قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گیارہ فروردین سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکتیس مارچ دو ہزار دس کو جنوبی علاقے دشت عباس میں مقدس دفاع سے متعلق ایرانی جوانوں کے فوجی آپریشن فتح المبین کی یادگار کا دورہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ نے پہلی فروردین سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اکیس مارچ دو ہزار دس کو مشہد مقدس میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان سے اجتماع سے خطاب کیا۔
فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں نے 19 / 11 / 1388 ہجری شمسی مطابق 8 / 1 / 2010 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ یہ سالانہ ملاقات انیس بہمن تیرہ سو ستاون ہجری شمسی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ہاتھوں پر فضائيہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں کی بیعت کی مناسبت سے ہوتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بائيس آذر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تیرہ دسمبر دو ہزار نو کو طلبا اور علمائے کرام کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں عید مباہلہ، ماہ محرم اور دینی تعلیمی مرکز اور یونیورسٹیوں کے اتحاد کے قومی دن کی مناسبتوں کا ذکر کیا اور ان کے تعلق سے انتہائی اہم نکات بیان فرمائے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پندرہ آذر سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چھے دسمبر سن دو ہزار نو عیسوی کو عید غدیر کے دن مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے عظیم الشان اجتماع سے اپنے خطاب میں واقعہ غدیر کو تاریخ اسلام کا انتہائی اہم اور فیصلہ کن واقعہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چار آذر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پچیس نومبر دو ہزار نو کو ہفتہ رضاکار کے موقع پر ملک کے مختلف علاقوں سے تہران آکر آپ سے ملاقات کرنے والے ہزاروں رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب میں رضاکاروں کی تاریخ اور گراں قدر خدمات کی جانب اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھے آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھائیس اکتوبر دو ہزار نو کو ملک کے دانشوروں اور یونیورسٹی طلبا کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے انتہائی بصیرت افروز نکات بیان فرمائے۔
ایران کے ادارہ حج کے عہدہ داروں اور اہلکاروں نے حج پر روانگی سے قبل چار آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چھبیس مئی دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے قرآن کے سلسلے میں تحقیق و تصنیف میں مصروف خواتین کے اجتماع سے خطاب میں اس عالمانہ تحریک کی قدردانی کی اور اسے بقیہ اسلامی ممالک اور مسلم معاشروں کے لئے نمونہ عمل قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتیس شہریور تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق 20 ستمبر دو ہزار نو کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری برابر بیس شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق گیارہ ستمبر سن دو ہزار نو عیسوی کو تہران یونیورسٹی میں مرکزی نماز جمعہ پڑھائی۔
پندرہ رمضان المبارک سن چودہ سو تیس ہجری قمری، چودہ شہریور سن تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پانچ ستمبر دو ہزار نو عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کی موجودگی میں شعرا کی ایک نشست منعقد ہوئی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 4-6-1388 ہجری شمسی مطابق 26-8- 2009 عیسوی کو ملک کے طلبہ اور علمی شخصیات کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں ملک کے داخلی حالات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
