔ اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کو بر وقت مناسب اطلاعات فراہم کرنے کے کوشش کریں۔ ہمارے اخبارات و جرائد کو چاہئے کہ عوام کی اقدار، حقیقی شناخت اور آرزوؤں پر توجہ دیں۔ اخبارات و جرائد معرفت بخش اقدامات کے ذریعے عوام کو بھی ان کے فرائض سے روشناس کرا سکتے ہیں اور حکام کو بھی ان کی سنگین ذمہ داریوں سے آگاہ کر سکتے ہیں۔ اگر کہیں معاملہ اس کے الٹ ہو تو یہی اخبارات و جرائد اختلافی باتوں کو ہوا دیکر اور غلط فہمی اور تفرقہ و انتشار پیدا کرکے عوام اور حکام دونوں کو ان کے بنیادی فرائض سے غافل کر سکتے ہیں۔
میں اخبارات و جرائد کو بہت ضروری اور لازمی مانتا ہوں، ایرانی معاشرے اور ہر اس سماج کے لئے جو اچھی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اخبارات و جرائد کے لئے میری نظر میں تین اہم ذمہ داریاں ہیں۔ تنقید و نظارت کی ذمہ داری، شفاف اور درست اطلاعات کی فراہمی کی ذمہ داری اور معاشرے میں تبادلہ خیال کروانے کی ذمہ داری۔ میرا ماننا ہے کہ آزادی قلم و بیان، اخبارات و جرائد اور عوام کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئین کے صریحی قوانین میں سے ہے۔ میرا نظریہ ہے اگر معاشرہ آزاد ذرائع ابلاغ اور آزاد و با فہم قلم سے محروم ہو جائے تو دوسری بہت سی چیزوں سے بھی محروم ہو جائے گا۔ آزاد اخبارات کا وجود قوم کے بلوغ فکری کی علامت اور در حقیقت فکری پیشرفت کی بنیاد ہے۔ یعنی ایک طرف قوم کی آزادی و فکری بلوغ سے اخبارات و جرائد کو وجود ملتا ہے اور دوسری طرف اخبارات و جرائد قوم کی فکری پیشرفت و بلندی میں مددگار ہوتے ہیں۔ البتہ اس اصول کے ساتھ ہی میری نظر میں کچھ دوسرے اصول بھی ضروری ہیں جو اخبارات و جرائد اور قلم کی آزادی کے نام پر نظر انداز نہ ہونے پائیں۔ فن تو یہ ہے کہ انسان آزادی سے بھی بہرہ مند ہو، حقیقت کا بھی ادراک رکھے اور ساتھ ہی عیوب سے بھی اپنا دامن بچائے رہے۔ ایسی روش اختیار کرنی چاہئے۔
ٹاپ
اخبارات و جرائد کی نظارت
اخبارات و جرائد کی نظارت ایک لازمی امر اور فریضہ ہے۔ یہ آئين، اخبارات کے قانون اور عام قانون کا تقاضا بھی ہے۔ نظارت نہ ہو تو اخبارات سے متوقع قومی مفادات و مطالبات کی تکمیل نہیں ہو سکے گی۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رائے عامہ ایک آزاد اور بے قید و بند علاقہ ہے جہاں جو جی چاہے کیا جائے۔ رائے عامہ تجربہ گاہ کا مینڈک نہیں کہ جس کا جو جی چاہے اس کے ساتھ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی کا سہارا لیکر عوام کے جذبات، عقائد اور مقدسات پر ضرب لگائی جائے۔ یہ تو درست نہیں ہے۔ بنابریں نظارت لازمی ہے، تاکہ ان چیزوں سے بچا جا سکے۔ یہ ایک فریضہ ہے۔
ٹاپ
الہی نظارت
ہمیں چاہئے کہ اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو دخیل کریں اور اسے بنیادی کردار دیں۔ بعض لوگ، عوامی نظارت اور اس کا تو خیال رکھتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لیکن الہی نظارت اور اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل و انجام کا انحصار ہے۔ ہم عمر کے ہر موڑ پر وجود و عدم کے دہانے پر ہوتے ہیں موت کے دوسری طرف الہی محاسبہ اور حساب کتاب کرنے والے باریک بینوں کے مواخذے کا سامنا ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہئے۔ زندگی، ابدیت اور حقیقی انجام تو ہم ہی سے متعلق ہے۔ اس کو اہمیت دیں۔ چار دن کے لئے ہم آئے ہیں، ہمیں اس جگہ کو آباد کرنا چاہئے، جو بات کہیں، جو دستخط کریں، جو مشورہ دیں، جو فیصلہ کریں، جو برطرفی اور تقرری کریں اس میں آخرت، خوشنودی پروردگار اور محاسبہ آخرت کو مد نظر رکھیں۔
بعض کا خیال ہے کہ دولت و ثروت کی ماہیت و حقیقت ہی شر پر مبنی ہے۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ قدرت و دولت زندگی کے دیگر عطیات کی مانند زینت کا درجہ رکھتی ہے۔ (زینۃ الحیاۃ الدنیا) ہم اس طاقت کو استعمال کس طرح کر رہے ہیں؟ اگر صحیح استعمال کیا تو یہ (شر نہیں) خیر ہے، اگر ہم نے اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ خیر ہے، اگر ہم نے اسے اخلاقیات و روحانیت کی ترویج اور انسانوں کی فلاح و نجات کے لئے استعمال کیا تو یہ خیر ہے لیکن اگر ہم نے ذاتی مفادات کے لئے، خواہشات کے لئے اور درندوں کی طرح کبھی اس پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹ پڑنے کے لئے استعمال کیا تو یہی (سرمایہ) شر میں تبدیل ہو جائے گا اور اس کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ بڑھ جائے گا۔ نظام کے حکام اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانیں۔ قیامت کے دن ہونے والے الہی محاسبے کو سنجیدگی سے لیں۔ محاسبہ الہی بر حق ہے۔ معمولی سے معمولی کام، لمحے بھر کی کوتاہی اور غفلت سب ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہو جاتی ہے اور باقی رہتی ہے۔ ان میں ایک ایک کا حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح آپ فرائض کی انجام دہی میں جو سختیاں برداشت کر رہے ہیں اس کا بھی ایک اک لمحہ آپ کے نامہ اعمال میں محفوظ ہوگا۔ اپنے کام کے سلسلے میں آپ جو فکر مند ہوتے ہیں، جو سعی و کوشش کرتے ہیں، آپ کے اعصاب اور اہل خانہ پر جو دباؤ پڑتا ہے، اللہ تعالی کی راہ میں کوئی کام انجام دینے کے لئے، وہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی غفلت، کوتاہی، یا بے توجہی ہو گئی یا عوام اور نظام کے مفادات پر آپ نے اپنے بعض ذاتی یا جماعتی مفادات کے باعث توجہ نہ دی تو یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ رہے گا اور اللہ تعالی اس بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔
ٹاپ
اختصار سے بیان کیا جائے تو ولایت سے مراد یہ ہے کہ اسلام، نماز، روزہ، زکات، ذاتی اعمال اور عبادات ہی کا نام نہیں ہے۔ اسلام ایک سیاسی نظام بھی رکھتا ہے جس کے تحت اسلامی قوانین کے تناظر میں حکومت کی تشکیل کا نظریہ موجود ہے۔ اسلام حکومت کو ولایت کا نام دیتا ہے اور جو شخص حکومت کا سربراہ ہے اسے والی، ولی اور مولا کہتا ہے جو لفظ ولایت کے ہی مشتقات ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں حکومت کو ولایت کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں حاکم کا عوام سے محبت آمیز، جذباتی و فکری و عقیدتی رشتہ ہوتا ہے۔ جو حکومت کودتا اور بغاوت کا نتیجہ ہو جس میں حاکم کا عقیدہ و نظریہ عوام کے نزدیک قابل قبول نہ ہو اور حاکم عوام کے احساسات و جذبات کو درخور اعتنا نہ سمجھتا ہو، جس حکومت میں حکام آج کل کے حکمرانوں کی مانند مخصوص قسم کے وسائل و اسباب سے بہرہ مند ہو اور اس کے لئے دنیوی آسائشوں سے بھری مخصوص جگہ آراستہ کی گئی ہو اور جو حکمراں کے لئے شرط کا درجہ رکھنے والی خصوصیات و کمالات کی بنا پر نہیں بلکہ وراثت کی بنیاد پر حاکم بن گیا ہو وہ نہ تو ولی ہے اور نہ اس کی حکومت ولایت کہلائے گی۔ ولایت عبارت ہے اس حکومت سے جس میں عوام اور حکام کے درمیان، فکری، عقیدتی اور جذباتی رابطہ اور محبت کا رشتہ ہو، جس میں عوام حاکم سے جڑے ہوں اس سے قلبی وابستگی رکھتے ہوں اور حاکم بھی اس سیاسی نظام اور فرائض کو الہی عطیہ اور خود کو اللہ تعالی کا بندہ سمجھتا ہو۔ ولایت میں غرور و تکبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ولایت کا اطلاق اس وقت ہوگا جب والی یا ولی کے ساتھ عوام کا نزدیکی محبت آمیز رشتہ ہو۔ یعنی والی خود عوام کے درمیان سے آئے اور ولایت و حکومت کی باگڈور سنبھالے۔ جس نظام حکومت کا تعارف اسلام نے کرایا ہے وہ آج کل رائج جمہوری نظاموں سے کہیں زیادہ عوام پسندی پر مبنی ہے۔ یہ نظام عوام کے دلوں، افکار و نظریات، احساسات و جذبات، عقائد و اقدار اور فکری احتیاجات سے جڑا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت عوام کی خادم ہوتی ہے۔ اسلام میں حاکمیت کے نظرئے کی بنیاد یہی ہے۔ ولایت یعنی اسلامی معاشرے کی سرپرستی۔ یہ طرز حکومت دیگر معاشروں کی حکومتوں سے مختلف و متفاوت ہے۔ اسلام میں معاشرے کی سرپرستی کے مسئلے کا تعلق اللہ تعالی سے ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ دوسرے انسانوں کے امور کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ یہ حق اللہ تعالی کی ذات سے مختص ہے جو تمام انسانوں کا خالق، ان کی مصلحتوں سے واقف اور ان کے جملہ امور کا مالک ہے۔ بلکہ وہ تو عالم ہستی کے ایک اک ذرے کے تمام امور کا مالک ہے۔ کوئی بھی طاقت، کوئی بھی شمشیر، کوئی بھی دولت اور کوئی بھی علمی ملکہ کسی کو بھی یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ دیگر انسانوں کی تقدیر کے فیصلے کرے۔ اللہ تعالی اس ولایت و حکومت کے نفاذ کے لئے اپنے خاص ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ جب اسلامی حاکم کا انتخاب نص کے ذریعے جیسا کہ ہم حضرت امیر المومنین اور بقیہ ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں، انجام پایا ہو یا معین کردہ معیاروں کے مطابق عمل میں آیا ہو اور اسے عوام کے امور کا انتظام سونپ دیا جائے تو یہ ولایت، ولایت الہی کہلائے گی۔ یہ حق الہی اور خدائی اقتدار ہے جو عوام پر نافذ ہوا ہے۔ اگر کوئی ولایت الہی اور خدائی اقتدار کو تسلیم نہ کرے تو اس کی حکومت کیسی بھی ہو عوام پر حکمرانی کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ نکتہ بھی اسلامی معاشرے کی تقدیر کے سلسلے میں بڑا اہم اور حیاتی ہے۔ولایت الہی کی خصوصیات میں ، قدرت، حکمت، انصاف اور رحمت شامل ہیں۔ جو شخص اور سسٹم عوام کے امور کا نظم و نسق سنبھالتا ہے، اسے الہی قدرت و حکمت، انصاف و مساوات اور رحمت و عطوفت کا مظہر ہونا چاہئے۔یہ خصوصیت، اسلامی اور غیر اسلامی سماجوں کے درمیان خط فاصل کا درجہ رکھتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف، علم و دانش، دین و مذہب اور رحمت و عطوفت کا بول بالا ہونا چاہئے۔ یہاں کوئی خود غرض انسان حاکم نہیں بن سکتا، ھوی و ہوس کی حکمرانی نہیں ہو سکتی۔اگر مدنی معاشرے سے مراد مدینۃ النبی کا معاشرہ ہے تو ولی فقیہ اس معاشرے میں تمام امور کا مالک ہے۔ کیونکہ مدینۃ النبی میں دین کی حکومت ہے، ولایت فقیہ بھی اسی طرح کسی ایک شخص کی حکومت کا نام نہیں ہے بلکہ معینہ معیار کی حکومت ہے۔ کچھ معیار معین ہیں۔ جو بھی ان معیاروں پر پورا اترے گا وہ معاشرے میں ان فرائض کی انجام دہی کر سکتا ہے جو ولی فقیہ کے لئے مقرر کئے گئے ہیں۔ اگر مدنی معاشرے سے مراد، جمہوری معاشرہ ہے تو وہ ایسا معاشرہ ہوگا جس میں قانون کی بالادستی ہو۔ ایسے معاشرے میں بھی ولی فقیہ کو وہی قانونی مقام حاصل رہے گا۔ یعنی یہاں عوام کے بالواسطہ انتخاب سے معیاروں پر اسے تولا جائے گا۔ جیسے ہی اس میں کوئی معیار زائل ہوا اسے معزول کر دیا جائے گا۔ پالیسی سازی کے عمل میں ولی فقیہ بنیادی کردار کا حامل ہے، تاہم اجرائی امور میں اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ ہمارے آئین کی رو سے ولایت فقیہ کا یہ مطلب نہیں کہ ملک کے ذمہ دار افراد کے اختیارات اور ذمہ داریاں سلب کر لی جائیں۔ ملک کے مختلف اداروں اور عمائدین کے فرائض ان سے کوئی بھی سلب نہیں کر سکتا۔ نظام حکومت میں ولی فقیہ کا مقام انجینئر کا ہوتا ہے جو اس کی درست پیشرفت پر نظر رکھتا ہے اور اسے دائیں بائیں کج نہیں ہونے دیتا۔ ولایت فقیہ کا یہی بنیادی مفہوم و معنی ہے۔ بنابریں ولایت فقیہ نہ تو محض علامتی عہدہ ہے چونکہ بسا اوقات اس کی جانب سے اہم سفارشات آتی ہیں، اور نہ ہی حکومتی امور میں اجرائی رول ادا کرتا ہے کیونکہ ملک میں اجرائی، عدالتی، اور قانون سازی کے امور کے لئے حکام معین کئے گئے ہیں جنہیں اپنی اپنی ذمہ داریوں کے مطابق عمل کرنا اور جواب دہ ہونا ہے۔ اس پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے سسٹم میں ولایت فقیہ کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ گوناگوں کوششیں اور کارکردگی نظام کی پش قدمی کے عمل کو اہداف اور اقدار سے منحرف نہ کر دیں، اس میں دائیں یا بائيں کجی نہ پیدا ہو جائے۔ اعلی اہداف کی جانب نظام کی پیشرفت پر نظر رکھنا اور اس کی صیانت و حفاظت ولی فقیہ کی سب سے بنیادی اور اہم ذمہ داری ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اسلام کے سیاسی باب اور دین کی تعلیمات کے اندر سے اس کردار کو اخذ کیا۔ اسی طرح تمام ادوار میں شیعہ فقہ کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ ہمارے فقہا نے یہ کردار دین کے اندر سے اخذ کیا اور وہ اس کے معترف بھی رہے۔ اسلام میں انسانوں پر صرف وہی حاکمیت اور حکمرانی قابل قبول ہے جس کا تعین اللہ تعالی نے کیا ہو۔ وہی ولایت قابل اتباع ہے جس کی توثیق صاحب شریعت کی جانب سے ہوئی ہو۔ صاحب شریعت کی جانب سے توثیق کے معنی یہ ہیں کہ ولایت کے ہر درجے کے لئے اس کی مخصوص اہلیت یعنی عدالت و تقوی ضروری ہے، نیز عوامی مقبولیت بھی لازمی ہے۔ یہ مذہبی جمہوریت کے اصول ہیں جو بڑے مستحکم اور با معنی ہیں۔ بعض افراد یہ گمان کرتے ہیں کہ (اسلامی جمہوریہ ایران کے) آئین میں فقیہ کی ولایت مطلقہ کی بات کہی گئی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ولی فقیہ مطلق العنان ہے، جو چاہے کرے۔ ولایت مطلقہ کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں۔ ولی فقیہ کو پوری باریک بینی اور توجہ سے قانون کا اتباع کرنا ہوتا ہے، ولی فقیہ کے لئے قانون کا احترام لازمی ہوتا ہے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکام اور امور مملکت کے ذمہ داران قانون پر عمل آوری کے سلسلے میں بعض اوقات مسائل سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ آخر یہ قوانین بھی تو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں نا! ایسے مواقع کے لئے آئين نے راہ حل تجویز کی ہے کہ امور مملکت کے ذمہ داران کو مالیاتی قانون، خارجہ پالیسی، تجارتی، صنعتی یا تعلیمی شعبے میں مشکلات در پیش ہوں اور انہیں کوئی راستہ نظر نہ آ رہا ہو تو ایسی صورت حال میں ولی فقیہ سے رجوع کیا جائے۔ ولی فقیہ، صدر جمہوریہ، وزراء اور اراکین پارلیمنٹ سب قانون کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ جس اسلامی معاشرے میں ولایت ہوتی ہے اس کے تمام اجزاء اور شعبے ایک دوسرے سے اور اسی طرح معاشرے کے مرکزی نقطے یعنی ولی فقیہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی وابستگی اور اتصال کا ہی نتیجہ ہے کہ اسلامی معاشرہ اندر سے متحد اور ایک دوسرے سے متصل ہوتا ہے۔ یہ معاشرے بیرونی دنیا میں بھی اپنے ہم خیالوں کو اپنے ساتھ ملا لیتا ہے اور دشمنوں کو زوردار ٹکر دیتا ہے۔ ولایت یعنی پارسا انسانوں کی حکومت، ایسے انسانوں کی حکمرانی جو خواہشات اور شہوت نفسانی کے مخالف ہوتے ہیں، جو نیکیاں انجام دیتے ہیں۔ اسلامی ولایت سے مراد یہ چیز ہے۔ کون سا ملک اور کون سی قوم ہے جو اس کی خواہاں نہ ہوگی۔
فن و ہنرفن و ہنر خواہ وہ کسی بھی نوعیت کا ہو، الہی عطیہ ہے۔ حالانکہ فن اپنے طرز اظہار میں نمایاں ہوتا ہے لیکن فن کی حقیقت یہی نہیں ہے بلکہ اظہار سے قبل بھی ایک فنکارانہ احساس و ادراک ہوتا ہے جو در حقیقت سب سے بنیادی شئ ہے۔ جب ایک حقیقت، لطافت اور خوبصورتی کا ادراک ہو جاتا ہے تب ایک فنکار اس ادراک کے سہارے ایسے ہزاروں ظریف و لطیف نکات اپنے فنکارانہ ذوق اور ہنرمندانہ احساس کے ذریعے وجود میں لاتا ہے جن میں کسی ایک نکتے کا بھی فہم و ادراک عام آدمی کے لئے ممکن نہیں۔ اسے کہتے ہیں حقیقی فن و ہنر جس کا سرچشمہ ایک ادراک ایک رد عمل اور ایک اظہار ہے۔ در حقیقت فن ایک عطیہ الہی اور بڑی با افتخار حقیقت ہے۔ فطری سی بات ہے کہ دیگر ثروتوں کی مانند جس شخص کو اللہ تعالی اس دولت سے نواز دیتا ہے اسے اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ہوتی ہیں۔ یعنی الہی عطیہ ہمیشہ اپنے ساتھ کچھ فرائض بھی لیکر آتا ہے۔ فن ایسی دولت نہیں جسے محنت و مشقت کے ذریعے حاصل کر لیا جائے، جب تک آپ کے اندر وہ مخصوص فنکارانہ استعداد نہ ہوگی آپ کتنی ہی محنت کر لیجئے، ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ یہ استعداد آپ کی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ تو خداداد شئ ہوتی ہے۔ آپ کو ساری نعمتیں اللہ تعالی عطا کرتا ہے، اب ممکن ہے کہ اس کا ذریعہ معاشرہ، ماں باپ، ماحول یا دیگر چیزیں بن جائیں۔ محنت و کد و کاوش کی توفیق اور موقع بھی اللہ تعالی ہی سے آپ کو ملا ہے جس کی بنا پر آپ اپنی فنکارانہ صلاحیت کو نکھار پانے میں کامیاب ہوئے۔ بعض افراد کہتے ہیں کہ فرض شناس فن کی ترکیب کے دونوں لفظ بہم متضاد ہیں۔ یعنی فن وہ چیز ہے جو انسان کے آزادانہ تخیل پر استوار ہوتی ہے جبکہ فرض شناسی اور احساس ذمہ داری ایک قید و بند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان دونوں چیزوں میں مطابقت کیونکر پیدا ہو سکتی ہے؟! یہ ایک نظریہ ہے جو صحیح نہیں ہے۔ جہاں تک فنکار کی فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کا سوال ہے تو اس کا تعلق اس کے انسان ہونے سے ہے۔ کوئی بھی ہو فنکار ہونے سے پہلے وہ ایک ا نسان ہے اور انسان بے حس اور غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ ایک انسان کا اولیں فریضہ دیگر انسانوں کے تعلق سے وجود میں آتا ہے۔ یوں تو زمین و آسمان اور قدرت و جہان کے سلسلے میں بھی انسان پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی ذمہ داری دیگر انسانوں کے تعلق سے ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک فنکار اپنی خصوصیات کی بنا پر کچھ اور ذمہ داریوں کا بھی احساس کرتا ہے۔ فنکار کے سامنے اپنے فن کی شکل و پیکر اور اسی طرح اس کے مضمون کے سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کے اندر فنکارانہ استعداد ہو اسے محدود نہیں رہنا چاہئے۔ یہ ایک طرح کی ذمہ داری ہے۔ آرام طلب اور کاہل فنکار، ایسا فنکار جو اپنے فن اور خلاقیت کے لئے سعی و کوشش نہ کرے در حقیقت اپنی فنکارانہ ذمہ داری و فریضے کو نظر انداز کر رہا ہے۔ فنکار میں سعی پیہم کا جذبہ ہونا چاہئے۔ ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فنکار کبھی محنت کرکے کسی ایسی منزل پر پہنچ جائے جس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اب اور محنت کی گنجائش ہی نہیں ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن جب تک فن کو نکھارنے اور صلاحیتوں کو بروی کار لانے کی گنجائش باقی ہے، اسے کوشش کرنا چاہئے۔ یہ ذمہ داری ہے فن اور فن پارے کے قالب و پیکر کے سلسلے میں جو بغیر جوش و ولولے اور عشق و الفت کے پیدا نہیں ہوتی۔ ویسے عشق و الفت بھی ایک ذمہ داری ہے۔ یہ بڑا قوی جذبہ ہے جو انسان کو محنت و مشقت کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور اس میں سستی و آرام طلبی پیدا نہیں ہونے دیتا۔اس (قالب و پیکر) کے علاوہ (فن پارے کے) مضمون کے سلسلے میں بھی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ہم کس چیز کی عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی با وقار اور محترم شخصیت ہوتی ہے تو اس کا ذہن و دل اور اس کی فکر و نظر بھی محترم ہوتی ہے۔ ہر مخاطب کے سامنے صرف اس بنا پر کہ وہ ہمارے روبرو بیٹھا ہماری باتیں سن رہا ہے، ہر چیز تو پیش نہیں کی جا سکتی۔ غور کرنا پڑے گا کہ اس سے کیا بات کرنی ہے۔ فن کے شعبے میں جو چیز ذمہ دار اور دلسوز افراد کے لئے باعث تشویش بن گئی ہے وہ یہ ہے کہ آزادی تخیل یا آزادی فن کے نام پر ہتک حرمت اور بد اخلاقی نہ ہو جائے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بنابریں فرض شناس اور ذمہ دار فن کی ترکیب ایک حقیقت ہے۔ یہ حقیقت کیا ہے؟ یہ بات کہ ایک فنکار فکر و نظر کی کس منزل پر فائز ہے اور وہ حقیقت کو جزوی طور پر ہی سمجھ سکتا ہے یا کلی طور پر اس کے ادراک کی صلاحیت رکھتا ہے، ایک الگ بحث ہے لیکن بہرحال فکر و نظر میں جتنی گہرائی اور بلندی ہوگی فنکارانہ تخيل میں اتنی ہی لطافت و ظرافت پیدا ہوگی۔ حافظ صرف ایک فنکار نہیں ہیں بلکہ ان کی باتوں میں بلند معرفت جلوہ گر ہے۔ یہ معرفت صرف فنکار بن جانے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے فکری اور فلسفیانہ سرمایہ ضروری ہوتا ہے۔ فنکارانہ ادراک اور فنکارانہ طرز بیان کو بلند فکر و نظر کے سہارا، سرچشمہ اور تکیہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ سب کی فکری سطح یکساں نہیں ہوتی اور اس کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ یہ چیز فن و ہنر کی تمام اقسام میں صادق آتی ہے۔ معماری سے لیکر مصوری، سنیما، تھئیٹر، شعرو موسیقی اور فن و ہنر کی دیگر اقسام تک ہر جگہ اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کو کوئی ایسا معمار نظر آ جائے جو بڑی اچھی فکر کا مالک ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی ملاقات ایسے معمار سے ہو جائے جس کے پاس کوئی آئیڈیا ہی نہیں۔ یہ دونوں معمار جب عمارت تعمیر کریں گے تو دونوں میں بڑا فرق رہے گا۔ اگر اس طرح کے دو آدمیوں کو ایک شہر کی تقدیر سونپ دی جائے تو شہر کا آدھا حصہ دوسرے نصف حصے سے بالکل متفاوت ہوگا۔ معلوم ہوا احساس ذمہ داری اور فرض شناسی لازمی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان بغیر جوش و جذبے کے اور گرے ہوئے مورال کے ساتھ بس یونہی فنکار بن جائے اور نام کمائے۔ فنکار کے اندر ایک مخصوص سرور ہوتا ہے جو دیگر خوشیوں سے مختلف ہوتا ہے اور عام لوگوں کے ہاں نظر بھی نہیں آتا۔ انسان کے اندر یہ سرور اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے اپنے ہدف سے پوری آگاہی ہو اور اس کی ایک ایک حرکت نپی تلی ہو تب ہی تو وہ اپنی ہنرمندی اور فنکاری سے سرور حاصل کرے گا کہ اس نے اپنا کام بحسن و خوبی انجام دے دیا۔ بنابریں ضرورت اس امر کی ہے کہ اخلاقیات، اعلی دینی معرفت و تعلیمات پر توجہ دی جائے۔ میں امید کرتا ہوں کہ سب سے پہلے تو فن کو اس کے حقیقی مقام پر رکھتے ہوئے توجہ کا مرکز بنایا جائے گا اور پھر اہل فن حضرات اپنے وجود میں پائے جانے والے اس گراں قدر ذوق اور صلاحیت پر دھیان دیں گے اور اس کا احترام کریں گے۔ اس صلاحیت کا احترام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال اس کے شایان شان مقام پر کریں گے۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تمہاری جان اور انسانی وجود نہایت با ارزش شئ ہے، اس جنت کے علاوہ جس کا وعدہ اللہ تعالی نے کیا ہے کوئی بھی چیز اس جان کی قیمت نہیں قرار پا سکتی۔ اسے تم اللہ تعالی کی جنت کے علاوہ کسی بھی شئ کے سپرد نہ کرنا۔ فن انسانی جان کا سب سے قیمتی اور با ارزش حصہ ہے، اس کی قدر کی جانی چاہئے۔ اسے اللہ تعالی کی راہ میں استعمال کرنا چاہئے۔ دینی فن و ہنر سے مراد وہ فن ہے جو دین اسلام کی تعلیمات اور اہداف کو مجسم کر دے۔ یہ اہداف وہی چیزیں ہیں جو انسان کی خوشبختی، معنوی و روحانی حقوق، بلندی و سرفرازی، تقوی و پرہیزگاری اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف کو یقینی بناتی ہیں۔ دینی فن، دینداری کے دکھاوے اور ریاکاری کے معنی میں ہرگز نہیں ہے، یہ ضروری بھی نہیں کہ اس فن کے ساتھ دینی کا لفظ بھی ضرور لگا ہو۔ کیونکہ بہت سے فن ایسے ہیں جو صد فیصد دینی ہیں لیکن ان میں غیر دینی الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تصور درست نہیں کہ دینی فن و ہنر وہ ہے جو ہر حال میں کسی دینی و مذہبی داستان کی عکاسی کرے یا کسی مذہبی چیز مثلا علم دین وغیرہ کی بات کرے۔ دینی فن وہ ہے جو ان تعلیمات اور مفاہیم کی ترویج کرے اور انہیں نا قابل فراموش بنائے جن پر تمام الہی ادیان بالخصوص دین اسلام نے خاص توجہ دی اور ان کی ترویج کی راہ میں بڑی قیمتی جانیں قربان ہو گئیں۔ یہ تعلیمات و مفاہیم بڑے اعلی و ارفع ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں انسانی زندگی میں شامل کر دینے کے لئے پیغمبروں نے سختیاں برداشت کیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم بیٹھے بیٹھے پیغمبروں، مصلحین اور مجاہدان راہ خدا کی کوششوں اور کاوشوں پر نکتہ چینی کریں یا انہیں نظر انداز کر جائيں۔ دینی فن انہیں تعلیمات و مفاہیم کو منظر عام پر لاتا ہے، انصاف و مساوات کو اقدار کی حیثیت سے سماج میں متعارف کراتا ہے۔ حالانکہ ممکن ہے بظاہر اس میں لفظ دین اور انصاف و مساوات کے بارے میں کسی آیت یا حدیث کو نقل نہ کیا گیا ہو۔ مثلا فلموں اور ڈراموں میں یہ ضروری نہیں کہ ایسے نام اور شکلوں کو پیش کیا جائے جو دین اور دینداری کی علامت بن چکی ہیں، تاکہ یہ ڈرامہ یا فلم دینی ہو جائے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے، آپ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدل و انصاف کے بارے میں با اثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچا دیجئے تو آپ نے دینی فن کا تقاضا پورا کر دیا۔ ایک اور نکتے کی جانب بھی میں اشارہ کرنا چاہوں گا اور وہ ہے انقلاب سے متعلق فن و ہنر۔ ایک قوم آٹھ سالہ دفاع کے دوران اپنے پورے وجود کے ساتھ میدان کارزار میں اتر پڑی۔ نوجوان میدان جنگ میں گئے اور اس با ارزش راہ کے لئے جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا جاں نثاری و فداکاری کی۔ بیشتر افراد دین کی حفاظت کے لئے گئے، ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ افراد نے وطن اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے خیال سے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہو۔ محاذ جنگ کے پیچھے ماں باپ، بیویاں اور بچے بھی جو کچھ کر رہے تھے وہ بھی عظیم کارنامہ تھا۔ آپ آٹھ سالہ مقدس دفاع کے واقعات پر نظر دوڑائیے اور غور کیجئے کہ ایک معاشرے کی حالت و کیفیت پر فنکارانہ نگاہ ڈالنے کا اس سے بہتر کوئی موقع و محل ہو سکتا ہے؟! آپ دنیا کے شہرہ آفاق ڈراموں میں جب کسی انسان کی جاں نثاری کا منظر دیکھتے ہیں تو اس کی تعریف و ستائش کئے بغیر نہیں رہتے۔ جب کوئی فلم، تصویر، ترانہ یا پینٹنگ کسی انقلابی یا کسی ملک کے بہادر سپاہی کی عکاسی کرتی ہے تو آپ دل سے اس کے کارنامے کو سراہتے ہیں۔ اس فن پارے میں جو چیز پیش کی گئی ہے اس سے کہیں زیادہ با ارزش اور با عظمت ہزاروں واقعات، مقدس دفاع کے آٹھ برسوں اور خود انقلاب کے دوران آپ کے گھر میں رونما ہوئے۔ کیا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کسی سے کم ہے۔ کیا فن ان واقعات کو نظر انداز کر سکتا ہے؟ فن سے انقلاب کی بس یہی توقع ہے اور اس میں کوئی جبر و اکراہ بھی نہیں ہے۔ صرف فنکارانہ ذوق کو بروی کار لائے جانے کی توقع ہے۔ فن وہی ہے جو خوبصورتی کا ادراک کرے۔
اسلام میں روز اول سے ہی شروع ہونے والی علمی تحریک کی برکت سے اسلامی تہذیب و تمدن کو وجود ملا۔ اسلام کے ظہور کو ابھی دو صدیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ اسلام کی برق رفتار علمی تحریک شروع ہو گئی، وہ بھی اس دور کے ماحول میں۔ اگر آپ اس وقت کی علمی تحریک کا موازنہ کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کے موجودہ علمی مراکز کو پیش نظر رکھئے اور پھر فرض کیجئے کہ کوئی ملک دنیا کے کسی دور دراز کے علاقے میں واقع ہے جو تہذیب و تمدن سے پوری طرح بے بہرہ ہے۔ یہ ملک یک بیک تہذیب و تمدن کے میدان میں وارد ہو اور سو یا ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں علمی لحاظ سے تمام تہذیبوں پر فوقیت حاصل کر لے۔ یہ چیز کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اسلام نے علم، حصول علم، تعلیم و تدریس اور عالمانہ طرز زندگی کی بے پناہ ترغیب دلائی۔اسلامی تہذیب کا جوہر خود اس (دین اسلام) کے اندر سے نکلا۔ ویسے زندہ تہذیبیں دوسروں سے بھی کچھ چیزیں کسب کرتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پر رونق دنیا، علم کا یہ استعمال، عالم ہستی کے اچھوتے رموز کا یہ انکشاف جو مسلمانوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ افکار و نظریات اور اذہان و افکار کا یہ استعمال، عظیم علمی سرگرمیاں اور اس دور میں عالمی سطح کے تعلیمی مراکز کا قیام، اس زمانے میں دسیوں دولتمند ممالک کی تشکیل اور ایک بے نظیر طاقتور سیاسی نظام کا قیام، یہ سب کیونکر ممکن ہوا؟ آپ پوری تاریخ میں اسلام کے علاوہ کوئی ایسی سیاسی طاقت نہیں پائیں گے جس کی قلمرو قلب یورپ سے لیکر قلب بر صغیر تک پھیلی ہوئی ہو اور یہ (پورا علاقہ) ایک ملک بن گیا ہو اور اس میں ایک پائيدار حکومت قائم ہوئی ہو۔ قرون وسطی کا زمانہ یورپ کی جہالت و بد بختی کا زمانہ تھا۔ یورپ والے قرون وسطی کو سیاہی و تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یہی قرون وسطی کا زمانہ جو یورپ میں تاریکی و جہالت کا دور تھا ایران سمیت اسلامی ممالک میں علم و دانش کی ضوفشانی کا زمانہ تھا۔ وہ (بے مثال) سیاسی طاقت، وہ علمی دبدبہ، وہ نظام مملکت، وہ تمام تعمیری و حیاتی و فعال عناصر سے بھرپور استفادہ، اسلامی تعلیمات کا ہی نتیجہ تھا۔چوتھی ہجری اسلامی تہذیب و تمدن کے عروج کی صدی ہے۔ چوتھی صدی ہجری میں، یعنی گيارہویں صدی عیسوی، یعنی یورپ میں تاریکی جہالت کے اوج کے زمانے میں، ایران اسلامی شکوفائی و ترقی کے نقطہ کمال پر تھا۔ اس دور کے سارے علماء و دانشور معدودے چند کو چھوڑ کر سب ایرانی تھے۔ ایک زمانے مین مغرب والوں نے مشرق اور اسی ایران سے علم حاصل کیا ہے۔ اس وقت دنیا میں رائج بہت سے علوم کی بنیاد ایرانیوں کے ہاتھوں پڑی۔ یورپ کی نشآت ثانیہ اسلامی ممالک اور علاقوں میں انجام پانے والے ترجموں کی بنیاد پر عمل میں آئی اور یہ ایسے عالم میں ہوا کہ ایران میں دینداری یورپ سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ تھی۔ معلوم ہوا کہ دین، علم و دانش کے راستے میں رکاوٹ نہیں بلکہ کوئی اور ہی شئ ہے جو علم و دانش کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ وہ شئ کیا ہے؟ وہ لوگوں کی گوناگوں جہالتیں اور اس زمانے کی عیسائی مذہب کی خرافاتیں تھیں۔ عالم اسلام میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی عالم کی علم رکھنے کے جرم میں توہین کی گئی ہو، جبکہ یورپ میں کسی شخص کو علم رکھنے کی بنا پر قتل کر دیا گيا، کسی کو سنگسار کر دیا گيا، کسی کو سولی پر چڑھا دیا گیا تو کسی کو آگ میں ڈال دیا گيا۔ یعنی ان لوگوں نے اپنے یہاں رونما ہونے والی چیزوں کو جو تحریف شدہ عیسائيت اور جہالت زدہ خرافات کی آمیزش کا نتیجہ تھیں پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ آج مسلمانوں کا گناہ کیا ہے؟ اسلام کا جرم کیا ہے؟ مسلمان قوموں کا گناہ کیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام ایک روحانی و اخلاقی تحریک کا نام ہے لیکن علمی ارتقاء اور اقتصادی پیشرفت بھی اس کے بنیادی اہداف میں شامل ہے۔ اسلام کے ظہور کو ابھی پچاس سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ اس وقت کی متمدن اور مہذب دنیا کا پچاس فیصدی سے زائد حصہ پرچم اسلام کے سائے میں آ گيا اور ابتدائی دو صدیوں میں عالم اسلام، علم و دانش اور معاشی و سماجی ترقی کے لحاظ سے اوج پر پہنچ گیا۔ یہ نتیجہ تھا اسلامی تعلیمات کا جو روحانیت و معنویت کے ساتھ ہی ساتھ مادی ترقی پر بھی تاکید کرتی ہیں۔ مغرب کی مادی تہذیب مادہ پرستی کی جانب لے جاتی ہے۔ پیسہ، پیٹ اور شہوت ہی نصب العین بن کر رہ گیا ہے۔ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں صفائے باطن، مساوات، درگذشت و ایثار کی جگہ نیرنگ و سازش، حرص و طمع، بغض و حسد، بخل و خست اور دیگر اوصاف رذیلہ نے لے لی ہے۔ آج اگر مغربی دنیا اور مغربی تہذیب کی پوسٹ ماڈرن سائنس و ٹکنالوجی انسانیت کو نجات دلانے سے قاصر ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ انسانیت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ اگر کہیں علم و دانش تو ہو لیکن ضمیر و اخلاق و معنویت و احساسات ناپید ہوں تو انسان کو اس علم و دانش سے کوئی نفع پہنچنے والا نہیں ہے۔ اخلاق و روحانیت کا فقدان ہو تو علم ایٹم بم میں تبدیل ہو جاتا ہے، بے گناہوں کی زندگی دشوار کر دیتا ہے، اسلحہ میں تبدیل ہو جاتا ہے، مقبوضہ فلسطین و لبنان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عام شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، مہلک کیمیاوی مادے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ حلبچہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں عورتوں بچوں، پیر و جواں اور انسان و حیواں سب کو نابود کرکے رکھ دیتا ہے۔ اسلامی تہذیب اور اس کی جانب گامزن مقدس اسلامی جمہوری نظام کے تناظر میں ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم علم و دانش کو روحانیت و معنویت کے زیر سایہ آگے بڑھائیں۔ اگر آپ آج دیکھ رہے ہیں کہ دین پر ہماری عمل آوری کی نسبت مغرب کو اعتراض ہے، ہماری دینداری کو تعصب اور رجعت پسندی کا نام دیا جاتا ہے اور اخلاقی و انسانی اصولوں سے ہماری دلچسپی کو انسانی حقوق کی مخالفت قرار دیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری یہ روش ان کے طرز عمل کے بر خلاف ہے۔ ہمیں علمی و عملی کوششوں کے ثمرات اور کامیاب انسانی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے مادی و روحانی پیشرفت و ارتقاء کا پودا خود لگانا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ پھلے پھولے اور اغیار کا رنگ اختیار نہ کرے۔
