مسئلہ فلسطین فلسطین کی تاریخ اور اس پر تسلط حاصل کرنے کے طریقہ کار کا اصل ماجرا کیا ہے؟ اس مسئلہ کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودیوں کے ایک گروہ کو یہ سوجھی کہ یہودیوں کےلئے ایک الگ ملک کا وجود ضروری ہے۔ ان کی اس فکر سے برطانیہ نے استفادہ کیا اور اسے اپنے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بنایا۔ یہودیوں کی خواہش تھی کہ وہ یوگانڈا کی طرف جائیں اور اسے اپنا وطن قرار دیں اسی طرح کچھ عرصہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کو بھی انہوں نے اپنا خیالی ملک بنائے رکھا۔ اس کےلئے وہ اٹلی گئے اور وہاں کے عہدہ داروں سے بھی مذاکرات کئے کیونکہ طرابلس اس وقت اٹلی کے زیر تسلط تھا لیکن اٹلی نے انہیں مثبت جواب نہ دیا۔ سرانجام وہ برطانیہ سے رشتہ جوڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مشرق وسطی میں اس وقت برطانوی حکمرانوں کے کئی استعماری مقاصد تھے انہوں نے دیکھا کہ کیا ہی اچھا ہے کہ یہ لوگ اس خطہ میں آجائیں لیکن ان کے آنے کا کا طریقہ کار یہ ہو کہ پہلے اقلیت کی حیثیت سے داخل ہوں پھر دھیرے دھیرے انکا دائرہ اختیار وسیع ہو جائے اور وہ اس علاقہ کے حساس مقامات پر قابض ہو جائیں کیونکہ فلسطین دنیا کے حساس نقطہ پر واقع ہے۔ پھر وہ یہاں پر حکومت بنا کر برطانیہ کے اتحادی بن جائیں اور دنیائے اسلام بالخصوص دنیائے عرب کو اس خطہ میں متحد ہونے سے روک رکھیں۔ یہ بات اپنے مقام پر صحیح ہےکہ اگر اس خطہ کے لوگ بیدار ہوتے تو دشمن کے ارادوں کو بھانپ کر آپس میں متحد ہو جاتے لیکن دشمن نے بیرونی امداد، جاسوسی اور دوسرے مختلف ذرائع سے اختلاف ایجاد کیا۔ کسی کو اپنا قرب دیا تو کسی کو نشانہ بنایا،کسی کو پسپا کیا تو کسی پر شدت پسندانہ حملہ۔ برطانیہ کی مدد اور تعاون اور دوسرے ممالک کی بے دریغ حمایت پہلے مرحلہ پر تھی اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے برطانیہ سے علیحدہ ہو کر امریکہ سے جاملے اور امریکہ نے آج تک انہیں اپنے سائے میں لے رکھا ہے۔ یوں وہ ایک ملک کو معرض وجود میں لائے اور فلسطین پر قابض ہوگئے ان کے قبضہ کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے مرحلہ میں انہوں نے جنگ و جدال نہیں کیا بلکہ مکاری کے ذریعہ داخل ہوئے اور فلسطینی کسانوں سے زمین کا بہت بڑا رقبہ اس کی اصلی قیمت سے کئی گنا زیادہ داموں پر خریدا۔ وہ سرسبز وشاداب کھیت جن پر عرب کسان زراعت کرتے تھے ان کے اصلی مالکوں سے جو یورپ اور امریکہ میں مقیم تھے مہنگے داموں خرید لئے گئے۔ مالکان زمین بھی یہی چاہتے تھے کہ ان زمینوں کو فروخت کریں البتہ یہاں دلالوں اور ایجنٹوں کے کردار کی بھی خاص اہمیت ہے جن میں سے ایک ایجنٹ سید ضیا تھا جو سابقہ شاہ ایران رضا شاہ کا 1920 کی فوجی حکومت کا ساتھی تھا وہ ایران سے فلسطین گیا اور وہاں پر یہودیوں اور اسرائیلیوں کےلئے مسلمانوں سے زمینیں خریدنے کا دلال بن گیا۔ یہودیوں نے زمینیں خرید لیں اور جب وہ زمین پر قابض ہوگئے تو پھر مختلف حیلوں، بہانوں سے مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے لگے اور کسانوں کو بتدریج ان زمینوں سے نکالنا شروع کر دیا۔ جہاں بھی جاتے قتل وغارت گری کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹ اور فریب کے ذریعہ دنیا کی ہمدردی بھی حاصل کرتے تھے۔ فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کے تین بنیادی پہلو ہیں۔(۱) عربوں سے بدسلوکی سنگدلی اور بے رحمی، زمین کے اصلی مالکوں سے ناروا سلوک اور شدت پسندانہ رویّہ اختیار کرنا اور کسی قسم کی لچک نہ دکھانا۔(2) جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا۔ یہ عجیب چیز تھی کہ صیہونیوں نے میڈیا کے ذریعہ وہ جھوٹ بکے کہ جنکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ہے، انہوں نے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کئی دوسرے یہودی سرمایہ داروں کو اپنا گرویدہ کر لیا اور بہت سے یہودی ان کے اس جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے۔ حتی کہ فرانس کے ایک ماہر سماجیات مصنف ''جان پال سارٹر‘‘ کو بھی جن کا نوجوانی کے ایام میں میں بھی مداح رہ چکا ہوں، انہوں نے فریب دیا۔ میں نے ''جان پال سارٹر‘‘کی کتاب کا تیس سال پہلے مطالعہ کیا جس کا عنوان یہ تھا ''سرزمین کےبغیر افراد، بغیر افراد کی سرزمین‘‘ یعنی یہودی وہ لوگ تھے جن کے پاس کوئی سرزمین نہ تھی اور وہ فلسطین آئے جو ایسی سرزمین تھی جہاں لوگ نہیں تھے۔ لوگ نہ تھے کا کیا مطلب؟ ایک ملت وہاں پر آباد تھی جس کے بے شمار تاریخی ثبوت موجود ہیں۔ ایک غیر ملکی مصنف لکھتا ہے کہ فلسطین کا پورا علاقہ تا حد نگاہ گندم وغیرہ کے کھیتوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے دنیا پر یوں ظاہر کیا کہ فلسطین وہ علاقہ تھا جو غیر آباد اور بے آب وگیاہ تھا اور ہم نے آکر اسے آباد کیا۔ یہ جھوٹ کا پلندہ تھا جس کے ذریعہ وہ اپنی مظلوم نمائی کرتے رہے، آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔ امریکی جرائد ''ٹائم،اور نیوز ویک‘‘(Newsweektime)کا بھی کبھی کبھار مطالعہ کرتا ہوں تو اس میں یہ چیز واضح ہے کہ جب بھی کسی یہودی خاندان کے لئے کوئي سانحہ پیش آتا ہے اور اس میں کسی کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اس کی تصاویر، مقتول کا سن وسال اور اس کے بچوں کی مظلومیت کو بے حد بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ ہزاروں فلسطینی نوجوان، خاندان، بچے اور فلسطینی عورتیں ان کے ظلم کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ واقعات کبھی مقبوضہ فلسطین اور کبھی لبنان میں پیش آتے ہیں لیکن ان کی طرف یہ جرائد اشارہ تک نہیں کرتے۔(۳) اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا،مذاکرات کا ڈھونگ رچانا اپنی''لابی‘‘بنانا۔ کبھی کسی سے بات چیت کر لی تو کبھی کسی شخصیت کےساتھ بیٹھ گئے کبھی سیاستداں تو کبھی کسی روشن فکر مصنف کو پکڑ لیا ان کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی۔ ان کی پالیسیوں کی یہ تین شکلیں ہیں اور اسی فریب ومکاری کے ذریعہ انہوں نے فلسطین کو ہتھیا لیا ہے۔ تسلط کے وقت بیرونی طاقتوں نے ان کا کھل کر ساتھ دیا جن میں برطانیہ سرفہرست ہے۔ اقوام متحدہ اور اس سے پہلے لیگ آف نیشنس جو جنگ کے بعد صلح کے نام پر معرض وجود میں آئیں ان سب نے سوائے چند مواقع کے ہمیشہ انہی کی حمایت کی ہے۔ ۱۹۴۸ میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعہ فلسطین کو بلاوجہ تقسیم کر دیا اور کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین کا ۵۷ فیصد حصہ یہودیوں سے متعلق ہے جبکہ اس سے پہلے فلسطینی سرزمین میں ان کا حصہ ۵ فیصد تھا۔ اس کے بعد یہودیوں نے حکومت بنائی اور پھر مختلف قسم کے واقعات رونما ہوئے جن میں دیہاتوں اور شہروں پر وحشیانہ حملے اور بے گناہ لوگوں پر ظلم وستم کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر عرب حکومتوں نے بھی غلطیاں کیں،کئی جنگیں ہوئیں، ۱۹۶۷کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور کچھ دوسرے ممالک کی مدد سے اردن، مصر اور شام کی کچھ زمینوں پر قبضہ کر لیا اور پھر ۱۹۷۳کی جنگ میں جسے انہوں نے خود ہی شروع کیا تھا پھر بیرونی طاقتوں کی مدد سے کچھ اور زمینوں پر قبضہ کر کے جنگ کے نتائج کو اپنے حق میں کرلیا۔ نماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31مسئلہ فلسطین کی اہمیتآج کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کو زیر بحث لانے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ مسئلہ تو ختم ہو چکا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا۔ آپ اگر یہ سوچتے ہیں کہ ہمیشہ فلسطینی سرزمین کے مالک اور ان کی نسلیں اپنی سرزمین سے باہر رہیں اور اگر فلسطین میں رہیں تو ایک اقلیت کی حیثیت سے رہ سکیں گی جبکہ باہر سے آئے ہوئے غاصب افراد یہاں آباد رہیں گے تو یہ خام خیالی ہے۔ ھرگز ایسا نہیں ہوگا۔ وہ ممالک جو سوسال تک کسی طاقت کے زیر تسلط رہے جیسے آج کا قزاقستان، جارجیا اور یہ تازہ آزاد ہونے والی ریاستیں جن میں سے بعض سوویت یونین کے زیر تسلط تھیں اور بعض اس سے پہلے روس کے قبضہ میں تھیں جب سوویت یونین تشکیل ہی نہ پایا تھا، یہ دوبارہ آزاد ہوگئیں اور وہاں پر مقامی لوگوں کی حکومت بنی۔ لہذا کوئی غیر ممکن بات نہیں کہ یہی صورتحال فلسطین میں پیش آئے اور انشاءاللہ یقیناً پیش آئے گی کہ فلسطین،فلسطینی عوام کا ہو جائےگا۔ مسئلہ فلسطین ختم نہیں ہوا اور ایسا کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔ البتہ آج صیہونیوں اور ان کے آقاوں بالخصوص امریکی حکومت کی پوری کوشش ہے کہ صلح کے خوبصورت لفظ سے استفادہ کریں اور صلح کا نعرہ بلند کرکے جھانسا دیں۔جی ہاں! ہم بھی کہتے ہیں صلح و آشتی بہت ہی اچھی چیز ہے لیکن کس جگہ کی صلح اور کس سے صلح؟ اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس جائے، آپ کا دروازہ توڑ دے، آپ کو مارے پیٹے، آپ کی ناموس کی توہین کرے اور آپ کے تین کمروں میں سے ڈھائی پر قابض ہوجائے اور پھر آپ سے کہے کہ بلاوجہ ادھر ادھر شکایت کیوں کر رہے ہو؟ ہم سے جھگڑا کاہے کا ہے آؤ آپس میں صلح کر لیتے ہیں تو کیا اسی کو صلح کہا جائے گا؟ صلح تو یہ ہے کہ تم گھر سے نکل جاؤ۔ اگر ہم آپس میں جنگ کرتے تو ایسی صورت میں صلح کی بات معقول تھی لیکن تم تو ہمارے گھروں میں بیٹھے ہو،یہاں تم نے ہر خیانت کا ارتکاب کیا ہے اور آج بھی ہر قسم کی دھشت گردی کے مرتکب ہو رہے ہو۔ آج بھی اسرائیل تقریباً ہرروز جنوبی لبنان پر حملے کر رہا ہے اور اس کے یہ حملے لبنانی مجاہدین پر نہیں بلکہ جنوبی لبنان کی دیہی آبادی پر اور اسکولوں پر ہو رہے ہیں۔ کچھ دن پہلے انہوں نے ایک اسکول پر حملہ کیا اور فلسطینی نونہالوں کو خاک و خوں میں غلطاں کر دیا۔ ان بچوں نے تو کوئی غلطی نہیں کی تھی۔ ان کے ہاتھ میں تو اسلحہ نہ تھا۔ اسی سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونیوں کی طبیعت میں وحشیانہ پن اور بربریت ہے ۔ اس دن جب یہ صیہونیی لبنان میں داخل ہوئے تو ''دیریاسین‘‘ اور دوسرے علاقوں میں انہوں نے کس طرح قتل عام کیا حالانکہ کسی نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا تھا۔ کم از کم ان لوگوں نے تو ان کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ البتہ اتنا ضرور تہا کہ وہاں کچھ غیرتمند عرب جوان ان کے خلاف لڑ رہے تھے اور ان یہودیوں سے ان کا ایک ہی سوال تھا کہ تم کیوں ہمارے گھروں میں داخل ہوئے ہو اور ایسا کیوں کر رہے ہو؟وہ لوگ جو انکے ظلم وستم کا نشانہ بنتے، جنہیں ان کے دیہاتوں اور انکی زمینوں سے قتل عام کے ذریعہ جدا کیا جاتا تھا ان کا کیا قصور تھا۔ انھوں نے تو کچھ نہیں کیا تہا لہذا ان صیہونیوں کے مزاج میں تجاوز، جارحیت اور وحشیانہ پن موجود ہے۔ اسرائیل کی بنیاد ہی شدت پسندی اور دہشگردی پر رکھی گئی ہے اور اسی انداز میں وہ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پاس پیش رفت کا کوئي اور راستا نہیں ہے۔ اب اگر کہا جائے کہ اس حکومت سے صلح کرو تو کیسے صلح کریں؟ اگر وہ اپنے حق پر قناعت کریں تو کوئی اس سے جنگ نہیں کرے گا۔ یعنی وہ فلسطین کو اس کے اصلی شہریوں کو لوٹا دیں یا فلسطینی حکومت سے معلوم کریں کہ ان کے کچھ لوگ یا سب لوگ اسی ملک میں رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ جنگ تو اس بات پر ہے کہ انہوں نے آکر دوسرے کے گھروں پر زبردستی غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے اور گھر والوں کو گھر سے نکال دیا ہے اور پھر ان پر ظلم وستم بھی کر رہے ہیں۔ ان کے اس ظلم کا دائرہ دوسرے ہمسایہ ممالک تک بھی پہنچ چکا ہے لہذا وہ صلح کے نام پر اگلی جارحیت کی فضا ہموار کرنا چاہتے ہیں اگر صلح برقرار بھی ہو جائے تو مزید ظلم وستم کا پیش خیمہ قرار پائے گینماز جمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 1999-12-31جھوٹ اور فریب پر مبنی صلح، مسئلہ فلسطین کا حل نہیں ہو سکتی۔ مسئلہ فلسطین کی واحد راہ حل یہ ہے کہ سر زمین کے فلسطین کے اصلی اور حقیقی باشندے، نہ یہ کہ باہر سے آکر غاصبانہ اندانہ میں آباد ہوجانے والےمہاجرین، خواہ وہ اس وقت فلسطین میں مقیم ہوں یا فلسطین سے باہر وہ خود اپنے ملک کا حکومتی ڈھانچہ بنائیں اور اگر جمہوریت کے دعوے داروں کا یہ دعوا سچ ہے کہ وہ ہر ملت کی رائے کا احترام کرتے ہیں تو پھر ملت فلسطین بھی ایک ملت ہے اسے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ اسرائیل کے نام پر جو غاصب حکومت تشکیل دی گئی ہے اسے اس سرزمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ وہ جھوٹ، فریب اور ظالم طاقتوں کے بل بوتے پر معرض وجود میں آئی تھی لہذا فلسطینی عوام سے اسے تسلیم کرنے کا مطالبہ بالکل غلط ہوگا۔ اگر عالم اسلام میں کوئی بھی اس غلطی کا ارتکاب کرے اور اس ظالم اور قابض حکومت کو تسلیم کر لے تو ایک تو اس نے اپنے لیے ننگ وعار مول لیا ہے اور دوسرے یہ کہ اس کو اپنے اس قدم کا کوئي فائدہ بھی نہیں ملنے والا ہے کیونکہ اس غاصب حکومت کو دوام نہیں ہے۔ صیہونیوں کا خیال ہے کہ وہ فلسطین پر قابض اور مسلّط ہیں اور ہمیشہ کےلئے فلسطین ان کے اختیار میں رہے گا لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہوگا۔ فلسطین ایک نہ ایک دن آزادی حاصل کرے گا کیونکہ ملت فلسطین نے اس راہ میں قربانیاں دی ہیں۔ مسلمان اقوام اور اسلامی حکومتوں کو چاہئے کہ فلسطین کی آزادی کی راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے کےلئے جدو جہد کریں تاکہ ملت فلسطین جلد از جلد اپنی آرزو تک پہنچ سکے۔امام خمینی(رہ)کے مرقد پر عظیم عوامی اجتماع سے خطاب سے ماخوذ 2002-6-4اس مسئلے کا منطقی اور معقول حل موجود ہے۔ منطقی حل وہ ہوتا ہے جسے دنیا کا بیدار اور باشعور طبقہ اور وہ تمام لوگ جو آج کی دنیا میں رائج اصولوں کو مانتے ہوں اس حل کو قبول کریں۔ مسئلے کا منطقی حل وہی ہے جو ہم نے ڈیڑھ سال پہلے پیش کیا تھا اور ہماری اسلامی حکومت کے ذمہ دار افراد نے عالمی اداروں میں بھی جسے بارہا بیان کیا ہے اور جس پر ان کا مسلسل اصرار بھی ہے کہ فیصلیہ خود فلسطینی عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ ایک ریفرنڈم کرایا جائے۔ ان تمام فلسطینیوں کو کہ جو اپنے وطن لوٹ کر آنا چاہتے ہیں ان سب سے رائے لی جائے۔ وہ فلسطینی جو لبنان، اردن، کویت، مصر اور دوسرے عرب ممالک میں پناہ گزین کی زندگی گزار رہے ہیں ان سب کو فلسطین واپسی کا موقع دیا جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی کو زبردستی واپس لایا جائے۔ اسرائیل کی جعلی اور غیر قانونی حکومت بننے سے پہلے یعنی ۱۹۴۸ سے قبل فلسطین میں جو لوگ بھی آباد تھے خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی، ان سب کی مرضی معلوم کی جائے اور ریفرنڈم کے ذریعہ فلسطین کا حکومتی نظام تشکیل دیا جائے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جمہوریت ساری دنیا کےلئے تو اچھی لیکن فلسطینی عوام کے لئے اچھی نہیں ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟! یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام دنیا کے عوام کو تو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں لیکن فلسطینی عوام اس حق سے محروم رہیں۔ کسی کو بھی اس بات میں شک و شبہ نہیں ہے کہ فلسطین پر آج جو حکومت قابض ہے، وہ طاقت اور فریب کے بل بوتے پر بنائی گئی ہے۔ وہ زبردستی مسلط کر دی جانے والی حکومت ہے۔ لہذا فلسطینی عوام جمع ہو کر ریفرنڈم کے ذریعہ حکومتی دھانچے کا انتخاب کریں۔ وہ خود کس طرح کا نظام حکومت چاہتے ہیں، اپنے ووٹوں سے ظاہر کریں۔ جب حکومت بن جائے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے جو ۱۹۴۸ کے بعد فلسطین میں داخل ہوئے ہیں۔ جو بھی فیصلہ ہو اسے عملی جامہ پہنایا جائے اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا ہے تو وہ رہیں اور اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو وہ واپس جائیں۔ یہ ہے عوام کی رائے کا احترام، یہ ہے جمہوریت اور یہ ہے انسانی حقوق کی پاسداری کا تقاضا جو موجودہ دنیا کے رائج قوانین کے عین مطابق ہے۔ یہ ہے راہ حل اور اسی راہ حل کا نفاذ ہونا چاہئے۔ غاصب حکومت تو اس راہ حل کو بخوشی قبول کرنے والی ہے نہیں لہذا تمام عرب ممالک، اسلامی ممالک، دنیا کی مسلمان اقوام، بالخصوص ملت فلسطین اور عالمی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جد و جہد کریں۔ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ راہ حل خواب و خیال خام پر مبنی ہے اور اسے جامہ عمل پہنانا ممکن نہیں۔ نہیں، ایسا کرنا بالکل ممکن ہے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ممالک جو ۴۰ سال تک سابقہ سوویت یونین کا حصہ رہے وہ آج آزاد ہو گئے اور قفقاز کے بعض ممالک تو سوویت یونین کی تشکیل سے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے سے روس کے زیر تسلط تھے لیکن آزاد ہوگئے، آج قزاقستان،آذربائیجان،جارجیا وغیرہ سب آزاد ہوگئے ہیں۔ تو ایسا ہونا ممکن ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کوئی ناممکن کام ہو۔ البتہ اس کے لئے عزم وارادے،جرأت و دلیری اور شجاعت و پامردی کی ضرورت ہے۔ اب یہ بہادری کا جوہر کون دکھائے؟ اقوام یا حکومتیں؟ اقوام تو بہادر ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کو مختلف مواقع پر ثابت بھی کیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ وہ آمادہ و تیار ہیں۔نمازجمعہ تہران کے خطبوں سے اقتباس 2002-4-5
(پیغمبر ختمی المرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شخصیت ایسی ہمہ گیر اور جامع شخصیت ہے کہ اس کے تمام پہلؤں کا احاطہ نا ممکن ہے، ہر شخص اور محقق اپنی استعداد کے مطابق اس بحر مواج میں غوطہ زن ہوکر معرفت کے گوہر حاصل کرتا ہے، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختلف مواقع پر اپنی تقاریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی، تقاریر کے متعلقہ اقتباسات پیش نظر ہیں)الف :امت اسلامیہ کی یکجہتی کا محور:پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت عالم خلقت کا نقطہ کمال اور عظمتوں کی معراج ہے۔ خواہ کمالات کے وہ پہلو ہوں جو انسان کےلئے قابل فہم ہیں جیسے انسانی عظمت کے معیار کے طور پر عقل، بصیرت، فہم، سخاوت، رحمت اور درگذر وغیرہ کے عنوان سے جانے جاتے ہیں خواہ وہ پہلو ہوں جو انسانی ذہن کی پرواز سے ما ورا ہیں یعنی وہ پہلو جو پیغمبر اسلام (ص) کو اللہ تعالی کے اسم اعظم کے مظہر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں یا تقرب الہی کے آپ کے درجات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، کہ ہم ان پہلوؤں کو کمالات کا نام دیتے ہیں اور اتنا ہی جانتے ہیں کہ یہ کمالات ہیں لیکن انکی حقیقت سے اللہ تعالٰی اور اس کے خاص اولیا ہی آگاہ ہیں۔یہ انکی شخصیت تھی اور دوسری طرف انکا لایا ہوا پیغام انسانی سعادت کے لئے سب سے عظیم اور بہترین پیغام ہے جو توحید، انسان کی عظمت و سربلندی اور انسانی وجود کے کمال و ارتقا کا حامل ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ انسانیت آج تک اس پیغام کے تمام پہلوؤں کو بطور کامل اپنی زندگی میں نافذ نہیں کر سکی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ انسانی ترقی اور کمال ایک نہ ایک دن اپنے مطلوبہ مقام تک ضرور رسائی حاصل کرےگا اور یہی انسانیت کا نقطہ عروج و کمال ہوگا۔ البتہ اس مفروضہ کی بنیاد پر کہ انسانی سوچ اور فکر اور اسکا علم وادراک روزبروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے اور یہ مسلمہ ہے کہ اسلام کا پیغام زندہ وجاوید ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ پیغام انسان کی معاشرتی زندگی میں اپنا مقام حاصل نہ کر لے۔ نبی اکرم(ص)کے پیغام توحید کی حقانیت،اسلام کا درس زندگی اور انسانی سعادت اور ترقی کے لئے اسلام کے بیان کردہ زریں اصول انسان کو اس مقام پر پہنچا دیں گے کہ وہ اپنی گمشدہ منزل تلاش کر لے اور پھر اس راہ پر گامزن ہو کر ترقی اور کمال کی منازل طے کرے۔ وہ چیز جو ہم مسلمانوں کے لئے اہم ہے وہ یہ کہ اسلام اور پیغمبر(ص)کی زیادہ سے زیادہ شناخت و معرفت حاصل کریں، آج دنیائے اسلام کا سب سے بڑا درد فرقہ واریت ہے۔ عالم اسلام کی یکجہتی اور اتحاد کا محور پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود کو قرار دیا سکتا ہے جن پر تمام مسلمانوں کا ایمان ہے اور جو تمام انسانوں کے احساسات کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کے پاس پیغمبراسلام(ص)کے مقدس وجود سے بڑھ کر کوئی ایسا جامع اور واضح نقطہ اتحاد نہیں ہے کہ جس پر تمام مسلمانوں کا ایمان و اعتقاد بھی ہو اور جن (ص) کے وجود سے سب مسلمانوں کا اندرونی اور قلبی رشتہ بھی ہو اور یہی نقطہ اتحاد کا بہترین مرکز و محور ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے جو ہم ادھر چند سالوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں کہ قرون وسطی کی طرح مستشرقین نے آنحضرت (ص) کے وجود مقدس پر اہانت آمیز تنقید و تبصرے کرنا شروع کر دیا ہے۔ قرون وسطی میں بھی عیسائی پادریوں نے اپنی تحریروں، تقریروں اور نام نہاد آرٹ کے فن پاروں میں جب مستشرقین کی تاریخ نویسی کا آغاز ہوا تھا، پیغمبر(ص)کی شخصیت کو نشانہ بنایا۔ گذشتہ صدی میں بھی ہم نے ایک بار پھر دیکھا کہ مغرب کے غیر مسلم مستشرقین نے جس چیز کو شک و شبہے اور جسارت و اہانت کا نشانہ بنایا تھا وہ پیغمبراسلام(ص)کی مقدس شخصیت تھی۔ اب کئی سال گذرنے کے بعد ان حالیہ سالوں میں ہم پھر دیکھ رہے ہیں کہ میڈیا اور نام نہاد ثقافتی لٹریچر کے ذریعہ دنیا کے مختلف مقامات پر آپ(ص)کی شخصیت پر ایک بار پھر حملے کرنے کی جسارت کی گئي ہے۔یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے کیونکہ انہوں نے اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ مسلمان اسی مقدس شخصیت کے وجود پر جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ ان سے تمام مسلمانوں کو عشق اور والہانہ محبت ہے لہذا انہوں نے اسی مرکز کو حملے کا نشانہ بنایا۔ آج علمائے اسلام اور مسلمان دانشوروں، مصنفین، شعرا اور اہل فن حضرات سب کی ذمہ داری ہے کہ ان سے جتنا بھی ممکن ہو پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت کے عظوم پہلوؤں کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے سامنے بیان کریں ان افراد کا یہ کام امت اسلامیہ کے اتحاد میں اور ان مسلم نوجوانوں کی رہنمائی میں جو اسلام کی طرف بڑی شدت سے راغب نظر آرہے ہیں، بہت زیادہ مددگار ثابت ہوگا۔۱۷ربیع الاول کی مناسبت سے حکومتی عہدہ داروں سے خطاب کا اقتباس(۳۱۔۳۔۷۹) امام خمینی(رہ) کی با بصیرت نظر کی بدولت اسلامی انقلاب کا ایک فیض یہ ہے کہ میلاد النبی(ص)کے ایام کو ہفتہ اتحاد کا نام دیا گیا۔ اس لحاظ سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کئی گنابڑھ گئی کہ بہت سے لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ اسلامی اتحاد کے لیے کام کیا جائے۔بعض لوگ تو صرف بات کی حد تک کوئی نظریہ دیتے ہیں لیکن بعض لوگوں کی واقعی دیرینہ خواہش تھی بہرحال اس آرزو اور خواہش کی تکمیل کے لیے عملی اقدام ضروری تھا کیونکہ کوئی خواہش بغیر عملی جدوجہد کے پوری نہیں ہو سکتی۔ جب ہم نے اس سمت میں عملی اقدامات اور مطلوبہ مقصد تک پہنچنے کی راہ کے بارے میں سوچا تو اس محور کے طور پر جو بہترین اور عظیم ترین شخصیت ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئی۔ وہ فخر کائنات حضرت محمد مصطفٰی(ص) کی ذات تھی کہ جنکی مرکزی حیثیت دنیا تمام مسلمانوں کے عقائد وافکار کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی دنیا میں وہ نقطہ جس پر سب متفق ہوں اور سےکے عقائد اور جذبات و احساسات کی ترجمانی بھی ہو جائے شاید میسر نہ آ سکے یا ہو تو شاذ و نادر ہی ہو کیونکہ جذبات کا انسانی زندگی میں خاص کردار ہے اور یقینا بعض وہ اقلیتیں جو مسلمانوں سے علیحدہ ہو گئی ہیں ان کے درمیان کچھ جذبات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتیں اور عشق و محبت یا توسل اور وسیلے کی منکر ہیں پھر بھی عام مسلمانوں کے لئے پیغمبر اسلام(ص) سے محبت اور عشق و عقیدت دین کا ایک لازمی عنصر ہے لہذا آپ کا وجود مبارک وحدت کا بہترین محور بن سکتا ہے۔مسلمانوں اور مسلم دانشوروں کو چاہیئے کہ وہ پیغمبر اسلام(ص)کی شخصیت، آپ کی تعلیمات اور آپ سے عشق ومحبت کے موضوع کے سلسلے میں وسیع النظری سے کام لیں۔ ان عوامل میں جو اتحاد و یکجہتی کےلیے محور قرار پا سکتے ہیں اور تمام مسلمان جن پر متفق ہو سکتے ہیں اہلبیت پیغمبر(ع) کی اطاعت اور پیروی بھی ہے۔پیغمبر اکرم (ص) کے اہلبیت(ع) کی عظمت کو تمام مسلمان قبول کرتے ہیں البتہ شیعہ ان کی امامت کے بھی قائل ہیں اور غیر شیعہ ان کو شیعی نقطہ نگاہ کی طرح امام منصوص نہیں مانتے پھر بھی انہیں پیغمبراسلام(ص)کے عظیم خاندان سے اسلامی تعلیمات اور اسلامی احکام سے کما حقہ آشنا اسلام کی عظیم شخصیات میں سمجھتے ہیں لہذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اہلبیت پیغمبر(ع) کے فرامین پر عمل کے دائرے میں متفق ہو جائیں۔ یہ وحدت و یکجہتی کا بہترین وسیلہ ہے۔پیغمبراسلام (ص) کی میلاد کے ایام ہر مسلمان کے لئے تاریخ کے سنہری مواقع ہیں۔ اسی ولادت کی برکت سے تاریخ بشریت نے ایک نیا رخ اختیار کیا،کائنات کی ہر فضیلت کا سرچشمہ آپ(ص)کی بعثت اور مکارم اخلاق ہیں ہر مسلمان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں کا مرکز اور مسلمانوں کے مختلف مذاہب ومکاتب کا محور حضرت محمد مصطفٰی(ص)کا مقدس وجود ہے چونکہ تمام مسلمانوں کو آپ سے عشق ہے لہذا آپ تاریخ میں ہمیشہ مسلمانوں کے لئے نقطہ اتحاد رہے ہیں۔ اسی لیے آپ کے ایام ولادت مبارک بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اسلامی یکجہتی عالمی کانفرنس کے شرکا اور عمائدین مملکت سے خطاب سے اقتباس (۲۴۔۵۔۷۴)مسلمانوں کے اتحاد کا مرکزی نقطہ پیغمبر اسلام(ص)ہیں اور آپ کی عظیم شخصیت،آپ کا اسم مبارک، محبت، کرامت اور عظمت امت اسلامی کی فکری یکجہتی کا مرکز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا وجود ذی جود امت اسلامیہ کی ہر فرد کے لئے پوری تاریخ اسلام میں وحدت کا محور رہا ہے۔دین اسلام کا کوئی ایسا عنوان نہیں ہے جو آپ(ص)کے مقدس وجود کی طرح ہر لحاظ سے عقل کی راہ ہو یا عشق و محبت کی، روحانی اور معنوی پہلو ہو یا اخلاقی،تمام اسلامی مکاتب کے لئے قابل قبول ہو۔یہی وہ مرکزی محور اور نقطہ ہے جو ہمہ گیر ہے ورنہ قرآن وکعبہ اور واجبات وعقائد سب مشترک ہیں لیکن ان میں سے ہر ایک انسانی شخصیت کے ایک پہلو مثلا عقائد، محبت، روحانی میلان، کردار وغیرہ سے متعلق ہیں اور مذکورہ مفاہیم مسلمانوں کے مابین مختلف تشریحات اور تفاسیر کے حامل ہیں لیکن وہ چیز جو تمام مسلمانوں میں فکری واعتقادی بالخصوص جذبات و احساسات کے حوالے سے اتحاد و یکجہتی کا محور بن سکتی ہے، خود پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی (ص) کا مبارک وجود ہے۔اسکی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اور اس محبت میں روز بروز آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور آپ کے مقدس وجود کی طرف معنوی اور روحانی رجحان کو مسلمانوں اور اقوام عالم کی ہر فرد کے ذہن میں اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دشمن کی اسلامی تہذیب کے خلاف سازشوں کے دھارے کا سب سے بڑا نشانہ پیغمبر اسلام(ص)کا نورانی وجود ہے (مرتد رشدی کی) شیطانی آیات نامی کتاب میں بھی جس حساس نقطہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، حضرت محمد مصطفٰی (ص)کی ذات اور صفات ہیں اور دشمن کی اس گندی سازش سے معلوم ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے عقائد اور احساسات کے کس محور پر نظر گڑائے ہوئے ہے۔بعثت بیغمبر اسلام(ص)کی مناسبت سے چالیس ممالک سے آئے ہئے قاریوں اور حافظوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس (۴۔۱۲۔۶۸)
