قائد انقلاب اسلامی نے چوبیس آذر تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق چودہ دسمبر دو ہزار آٹھ کو تہران کی معروف علم و صنعت یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں ملک کے لئے علم و صنعت یونیورسٹی اور طلبا کی اہم خدمات اور ان کے اہم فرائض پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی نے بدھ انیس نومبر سن دو ہزار آٹھ کو تہران میں نماز کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات میں نماز کی اہمیت پر تاکید فرمائی آپ نے نماز کو صحیح طور پر ادا کرنے اور اس کے قالب و روح پر توجہ دینے کی ہدایت کی اور معاشرے میں نماز جیسی دینی علامتوں کے نمایاں رہنے کو ضرور قرار دیا۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ پانچ نومبر دو ہزار آٹھ کو ادارہ حج کے عہدہ داروں اور ملازمین سے ملاقات میں فریضہ حج کے مختلف سیاسی، ثقافتی، سماجی اور معنوی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور حاجیوں کے لئے ضروری سہولیات بہم پہنچائے جانے کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس اکتوبر دوہزار آٹھ کو امام علی علیہ السلام یونیورسٹی سے وابستہ آرمی کالج کے طلبا کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کا معائنہ فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بدھ پہلی اکتوبر دو ہزار آٹھ کوعید فطر کے دن ملک کے اعلی حکام کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی اور اہم سیاسی، سماجی اور معنوی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں امت مسلمہ، پوری دنیا کے مسلمانوں، عزیز و قابل احترام ملت ایران اور آپ حاضرین کرام کو اس عظیم اسلامی عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ عید فطر کو امت مسلمہ کے لئے حقیقی عید قرار دے اور مسلمانوں کو اس درخشاں مستقبل سے جو اس کے انتظار میں ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے قریب کرے۔
آپ حضرات، ہمارے ملک کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے ماہ رمضان میں الہی دسترخوان سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس مہینے میں ذکر و تسبیح، دعا و مناجات ، توبہ و استغفار، خضوع و خشوع اور تقرب الہی کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ روزے کے عالم میں ضبط نفس سے بندگان خدا کے لئے الہی نعمتوں سے فیضیاب ہونے کی زمین ہموار ہوتی ہے۔ یہ ضیافت الہی ہے جس میں مسلمانوں کا وجود ذکر الہی اور مناجات کی لذتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ لوگ اپنی حقیقی فطرت سے نزدیک ہوتے ہیں، قوت ارادی بڑھتی ہے اور لوگوں کے تقوی میں اضافہ ہوتا ہے جو ان کا سب سے اہم اور ضروری توشہ راہ ہے۔
میں عرض کروں کہ اس وقت مسلمانوں اور امت مسلمہ کو تقوے کے ذخیرے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب امت مسلمہ مستقبل سے نا امید تھی۔ عالم اسلام کے مفکرین بیٹھ کر مسلمانوں کے تاریک مستقبل اور بد بختی کا مرثیہ پڑھتے تھے۔ سید جمال الدین اور دیگر برجستہ مفکرین اور علمی شخصیات کی تصنیفات میں صاف نظر آتا ہے کہ یہ افراد بیدار ہو چکے تھے اور مسلمانوں کی حالت زار پر حقیقی معنی میں مرثیہ پڑھ رہے تھے۔ عالم اسلام کے افق پر تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کہیں سے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ تازہ دم سامراجی طاقتیں مسلمانوں کی سرزمین پرقدم جما چکی تھیں اور اسلامی حکومتوں کی نکیل ان کے ہاتھ میں آ گئی تھی۔ ان طاقتوں نے ہم مسلمانوں کی غفلتوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں کا مستقبل روز بروز تاریک سے تاریک تر ہوتا گیا۔ تو ایک ایسے دور سے امت مسلمہ گزری ہے۔ لیکن آج حالات بدل چکے ہیں۔ وہ تاریک افق اس وقت روشنی میں نہائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے جس گوشے میں بھی مسلمان آباد ہیں خواہ ایک قوم کی حیثیت سے یا مذہبی اقلیت کی شکل میں، اپنے مستقبل کو پر امید نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان میں یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ وہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ عالم اسلام کے دشمن یعنی وہی سامراجی طاقتیں، تسلط پسند عناصر اور خود غرض حکومتیں یعنی وہ لوگ جو پرکشش اور گمراہ کن نعروں کے ذریعے مسلم ممالک میں پیر جمائے ہوئے ہیں عالم اسلام کی بد بختی کے لئے شب و روز سازشوں میں مصرورف ہیں۔ یہ عناصر اور یہ طاقتیں یوں تو تکنیکی اور دفاعی ترقی، تباہ کن ہتھیاروں، تشہیراتی وسائل اور مواصلاتی نظام کے لحاظ سے بہت آگے ہیں لیکن امت مسلمہ میں اٹھنے والی بیداری کی عظیم لہر نے انہیں سراسیمہ کر دیا ہے اور انہیں اپنی شکست صاف نظر آنے لگی ہے۔ عالم اسلام کی اس وقت یہ صورت حال ہے۔ اگر کوئی اسے نہیں مانتا تو در حقیقت وہ اظہر من الشمس حقائق کا انکار کر رہا ہے۔
اس وقت امت مسلمہ کے سامنے تابناک مستقبل ہے۔ دشمن عناصر اور سامراجی طاقتیں جو پوری دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتی ہیں اس وقت امت مسلمہ میں پیدا ہونے والی حرکت اور نظر آنے والی بیداری سے بوکھلا گئی ہیں۔ ان کے راستے بند ہو گئے ہیں اور یہ صورت حال اس وعدہ الہی کے پورا ہونے کی نوید دیتی ہے جس میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے؛ لينصرنّ اللَّه من ينصره انّ اللَّه لقوىّ عزيز» اسی طرح ارشاد ہوتا ہے و نريد ان نمنّ على الّذين استضعفوا فى الأرض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثين. تو یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے اور و اللَّه غالب على أمره
یہ وعدہ الہی ہے جو مسلمانوں کی بیداری اور پیش قدمی کی برکت سے بتدریج عملی جامہ پہن رہا ہے۔ ایک عظیم جہاد امت مسلمہ کا انتظار کر رہا ہے۔ یہ فوجی جہاد نہیں ہے۔ یہ سیاسی جہاد ہو سکتا ہے، فکری جہاد ہو سکتا ہے، علمی جہاد ہو سکتا ہے سماجی و اخلاقی جہاد ہو سکتا ہے۔ امت مسلمہ اس جہاد کے مختلف پہلؤوں سے رفتہ رفتہ آشنا ہوئی ہے اور ہو رہی ہے۔ آج آپ مشرق وسطی کے نہایت حساس علاقے میں دیکھیں۔ آپ کو امت مسلمہ کی پیش رفت نظر آئے گی۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے لئے ایک غمناک مسئلہ تھا لیکن آج فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے وحشی پن میں کئی گنا اضافے کے باوجود ملت فلسطین کی پیشانی سے امید کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ آج عالم یہ ہے کہ فلسطین کے غاصب اپنی سازشوں کی جانب سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اب وہ خود اعتراف کرنے لگے ہیں کہ بند گلی میں پہنچ گئے ہیں اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں ہے۔ سابق سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد خود کو دنیا کا داروغہ اور بلا شرکت غیرے مالک تصور کرنے والی امریکی حکومت آج جگہ جگہ مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسی پیچیدگیوں میں پھنس گئی ہے کہ ان سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بہانے وہ اس حساس علاقے میں آئے لیکن وہ افغانستان ہو کہ عراق، لبنان ہو کہ فلسطین جہاں بھی آپ دیکھئے امریکیوں کے منصوبے ایک ایک کرکے نقش بر آب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کامیابی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ نا امیدی کا اعلان اب وہ خود بھی کرنے لگے ہیں۔ خود اپنے منہ سے اعتراف کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال عید فطر ہی کا موقع تھا جب میں نے امت مسلمہ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ یہ لوگ جو ایناپولیس کانفرنس منعقدہ کرنا چاہتے ہیں جس میں علاقے پر زیادہ سے زیادہ تسلط اور غلبہ حاصل کرنے کے منصوبے زیر غور ہیں، شکست سے دوچار ہوگی، آج آپ خود دیکھ لیں کہ فلسطین، لبنان اور مشرق وسطی کے علاقے میں اس کانفرنس کا جو نشستند و گفتند و برخاستند کا مصداق تھی کہیں کوئی اثر دکھائی دیتا ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اور امت مسلمہ کی دشمنی کا سودا سر میں پالنے والی طاقتیں جو اس حساس علاقے پر غلبہ حاصل کرنے کے در پے تھیں اب خود محسوس کر رہی ہیں کہ ان میں ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی سکت نہیں ہے۔
میں کسی حوش فہمی میں آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہتا، ان کے سامنے اس وقت واقعی دشوارترین اور سخت ترین حالات ہیں جس کا سب مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ طاقتیں قوموں کے ارادوں کے سامنے نہیں ٹک سکی ہیں اور آئندہ بھی قوموں کے آہنیں ارادوں کے سامنے ان کی ایک نہ چلے گی۔ عراق کی دلدل میں وہ پھنسی ہوئي ہیں، افغانستان میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ اور اب پاکستان میں بھی ان کی دخل اندازی شروع ہوئي ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ہمارے اس ہمسایہ ملک میں ان کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں لیکن یہاں بھی ہزیمت ہی ان کا مقدر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قوموں میں بیداری آ چکی ہے۔ انہیں اپنے اسلامی حقوق کا علم ہے، قوموں میں استقامت کا جذبہ جوش مار رہا ہے اور انشاء اللہ یہ ارادہ اور یہ جذبہ روز بروز قوی سے قوی تر ہوگا۔
ان حالات میں امت مسلمہ کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ التفات پروردگار، امداد الہی اور تقرب الہی ہے۔ جو دل، قدرت لا یزال سے وابستہ ہو جاتا ہے وہ دشمن کی گرج اور چمک سے مرعوب نہیں ہوتا۔ اس میں کبھی بھی ضعف کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کبھی بھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ تو آزمائي ہوئی چیزیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیس سال تک طاقتور سامراج کی سازشوں اور دشمنیوں کا سامنا کرتا رہا ہے اور ایران کی مسلم قوم پوری ہمت اور قوی ارادے کے ساتھ مختلف میدانوں میں ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے اور روز بروز آگے بڑھ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا لطف و کرم ہے کہ یہ پیش روی جاری ہے اور روز بروز اس میں سرعت پیدا ہو رہی ہے۔ انشاء اللہ جلد ہی وہ دن آئے گا جب دنیا امت مسلمہ کی عظمت و وقار کی شاہد ہوگی۔