بارہ مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تین اگست دو ہزار نو کو ڈاکٹر احمدی نژاد کے صدارتی حکم کی توثیق کی تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب سے ڈاکٹر احمدی نژاد نے اپنے خطاب میں اپنے دوسرے دور صدارت کی ترجیحات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پانچ مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق ستائیس جولائی دو ہزار نو کو اپنے دفتر کے کارکنان اور دفتر کی حفاظت پر مامور اہلکاروں اور ان کے اہل خانہ سے اپنی سالانہ ملاقات میں کچھ دلچسپ باتیں بیان کیں اور اہم ہدایات دیں۔
تہران میں منعقدہ تلاوت کلام پاک کے عالمی مقابلے کے شرکاء سے تین مرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق پچیس جولائی دو ہزآر نو کو اپنے اہم خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے قرآن کو صرف محفل قرآن اور آنکھوں اور کانوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے متن زندگی اور قلب کی گہرائیوں میں اتارے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
بعثت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے انتیس تیر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بیس جولائی دو ہزار نو کو ایک اجتماع سے خطاب کیا۔
سات تیر تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھائيس جون دو ہزار نو کو قائد انقلاب اسلامی سے عدلیہ کے سربراہ اور دیگر عہدہ داروں نیز اسی دن رونما ہونے والے سانحے کے شہدا کے پسماندگان نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے ملک میں عدلیہ کی اہمیت اور اس ادارے کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے جج صاحبان کے لئے خاص ہدایات دیں۔
بارہ جون دو ہزار نو کو ملک میں ہونے والے دسویں صدارتی انتخابات کے بعد جب دارالحکومت تہران میں انتخابی نتائج کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے اور مغربی سیاسی و تشہیراتی حلقوں نے اپنی منصوبہ بند چالیں تیز کر دیں تو غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہونے لگی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چودہ خرداد تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق چار جون دو ہزار نو عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی برسی کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سامراج کی مخالفت کے قومی دن یعنی تیرہ آبان مطابق چار جون سے ایک روز قبل بارہ آبان تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تین جون دو ہزار نو کو شہدا کے خاندانوں اور طلبا کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چوبیس مئی دو ہزار نو کو تہران میں دو یا اس سے زیادہ شہدا کا داغ اٹھانے والے خاندانوں سے ملاقات کی اور اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے لئے شہدا کی قربانیوں اور ان کے اہل خاندان کے صبر و ضبط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ کردستان کے اپنے دورے کے آخری دن منگل انتیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انیس مئی دو ہزار نو کو شہر سقز کے عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق اٹھارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے شہر بیجار میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران چھبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق سولہ مئی دو ہزار نو کو شہر مریوان کا دورہ کیا اور شہر کے عوام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مقامی افراد کی صفات و خصوصیات بیان کیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے چوبیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق، چودہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کی علمی شخصیات، مفکرین اور دانشوروں کے اجتماع سے خطاب کیا