انسانی حقائق اور ماہیت، زمانہ بدلنے سے تبدیل نہیں ہوتی۔ ابتدائے تاریخ سے اب تک عدل و انصاف انسانوں کے لئے پسندیدہ چیز رہی ہے اور انہیں ہمیشہ اس کی ضرورت پڑی ہے۔ عدل و انصاف کسی ایک گروہ، ملک اور قوم کی خواہش و حاجت نہیں۔ یہ پوری تاریخ انسانیت میں تمام انسانوں کی فطری و تاریخی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے چلائی جانے والی تحریک کا بنیادی ترین عنصر عدل و انصاف ہوتا ہے۔ یہ تاریخ کے تمام مصلحین اور انبیائے صالحین کے مشن کا جزو لا ینفک رہا ہے۔ یہ وہ شئ ہے جس کے لئے انسانیت ہمیشہ تشنہ رہی ہے اور انبیائے کرام یا حضرت امیر المومنین عیلہ السلام جیسے اوليائے عظام کے دور حکومت کے علاوہ کبھی اس پر حقیقی معنی میں عمل نہیں ہو سکا۔ اسلام میں عدل و انصاف بہت اہم مسئلہ ہے۔ وہ اصول جو کبھی بھی کسی بھی صورت میں متنازعہ نہیں رہا عدل و انصاف ہے۔ عدل و انصاف پیغمبروں کا ہدف و مقصد اور اسلامی انقلاب کا نصب العین رہا ہے۔ ذکر پروردگار اور انسانوں کی اصلاح کے ساتھ ہی ساتھ عدل و انصاف کی برقراری بھی تمام انبیاء کا ہدف رہا ہے۔ حقیقی عدل و انصاف کی برقراری عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے پیرائے میں انجام پاتی ہے۔ اگر عدل و انصاف عقل و منطق اور روحانیت و معنویت کے عنصر سے خالی ہو تو وہ ایسا عدل انصاف نہیں ہوگا جس کے آپ خواہاں ہے، بلکہ سرے سے وہ عدل و انصاف ہی نہیں ہوگا۔ عقل و منطق اگر نہ ہو تو انسان عدل و انصاف کے مصداق کے تعین میں غلطی کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ وہ ایسی باتوں کو بھی انصاف کا تقاضا محسوس کرے گا جو انصاف کا تقاضا نہیں ہے جبکہ حقیقت میں جو انصاف کا تقاضا ہے اسے محسوس نہیں کر پائے گا۔ بنابریں عقل و دانش اور صحیح اندازہ، عدل و انصاف کے قیام کے لئے ضروری ہے۔ اسی طرح اگر عدل و انصاف کو روحانیت و معنویت سے جدا کر دیا جائے اور عدل و انصاف معنویت سے تہی ہو تو یہ بھی عدل و انصاف نہیں ہوگا۔ جو انصاف روحانیت اور کائنات و عالم وجود کے روحانی افق کی شناخت سے خالی ہو ریاکاری، دروغ، انحراف اور تصنع میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح اشتراکیت پر مبنی نظام میں انصاف کے بڑے دعوے کئے جاتے تھے، ہم عدل و انصاف اور آزادی کی بات کرتے تھے، لیکن ان(کمیونسٹ نظاموں میں) آزادی بنیادی نعروں کا جز نہیں تھی تاہم جہاں کہیں بھی بغاوت یا انقلاب کے نتیجے میں کمیونسٹ نظام نافذ ہوا ہے وہاں عدل و انصاف کا نعرہ تو ضرور سنا گیا لیکن ان سماجی زندگی میں عدل و انصاف ناپید رہا بلکہ اس کے بالکل برعکس صورت حال سامنے آئی۔عدل و انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر کسی کے پاس سب کچھ یکساں مقدار میں ہو۔ انصاف کے معنی یہ ہیں کہ سب کو یکساں مواقع فراہم ہوں۔ سب کے حقوق یکساں ہوں۔ ہر ایک کو پیش قدمی اور ترقی کے مواقع سے استفادے کا بھرپور موقع ملے۔ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہم سرمایہ کاری نہ کریں یا یہ کہ سرمایہ کار کو سرمایہ کاری کی اجازت نہ دیں۔ ہمارا ہدف معاشرے میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہ ہماری خواہش ہے۔ کوششیں اور کام اس وقت با ارزش اور اہم بنتے ہیں جب قیام عدل کے تناظر میں انجام پائیں۔ اگر معاشرے میں مساوات نہ ہو تو دولت کی فراوانی عوام کے کسی مخصوص طبقے اور گروہ تک محدود رہے گی۔ لیکن جس معاشرے میں مساوات ہو وہاں اس (فراوانی) کا فائدہ سب کو پہنچے گا۔ البتہ انصاف کے معنی یہ نہیں کہ ہر چیز ہر جگہ مساوی و یکساں ہو۔ عدل و انصاف کے معنی ہیں ہر چیز کو اس کی جگہ اور مقام پر رکھنا۔ یہ ہیں عدل کےمعنی۔ انصاف کے معنی وہ نہیں جو بہت سے سادہ لوح افراد اور فکری گہرائی نہ رکھنے والے لوگوں کے ذہن میں ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کی ہر فرد کو سب کچھ یکساں طور پر ملے۔ جی نہیں! ایک شخص ہے جو زیادہ کام کرتا ہے، کسی کی استعداد زیادہ ہے، ملک کی ترقی میں کسی کا کردار بہت زیادہ ہے۔ عدل کا تقاضا یہ ہے کہ ہر کسی کو اس کا حق دیا جائے۔ حق کے مطابق عمل کیا جائے۔ عدل کے معنی یہ ہیں اور معاشرے کو اسی کی ضرورت ہے۔بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ عدل کے معنی ہیں غربت کی تقسیم۔ جی نہیں! جو لوگ عدل و انصاف کے موضوع پر بحث کر رہے ہیں ان کا ہدف غربت کی تقسیم ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کا ہدف وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے۔ جو لوگ عدل و انصاف کو غربت کی تقسیم سے تعبیر کرتے ہیں ان کی پوری بات کا ماحصل یہ ہے کہ آپ عدل و انصاف کا چکر چھوڑئے، دولت و ثروت کی جانب بڑھئے تاکہ دولت تقسیم ہو سکے۔ عدل و انصاف کو نظر انداز کرکے دولت و ثروت کی جمع آوری کی سمت بڑھا جائے تو وہی نتیجہ نکلے گا جو آج بہت سے دولتمند ممالک میں نظر آ رہا ہے۔ دنیا کے سب سے امیر ملک یعنی امریکہ میں ایسے افراد بھی زندگی بسر کر رہے ہیں جو بھوک، سردی اور گرمی کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں، یہ نعرے نہیں وہ حقائق ہیں جو نظروں کے سامنے ہیں۔ عدل و انصاف سے بے بہرہ معاشرے میں اگر دولت کی فراوانی ہو جائے تو ایک مخصوص طبقے کے فائدے اور قبضے میں رہتی ہے لیکن یہی فراوانی اگر عدل و انصاف کے پابند معاشرے میں ہو تو اس کا فائدہ سب کو پہنچتا ہے۔ عدل و انصاف کے معنی ہر چیز کو اس کے صحیح مقام و منزل پر رکھنے کے ہیں۔ عدل و انصاف کے تناظر میں زیادہ محنت، زیادہ استعداد اور ملک کی ترقی میں اہم شراکت جیسی باتوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عدل کے معنی ہیں حق پر عمل کرنا اور ہر شخص اور ہر شئ کو اس کا حق دینا۔ عدل کے معنی ہیں حقوق اور فرائض کے سلسلے میں عدم تفریق و عدم امتیاز۔ عدل یعنی مستضعف اور کمزور طبقے کی مدد۔ عدل یعنی یہ کہ انسانی و سماجی حقوق اور الہی احکامات تمام لوگوں کے سلسلے میں یکساں طور پر فراہم اور نافذ ہوں۔ عدل یعنی یہ کہ کوئی ایک جماعت اپنے لئے مخصوص حقوق کی دعیدار نہ ہو۔ عدل و انصاف سے محروم انسانی زندگی تاریخ کے بد ترین دور میں نظر آتی ہے۔ معاشروں کی بد بختی اور مشکلات کی جڑ نا انصافی اور ظلم ہے۔ اگر انسانی زندگی میں عدل و انصاف کی بالا دستی ہوتی تو وہ عدل و انصاف کی مدد سے ماحول کو اس انداز سے تیار کرتا کہ اس کے لئے اس میں پر سکون زندگی گزارنا ممکن ہو۔ اسلامی جمہوری نظام کا آئیڈیل اسلامی طرز زندگی ہے۔ اس کا آئيڈیل مختلف طبقات کے درمیان عدل و انصاف، اخوت و محبت اور عطوفت و الفت کے زیر ساہ حاصل ہونے والی ترقی اور رفاہ عامہ ہے، غریب و امیر کے درمیان خلیج کو بھردینا ہے۔ روحانیت و معنویت کے سائے میں ملنے والی ترقی اسلام کو پسند ہے۔ عدل انصاف پر گفتگو تو آسان ہے لیکن اس کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے طویل المیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور عدل و انصاف کی بنیاد پر مستقبل کا خاکہ کھینچنا چاہئے۔ اسلامی نظام میں عدل و انصاف تمام انتظامی فیصلوں کی بنیاد ہے۔ پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے نمایندوں سے لیکر مختلف اجرائی شعبوں کے اعلی حکام تک تمام افراد بالخصوص پالیسی ساز اداروں، ججوں اور عدلیہ کے شعبوں کو چاہئے کہ پورے اخلاص، پوری تندہی اور پوری سنجیدگی کے ساتھ معاشرے میں قیام عدل و انصاف کی کوشش کریں۔ عوام بالخصوص نوجوان طبقے کی جانب سے عدل و انصاف کا مطالبہ اس انداز سے ہونا چاہئے کہ ہر عہدیدار، اپنی مرضی کے خلاف ہی سہی، عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے پر مجبور ہو۔ عدل و انصاف کے مطالبے کے معنی یہ ہیں کہ نوجوان طبقے اور طلباء کی سطح پر عدل و انصاف زباں زد خاص و عام ہو جائے۔ سب عدل و انصاف کا مطالبہ کریں اور ہر عہدہ دار کے سامنے اپنا یہ مطالبہ پیش کریں۔ اللہ تعالی توفیق دے کہ اسلامی انقلاب کا چوتھا عشرہ انصاف و ترقی کا عشرہ ثابت ہو۔ یعنی ملکی سطح پر ترقی و انصاف دونوں بالکل نمایاں ہو جائیں۔ منصوبہ بندی اسی تناظر میں ہو۔ یہ چیز قوم اور ملک کو ہر خطرے سے محفوظ بنا دے گی۔
امام ہشتم فرزند رسول حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی زندگی کا اہم پیغام؛حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی زندگی کا سب سے اہم پیغام کیا ہے؟ ہمیں امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کے روضہ اقدس پر اظہار عقیدت پر ہی اکتفا نہیں کر لینا چاہئے۔ وہ ہمارے امام ہیں، آپ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے، ہمیں آپ کی زندگی سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آپ کی زندگی میں ہمارے لئے ایک پیغام ہے۔ وہ پیغام کیا ہے؟ میں اس پیغام کو ایک لفظ میں بیان کر دوں؛ امام علی ابن موسی الرضا علیھ الصلاۃ و السلام کی پرماجرا زندگی کا پیغام ہے بے تکان پائيدار استقامت
انسانی زندگی کی تمام تر تلخیوں کی وجہ اللہ تعالی سے اس کی غفلت اور ذاتی مفادات تک محدود ہو جانا ہے۔ نماز انسان کو اس ظلمانی اور تاریک حصار سے نجات دلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام الہی ادیان میں نماز بنیادی ترین دینی عمل اور ایمان کی سب سے عام اور واضح علامت رہی ہے جبکہ اسلامی نماز سب سے زیادہ جذاب اور کامل ہے۔ نماز کے تمام ذکر اور الفاظ دینی معرفتوں اور تعلیمات کا خلاصہ ہیں جو بار بار نمازی کو ان(تعلیمات) کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ نماز اگر قلبی توجہ کے ساتھ اور سھو و غفلت سے مبرا رہتے ہوئے ادا کی جائے تو انسان کو روز بروز الہی تعلیمات سے قریب اور زیادہ آشنا بناتی ہے۔ نماز اگر حضور قلب کے ساتھ پوری توجہ سے ادا کی جائے تو نمازی کے قلب و جان ہی نہیں بلکہ اس کے گرد و پیش کی فضا اور ماحول کو بھی لطیف و نورانی و معطر کر دیتی ہے اور اس کی ضو فشانی سے گھر، خاندان، کام کی جگہ، دوستوں کی محفلوں اور پورے ماحول میں اجالا ہو جاتا ہے۔ حضور قلب اور پوری توجہ کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز جو ذکر الہی سے منور ہے، وہ نماز جو انسان کو بلند ترین اسلامی تعلیمات سے مسلسل روشناس کراتی رہتی ہے، ایسی نماز انسان کو بے مقصد اور عبث زندگی سے نجات دلا دیتی ہے۔ اسے حوصلہ، قوت ارادی اور ہدف عطا کرتی ہے اور اس کی نظروں کے سامنے زندگی کا افق روشن و تابناک کر دیتی ہے۔ اس کے دل کو کجروی اور پستی کی جانب انحراف سے محفوظ رکھتی ہے۔ بنابریں انسان کو ہمیشہ نماز کی ضرورت ہے جبکہ نازک اور پر محن مواقع پر اس احتیاج میں شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ در حقیقت نماز دین کا بہت عظیم سرمایہ ہے جس سے ہر شخص حتی الوسع استفادہ کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے ایسے عظیم کام کے لئے فن و ہنر اور جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نماز بارگاہ احدیت کی جانب ارتقاء کا پہلا قدم ہے۔ اس مقدس عمل میں اس بات کی گنجائش و توانائی ہے کہ نقطہ کمال پر پہنچ جانے کی صورت میں انسان کے لئے عالم ملکوت میں پرواز کے بال و پر میں تبدیل ہو جائے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد فرمائیں کہ نماز میری آنکھوں کی روشنی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نماز انسان کے معنوی کمال کے سفر میں ہر مرحلے و منزل پر کارساز، طاقت بخش اور راہنما ہے۔ نماز دین کا بنیادی رکن و ستون ہے۔ اسے لوگوں کی زندگی میں حیاتی اہمیت حاصل ہونا چاہئے۔ دین خدا کی حکمرانی کے زیر سایہ انسان کو حیات طیبہ اسی صورت میں نصیب ہوگی جب لوگ اپنے قلوب کو ذکر خدا سے بیدار رکھیں اور اسی کے سہارے فساد و شر کی دل آویز رنگینیوں سے مقابلہ کریں، تمام بتوں کو توڑ ڈالیں اور اپنے وجود کو تمام بیرونی و اندرونی شیطانی قوتوں کی دست برد سے بالاتر کر دیں۔ یہ دائمی ذکر و حضور قلبی نماز کی برکت سے میسر ہوگا۔ نماز سب سے بڑے شیطان یعنی نفس کے خلاف جنگ میں، جو انسان کو پستی کی جانب لے جاتا ہے، نیز ان شیطانی طاقتوں سے مقابلے میں جو طاقت اور زر جواہر کے ذریعے ذلت و حقارت قبول کرنے کے لئے ورغلاتی ہیں، انسان کے لئے بڑا مستحکم سہارا اور لا متناہی ذخیرہ ثابت ہوتی ہے۔ آج انسانی معاشرے پر مشینی زندگی کی آہنی گرفت کے دور میں انسان اور انسانیت سخت دباؤ اور کھنچاؤ میں ہے۔ اس ماحول میں انسان اپنی انفرادی و سماجی زندگی کو طاقت فرسا مشینی لے اور راگ کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں اللہ تعالی سے معنوی و روحانی رابطے کی ضرورت کا احساس بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کے لئے نماز بہترین وسیلہ و ذریعہ ہے۔ نماز میں تین بنیادی خصوصیتیں پائی جاتی ہیں؛ سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ نماز اپنی اس شکل میں جو اسلام نے اس کے لئے معین کی ہے یعنی اس میں رکھے گئے اذکار اور حالتیں نمازی کو فطری طور پر گناہ و آلودگی سے دور رکھتی ہیں۔ دوسری خصوصیت یہ ہےکہ (نماز) اللہ تعالی کی بارگاہ میں جو ہر انسان کا حقیقی و فطری محبوب ہے عبادت و پرستش اور خضوع و خشوع کے جذبے کو زندہ رکھتی ہے۔ تیسری خصوصیت یہ کہ نمازی کے دل و جان کو وہ سکون و طمانیت عطا کرتی ہے جو تمام شعبہ ہای زندگی میں کامیابی و کامرانی کی بنیادی شرط و ضرورت ہے۔ یہ تزلزل و اضطراب کو جو اخلاقی تربیت کے لئے سنجیدہ اقدام کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے انسان سے دور کر دیتی ہے۔ انسان گوناگوں غلطتیوں او خطاؤں سے روبرو ہوتا ہے۔ ہر انسان سے کچھ غلطتیاں اور خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں، وہ گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ اب اگر انسان زندگی کے سفر میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اس کے لئے نماز تلافی کا بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن کی آیہ کریمہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ نماز کو دن کے دونوں سروں(آغاز و اختتام) اور رات کے ایک حصے میں ادا کرو کیونکہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ نماز میں نورانی کیفیت پائی جاتی ہے جو ظلمانی کیفیت کو ختم کر دیتی ہے۔ برائیوں کو مٹا دیتی ہے اور گناہوں کے اثرات کو دلوں سے زائل کر دیتی ہے۔ انسان بہرحال (گناہوں سے) آلودہ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ نماز کے پابند ہیں تو آپ کی یہ نورانی کیفیت باقی رہے گی اور آپ کے دل میں گناہ کو راستہ نہیں مل سکے گا۔ مسجد صرف نماز کے لئے نہیں، متعدد عبادتوں کے لئے ہے جن میں ایک غور و فکر بھی ہے جو مسجد میں جانے والے افراد عالم دین کی گفتگو سن کر انجام دیتے ہیں۔ بنابریں مسجد مدرسہ بھی ہے، یونیورسٹی بھی ہے، مرکز فکر و نظر بھی ہے، مرکز طہارت روح بھی ہے، سرچشمہ اخلاص و تقرب الہی بھی ہے۔ یہ زمین و آسمان کے درمیان رابطہ بھی ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسان خود کو فیض و قدرت کے لا متناہی سرچشمے سے متصل کر سکتا ہے۔ مسجد میں انسان خود کو اللہ تعالی کی ذات سے وابستہ کر لیتا ہے۔ نماز کا قیام صالح بندوں کی حکمرانی کا اولین ثمرہ و علامت ہے۔ ہمارے امام بزرگوار(خمینی رہ) کے گراں قدر اقدامات میں سے ایک نماز جمعہ کا قیام تھا۔ آپ نے اس قوم کو نماز جمعہ کا تحفہ دیا۔ برسہا برس سے ہم نماز جمعہ سے محروم تھے۔ میری نظر میں لوگوں میں جذبہ ایمان اور جوش و خروش کی حفاظت و نگہداشت کا ایک بہترین ذریعہ یہی نماز جمعہ، نماز جمعہ کے خطبے، لوگوں کی نماز جمعہ میں روحانی شرکت اور یہ اہتمام ہے کہ ہر جمعے کو ایک امین و صادق شخص جسے عوام کا اعتماد حاصل ہے ان کے سامنے ملک کے حالات پر روشنی ڈالے انہیں نصیحت کرے اور صحیح سمت و رخ عطا کرے۔ نماز جمعہ تعلیم و نصیحت کا مرکز ہونا چاہئے۔ ائمہ جمعہ اور منتظمین کو مل کر اس سلسلے میں کوشش کرنا چاہئے۔
عوامی نظام، جس کے ڈھانچے میں عوام کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہو، عوام کی آگاہی سے بے نیاز نہیں ہو سکتا، یعنی اس نظام کے عوام کو مطلع رکھنا ضروری ہے۔ ان میں تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو فروغ دینا چاہئے۔ انہیں ضروری و مفید اطلاعات و معلومات اور لازمی فہم و ادراک کا مالک بنانا چاہئے۔ ایسے نظام کے لئے اطلاع رسانی کا عمل پانی اور ہوا کی مانند لازمی ہوتا ہے۔ ہمارا نظام ایسا ہی نظام ہے۔ اس میں عوام کو جتنا زیادہ با خبر رکھا جائے گا اسلامی جمہوری نظام کو اتنا ہی زیادہ نفع پہنچے گا۔ بنابریں یہ نظام کی ضرورت ہے کہ عوام کو آگاہ و باخبر رکھا جائے۔ آپ یورپ اور امریکہ کے کسی ایک اخبار کا نام بتائیے جو سرمایہ داروں کی ملکیت نہ ہو۔ میرا یہ سوال ہے کہ کون سا اخبار ہے جو متوسط طبقے اور غریب طبقے سےتعلق رکھتا ہے جس کے ذریعے انسان اس طبقے کی آزادی کا اندازہ کر سکے؟ اخبارات کس کی ملکیت ہیں؟ تمام (اخبارات ) کا تعلق بڑے ٹرسٹوں اور سرمایہ داروں سے ہے۔ یعنی یہ سرمایہ دار جب پوری آزادی سے کام کرتا ہے تو جب جس کی شبیہ کو چاہتا ہے خراب کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ رای عامہ کو اپنی مرضی کے مطابق سمت اور رخ عطا کر دیتا ہے۔ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے لئے اخبارات و جرائد اشرافیہ کا مشغلہ اور کوئی آرائشی چیز نہیں ہے۔ بنابریں اس میں اضافہ، اس میں تنوع، ان کا معیاری ہونا اس نظام کے بنیادی امور میں شامل ہے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ اور میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔ آزاد میڈیا قوم کی ترقی و بالندگی کی علامت بلکہ در حقیقت ترقی کی بنیاد ہے۔ یعنی جہاں ایک طرف معاشرے کی آزادی و ترقی میڈیا کو وجود میں لاتی ہے وہیں میڈیا بھی قوم کے نشو نما میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ البتہ اس کے ساتھ ہی میرا یہ بھی نظریہ ہے کہ کچھ قدریں اور حقائق ایسے ہیں جو آزادی بیان اور میڈیا کی آزادی کے نام پر پامال نہ ہونا چاہئے۔ اب کمال کی بات یہی ہے کہ آزادی کی بھی حفاظت ہو اور حقیقت کا صحیح ادارک بھی عمل میں آئے۔ پرنٹ میڈیا آزاد بھی رہے اور ضرررساں پہلوؤں سے پاک بھی رہے۔ روش ایسی ہونا چاہئے۔ میڈیا کا حقیقی سرمایہ عوام کا اعتماد ہوتا ہے جو اقدار اور لوگوں کے عقائد کے لحاظ، نظام کی عزت و شان کی حفاظت اور بیان میں صداقت کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ اگر پرنٹ میڈیا، جیسا کہ آئین میں کہا گیا ہے، لوگوں کے ذہن کھولنے کا فریضہ ادا کرے، ملک کے مفادات کو ملحوظ رکھے، قلم کا استعمال عوام کے مفاد میں کرے، دین کے مفاد میں قلم کا استعمال کرے تو اس کی تعداد میں جتنا زیادہ اضافہ ہو بہتر ہے۔ اسلامی نظام میں پرنٹ میڈیا کا سب سے اہم پہلو اس انقلابی قوم کے اقدار و اہداف کی حمایت و وضاحت اور عوام کی آگاہی کی سطح کو بلند کرنے کے سلسلے میں ثقافتی کردار کا ادا کرنا ہے۔ موجودہ دور میں، خاص طور پر مارکسزم کی شکست کے بعد مغربی سامراج انقلابی قوموں پر اپنا سیاسی و الحادی تسلط قائم کرنے کے لئے ثقافتی حربوں کا استعمال کر رہا ہے۔ مغرب کی اس ثقافتی یلغار کا مختلف پہلوؤں سے مناسب جواب اور سد باب میڈیا کا اولیں مشن ہونا چاہئے۔ میں میڈیا سے جو بار بار سفارش کرتا ہوں کہ ملک کے معاملات کے سلسلے میں ذمہ داری کے ساتھ عمل کرے، اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمیں دشمن کا حربہ نہیں بننا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے عمل سے دشمن کا کام آسان ہو جائے اور وہ حسب منشاء ہمارے معاشرے کی فکری و ثقافتی فضا میں جو چاہے تبدیلی کر دے اور آپ ملک کے اندر اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے اسے عوام کے حلق سے نیچے اتارنے کی کوشش کریں۔ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اگر یہ عمل عمدا اور واقفیت کے ساتھ انجام پائے تو بہت بڑی خیانت ہے اور اگر غفلت میں ہو جائے تو بہت بڑی غلطی ہے۔ بہت زیادہ ہوشیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس بنا پر پرنٹ میڈیا کی نگرانی بہت اہم اور ضروری فریضہ ہے۔ یہ آئین، پرنٹ میڈیا سے متعلق قوانین اور عام قوانین کا تقاضہ بھی ہے۔ نظارت کے بغیر پرنٹ میڈیا سے قومی مفادات اور تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔ بعض افراد سمجھتے ہیں کہ رای عامہ ایک آزاد میدان ہے جہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے اس کے ساتھ جو دل میں آئے برتاؤ کیا جا سکتا ہے۔ رای عامہ تجربہ گاہ کا چوہا تو نہیں ہے کو جو جیسا چاہئے اس پر تجربہ کرے۔ غلط تجزیوں، افواہوں اور تہمت و دروغگوئی سے لوگوں کے جذبات، عقائد اور مقدسات کی توہین کی جاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟ بنابریں نظارت لازمی ہے تاکہ یہ حرکتیں نہ ہوں۔ یہ (نظارت) ایک فریضہ ہے۔
جہاد یعنی عظیم مقدس ہدف کے لئے جد و جہد۔ اس کے مخصوص میدان ہیں۔ ایک میدان مسلح افواج کے شعبوں میں شمولیت ہے۔ اس کا سیاسی میدان بھی ہے، علمی میدان بھی ہے اور اخلاقی میدان بھی۔ جہاد کی صداقت و حقانیت کا معیار یہ ہے کہ یہ عمل جب انجام پائے تو خاص سمت اور رخ کا حامل ہو اور سامنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اسی کو جد و جہد کہتے ہیں اور جہاد اسی کا نام ہے۔ اگر اس میں الہی ہدف اور پہلو ملحوظ ہوگا تو اس میں تقدس بھی پیدا ہو جائے گا۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں کو حقیقی جہاد کی دعوت دیتا ہوں۔ جہاد صرف میدان جنگ میں جاکر لڑنے کا ہی نام نہیں ہے۔ میدان عمل و اخلاق میں سعی پیہم اور سیاسی و تحقیقاتی امور میں تعاون و شراکت بھی جہاد کا درجہ رکھتی ہے۔ معاشرے میں صحیح طرز فکر اور ثقافت کی ترویج بھی جہاد ہے، کیونکہ دشمن کی جانب سے گمراہ کن اقدامات کا خدشہ رہتا ہے۔ وہ ہماری فکریں منحرف کر سکتا ہے، ہمیں غلطیوں کا شکار بنا سکتاہے۔ جو شخص بھی عوام کی ذہنی بیداری و آگاہی کے لئے کام کرے، فکری انحراف کا سد باب کرے، غلط فہمی پھیلنے سے روکے، چونکہ وہ دشمن کے مد مقابل کھڑا ہے اس لئے اس کی یہ سعی و کوشش جہاد کہلائے گی۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس جہاد میں حریف سامراجی عناصر ہیں، دشمن وہ افراد ہیں جو ایران، اسلام، شناخت و تشخص، قومیت، اسلام نوازی اور اسلامی صفات و اوصاف سے عناد رکھتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے سلسلے میں سختگیر ہونا چاہئے۔ یہ کفار کون لوگ ہیں؟ ہر اس شخص کے ساتھ تو سختگیری نہیں کی جا سکتی جسے اسلام سے نسبت نہیں۔ جو شخص آپ سے دشمنی کا برتاؤ نہیں کرتا، آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف نہیں ہے، آپ کی قوم اور ملت کی نابودی کے در پے نہیں ہے، وہ خواہ کسی اور دین کا ماننے والا ہی کیوں نہ ہو اس سے آپ اچھا سلوک کیجئے، نیک برتاؤ کیجئے۔ جس کافر سے سختی سے پیش آنے کا حکم ہے وہ یہ نہیں ہے۔ سختگیری ایسے افراد کے ساتھ کرنا چاہئے جو آپ کی شناخت و تشخص، اسلام، قومیت، ملک، ارضی سالمیت، خود مختاری، وقار، عزو شان، عزت و آبرو، آداب و روایات اور ثقافت و اقدار کے دشمن ہوں۔ یہ طرز عمل ہمارے معاشرے میں عام ہونا چاہئے۔ درگذشت اور رعایت مسلمانوں کے ما بین رائج ہونا چاہئے۔ اسلامی ثقافت کا ایک نمایاں نکتہ جس کا نمایاں مصداق صدر اسلام میں کچھ زیادہ اور بعد کی تاریخ میں بہت کم نظر آتا ہے، جہاد و عسکریت کی ثقافت ہے۔ جہاد کے معنی صرف میدان کارزار میں اتر جانا ہی نہیں ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہر کوشش جہاد سے عبارت ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض افراد کوئی کام انجام دیں اور اس کے لئے جد و جہد بھی کریں لیکن اس پر جہاد کا لفظ کا اطلاق نہ ہو۔ اس لئے کہ جہاد کی ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ دشمن کے مقابلے میں انجام دیا جائے۔ کبھی تو یہ مقابلہ میدان جنگ میں مسلحانہ طور پر ہوتا ہے، کبھی یہ مقابلہ میدان سیاست میں انجام پاتا ہے جو سیاسی جہاد کہلاتا ہے، کبھی ثقافتی امور کے سلسلے میں انجام پاتا ہے جو ثقافتی جہاد کہا جاتا ہے، کبھی تعمیراتی شعبے میں انجام پاتا ہے اور تعمیراتی جہاد کہلاتا ہے۔ اسی طرح جہاد دوسرے میدانوں میں دوسرے ناموں سے بھی انجام دیا جاتا ہے۔ بنابریں معیار میدان جنگ اور شمشیر زنی نہیں ہے بلکہ معیار مقابلہ ہے۔ مقابلے میں بھی دو لازمی شرطیں ہیں ایک تو جد و جہد کا ہونا اور دوسرے دشمن کے مقابلے میں انجام پانا۔ جہاد میں دوسروں کے حقوق پر دست درازی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاد میں بہانے بازی اور (عبث) قتل و غارتگری کی گنجائش نہیں، جہاد میں یہ نہیں ہوتا کہ جو بھی مسلمان نہیں اسے تہہ تیغ کر دیا جائے، جو بھی دین اسلام قبول نہ کرے اس کے ساتھ سختگیر رویہ رکھا جائے۔ سختگیری ایسے لوگوں کے ساتھ کی جانی چاہئے جو مسلم اقوام کی شناخت و تشخص، اسلام پسندی، خود مختاری، ناموس، ثقافت، ارضی سالمیت اور اقدار سے بر سر پیکار ہوں۔ اس سلسلے میں جہاد، حکم الہی کا درجہ رکھتا ہے جس کی بدولت قوموں کو سربلندی حاصل ہوتی ہے۔ اسلامی انقلاب نے ہماری قوم کو جہاد کی ثقافت عطا کی۔ جہاد کی ثقافت ہر شعبے اور ہر موقع پر کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اوائل انقلاب سے ہی زراعت اور جانوروں کی پروش سے متعلق بنیادی کاموں میں جہادی ثقافت شامل ہو گئی۔ کیونکہ انقلاب نے ایسی تنظیمیں پیدا کر دی تھیں جن کی ماہیت انقلابی جوش وجذبے اور جہاد و سرعت عمل سے عبارت تھی۔
ما تحت عملے کی نگرانی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اعلی حکام اور عہدہ داروں کے لئے میری تاکید یہ ہے کہ اپنے ما تحت عملے کی نظارت و نگرانی پر خصوصی توجہ دیں۔ آپ کی تیز بیں نگاہیں جب آپ کے دائرہ کار میں چکراتی رہیں گی تو کاموں کی صحیح انجام دہی اور پیشرفت کو یقینی بنایا جا سکےگا۔ اگر آپ سے کسی لمحے کوئی غفلت ہوئی تو ممکن ہے کہ اسی مخصوص لمحے میں کوئی گڑبڑ ہو جائے۔ اگر کوئی عہدہ دار اپنے وقت کی تقسیم کرنا چاہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسے اپنا نصف وقت نظارت میں اور نصف وقت دیگر کاموں مثلا غور و فکر کرنے، حکمت عملی طے کرنے، احکامات صادر کرنے، میٹنگیں کرنے اور اسی طرح کے دیگر امور میں صرف کرنا چاہئے۔ ادارے کی نگرانی یعنی یہ کہ وہاں آپ کی موجودگی دائمی ہو۔ نظارت کے مسئلے میں معیار قوانین و ضوابط ہونا چاہئے، ذاتی خواہش اور منشاء نہیں۔ ہرگز ذاتی خواہش کے مطابق عمل نہ کیجئے۔ آپ کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ آپ اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے سامنے جواب دے سکیں۔ قوانین پر عملدرآمد کے سلسلے میں کوئی رعایت نہیں کی جانی چاہئے۔ امور کے نظم و نسق پر حکومت کو مامور اور قادر بنانے والے قوانین وضع کرنا اور پھر قانونی طریقے سے اس پر عملدرآمد کے عمل کی نگرانی پارلیمنٹ کا اولین فریضہ ہے، جو حکومت و پارلیمنٹ کے ما بین تعاون و ہمفکری اور پارلیمنٹ کی جانب سے حکومت کی حمایت کا متقاضی ہے۔ مقننہ کا فریضہ قانون سازی اور حکام کی کارکردگی کی نظارت کرنا ہے۔ ہمارے آئین کے مطابق پارلیمنٹ حکومت کی کارکردگی کی نگراں ہے۔ اگر کسی مرحلے پر حکومت کی کارکردگی میں کجی اور غلطی نظر آئے، وہ غلط اقدام کر دے یا خدا نخواستہ اختیارات کا بے جا استعمال کرے اور نتیجتا بد عنوانی پیدا ہو جائے تو ایسے میں اس بد عنوانی و فساد کو قابو میں کرنے کا کام پارلیمنٹ کا ہے۔ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کا بھی اولین فریضہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب ہے اور دوسرے مرحلے میں اس کی ذمہ داری موجودہ قائد انقلاب کی کارکردگی پر نظر رکھنا اور اس بات پر توجہ رکھنا ہے کہ تمام شرائط اور اہلیت برقرار ہیں یا نہیں؟ اس کا علم، اس کا تقوی، اس کی انتظامی صلاحیت، اس کی مدبرانہ توانائی، اس کا خلوص اور صداقت باقی ہے یا نہیں، مطلوبہ سطح پر برقرار ہے یا اس سے نیچے آ گئی ہے؟ اس کی نگرانی لازمی ہے اور یہ اہم فریضہ ماہرین کی کونسل کے دوش پر ہے۔ اس اہم ترین فریضے کی ادائیگی کے لئے ملک میں کوئی اور ادارہ نہیں ہے جسے آئین نے اس کا کی اجازت اور ذمہ داری سونپی ہو۔ معلوم ہوا کوئی بھی، نظارت و نگرانی سے بالاتر نہیں ہے۔ خود قائد انقلاب اسلامی بھی نظارت سے مستثنی نہیں ہے تو قائد انقلاب اسلامی سے وابستہ اداروں کا کیا ذکر؟ بنابریں سب پر نگرانی ضروری ہے۔ ان افراد کی نگرانی جو حکومت کر رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت کے فطری معنی طاقت و دولت تک رسائي کے ہیں۔ یعنی بیت المال اور سیاسی و سماجی اقتدار بعض حکام کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اب ایسے میں انہیں اختیارات کے غلط استعمال اور نفسانی خواہشات سے روکنے اور امانتداری پر کاربند رکھنے کے لئے نظارت لازم و واجب ہے۔ نظارت کا عمل سنجید گی اور بغیر کسی رو رعایت کے انجام پانا چاہئے۔ یہ میرا نظریہ ہے جسے میں نے ماہرین کی کونسل کے اراکین، دیگر اداروں کے اراکین اور افراد کے سامنے پیش کیا ہے۔ نظارت و نگرانی مجھے پسند ہے اور نظارت سے فرار، اگر کہیں ہو، مجھے نا پسند ہے۔ میری جتنی زیادہ نگرانی ہو اتنی ہی مجھے خوشی ہوگی۔ نظارت میرے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے اور مجھے نظارت و نگرانی سے خوشی ہے۔ البتہ اگر کسی نے نظارت کا عمل انجام دیا اور اسے کچھ نظر آ گیا تو اسے چاہئے کہ ماہرین کی کونسل کو اس سے مطلع کر دے ماہرین کی کونسل یقینا اس پر عمل کرے گی۔ نظارت ایک قانون ہے۔ نگراں کونسل کی نظارت کا عمل آئین کے مطابق ہے۔ اس کی بنیادیں آئين کے اندر موجود ہیں عام قوانین میں بھی اس کی تائید و توثیق کی گئی ہے۔ عام شہریوں کے لئے بھی یہ نظارت معمولی بات نہیں ہے۔ نگرانی کا یہ عمل اس لئے ہے کہ اس حساس مرکز میں کوئی نااہل، برا اور ضرر رساں آدمی داخل نہ ہو جائے۔ یہ نظارت صرف پارلیمنٹ سے مختص نہیں بلکہ صدارت کے سلسلے میں بھی ہے۔ یہ نظارت اس لئے ہے کہ جو افراد پارلیمنٹ یا عہدہ صدارت کے اہل نہیں ہیں ان پر نظر رکھی جائے۔ انتخابات کی نگرانی بھی بہت اہم ہے جو نگراں کونسل انجام دیتی ہے۔ (نظارت کا) دوسرا حصہ عوام سے مربوط ہے جو سب سے پہلے مرحلے میں سماجی مسائل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے عبارت ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک عمومی فریضہ ہے۔ اگر عوام کی نظروں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا مفہوم اور اس کی حدود واضح ہو جائیں تو معلوم ہوگا کہ سماجی تعلقات کے سلسلے میں جدید ترین، شیریں تریں، کارآمد ترین اور کار ساز ترین عمل یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ یہ عمومی نظارت ہے، یہ خیر و نیکی کی ترویج ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مختلف میدان ہیں۔ ان میں سب سےاہم میدان حکام اور عہدہ داروں کا ہے۔ یعنی عوام، حکام کے سلسلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضے پرعمل کریں۔ عوام کو چاہئے کہ حکام سے بہترین کارکردگی کا مطالبہ کریں، درخواست اور التجاء کی شکل میں نہیں بلکہ ان سے مطالبہ کریں۔ یہ بہت اہم میدان ہے۔ معاشرے کے عوام کو چاہئے کہ مختلف سیاسی و سماجی شعبوں میں اپنی شراکت اور نظارت، اپنی بجا مداخلت اور رہنمائی کے ذریعے سب کو فرائض منصبی کی جناب متوجہ کریں۔ اس میں مجھے کوئی شک و شبہ نہیں کہ عوام اور حکام کے درمیان ذرائع ابلاغ بطور عام اور اخبارات و جرائد بطور خاص رابطے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کو چاہئے کہ عوام تک صحیح اطلاعات بر وقت پہنچانے کی کوشش کرے۔ میں اپنے معاشرے اور اچھی زندگی گزارنے کے خواہاں ہر سماج کے لئے اخبارات و جرائد کو ضروری و لازمی سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں پرنٹ میڈیا کے تین اہم فرائض ہیں۔ تنقید و نگرانی، شفافیت و صداقت کے ساتھ خبر رسانی، معاشرے میں افکار و نظریات کا تبادلہ۔ میرا نظریہ ہے کہ آزادی قلم و بیان، عوام اور پرنٹ میڈیا کا مسلمہ حق ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ آئين کے انتہائی واضح قوانین میں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر کوئی معاشرہ آزاد اور ترقی کی راہ پر گامزن میڈیا اسی طرح آزاد اور با شعور قلم سے محروم ہو جائے تو وہ اس کے ساتھ ہی متعدد چیزوں سے محروم ہو جائے گا۔منصب کی ذمہ داریوں سے سابقہ پڑنے کے بعد میں عہدہ داروں کے سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہم اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات میں آخرت کو پیش نظر رکھیں اور اس کے کردار کو تسلیم کریں۔ بعض افراد عوام کی باتوں اور عوام کی جانب سے انجام پانے والی نگرانی کو اہمیت دیتے ہیں لیکن الہی نظارت و نگرانی پر کوئی توجہ نہیں دیتے جس پر ہمارے مستقبل کا دارومدار ہے۔ اللہ تعالی کو ہر آن حاضر و ناظر جانئے۔ روز قیامت کے محاسبے کو سنجیدگی سے لیجئے۔ محاسبہ الہی برحق ہے۔ ہمارا معمولی سا عمل، لمحے بھر کی غفلت، ہماری چھوٹی سی کوتاہی بھی، اگر خدا نخواستہ سرزد ہو گئی تو، ہمارے نامہ اعمال میں محفوظ ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا ہم سے حساب لیا جائے گا۔ اسی طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں آپ جو مشقتیں اور زحمتیں اٹھا رہے ہیں وہ بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھی جا رہی ہیں۔ یہ سب اللہ تعالی کے پاس محفوظ ہے اور وہ ان سب کے بارے میں ہم سے سوال کرے گا۔ بنابریں ہمیں چاہئے کہ آخرت کے حساب و کتاب، قیامت اور خوشنودی پروردگار کو اہمیت دیں۔ اگر یہ چیز عملی ہو گئی تو قدرت و طاقت، خیر کا سرچشمہ بن جائے گی۔ بعض افراد قوت و طاقت و دولت و ثروت کو شر اور قبیح تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ زندگی میں ملنے والی دیگر عطیات کی مانند طاقت و ثروت بھی عطیہ ہے۔ زندگی کی زینت ہےزینۃ الحیاۃ الدنیا اہم بات یہ ہے کہ ہم اس طاقت کو استعمال کیسے کرتے ہیں؟ اگر ہم نے اس سے اچھے کاموں کے لئے استفادہ کیا تو یہ خیر و نیکی کا سرچشمہ ہے۔ اگر اس سے عوام کی خدمت کی تو یہ موجب خیر و برکت ہے لیکن اگر اس سے ہم نے ذاتی مفادات اور نفسانی خواہشات کی تکمیل چاہی اور درندوں کی مانند اس کے ذریعے کبھی کسی پر تو کبھی کسی اور پر جھپٹہتے رہے تو یہی باعث شر بن جائے گی اور جتنی بڑھتی جائے گی اس کا شر بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا جائے گا۔