آیۃ اللہ سید محمد باقرالصدر کے اہل خانہ سے ملاقات سب سے پہلے تو میں آپ اور ديگر خواتین خصوصا آپ کے محترم صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کی خدمت میں خوش آمدید عرض کرتے ہوں۔ ہم، شہید آیۃ اللہ سید محمد باقر الصدر مرحوم کے وجود پر ان کی علمی، جہادی اور فکری شخصیت کی وجہ سے فخر کرتے ہیں اور آپ پر بھی فخر کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ نے گزشتہ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے میں بہت زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کیا ہے، بہت زیادہ سختیاں اٹھائی ہیں لیکن صبر سے کام لیا ہے۔ آپ کا تعلق عظیم خاندان سے ہے، صبر، کرم اور عظمت آپ کے خاندان کی خصوصی صفات ہیں۔ آیۃ اللہ صدر کی شہادت کے بعد آپ نے ان کٹھن حالات میں نجف میں زندگی گزاری؛ اس کے بعد آپ کی ان بچیوں کے شوہر شہید ہوئے اور آپ میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوا؛ لیکن آپ لوگوں نے ان سب کو برداشت کیا۔ حقیقت میں آپ کا صبر ہم لوگوں کے لیے بہت زیادہ قابل قدر ہے۔ آپ کو بتاؤں کہ میں ہمیشہ دور سے آپ لوگوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں نے کیا مشکلات اور سختیاں برداشت کی ہیں۔ خداوند متعال اس عزیز شہید یعنی شہید سید محمد باقرالصدر مرحوم ، آپ کے دامادوں اور شہید صدر کے بیٹوں رضوان اللہ تعالی علیھم کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان خواتین نے بھی اس خوف اور گھٹن کے ماحول میں صبر کیا اور ان کی جوانی کے ایام میں ان کے شوہروں کو شہید کر دیا گیا اور ان کے بچے باقی رہ گئے، خدا کے نزدیک ان کی بہت قدر و منزلت ہے۔ آپ نے جو صبر کیا ہے وہ خدا کے نزدیک بہت گرانقدر ہے۔ ان شاء اللہ خداوند متعال اپنے اجر سے دنیا اور آخرت میں آپ کو نوازے گا۔... میں سنہ 1957 میں عراق گیا اور وہیں میں نے جناب سید محمد باقر الصدر کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جوان تھے، تقریبا پچیس سال کے تھے۔ اس وقت بھی وہ اپنے فضل و کرم کے لیے مشہور تھے۔ اس وقت میں نوجوان تھا اور میری عمر تقریبا اٹھارہ سال تھی۔ الحمد للہ آپ کے خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے؛ جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسی۔... اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیۃ اللہ صدر کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لیے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ خدا لعنت کرے صدام پر، الحمد للہ کے ان لوگوں(صدام اور اس کے گرگوں) کی بیخ کنی ہو گئي۔شہید صدر حقیقی معنی میں نابغۂ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن نابغۂ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدر ان افراد میں سے تھے جو حقیقت میں نابغۂ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار، دوسروں کی فکری رسائي سے بہت آگے تھے۔ بحمد اللہ انہوں نے بہت اچھے تلامذہ کی تربیت بھی کی۔آیۃ اللہ سید محمد باقرالصدر کے اہل خانہ سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کی تقریر سے اقتباس( 2004/5/29)
آخرکار حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور آپ کے زمانے کے خلفاء کے درمیان ہونے والی جنگ میں جو ظاہری اور باطنی طور پر فتح سے ہمکنار ہوا، وہ امام علی نقی علیہ السلام تھے؛ یہ بات ہماری تمام تقریروں اور بیانوں میں ملحوظ خاطر رہنی چاہیے۔
فطرے کے احکامواجب ہے کہ ہر شخص اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال میں سے ہر شخص کے لیے تقریبا تین کلو قوت غالب ادا کرے۔ قوت غالب کا مطلب وہ چیز ہے جسے لوگ عموما غذا کے لیے استعمال کرتے ہیں؛ جیسے گیہوں۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26شب عید فطرفطرہ، مہینے کے آخری دن غروب؛ یعنی شب عید فطر سے، مکلف پر واجب ہو جاتا ہے اور احتیاط یہ ہے کہ وہ شخص جو نماز عید فطر میں شرکت کرے گا اور نماز عید بجا لائے گا، نماز عید کی ادائیگی سے قبل فطرہ ادا کر دے۔ بنابریں آج رات آپ حساب لگا لیں کہ آپ پر کتنا فطرہ واجب ہے اور اس کی رقم کو علیحدہ رکھ دیں اور کل صبح عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل اسے ادا کردیں تو یہ بہترین صورت ہے۔ البتہ اگر آپ نے اس موقع پر ادا نہیں کیا اور نماز عید کے بعد ادا کردیا تو بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطر کی با فضیلت نمازیہ بہت با فضیلت نماز ہے۔ اس نماز میں دعا،التجا، گریہ و زاری اور خدا کی جانب توجہ ہے۔ عید فطر کی نماز بڑی اچھی نماز ہے۔ تمام عبادتیں اس لیے ہیں کہ ہماری تربیت ہو اور ہم آگے بڑھیں۔6 عوامی اجتماع سے خطاب سے اقتباس 1990/4/26عید فطررمضان کا مہینہ اپنی تمام تر عظمتوں، کرامتوں اور رحمت کی فضاؤں کے ساتھ تمام ہوا اور پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس مہینے میں دنوں کے روزوں، دعا و توسل، ذکر و عبادت اور قرآن مجید کی تلاوت کی برکت سے اپنے قلوب کو زیادہ منور اور خدا سے زیادہ قریب کر لیا۔عید فطر عظیم اسلامی تہوار ہے۔ عالم اسلام، عید فطر کے دن حقیقی معنی میں عید مناتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو امت مسلمہ کے لیے اسلام چاہتا ہے۔ (جعلہ اللہ لکم عیدًا و جعلکم لہ اھلًا) آج کے دن کو خداوند متعال نے امت مسلمہ کے لیے عید اور مسلمانوں کو اس عید کا اہل قرار دیا ہے۔ ہمیں اس الہی تحفے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اپنے دلوں میں معرفت اور توبہ و استغفار کے نور کو راستہ دے کر حقیقی معنی میں ذاتی فائدہ بھی اٹھانا چاہیے کہ اگر معرفت و عشق الہی کی دنیا کی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی ہمارے دلوں پر کھل جائے اور ہمارا وجود نورانی ہو جائے تو بیرونی دنیا کی بہت سی تاریکیاں اور مشکلات اپنے آپ دور ہو جائیں گي، کیونکہ یہ انسانوں کا دل ہے جو تمام خوبیوں اور برائیوں کا سرچشمہ ہے۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے:عید فطر، ماہ مبارک رمضان کے بعد انعام حاصل کرنے اور رحمت الہی کا نظارہ کرنے کا دن ہے، بحمد اللہ آپ نے رمضان کا مہینہ جو صوم و صلاۃ کا مہینہ تھا، خیر و عافیت سے گزار دیا اور خداوند متعال نے دعا و مناجات اور ذکر و عبادت کے ساتھ آپ لوگوں کو روزے کی ادائیگی اور اللہ تعالی کے سامنے توسل اور خضوع و خشوع کی توفیق عطا کی۔ آج وہ دن ہے جب ان شاء اللہ خداوند متعال آپ لوگوں کو جزا عنایت کرے گا۔ شاید خداوند متعال کی ایک سب سے بڑی جزا یہ ہو کہ وہ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اگلے ماہ رمضان تک رحمت الہی کے وسیلے کو اپنے لیے محفوظ رکھ سکیں۔ ماہ مبارک رمضان کے درس پر پورے سال کاربند رہیں، یہ ہوگی خداوند عالم کی ایک سب سے بڑی جزا کہ جس نے ہم سب کو اس طرح کی توفیق عطا کی۔ ہمیں خداوند عالم سے رحمت، رضا، (دعا اور اعمال کی) قبولیت، عفو اور عافیت کی دعا کرنی چاہیے کہ درحقیقیت یہی حقیقی عید ہوگی۔مختلف شعبوں کے اہلکاروں سے خطاب سے اقتباس 2001/12/16عید سعید فطر؛ معنوی اور بین الاقوامی تقریبشاید عید سعید فطر کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہو کہ یہ ایک معنوی اور بین الاقوامی تقریب ہے۔ اس بین الاقوامی تہوار کا بڑا ہی نمایاں اور خصوصی معنوی پہلو ہے۔ عید فطر کی نماز کے قنوت میں ہم پڑھتے ہیں کہ (اسئلک بحقّ ھذا الیوم الذی جعلتہ للمسلمین عیداً و لمحمّد صلّی اللہ علیہ و آلہ ذخراً و شرفاً و کرامۃً و مزیداً) تمام مسلمانوں کی عید، اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے باعث شرف، اسلام کا وقار اور پوری تاریخ میں کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے۔ اس نظریے سے عید سعید فطر کو دیکھنا چاہیے۔ آج ہماری عظیم مسلمان قوم کو اس ذخیرے کی ضرورت ہے۔ اس ذخیرے میں سے مسلمانوں کو دو چیزوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے؛ اول باہمی اتحاد اور قربت اور دوسرے عالم اسلام میں معنویت پر توجہ۔ عالم اسلام میں کمال اور ترقی تک پہنچانے والے ان دونوں عناصر کے سلسلے میں بے توجہی پائي جاتی ہے۔حکام کے ساتھ ملاقات میں تقریر کا ایک حصہ2000/12/27جن لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں عبادتیں کیں اور معنوی مواقع سے استفادہ کیا، وہ آج کے دن خداوند عالم سے اپنا انعام حاصل کریں گے۔ بااخلاص روزے، قرآن مجید کی تلاوت، راتوں کی عبادت، خدا کے حضورگریہ، دعا، صدقے اور وہ تمام نیک کام جو آپ عزیز نوجوانوں اور آپ مومن اور اسلامی حقائق سے آگاہ لوگوں نے ماہ مبارک رمضان میں انجام دیئے ہیں، آج ان سب کی جزا آپ کو معنوی طور پر عطا کی جائے گي۔حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے عید فطر کے دن لوگوں کے سامنے ایک خطبہ دیا اور اس خطبے میں یوں بیان فرمایا۔( فقال ایھا الناس ان یومکم ھذا یوم یثاب فیہ المحسنون و یخسر فیہ المسیئون) اے لوگو! یہ وہ دن ہے جس میں نیک کام کرنے والوں کو اپنی نیکیوں کا ثواب ملے گا اور جن لوگوں نے ماہ رمضان میں برائیاں کی ہیں، وہ گھاٹا اٹھائیں گے اور محروم رہیں گے۔عید یعنی سال کا وہ دن جو خوشی اور مسرت کا باعث ہو، کون سی چیز امت مسلمہ کے لیے خوشی کا باعث ہے؟ اسلامی اہداف سے قریب ہونا۔مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور پاکیزگی کے میدان میں ہوتا ہےعید فطر کا دن، طہارت و پاکیزگی کا دن ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پاکیزگی اس وجہ سے ہو کہ آپ نے ایک مہینے تک روزے رکھے ہیں، کوششیں کی ہیں اور اپنے آپ کو برائیوں سے پاک کیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کے علاوہ اس وجہ سے بھی ہو کہ اس دن میدان عبادت میں حاضر ہو کر آپ نے اجتماعی عبادت میں حصہ لیا ہے، بہر حال بات یہ ہے کہ مسلمان انسان ماہ رمضان کے بعد ( عید فطر کے دن) طہارت اور تزکیے کے میدان میں ہوتا ہے۔عید فطر کا دن وہ دن ہے جب مسلمان، ماہ مبارک رمضان کے اہم تعمیری اور تربیتی امتحان سے گزر کر گویا پروردگار عالم کے حضور میں حساب کتاب کے لیے بیٹھتے ہیں اور اپنے ماہ رمضان (کے اعمال) کو اپنے پروردگار کے حضور پیش کرتے ہیں۔ عید فطر کی شب و روز کی دعاؤں میں اس مفہوم کی جانب اشارہ کیا گيا ہے (تقبّل منّا شھر رمضان) ماہ مبارک رمضان کو خدا کی جانب سے قبول کیے جانے کے لیے پیش کرتے ہیں۔- عید فطر کی مبارکباد، ماہ مبارک رمضان کو کامیابی سے گزارنے کی تہنیت کے معنی میں ہے۔- عید سعید فطر دنیا کے ایک ارب مسلمان آبادی کے جشن و سرور کا دن ہے۔- عید فطر کے دن کو، جیسا کہ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام کی روایت میں آیا ہے، قیامت کے دن یعنی روز جزا سے تشبیہ دی گئي ہے۔عید فطر کا دن، عبادت کی عید ہے، مغفرت کی عید ہے، اس مومن مسلمان کے لیے ریاضت اور جدوجہد کے ایک مختصر وقفے کے خاتمے کی عید ہے کہ جو اپنی اس ریاضت اور جدوجہد سے، تہذیب تفس اور اپنے اندر نیک جذبات اور محرکات کی تعمیر و تقویت کے لیے استفادہ کرنا چاہتا ہے اور سال بھر اور پوری عمر اس سے فائدہ اٹھانے کا خواہشمند ہے۔حقیقی عیدآپ حضرات کے سامنے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ایک حدیث پڑھوں۔ آپ سے منقول ہے کہ (انّما ھو عید) آج حقیقی عید ہے؛ (لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ) اس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ (وکل یوم لا یعصی اللہ فیہ فھو عید) اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔ عزیزو! خدا کی معصیت کا ارتکاب نہ کرکے اور محرمات الہی سے اجتناب کرکے، آج کے دن کو عید بنا لیجیے، کل کے دن کو عید بنا لیجیے، سال کے ہر دن کو اپنے لیے عید بنا لیجیے۔عید فطر کا دن، خدا کی عبادت اور اس سے تقرب کا دن خداوند عالم نے اس مہینے کے آخر میں کہ جو روزے اور عبادت کا مہینہ ہے، ایک ایسا دن رکھا ہے جو عید کا دن ہو، اجتماع کا دن ہو، بہت بڑا دن ہو۔ مسلمان بھائی ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، ماہ مبارک رمضان میں حاصل ہونے والی کامیابی اور توفیق کی قدردانی کریں، اپنے اور خدا کے (درمیان اعمال کا) احتساب کریں، جو کچھ اس مبارک مہینے میں ان کے لیے ذخیرہ ہو چکا ہے اسے اپنے لیے محفوظ رکھیں۔ وہ دن، عید کا دن ہے۔عید فطر کا دن اگرچہ عید ہے لیکن عبادت، توسل، ذکر خدا اور خدا سے قریب ہونے کا بھی دن ہے۔ یہ دن نماز سے شروع ہوتا ہے اور دعا اور توسل پر ختم ہوتا ہے۔ اس دن کی قدر کیجیے، تقوے کے ذخیرے کو غنیمت جانیے اور عید فطر کی اہمیت کو سمجھیے۔- یہ دن، بہت عظیم دن ہے اور نبی اکرم حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نیز پوری تاریخ کی تمام اسلامی امتوں سے متعلق ہے۔- ہر عید فطر ایک آگاہ اور ہوشیار مسلمان انسان کے لیے ایک حقیقی عید کا دن ہو سکتی ہے۔ معنوی اور روحانی زندگی کا دوبارہ آغاز، پودوں اور درختوں کے لیے بہار کی مانند۔ایک انسان کو، جو ممکنہ طور پر پورے سال مختلف قسم کے گناہوں اور برائیوں میں مبتلا رہا ہو اور جس نے نفسانی خواہشات نیز بری خصلتوں کے سبب اپنے آپ کو رحمت الہی سے دور کرلیا ہو، پروردگار عالم کی جانب سے ہر سال ایک سنہری موقع عطا کیا جاتا ہے، اور وہ موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ ماہ رمضان میں دل نرم ہو جاتے ہیں، روحوں میں بالیدگی اور درخشندگی آتی ہے، انسان، خدا کی خصوصی رحمت کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور ہر کوئي اپنی استعداد، کوشش اور جدوجہد کے مطابق ضیافت الہی سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان کے ختم ہوتے ہی، نئے دن کا آغاز، عید فطر کا ہے یعنی وہ دن کہ جب انسان ماہ رمضان میں حاصل کیے گئے نتیجوں سے استفادہ کرکے خدا کے سیدھے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور غلط راستوں سے بچ سکتا ہے۔
آپ (نوجوان افراد) ہم لوگوں سے بہت بہتر ہیں۔ آپ ہم لوگوں سے جلدی اور بہتر طریقے سے خدا کا پیغام سمجھ سکتے ہیں۔ خدا آپ سے گفتگو کرتا ہے، آپکی باتوں کا جواب دیتا ہے اور آپ اس جواب کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے طلبا سے ملاقات کے دوران 26/7/1999 بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان صرف گناہ کی طرف مائل رہتا ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ایک نوجوان جس طرح جسمانی لحاظ سے مضبوط ہے اسی طرح اس کی قوت ارادی بھی مضبوط ہے۔ صوبہ گيلان میں سپاہ پاسداران کی قدس16 بٹالین کے پریڈ گراؤنڈ میں6/5/2001 دین، نوجوانوں کی فطرت اور اسکے مزاج میں شامل ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اور آپ انہیں خدا سے آشنا کریں انکا ضمیر، انکا دل اور انکی نوارنیت انہیں خدا سے آشنا کردیتی ہے۔سپاہ پاسداران کے کمانڈروں سے ملاقات کے دوران 9/3/1999بعض لوگ سوچتے ہیں کہ گناہوں سے صرف بوڑھوں کو بچنا چاہیے حالانکہ بوڑھے افراد جس طرح جسمانی اعتبار سے کمزور ہیں اسی طرح روحانی اعتبار سے بھی کمزور ہیں۔ (جبکہ انکے مقابلے میں) نوجوان کا ارادہ، ثبات قدم اور استقامت ان سے کہیں زیادہ ہے۔یہ ایک کلیدی نکتہ ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب سے اقتباس16/11/2000دین و معنویت کی راہ کہیں پر بھی ختم نہیں ہوتی۔صوبہ اردبیل کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد سے ملاقات کے وقت26/7/2000نوجوان، حق و حقیقت کو بہت آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ نوجوان کھلے دل و دماغ سے اعتراض کرتا ہے اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ حق کو آسانی کے ساتھ قبول کرلینا، کھلے دل سے اعتراض کرنا اور بغیر کسی ذہنی الجھن کے قدم بڑھانا؛ آپ ان تین چیزوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کتنی خوبصورت حقیقت آپکی آنکھوں کے سامنے ہے جو مشکلات حل کرنے کا بڑا کارگر نسخہ ہے۔صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے خطاب سے اقتباس 3/11/2001دور حاضر کا جوان چاہتا ہے کہ اسکے لیے مذہبی تعلیمات کی وضاحت کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ دین تک عقل و استدلال کے ذریعہ پہونچے۔ یہ ایک فطری اور اچھا مطالبہ ہے۔ یہ مطالبہ خود دین نے اپنے پیروکاروں کو سکھایا ہے۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد سے خطاب 16/11/2000 نوجوان فطری طور پر اصلاح پسند ہوتا ہے۔ فی الحال میرے مد نظر سیاسی دنیا والی اصلاح نہیں ہے۔ نوجوان کے اصلاح پسند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور سوسایٹی میں انصاف، قانونی آزادی اور دینی افکار کا بول بالا ہو۔ اسلامی تعلیمات اس کے اندر ایک انقلاب برپا کردیتی ہیں اور وہ ان تعلیمات کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ اس کے ذہن میں امیرالمومنین (ع) کی جو تصویر ہے وہ اس کے اندر ایک انقلاب پیدا کرتی ہے ۔ وہ موجودہ حالات کی کمیوں کا جائزہ لیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کے سماج میں اصلاح ہو۔ یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سےملاقات میں 3/11/2001انسان خاص طور پر نوجوان، خوبصورتی کی طرف مایل ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ خود بھی خوبصورت ہو ۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ ایک فطری چیز ہے جس سے اسلام نے بھی نہیں روکا ہے۔ جس چیز سے اسلام نے روکا ہے وہ اس کا غلط استعمال ہے۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے نوجوانوں کی بزم میں27/4/1998 نوجوان ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ آپ پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں پر بھی یہ نہیں دیکھیں گے کہ کسی ملک میں نوجوانوں کی تحریک دشمنوں کے حق میں شروع ہوئی ہو۔ ہمیشہ نوجوانوں نے اپنے ملک میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف تحریک چلائی ہے۔تہران کی یونیورسٹیوں کی طلباء یونینوں سے خطاب سے اقتباس14/1/1999 ہر نوجوان کے سامنے کچھ مسایل ہوتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جا کستا کہ تم ان کے بارے میں نہ سوچو۔ نوجوان کو سب سے پہلے اپنی تعلیم اورمستقبل کی فکر ہے۔ وہ اپنے مستقبل کو سنوارنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا گھر بار بسانا چاہتا ہے۔ جو چیزیں جمالیات سے متعلق ہیں انکی طرف اسکا رجحان زیادہ ہے۔ جن چیزوں کا تعلق احساسات و جذبات سے ہے نوجوان کا ان سے ایک گہرا تعلق ہے۔ لیکن نوجوان صرف انہی چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ اپنی سوسایٹی کی مشکلات کے بارے میں بھی فکرمند رہتا ہے۔ اگر سماج میں اونچ نیچ ہو تو وہ رنجیدہ ہوتا ہے۔ اگر سوسایٹی میں انصاف نہ ہو تو وہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ اگر معاشرے میں برائیاں پھیلنے لگیں توجو نوجوان اپنے ملک نجات دلانے کی کوشش کرتا ہے، وہ معاشرے کا درد رکھتا ہے۔ اگر کسی جگہ انقلابی فکر و عمل کی ضرورت ہو تو نوجوان اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ صوبہ اراک کے نوجوانوں سے ملاقات 16/11/2000 میں یہ نہیں کہتا کہ نوجوان مستحب عبادتیں زیادہ انجام دیں مثلاً بہت زیادہ دعائیں پڑھیں،بہت زیادہ تلاوت قرآن کریں یا مستحبی نمازیں پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کہ وہ جتنا اور جو کچھ بھی انجام دیں توجہ سے انجام دیں۔ نوجوانوں کے ایک پروگرام میں 3/2/1998زندگی چند پل کی ہے!نوجوانی میں انسان اس بات کو سمجھ نہیں پاتا لیکن جب وہ زندگی کے بارے میں سوچتا ہے اور ایک عمر بسر کر لیتا ہے تب اسے سمجھ میں آتا ہے کہ زندگی چند پل سے زیادہ کی نہیں ہے۔ تیرہ آبان کے یادگار دن پر نوجوانوں اور دیگر طبقات سے خطاب سے اقتباس5/11/1997 دینداری کو صرف ظاہری اعمال و عبادات کے بجائے خدا سے عشق و محبت اور ایک خصوصی رابطہ سے بدل دینا چاہیے۔ آپ ابھی سے کوشش کریں کہ معنی و مفہوم سمجھ کرنماز پڑھیں۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 4/10/2001اگر مجھ سے کہا جائے کہ میں ایک جملہ میں بتائوں کہ مجھے نوجوانوں سے کیا چاہئے تو کہوں گا : تعلیم، تربیت اور ورزش۔ ہفتۂ نوجوان کی مناسبت سے خطاب سے اقتباس 27/4/1998جوانوں کیلیے ورزش بہت ضروری ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ورزش سب کیلیے ضروری ہے۔ البتہ میری مراد پیشہ ورانہ ورزش نہیں ہے۔ پیشہ ورانہ ورزش کے لیے بھی منع نہیں کررہا ہوں لیکن یہ بھی نہیں کہوں گا کہ سارے نوجوان پیشہ ورانہ ورزش کی لاین میں چلے جائیں۔ ورزش تو درحقیقت صحت و تندرستی اور نشاط و تازکی کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہے۔ طلبا اور تربیتی امور کے عہدیداروں کی اسلامی انجمنوں سے خطاب 26/2/2001آپ لوگوں (جوان افراد) کے اندر ایک خزانہ ہے۔ اس کو نکالنا چاہیے۔ اسے کون نکالے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ ہی کو یہ کام کرنا ہوگا۔ اپنی استعداد و صلاحیت کے خزانے کو سب سے پہلے خود انسان ہی باہر نکالتا ہے۔ اسکولی بچوں اور طلبا کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس4/10/2001 ممکن ہے کہ بعض جگہوں پر تعلیم کے مواقع نہ ہوں۔ میں نقایص اور کمیوں کی طرفداری نہیں کر رہا ہوں لیکن یہ یاد رکھیے کہ اگر مجھ سے عوام اور حکومتی عہدوں پر فایز افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کو کہا جائے تو میں ہرگز کسی عہدیدار کو خوش کرنے کیلیے لوگوں کے حق کو نظرانداز نہیں کروں گا۔ اراک کے نوجوانوں کے اجتماع سے خطاب سے اقتباس 16/11/2000جوان کی سب سے اہم ضرورت اس کی اپنی شخصیت ہے۔ اسے اپنے ہدف اور اپنی شخصیت کو پہچاننا چاہیے۔ اسے یہ جاننا چاہیے کہ وہ کون ہے اور کیا کرنا چاہتا ہے۔ دشمن یہ چاہتا ہے کہ نوجوانوں سے ان کی شخصیت چھین لے۔ ان کے اہداف و مقاصد کو ختم کردے۔ ان سے کہے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو اس لیے میرے پاس آجائو تاکہ میں تمہیں زندگی دوں۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس 2/5/2001ذمہ داریاں اور حقوق ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں۔ بغیر ذمہ داری کے کسی کو کوئی بھی حق حاصل نہیں ہوتا۔ جسے بھی کچھ ملتا ہے اسے اس کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اس لیے آپ اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ کر صرف اپنے حقوق کا مطالبہ نہ کریں کیونکہ یہ ایک غیرعقلی وغیرمنطقی بات ہوگی۔ صوبہ اصفہان کے نوجوانوں سے ملاقات میں3/11/2001 ایران کو دسیوں سال تک امریکا سے دوستی کا تلخ تجربہ رہا ہے۔ یہ ملک صیہونیوں اور امریکی سرمایہ داروں کا اڈا بن گیا تھا۔ وہ یہاں سائنس و ٹکنولوجی دینے، یہاں کی یونیورسٹیون کا معیار تعلیم اونچا کرنے یا یہاں کے نوجوانوں کو پڑھانے نہیں بلکہ برائیاں پھیلانے اور موج مستی کرنے آئے تھے۔امام خمینی(رہ) کے یوم ولادت پر طلبا اور اسکولی بچوں سے ملاقات میں 3/11/1998 میں کہتا ہوں کہ جوانوں کو بہلانے کے بجائے ان سے صاف صاف بات کی جائے۔ انکے سامنے مشکلات اور وسایل کے سلسلے میں کھل کر گفتگو کی جائے اور پھر اس کے بعد مشکلات دور اور وسایل فراہم کرنے میں مصروف ہو جایا جائے۔ ایسی صورت میں خود یہ نوجوان آپ کی مدد کریں گے اور مشکلات دور ہوں گی۔ آپسی روابط میں نوجوان کو سچائی سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔ رشت میں نوجوانوں اور تعلیمی شعبے کے ذمہ داران سے خطاب سے اقتباس2/5/2001میرا ماننا ہے کہ نوجوانوں کے سلسلہ میں افراط و تفریط سےکام نہیں لینا چاہئے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان لاابالی ہوتے ہیں۔ میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ بعض لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں کوئی برائی ہے ہی نہیں میں اس سے بھی متفق نہیں ہوں۔ نوجوانوں سے سچائی کے ساتھ دوستانہ انداز میں بات کرنی چاہیے۔ اراک میں ایک عظیم عوامی اجتماع سے 4/11/2000میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس سیاسی شعور ہونا چاہیے۔ لیکن جو چیز انکی بنیادی ضرورت ہے وہ سیاست نہیں بلکہ ایمان ہے۔ 3/9/1996 بے روزگاری سے غریبوں اور امیروں کے درمیان طبقاتی فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ بعض لوگ دن بدن غریبی کے دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ مختلف راستے اپنا کر دولت اور امیری کی چوٹیوں پر پہونچ جاتے ہیں۔ تہران کی نماز جمعہ میں قائد انقلاب کے خطاب سے اقتباس 18/5/2001اگر ہم اپنے ملک کو سربلند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم و ٹکنولوجی کے ذریعہ آگے بڑھنا ہوگا۔ ملکی سطح پر تعلیم کے ممتازین کے درمیان 11/10/1999جو قوم اپنا دفاع نہیں کرسکتی وہ عالمی سطح پر ہونےوالی تبدیلیوں اور ترقیوں سے کچھ بھی نہیں حاصل کرسکتی۔ جو قوم اپنے دفاع کیلے دوسروں کا منہ تاک رہی ہو اور دوسروں کے آسرے پر ہو وہ وقت پڑنے پر اپنا دفاع نہیں کرسکتی۔ فوجی اکیڈمی سے تعلیم یافتہ افراد اور طلبائ کے درمیان تقریر سے اقتباس 6/10/1990ہر وہ عہدیدار کہ جس کی کچھ ثقافتی ذمہ داریاں ہیں اگر صرف کسی پارٹی کو مدنظر رکھ کر کام کرے تو یہ اس کی خیانت ہوگی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئی نسل خراب ہوگئی ہے وہ غلطی پر ہیں اور اسی طرح وہ لوگ بھی غلطی پر ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ نوجوانوں کو صرف اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔(2/5/2001)مجھے افسوس ہے کہ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ جہاں بھی وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرپاتے نوجوانوں کو درمیان میں لے آتے ہیں( اور انکے نام پر اپنی کوتاہیوں کا عذر پیش کرنا چاہتے ہیں )اگر ہم نوجوانوں کی حقیقت، ان کی آرزووں اور امیدوں سے بے خبر ہیں اور ان کے لیے ہمارے پاس کوئی پروگرام نہییں ہے تو انہیں بہلانا اور گمراہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ (2/5/2001)تعلیم کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اسٹوڈنٹس کے ہاتھ میں کچھ معلومات اور انفارمیشنس تھما دیں اور ان سے کہیں کہ اسے پڑھو! اسکے بعد ایک وقت معین کردیں کہ اس میں امتحان دو۔ اسے تعلیم نہیں کہتے۔ تعلیم ایسی ہونی چاہیے جو انسان کا ذہن کھولے، فکرکو ابھارے اورسب سے بڑھ کر اسٹوڈنٹ میں پڑھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا کردے۔ وزارت تعلیم کے عہدیداروں سے ملاقات کے دوران 17/7/2002یہ ہمارے اپنے بچے ہیں۔ یہ ہمارے ہی نوجوان ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات کچھ بھی ہوں اس سےکچھ نہیں ہوتا ۔ ان کے اپنے الگ الگ نظریات ہیں اور اپنی ایک الگ شخصیت ہے لیکن ہمارے سامنے یہ سب ہمارے بچے اور آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ پورے ملک کے ائمہ جمعہ سے ملاقات کے وقت20/5/1998 میرے عزیزو!انسان کی جوانی ہی اسکے بڑھاپے کے خد و خال تیار کرتی ہے۔ ۲۳ رمضان کی دعوت افطار میں اسلامی انجمنوں کے طلبا کے درمیان 21/1/1998خدا تک پہنچنے کا راستہ انہی مادی اور دنیوی وادیوں سے ہو کر گزرتا ہے لیکن مادیات کے درمیان رکتا نہییں ہے۔ جس انسان نے خود کو مادیات میں غرق کر رکھا ہے اسکا گناہ یہ نہیں ہے کہ اس نے دنیا پر توجہ کی ہے بلکہ اسکا گناہ یہ ہے کہ اس نے مادی خواہشات سے آگے بڑ ھ کر کسی بلند اور عظیم ہدف تک رسائی کی کوشش نہیں کی ہے۔ صوبہ اردبیل کے جوانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب 26/7/2000صحیح راستہ کیا ہے؟ یہی کہ نوجوان یہ فیصلہ کرلے کہ وہ اپنی زمین میں اپنا ہی بیج بوئےگا، اپنی ثقافت کو اپنائے گا، خود ارادہ کرے گا، اپنی شخصیت کو اہمیت و آزادی دےگا، ذلت کے قریب بھی نہ جائے گا اور بے جا تقلید اور دوسروں کو آئیڈئیل بنانے سے پرہیز کرےگا۔ (2/5/2001)احساس ذمہ داری کا مطلب یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، روزگار، کیریر، شادی اوراپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے اسی طرح ان اہداف کے بارے میں بھی سوچے جو اس کی ذات سے بڑھ کر ہیں۔ وہ اہداف کہ جو صرف اس سے متعلق نہیں بلکہ پوری قوم، تاریخ اور انسانیت سے متعلق ہیں۔صوبہ سیستان و بلوچستان کے نوجوانوں کے درمیان 25/2/2003ایک طرف کج فہمی، تنگ نظری اور دین کوسمجھنے میں غیرضروری تعصب و جہالت اور دوسری طرف دین کے سلسلے میں نام نہاد روشن فکری، دینی تعلیمات پر اعتقاد نہ ہونا اور اسلامی احکام کی رعایت نہ کرنا شہید مطہری کے بقول قیچی کی مانند نوجوان کی دینداری کو کاٹ رہے ہیں۔وزیر تعلیم و تربیت اور امور کے عہدیداروں سے رہبر انقلاب کی ملاقات 26/2/2000ہماری روایات میں یہ نکتہ بہت آیا ہے کہ خداوندعالم قیامت میں کسی بھی انسان کو چار چیزوں کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھنے دے گا ان میں سے ایک جوانی ہے کہ جوانی کس طرح اور کہاں بتائی؟بسیجی(رضاکار) طلباء سے خطاب سے اقتباس 16/12/1998اگر آج آپ نے دنیا پرست افراد کی راہ پر ایک قدم بھی رکھ دیا تو آیندہ بھی آپ اسی راستے پر چلتے رہیں گے۔ کفا فاؤنڈیشن کی مرکزی کمیٹی کے اراکین سے گفتگو کے دوران 15/7/2001میرے عزیزو!جوان کی ایک اہم خصوصیت اس کا پرامید ہونا ہے، کوشش کیجئے کہ یہ خصوصیت آپ کے ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ (7/11/2001)پیسے کی خاطر زندگی بسر نہیں کرنی چاہیے۔ دولت کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ صرف پیسہ کمانا ہدف نہیں ہے بلکہ یہ تو زندگی گزارنے کا ایک وسیلہ ہے اس لیے یہ انسان کا مقصد نہیں بن سکتا ہے۔ (2/5/2001)