قائد انقلاب اسلامی نے صوبہ کردستان میں بدھ تیئيس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق تیرہ مئی دو ہزار نو عیسوی کو مسلح فورسز کی ایک مشترکہ تقریب سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں مسلح فورسز کے خاص کردار کی وضاحت کی اور ساتھ ہی دشمنوں کی سازشوں اور سرگرمیوں کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار اور جوابی کاروائی کے لئے تیار رہنے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی سن دو ہزار نو عیسوی کو صوبہ کردستان کے اپنے سفر کے دوران صوبے کے شہدا کے خاندانوں اور مسلط کردہ جنگ میں ملک کے دفاع کے لئے جان کی بازی لگا دینے والے ایثار پیشہ افراد سے ملاقات میں شہادت کے بلند مرتبے کو بیان کیا اور ساتھ ہی کردستان کے شہدا اور ان کے خاندانوں کو ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ مظلوم اور ستم رسیدہ قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق بارہ مئی دو ہزار نو کو صوبہ کردستان کے دورے کے موقع پر شیعہ سنی، علما و طلبہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے نو اردیبہشت تیرہ سو اٹھاسی ہجری شمسی مطابق انتیس اپریل دو ہزار نو کو یوم محنت کشاں، یوم استاد اور نرس ڈے کی مناسبت سے تینوں طبقوں سے اپنی ملاقات میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پندرہ اپریل دو ہزار نو کو امام حسین علیہ السلام ڈیفنس یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظام میں مسلح فورسز کے کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے دشمن سے ہرگز مرعوب نہ ہونے پر تاکید کرتے ہوئے اسلامی نظام کے سپاہیوں کی روحانی ہیبت کو دشمن کے مادی رعب و دبدبے سے زیادہ موثر قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پچیس اسفند تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق پندرہ مارچ دو ہزار نو عیسوی کو ہفتہ اتحاد کی مناسبت سے مختلف عوامی طبقات، ملک کے اعلی حکام اور مسلم ممالک کے سفیروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تہران مین فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب میں مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم ترین نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جب قفقاز، بالکان اور جنوب مغربی ایشیا کے ممالک اسی سال تک اپنی حقیقی شناخت سے محرومی اور سابق سویت یونین کا حصہ رہنے کے بعد اپنی شناخت دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں تو فلسطین کی حقیقی شناخت کی بازیابی کیوں نہیں ہو سکتی۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب پیش نظر ہے:
انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ہجری شمسی مطابق اٹھارہ فروری انیس سو اٹھہتر عیسوی ایران کے اسلامی انقلاب کے تعلق سے یادگار تاریخ ہے۔ اس دن صوبہ مشرقی آذربائیجان کے شہر تبریز کے عوام نے چالیس روز قبل انیس دی کو قم میں شاہی کارندوں کے حملے میں شہید ہونے والے مظاہرین کا چہلم منایا۔ یہ چہلم در حقیقت انقلاب کی تحریک میں بہت موثر ثابت ہوا۔ اہل تبریز کے اس اقدام سے انیس دی کے واقعے کی یاد تازہ ہو گئی اور اس واقعے میں شہید ہونے والوں کا خون رائگاں جانے سے بچ گيا۔ اہل تبریز کے اس اقدام کا پورے ملک پر اثر پڑا اور تحریک انقلاب کو وسعت ملی۔ اسی یادگار اور تاریخ ساز واقعے کی مناسب سے قائد انقلاب اسلامی نے مشرقی آذربائیجان کے عوام سے اپنی ملاقات میں واقعے کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ملاقات حسب سابق تہران میں انجام پائی۔ تفصیلی خطاب پیش نظر ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
عزیز بھائيو اور بہنو! خوش آمدید۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمیں آج یہ توفیق نصیب ہوئی کہ اس حسینیہ میں (صوبہ) آذربائیجان اور (شہر) تبریز کے با پاکیزہ صفت عوام، عزیز نوجوانوں اور شہدا کے اہل خانہ کی روحانیت و معنویت اور صفائے باطنی نے حسین ابن علی علیہ الصلاۃ و السلام کے تذکرے سے ہمیں بھی صفائے باطنی عطا کر دی۔ اس صفا وپاکیزگی اور قلبی توجہ نے جو اہل تبریز میں ہمیشہ نمایاں رہتی ہے، ہماری زندگی و اس مقام و ماحول کو منور کر دیا۔