تہذیب و ثقافتتہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری اور آپ کی زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔ ہم تہذیب و ثقافت کو انسانی زندگی کا بنیادی اصول سمجھتے ہیں۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔ تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔ ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں اور نگاہیں انہیں دیکھ سکتی ہیں۔ ان امور کا قوم کے مستقبل اور تقدیر میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ البتہ اس کے اثرات دراز مدت میں سامنے آتے ہیں۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس کیسا ہو، کیسے پہنا جائے اور بدن ڈھانکنے کا کون سا انداز نمونہ عمل قرار دیا جائے؟ یہ چیزیں تہذیب کے ظاہر و آشکار امور میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں معماری کا انداز کیا ہے؟ گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں، رہن سہن کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا آئینہ ہے۔ عوامی ثقافت کا دوسرا حصہ جو پہلے حصے کی ہی مانند ایک قوم کی تقدیر طے کرنے میں موثر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فورا ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہیں بآسانی محسوس بھی کیا جاتا ہے یعنی یہ ثقافتی امور خود تو نمایاں اور واضح نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے کی ترقی اور اس کی تقدیر کے تعین میں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اخلاقیات ہیں، یعنی معاشرے کے افراد کی ذاتی اور سماجی زندگی کا طور طریقہ کیسا ہے؟ عوامی ثقافت میں انسان دوستی، مرد میداں ہونا، خود غرضی اور آرام طلبی سے دور ہونا، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینا وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ بنابریں ثقافت معاشرے کے پیکر میں روح اور جان کا درجہ رکھتی ہے۔ قوموں پر تسلط اور غلبے کے لئے اغیار اپنی تہذیب و ثقافت کی ترویج کی کوشش کرتے ہیں جو کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ بہت پہلے سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ پچھلے سو دو سو برسوں سے مغربی ممالک نے جدید وسائل کے استعمال سے اپنے تمام اقدامات کو بہت زیادہ منظم کر لیا ہے۔ اب وہ یہی کام پوری منصوبہ بندی سے کر رہے ہیں اور وہ ان مقامات اور پہلوؤں کی نشاندہی کر چکے ہیں جہاں انہیں زیادہ کام کرنا ہے۔ دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا جس کی ثقافت غالب رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کا غلبہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی، اقتصادی، اور فوجی غلبے کی مانند ہمہ گیر برتری کا پیش خیمہ ہو۔ ثقافتی تسلط، اقتصادی تسلط اور سیاسی تسلط سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر ایک قوم نے دوسری قوم پر ثقافتی اور تہذیبی غلبہ حاصل کر لیا تو قومی تشخص پر سوالیہ نشان لگ جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب دھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تو وہ قوم اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اب یہ قوم زندگی سے محروم ہو چکی ہے۔ اب اس کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ کوئی عظیم شخصیت پیدا ہو جو اسے اس صورت حال سے باہر نکالے۔ ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی گروہ یا سسٹم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی قوم کو اسیر بنا لے۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ یہ سسٹم اس قوم میں کچھ نئی چیزیں اور افکار متعارف کراتا ہے۔ پھر انہی افکار و نظریات اور طرز عمل کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی کو ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ ثقافتی تعاون اور لین دین کا مقصد موجودہ ثقافت کو مستحکم اور کامل بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ ثقافتی یلغار میں ایک ثقافت کو نشانہ بناکر مٹا دیا جاتا ہے۔ ثقافتی لین دین میں جو قوم کسی دوسری قوم سے کچھ حاصل کرتی اور لیتی ہے، وہ دوسری قوم کی ثقافت کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتی ہے، اس کی خوبیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور پھر انہی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے مثال کے طور پر علم و دانش وغیرہ۔ ثقافتی لین دین میں انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے جبکہ ثقافتی یلغار میں انتخاب دشمن کرتا ہے۔ ثقافتی لین دین اس لئے ہوتا ہے کہ خود کو کامل بنایا جائے یعنی اپنی قومی ثقافت کو کامل بنایا جائے جبکہ ثقافتی یلغار اس لئے ہوتی ہے کہ ایک ملک کی ثقافت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ثقافتی لین دین اور تعاون اچھی چیز ہے لیکن ثقافتی یلغار بہت مذموم شیء ہے۔ ثقافتی تعاون، دو مضبوط ثقافتوں میں انجام پا سکتا ہے لیکن ثقافتی یلغار ایک طاقتور قوم کمزور قوم پر کرتی ہے۔ مغربی ثقافت اچھائیوں اور برائيوں کا مجموعہ ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مغربی ثقافت میں صرف برائياں ہی برائياں ہیں۔ جی نہیں، مغربی ثقافت بھی مشرقی ثقافتوں کی مانند خوبیوں اور عیوب کا مجموعہ ہے۔ ایک دانشمند اور علم دوست قوم اور صاحبان عقل و خرد دوسروں کی خوبیاں اپنی ثقافت میں شامل کر لیتے ہیں لیکن ان کی برائیوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اسلامی ثقافت ایک معیاری ثقافت ہے، جو ایک معاشرے کے لئے اور انسانوں کے کسی بھی گروہ اور جماعت کے لئے اعلی ترین اقدار و معیارات کی حامل ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کو سربلند و سرفراز اور عزیز و با وقار بنا کر ترقی و کامرانی کی راہ پر لگا سکتی ہے۔ امت مسلمہ مختلف قوموں، نسلوں اور مکاتب فکر سے تشکیل پائی ہے۔ قدیمی ترین تہذیبیں اور وسیع ثقافتیں انہی علاقوں میں پھلی پھولی اور فروغ پائی ہیں جہاں آج مسلمان آباد ہیں۔ یہ تنوع، یہ رنگا رنگ انداز، کرہ زمین کے حساس علاقوں کی مالکیت امت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں۔ تاریخ و ثقافت کی مشترکہ میراث اس امت کی طاقت میں اور بھی اضافہ کر سکتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی تحریک کے اہداف
تبلیغ حقیقت کے مقام میں، امام حسین علیہ السلام کی تحریک حق و انصاف کی برقراری کے لئے تھی: «انّما خرجت لطلب الاصلاح فى امّة جدّى اريد ان امر بالمعروف وانهى عن المنكر ...» زیارت اربعین میں جو بہترین زیارتوں میں سے ہے ہم پڑھتے ہیں : «و منحالنّصح و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من الجهالة و حيرةالضّلاله» آپ راستے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی معروف حدیث بیان کرتے ہیں «ايهاالنّاس انّ رسولاللَّه صلّىاللَّه عليه و اله و سلّم قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم اللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و اله و سلم يعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لاقول كان حقّا علىاللَّه ان يدخله مدخله».
آپ کے تمام اقوال اور افعال نیز آپ کے بارے میں معصومین سے منقول تمام اقوال ثابت کرتے ہیں کہ مقصد، حق و انصاف کا قیام و دین خدا کی تبلیغ اور شریعت کی حکمرانی اور ظلم و جور و سرکشی کی بیخ کنی تھا۔ مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر انبیاء کے راستے کو نمایاں رکھنا تھا۔ يا وارث ادم صفوةاللَّه يا وارث نوح نبىّاللَّه ...» اور یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کو کس لئے بھیجا گیا تھا : «ليقومالنّاس بالقسط». یعنی عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے لئے۔
جس چیز نے ہماری تحریک کو سمت عطا کی وہ وہی چیز ہے جس کی راہ میں حسین بن علی علیھما السلام نے قیام کیا تھا۔ آج ہم اپنے ان شہدا کا جو مختلف محاذوں پر اس نظام کی راہ میں اور اس کے تحفظ کے لئے شہید ہوتے ہيں، سوگ مناتے ہیں۔ جو شہید مسلط کردہ جنگ یا پھر انواع و اقسام کے دشمنوں، مناففوں اور کفار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے اس کے سلسلے میں ہمارے عوام میں کسی طرح کا شبہہ نہيں پایا جاتا کہ وہ شہید اسی نظام کی راہ میں شہید ہوا اور اسی نظام اور انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لئے شہید ہوا ہے۔ حالانکہ آج کی شہادت کی کیفیت، کربلا کے ان شہدا سے مختلف ہے جنہوں تنہائی اور بے کسی کے عالم میں قیام کیا اور کسی نے بھی انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب نہيں دی تھی بلکہ تمام لوگ اور اسلام کی بڑی شخصیتیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایمان و ایقان اتنا زیادہ تھا کہ وہ گئے اور مظلومیت کے عالم میں شہید ہو گئے۔ شہدائے کربلا کی حالت، ان شہدا سے مختلف ہے جنہیں تمام تشہیراتی وسائل اور سماج کے اہم لوگ ترغیب دلاتے ہیں کہ جاؤ آگے بڑھو اور وہ چلے جاتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ شہید بھی عظیم مرتبہ رکھتا ہے لیکن ان شہداء (کربلا) کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں اور آپ سب لوگوں کو، خاص طور پر شہدا کے گھر والوں اور ان جوانوں اور نوجوانوں کو جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محبوب و اور جاں نثاری کے پیکر جانبازوں کی یادگار ہیں اور اسی طرح جنگ میں زخمی ہونے والوں اور ان کےگھر والوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملکی امور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔
اس نشست میں موجود تقریبا سب یا آپ میں سے اکثر ، پر جوش نوجوان اور ملک و انقلاب کے حال و مستقبل کی امیدیں ہیں۔ آپ ملک کے حال و مستقبل میں اہم کردار کے حامل اور جوش و ولولے سے سرشار ہیں۔ آپ لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس نشست میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہواور ہم ان سے درس حاصل کریں خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ ایام، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں اور یہ دو مہینے جن کے دوران عاشور کے واقعے کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ختم ہو رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں، جو چہلم کے دن پڑھی جاتی ہے ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے اور وہ یہ ہے : «و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك منالجهالة». حسین ابن علی علیھما السلام کی قربانی کا فلسفہ اس جملے میں پوشیدہ ہے ۔ زائر خداوند عالم سے عرض کرتا ہے تیرے اس بندے(حسین) نےاپنا خون قربان کر دیا تاکہ لوگ جہالت سے نجات پا جائيں۔ «وحيرةالضّلالة» لوگوں کوگمراہی کی پریشانی و سرگردانی سے نجات دلا دیں۔ غور کریں یہ جملہ کتنا پر معنی و پر مغز ہے اور اس میں کتنے جدید معانی و مفاہیم ہیں
جنگ سے متاثرین، اساتذہ اور کھلاڑیوں کے ایک مجمع سے خطاب سے اقتباس 1990-9-12
میں امام حسین علیہ السلام کے اقوال او خطبوں میں، کہ جو اہم نکات سے لبریز ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ لوگوں سے رسا و واضح زبان میں بات کرنے کے لئے آپ امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور خطبوں سے زيادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس جملے کو اس نشست کے لئے مناسب سمجھتا ہوں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «اللّهم انّك تعلم انّ الّذى كان منا لم يكن منافسة فى سلطان ولاالتماس شىء من فضول الحطام»؛ پروردگارا! یہ جو ہم نے اقدام کیا ہے، یہ جو ہم نے قیام کیا ہے، یہ جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ وہ اقتدار کے لئے نہیں ہے۔ اقتدار کسی انسان کا ہدف نہيں ہو سکتا۔ ہم عنان حکومت ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، دنیوی جاہ و مقام کے لئے بھی ہمارا قیام نہیں ہے کہ ہم پر تعیش زندگی گزاریں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائيں، مال و دولت جمع کریں ۔ ان سب چیزوں کے لئے نہيں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کس لئے ہے ؟ آپ نے کچھ جملے فرمائے ہیں جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ہر دور کے لئے یہ ایک درس اور رہنمائی ہے ۔ «ولكن لنرى المعالم من دينك» دین کے پرچم لوگوں کے لئے لہرائيں اور (یہ پرچم) اس(دین) کی نشانیاں ان(لوگوں) کی نظروں کے سامنے لے آئيں۔
نشانیاں اہم ہیں۔ شیطان ہمیشہ اہل دین کے درمیان تحریف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا بس چلے تو لوگوں کو دین سے علاحدگی پر اکساتا ہے تاکہ زہریلے پروپیگنڈوں اور نفسانی خواہشات کی آگ بھڑکا کر لوگوں سے ان کا دین و ایمان چھین لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ دین کی علامتوں اور مظاہر کو غلط جگہوں پر نصب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ جب کسی سڑک پر چل رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ علامت کسی ایک سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ اب اگر کسی بدعنوان شخص نے اس علامت کوبدل دے اور اسے دوسری سمت میں موڑ دے۔ (تو اس کا نتیجہ راہرو کی گمراہی کی صورت میں نکلے گا۔) امام حسین علیہ السلام اپنا اولین ہدف یہ قرار دیتے ہیں : «لنرى المعالم من دينك و نظهر الاصلاح فى بلادك»؛اسلامی ممالک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اصلاح کریں۔ اصلاح یعنی کیا ؟ یعنی بدعنوانی کا خاتمہ۔ بد عنوان یعنی کیا ؟ بدعنوان کی بہت سی قسمیں ہیں: چوری بدعنوانی ہے، غداری بدعنوانی ہے، دھونس و دھاندلی بدعنوانی ہے، اخلاقی انحطاط بدعنوانی ہے، غبن بدعنوانی ہے، اپنوں سے دشمنی بد عنوانی ہے، دین کے دشمنوں کی طرف جھکاؤ بد عنوانی ہے، دین مخالف چیزوں میں دلچسپی کا مظاہرہ بدعنوانی ہے۔ سب کچھ دین کے سائے میں وجود پاتا ہے۔ اس کے بعد کے جملوں میں آپ فرماتے ہيں: «و يأمن المظلومون من عبادك»؛ تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ رہیں، اس سے مراد سماج کے مظلوم لوگ ہیں، نہ کہ ظالم، نہ ظالمانہ روش رکھنے والے، نہ ظلم کی تعریف کرنے والے، نہ ظالموں کے ہرکارے ! مظلوم وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ ہو، کوئی چارہ نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ سماج کے ستائے ہوئے لوگ اور کمزور افراد چاہے جس سطح پر اور چاہے جہاں ہوں انہیں تحفظ حاصل ہو۔ عزت آبرو سلامت رہے، مال و دولت سلامت رہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، یہ وہ چیزیں ہیں جو آج دنیا میں نہيں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اس صورت حال کے بالکل مخالف سمت میں جانا چاہ رہے تھے جو اس ظالمانہ دور پر محیط تھی۔ آج بھی اگر آپ دنیا کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پھر وہی حالات ہیں۔ دین کے پرچم کو ہٹایا جا رہا ہے، خدا کے مظلوم بندوں پر مزید ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظالم کے ہاتھ مظلوموں کے خون میں سنتے جا رہے ہیں۔
دیکھیں دنیا مں کیا ہو رہا ہے؟! دیکھیں کوسوو کے مسلمانوں کےساتھ کیا ہوا؟! پانچ لاکھ بلکہ اس سے بھی زيادہ، انسانوں، بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کے ساتھ کیا کیا گیا؟! صحراؤں میں، سرحدوں پر، وہ بھی پر امن سرحدوں پر نہيں، دشمن کے سامنے وہ بھی ایسے دشمن کے سامنے جو ان کے راستے پر بارودی سرنگ بچھاتے ہيں ، اور پیچھے سے گولیاں برساتے ہيں، مقصد ان سب کو ختم کرنا ہے۔
اس سلسلے میں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، بس یہ عرض کر دوں کہ منصوبہ یہ ہے کہ بلقان میں مسلمانوں کو تباہ اور بکھیر دیا جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت، ایک اسلامی گروہ کی تشکیل کو روک دیا جائے۔ خواہ وہ جیسی اسلامی حکومت ہو۔ چاہے ایسا اسلامی گروہ ہو جس کے کانوں تک سو برسوں سے صحیح اسلامی تعلیمات نہ پہنچی ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ان کے لئے خطرناک ہے! انہیں معلوم ہے کہ اگر بلقان کے مسلمانوں کی آج کی نسل مثال کے طور پر اسلام سے آشنا نہ بھی ہو تب بھی ان کی کل کی نسل اسلام سے آشنا ہو جائے گی۔ ان کے اندر اسلامی شناخت اور اسلامی بیداری خطرناک ہے۔ ان کے کچھ لوگوں نے اپنے بیانوں میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں لیکن اس ٹکراؤ اور لڑائی میں جس چیز پر توجہ نہیں ہے اور جس چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بس زبانی طور پر کچھ باتیں کہی جاتی ہيں وہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ «يأمن المظلومون من عبادك». ہر قیام ، ہر انقلاب، ہر اسلام پسندانہ اقدام بلکہ دین خدا کے اقتدار کا مقصد، مظلوموں کی حالت پر توجہ اور الہی فرائض و احکام پر عمل در آمد ہے۔ امام حسین علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك». آپ کا مقصد یہ چیزیں ہیں ۔ اب مثال کے طور پر کوئی صاحب کہیں سے آتے ہیں اور اسلامی علوم اور امام حسین علیہ السلام کے بیانات سے معمولی سی آشنائی اورعربی زبان کے ایک لفظ سے بھی واقفیت کے بغیر، قیام حسینی کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہيں کہ امام حسین علیہ السلام نے فلاں ہدف کے لئے قیام کیا تھا ! (تو سوال اٹھتا ہے کہ) آپ یہ کہاں سے کہ رہے ہیں؟ یہ امام حسین علیہ السلام کا کلام ہے : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك»؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اپنی اور اس دور کے پاکیزہ ترین انسانوں کی جانیں قربان کرتے ہیں تاکہ لوگ الہی احکام پر عمل کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سعادت الہی احکام پر عمل میں ہے ۔ کیونکہ انصاف، دینی احکام پر عمل میں ہے کیونکہ انسان کی آزادی و حریت، دینی احکام پر عمل میں ہے۔ وہ آزادی کہاں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی احکام کے زیر سايہ ہی انسانوں کی آرزوئيں پوری ہوتی ہیں ۔
آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہيں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتيں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہيں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہيں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہيں؟
اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائيں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائيں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفيق فيما يأمر و رفيق فيما ينهى» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔
آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہيں ہے۔ جی نہيں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہيں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہيں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہيں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہيں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔
لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہيں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائيں۔ انہيں ڈرائيں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہيں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہيں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائيں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہيں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم يكن منافسة فى سلطان ولا التماس شىء من فضول الحطام».
محرم کے موقع پر علماء و مبلغین سے ایک خطاب سے اقتباس 1999-4-12
انسان نے طول تاریخ میں سب سے زيادہ غلطیاں گناہ اور لاپروائی ، حکومتی شعبے میں انجام دی ہں جو گناہ حاکموں، بادشاہوں اور لوگوں پر مسلط تاناشاہوں نے کئے ہیں ان کا موازنہ عام لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں سے نہيں کیا جا سکتا۔ اس شعبے میں انسان نے عقل و خرد و اخلاقیات و حکمت کا کم ہی استعمال کیا ہے۔ اس شعبے میں عقل و منطق، دیگرشعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں کم ہی استعمال ہوئی ہے اور جن لوگوں نے اس بے عقلی و بد عنوانی و گناہوں کی سزا بھگتی ہے وہ عام لوگ رہے ہيں کبھی ایک ہی سماج کے عام لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں اور کبھی کئی سماجوں کے افراد۔ یہ حکومتیں شروع میں تو کسی ایک فرد کی آمریت کی شکل میں رہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی انسانی سماجوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک منظم آمریت میں بدل گئيں۔ اس لئے انبیاء کی سب سے اہم ذمہ داری ظالم بادشاہوں اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو ضائع کیا ہے «و اذا تولّى سعى فى الأرض ليفسد فيها و يهلك الحرث و النسل»؛ قرآن کی آیتوں میں ان بد عنوان حکومتوں کو ان دہلا دینے والے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ظلم و جور کو عالمگیر بنا دیں۔ «ألم ترى الى الّذين بدّلوا نعمة اللَّه كفراً و احلّوا قومهم دارالبوار جهنّم يصلونها و بئس القرار» ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کا، انسانوں کو حاصل نعمتوں اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا انکار کیا اور ان انسانوں کو، جنہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا تھا، ان کے کفران نعمت سے بنائی گئ جہنم میں جلا ڈالا۔ انبیاء نے ان کا مقابلہ کیا۔ اگر انبیاء دنیا کے ظالم و آمروں کے سامنے ڈٹ نہ جاتے تو جنگ و جدال کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ «و كأيّن من نبىّ قاتل معه ربيّون كثير» بہت سے پیغمبروں نے مومنوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تو اس سے مراد کون سے لوگوں کے خلاف جنگ ہے؟ انبیاء کی جنگ میں مد مقابل یہی بدعنوان حکومتیں، تباہ کن طاقتیں اور تاریخ کے آمر تھے جو بشریت کو تباہ کر رہے تھے۔ انبیاء در اصل انسانوں کے نجات دہندہ ہيں اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء اور رسولوں کا ایک بڑا مقصد مساوات کی ترویج قرار دیا گیا ہے۔ «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و أنزلنا معهم الكتاب و الميزان ليقوم النّاس بالقسط» در اصل کتب آسمانی اور انبیاء کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں یعنی ظلم و بدعنوانی کے مظہر کو مٹا دیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایسی ہی تھی۔ آپ نے فرمایا : «انّما خرجت لطلب الأصلاح فى امّة جدّى».، اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا «من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرام الله او تاركا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسولاللَّه فعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثمّ لم يغيّر عليه بقول و لا فعل كان حقا على اللَّه أن يدخله مدخله»؛ یعنی اگر کسی کو ظلم و بدعنوانی کا مرکز نظر آئے اور وہ خاموش بیٹھا رہے، تو خدا اسے اس کے ہی ساتھ محشور کرے گا۔ آپ نے کہا کہ میں جبر و استبداد اور حکمرانی کے لئے نہيں نکلا ہوں۔ عراقی عوام نے امام حسین علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور آپ نے ان کے اسی بلاوے کو قبول کیا۔
امام حسین علیہ السلام کو علم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان کی خاموشی اور ان کے سکوت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں۔ یعنی اس صورت میں غیر ارادی طور پر اہل حق بھی ظلم و جور کے حامیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گناہ تھا جس کے اس دور میں بڑے بڑے سردار اور بنی ہاشم کے بزرگان مرتکب ہوئے تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے ایسا نہيں کیا اور اسی لئے انہوں نے قیام کیا۔
منقول ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد مدینہ لوٹے تو ایک شخص نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا : اے فرزند رسول ! دیکھا آپ گئے تو کیا ہوا؟ وہ سچ کہہ رہا تھا یہ کاروان جب گیا تھا تو اس کی قیادت اہل بیت کے خورشید درخشاں، فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے۔ بنت علی عزت و سرافرازی کے ساتھ گئی تھیں۔ علی کے بیٹے حضرت عباس، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے، امام حسن علیہ السلام کے بیٹے، بنی ہاشم کے بہادر جوان سب لوگ اس قافلے میں موجود تھے لیکن جب یہ قافلہ واپس آیا تو اس میں صرف ایک مرد تھا، امام زين العابدین علیہ السلام۔ عورتوں کو اسیر کیا گیا۔ بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ امام حسین نہیں رہے، علی اکبر چلے گئے، یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلہ کے ساتھ واپس نہ آیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شخص کو جواب دیا : سوچو اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا۔ جی ہاں اگر وہ لوگ نہ جاتے تو جسم تو زندہ رہتے لیکن روح کا وجود نہ رہتا، ضمیر مرجاتے۔ تاریخ میں عقل و منطق کو شکست ہوتی اور اسلام کا نام بھی باقی نہ رہتا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں ایک تقریر سے اقتباس 2002-3-18
حسینی وقار و افتخار
حسینی وقار و افتخار ہے؟ یہ کیسا افتخار ہے؟ جو امام حسین علیہ السلام کی تحریک سے آشنا ہے اسے علم ہے کہ یہ کیسا وقار ہے۔ تین نظریات کے تحت تین زاویوں سے تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جانے والی حسینی تحریک پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ تینوں پہلوؤں میں جو چیز سب سے زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے وہ عزت و سربلندی کا جذبہ ہے۔ ایک پہلو، طاقتور باطل کے مقابلے میں حق کی جد و جہد ہے جو امام حسین علیہ السلام نے اپنی تحریک کے ذریعے کی۔ ایک دوسرا پہلو امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں معنویت و اخلاقیت کا تجسم ہے۔ اس تحریک کے دامن میں ایک ایسی جد و جہد پنہاں ہے جو حق و باطل کی جنگ کے سماجی و سیاسی و انقلابی و اصلاحی تحریک کے پہلوؤں سے مختلف ہے اور وہ ہے انسانوں کا نفس اور باطن۔ جہاں انسان کے وجود کے اندر چھپے لالچ، کمزوریاں، محرومیاں، خواہشات نفسانی اسے بڑے قدم اٹھانے سے روکتی ہیں وہ جگہ ہے میدان جنگ۔ نہایت دشوار جنگ کا میدان، جہاں مومن مرد عورتیں امام حسین علیہ السلام کے پیچھے چل پڑتے ہیں، دنیا و ما فیہا، دنیوی لذتیں اور رنگینیاں، ان کی فرض شناسی کے سامنے ہیچ ہو جاتی ہے۔ ایسے انسان، جن کے باطن میں مجسم معنویت کی چمک غالب ہو جاتی ہے اور وہ ایک اعلی و نمونہ عمل انسان کی شکل میں تاریخ کے صفحات پر جاویداں ہو جاتے ہیں۔ تیسرا پہلو جو عام لوگوں کے درمیان زيادہ معروف ہے وہ عاشور کی مصیبتيں ، غم و اندوہ اور مصائب و آلام ہیں لیکن اس تیسرے پہلو میں بھی عزت و افتخار پوشیدہ ہے۔ غور و فکر کرنے والوں کو تینوں پہلوؤں کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔
اول الذکر پہلو بھی جس میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایک عظیم انقلاب کی شکل میں ہویدا ہے، عزت و افتخار کا مظہر ہے۔ امام حسین علیہ السلام کے سامنے کون کھڑا تھا۔ وہ ظالم و بدعنوان حکومت تھی جو معاشرے کو ظلم کی چکی میں پیس رہی تھی۔ وہ اپنے زیر تسلط سماج پر ظلم و جور روا رکھتی تھی اور خدا کے بندوں کے ساتھ ظلم و ستم و غرور و تکبر کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔ یہ اس حکومت کی واضح خصوصیت تھی۔ اس کے نزدیک جس چیز کی بالکل اہمیت نہيں تھی وہ معنویت اور انسانوں کے حقوق تھے۔ اسلامی حکومت کو، اسلام سے قبل اور مختلف زمانوں میں موجود ظالم و جابر حکومت میں، بدل دیا گیا تھا۔ ایسی صورت میں کہ جب اسلامی نظام کے تحت قائم ہونے والی حکومت کا نصب العین ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو دین اسلام کو مطلوب ہے تو حکومت کی نوعیت اور حاکم کا رویہ خاص اہمیت رکھتا ہے ۔
اس زمانے کے بزرگوں کے بقول امامت کو سلطنت میں بدل دیا گیا تھا۔ امامت سے مراد ہے دینی و دنیوی امور میں معاشرے کی قافلہ سالاری۔ ایک ایسے قافلے کی رہنمائی جس میں شامل تمام مسافر ایک ہی سمت میں ایک اعلی مقصد کی طرف گامزن ہوں اور امام، لوگوں کی رہنمائی کرے۔ اگر کوئی گم ہو جائے تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راستے پر واپس لائے ۔ اگر کوئی تھک جائے تو اسے آگے چلنے کے لئے ہمت و حوصلہ دے۔ اگر کسی کا پیر زخمی ہو جائے تو اس کے پیر پر پٹی باندھے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے۔ اسے اسلامی اصطلاح میں امام کہا جاتا ہے۔ سلطنت اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موروثی بادشاہت، سلطنت کی ایک شکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بہت سے سلطان ہیں جنہيں سلطان نہيں کہا جاتا لیکن ان کا باطن، دیگر انسانوں پر تسلط و ظلم و جور کے جذبے سے بھرا ہوتا ہے۔ کوئی بھی، چاہے جس دور میں ہو، اس کا جو بھی نام ہو، جب کسی ایک قوم یا کئ اقوام پر ظلم کرتا ہے تو اس کی حکومت کو، سلطنت کہا جاتا ہے۔ تمام زمانوں میں استعماری حکومتیں رہی ہيں اور آج اس کا مظہر امریکا ہے۔ یعنی کسی حکومت کا صدر، بڑی آسانی سے اور بغیر کسی اخلافی علمی و قانونی جواز کے، اپنے اور اپنی حامی کمپنیوں کے مفادات کے تحفظ کو، کروڑوں انسانوں کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اقوام عالم کے لئے احکامات صادر کرتا ہے تو اس کی حکومت کو استعمار کہتے ہیں۔ چاہے اس کے سربراہ کو سلطان کہا جائے یا نہ !
امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں، اسلامی امامت کو ایسا ہی بنا دیا گیا تھا اور امام حسین علیہ السلام نے اسی صورت حال کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی جد و جہد کا مقصد حقائق کو واضح کرنا، ذہنوں کو روشن کرنا، سماج کی ہدایت اور یزید اور اس سے پہلے کے دور میں حق و باطل کے درمیان فرق کو واضح کرنا تھا۔ بس یزید کے زمانے میں جو کچھ ہوا یہ تھا کہ ظلم و جور و گمراہی کے اس رہنما کو یہ توقع تھی کہ ہادی امام اس کی حکومت کی تائید کر دیں گے۔ بیعت کے یہی معنی ہیں۔ وہ چاہتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کو اس بات پر مجبور کرے کہ وہ لوگوں کی ہدایت اور اس کی حکومت کی کجروی و گمراہی کو واضح کرنے کے بجائے اس ظالم حکومت کی تائید کریں! امام حسین علیہ السلام کا قیام یہیں سے شروع ہوا۔ اگر یزیدی حکومت کی جانب سے اس قسم کا احمقانہ و غلط مطالبہ نہ کیا جاتا تو ہو سکتا تھا کہ امام حسین علیہ السلام دور اس انداز سے پرچم ہدایت اٹھاتے جس انداز سے بعد کے ادوار میں ائمہ معصومین نے بلند کئے۔ اسی انداز میں لوگوں کی ہدایت کرتے اور حقائق بیان فرماتے ۔ لیکن یزيد نے جہالت و تکبر اور انسانیت و انسانی خصائص سے دوری کی وجہ سے جسارت کی اور یہ توقع کر بیٹھا کہ امام حسین علیہ السلام ، اسلامی امامت کو سلطنت میں تبدیل کرنے کے اس کے سیاہ کارنامے کی تائید کریں یعنی بیعت کریں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «مثلى لا يبايع مثله»؛ حسین یہ کام نہيں کر سکتے۔ امام حسین علیہ السلام کو ہمیشہ کےلئے حق کے علمبردار کی شکل میں باقی رہنا تھا۔ پرچم حق، باطل کی صفوں میں نہیں رہ سکتا اور نہ ہی باطل کی عار کو قبول کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا «هيهات منّا الذّلّة». امام حسین علیہ السلام کی تحریک ، عزت و وقار کی تحریک تھی ۔ یعنی حق کی آبرو، دین کی آبرو، امامت کی آبرو اور اس راہ کی آبرو بچانے کی تحریک تھی جس کی جانب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راہنمائی کی تھی ۔ امام حسین علیہ السلام اسی آبرو کے مظہر تھے اور چونکہ جد و جہد کی اس لئے قابل فخر و مباہات بھی تھے۔ اسے حسینی عزت و افتخار کہتے ہيں۔ اگر کبھی کوئی شخص اپنی کوئی بات کہے اور اپنا عندیہ بیان کر دے لیکن اپنی بات پر ڈٹا نہ رہے بلکہ پیچھے ہٹ جائے تو اس صورت میں اس پر فخر نہيں کیا جا سکتا ۔ فخر اس شخص ، قوم و جماعت کو کرنا چاہئے جو اپنی بات پر ڈٹی رہے اور جو پرچم اٹھائے اسے طوفانوں کی زد سے بچائے رکھے۔ امام حسین علیہ السلام نے اس پرچم کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور اس کے لئے اپنے پیاروں کی قربانی و اسیری بھی قبول کی ۔ کسی انقلابی تحریک میں یہ فخر کا پہلوہوتا ہے۔ معنویت کے پہلو میں بھی یہی صورت حال ہے۔ میں نے کئ بار بیان کیا ہے کہ بہت سے لوگ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے اور اس قیام پر ان کی ملامت کی وہ لوگ برے یا چھوٹے نہيں تھے کچھ تو بزرگان اسلام میں سے تھے لیکن باشعور نہيں تھے اور انسانی کمزوریاں ان پر غالب آ چکی تھیں اسی لئے وہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کو بھی اسی کمزوری میں مبتلا کر دیں۔ لیکن امام حسین علیہ السلام نے صبر کیا اور جھکے نہيں۔ جو لوگ بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے وہ باطن کی اس معنوی جنگ میں فاتح قرار پائے۔ وہ ماں جس نے اپنے نوجوان بیٹے کو ہنستے ہوئے میدان جنگ میں بھیجا، وہ نوجوان جس نے زندگی کی ظاہری لذتوں سے منہ پھیر لیا اور خدا کی راہ میں قابل ستائش جہاد کیا۔ حبیب ابن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ جیسے بوڑھے ساتھی جو بڑی آسانی سے بڑھاپے کی آرام طلبی و اپنے گھر کے نرم بستروں کو بھول گئے اور عمدا سختیوں سے روبرو ہوئے، وہ بہادر سردار جس کا دشمن کی فوج میں ایک مقام تھا ، حر بن یزید ریاحی ، جنہوں نے اس مقام سے منہ پھیر لیا اور امام حسین علیہ السلام سے جڑ گئے یہ سب کے سب ، اس معنوی جنگ میں فاتح رہے ۔
اس دن جو لوگ اخلاقی اچھائیوں و برائيوں کی جنگ میں فاتح ہوئے اور عقل و جہل کے درمیان صف آرائی میں ، جن کی عقلیں جہل پر چیرہ دست ہوئيں ان کی تعداد مٹھی بھر سے زيادہ نہيں تھی لیکن شرف و عزت کی جنگ میں ان کی پائیداری و جواں مردی کی وجہ سے طول تاریخ میں آج کروڑوں انسانوں نے ان سے درس حاصل کیا اور انہيں کا راستہ اختیار کیا ۔ اگر ان کے وجود کی فضیلتوں کو ضلالتوں کے مقابل فتح نصیب نہ ہوتی تو تاریخ میں فضیلت کا درخت خشک ہو جاتا لیکن انہوں نے اس درخت کی آبیاری کی اور آپ نے اپنے زمانے میں بھی بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے اپنے باطن میں فضیلتوں کو فتح عطا کی اور اور نفسانی خواہشات پرقابو پاکر صحیح دینی نظریات پر عمل کیا ۔ یہی دو کوہہ نامی فوجی چھاونی اور ديگر چھاونیاں اور ملک کے مختلف میدان جنگ و محاذوں نے ایسے ہزاروں لوگوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ آج دوسرے آپ سے سبق لے رہے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں ایسے لوگوں کی کمی نہيں ہے جو اپنے باطن میں، حق و حقیقت کو فاتح دیکھنا چاہتے ہيں۔ آپ کی پائیداری نے ، چاہے مقدس دفاع کے دوران ہو یا ديگر بڑے امتحانات کے موقع پر، ان فضیلتوں کو ہمارے زمانے میں پائیدار کیا ہے ۔ ہمارا زمانہ، مواصلاتی نظام کی ترقی کا زمانہ ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ قریبی رابطہ ہمیشہ شیطان اور شیطانی قوتوں کے مفادات میں نہيں ہوتا معونیت کو بھی اس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ دنیا والوں نے آپ لوگوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ فلسطین میں جو ایک ماں اپنے نوجوان بیٹے کو چومتی ہے اور میدان جنگ میں بھیج دیتی ہے اس کی ایک مثال ہے۔ فلسطین میں سالہا سال سے مرد و عورت ، بوڑھے و جوان لوگ تھے لیکن کمزوریوں اور جہل و غفلت پر غلبہ حاصل کرنے کی عدم توانائی کی وجہ سے فلسطین ذلت و رسوائی سے دوچار ہوا اور اس کی یہ حالت ہو گئ اور اس پر دشمنوں کا غلبہ ہو گیا۔ لیکن آج فلسطین کی صورت حال بدل چکی ہے۔ آج فلسطین اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ آج فلسطینی قوم ، اپنے باطن میں جاری جنگ میں معنویت کو فتح عطا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور اب فتح اسی قوم کی ہوگی ۔
تیسرے پہلوں میں بھی جو عاشورا کے مصائب کا پہلو ہے سر بلندی و فخر کے کارناموں کا بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ مصائب و شہادتیں ہیں۔ حالانکہ، بنی ہاشم کے ہر نوجوان کی شہادت، امام حسین علیہ السلام کے اطراف موجود بچوں اوربوڑھے اصحاب کی شہادت بہت غم ناک اور دردناک ہے لیکن ہر ایک میں عزت و افتخار و کرامت کے گوہر چھپے ہيں۔ یہاں پر آپ لوگوں میں سے اکثر نوجوان ہیں ۔ اس دو کوہہ فوجی چھاونی ميں بھی سیکڑوں نوجوان آئے اور چلے گئے۔ کربلا ميں ایثار کی حقیقی مثال پیش کرنے والے نوجوان کا مظہر کون ہے؟ امام حسین علیہ السلام کے بیٹے حضرت علی اکبر ۔ جو جوانان بنی ہاشم میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ جو ظاہری و باطنی خوبصورتی سے مالا مال تھے۔ جن میں امام حسین علیہ السلام کی امامت و ولایت کی معرفت اور شجاعت و قربانی اور دشمن کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جنہوں نے اپنی جوانی کی امنگیں اور ولولے، اپنے اعلی مقصد پر قربان کر ديئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ غیر معمولی نوجوان میدان جنگ میں جاتا ہے اور اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے اور اپنے لئے پریشان عورتوں کی نظروں کے سامنے لڑتا ہے اور پھر خون میں ڈوبا اس کا جنازہ خیمے میں واپس آتا ہے۔ یہ معمولی غم نہيں ہے لیکن ان کا میدان جنگ میں جانا اور جنگ کی تیاری ، ایک مسلمان کے لئے عزت و فخر و مباہات کا عملی نمونہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداوند عالم فرماتا ہے «و للَّه العزّة و لرسوله و للمؤمنين».امام حسین علیہ السلام نے بھی ایسے نوجوان کو میدان جنگ میں بھیج کر ، معنوی کرامت کا مظاہرہ کیا ۔ یعنی اسلامی وقار و حکومت کا پرچم ، جو اسلامی امامت اور ظالم سلطنت کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے ، اسے مضبوطی سے تھامے رہے اور اپنے عزیز ترین فرزند کی جا کی قربانی پیش کر دی۔
آپ نے سنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے تمام اصحاب میدان جنگ میں جانے اور لڑنے کے لئے آپ سے اجازت مانگتے تھے اور امام فورا ہی اجازت نہيں دے دیتے تھے۔ کسی کو منع کر دیتے اور کسی سے کہتے تھے کہ وہ کربلا سے ہی چلا جائے، بنی ہاشم کے نوجوانوں اور اپنے اصحاب کے میں ان کی یہ روش تھی۔ لیکن علی اکبر جو ان کے بڑے ہی عزیز بیٹے تھے ، جب لڑنے کی اجازت مانگتے ہيں تو آپ اجازت دے دیتے ہيں یہاں پر بیٹے کی معرفت اور باپ کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
جب تک اصحاب تھے کہتے تھے ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں گی اور وہ بنی ہاشم کے کسی جوان یعنی امام حسن و امام حسین علیھم السلام کے بیٹوں کو میدان جنگ میں نہيں جانے دیتے تھے۔ وہ کہتے تھے پہلے ہم جائيں گے اور مارے جائيں گے، ہمارے مرنے کے بعد اگر ضرورت ہوئی تو وہ لوگ میدان جنگ میں جائيں اور جب بنی ہاشم کی شہادت کی باری آئی تو سب سے پہلے جس نے لڑنے کی اجازت طلب کی یہی فرض شناس نوجوان تھا ۔ وہ علی اکبر تھے، مولا کے بیٹے امام کے فرزند اور سب سے زيادہ ان کے محبوب۔ اسی لئے قربان ہونے کے لئے وہی سب سے زيادہ مناسب تھے۔ یہ بھی اسلامی امامت کا ایک مظہر ہے۔ یہ وہ جگہ نہيں تھی جہاں دنیوی لذات، مادی مفادات، مالی اہداف اور نفسانی خواہشات کی چیزیں تقسیم ہو رہی تھیں۔ یہ تو جد و جہد و سختیوں کی منزل ہے۔ جو سب سے پہلے آگے بڑھتا ہے وہ علی ابن حسین ہيں۔ اس سے اس نوجوان کی معرفت کا پتہ چلتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی اپنی روحانی عظمت کا مظاہرہ کرتے ہيں اور اپنے عزيز بیٹے کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت دے دیتے ہيں ۔
یہ سب ہمارے لئے درس ہیں ، تاریخ میں ہمیشہ باقی رہنے والے درس ۔ وہی درس جس کی آج اور کل بھی بشریت کو ضرورت پڑے گی۔ جب انسان پر خود غرضی غالب رہتی ہے تو اس کی طاقت جتنی زيادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے۔ اگر انسان پر نفسانی خواہشات کا غلبہ رہتاہے، اگر انسان سب کچھ صرف اپنے لئے چاہتا ہے تو اس کی طاقت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی خطرناک اور خونخوار ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ دنیا میں دیکھتے ہيں۔ اسلام کا کمال یہی ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو طاقت کی سیڑھیوں سے اوپر تک چڑھنے دیتا ہے تاکہ اس کے کچھ مرحلوں پر ان کا امتحان لیا جا سکے اور شاید وہ کامیاب ہو جائيں لیکن پھر اہم عہدے عطا کرنے سے قبل اسلام جو شرط پیش کرتا ہے وہ ان برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی متقاضی ہوتی ہے۔ ہم عہدہ داروں کو سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے زيادہ، اپنے ہاتھوں، زبانوں، افکار و اعمال پر نظر رکھنی چاہئے۔ تقوی سب سے زيادہ ہمارے لئے ضروری ہے ۔ اگر کوئی بے تقوی شخص لوگوں پر حاکم ہو جاتا ہے،اگر ایٹم بم کا بٹن ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس کے لئے انسانوں اور قوموں کی جانوں کی کوئی وقعت نہيں ہوتی اور نہ ہی نفسانی خواہشات سے دوری اس کے لئے کوئی حيثیت رکھتی ہے تو یہ انسانیت کے لئے خطرناک ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ ایٹم بم اور تباہ کن اسلحے کے مالک ہیں انہیں اپنے نفس اور جذبات پر قابو رکھنا چاہئے لیکن افسوس کہ ایسا نہيں ہے۔ اسلام ان اقدار کو رائج کرنا چاہتا ہے اور دنیوی طاقتوں کی اسلام دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے۔
دوکوہہ فوجی چھاونی میں ایک تقریر سے اقتباس
ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلام پسندی عوام پسندی سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوام پسندی اسلام کی جڑوں میں پیوست ہے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں عوام کو نظر انداز کیا جائے۔ اس انتخاب میں عوام کے حق کی بنیاد و اساس خود اسلام ہے۔ لہذا ہماری جمہوریت جسے ہم دینی جمہوریت کا نام دے سکتے ہیں ایک مستقل فلسفہ اور اساس رکھتی ہے۔ دینی جمہوریت کی بنیاد مغربی جمہوریت کی بنیاد سے مختلف ہے۔ مذہبی جمہوریت، جو ہمارا انتخاب ہے، اللہ تعالی کی جانب سے معین کردہ انسانی فرائض و حقوق پر استوار ہے۔ یہ کوئی آپس میں طے کر لیا جانے والا معاہدہ نہیں ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو دینی فرائض اور ایمان کے تناظر میں پیش کی گئی ہے۔ ان حالات میں آپ چاہتے ہیں کہ اسلام کا سیاسی نظریہ اور اسلامی جمہوری نظام یا دینی جمہوریت سے دنیا کو روشناس کرائیں تو یوں کہئے کہ جمہوری یعنی عوامی حکومت اور اسلامی یعنی دینی اصولوں اور تعلیمات پر استوار حکومت۔ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ جو ہم نے دینی جمہوریت کا نظریہ پیش کیا ہے یہ کوئی بالکل انوکھا نظریہ ہے۔ جی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ یعنی دینی جمہوریت۔ دینی جمہوریت کی حقیقت یہ ہے کہ الہی رہنمائی اور عوامی مینڈیٹ کے مطابق کوئی نظام پروان چڑھے۔ دنیا کے نظاموں کی مشکل یہ ہے کہ وہ یا تو الہی رہنمائی اور تعلیمات سے عاری ہیں جیسے مغرب کی نام نہاد جہموری حکومتیں، جوعلی الظاہر عوام کی منتخب کردہ ہیں لیکن وہ الہی رہنمائی سے بے بہرہ ہیں، یا اگر الہی رہنمائی کی حامل ہیں یا حامل ہونے کی دعویدار ہیں تو عوامی حمایت اور انتخاب سے عاری ہیں۔ بعض ان دونوں ہی چیزوں سے محروم ہیں۔ جیسا کہ بہت سے ملکوں میں نظر آتا ہے۔ یعنی نہ تو عوام ملک کے امور میں دخیل ہیں اور نہ ہی وہاں الہی تعلیمات کی پابندی کی جاتی ہے۔ اسلامی ثقافت میں ان افراد کو بہترین انسان قرار دیا گیا ہے جو عوام کے لئے زیادہ مفید و کارآدم ہوں۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی پرخلوص اور بے لوث خدمت پر استوار ہے۔ یہ ان جمہوری نظاموں کے بالکل بر خلاف ہے جو عوام فریبانہ اور ریاکارانہ ہتھکنڈوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں فریضے کی ادائگی کی حیثیت سے پوری پاکدامنی کے ساتھ خدمت کی جاتی ہے۔ اسلامی نظام میں جمہوریت کا مطلب ہے عوام کی دینی اصولوں سے ہم آہنگ حکومت یعنی اس نظام میں سب کچھ اسلامی معیاروں کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ چند افراد کے درمیان طے پا جانے والا کوئی آپسی معادہ نہیں ہوتا۔ اسلامی جمہوری نظام میں جہاں بھی ضرورت ہو وہاں عوام سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہاں اسلامی عہد و پیمان ضروری ہوتا ہے۔ یہ مغربی ملکوں کے جمہوری نظام کی مانند نہیں ہے جو آپس میں طے کر لئے جانے چند اصولوں پر استوار ہوتا ہے اور جسے جب جی چاہے آسانی سے توڑا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جمہوریت ایک مذہبی فریضہ ہے۔ حکام اس خصوصیت کی حفاظت کے لئے دینی طور پر عہد کرتے ہیں اور خدا کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی عظیم اصول ہے جو ہمارے عظیم قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیان کردہ اصولوں میں سے ہے۔ مغربی جمہوریت کا مطلب ہے معاشرے پر حکومت کرنے والے دولتمندوں اور سرمایہ داروں کے مفادات اور خواہشات کی تکمیل۔ یہ نظام اسی دائرے میں محدود ہے۔ اس میں عوام کے انتخاب کو ثانوی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ قانون نافذ کرنے کا انداز الگ ہوتا ہے۔ اگر عوام سرمایہ داروں کے مفادات کے بر خلاف کچھ چاہیں، اگر وہ حکمرانوں کی مرضی کے خلاف کوئی مطالبہ کریں تو اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسے در خور اعتنا سمجھا جائے گا۔ ایک مضبوط و مستحکم فصیل ان حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے گرد موجود ہے جسے کسی بھی صورت میں توڑا نہیں جاتا۔ ماضی کے سوشیلسٹ ملکوں میں جو خود کو جمہوری ملک کہتے تھے یہ فصیل پارٹی کے ارد گرد ہوتی تھی۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے طور طریقے اور برتاؤ کی اصلاح کریں اور ملک کے حکام اگر اپنے لئے حقیقی معیار و میزان کے خواہاں ہیں تو دینی جمہوریت اکسیر ثابت ہو سکتی ہے۔ دینی جمہوریت کا ایک رخ یہ ہے کہ یہ نظام عوام کے فیصلے اور انتخاب کے تحت تشکیل پایا ہے یعنی خود عوام نے اس نظام کا انتخاب کیا ہے اور بنیادی ذمہ داریوں کے حامل حکمراں بالواسطہ یا بلا واسطہ خود عوام کے منتخب کردہ ہیں۔ دینی جمہوریت کا دوسرا رخ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اب جب مجھے اور آپ کو عوام نے منتخب کیا ہے تو ہم ان کے تئیں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ حقیقی معنی میں محسوس کریں۔ جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ انسان انتخابی مہم کے تحت شور شرابا مچائے اور اس طرح لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کی کوشش کرے۔ جب لوگوں سے ووٹ مل جائيں تو پھر انہیں رخصت کر دے اور اس کے بعد ان کی طرف مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ جی نہیں جمہوریت کا پہلا مرحلہ تشکیل حکومت کی شکل میں جب پورا ہو جائے تو خدمت اور جوابدہی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ جمہوریت کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ آپ ایسے کام کی فکر میں رہیں جو اعتدال پسند افراد کی مرضی کے مطابق وسیع سطح پر عدل و مساوات کی برقراری میں مددگار ثابت ہوں۔ عام لوگوں سے رابطہ اور ان کے مفادات کا پاس و لحاظ جتنی وسیع سطح پر ہوگا وہ اتنا ہی عوام کی خوشنودی کا باعث بنے گا۔ وہ اسلامی نظام جو دین و پرچم توحید کے سائے میں چل رہا ہو بالکل واضح اور صریحی الفاظ میں اور حقیقی شکل و پیرائے میں جمہوریت کی مثال پیش کر سکتا ہے۔ یہ نظام نام نہاد لبرل ڈیموکریسی کے استکباری پروپگنڈوں کے بالکل بر خلاف ہے۔ وہ (مغرب والے) دنیا کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ جمہوریت ان کی جاگیر ہے۔ یہ ان کے لئے نا قابل برداشت ہے کہ ایک دینی و اسلامی نظام اپنے ایمانی اقدار و معیارات کی پابندی کرتے ہوئے جمہوریت کا آئینہ دار بن جائے۔ ہم نے نہ تو مشرقی حکومتوں کو اپنا نمونہ عمل بنایا ہے اور نہ مغربی حکومتوں کو۔ ہم نے اسلام کو اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے پوری واقفیت کی بنا پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔
اٹھائيس جون سن انیس سو اکیاسی کو تہران میں ایران کے اسلامی نظام کی تاریخ کا بڑا اندوہناک واقعہ پیش آیا۔ یہ ایرانی ہجری شمی سال کے چوتھے مہینے تیر کی سات تاریخ تھی۔ اس دن دہشت گرد گروہ ایم کے او نے ایک دہشت گردانہ حملے میں ایران کی عدلیہ کے سربراہ شہید بہشتی سمیت انتہائی اہم افراد کو شہید کر دیا۔ اس دہشت گردانہ واقعے کو ایران میں سانحہ ہفتم تیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال اسی مناسبت سے عدلیہ کے اعلی عہدہ دار اور شہدائے سانحہ ہفتم تیر کے بازمانگان کی قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں قائد انقلاب اسلامی نے سانحہ ہفتم تیر کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ ہم مختلف برسوں کی آپ کی تقاریر کے بعض اقتبسات یہاں پیش کر رہے ہیں۔ سانحہ ہفتم تیر اسلامی نظام کے استحکام کا ثبوتسانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون 1981) او اس کے عزیز شہیدوں بالخصوص شہید بہشتی ( رضوان اللہ تعالی )کی معروف شخصیت کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا: یہ سانحہ ایک لحاظ سے ایرانی قوم او اسلامی جمہوریہ ایران کی مظلومیت کا ثبوت تھا اور دوسرے لحاظ سے نظام کی طاقت اور استحکام کی سند ۔ سانحہ ہفتم تیر مظلومیت کی سند اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی مظلومیت کا مظہر ہے؛ کیونکہ وہ لوگ جو بظاہر دہشت گردی کے ساتھ جنگ کے دعویدار ہیں لیکن اصل میں کشور گشائی، دوسروں پر تسلط اور اپنے مادی اور سیاسی عزائم کے حصول کے درپے ہیں، ان ظالم دہشت گردوں کے ساتھ جو سانحہ ہفتم تیر کے مجرم ہیں، دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں، ان کا ساتھ دیتے ہیں، ان کے ساتھ ملکر سازشیں تیار کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تئيں جذبہ ہمدردی رکھتے ہیں، درحالیکہ ان دہشت گردوں نے خود اقرار کیا ہے بلکہ فخریہ کہا اور کہتےہیں کہ ہفتم تیر کا دہشت گردانہ حملہ انہوں نے انجام دیا ہے۔ یہ ہے ایران کی مظلومیت کی سند اورملک کا مظلومانہ تشخص۔ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کا سانحہ نظام کے اقتدار اور استحکام کی علامتہفتم تیر کا سانحہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اقتدار اور استحکام کی علامت بھی ہے۔ کیونکہ جو لوگ شہید بہشتی کی شخصیت کو جانتے تھے اور اس بڑی شخصیت کی فکری توانائيوں، تخلیقی صلاحیتوں اور قوت ارادی سے آگاہ تھے وہ لوگ خوب سمجھ سکتے تھے کہ ملک کے چلانے والوں میں ایسی مقبول اور اہم شخصیت کے فقدان کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ در حقیقت شہید بہشتی کی شخصیت اس مرکزی کردار کی طرح تھی جو تمام امور سے جڑی ہوئي تھی اور جس سے دوسروں کو حوصلہ ملتا تھا، آپ مسائل کی گتھیوں کے سلجھانے میں ماہر تھے۔ جب ایسی شخصیت کو جو انتظامی امور، عملی اقدامات، منصوبہ بندی، دینی امور اور فلسفیانہ نظریات، تجربات، روشن فکری اور وسعت نظر کے سلسلے میں بلند مقام اور مرتبے کی حامل تھی ایک نوخیز حکومت کے ڈھانچے سے الگ کر دیا جائے اور اسے ختم کر دیا جاۓ تو اس حکومت کا لڑکھڑا کر گر جانا فطری اور یقینی سمجھا جاتا ہے، لیکن حکومت، شہید بہشتی اور ان کے ساتھ یا ان سے پہلے اور ان کے بعد دوسری بڑی شخصیتوں کی شہادت سے نہ صرف یہ کہ متزلزل نہیں ہوئی اور ختم نہیں ہوئی بلکہ ان میں سے ہر شخصیت کی شہادت حکومت کے پودے کیلۓ تازہ پانی اور نظام کے نوخیز وجود کیلۓ لہو کی بوند ثابت ہوئی اور حکومت کو پہلے سے زیادہ شاداب اور تر و تازہ بنا گئی اور یہی استحکام اور توانائی آج تک حکومت میں موجود ہے۔ اسی وجہ سے ہمارے عوام شہداء کی شہادت کے وقت دیگر افراد کی مانند ایک دوسرے کو تعزیت و تسلی نہیں دیتے بلکہ مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ جب بہشتی شہید ہوۓ لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ یعنی غم کے ساتھ ساتھ سرخروئي کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز ہے جو ہماری حکومت اور انقلاب کی پہچان ہے۔آج بھی ہفتم تیر کے واقعے کی یادہ تازہ ہے، شہید بہشتی بھی زندہ ہیں۔ شہید بہشتی یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کے نۓ معمار اور بانی۔سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 27-6-2004.قوم کا ایمان، صبر اور بیداری، انقلاب کا قیمتی ذخیرہ سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا۔ ایک اہم چیز جس نے اس واقعے میں لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی یہ تھی کہ پیکر انقلاب پر دشمن کی ضرب جتنی کاری ہوتی جاۓ گی لوگوں میں ایمان صبر اور استقامت کاجذبہ بھی اتنی ہی بڑھتا جاۓ گا۔ دشمن نے حکومت کے ستر بڑے عہدہ دار جن میں شہید بہشتی جیسی شخصیات بھی شامل تھیں ایک ساتھ اسلامی حکومت سے چھین لۓ اور وہ بھی بڑے المناک اور بھیانک طریقے سے، لیکن آپ اس قوم کا رد عمل دیکھیں! لوگوں نے اور شہداء کے قابل قدر اہل خانہ نے اپنی استقامت و پائيداری، صبر و تحمل اورایمان و ایقامن سے دشمن کو ایسا جواب جو دشمن کی عقل و فہم سے بالاتر تھا۔ قوم نے انقلاب کی سینہ سپر ہوکر حفاظت کی اور دشمن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اس طرح ایران کا نام روشن ہوا۔ ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا۔ جب تک لوگوں کا صبر و ایمان اور جذبہ استقامت انقلاب اور حکومت کے لئے سائباں بنا رہے گا، دشمن کو انقلاب پر وار کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوششو سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انقلاب روز بروز پروان جڑھتا جاۓ گا۔ ہمارے بزرگوار شہید آیت اللہ بہشتی اسلامی حکومت میں ایک مثالی اور نمایاں شخصیت تھے جو اس ( دہشت گردی کے ) واقعے میں ہم سے چھن گۓ؛ لیکن ان کی یاد زندہ رہی، ان کے اور ان کے دوستوں کے خون سے انقلاب کی آبیاری ہوئی اور یہ پودھا مزید مستحکم ہوا۔ یہ ایک بڑا سبق ہے.سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون1981) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-27 شہدائے سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون 1981 ) اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس اور اسلامی اقدار کی حاکمیت کی راہ کے شہید ہیںیہ بھی ایک اہم اتفاق ہے کہ عدلیہ کا ہفتہ، شہادت کا ہفتہ ہے اور عدلیہ کا نام ایک بڑے اور ناقابل فراموش شہید سے جڑا ہوا ہے۔ عدلیہ کے کام کی حساسیت اور ان عہدہ داروں کی عظمت کو جنہوں نے یہ عظیم ذمہ داری کندھوں پر اٹھائی ہے یہیں سے سمجھا جاسکتا ہے، جو لوگوں ہمارے ملک کے واقعات اور تبدیلیوں سے آگاہ ہیں، وہ جانتے ہیں کہ وہ چیز جس کے ساتھ اسلام اور اسلامی حکومت کے دشمنوں نے اسلامی حکومت کی تشکیل کی ابتدا ہی سے مخالفت کی بلاشبہ عدلیہ اور اسلامی عدالتی نظام تھا۔ ہمارے ملک کی عدلیہ کی سربراہی ایک فاضل، روشنفکر، آگاہ، مدبر اور اسلامی احکام پر دل و جان سےایمان رکھنے والے شخص کے ہاتھ میں تھی اور اسی وجہ سے اس زمانے میں عدلیہ اور شہید بہشتی کی بہت زیادہ مخالفت سامنے آئی۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی فرمایا کہ شہید بہشتی مظلوم تھے۔ ہمیں بھی یاد ہے کہ وہ کتنے مظلوم تھے، لیکن یہ مظلومیت کن لوگوں کی طرف سے ان پر مسلط کی گئ تھی؟ وہ افراد جو شہید بہشتی کی مظلومیت کے ذمہ دار ہیں ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلامی جمہوریہ ایران کے معاشرے میں اسلامی عدلیہ وجود برداشت کرنے کیلۓ تیار نہیں تھے۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ایران کی عدلیہ مغرب کے اسی فرسودہ، ناکارہ اور ناقص نظام کے نقش قدم پر چلتی رہے۔ ان تمام عیوب اور برائیوں کے ساتھ جو انقلاب سے پہلے عدلیہ میں داخل ہوگئی تھیں جن کی مثال دنیا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ ان کیلۓ یہ بات قابل قبول نہیں تھی کہ ایک توانا، بہادر اور باعزم معمار کے ہاتھوں اسلامی عدلیہ کی بنیادیں رکھی جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ الزام تراشی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے اسلامی عدلیہ کے عہدیداروں کو میدان سے نکال باہر کریں۔ جن لوگوں کو اس زمانے کے حالات یاد ہیں وہ یہ سب کچھ جانتے ہیں۔سانحہ ہفتم تیر کے شہداء اسلامی جمہوری حکومت کی اساس اور اقدار کے شہداء ہیں اس سانحے کے عزیز شہیدوں پر حملہ کرنے والے دہشت گرد اور قاتل کسی شخص یا گروہ اور پارٹی کے مخالف نہیں تھے۔ وہ ایران کی خود مختاری و آزادی اور اسلامی جمہوری نظام کے مخالف تھے۔ نام زیادہ اہم نہیں ہیں ۔ حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے . شہید بہشتی اور سانحہ ہفتم تیر میں شہادت پانے والی ان جیسی شخصیتوں کی مخالفت در حقیقت اسلامی اقدار، قوانین اور اسلامی اقتدار اعلی کی مخالفت تھی۔ شہید بہشتی اور اس المناک واقعے میں شہادت پانے والے دوسرے شہدا، ہماری تاریخ میں بڑے بلند مقام کے حامل ہیں۔ . سانحہ ہفتم تیر (اٹھائيس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2000-6-28لوگوں کے ایمان اور میدان عمل میں مستقل موجودگی، اندوہناک واقعات کے وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم رہنے کا رازسانحہ ہفتم تیر ( اٹھائيس جون) کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں کہ شاید اس سانحے کے متعدد جہات میں یہ جہت سب سے دلچسپ ہو کہ اس طرح کے ہولناک حملے اسلامی جمہوریہ ایران کے مستحکم قلعے میں جو لوگوں کے ایمان اور ان کے اعتماد پر استوار تھا، دراڑیں نہیں ڈال سکے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ایسا واقعہ اگر دنیاکے کسی بھی کونے میں رونما ہوجاۓ تو ایک حکومت کا تختہ الٹنے کیلۓ کافی ہوتا ہے۔ اتنی زیادہ با اثر، اہم انقلابی شخصیات اور عظیم مفکر چشم زدن میں ختم ہو جائے اور حکومت میں تزلزل پیدا نہ ہو بلکہ نظام اس سانحے کے نتیجے میں اور زیادہ مستحکم بن جائے! یہ حیران کن بات تھی۔ یہ سب کچھ لوگوں کے ایمان اور ایقان، شعور و بیداری اور اسلامی حکومت کے اندرونی استحکام کی برکت اور خدا کے فضل و کرم یک نتیجہ تھا جو ہمیشہ ہمارے سروں پر سایہ فگن رہے گا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ مرضی پروردگار کو بنیاد قرار دے آپ ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو ایک سخت امتحان میں ڈالا۔ ایسا امتحان جس میں سب سے زیادہ رسول خدا کی اپنی آبرو و عزت خطرے میں تھی۔ میرا مطلب وہ حادثہ ہے جو سورہ احزاب میں بیان کیا گیا ہے . واذ تقول للذی انعم اللہ علیہ و انعمت علیہ امسک علیک زوجک و اتق اللہ و تخفی فی نفسک مااللہ مبدیہ اس واقعے میں ممکن تھا کہ رای عامہ اور لوگوں کے جذبات رسول خدا کے خلاف بھڑک جائیں کیونکہ مسئلہ الزام کا تھا۔ وتخشی الناس واللہ احق ان تخشاہ خداوند عالم اپنے حبیب سے فرماتا ہے: تمہیں لوگوں کی باتوں کا ڈر ہے حالانکہ تمہیں خدا کا خوف ہونا چاہیے۔ رسول خدا نے اس واقعے میں خداوند منان کی پروا کی اور اس بڑی اور دشوار آزمایش میں سرخرو ہوۓ اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی الذین یبلغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الااللہ خدا وند تعالی کی راہ میں تبلیغ کا لازمہ یہی ہے بعض لوگوں کو غلط فہمی اور غفلت مں ڈال کر خاص اہداف کے لئے انسان کے مد مقابل کھڑا کر دیا جاتا ہے ایسی صورت حال میں انسان کو چاہئے کہ صرف اور صرف اللہ تعای، اس کی مرضی اور اس کے حساب کتاب کو مد نظر رکھے، لہذا اسی سورے کے آخر میں ارشاد ہوتا : وکفی باللہ حسیبا ، خداوندعالم محاسبہ کرنے والا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ ہم نے اس راستے میں صحیح قدم اٹھایا ہے یا نہیں ۔ اس کی راہ میں قدم رکھنے کے تعلق سے ایک خاص بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اس انسان کے سلسلے میں لوگوں کے خیال کی اصلاح فرماتا ہے اور لوگوں سے متعلق اس کے امور کو بحسن و خوبی نمٹا دیتا ہے۔ ( من اصلح مابینہ و بین اللہ اصلح اللہ ما بینہ و بین الناس ) یہ ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے قبول کی ہے؛ جیسا کہ رسول اکرم کے واقعے میں آپ نے مشاہدہ کیا کہ خدا نے خود یہ ذمہ داری نبھائی اور حقیقت کو روشن کردیا۔ ہمارے گرانقدر شہید بہشتی کی بھی سب سے بڑی آزمائش یہ تھی کہ اس تھوڑے سے عرصے میں خداوند متعال نے اس بزرگوار سید کو خدمت کا عظیم موقع دیا۔ دشمن نے ان کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا کہ انقلاب اسلامی کی کسی اور شخصیت کے خلاف شائد ہی اتنا پروپیگنڈہ ہوا ہو۔اور شائد ہی کسی کی شان میں اتنی گستاخیاں ہوئی ہوں. دشمنوں نے کہا کہ وہ مغرور ہیں، جاہ طلب ہیں، استبدادی مزاج کے ہیں، اقتدار کے خواہاں ہیں اور ان کے مزاج میں مطلق العنانیت شامل ہے، لیکن شہید بہشتی پوری تندہی سے خدمت میں مصروف رہے اور اپنا کام جاری رکھا اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ انہوں نے در حقیقت اس راستے میں پائیداری کے ذریعے اپنی شخصیت اپنی روح اور اپنی شناخت کو عرش اعلی تک پہنچایا . ان واقعات میں ہمارے لئے درس عبرت ہے .سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-28 . شہدائے ہفتم تیر کا ملک و قوم پر احسان ہےہم سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ملک ، انقلاب اور ہماری تاریخ پر ان کوششوں اور اس خون کا بڑا احسان ہے اور یہ کہ ہماری قوم اور ملک بالخصوص اس عظیم تحریک (اسلامی انقلاب) سے وابستہ فعال شخصیات کو کتنے خونخوار اور بے رحم دشمنوں کا سامنا تھا اور آج بھی ہے۔ وہی دشمن جنہوں نے شہید بہشتی کو ہم سے چھینا، آج بھی موجود ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے ہمارے دشمنوں کی پشت پناہی کی آج بھی ان کی مدد کر رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بعض کج فکریوں اور سادہ لوحی کی بنا پر ہم یہ سمجھنے لگیں کہ ہمارے دشمن اور ان کی دشمنیاں اب باقی نہیں ہیں۔ یہ بڑی خطرناک بھول ہوگی۔ جس انسان کو دشمن کا سامنا ہو اس کیلۓ سب سے خطرناک بات دشمن کو فراموش کرنا اور اس سے غافل ہوجانا ہے۔ شہادت ، شہید بہشتی اور ان کے دوستوں کے لئے خداوند عالم کا انعامبہرحال ان کو اپنا انعام ملا.یقینا مرحوم شہید بہشتی جیسی بڑی شخصیت کو جو اتنی بلند ہمت، غیور اور جفا کش تھی بستر کی موت زیب نہیں دیتی۔ بہشتی کو شہید ہونا ہی تھا۔ شہادت ایک بڑی جزا ہے جو ان کواور ان کے ساتھیوں کو ملی۔ ہمیں امید ہے کہ وہ اس وقت الہی نعمتوں سے بہرہ مند ہوں گے۔ ان کے درجات میں روز بروز اضافہ ہو اور ہم بھی اسی راہ پر چلتےہوئے اور اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے انہی سے ملحق ہو جائیں۔سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون) کے شہداء کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1998-6-28دشمنوں کا ادھورا خوابیہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارےدشمن اس حساس دور میں چاہتے تھے کہ اس مذموم سازش کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ انقلاب سے شہید بہشتی جیسی عظیم شخصیت کا چھننا کوئی مذاق نہیں ہے۔ کسی انقلاب کی آغوش سے یکبارگی کلیدی اور برجستہ شخصیتوں، ا راکین پارلیمنٹ،عدلیہ کے عہدہ داروں اور مخلص، پاک اور فعال و انقلابی افراد کا چھن جانا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی بھی حکومت کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آتا تو اسے ناقابل تلافی دھچکا لگتا اور شاید اس حکومت کا تختہ ہی الٹ جاتا لیکن ایران میں ایسا نہیں ہوا۔اس عظیم قوم کی عدیم المثال روحانی قیادت، انقلابی جذبے،اسلامی موقف اور انقلاب سے پہلے اور بعد کے عرصے میں لوگوں میں موجود شعور نے انقلاب اور حکومت کو اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ یہ کاری ضرب بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ البتہ یہ ایک بہت بڑا نقصان ضرور تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ کسی بھی ملک اور قوم میں شہید بہشتی اور ان پاک و مخلص اور انقلابی افراد جیسی شخصیات کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ اس لحاظ سے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا لیکن حکومت سنبھل گئی۔ آج اس سانحے کو دس سال کا عرصہ گذر رہا ہے اور آپ نے دیکھا کہ اس عرصے میں وہ تباہ کن جنگ ختم ہوگئی اور ہماری قوم کو فتح نصیب ہوئی۔ اس عرصے میں دنیا اور خطے میں بڑے بڑے طوفان آئے لیکن ہماری قوم کسی پہاڑ کی مانند پائیدار رہی۔خداوند عالم بغیر کسی حساب کتاب کے کسی قوم کی پشت پناہی نہیں کرتا اور ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ اب چونکہ اللہ تعالی ہماری مدد کر رہا ہے اور ہمیں تائيد الہی حاصل ہو گئی ہے تو ہماری اپنی کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور ہم بے فکری کے ساتھ اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں۔ نہیں، دست قدرت پروردگار آپ لوگوں کے ایثار، شہداء کے خون، عوام کے ایمان اور اس صبر کی برکت سے ہمارے سر پر تھا جس کا ہماری قوم نے مختلف مواقع پر مظاہرہ کیا۔ اسلام سے ہماری قوم کی سچی محبت اور اس رہبر کبیر کی طرف سے دکھاۓ گۓ روشن راستے اور لوگوں کی بیداری کے عوض رب ذوالجلال نے ہماری مدد فرمائی۔ اگر ہم نےان چیزوں کا خیال رکھا تو اللہ تعالی آئندہ بھی ہماری مدد کرے گا۔استکبار ہمیشہ ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہےمیں جس بنیادی نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ استکبار جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن ہے ہمیشہ اور ہر دور میں کسی نہ کسی طریقے سے ہمارے لۓ مصیبت کھڑی کرنا چاہتا ہے اور ہمیشہ ایسے افراد کو ڈھونڈ لیتا ہے جو ایسی مصیبتوں اور المیوں میں اس کے آلہ کار بنیں۔ کسی زمانے میں منافقین کو اپنا ایجنٹ بنایا جو شہید رجائی، شہید باہنر اور دوسری شخصیات کی شہادت کا باعث بنے۔ کبھی عراقی حکومت کو اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے ذریعے ہم پر آٹھ سالہ جنگ ( 1980 تا 1988 ) مسلط کر دی۔ دونوں ہی مواقع پر استکباری طاقتوں بالخصوص امریکہ نے جو اسلام اور اسلامی انقلاب کا دشمن اور مخالف ہے بعض عناصر کو اپنا آلہ کار بنایا۔دنیا میں پست فطرت اور ضمیر فروش افراد کی تعداد کم نہیں ہے۔ دشمن تو ہر وقت دشمنی پر کمربستہ رہتا ہے اور وار کرنے کیلۓ آلہ کار بھی ہر دور میں مہیا رہتے ہیں۔ یعنی ( دشمن ) ضرب لگانے کیلۓ ہمیشہ ضروری وسائل حاصل کر لیتا ہے تو ایسی صورت حال میں ہماری ذمہ داری انقلاب کے اصول و اقدار کی پاسداری کرنا اور پوری طرح ہوشیار رہنا ہے۔ یہ ہے ہماری ذمہ داری۔ تو کبھی یہ مت سوچیں کہ دشمن کسی زمانے میں ایسے وار کرتا تھا اور آج وہ زمانہ گذر گیا ہے۔ نہیں، پچاس سال بعد بھی غافل پاکر دشمن اپنا وار کرنے سے نہیں چوکےگا۔ہمیں چاہئے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیںاگر دشمن چاہتا ہے کہ کسی قوم کی تحریک اور مہم کا سد باب کرے تو اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ قوم کو میدان عمل سے ہٹا دے۔ دشمن اس طرح نقصان پہنچاتا ہے اور آئندہ پچاس سال میں بھی دشمن وار کرنے سے باز نہیں آۓ گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہوشیار رہیں اور فریب نہ کھائیں۔ ہمیں دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں اسلامی نظام پر ایمان رکھنا چاہیے کیونکہ جب دشمن وار کرنا چاہے گا تو سب سے پہلے ہمارے ایمان کو متزلزل کرے گا تا کہ کاری ضرب لگا سکے۔سانحہ ہفتم تیر ( اٹھائیس جون ) کے شہداء کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1991-6-19 سانحہ ہفتم تیر (اٹھائیس جون 1981 ) تاریخ انقلاب میں ناقابل فراموش واقعہہفتم تیر کا سانحہ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے اور آج بھی عالمی اور سیاسی سطح پر اس سانحے کو چھیڑا اور اس پر احتجاج کیا جاسکتا ہے۔ اس سانحے میں دو حلقے رسوا ہو گۓ ۔ پہلا حلقہ ان لوگوں پر مشتمل تھا جو عوام اور انقلاب کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مقاصد کو ریا کاری، جھوٹ اور فریب کے پردوں میں چھپایا ہوا تھا۔ سانحہ ہفتم تیر نے اس پردے کو چاک اور ان کے چہروں کو آشکارا کردیا ۔ان لوگوں نے اس سانحے کے بعد بہت پروپیگنڈے کۓ لیکن ایرانی قوم نے اس سانحے اور اس طرح کے بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی برکت سے منافقین اور فریب پیشہ گروہوں کی حقیقت کو پہچان لیا۔ عوام کو معلوم ہوگیا کہ یہ گروہ ہر قسم کی انسانی اقدار کے مخالف ہیں اور بڑے پیمانے پر انسان کشی سے ہچکچاتے نہیں۔ یہ اپنے مذموم مقاصد کیلۓ اسلامی انقلاب سے ( وہ انقلاب جسے اپنی عمر کے حساس موڑ پر ایک بھرپور جنگ کا سامنا تھا) لڑے اور اتنا بڑا مجرمانہ اقدام کرکےپوری ملت ایران کوغم و اندوہ کے دریا میں دھکیل دیا۔ دوسرے حلقے میں وہ عالمی طاقتیں تھیں جو انسانی حقوق کی حمایت اور دہشت گردی کی مخالفت کی داعویدار تھیں۔ البتہ اب بھی عالمی سیاست کے سرغنہ نہایت بے شرمی کے ساتھ یہی دعویٰ کر رہے ہیں اور آج بھی امریکی حکومت اور بیشتر یورپی ممالک کے حکام یہ دعوے کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے مخالف ہیں! لیکن پروپیگنڈہ اور بلند وبانگ دعوے کرنا الگ بات ہے اور وہ حقائق جو عالمی سطح پر دنیا کے آگاہ اور باشعور لوگوں کے سامنے آرہے ہیں وہ مختلف چیز ہے۔ امریکہ اور بعض یورپی ممالک دہشت گردی کے سرپرستیہ بات بالکل واضح ہو چکی ہے کہ جب امریکہ اور بعض یورپی حکومتیں ان دہشت گرد گروہوں کی جن کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوۓ ہیں ، حمایت کرتی ہیں اور ان کو اپنے ممالک میں ٹھکانے فراہم کرتی ہیں اور سیاسی پناہ دیتی ہیں تو یہ حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دعوے میں سچی کیسی ہو سکتی ہیں۔ یہ دہشت گردی کو پھیلانے والی حکومتیں ہیں جو اپنے گھناؤنے اہداف کے لۓ دہشت گردوں کو اپنے دامن میں پالتی ہیں.وہ لوگ جوسانحہ ہفتم تیر اور انقلاب کے دوسرے واقعات میں شہید ہوۓ اور ان کا خون بہہ گیا معاشرے کے نمایاں اور پاکیزہ صفت افراد میں شمار ہوتے تھے۔ ان میں علماء، دانشور، اپنے زمانے کی عظیم انقلابی شخصیات، عام لوگ، سرفروش انسان اور ایسے لوگ شامل تھے جنہوں نے اپنے ملک و قوم اور انقلاب کیلۓ بے پناہ قربانیاں دی تھیں۔ ان کو مارنا کس معیار اور اصول کے تحت جائز ہے؟ کون ان کے قاتلوں کو دہشت گرد اور مجرم نہیں سمجھے گا اور ان کی مذمت نہیں کرے گا؟ یہ بالکل سامنے کی بات ہے۔انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے، محض جھوٹ اور فریب ہےہم انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوؤں پر جو بعض حکومتوں اور عالمی طاقتوں سے وابستہ تنظیموں اور اداروں کی طرف سے کئے جاتے ہیں بالکل یقین نہیں کرتے۔ ہم ان کو جھوٹ اور فریب سمجھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گرد، امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتوں اور عالمی سطح پر زور زبردستی کرنے والی حکومتوں کی آغوش میں پلتے ہیں۔اگر کوئی قوم، کسی بھی عالمی طاقت کی پیروکار بننے پر تیار نہیں ہے، اپنے حقوق اور سرحدوں کا دفاع کرتی ہے، خود مختار رہنا چاہتی ہے اور تقدیر سازی کے اس کے اس جذبے کو پوری دنیا جانتی اور تسلیم کرتی ہے تو کیا جواز بنتا ہے کہ ایک تخریب کار گروہ اس ملک کے انقلابی اور گرانقدر انسانوں کو اتنے بہیمانہ طریقے سے قتل اور شہید کرے اور پھر مغربی حکومتیں بے شرمی و بے حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے اس گروہ کو ایک تنظیم کا نام دے دیں۔ اس کو اپنے ملک میں بسائیں اور حتی ان کے ( ریڈیو) پروگراموں کو نشر کریں؟!شہدائے سانحہ ہفتم تیر(اٹھائیس جون) کے اہل خانہ، اعلی عدالتی کونسل کے ارکان ، جج صاحبان اور مختلف محکموں کے عہدہ داروں اور صوبہ لرستان کے عوام سے خطاب 1989-6-28ان حوادث سے انقلاب کمزور نہیں ہوسکتااگر چہ آج سانحہ ہفتم تیر کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مختلف جہات سے اس واقعے کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ اس مدت میں اس واقعے کی کچھ اور بھی جہتیں سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلے اس سانحے کی شخصیات بالخصوص ان میں سے بعض کی بات کرتے ہیں جو بلا شک وشبہ ایسی بڑی شخصیتیں تھیں کہ انقلاب کیلۓ جدوجہد اور تحریک کے دوران اور اس گھٹن کے زمانے اور اسلامی انقلاب کے بعد کی اس قلیل مدت میں کم نظیر تھیں۔ خاص طور پر ان میں شہید آیت اللہ بہشتی ( رضوان اللہ تعالی علیہ) تھے جو حقا و انصافا ایک عظیم اور نمایاں شخصیت اور ناقابل فراموش انسان تھے۔ عملی لحاظ سے بھی اور اخلاق و کردار اور فکر و نظر کے لحاظ سے بھی ان کی شخصیت سیاسی اور تنظیمی امور، کارہائے مملکت میں نمایاں اور بے مثال تھی۔ حق تو یہ ہے کہ ان کی شہادت ہمارے لۓ ایک بڑا نقصان تھا۔ البتہ یہ شہادت خود ان کیلۓ درجات اور مقام ومنزلت کی بلندی شمار ہوتی ہے جو کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ان کے علاوہ علماء تھے یا قدیمی انقلابی جو اس واقعے میں شہید ہوۓ یا وہ تعلیم یافتہ جوان اور روشن فکر افراد جو اس زمانے کے انقلابی ماحول اور جمہوری اسلامی پارٹی کے درخشاں ستارے تھے۔ ان سب کو مد نظر رکھتے ہوۓ بلا شبہ یہ ہمارے انقلاب کا ایک نایاب اور قیمتی مجموعہ تھا۔ لیکن وہ چیز جو ان سب سے اہم ہے وہ یہ ناقابل فراموش نکتہ ہے کہ اسلامی جمہوری حکومت کے یہ بڑے ستون گر گۓ لیکن یہ عمارت متزلزل نہیں ہوئی۔ یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی کبھی کسی پارٹی ، کسی ملک یا کسی حکومت سے ایک رہنما جدا ہو جاتا ہے یا ہٹا دیا جاتا ہے تو اسی ایک شخص کا فقدان پورے سسٹم کو متزلزل کردیتا ہے لیکن آپ نے مشاہدہ فرمایا کہ بہتر اہم ترین افراد کا یکبارگی فقدان بھی ہمارے نظام کی کمزوری اور تزلزل کا موجب نہیں بنا بلکہ اس واقعے سے اس کی بنیادوں کو اور بھی مضبوطی ملی۔ یہ وہ اہم اور ناقابل فراموش نکتہ ہے جو واقعا اس الہی حکومت کا خاصہ ہے۔البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ ہمارے عظیم امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کا پر برکت اور پر فیض وجود جو ایک مضبوط پہاڑ کی طرح قائم تھا اس استقامت اور پائیداری کا سرچشمہ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن حکومت اور امام ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا استحکام بذات خود ایک معجزہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شہداء سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب 1994-6-29شہید بہشتی، ایران کی عدلیہ کے معمار اور شہدائے انقلاب کے سردارسانحہ ہفتم تیراور مرحوم ایت اللہ بہشتی( رضوان اللہ تعالی علیہ) کے بارے میں ایک جملہ عرض کرنا چاہوں گا۔اس عزیز اور عظیم شہید کا شمار بلا شک ملک کی بڑی شخصیتوں میں ہوتا تھا۔ ان کے وجود میں علم و تقوا، تدبیر اور انسانی اخلاق اپنی بہترین شکل میں جلوگر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی عدلیہ کی بنیاد اسی شخصیت نے رکھی، وہ شخصیت جو اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے بھرپور واقفیت رکھتی تھی اور بذات خود ایک فقیہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھی۔ شہید بہشتی عصر حاضر کے مسائل اور ملک کی ضرویات سے بھی پوری طرح با خبر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ملک کو کیسی عدلیہ کی ضرورت ہے۔ شہید بہشتی منجیمنٹ اور انتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی ایک بے مثال شخصیت کے حامل تھے۔اگر چہ باب شہادت میں خسارے اور نقصان کا تصور نہیں ہے اور کسی بھی شہید کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کی شہادت دنیای اسلام کیلۓ ایک خسارہ ہے کیونکہ شہادت کی برکت اتنی عظیم ہوتی ہے کہ ہر بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ کر دیتی ہے لیکن حق یہ ہے کہ اس عظیم شہید (بہشتی) اور سانحہ ہفتم تیر کے دیگر شہیدوں اور عدلیہ کے شہداء کا فقدان ایک بہت بڑا فقدان تھا۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال ان سب انسانوں کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرےگا اور ان عزیز شہیدوں کی برکت سے ملک کے سب اداروں بالخصوص عدلیہ پر اپنی رحمت و برکت نازل فرماۓ گا اور ہم سب کو ان کی برکتوں سے فیضیاب کرےگا۔شہدای سانحہ ہفتم تیر کے اہل خانہ اور عدلیہ کے عہدہ داروں کے ساتھ ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانات سے اقتباس1997-6-28
قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ، اآپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی اور اس دین الہی کو بازیجہ اطفال بنا دینے کے لئے کوشاں یزیدیت کی فیصلہ کن شسکت ہوگئی۔ اس واقعے میں بے شمار درس اور عبرتیں پنہاں ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر عاشورا اور قربانی امام حسین علیہ السلام سے ملنے والے درس اور عبرتوں کی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ آپ کے خطابات کے متعلقہ اقتباسات ناظرین کے پیش خدمت ہیں؛ چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ دشمنوں کے تشہیراتی طوفان کے سامنے حقیقت اور شہادت کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے ۔ آپ دیکھیں انقلاب کے آغاز سے آج تک ، انقلاب ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ ، اسلام اور اس قوم کے خلاف پروپگنڈے کتنے وسیع رہے ہيں ۔ جنگ کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے نہيں کئے گئے ۔ وہ بھی اس جنگ کے خلاف جو اسلام ، وطن اور عزت نفس کا دفاع تھی ۔ دیکھیں دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف کیا کیا جنہوں نے اپنی سب سے قیمتی شئے یعنی اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ۔ آپ دیکھیں کہ دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ، ریڈیو ، ٹی وی اخبارات رسالوں اور کتابوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کے دل و دماغ میں کیسے کیسے خیالات بھر دئے ۔ یہاں تک تک کہ کچھ سادہ لوح اور نادان لوگ ہمارے ملک میں بھی ، جنگ کے ان ہنگامہ خیز حالات میں کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتے تھے جو در اصل نادانی اور حقیقت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی تھی ۔ یہی سب باتیں امام خمینی کو آشفتہ خاطر کر دیتی تھیں اور آپ اپنی ملکوتی پکار کے ذریعے حقائق بیان کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔ اگر ان پروپگنڈوں کے مقابلے میں حقائق کو بیان نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے اور اگر ایرانی قوم ، مقررین ، رائٹروں اور فنکاروں کی آگاہی اس ملک کے حقائق کے لئے وقف نہ ہوگی تو دشمن پروپـگنڈوں کے میدان میں کامیاب ہو جائے گا ۔ پروپگنڈوں کا میدان بہت بڑا اور خطرناک ہے ۔ البتہ ، ہماری عوام کی بھاری اکثریت انقلاب کی برکتوں سے حاصل ہونے والی آگاہی کی وجہ سے ، دشمنوں کے پروپگنڈوں سے محفوظ ہے ۔ دشمن نے اتنے جھوٹ بولے اور عوام کے سامنے آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کے بارے میں ایسی غلط بیانی سے کام لیا کہ عوام میں عالمی تشہیراتی مشنری کی باتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔ ظالم و جابر یزیدی تشہیراتی مشنری اپنے پروپگنڈوں میں امام حسین علیہ السلام کو قصور وار ٹھہراتی تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ حسین بن علی وہ تھے جنہوں نے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے خلاف ، حصول دنیا کے لئے قیام کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اس پروپگنڈے پر یقین بھی آ گیا تھا! اس کے بعد بھی جب امام حسین علیہ السلام کو صحرائے کربلا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو اسے فتح و کامیابی کا نام دیا گیا !! لیکن امامت کی صحیح تشہیرات نے ، اس قسم کے تمام پروپگنڈوں کا قلع قمع کر دیا۔89-9-20 آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہيں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہيں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہيں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے _92-7-1محرم و صفر کے ایام میں ہماری قوم کو اپنے اندر جد و جہد ، عاشور ، دشمن سے نہ ڈرنے ، خدا پر توکل اور خدا کی راہ میں جہاد و قربانی کے جذبے کو استحکام بخشنا چاہئے اور اس کے لئے امام حسین علیہ السلام سے مدد مانگنی چاہئے ۔ مجالس عزا اس لئے ہے تاکہ ہمارے دل حسین ابن علی علیہ السلام اور ان کے اہداف سے قریب ہوں ۔ کچھ کج فہم یہ نہ کہيں کہ امام حسین علیہ السلام ہار گئے کچھ کج فہم یہ نہ کہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی راہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام ایرانی قوم کو قتل ہو جانا چاہئے ۔ کون نادان اس قسم کی باتیں کر سکتا ہے ؟ قوموں کو امام حسین علیہ السلام سے درس حاصل کرنا چاہئے یعنی دشمن سے نہيں ڈرنا چاہئے ، خود پر بھروسہ رکھنا چاہئے ، اپنے خدا پر توکل کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دشمن طاقتور ہے تو اس کی یہ طاقت زیادہ دنوں تک باقی نہيں رہنے والی ہے ۔ اسے یہ جاننا چاہئے کہ اگرچہ دشمن کا محاذ بظاہر وسیع اور مضبوط ہے لیکن اس کی حقیقی طاقت کم ہے کیا آپ دیکھ نہيں رہے ہیں کہ تقریبا چودہ برسوں سے دشمن اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں لیکن کامیاب نہيں ہو پائے ہیں ! یہ ان کی کمزوری اور ہماری طاقت کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ہم طاقتور ہیں ہم اسلام کی برکت سے طاقتور ہیں ۔ ہم اپنے عظیم خدا پر توکل اور بھروسہ کرتے ہيں یعنی ہمارے ساتھ الہی طاقت ہے اور دنیا اس طاقت کے سامنے ٹک نہيں سکتی۔ 92-7-1 یہ اہم نکتہ یہ درس ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا - انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ کون سا کام اہم اور کون سا کام دوسرے درجے کی اہمیت کا حامل ہے اور کس کام کو کتنی اہمیت دینی چاہئے اور کس کام کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے تحریک کے زمانے میں ہی بہت سے ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ اب قیام کا وقت ہے اور اگر وہ سمجھ جاتے کہ اس قیام کے اپنے مسائل ہیں تو وہ دوسرے درجے کے اپنے فرائض سے چپکے رہتے جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ تحریک میں شامل نہ ہونے والوں میں مومن و پابند شرع افراد بھی تھے ۔ ایسا نہيں تھا کہ سب کے سب اہل دنیا تھے ۔ اس دور میں عالم اسلام کے برگزیدہ افراد اور اہم شخصیات میں مومن اور ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن فریض کی شناخت نہيں کر پاتے تھے ، زمانے کے حالات کی سمجھ نہيں رکھتے تھے ، اصل دشمن کو نہيں پہچانتے تھے اور اہم اور پہلے درجے کی اہمیت کے حامل کاموں کے بجاۓ دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کو اختیار کرتے تھے یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے ۔ آج بھی ہم اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہيں اور زیادہ اہم چیز کے بدلے کم اہم کام کر سکتے ہیں ۔ اصل کام کو جس پر سماج ٹکا ہوا ہو ، تلاش کرنا چاہئے ۔ کبھی اسی ہمارے ملک میں سامراج و کفر و ظلم و جور کے خلاف جد و جہد کی باتیں ہوتی تھیں لیکن کچھ لوگ اسے فرض نہيں سمجھتے تھے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کوئی درس دیتا تھا یا کتاب لکھتا تھا یا چھوٹا موٹا مدرسہ چلاتا تھا اگر کچھ لوگوں کے بیچ تبلیغ کا کام انجام دیتا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر جد و جہد میں مصروف ہو جائے گا تو یہ کام بند ہو جائيں گے ! اتنی عظیم جد و جہد کو چھوڑ دیتا تھا کہ ان کاموں کو پورا کر سکے ! یعنی ضروری اور اہم کام کی شناخت میں غلطی کرتا تھا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے خطبوں سے یہ سمجھا دیا کہ عالم اسلام کے لئے ان حالات میں ظالم و جابر طافت کے خلاف جد و جہد اور شیطانی طاقتوں سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے لڑائی سب سے زیادہ ضروری کام ہے ۔ ظاہر ہے حسین ابن علی علیہ السلام اگر مدینے میں ہی رہ جاتے اور عوام کے درمیان احکام اسلام اور علوم اہل بیت پھیلاتے تو کچھ لوگوں کی تربیت ہو جاتی لیکن جب اپنے مشن پر وہ عراق کی سمت بڑھے تو یہ سارے کام رہ گئے وہ لوگوں کو نماز کی تعلیم نہيں دے سکتے تھے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث لوگوں کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی تھیں ، درس گاہ اہل بیت بند ہو جاتی اور مدینہ کے یتیموں اور بے نواؤں کی امداد بھی ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ سب ایسے کام تھے جنہيں آپ انجام دیتے تھے لیکن آپ نے ان تمام کاموں کو ایک زيادہ اہم کام پر قربان کر دیا ۔ یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کو بھی جس کے بارے میں تمام مبلغین بات کرتے ہيں اس فریضے پر قربان کر دیا وہ فریضہ کیا تھا ؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا اس نظام کے خلاف جد و جہد جو بد عنوانی کی کی جڑ تھا ۔ آپ نے فرمایا : «اُریدُ اَن اَمُرَ بالْمَعْروف وَاَنْهى عَنِ الْمُنْكَر وَ اَسیرَ بِسیرة جَدّى.» میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے جد کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں اسی طرح آپ نے ایک دوسرے خطبے میں فرمایا کہ «اَیهاالنّاس! اِنَّ رَسولاللَّه، صلّىاللَّهعلیهوآله، قال مَنْ رأى سُلطاناً جائراً مُسْتَحِلّاً لِحُرَمِ اللَّه، ناكِثاً لِعَهْداللَّه [تا آخر] فَلَمْ یُغَیِّر عَلَیْهِ بِفِعْلٍ و َلا قَولٍ كانَ حَقاً عَلَىاللَّه اَنْ یَدخل یُدْخِلَهُ مُدْخِلَه.» یعنی ظالم و جابر سلطان کے مقابلے میں تبدیلی ، یعنی وہ طاقت بدعنوانی پھیلاتی ہے اور جو نظام انسانوں کو تباہی اور مادی و معنوی فنا کی سمت لے جاتی ہے ۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک کی وجہ ہے البتہ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی مصداق سمجھا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کی طرف رجحان میں ان نکتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے آپ زیادہ اہم فریضے کے لئے آگے بڑھتے ہيں اور دوسرے فرائض کو بھلے ہی وہ بھی اہم ہوں ، اس زیادہ اہم فریضے پر قربان کر دیا۔ آج یہ واضح ہونا چاہئے کہ اہم کام کیا ہے ؟ ہر زمانے میں اسلامی سماج کے لئے ایک تحریک معین ہے ، ایک دشمن ، دشمن کا ایک محاذ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرے پیدا کرتا ہے اسے پہچاننا چاہئے اگر ہم دشمن کی شناخت میں غلطی کریں گے ، جس سمت سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچ رہا ہے اور ان پر حملہ ہو رہا ہے اگر اس کی شناخت میں ہم غلطی کر رہے ہيں تو اس سے نا قابل تلافی نقصان ہوں گے اور بڑے بڑے مواقع ہاتھ سے نکل جائيں گے _92-7-1ایک معروف جملہ جو جو امام حسین علیہ السلام سے منسوب ہے - البتہ مجھے نہيں معلوم یہ نسبت صحیح ہے یہ نہیں - نہایت حکیمانہ جملہ ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے انما الحیاۃ عقیدۃ و جہاد یعنی کسی ہدف سے لو لگانا اور کسی مقصد کو متعین کرنا پھر اس کے لئے جد و جہد کرنا ۔ اسلام انسانوں کو مقصد عطا کرنے اور انہیں اعلی و خوبصورت انسانی مقاصد کی طرف بڑھانے کے لئے آیا ہے ایسے راستے پر اگر انسان ایک قدم بھی آگے بڑھتا ہے ، خلوص کے ساتھ کوشش کرتا ہے اور قربانی پیش کرتا ہے تو اگر اسے پریشانیوں ، دکھوں اور بظاہر ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑے تو بھی وہ دلی طور پر اور اللہ کے نزدیک خوش ہوتا ہے کیونکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنے فرض کے مطابق اعلی مقاصد کی سمت حرکت اور اس کے لئے کوشش کی ہے خود یہ کوشش بھی اہم ہے حالانکہ یہ کوشش ہمیشہ انسان کو اس کے ہدف سے نزدیک کرتی ہے یہ وہی چیز ہے جس نے ایرانی قوم کی جد و جہد کو شکل عطا کی اور آج بھی یہ جد و جہد بدستور جاری ہے ۔ اس انقلاب اور اس جد و جہد نے جس ہدف کا تعین کیا تھا وہ ایسا ہدف تھا جس کا فائدہ پوری انسانیت کو حاصل ہوتا ہے وہ ہدف عالمی سطح اور چھوٹے علاقے میں ایک ملک کی سطح پر ظلم و جور و امتیاز کے خلاف جد و جہد تھا اور اس کا مقصد یہ بھی تھا کہ انسانیت کے سامنے اعلی اہداف پیش کئے جائيں_ فضائیہ کے جوانوں سے ملاقات میں93-2-8امام حسین علیہ السلام کا واقعہ ایک سبق ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت بھی ہے اس کا درس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے کیسا کارنامہ انجام دیا اور ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے ۔ امام حسین علیہ السلام نے تمام عالم انسانیت کو بہت عظیم درس دیا ہے جس کی عظمت سب پر عیاں اور واضح ہے _ سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں سے ملاقات میں95-1-5 بڑی عجیب بات ہے کہ ہماری پوری زندگی امام حسین علیہ السلام کی یاد سے لبریز ہے خدا کا شکر ہے ۔ اس عظیم ہستی کی تحریک کے بارے میں بھی بہت باتیں کہی جا چکی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی انسان اس بارے میں جتنا بھی سوچتا ہے اسے غور و فکر و تحقیق و مطالعہ کا میدان اتنا ہی وسیع نظر آتا ہے ۔ اس عظیم و تعجب خیز واقعے کے بارے میں اب بھی بہت سی باتیں ہیں کہ جن پر ہمیں غور کرنا چاہئے اور اس پر بات کرنی چاہئے ۔ اگر باریک بینی سے اس واقعے پر نظر ڈالیں تو شاید یہ کہا جا سکے کہ انسان امام حسین علیہ السلام کی چند مہینوں پر محیط تحریک سے ، جس کی شروعات مدینے سے مکہ کی سمت سفر سے ہوئی اور اختتام کربلا میں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا ، سو سے زیادہ اہم درس حاصل کر سکتا ہے میں ہزاروں درس کہہ سکتا ہوں اس تحریک سے ہزاروں درس حاصل کئے جا سکتے ہيں ۔ ممکن ہے ان کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی ایک درس ہو لیکن یہ جو میں کہتا ہوں کہ سو درس سے زیادہ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ان کے کاموں کو باریک بینی سے دیکھیں تو اس سے سو باب اور سو عنوان نکل سکتے ہيں جن میں سے ہر عنوان اور ہر باب ایک قوم ، ایک تاریخ اور ایک ملک کے لئے ، نظام چلانے اور خدا کی قربت کے حصول کا درس ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حسین ابن علی ارواحنا فداہ و اسمہ و ذکرہ دینا میں مقدس ہستیوں کے درمیان سورج کی طرح چمک رہے ہيں ۔ انبیاء ، اولیا ، ائمہ شہدا اور صالحین پر نظر ڈالیں ! اگر وہ لوگ چاند و ستاروں کی مانند ہیں تو امام حسین ان کے بیچ سورج کی طرح چمک رہے ہيں البتہ ان سو درسوں کے ساتھ ہی جن کی سمت میں نے اشارہ کیا ہے امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں ایک اہم و اصلی سبق بھی ہے جس کے بارے میں میں آج گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا اس کے علاوہ سب کچھ حاشیہ کی باتیں ہیں یہ اصل متن ہے اور وہ یہ ہے کہ امام حسین نے قیام کیوں کیا ؟ یہ ایک سبق ہے ۔ امام حسین علیہ السلام سے کہا گیا :مدینہ اور مکے میں آّپ کی بہت عزت کی جاتی ہے اور یمن میں شیعوں کی بڑی تعداد ہے کسی ایسی جگہ چلے جائيں جہاں آپ یزيد سے کوئی مطلب نہ رکھیں اور یزید بھی آپ سے کوئی مطلب نہ رکھے ! اتنے مرید ہیں آپ کے اتنے شیعہ ہیں ، جائيں زندگی گزاریں ، عبادت کریں تبلیغ کریں ! آپ نے قیام کیوں کیا ؟ معاملہ کیا ہے ؟ یہ وہی اصلی سوال ہے ۔ یہ وہی اصلی سبق ہے ۔ میں یہ نہيں کہتا کہ کسی نے اب تک یہ بات نہيں کہی ، کیوں نہيں انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس سلسلے میں بہت محنت و کوشش کی گئ ہے بہت سی باتیں کہی گئ ہیں تاہم آج جو بات ہم کہہ رہے ہيں وہ خود ہماری نظر میں اس معاملے میں ایک نئ سوچ اور نظریہ ہے ۔ کچھ لوگ یہ کہنا پسند کرتے ہیں کہ امام یزید کی فاسد و بد عنوان حکومت کو گرا کر خود ایک حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے ۔یہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کا ہدف تھا۔ یہ بات ، آدھی صحیح ہے۔ میں یہ نہيں کہہ رہا ہوں کہ یہ بات غلط ہے اگر اس بات کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے حکومت کی تشکیل کے لئے قیام کیا وہ بھی اس طرح سے اگر یہ سمجھ میں آ جائے کہ نہيں یہ کام نہيں ہوگا اور انسان واپس ہو جائے تو یہ غلط ہے ۔ جی جو حکومت کی تشکیل کی غرض سے آگے بڑھتا ہے وہ وہیں تک جاتا ہے جہاں تک وہ یہ سمجھتا ہے کہ کام ہو جانے والا ہے ۔ جیسے ہی اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے امکان نہيں ہے تو اس کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ واپس لوٹ جائے اگر ہدف حکومت کی تشکیل ہو تو وہاں تک انسان کے لئے آگے بڑھنا جائز ہے اور جہاں سے آگے بڑھنا ممکن نہ ہو وہیں وہيں سے واپس لوٹ جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ امام کے قیام کا مقصد حق پر مبنی علوی حکومت کا قیام تھا اگر ان کی مراد یہ ہے تو یہ صحیح نہيں ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی پوری تحریک میں یہ چیز دکھائي نہيں دیتی ۔ دوسری طرف کہا جاتا ہے نہيں جناب ، حکومت کیا ہے ، امام کو علم تھا کہ وہ حکومت کی تشکیل میں کامیاب نہيں ہوں گے بلکہ وہ تو قتل اور شہید ہونے کے لئے آئے تھے ! یہ بات بھی کافی مدت تک بہت سے لوگوں کی زبان پر جاری تھی ! کچھ لوگ شاعرانہ انداز میں بھی اسے بیان کرتے تھے بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے کچھ بڑے علماء نے بھی یہ بات کہی ہے ۔یہ بات کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔انہوں نے سوچا کہ اب رک کر کچھ نہيں کیا جا سکتا تو چلو شہید ہوکر ہی کچھ کر دیا جائے ! یہ بات بھی ہماری اسلامی کتب و مدارک میں نہيں ہے کہ جاؤ خود کو موت کے منہ میں ڈال دو ۔ ہماری یہاں ایسا کچھ نہيں ہے ۔ مقدس شریعت میں ہم جس قسم کی شہادت سے آشنا ہیں اور جس کی نشاندہی قرآن مجید اور روایتوں میں کی گئ ہے اس کا معنی یہ ہے کہ انسان کسی واجب یا اہم مقصد کے لئے نکلے اور اس راہ میں موت کے لئے بھی تیار رہے ۔ یہ وہی صحیح اسلامی شہادت ہے لیکن یہ صورت کہ آدمی نکل پڑے تاکہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں میں اس کا خون رنگ لائے اور اس کے چھیٹے قاتل کے دامن پر پڑیں تو یہ ایسی باتیں نہيں ہیں جن کا تعلق اس عظیم واقعے سے ہو ۔ اس میں بھی کچھ حقائق ہيں لیکن امام حسین علیہ السلام کا یہ مقصد نہيں ہے ۔ مختصر یہ کہ نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے تشکیل حکومت کے لئے قیام کیا تھا اور ان کا مقصد حکومت کی تشکیل تھا اور نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کہ امام نے شہید ہونے کے لئے قیام کیا تھا بلکہ بات کچھ اور ہے جسے میں پہلے خطبے میں انشاء اللہ بیان کروں گا اور آج میرے پہلے خطبے کا اصل موضوع یہی ہے ۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ مقصد حکومت تھا یا مقصد شہادت تھا تو ان لوگوں نے مقصد اور نتیجہ کو خلط ملط کر دیا ہے ۔ جی نہیں ، مقصد یہ سب نہیں تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کا دوسرا مقصد تھا لیکن اس دوسرے مقصد تک رسائی کے لئے ایک ایسے کام کی ضرورت تھی جس کا شہادت یا حکومت میں سے کوئی ایک نتیجہ سامنے آتا ۔ البتہ آپ دونوں کے لئے تیار تھے ۔ انہوں نے حکومت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے اور اسی طرح شہادت کے مقدمات بھی فراہم کئے اور کر رہے تھے ۔ اس کے لئے تیار ہو رہے تھے اور اس کے لئے بھی ۔ جو بھی ہوتا صحیح ہوتا اور کوئی مسئلہ نہ ہوتا لیکن ان میں سے کوئی بھی ، مقصد نہيں تھا بلکہ دو نتائج تھے ۔ مقصد کچھ اور تھا ۔مقصد کیا تھا ؟پہلے تو میں اس مقصد کو مختصر طور پر ایک جملے میں بیان کرتا ہوں پھر تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ اہم ہم امام حسین علیہ السلام علیہ السلام کے مقصد کو بیان کرنا چاہیں تو ہمیں اس طرح سے کہنا چاہئے کہ آپ کا مقصد تھا دینی واجبات میں سے ایک عظیم واجب پر عمل تھا اور وہ ایسا واجب عمل تھا جسے امام حسین علیہ السلام سے قبل کسی نے بھی _ یہاں تک کہ خود پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی _ انجام نہيں دیا تھا ۔ نہ پیغمبر اسلام نے اس واجب کو انجام دیا تھا ، نہ امیر المومنین نے اور نہ ہی امام حسن مجتبی نے ۔ یہ ایک ایسا واجب تھا جس کا اسلام کے اقدار ، افکار اور علم کے ڈھانچے میں نہایت اہم کردار ہے ۔ حالانکہ یہ واجب ، نہایت اہم اور بنیادی ہے لیکن پھر بھی امام حسین علیہ السلام کے زمانے تک اس واجب پر عمل نہيں ہوا تھا - میں عرض کروں گا کہ کیوں عمل نہیں ہوا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کو اس واجب پر عمل کرنا تھا تاکہ پوری تاریخ کے لئے ایک سبق ہو جائے ۔ مثال کے طور پر پیغمبر اعظم نے حکومت کی تشکیل کی اور تشکیل حکومت پوری تاریخ اسلام کے لئے درس بن گئ صرف اس کا حکم ہی صادر نہيں کیا یا پیغمبر نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور یہ تاریخ اسلام اور بشریت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک درس بن گيا ۔ اس واجب پر بھی امام حسین علیہ السلام کے ذریعے عمل ہونا تھا تاکہ مسلمانوں اور پوری تاریخ کے لئے عملی سبق ہو جائے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیوں امام حسین علیہ السلام یہ کام کریں ؟ کیونکہ اس واجب پر عمل کے حالات ، امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہی فراہم ہوئے تھے اگر یہ حالات امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں پیش نہيں آتے مثال کے طور پر امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں یہ حالات پیش آتے ۔ اگر امام حسن مجتبی یا امام صادق علیھما السلام کے زمانے میں بھی پیش آتے تو یہ لوگ اس واجب پر عمل کرتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے سے قبل یہ حالات پیش نہیں آئے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد بھی تمام ديگر ائمہ کے دور میں غیبت تک یہ حالات پیش نہيں آئے ! تو ہدف کا مطلب ہوا اس واجب پر عمل در آمد اب میں اس بات کی وضاحت کروں کا کہ یہ واجب کیا ہے ۔ اس وقت فطری طور پر اس واجب پر عمل در آمد کا ان دو میں سے کوئي ایک نتیجہ ہوتا : یا اس کا یہ نتیجہ ہوتا کہ وہ اقتدار و حکومت تک پہنچ جاتے ۔ خوش آمدید امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔ اگر آپ کو اقتدار حاصل بھی ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطی سے تھام لیتے اور سماج کی ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین کی طرح رہنمائی کرتے لیکن یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اس واجب پر عمل در آمد سے حکومت حاصل نہيں ہوتی ، شہادت ملتی ، اس کے لئے بھی امام حسین علیہ السلام تیار تھے ۔خداوند عالم نے امام حسین علیہ السلام اور ديگر ائمہ کو کچھ اس طرح سے خلق کیا تھا کہ اس راہ میں شہادت جیسے سنگین بوجھ کو بھی اٹھانے پر قادر ہوں اور انہوں نے ایسا کرکے دکھایا بھی ۔ البتہ کربلا کے مصائب کا ذکر ایک مختلف قسم کا واقعہ ہے جس کی میں یہاں تھوڑی سی وضاحت کروں گا ۔ بھائیو اور بہنو! اور نمازیو! پیغمبر اکرم اور کوئي دوسرا پیغمبربھی جب آتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ احکام ہوتے ہیں ۔ یہ جو احکام پیغمبر لاتا ہے ان میں سے کچھ انفرادی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح کر سکے اور کچھ احکام اجتماعی ہوتے ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کی دنیا کو آباد کرے اور اسے چلائے اور انسانی سماجوں کو پائدار رکھے ۔ یہ وہ احکام ہیں جنہيں اسلامی نظام کہا جاتا ہے ۔ جی تو اسلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مقدس پر نازل ہوا ۔ وہ نماز لآئے ، روزہ ، زکات ، انفاق ، حج ، گھرانے کے قوانین ، ذاتی تعلقات کے اصول ، اللہ کی راہ میں جہاد ، حکومت کی تشکیل ، اسلامی معیشت ، عوام اور حکام کے تعلقات اور حکومت کے سلسلے میں عوام کے فرائض جیسے احکامات لے آئے ، اسلام نے یہ سب چیزیں بشریت کے سامنے پیش کیں اور یہ سب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا ۔ «ما من شىء یقربكم من الجنّة و یباعدكم من النّار الّا و قد نهیتكم عند و امرتكم به»؛ پیغبمر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تمام چیزوں کو بیان کیا جو ایک ایک اور ایک انسانی سماج کو سعادت و کامیابی سے ہمکنار کر سکتی تھیں ، صرف بیان ہی نہيں کیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا ۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں اسلامی حکومت اور اسلامی سماج کو تشکیل عمل میں آئي ، اسلامی معیشت کے اصولوں پر عمل ہوا ، جہاد کیا گيا اور اسلامی زکات لی گئ ۔ ایک اسلام ملک اور ایک اسلام نظام بنا ۔ اس نظام کا ناظم اور اس قافلے کا رہنما نبی اکرم اور وہ ہے جو ان کی جگہ پر بیٹھتا ہے ۔ راستہ بھی واضح ہے ۔ اسلامی سماج کو اور اسلامی فرد کو اس راستے پر اسی سمت میں حرکت کرنا چاہئے کہ اگر ایسا ہو جائے تو اس وقت انسان کمال کی منزل تک پہنچ جائے گا ، انسان صالح اور فرشتہ صفت ہو جائيں گے ، لوگوں کے درمیان سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا ، برائی ، فساد ، اختلافات ، فقر و جہالت کا نام و نشان مٹ جائے گا ۔ انسان حقیقی خوشحالی میں زندگی گزارے گا اور خدا کا کامل بندہ بن جائے گا ۔ اسلام یہ نظام نبی اکرم کے ذریعے لایا اور اس دور کے انسانی سماج میں اس پر عمل در آمد کیا ۔ کہاں ؟ ایک ایسے گوشے میں جسے مدینہ کہا جاتا تھا اور پھر مکے اور کچھ دیگر شہروں میں یہ نظام پھیل گيا ۔یہاں پر ایک سوال باقی رہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : اگر یہ گاڑی جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پٹری پر لگایا ہے ، عمدا یا حادثاتی طور پر پٹری سے اتر گئ تو کیا ہوگا ؟ اگر اسلامی سماج منحرف ہو گیا ، اگر یہ انحراف اتنا بڑھ گیا کہ پورے اسلام و اسلامی تعلیمات میں انحراف کا خوف پیدا ہو جائے تو کیا کیا جائے ؟ انحراف کی دو قسمیں ہیں : کبھی عوام منحرف ہوتے ہيں _ یہ بہت زیادہ ہوتا ہے _ لیکن اسلامی احکام کا خاتمہ نہيں ہوتا ، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام جب منحرف ہو جاتے ہیں تو حکومتیں بھی بد عنوان ہو جاتی ہیں اور علماء اور دینی مقررین بھی گمراہ ہو جاتے ہیں ! گمراہ آدمی سے ، صحیح دین حاصل نہيں کیا جا سکتا ۔ قرآن و حقائق میں تحریف کر دی جاتی ہے ، اچھائی کو برائی ، برائی کو اچھائی ، اچھوں کو برا اور بروں کو اچھا بنا دیا جاتا ہے ! اسلام نے مثال کے طور پر اگر کوئي لکیر اس طرف کھینچی ہے تو اسے ایک سو اسی درجے بدل کر اس طرف کھینچ دیا جاتا ہے ، اگر اسلامی نظام اور سماج اس قسم کے مسئلے میں پھنس جائے تو کیا کیا جائے ؟ البتہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ کیا کیا جائے ، قرآن مجید نے بھی فرمایا ہے : «من یرتد منكم عن دینه فسوف یأتى اللَّه بقوم یحبّهم و یحبّونه» _ آخر تک_ اور اسی طرح بہت سی آیتیں اور روایتیں بھی ہيں یا یہی روایت جو امام حسین سے نقل ہے اور میں آپ کو سنا رہا ہوں ۔ امام حسین علیہ السلام نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس روایت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا ، لیکن کیا آنحضرت اس الہی حکم پر عمل کر سکتے تھے ؟ نہيں ، کیونکہ یہ الہی حکم اس وقت قابل عمل ہے جب سماج منحرف ہو چکا ہو ۔ اگر سماج منحرف ہو گیا ، تو کچھ کرنا چاہئے یہاں پر خدا کا حکم ہے ۔ جن سماجوں میں انحراف اس حد تک بڑھ جائے کہ اصل اسلام کے منحرف ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائےتو اس موقع کے لئے خدا نے کچھ فرائض عائد کئے ہيں ۔ خدا نے انسان کو کسی بھی معاملے میں یونہی نہيں چھوڑ تا ۔ پیغمبر اسلام نے اس فریضے کو بیان کیا ہے ۔ قرآن و حدیث میں بھی موجود ہے لیکن پیغمبر اسلام اس فریضے پر عمل نہيں کر سکتے تھے ۔ کیوں نہيں کر سکتے تھے ؟ کیوں کہ اس فریضے پر اس وقت عمل کیا جاتا ہے جب سماج منحرف ہو جائے ۔ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے دور میں اس طرح سے منحرف نہيں ہواتھا ۔ امام حسن علیہ السلام کے دور میں بھی کہ جب معاویہ کے ہاتھ میں حکومت تھی ، حالانکہ اس انحراف کی بہت سی علامتیں ظاہر ہو رہی تھی لیکن ابھی یہ انحراف اس حد تک نہيں پہنچا تھا کہ پورے اسلام کے لئے خطرہ لاحق ہو جاتا شاید کہا جا سکے کہ تھوڑے عرصے کے لئے یہ صورت حال بھی پیدا ہوگئ تھی لیکن اس وقت اس کام کو انجام دینے کا موقع نہيں تھا _ مناسب موقع نہيں تھا _ اس حکم کی اہمیت ، جو احکام الہی کا حصہ ہے ، خود حکومت سے کم نہیں ہے ۔ کیونکہ حکومت یعنی سماج کو چلانا ۔ اگر سماج دھیرے دھیرے پٹری سے اتر جائے ، منحرف ہو جائے بدعنوان ہو جائے اور خدا کے احکامات تبدیل کر دئے جائيں ، تو اگر حالات بدلنے اور تجدید حیات _ یا آج کے لفظوں میں انقلاب ، اگر انقلاب کا حکم _ نہ ہو تو یہ حکومت کس کام ہوگی ؟ تو سماج کو پٹری پر لانے سے متعلق جو حکم ہے اس کی اہمیت ، حکومت کی تشکیل کے حکم سے کم نہيں ہے ۔ شاید کہا جا سکتا ہو کہ اس کی اہمیت کفار سے جہاد سے کہیں زیادہ ہے ۔ شاید کہا جا سکے کہ اس کی اہمیت سماج میں عام سطح پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے زيادہ ہے بلکہ یہاں تک بھی شاید کہا جا سکے کہ اس حکم کی اہمیت بڑی عبادتوں اور حج سے بھی زیادہ ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے کیونکہ در حقیقت یہ حکم ، موت کے دہانے پر پہنچنے یا مرنے کے بعد اسلام کی حیات نو کو یقینی بناتا ہے ۔ تو اب سوال یہ ہے کہ اس حکم پر عمل در آمد کون کرے گا ؟ اس واجب کی بجاآوری کس کی ذمہ داری ہے ؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے اس جانشین پر جس کے زمانے میں یہ انحراف سامنے آیا ہو ۔ لیکن اس کے لئے یہ شرط ہے کہ حالات سازگار ہوں کیونکہ خداوند عالم نے ایسا کوئی کام واجب نہيں کیا ہے جس کا کوئي فائدہ نہ ہو ، اگر حالات سازگار نہ ہوں تو آپ جو کام بھی کریں اس کا کوئی فائدہ اور اثر نہيں ہوگا ۔ حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے ۔ البتہ حالات کے سازگار ہونے کے بھی دوسرے معانی ہيں ، نہ یہ کہ ہم کہيں چونکہ خطرات ہیں اس لئے حالات سازگار نہيں ہیں یہاں پر یہ مراد نہيں ہے ۔ حالات سازگار ہوں یعنی انسان کو علم ہو کہ یہ جو کام کر رہا ہے اس کے نتائج بھی بر آمد ہوں گے یعنی عوام تک اس کا پیغام پہنچے گا ، لوگوں کی سمجھ میں بات آ جائے گی اور وہ غلط فہمی میں نہيں رہيں گے ۔ یہ ، وہی فرض ہے جسے کسی ایک کو بجا لانا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ، اس طرح کا انحراف بھی تھا اور حالات بھی سازگار تھے تو امام حسین کے لئے قیام ضروری ہو گیا تھا کیونکہ انحراف پیدا ہو چکا تھا ۔ کیونکہ معاویہ کے بعد اقتدار جس نے سنبھالا وہ ایسا شخص تھا جس ظاہری اسلام کا بھی خیال نہيں رکھتا تھا ! شراب پیتا تھا اور غلط کام انجام دیتا تھا ۔ علی الاعلان جنسی بد عنوانی کرتا تھا ، قرآن کے خلاف بات کرتا تھا قرآن اور دین کی رد میں اشعار پڑھتا تھا اور کھل کر اسلام کی مخالفت کرتا تھا لیکن چونکہ اس کا نام مسلمانوں کے سردار کے طور پر لیا جاتا تھا اس لئے اسلام کے نام کو ہٹانا نہيں چاہتا تھا ۔ وہ اسلام پر عمل کرنے والا تھا نہ اس کے دل میں اسلام سے ہمدردی تھی بلکہ وہ اپنے اعمال سے ، اس گڑھے کی طرح ، جس سے ہمیشہ گندہ پانی نکلے اور اطراف کے پانی کو آلودہ کرے ، اسلامی سماج کو گندہ کر رہا تھا اس کے وجود سے پورا اسلامی سماج گندگی سے پر ہو جاتا ! بد عنوان حاکم ایسا ہوتا ہے ۔ کیونکہ حاکم ، چوٹی پر ہوتا ہے اور اس سے جو کچھ نکلتا ہے ، وہیں پر نہيں ٹھہرتا _ عام لوگوں کے بر خلاف _ بلکہ نیچے گرتا ہے اور ہر جگہ چھا جاتا ہے ! عام لوگ ، اپنی جگہ پر ہوتے ہیں البتہ جس کا بالاتر مقام ہوتا ہے ، جس کی سماج میں زیادہ حیثیت ہوتی ہے اس کی بد عنوانی کا نقصان اتنا ہی زيادہ ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کی بدعنوانی ، ممکن ہے خود ان کے لئے یا ان کے اطراف کے کچھ لوگوں پر موثر ہو لیکن جو آگے ہوتا ہے اگر وہ بدعنوان ہو جائے ، تو اس کی بدعنوانی پھیلتی اور پورے ماحول کو خراب کر دیتی ہے اسی طرح سے اگر وہ نیک ہوتا ہے تو اس کی نیکی پھیلتی ہے اور ہر جگہ اس کے اثرات دیکھے جاتے ہیں ۔ ایسا شخص اتنی بدعنوانیوں کے ساتھ ، معاویہ کے بعد پیغمبر اعظم کا خلیفہ بن بیٹھا ہے ! اس بڑا انحراف کیا ہو سکتا ہے ؟! ماحول بھی سازگار ہے ، ماحول سازگار اس کا کیا مطلب ؟ یعنی خطرہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں خطرہ ہے ۔ کیا یا ہو سکتا ہے کہ سماج کے سب سے بڑے عہدے پر جو شخص ہو ، وہ اپنے سامنے کھڑے ہونے والے کے لئے خطرہ نہ ہو ؟ یہ تو جنگ ہے ۔ آپ اسے تخت سلطنت سے نیچے کھینچنا چاہتے ہيں تو کیا وہ بیٹھا تماشا دیکھتا رہے گا ؟ ظاہر ہے کہ وہ بھی آپ کو نقصان پہنچائے گا تو پھر خطرہ تو ہے ۔اور یہ جو ہم کہتے ہيں کہ حالات سازگار ہيں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی سماج کا ماحول ایسا ہے کہ جس میں امام حسین علیہ السلام کا پیغام اس دور کے انسانوں کے کانوں تک پہنچ اور تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو سکتا ہے ۔ اگر معاویہ کے زمانے میں امام حسین علیہ السلام قیام کرنا چاہتے تو ان کا پیغام دفن ہو جاتا ۔ یہ معاویہ کے زمانے میں حکومت کے حالات کی وجہ سے ہے ۔ پالیسیاں کچھ اس طرح تھیں کہ عوام سچی بات کی سچائی کو سننے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ اسی لئے آپ حالانکہ معاویہ کے زمانے میں دس برسوں تک امامت کے عہدے پر فائز رہے لیکن کچھ نہیں بولے ۔ کوئي کام ، کوئی اقدام کوئي قیام نہيں کیا کیونکہ اس وقت کے حالات مناسب نہيں تھے ۔ آپ سے پہلے بھی امام حسن علیہ السلام تھے ۔ انہوں نے بھی قیام نہيں کیا کیونکہ حالات مناسب نہيں تھے اس کا یہ مطلب قطعی نہيں ہے کہ امام حسین اور امام حسن یہ کام کرنے کی صلاحیت نہيں رکھتے تھے ۔ امام حسن اور امام حسین میں کوئی فرق نہيں ہے ، امام حسین اور امام زین العابدین میں کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین اور امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام میں کوئی فرق نہيں ہے ۔ ہاں لیکن چونکہ امام حسین علیہ السلام نے یہ عظیم کام انجام دیا ہے اس لئے ان کا مقام ان سے بالاتر ہے جنہوں نے یہ کام انجام نہيں دیا لیکن سب کے سب امامت کے عہدے میں برابر ہیں اور ان عظیم شخصیات میں سے جس کے سامنے بھی ایسے حالات پیش آتے وہ یہی کام کرتا اور اسی مقام پر پہنچتا ۔ تو امام حسین علیہ السلام بھی اس قسم کے انحراف کو دیکھ رہے ہيں تو پھر فریضے پر عمل در آمد ضروری ہے ۔ حالات بھی سازگار ہیں اس لئے کوئي عذر بھی باقی نہيں بچتا اس لئے عبد اللہ بن جعفر ، محمد بن حنفیہ اور عبد اللہ بن عباس _ یہ لوگ عام افراد نہيں تھے بلکہ سب کے سب دین کا علم رکھنے والے ، صاحب عرفان ، عالم اور با فہم تھے _ جب امام سے کہتے تھے کہ مولا ! خطرہ ہے ، نہ جائيں ، تو در اصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جب خطرہ ہو تو فرض ختم ہو جاتا ہے وہ یہ نہيں سمجھ رہے تھے کہ یہ ایسا فریضہ نہيں ہے جو خطرہ کی وجہ سے ساقط ہو جائے ۔ اس فريضے کے ساتھ ہمیشہ خطرہ ہوتا ہے ۔ کیا یہ ہو سکتا انسان ، ظاہری اعتبار سے ایسی طاقت کے خلاف قیام کرے اور کوئي خطرہ نہ ہو ؟! کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟! اس فریضے پر عمل میں ہمیشہ خطرہ ہے وہی فریضہ جس پر امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے عمل کیا ۔ آپ سے بھی کہا گیا کہ آپ نے بادشاہ سے لڑائی مول لی ہے خطرناک ہے ۔ امام خمینی کو علم نہيں تھا کہ اس میں خطرہ ہے ؟! امام خمینی کو نہيں معلوم تھا کہ پہلوی سیکوریٹی فورس لوگوں کو گرفتار کرتی ہے ، قتل کرتی ہے ، ایذائيں دیتی ہے ، آدمی کے دوستوں کا قتل کرتی ہے انہيں جلا وطن کرتی ہے ؟! امام خمینی رضوان اللہ کو ان سب باتوں کا علم نہيں تھا ؟! جو کام امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں ہوا اس کا چھوٹا سا نمونہ امام خمینی رحمت اللہ کے زمانے میں بھی پیش آیا بس اس فرق کے ساتھ کہ وہاں پر نتیجہ شہادت کی شکل میں سامنے آیا اور یہاں حکومت کی شکل میں ۔ یہ وہی چیز ہے ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کا مقصد اور امام خمینی رضوان اللہ کا مقصد ایک ہی تھا ۔ یہ بات امام حسین علیہ السلام کے قیام کے فلسفے کی بنیاد اور شیعی نظریات و علوم کا ایک بڑا حصہ ہے یہ ایک اہم ستون اور اسلام کا ایک رکن ہے ۔ تو ہدف کا معنی ، اسلامی سماج کو اس کی صحیح پٹری پر لانا ہے ۔ کب ؟ جب راہ ، بدل دی جائے اور جہالت و ظلم و استبداد اور کچھ لوگوں کی غداری ، مسلمانوں کو گمراہ کردے اور حالات بھی سازگار رہیں ۔ البتہ تاریخی حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ کبھی حالات سازگار ہوتے ہیں اور کبھی سازگار نہیں ہوتے ۔ امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں حالات سازگار تھے ہمارے زمانے میں بھی حالات سازگار تھے ۔ امام خمینی رضوان اللہ نے بھی وہی کام کیا ۔ مقصد ایک ہی تھا لیکن بات یہ ہے کہ جب انسان اس مقصد کی تکمیل کی راہ پر آگے بڑھتا ہے اور باطل حکومت و مرکز کے خلاف قیام کرنا چاہتا ہے ، تاکہ اسلام اور اسلامی نظام کو اس کے صحیح محور پر لے آئے ، تو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ قیام کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں وہ حکومت تک پہنچ جاتا ہے ایک شکل تو یہ ہے _ ہمارے زمانے میں خدا کے شکر سے ایسا ہی ہوا _ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ قیام حکومت پر منتج نہیں ہوتا ، شہادت ملتی ہے ۔ کیا اس صورت میں واجب نہيں ہے ؟ کیوں نہیں ؟ شہادت پر منتج ہو تب بھی واجب ہے ، کیا اگر قیام کا نتیجہ شہادت ہو تو اس صورت میں قیام کا کوئي فائدہ نہيں ہے ؟ کیوں نہيں ، کوئي فرق نہيں ہے ۔ اس قیام اور اس تحریک کا دونوں صورتوں میں مفید ہے ۔ چاہے شہادت پر منتج ہو چاہے حکومت پر ، لیکن ہر ایک کا مختلف قسم کا فائدہ ہے ۔ اسے انجام دینا چاہئے ، آگے بڑھنا چاہئے ۔یہ وہی کام تھا جسے امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السلام وہ تھے جنہوں نے پہلی بار یہ کام کیا تھا ، ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہيں کیا تھا کیونکہ ان سے قبل _ پیغمبر اسلام اور امیر المومنین کے زمانے میں _ نہ تو ایسا انحراف تھا اور نہ ہی مناسب حالات تھے ۔ یا اگر کچھ مقامات پر انحراف نظر بھی آتا تھا تو حالات مناسب نہيں تھے۔امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں دونوں چیزیں تھی امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں یہ بنیادی عنصر ہے۔تو اس طرح سے ہم مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں : امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تاکہ اس عظیم فریضے پر عمل کریں جس کا معنی اسلامی سماج میں بڑی گمراہی کے مقابلے میں قیام کرے اسلامی نظام اور سماج کی تعمیر نو ہے ۔ یہ کام قیام امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے ذریعے ہوتا ہے بلکہ یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک بڑا مصداق ہے البتہ اس فریضے پر عمل در آمد کبھی حکومت پر منتج ہوتا ہے ۔ امام حسین علیہ السلام اس کے لئے تیار تھے ۔ کبھی یہ شہادت پر منتج ہوتا ہے امام حسین علیہ السلام اس کے لئے بھی تیار تھے ۔ ہم کس دلیل کی بنا پر یہ بات کہہ رہے ہیں ؟ یہ نتیجہ ہم نے خود امام حسین علیہ السلام کی باتوں سے اخذ کیا ہے ۔ میں نے امام حسین علیہ السلام کے کلمات میں کچھ جملوں کا انتخاب کیا ہے _ البتہ ان کی تعداد اس سے زیادہ ہے جو سب کے سب اسی معنی کو بیان کرتے ہيں _ پہلے مدینے میں ، جب مدینے کے حاکم ولید نے آپ کو بلوا کر کہا : معاویہ دنیا سے چلا گیا ہے اور آپ کو یزید کی بیعت کرنی ہے! امام حسین علیہ السلام نے اس سے فرمایا: صبح تک انتظار کرو ، «ننظر و تنظرون اینا احق بالبیعة و الخلافه» ہم جاکر سوچيں گے دیکھیں ہمیں خلیفہ بننا چاہئے یا یزید کو خلیفہ بننا چاہئے ! دوسرے دن مروان نے آپ کو گلی میں دیکھا اور کہا : اے ابو عبد اللہ آپ خود کو موت کے حوالے کر رہے ہيں ! خلیفہ کی بیعت کیوں نہيں کرتے ؟ چلیں بیعت کریں ، خود کو موت کے منہ میں نہ ڈالیں ، خود کو پریشانی میں نہ ڈالیں ! امام حسین علیہ السلام نے اس کے جواب میں یہ جملہ فرمایا: : «اناللَّه و انا الیه راجعون و علىالاسلام السّلام، اذ قد بلیت الامة براع مثل یزید»؛ اب اسلام کو رخصت کر دینا چاہئے جب یزید جیسا حاکم بر سر اقتدار ہو اور اسلام یزيد جیسے حاکم میں پھنس جائے ! معاملہ صرف یزید کا نہيں ہے ، جو بھی یزید کی طرح ہو ۔امام حسین علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں اب تک جو کچھ تھا قابل برداشت تھا لیکن اب دین اور اسلامی نظام کے اصولوں کی بات ہے جو یزید جیسے حاکم کی حکومت میں تباہ ہو جائے گا ۔ آپ اپنے اس قول سے اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اس انحراف کا خطرہ سنجیدہ ہے ۔ اسلام کی جڑوں کے لئے خطرہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے مدینے سے نکلتے وقت بھی اور مکے سے نکلتے وقت بھی محمد بن حنفیہ سے کچھ باتیں کی ہیں ۔ میرے خیال میں یہ باتیں اس وقت سے متعلق ہیں جب آپ مکے سے باہر نکلنا چاہ رہے تھے ۔ ذی الحجہ کے مہینے میں جب محمد بن حنفیہ بھی مکے گئے تھے اس وقت آپ نے ان سے کچھ باتیں کی تھیں ۔ آپ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو وصیت کی شکل میں کچھ لکھ کر دیا تھا ۔اس میں آپ نے خداوند عالم کی وحدانیت کی گواہی وغیرہ کے بعد لکھا ہے : «و انى لم اخرج اشرا ولا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً»؛ یعنی کچھ لوگ غلطی نہ کریں اور یہ مشہور نہ کریں کہ امام حسین بھی ادھر ادھر سے قیام کرنے والے کچھ دوسرے لوگوں کی طرح اقتدار کے لئے قیام کر رہے ہیں ۔ خود نمائی ، عیش و عشرت ظلم و بدعنوانی کے لئے جد و جہد شروع کر رہے ہیں ! ہمارا کام اس قسم کا نہیں ہے ۔ «و انّما خرجت لطلبالاصلاح فى امّة جدّى»ہمارے کام کا عنوان اصلاح ہے ۔ میں اصلاح کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ وہی فریضہ ہے جس پر امام حسین علیہ السلام سے قبل عمل نہيں ہوا تھا ۔ یہ اصلاح قیام و خروج کے ذریعے ہے ۔ خروج یعنی قیام ، حضرت نے اس وصیتنامے میں ، اس بات کا ذکر کیا ہے _ تقریبا اس بات کی صراحت کی ہے _ یعنی پہلی بات تو یہ کہ ہم قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہمارا قیام اصلاح کے لئے ہے نہ اس لئے کہ ہم ہر صورت میں حکومت کو حاصل کر لیں نہ ہی اس لئے ہے کہ ہر حال میں ہم جاکر شہید ہی ہو جائيں ۔ نہيں ، ہم اصلاح کرنا چاہتے ہيں ۔ البتہ اصلاح کوئی چھوٹا کام نہیں ہے ۔ کبھی حالات ایسے ہوتے ہيں انسان حکومت تک پہنچ جاتا ہے اور خود ہی زمام حکومت سنبھال لیتا ہے لیکن کبھی وہ یہ نہيں کر سکتا _ یعنی ایسا ہوتا نہيں _ بلکہ وہ شہید ہو جاتا ہے لیکن ہر دو حالت ، اصلاح کے لئے قیام ہے ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہيں : «ارید ان آمر بالمعروف و انهى عن المنكر و اسیر بسیرة جدّى» یہ اصلاح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مصداق ہے یہ بھی ایک مختلف بات ہے۔ حضرت نے مکے میں دو خطوط لکھے ہیں کہ جن میں ایک بصرہ کے سرداروں اور دوسرا کوفہ کے سرداروں کے نام تھا ۔ بصرہ کے سردارں کے نام آپ کے خط میں یہ لکھا ہے : «و قد بعث رسولى الیكم بهذا الكتاب و انا ادعوكم الى كتاب اللَّه و سنة نبّیه فان سنّة قد امیتت و البدعة قدا حییت فان تسمعوا قولى اهدیكم الى سبیل الرّشاد»؛ میں بدعت کو ختم اور ست کو حیات نو عطا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ سنت کو ختم اور بدعت کو زندہ کر دیا گیا ہے! اگر میرے ساتھ آؤگے تو راہ راست میرے ساتھ ہے ۔ یعنی میں اسی عظیم فریضے پر عمل کرنا چاہتا ہو جو اسلام ، سنت پیغمبر اور نظام اسلامی کو حیات نو عطا کرنا ہے ۔ پھر آپ نے اہل کوفہ کے نام اپنے خط میں فرمایا : «فلعمرى ما الامام الا الحاكم بالكتاب والقائم بالقسط الدّائن بدین الحقّ الحابس نفسه على ذالك اللَّه والسلام»؛ اسلامی سماج کا پیشوا اور رہنما ایسا شخص نہيں ہو سکتا جو فسق و فجور و بدعنوانی و گناہ میں ڈوبا ہو بلکہ اس عہدے ایسے کے پاس ہونا چاہئے جو خدا کی کتاب پر عمل کرے ۔ یعنی سماج کے درمیان کتاب خدا پر عمل کرے نہ یہ کہ خود ہی اکیلے ایک کمرے میں نماز پڑھے بلکہ خدا کی کتاب پر عمل کو سماج میں رائج کرے ، عدل و انصاف سے کام لے اور حق کو سماج میں قانون بنائے ۔«الداّئن بدین الحق» یعنی سماج کے قوانین و ضوابط اور اصولوں کو حق قرار دے اور باطل کو دور کرے ۔«والحابس نفسه على ذالك للّه»؛ بظاہراس جملے کا معنی یہ ہے کہ خود ہر صورت میں اللہ کے حضور میں سمجھے اور شیطانی و مادی کششوں کے جال میں نہ پھنسے بس ، اس بنا پر آپ نے ہدف معین کر دیا ۔ امام حسین علیہ السلام مکے سے نکل گئے ، آپ نے راستے میں تمام منزلوں پر مختلف لہجوں میں کچھ باتیں کہیں ۔ بیضہ نامی منزل میں ایسے حالت میں کہ جب حر بن یزید بھی آپ کے ساتھ ہے ، آپ آگے چلتے ہيں تو وہ بھی آپ کے ساتھ چلتا ہے اس طرح سے آپ اس منزل پر پہنچتے ہيں اور قیام کرتے ہيں ۔ شاید آرام کرنے سے قبل یا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ کھڑے ہوتے ہيں اور دشمن کے لشکر کو مخاطب کرکے اس طرح سے فرماتے ہيں : «ایّهاالنّاس، انّ رسولاللَّه (صلّىاللَّهعلیهوآله) قال: «من رأى سلطاناً جائراً مستحلاً لحرام اللَّه، ناكثاً لعهداللَّه، مخالفاً لسنّة رسولاللَّه یعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول و لا فعل كان حقّاً علىاللَّه ان یدخله مدخله»؛ یعنی اگر کوئي یہ دیکھے کہ سماج میں کوئي حاکم اقتدار میں ہے اور ظلم کرتا ہے ، خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئي چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے ، الہی احکامات سے کنارہ کش ہوتا ہے یعنی ان پر عمل نہيں کرتا اور دوسروں کو بھی عمل کی جانب راغب نہيں کرتا یعنی عوام میں اس کی کارکردگی گناہ ، مخاصمت اور ظلم پر مشتمل ہوتی ہے ۔ حاکم فاسد اور جائر جس کا مکمل مصداق یزید تھا«و لمیغیّر بقول و لافعل»، اور زبان و عمل کے ذریعے اس کے خلاف اقدام نہ کیا جائے «كان حقّاً على اللَّه ان یدخله مدخله» قیامت کے دن خداوند عالم اس چپ رہنے والے لاپروا و بے عمل شخص کو بھی وہی سزا دے گا جو اس نے اس ظالم کو دی ہوگی یعنی ان دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرے گا ۔یہ بات پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمائی ہے یہ جو ہم نے بات کہی ہے اس کا حکم پیغمبر اسلام نے دیا ہے یہ مختلف بیانات کا ایک نمونہ ہے ۔ پیغمبر نے واضح کر دیا تھا کہ اگر اسلامی سماج انحراف کا شکار ہو جائے تو کیا کیا جائے ۔ امام حسین علیہ السلام نے بھی پیغمبر اعظم کے اسی قول کو پیش کیا ہے ۔ تو پھر فریضہ کیا ہوا ؟ فریضہ قول و فعل کے ذریعے مخالفت ہوا ۔ اگر انسان ایسے حالات میں پہنچ جائے _ البتہ حالات مناسب ہوں _ تو اس پر واجب ہے کہ اس عمل کے خلاف قیام و اقدام کرے نتیجہ جو بھی ہو ، مار ڈالا جائے ، زندہ بچ جائے ، ظاہری اعتبار سے کامیاب ہو نا نہ ہو - ہر مسلمان کو اس صورت حال میں قیام و اقدام کرنا چاہئے یہ وہ فریضہ ہے جس کی وضاحت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی ہے ۔ اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : «و انّى احق بهذا»؛ میں تمام مسلمانوں میں سب سے زيادہ مستحق ہوں اس بات کا کہ یہ اقدام کروں اس طرح سے قیام کروں کیونکہ میں فرزند رسول ہوں ۔ اگر پیغمبر اس تبدیلی کو ، یعنی اس اقدام کو مسلمانوں کے فرد فرد پر واجب کیا ہے تو ظاہر ہے کہ حسین ابن علی ، فرزند رسول ، پیغمبر اسلام کے علم و حکمت کے وارث پر دوسروں کے مقابل زیادہ واجب ہے کہ اقدام کریں اور میں نے اسی لئے اقدام کیا ۔ تو امام نے اس طرح سے اپنے قیام کا سبب واضح کر دیا ۔ ازید نامی منزل میں جہاں چار لوگ آپ سے ملحق ہوئے امام حسین علیہ السلام نے ایک خطبہ دیا ۔ آپ نے فرمایا : «اما واللَّه انّى لأرجو ان یكون خیراً ما اراد اللَّه بنا؛ قتلنا او ظفرنا». یہ اس بات کی دلیل ہے جو ہم نے کہی ہے کوئی فرق نہيں ہے کامیاب ہوں یا مار ڈالے جائيں ، کوئي فرق نہيں پڑتا ۔ فریضہ ، فریضہ ہے اسے انجام دیا جانا چاہئے آپ نے فرمایا : مجھے یہ امید ہے کہ خدا وند عالم نے ہمارے لئے جو فیصلہ کیا ہے وہ خیر ہے چاہے ہم مار ڈالے جائيں یا کامیاب ہوں ۔ کوئي فرق نہيں پڑتا ہم اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں ۔کربلا پہنچے کے بعد آپ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا: «قد نزل من الامر ما قد ترون ...» اس کے بعد فرمایا«الا ترون الحق لایعمل به و الى الباطل لایتناهى عنه لیرغب المؤمن فى لقاء ربه حقا» - اس خطبے کے آخر تک _ یہاں پر ہم اپنی گفتگو مختر کرتے ہيں ۔ تو یہ بات واضح ہو گئ کہ امام حسین علیہ السلام نے ایک فریضے پر عمل کے لئے قیام کیا تھا ۔ یہ فریضہ طول تاریخ میں تمام مسلمانوں پر ہے اس فریضے کا معنی یہ ہے کہ جب بھی آپ دیکھيں کہ اسلامی سماجی نظام میں ، بنیادی خرابی پیدا ہو گئ ہے اور اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ احکام اسلامی ممکل طور پر بدل دئے جائيں تو ہر مسلمان کو قیام کرنا چاہئے ۔ البتہ مناسب حالات میں ، جب اسے یہ علم ہو کہ اس قیام کا اثر ہوگا ۔ حالات میں ، زندہ بچ جانا ، مار ڈالا جانا یا تکلیف نہ اٹھانے جیسی چیزیں شامل نہیں ہیں ، ان کا شمار حالات میں نہيں ہوتا اسی لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا اور اس واجب فریضے پر عمل کیا تاکہ سب سے لئے درس بن جائے ۔اب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ طول تاریخ میں مناسب حالات میں کوئی بھی یہ کام کر سکتا ہے یہ اور بات ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دور کے بعد ، کسی بھی امام کے زمانے میں ایسے حالات پیش نہيں آئے خود اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ کیوں ایسے حالات پیش نہيں آئے ؟ کیونکہ ديگر اہم کام تھے جن کو کرنا ضروری تھا اور ایسے حالات ، اسلامی سماج میں ائمہ کی موجودگی کے آخری دور اور غیبت کے آغاز تک پیش نہيں آئے ۔ طول تاریخ میں اسلامی ممالک میں اس قسم کے حالات کئ بار در پیش ہوئے ۔ آج بھی شاید عالم اسلام میں ایسے بہت سے علاقے ہوں کہ جہاں ایسے حالات ہيں کہ جن میں مسلمانوں کو اپنے فريضے پر عمل کرنا چاہئے ، اگر وہ یہ کام کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اسلام کو وسعت دی اور اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ۔ اس قیام میں ایک دو لوگوں کو شکست بھی ہوگی ۔جب اس تبدیلی و قیام و اصلاحی تحریک کا اعادہ ہوگا تو یقینی طور پر سماج سے انحراف و بدعنوانی جڑ سے ختم ہو جائے گی ۔ کسی کو بھی اس راستے کا علم نہيں تھا کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوا تھا ۔ خلیفہ اول کے زمانے میں بھی اس پر عمل نہيں ہوا ، امیر المومنین نے بھی جو معصوم تھے ، اس کام کو انجام نہیں دیا تھا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے علمی لحاظ سے پوری تاریخ اسلام کو ایک بہت بڑا سبق دیا ہے اور در حقیقت اسلام کو اپنے اور دیگر تمام زمانوں میں محفوظ کر دیا۔ اب جہاں بھی اس قسم کی بدعنوانی ہوگی ، امام حسین وہاں زندہ ہیں اور اپنی روش اور عمل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے ۔ فریضہ یہ ہے ۔ اسی لئے امام حسین اور کربلا کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے کیونکہ کربلا کی یاد اس درس کا عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسرے اسلامی ملکوں میں ، عاشور سے حاصل سبق کو اس طرح سے جیسا اس کا حق ہے ، پہچانا نہيں گیا ۔ یہ کام ہونا چاہئے ، ہمارے ملک میں اس کی معرفت تھی ۔ ہمارے ملک میں عوام ، امام حسین علیہ السلام کو پہچانتے تھے اور انہیں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی معرفت تھی اور ان میں حسینی جذبہ موجود تھا اسی لئے جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ محرم ایسا مہینہ ہے جس میں خون کو شمشیر پر فتح حاصل ہوتی ہے تو لوگوں کو تعجب نہيں ہوا ۔ اور ہوا بھی ایسا ہی خون کو تلوار پر فتح حاصل ہو گئ - میں نے کئ برسوں پہلے یہی بات ایک نشست میں کہی تھی _ البتہ انقلاب سے قبل _ ایک مثال میرے ذہن میں آئی جس کا ذکر میں نے اس نشست میں کیا تھا وہ مثال ، اس طوطے کی ہے جس کا ذکر مولوی نے اپنی مثنوی میں کیا ہے ۔ ایک آدمی کے گھر میں ایک طوطا تھا _ البتہ یہ ایک مثال ہے اور مثال حقیقت بیان کرنے کے لئے ہوتی ہے _ جب وہ ہندوستان جانے لگا تو اس نے اپنے گھر والوں سے رخصتی کے بعد طوطا کو بھی الوداع کہا ۔ اس نے طوطے سے کہا کہ میں ہندوستان جا رہا ہوں اور ہندوستان تمہاری سرزمین ہے ۔ طوطے نے کہا : فلاں جگہ جانا وہاں میرے دوست و رشتہ دار ملیں گے ۔ وہاں ان سے کہنا کہ تمہارے ایک ساتھی میرے گھر میں ہے ۔ ان سے میری حالت بیان کرنا اور کہنا کہ تمہارا ساتھی میرے گھر میں ایک پنجرے میں ہے ۔ بس تم سے مجھے اور کچھ نہيں چاہئے ۔وہ سفر پر روانہ ہو گیا اور جب اس جگہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بہت سے طوطے درختوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے ہيں ۔ اس نے انہیں پکار کر کہا : اے بولنے والے پیار طوطو! میں تمہارے لئے پیغام لایا ہوں ۔ تمہارا ایک ساتھی ہمارے گھر میں ہے ۔وہ بہت اچھی حالت میں ہے ، پنجرے میں ہے مگر بڑی اچھی حالت میں رہتا ہے اور اچھے اچھے کھانے ملتے ہیں اس نے تمہیں سلام کہا ہے ۔اس تاجر کی بات جیسے ہی ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ شاخوں پر بیٹھے تمام طوطے پھڑپھڑا کر زمین پر گر گئے ۔ جب وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ سب کے سب مر گئے ہيں ! اسے بڑا افسوس ہوا اور سوچنے لگا کہ میں نے آخر کیوں ایسی بات کہی یہ بیچارے سب کے سب مر گئے !! لیکن اب تو وقت گزر چکا تھا اور کچھ نہيں کیا جا سکتا تھا ۔ تاجر واپس چل پڑا اور جب اپنے گھر پہنچا تو فورا پنجرے کے پاس گیا اور طوطے سے کہا کہ میں نے تمہارا پیغام پہنچا دیا ۔ اس نے کہا : ان لوگوں نے کیا جواب دیا ؟ تاجر نے کہا : تمہارا پیغام سنتے ہی سارے طوطے پیڑوں پر پھڑاپھڑانے لگے اور پھر زمین پر گر کر مر گئے! جیسے ہی تاجر کی بات ختم ہوئی اس نے دیکھا کہ اس کا طوطا بھی پھڑاپھڑا کر پنجرے میں گرا اور مر گیا ! اسے بہت دکھ ہوا ۔ پنجرہ کھولا تو دیکھا کہ طوطا مر چکا ہے ۔ اب اسے رکھنا ممکن نہيں تھا ۔ اس کا پیر پکڑ کر چھت پر پھینک دیا لیکن طوطے نے ہوا میں ہی پر پھڑپھڑانا شروع کر دیا اور اڑ کر دیوار پر بیٹھ گیا ! اس نے تاجر سے کہا : اے میرے پیارے دوست تمہارا بہت بہت شکریہ ، تم نے میری رہائی کی سبیل کی ۔ میں مرا نہيں تھا ، مرنے کا دکھاوا کر رہا تھا اور یہ وہ سبق تھا جو ان طوطوں نے مجھے سکھایا ! وہ سمجھ گئے کہ میں یہاں پنجرے میں قید ہوں لیکن وہ کس طرح سے مجھے بتاتے کہ میں رہائی کے لئے کیا کروں ؟ انہوں نے عملی طور پر مجھے بتا دیا کہ میں کیا کروں جس سے مجھے رہائی مل جائے ! _ مر جاؤ تاکہ زندگی مل جائے _ میں نے ان کا پیغام تہمارے ذریعے حاصل کیا اور یہ ایسا عملی سبق تھا جو اتنی دوری کے باوجود مجھ تک پہنچا اور ميں نے اس سبق سے فائدہ بھی اٹھایا ۔میں نے اس وقت اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امام حسین علیہ السلام کس زبان میں یہ بتاتے کہ آپ کا فریضہ کیا ہے ؟ حالات وہی ہیں ۔ زندگی کی نوعیت وہی ہے ، اسلام بھی وہی ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے عملی طور پر تمام نسلوں کو سبق دیا ۔ اگر امام حسین علیہ السلام کی ایک بات بھی ہم تک نہ پہنچتی تو بھی ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ ہمارا فریضہ کیا ہے ۔جو قوم قید میں ہو ، جس قوم کے رہنما بدعنوان ہوں ، جس قوم پر دین کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فیصلوں کے ذمہ دار ہوں تو اسے وقت کے ساتھ یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کا فریضہ کیا ہے کیونکہ فرزند رسول ، ایک معصوم امام نے بتا دیا کہ ان حالات میں کیا کیا جانا چاہئے ۔زبان کے ذریعے ممکن نہيں تھا اگر وہ ہی بات سو زبانوں میں کہتے لیکن خود آگے نہ بڑھتے تو ممکن نہيں تھا کہ یہ پیغام تاریخ کو پار کرتا ہوا یہاں تک پہنچے ۔ صرف نصیحت کرنا اور زبان سے کہی باتیں تاریخ کو عبور نہيں کرتیں ۔ ہزاروں تفسیر و تاویلیں کر دی جاتی ہيں عمل ہونا چاہئے ۔ وہ بھی ایسا عظیم عمل ، ایسے سخت اور ایثار و قربانی کا عمل اتنا عظیم عمل ہونا چاہیے جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے انجام دیا ! حقیقت تو یہ ہے کہ عاشو ر کے جو مناظر ہماری نظروں کے سامنے ہيں اس کے سلسلے میں تو بہتر ہوگا ہم یہ کہیں کہ انسانی المیہ کی تاریخ میں اس کی کوئي مثال نہيں ملتی ۔ جیسا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ، جیسا کہ امیر المومنین اور امام حسن علیھم السلام نے فرمایا _ جیسا کہ روایتوں میں ہے _ - «لایوم كیومك یا اباعبداللَّه»؛ کوئي دن تمہارے دن ، تمہارے روز عاشورا ، کربلا کے اور تمہارے ساتھ ہوئے واقعے کی طرح نہيں ہے. چودہ سو سولہ ہجری قمری کے عاشور کے دن جمعہ کا خطبہ 95-6-9