ہمیں چاہئے کہ الہی رہنمائی کی قدر کریں، الہی نعمتوں کا شکریہ ادا کریں۔ عید فطر کی اہمیت کو سمجھیں، اس عظیم عوامی اجتماع کے مقام کو پہچانیں جس میں شریک افراد کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہیں اور وہ ایک مقررہ وقت پر اپنے پروردگار سے اپنے قلوب کا رشتہ برقرار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جو مناجات کی لذتوں سے آگاہ ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے اتحاد کی حفاظت کریں، اپنی ہمت و حوصلے کو برقرار رکھیں۔
دعا کرتا ہوں کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائیں ہم سب کے شامل حال ہوں اور امت مسلمہ کا ہر آنے والا دن گزرے ہوئے کل سے بدرجہا بہتر ہو۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یکم شوال چودہ سو انتیس ہجری قمری مطابق پہلی اکتوبر سن دو ہزار آٹھ عیسوی کو تہران کی مرکزی عیدگاہ میں نماز عید فطر کی قیادت فرمائی۔ آپ نے نماز عید کے خطبوں میں مسئلہ فلسطین سمیت اہم ترین سیاسی مسائل پر روشنی ڈالی اور دینی و معنوی نکات کی جانب بھی اشارہ فرمایا۔ نماز عید فطر کے خطبوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين. الحمد للَّه الّذى خلق السّموات و الأرض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الذّين كفروا بربّهم يعدلون.نحمده و نستعينه و نؤمن به و نتوكّل عليه و نصلّى و نسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه سيّدنا أبىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيةاللَّه فى الأرضين. و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو خلق کیا اور تاریکیاں اور نور قرار دئے۔ ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں، اسی پر ایمان رکھتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم درود و سلام بھیجتے ہیں اس کے حبیب پر، تمام مخلوقات میں اس کے منتخب بندے اور اپنے سید و آقا حضرت ابو القاسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور ان کے پاک و مطہر، منتخب و برگزیدہ آل پر خصوصا روی زمین پر حجت خدا قرار پانے والے حضرت ولی عصر علیہ السلام پر ہم درود بھیجتے ہیں تمام مسلمانوں کے اماموں، مستضعفین عالم کے پشتپناہوں اور مومنین کے رہنماؤں پر۔
میں تمام بھائیوں، بہنوں اور عزیز و محترم نمازیوں کو عید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح ایران کی پوری قوم، تمام مسلمان اقوام اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی عظیم امت اسلامیہ کو(تہنیت پیش کرتا ہوں)
عید فطر کا دن دو ممتاز خصوصیتوں کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت عبارت ہےطہارت و پاکیزگی اور نظافت و صفائی کی اس حالت سے جو ماہ رمضان المبارک کی الہی اور شرعی ریاضتوں کے زیر اثر ایک مومن کے یہاں پیدا ہوئی ہے۔ چنانچہ روزہ انہی ریاضتوں میں سے ایک ریاضت ہے جو انسان اپنے پورے اختیار و ارادے کے ساتھ کئی گھنٹوں تک تمام مادی لذتوں سے پرہیز کرکے انجام دیتا ہے اور روزہ رکھ کر طویل ایام کے دوران اپنی نفسانی خواہشوں اور ہوس پر قابو رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم سے انس، کلام پروردگار کی تلاوت، قرآنی مفاہیم اور تعالیمات سے واقفیت اور اس کے ساتھ ہی ذکر و دعا اور گریہ و زاری کی یہ حالت اور وہ عشق و انس جو ایک انسان خدا وند متعال کے ساتھ ماہ مبارک کے دنوں اور راتوں میں خصوصا قدر کی مبارک شبوں میں پیدا کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں دل کو نورانیت عطا کرتی ہیں اور انسان کی روح و جان کو ایک نظافت و پاکیزگی بخش دیتی ہیں۔ چنانچہ ماہ رمضان المبارک کے یہ اہم اعمال ہمارے لئے عظیم سبق رکھتے ہیں اور ہمیں ان اسباق سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
ایک سبق یہ ہے کہ اپنے خدا کی جستجو رکھنے والے ایک انسان کا ارادہ، نفس انسانی کو اپنی جانب کھینچنے والی تمام مادی خواہشوں، لذتوں اور ہوس پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے۔ یہ نکتہ ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے کہتا ہے کہ مجھے اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ نہیں مل سکتا اور وہ خود کو ہوس اور خواہشات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ ماہ رمضان کے روزے انسان پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ کر سکتا ہے، بس ارادہ کرنے کی دیر ہے۔ اگر وہ قوی ارادے اور عزم راسخ کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے تو ہوس اور نفس پر اسے غلبہ مل سکتا ہے۔ دلوں کو اغوا کر لینے والی جلوہ سامانیاں، بری اور ناپسندیدہ عادتیں جو ہمارے اندر پائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور محکم ارادے کے ذریعے قابو میں رکھی جا سکتی ہیں اور ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ قوی و مستحکم ارادہ اور فیصلے ہمارے لئے جن کی تاثیر خود ایک بڑا سبق ہے خواہ وہ ذاتی قسم کی ناپسندیدہ عادتیں ہوں یا سماجی سطح کی برائياں ہوں جو مادی و معنوی میدانوں میں ہماری پسماندگی کا باعث ہوتی ہیں ہم کو ان سے الگ ہونے اور تمام رکاوٹوں پر غلبہ پانے کا درس دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ماہ مبارک میں انسانوں کی مدد کرنے کا جذبہ اور لوگوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ خود غرضی ایثار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوش قسمتی سے ادھر کچھ برسوں کے دوران کس قدر افراد نے نام و نمود کے بغیر مسجدوں حتی مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کے اندر روزہ داروں کی میزبانی کا اہتمام کیا۔ افطاری کے دسترخوان لگائے گئے اور لوگوں کو اس دسترخوان پر آنے کی دعوت عام دی گئی۔ یہ دعوتیں ہر طرح کے تکلفات سے عاری تھیں۔ تعاون و ہمدردی کی یہ کیفیت اور انسان دوستی کا یہ جذبہ بہت قابل قدر ہے جو انسان کی نفسانی طہارت پر منتج ہوتا ہے۔ اس مہینے میں حاجتمندوں کی بہت مدد کی گئی۔ حتی ماہ رمضان المبارک میں لوگوں نے خون کا عطیہ بھی دیا۔ جی ہاں جس وقت حکام نے اعلان کیا کہ بیماروں کے لئے تازہ خون کی ضرورت ہے، بڑی تعداد میں لوگوں نے ماہ مبارک میں خون کا عطیہ دیا۔ اسی کو کہتے ہیں خود غرضی پر جذبہ ایثار کا غالب آ جانا۔ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا۔ یقینا یہ جذبہ بڑی حد تک ماہ رمضان المبارک کی ایجاد کردہ اس معنویت کا نتیجہ ہے جو بحمد اللہ اس سال بھی گزشتہ برسوں کی مانند پوری فضا میں رچی بسی رہی۔ بلکہ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ اس سال ملک کی فضا عام طور پر ذکر و دعا اور گریہ و مناجات سے معمور رہی۔ خاص طور پر شبہای قدر کے برکتوں سے سرشار لمحات میں تمام افراد خصوصا نوجوانوں نے ذکر الہی اور دعا و مناجات سے محفلوں کو گرم رکھا۔ مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے الگ الگ طرز فکر کے افراد نے ان محافل و اجتماعات کو رونق بخشی۔ سب آئے اور سب نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے اور قلوب کو خالق یکتا کی جانب متوجہ کیا۔ یہ توجہ اور یہ ارتکاز بھی اپنی جگہ پر لطف الہی ہے۔ یہ خود پروردگار کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ ماہ رمضان المبارک کی دعائے وداع میں امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ؛ تشکر من شکرک و انت الھمتھ شکرک یعنی جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے اگرچہ شکر کا یہ جذبہ تو ہی دل میں ودیعت کرتا ہے۔ و تکافی من حمدک و انت علمتھ حمدک اور جو بھی تیری حمد کرتا ہے اس کو تو بدلا دیتا ہے حالانکہ تونے ہی اسے حمد کی توفیق دی ہے اور حمد کرنا سکھایا ہے۔ شاعر کے بقول؛
گفت آن اللہ تو لیبک ماست وان نیاز و درد و سوزت پیک ماست
(تیرا وہ اللہ کہنا ہی تو ہے میرا جواب میرے ہی قاصد ہیں سب وہ تیرے سوز و اضطراب)
در حقیقت یہی کہ تم اللہ کو آواز دیتے ہو، یہی کہ انسان اللہ تعالی سے انس رکھتا ہے، خدا سے باتیں کرتاہے ایک طرح کا لطف الہی اور توفیق پروردگار ہے جو اللہ تعالی جانب سے انسان کو عطا ہوئی ہے۔ یا اللہ کی صدا جو منہ سے نکلتی ہے وہ اجابت پروردگار کی ضمانت ہے۔ یہ معنوی لذت آپ لوگوں خصوصا نوجوانوں نے حاصل کی ہوگی۔ یہ معنوی لذت آپ نے ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک اپنے نورانی قلوب کے ساتھ محسوس کی ہے۔ اس لذت اور ذائقے کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے گا۔ اس سے محرومی نہ ہونے پائے۔ پنج وقتہ نمازیں، قرآن کی تلاوت، مسجد میں آمد و رف، دعائیں، مناجاتیں اور صحیفہ سجادیہ سے استفادہ جاری رہنا چاہئے تاکہ نورانیت و طہارت کا یہ سلسلہ جاری رہے۔ یہ عید فطر کی ممتاز خصوصیت ہے جو ماہ رمضان المبارک کے نتیجے کے طور پر ہمیں ملتی ہے۔
دوسری خصوصیت آپ کی اسی نماز سے عیاں ہے۔ عید الفطر کا دن قوم کے حقیقی اتحاد اور قلبی یکجہتی کی نمائش کا دن ہے۔ قوم کا اتحاد اور اجتماعی شکل میں حبل اللہ سے تمسک اور وابستگی وہ چیز ہے جس کی بڑی قیمت ہے۔ اس کو رمضان المبارک کے ایک درس کی حیثیت سے ہم کو خود اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بھی در حقیقت ماہ رمضان المبارک کے معنوی ثمرات ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی کی برکت سے ہم مسلمانوں اور ہم ایرانیوں کے لئے ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ہی یوم قدس کی آمد ہوتی ہے۔
یوم قدس جو عالم اسلام کے حقیقی اتحاد و یکجہتی کی جلوہ گاہ ہے۔ اس سال یوم قدس کو ملت ایران کے عظیم مظاہروں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی جانب حتمی طور پر متوجہ کیا ہوگا۔ ملت ایران نے ایک آواز ہوکر ملت فلسطین کی حمایت میں نعرے بلند کئے۔ میں یوم قدس کو عظیم بیداری کا مظاہرہ کرنے والی ایرانی قوم کا فردا فردا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محترم و معزز نماز گزار بھائيو اور بہنو! ایرانی قوم کے فرزندو! ماہ رمضان المبارک کی برکتوں کو خود اپنے سلسلے میں، اپنے متعلقین کےسلسلے میں، اسلامی معاشرے کے سلسلے میں، جہاں تک ممکن ہو باقی و جاری رکھئے اور اس الہی ذخیرے کی جو خدا کی بہت بڑی نعمت ہے حفاظت کیجئے۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.