یہ بڑا با معنی حسن اتفاق ہے کہ آج چہلم(سید الشہدا) بھی ہے اور انتیس بہمن کا واقعہ بھی چہلم ہی کا ایک واقعہ ہے۔ کربلا کا چہلم ایک شروعات تھی۔ جب کربلا کا واقعہ رونما ہو گیا، وہ بھیانک المیہ سامنے آ گیا اور اس مقام پر امام حسین علیہ السلام، آپ کے اصحاب و اقربا نے بے مثال فداکاری و ایثار کا مظاہرہ کر دیا تو اب باری تھی اسیروں کی کہ وہ پیغام کو عام کریں اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا اور حضرت سید سجاد علیہ السلام کی حق بیانی، خطبے اور انکشافات، طاقتور ذرائع ابلاغ کی مانند واقعے، اس کے اہداف، اس کے رخ اور (اس کے پیچھے کارفرما) فکر کو وسیع پیمانے پر مشتہر کرتے، اور ایسا ہی ہوا۔ گھٹن کے ماحول کی ایک خاصیت یہ ہوتی ہے کہ اس میں عوام جن حقائق سے آگاہ ہو چکے ہیں انہیں عملی طور پر ظاہر کرنے کی جرئت و ہمت جٹا نہیں پاتے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ظالمانہ و استبدادی نظام اس کا موقع ہی نہیں دیتا کہ عوام کچھ سمجھ پائیں، اور اگر بات اس کے کنٹرول سے نکل جائے اور عوام اس سے باخبر ہو جائیں تو وہ عوام کو ہرگز یہ موقع نہیں دیتا کہ اس (حقیقت) پر عمل کریں۔ کوفے میں، شام میں اور راستے میں(دیگر مقامات پر) بہتوں نے حضرت زینب کبری سلام اللہ علیھا یا حضرت سید سجاد علیہ السلام یا دیگر اسیروں کو دیکھ کر بہت کچھ سمجھ لیا تھا۔ لیکن کس میں جرئت تھی اور کس میں یہ طاقت تھی کہ جو سمجھ گیا تھا اسے اس ظالمانہ، استکباری و استبدادی نظام اور رعونت کےسامنے (عملی طور پر) ظاہر کرتا؟ (حقیقت) گلے میں اٹک کر رہ گئی تھی۔ چہلم کے دن پہلی بار یہ باہر نکلی۔
سید ابن طاؤس اور دیگر بزرگوں نے لکھا ہے کہ جب اسیروں کا قافلہ یعنی جناب زینب سلام اللہ علیھا اور بقیہ اہل حرم چہلم کو کربلا پہنچے تو وہاں صرف جابر ابن عبد اللہ انصاری اور عطیہ عوفی ہی موجود نہیں تھے بلکہ بنی ہاشم کے کچھ مرد کچھ افراد اور کچھ عقیدتمند بھی سید الشہدا کی تربت پر جمع تھے۔ وہ زینب کبری کے استقبال کے لئے آئے تھے۔ حضرت زینب کبری نے شام سے واپسی کے سفر میں کربلا جانے پر جو تاکید فرمائی شائد اس کا مقصد یہی رہا ہو کہ اس مقام پر چھوٹا سا ہی سہی لیکن با معنی اجتماع ہو۔ بعض افراد نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اربعین تک کیسے ممکن ہے کہ وہ لوگ کربلا پہنچ جائیں۔ تاہم آیت اللہ قاضی شہید نے اپنی تفصیلی تحریر میں اسے ثابت کیا ہے۔ بہرحال بزرگوں کی کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ جب حضرت زینب کبری اور اہل حرم کربلا پہنچے تو عطیہ عوفی، جناب جابر بن عبد اللہ انصاری اور بنی ہاشم کے کچھ لوگ وہاں موجود تھے۔ یہ اس ہدف کی تکمیل کی نشانی تھی جس کے لئے جام شہادت نوش کیا گيا۔ یعنی لوگوں میں جرئت(اظہار) پیدا کرنا۔ یہیں سے توابین کا ماجرا شروع ہوا۔ حالانکہ توابین کی تحریک کچل دی گئی لیکن کچھ دنوں میں حضرت مختار اور کوفہ کے دیگر دلاوروں کے قیام کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نتیجتا ظالم بنی امیہ کی بساط سمیٹ دی گئی۔ ویسے اس کے بعد مروانیوں کا سلسلہ حکومت شروع ہو گیا لیکن جد و جہد اور قیام کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ کیونکہ راستہ کھل چکا تھا۔ یہ ثمرہ تھا چہلم کا۔ گویا چہلم میں انکشاف و افشاء بھی ہے، پیغام عمل بھی ہے اور افشاء کے اہداف کی تکمیل بھی اسی چہلم میں ہے۔
تبریز میں بھی یہ واقعہ بعینہ رونما ہوا۔ میں اس سے قبل بھی اہل تبریز کی خدمت میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر انتیس بہمن کا واقعہ رونما نہ ہوتا یعنی شہدائے قم کی یاد اہل تبریز کے ذریعے اس فداکاری و ایثار کے ساتھ تازہ نہ کر دی گئی ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ جد و جہد اور تحریک کا رخ کچھ اور ہو جاتا۔ بہت ممکن تھا کہ یہ عظیم واقعہ جو اس انداز سے رونما ہوا ، رونما نہ ہوتا۔ یعنی انتیس بہمن کا اہل تبریز کا قیام فیصلہ کن تھا۔ قم میں بہنے والے خون اور قم کی تحریک کے بنیادی مقصد کو تبریز کے واقعے نے تازہ و زندہ رکھا۔ ظاہر ہے عوام کو اس کی قیمت چکانی پڑی، عوام نے اپنی جانیں، اپنا چین و سکون، اپنی سلامتی و تحفظ، سب کچھ قربان کر دیا۔ ہاں اس کا ثمرہ ملک گیر بیداری کی صورت میں ملا۔ قم کی واقعے کا چہلم (تبریز میں) منایا گیا۔ انتیس بہمن کے شہدائے تبریز کے چہلم کے تسلسل میں کئی چہلم منائے گئے۔ اس سے تحریک کے پھیلاؤ اور ہمہ گيری کا اندازہ ہوتا ہے۔ صحیح تحریک کی یہی خاصیت ہے۔