امیرالمومنین (ع)ایسے مقدس اور نورانی صفات وخصوصیات کےحامل انسان ہیں کہ ہم انھیں سمجھنے سے بھی قاصر ہیں آپ کی علمی منزلت آپ کا نورانی مرتبہ آپ کی عصمت و طہارت وہ حقائق ہیں جو آپ کی ذات پاک اورآپ کے قلب منور میں موجزن تھے اور علم وحکمت کی شکل میں آپ کی زبان مبارک پر جاری رہتے تھے، وہ تقرب الہی اور وہ ذکر الہی جو ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے کردارسے نمایاں اور زبان پر جاری رہتا تھا ایسی چیزیں ہیں جو آپ کی نورانی فطرت کی مانند ہمارے فہم و ادراک سے باہر ہیں ۔لیکن ہم ان پر یقین و عقیدہ رکھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں ،چونکہ انھیں سچے انسانوں سے سنا ہے ۔لیکن امیر المومنین (ع) کی دوسری خصوصیات وہ ہیں جوآپ کی ذات مقدس کوہر دورکے تمام انسانوں کیلۓ معیار اور نمونہ عمل بناتی ہیں اور وہ اتباع اور پیروی کرنے کیلۓ ہیں۔ معیاراورنمونہ عمل ان کاموں کو مطابقت دینےکیلۓ ایک میزان اور وسیلہ ہوتا ہے جو انسان انجام دینا چاہتاہے ۔ یہ نمونہ عمل کسی خاص گروہ وطبقے سے مخصوص نہیں ہے ، حتی صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم جو یہ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت اتنی پرکشش ہے اس کی وجہ یہی خصوصیات ہیں۔لہذا جو لوگ مسلمان بھی نہیں ہیں یا آپ کی امامت کی بھی تصدیق نہیں کی ہے وہ بھی ان خصوصیات کی عظمتوں کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہيں اور نہ چاہتے ہوۓ بھی مدح وستائش کرنے لگتے ہیں۔بنابرایں یہ خصوصیات سب کیلۓ نمونہ عمل اور مثالی ہیں۔ اور ہم جو آج ایک اسلامی حکومت کے حامل ہیں اور علوی حکومت کادعوی کرتے ہیں ہمارے لیۓ یہ نمونہ عمل سب سے زیادہ ضروری فوری اور ناقابل چشم پوشی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف زبان سے آپ کو امیرالمومنین (ع) کہاجاۓ اور آپ سے اظہار محبت و الفت کی جاۓ لیکن عمل سے آپ کی سیرت اور اس درس کی مخالفت کی جاۓ جو آپ نے اپنے عمل اور کردارکے ذریعے ہمیں دیا ہے۔ میری اور مجھ جیسے لوگوں کی ذمیداریاں سنگین ہیں جو حکومت کے اہلکارہیں ۔چونکہ ہمیں عمل کرنا چاہۓاور اس راستے پر چلنا چاہۓ جس پر وہ چلیں ہیں۔ممکن ہے بعض افراد کہیں کہ تم کہاں اور امیر المومنین (ع) کہاں؟ان کی طاقت ان کی توانائی ان کا ایمان ان کاصبران کی معنوی اور روحانی طاقت کہاں اور تم کہاں؟البتہ یہ بات بالکل درست ہے ہم میں کسی کا ان سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہتر ہیں وہ بلندہیں اور ہم پست؛نہیں ،بنیادی طورپر یہ موازنہ ہی غلط ہے۔وہ آسمان کی بلندیوں پرہیں آپ امیرالمومنین(ع) کی شخصیت کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالیں گے دیکھیں گے کہ اس میں عجائبات چھپے ہوئے ہیں۔یہ مبالغہ نہیں ہے۔ یہ عجزانسانی کاردعمل ہے کہ انسان نے برسوں امیرالمومنین علیہ الصلواۃ و السلام کی زندگی پر تحقیق کی اوراس نتیجے پر پہنچااوراپنےاندر یہ محسوس کیا کہ علی علیہ السلام کی عظیم شخصیت کو اس معمولی فہم کے ذریعے؛یعنی اس معمولی ذہن عقل حافظہ اور ادراک کے ذریعے نہیں سمجھا جاسکتا۔ آپ کی شخصیت کے ہر پہلو میں عجائبات ہیں ۔البتہ امیرالمومنین (ع) پیغمبراکرم (ص) کی دوسری تصویر ہیں اورآنحضرت (ص)کے شاگردوں میں ہیں البتہ ہمارے سامنےموجود یہ عظيم شخصیت جواگرچہ خود کوپیغمبر(ص) کے سامنے چھوٹااور معمولی سمجھتی ہے اور خود آنحضرت (ص) کی شاگرد ہےجب ہم اسے انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں ایک مافوق البشر شخصیت نظر آتی ہے میں امیرالمومنین (ع) کی زندگی کے بارے ميں ایک نکتہ عرض کروں اور وہ آپ کی وہ خصوصیت ہے جسے میں امیرالمومنین (ع) کی شخصیت میں توازن سے تعبیرکرتاہوں۔آپ کی شخصیت میں حیرت انگیز توازن پایا چاتاہے یعنی امیرالمومنین (ع) کے وجود میں بظاہر متضاداور ایک دوسرے سےمختلف صفات اتنی خوبصورتی سے جمع ہیں کہ خود ایک طرح کا حسن پیدا کر رہے ہيں۔ انسان کو کسی کے اندر بھی یہ صفات یکجا نہیں ملیں گے۔امیرالمومنین (ع) کے اندر اس قسم کے بےشمار صفات موجود ہیں ایک دو نہیں بہت زیادہ ہیں۔اس وقت میں ان میں سے کچھ متضاد صفات جو امیرالمومنین (ع) کے اندرموجودہیں بیان کررہا ہوں ؛مثلا رحم و نرم دلی صلابت وسختی کے ساتھ سازگار نہیں ہوتی،لیکن امیرالمومنین (ع) کے اندر محبت و مہربانی اور رحمدلی اتنے اعلی پیمانے پر ہے کہ عام انسانوں کے اندربہت کم نظر نہیں آتی ہے۔ رحمدلی اور مروت کا عالم یہ ہے کہ آپ نہ صرف یتیم بچوں کے گھرجاتے ہيں ، نہ صرف یہ کہ ان کاتنور جلاتے ہیں ان کے لۓ روٹی پکاتے ہیں اوروہ کھانا جو ان کیلۓ لے گۓ ہیں اپنے ہاتھوں سےان بچوں کو کھلاتے ہیں بلکہ غمگین اور رنجیدہ بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ لانےکیلۓ ان کے ساتھ کھیلتے بھی ہیں۔ان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور انہیں اپنےکندھوں پر بٹھاکرگھماتے ہیں اور ان کے معمولی سے گھر میں انھیں کھیل کود میں مشغول کرتے ہیں تاکہ یتیم بچوں کے لبوں پر مسکراہٹ آسکے۔ امیرالمومنین کی محبت اور رحمدلی کا عالم یہ ہے کہ اس دور کے ایک بزرگ نے کہاکہ میں نے امیرالمومنین(ع) کو غریب اور یتیم بچوں کے منہ میں اپنی مبارک انگلیوں سے شہد کھلاتے ہوئے اتنا زیادہ دیکھاہے کہ اپنے دل میں سوچا کاش میں بھی یتیم ہوتاکہ علی (ع) مجھ پر بھی اس طرح لطف وکرم کرتے۔( بحار الانوار کی اکتالیسویں جلد کے انتیسویں صفحے پر یہ روایت موجود ہے ) ۔ یہی امیر المومنین نہروان کے واقعے میں جہاں کچھ کج فکر اور متعصب افراد نے بے بنیاد بہانوں سے حکومت گرانے کی کوشش کی تھی جب ان کا سامنا ہوتا ہے تو انھیں نصیجت کرتے ہیں ،کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،اعتراض کرتے ہیں ،کوئی فائدہ نہیں ہوتا ،ثالث بھیجتے ہیں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا،مالی مدد کرتے ہیں اور ساتھ دینےکا وعدہ کرتے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا توآخر میں صف بندی کرتے ہیں پھر بھی نصیحت کرتے ہیں اور جب اس کا بھی کوئ نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔یہ وہی علی ہیں۔ جب آپ کے مد مقابل بد طینت اور بد ذات لوگ ہوتے ہیں اور بچھو کی مانند عمل کر رہے ہیں،پھر آّپ سختی سے کام لیتے ہيں۔خوارج کا صحیح ترجمہ نہیں کیا جاتا ، افسوس کہ میں یہ دیکھتا ہوں کہ بات چیت اشعار تقاریراور فیلم وغیرہ ہرچیز میں خوارج کو خشک مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے یہ غلط ہے خشک مقدس کیاہے ؟امیرالمومنین (ع) کے زمانے میں بہت سے ایسے تھے جنھیں صرف اپنی فکر تھی،اگر آپ خوارج کوپہچاننا چاہتے ہيں تو میں اس کا نمونہ اپنے دورمیں آپ کو دکھاتاہوں، منافقین تو آپ کو یاد ہی ہوں گے۔۔۔۔ خوارج کو بخوبی پہچان لیجۓ؛ایسے لوگ جو بظاہر دین کو مانتے تھے ،آیات قرآن کا سہارا لیتے تھے قرآن کانام لیتے تھے نہج البلاغہ کا نام لیتے تھے... بظاہر دین کی بعض باتوں پر عقیدہ رکھتے تھےلیکن دین کے اساسی اور بنیادی اصولوں کی مخالفت کرتے تھے اور اس سلسلےمیں متعصب بھی تھے اللہ کا دم بھرتے تھے لیکن شیطان کی پیروی کرتے تھے۔آپ نے دیکھا کہ منافقین ایک زمانےمیں بڑے بڑے دعوے کرتے تھے اور بعد میں جب ضرورت پڑی تو انفلاب ،امام ،اور اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ کرنےکیلۓ امریکہ صدام صیہونیوں اور ہر کسی سے ہاتھ ملانے کیلۓ تیار ہوگۓ اور ان کی غلامی کرنے کیلۓآمادہ ہوگۓ،خوارج بھی ایسے ہی تھے۔ پھراس وقت امیرالمومنین(ع) سختی سے پیش آۓ۔ یہ وہی علی ہیں جن کیلۓ سورہ فتح کی انتیسویں آیت میں ارشاد ہوا ہے،اشداء علی الکفار و رحماء بینھم،دیکھیں یہ دونوں خصوصیات نے امیرالمومنین میں کتنی خوبصورتی پیدا کردی ہے۔اتنے رحم دل انسان ہیں کہ آپ کو یہ برداشت نہیں کہ کوئ یتیم بچہ رنجیدہ رہے ،فرماتے ہیں کہ جب تک میں اسے ہنسا نہں لوں گایہاں سے جاؤں گا نہیں لیکن وہاں ان کج فکر اورکج عمل انسانوں کے سامنے جو بچھو کی مانند ہربیگناہ کوڈنک مارتے ہیں،ڈٹ جاتے ہیں یہ آپ کی حکومت اور تقوے کا ایک اور نمونہ ہے۔بڑی عجیب چیز ہے ورع کے معنی کیا ہیں؟ورع یعنی انسان ہر اس مشکوک چیز سے اجتناب کرے جس سے دین کی مخالفت کی بو آتی ہو۔تو پھر حکومت کا کیا ہوگا کیا ،کیا حکومت میں انسان اس قسم کا زہد و ورع اختیار کرسکتاہے ؟ہم اس وقت میدان عمل میں ہیں جانتےہیں کہ اگر کسی میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو مسئلہ کتنا اہم ہوجاۓ گا ۔حکومت میں انسان کو کلی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، جس قانون پر عمل کرتاہے اسے ہزار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن ممکن ہے اس قانون میں کہیں کسی پر ظلم ہومامور انسان ممکن ہے دنیاکے کسی حصےمیں اس ملک کےکسی گوشےمیں کوئی خلاف ورزی کرے ،انسان اس قدرلامحدود تفصیلات کے ہوتے ہوۓ زہدو ورع کی کیسے پابندی کرسکتاہے؟ لہذ ا حکومت بظاہر زہد و ورع کے ساتھ سازگار نہيں ہے لیکن امیرالمومنین(ع) نےمظبوط ترین حکومتوں کے ساتھ میں بھی زہد و ورع کو اکٹھا کردیا ،اور یہ بہت عجیب بات ہے ۔اور وہ اس سلسلے میں کسی سے کوئ مروت نہیں کرتے تھے اگر ان کی نظر مبارک میں کوئی حاکم کمزور ہوتااوراس کام کے لۓ مناسب نہ ہوتاتو اسے معزول کردیتے تھے۔محمد ابن ابی بکر آپ کے بیٹے کی مانند تھے اور آپ انھیں بیٹے کی ہی طرح سمجھتے تھے اور وہ بھی حضرت علی علیہ السلام کو باپ کی نظر سے دیکھتے تھے وہ ابو بکر کے چھوٹے بیٹےاور امیرالمومنین کے مخلص شاگرد تھے اور آپ کی آغوش میں پروان چڑھے تھے امیرالمومنین نے محمد ابن ابی بکر کو مصر بھیجا ،اور پھر خط لکھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ تم -ہماری لفظوں میں بیٹا تم مصر کیلۓ کافی نہیں ہو ؛تمیھیں برطرف کررہا ہوں مالک اشتر کو منصوب کر رہا ہوں ۔محمد ابن ابی بکر کو برا لگا اور رنجیدہ ہوگۓ ؛آخر انسان ہیں ۔چاہے جتنے بھی اعلی مرتبے پر کیوں نہ ہوں انھیں برالگا۔ لیکن امیرالمومنین (ع) نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اورکوئ اہمیت نہیں دی ۔محمد ابن ابی بکر جیسی عظیم شخصیت جو بیعت کے وقت اور جنگ جمل میں امیرالمومنین(ع) کے بہت کام آئے تھے؛ابو بکر کے بیٹےاور ام المومنین عائشہ کے بھائی تھے، حضرت علی (ع) کے لیۓ اس قدر اہمیت کی حامل تھی ، لیکن آپ(ع) نے محمد ابن ابی بکر کی رنجیدگی کو کوئی اہمیت نہیں دی، یہ زہد و ورع ،ایسا زہد جوحکومت میں ایک انسان اور ایک حکمراں کے کام آتا،ایسااعلی درجےکا زہد امیرالمومنین کے اندرموجود ہے۔دوسرانمونہ آپ کی طاقت و مظلومیت ہے۔ آپ کے زمانے میں کوئ آپ کی مانند طاقتور نہیں تھا۔ وہ عجیب و غریب شجاعت حیدری کس کے اندر تھی -آپ کی عمر کے آخری حصے تک کسی نے بھی آپ کی شجاعت کا مقابلہ کرنے کا دعوی نہیں کیا۔یہی انسان جو اپنے زمانے کا سب سے زيادہ مظلوم انسان تھا بلکہ جیسا کہ کہا گیاہے اور صحیح بھی ہے، شائد تاریخ انسانیت کا سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اس کی طاقت و مظلومیت کے دوعنصر ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں ،معمولا جو لوگ طاقتور ہوتے ہیں وہ مظلوم نہیں ہوتے لیکن امیرالمومنین(ع) مظلوم واقع ہوۓ ہیں ۔ دوسرانمونہ زہد ہے امیرالمومنین(ع) کے زہد اور دنیا سے عدم دلچسپی کی مثال دی جاتی ہے شائد نہج البلاغہ کا ایک اہم باب زہد نہج البلاغہ ہے امیرالمومنین (ع) جو پیغمبر (ص) کی رحلت کے بعد سے حکومت حاصل ہونے تک اپنی ذاتی دولت سے آبادکاری کے کام کرتے رہے، باغات لگاتے رہے ،کنوئیں کھودتے رہے نہریں جاری کرتے رہے مزرعہ تیار کرتے رہے ، عجیب یہ ہے کہ سب کچہ راہ خدا میں دے دیتے تھے۔یہاں یہ جان لیجۓ کہ امیرالمومنین (ع) اپنے دور کے زیادہ آمدنی والے افراد میں سےتھے،آپ کے حوالے سے نقل کیا گيا ہے کہوصدقتی الیوم لو قسمت علی بنی ہاشم لوسعہم، میں اپنے مال سےجو صدقہ دیتاہوں اگر تمام بنی ہاشم میں تقسیم کروں تو ان کیلۓ کافی ہو جاۓ گا۔عدل علی ابن ابی طالب(ع) ایک اور نمونہ ہے۔جب ہم یہ کہتے ہیں عدالت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات میں موجودہے تو ہر آدمی ابتدائی طور پر اس سے جو سمجھتاہے وہ یہ کہ وہ سماج میں عدل قائم کرتے تھے۔یہ ہے عدل۔لیکن عدل کی اعلی مثال توازن ہے ۔بالعدل قامت السموات والارض،زمین و آسمان عدل کی بنیاد پر قائم ہیں ،یعنی خلقت میں توازن ،حق بھی یہی ہے۔عدل و حق نتیجے میں ایک ہی چیزہے اور ایک ہی معنی اورایک ہی حقیقت کے حامل ہیں ۔امیرالمومنین کی زندگی عدل و توازن کی خصوصیات کی مظہر ہےجہاں ہر چیز اپنے مقام اور مرتبے پر ہے اور منزل کمال پر فائزہے امیرالمومنین(ع) کی ایک اور خصوصیت آپ کا استغفار ہےامیرالمومنین(ع) کی دعا توبہ اور استغفار بہت اہم ہے ایسی شخصیت جو جنگ اور جد و جدوجہد کرتی ہے ، میدان جنگ میں فاتح اور میدان سیاست مدبر ہو اور اس دور کے بڑے ملکوں پر تقریبا پانچ سال حکمرانی کی ہو اگر آپ امیرالمومنین کے زیرحکومت علاقے کا آج اندازہ لگا نا چاہیں تو وہ تقریباآج کے دس ملکوں پر مشتمل ہوگا اتنے وسیع قلمرومیں اس قدر کام اورجدو جہد کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم اور مکمل سیاست داں بھی ہیں۔اور دنیا کا نظم و نسق چلا رہے ہیں۔آپ کا وہ میدان جنگ آپ کا میدان سیاست آپ کا سماجی امورسنبھالناعوام کے مابین آپ کے فیصلے اور معاشرے میں عوام کے حقوق کا تحفظ ۔یہ سب بہت عظیم کام ہیں اس کیلۓ بہت کام اور انتظام و اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے اور انسان کو ہر وقت کا کرتے رہنا پڑتا ہے ۔اس قسم کے مواقع پر ایک پہلو شخصیت کے حامل افراد کہتے ہیں کہ ہماری دعا و عبادت یہی ہے ہم تو راہ خدا میں کام کر ہی رہے ہیں، اور ہمارا کام تو خدا ہی کیلۓ ہےلیکن امیرالمومنین یہ نہیں کہتے ،آپ وہ کام بھی کرتے ہیں اور عبادت بھی کرتے ہیں.12 -11- 1375 ( 1 فروری 1997) خطبات نماز جمعہامیرالمومنین (ع) کا طرز حکومت اور سیرتامیرالمومنین(ع) کے معیارحکومت میں سب سے پہلے دین خدا کی مکمل پابندی اور دین الہی کے قیام پر تاکید ہے۔ یہ سب سے پہلا معیار ہے ۔جس حکومت کے کام کی بنیاد دین خدا کا قیام نہ ہو وہ علوی نہیں ہے ،جو لوگ آٹھ سالہ دفاع مقدس میں پیش پیش رہے ہو جانتے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں، عین جنگ کے دوران اس وقت جب جنگ اپنےعروج پر تھی جب ہر سپاہی کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح حملہ کرے اور کس طرح اپنا دفاع کرے ، ایک شخص امیرالمومنین کی خدمت میں آتا ہے اور توحید کے بارے میں سوال کرتا ہے ، کہتا ہے کہ قل ھو اللہ احد میں احد کے کیا معنی ہیں؟یہ کوئی بنیادی مسئلہ بھی نہيں ہے،اس نے اصل وجود خدا کے بارے میں بھی سوال نہیں کیا ہے'ایک جزئی سوال کیا ہے ،آپ کے اطراف کے لوگ کہنے لگے کہ بندۂ خدا یہ اس قسم کا سوال کرنے کا وقت ہے ؟امیرالمومنین نے فرمایا کہ ،نہیں مجھے جواب دینے دو، ہم اسی لۓ تو جنگ کر رہے ہيں۔یعنی امیرالمومنین کی جنگ ، امیرالمومنین کی سیاست ،امیرالمومنین کی محاذآرائی ،امیرالمومنین کاصبر،اور تمام بنیادی اصول جو آپ دوران حکومت اپناتے ہيں ،اس لیۓ ہیں کہ دین خداقائم ۔ یہ ایک معیار ہے ۔اگر اسلامی نظام اور اسلامی جمہوریہ میں جو خود کو حکومت علوی کے عنوان سے پہچنواتی ہے ،اگر مقصد دین خدا کا قائم کرنا نہ ہو،عوام دین خدا پر عمل کریں یا نہ کریں دین پر ایمان رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں حقوق اللہ ادا ہوں یا نہ ہوں اور ہم یہ کہیں کہ ہم سے کیا مطلب ہے ، تو اگر ایساہو توپھر حکومت علوی نہیں ہے ۔دین الہی کا قیام پہلا معیار ہے اور یہ امیرالمومنین کی حکومت اور زندگی کی تمام دوسری خصوصیات کی جڑ ہے۔آپ کی عدالت کا سرچشمہ بھی یہی ہے ،امیرالمومنین (ع) کی زندگی میں عوام کے حقوق کی پابندی اور جمہوریت کی بنیاد بھی یہی ہے ۔امیرالمومنین(ع) کی حکومت کی دوسری خصوصیت اور معیار عدالت ہے ،عدالت مطلق۔یعنی آپ عدالت پر کسی بھی ذاتی مصلحت اور سیاست کو ترجیح نہیں دیتے ۔تحف العقول کے صفحہ نمبر ایک پچاسی میں آپ کا یہ ارشاد موجود ہے ۔اتامرونی ان اطلبالنصر بالجور لا وللہ یعنی میں ظلم کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے کیلۓ تیار نہیں ہوں۔آپ دیکھیں کہ یہ معیار کس قدرروشن و درخشاں ہے ،کتنا بلند پرچم ہے۔آپ سے کہتے ہیں کہ ممکن ہے اس میدان سیاست ، اس علمی مقابلے ،اس انتخابی میدان ،اوراس میدان جنگ میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ ظلم انجام دیں۔آپ کس چيز کا انتخاب کریں گے ؟امیرالمومنین (ع) کہتے ہیں کہ مجھے یہ کامیابی نہیں چاہۓ،میں ناکام ہوجاؤں کوئی بات نہیں ہے لیکن ظلم نہیں کروں گا ۔ آّپ نے امیرالمومنین کی عدال وانصاف کے بارے میں جو کچھ بھی سنا ہے ان سب کا محور ومرکز امیرالمومنین (ع) کی مطلق عدالت محوری ہے۔ انصاف سب کیلۓ اور ہر شعبے میں،یعنی معاشی انصاف ۔سیاسی انصاف سماجی انصاف،اخلاقی انصاف۔ یہ امیرالمومنین(ع) کی حکومت کا دوسرامعیارہے۔آپ ظلم براداشت نہیں کرتے،اور خود بھی ظلم کے سامنے نہیں جھکتے ۔چاہے مصلحت کا تقاضہ کیوں نہ ہو۔ ایک بڑاظلم امتیازی سلوک ہے ،چاہے وہ حکم پر عمل درآمد کے سلسلے میں ہو یاقانون پر عمل درآمد کے سلسلےمیں ہو۔یہ سب کسی صورت میں بھی امیرالمومنین کوبرداشت نہیں ہے ۔۔۔۔امیرامومنین کی حکومت کی ایک اور خصوصیت اور معیارتقوی ہے۔آپ دیکھیں ؛کہ ان میں سے ہرایک ،ایک پرچم ہے ،ان میں سے ہر ایک ،یک علامت ہے ، تقوی کے معنی کیا ہیں ؟تقوی یعنی انسان اپنے ذاتی کاموں میں بھی حق سے ذرہ برابر منحرف نہ ہو؛ یہ ہیں تقوی کےمعنی ،یعنی پوری طرح خود پر نظر رکھے ،پیسوں کے سلسلےمیں ہوشیار رہے ،لوگوں کی عزت وآبرو کے تئیں ہوشیار رہے،کسی چيز کو انتخاب کرنے میں ہوشیاررہے،کسی کو الگ کرنے کےسلسلےمیں ہوشیار رہے ،بات کرنےمیں ہوشیار ہے برخلاف حق کوئی بات نہ کرے، یعنی بھرپور کنٹرول رکھے۔آپ نہج البلاغہ دیکھیں ،ان باتوں سے بھری ہوئی ہے،آّپ شروع سے آخر تک نہج البلاغہ دیکھ ڈالیں ،اول وآخر تقوی کی تشویق و ترغیب دلائي گئي ہے ،تقوی و پرہیز گاری کی دعوت دی گئی ہے۔جب تک انسان پرہیز گار نہيں ہوگا اس وقت تک دین نہیں قائم کرسکتا ،دامن کی آلودگی بہت بری بلا ہے ،اگر انسان کا دل گناہوں سے آلودہ ہوگا تو انسان حقائق کو سمجھ نہیں سکے گا۔حقیقت کی پیروی کرنا تو بہت بڑی بات ہے ، تقوی جو امیرالمومنین (ع) کی حکومت کی ایک خصوصیت ہے اس کا سرچشمہ عوام کا ارادہ اور خواہش ہے ۔تغلب ،یعنی غلبہ اورطاقت کےذریعے عوام پر حکومت کرنا، یہ امیرالمومنین (ع) کی منطق نہیں ہے ۔باوجود اس کے کہ خود کو برحق سمجھتے تھے لیکن الگ ہٹ گۓ ،یہاں تک کہ عوام نے آکراصرارکیا،التماس کی ،روۓ گڑگڑاۓ اوردرخواست کی مولاآپ ہم پر حکومت کیجۓاور زمام حکومت سنبھالۓ۔اس وقت آپ نے حکومت سنبھالی،آّ نے خود فرمایا ہے کہ اگر لوگ نہ آۓ ہوتے،اگرعوام نے اصرار نہ کیا ہوتا ،اگر یہ عوام کا سنجیدہ مطالبہ نہ ہوتا تو مجھے اس کا م میں کوئي دلچسپی نہیں تھی۔امیرالمومنین کیلۓ حکومت و اقتدارمیں کوئی کشش نہیں ہے ۔حکومت ان لوگوں کیلۓ پرکشش ہوتی ہے جو اپنی ہوا و ہوس اور نفسانی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ امیرالمومنین کیلۓ،وہ شرعی ذمیداری پوری کرنا چآہتے ہيں ؛عدل قائم کرنا چاہتے ہیں؛ عوام نے حکومت آپ کےسپرد کی،چنانچہ آپ نے اقتدار ہاتھ میں لے کر حکومت قائم کی ۔امیرالمومنین حضرت علی (ع) کے یوم ولادت کے موقع پر خطاب 30 / 6 / 1381امیرالمومنین (ع)کے سامنے تین گروہوں کی صف آرائی امیرالمومنین کی مظلومیت کے ساتھ حکومت کے دور میں تین گروہ آپ کے مد مقابل آۓ ،جس کا خلاصہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ آپ کی حکومت کے دور میں - امیرالمومنین(ع) کی پانچ سال سے کم عرصے کی حکومت میں تین گروہوں نے آپ کے سامنے صف آرائی کی :قاسطین و ناکثیں و مارقین ۔اس روایت کو شیعوں اور سنیوں دونوں نے امیرالمومنین سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:امرت ان اقاتل الناکثین والقاسطین والمارقین۔(دعام الاسلام ،جلد 1 صفحہ388)یہ نام خود آپ نے رکھا ہے ،قاسطین یعنی ظالمین ۔ اس کا مادّہ قسط جب مجرد کی شکل میں استعمال ہوتا ہے تو،قسّط یقسط یعنی جار یجور ظلم یظلم - یعنی ظلم کرنے کے معنی دیتا ہے اور جب یہ ثلاثی مزید باب افعال میں لایا جاتا ہے تو- اقسط یقسط - یعنی عدل و انصاف کے معنی دیتا ہے بنا برایں اگر قسط باب افعال میں استعمال کیا جاۓ تو عدل کے معنی دے گا، لیکن جب قسط یقسط کہا جاۓ تو اس کے برخلاف ہے۔ یعنی ظلم و جور کے معنی دیتا ہے۔ قاسطین اسی مادّہ سے ہے ۔ قسطین یعنی ستمگر امیرالمومنین (ع) نے ان کا نام قاسطین رکھا ۔یہ کون لوگ تھے ؟ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اسلام کو مصلحت کے تحت اور دکھانے کیلۓ قبول کیا تھا اورحکومت علوی کو بنیادی طور پر قبول ہی نہیں کرتے تھے۔امیرالمومنین جو بھی کرتے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ لہذا یہ وہ لوگ تھے جو بنیادی طور پر امیرالمومنین کی حکومت کو قبول ہی نہیں کرتا اور چاہتے تھے حکومت دوسری طرح کی ہو، اور ان کے ہاتھوں میں ہو ،اور بعد میں یہ ظاہر بھی ہوگيا اور عالم اسلام نے ان کی حکومت کا مزہ بھی چکھا ،یعنی وہی معاویہ جو امیرالمومنین سے رقابت کے زمانے میں بعض اصحاب سے محبت وخوش روئی سے پیش آتا تھا بعد میں اپنی حکومت کے دور میں سخت اور تند رویہ اختیار کر لیا۔ یہاں تک کہ یزید کا دور آیا اور واقعہ کربلا رونما ہوا ۔ اور پھر مروان عبد الملک ،حجاج بن یوسف ثقفی اور یوسف بن عمر ثقفی کا دور آیا جو اسی حکومت کا ایک ثمرہ ہے ۔ یعنی وہ حکومتیں، تاریخ جن کے مظالم کے ذکر سے بھی لرزجاتی ہے - جیسے حجاج کی حکومت - یہ وہی حکومتیں ہیں جن کی بنیاد معاویہ نے رکھی ہے اور جس کیلۓ اس نے امیر المومنین سے جنگ کی ۔ پہلے ہی سے معلوم تھا کہ یہ لوگ کیاچاہتے ہیں اور کیا حاصل کرنے کی فکر میں ہیں ۔ یعنی ایک خالص دنیاوی حکومت جس کی بنیاد خود خواہی اور خودپسندی ہو وہی چیزیں جن کا بنی امیہ کے دور میں سب نے مشاہدہ کیا ۔البتہ میں یہاں کوئی کلامی یا عقائدی بحث نہیں کرناچاہتا ۔یہ جو عرض کر رہا ہوں تاریخی حقیقت ہے ۔شیعوں کی تاریخ نہیں ہے ؛یہ ابن اثير اور تاریخ ابن قتیبہ وغیرہ ہے جس کے متون میرے پاس موجود ہیں، اور نوٹس کے ساتھ محفوظ ہيں ۔یہ وہ باتیں ہیں جو مسلمہ حقائق کا حصہ ہیں۔شیعوں اورسنیوں کے نظریاتی اختلافات کی بحث نہيں ہے ۔دوسرا محاذ جو امیرالمومنین (ع) کے ساتھ لڑا وہ ناکثین کا محاذ تھا۔ ناکثين یعنی توڑنے والے اور یہاں اس سے مراد بیعت توڑنے والے ہیں۔ ان لوگوں نے پہلے امیرالمومنین(ع) کے ہاتھوں پر بیعت کی اور پھر بعد میں بیعت توڑ دی ۔یہ مسلمان تھے اور پہلے گروہ کے برخلاف خود غرض تھے یعنی امیرالمومنین(ع) کی حکومت کو اسی حد تک مانتے تھے جہاں تک ان کے لۓ حکومت میں قابل قبول حصہ موجود ہو ۔ ان سے مشورہ کیا جاۓ ، انھیں ذمہ داریاں دی جائيں،انھیں حکومت دی جاۓ،ان کے پاس موجود دولت وثروت کونہ چھیڑاجاۓ ان سے اس سلسلےميں باز پرس نہ کی جاۓ، یہ نہ پوچھا جاۓ کہ کہاں سے لاۓ ہو۔۔۔ سعد ابن ابی وقاص نے شروع سے ہی بیعت نہیں کی،بعض دوسرے لوگوں نے ابتداء سے ہی بیعت نہیں کی؛ لیکن طلحہ و زبیر اور دوسرے بزرگ صحابہ وغیرہ نے امیرالمومنین (ع) کی بیعت کی ، تسلیم کیا اور قبول کیا ؛ لیکن جب چار پانچ مہینے گذر گۓ اور دیکھا کہ نہیں ، اس حکومت حکومت کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ وہ حکومت ہے جو دوست احباب کو نہیں پہچانتی،اپنے لیۓ کسی حق کی قائل نہیں ہے اپنے گھر والوں کے لئے کسی حق کی قائل نہیں ہے اگر چہ اسلام لانے میں پہلا کرنے والوں کے لئے حق کی قائل نہیں خود سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔احکام اسلام پر عمل درآمد کرانے میں کسی چوں چرا سے کام نہیں لیتے ۔ انہوں نے دیکہا نہیں اس آدمی (علی ع ) کے ساتھ ساز باز نہیں کی جاسکتی ۔لہذا الگ ہو گۓ اور چلے گۓ اورجنگ جمل شروع ہو گئی جو واقعاایک فتنہ تھی ۔ام المومنین عائشہ کو بھی اپنے ساتھ کر لیا ۔اس جنگ میں کتنے لوگ مارے گۓ۔ البتہ امیرالمومنین کامیاب ہوۓ قضیہ ختم کردیا۔ یہ دوسرا محاذ تھا جس نے آپ کو ایک مدت تک مصروف رکھا۔ تیسرامحاذ مارقین کا محاذتھا۔ مارق یعنی گریزاں ،اس کی وجہ تسمیہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ اس طرح دین سے نکل گۓ تھےجس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے ، آپ جب ایک تیر کمان میں لگاکر پھینکتے ہیں تو وہ کس طرح نکلتا ہے اور دور ہوجاتا ہے ؛ یہ اسی طرح دین سے دور ہو گۓ تھے البتہ یہ دین سے بظاہر متمسک بھی تھےاور دین کا نام بھی لیتے تھے۔یہ وہی خوارج تھے وہ گروہ جس نے اپنے کاموں کی بنیاد اپنی کج فکری پر رکھی تھی جو ایک خطرناک چیز ہے بنا برایں تیسرا گروہ جس کا امیرالمومنین کو سامنا کرنا پڑا البتہ اس پر بھی آپ غلبہ پالیا وہ مارقین کا گروہ تھا۔جنگ نہروان میں آپ نے ان پر کاری ضرب لگائی،لیکن یہ لوگ معاشرے میں موجود تھے جن کی موجودگي آخرکار آپ کی شہادت پر منتج ہوئی ۔۔۔بعض لوگ خوارج کو خشک مقدس سے شبیہ دیتے ہیں ،نہیں ، بحث خشک مقدس اور مقدس مآب کی بحث نہيں ہے ۔مقدس مآب تو ایک طرف بیٹھ کر اپنی نماز دعا میں مشغول رہتا ہے ، خوارج کے یہ معنی نہیں ہیں۔ خوارج وہ عناصر ہیں جو شورش بپا کرتے ہیں، بجران ایجاد کرتا ہے ،میدان میں آتا ہے ، علی سے لڑنے کی بات کرتا ہے ، علی سے جنگ کرتا ہے ؛ لیکن اس کے کام کی بنیاد غلط ہے ۔جنگ غلط ہے، آلہ کار غلط ہے، ھدف و مقصد باطل ہے ، یہ وہ تین گروہ تھےجن سے امیرالمومنین (ع) کا سامنا تھا ۔ صفوں کا مشخص اور واضح نہ ہونا ، امیرالمومنین کے دور حکومت اور پیغیمبر اسلام کی حیات طیبہ اور دور حکومت کا واضح فرق یہ تھا کہ پیغمبراکرم کے زمانے میں صفیں واضح تھی ،ایمان وکفر کی صف ،منافقین پھنس جاتے تھے کیونکہ قرآن کی آیتیں معاشرے میں موجود منافقین کے چہرے بےنقاب کیا کرتی تھیں۔،اور ان کی طرف اشارہ کرتی رہتی تھیں،مومنین کو ان کے مقابلے میں مضبوط کرتی رہتی تھیں، اور منافقین کے حوصلے پست کرتی رہتی تھیں۔یعنی پیغمبر (ص) کے زمانے میں نظام اسلامی میں ہر چیز واضح اور کھلی ہوئی تھی۔ ایک دوسرے کے سامنے صفیں واضح تھیں۔ ایک شخص کفر و طاغوت وجاہلیت کا حامی تھا ، اور ایک شخص ایمان اسلام توحید اور معنویت کاطرفدار تھا۔البتہ وہاں بھی ہر طرح کے لوگ تھے۔اس زمانے میں بھی ہرطرح کے لوگ تھے۔ اس زمانے میں بھی گوناں گوں افراد تھے لیکن صفیں واضح تھیں۔امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مسئلہ یہ تھا کہ صفیں واضح نہیں تھیں، اس وجہ سے کہ دوسرا گروہ یعنی ناکثين جواز پیداکرنے والی شخصیتیں تھیں ہرشخص طلحہ اور زبیر جیسی شخصیتوں کے سامنے شک و شبہ کا شکار ہوجاتا تھا یہ زبیر وہی تھے جو پیغمبر (ص) کے زمانے میں اہم افراد اور شخصیتوں میں شامل تھے پیغمبو کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور آنحضرت (ص) کے قریبی افراد میں سے تھے ۔اور پیغمبر(ص) کے بعد بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے امیرالمومنین(ع) کی حمایت میں ثقیفہ پر اعتراض کیا تھا۔جی ہاں ۔ ؟؟؟؟؟؟خدا ہم سب کا انجام بخیر کرے ،بعض اوقات جب دنیا ، گوناں گوں حالات اور دنیا کی چمک دمک ایسے اثرات مرتب کرتی ہے ،بعض شخصیتوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے کہ انسان کو خاص افراد کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا ہے ۔ عام لوگوں کی تو بت ہی جدا ہے ۔بنا بریں وہ زمانہ واقعا سخت تھا ،وہ لوگ جو امیرالمومنین کے ساتھ رہے آپ کے ساتھ جمے رہے اور جنگ کی ۔،بہت بصیرت سے کام لیا۔میں نے بارہا امیرالمومومنین (ع) کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ،لا یحمل ھذ العلم الااھل البصر و الصبر ۔ (بحارالانوار جلد 34 صفحہ 249) پہلے مرحلے میں بصیرت ضروری ہے ، واضح ہے کہ اس قسم کی الجھنوں میں امیرالمومنین کی مشکلات کیسی رہی ہوں گي ۔ وہ کج فکر جو اسلام کا نام لے کر امیرالمومنین (ع) سے جنگ کررہے تھے اور غلط الزامات لگارہے تھے۔ صدر اسلام میں غلط باتیں بہت سنی جاتی تھی لیکن آیت قرآن نازل ہوتی تھی اور واضح طور پر ان افکار کو مسترد کردیتی تھی ۔چاہے مکہ کا زمانہ ہو یا مدینہ کا دور ہو ،آپ دیکھیں کہ سورہ بقرہ جو ایک مدنی سورہ ہے ، جب انسان دیکھتا ہے ، تو اسے یہ نظر آتا ہے کہ یہودیوں اور منافقین کے ساتھ پیغمبر(ص) کی کشمکش اور جھڑپوں کی تفصیلات موجود ہے اور اس کی تفصیلات بھی بیان کی گئ ہیں۔حتی مدینہ کے یہودی پیغمبر(ص) کو اذیت دینے کیلۓ جو طریقہ استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن میں موجود ہے لا تقولو راعنا (بقرہ 104) اور اس جیسی باتیں ،اور پھر سورہ مبارکہ اعراف -کہ جو مکی سوروں میں ہے -فصل مشبعی کا ذکر کرتے ہیں اور خرافات کے ساتھ نبرد آزما ہیں ۔ گوشت کو حلا ل و حرام کرنے کے مسئلے میں اور مختلف قسم کے گوشت کے بارےميں واقعی محرمات کو جھوٹ اور معمولی کہتے تھے ؛قل انماحرم ربی الفواحش ما ظھر منھا وما بطن(اعراف 33)یہ حرام ہیں ، نہ وہ کہ جو تم نے سائبہ و بحیرہ وغیرہ وغیرہ کو اپنے لئے حرام کرلیاہے ۔قرآن اس قسم کے افکار کے خلاف کھل کرجنگ کرتا تھا؛لیکن امیرالمومنین(ع) کے زمانے میں مخالفین بھی قرآن کو استعمال کرتے تھے وہ بھی قرآن سے استفادہ کرتے تھے ،لہذا امیرالمومنین (ع) کا کام نسبتا ایک لحاظ سے مشکل تھا، امیرالمومنین (ع) کی حکومت کا مختصر دور ان مشکلات میں گذرا ہے ۔ان مشکلات کے مقابلے ميں خود امیرالمومنین (ع) کا محاذ ہے ،در حقیقت ایک مضبوط محاذ ، جس میں عمار ، مالک اشتر ، عبداللہ ابن عباس ،محمد ابن ابی بکر ،میثم تمار ،حجر ابن عدی،جیسی مومن با بصیرت اور با خبر شخصیتیں تھیں جنھوں نے عوام کی ہدایت میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے امیرالمومنین کے دور حکومت کا ایک حسین پہلو-البتہ ان بزرگوں کے ہنرمنداہ جد و جہد کے لحاظ سے حسین؛ لیکن ساتھ ہی ان کو در پیش مشکلات تکلیفوں اور پریشانیوں کے لحاظ سے تلخ؛ یہ ان کا کوفہ اور بصرہ کی جانب روانہ ہونے کا منظر ہے، طلحہ اور زبیر اور ان جیسے افراد نے جب صف بندی کی اور بصرہ پر قبضہ کرلیااور کوفہ کی طرف روانہ ہوۓ تو ، حضرت علی علیہ السلام نے امام حسن اور بعض اصحاب کو بھیجا،انھوں نے عوام سے جو گفتگو کی ہے ،مسجد میں جو باتیں کی ہیں ، جو دلیلیں پیش کی ہیں وہ صدر اسلام کی تاریخ کا فکرانگیز حسین اور ولولہ انگیز حصہ ہے ۔لہذا آپ دیکھیں کہ امیرالمومنین(ع) کے دشمنوں کی زیادہ تر یلغار بھی انھیں پر تھی ۔مالک اشتر(رض) کے خلاف سب سے زيادہ سازشیں کی گئيں،عمار یاسر(رض) بہت سی سازشو ں کا نشانہ تھے۔، محمد ابن ابی بکر(رض) کے خلاف سازشیں تھیں ، تمام وہ لوگ جو امیرالمومنین(ع) کے معاملے میں ابتداء سے ہی امتحان دے چکے تھے اور ثابت کر چکے تھے کہ ان کا ایمان کتنا مستحکم مضبوط اور پائدار ہے ۔اور ان کی بصیرت کتنی زیادہ ہے ،دوسری طرف دشمن طرح طرح کے الزام لگا رہے تھے اور ان پر قاتلانہ حملے کۓ جاتے تھے ،لہذا اکثر اصحاب شہید ہوگۓ ،عمار (رض) جنگ میں شہید ہوۓ لیکن محمد ابن ابی بکر(رض) شامیوں کی سازشوں کے نتیجے میں شہید ہوۓ ۔مالک اشتر(رض) شامیوں کی عیاری سے شہید ہوۓ ، بعض دوسرے بچے،لیکن بعد میں وہ بھی سخت طریقے سے شہید کۓ گۓ۔ یہ امیرالمومنین (ع) کی زندگی اور حکومت ۔ اگر سب کو یکجاکرلیا جائے تو یوں عرض کرنا چاہۓ کہ آپ کی حکومت کا زمانہ ،ایک مضبوط اور اس کے ساتھ ہی مظلوم و کامیاب حکومت کا دور تھا۔یعنی خود اپنے زمانے میں دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور اپنی مظلوما نہ شہادت کے بعد بھی، آپ ہمیشہ فراز تاریخ میں مشعل کی مانند رہے ۔ لیکن اس دوران امیر المومنین کے دل کو پہنچنے والی اذیت و تکلیف تاریخ کے سخت ترین واقعات و حالات کا جزء ہے۔امیرالمومنین (ع) کی وصیتیں اور ہدایاتامیرالمومنین علیہ السلام کے کلام کا آغاز واختتام تقوی کی وصیت پر مبنی ہے ۔ آپ فرماتے ہيں ؛ میرے بچو: اللہ کی راہ میں الہی معیارات پر قائم و دائم رہو۔ ہوشیار رہو؛تقوی اللہ یعنی یعنی یہ ۔ اللہ سے ڈرنےکی بحث نہيں ہے ،جو بعض لوگ تقوی کے معنی اللہ سے ڈرنے کے کرتے ہيں ۔ خشیت اللہ اور خوف اللہ کی بھی اپنی قدرو منزلت ہے ۔ لیکن یہ تقوی ہے۔ ۔تقوی یعنی ہوشیار اور متوجہ رہوکہ جو بھی عمل آپ سے سرزد ہووہ اس مصلحت کے مطابق ہو جو اللہ تعالی نے آپ کیلۓ مد نظر رکھی ہے تقوی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئی ایک لمحے کیلۓ چھوڑ دے۔اگر رہا کر دیا تو جان لو کہ راستہ پھسلنے والا ہے ، کھائياں گہری ہیں ،پھسل جائيں گے اور گر جائيں گے۔ یہاں تک کہ ہمیں کوئی سہاراملے کوئی پتھر ، درخت اور کوئي جڑ ہمارے ہاتھ لگے، اور ہم خود کو اوپر اٹھا سکیں۔ ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون۔(اعراف آیت ( 201) جو لوگ متقی ہیں جب شیطان کی طرف سے کوئی خیال چھونا بھی چاہتا ہے توخدا کو یاد کرتے ہیں اور حقائق کو یاد کرتے ہیں ۔شیطان تو ہمارا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے لہذا پہلی وصیت تقوی ہے ۔تقوی کیلۓ کی ضروری ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ بھاگا جاۓ ۔ تقوی اور ہی چیز ہے ؛ وان لا تبغیا الدنیا و ان بغتکمادنیا کے پیچھے نہ بھاگو اگر چہ دنیا تمھارے پیچھے پیچھے لگی ہو ۔ یہ دوسرا نکتہ ہے ۔یہ بھی تقوی کےلوازمات ہیں ۔ البتہ تمام نیک کام تقوی کے لوازمات میں ہیں۔ان میں سے ایک بلاشبہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑنا ہے ،یہ نہیں کہا ہے کہ ترک دنیا کرلو ۔ ارشاد ہوا ہے ، لا تبغیا ۔دنیا کے پیچھے پیچھے نہ چلو ۔ طلب دنیا میں نہ رہو،ہماری فارسی تعبیر میں یہ معنی ہوتے ہیں کہ دنیاکے پیچھے نہ دوڑو۔ دنیا طلبی کا مطلب ، روۓ زمین کو آباد کرنا ،اور الہی ذخائرو ثروت کوزندہ کرنا نہیں ہے دنیا طلبی کا مطلب یہ نہیں ہے، اس کیلۓ نہیں روکا گیا ہے ۔ دنیا یعنی جو آپ اپنے لیۓ اپنی خواہشات نفس کیلۓ اپنی ہوا و ہوس کیلۓ چاہتے ہیں ۔ اسے دنیا کہتے ہیں ۔ورنہ روۓ زمین کو نیک مقصد کے تحت اور انسانیت کی فلاح کیلۓ آباد کیا جائے تو یہ عین آخرت ہے ، یہ بلاشبہ اچھی دنیا ہے ۔جس دنیا کی مذمت کی گئ ہے اور جس سے روکا گيا ہے وہ ، وہ دنیا ہے جو ہماری توانائیوں کو، ہماری کوششوں کو، ہماری ہمت کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور ہمیں راستے سے بھٹکا دیتی ہے ۔ہماری خود پسندی ،ہماری خود پرستی ، دولت کو صرف اپنے لیۓ چاہنا اور اپنے لیۓ لذتوں کا حصول ایسی دنیا قابل مذمت ہے ۔البتہ اس دنیا میں کچھ چیزیں حرام ہیں اور کچہ چیزیں حلال ہیں ایسا نہیں ہےکہ ہر چیز کی اپنے لیۓ طلب حرام ہے ۔ نہیں: حلال بھی ہیں ۔لیکن تمام حلال چیزوں کی طرف جانے سے بھی روکا گيا ہے۔ اگر دنیا کے معنی یہ ہیں تو حلال بھی بہتر نہیں ہے۔ مادی زندگی کے مظاہر کو اللہ کیلۓ قرار دو ، اسی میں نفع اور فائدہ ہے ۔اور یہی آخرت کے معنی ہیں۔تجارت بھی اگر عوام کی زندگی کو بہتر بنانےکیلۓ ہو ،اپنےلیۓدولت و ثروت اکٹھاکرنےکیلۓ نہ ہو،تو عین آخرت ہے ۔ دنیا کے دوسر تمام کام بھی اسی طرح ہیں ۔ چنانچہ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دنیا کے پیچھے نہ دوڑواور طلب دنیا میں ہی نہ پڑے رہوامیرالمومنین نے اس وصیت میں جو فرمایا ہے وہ اس کیلۓآینۂ تمام نما ہے ۔آپ اگر حضرت علی علیہ السلام کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالیں گے تو وہ انھیں جملوں کا خلاصہ ہے جو آپ کی مختصر سے وصیت میں آيا ہے ۔ولاتاسف شيءمنہا زوی عنکمااگراس دنیاء مذموم سے تمھیں کچہ نہ ملا ہو اور تم سے دریغ کیا گیا ہو،تو افسوس نہ کرو۔ اگرکوئی عہدہ ، کوئی دولت ،کوئی اسباب فلاح تمھیں حاصل نہ ہوا ہو تو افسوس نہ کرو،یہ تیسرا جملہ۔اور اس کے بعد کا جملہ ہے ،قولا بالحق یا اصلی نسخے کے مطابق وقول الحق کوئی فرق نہیں پڑتا ،معنی یہ ہیں کہ حق کہو ، حق کہو اور اسے نہ چھپاؤ،اگر آپ کی نظرمیں کوئی چیز آپ کی نظرمیں حق ہے تو اسے جہاں بیان کرنا چاہۓ بیان کیجۓ، حق کو چھپاۓ نہ رہۓ،اس وقت جب زبانیں حق کو چھپائیں اور باطل کو آشکار کریں ، یا حق کی جگہ باطل کو قرار دیں،اگر حق دیکھنےوالے یا حق جاننے والے حق بولیں ، تو حق مظلوم نہیں رہے گا ،حق اکیلا نہیں پڑے گا ۔اوراہل باطل حق کو مٹانے کی ہمت نہیں کریں گے۔اور بعد کا جملہ ہے و اعملا للآجر جزا کیلۓ - یعنی الہی وحقیقی جزا و پاداش۔ کام کیجۓ۔اے انسان عبس اور بیہودہ کام نہ کر ،یہ تیرا کا م یہ تیری عمر یہ تیرا سانس لینا ، صرف تیرا سرمایہ ہے ۔ اسے بلاسبب برباد نہ ہونے دے۔اگر عمر بسر کر رہے ہو ، اگر کوئی کام کر رہے ہو ، اگر سانس لے رہے ہو، اوراگر طاقت و توانائی خرچ کر رہے ہو ،تو یہ سب جزاء کیلۓ کرو ،جزاء و پاداش کیا ہے ؟کیا چند تومان انسان کے وجود کی جزاء وپاداش ہے؟کیا یہ اس زندگی کی پاداش ہے جو ہم خرچ کر رہے ہیں ؟ ہمارا کسی کو اچھا لگنا ،ایک انسان کی جزاء و پاداش ہے ؟جی نہیں ؛فلیس لانفسکم ثمن الاالجنہ علی فلا تبیعوھا بھ غیرھا ( نہج البلاغہ 456حکمت )یہ ،امام علی (ع) کا جملہ ہے جو آپ فرماتے ہیں کہ الا حر یدع ھذاہ اللماظۂ لاھلھا؟ انھ لیس لانفسکم الا الجنہ فلا تبیعوھا الا بھا کونا لظآلم خصما وللمظلوم عوناامام علی علیہ السلام فرماتے ہیں : وکونا لظالم خصماوللمظلوم عوناظالم کے خصم رہو ۔ خصم اور دشمن میں فرق ہے کبھی کوئي ظالم کا دشمن ہوتا ہے یعنی ظالم اسے برا لگتا ہے اور اس کا دشمن ہے ، یہ کافی نہیں ہے ۔اس کے خصم رہو یعنی اس کے مد عی رہوخصم یعنی ایسا دشمن جو مدعی ودعویدار ہے ایسا دشمن جو ظالم کے گریبان کا پکڑے ہوۓ ہے اور اسے چھوڑ نہیں رہا ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام کے بعد سے آج تک انسانیت ظالموں کا گریبان نہ پکڑنے کی وجہ سے ، بدنصیب اور روسیاہ ہے۔ اگر ایماندار اور مومن افراد ظالموں اور ستمگاروں کا گریبان پکڑے ہوتے تو دنیا میں ظلم اس قدر آگے نہ بڑھتا، بلکہ وہ جڑ سے ختم ہوجاتا۔ امیرالمومنین(ع) یہ چاہتے ہیں ۔ کونا للظالم خشماظالم کے خشم میں رہودنیا میں چاہے جہاں بھی ظلم و ظالم ہو آپ یہیں سے اس کے دشمن رہیں اور خود کو اس کا دشمن سمجھیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی اٹھ کھڑے ہو اور دنیا کے اس کنارے سے اس کنارے تک جاؤ اور ظالم کا گریبان پکڑ لو میں کہتا ہوں اپنی دشمنی و خصومت کا ضرور اظہار کردو۔جہاں بھی جس وقت بھی موقع ملے اس کے دشمن رہو اور اس کا گریبان پکڑ لو ، ایک وقت ایسا ہوتا ہے جب انسان ظالم کے پاس جاکر اظہا ر دشمنی بھی نہیں کر پاتا لہذا دور سے ہی اظہار دشمنی کرتا ہے آپ دیکھیں کہ آج امیرالمومنین علیہ السلام کی وصیت کے اسی ایک جملے پر عمل نہ کرپانے کی وجہ سے دنیا میں کس قدر مسائل پیدا ہوگۓ ہیں اور انسانیت کتنی بد نصیبی و تباہی کا شکار ہے۔ آپ دیکھیں قومیں بالخصوص مسلمان کتنا مظلوم ہے ،اگر امیرالمومنین (ع) کی اسی ایک وصیت پر عمل ہوا ہوتا تو ظلم کے نتیجے میں پیداہونے والی بہت سی مصیبتیں اورظلم کا وجود نہ ہوتا ، وللمظلوم عونا جہاں کہیں بھی مظلوم ہے اس کی مدد کرو ۔ یہ نہیں فرماتے کہ اس کے حامی بنو نہيں اس کی مددکرنی چاہۓ ،جتنی بھی اور جس طرح سے بھی مدد ہوسکتی ہے ۔ یہاں تک امیرالمومنین(ع) کی وصیت میں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام )کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ البتہ یہ باتیں امام حسن اور امام حسین (علیھماالسلام) سے مخصوص نہیں ہیں ۔ انھیں مخاطب قرار دیا گیا ہے ۔لیکن سب کیلۓ ہے ۔امیرالمومنین علیہ الصلوت والسلام بعد کے جملوں میں عمومی وصیت فرماتے ہیں ۔ اوصیکما و جمیع ولدی تم دونوں بیٹو اور اپنے تمام بچوں کو وصیت کرتاہوں واھلی اور تمام اہل و عیال کو ومن بلغھ کتابی اور ہر اس شخص کو جس تک میرا یہ خط پہنـچے۔ اس لحاظ سے آپ حضرات جو یہاں بیٹھے ہیں اور میں جو یہ وصیت آپ لوگوں کیلۓ پڑھ رہا ہوں ، ہم سب سےامیرالمومنین (علیہ السلام )کا خطاب ہے ۔ فرماتے ہیں تم سب کو وصیت کرتا ہوں کس چیز کی ؟ پھر بتقوی اللہ ایک بار پھر تقوی امیرالمومنین علیہ الصلات و السلام کا پہلا اور آخری کلمہ تقوی ہے ۔ونظم امرکم یعنی زندگی میں جتنے بھی کام کرتے ہو اس ميں منظم رہو ، یعنی کیا؟یعنی زندگي میں جتنے بھی کام کرتے ہو، اس کو منظم طریقے سے کرو۔اس کے معنی یہ ہیں ؟ ممکن ہے یہی معنی ہوں۔ یہ نہیں فرمایا کہ نظم امورکم اپنے کاموں کو منظم کرو۔ فرمایا ہے نظم امرکم وہ چیز جسے منظم ہونا چاہۓ ایک چیز ہے نظم امور نہیں فرمایا ہے فرمایا ہے ونظم امرکم انسان سمجھتاہے کہ یہ نظم کام ، تمام افراد کے درمیان ایک مشترکہ امر ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نظم امرکم سے مراد اسلامی ولایت وحکومت اورنظام ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حکومت ونظام کے امور میں نظم و ضبط سے کام لو،۔۔۔۔۔وصیت کے دوسرے حصے کی بنیاد عوام کے درمیان خلوص و یکجہتی پراستوار ہے ۔ فرماتے ہیں صلاح ذات بین یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہو ۔ دل ایک دوسرے سے صاف ہوں ، سب کے درمیان یکجہتی ہو اور تمھارے درمیان اختلاف و جدائی نہ ہو ۔آپ یہ جملہ جو ارشاد فرما رہے ہیں اس کےلۓ قول پیغمبر(ص) سےایک دلیل بھی لا رہے ہیں ۔ واضح ہے کہ اس پر بہت بھروسہ کرتےہیں اور اس سلسلے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صلاح ذات بین کی اہمیت نظم امر سے زیادہ ہے ؛ چونکہ صلاح ذات بین زیادہ نازک معاملہ ہے اس لۓ یہ عبارت پیغمبر (ص ) کی جانب سے بیان کرتے ہیں فانی سمعت جدکما صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، یقول ؛تمھارے نانا کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ صلاح ذات البین افضل من عامۂالصلاۂ والصیام عوام کے درمیان صلح اور میل جول کرانا تمام نماز و روزہ سے بہتر ہے ؛ فرماتے ہيں ہر نماز وروزہ سے بہتر ہے ؛ آپ نماز و روزہ کی فکر میں ہيں لیکن ایسا بھی کام ہے جو ان دونوں سے بھی بہتر ہے ، اس کی فضیلت زیادہ ہے ۔ وہ کیا ہے ؟وہ اصلاح ذات البین ہے اگر آپ نے دیکھا کہ امت مسلمہ میں کہیں اختلاف و تفرقہ ہے تو جايۓ اور جاکر اسے حل کیجۓ ،اس کی فضیلت نمازو روزہ سے زیادہ ہے ۔یتیموں کی خبرگیری : یہ جملہ ارشاد فرمانےکےبعد مختصر فکرانگیز دلسوزجملے ارشاد فرما رہے ہیں وا للہ اللہ فی الایتامیعنی اے میرے مخاطبین : اللہ اللہ یتیموں کے بارے میں اللہ اللہ کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا جا سکتا ہمارے پاس فارسی زبان میں اس کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں ،اگر اس کا ترجمہ کرنا چاہیں تو کہیں گے کہ تمھاری قسم اور خدا کی قسم یتیموں کے بارے میں یعنی یتیموں کیلۓ جو کچھ بھی کر سکتے ہو کروکہیں ایسا نہ ہوکہ انھیں فراموش کر دو،بہت اہم ہے ۔آپ دیکھیں کہ یہ ہمدرد ماہرنفسیات خداشناس انسان شناس ،کس قدر باریک نکا ت کی طرف اشارہ کر رہا ہے ؛ جی ہاں ؛ یتیموں کا خیال رکھنا صرف ایک ذاتی رحم و کرم اور معمولی جذبہ نہیں ہے ۔ ایسا بچہ جس کا باپ مر چکا ہے ایسا انسان ہے جس کی ایک بنیادی ضرورت پوری نہیں ہو رہی ہے ، اور اسے باپ کی ضرورت ہے ،اس کی کسی نہ کسی طرح تلافی کیجۓ ۔ اگر چہ اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی ،لیکن ہوشیار رہنا چاہۓ کہ یتیم جوان نوجوان یا بچہ کہیں تباہ نہ ہو جاۓ۔ واللہ اللہ فی الایتام ۔ فلا تغبو افواھھم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بھوکے رہ جائيں ؛ ایسا نہ ہوکہ کبھی انھیں کچھ مل جاۓ اور کبھی خالی ہاتھ رہ جائيں، لاتغبو کے معنی یہ ہیں۔ ضروریات زندگی کے لحاظ سے ان کا خیال رکھۓ۔ ولا یضیعو بحضرتکم کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تنہا رہ جائيں اور تمھارے ہوتے ہوۓ ان پر کوئی توجہ نہ دی جاۓ، اگر موجود نہی ہو ، تو بے خبر ہو؛ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم موجود ہو اورایک یتیم - کوئی بھی یتیم - بے توجہی و لاپرواہی کاشکار ہو جاۓ ۔ایسا نہ ہو کہ ہر شخص صرف اپنے کام میں لگ جاۓ اور یتیم بچہ تنہا رہ جاۓ۔پڑوسیوں کے حقوق کاخیال اللہ اللہ فی جیرانکم اللہ اللہ تمھارے پڑوسی ؛پڑوسی کے مسئلے کو معمولی نہ سمجھۓ۔بہت اہم معاملہ ہے ۔ ایک عظیم سماجی رابطہ ہے جس پر اسلام نے توجہ دی ہے اور انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔لیکن فطرت انسانی سے دور تہذیبوں کے پیچ و خم میں یہ قدریں گم ہوکر رہ گئي ہیں ۔ آپ کو اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہۓ ، نہ صرف مالی و معاشی لحاظ سے، البتہ وہ بھی اہم ہے -بلکہ تمام انسانی پہلؤوں سے ۔اس وقت آپ دیکھیں گے کہ سماج میں کیسی الفت و محبت پیدا ہوتی ہے ، اور کس طرح لاینحل مسائل حل ہوتے ہیں، فانھم وصیھ نبیکم یہ پیغمبر(ص) کی وصیت ہے کہ مازال یوصی بہم حتی ظنا انھ سیورثھم پیغمبر نے پڑوسیوں کیلۓ اتنی زيادہ تاکید کی کہ ہم نے سمجھا کہ ان کیلۓ میراث معین ہوجاۓ گی ۔اللہ اللہ فی القرآن اللہ اللہ قرآن میں ۔ لا یسبقکم بالعمل بہ غیرکمایسا نہ ہو کہ جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے قرآن پر عمل کرکے آگے بڑہ جائيں اور تم جو ایمان رکھتے ہو عمل نہ کرو اور پیچھے رہ جاؤ۔ یعنی یہی جو ہوا ہے ،وہ لوگ جو دنیا میں آگے بڑھے اور ترقی کی ، وہ مسلسل کام کرکے ، پے درپے کاموں میں مصروف رہ کرکے ، اچھی طرح سے کام انجام دے کر کے ، ان صفات کو اختیار کرکے جو خدا پسند کرتاہے آگے بڑھے ہیں ، اپنی برائيوں سے نہیں ،اپنی شراب خوری سے نہیں یا اپنے مظالم کے ذریعے نہيں۔۔۔۔مسجد کے خالی نہ رہنےکے بارے میں ۔ واللہ اللہ فی بیت ربکم لاتخلوہ مابقیتم مسجد ویران نہ رہنے پاۓ فانہ ان ترک لم تناظروا اگر مسجد چھوٹے گی تو تمھیں مہلت نہیں دی جاۓ گی ( یا زندگی کا امکان نہیں ملے گا) اس عبارت کے مختلف معنی کۓ گۓ ہیں۔جہاد فی سبیل اللہ کو نہ چھوڑنا ۔ و اللہ اللہ فی الجہاد باموالکم و انفسکم والسنتکم فی سبیل اللہ یعنی اللہ جہاد کے بارے میں ۔ ایسا نہ ہوکہ تم راہ خدا میں جان مال اور زبان سے جہاد ترک کردو۔یہ جہاد وہی جہاد ہے جو جب تک امت مسلمہ میں موجود تھا وہ دنیا کی مثالی قوم تھی اور جب اسے چھوڑ دیا ، ذلیل و خوار ہوگئي۔۔۔۔جہاد اپنی اسی اسلامی شکل میں - کہ جس کے کـچھ حدود و شرائط ہیں - ظلم نہیں ہے ۔ جہاد میں انسانوں کے حقوق کوپامال نہیں کیا جاسکتا جہاد بہانہ بازی اور اسے اُسے قتل کرنا نہيں ہے ۔ جہاد میں کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ جو مسلمان نہ ہو اسے ختم کردو ۔جہاد ایک الہی حکم ہے جس کی بہت عظمت ہے ۔ اگر جہاد ہوگا تو قومیں سربلند ہوں گی ۔اس کےبعد ارشاد فرماتے ہیں و علیکم التواصل والتباذل ایک دوسرے سے رابطہ رکھو ۔ ایک دوسرے کی مدد کرو ۔ عطا بخشش کرو ۔ وایاکم بالتدابر والتقاطع ایک دوسرے کا ساتھ دینا نہ چھوڑو۔ قطع رحم نہ کرو ۔ لا تترکوا الا مر بالمعروف والنھی عن المنکر امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہرگز ترک نہ کرو کیونکہ اگر ترک کردوگے فیولی علیکم شرارکم جہاں نیکیوں کی طرف بلانےوالا اور برائیوں سے روکنے والا نہیں ہوتا وہاں اشرار اور برے افراد برسر اقتدار آجاتے ہيں اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔ ثم تدعون پھر تم نیک لوگ دعا کروگے کہ خدایا ، ہمیں ان برے لوگوں سے نجات دے ، فلا یستجاب لکم پھر خدا تمھاری دعا پوری نہیں کرے گا۔۔۔۔۔حکومت امیرالمومنین ( ع) کو سمجھنے کے تئيں ہماری ذمہ داریصرف خداکیلۓ ذمہ داریوں کو قبول کرنا ایسی چیز ہے جس کا درس ہمیں امیرالمومنین سے لینا چاہۓ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خود کو اس منزل پر پہنچا دیں - کیونکہ کوئي بھی خود کو اس منزل تک نہيں پہنچا سکتا - بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جو شخص جہاں بھی کام کر رہا ہو اسے یہ مشق کرتے رہنا چاہۓ ،اور یہ نہیں بھولنا چاہۓ اور یہ کوشش کرنی چاہۓ کہ جو بھی کام کر ے خدا کیلۓ کرے ، جو ذمہ داری بھی قبول کرے خدا کیلۓ خدا کیلۓ قبول کرے ،اور جو قدم بھی اٹھاۓ خدا کیلۓ اٹھاۓ۔ اگر انسان جو ذمہ داری قبو ل کرتا ہے ، جو گفتگو کرتا ہے ،اور جو عمل کرتا ہے وہ خدا کیلۓ ہو توانسان کیلۓ وہ کام بھی آسان ہوجاۓ گا۔کیونکہ خدا کیلۓ ہے اس میں انسان کے نفس کا کوئي دخل اور اثر نہیں ہے ۔ نفسانی خواہشات اس میدان میں موجود نہیں ہے ۔ لہذا ذمہ داریوں کو قبول کرنا آسان ہے ،ذمہ داریوں سے دست بردار ہونا آسان ہے ۔ قدم اٹھانا آسان ہے، جو وہ کہنا چاہتا وہ کہنا آسان ہے، جو نہیں کہنا چاہۓ اس کا نہ کہنا آسان ہے ، فیصلہ کرنا آسان ہے ، زہر کا پیالہ پینا آسان ہے،پوری دنیا سے مقابلہ کرنا آسان ہے۔ بڑی طاقتوں کے مد مقابل آنا آسان ہے، مسائل کو جو چیز مشکل بناتی ہے وہ ہمارا نفس ہے ، ہماری خواہشات ہیں ، ہماری ہوا و ہوس ہے ، ہمارے مادی حساب کتاب ہیں ، اگر ایسے رہیں تو کیا ہوگا؟ کیا نقصان پہنچے گا؟ کیا چیز ہمیں نہیں مل پاۓ گی ؟ جب من بیچ میں نہیں ہوتا، جب خود درمیان میں نہیں ہوتا ،شخص بیچ میں نہیں ہوتا ، نفسانی ھوا و ھوس بیچ میں نہیں ہوتی ، اور سب کچھ خدا کیلۓ ہوتاہے ، تو تمام بڑے کام آسان ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ اس کا واضح اور درخشاں نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو امیرالمومنین (ع) کی زندگی کو دیکھۓ۔ جب چھوڑدینا چاہۓ تھا اور کھجور کے بیج کی مانند منہ سے باہر پھینک دینا چاہۓ تھا ، تو آپ نے وہ کیا ۔ اور جب ذمہ داری ادا کرنے کی ضرورت تھی - فرض کی ادائگي کیلۓ، کسی اور چیز کیلۓ نہیں - تو اس وقت آپ نے اسے قبول کیا۔ احساس ذمہ داری کیا ۔ دین کی حفاظت کیلۓ ۔ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کیلۓ اپنا پورا دور خلافت تقریبا جنگ میں گذارا۔اگر نفسانی ھوا و ھوس اور خواہشات کا مسئلہ ہوتا تو دوسری طرح عمل کرتے ۔ نفس کی پیروی کا معاملہ نہیں تھا۔ اور جب اس مقصد کیلۓ جان قربان کرنے کا وقت آیا تو آسانی سے جان بھی فدا کردی۔عید غدیر کی مناسبت سے حکام سے ملاقات کے موقع پر فرمایاحکومت امیرالمومنین ہر لحاظ سے چاہے وہ عدل قائم کرنے کامعاملہ ہو ، چاہے ظالم کے مقابلے اور مظلوم کی مدد اورحق کی حمایت کی بات ہو، ہر مرحلہ میں اور ہر حال میں نمونہ عمل ہے جس کی پیروی کرنی چاہۓ۔ فرسودہ ہونے والی چیز بھی نہیں ہے ،اور یہ دنیا کے تمام سماجی اور سائنسی ماحول اورمختلف حالات میں انسانوں کی سعادت و خوشبختی کیلۓ نمونہ عمل ہو سکتی ہے۔ ہم اس دور کے دفتری طور طریقہ کی تقلید نہیں کرنا چاہتے اور کہیں کہ یہ سب بھی زمانہ کی تبدیلیوں میں شامل ہے، اور مثلا روز بروز نئی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ہم اس حکومت کے موقف کی پیروی کرنا چاہتے ہیں جو تا ابد زندہ رہے گا۔ مظلوم کی حمایت ہمیشہ کیلۓ ایک درخشاں اورروشن نقطہ ہے ۔ ظالم سے ساز باز نہ کرنا ، طاقتور اور دولت مند سے رشوت نہ لینا ،اور حقیقت پر اصرار ،وہ اقدار ہیں کہ جو دنیا میں کبھی بھی کہنہ اور پرانےہونے والے نہیں ہيں۔ گوناں گوں حالات اور مختلف زمانوں میں یہ خصوصیات ہمیشہ گرانقدر ہیں ۔ ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہۓ ، یہی اصول ہیں ۔ ہم جو کہتے ہیں اصول پسند حکومت ، یعنی ان پائداراقدار کی اتباع اورپیروی جو ہرگز کہنہ اور پرانے ہونے والے نہیں ہیں۔ اور اتفاق یہ ہے کہ دنیا کی جابر اور استکباری طاقتیں بھی ہماری اسی پایداری سے ناراض ہيں۔وہ اسی سے غصہ میں ہیں ۔خفا ہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت فلسطین کے مظلوموں یا ملت افغانستان کی حامی وطرفدار ہے یا دنیا کی فلاں ظالم واستکباری حکومت سے ساز باز نہیں کرتی ۔آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ بنیاد پرستی یا اصول پسندی ہماری قوم کے دشمنوں کےہاتھوں اور زبان پر ایک گالی کی مانند رہتی ہے ، اسی وجہ سے ہے۔ یہ اصول وہی چیز ہے جس سے دنیا کی جابر طاقتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں ۔ اس دور میں امیرالمومنین (ع) سے بھی انھیں چیزوں کی وجہ سے جنگ کی ۔حکومت کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہونی چاہۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے خود کو اس دور کے سب سے غریب انسان کی حیثیت سے پیش کیااورفرمایا کہ :میں جو تمھارا امام ہوں، اس طرح زندگی گذار رہا ہوں ۔ عثمان بن حنیف سے ارشاد فرمایا کہ تم میری طرح زندگی نہیں گذار سکتے ، یعنی یہ توقع بھی نہیں ہے ؛ولکن اعینونی بورع والاجتہادلیکن گناہ سے پرہیز کرو اور خود کواس منزل سے قریب کرنے کی کوشش کرو؛یہ وہی بات ہے جو امیرالمومنین (ع) ہم لوگوں سے بھی کہ رہے ہيں کہ جو بھی گناہ اور ناجائز ہےاس سے اجتناب کرواور خود کو قریب کرنے کی کوشش بھی کرو، جتنا قریب پہنچ سکو ، اور جتنا کوشش کر سکو۔۔۔امیرالمومنین کیلۓ حق و انصاف کا قیام اور مظلوم کا دفاع اور ظالم کے ساتھ سختی ایک اہم مسئلہ تھا- چاہے وہ جو بھی ہو ؛ یعنی ظالم چاہے جو بھی ہو ، اورمظلوم چاہے جو ہو - امیرالمومنین نے مظلوم کی حمایت کے سلسلےمیں اس کے مسلمان ہونےکی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔اسلام کے پابند ،سب سے بڑے مومن، اسلامی فتوحات کے سب سے بڑے سردار امیرالمومنین نے مظلوم کادفاع کرنے کیلۓ مسلمان ہونے کی شرط نہیں رکھی ہے ۔۔۔۔جب ہم امیرالمومنین کے نام کا احترام کرتے تو یہ ہمارے عمل کرنےکیلۓ ہونا چاہۓ ۔ ہم ہمیشہ عوام سے نہیں کہہ سکتے کہ آپ امیرالمومنین (ع) کی طرح عمل کیجئے ۔ ہم جو آج اسلامی جمہوری نظام میں عہدیدار ہیں ،ہماری ذمہ داریاں سب سے زيادہ ہيں ۔اور سب سے زیادہ فرائض ہمارے کاندھوں پر ہیں ۔ ہمیں امید ہےکہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کو امیرالمومنین(ع) کی مانند یہ توفیق حاصل ہوگي اور وہ آپ کے بتاۓ ہوۓ راستے پر گامزن رہیں گے۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نے اس راہ میں بہت مصائب ومشکلات برداشت کۓ ہیں ۔۔۔۔۔ امیرالمومنین(ع) نے معروف دعا ، دعاءکمیل میں جو آپ ہی کی تعلیم کردہ ہے- اللہ کو مخاطب قرار دیتے ہوۓ فرماتے ہیں الہی وسیدی و مولائی وما لک رقی من جملہ یہ خطاب بھی میرے کانوں اور ذہن پر بہت اثر انداز ہوا کہ یا من الیہ شکوت و احوالی مفاتیح الجنان ، دعاء کمیل اے وہ کہ میں جس سے اپنے شکوے بیان کرتا ہوں : آپ خدا سے شکوے کرتے تھے: آپ کا دل درد سے بھرا ہوا تھا۔ امیرالمومنین کی تشویش عوام اور معاشرے کیلۓ بھی تھی اور اس دور میں نو تشکیل اسلامی نظام میں دین کی صورتحال اور مذہب کی صحیح سمت میں حرکت اور خود آپ کا شدید احساس ذمہ داری بھی اس میں شامل تھا ۔ البتہ امیرالمومنین (ع) نےیہ ذمہ داری پوری کرنے میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کی ۔