خطبهى دوم
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقة الطّاهرة سيّدة نساء العالمين و الحسن و الحسين سبطى الرّحمة و امامى الهدى و علىّبنالحسين و محمّدبنعلىّ و جعفربنمحمّد و موسىبنجعفر و علىّبنموسى و محمّدبنعلىّ و علىّبنمحمّد و الحسنبنعلىّ و الخلف القائم المهدىّ صلوات اللَّه و سلامه عليهم اجمعين و صلّ على أئمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين. اوصيكم عباد اللَّه بتقوى اللَّه.
میں آپ سے خدا وند عالم کو پیش نظر رکھنے کی سفارش کرتا ہوں۔ جو کچھ بھی کہیں، سنیں اور انجام دیں، تمام حالات میں تقوائےالہی یعنی اللہ کو سامنے رکھیں، خداوند عالم سے اس کے لئے توفیق کی دعا کریں۔
اس سال کے یوم قدس کے سلسلے میں ایک بات یہ کہنی ہے کہ یہ عظیم اقدام عالم اسلام میں روز بروز جگہ بناتا جا رہا ہے اور اس میں اور زیادہ وسعت آتی جا رہی ہے۔ اس سال دنیائے اسلام کے گوشے گوشے میں مظاہرے ہوئے۔ عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لیکر عالم اسلام کے مغرب یعنی افریقی ملک نائیجیریا تک مسلمان ملکوں میں ہر جگہ ایک ایک فرد کو یوم قدس میں اپنی خواہش اور ارادے کو ظاہر کرنے کا پورا موقع ملا۔ لوگوں کا جم غفیر آیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ قدس کے مسئلے میں عوام کے احساسات کیا ہیں۔ حتی وہ مسلمان جو یورپ میں رہ رہے ہیں، وہ اقلیتیں جو یورپی اداروں اور حکومتوں کے سخت دباؤ میں زندگی گزار رہی ہیں، انہوں نے بھی یوم قدس کے مظاہروں میں شرکت کی۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے غاصبوں اور ان کے حامیوں کی خواہش کے برخلاف دنیائے اسلام میں روز بروز اور زیادہ زندہ اور تازہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے چاہا تھا کہ فلسطین کا نام مسلمان قوموں کے ذہنوں سے سے مٹا دیں۔ انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ فلسطین کے نام سے کسی ملت اور ملک کا نقشہ عالم اسلام کے جغرافیا میں کہیں نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں اس پورے ساٹھ سال کے دوران ، جو اس عظیم المئے کے وجود میں آنے کے بعد گزرے ہیں، اسی کام پر مرکوز رکھی ہیں۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا ہے۔ آج عالم اسلام فلسطین کے مسئلے میں پہلے سے بہت زیادہ حساس اور بہت زیادہ پرجوش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں بیداری آ گئی ہے۔ اگر یہ بیداری انیس سو اڑتالیس عیسوی میں، جب فلسطین پر با قاعدہ طور پر غاصبانہ قبضہ ہوا ہےاور اس کو صیہونیوں کے حوالے کیا گیا ہے، پیدا ہو گئی ہوتی تو یقینا حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اور عالم اسلام کا یہ تلخ و ناگوار حادثہ اور امت اسلامیہ کے پیکر پر یہ کاری زخم نہ ہوتا۔ آج مسلمان بیدار ہیں اور متوجہ ہیں۔ توفیق پروردگار شامل حال رہی تو روز بروز اور زیادہ بیداری آتی جائے گی۔ میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر اس حمایت و پشتپناہی میں توسیع کا سبب خود ملت فلسطین کی شجاعانہ استقامت اور پائيداری ہے۔ ہم ملت فلسطین کو سلام کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمان اور زندہ قوم کہلانے کے قابل ہے۔ میں اسی جگہ سے تمام مسلمان ہستیوں کے سامنے فلسطینی عوام کو، فلسطین کی قانونی حکومت کو اور اپنے برادر مجاہد جناب ہنیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب اچھی طرح سمجھ لیں کہ ملت ایران نے آپ کو نہ تنہا چھوڑا ہے اور نہ کبھی تنہا چھوڑے گی۔
دوسری جانب صیہونی دشمن کے حوصلے پست ہو گئے ہیں اور اس کا ڈھانچہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج صیہونیوں کے بڑے بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ کمزوری اور شکست و ریخت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عالم اسلام وہ دن ضرور دیکھے گا اور ہمیں توقع ہے کہ فلسطینی قوم کی یہی موجودہ نسل اس دن کا آنکھوں سے نظارہ کرے گی کہ فلسطین، فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے ہاتھوں میں ہوگا جو اس کی اصلی مالک ہے اور فلیسطینی اپنی سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
ایک اور بات یہ عرض کرنا ہے کہ آج عالم اسلام، دشمنان اسلام کی جانب سے ہمہ جہت سیاسی، ثقافتی اور تشہیراتی یلغار کے نشانے پر ہے۔ اس بات کو پورا عالم اسلام، لوگوں کی ایک ایک فرد، خصوصا ممتاز ہستیاں علی الخصوص روشن خیال دانشور اور علمائے دین ، سیاسی شخصیات ہرگز فراموش نہ کریں۔
آج ہر رخ سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات پر یلغار جاری ہے اور یہ اس لئے نہیں ہے کہ دشمن قوی ہو گیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ دشمن عظیم اسلامی تحریکوں کے سامنے کمزوری کا احساس کر رہا ہے لہذا طرح طرح کی نفسیاتی جنگوں، طرح طرح کی یلغاروں اور مسلمان قوموں اور ملکوں کو ایک دوسرے سے ڈرانے اور ایک دوسرے کے خلاف پروپگنڈہ کرنے میں لگ گيا ہے۔ (اس سے مقابلے کی) راہ یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا اتحاد قائم رکھے۔ میں ایک بار پھر ملت ایران کی جانب سے دنیا بھر میں پھیلے اپنے مسلمان بھائيوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپنے اتحاد کو محفوظ رکھئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مشترکہ دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائیں اور عرب و عجم کے نام پر یا شیعہ سنی کے نام پر آپ کو اختلافات سے دوچار کردیا جائے۔ وہ لوگ نہ شیعوں کے دوست ہیں اور نہ سنیوں کے۔ وہ تو اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کو کمزور کر دینے کے در پے ہیں۔ ان کے پاس ایک یہی راستہ ہےکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ ملکوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیں۔ یہاں جو اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور اسلامی نظام قائم ہے اس سے مختلف بہانوں کے ذریعے دیگر ملکوں اور حکومتوں کو ہراساں کریں۔
ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔ ملت ایران اسلام کی ترقی و سربلندی کی راہ پر گامزن ہے اور پروردگار کی توفیقات سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ قوم اپنی پیشرفت کو تمام عالم اسلام کا حق سمجھتی ہے۔ اپنے شرف کو عالم اسلام کا شرف اور اپنی ترقیوں کو امت اسلامیہ کی ترقی شمار کرتی ہے۔
ایک بات میں اس ملک میں بسنے والے عزیز بھائیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اتحاد و یکجہتی کی سفارش جس میں پورے عالم اسلام کو مخاطب قرار دیا جا رہا ہے ملک کے اندر بھی اس پر عمل آوری ضروری ہے۔ عظیم ملت ایران کو چاہئے کہ اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کرے۔ آج تک آپ کو جو کچھ حاصل ہوا ہےاسی اتحاد و یکجہتی کا نتیجہ ہے۔ اتحاد و یکجہتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب لوگ ایک ہی انداز اور ایک ہی مزاج کے بن جائیں۔ اتحاد و اتفاق یہ ہے کہ مختلف ذوق اور طرز فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، ہاتھ میں ہاتھ دیکر کام کریں، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں۔ خود غرضی کو اپنی زندگی اور سیاست میں داخل نہ ہونے دیں۔ ویسے اس سلسلے میں ماہ رمضان المبارک بہت معاون ثابت ہوگا جو خود غرضی اور نفس پرستی کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایام وہ ایام ہیں جن میں ملت ایران بڑے عظیم اقدامات انجام دے رہی ہے، ایسے بڑے کارنامے کر رہی ہے کہ دنیا کے انصاف پسند افراد عش عش کر رہے ہیں۔