خیر یہ تو ایک تاریخی گفتگو تھی جس کا تعلق ماضی سے ہے۔ انتیس بہمن سن تیرہ سو چھپن کو تبریز میں رونما ہونے والے اس واقعے کو اکتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اکتیس سال بہت ہوتے ہیں۔ اس وقت یہاں تشریف فرما حضرات میں بہت سے لوگ شائد اس وقت پیدا بھی نہ ہوئے ہوں اور اگر موجود تھے تو بہت چھوٹے تھے، بچے تھے، سمجھنے سے قاصر تھے۔
جب کوئی واقعہ اچھی نیت اور صحیح طرز فکر کی بنیاد پر رونما ہوتا ہے تو اس میں کچھ سبق آموز باتیں ہوتی ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتیس بہمن کے واقعے سے تین درس ملتے ہیں؛ نمبر ایک آگاہی و بیداری و عدم غفلت کی کیا تاثیر ہے۔ دوسرے جرئت عمل اور تیسرے مستقبل کے سلسلے میں بھرپور امید رکھنا اور سختیوں اور خطرات کو خاطر میں نہ لانا۔ یہ تین درس ہیں۔ سب سے پہلی منزل فہم و ادراک کی ہے۔ بہت سے افراد نے حالات کی اہمیت کو نہیں سمجھا، لیکن اہل تبریز نے حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور پھر (مناسب) اقدام کیا۔ حالات کی اہمیت و نزاکت کا ادراک اور یہ عقلمندی بہت اہم چیز ہے۔ جب حالات کی نزاکت کا اندازہ ہو جائے تو جرئت عمل کی ضرورت پیش آتی ہے، یہ دوسرا نکتہ ہے۔ اس کے بعد یہ ضروری ہوتا ہے کہ اقدام پوری امید، ذات الہی پر توکل و اتکاء اور اللہ تعالی کی ذات سے بھرپور توقعات وابستہ کرکے انجام دیا جائے۔ یہ انتیس بہمن کی بعض سبق آموز باتیں ہیں۔
عوام میں اگر اللہ کی ذات پر ایمان نہ ہوتا، اگر دریائے ایمان لوگوں کے دلوں میں موجزن نہ ہوتا تو واقفیت و آگاہی پیدا ہوکر بھی رائگاں جاتی، اس سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ کیونکہ عملی اقدام انجام نہ پاتا۔ لوگوں کی قوت ایمانی، عوام کی ہوشیاری، بر وقت اقدام، ان ساری چیزوں کا بڑا اہم کردار رہا۔ تو یہ ہمارے لئے درس ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ واقعات کا توجہ اور دانشمندی سے جائزہ لینا چاہئے۔ بہت سی قومیں حساس مواقع پر بر وقت نزاکتت کا ادراک نہ کر سکیں، ان پر حوادث کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، سانحے گزر گئے لیکن وہ غافل ہی رہیں اور حوادث نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ جس وقت رضاخان کی رعونت کے مقابلے مین بعض علما اٹھ کھڑے ہوئے تھے اگر عوام نے اس وقت ان کا ساتھ دے دیا ہوتا۔ اگر لوگوں کو اندازہ ہو جاتا کہ حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اور وہ قیام کرتے تو شاید آج ہماری قوم پچاس سال آگے ہوتی ہے اور پٹھو طاغوتی پہلوی حکومت کے پچاس سالہ دور کے انحطاط و تنزلی کا سامنا ملک کو نہ کرنا پڑتا۔ غفلت کے نتیجے میں لوگ ان خساروں کو تحمل کر لیتے ہیں۔ بنابریں غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ جس وقت اس ملک میں امریکیوں نے بغاوت کروائی تھی، جو انیس سو ترپن میں امریکہ اور برطانیہ کی مشترکہ سازش کے نتیجے میں ہوئی تھی اگر وقت کی نزاکت کو سمجھ لیا گيا ہوتا اور مناسب اقدام کیا جاتا تو ملک کو یہ خسارہ نہ ہوتا۔ واقعات پر باریک بینی سے نظر رکھنا چاہئے۔