ماہ رمضان المبارک کا آغاز در حقیقت مسلمانوں کے لئے موسم بہاراں کی آمد ہے۔ اس مبارک مہینے کا آغاز مسلمانوں کی عید ہے جس پر انہیں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنا چاہئے اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی سفارش کرنا چاہئے۔ یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دسترخوان کرم سے مختلف دسترخوان ہے۔ اللہ تعالی کا عمومی دسترخوان لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے بچھا ہوا ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ (ماہ مبارک رمضان میں بچھنے والا) ضیافت الہی کا دسترخوان خاصان خدا سے مخصوص ہے۔ ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں۔ گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کی آمد پر اس انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور پاکیزہ باطن کوجو فطری اور قدرتی طور پر کمال و تکامل کی جانب مائل ہوتا ہے، بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ تو ماہ مبارک رمضان انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ اور پروردگار سے مانوس اور قریب ہونے کے لئے سازگار موسم بہار ہے۔ ماہ مبارک رمضان کی برکتیں ان افراد سے شروع ہوتی ہیں جو اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کا مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ یہ برکتیں ان مومنین کے قلوب سے شروع ہوتی ہیں۔ اس مہینے کی برکتوں کی برسات سب سے پہلے مومنین، روزہ داروں اور اس مہینے کی مقدس فضا میں قدم رکھنے والوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف اس مہینے کے روزے، دوسری طرف اس با برکت مہینے میں تلاوت کلام پاک اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پا جاتے ہیں۔ بعض افراد اس مہینے کے تیس دنوں میں جنت کی سیر کرتے ہیں اور بعض خوش نصیب تو اس ایک مہینے کی برکت سے پورے سال وادی جنت میں گھومنے پھرنے کا بندو بست کر لیتے ہیں جبکہ بعض، اس کی برکتوں سے پوری عمر جنت کا لطف اٹھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے بھی ہیں جو آنکھیں بند کئے اور کانوں میں تیل ڈالے اس مہینے کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں اور اس کی برکتوں کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام اور ان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی تمام بد بختیوں کی جڑ، نفسانی خواہشات کی پیروی اور ان کا اسیر ہو جانا ہے۔ جو بھی ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے، جتنے فریب اور دھوکے دئے جاتے ہیں، تمام ظالمانہ جنگیں، بد عنوان حکومتیں یہ ساری کی ساری برائیاں نفسانی خواہشات کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے نفس پر غالب آ جائے تو اسے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس کے لئے بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ بنابریں سب سے اہم مسئلہ گناہوں سے پرہیز کا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس مہینے میں تہذیب نفس کریں اور گناہوں سے دور رہنے کی کوشش اور مشق کریں۔ اگر ہم نے خود کو گناہوں سے دور کر لیا تو عالم ملکوت میں ہماری معنوی پرواز کے لئے فضا ہموار ہو جائے گی اور انسان معنوی سفر کرتے ہوئے وہ راستہ طے کرے گا جو اس کے لئے معین کیا گیا ہے لیکن اگر اس کی پشت پر گناہوں کی سنگینی باقی رہی تو یہ چیز ممکن نہ ہوگی۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں سے دور ہونے کا بہترین موقع ہے۔روزہ جسے الہی فریضہ کہا جاتا ہے در حقیقت ایک الہی نعمت اور تحفہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے ایک سنہری موقع ہے جو روزہ رکھنے کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔ البتہ اس کی اپنی سختیاں اور صعوبتیں بھی ہیں۔ جتنے بھی با برکت، مفید اور اہم اعمال ہیں ان میں دشواریاں ہوتی ہیں۔ انسان دشواریوں کا سامنا کئے بغیر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ روزہ رکھنے میں جو سختی برداشت کرنا ہوتی ہے وہ اس جزا اور ثمرے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو روزہ رکھنے کے نتیجے میں انسان کو ملتا ہے۔ روزے کے تین مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوص فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے پرہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اس سے ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے اور ہمیں کچھ سبق بھی ملتا ہے۔ تو یہ روزہ درس بھی اور زندگی کے لئے امتحان بھی۔ ساتھ ہی یہ مشق اور ورزش بھی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ لیستوی بہ الغنی و الفقیر اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا کہ ان مخصوص ایام میں مخصوص اوقات کے دوران غنی و فقیر برابر ہو جائیں۔ جو افراد تہی دست اور غریب ہیں وہ ہر وہ چیز نہیں حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے لیکن غنی و دولتمند انسان کا جب جو کھانے اور پہننے کا دل کرتا ہے اس کے لئے وہ چیز فراہم رہتی ہے۔ چونکہ امیر انسان کی ہر خواہش فورا پوری ہو جاتی ہے اس لئے اسے تہی دست اور غریب کا حال نہیں معلوم ہو پاتا لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں سب یکساں اور مساوی ہو جاتے ہیں اور سب کو اپنی خواہشیں دبانا پڑتی ہیں۔ جو شخص بھوک اور پیاس تحمل کر چکا ہوتا ہے اسے ان سختیوں کا بخوبی اندازہ رہتا ہے اور وہ ان صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان انسان کو سختیوں اور دشواریوں سے نمٹنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کرواتا ہے۔ تو اس عمومی مرحلے میں بھی اتنے سارے فوائد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کا شکم جب خالی رہتا ہے اور وہ ایسے بہت سے کاموں سے روزے کی وجہ سے پرہیز کرتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں تو اس کے وجود میں ایک نورانیت اور لطافت پیدا ہوتی ہے جو واقعی بہت قابل قدر ہے۔ روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان، آنکھ، کان، زبان اور دل حتی جلد جیسے جسمانی اعضاء و اجزاء کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کے لئے گناہوں سے اجتناب کی مشق کا بہت مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا دوسرے مرحلے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خود کو گناہوں سے پاک و منزہ بنا لیتا ہے، آپ نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے پاس طاقت و توانائی بھی زیادہ ہوتی اور اس کا دل بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کو ان خصوصیات سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مہینے میں آپ گناہوں سے دوری و اجتناب کی مشق کیجئے جو روزے کا دوسرا مرحلہ ہے۔ روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کر دے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ، روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت پروردگار سے منور ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے لئے ہر وہ چیز مضر ہے جو اسے ذکر پروردگار سے غافل کر سکتی ہو۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو روزہ داری کی اس منزل پر فائز ہیں۔ ماہ رمضان، دعا و مناجات اور تقوا و پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم عبادات اور اذکار کے ذریعے روحانی و معنوی قوت حاصل کرکے سنگلاخ وادیوں اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ ماہ رمضان، قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کو چاہئے کہ خود کو معنوی خزانوں تک پہنچائيں اور پھر حتی المقدور اس خزانے سے سرمایہ حاصل کریں اور آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ماہ رمضان میں روزہ، نماز، دعا و مناجات،بندگی و عبادات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اگر ہم اس پر توجہ دیں اور تلاوت کلام پاک کی خوشبو کا بھی اس میں اضافہ کر لیں، کیونکہ ماہ رمضان کو قرآن کے موسم بہار سے تعبیر کیا گيا ہے، تو خود سازی اور تہذیب نفس، سعادت و خوشبختی کی بڑی حسین منزل پر ہمارا ورود ہوگا۔ ماہ مبارک رمضان کے شب و روز میں آپ اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور رکھئے تاکہ شب قدر کے استقبال کے لئے آپ تیار ہو سکیں۔ لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے زمین کو آسمان سے متصل کر دیتے ہیں۔ قلوب پر نور کی بارش ہوتی ہے اور پورا ماحول لطف الہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ رات معنوی سلامتی اور دل و جان کی جلا، اخلاقی، معنوی، مادی، سماجی اور دیگر بیماریوں سے شفا کی شب ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو بد قسمتی سے بہت سی قوموں حتی مسلم اقوام میں سرایت کر گئی ہیں۔ ان سب سے نجات اور شفا شب قدر میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ اس رات میں داخل ہوا جائے۔ ہر سال کو اللہ تعلی کی جانب سے ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے اور وہ موقع و وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں دلوں میں لطافت، روح میں درخشندگی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان رحمت پروردگار کی خاص وادی میں قدم رکھنے کے لائق بن جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق ضیافت پروردگار سے استفادہ کرتا ہے۔ جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو ایک نیا دن شروع ہوتا ہے جو عید کا دن ہوتا ہے۔ یعنی وہ دن جب انسان ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے ثمرات اور توفیقات کے ذریعے پورے سال کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کرکے کجروی سے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ عید فطر کاوشوں اور زحمتوں کا ثمرہ حاصل کرنے اور رحمت الہی کے دیدار کا دن ہے۔ عید فطر کے تعلق سے بھی ایک اہم بات اس دن پورے سال کے لئے آمادگی کا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ یہیں سے آئندہ سال کے ماہ مبارک رمضان کے خیر مقدم کی تیاری شروع ہوتی ہے، اگر کوئی چاہتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کا مہمان بنے اور شب قدر کی برکتوں سے بہرہ مند ہو تو اسے پورے گیارہ مہینے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ عید کے دن اسے یہ عہد کرنا ہوگا کہ پورا سال اسے اس انداز سے بسر کرنا ہے کہ ماہ رمضان خود اس کا استقبال کرے اور وہ ضیافت الہی کے دسترخوان پر بیٹھنے کے لائق ہو۔ یہ ایک انسان کو ملنے والا سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسان اور اس کے تمام متعلقین نیز اسلامی معاشرے سے وابستہ تمام امور میں کامیابی و کامرانی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اگر ہم پوری آمادگی کے ساتھ ماہ رمضان میں داخل ہوئے تو ضیافت الہی سے بھرپور استفادہ کر سکیں گے ہم ایک زینہ اوپر پہنچ جائیں گے اور ہمارا درجہ بلند ہوگا۔ پھر ہم اپنے دل و جان کی گہرائيوں میں بھی اور اپنے گرد و پیش کے حالات میں بھی وہ مناظر دیکھیں گے جن سے ہمیں حقیقی خوشی اور مسرت حاصل ہوگی۔
ہمارے ملک میں حقیقی معنی میں انتخابات انجام پاتے ہیں۔ بہت سے نام نہاد جمہوری ممالک میں انتخابات اس طرح نہیں ہوتے بلکہ وہاں انتخابات دولتمندوں اور طاقتور حلقوں کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ چیز کہ کوئي امیدوار عوام کے درمیان سے اٹھے اور کسی طاقتور حلقے کی پشت پناہی کے بغیر عوام کے سامنے اپنی بات رکھے اور ووٹ حاصل کرے بغیر اس کے کہ کسی سیاسی پارٹی کا آشیرواد یا کسی سیاسی گروہ کی حمایت اسے حاصل ہو، دنیا میں بے مثال ہے اور شاذ و نادرہی دکھائي دیتی ہے۔ دشمن یہ ظاہر کرنے کی کوشش میں ہے کہ ایران میں جمہوریت نہیں ہے جبکہ خود اسے بھی علم ہے کہ جو جمہوریت آج ایران میں ہے ملک کی پوری تاریخ میں اس کی کوئي اور مثال نہیں ملتی۔ ایران کی گزشتہ تاریخ میں یہ آزادی عوام کو کبھی نہیں ملی (جو آج انہیں حاصل ہے) اس کا ثبوت انتخابات اور تمام میدانوں میں عوام کی بھرپور موجودگی ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابات اسلامی روش کا مظہر ہے۔ انتخابات، قوم کو اسلام سے ملنے والا تحفہ ہے۔ ہمارے امام (خمینی رہ) نے انتخابات کے ذریعے اسلامی حکومت کی تشکیل کی روش ہمیں سکھائی۔ لوگوں کے ذہنوں میں اسلامی حکومت کا مطلب تھا موروثی حکومت، جبکہ یہ اسلام اور اسلامی حکومت کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کے اعلی ترین حکام، عوام کے ذریعے منتخب ہوکر آتے ہیں، براہ راست یا پھر بالواسطہ۔ اسلامی نظام میں منصوب شدہ عہدہ دار، موروثی عہدے اور دولت کی بنیاد پر ملنے والے مقام کا کوئي تصور ہے نہ کوئي گنجائش۔ صدارتی انتخابات، پارلیمانی انتخابات، قائد انقلاب کا انتخاب کرنے والے ماہرین کی کونسل کا انتخاب، بلدیاتی انتخابات ملت ایران کے افتخارات ہیں، یہ انتخابات اسلام اور خود امام (خمینی رہ) کے افتخارات کی فہرست میں شامل ہیں۔ انتخابات، قوم کا حق بھی ہے اور فریضہ بھی۔ اسلامی جمہوری نظام نے بڑی طاقتوں کے نظاموں پر خط بطلان کھینچ دیا جس میں عہدہ دار منصوب کئے جاتے ہیں۔ اس طرح ملک چلانے کے عمل میں عوام کو شراکت ملی۔ قوم کے ہر فرد کو انتخاب اور ملک چلانے کے عمل میں کردار ادا کرنے کا حق حاصل ہوا۔ دوسری طرف یہ فریضہ بھی ہے کیونکہ انتخابات میں شرکت سے معاشرے میں ہمیشہ ذمہ داری کا احساس زندہ رہے گا اور قوم کے دشمنوں پر بھی عوام کا رخ رجحان ظاہر ہو جائے گا۔ تو انتخابات آپ کا حق بھی ہے اور عمومی فریضہ بھی۔ انتخابات، اپنی تقدیر اور مستقبل کے تعین میں عوام کی شراکت اور اس عمل میں ان کی آزادی کا مظہر ہے۔ جب آپ صدر کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام امور کی باگڈور اس شخص کے ہاتھ میں دے رہے ہیں جسے آپ نے منتخب کیا ہے اور جو آپ کے ووٹوں اور حمایت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جب آپ اراکین پارلیمنٹ کا انتخاب کرتے ہیں تو در حقیقت آپ امور کی نگرانی اور قانون سازی کا عمل اسے سونپ رہے ہیں جس پر آپ کی نظر انتخاب ٹھہری ہے۔ بنابریں انتخاب خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ یہی ملک کو چلانے کے عمل میں عوام کا کردار اور ملک کے مستقبل کے تعین میں قوم کا اختیار ہے۔اسلامی جمہوریہ، حقیقی معنی میں عوامی نظام ہے اور عوام پر ہی اس کا دارو مدار ہے۔ سات کروڑ کی آبادی والا ملک اور سالانہ اوسطا ایک دفعہ انتخابات کا انعقاد، جن میں صدر سے لیکر اراکین پارلیمنٹ اور بلدیاؤں کے اراکین کے انتخابات شامل ہیں، وہ چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن حیران ہے۔ اسلامی جمہوری نظام عوام کی قوت ایمان کے سرچشمے سے باہر آیا ہے اور آج تک پوری طرح اسی سرچشے سے وابستہ ہے لہذا اس میں دو رای نہیں کہ ایسے نظام اور انتظامیہ کو عوام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت صرف یہ نہیں ہے کہ خوب جم کر پرچار کیا جائے اور لوگوں کو بیلٹ باکس تک پہنچا کر ان کے ووٹ جھپٹ لئے جائیں اور پھر انہیں ایک بار مڑ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی جائے۔ تو انتخابات پہلا مرحلہ ہے، اس کے بعد باری آتی ہے دوسرے مرحلے یعنی جوابدہی کی۔ ہمارے آئین اور امام (خمینی رہ) کی تعلیمات اور ہدایات میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ وہ نظام حکومت جسے عوام کی پشتپناہی حاصل نہ ہو، جو عوامی خواہشات اور مرضی کے مطابق نہ چلے، ریت کی دیوار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ عوامی آرا کے مطابق حاکم کا انتخاب ہو اور وہ عوامی خواہشات کے مطابق نظام حکومت چلائے۔
عالم بشر کو شرک و کفر اور جہل و ظلم کی تاریکیوں سے نجات دلاکر نور معرفت، عدل و انصاف اور بندگی پروردگار کی منور وادی میں پہنچانے کے لئے حضرت عیسی مسیح علیہ السلام الہی معجزے اور پیغام کے ساتھ معبوث ہوئے۔ آپ نے انسانوں کے درمیان گزرنے والا اپنا ہر لمحہ برائیوں کا خاتمہ اور نیکوکاری کی ترویج کےلئے بسر کیا۔ اس ہستی سے ملنے والے اس سبق پر مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کو توجہ دینا چاہئے۔ اس دور میں انسانیت کو کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ، ان تعلیمات اور اسباق کی ضرورت ہے۔ اسلام جو آئین مسیح کی تکمیل کے لئے آیا، خیر ونیکوکاری اور تکامل و پرہیزگاری کواپنا سرلوحہ پیغام قرار دیتا ہے۔ گمراہ افراد کا عالم یہ ہے کہ فطری صلاحیتوں کے ذریعے حاصل ہو جانے والی طاقت کا استعمال کرکے اس کے ٹھیک مخالف سمت میں قدم بڑھاتے ہیں، نتیجے میں ادیان الہی کے پیروکاروں کا کام دشوار ہو جاتا ہے۔ حضرت عیسی مسیح کی تعلیمات سے بے بہرہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں عیسائيت کے لبادے میں مظلوم افراد اور قوموں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور ان پر کوئي بھی ظلم ڈھانے سے گریز نہیں کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کی نظر میں حضرت عیسی مسیح علیہ السلام کی قدر و منزلت، آپ پر سچا ایمان رکھنے والے عیسائيوں کی نظر میں جو آپ کی قدر منزلت ہے اس سے کم نہیں۔ اس پیغمبر الہی نے لوگوں کے درمیان گزرنے والی اپنی زندگی کا ہر لمحہ جد و جہد میں گزارا تاکہ ظلم و استبداد کا خاتمہ ہو جائے اور ان افراد کو، جو سیم و زر اور زور بازو کے سہارے قوموں کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے اور انہیں دنیا و آخرت کے جہنم کی سمت گھسیٹ رہے تھے، اس عمل سے باز رکھا جا سکے۔ اس نبی خدا کو بچپن سے ہی، کیونکہ اسی وقت سے آپ کو نبوت عطا کر دی گئي تھی، جن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا وہ سب اسی تبلیغ کا نتیجہ تھیں۔ توقع یہ کی جاتی ہے کہ حضرت عیسی مسیح کے پیروکار اور وہ تمام افراد جو آپ کو عظیم معنوی منزلت پر فائز سمجھتے ہیں اس راہ میں ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اسلامی جمہوریہ میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ برادرانہ اور دوستانہ ہے۔ ہمارے ذہن میں یہ رہتا ہی نہیں کہ فلاں شخص تو کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور ہمارے طرز فکر، ہمارے دین اور ہمارے اسلام کا پیروکار نہیں ہے۔ ان کے گھروں میں ہماری آمد و رفت رہتی ہے۔ ہم برسوں سے عیسوی سال کے آغاز پر عیسائي شہدا کے گھروں پرجاتے ہیں۔ ان کے گھر جاتے ہیں ان کے بال بچوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں، بات چیت ہوتی ہے، خاطر مدارات کا سلسلہ بھی رہتا ہے اور ایک لمحے کے لئے بھی ذہن میں یہ نہیں آتا کہ ان کا تعلق کسی اور مذہب سے ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں اس کا تصور ہی نہیں ہے کہ اگر کوئي شخص کسی اور مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی مخالفت کی جائے، اس کی ہمارے یہاں گنجائش ہی نہیں ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد جب امریکی صدر نے بے ساختہ کہہ دیا کہ صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے اور پھر بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر لیپا پوتی کی کوشش کی گئی تو اس وقت کسی نے اس نکتے پرتوجہ نہیں دی کہ صلیبی جنگ کیا ہے۔ صلیبی جنگ عیسائي اور مسلمان قوموں کی جنگ ہے۔ یہ لوگ ان جنگوں کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ قومیں ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہو جائیں۔ دنیا کے مسلمان اور عیسائی دونوں ہوشیار رہیں کہ کہیں ان خبیث سیاستدانوں کے جھانسے میں نہ آ جائیں۔ آج دنیائے عیسائيت اور یورپ میں صیہونی ہاتھ انہیں سازشوں میں مصروف ہیں۔ اب تو کسی کو اس بات میں شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے خوبصورت پیرائے میں پنہاں صلیبی جذبات، بیشتر یا سبھی مغربی طاقتوں پر غالب آ چکے ہیں۔ وہ اسلام کی ہر نشانی و علامت اور مسلمانوں کی سانس تک کی دشمن ہیں۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات پر ان کا کوئي عقیدہ نہیں ہے۔ انہیں تو بس اپنے مفادات اور ہوسرانی سے دلچسپی اور ان مفادات کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز سے بے انتہا عناد ہے۔ انہیں اس کے علاوہ دنیا کی کسی چیز سے کوئي مطلب نہیں۔ وہ کلمۃ اللہ (حضرت عیسی مسیح) جس نے انسانی اقدار سے بے توجہی اور جہالت و گمراہی کے دور میں انسانیت کی ہدایت و نجات کا پرچم بلند کیا اور ستمگر طاقتوں کو للکارا، جس نے عدل و انصاف اور توحید وعبادت کا پیغام دیا آج اس کی پیغمبری پر ایمان رکھنے والوں، عیسائيوں اور مسلمانوں، کو چاہئے کہ پیغمبروں کی تعلیمات پر پھر سے توجہ دیں اورعالم بشریت کے ان عظیم معلمین سے ملنے والے درس کے عام کریں۔ اگر حضرت عیسی مسیح علیہ السلام آج ہمارے درمیا ن ہوتے تو عالمی سامراج اور ظلم و استبداد کا کاروبار چلانے والوں کا قلع قمع کرنے میں ایک لمحے کے لئے بھی تامل نہ کرتے۔ آپ اربوں انسانوں کی غربت و بھکمری کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے استحصال اور جنگ و فساد کے نتیجےمیں اس انجام کو پہنچے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ کسی بھی مذہب اور مکتب فکر، کسی بھی تہذیب و ثقافت اور کسی بھی فلسفیانہ نظرئے میں آزادی کی اس شکل کو اقدار میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ جس میں انسان ہر قید و شرط سے آزاد ہو، اس کے سامنے کہیں کوئي رکاوٹ نہ ہو اور جو اس کے جی میں آئے کرے۔ دنیا میں کوئي بھی ایسی آزادی کا قائل نہیں ہے اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ کوئی یہ آزآدی حاصل کرلے۔ فرض کریں کہ کسی معاشرے میں انسانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ جو جی میں آئے کریں ان کے لئے کوئي روک ٹوک نہ ہو تو خود یہی آزادی دوسرے بہت سے افراد کی آزادی سلب کر لے گی، ان کا چین و سکون چھین لے گی۔ صحیح معنی میں آزادی جو آلائشوں، ہوی و ہوس اور مادیات کے بندھن سے روح انسانی کی نجات سے عبارت ہے، ہمیں صرف اور صرف الہی مکاتب فکر میں مل سکتی ہے۔ مغربی افکار میں تو آپ اس کی بو بھی نہیں محسوس کر پائيں گے۔ انقلاب فرانس کے دوران، اٹھارہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جس آزادی پر بحث شروع ہوئي وہ تو اس آزادی کے مقابلے میں بہت محدود اور بے ارزش ہے جو انبیاء الہی اور دینی مکاتب فکر میں بیان کی گئی ہے۔ مغربی ثقافت میں آزادی کا خاکہ کھینچنے والا قانون صرف سماجی امور اور پہلؤں کو دیکھتا ہے۔ بایں معنی کہ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی انسان کی آزادی سے دوسرے کی آزآدی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور اس سے دوسروں کے مفادات خطرے میں نہیں پڑنے چاہئیں۔ اسلام میں آزادی کی حدیں کچھ اور ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ آزادی سے استفادے کے لئے اس بات کا خیال رکھنے کے ساتھ کہ دوسروں کی آزادی اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے اس بات پر بھی توجہ رکھنی ہوگی کہ خود اپنے ذاتی مفادات بھی خطر میں نہ پڑنے پائیں۔ انسان آزادی اور اختیار کےنام پر اپنے مفادات بھی خطرے میں ڈالنے کا حق نہیں رکھتا۔ مغربی لبرلزم میں آزادی، دین اور خدا جیسی عظیم حقیقتوں سے جدا ہے۔ اسی لئے اس مکتب فکر کے لوگ یہ نہیں مانتے کہ آزادی، خداداد شئ ہے۔ کوئي نہیں کہتا کہ انسان کو آزادی اللہ تعالی سے ملی ہے۔ وہ اس کا کوئي اور فلسفیانہ سرچشمہ تلاش کرتے ہیں۔ اسلام میں آزادی، خداداد شئ قراد دی جاتی ہے۔ ایک تو یہی بڑا بنیادی فرق ہے جس سے اوربہت سے فرق پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نظر سے آزادی کے خلاف اقدام ایک الہی شئ کے خلاف اقدام کے مترادف ہے۔ مغربی لبرلزم میں آزادی اور فرائض میں تضاد ہے، یعنی(اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ) انسان ہر طرح کے فرائض سے آزاد ہے لیکن اسلام میں آزادی سکہ کا ایک رخ تو فرائض اس کا دوسرا رخ ہے۔ انسان آزآد ہی اس لئے ہیں کہ ان پر فرائض عائد ہیں۔ اگر ان پر فرائض نہ ہوتے تو ازادی کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ انسان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ متضاد خواہشات اور جذبات کا مجموعہ ہے اور اسے یہ حکم ہے کہ ان گوناگوں جذبات کے بیچ سے کمال و تکامل کا سفر طے کرے۔ اسے آزادی دی گئی ہے تکامل کی راہ طے کرنے کے لئے۔ ان اقدار پر استوار آزادی، تکامل کے لئے ہے۔ یورپ میں حجاب کے سلسلے میں برپا ہنگامے کو دیکھئے۔ آزادی کے تو بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے لیکن ایک دوسرے مکتب فکر کی اس معمولی سی نشانی اور رجحان کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں۔ جب ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کرنے والے مصنف پر اعتراض ہو تو فورا آزادی اظہار خیال اور آزادی فکر کی رٹ لگا دیتے ہیں اور جب نوبت آتی ہے کسی مسلمان خاتون یا لڑکی کی جو اپنی مذہبی روایات کے مطابق لباس پہننا چاہتی ہے تو پھر انہیں آزادی یاد نہیں رہتی، پھر تو ان کے انداز ہی بدل جاتے ہیں۔ اب غیر اخلاقی اور دوسروں کی آزادی کو نقصان پہنچانے والی اس حرکت کو قدامت پسندی کے خلاف جد و جہد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اسلام قوموں کو آزادی عطا کرتا ہے، خود ان کی ذاتی زندگی میں انہیں مطلق العنان اور استبدادی طاقتوں، خرافات اور جہالتوں، جاہلانہ تعصب اور کدورتوں سے آزادی دلاتا ہے اسی طرح اقتصادی طاقتوں کے چنگل اور استکبار کے سیاسی دباؤ سے نجاد دلاتا ہے۔ آزادی الہی تحفہ اور انقلاب کا ثمر ہے آزآدی عوام کا حق اور ان کی فطرت کا جز ہے۔ مشرق وسطی کے پورے علاقے بلکہ دنیا میں بھی بہت کم ہی ملک ایسے ہوں گے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران جیسی آزادی ہو۔ یہ وہ نظام اور وہ ملک ہے جہاں انقلاب کی کامیابی کو ابھی دو مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ عوام نے حق رای دہی کا استعمال کیا اور اسلامی جمہوری نظام کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا۔ آزادی اسے نہیں کہتے کہ کوئی اس کے بہانے استحصال شروع کردے جیسا کہ دنیا میں آج دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آزادی کے نام پر بد ترین جرائم کا ارتکاب کیا گيا ہے اور انسانی نسلوں کو شہوانیت اور اخلاقی انحطاط کی نذر کر دیا گيا ہے۔ آزادی کے نام پر مغربی مکاتب فکر اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے ذہنوں سے حقیقی آزادی کا مفہوم مٹا دیا گيا ہے۔ ای آزادی! بہ نام تو چہ جنایتھا کے انجام نمی گیردہائے رے آزادی تیرے نام پر کیا کیا جرائم نہیں کئے جاتے؟! آج ہمارے دشمن اسی جملے کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں۔