بحمد اللہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے کے دہانے پر ملت ایران پورے سرور و نشاط اور تیاری و آمادگی نیز جوش و جذبے سے سرشار اور پوری طرح بیدار نوجوان انقلابی نسل کے ساتھ میدان میں کھڑی ہے۔ ہر ایک کچھ کر دکھانے کے لئے آمادہ ہے اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کے میدان میں ٹکنالوجی کے میدان میں، طرح طرح کی سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اور سیاست کے نشاط انگیز میدان میں (ہر جگہ ہمارے نوجوان موجود ہیں) ان سب کو غنیمت جانئے تاکہ ملت ایران کی ان کامیابیوں کی حفاظت ہو سکے۔ ایک ایک شحص کے لئے خصوصا سیاسی اور سماجی شخصیات اور ممتاز ہستیوں کے لئے لازم ہے کہ یاد رکھیں کہ اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، ان تمام چیزوں سے جو ایک انسان کی نگاہ میں کسی گروہ اور جماعت کے دائرے میں اہم ہو سکتی ہیں، زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ اس اتحاد کو باقی رکھنا چاہئے۔ خد وند عالم فرماتا ہےکہ
تلك الدّار الاخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الارض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين
یعنی نیکیوں کا بدلا (آخرت کا گھر) ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جو پرہیزگار ہیں اور خود کو ان امور سے الگ رکھتے ہیں جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔ خود غرضی سے کنارہ کش ہوکر خدا کی راہ میں خدا کی خوشنودی کے لئے قومی مفادات کی راہ میں کلمہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لئے کوشش کرتے ہیں۔
پروردگارا! ہم سب کو کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی روح پاک اور شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر۔ پروردگارا! ہماری قوم کو روز بروز اور زیادہ سربلندی و کامیابی عطا فرما۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتھ
قائد انقلاب اسلامی نے اتوار اٹھائیس ستمبر دو ہزار آٹھ کو یونیورسٹی کے طلبا اور ممتاز علمی شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب میں اسلامی نظام کی انصاف و مساوات پر مبنی معاشی ترقی اور دیگر مادی نظاموں کی ترقی کے فرق کو واضح فرمایا اور طلباء کی خصوصیات و فرائض پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آج چوبیس ستمبر کو یونیورسٹی کے اساتذہ اور علمی شخصیات سے خطاب میں اساتذہ اور دانشوروں کے مقام و منزلت اور اہم فرائض پر روشنی ڈالی، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اٹھارہ رمضان المبارک چودہ سو انتیس ہجری قمری، انتیس شہریور تیرہ سو ستاسی ہجری شمسی مطابق انیس ستمبر دو ہزار آٹھ عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ کی قیادت فرمائی، آپ نے نماز جمعہ کے خطبوں میں مسئلہ فلسطین سمیت متعدد عالمی اور قومی موضوعات پر تفصیل سے گفتگو کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انیس شہریور 1387 مطابق نو ستمبر 08 کو مجریہ، مقننہ اور عدلیہ نیز مختلف حکومتی محکموں کے اعلی عہدہ داروں سے خطاب میں صبر و ضبط کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں آٹھ شہریور سن تیرہ سو ساٹھ ہجری شمسی مطابق تیس اگست انیس سو اکاسی کو دفتر وزارت عظمی میں دہشت گردانہ دھماکہ ہوا جس میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے دو قریبی شیدائی اور انقلابی رہنما صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد با ہنر شہید ہو گئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے 26 اگست 2008 کو یونیورسٹی کے ممتاز طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب میں علم و دانش کی اہمیت اور اس شعبے میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی ضرورت پر زور دیا۔
سب سے پہلے تمام مؤمن و دیندار انسانوں کی آمیدوں اور آرزوؤں کی محور اس مژدہ آفریں عید سعید کی آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں خصوصا ولایت اہلبیت (ع) پر یقین رکھنے والوں اور ظلم و ستم سے بر سر پیکار تمام حریت نواز بیدار و باخبر انسانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
نیمۂ شعبان کا دن امیدوں کا دن ہے ، یہ امید شیعیان آل محمد (ص) سے مخصوص نہیں ہے حتی امت مسلمہ سے بھی مخصوص نہیں ہے عالم بشریت کے ایک روشن و درخشاں مستقبل کی آرزو اور پوری دنیا میں انصاف قائم کرنے والے ایک عدل گستر ، منجی عالم موعود کے ظہور پر تقریبا وہ تمام ادیان اتفاق رکھتے ہیں جو آج دنیا میں پائے جاتے ہیں ، دین اسلام ، عیسائیت اور یہودیت کے علاوہ حتی ہندوستان کے ادیان میں ، بودھوں اور جینیوں یہاں تک کہ ان مذہبوں نے بھی کہ جن کے نام دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں بھی نہیں ہیں اپنی تعلیمات میں ایک اس طرح کے مستقبل کی بشارت دی ہے ، یہ سب کچھ در اصل تاریخ کے طویل دور میں تمام انسانوں کے اندر امید کی شمع روشن رکھنے اور تمام انسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ایک حقیقت کے لئے امیدوار رہنے کے لئے بیان ہوا ہے ۔
اللہ کے بھیجے آسمانی ادیان نے جو زيادہ تر الہی اور آسمانی جڑوں کے حامل ہیں ، لوگوں میں بلاوجہ امیدوں کی جوت نہیں جگائی ہے ، ایک حقیقت کو انہوں نے بیان کیا ہے انسانوں کی خلقت اور بشریت کی طویل تاریخ میں ایک حقیقت موجود ہے اور وہ حقیقت یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان یہ مقابلہ آرائی ایک دن حق کی کامیابی اور باطل کی ناکامی پر ختم ہوگی اور اس دن کے بعد انسان کی حقیقی دنیا اورانسان کی منظور نظر زندگی شروع ہوگی اس وقت مقابلہ آرائی کا مطلب جنگ و دشمنی نہیں بلکہ خیر و خیرات میں سبقت کا مقابلہ ہوگا ۔ یہ ایک حقیقت ہے جو تمام ادیان و مذاہب میں مشترک ہے ۔
ہم شیعوں کے عقیدے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس حقیقت کو مذہب تشیع میں صرف ایک آرزو اور ایک تخیلاتی چیز سے ایک زندہ حقیقت میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شیعہ جس وقت مہدی موعود کے انتظار کی بات کرتے ہیں اور اس نجات دہندہ ہاتھ کے انتظار کا ذکر کرتے ہیں تو انتظار کے وقت صرف تخیلات میں غوطہ زنی نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی حقیقت کی جستجو کرتے ہیں جو اس وقت موجود ہے ، حجت خدا کی صورت میں لوگوں کے درمیان زندہ ہے اور موجود ہے ، لوگوں کے ساتھ زندگي گزار رہا ہے ، لوگوں کو دیکھ رہا ہے ان کے ساتھ ہے ، ان کے دردوں کو ، ان کی تکلیفوں کو محسوس کرتا ہے انسانوں میں بھی جو لوگ اہل سعادت ہوں ، جن میں صلاحیت و ظرفیت پائی جاتی ہو ، بعض اوقات ناآشنا اور ناشناس کےطور پر ان کی زیارت کرتے ہیں ، وہ موجود ہے ، ایک حقیقی اور مشخص و معین انسان کے عنوان سے جو خاص نام رکھتا ہے جس کے ماں باپ معلوم ہیں ، لوگوں کے درمیان رہتا ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے ۔یہ ہم شیعوں کے عقیدہ کی خصوصیات میں سے ہے ۔وہ لوگ بھی ، جو دوسرے مذاہب کے ہیں اور اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتے ، آج تک کبھی کوئی ایسی عقل پسند دلیل پیش نہیں کرسکے جو اس فکر اور اس عقیدہ کو رد کرتی ہو اور خلاف حقیقت ہونا ثابت کرتی ہو بہت سی روشن و واضح ، مضبوط دلیلیں، جن کی بہت سے اہلسنت نے بھی تصدیق کی ہے ، پورے قطع و یقین کے ساتھ اس عظیم انسان ، خدا کی اس عظیم حجت اور اس تابناک و درخشاں حقیقت کے وجود پر ان ہی خصوصیات کے ساتھ جو ہم اور آپ جانتے ہیں ، دلالت و حکایت کرتی ہیں اور آپ بہت سی بنیادی کتابوں میں بھی جو شیعوں کی نہیں ہیں ، اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں ۔
امام حسن عسکری علیہ الصلوۃ و السلام کے پاک نہاد، فرزند مبارک کی تاریخ ولادت معلوم ہے ان سے مرتبط تمام تفصیلات معلوم ہیں ان کے معجزات معین و مشخص ہیں خدا نے ان کو طولانی عمر دی ہے اور دے رہا ہے اور یہی ذات دنیا کی تمام امتوں ، تمام قبیلوں ، تمام مذہبوں ، تمام نسلوں ، تمام دوروں اور زمانوں کی آرزوؤں کو مجسم کرتی ہے اور اس اہم مسئلے کے بارے میں مذہب شیعہ کی یہ ایک خصوصیت ہے ۔
مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ آپ اسلامی آثار میں شیعی کتابوں میں حضرت مہدی موعود ( عج ) کے ظہور کے انتظار کو انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے ، اس فرج کا کیا مطلب ہے ؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا؛ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے ؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے ؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو ، کہیں کوئی گرہ پڑگئی ہو ، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو ، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ناخن تدبیر کے ذریعہ الجھی ہوئی گرہ کھول دے کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کردے ۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے ۔
انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا ،حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو ، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو ، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے ، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہوجائے ، مسئلہ ہمارے اور آپ کے شخصی اور ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کےلئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو اٹکی ہوئي پریشانی سے نجات دیں گے انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آج ہورہا ہے اور اس وقت پایا جاتا ہے انسانی ( ہاتھوں کا بنایا ہوا) یہ غیر منصفانہ نظام ، یہ انسانی نظام کہ جس میں بے شمار انسان مظلومیت کا شکار ہیں بے شمار دلوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے بے شمار انسانوں سے بندگی کے مواقع چھین لئے گئے ہیں اس صورت حال کے خلاف احتجاج اور اعتراض ہے جو امام زمانہ کے ظہور کا منتظر ہے ۔ انتظار فرج کا مطلب ہے اس صورت حال کو مسترد کردینا اور نہ ماننا جو انسانوں کی جہالت اور انسانی زندگی پر حکمران بشری اغراض و مقاصد کے زیر اثر دنیا پر مسلط کردی گئی ہے،انتظار فوج کا مفہوم یہی ہے ۔آج آپ لوگ دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں وہی چیز جو حضرت ولی عصر ( ہماری جانیں جن پر فدا ہوجائیں ) کے ظہور سے متعلق روایات میں ہیں ، آج دنیا پر حکمراں ہیں ، دنیا کا ظلم و جور سے بھرجانا، آج دنیا ظلم و ستم سے بھرگئی ہے ولی عصر ( عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) سے متعلق روایتوں ، دعاؤں اور مختلف زیارتوں میں ملتا ہے : یملا اللہ بہ الارض قسطا و عدلا کما ملئت ظلما و جورا ویسے ہی جیسے ایک دن پوری دنیا ظلم و جور سے بھری ہوئی ہوگی ، جس زمانہ میں ظلم و جور پوری بشریت پر حکمراں ہوگا اسی طرح خداوند عالم ان کے زمانے میں وہ صورت حال پیدا کردے گا کہ پورے عالم بشریت پر عدل و انصاف حکمراں نظر آئے گا ۔وہ وقت یہی ہے ، اس وقت ظلم و جور بشریت پر حکمراں ہے آج انسانی زندگي عالمی سطح پر ظلم و استبداد کے ہاتھوں میں مغلوب و مقہور ہے ( اور ظالموں کے قہر و غلبہ کا شکار ہے ) ہر جگہ ظلم و جور کا ماحول ہے آج عالم بشریت ظلم کے غلبہ کے سبب،انسانی خواہشوں اور خود غرضیوں کے تسلط کے باعث بے پناہ مشکلات میں گرفتار ہے ۔آج کی دنیا میں دو ارب بھوکے انسانوں کا وجود اور دسیوں لاکھ انسان جو حرص و ہوس سے مغلوب طاغوتی قوتوں کے طاغوتی نظاموں میں زندگي گزار رہے ہیں ، حتی فی سبیل اللہ جہاد کرنے والے مؤمنین و مجاہدین اور راہ حق میں برسر پیکار ملتیں منجملہ ایرانی قوم ، جس نے ایک محدود ماحول میں ، ایک معین و مشخص دائرے میں عدل و انصاف کا پرچم بلند کررکھا ہے،اس پر اور مجاہدین راہ خدا پر فشار اور دباؤ پوری دنیا پر ظلم و جور کا جال بچھا ہونے کی کھلی نشانیاں ہیں ۔ اس انتظار فرج کا مفہوم، مختلف ادوار میں انسانی زندگي کی موجودہ کیفیات بیان کرتی ہیں ۔
آج ہم کو فرج یعنی گرہ گشائی کا انتظار ہے یعنی ہم سب ایک عدل گستر قوی و توانا دست قدرت کے منتظر ہیں کہ وہ آئے اور ظلم و جور کے اس تسلط کو توڑدے کہ جس نے پوری بشریت کو محروم و مقہور بنا رکھا ہے ، ظلم و ستم کی ان فضاؤں کو دگرگوں کردے اور انسانوں کی زندگي ایک بار پھر نسیم عدل کے جھونکوں سے تازہ کردے تا کہ تمام انسانوں کو عدل و انصاف کا احساس ہو یہ ایک آگاہ و باخبر زندۂ و بیدار انسان کی دائمی ضرورت ہے ہر وہ انسان جو خود اپنے وجود میں سر ڈال کر نہ بیٹھا ہوا ہو ، صرف اپنی زندگی میں مست نہ ہو ، وہ انسان جو وسعت نظر سے کام لے کر انسانوں کی عام زندگی کو دیکھ رہا ہو ، قدرتی طور پر انتظار کی حالت اس کے یہاں پائی جائے گی ،انتظار کا یہی مطلب ہے ۔انتظار یعنی انسانی زندگی کی موجودہ صورت حال کو قبول نہ کرنا اور ایک قابل قبول صورت حال کی فکر و جستجو میں رہنا چنانچہ مسلمہ طور پر یہ قابل قبول صورت حال ولی خدا حضرت حجۃ ابن الحسن مہدی آخر الزمان صلوات اللہ علیہ و عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ کے قوی و توانا ہاتھوں سے ہی عملی جامہ پہنے گی ۔لہذا خود کو ایک جانباز سپاہی اور ایک ایسے انسان کے عنوان سے تیار کرنا چاہئے جو اس طرح کے حالات میں مجاہدت اور سرفروشی سے کام لے سکے ۔
انتظار فرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور کوئی کام انجام نہ دے کسی طرح کی اصلاح کا اقدام نہ کرے صرف اس بات پر خوش رہے کہ ہم امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام کے منتظر ہیں ۔ یہ تو انتظار نہ ہوا ۔انتظار کس کا ہے ؟ ایک قوی و مقتدر الہی اور ملکوتی ہاتھ کا انتظار ہے کہ وہ آئے اور ان ہی انسانوں کی مدد سے دنیائے ظلم و ستم کا خاتمہ کردے حق کو غلبہ عطا کرے اور لوگوں کی زندگي میں عدل و انصاف کو حکمراں کردے ، توحید کا پرچم لہرا کر انسانوں کو خدا کا حقیقی بندہ بنادے ، اس کام کی آمادگي ہونی چاہئے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل اس عظیم تاریخی انقلاب کے مقدمات میں سے ہے عدل و انصاف کی برقراری کی طرف اٹھنے والا ہر قدم اس عظیم الشان ہدف کی طرف ایک قدم ہے انتظار کا مطلب یہ ہے ، انتظار تحرک اور انقلاب کا نام ہے انتظار تیاری اور آمادگي کو کہتے ہیں اس آمادگی کو خود اپنے وجود میں ، خود اپنے گرد و پیش کے ماحول میں محفوظ رکھنا ہمارا فریضہ ہے یہ خداوند متعال کی دی ہوئي نعمت ہے کہ ہماری عزیز و باوقار قوم اور ملت ایران نے یہ عظیم قدم اٹھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اورحقیقی انتظار کا ماحول فراہم کیا ہے ،انتظار فرج کا یہی مطلب ہے ، انتظار فرج یعنی کمرکس لینا ، تیار ہوجانا ، خود کو ہر رخ سے، وہ ہدف کہ جس کے لئے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام انقلاب برپا کریں گے آمادہ و تیار کرنا ، وہ عظیم تاریخی انقلاب جس ہدف و مقصد کے لئے برپا ہوگا وہ عدل و انصاف قائم کرنے ، انسانی زندگي کو الہی زندگي بنانے اورخدا کی بندگي رواج دینے سے عبارت ہے اور انتظار فرج کا یہی مطلب ہے۔
آج بحمداللہ ہماری قوم مہدویت اور امام مہدی سلام اللہ علیہ کے وجود اقدس کی طرف ہمیشہ سے زیادہ متوجہ ہے روزبروز ہر انسان محسوس کرسکتا ہے جوانوں کے دل میں ،ملت کی ایک ایک فرد کے یہاں ، حضرت حجت علیہ السلام کے وجود اقدس کے سلسلے میں عشق و ارادت ، اشتیاق اور ذکر و یاد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔یہ بھی خود ان ہی بزرگوار کی برکتوں میں سے ہے ہماری اس ملت پر ان کی نگاہ لطف و رحمت کا نتیجہ ہے جس نے ان کے قلوب اس روشن و تابناک حقیقت کی طرف جھکادئے ہیں خود یہ چیز بھی امام ( ع ) کی خصوصی توجہ کی نشانی ہے اور اس کی قدر کرنی چاہئے ۔
البتہ تمام حقائق کی طرح ، جو مختلف ادوار میں مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے رہے ہیں یہ حقیقت بھی کبھی کبھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے یہ لوگ جو خلاف واقعہ دعوے کیا کرتے ہیں ، دیدار و ملاقات کے دعوے ، شرفیابی کے دعوے حتی بالکل واہیات شکل میں آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنےکے دعوے جو واقعا بڑے ہی شرم انگیز دعوے ہیں ، یہ سب وہی باطل طریقے اور وطیرے ہیں جو اس روشن حقیقت کو ممکن ہے پاک نہاد انسانوں کے دل و نگاہ میں مخدوش کردیں لہذا اس کی اجازت نہیں دینا چاہئے ۔