فاطمہ زہرا (س) انسانیت کی معراجمیں اسلام کے نام سے اپنی بات کا آغاز کرتاہوں اور اسلام کے پیغام کو عظیم پیغام مانتا ہوں۔ آپ جیسی خواتین پر مجھے فخر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی کوئي دعوی عمل کے مرحلے کے نزدیک پہنچ جاتا ہے تب اسے اس کی حقیقی اہمیت حاصل ہوتی ہے ہم ایک طرف تو خواتین کے مسئلے میں اور دوسری طرف علم و سائنس کے مسئلے میں جبکہ دوسرے پہلو سے انسانیت کی خدمت کےمسئلے میں خاص نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اسلام کے تناظر میں ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ایک اچھے انسانی معاشرے میں عورتیں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہیں اور انہیں اس کا موقع بھی ملنا چاہئے کہ، اپنے طور علمی، سماجی، تعمیری اور انتظامی شعبوں میں اپنی کوشش اور بھرپور تعاون کریں۔ اس زاوئے سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے۔ ہر انسان کی تخلیق کا مقصد پوری انسانیت کی تخلیق کا مقصد ہے، یعنی انسانی کمال تک رسائي ایسی خصوصیات اور صفات سے خود کو آراستہ کرنا جن سے ایک انسان آراستہ ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ اس کی سب سے واضح علامت پہلے مرحلے میں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات با صفات ہے اور اس کے بعد انسانی تاریخ کی دیگر عظیم خواتین کا نام لیا جا سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا آسمان انسانیت آفتاب کی مانند ضو فشاں ہیں کوئی بھی ان سے بلند و برتر نہیں ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے ایک مسلمان خاتون کی حیثیت سے اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کی کہ خود کو انسانیت کی اوج پر پہنچا دیں۔ لہذا مرد اور عورت کے درمیان کوئي فرق نہیں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں جب اچھے اور برے انسانوں کی مثال دی ہے تو عورت اور مرد دونوں سے متعلق مثال پیش کی ہے۔ ایک جگہ فرعون کی بیوی کا تذکرہ فرمایا ہے تو دوسرے مقام پر حضرت لوط اور حضرت نوح کی بیویوں کا ذکر فرمایا ہے '' و ضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امرءۃ فرعون اس کے مقابلے میں برے انسانوں کے لئے حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویوں کی مثال دی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ تاریخ میں عورت کے سلسلے میں جو غلط تصور قائم رہا اس کی اصلاح کرے۔ مجھے حیرت ہے کہ معدودے چند مثالوں کے علاوہ ایسا کیوں ہے ؟ کیوں انسان نے مرد اور عورت کے مسئلے میں ہمیشہ غلط طرز فکر اختیار کیا اور اس پر وہ مصر رہا۔ آپ انبیا کی تعلیمات سے ہٹ کر دیکھیں تو عورتوں کے سلسلے میں جو بھی نظریات قائم کئے گئے ہیں ان میں مرد اور عورت کا مقام حقیقت سے دور ہے اور مرد و عورت کے درمیان جو نسبت بیان کی گئي ہے وہ بھی غلط ہے۔ حتی بہت قدیمی تہذیبوں میں بھی جیسے کہ روم یا ایران کی تہذیبیں ہیں، عورت کے سلسلے میں جو تصور اور نظریہ ہے درست نہیں ہے۔ میں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، آپ خود ہی اس سے واقف ہیں اور خود جائزہ لے سکتے ہیں۔ آج بھی دنیا کی وہی حالت ہے۔ آج بھی عورتوں کی حمایت کے بڑے بڑے دعوے اور اس کی ذات کے انسانی پہلو پر تاکید کے نعروں کے باوجود عورتوں کے سلسلے میں جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چونکہ یورپی ممالک، مسلم ممالک کی مقابلے میں ذرا تاخیر سے اس بحث میں شامل ہوئے ہیں اس لئے خواتین کے مسئلے میں ذرا دیر سے جاگے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گذشتہ صدی کے دوسرے عشرے تک یورپ میں کہیں بھی کسی بھی خاتون کو اظہار رائے کا حق نہیں ہوتا تھا جہاں جمہوریت تھی حتی وہاں بھی عورت کو اپنا مال خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا تھا۔ بیسوی صدی کے دوسرے عشرے سے یعنی سن انیس سو سولہ یا اٹھارہ سے رفتہ رفتہ یورپی ممالک میں فیصلہ کیا گيا کہ عورتوں کو بھی اپنے سرمائے کے سلسلے میں اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا اختیار دیا جائے اور وہ سماجی امور میں مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرے۔ اس بنا پر یورپ بہت تاخیر کے ساتھ خواب غفلت سے جاگا اور بڑی دیر میں وہ اس مسئلے کو سمجھا۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ وہ کھوکھلے دعوؤں کا سہارا لیکر اپنے اس پسماندگی کی تلافی کرنا چاہتا ہے ۔ یورپی کی تاریخ میں کچھ ملکہ اور شہزادیاں گذری ہیں لیکن کسی ایک خاتون، ایک گھرانے، خاندان یا قبیلے کی عورتوں کا مسئلہ عورتوں کے عام مسئلے سے الگ ہے۔ تفریق ہمیشہ رہی ہے۔ کچھ عورتیں ایسی بھی تھیں جو اعلی مقام تک پہنچیں کسی ملک کی حاکم بن گئیں اور انہیں حکومت وراثت میں مل گئی، لیکن معاشرے کی سطح پر عورتوں کو یہ مقام نہیں ملا اور ادیان الہی کی تعلیمات کے برخلاف کہ جن میں اسلام کی تعلیمات سب سے زیادہ معتبر ہیں عورت ہمیشہ اپنے حق سے محروم رکھی گئی۔ آپ آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ مغرب کی مہذب دنیا، عورتوں کے سلسلے میں اپنی شرمناک پسماندگي کی تلافی کرنے کے در پے ہے اور اس کے لئے ایک نیا طریقہ اختیار کر رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ عورتوں کے انسانی پہلو کو سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی مسائل کی نذر کر دیتے ہیں۔ یورپ میں روز اول سے ہی یہ صورت حال رہی۔ اسی وقت سے جب خواتین کو ان کے حقوق دینے کے مسئلہ اٹھا، انہیں غلط معیاروں کا انتخاب کیا گیا۔ جب ہم دنیا کے فکری اور نظریاتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر اسلام کی تعلیمات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ انسانی معاشرہ اسی صورت میں خواتین کے مسئلے میں اور مرد اور عورت کے رابطے کے تعلق سے مطلوبہ منزل تک پہنچ سکتا ہے، جب اسلامی تعلیمات کو من و عن قبول کرے اور بغیر کسی کمی بیشی کے ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو۔ دنیا میں عورت کے تعلق سے ہمارا یہ خیال ہے۔ آج کی دنیا پرست تہذیبوں میں عورتوں کے سلسلے میں جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ہم اس سے ہم متفق نہیں ہیں اسے ہم عورتوں کے لئے سودمند اور معاشرے کے لئے مناسب نہیں سمجھتے۔ اسلام چاہتا ہے کہ، خواتین، فکری، علمی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر روحانی اور اخلاقی کمال کو پہنچیں۔ ان کا وجود معاشرے اور انسانی برادری کے لئے بھرپور انداز میں ثمر بخش ہو۔حجاب سمیت اسلامی تعلیمات کی بنیاد یہی ہے۔ حجاب، خواتین کو الگ تھلگ کر دینے کے لئے نہیں ہے۔ اگر کوئی حجاب کے سلسلے میں ایسا نظریہ رکھتا ہے تو یہ بالکل غلط اور گمراہ کن نظریہ ہے۔ حجاب در حقیقت معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی جنسی بے راہ روی کو روکنےکے لئے ہے کیونکہ یہ صورت حال دونوں بالخصوص عورتوں کے لئے بہت خطرناک ہے۔ حجاب کسی بھی طرح سیاسی، سماجی اور علمی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں ڈالتا اس کی زندہ مثال خود آپ لوگ ہیں۔ شائد کچھ لوگ حیرت میں رہے ہوں یا آج بھی حیرت زدہ ہوں کہ کسی بلند علمی مقام پر فائز کوئي خاتون اسلامی تعلیمات بالخصوص حجاب کی پابند ہو۔ یہ بات کچھ لوگوں کے لئے نا قابل یقین تھی اور وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شاہ کی طاغوتی حکومت کے زمانے میں پردے کا مذاق اڑانے والوں کے ناروا سلوک کا تذکرہ تو چھوڑیں ۔اس زمانے میں یونیورسٹی میں بہت کم خواتین اور لڑکیاں با حجاب تھیں کہ جنہیں تمسخر اور استہزا کا شانہ بنایا جاتا تھا ۔۔۔ ہمارے اسلامی انقلاب کی جد وجہد میں عورتوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور ان غلط نظریات پر خط بطلان کھیچ دیا۔ ہم نے مشاہدہ کیا کہ کس طرح خواتین نے انقلاب کے لئے بنیادی کردار ادا کیا اس میں میں کوئي مبالغہ آرائي نہیں کر رہا ہوں ۔ ہم نے انقلاب کے دوران دیکھا کہ ہمارے ملک میں خواتین نے ہراول دستے کی ذمہ داری سنبھالی۔ اگر خواتین نے اس انقلاب کو قبول نہ کیا ہوتا اور اس سے انہیں عقیدت نہ ہوتی تو یہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہ ہو پاتا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خواتین نہ ہوتیں تو انقلابیوں کی تعداد خود بخود نصف ہو جاتی دوسری بات یہ ہے کہ ان کی عدم موجودگی کہ ان کے فرزندوں بھائیوں اور شوہروں پر بھی اثر پڑتا گھر کے ماحول پر اثر پڑتا کیوں کہ خواتین گھر میں اپنا خاص انداز رکھتی ہیں۔ خواتین کا بھرپور تعاون تھا جس کے نتیجے میں دشمن کی کمر ٹوٹ گئي اور ہماری تحریک آگے بڑھی۔ سیاسی شعبے میں بھی ہم نے خواتین کو دیکھا ہے اور دیکھ رہے ہیں، وہ مسایل کے حل میں خاص صلاحتیوں سے آراستہ ہیں اور اسلامی نظام میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے پر قادر۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہنا چاہئے۔ علمی میدان میں بھی، خواتین کی پیش رفت کا مصداق آپ خود ہیں اسی طرح آپ کی بہنیں ہیں جو دیگر شعبوں میں مشغول ہیں۔ ہمارے معاشرے میں علم کے مختلف موضوعات کی تعلیم جو معاشرے کی تعمیر کے لئے لازمی ہے ہر فرد کے لئے ضروری ہے۔ آج تحصیل علم سماجی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ہی شرعی فریضہ بھی ہے۔ تحصیل علم صرف ذاتی خصوصیت نہیں ہے کہ جس کے سہارے کوئی شخص کسی خاص مقام پر پہنچ جائےاور اسے اچھی آمدنی ہونے لگے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو افراد تحصیل علم پر قادر ہیں ان کے لئے تحصیل علم واجب ہے اسپشلائزیشن واجب ہے۔ بقیہ موضوعات کی مانند میڈیکل سائنس کی تعلیم مردوں کی لئے واجب ہے تو عورتوں کے لئے اس سے بڑھ کر واجب ہے۔ کیوں کہ معاشرے میں خواتین کے مقابلے میں کام کے مواقع محدود ہیں۔ ہمارے پاس خاتون ڈاکٹروں کی کمی ہے اس بنا پر اسلام کے نقطہ نظر سے یہ مسئلہ حل شدہ ہے اور ہمارے معاشرے کے لئے ترقی ضروری ہے۔ آپ اپنا عملی پیغام دنیا کو دیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ خواتین کے پاس دنیا کے لئے پیغام ہے۔ اس پیغام کو منظم شکل دیں اور دنیا کے سامنے پیش کریں۔ پیغام صرف تحریری اور زبانی نہیں ہے، بلکہ عملی پیغام ہے۔ ایرانی خواتین بالخصوص وہ خواتین جنہوں نے اسلام کے تناظر میں اور اسلامی احکامات پر عمل آوری خاص کر حجاب کی پابندی کے ساتھ، مختلف علمی میدانوں میں پیش رفت کی ہے، دنیا کی طالبات کو عملی پیغام دیں کہ علم اور سائنس کا مطلب بے راہ روی نہیں ہے سائنس کا مطلب مرد اورعورت کے درمیان رابطے میں اخلاقی اصولوں کو نظر انداز کرنا نہیں ہے۔ بلکہ ان اصولوں پر عمل آوری کے ساتھ ساتھ تعلیم جاری رکھی جا سکتی ہے اور اعلی علمی مدارج پر پہنچا جا سکتا ہے۔ آپ کا وجود اسلامی کے عالمی پیغام کا مظہر اور مصداق ثابت ہو سکتا ہے۔ میں آپ کی اس بات سے متفق ہوں کہ دنیا ادیان کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہے۔ آسمانی ادیان میں جو دین و دنیا کو معاشرے کو سنوار دینے کی صلاحیت رکھنے کا دعوی کرتا ہے وہ اسلام ہے۔ عیسائیت اور دیگر ادیان اس وقت یہ دعوی نہیں کر رہے ہیں لیکن اسلام اس کا دعویدار ہے کہ اس کے پاس ایک آئیڈیل معاشرے کی تشکیل کی بنیادیں اور ضروری عناصر موجود ہیں وہ ان بنیادوں اور ستونوں کے سہارے ایک مثالی سماجی نظام اور معاشرہ تشکیل دے سکتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ تمام شعبوں میں بالخصوص علم و دانش کے شعبے میں اور خواتین کے تعلق سے یہ ثابت کریں کہ اسلام میں اس کی صلاحیت ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں اور ممتاز شخصیت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بےمثال اور ممتاز خصوصیات کے مالک تھے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو ؤں پر جتنا ھم غور کرتے ہیں آپ کی شخصیت اور بھی نمایاں اور بےمثال دکھائی دیتی ھے۔ اگرچہ آج انے فراق کا داغ ہمارے دلوں کو تڑپارہاہے اور غم کی سنگینی یمارے دلوں پر بوجھہ بنی ہوئی ہے انکے فقدان کا کہیں زیادہ احساس کررہاہوں ۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت کے موقع ہر قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2007-6-6ارادہ الہی اور شرعی ذمہ داریوں میں محوامام کی شخصیت بڑی حد تک ان کے عظیم اہداف اور مقاصد سے وابستہ ہے۔ آپ اپنی بلند ہمتی کےباعث اعلیٰ اہداف کا انتخاب کیا کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے ایسے اہداف کا تصور بھی دشوار تھا اور لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اعلیٰ اہداف ناقابل حصول ہیں۔ لیکن آپ کی بلند ہمتی، ایمان و توکل،جہد مسلسل اور اس عظیم انسان کی ذات میں پوشیدہ بے پناہ صلاحیتیں اور توانائیاں کارفرما تھیں اور وہ اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کی سمت بڑھتے چلے جاتے اور اچانک سب دیکھتے کہ وہ اعلیٰ اہداف حاصل ہوگئے ہیں۔آپ کے کام کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آپ حکم الہی اور شرعی ذمہ داریوں کی ادائگی میں کھو جا یا کرتے تھے ۔ آپ کے سامنے ذمہ داریوں کی ادائگی کے سوا اور کچھ نہی ہوتا تھا۔ آپ حقیقی معنوں میں ایمان اور عمل صالح کے مصداق تھے۔ آپ کا ایمان پہاڑ کی مانند مستحکم تھا اور عمل صالح کی انجام دہی میں آپ کھبی نہ تھکنے والی حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ (نیک) کاموں کی انجام دہی میں آپ انتہائی قوی اور باہمت شخصیت کے مالک تھے جو سبھی کے لئے حیران کن تھی۔وزیر اعظم اور کابینہ سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1988-6-6جامع صفات کی حامل عظیم شخصیتہمارے عظیم اور ہردلعزیز رہبر کبیر کی شخصیت کا در حقیقت انبیائے الہی اور آئمہ معصومین کے بعد کسی بھی اور شخصیت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ہمارے لئے عطیہ الہی، حجت خدا اور عظمت الہی کی نشانی تھے۔ جب انسان انہیں دیکتھا تو بزرگان دین کی عظمت کا اندازہ کر لیتا۔ ہم رسول خدا، امیرالمومینین ، سید الشہداء امام جعفرصادق اور دیگر اولیاء علیہھم السلام کی عظمت کا صحیح تصور تک بھی نہی کرسکتے ۔ ہمارے ذہن اس سے کہیں چھوٹے ہیں کہ ان عظیم ہستیوں کی عظمت ذاتی کا احاطہ کر سکیں یا اسے دائرہ تصور میں لاسکیں ۔ لیکن جب کوئی شخص ہمارے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کودیکھتا ہے، قوت ایمانی، عقل سلیم، حکمت و دانا ئی، صبر و بردباری، سچائی و پاکیزگی ، تجملات دنیا سے بے اعتنائی،، زھدو تقویٰ و پرھزگاری، خوف خدا، اور اللہ تعلی کا پر خلوص عبادت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اس عظیم انسان اور آسمان ولایت کے خورشید تابناک کے سامنے سر تعظیم خم کر دیتا ہے اور خود کو انکے سامنے ذرے سے بھی کمتر سمجھتا ہے ، انسان کو کسی حد تک اندازہ ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء معصومین کی ذات کس قدر عظیم ہے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7فاتح فتح الفتوحآ پ نے محاذجنگ پر ملنے والی ایک کامیابی کے موقع پر مجاہدین سے فرمایا :فتح الفتوح کا مطلب آپ جیسے انسانوں اور جوانوں کی تربیت کرنا ہے۔ درحقیقت اس فتح الفتوح کے فاتح وہ خود تھے۔ وہ تھے جنہوں نے ایسے انسانوں کو تیار کیا تھا۔ وہ تھے جنہوں نے یہ ماحول تیار کیا تھا۔ وہ ہی تو تھے جنہوں نے یہ راستہ بنایا تھا۔ یہ آپ (رہ) ہی تھےجنہوں نے اسلامی اقدار کو زوال اور حاشئے پر چلے جانے کے بعد حیات نو بخشی۔ آپ کی میراث یہی اقدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو چاہے وہ کسی بھی عہدے پر کیوں نہ ہوں، اسلامی جمہوری نطام اور اس کی اقدار کے تحفظ کے لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنے عشق ومحبت کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1988-6-7نماز شب کا گریہامام خمینی (رہ) ایسی عظیم شخصیت کے مالک تھے کہ انبیااور آئمہ معصومین (علیم السلام ) کے علاوہ کسی اور میں ایسی خصوصیات اور پہلوؤں کا تصور بھی دشوار ہے۔ اس عظیم انسان نے قوت ایمانی کو عمل صالح کے ساتھ، آہنی ارادے کو بلند ہمتی، اخلاقی شجاعت کو حکمت و تدبیر، جرءت اظہار و بیان کو سچائی و متانت ، معنوی اور روحانی پاکیزگی کو ہوشیاری و کیاست ، تقویٰ و پرہیز گاری کو تیز رفتاری و استحکام ، قائدانہ رعب و دبدبے کو محبت و الفت کے ساتھ مختصر یہ کہ بہت سی پاکیزہ اور نادر صفات کہ جنکا صدیوں کے دوران بعض عظیم لوگوں میں جمع ہوجانا شاید ہی ممکن ہو اپنے مبارک وجود میں جمع کیا۔ یہ ساری صفات آپ کی نادر روزگار شخصیت میں موجود تھیں، آپ کی شخصیت بے نظیر تھی اور آپ کی انسانی عظمت ا تصور و تخیل سے بالا تر ہے۔وہ ملت ایران کے لئے رہبر ، باپ ، استاد، مقصود اور محبوب اور مستضعفین عالم خاص طورپرمسلمانوں کے لئے روشن مستقبل کی نوید تھے۔ وہ خدا کے صالح و متواضع بندے ، نیمہ شب میں پیش پروردگارگریہ کرنے والے ہمارے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ مسلمان کامل کے لئے سر مشق عمل اور ایک اسلامی رہنما کا بے بدل نمونہ تھے۔ انہوں نے اسلام کو عظمت دی اور قران کے پرچم کو پوری دنیا میں لہرایا۔ انہوں نے ملت ایران کو اغیار کی قید سے نجات دلائی اور حمیت، تشخص اور خود اعتمادی عطا کی ۔ انہوں نے خود مختاری اور آزادی کا نعرہ پوری دنیا میں عام کیا اور دنیا کی ستم رسیدہ اقوام کے دلوں امید کی شمع روشن کی ۔ ایسے دور میں جہاں طاقتور سیاسی ہاتھ دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کو مٹانے پر کمر بستہ تھےا نہوں نے دین و روحانیت اور اخلاقی اقدار کی بنیادوں پر نظام حکومت قائم کیا اور اسلامی سیاست اور حکومت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دس سال تک تیز ترین طوفانوں اور فیصلہ کن مراحل میں اسلامی جمہوریہ کی پوری طاقت سے حفاظت اور رہنمائی کی اور اسے محفوظ مقام پر لا کھڑا کیا ۔ ان کی دس سالہ قیادت کا دور ہمارے عوام اور حکام کے لئے نا قابل فراموش اور قیمتی ذخیرہ ہے ۔ملت ایران کے نام پیغام سے اقتباس 1989-6-8بے مثال شخصیتامام( رح) کی شخصیت کا دنیا کے کسی بھی رہنماسے موازنہ نہی کیا جاسکتا، صرف انبیاء اور آئمہ معصومین کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔ وہ ان ہی کے شاگرد تھے یہی وجہ ہے کہ( امام خمینی کا) دنیا کے کسی بھی لیڈر کے ساتھ موازنہ نہی کیا جاسکتا۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8حکیم و دانا اور دور اندیش انسانامام (رح) انتہائی دانا، دوراندایش، انسان شناس،حکیم،تیز بین،حلیم الطبع اور مستقبل کو دیکھنے والے تھے،ان صفات میں سے کوئی ایک بھی صفت کسی بھی شخص کو اعلیٰ مرتبہ پر فائز کرنے اور دوسروں کے لئے قابل احترام بنا نے کے لیے کافی تھی۔ امام (خمینی رح ) ایسے متین، بردبار اور حلیم الطبع تھے کہ اگر کسی محفل میں سو آدمی بات کر رہے ہوں اور انکی بات سے آپ متفق نہ ہوں تب بھی اگر ضروری نہ ہوتا توآپ کوئی بات نہی کرتے اور خاموش رہتے، حالانکہ اگر معمولی لوگوں کے سامنے انکے مزاج کے خلاف کوئی بات کی جائے تو ان میں فوری جواب دینےکا جذبہ کروٹیں لینے لگتا ہے ۔اسلامی انقلاب کمیٹی کے ارکان اور کمانڈروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8نفس اور خواہشات پر مسلط انسانحقیقتا ہمارے ہردلعزیز امام جیسے بے نظیر اور عظیم انسان کو منتخب انسان ، عظیم دماغ،پاکیزہ ترین دل نذرانہ تکریم و تعظیم پیش کرتے ہیں ۔ ظاہری عہدے اور مقام کی بنا پر جن لوگوں کا احترام کیا جاتا ہے ان میں اور ایسے شخص میں جسکا اسکی شخصیت و عظمت اسکی گہرائی اور گیرائی اور جس کی حیرت انگیز صفات، ہر محب کمال انسان کو تعظیم و احترام اور تعریف ستائیش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں، بڑا فرق ہے ۔امام ( رہ) مختلف النوع صفات کے مالک تھے: آپ انتہائی خرد مند دانا منکسر المزاج ، زیرک و ہوشیار و بیدار، محکم و مہربان بردبار اور متقی انسان تھے۔ انکے سامنے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہی کیا جاسکتا تھا ۔ وہ آہنی ارادے کے مالک تھے اور کوئی بھی چیز انکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی تھی۔۔ وہ انتہائی رحم دل اور مہربان تھے، چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملاقات کا وقت ہو یا انسانی زندگی کے ایسے مواقع ہوں جہاں فطری طور پر دل محبت اور مہربانی پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نفسانی خواہشات، مادی لذات انکے وجود کی اعلی چوٹیوں کو نہی چھو سکتے تھے۔ وہ ہواء نفس اور خواہشات پر پوری طرح مسلط تھے، خواہشات ان پر غلبہ نہی کر سکتی تھیں۔ وہ صابر و برد بار تھے اور سخت سے سخت حالات میں بھی انکے بحر بے کراں میں تلاطم پیدا نہی ہوتا تھا ۔افق انسانی کا سورج میں تاریخ ایران میں سورج کی مانند چمکنے والے اس عظیم انسان کے اعلی انسانی کمالات کو بیان کر نے سے قاصر ہوں ۔ میں برسوں تک آپکی خدمت می رہا ہوں۔ ۱۳۳۷ میں انسے ملا اور اور انکے درس میں شریک ہونے لگا۔ زندگی کے مختلف ادوار میں اور بحرانی حالات میں نے انکے جچے تلے اقدامات کا مشاہدہ کیا ۔ وہ غیر معمولی انسان تھے ، وہ ہم ایسے با لکل نہی تھے۔ حقیقتا اس عظیم انسان کی صفات اور خصوصیات کو میں بیان نہی کرسکتا۔فوج میں امام خمینی کے نمائدے، وزیر دفاع اور دیگر عہدیداروں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-8مخلص اور عبادت گزاراصل بات یہ ہے کہ اگر امام خمینی (رہ) کی روحانی شخصیت خلوص اور بندگی نہ ہوتی تو وہ یہ کامیابیاں کبھی حاصل نہ کر پاتے ۔ یہ کارنامہ اس قدر عظیم ہے کہ خدا سے رابطے کے بغیر کوئی بھی شخص،تما متر خصوصیات کے باوجود بھی انجام نہی دے سکتا امام(رہ) دنیا میں جو یہ عظیم تحرک پیدا کرنے میں کامیاب ہو ئے، اسکی وجہ یہ کہ آپ کا خدا سے رابطہ تھا اور آپکو اس راستے میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ آج جب وہ ہمارے درمیان نہی ہیں، ان کی تعریفوں اور لوگوں کے تاثرات کا سیلاب امنڈ آیا ہے اور پوری دنیا انکے اس عظیم کارنامے کی عظمت کا، جس نے انسانوں کے سمندر کو موجزن کر دیا ہے، اعتراف کررہی ہے۔یہ عظیم کارنامہ صرف اور صرف عزم ، استقامت، بہادری، ہوشیاری، باریک بینی اور مستقبل شناسی کے ذریعے ہی ممکن تھا تاہم یہ صفات جوش و ولولے کے اس عظیم طوفان کو وجود میں لانے سے قاصر تھیں ، اصل بات خدا سے رابطہ اور اس سے مدد مانگنا تھا ۔ اور اسی چیز نے امام (رہ) کے نام اور انکے کارنامے کو تاریخ میں ابدی بنا دیا ہے۔تعمیری جہاد کے مجاہدین سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-10خلوص کا پیکرہمارے عظیم رہبرو رہنما اور امام (رہ) خلد آشیاں دنیا کی درخشاں شخصیت تھے۔ حقیقتا ان کے جیسا رہبر نہ اس زمانے میں ہے اور نہ اس سے پہلے کوئی گزرا ہے ۔ دنیا کی معروف شخصیات کے درمیان، انبیا اور اولیا علیھم السلام کے بعد ایسی عظیم، ہمہ جہتی اور ہمہ گیر شخصیت دکھائی نہی دیتی۔ میں اس بات پر پورا یقین رکھتاہوں کہ اگر یہ عظیم انسان، علم و یقین، دانائی و بہادری اور مضبوط اردے جیسی تمام مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ ، اخلاص(عمل) اور خدا سے خاص رابطے سے بہرہ مند نہ ہوتے تو وہ کبھی کامیاب نہی ہو سکتے تھے۔ یہ کامیابی ایسے حالات میں نصیب ہوئی جب دنیا میں تمام علامتیں دین کی تنہائی اس کی فرسودگی اور شیطانی و مادی افکار کے غلبے پر دلالت کررہی تھیں۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-6-11خلوص اور خدا سے رابطہ کامیابی کا رازمیرے خیال میں انکی ( امام خمینی رہ) کی کامیابی کا سب سے بڑا راز خلوص اور خدا سے رابطہ تھا ۔ آپ ایاک نعبد و ایاک نستعین کے معنی پر عمل کرنےاور خدا کی لازوال طاقت کے سرچشمے سے وابستہ ہونے میں کامیاب رہے۔ جب کوئی ناچیز، کمزور اور محدود ظرفیت رکھنے والا انسان کسی بحر بے کراں سے متصل ہوجائے تو پھر کوئی مشکل اسکی راہ میں رکاوٹ نہی بن سکتی ۔ کوئی بھی انسان یہ کام کرےگا تو ایسا ہی ہوگا، البتہ ہر انسان کے لیے ایسا کرنا اتنا آسان بھی نہی ہے لیکن آپ( امام خمینی رہ) نے ایسا کر دکھایا۔ ہمیں بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کوشش کرنا چاہیے ۔ بزرگ ہستیاں چوٹیوں پر کھڑی ہیں ، ہمیں بھی پہاڑیوں کے دامن سے اوپر چڑھنا چاہیے اور ان کی طرف جانا چاہیے ، اگر ہم چوٹیوں تک نہ بھی پہنچ پائیں تب بھی عمل کرنا ہم سب کا فریضہ اور ذمہ داری ہے۔نگہبان کونسل کے فقہا اور قانون دانوں سے بیعت لینے کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس1989-6-11امام خمینی کے مشن کی خصوصیاتامام خمینی اپنے مشن کے اہداف گنواتے ہوئے فرماتے تھے عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد ، نہ مشرق نہ مغرب کے نعرے کے ضمن میں پوری قوت کے ساتھ اعتدال کو برقرار رکھنا ، قوموں کی ہمہ گیر اورحقیقی خودمختاری، حقیقی معنوں میں خود کفالت، دینی اصول و شریعت وفقہ اسلامی کے تحفظ پر مسلسل اصرار اور عزم راسخ، اتحاد ویکجہتی کی برقراری، دنیا کی مسلمان اور مظلوم قوموں پر توجہ، اسلام اور مسلمان اقوام کے وقار کی بحالی، عالمی طاقتوں کے مقابلے میں مرعوب نہ ہونا ، اسلامی معاشروں میں عدل وانصاف کا قیام ، معاشرے کے مستضعف و پسماندہ اورمحروم لوگوں کی بے دریغ حمایت اوران کے مسائل کو حل کرنے کی بھرپور کوشش، ہم سب اس بات کے شاہد رہے ہيں کہ امام نے ہمیشہ ان خطوط پر بھرپورطریقے سے عمل کیا ہے اورکسی بھی طرح کے پس وپیش کے بغیر ان خطوط اور مشن کو آگے بڑھایاہے ، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کے راستے، اعمال صالح اوران کے کردار و رفتار کی پیروی کریں۔وزیراعظم اور کابینہ سے بیعت یاتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیان سے اقتباس 1989-6-7امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عہد نو کی خصوصیتیںامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمارے عظیم امام کی خصوصیات نے نئے دورکا آغازکردیاہے اورآج جب ہمارے دل اورہماری جانیں امت اسلامیہ کی اس بے مثال ہستی کے فراق میں غمزدہ ہیں تو ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ان عصری خصوصیات کوکہ جن کا آغازامام خمینی نے کیاتھا اورپوری قوم اور دنیا کو جن سے متعارف کرایا پہچانیں اوران کو برقرار رکھیں ۔حقیقی سوگواری یہ ہے کہ ہم فریضوں پرعمل کریں وہ عصر وہ دورجس کاآغازامام خمینی نے کیا اسے جاری رکھیں اس نئے دور کی اپنی خصوصیات اورپہچان ہے ان خصوصیات میں قوم کے اندر خود مختاری و آزادی کے جذبے کی بیداری اور خود اعتمادی و خود کفالت ہیں وہ خصوصیات جنہیں قوموں سے چھین لینے کی منظم سازش کی گئي۔ اس دورکی ایک اورپہچان وخصوصیت امام خمینی جس کے موجد وبانی تھے انسانی اقدارکااحترام اوراس کی جانب رجحان ، عدل وانصاف اورانسانوں کے لئے حریت وآزادی اورلوگوں کےنظریات اوران کی رای کا احترام ہے ۔ یہی عظیم شخصیت جسے پوری دنیاکے لوگ آج احترام سے یاد کرتے ہيں اورجس کی عظمت وبزرگي کے صدق دل سے معترف ہيں کہتی تھی کہ مجھے رہبر کےبجائے خادم کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ آپ یہ بات بڑی سنجیدگی سے فرماتے تھے اوراس میں کسی طرح کا تکلف نہیں کرتے تھے وہ اس قدر عوام کااحترام کرتے تھے کہ خود کو ان کا خدمت گزارکہتے تھے ہم اس طرح کی پوری دنیامیں کوئی نظیرومثال نہیں رکھتے اورتاريخ میں اس جیسی شخصیت کی مثال نہيں ملتی ۔فوجی کمانڈروں اورولی فقیہ کے نمائندوں کی طرف سے بیعت وتجدید عہد کی تقریب میں رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1989-6-11امام خمینی کے مشن اور راستے کا تعینامام خمینی کا مشن ان کا راستہ جس پر ایرانی قوم رواں دواں ہے اسلام اورمسلمانوں کی عظمت و سربلندی، محروموں اور مستضعفوں کے کے دفاع کا راستہ ہے جس نے ایرانی قوم کو پوری دنیا میں ایک زندہ اور سرافراز و آزاد قوم میں تبدیل کر دیاہے۔ یہ قوم آج دنیاکی سب سے بیدار اور فعال قوم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے، اب یہ قوم دوسروں پر منحصر اور نہیں رہ گئی ہے۔ یہ وہ خط ہے کہ جس نے اسلام کے تئیں لوگو ں کے دلوں میں عشق و محبت کا جذبہ جگایا ہے اورانھیں اس راستے میں بے مثال فداکاریوں اورقربانیوں کا حوصلہ دیا ہے یہ راستہ، ہماری زندگی ہے یہی ہمارا وجود اورہمارا انقلابی اور قومی تشخص ہے ۔ پرودگار عالم کے فضل وکرم سے ہم اس راستہ ہر پوری پائداری و ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں جس کی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پوری تحریک کے دوران ہمیں تعلیم دی ہے۔ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ اوران کے مشن، ان کے انقلاب ان کی کوششو ں اور ایثار کو اپنی حیثیت اور سکت کے مطابق جاری رکھنے کے لئے آمادہ ہیں ۔ ہمارا لہو اور ہماری زندگي اس راہ پر قربان ہے ۔ ہماری سعادت خوشبختی اسی میں ہے کہ اپنی زندگی اسی راہ میں گذاريں اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔صدرکی تقرری اورتوثیق کی تقریب میں رہبرانقلاب کا خطاب 1989-8-3حقیقی رہنماامام خمینی کے بعد گزشتہ گیارہ برسوں کے دوران ہم نے ہدایت کا جو راستا طے کیاہے وہ کوئی معمولی اورعام راستہ نہیں ہے اس مشکل ترین راستے کو طے کرنے کے لئے تائيد غیبی اور توفیق الہی ناگزیر ہے۔ ہم عجیب وغریب پیچ وخم سے گذرے ہيں ۔ امام خمینی کی قیادت ورہبری کی برکت کی وجہ سے عجیب وغریب نشیب وفرازکو ہم نے عبورکیاہے اس راستے کو طے کرنے میں تائيد الہی ہمارے شامل حال رہی ہے ،خود امام خمینی کابھی اسپر ایقان و ایمان تھا میں نے خود ان کی زبانی سناتھا۔ وہ فرمایاکرتے تھے کہ میں انقلاب کے آغازسے ہی اس بات کا احساس کررہاہوں کہ ہر مقام پر راہ راست دکھانے اور ہدایت کرنے والا غیبی ہاتھ ہماری مدد کررہاہے اوریہ ہاتھ ہمارے آگے آگے چل رہاہے نتیجتا راستے ہمارے لئے آسان ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ واقعی ایک حقیقت تھی کہ خداوند عالم نے ہماری سعی و کوشش اور خلوص و رغبت کے عوض ہماری مدد فرمائی تھی۔ یہ ہدایت و تائيد الہی غافل انسان کو میسرنہیں ہوتی۔ اسی مناجات شعبانیہ میں ارشادہوتاہے کہ دل کی آنکھ کو منورکرنا اور بیدار دل کے لئے حقائق کو روشن کرنا اور مومن کو چشم بصیرت عطاہونا یہ سب مفت اوربلاسبب انجام نہیں پاتا۔ بغیرجدوجہد اور سعی وکوشش کے خدا سے ارتباط ممکن نہیں ہوپاتا ۔امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقع پر سکیورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد سے ملاقات میں خطاب 1990-3-1امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دس سالہ دورایک انقلابی معاشرے کا نمونہامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کایہ دس سالہ دور ایک انقلابی معاشرے کا بہترین نمونہ ہے ۔ امام خمینی کی حیات مبارک کے آخری دس سال ہمارے انقلابی معاشرے کے لئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے اورانقلاب کا اصلی راستہ وہي ہے جو امام خمینی نے ہمیں دکھایا۔ خام خیالی میں مبتلا ہمارےاندھے دشمن یہ سمجھ رہے تھے کہ امام خمینی کی رحلت کے بعد وہ انقلابی راستہ بھی معاشرے سے رخصت ہو جائے گا جس کے بانی امام خمینی تھے۔ امام خمینی ہمیشہ زندہ رہنےوالی حقیقت کانام ہے ۔ ان کا نام اس انقلاب کاپرچم، اور ان کی راہ اس انقلاب کی راہ ، اور ان کے اہداف اس انقلاب کے اہداف ہيں۔ امام خمینی کی امت اور ان کے شاگرد جو اس ملکوتی وجود کے سرچشمہ سے سیراب ہوئے ہیں اورجنھوں نے اپنا اسلامی عز و شرف اسی ذات سے حاصل کیا ہے اس وقت اس بات کامشاہدہ کررہے ہيں کہ دوسری مسلمان اور غیر مسلم قوميں بھی اس عظيم قائد و رہنما کی انقلابی تعلیم کے نسخے کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ رہی ہیں اور انھوں نے اپنی آزادی و سربلندی اسی راہ میں پائی ہے۔ آج اس دور کی اس بے مثال تحریک کی برکت سے پوری دنیاکے مسلمان بیدار ہو چکے ہيں اور ظالمانہ تسلط کے شاہی محل کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔ قوموں نے قومی تحریک کی اہمیت کو درک کرلیاہے اور انھوں نے شمشیر پر خون کے غلبے کا تجربہ کرلیاہے دنیا والوں کی نظریں ایران کی شجاع قوم پو ٹکی ہوئي ہیں۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پہلی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام کا اقتباس 1990-5-31اسلامی جمھوریہ کی تشکیل کے بنیادی عناصر اسلامی جمھوری نظام کی تشکیل کا ایک بنیادی عنصر اسلام پسندی اور مستحکم اسلامی اور قرآنی بنیادوں پر تکیہ ہے- امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام پرتکیہ کیا اور اسلام کے نام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بات پر ان کا اصرارتھا کہ ملک کے تمام سرکاری محکموں اورسماج کے اندر اسلامی قوانین اوراصولوں کو حقیقی معنای میں نافذ کیا جائے البتہ یہ ایک طویل المیعاد کام تھا۔ امام بھی اس کو جانتے تھے کہ مختصر سے عرصے میں یہ مقصود حاصل نہيں کیا جاسکتا ، امام نے راستہ کھلا رکھا اوراپنی تحریک شروع کردی اور سمت کی بھی نشاندہی فرمادی اور سب یہ سمجھ گئے کہ تمام معنی میں اسلامی تعلیم اور اسلامی احکامات کی جانب ہی رخ کرنا ہے اور معاشرے و نظام کو اسلامی معاشرہ اورنظام بناناہے تاکہ انصاف قائم کیا جاسکے غربت کا خاتمہ ہو بدعنوانیوں کوجڑسے اکھاڑ پھینکا جائے اور قوم کوجو مسائل اور مشکلات در پیش ہیں ان کا ازالہ ہو۔دوسراعنصر جس پر امام خمینی بہت زیادہ توجہ فرماتے تھے وہ عوامی عنصرتھا - امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے عوامی نظام پر یقین رکھتے تھے جو صحیح معنوں میں اسلامی ہو اورجس کا بنیادی عنصر عوام ہوں۔ وہ عوام کو تمام موقعوں اور مرحلوں پر خاص توجہ کا مرکزقراردیتے تھے پہلاموقع نظام کی تشکیل کا تھا اس موقعے پر آپ نے فرمایا کہ نظام ایسا ہونا چاہئے جسے عوام پسند کرتے ہوں اور جس سے وہ راضی ہوں۔ دوسرا مرحلہ عوام کے سلسلے میں حکام کی ذمہ داریوں کا تھا - تیسرا مرحلہ ملک کی ترقی وپیشرفت میں عوام کے افکارونظریات اور تعاون سے استفادے کا تھا یعنی یعنی عوام کی صلاحیتوں کا نکھارا جائے اور پھر اس سے استفادہ کیا جائے۔ اسی طرح عوا م کوہمیشہ تمام امور سے آگاہ اور باخبر رکھا جائے -تیسراعنصر جوامام کے لئے خاص اہمیت رکھتا تھا وہ نظم ونسق کا عنصر تھا یہی وجہ تھی کہ انقلاب کی کا میابی سے قبل ہی امام نے حکومت کا تعین کردیاتھا -چوتھا بنیادی عنصرجسے امام نے اسلامی جمھوری نظام کی بنیاد قراردیا اوربحمد اللہ جس کی وجہ سے یہ نظام باقی ہے وہ دشمن کے مقابلے میں استقامت اورتسلط کوقبول نہ کرناہے۔ امام نے ایک لمحے کے لئے بھی دشمن کے مکروحیلے سے خود کوغافل نہیں رکھا اورنہ حکام کو غافل ہونے دیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مرقدکے زائرین سے خطاب سے اقتباس 2001-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا بے مثال فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ اور ہنر قوم کی مدد سے اپنی تحریک کے ذریعے اس سیاسی نظام کاخاتمہ کرنا تھا جو ایک بے ضمیر اور پٹھو شاہی نظام تھا وہ ایک ایسا نظام تھا جس کے حکام اورعہدیداروں کو نہ تو قوم کے جوانوں کے مستقبل کی کوئي فکر تھی نہ ہی ملک کی خود مختاری سے کوئي دلچسپی۔ رفاہ عامہ کے امور تو ان کے نزدیک درخور اعتنا ہی نہیں تھے۔ ملک کا نظم و نسق ایسا تھا کہ اسے نظم و نسق کا نام دینا مناسب نہیں جبکہ یہ وہ نظم و نسق تھا جس کی تھئوری دوسرے ملکوں سے درآمد کی گئي تھی یہ ایک خالص ڈکٹیٹرشپ اورآمرانہ نظام تھا ۔ ایسا نظام جومختلف عناوین اورگوناگوں روشوں سے کہ جن میں سے کوئی بھی روش عوا م کے عزم وارادے کی آئینہ دارنہ تھی اورکوئی بھی روش ملک کے مفاد میں بھی نہ تھی ،چلایاجارہاتھا ۔ انقلاب سے قبل اس وابستہ اور پٹھو نظام میں جوبالکل ناکارہ تھا عوام برائیوں اور بے راہ روی میں گھرے ہوئے تھے یا دوسرے لفظوں میں اور بہترانداز میں کہا جائے کہ عوام کواخلاقی برائیوں بے راہ روی اورخود فریبی وبے ایمانی کی ترغیب دلائی جاتی تھی ۔ یعنی عوام کواس راستے پر لگایا جاتا تھا کہ روز بروز ملک میں بے ایمانی بدعنوانی اوربرائی کا دور دورہ رہے اورلوگ حقیقی ایمان سے بے بہرہ ہو کر رہ جائیں اوربے راہ روی واخلاقی برائیوں میں گھرتے چلے جائیں اغیارکے مقابلے میں احساس کمتری میں اضافہ ہوتا جائے، ملک میں ثقافتی اوراقتصادی خود مختاری کا کوئي مفہوم ہی نہ رہ جائے ۔ اس فاسد و ناکارہ نظام کی بنیادی تصویر یہی تھی - اس صورت حال میں امام خمینی (رہ)کا عظیم کارنامہ یہ تھاکہ اس فاسد نظام کی جگہ ایک ایسا سیاسی نظام قائم کیا جس میں عوام سے تغافل کے بجائے ان سے محبت اورعشق کیاجانے لگا۔ قوم کی تقدیر سے لاپروائی کے بجائے ان کی تقدیرو مستقبل پرسب سے زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ عوام اورجوانوں کے مستقبل کو نصب العین قرار دیا گیا۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں عوام کے اندر احساس کمتری کے بجائے خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوا۔ سیاسی، سماج، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں غیروں کی تقلید کرنے کے بجائے خلاقیت اور مقامی تعمیری صلاحیتوں کا مظاہر کیا گیا ۔امام خمینی کے مرقد پر زائرین کے پرشکوہ اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کا خطاب 1997-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگردامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مکتب قرآن کے شاگرد تھے اس عظیم انسان نے انقلاب کا خاکہ کھینچنے اوراس انقلاب کی بنیادپر ایک نئے سیاسی نظام یعنی اسلامی جمھوریہ کی تشکیل میں پرودگار عالم کے فضل و کرم اور ہدایت الہی سے ایسی روش کا انتخاب کیا کہ جو پیغمبروں اورسرچشمہ غیب سے متصل بندگان خدا کی روش تھی ۔ یہ اس لئے ہے کہ امام قرآن سے خاص انس رکھتے تھے اور مکتب قرآن کے قابل فخر شاگرد تھے جب بھی کوئي موقع آیا آپ نے قرآن سے مدد لی۔ آپ قرآن کو اپنا ضابطہ حیات سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں دوسری اہم بات جسے میں آج آپ لوگوں کی خدمت میں عرض کرناچاہتاہوں اورمختصرا عرض کروں گا وہ یہ ہے کہ اس طرح کی عظيم تحریک عام طورپر رجعت پسندی یا پسپائی جیسے مسائل سے دوچارہوجاتی ہیں۔ اس طرح کے عظيم کارناموں کے سامنے رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں۔ رجعت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ کوئي شخص اسلام کےاصولوں اورفقہ اسلامی کے تناظر میں معاشرے کی تشکیل کرے لیکن وہ ظواہر پر ہی اکتفا کرلے اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی چاشنی اور معنوی کشش سے نا بلد رہے اور اس کا تشکیل کردہ نظام کسی قوم کسی ملک کے مسائل کے حل پر قادر نہ ہو۔ دیکھئے اسلامی تعلیمات کی ہر انسان کو ہر آن ضرورت رہتی ہے اب اگر اسلامی نظام کو تشکیل دینے والا شخص ان اصولوں، احکام اور تعلیمات سے بے خبر ہے تو یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اگرایک ایسے سیاسی نظام کے سربراہوں کی حالت جواپنے نظام کواسلامی بنیادوں پر استوارکرنے کے دعوے کرتے ہیں ایسی ہوگي تویقینی طور پر اسلام بدنام ہوجائے گا اور اسلامی احکام و معارف کا لازوال سرچشمہ معاشرے کو سیراب نہیں کر سکے گا ۔ امام نےخود کواس آفت سے مبراکرلیاتھا ۔دوسری آفت وبلا جواس طرح کے مواقع پر حکام اورعہدیداروں کو خطرات سے دوچارکرتی ہے وہ موقف سے پسپائی ہے یہ ایک خطرہ ہے یہ ایک بڑاخطرہ ہے جو صاحبان فکر و نظر کو لاحق رہتا ہے۔ امام خمینی(رہ) اس آفت کے مقابلے میں پہاڑ کی مانند ڈٹے رہے اورکوہسارکی مانند ثابت قدم رہے (کالجبل لاتحرکہ العواصف ) امام اس نظام کی تشکیل اور چھوٹے بڑے تمام امور میں ہمیشہ ثابت قدم رہے۔امام خمینی کی برسی میں شریک زائرین سے رہبرانقلاب اسلامی خطاب 1997-6-4محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کے سپاہی محروم اور مظلوم عوام اسلامی انقلاب کا لشکر ہیں اور یہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک کا شاخصانہ تھا۔ دو چیزیں اس انقلاب کا گرانقدر سرمایہ تھیں اورہيں۔ ایک یہ ہے کہ انقلاب کا نصب العین اسلام اور دوسرے انقلاب کے سپاہی اوراس انقلاب کا لشکرمستضعف، ومحروم طبقہ اورجوان نسل ہے ۔ انقلاب کو مستضعف اورغریب طبقے نے کامیابی سے ہمکنارکیاہے اور آٹھ سالہ طویل جنگ کو اس مملکت کے جوانوں نے فتح مبیں میں تبدیل کر دیا اورآج بھی ہمارے جوان اللہ اوراس کے دین کی راہ میں قدم بڑھارہے ۔آج بھی اگر انقلاب کوکوئی خطرہ لاحق ہوگا توسب سے پہلے میدان میں جولوگ اتریں گے وہ ہمارے نوجوان ہوں گے ۔دینی تعلیمی مراکز کے نوجوان یونیورسٹیوں کے نوجوان پورے ملک کے نوجوان اورمختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے نوجوان اورافراد ہوں گے جواس انقلاب کی حفاظت کے لئے میدان میں قدم رکھیں گے ۔امام خمینی اپنے پورے وجود کےساتھ اسلام کے شیدائی تھے اور آج سب لوگ پورے وجود کےساتھ امام کوچاہتے ہيں۔ امام کی باتیں بہت ہی صاف وشفاف ہیں ان کے کلمات واضح کلمات ہيں ان کے کلمات قرآنی جھلک ہے ۔ امام کے خطابات اوران کی باتیں آج بھی فضا میں گونج رہی ہیں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وصیت نامہ اپنے امام کے ساتھ امت کا دائمی میثاق ہے۔ سب کوچاہئے کہ ان کی ان باتوں کوصحیح طریقے سے درک کریں اوران میں غور و فکر کریں تاکہ امام کی راہ کو صحیح طور پر پہچان سکیں اوراس میں کوئي غلطی نہ کریں ۔جولوگ امام سے محبت کادم بھرتے ہيں لیکن امام کے افکار ان کی راہ و تعلیمات سے دور ہیں ہو امام خمینی(رہ) کے شیدائي نہیں کہے جا سکتے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نويں برسی میں شریک سوگواروں کے عظیم الشان اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کےخطاب سے اقتباس 1998-6-4سماجی انصاف اورعوام پراعتماد میں چند اہم باتیں جنہیں ہم امام کی راہ و روش سے تعبیرکرتے ہيں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کچھ باتیں ہمیشہ امام کے پیش نظر رہتی تھیں، ان میں پہلے مرحلے میں تو اسلام ہے۔ امام اسلام سے بڑھ کرکسی بھی چیزکواہمیت نہيں دیتے تھے ۔ امام کی تحریک اورانقلاب اسی اسلام کی حاکمیت کے لئے ہی تھا اورعوام نے بھی کہ جنھوں نے اس نظام کوقبول کیا انقلاب برپا کیا اورامام کو( رہبر ) تسلیم کیاتھا وہ سب اسلامی جذبے کے تحت تھا - سب سےپہلی چیزجوامام کی نظرمیں اوران کے مشن میں سب سے اہم تھی وہ اسلام کے احکامات پر عمل آوری اورایمان وعمل کے میدان میں اسلام کی حاکمیت تھی ۔دوسری بات عوام پر تکیہ اوراعتماد ہے ۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ۔ کسی کو بھی اسلامی نظام میں عوام ،عوام کی رائے اورعوام کی خواہشات کونظراندازنہیں کرناچاہئے ۔ کچھ لوگ اب عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد قراردیتے ہيں کم ازکم عوام کی رائے کوقانون اورجوازکی بنیاد تومانتے ہيں ۔عوام کی رائے کے بغیر،عوام کی مشارکت کے بغیر اورعوامی خواہشات کا احترام کئے بغیر اسلامی نظام کا خیمہ اوراس کا ستون ٹھہرنہیں سکے گا اوراس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوسکے گی ۔ البتہ عوام ، مسلمان ہيں اورعوام کا یہ ارادہ اوران کی خواہشات بھی اسلامی احکامات وقوانین کے دائرے میں ہی ہیں۔ امام کے مشن کی تیسری خصوصیت سماجی انصاف کاقیام اورمحروم ومستضعف افراد کی مدد کرناہے کہ امام انہی لوگوں کواس انقلاب کا وارث اوراس ملک کا مالک سمجھتے تھے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ غریب طبقے کواس انقلاب کی کامیابی کا سب سے اہم عنصر سمجھتے تھے - ایک اورعنصر دشمن کوپہچاننا اوردشمن کے فریب میں نہ آناہے دشمن کا پہلاکام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرتاہے کہ کوئی بھی دشمن نہيں ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اسلامی نظام کاکوئی دشمن نہیں ہے ؟ اس اسلامی نظام نےعالمی لٹیروں کوجوسالہاسال اس ملک کی دولت کولوٹتے رہے اس سنہری موقع سے محروم کردیاہے۔ ظاہرہے کہ وہ دشمن تو ہوں گے ہی ۔ اورہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ وہ ہم سے دشمنی کررہے ہيں ۔ پروپیگنڈوں میں ، اقتصادی پابندیوں میں اورجہاں جہاں بھی ان سے ممکن ہوتاہے ہمارے نظام کے خلاف دشمنی کرتےہيں اوریہ بات وہ کھل کرکہتےبھی ہیں ۔نمازجمعہ کے خطبہ سے اقتباس 1999-6-4تمام اصولوں کا محور اسلام اورعوام ہيں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کے تمام اصول وقواعد کامحور دو چیزیں تھیں ۔ایک اسلام اوردوسرے عوام ۔ عوام پراعتماد کانظریہ بھی امام نے اسلام سے حاصل کیا ۔ یہ اسلام ہے جو قوموں کے حقوق ، ان کی آراء ، اور عوامی جہاد کے اثر اور اس کی اہمیت پر تاکید کرتاہے۔ اسی لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مشن کا محوراسلام اورعوام کوقراردیاتھا ۔ یعنی اسلام کی عظمت عوام کی عظمت ، اسلام کااقتدارعوام کااقتدار، اسلام کا ناقابل تسخیررہناعوام کا ناقابل تسخیررہناہے ۔اسلامی جمھوریہ ایران کے بانی کی چوتھی برسی کے موقع پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2003-6-4امام کے سیاسی مکتب فکر کی شناخت میں امام کے سیاسی مکتب فکر پر تکیہ کرناچاہتاہوں ۔امام کا سیاسی مکتب فکر ان کی پرکشش شخصیت سے جدانہیں ہوسکتا ۔امام کی کامیابی کارازاس مکتب فکر میں پنہاں ہے جسے انھوں نے متعارف کرایاہے اورجسے انھوں نےایک نظام کی شکل میں دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ البتہ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوا اورایرانی عوام نے اپنی بے پناہ توانائیوں اورصلاحیتوں کا مظاہرہ کیا لیکن امت امام کے بغیر اوران کے سیاسی مکتب فکر کے بغیر اس عظیم کام کوانجام دینے پر قادرنہیں تھی ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ایک ایسا باب وا کرتا ہے کہ جس کا دائرہ اسلامی نظام کی تشکیل سے بھی کافی وسیع ہے ۔ وہ سیاسی مکتب فکر کہ جسے امام نے پیش کیا اورجس کے لئے جدوجہد کی اس میں دنیاوالوں کے لئے ایک نئی بات ہے اوراس کے ذریعہ انھوں نے دنیاوالوں کے سامنے ایک نئی بات رکھی اور نئي راہوں کی نشاندہی کی۔ اس مکتب فکر میں ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں کہ انسانیت جسے حاصل کرنے کے لئے بے قرار ہے اسی لئے یہ باتیں کبھی بھی پرانی نہيں ہوں گی ۔ جو لوگ کوشش کررہے ہيں کہ امام کوایک ایسی شخصیت کے طور پرپیش کریں جوتاریخ کاحصہ بن چکی ہو اورجو ماضي کی بات بن چکی ہے وہ اپنی اس کوشش میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوپائیں گے ۔امام اپنے سیاسی مکتب فکر کی شکل میں زندہ ہيں اورجب تک یہ سیاسی مکتب فکر زندہ ہے اس وقت تک امام کا وجود، امت اسلامیہ کے درمیان بلکہ بشریت کے درمیان باعث برکت اورجاوداں رہے گا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا سیاسی مکتب فکر بہت سی غیرمعمولی خصوصیات کا حامل ہے ۔میں یہاں پر ان میں سے چند کی جانب اشارہ کرناچاہوں گا ۔ان میں سے ایک خصوصیات یہ ہے کہ امام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت اورسیاست باہم آمیختہ ہيں اورامام کے سیاسی مکتب فکر میں معنویت سیاست سے جدانہیں ہے ، سیاست وعرفان سیاست واخلاق ۔ امام جواپنے سیاسی مکتب فکر کے مجسم نمونہ تھے ان کے اندرسیاست اورمعنویت ایک ساتھ جمع تھی امام کے تمام اعمال وافعال اوران کے تمام اصول خدا اور معنویت کے محورکے گرد گھومتے تھے ۔امام کے اندرسیاست اورمعنویت باہم تھی اور آپ اسی پرعمل کرتے تھے حتی اپنی سیاسی جدوجہد میں بھی وہ اپنامحورمعنویت کوہی قراردیتے تھے ۔ امام کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالی نے دنیا کی احسن تقویم کے معیار پر تخلیق فرمائی ہے اور وہ اس دنیا کو چلانے والا اور اس کا مالک ہے ۔ آپ کا کہنا تھا کہ جو اللہ کی شریعت کی ترویج کے راستے میں قدم بڑھاتاہے الہی سنت اورقوانین الہی اس کی مددکرتے ہيں ۔امام کا یہ یقین تھا کہ (وللہ جنودالسماوات والارض وکان اللہ عزیزاحکیما) امام قوانین شریعت کوہی اپنے اقدام وتحریک کی بنیاد سمجھتے تھے اورقوانین الہی کوہی اپنی تحریک کی علامت سمجھتے تھے ۔امام کا ہر اقدام اور تحریک ملک وقوم کی فلاح وسعادت کے لئے تھے جو اسلامی اورشرعی تعلیمات کی بنیادپرشروع کئے گئے۔ اسی لئے الہی فریضہ ہی امام کی نظرمیں سعادت وبھلائی کی کنجی تھی۔ یہی چیزامام کوبڑے بڑے اہداف تک پہنچانے میں مدد دیتی تھی ۔دوسری خصوصیات عوام کے کردارپر پختہ اورسچایقین ۔ اوراسی طرح انسان کی شرافت اورانسان کے ارادے کے فیصلہ کن ہونے کے بارے میں یقین بھی امام کے مکتب فکر کی ایک اہم خصوصیات ہیں۔ امام کے سیاسی مکتب فکر میں انسانی تشخص گرانقدرہے اور انسان عزت و اکرام کے لائق ہے اوراسی طرح انسانی تشخص طاقتوربھی ہے اورکارسازبھی۔ انسانی تشخص کوگرانقدراورباشرف سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی معاشرے کا نظم ونسق چلانے میں عوام کی آراء بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہیں ۔ ہمارے عظیم امام کے سیاسی مکتب فکر میں عوام کی رائے کا احترام یا جمھوریت، اسلامی تعلیمات سے اخذ کی گئی تھی اوریہی حقیقی جمھوریت ہے ، امریکی یا وہ جمھوریت نہيں ہے جس میں عوام کونعروں کے ذریعے محض فریب دیاجاتاہے اورلوگوں کےذہنوں کواغواکیاجاتاہے ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی تیسری خصوصیت ، اس مکتب فکر کا عالمی اوربین الاقوامی زاویہ نگاہ ہے۔ امام کےکلام میں مخاطب انسانیت ہے نہ فقط ملت ایران ۔ ایران کی قوم نے امام کے اس پیغام کودل کی گہرائیوں سے سنا، قبول کیا اوراس پرعمل کیا اس کے لئے جدوجہدکی اور وہ اسی کے سایہ میں عزت وخودمختاری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ پیام تمام بشریت کے لئے ہے ۔ امام کا سیاسی مکتب فکر ، پوری امت اسلامیہ اورپوری انسانیت کے لئے فلاح و بہبود اور عزت و خود مختاری کا ضامن ہے، یہ ایک مسلمان انسان کے لئے بہت بڑا تحفہ ہے اور ساتھ ہی اس کے کاندھے پر بڑی ذمہ داری بھی ، البتہ امام میں اوران لوگوں میں جواپنے آپ ہی اپنے لئے عالمی ذمہ داری کے قائل ہیں یہ فرق ہے کہ امام کا سیاسی مکتب توپ ٹینک اسلحہ اورشکنجہ کے ذریعہ کسی قوم کواپنا پیرونہیں بناناچاہتا ۔ امریکی کہتےہيں کہ ہماری ذمہ داری عالمی سطح کی ہے اور ہم دنیامیں جمھوریت اورانسانی حقوق کا قیام و فروغ چاہتے ۔ کیا ڈیموکریسی کو پھیلانے کا طریقہ یہی ہے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم گرایاجائے؟ اسی طرح لاطینی امریکہ اورافریقہ میں حکومتوں کے خلاف بغاوت اورجنگ کی آگ بھڑکائی جائے؟ آج بھی مشرق وسطی میں فریب کاری، سازش اور ظلم و ستم کابازارگرم ہے۔ وہ اس طرح سے انسانی حقوق اوراپنی عالمی ذمہ داری کوپوراکرناچاہتے ہيں ۔جبکہ اسلام کاسیاسی مکتب فکر ذہن انسانی کو اعلی افکار و نظریات سے معمور اور نسیم بہاری کی مانند فضا کو معطر کر دیتا ہے۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے سیاسی مکتب فکر کی ایک اوراہم خصوصیت، اقدار کی پاسداری و حفاظت ہے کہ جسے امام نے ولایت فقیہ کے مسائل بیان کرتے وقت واضح کردیا ہے ۔ اسلامی انقلاب کے آغاز اور اسلامی انقلاب کی کامیابی واسلامی نظام کی تشکیل کے بعد سے ہی بہت زیادہ کوشش ہوئی کہ ولایت فقیہ کے مسئلہ کو گمراہ کن انداز میں اورحقیقت کے برخلاف پیش کیا جائے۔ اسلام کے سیاسی نظام سے مختلف اور امام کے سیاسی نظريئے کے بالکل منافی مطالبات اور توقعات جو آپ دشمن سے مرعوب عناصر کی زبانی سنتے ہیں یہ کوئی نئي بات نہیں ہے شروع سے ہی یہ لوگ دوسروں کے کہنےمیں آکر اس طرح کی باتیں کرتے آئے ہیں ۔امام کے سیاسی مکتب فکر کی پہچان کے عنوان سے آخری بات جو میں یہاں بیان کرناچاہتاہوں وہ سماجی انصاف ہے۔ سماجی انصاف امام کے سیاسی مکتب فکر کا ایک بہت ہی اہم عنصر اورخصوصیت ہے ۔ حکومت کے تمام پروگراموں، قانون سازی اوراس پر عمل درامد، عدالتی امورغرضیکہ ہرجگہ آپ نے سماجی انصاف و مساوات کومد نظر رکھا اورآپ اس سلسلے میں سماجی اورطبقاتی شگاف کوپر کرنے پر بہت زیادہ تاکید فرماتے تھے۔ امام کے سیاسی مکتب فکر کا یہ خاصہ تھا .امام خمینی (رہ) کی رحلت کی پندرہويں برسی پر رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 2004-6-4ایرانی عوام کی فلاح وسعادت کی راہ ہماری راہ ہے جیسا کہ اس عظیم مردمجاہد نے ہمیں بتایاہے یہ راستہ استقامت اوراسلامی نظام کے اہداف کے حصول کاراستہ ہے ۔ امام کے دروس اور ان کی وصیت کے مطابق قوم کاراستہ یہی ہے ۔ پورے ایران میں ہمارے بھائي بہنیں توجہ دیں کہ ایرانی عوام کی سعادت کی راہ اسلامی و الہی احکام سے تمسک ہے۔ ایرانی قوم کی سعادت کا راستہ اپنے صلاحیتوں پر بھروسہ اوراپنی توانائیوں اوراستعداد پریقین ہے قوم کی فلاح کاراستہ عالمی تسلط پسندطاقتوں سے قطع امید کا راستہ ہے اورساتھ ہی ان سے بے خوفی کا درس دیتا ہے ۔ نہ تو ان سے ذرہ برابر خوف کھائيے اورنہ ہی ان سے ذرہ برابرامید رکھئے ۔ عزیزان گرامی ، اس اسلامی انقلاب نے جو سب سے بڑا ہدیہ قوم کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے بد عنوان پٹھو حکومتوں کے شر سے ملک و قوم کو نجات دلائی جو برسہا برس تک ظلم و ستم کے نشانے پر تھے اور اپنے قدرتی ذخائر کو غیروں کو ہاتھوں لٹتا دیکھ رہے تھے۔ آج خداوندعالم کے فضل وکرم سے ملک ( کا انتظام ) چلانے والے خود اسی ملک کے لوگ ہيں آج ہماری قوم کی ہمت و شجاعت اور فہم و فراست سے ملک میں عوام کی منتخب کردہ حکومت بہترین شکل میں ملک کا نظم نسق چلا رہی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کی پانچویں برسی ميں رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1994-6-4ایرانی عوام کے کارناموں کے عظیم ثمرات اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ عزت وشرف کی راہ کو جاری رکھے تو کامیابی اس کا مقدر ہوگی جیسا کہ بحمداللہ ان چند برسوں میں اسلامی جمھوری نظام کے پرتو میں خدمت گزار حکام کی کوششوں سے مختلف میدانوں میں پیش رفت ہو رہی ہے اورترقی وپیشرفت کےثمرات دیکھے جارہے ہيں ۔ اگرایرانی قوم چاہتی ہے کہ یہ ترقی وپیشرفت اسی طرح سے جاری رہے اور قوم رفاہ وآسائش میں زندگی گزارے اورکسی بلند مقام پر پہنچے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں اور استکباری طاقتوں کے مقابلے میں استقامت اور پائمردی دکھاتی رہے۔ ایرانی عوام نے گزشتہ چند برسوں میں بڑے بڑے کارنامے انجام دئے ہيں اوراس کے ثمرات بھی حاصل کئے ہيں اسی لئے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان ثمرات کاتحفظ کرے۔ ایرانی قوم اوربالخصوص حکام کوچاہئے اوران کی ذمہ داری ہے کہ اپنی تدبیر، دانشمندی، اور فہم و فراست سے ایرانی عوام کے ان گرانقدرثمرات کو ضائع ہونے سے بچائے خواہ وہ کامیابیاں جو براہ راست انقلاب کے ذریعہ قوم کو ملی ہیں، جیسے عوامی حکومت، عوامی صدر، عوامی نمائندے وغیرہ یا وہ ثمرات جوانقلاب سے متعلق ہيں مگربالواسطہ طورپراس قوم کو دئے گئے ہيں جیسے ملک کی تعمیر و ترقی کہ یہ سب انقلاب کی برکت کانتیجہ ہے اورانقلابی عناصر نے ان کارناموں کو انجام دیا ہے اور جو سارے بنیادی کام مختلف شعبوں اورمیدانوں میں انجام پائے ہيں اس طرح کے ثمرات کو ایرانی عوام اورحکام کو چاہئے کہ محفوظ رکھیں اور دل وجان سے ان کی حفاظت کریں، یہ بات ظاہر ہے کہ ان ثمرات کی حفاظت اور مزید ثمرات اورکامیابیوں کے حصول کاراستہ یہ ہے کہ ملت ایران اور ایران کے حکام اس راہ کو جس کی نشاندہی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عمل کے ذریعہ کی ہے یعنی دشمنوں کے مقابلے میں استقامت اورپائمردی کا راستہ اور ملک کے باہر جو لوگ دریدہ دہنی کررہے ہيں ان کی دریدہ دہنی کے مقابلے میں ثابت قدمی کا راستہ، اس سے کبھی بھی منحرف نہ ہوں۔ یہ جو بار بار کہا جا رہا ہے کہ (امام کی راہ) سےکیامراد ہے ؟ اگرہم کہیں کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب ہے تو یہ ایک کلی بات ہے یہ بات تو ا ظہرمن الشمس ہے کہ امام کا راستہ اسلام وانقلاب کا ہے اورکوئی بھی شخص اسلام وانقلاب کامخالف نہیں ہے ۔وہ عامل جو امام بزرگوار کے مقصود کو جو انقلاب کے معمار اور بانی ہيں صحیح طور پر پیش کرتا ہے استقامت ہے جسے انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا تھا اورجس کا انھوں نے مظاہرہ کیاتھا وہ دشمن کے مقابلے میں سرموبھی پیچھے نہيں ہٹے، دشمن سے ذرابھی نہيں ڈرے اور دشمنوں کی دھمکیاں ان کے ارادوں میں معمولی سا بھی خلل ایجاد نہ کرسکیں ۔امام خمینی (رہ) کے مرقد مطہرپر زائرین کے اجتماع سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1996-6-4امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتب فکر اور انقلاب کے ثمرات و برکات آپ وہ روح اللہ تھے کہ جنھوں نے موسوی عصا اور یدبیضاء اورمصطفوی بیان وفرقان سے مظلوموں کی نجات کی راہ ہموار کی، انھوں نے وقت کے فرعونوں کے تخت وتاج کولرزہ براندام کردیا اورکمزوروں کے دلوں کو نورامید سے روشن ومنور فرمایا، انھوں نے لوگوں کو وقار اور مومنوں کو عز و شرف عطا کیا اور مسلمانوں کو قوت و شوکت اور مادی وبے روح دنیا کو روحانیت و معنویت عطا کی اور عالم اسلام کو بیداری اور مجاہدین فی سبیل اللہ کو شجاعت ودلیری اور درس شہادت دیا۔ انھوں نے طاغوتی بتوں کو پاش پاش کردیا اور شرک آلود اعتقادات کو کاری ضرب لگائي، آپ نے پوری دنیا کو یہ سمجھا دیا کہ انسان کامل ہونا حضرت علی کے نقش قدم پر چلنا اور عصمت کی سرحدوں کے قریب تک پہنچ جانا کوئی افسانہ نہیں ہے۔ انھوں نے قوموں کو بھی یہ باور کرا دیا کہ خود اعتمادی کے ساتھ تسلط پسندوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا ممکن ہے ۔ قرب حق کی چمک صاحبان بصیرت نے ان کے چہرہ منور پر دیکھی ہے اور ان کی حیات و ممات کے دوران ان پر نازل ہونے والی الہی نعمات و برکات سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی دعائیں مستجاب ہوتی تھیں آپ کہتے تھے ( الہی لم یزل برّک علیّ ایام حیاتی ، فلاتقطع برّک عنی فی مماتی ) ۔امام خمینی کے چہلم کی مناسبت سے عوام کے نام پیغام2007-7-14 امام خمینی (رہ) کے دس عظیم کارنامے امام خمینی (رہ) کاپہلاعظیم کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اسلام کو حیات نو عطا کی۔ گزشتہ دوسو برسوں سے سامراجی مشینریوں نے یہ کوشش کی کہ اسلام کوفراموش کردیاجائے۔ برطانیہ کے ایک وزیر اعظم نے دنیاکے سامراجی سیاستدانوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا کہ ہمیں چاہئے کہ اسلام کو اسلامی ملکوں میں گوشہ نشین کردیں۔ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد اس کام کے لئے بےپناہ پیسے خرچ کئے گئے تاکہ اسلام پہلے مرحلے میں لوگوں کی زندگی سے ختم ہوجائے اوردوسرے مرحلے میں لوگوں کے دل و دماغ و ذہن سے نکل جائے کیونکہ سامراجی طاقتوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ دین بڑی طاقتوں کی لوٹ کھسوٹ اور اسی طرح سامراجی طاقتوں کے تسلط پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے امام نے اسلام کودوبارہ زندہ کیا اسلام کوانھوں نے لوگوں کے ذہنوں اورعمل میں اوراسی طرح دنیاکے سیاسی میدان میں اتارا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا بڑا کارنامہ مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنا تھا امام خمینی کی تحریک کے نتیجے میں پوری دنیاکے مسلمانوں نے عزت وسربلندی کااحساس کیا اور اسلام محدود بحثوں سے نکل کر باقاعدہ سماجی اور سیاسی میدان میں وارد ہوا۔ ایک بڑے ملک کے ایک مسلمان شخص نے، جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں مجھ سے کہاکہ اسلامی انقلاب سے پہلے میں خود کو کبھی بھی دوسروں کے سامنے مسلمان ظاہر نہيں کرتا تھا ۔ اس ملک کے رسم و رواج کے مطابق سبھی لوگ وہاں کے مقامی نام رکھتے ۔ اگرچہ گھرکے اندرمسلمان اپنے بچوں کے نام اسلامی رکھتے لیکن گھرکے باہر وہاں کا مقامی نام پکاراجاتا اور اسلامی نام کوگھرکے باہرظاہرکرنے کی جرات نہ ہوتی تھی اوراس کو بتانے سے گریز کیا جاتا تھا ہم خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے احساس شرمندگی کرتے ، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے یہاں کے لوگ بڑے فخر کے ساتھ اپنا اسلامی نام ظاہر کرتے ہيں اور اگر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کون ہیں تو فخر کے ساتھ پہلے اسلامی نام بتاتے ہیں۔ بنابريں امام نے جوبڑاکارنامہ انجام دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کو پوری دنیا میں عزت کا احساس ہونے لگا اوروہ اپنے مسلمان ہونے اور اسلامی کی پیروی کرنے پر فخر کرنے لگے۔امام خمینی کاتیسرا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے مسلمانوں میں امت واحدہ کے جز ہونے کا احساس دلایا۔ اس سے قبل مسلمان جہاں بھی تھا اس کے لئے امت اسلامیہ کی کوئي اہمیت نہیں تھی آج تمام مسلمان پورے ایشیاء میں پورے افریقہ میں ، مشرق وسطی سے لے کریورپ تک اوریورپ سے لے کرامریکہ ولاطینی امریکہ تک اس بات کا احساس کررہے ہيں کہ وہ امت اسلامیہ کے نام کے ایک بڑے عالمی معاشرے کا حصہ ہيں ۔ امام خمینی نے امت اسلامیہ کےتئیں شعور کا احساس جگایا جو عالمی استکبار کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے دفاع کے لئے سب سے بڑا وسیلہ ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا چوتھا بڑاکارنامہ ، علاقے اوردنیاکی ایک بد عنوان ترین حکومت کاخاتمہ تھا یعنی ایران میں شاہی حکومت کاخاتمہ۔ شاہی حکومت کا خاتمہ ان چند بڑے کاموں میں سے ایک ہے جو بالکل سامنے ہیں۔ ایران علاقے اورمشرق وسطی میں استکبار کا سب سے بڑا اورمضبوط قلعہ بن چکا تھا یہ مضبوط قلعہ ہمارے امام کے دست توانا سے ڈھہ گیا ۔امام خمینی(رہ )کاپانچواں بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ایک اسلامی حکومت قائم کی یہ وہ چیز ہے جو غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کے ذہن میں بھی نہيں سماتی تھی اوریہ ایک خوش نماخواب تھا جس کی تعبیر کے بارے میں سادہ لوح مسلمان تصور بھی نہیں کرسکتے ۔ امام نے معجزاتی طورپر اس افسانہ کوحقیقت کا لبادہ پہنایا ۔امام کاچھٹا اہم کام، پوری دنیا میں اسلامی تحریک کا قیام تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل بہت سے ملکوں منجملہ اسلامی ملکوں میں مختلف گروہ، جوان، ناراض عناصر، حریت پسند اور ديگر گروہ بائيں محاذ کی آئیڈیالوجی کے سہارے میدان عمل میں اترتے تھے، لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تحریکوں اورحریت پسندانہ قیام کی بنیاد اسلام بن گیا آج عالم اسلام کے وسیع وعريض علاقے میں جہاں کہیں بھی کوئی گروہ حریت پسند تحریک چلاتا ہے اور استکبار کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کا مبنا اسلام ہی ہوتا ہے اور وہ اسلامی اصولوں کوہی اپنے کام کی بنیاد بناتا ہے اور اس کی فکر اسلامی فکر ہوتی ہے ۔امام کاساتواں اہم کام، فقہ شیعہ ميں ایک جدید سوچ کو رائج کرنا اور شیعہ فقہ میں نیا نظریہ پیش کرنا تھا۔ ہماری فقہ کی بنیاد بہت ہی محکم تھی اورآج بھی ہے فقہ شیعہ ایک محکم ترین فقہ اوربہت ہی مستحکم اصول وقواعد پر استوارہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مستحکم فقہ کو مزید وسیع دائرے ميں اورایک نئے اندازمیں جو آفاقی اورحکومتی ہے پیش کیا اورفقہ کے متعدد پہلوؤں کوہمارے سامنے واضح و عیاں کیا جو اس سے پہلے عیاں نہیں تھے ۔امام کا آٹھواں اہم کام ایسےغلط عقائد کو باطل قرار دینا جو انفرادی امور میں رائج تھے ۔ دنیا میں یہ بات مسلمہ ہے کہ جو لوگ سماج کے اعلی منصب پر فائز ہوتے ہيں ان کا مخصوص طور طریقہ ہوتاہے۔ کچھ غرور وتکبر بھی ہوتا ہے عیش و عشرت کی زندگي ہوتی ہے اور اسی طرح ان کا اپناخاص ٹھاٹھ باٹ ہوتاہے اور ان کا اپنا خاص انداز ہوتا ہے۔ اس دورمیں اعلی حکام کے لئے پروٹوکول ہوتاہے اور وہ اپنے لئے اس کو اپنی سرکاری زندگی کا لازمہ سمجھتے ہیں اوریہ سب ایسی باتیں ہیں جن کو دنیا نے آج تسلیم بھی کر لیا ہے کہ جو لوگ اعلی منصب پر فائز ہيں ان کا گویا یہ سب حق ہوتا ہے حتی ان ملکوں میں جہاں انقلاب آیا ہے وہاں کے انقلابی رہنما بھی جو کل تک خیموں اور قناتوں میں زندگی گزارتے تھے اور قید خانوں اورمخفی گاہوں میں روپوش رہتے تھے وہ جیسے ہی حکومت میں آتے ہيں ان کا رہن سہن تبدیل ہو جاتا ہے اور ان کے حکومتی انداز بدل جاتے ہیں اوروہی سب کچھ انداز ان کا بھی ہو جاتا ہے جو ان سے پہلے کے حکمرانوں کا تھا اور جس طرح سے دنیا کے دیگر سلاطین اور بادشاہوں کا ہوا کرتا ہے۔ ہم نے تو قریب سے یہ ساری چیزیں دیکھي ہيں ہمارے عوام کے لئے بھی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور تعجب کی بات بھی نہيں ہے ۔ امام نے اس طرح کے نظریات وعقائد کوغلط قرار دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ کسی قوم اور مسلمانوں کے محبوب قائد زاہدانہ زندگی کے مالک ہو سکتے ہيں اور سادہ زندگی گزار سکتے ہيں عالیشان محلوں کےبجائے ایک امام بارگاہ میں اپنے ملنے والوں سے ملاقات کرسکتے ہيں انبیاء کی زبان و اخلاق و لباس میں لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اگر حکام اور حکومتی عہدیداروں کے دل نور معرفت وحقیقت سے روشن ہوتے ہيں تو ظاہری چمک دمک، ٹھاٹ باٹ ، اسراف، عیش وعشرت کی زندگی، خودنمائی، تکبر و غرور ، اکڑ اور اس جیسی ديگرتمام باتیں ان کی زمام داری کا جزء نہيں سمجھی جائيں گي ۔ امام خمینی کےمعجزات میں سے ایک یہ تھا کہ وہ اپنی ذاتی زندگي میں بھی اور جب آپ ملک اورقوم کے اعلی ترین رہبر تھے اس وقت بھی نور معرفت وحقیقت ان کے پورے وجود میں جلوہ نما تھا ۔امام کا نواں اہم کام ملت ایران کے اندر خود اعتمادی اور عزت نفس کا احیا تھا ۔ برادران گرامی ، فرد واحد کی مطلق العنان اور استبدادی حکومتوں نے سالہا سال ہماری قوم کو ایک کمزور قوم میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا وہ بھی ایک ایسی قوم جس کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں اور صدر اسلام کے بعد سے پوری تاریخ میں اس کا شاندار علمی اورسیاسی ماضی تھا۔ غیر ملکی طاقتوں نے کافی عرصے تک جن میں کبھی انگریزوں تو کبھی روسیوں نے اور اسی طرح یورپی حکومتوں نے اور پھر اس کے بعد امریکیوں نے ہماری قوم کی تحقیر کی ہمااری قوم کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کو انجام دینے کی صلاحیت اور استعداد نہیں رکھتی۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں وہ کچھ بھی کرنے کی توانائی نہیں رکھتی ، کچھ نیاکرنے اورخلاقیت کے لئے اس کے پاس صلاحیت نہیں ہے بلکہ دوسرے ہی آئیں اور ان کے لئے کام کریں ان پرحکومت کریں ان سے سخت لہجے میں باتیں کریں اور اس طرح ہماری قوم سے ان کا قومی وقار چھین لیا گيا تھا اور اس کی عزت نفس کا خون کر دیا گياتھا لیکن ہمارے امام نے ایران کے عوام میں قومی افتخار اور عزت نفس کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ ہماری قوم کے اندر فرقہ پرستی اور غرور تکبر نہیں ہے لیکن اس کے اندر عزت و طاقت کا احساس ضرور پایا جاتا ہے ۔ آج ہماری قوم مشرق و مغرب کی مشترکہ سازشوں اور اپنے خلاف کسی بھی طرح کی دھونس و دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتی اور کمزوری کا احساس نہیں کرتی۔ ہمارے جوان اس بات کا احساس کررہے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کی تعمیروترقی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لوگوں کو اب اپنی اس طاقت و توانائی کا احساس ہے کہ وہ مغرب و مشرق کی دھمکیوں اور خطرات کے مقابلے میں کھڑے ہو سکتے ہیں،عزت نفس کا یہ احساس اور یہ خود اعتمادی وحقیقی قومی افتخار امام خمینی نے قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہے۔ امام خمینی کادسواں بڑاکارنامہ، اس بات کوثابت کرناتھا مشرق اور مغرب کے بلاکوں سے فاصلہ بر قرار رکھنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔ دنیا والے یہ سمجھ رہے تھے کہ یا تو مشرقی بلا ک سے وابستہ ہونا پڑےگا یاپھر مغربی بلاک سے شامل ہونا پڑے گا۔ یا تو اس طاقت کی روٹی کھانی پڑے گی یاپھر ان کی چاپلوسی اورتعریف کرنی پڑے گی یاپھر اس طاقت کا گن گانا پڑے گا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا پڑے گی ۔ لوگ یہ نہیں سمجھ پا رہے تھے کہ کوئی قوم کیسے مشرق سے بھی خود کو الگ رکھے اور مغرب سے بھی خود کوالگ رکھے اور دونوں سے بیزاری کا اظہار کرے اور پھر اپنے پیروں پر کھڑی بھی رہ جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی بلاک سے وابستہ نہ ہو اور کسی کے بھی پرچم تلے نہ جائے اور اس دنیامیں اپنانام روشن کرے ؟ مگرامام خمینی نے اس کارنامہ کر دکھایا اور اس نکتہ کو ثابت کر دیا کہ مشرق و مغرب کی طاقتوں پر انحصار کئے بغیر بھی زندہ رہا جا سکتا ہے اور عزت و آبرو کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔نمازجمعہ کےخطبہ سے اقتباس 2007-7-14بسیجی (رضاکار) ہونا ایک افتخارامام خمینی بسیجی ہونے پرفخرکرتےتھے، جی ہاں امام (رہ) بسیجی ہونے پرفخرکرتے تھے رہبر کبیر انقلاب اسلامی خود کو بسیجی کہتے اور سمجھتے تھے اور اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ انھوں نےپوری دنیا کو عالمی استکباری طاقتوں اور ظالموں کے مقابلے میں لا کھڑا کیاتھا اور لوگوں بسیجی یا رضاکاربننے کا شوق پیدا کر دیا تھا۔ یعنی سبھی رضاکارانہ طورپر اس فکرکے حامل ہورہے تھے کہ عالمی استکبار اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ امام خمینی نے اپنے اس اقدام سے جابر طاقتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں اور قوموں کے دلوں میں نور امید کو جو تمام کامیابیوں کی کنجی ہے روشن و منور کر دیا تھا۔ بلا شبہ تمام تر استکباری مشینریاں مل کر اس آبشار کو روک نہیں سکتی جو آپ نے جاری کر دیا اگرچہ وہ پوری قوت وقساوت کے ساتھ امام کے عظیم جہاد کے ثمرات کوختم کرنے میں لگی ہوئی ہيں ۔رضاکارفورس بسیج کے کمانڈروں کے اجلاس سے رہبرانقلاب کے خطاب کا اقتباس 2007-11-23 انقلاب کی صورت میں امام خمینی کی حیات ابدی جی ہاں ہمارے عظیم قائد امام خمینی (رہ) اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان نہيں ہیں جس طرح سے ہمارے شہداء ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن امام بھی اورشہداء بھی ہمارے دلوں اورذہنوں میں اورہماری زندگي وہمارے انقلاب میں زندہ و پایندہ ہیں اور سرگرم و فعال ہيں۔ اس عظیم انسان اور ان کےشہید ساتھیوں کے وجود کااثرفقط ان کے زمانۂ حیات سےہی مختص نہیں تھا اور آپ کے وجود کااثر صرف ایران تک ہی محدود نہيں تھا ۔ آج ان کے وجود اور ان کی مبارک عمر اور اسی طرح سے ان کے شہید ساتھیوں کے وجود مبارک کی بدولت اسلام روز بروز تابندہ و درخشاں ہوتا جا رہا ہے اور تحریفوں، جہالتوں ، اورفتنوں کاابرغلیظ ہر روز چھٹتاچلاجارہاہے۔ جوانقلاب امام خمینی نے برپا کیا اورشہیدوں نے اپنے خون سے جسے لالہ زار بنا دیا اور اسے بوئے گل عطا کی اس وقت پوری دنیامیں مظلوم قوموں کی بیداری، مسلم معاشروں کی حیات نو، معنویت کی بنیادوں کو استحکام بخشنے ، اور دنیا پرستی کاشیرازہ بکھیرنے الغرض حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی میں اس نے خود کوپوری دنیا سے منوایا ہے ۔ انسان کے بام معنویت پر عروج کا پرچم جو آج دنیا کے گوشہ و کنار میں بلند ہے در اصل وہ ہمارے امام اور ان کے شہید ساتھیوں کا پرچم ہے وہ لوگ زندہ ہيں اورہر روز پہلے سے بھی موثر انداز میں اپنے معنی وجود اور زندگی کو پیش کر رہے ہیں ۔شہداء جانبازوں اور عراق میں قید غازیان اسلام کوخراج عقیدت پیش کرنے کےلئے رہبرانقلاب اسلامی کے پیغام سے اقتباس2008-2-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا منفرد فنامام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بڑا ہنر و فن اور ان کی بے مثال خدمت یہ تھی کہ انھوں نے اسلام کو گوشہ نشینی سے نکالا۔ مسلمان اپنے معاشرے اپنے شہروں اور وطن میں بھی اجنبی اور بیگانے تھے دشمنان اسلام نے اپنی الحادی ثقافت اور اخلاقی برائیوں کی ترویج کے ذریعے اور طاغوتی حکومتوں کو استعمال کرکر مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے اور اپنے بارے میں غور و فکر کرنے کا موقع بھی چھین لیاتھا۔ ان حالات میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو پیغمبر اسلام کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھتے تھے اورجن کے ہاتھوں میں خدا نے الہی قوت عطا کی تھی، اسلام کے چہرے سے اجنبیت کی گرد صاف کی اور پوری دنیامیں ایک بار پھر اسلام کا تابناک چہرہ پیش کیا ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی میں شریک غیرملکی مہمانوں کے پہلے گروپ سے رہبرانقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-5امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ خود اعتمادی کے معمار انقلاب سے پہلے اورانقلاب کے بعد بھی آپ کا یقین تھا کہ ہم اہم سے اہم کام انجام دے سکتے ہيں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ ہم خود اپنا کام انجام دے سکتے ہيں ہمیں خودکوشش کرنی چاہئے ہم خود اپنے ملک کی تعمیروترقی کے لئے کام کریں ہم خود تعمیروترقی اورمصنوعات کی پیداوار اور استعمال کا اصول وضع کریں کہ جو ہمارے اپنے طور طریقے کے مطابق ہو۔ ہمیں چاہئے کہ ان باتوں کو تعمیر و ترقی کے دور میں بروئے کار لائیں ہم ہرگز دوسروں کےتجربات سے انکار نہیں کرتے اوران کی اہمیت کے منکر نہيں ہیں۔ جس کے پاس جو بھی ہو علم ہو ٹکنالوجی ہو، وسائل ہوں، تکنیک ہو ، اگرہم ان سے استفادے کے لئے مجبور ہوئے اور ان سے اپنے اہداف کے تحت استفادہ کرسکیں گے تو ایک لمحے کے لئے بھی ان سے استفادے میں دریغ نہیں کریں گے ۔ ہم کو چاہئے کہ ہم ان سب چیزوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کے لئے ایک وسیلے کے طور پر استعمال کریں اور جتنا بھی ممکن ہو ملک کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے ان سے استفادہ کریں اور ہميں چاہئے کہ اپنی پیداوار کو غیرملکی مصنوعات پرترجیح دیں۔ ہمارے لئے اپنی مصنوعات غیر ملکی مصنوعات سے زیادہ مبارک اور بہتر ہیں حتی یہ بھی بہتر ہے کہ دوسروں کے ہاتھوں سے اوردوسرے دروازے سے ہمارے ملک میں داخل ہوں ۔وزارت پٹرولیم کے حکام اور ماہرین سے خطاب1991-12-3 امام خمینی حالات کے ماہر نباض تعمیروترقی کے محکمے، جہاد سازندگی کی جب بات ہوتی ہے تو ديگرمحکموں کے مقابلے میں یہ محکمہ امام خمینی (رہ) کی یاد کو زیادہ تازہ کردیتا ہے ۔امام کس قدر اس انقلابی ،مخلص اورکارآمد محکمے کواہمیت دیتے تھے اورکس قدرآپ خوش ہوتے تھے جب یہ سنتے تھے کہ جہادسازندگی کی وزارت نے جنگی محاذ اوردور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں اتناکام کیا اور یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ عظیم شخصیت ان کاوشوں اورکامیابیوں کودیکھ کرپرامید اورخوش و خرم ہو جایا کرتی تھی اس عظیم شخصیت کی بارکی بایں اور نکتہ سنج نگاہ کبھی غلطی نہیں کرتی تھی اورآپ جانتے تھے کہ یہ محکمہ جو مومن وانقلابی عناصر اور فرائض کی ادائگی کے شوق سے سرشار نوجوانوں سے تشکیل پایاہے کس حد تک ملک کے لئے مفید و کارآمد ہے ۔ آپ لوگ جو امام کے عاشق تھے اورآج بھی ان سے عشق کرتے ہيں اورآپ لوگوں کی رگ حیات امام سے متصل تھی اوران سے ارتبا ط کو جہاد کے اصلی تشخص میں گردانتے تھے آپ کوچاہئے کہ ان کی روح کی خوشنودی کے لئے جوملکوت اعلی کو پروازکرچکی ہے اورہمارے اعمال وافعال پر ناظرہے اپنی کوششوں کو دوگنا کریں اورملک کی ترقی وپیشرفت کے لئے زیادہ سے زیادہ کام کریں ۔وزارت جہاد سازندگی کے عہدہ دارو اور کارکنوں سے تجدید بیعت کے موقع پر خطاب1991-6-10نمازجمعہ کاقیام امام خمینی (رہ) کا دوراندیشانہ اقدام آپ نے قوم کونمازجمعہ کاایک بہت ہی اہم معنوی تحفہ دیاہے۔ برسوں سے ہم نمازجمعہ سے محروم تھے اور اگر کہیں کسی علاقے میں کسی وقت نمازجمعہ ہوتی بھی تھی تو جو تاثیر نمازجمعہ ایک اسلامی حکومت میں رکھتی ہے اس سے وہ عاری تھی اوربعض جگہوں پر نماز جعمہ کے مہتمم افراد ایسے نامناسب افراد تھے کہ جن کا ذکربھی یہاں مناسب نہیں ہے۔ یہ نمازجمعہ کامسئلہ ہے ۔ائمہ جمعہ و جماعت سے خطاب 1990-5-28امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں کی قوت وعزت آج چند باتیں روز روشن کی طرح عیاں ہیں جنھيں میں یہاں پر عرض کرناچاہتاہوں اوراس کے بعد ایک نتیجہ اخذ کروں گا جوملت ایران اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے اہم ہے ۔پہلی حقیقت جس کاکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا اور ہر منصف انسان جس کا معترف ہے یہ ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے مسلمانوں کو قوت وعزت بخشی ۔ دشمنان اسلام، اسلام کو کمزورکرنا چاہتے تھے ان کی یہ کوشش تھی کہ اسلام کومیدان عمل سے بلکہ مسلمانوں کے ذہنوں سے دور کر دیں اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دشمن اپنے اس مقصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہيں ۔ اس گندی سیاست میں استکباری طاقتوں سے وابستہ فاسد حکومتوں نے بھی دشمنان اسلام کا ساتھ دیا ہے اوران سے تعاون کیا ہے ۔ امام نے اپنے اس انقلاب سے مسلمانوں کوجوش وولولہ عطاکیا انھیں ہمت وجرات دی اوراسلام کوزندہ کیا۔ آج بہت سے ملکوں میں اسلام، نوجوانوں کی آرزو اور مطمح نظر میں تبدیل ہوچکاہے اوربہت سےروشن فکر افراد اسلام کوگلے لگانےکے لئے بے تاب نظر آ رہے ہيں۔ اس کی ایک مثال فلسطین ہے، برسوں فلسطین کے موضوع پرباتیں ہوتی رہیں اور جدوجہد ہوتی رہی لیکن کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا۔ مگرآج ملت فلسطین ، اسلام کےنام پر جدوجہد اور استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے اس کی طرف سے اسلام کےنام پر جد و جہد کی جا رہی ہے اسی لئے اب یہ جدوجہد تنظیموں، گروہوں، شخصیتوں اورحکام کے دائرے سے نکل کرعوام تک پہنچ چکی ہے اور اس طرح کا جہاد اورجدوجہد کبھی بھی ناکام نہیں ہوگی۔ عوامی جدوجہد اگر جاری رہتی ہے تو بلاشبہ اسے ایک دن ہرحال میں کامیابی نصیب ہوگی یہ اس اسلام کی برکت کا نتیجہ ہے جسے امام نے دوبارہ زندہ کیا اور جسے آپ نے مسلمانوں کے قلوب میں سنوارا۔ آج شمالی افریقہ کے اسلامی ملکوں میں کچھ گروہ اسلام کے نام پر اورایک اسلامی حکومت کے قیام کے مقصدسے جدوجہدکررہے ہيں ،اور وہ کسی حد تک اپنے مقصد میں آگے بھی بڑھے ہیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک سے قبل کس کے ذہن میں یہ بات آتی تھی ؟ مشرق سے لے کرمغرب تک آج مسلمان بیدار ہو چکے ہيں۔ یورپی اورغیریورپی ملکوں میں جہاں کفر و الحاد کی حکومتیں ہیں مسلمان اپنی اہمیت کا احساس کررہے ہيں مسلمانوں کے اندر اسلامی تشخص اور شناخت پیدا ہو چکی ہے یہ سب کچھ امام اور ان کی اسی عظيم تحریک کی برکت ہے ۔دور اندیشی، صبر و استقامت امام خمینی (رہ) اور قوم کی کامیابی کا رازدوسری حقیقت یہ ہے کہ جس چیز نے ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ہماری بہادر قوم کو اس عظيم تحریک میں کامیابی سے ہمکنار کیا وہ دوراندیشی و صبر و استقامت تھی۔ ایک ایسی استقامت جس میں بصیرت بھی ساتھ تھی جیسا کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا ۔ علم کی سنگینی کو صرف صاحبان بصیرت و استقامت ہی اٹھاسکتے ہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ آج مقابلہ خالص کفر اور خالص نفاق سے نہیں ہے کہ افکار و نظریات واضح ہوں اور ایک دوسرے کے سامنے محاذ آرائی اور صف بندی بھی آشکارہ ہو، بلکہ آج مقابلہ نفاق ، کھوکھلے دعووں ، مکر و فریب اور جھوٹ سے ہے جسے سامراج نے پورے عالم میں پھیلا رکھا ہے۔ بہت سے لوگ انسانی حقوق کی طرفداری کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ، بہت سے لوگ اسلام کا دم بھرنے کا دعوی کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ۔ان کا اسلام ، سامراج کی مرضی و منشا کا تابع ہے۔ بہت سے لوگ انسانوں کے بیچ مساوات قائم کرنے کا دعوی کرتے تھے اور کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے تھے اور بولتے ہیں۔ اس لئے آج کل مقابلہ دشوار ہے ، نہ صرف سامراج کی دولت اور طاقت کے سبب بلکہ اس کے تشہیراتی وسائل کے سبب۔ کیونکہ سامراجی طاقتیں اپنے غلط کاموں کا جواز پیش کرنے کےلئے ، پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں۔ بے بصیرت لوگ جلدی دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ فریب میں ہیں۔ اپنی اور دشمن کی صف میں تمیز نہیں کرپاتے ۔ ایران میں ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایرانی قوم کی بصیرت سے کہ جس میں صبر اور پائداری بھی ساتھ تھی اس راستہ کو طے کیا اور وہ کامیابی تک پہنچے ۔خود انہوں نے لوگوں میں بصیرت پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ جہاں بھی دنیا میں کوئی تحریک چل رہی ہے اور کوئی نیک انسان لوگوں کو نجات دلانے کی کوشش میں لگا ہے اسے یہ جان لینا چاہئے کہ یہ راستہ صرف اور صرف ہوشیاری اور بصیرت نیز صبر و پائداری سے طے ہوسکتا ہے ۔مسلمانوں کی عظیم عالمی تحریک کا سرچشمہ اسلامی جمہوریہ ایرانتیسری حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، پوری دنیا کے مسلمانوں کی عظیم تحریک کامرکز ہے ۔نہ صرف مسلمان اور محروم و ستم رسیدہ لوگ بلکہ سامراج بھی اس بات کو سمجھ گيا ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلامی اہداف کے لئے تحریک چل رہی ہے اس کا مرکز اسلامی جمہوریۂ ایران ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ساری دنیا میں دشمنی کا رخ ہماری طرف ہے۔ ہم میٹھی باتوں کی آڑ میں چھپی ہوئي دشمنی و کینہ کو پہچانتے ہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ سامراج کواسلامی جمہوریۂ ایران ،ایرانی قوم اور ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے کتنی دشمنی ہے۔دشمن چونکہ ان کےافکار و نظریات کو زندہ دیکھ رہا ہے اس لئے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اس کی دشمنی میں سرمو فرق نہیں آیا ہے۔ اگر سامراج اور اس کی پروپیگنڈہ مشنری یہ سوچتے کہ وہ انتقال کرگئے اور ان کا زمانہ ختم ہوچکا ہے توکبھی بھی ان سے اور اس کے نام سے اتنی دشمنی نہ کرتے جیسا کہ آج کررہے ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاایران ، انقلاب ایران ،اسلامی جمہوریۂ ایران ، مسلمانوں کی عالمی تحریک کا مرکز ہے اور اس لئے سب کی دشمنی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس چیز سے ہم غمگین ہونے کے بجائے خوش ہوتے ہیں، ڈرنے کے بجائے ہمارے حوصلے بلند ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم طاقتور ہیں اور سامراج ، چوروں و لٹیروں کے مفادات کے لئے بدستور خطرہ بنے ہوئے ہیں ۔ سامراج کی دشمنی سے ہمیں مزيد اطمینان پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے انقلاب کو آگے بڑھانے اور ملک و سماج کی تعمیر کے لئے جس راستہ کو چنا ہے وہ صحیح اور کامیابی کا راستہ ہے ۔ اگر ہم نے انسانیت کے دشمنوں کے مفادات کے خلاف اور انقلاب و ملک کی مصلحتوں کی سمت میں غلط راستے کا انتخاب کیا ہوتا، تو دشمن، ہم سے اتنی دشمنی نہیں کرتا۔ پوری دنیا میں مختلف طریقوں سے ہمارے خلاف پروپیگنڈہ ہو رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ ہمیں صراحت کے ساتھ برا بھلا نہ کہیں ، لیکن یہ ان کی دوستی کی علامت نہیں ہے ۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے صراحتا ہمیں برا بھلا کہا تو پوری دنیا کی اقوام کے دل ہماری طرف اور مائل ہو جائیں گے ۔ اس لئے وہ سیدھے طور پر برا کہنے کے بجائے ہم پر الزام لگاتے ہیں خود کو ہم سے نزدیک دکھاتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں، یہ سب ان کے ہتھکنڈے اور خباثتیں ہیں ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس 1991-6-4آزادی و خود مختاری، اخلاقیات و روحانیت کے ہمراہ ہمارے عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کاکمال یہ تھا کہ انہوں نے اس انقلاب کے لئے ایک محکم لائحہ عمل اور اصول و ضوابط بنائے اور انہوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ انقلاب بڑی طاقتوں کے زير اثر آجائے اور مسلط کردہ سیاسی دھاروں میں بہہ جائے ۔نہ شرقی، نہ غربی، جمہوری اسلامی یا خود مختاری، آزادی، جمہوری اسلامی جیسے نعروں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کی راہ کو عوام کے لئے واضح کیا اور ان نعروں کے معنی یہ تھے کہ یہ انقلاب ٹھوس اصولوں پر استوار ہے۔ یہ نہ تو مشرقی سوشلسٹ بلاک کے اصولوں سے وابستہ ہے اور نہ ہی مغرب کے لیبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں سے ۔ مشرق اور مغرب کی انقلاب سے دشمنی کا سبب بھی یہی ہے ۔ انقلاب کی بنیاد ٹھوس اصولوں پر ہے، اس میں عدل و انصاف کے نفاذ، ملک کی آزادی و خودمختاری اور معنویت و اخلاق جیسی عوام کے لئے سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی قدروں پر توجہ دی گئی ہے۔ یہ انقلاب، انصاف، حریت، عوام کی حاکمیت، روحانیت اور اخلاق پر مشتمل ہے ۔امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی چودھویں برسی کے موقع پر قائد انقلاب اسلامی کے بیان کا اقتباس2002-6-4فراموش شدہ اسلامی اقدار کا احیاء امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے طاق نسیاں کی زینت بن جانے والی اسلامی اقدار کو معاشرے کی عملی زندگی میں شامل کیا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے اہم جو کام انجام دیا وہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے سیاسی اورسماجی پہلوؤں کو زندہ کیا۔جب سے سامراج نے اسلامی ملکوں میں قدم رکھا اس کی تمام تر کوشش یہی تھی کہ اسلام کو سیاست، سماجی مساوات ،حریت پسندی اور خود مختاری کے پہلو سے عاری دکھائے ۔ سامراج و تسلط پسند طاقتوں کو قوموں کو دبانے اور اسلامی ملکوں کے ذخائر پر اپنا تسلط بڑھانے کے لئے، اسلام کے سیاسی پہلوؤں کو اسلام سے الگ کرنے کے سوا اور کوئي چارہ کار سمجھ میں نہیں آرہا تھا اور سامراج اسلام کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کیا کرتا تھا کہ اسلام حادثات اور واقعات کے سامنے تسلیم ہونے اور جارح قوتوں کے سامنے جھک جانے نیز ظالم و طاقتور دشمن کے سامنے سر جھکانے کا نام ہے ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے فراموش شدہ حقائق کو زندہ کیا۔ اسلام کی انصاف پسندی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اس بات کو آشکار کیا کہ اسلام امتیازی سلوک سماجی تفریق اور غلامی کو ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عظيم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے دن سے زندگي کے آخری لمحہ تک ، غریب ، مستضعف اور محروم طبقوں کی حمایت کی اور ان پر اتکا کیا۔ اسلامی نظام کی تشکیل کے آغاز سے اور دس سال تک اس نظام کی قیادت کے دوران تمام حکام اور ہم سب سے زور دے کر کہتے تھے کہ غریبوں کا خیال رکھیں کیونکہ آپ کو جو یہ مقام ملا وہ اسی غریب طبقہ کی جد و جہد کا ثمرہ ہے ۔اے ایران کی عظيم قوم ہم نے امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی اس نصیحت پر منصوبہ بندی، قانون سازی، لوگوں کو منصبوں پر فائز کرنے اور انہیں معزول کرنے کے سلسلے میں جہاں جہاں عمل کیا، ہمیں کامیابی ملی عوام کے سلسلے میں امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت کے مفہوم کو مغربی معنی و مفہوم سے یکسر الگ کردیا ۔ مغربی منصوبہ ساز اور ان کے پٹھوؤں کی کوشش یہ تھی کہ اس بات کو عام کردیں کہ جمہوریت دین کے ساتھ سازگار نہیں ہے ۔امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) نے اس دعوے پر خط بطلان کھینچ دیا اور دینی بنیادوں پر جمہوریت یعنی اسی اسلامی جمہوریہ کو نمونہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے صرف علمی دلیل کی حد تک نہیں بلکہ عملا اسے انجام دے کر دکھا دیا ۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم کارنامے کے تئیں ہمارے فرائضانقلاب کے ہاتھوں زخم کھائے اور گھات لگائے ہوئے دشمن برسوں اس موقع کی تلاش میں تھے اور آج بھی وہ سورج کے غروب کا انتظار کرنے والی چمگادڑوں کی طرح اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں، لیکن ایرانی قوم کے جذبات کی گرمی ایسی ہے کہ دوستوں کو اس سے راحت ملتی ہے اور دشمنوں کے پر جل جاتے ہیں، پھر وہ شیطانی پرواز کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ہمارے رہبر کبیر انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے عظیم ورثاء جمہوری اسلامی نظام کے خلاف کی جانے والی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔ ہر مشکوک اقدام کے سلسلے میں ہم سب کو ہوشیار اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سامراج نے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک ، اسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کا خیال ایک لمحے کے لئے بھی ترک نہیں کیا ہے اور اسلامی نظام کو کمزور کرنے کے لئے ہر ممکن کاروائي کر رہا ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ کے حکام اور ایرانی قوم، قومی وقار، خود مختاری اور اپنے اسلامی اصولوں کے پابند رہیں گے وہ ناقابل تسخیر بنے رہیں گے۔ اب تک خدا کے فضل و کرم سے، ایرانی قوم کے عزم و ارادے کے سامنے عالمی سامراج کی سازش بے نتیجہ رہی ہے اور اس کے مکر و فریب کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اس لئے میں قوم کےایک ایک فرد سے اپیل کرتا ہوں کہ دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں آمادہ و ہوشیاری کو انقلابی فریضہ سمجھیں اور دشمن کے مذموم سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی عزائم کو سمجھیں اور یہ جان لیں کہ آمادہ و ہوشیار رہنے سے دشمن کی سازش ناکام ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے عزیز رہبر کبیر ( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) باربار اس بات پر زوردیتے تھے اور اپنے وصیتنامہ میں بھی آپ نے اس بات پر زوردیا ہے کہ ہمارے بیچ اتحاد ہی، انقلاب کی کامیابی کا راز تھا اور یہی اس کی بقا کی کنجی ہے۔ قوم کا ایک دوسرے کے مخالف گروہوں میں بٹ جانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر اڑجانا، ہماری پوری قوم یا کم سے کم اس کی اکثریت سے وابستہ اہم اصولوں کو فراموش کردینا، دشمن کو بھلا دینا اور اس کو بھلا دینے سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کرنا ، ایسی قوم کے لئے ایک المیہ ہے جو اپنے پائمال شدہ حقوق کی بازیابی اور دوسروں پر انحصار سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔قائد انقلاب اسلامی کا ایران قوم سے خطاب میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی مدح سرائی کا اقتباس2007-6-8 امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے مشن سے وفاداری ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور کوئی بھی اس بارے میں شک نہیں کرسکتا کہ ایرانی قوم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے سچی محبت کرتی ہے چنانچہ ہمیں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ ان کے ہدف کو انقلاب کا نصب العین سمجھیں اور اس کی سمت بڑھیں۔ اپنی طرف سے کوئی نیا ہدف نہ بنا لیں۔ امام کے بتائے ہوئے اہداف و مقاصد واضح ہیں اور انہیں سمجھنے کے لئے بہت غور و فکر کی ضرورت نہیں ہے۔ کاتب تقدیر کا فیصلہ یہی تھا کہ اس کا نیک بندہ آگے بڑھتے بڑھتے یہ ذمہ داری دوسروں کو سونپ کر ملکوت اعلیٰ کی طرف پرواز کرجائے اور اس کے جوار میں پناہ لے لے تو ہم اس ذمہ داری کو یونہی نہیں چھوڑدیں گے۔ قوم کا ایک ایک فرد اور ہر سطح کے عہدہ دار و حکام اس نکتے کو ذہن نشین کرلیں اور یہ عہد کریں کہ امام خمینی کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں گے اور ان کے اہداف و مقاصد کے لئے کام کریں گے اسی صورت میں ہم امام خمینی سے اپنی سچی محبت کا ثبوت پیش کر سکیں گے اور اگر اس کے برعکس ہم ان کی جدائی میں روئیں، سروسینہ پیٹیں، لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر نہ چلیں، تو ان سے ہماری محبت و عقیدت سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے راستے پر چلیں، اس سے منحرف نہ ہوں ۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی کا خلوصبرادران گرامی! امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا خلوص اور خدا کے ساتھ ان کے تقرّب اسی طرح عوام کی پر خلوص جد و جہد کے نتیجے میں ہم آج اس مقام پر ہیں، آئندہ بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ اگر ہمارا مقصد وہی ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد تھا تو ہمارے وسائل و ذرائع بھی وہی ہونے چاہئے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے تھے۔ خدا سے طلب نصرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا وسیلہ تھا، تو آئیے ہم بھی خدا سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ کام صرف زبان سے نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے عمل میں خلوص اور ترک گناہ شرط ہے۔انقلاب اسلامی کی کمیٹیوں کے حکام و ممبران سے خطاب کا اقتباس 2007-6-8امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی راہ پر گامزن رہنے کا عہدہم نے خدا سے عہد کیا ہے کہ ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بتائے ہوئے راستے پر جو اسلام و قرآن و مسلمانوں کی سربلندی کا راستہ ہے، چلیں گے۔ نہ مشرق نہ مغرب کی سیاست ، مستضعفین و مظلومین کی حمایت، عظیم مسلمان قوم کی تحریک اور اتحاد کا تحفظ، عالمی سطح پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے والےعناصر پر قابو پانا، مثالی معاشرہ قائم کرنے کے لئے جد وجہد، غریب و محروم طبقے کی مدد اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے سبھی وسائل و امکانات سے استفادہ کرنا، ہمارا اہم ترین منصوبہ ہے اور ان سب کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ اسلام کو دوبارہ زندہ کرنا ( اسلام کے پرچم کو دوبارہ لہرانا ) اور قرآنی اقدار کا احیاء ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔حاجیوں کے اجتماع سے خطاب کا اقتباس 1989-7-5 ایرانی قوم کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت : خدا سے لولگائیں، اسلام کے پابند رہیں اور اپنی صفوں میں انتشار نہ پیدا ہونے دیںہمارے عزیز قائد، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت میں ایک بات ایسی ہے جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا : جس چیز نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا وہی اس کی بقا کی ضامن ہے۔ یعنی خدا پر توکل، اسلام پر ایمان، اسلامی احکام کی بجا آوری اور اتحاد، انقلاب کی کامیابی اور اس کی بقا کی کنجی ہے۔ یہ ایک ایسی نصیحت ہے جسے ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ آج ہمارے ملک پر اتحاد اور خلوص کا سایہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے پاکیزہ وجود کا ثمرہ ہے۔ اس عظیم مرد الہی کی رحلت کے بعد بھی آپ کا خلوص سرچشمہ برکات بنا ہوا ہے۔ اس خلوص نے دلوں کو باہمی محبت کے رشتہ سے جوڑ دیا اور رشتوں کو مستحکم بنایا ہے۔ آپ کا اتحاد و یکجہتی اور حکومت سے آپ کا تعاون اور گہرا رشتہ ساری دنیا کے لئے حیرت انگیز ہے۔ دشمن اسے دیکھ کر مایوسی کا شکار ہوگیا ہے، 1978 میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی آمد سے انقلابی تحریک میں نئي جان آگئی اور یہ تحریک آگے بڑھنے لگی۔ اس کے نتایج حاصل ہونے لگے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں خدا کا یہ لطف تھا کہ ان کے وجود میں اس نے یہ ساری برکتیں ودیعت کی تھیں اور ان کی وفات اور ملکوت اعلی کی طرف پرواز کے وقت بھی خدا کی خاص نعمتیں اور برکتیں ان کے شامل حال تھیں جو اس بات کا سبب بنیں کہ ان کی رحلت کے بعد بھی انقلاب اسلامی، کامیابی کے ابتدائی دنوں کی طرح ہی آگے بھی ترقی کرتا رہے اور دنیا میں اس کی عظمت قائم ہو جائے۔ اس انقلاب نے دشمن کو مایوس کردیا۔ آج ہم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے وجود کی برکت سے، دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہے ہیں۔ کوئی یہ خیال بھی نہ لائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اندر کسی طرح کسی کمزوری کا احساس کررہا ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے ہم اپنے معاملوں کو خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے اور اپنے اصولوں، اپنے دین اور مسلمان بھائيوں کے مفادات کے مطابق دیگر ملکوں سے بھی اپنے تعلقات کومستحکم کریں گے۔ اس بات کو یاد رکھئے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید کی ہے کہ اتحاد و بیداری سبھی کامیابیوں کا راز ہے۔ اگر لوگوں میں اتحاد و بیداری نہ ہو تو ایرانی قوم ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا پائے گي لیکن اگر لوگوں نے اس راز کو سمجھ لیا اور اس کا خیال رکھا تو خدا بھی ان کی مدد کرے گا۔ یہ خدا کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد رب العزت ہے: جنہوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا ہم اپنے راستوں کی طرف ان کی ہدایت کریں گے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لئے کام کرتا ہے خدا اس کے ساتھ ہے اور خدا کا وعدہ سچا ہے۔ الحمدللہ خداایرانی قوم کے ساتھ ہے اور اس عظیم و بے نظیر مرد الہی کا وجود ہمارے لئے ایک حقیقی نعمت تھی۔ آج بھی آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے بہترین نعمت ہے کیوں کہ ان کے کلام کا سرچشمہ خدا و انبیاء کا کلام ہے۔ ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے۔خوزستان کے علماء ، حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-12امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر اور انہیں ہمیشہ پیش نظر رکھنے کی ضرورتآج ایرانی قوم کا کہ جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شیدائی اور ان کو دل و جان سے چاہنے والی ہے، سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پیش نظر رکھے ۔ رہبر کبیر انقلاب کی شخصیت، جس نے پوری دنیا پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، ان کی تعلیمات، بیانات اور ہدایات کی شکل میں آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ البتہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو سمجھنے کے لئے ابھی ہمیں کافی فاصلہ طے کرنا ہے اور اس بات میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ اس عظیم ملکوتی انسان کی شخصیت کے بہت سے پہلو ابھی بھی ہمارے لئے ناشناختہ ہیں۔ ہم نزدیک سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کو دیکھا کرتے تھے لیکن اتنی جلدی اس بزرگ شخصیت کے سبھی پہلوؤں کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ اس بزرگ و گرانقدر انسان کی شخصیت اور شخصیت کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لئے بڑے غور و فکر کی ضرورت ہے اور ہمارے لئے بھی، جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر ہیں، اتنی جلدی ان کی شخصیت کا ادراک ممکن نہیں ہے لیکن اس بزرگ شخصیت کے بیانات ہمارے لئے سبق آموز ہیں اور یہ بیش بہا خزانہ ہے جو ہمارے اختیار میں ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات پر غور و فکر سے ہم اس عظيم شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ادراک کرسکتے ہیں اور اس سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی راہ واضح ہوسکتی ہے۔ ان تعلیمات کو چند جملوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہر وقت اور ہر مرحلے میں ان کی تعلیمات ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ عالمی سطح پر ایران کے تعلق سے جو صورت حال ہے اور اقوام عالم کے نزدیک ایرانی قوم کو جو پوزیشن حاصل ہوچکی ہے اس کے پیش نظر، ہمارے ہر دلعزیز امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم اس اتحاد و یکجہتی کو قائم رکھیں جو مشیت الہی سے ہمیں نصیب ہوئی ہے۔ آج ایرانی قوم کے درمیان انقلاب کے ابتدائی دس برسوں کی بہ نسبت زیادہ اتحاد ہے اور یہ بھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ملکوتی شخصیت کی برکات کی بنا پر ہے ۔( زنجان ، نہاوند اور کاشمر کے علماء و حکام اور عوام سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-7-6چارجون کی تلخ یادوں کے ساتھ یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ مرحوم امام ( خمینی رحمۃ اللہ علیہ) اگر چہ ہمارے بیچ نہیں رہے لیکن ان کی زندہ جاوید تعلیمات و افکار و وصیت ہمارے پاس ہے اور خدا کے فضل و کرم سے کوئی بھی طاقت اس نعمت کو سلب کرپائے گی اور نہ ہی اسلامی جمہوریۂ ایران کو اس کے بانی و معلم سے جدا کرپائے گي ۔( امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی رحتل کی دوسری برسی پر ، قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1991-6-3امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے وابستہ کچھ یادیںخدا جانتا ہے کہ ان دس سالوں کے دوران، اس دن کے خیال سے دل ہمیشہ لرز اٹھتا تھا۔ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بنا دنیا کا رنگ کیا ہوگا۔ اسی لئے ہم نے کئی بار امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا تھا: ہماری خدا سے اہم دعا یہی تھی کہ مجھے آپ سے پہلے اس دنیا سے اٹھالے۔ جب امام خمینی کی طبیعت بگڑ رہی تھی میں نے آئین پر نظر ثانی کرنے والی کاؤنسل کے کچھ اراکین کو بلایا اور کہا کہ امام کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں نظر ثانی کے کام میں تھوڑی تیزی لانی چاہئے اور اس کے مکمل ہونے کی خوش خبری امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اسپتال میں دینی چاہئے تا کہ انہیں اطمینان حاصل ہوجائے۔ واقعا اس ممکنہ لمحے کے تصور سے میرا دل لرزتا تھا۔ شاید اس کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر پہنچی کہ یہ نعمت الہی اور گوہر نایاب ہم سے چھن گيا ہے ۔فوج کے اعلیٰ افسروں اور اہلکاروں سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اقتباس 1989-6-7قوم کے روح رواں امام خمینی کی رحلت اور قوم سے آپ کی جدائي کےبارے میں کچھ کہنا بڑا سخت اور دشوار کام ہےـ ہم تو یتیم ہو گئے۔ دس سال قبل جب آپ کو دل کا دورہ پڑا آّپ کے چاہنے والے افراد جن میں سے بڑی تعداد جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس وقت ملکوت اعلی کی زینت بنی ہوئي ہے، پروانہ وار قم پہنچے۔ آپ کو تہران لایا گیا اور دل کے اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ ایک ایک پل بڑی مشکل سے گزرتا تھا، ایک انجانا خوف ہر آن ستاتا۔ بارگاہ پروردگار میں ہم سب کی ایک ہی دعا اور التجا تھی کہ خدایا بشریت کی رگوں میں زندگی بھر دینے والے اس پاکیزہ دل کو شفا بخش دے۔ ہماری قوم کی دعا سن لے۔ اپنے عزیز قائد کی جدائي کا تصور ہمارے لئے جان لیوا تھا ہمیں ایسا لگتا تھا کہ گویا دنیا اندھیری ہو جائے گي۔ آج ہمارے سامنے یہی دشوار پل ہے ہم پر مصیبت عظمی ٹوٹ پڑی ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی کوئي مصییبت ہو سکتی ہے ـ کمانڈروں اور اسلامی انقلاب کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے بیعت کے موقع پر خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ سب نے دیکھا کہ آپ کے امام (رہ) وصیت نامے کے آخر میں ایسے معاملات کی جانب اشارہ کیا گیا جن پر امام اس سے قبل خاموش تھے ۔ بنی صدر کے زمانے میں جب میں امام کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ فرماتے تھے کہ وہ میرے حوالے سے جو کچھ کہتا ہے وہ غلط ہے اور اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ لہذا جو بات بھی ہوتی آپ اس پر فورا مشتعل اور آشفتہ نہیں ہوتے اور اس کا فوری جواب بھی نہیں دیتے تھے۔ یہ متانت، بردباری، حلم، نفس پر قابو اور وسیع القلبی کی اعلی مثال ہے۔ جس میں بھی یہ صفات ہونگی وہ عظیم انسان ہوگا۔ ساتھ ہی اگر امام (خمینی رح) میں روحانیت ، خدا سے رابطہ، رضائے الہی کے لیے اقدام، تقویٰ، ذمہ داریوں کی ادائیگی جیسی اہم صفات نہ ہوتیں تو انقلاب کامیاب ہوتا اور نہ ہی آپ لوگ اس طرح ان کے گرویدہ ہوتے، وہ نہ تو دنیا میں ایسی ہلچل مچا سکتے تھے اور نہ ہی دشمن کے رعب و دبدے اور دھمکیوں کے سامنے پہاڑ کی مانند سینہ سپر ہوسکتے تھے ۔اسی حوالے سے ایک واقعہ میرے ذہن میں محفوظ ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ سن 1986 کے اختتام سے چند دن قبل امام(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ کے فرزند رشید جناب احمد خمینی بھی تشریف فرما تھے کسی امام معصوم کا یوم ولادت نزدیک تھا ہم نے امام سے درخواست کی کہ حسینیہ جماران میں لوگوں سے ملاقات فرمائیں۔ امام(خمینی رہ) نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ میں ملاقات نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد میرا مشہد جانا ہوگیا، اچانک امام(خمینی رہ) کو دل کی کوئي تکلیف پیدا ہوئی جناب اخمد خمینی نے جن کا قوم پر بڑا احسان ہے اور جنہوں نے امام خمینی رہ کی بڑی خدمت کی ہے، فوری طور پر ضروری طبی وسائل مہیا کئے۔ جب ھسپتال میں امام(رہ) کی خدمت میں حاضرہوا تو عرض کی، کتنا اچھا ہو ا جو آپ نے اس رات عوام سے ملاقات پر ہمارے اصرار کو قبول نہیں فرمایا ورنہ اگر لوگوں کےساتھ ملاقات کی خبر جار ی ہوجاتی اور لوگ آپ سے ملاقات کے لیے آجاتے اور اس وقت آپ اس حالت میں لوگوں سے ملاقات نہ کر پاتے تو اس کا دنیا میں منفی انداز میں پرو پیگنڈا کیا جاتا۔ آپ نے بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا ۔ انہوں نے میری بات کے جواب میں فرمایا: جہاں تک میں سمجھا ہوں ، ایسا لگتا ہے کہ انقلاب کےآغاز سے اب تک ایک غیبی ہاتھ ہے جو تمام کاموں میں ہماری رہنمائی اور پشتپناہی کررہا ہے۔عوام اور شہداء کے خاندانوں کے جذبات اور محاذ جنگ پر مجاہدین کا خلوص امام(رہ) کی حالت دگرگوں کئے دیتا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ امام(رہ) کو ، مجالس اور ذکر مصائب سید الشہدا کے علاوہ، روتے دیکھا ہے ۔ جب بھی عوام کے ایثار و قربانی کی بات امام(رہ) کے سامنے ہوتی آپ کی حالت منقلب ہوجاتی۔ مثال کے طور پر جب تہران کی نماز جمعہ کے دوران ، محاذ جنگ کی امداد کے لیے بچوں کی دی ہوئی غلقوں کو توڑا گیا تھا اور پیسوں کا ڈھیر لگ گیا، امام خمینی (رہ) اسپتال میں تھے آپ ٹی وی پر یہ منظر دیکھ کر بہت متاثر ہوئے، میں ان کے پاس تھا، مجھ سے فرمایا : تم نے دیکھا ان بچوں نے کیا کردکھایا! اور میں نے دیکھا کہ اس لمحے آپ آبدیدہ ہوگئے اور رونے لگے۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8آپ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ذکرخدا اور نمازو دعا میں مصروف رہے۔ حضرت امام خمینی(رہ) کے فرزند الحاج احمد خمینی کہا کرتے تھے: امام( خمینی رہ) اپنی حیات کے آخر دن دوپہر تک بستر پر لیٹے مسلسل نماز پڑھ رہے تھے۔ کافی دیر گزر گئی تو آپ نے پوچھا نمازظھر کا وقت ہوگیا ہے؟ میں نے کہا : جی ہاں۔ تب آپ نے ظہر اور عصر کی نماز،نوافل کے ساتھ پڑھنا شروع کی۔ نماز ختم کرنے کے بعد آپ تعقیبات میں مشغول ہوگئے اور کوما کی حالت میں جانے تک مسلسل سبحان اللہ والحمد للٌہ ولا الہ الا اللہ اللہ اکبر کہتے رہے ۔ یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے ۔ ہم اگر اپنے رہبر سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے کاموں اور کردار پر توجہ دینا چاہیے اور ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔انقلاب اسلامی کی مختلف کمیٹیوں کے اراکین سے وفاداری کا عہد لینے کی تقریب میں خطاب سے اقتباس 1989-6-8انہوں نے ہمیشہ عوام اور قوموں پر ھی بھروسہ کیا۔ بیرون ملک دورے سے قبل امام (خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ایک ایسا معاملہ درپیش تھا جس پر میں نے آپ سے کہا کہ اس معاملے پر دنیا میں ہمارے خلاف بڑا پروپیگنڈا ہورہاہے البتہ میں یہ بات ان کے علم میں لانا چاہتا تھا ورنہ مجھے بھی عالمی ہنگامہ آرائی کا کوئی خوف تھا اور نہ ہی کوئی ڈر، میں نے سارا ماجرا سنایا۔ آپ ساری دنیا کی خبروں کا بڑے قریب سے ناقدانہ جائزہ لیا کرتے تھے اور شاید عالمی خبریں دوسروں سے پہلے امام(خمینی رہ) تک پہنچ جایا کرتی تھیں ۔ امام (خمینی رہ) نے میرے جواب میں تائیدی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن قومیں ہمارے ساتھ ہیں۔ اور وہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔ اس دورے میں ہمارے ساتھ قوموں کی حمایت ایسی کھل کر سامنے آئی کہ سب حیران رہ گئے۔ بنا بر ایں آپ اپنے دوستوں کو بھی بخوبی پہچانتے تھے اور دشمنوں کو بھی، دوستوں پر اعتماد اور بھروسہ کیا کرتے تھے۔ آپ جیسے وفادار عوام ہی امام(خمینی رہ) کے سب سے بڑے دوست تھے اور امام(خمینی رہ) بھی آپ(ایرانی قوم) کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس 1989-7-15انقلاب اسلامی کے آغاز سے آج تک مسلسل ذمہ داریاں نبھانے کے دوران، امیرالمومنین (علیہ الصّلاةوالسّلام) کا وہ جملہ ہمیشہ میرے مد نظر رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں اذا اشتدّ بنا الحراق التجينا برسولاللّہ جب جنگوں میں ہمیں دشوار ترین حالات کا سامنا ہوتا تھا تو ہم دامن رسول خدا(ص) میں پناہ لیتے تھے۔ جب امیرالمومنین (صلوات اللہ علیہ) کا یہ جملہ مجھے یاد آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہ ہم پر بھی صادق آتا ہے ۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ مختلف مسائل اور مشکلات کے بارے میں دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے اور مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے اور پھر مسئلے کو امام خمینی (رہ) کی خدمت میں لے جاتے اور وہ اپنی باریک بینی، قوت ایمانی کے ذریعے مشکل کو حل کر دیا کرتے ۔ خدا گواہ ہے ،میں نے اپنی پوری زندگی میں خدا پر اس حدتک بھروسہ اور اس سے امید رکھنے والا کوئی دوسرا شخص نہیں دیکھا ہے ۔ وہ مشکلات اور گتھیاں بآسانی سلجھا دیتے تھے۔ آج وہ ہمارا سرپرست، مضبوط آسرا اور ہماری ڈھارس جو مشکلات میں ہماری پناہ گاہ تھا، ہمارے درمیان نہیں ہے ۔صدر کی تقرری کی تقریب سے قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 1989-8-3ایک(جنگی)قیدی کی ماں نے، نہیں معلوم تبریز میں یا کہیں اور، مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا اسیر تھا ، آج خبر آئی ہے کہ وہ شہید ہوگیا ہے۔ آپ امام (خمینی رہ) کی خدمت میں جائیں تو ان سے کہہ دیں کہ (میرابیٹا) آپ پر قربان، میں پریشان نہیں ہوں۔ وہ خاتون عجیب حال میں تھی ۔ میں نے دیکھا کہ وہ مجمع کو ہٹاتی ہوئی آگے آ رہی ہے۔ لوگ آنے نہیں دے رہے تھے، میں نے کہا اسے آنے دیجئے، دیکھیں یہ خاتون کیا کہنا چاہتی ہے ۔ وہ آئی اور اس نے یہ بات مجھ سے کہی ۔ اس کی اس بات سے میں بہت متاثر ہوا ۔ امام(خمینی رہ) کی خدمت میں حاضر ہوا ، پہلے تو بتانا بھول گیا، باہر آیا تو یاد آیا ، وہاں جو صاحب موجود تھے میں نے ان سے کہا کہ امام(خمینی رہ) سے کہیں کہ ایک بات رہ گئ ہے ۔ آپ (امام خمینی رہ) صحن کے دروازے پر تشریف لائے ، میں بھی وہاں گیا اور جب اس خاتون کی بات ان کو بتائی تو امام کا چہرا متغیر ہوگیا، آپ پرایسی رقت طاری ہوئي کہ مجھے پچھتاوا ہونے لگا کہ میں نے کیوں ان سے یہ بات ذکر کی۔امام خمینی کی پہلی برسی کی مہتمم کمیٹی کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے اقتباس 22-5-1990وہ اپنی ذات کےلیے کسی چیز کے خواہشمند نہیں تھے۔ الحاج احمد خمینی مرحوم جو امام(خمینی رہ) کو بہت عزیز تھے اور بارہا ہم نے امام(خمینی رہ) سے سنا کہ یہ(احمدخمینی) مجھے بہت عزیز ہیں۔ وہ امام خمینی (رہ) کی اس دس سالہ قیادت اور رہبری کے دوران ایک گھر بھی نہیں خرید سکے۔ ہم بارہا گئے اور ہم نے دیکھا ہے کہ امام(خمینی رہ) کے فرزند عزیز جناب احمد خمینی، حسینیہ (جماران میں) جہاں امام (خمینی رہ) مقیم تھے، پچھلے حصے میں واقع باغیچے کےدو تین کمروں میں رہتے تھے۔ وہ عظیم انسان اپنے لیے، دنیاوی مال ومتاع کے طالب نہیں تھے، جو تحفے تحائف انکے لیے لائے جاتے تھے وہ انہں بھی راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو کچھ ان کے پاس ہوتا اور جس کا بیت المال سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا وہ بھی بیت المال کی مد میں دے دیا کرتے تھے۔ یہ انسان کے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ اپنے عزیز ترین فرزند کو دو چار لاکھ روپئے کا گھر بھی دلانے کو تیار نہیں تھے جبکہ سخاوت کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے پاس سے کروڑں تومان ، مختلف علاقوں کی ترقی، غریبوں اور سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کردیاکرتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ بہت سے معاملات میں امام(خمینی رہ) کا ذاتی سرمایہ لوگوں پر خرچ کیا جاتا تھا۔ یہ سرمایہ وہ تحائف تھے جو امام(خمینی رہ) کے عقیدتمند اور چاہنے والے امام(خمینی رہ) کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان جس کا عزم و ارادہ قوم کےدشمنوں کو لرزہ براندام کر دیتا تھا، جو دیوار کی طرح مستحکم اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھا، جب بھی کوئي انسانی اور جذباتی مسئلہ درپیش ہوتا تو انتہائی رحمدل، مہربان انسان کامل دکھائی دیتا تھا۔ میں یہ بات پہلے بھی نقل کر چکا ہوں کہ میرے ایک سفر کے دوران ، ایک خاتوں نے مجھ سے آکر کہا تھا کہ میری جانب سے امام(خمینی رہ) سے کہہ دیجئے گا کہ میرا بیٹا جنگ میں اسیر ہوگیا تھا اور اب خبر آئی ہے کی وہ شہید ہوگیاہے۔ میرا بیٹا شہید ہوگیا ہے لیکن مجھے کوئی غم نہیں، میرے لئے آپ کی سلامتی زیادہ اہم ہے۔ مجھ سے یہ بات اس خاتون نے انتہائی جذباتی انداز میں کہی تھی۔ میں جب امام(خمینی رہ) کی خدمت حاضر ہوا، امام (خمینی رہ) کھڑے تھے میں نے یہ بات ان سےکہہ دی، میں نے دیکھاکہ استقامت و وقار کا وہی کوہ گراں، اس طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جیسے کوئي تناور درخت توفان کے باعث ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کی روح اس خاتون کی اس بات سے شدید طور پر متاثر ہوئی تھی۔ نماز جمعہ کے خطبات سے اقتباس1999-6-4ایک رات، خصوصی میٹنگ کے دوران، الحاج احمد خمینی مرحوم اور دیگر دو تین افراد کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا۔ امام بھی تشریف فرما تھے۔ ہم میں سے کسی نے کہا: امام آپ روحانی مقام پر ہیں، منزل عرفان پر فائز ہیں ، ہمیں کچھ نصیحت کیجئے اور رہنمائی فرمائیے۔ اس عظیم انسان نے جو روحانیت و معنویت کی اس عظیم منزل پر فائز تھے، ایک شاگرد کے اس مختصر سے تعریفی جملے پر (البتہ ہم سب امام کے شاگرد اور ان کے بیٹوں کی مانند تھے اور وہ بھی ہمارے ساتھ باپ جیسا سلوک کیا کرتے تھے) شرمندگی اور انکساری میں ایسے ڈوب گئے کہ ہم سب کو بڑی تعجب ہوا۔ در حقیقت یہ بات کہہ کر ہم خود ہی شرمندہ ہوگئے۔ نماز جمعہ کے خطبے سے اقتباس 1999-6-4