اس وقت ہماری قوم اپنے سامنے ایک بہت بڑے محاذ کا مشاہدہ کر رہی ہے جہاں سے پوری توانائی کے ساتھ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کی سامراج مخالف ماہیت کا خاتمہ ہو جائے۔ انقلاب کی کامیابی کے اوائل سے ہی اس محاذ کی یہ کوشش رہی کہ انقلاب کے بطن سے ظہور پذیر ہونے والا اسلامی نظام قائم و دائم نہ رہ سکے۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ اسلامی جمہوری نظام کا نشو نما نہ ہو سکے۔ البتہ یہ کوششیں ناکام رہیں۔ سیاسی کوششیں کی گئیں، اقتصادی ناکہ بندی کی گئی، اس قوم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی گئی، اس قوم کے دشمنوں کو مسلح کیا گیا، ساز و سامان دیا گيا، اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف داخلی فتنے بھڑکائے گئے لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ وہ(دشمن) بھی اسی نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی نظام کو سرنگوں کرنا ناممکن ہے، کیونکہ اس کی پشتپناہی اور حمایت کے لئے مومن عوام سینہ سپر ہیں۔ دسیوں لاکھ مومن عوام نے اس نظام کی پاسبانی کی ہے۔ یہ صرف حکام اور حکومت کا معاملہ نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نظام چند افراد پر قائم ہوتا ہے اور ایک مخصوص طبقے کو اس سے فیض پہنچ رہا ہوتا ہے، ایسے نظام سے سامراج کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن کوئی نظام ایسا بھی ہوتا ہے جس کا پورا دارومدار عوام کے ایمان و ایقان پر ہوتا ہے، اس کی تکیہ گاہ عوام کے قلوب ہوتے ہیں، اسے عوام کی بھرپور پشتپناہی حاصل ہوتی ہے، ایسے نظام کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ سامراجی قوتوں کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ یہی جلوس اور ریلیاں، یہی اس سال (بائيس بہمن مطابق گیارہ فروری) کی عوامی ریلیاں بڑے پر شکور اور عظیم پیغام کی حامل تھیں۔ سائنسی ترقی، مختلف میدانوں میں نوجوانوں کی پیش قدمی، ماضی سے بھی زیادہ جذاب اور موثر واقع ہونے والے انقلاب کے نعرے، اب کوئی بھی عہدہ دار اسلامی انقلاب کے نعروں کے تعلق سے کسی پشیمانی اور خفت کا احساس نہیں کرتا بلکہ حکام ان نعروں پر نازاں ہیں۔ خود مختاری، آزادی، اسلام، اس معتبر اور با معنی آئين پر افتخار کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نظام کو کوئی ہلا بھی نہیں سکتا۔ دشمن اس نتیجے پرپہنچ چکا ہے کہ اس نظام کو جہاں تک ممکن ہے اندر سے کھوکھلا کیا جائے۔ یہ ثقافتی یلغار جس کی جانب میں نے کئی سال قبل اشارہ کیا تھا، یہ ثقافتی شبخون جس کے آثار مختلف میدانوں میں محسوس کئے جاتے تھے اور آج بھی نظر آ رہے ہیں۔ ان کے پیچھے یہی نیت اور یہی خواہش کارفرما ہے کہ انقلاب کو اس کی روح اور اس کی دینی و اسلامی ماہیت سے تہی کر دیا جائے، جدا کر دیا جائے۔ یہ بھی ان نازک مواقع میں سے ایک ہے جس کے سلسلے میں عوام کی ہوشیاری و بیداری لازمی ہے۔ یہ بھی انتیس بہمن کے واقعے کی مانند ہے۔ بہت سے افراد انتیس بہمن کے واقعے کی نزاکت کو محسوس نہیں کر سکے تھے، لیکن آپ اہل تبریز نے اس کا ادراک کیا اور عملی طور پر بھی اپنے اس فہم و ادراک کو ثابت کیا۔ یہ چیز دائمی ہے۔ عوام کو واقعات و حالات کی حساسیت و نزاکت کا مکمل ادراک ہونا چاہئے اور بحمد اللہ آج قوم اس نزاکت سے پوری طرح واقف بھی ہے۔ عوام پوری طرح بیدار ہیں۔ یہ بھی اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کا ثمرہ ہے۔ عوام بیدار ہو چکے ہیں، ان میں تجزیاتی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔
آپ یقین جانئے کہ اب اسلامی نظام کے دشمن اس کی مستحکم بنیادوں کے سامنے خود کو عاجز پاتے ہیں۔
ان کی کوشش یہ ہے کہ گوناگوں حربوں کے ذریعے اس انقلاب کا حصہ رہ چکے افراد کے توسط سے انقلاب کو اندر سے رفتہ رفتہ کھوکھلا کردیں۔ اسلامی جمہوریہ بس نام کا اسلامی جہموریہ رہ جائے، یہ برائے نام انقلابی نظام رہ جائے اس میں انقلاب و اسلام کی روح کا کہیں کوئی نام و نشان نہ رہے۔ خالی نام کی کیا ارزش؟ روح ضروری و لازمی ہے۔ میرا اور آپ سب کا فریضہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی روح اور انقلاب کے با ارزش اصولوں کی حفاظت کریں اور ان با ارزش بنیادوں اور اعلی قدروں کو نظر انداز نہ ہونے دیں۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کا یاور و مددگار ہے جو اس پر ایمان کے ساتھ قدم بڑھا رہے ہیں اور اپنی انسانی طاقت و توانائی کو کسی اہم ہدف کے لئے صرف کر رہے ہیں۔ مقدس اہداف کی راہ میں قدم بڑھانے والے افراد کی اللہ تعالی نصرت و اعانت کرتا ہے۔ جب بھی ہم نے شکست کھائی اور جب بھی ہم اللہ تعالی کی نصرت سے محروم ہوئے اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے صحیح کام انجام نہیں دیا۔ ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ اگر ہم اپنا فریضہ ادا کریں گے تو اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا۔ وہ فرماتا ہے اوفوا بعھدی اوف بعھدکم تم میرے ساتھ کیا گیا عہد و پیمان پورا کرو تو میں بھی اس عہد و پیمان کو پورا کروں گا۔ معلوم ہوا کہ مسئلہ دوطرفہ ہے۔ اللہ نے، جو ہماری جان کا مالک اور تمام عطیات کا سرچشمہ ہے، ہم سے دو طرفہ عہد و پیمان باندھا ہے کہ تم اس پر عمل کرو میں بھی اس پر عمل کروں گا۔ یعنی اللہ تعالی نے یہ وعدہ کیا ہے۔ اب اگر ہم نے اپنے فریضے پر عمل نہ کیا تو ہم اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی توقع بھی نہیں رکھ سکتے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ میدان عمل و اقدام میں پیش پیش رہنے والی قوم ہے۔ تیس سال تک ہمارے دشمن یہی آس لگائے رہے کہ یہ قوم انقلابی نعروں کو فراموش کر دے گی لیکن تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج آپ، عوام کے اجتماعات، ان کے خیالات اور ان کے نعروں کو دیکھئے تو یہ وہی اوائل انقلاب کے نعرے اور خیالات ونظریات ہیں۔ یہ صراط مستقیم پوری طرح محفوظ رہا۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ تاریخ کے دیگر متعدد انقلابوں میں یہ خصوصیت نظر نہیں آتی۔ یہ اللہ تعالی اور اسلام پر ایمان و عقیدے کا ثمرہ ہے۔ انقلاب کے نعروں کی پاسداری و پاسبانی کی جانی چاہئے۔ نوجوانوں کو خاص طور پر اس کی قدر کرنا چاہئے۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل اوائل انقلاب کی نوجوان نسل کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار اور با صلاحیت ہے۔ اس وقت احساسات کا غلبہ تھا تو آج فکر و نظر کی بالادستی ہے، صرف احساسات نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ احساسات و جذبات نہ ہوں، جذبات بھی ہیں لیکن فکر و نظر کے ہمراہ، صحیح ادراک اور جذبہ عمل کے ہمراہ۔
پروردگارا! ہمارے شہدا کی ارواح کو پیغمبر اسلام کے ساتھ محشور فرما، ہمارے بزرگوار امام(خمینی رہ) کو جو اس عظیم تحریک کی روح رواں ہیں اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرمایا۔ ہمیں اسی راہ کے سپاہیوں اور اسی مقدس ہدف کے جاں نثاروں میں قرار دے۔ اللہ تعالی آپ سب بھائیوں بہنوں کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
انیس بہمن تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق سات فروری دو ہزار نو عیسوی کو فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے اپنی ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے انیس بہمن کے یادگار دن اور اس دن انجام پانے والے فضائیہ کے دانشمندانہ اقدام پر روشنی ڈالی۔
26 جنوری کا دن اسلامی انقلاب کی تاریخ کا ایک اہم ترین دن ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض عناصر نے عوام کی حمایت کے نام پر قوم کو گمراہ کرنے اور اسلامی جمہوری نظام سے برگشتہ کرنے کی کوششیں کیں جبکہ عوام نے بے مثال اکثریت سے ملک کے لئے اسلامی جمہوری نظام کا انتخاب کیا تھا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس دی 1356 ہجری شمسی مطابق 9 جنوری 1978 کے واقعے کی سالگرہ کے موقع پر مقدس شہر قم سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ستائيس آذر تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق سترہ دسمبر دو ہزار آٹھ عیسوی کو عید سعید غدیر کی مناسبت سے مختلف شعبہ ہای زندگی سے وابستہ افراد کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے واقعہ غدیر کے رموز اور اس میں پوشیدہ درس کی جانب اشارہ کیا۔