یہ تعلق اور ارتباط اور امام (ع) کی خدمت میں تشرف اور حاضری کے دعوے اور آپ سے حکم و فرمان حاصل کرنے کی باتیں ، کچھ بھی قابل تصدیق نہیں ہیں ہمارے بزرگوں ، عظیم ہستیوں اور ممتاز و باوقار انسانوں نے کہ جن کی حیات کا ایک ایک لمحہ ، ہم جیسے انسانوں کی زندگي کے دنوں ، مہینوں اور برسوں کی زندگي اور پوری پوری عمر سے زیادہ قیمت رکھتا ہے اس طرح کا ادعا نہيں کیا ہے ممکن ہے کسی خوش نصیب انسان کی نگاہ اور دل میں وہ ظرفیت و صلاحیت پیدا ہوجائے کہ آپ کے جمال مبارک سے پرنور ہوجائے لیکن اس طرح کے لوگ دعوے نہیں کرتے ان سے ان سے کہتے نہیں پھرتے ، اپنی دوکان نہیں چمکاتے ، یہ لوگ جو اس وسیلے سے اپنی دوکانیں چلارہے ہیں ، ان کے لئے انسان پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور افترا سے کام لیتے ہیں ، اس روشن و درخشاں عقیدہ کو اس اعتقادی آفت سے دور و محفوظ رکھنا چاہئے ۔
آج خوش قسمتی سے ہماری اس بزم میں کچھ اہل ثقافت بھی ہیں اہل سفارت بھی ہیں اہل تعلیم و تربیت بھی تشریف رکھتے ہیں ، ادارۂ جوانان سے وابستہ کچھ ممتاز و نامور جوان بھی موجود ہیں اور کچھ مہدیت پر کام کرنے والے اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں چنانچہ علم و ثقافت سے وابستہ بیدار و آگاہ تمام بھائیوں اور بہنوں سے اس مناسبت کے تحت جو کچھ میں عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمارے اسلامی عقائد خاص طور پر شیعی اعتقادات پاکیزہ ترین و منطقی ترین و مستحکم ترین عقائد کا حصہ ہیں وہ توحید جو ہم مجسم کرتے ہیں نبی (ص) کی شخصیت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، امامت جو ہم مجسم کرتے ہیں ، اعتقادی مسائل اور دینی معارف جو آئین تشیع میں ہم پیش کرتے ہیں ایسی روشن و واضح منطقی تصویریں ہیں کہ کوئی بھی فعال ذہن اور تحقیق و جستجو رکھنے والا دماغ ان اعتقادات کی حقانیت ، صحت و درستی اور باریک بینی کو دیکھ اور سمجھ سکتا ہے شیعہ عقائد بہت ہی مستحکم عقائد ہیں اور تاریخ کے ہر دور میں شیعہ عقائد کے سلسلے میں یہی تصور رہا ہے دوسروں حتی مخالفین نے مقام احتجاج اور مقام استدلال میں ، کلامی بحث و گفتگو میں ، ائمہ علیہم السلام سے ماخوذ عقائد امامیہ کے استحکام کا اعتراف کیا ہے اور ائمہ علیہم السلام نے قرآن کریم کے کہنے کے مطابق ہم کو غور و فکر اور تامل و تدبر اور عقل و خرد کے استعمال کا حکم دیا ہے ، یہی وجہ ہے ان عقائد میں فکر و نظر اور تعقل و خرد اندیشی آشکار ہے جبکہ ائمہ علیہم السلام کی رہنمائیاں بھی ہدایت و آگہی سے آراستہ ہیں اور غلطیوں سے حفاظت کرتی ہیں ۔
ان عقائد کو پہلے صحیح طور پر سمجھنا چاہئے پھر دوسرے مرحلے میں غور و فکر کے ذریعہ اس میں گہرائی پیدا کرنا چاہئے اور اس کے بعد تیسرے مرحلے میں صحیح صحیح دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے تمام ثقافتی مجموعوں کو یہی روش اپنانی چاہئے تعلیم و تربیت کے میدان میں ایک معلم کو ،تعلیمی اور تربیتی اداروں کے منتظمین کو بہترین انداز میں اس سنہرے موقع سے ، جب جوانوں کی ایک عمران کے اختیار میں ہوتی ہے ، بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے دینی اور مذہبی عقائد ، نہ صرف دینی تعلیمات کے گھنٹوں میں بلکہ تمام موضوعات کا درس دیتے وقت جہاں کہیں بھی موقع مناسب ہو عقل و ہوش اور دقت نگاہ سے کام لے کر اپنے متعلم کے دل و جان میں پوری سنجیدگي سے راسخ کردینا چاہئے تا کہ طالبعلم کو موقع مل سکے کہ وہ اپنے عقائد دل و دماغ میں پروان چڑھائے ۔
دوسری قوموں اور ملک سے باہر دوسرے ملکوں میں مشغول ثقافتی مراکز اور ان سے وابستہ اداروں کا اہم ترین کام یہ ہے کہ ان حقائق کو مختلف طریقوں اور عنوانوں سے چاہنے اور جستجو رکھنے والوں کی چشم و نگاہ کے سامنے لائیں اور پیش کریں اسی قدر کافی ہے کہ وہ واقف ہوجائیں ۔اسی مہدویت کے مسئلے میں ، اہلسنت کے وہ حضرات یا حتی غیر مسلم عالموں اور دانشوروں کے درمیان کہ جنہوں نے مہدویت سے متعلق شیعہ عقائد کا مطالعہ کیا ہے اور معلومات حاصل کرنے کے بعد تصدیق و تائید کی ہے کہ تورات و انجیل اور دیگر مذاہب میں بھی جو بشارتیں ذکر ہوئی ہیں اسی مہدویت سے مطابقت رکھتی ہیں جو شیعوں کے یہاں پائي جاتی ہے، اس کا اعتراف کرتے ہیں ، وہ لوگ جو شیعہ عقائد سے ناواقف ہیں یا اس کی بگڑی ہوئي شکل ان تک پہنچی ہے اچھا، تو ٹھیک ہے وہ اس سلسلے میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے ، ان تک صحیح عقیدہ پہنچانا چاہئے اس وقت آپ دیکھیں گے کہ باخبر علما اور پڑھے لکھے دانشوروں کا فیصلہ اس عقیدہ کے حق میں ہوگا اور وہ سب تائید و تصدیق کریں گے اور اس کی طرف مائل ہوں گے ۔اس بات پر ہمارے جوانوں ، ہمارے جوان و رعنا فرزانوں ، اسکول اور کالج کے بچوں ، یونیورسٹیوں اور حوزوں کے فاضل طلاب اور محققین کو بھی توجہ دینی چاہئے اور ان اداروں اور مرکزوں کو بھی پیش نظر رکھنی چاہئے جو شعبہ تعلیم و تعلم ، تبلیغ و نشر و اشاعت اور افکار و اذہان کی تربیت کے ذمہ دار ہیں کہ اپنے مخاطبین کے سامنے اس روشن حقیقت کی نشان دہی کرنا جو مذہب امامیہ کے اختیار میں ہے اور پیروان اہلبیت علیہم السلام جس پر عمل پیرا ہیں ، اسی وقت مفید ہے جب وہ مخاطب کو قبول کرنے پر آمادہ کرسکے اور مخاطب اس کی تائید و تصدیق کرسکے ۔حقیقت کو دکھانا چاہئے لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ وہ ہر قسم کی بناوٹ، تہمت و افترا ، خرافات ، جھوٹے دعووں ، کج فکریوں اور کج بیانیوں سے پاک و صاف ہو ،اس سلسلے میں علمائے دین ، ممتاز مبلغین اور روشن فکر محققین و دانشور کا کردار یقینا بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری قوم نے اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات اور قرآنی ہدایات پر عمل کرکے انقلاب کے دوران بھی، ( آٹھ سالہ ) دفاع مقدس کے زمانہ میں بھی اور ہمارے ملک کو در پیش طرح طرح کے حادثوں اور المیوں سے دوچار ہوتے وقت بھی ان تعلیمات کی حقانیت کو ثابت کیا ہے ۔دنیا کے بہت سے لوگ مقدس دفاع کے دوران تشیع کی حقانیت سے آشنا ہوئے اور اس کی طرف قلبی میلان کے ساتھ اس کو مانا اور قبول کیا ہے چنانچہ بہت سے عالمی مندوبین نے دفاع مقدس کے دوران اور اسلامی انقلاب کے دوران ، ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رضوان اللہ علیہ اور ان کے حواریوں کے عمل اور طرز عمل کو دیکھ کر، جو یہی راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہد و سرفروش جوان تھے ، اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں بہت سی وہ ملتیں جو مسلمان تھیں لیکن اسلام کی حقیقت سے غافل تھیں، جاگی اور بیدار ہوئي ہیں ، دین و مذہب کی صحیح حقیقت کو پیش کرنا خاص طور پر عمل کے ذریعہ مذہبی حقائق کو نمایاں کرنا اسی طرح کی معجز نما خصوصیت کا حامل ہوتا ہے۔
ہماری دعا ہے کہ ملت عزیز حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی پاکیزہ و مقبول دعاؤں کی مستحق قرار پائے اور انشاء اللہ آپ کے ظہور کے انتظار کے سلسلے میں اس ملت کے عشق و ارادت اور انس و اشتیاق میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے اور انشاء اللہ دلوں اور نگاہوں میں اور دنیا میں امام عصر (عج) کے عظیم و پرشکوہ الہی انقلاب کی صلاحیت و ظرفیت پیدا ہوجائے ۔
تیس جولائي سن دو ہزار آٹھ عیسوی مطابق ستائيس رجب المرجب سن چودہ سو انتیس ہجری قمری کو عید بعثت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے ملک کے حکام، مختلف عوامی طبقات کے افراد اور اسلامی ممالک کے سفیروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بعثت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملنے والے اہم سبق، موجودہ حالات کے تقاضوں اور ضروری اقدامات پر روشنی ڈالی۔