موجودہ دور میں عالم اسلام میں امریکہ اور سامراج کا ایک بنیادی ہدف، تفرقہ و اختلافات کی آگ بھڑکانہ ہے اور اس کا بہترین طریقہ اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں سامراج کے پروردہ عناصر آج عراق کے مسائل کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں؟! کس طرح زہرافشانی کر رہے ہیں اور دشمنی کے بیج بو رہے ہیں؟! مغرب کی تسلط پسند اور جاہ طلب طاقتیں برسہا برس سے اس کام میں مصروف ہیں۔ بہت ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ہر وقت اور ہر موقع پر چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ شیعہ سنی جنگ امریکہ کا مرغوب ترین مشغلہ ہے۔ مسلم اقوام اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو معمولی نہ سمجھیں۔ اپنی بیداری و ہوشیاری کی حفاظت کریں۔ یہ وقت مسلم اقوام کے اتحاد اور یکجہتی کا متقاضی ہے۔ میں اپنی قوم، ملت عراق، ملت پاکستان اور دیگر مسلم اقوام کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ شیعہ، سنی اختلاف پر قابو پائیں۔ مجھے وہ ہاتھ نظر آ رہے ہیں جو مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی جنگ شروع کروانے میں لگے ہیں۔ قتل عام کے جو واقعات ہو رہے ہیں، مساجد، امام بارگاہوں، نماز جماعت اور نماز جمعہ میں جو دھماکے ہو رہے ہیں ان میں صیہونزم اور عالمی استکبار کا پورا پورا ہاتھ ہے۔ یہ کام مسلمان انجام نہیں دے رہے ہیں۔ عراق، ایران، پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے ہمیں ملنے والی اطلاعات، دنیائے اسلام میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات میں صیہونیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کا براہ راست یا بالواسطہ ہاتھ ہونے کی غمازی کرتی ہیں۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ، سنی فرقے میں شامل ہو جائیں اور سنی شیعہ بن جائیں، یہ مراد نہیں ہے کہ ایک مذہب دوسرے میں ضم ہو جائے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے کہ شیعہ اور سنی حتی المقدور اپنے عقائد کے علمی استحکام کی کوشش نہ کریں۔ علمی کام تو مستحسن ہے اس میں کوئی مضایقہ نہیں ہے۔ بعض افراد اتحاد بین المسلمین کا ہدف حاصل کرنے کے لئے مذاہب کی نفی کی بات کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے۔ مشکلات کا حل مذاہب کو صحیح انداز سے ثابت کرکے ممکن ہوگا۔ جو بھی فرقے ہیں وہ اپنے اپنے دائرہ کار میں معمول کے امور انجام دیں لیکن ایک دوسرے سے اپنے تعلقات بہتر کرنے پرخاص توجہ دیں۔ علمی کتابیں لکھیں لیکن یہ کام علمی فضا میں انجام پائے، اس کےباہر نہیں۔ اگر کوئي اپنی بات منطقی انداز میں ثابت کر دیتا ہے تو ہم اسے ایسا کرنے سے نہ روکیں لیکن اگر کوئی شخص اپنے بیان، کردار یا کسی اور طریقے سے اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہے تو ہمارے خیال میں یہ تو دشمن کی خدمت ہے۔ اہل سنت کوبھی محتاط رہنا چاہئے اور شیعوں کو بھی۔ ہر شخص اپنے عقیدے اور اقدار کا احترام کرتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے لیکن یہ عمل کسی دوسرے فرقے کی اقدار کی توہین کا باعث نہ بننے پائے جس کے عقائد ہم سے الگ ہیں۔ ہم ایک اسلام، ایک کعبے، ایک پیغمبر، ایک نماز، ایک حج، ایک جہاد اور ایک ہی شریعت کو ماننے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔ مماثلتوں کے مقابلے میں اختلافی باتیں کئي گنا کم ہیں۔ اسلام دشمن طاقتیں، ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کے شعلے دیکھنا پسند کرتی ہیں۔ میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کو شیعہ اور سنی اسی طرح دیگر فرقوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہ بنائیے۔ امیر المومنین علیہ السلام تو نقطہ اتحاد ہیں، نہ کہ نقطہ اختلاف۔ ملک کے گوشے گوشے میں آباد ہمارے بھائی بہن اس بات پر یقین رکھیں کہ امیر المومنین علی علیہ السلام نقطہ اتحاد ہیں۔ پورا عالم اسلام امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے عقیدت سے ہاتھ جوڑے کھڑا ہے۔ پوری تاریخ اسلام میں، وہ چاہے اموی دور ہو یا عباسی دور، کچھ گروہ امیر المومنین علی علیہ السلام سے دشمنی رکھتے تھے، لیکن مجموعی طور پر عالم اسلام جس میں شیعہ سنی دونوں شامل ہیں، امیر المومنین علی علیہ السلام کا عقیدتمند رہا ہے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شان میں اہل سنت کے ائمہ فقہ نے طبع آزمائی کی ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی شان میں کہے گئے معروف اشعار امام شافعی سے منسوب ہیں۔ انہوں نے حضرت علی علیہ السلام ہی نہیں تمام یا پھر اکثر ائمہ اہلبیت سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ہم شیعوں کے نزدیک ان بزرگوار شخصیتوں کا مقام بالکل عیاں ہے۔ بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے بھی عناصر ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہر جائز ناجائز کام کرنے کو تیار ہیں اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دے رے ہیں۔ میں آج واضح طو پر کچھ ہاتھ دیکھ رہا ہوں جو ہمارے بعض ہمسایہ ممالک میں، عمدا اور پوری منصوبہ بندی کےساتھ شیعہ، سنی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، فرقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہے ہیں، سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی دشمنی پر اکسا رہے ہیں تاکہ حالات کا فائدہ اٹھا کر اپنا الو سیدھا کر سکیں اور مسلم ممالک میں ان کے ناجائز مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ شیعوں کو اہل سنت اور اہل سنت کو شیعہ کے خلاف مشتعل کر رہے ہیں وہ نہ تو شیعوں کے ہمدرد ہیں اور نہ ہی اہل سنت سے انہیں کوئی دلچسپی ہے۔ وہ سرے سے اسلام ہی کے دشمن ہیں۔ رحماء بینھم یعنی مسلمان بھائي آپس میں ایک دوسرے کے ہمدرد بنیں۔ دشمن دونوں طرف سے حملے کر رہا ہے۔ ایک طرف تو غلو اور دشمنی اہلبیت کی ترویج کر رہا اور شیعوں کو اہل سنت کی نگاہ میں سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کر رہا ہے اور بد قسمتی سے مذاہبی انتہا پسندی کے شکار بعض افراد اس کا یقین بھی کربیٹھے ہیں، دوسری طرف شیعہ کو اہل سنت کے عقائد کی بے حرمتی اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے پر اکساتا ہے۔ دشمن کی سازش یہ ہے کہ یہ دونوں فرقے ہمیشہ لڑتے مرتے رہیں۔ دشمن ایسے زاوئے سے اقدام کرتا ہے کہ ممکن ہے آپ متوجہ نہ ہوسکیں اور اس کی جانب سے غافل رہ جائیں۔ لہذا ہوشیار رہئے اور دشمن کو ہر روپ میں پہچاننے کی کوشش کیجئے ولتعرفنھم فی لحن القول اس کی باتوں سے بھی اسے پہچانا جا سکتا ہے۔ ہمارے عوام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ جن علاقوں میں مختلف مذاہب اور فرقوں کے افراد آباد ہیں اور اختلافات پیدا ہونے کا امکان ہے وہاں مذہبی اور نسلی ٹکراؤ سے خاص طور پر پرہیز کرتے ہیں۔ دشمن کو یہی نہیں پسند ہے۔ شیعہ، سنی جنگ دشمن کے لئے بہت قیمتی اور اہم ہے۔ امت مسلمہ اختلافات کی شکار رہے تو اس سے معنویت و روحانیت، شادابی و تازگی، قدرت و طاقت، اور قومی شکوہ و عظمت سب کچھ مٹ جائے گا جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے وتذھب ریحکماس سلسلے میں جو عوامل اتحاد کا مرکز قرار پا سکتے ہیں ان میں ایک نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات ہے۔ مسلم دانشوروں کو چاہئے کہ اسلام کے سلسلے میں وسیع النظری کا ثبوت دیتے ہوئے اس عظیم شخصیت، اس کی تعلیمات اور اس کی محبت و عقیدت کے سلسلے میں محنت کریں۔ اتحاد بین المسلمین کے مسئلے کو شیعہ ہوں یا سنی اسی طرح ان سے نکلنے والے دیگر فرقے، بہت سنجیدگی سے لیں۔ تمام مسلمان اتحاد پر خاص توجہ دیں۔ اتحاد بین المسلمین کا مطلب پوری طرح واضح ہے۔ یہ مسلمالوں کے لئے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ یہ کوئي نعرہ نہیں، یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ مسلم معاشروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ البتہ اتحاد ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اتحاد قائم کرنا ایک دشوار کام ہے لیکن مسلم اقوام کا اتحاد ان کے مکاتب فکر میں تنوع کے ساتھ ممکن ہے، ان کا طرز زندگی الگ الگ ہے ان کے آداب و رسومات مختلف ہیں، ان کی فقہ الگ الگ ہے لیکن ان میں اتحاد ہو سکتا ہے۔ مسلم اقوام کے درمیان اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرے سےہم آہنگی بنائے رکھیں، ایک ہی سمت میں بڑھیں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور قوموں کے اندرونی وسائل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ کریں۔
ہر نظام کے لئے اصلاح ضروری ہے۔ یہ ہر معاشرے کی بنیادی ضرورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ ہمیں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اصلاح یعنی یہ کہ تمام خوبیوں اور کمیوں کی فہرست تیار کی جئے اور کمیوں کو خوبیوں میں تبدیل کیا جائے۔ یہ انقلابی اصلاح ہے، یہی اسلامی اصلاح ہے۔ جہاں تک اسلامی نظام اور انقلاب کے دشمنوں کا تعلق ہے تو وہ اس نظام کے بنیادی ڈھانچے کو ہی پسند نہیں کرتے اور ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب ہےنظام کی مکمل تبدیلی، اسلامی جمہوری نظام کی سامراجی دشمنوں کے اشارے پر چلنے والے نظام میں تبدیلی۔ اگر حقیقی اصلاح کی بات کریں تو اس کی ضرورت ملک کے ہر شعبے میں ہے۔ کوئي بھی ادارہ خود کو اصلاح اور تنقید سے بالاتر نہیں سمجھ سکتا۔ ملک کے تمام اداروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جانی چاہئے اور سب کو نظام کے بنیادی اہداف کے تحت اور اسی کے تناظر میں اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ اصلاح ایک لازمی حقیقت ہے اور یہ عمل ملک میں انجام پانا چاہئے۔ ہمارے ملک میں اصلاح کے لئے اجبار کا راستہ نہیں اختیار کیا جاتا کہ کوئي حکمراں شدید مطالبات سے مجبور ہوکر یہاں، وہاں کچھ اصلاحاتی اقدام کر دے، نہیں، اصلاح ہمارے نظام کی دینی اور انقلابی ماہیت ور تشخص کا جز ہے۔ اگر بار بار اصلاح نہ کی جائے تو نظام بگڑ سکتا ہے، غلط سمت میں جا سکتا ہے۔ اصلاح تو فریضے کا درجہ رکھتی ہے۔ اصلاحات یا تو انقلابی، اسلامی اور ایمانی ہوتی ہیں جن پر ملک کے تمام حکام، تمام صاحبان فکر و نظر اور جملہ عوام متفق ہیں یا پھر اصلاحات امریکی انداز کی ہوتی ہیں جس کے خلاف تمام حکام، ہر مومن فرد اور پوری قوم ہے۔ امریکی، ایران میں جس اصلاح کے خواہاں ہیں وہ عین بد عنوانی اور اخلاقی انحطاط ہے۔ امریکیوں کی نظر میں اصلاح کا مطلب اسلامی جمہوری نظام کا خاتمہ ہے۔ بڑی طاقتیں جو کچھ بھی کرتی ہیں اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر کرتی ہیں۔ اگر اصلاح پسندی کی حمایت کا نعرہ بلند کرتی ہیں تو اس میں صداقت نہیں ہوتی۔ وہ حقیقی اصلاح کی کبھی بھی حمایت نہیں کریں گی، حقیقی اصلاح کی تو وہ سب سے بڑی مخالف ہیں۔ اصلاحات کا بنیادی مقصد، غربت، تفریق اور بد عنوانی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر حقیقی معنی میں اصلاح ہے تو وہ انہی محوری نکات کے ارد گرد گھومتی نظر آئے گی۔ معاشرے کی سب سے بڑی برائی غربت اور طبقاتی فاصلہ ہے۔ کسی بھی سماج کی سب سے بڑی برائي یہ ہے کہ بعض افراد مالی بد عنوانیاں اور غبن کریں، قومی خزانے سے اپنے مفادات پوے کریں۔ بد ترین برائي یہ ہے کہ قوانین کے نفاذ میں تفریق و امتیاز کا رویہ اختیار کیا جائے اور لوگوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو نظر انداز کیا جائے۔ وہی غربت اور وہی تفریق جس کے بارے میں بارہا میں عرض کر چکا ہوں۔ اصلاح کا سب سے پہلا قدم، تہذیب نفس اور اپنی ذاتی اصلاح ہے یعنی نظام کے ان حکام اور عہدہ داران کو چاہئے کہ خود کو غیر اسلامی رفتار و کردار اور طور طریقوں سے نجات دلائيں۔ یہ ہو گیا تو تمام کام بڑی خوش اسلوبی سے آگے بڑھیں گے۔ اگر اصلاحات، ترقی اور خلاقیت کی بنیاد، انقلابی اقدار کو قرار نہ دیا جائے تو معاشرہ ناکامی اور تنزلی کی سمت بڑھے گا۔ یہ بنیادی اصول ہے۔ اقدار کا پاس و لحاظ کریں، ان کے سلسلے میں تفریق و امتیاز سے اجتناب کریں، انہی اقدار کے تناظر میں پیشرفت و ترقی کی منزلوں کی جانب پوری سنجیدگي کے ساتھ پیش قدمی کریں۔ اصلاحات کی تعریف کیا ہے یہ واضح ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو خود ہمیں جو اصلاحات نافذ کرنا چاہتے ہیں اس کے معنی و مفہوم کو پوری تفصیلات کے ساتھ سمجھنا ہوگا تاکہ بالکل واضح رہے کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ دوسرے مرحلے پر ہم عوام کو ان اصلاحات سے متعارف کروائیں اور بتائيں کہ اصلاحات سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق اصلاحات کی تعریف نہ کر سکے۔ اگر اصلاحات کی صحیح طور پر تعریف نہ کی جائے تو لوگ اپنی اپنی مرضی کے مطابق اس کا مفہوم پیش اور مسلط کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصلاحات کے نفاذ اور نگرانی کا عمل با صلاحیت اور متحمل مزاج افراد پر مشتمل مرکز کے ذریعے انجام پانا چاہئے، کیونکہ بہت سے کام ہیں جو دس سال کے عرصے میں بحسن و خوبی انجام پاتے ہیں اگر انہیں دو سال میں تمام کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ کوشش نا قابل تلافی نقصان پر منتج ہوگی۔ (دوسرا مسئلہ) اصلاحات کے وقت آئين کے بنیادی ڈھانچے کی حفاظت ہے۔ آئین میں سب سے زیادہ اسلام کو اہمیت دی گئی ہے اور تمام قوانین اور ہر انتخاب کے لئے اسلام کو سرچشمہ قرار دینے پر تاکید کی گئي ہے۔ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا پوری توجہ کے ساتھ پاس و لحاظ کرنا ضروری ہے۔ آئين ہمارا سب سے بڑا قومی، دینی اور انقلابی میثاق ہے۔ بعض شعبوں میں اصلاحات کا عمل، پیچیدہ، دشوار اور سست رو ہوتا ہے مثلا اقتصادی شعبے میں آمدنی کی منصفانہ تقسیم کا مسئلہ ایسا ہی ہے۔ یہ بڑا دشوار کام ہے۔ غربت کی بیخ کنی اور محروم علاقوں پر توجہ اور دفتری سسٹم میں بہتری کی کوشش انہی اصلاحات کا حصہ ہیں۔
سیاست، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیانسان جو سرگرمیاں اور کوششیں انجام دیتا ہے ان میں بعض کا تعلق خود اس کے ذاتی مسائل اور امور سے ہوتا ہے جو انسانی سرگرمیوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ مثلا معیشت، معنویت، جذبات و احساسات، لوگوں سے ذاتی تعلقات وغیرہ۔ لیکن انسان کی سرگرمیوں کا اہم حصہ وہ ہے جو وہ معاشرے کی سطح پر اجتماعی شکل میں انجام دیتا ہے، اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ اقتصادی سیاست، سماجی سیاست، فوجی سیاست، ثقافتی سیاست، عالمی سیاست یہ انسانی زندگی کی اہم اور بنیادی سرگرمیاں ہیں۔ بنیادی کیوں؟ کیونکہ یہ سیاستیں انسان کی سرگرمیوں کو خاص سمت اور رخ عطا کرتی ہیں۔ انسان کی سب سے اہم سعی و کوشش وہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ذاتی، معمولی اور چھوٹی موٹی سرگرمیوں کو بھی با ہدف بناتا اور خاص رخ دیتا ہے۔ دین کا تعلق ان دونوں شعبوں سے ہے۔ ذاتی سرگرمیوں کے شعبے سے بھی اور سیاست کے شعبے سے بھی کہ جو انسانی زندگی کا بہت وسیع شعبہ ہے۔ ہجرت کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سب سے پہلا قدم، حکومت کی تشکیل اور معاشرے کو سیاسی نظم و نسق عطا کرنا تھا۔ دوسرے بہت سے شواہد ہیں جو دین و سیاست کے گہرے رشتے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جی ہاں، دین محمدی سیاست کو دین کا ایک جز اور اٹوٹ حصہ مانتا ہے اور تمام مسلمانوں کو اس دین کی طرف سے سیاسی شعور اور سیاسی کارکردگي کی دعوت دی گئی ہے۔ دین اسلام بلکہ تمام ادیان الہی میں سیاست، علم و دانش، انسانی زندگی اور سماجی امور کو محور قرار دیا گيا ہے۔ دین تمام شعبوں منجملہ سیاسی شعبے میں انسانی زندگی کو نظم و ترتیب عطا کرتا ہے۔ سامراج کی لعنت جس نے درجنوں ممالک اور دسیوں لاکھ انسانوں کو برسہا برس تک سخت ترین حالات سے دوچار کئے رکھا در حقیقت نتیجہ ہے علم کی روحانیت سے، سیاست کی معنویت سے اور حکومت کی اخلاقیات سے جدائی اور علاحدگي کا جو یورپ میں رونما ہوئی۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگیں، کمیونزم، خاندانی ڈھانچے کی نابودی، جنسی بد عنوانیوں کا سیلاب، سرمایہ دارانہ نظام کا استبداد، یہ سب کچھ اسی جدائي اور علاحدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاست عین دین اور ہمارا دین عین سیاست ہے، واقعی مدرس مرحوم نے کتنی اچھی بات کہی تھی اور امام (خمینی رہ) نے بھی اس کی تائید کی تھی، اس (نعرے) کا پیغام بہت واضح ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہماری سیاست، دیندارانہ اور پرہیزگارانہ ہونا چاہئے۔ ہر سیاسی فعل پسندیدہ نہیں ہے۔ بعض افراد سیاسی امور کو ایسے امور کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ہدف یہ ہوتا ہے کہ اس کام کو (خالص) سیاسی انداز میں انجام دیا جائے۔ یہ درست نہیں ہے۔ سیاسی کام دیندارانہ شکل میں ہونا چاہئے۔ شریعت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے، سیاسی میدان میں بھی اس پر توجہ دی جانی چاہئے اس (شریعت کے حکم) کا احترام کیا جانا چاہئے۔ البتہ سیاست کو دو خطرے ہمیشہ لاحق رہے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ سیاست اخلاقیات سے جدا ہو جائے، روحانیت، معنویت اور فضیلت سے عاری ہو جائے یعنی سیاست پر شیطنت کا غلبہ ہو جائے، سیاست لوگوں کی نفسانی خواہشات کا کھلونا بن جائے، سیاست معاشروں کے طاقتور اوردولتمند افراد کے مفادات کے جال میں پھنس کر کبھی ادھر تو کبھی ادھر کھینچی جانے لگے۔ اگر سیاست اس مصیبت کا شکار ہوئي تو انسانی زندگی کے تمام سماجی شعبے اس آفت سے متاثر ہوں گے۔ سیاست کے لئے دوسرا خطرہ یہ ہے کہ تنگ نظر، بچکانہ سوچ والے اور نا اہل افراد کا اس پر غلبہ ہو جائے اور سیاست با صلاحیت افراد کے ہاتھوں سے نکل کر بے لیاقت افراد کے ہاتھوں میں پہنچ جائے۔ (اقتباس)
دین، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سےبسمہ تعالیدین سب سے پہلے مرحلے میں تو ایک علم اور معرفت ہے۔ اس دنیا کی معرفت و شناخت، بشر کی شناخت، منزل و ہدف اور راستے کی شناخت، یہ ساری معرفتیں دین کے ستون ہیں۔ دین انسان کو کائنات کے محور کے طور پر دیکھتا ہے۔ انسان وہ بے نظیر ہستی ہے جو اپنی فکری کوششوں سے سربستہ راز کھول اور نئے نئے میدانوں کو سر کر سکتا ہے۔ دنیا، دین کے پیغام، کارکردگي اور فرائض کی ادائگی کا میدان ہے۔ دین اس عظیم اور گوناگوں صفات کی حامل کائنات میں آکر انسانی زندگی اور سرگرمیوں کو نظم و ترتیب اور ہدف و سمت عطا کرتا ہے، انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ اس تعریف کی رو سے دین و دنیا ایک دوسرے کا سہارا ہیں اور ان کو علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ دین کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے لئے دنیا کے علاوہ کوئي میدان نہیں مل سکتا اور دنیا، دین کے تعمیری اور تخلیقی کردار کے بغیر ایسی جگہ بن جائے گی جہاں نہ معنویت ہوگی نہ روحانیت، نہ حقیقت ہوگی نہ محبت، نہ زندگی ہوگي نہ روح، یعنی دین کا عنصر نہ ہو تو انسانی زندگی جنگل راج کی مصداق بن کر رہ جائے گی۔ اس عظیم اور بے کراں وادی میں انسان کو احساس تحفظ کی ضرورت ہے تاکہ وہ معنوی اور روحانی تکامل اور بلندی کا سفر طے کر سکے۔ ان چیزوں کی رو سے دیکھا جائے تو دنیا کو دین سے الگ کرنے کا مطلب ہوگا زندگی، سیاست اور معیشت کو روحانیت سے عاری بنا دینا، اس کا مطلب ہوگا عدل و انصاف اور روحانیت کی نابودی۔ دنیا کو اگر انسانی زندگی کے اہم ترین اور سنہری مواقع اور جا بجا بکھری نعمتوں، پر کشش اور حسین مناظر اور تلخیوں اور رنج و آلام کی حیثیت سے دیکھا جائے تو یہ انسانی کاملیت اور سربلندی کا وسیلہ ہے۔ دین کی نگاہ میں یہ ایسے وسائل ہیں جن کے سہارے انسان منزل کمال کی سمت رواں دواں رہ سکتا ہے اور اپنی ان صلاحیتوں کو نمایاں کر سکتا ہے جو اللہ تعالی نے اسے ودیعت کر دی ہیں۔ دنیا کو اس نظر سے دیکھا جائے تو اسے دین سے الگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہاں دنیا کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اسلام میں دنیا کو نفسانی خواہشات، خود غرضی اور ھوا و ہوس کا اسیر ہو جانے اور دوسروں کو اپنی ھوا و ہوس کا شکار بنانے کے معنی میں بھی متعارف کرایا گيا ہے۔ روایات میں منفور دنیا یہی ہے جو دین کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ ہماری نظر میں عوام ہی سب کچھ ہیں۔ اسلامی طرز فکر اور تعلیمات میں اللہ تعالی کو محور قرار دئے جانے اور عوام کو محور قرار دینے میں کوئي تضاد اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جس ملک کے عوام دیندار اور مذہبی نہ ہوں وہاں دینی حکومت کا قیام نا ممکن ہے۔ وہاں دینی معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ بنابریں کسی ملک میں اسلامی حکومت کا وجود وہاں کے عوام کی دینداری کا ثبوت ہے، یعنی وہاں کے عوام نے ایسی حکومت کی خواہش کی تب یہ حکومت وجود میں آئی۔ دین خدا کی حکومت اور بالادستی کا ہدف مظلوموں کی مدد اور الہی احکامات و تعلیمات پر عملدرآمد ہے۔ کیونکہ سعادت و خوش بختی الہی احکامات پرعمل سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ عدل و انصاف دینی احکام پر عملدرآمد سے ہی ممکن ہے۔ کیونکہ انسان کی حریت و آزادی دینی احکام پر عمل کرنے سے مل سکتی ہے۔ آزادی اور کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ انسانی ضرورتوں کی تکمیل تو دینی احکامات کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ بنیادی ضرورتوں کے اعتبار سے آج کے انسان اور ہزارہا سال قبل کے بشر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہی تو ہیں؛ اسے تحفظ چاہئے، آزادی چاہئے، معرفت و علم چاہئے، چین کی زندگی چاہئے، تفریق و امتیاز سے نجات چاہئے، ظلم سے چھٹکارا چاہئے۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتیں انہی ضرورتوں کی تکمیل کی صورت میں ہی پوری ہو سکتی ہیں۔ جبکہ بنیادی ضرورتوں کی تکمیل دین خدا ہی کر سکتا ہے کوئي اور نہیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین لائے، آپ نے انسانی زندگی کو ہدف اور سمت عطا کی، روحانیت و معنویت پر تکیہ کیا لیکن ساتھ ہی جگہ جگہ پر امت کو مادی وسائل کی جانب بھی متوجہ کیا۔ زندگی کے امور چلانے کیلئے ضروری اطلاعات اور مہارت مہیا کرائي۔ کہیں پیچیدگي پیدا ہوئي تو لوگوں کو حکم دیا کہ جاؤ علم حاصل کرو، جاؤ چیزوں کا مشاہدہ کرو، نظریات قائم کرنے کی کوشش کرو۔قرون وسطی، یورپیوں کے لئے تاریکی و ظلمت کی صدیاں اور ہم مسلمانوں کے لئے آفتاب علم کی ضو فشانی کی صدیاں تھیں۔ یورپی اس حقیقت کو چھپاتے ہیں اور مغربی مورخین اسے زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔ ہم نے بھی انہی کی باتوں کا اعتبار کر لیا ہے۔ انیسویں صدی جو مغرب میں علمی تحقیقات کے اوج کا زمانہ ہے وہ در حقیقت دین سے علاحدگي اور انسانی زندگی سے دین کی رخصتی کا زمانہ ہے۔ اس نظرئے کا اثر ہمارے ملک پر بھی پڑا اور ہماری یونیورسٹی حقیقت میں غیر مذہبی بنیادوں پر قائم کی گئی۔ علما نے یونیورسٹیوں سے منہ پھیر لیا اور یونیورسٹی نے علما اور دینی تعلیمی مراکز سے رشتہ توڑ لیا۔ جو افراد دین کی حمایت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سیاسی امور میں دین کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے انہیں خبر نہیں ہے کہ اسلام کے اقتدار اور احیاء کے عمل کے خلاف سامراجی طاقتوں کا تشہیراتی نعرہ یہی ہے۔ البتہ دین اور سیاست میں جدائی کا موضوع صدیوں سے زیر بحث ہے۔ پہلے ان استبدادی طاقتوں نے جو معاشرے کو اپنے چنگل میں جکڑے ہوئے تھیں اور ملک و قوم کے ساتھ ہر سلوک روا رکھتی تھیں، اس مسئلے کو اٹھایا، ظاہر ہے وہ تو یہی چاہتی تھیں کہ اسلامی احکامات کی، حکومت کے امور میں کوئي دخل اندازی نہ ہو۔ اس بنا پر سلاطین اور شہنشاہ، دین و سیاست میں جدائي کے گمراہ کن نظرئے کے سب سے پہلے مروج ہیں۔ (اقتباس)
اسلامی جمہوریہ، قائد انقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے بسمہ تعالی آج جو ہم اپنے ملک میں اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کی بات کرتے ہیں، بالکل نیا موضوع ہے۔ اس لئے نہیں کہ ہم جمہوریت کی ایک نئي شاخ اور شکل متعارف کرا رہے ہیں، ہرگز نہیں کیونکہ دنیا میں رائج جمہوریت میری نظر میں عیب و نقص سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ دنیا میں انتخابات تشہیراتی وسائل کے زیر اثر انجام پاتے ہیں جن پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ یا دینی جمہوریت کے اصول اور بنیادیں مغربی جمہوریت کے اصولوں اور بنیادوں سے مختلف ہیں۔ اسلامی جمہوریت اور دینی جمہوریت جو ہمارے انتخابات کی بنیاد ہے اور جو انسان کے دینی فرائض و حقوق کی بنیاد پر وجود میں آئي ہے، آپسی اتفاق رای سے طے پانے والا کوئي معاہدہ نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کو حق انتخاب ہے، اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار ہےلہذا حقیقی جمہوریت، دینی جمہوریت ہے جو ایمان اور دینی فرائض کے تناظر میں پیش کی جاتی ہے۔(انسانوں کا آپسی معاہدہ نہیں) اسلامی ثقافت میں بہترین انسان وہ ہیں جو عوام کے لئے زیادہ مفید واقع ہوں۔ دینی جمہوریت، ریاکاری اور فریب پر مبنی ڈیموکریسی کے برخلاف، در حقیقت پر خلوص خدمت کا نظام ہے جس میں احسان جتانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ خدمت پوری ایمانداری اور پاکدامنی کے ساتھ اور اس احساس کے تحت انجام دی جاتی ہے کہ وہ (ہمارا) فریضہ ہے۔اسلامی نظام، وحدانیت و دین کے پرچم تلے چلنے والا نظام جمہوریت کو پوری دنیا کے سامنے آشکارا اور واشگاف الفاظ میں بیان کر دیتا ہے لبرل ڈیموکریسی کا سامراجی پروپگنڈہ اس کے بالکل بر عکس ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈیموکریسی کا دارومدار ہم پر ہے۔ ان سے یہ برداشت نہیں ہو رہا ہے کہ ایک دینی اور اسلامی نظام اپنی اعلی ایمانی قدروں کے ساتھ جمہوریت قائم کر رہا ہے۔ ہماری آئیڈیل نہ مغربی حکومتیں ہیں اور نہ مشرقی، ہمارا آئيڈیل اسلام ہے اور ہمارے عوام نے اسلام سے اپنی آشنائي کی بنیاد پر اسلامی نظام کا انتخاب کیا ہے۔
عالم اسلاماسلام کا سب سے پہلا سیاسی اور سماجی کارنامہ اسلامی امت کی تشکیل ہے جو مدینۃ الرسول سے شروع ہوئی اور پھر بڑے ہی حیرت انگیز اور افسانوی انداز سے کمال و ترقی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔ ابھی اس کے با برکت وجود کو نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اسلام نے اپنے پڑوس کی تینوں عظیم و قدیم تہذیبوں، مصر، روم اور ایران کے نصف سے زائد حصے کو مسخر کر لیا۔ مزید سو سال گزرتے گزرتے درخشاں اسلامی تہذیب اور طاقتور اسلامی حکومت کے ڈنکے مشرق میں دیوار چین، دوسری طرف بحر ایٹلانٹک کے ساحلوں، شمال میں سائبیریا کے میدانوں اور جنوب میں بحر ہند کے جنوب تک بجنے لگے۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری اور اس کے بعد تک اسلامی تہذیب ایسی تابناک اور درخشاں تہذیب بن چکی تھی کہ آج ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس کی علمی اور ثقافتی برکتیں، عصر حاضر کی تہذیبوں میں نظر آتی ہیں۔ عالم اسلام دنیا کی نہایت قیمتی میراث اورمالامال ثقافت کی مالک ہے جس میں غیر معمولی شکوفائي اور درخشندگی پائي جاتی ہے۔ اس میں تنوع کے ساتھ ہی حیرت انگیز ہم آہنگی بھی ہے، جو اسلام کی ہمہ گیری اور گہری تاثیر اور پیکر امت میں سمائي ہوئی خالص توحید و وحدانیت کے نتیجے میں پیدا ہوئي ہے۔ جذبہ الفت و اخوت سے سرشار مختلف رنگ و نسل کی قومیں جو الگ الگ زبانوں میں گفتگو کرتی ہیں خود کو عظیم امت مسلمہ کا حصہ سمجھتی اور اس پر نازاں ہیں۔ یہ قومیں ہر روز ایک ہی مرکز کا رخ کرکے ایک ہی زبان میں اللہ تعالی سے مناجات کرتی ہیں۔ ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و تعلیمات حاصل کرتی ہیں۔ یہی آسمانی کتاب ان کے لئے تمام ضرورتوں کی تکمیل کا وسیلہ اور تمام حقائق کی وضاحت و تشریح کا ذریعہ ہے۔ و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء و ھدی و رحمۃ و بشری للمسلمین وہ سرزمین جس پر امت مسلمہ آباد ہے، قدرتی ذخائر کے لحاظ سے اگر دنیا کا سب سے مالامال علاقہ نہیں تو ان علاقوں میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ مالامال کہے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کے وسائل کی فہرست میں، اقتصادی، ثقافتی، سیاسی، سماجی، افرادی سرمائے کے سیکڑوں عناوین شامل ہیں۔ جو کوئی بھی توجہ سے دیکھے، ان ذخائر سے روشناس ہو سکتا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے دانشوروں اور سیاسی شخصیات کے دوش پر عظیم ذمہ داری ہے۔ مسلم دانشور اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو جتنے مناسب انداز میں لوگوں تک پہنچائيں گےمسلم اقوام کی اسلامی ماہیت اتنی ہی صحیح شکل میں سامنے آئے گی۔ انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانیوں کا سد باب، نسلی تفریق و امتیاز کا خاتمہ، غربت اور علمی میدان میں پسماندگی سے نجات جیسے موضوعات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ عام تباہی کے ہتھیاروں اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے سلسلے میں مغربی ذرائع ابلاغ کے فریب اور دھوکے کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ ان مذکورہ موضوعات کے تعلق سے آج مغربی دنیا کے دعوے اور نعرے عالمی رای عامہ کے نزدیک مشکوک ہو چکے ہیں۔ امت مسلمہ کے مکار دشمن، سامراجیت، تسلط پسندی اور جارحیت کے مراکز چلانے والی قوتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے غیر قانونی مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلط کے لئے بہت بڑی اڑچن تصور کرتی ہیں۔ تمام مسلم اقوام اور خاص طور پر ان کے سیاستدانوں، قومی رہنماؤں اور علما و دانشوروں کو چاہئے کہ جارح دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کا مضبوط محاذ قائم کریں۔ تمام وسائل کو بروی کار لاکر امت مسلمہ کو طاقتور بنائيں۔ علم و دانش، تدبیر و تدبر، فرض شناسی و احساس ذمہ داری، اللہ تعالی کے وعدوں پر توکل اور یقین، رضای پروردگار کے پیش نظر بے ارزش دنیاوی خواہشات سے چشم پوشی اور فرائض کی تکمیل امت مسلمہ کی تقویت کے بنیادی عناصر ہیں جن کے ذریعے اسے عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی پیشرفت حاصل ہو سکتی ہے اور مسلم ممالک میں دشمن کے تسلط پسندانہ اقدامات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال کے دو بنیادی پہلو ہیں: ایک تو یہ کہ دنیا میں اسلامی تشخص اور طرز فکر، خاص توقیر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور اسلام کو دنیا کی بڑی اہم اور عظیم حقیقت کے طور پر مرکز توجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسرا اہم پہلو یہ کہ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں اسلام سے اپنی دشمنی کا برملا اظہار کر رہی ہیں اور امریکہ نے تو کمیونزم کے خاتمے کےبعد دنیا کے لئے جس جدید نظام کا خاکہ تیار کیا ہے اس میں ایک اہم ترین باب اسلام سے مقابلے اور اسلام کی روز افزوں ترقی و ترویج کو روکنے سے مختص کیا گيا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دو عشروں میں مسلمانوں نے عالم اسلام کے مشرق و مغرب ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بہت اہم وسیع تحریک شروع کی ہے جسے اسلام کے احیاء کی تحریک کا نام دیا جا سکتا ہے۔ علم و دانش کے زیور سے آراستہ آج کی نوجوان نسل سامراجی طاقتوں کی توقعات کے بر خلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایمانی جذبے کے ساتھ، جو انسانی علوم کی پیش رفت کے نتیجے میں اور بھی آبدار اور درخشاں ہو گیا ہے، اپنا گمشدہ خزانہ تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور روز بروز قوی تر ہو رہے اسلامی نظام کی تشکیل نوجوان نسل کی اس مضبوط تحریک کا نقطہ کمال ہے اور اسلامی بیداری کو عالمی سطح پر پھیلانے میں اس واقعے کا بڑا کردار رہا ہے۔ اس چیز کو محسوس کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں نے جو ہمیشہ اپنے اوپر مذہبی آزادی کی حمایت کا خول چڑھائے رہتی تھیں اسلام کے خلاف اپنے تمام وسائل اور لاو لشکر کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ سامراجی طاقتیں امت مسلمہ کی بیداری کی مسلسل پھیلتی لہر کو روکنے کے لئے، جسے وہ اپنے ناجائز اہداف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں، جس حربے کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں وہ نفسیاتی جنگ ہے۔ مایوسی اور نا امیدی پھیلانا، تحقیر اور اپنی طاقت کی حد سے زیادہ نمائش اسی طرح دیگر ہزاروں نفسیاتی حربے آج استعمال ہو رہے ہیں اور آئندہ استعمال کئے جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ان کے تابناک مستقبل سے ناامید کرکے اس مستقبل کی سمت بڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جو ان طاقتوں کے شوم مقاصد کے مطابق ہو۔ سامراج کے آغاز سے اب تک نفسیاتی جنگ اور ثقافتی یلغار مسلم ممالک پر سامراج کے غلبے کا سب سے موثر ترین حربہ رہا ہے۔ آج بھی عالمی سطح کی جدید تشہیراتی مہم سامراج کا سب سے موثر حربہ ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات اور اخبارات و جرائد جن کی بنیادی سرگرمیاں اسلام دشمنی پر مرکوز ہیں بے شمار ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بکے ہوئے ماہرین گمراہ کن خبریں اور تجزئے تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ اسلامی تحریک اور عظیم اسلامی ہستیوں کی شبیہ خراب کی جا سکے۔ دوسری جانب اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو تحریک انقلاب کے آغاز سے اب تک بلا وقفہ ان معاندانہ تشہیراتی اقدامات کا سامنا کر رہا ہے۔ انسانی معاشرے دو طرف سے نشانہ بنتے ہیں۔ ایک تو اندرونی مسائل کی یلغار ان پر ہوتی ہے جو نتیجہ ہوتے ہیں انسانی کمزوریوں، شکوک و شبہات، عقیدے کی خرابی، اغیار کے مقابلے میں احساس کمتری کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں خود فراموشی، اللہ تعالی سے غفلت، دنیا پرستوں کے سامنے خود سپردگی، اپنے بھائیوں سے بدگمانی، ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں پر بھروسے اور اطمینان، مسلم امہ کے مستقبل کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کے فقدان اور امت مسلمہ کی اجتماعی اہمیت سے عدم واقفیت کا، جو نتیجہ ہوتے ہیں دیگر اسلامی ممالک کے حالات سے بے خبری، اسلام و مسلمین کے خلاف دشمن کی سازشوں سے لا علمی، فرقہ پرستی، انتہا پسندانہ قومی جذبے جس کی ترویج کے لئے عموما گمراہ علما اور بکے ہوئے قلم استعمال کئے جاتے ہیں، اور اسی طرح دیگر مہلک بیماریوں کا جو مسلمانوں کی تقدیر اور سیاسی مستقبل پر نا اہل افراد کا غلبہ ہو جانے کے نتیجے میں مسلمانوں کو نقصان پہنچاتی رہی ہیں۔ یہ بیماریاں گزشتہ صدیوں میں خطے میں اغیار کی موجودگی کے باعث اور دنیا پرست اور بکے ہوئے افراد کے ہاتھوں بڑی بھیانک اور تباہ کن صورت حال اختیار کر چکی ہیں۔ دوسری طرف بیرونی دشمنوں کی یلغار ہوتی ہے جو ظلم و استبداد، تسلط پسندی و جارحیت اور دشمنی و عناد کے تحت انسانی زندگی کی فضا کو مکدر اور انسانی معاشروں کے لئے عرصہ حیات تنگ کر دیتے ہیں اور ظلم و ستم، جنگ و جدل اور زور زبردستی کے ذریعے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔ اسلامی علاقے کے افراد اور قومیں بھی ہمیشہ انہیں دو خطروں سے دوچار رہی ہیں اور آج یہ خطرات بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ مسلم ممالک میں سازش کے تحت بد عنوانیوں کی ترویج، مغربی ثقافت کا پرچار جس میں بعض بے ضمیر حکومتیں بھی مدد کر رہی ہیں اور جس کی زد پر انفرادی زندگی سے لےکر شہر کی ساخت، اخبارات اور اجتماعی طرز زندگی سب ہیں، یہ ایک طرف اور دوسری جانب لبنان، فلسطین، عراق اور افغانستان میں قتل عام فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ مسلم امہ کو لاحق ان دونوں خطرات کی واضح مثالیں ہیں۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے یہ عالم اسلام کا بلکہ شاید عالم انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک قوم کے رنج و غم اور مظلومیت کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک ملک پر غاصبانہ قبضے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسلم ممالک کے قلب اور عالم اسلام کے مشرقی و مغربی علاقوں کے نقلہ وصال پر سرطانی پھوڑا پیدا کئے جانے کا مسئلہ ہے۔ یہ تسلسل سے جاری ظلم و ستم کا مسئلہ ہے جس کا پے در پے دو فلسطینی نسلوں نے سامنا کیا ہے۔ اس طرح اسرائيلی حکومت عالم اسلام اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے جسے رفع کرنے کے لئے موثر طریقوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب فلسطینی قوم کی قربانیوں اور عالم اسلام کی بیداری کے نتیجےمیں ملت فلسطین کو اس کا حق ملے گا اور یہ قوم جارح اور ظالم دراندازوں کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرے گی تاہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اگر مسلم قوموں اور حکومتوں کا پختہ ارادہ اور ٹھوس فیصلے بھی ساتھ ہوں تو اس عمل میں تیزی آ سکتی ہے اور رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں۔