قائد انقلاب اسلامی نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت تیرہ رجب المرجب کو حسینیہ امام خمینی (رہ) میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب فرمایا، اجتماع میں شیعہ اور سنی علما، ملک کے اعلی حکام اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد موجود تھے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت اور اسی طرح آپ کی پاکیزہ نسل سے تعلق رکھنے والی شخصیت امام خمینی (رہ) کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منعقدہ محفل عشق و مودت میں تشریف فرما تمام بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے فن اور پروگراموں کے ذریعے ہمیں جام عشق اہل بیت سے سیراب کیا، کیا دلچسپ ادائگی، شعرا کی کیا خوب طبع آزمائی؟! (واقعی قابل تحسین ہے)
اہل بیت علیھم السلام کی محبت کی وادی واقعی جوہر فن کی نمائش کی بڑی مناسب وادی ہے، اس نورانی فضا میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی محبت کے جذبے اور ذوق و فن کے اظہار کا واقعی بہت موزوں اور بر محل ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا، اللہ تعالی کا پر معنی کلام ہیں۔ آپ کا وجود ایک بحر بیکراں ہے۔ با ذوق افراد، دانشور، مفکرین اور اہل فن اس وادی میں جتنا زیادہ فکری سیر کرتے ہیں، (معرفتوں کے) اتنے ہی موتی ان کی جھولی میں آ تے جاتے ہیں۔ البتہ ہماری سفارش یہ ہے کہ اس بحر مواج میں اترنے کے لئے اہل بیت اطہار کی احادیث اور فرمودات کا سہارا لیا جائے۔
جیسا کے ایک صاحب نے اپنے اشعار میں بھی اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ اس خاندان کی معرفت کا راستہ خود اسی خاندان کے پاس ہے۔ ہمیں انہی سے رہنمائی حاصل کرنی ہے۔ انہی کو اپنا رہنما اور ہادی قرار دینا ہے اور اسی تناظر میں غور و فکر کے ذریعے گہرے معنی کو سمجھنا ہے۔ ہمارے شعرا اور اہل بیت اطہار کے مداحوں کو یہ افتخار حاصل ہے کہ احادیث و روایات سے رجوع کریں، ان میں غور و فکر کریں، اہل بصیرت اور علما سے مدد لیں پھر اپنے ذوق و فن، موشگاف نظر، دلکش آواز اور گلے کو اہل بیت اطہار کی خدمت سے مشرف کریں۔ یہ بہترین اور عظیم عمل ہے۔
انوار مقدسہ کی مدحت اور اہل بیت اطہار کی قصیدہ خوانی کے بارے میں ان محفلوں میں میں نے بہت کچھ عرض کیا ہے۔ کہی ہوئي باتیں نہیں دہراؤں گا بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں لوگوں سے رابطے کے سلسلے میں فن و ہنر کا کردار زیادہ واضح ہوتا جاتا ہے۔ مخاطب افراد کے ذہن و دل سے رابطے کے موثر ترین اور کارآمد ترین وسیلے یعنی فن کا کردار۔ آج جس کے پاس عوام کے لئے کچھ پیغام ہے، خواہ وہ الہی پیغام ہو یا شیطانی پیغام (اسے لوگوں تک پہنچانے کے لئے) سب سے بہترین وسیلہ جو اختیار کیا جاتا ہے وہ فن و ہنر کا وسیلہ ہے۔ آپ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ فن کے استعمال سے آج بے بنیاد ترین باتیں بھیں عوام کے سامنے وحی منزل کے طور پر پیش کر دی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اگر فن کا استعمال نہ ہو تو یہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن فن اور ہنر کے سہارے یہ کام انجام پا رہا ہے۔ آپ سنیما کو دیکھئے، ایک فن اور ہنر ہے۔ ٹیلی ویزن فن و ہنر کی چیز ہے۔ انواع و اقسام کے ہنر اور فن استعمال کئے جاتےہیں تاکہ غلط بات کو حقیقت کا لبادہ پہنا دیا جائے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ فن و ہنر کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں اور شیعوں کو جو ایک افتخار حاصل ہے، جو کسی اور قوم اور ملت کے پاس اس انداز میں نہیں ہے وہ ہمارے یہی اجتماعات، محفلیں اور مجلسیں ہیں جن میں ہم آمنے سامنے بیٹھتے ہیں۔ یہ چیز دنیا کے دیگر ادیان اور خطوں میں بہت کم نظر آتی ہے۔ یہ چیز ہے لیکن اس وسیع پیمانے پر اس انداز میں نہیں ہے۔ نہ تو اس کا اثر اتنا ہے اور نہ ہی اس میں اتنے اہم موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ آپ فرض کریں کہ جو افراد قرآن کی زبان سے آشنا ہیں، سامعین کے روبرو قرآن کریم کی آیات کی اچھی آواز میں تلاوت کرتے ہیں، تو اس کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ مداحوں کی مدح سرائي اور قصیدہ خوانی بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ اعلی مفاہیم اور مضامین کو مخاطب کے دل کی گہرائيوں تک پہنچانے کے لئے فن و ہنر کا استعمال یہی ہے۔ یہ بہت با ارزش ذریعہ ہے کتنا موثر طریقہ ہے! یہ فن اتنا اہم ہے کہ کبھی کبھی اس کی اہمیت خود مضمون کی مانند ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو مضمون، دلوں میں نہیں اتارا جا سکتا۔ آپ(شعرا) کی قصیدہ خوانی اسی زمرے میں آتی ہے۔
فن کے جتنے جوہر دکھائے جائیں جتنی اچھی آواز اور خوش الحان گلے کا استعمال کیا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ ہمارا موضوع اور مضمون جتنا سبق آموز ہوگا، مخاطب کے لئے اسے سمجھنا اتنا ہی آسان ہوگا۔ سبق آموز سے مراد یہ ہے کہ اس میں جتنی جدت اور جاذبیت ہوگی اس کی ارزش اور اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ ہوگي۔ البتہ یہ عمل جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا تعلیمات اہل بیت پیغمبر کے تناظر میں انجام پانا چاہئے۔ مدح سرائی کو سطحی باتوں تک محدود کر دینا اس کی ظاہری شکل کو نصب العین بنا لینا یا کسی مغربی دھن کی تقلید، یہ سب ہرگز مناسب نہیں ہے۔ اس پر پوری توجہ رہنی چاہئے۔ بالخصوص نوجوان جو اس وادی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ عام فہم اور سادہ زبان میں شعر پڑھا جائے لیکن اس کے معنی بلند ہونے چاہئیں۔ اب اگر اہل بیت کی مدح سرائي کرنے والے کسی شخص نے مغربی موسیقی کی تقلید شروع کردی جو لہو و لعب کا ذریعہ ہے اور جس کے ماہرین شیطانی بے خودی کا شکار ہیں، تو یہ ہرگز مناسب نہیں ہے، یہ شائستہ فعل نہیں ہے۔
ایک اور نکتہ جس کے سلسلے میں میں ہمیشہ یاددہانی کراتا رہتا ہوں، یہ ہے کہ ایسے مضامین پیش کیجئے جو آپ کے مخاطب کے لئے مفید ہوں۔ مثلا کوئی ایسی منقبت ہو جس کے معنی عوام درک کر سکتے ہوں یا اہل بیت اطہار کی فضیلت کا کوئی گوشہ ہو جس سے ایمان و عقیدے میں استحکام پیدا ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ معصومین علیھم السلام کے زمانے میں شعرا کن باتوں پر توجہ دیتے تھے۔ دعبل کے اشعار، کمیت کے اشعار، فرزدق کے اشعار، وہ اشعار جن کی اہل بیت اطہار نے بھی تعریف کی ہے ان میں کن باتوں پر تاکید کی گئي ہے۔ آپ غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ ان اشعار میں یا تو دلیل اور خوبصورت شعری پیرائے میں اہل بیت کی حقانیت کا استدلال نظر آئے گا جیسے کے دعبل کے اشعار یا پھر ان میں اہل بیت اطہار کے فضائل کا تذکرہ ہوگا جیسا کہ یہاں حاضر شعراء کے اشعار میں نظر آیا، یعنی ھل اتی کی جانب اشارہ، واقعہ مباھلہ کی جانب اشارہ اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے سلسلے میں پیغمبر اسلام کے اقوال اور احادیث کی جانب اشارہ ، یا ان عظیم ہستیوں کی زندگی سے ملنے والے سبق کی جانب اشارہ جس کا واضح اور ہمارے زمانے سے قریب کا نمونہ، تحریک انقلاب کے دوران سن انیس سو ستتر اور اٹھتر کے محرم کے مہینوں میں شعراء، قصیدہ گو حضرات اور مداحوں کی زبانوں پر نظر آيا۔ ماتمی دستے بازاروں میں اور سڑکوں پر سینہ زنی اور نوحہ خوانی کرتے تھے لیکن سننے والے اسی سے سمجھ جاتے تھے کہ انہیں آج کیا کرنا ہے۔ آج کس سمت میں حرکت کرنا ہے۔ جب آپ اپنے فن، اپنی آواز اور اپنے اشعار کو ان مضامین کے لئے استعمال کریں گے تو آپ کی یہ کاوش یا تو اہل بیت اطہار کی حقانیت کے اثبات، یا ان ذوات مقدسہ کے فضائل کے اظہار یا پھر تعلیمات اہل بیت کے افہام و بیان کے مقصد کے تحت ہوگی اور اس سے آپ کے مخاطب کے لئے راہ زندگی کے تعین میں مدد ملے گی، اس صورت میں آپ کی اس کاوش کو بلند ترین درجہ حاصل ہوگا۔
یہ صرف جذبات کو ابھارنے کا مسئلہ نہیں ہے۔ ذہنوں کی رہنمائي کا مسئلہ ہے۔ بڑی خوشی ہوتی ہے جب میں اس جلسے یا عزاداری کے پروگراموں اور دیگر مناسبتوں پر شعرا اور مداحوں کو سنتا ہوں۔ الحمد للہ حالیہ برسوں میں (مذکورہ نکات پر) توجہ دی جا رہی ہے، البتہ یہ وادی بہت وسیع ہے۔ آپ نوجوان اچھی آواز کے مالک ہیں، آپ کا بیان بہت اچھا اور آپ کے پروگرام بہت دلچسپ ہیں، آپ کو اسلامی معاشرے کی عصری ضروریات پر نظر رکھنی چاہئے۔ گوناگوں سیاسی اور ثقافتی حملوں، گمراہ کن پروپگنڈوں اور تشہیراتی مہم کے طوفان میں ہماری نوجوان نسل اور ہماری قوم کو امید بخش نظریات، مستقبل کے تعلق سے اطمینان اور نشاط خاطر اور راہ حق کی شناخت کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ یہ کام ہر کسی کو کرنا چاہئے۔ ہر شخص اپنے انداز سے ( یہ کام انجام دے)۔ اس میدان میں آپ کا بڑا کردار ہے۔ اساتذہ، اور کہنہ مشق شعرا بہت موثر تعاون کر سکتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ یہ کام انجام پائے گا۔
ایک اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم انقلاب کی موجودہ صورت حال کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھیں۔ اپنے بیان اور تقاریر کے ذریعے ہمیں اپنے تاثرات اور نظریات دوسروں تک منتقل کرنا چاہئے۔ دوستو! اسلامی انقلاب صرف تاریخ ایران کا ایک واقعہ نہیں ہے۔ یہ عالمی تاریخ اور پورے انسانی معاشرے کا بہت اہم واقعہ ہے۔ اس نکتے پر میں خصوصی تاکید کرتا ہوں۔ یہ کوئي نعرہ نہیں بلکہ ایک حقیقت کا حقیقت پسندانہ جائزہ ہے۔ یہ واقعہ تاریخ انسانیت کا اہم واقعہ ہے۔ جیسے جیسے زمانہ گزرے گا یہ حقیقت عیاں ہوتی جائے گی۔ اسے بس اتنی سی بات نہ سمجھئے کہ ایک ملک میں طاغوتی حکومت تھی جس کا خاتمہ ہوا اور ایک اسلامی نظام نے اس کی جگہ لے لی۔ یہ تبدیلی بھی ہوئی لیکن یہی سب کـچھ نہیں تھا۔ صدیوں سے انسانی معاشرے کو زندگی، ہستی اور کائنات کے سلسلے میں مادی نقطہ نگاہ اور مادی نظرئے کی جانب کھینچا جا رہا ہے۔ آج بھی یہ کوشش جا رہی ہے۔ اس طاقتور رجحان اور موج کے سامنے، جسے پوری مادی طاقت سے آگے بڑھایا جا رہا تھا اسلامی انقلاب آن کھڑا ہوا۔ انقلاب نے اس کا راستہ روکا۔ انقلاب نے معنویت اور روحانیت کا پرچم بلند کیا۔ انقلاب نے پوری طاقت سے آگے بڑھنے والی اس موج کو کمزور کر دیا۔ نتیجتا آج آپ انہی ممالک میں جو مادیت میں ڈوبے ہوئے تھے روحانیت اور معنویت کی پو پھٹنے کا حسین منظر دیکھ رہے ہیں۔ معنویت مختلف شکلوں میں سامنے آئی ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل میں روحانیت کی طلب، روحانیت سے عشق اور روحانیت کی جانب رجحان واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے۔ اب اگر اس رجحان کو صحیح سمت نہ دی گئی تو ممکن ہے کہ انحراف کی صورت پیدا ہو جائے۔ لوگ معنویت کے نام پر خرافات کا شکار ہو جائیں۔ اب ان حالات میں اگر مادیت میں غرق مغربی سماج میں اسلام اور اہل بیت اطہار کی تعلیمات کو متعارف کرایا جائے تو یقینی طور پر لوگ ان پر غور کریں گے اور انہیں قبول کریں گے۔ آج یہ چیز دنیا میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔ یہ جو اسلام کی شان میں گستاخیاں کی جا رہی ہیں، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات والا صفات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو بقول مولانا:
مہ فشاند نور و سگ عو عو کند
ہر کسی بر طینت خود می تند
یعنی اپنی اس حرکت سے وہ در حقیقت اپنی بد طینتی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ نام دنیا کا احاطہ کرتا جا رہا ہے۔ اس نام کے اثرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کی جانب نوجوانوں کے دل کھنچے چلے آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سامراجی نظام چلانے والے سراسیمہ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے مہروں کو ہر روز ایک نئے انداز سے رد عمل ظاہر کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جس سے ان کی شکست اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ تو یہ رہا معنوی اور روحانی پہلو۔
سیاسی زاوئے سے دیکھا جائے تو جب سے دنیا میں سامراجیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، یعنی انیسویں صدی میں تقریبا دو سو سال قبل سے رفتہ رفتہ یہ سلسلہ شروع ہوا کہ جو ممالک دیگر ممالک کے امور میں مداخلت کرنے کی طاقت رکھتے تھے انہوں نے مداخلتیں شروع کیں۔ سامراجی نظام معرض وجود میں آیا اور دنیا تسلط پسند اور مستضعف ممالک میں تقسیم ہو گئی۔ آپ کے اسلامی انقلاب نے اس عمل کا مقابلہ کیا جو دنیائے سیاست کی فطری بات کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ یہ جو آج آپ دنیا کے بہت سے ممالک میں امریکہ مردہ باد کے نعرے سنتےہیں، یہ نئی تبدیلی ہے، ملت ایران کی تحریک کا نتیجہ ہے۔ یہ چیز پہلے نہیں تھی۔ آج جو اسلامی ممالک ہی نہیں یورپی ممالک تک میں امریکی سیاست کو نفرت انگیز سیاست اور امریکی حکام کو منفور ترین سیاستداں قرار دیا جانے لگا ہے، اس کا موجب ملت ایران کی تحریک ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ (اسلامی انقلاب نے) پہلے تو سامراجی طاقتوں کی ناک رگڑ دی اور پھر پورے سامراجی نظام کو للکارا کہ امریکہ یا دیگر ممالک کو کیا حق پہنچتا ہے کہ کمزور اور مستضعف ممالک سے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کریں؟ خود ہمارے ملک ایران میں طاغوتی دور کے روسیاہ حکام اس وقت تک کوئی اہم فیصلہ نہیں کرتے تھے جب تک ایران میں متعین امریکی اور برطانوی سفیر سے مشورہ نہیں کر لیتے تھے، کیوں؟ ایک قوم جو مادی و معنوی صلاحیتوں اور ثقافتی خزانوں سے سرشار ہے آخر کیوں کسی غیر کی تابع رہے؟ کیوں کا سوال سب سے پہلے اسلامی انقلاب نے اٹھایا۔ تو عالمی سطح پر اسلامی انقلاب نے سیاسی اور معنوی لحاظ سے یہ دو تبدیلیاں کیں۔ اور بھی بہت سے نمونے ہیں لیکن ان کی تفصیلات میں جانے کا وقت نہیں ہے۔
یہ کار بزرگ انجام پایا اور اس کے ساتھ ہی دشمنیاں بھی شروع ہو گئیں۔ تصادم کا سلسلہ بھی چل پڑا۔ دشوار ترین حالات میں امام (خمینی رہ) کی حیرت انگیز قیادت نے تحریک کی کامیابی کے ساتھ حفاظت کی اور اسے آگے بڑھایا۔ ملت ایران اور اس سرزمین کے نوجوان حقیقی معنی میں امام (خمینی رہ) کی باتوں سے سیراب ہوئے۔ ان باتوں کو دل و جان سے قبول کیا، اسے سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ لوگوں کو ورغلانے اور منحرف کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں، ان کے عقیدے اور یقین کو بدلنے کی سازشیں ہوئي لیکن اب تک سب بے سود رہیں۔ انشاء اللہ آئندہ بھی لا حاصل ہی رہیں گی۔ یہ تحریک آگے بڑھتی جا رہی ہے اور دشمنیاں بھی مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ہماری مثال اس دوڑنے والے کی ہے جو اپنی منزل کی سمت بڑھ رہا ہےلیکن کچھ لوگ یہ نہیں چاہتے اس لئے مسلسل راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں، دوڑنے والا رکاوٹیں پھلانگ جاتا ہے تو اس پر پتھر برساتے ہیں، اس کی سرزنش کی جاتی ہے۔ بار بار کہتے ہیں کہ مت جاؤ، کیا تمہیں خوف نہیں آتا، اس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ لیکن دوڑنے والا ہے کہ کسی کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ زخم کھاتا ہے، درد برداشت کرتا ہے لیکن دوڑ جاری ہے۔ ملت ایران نے اب تک ایسے ہی دوڑنے والے چیمپین کے انداز سے پیش قدمی کی ہے۔
تو اس صورت حال میں، اسلامی اور انقلابی امنگوں اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے عقیدتمندوں اور اس قوم اور اس مل کے ہمدردوں کا کیا فریضہ بنتا ہے؟ سب کا فریضہ ہے کہ ملت ایران کے لئے راستہ صاف کریں، سیاستداں اپنے انداز سے، حکام اپنے طور پر، علما اپنی روش کے مطابق، یونیورسٹیوں سے وابستہ دانشور اپنی سطح پر، روشن فکر افراد اپنے انداز میں اور دیگر طبقات بھی اپنے اپنے انداز میں۔ ان میں ایک موثر ترین طبقہ مذہبی مقررین، قائدین اور اہل بیت اطہار کی محبت کا پرچم بلند کرنے والے عشاق کا ہے جو اہل بیت اطہار کی خوشی میں خوش اور غم میں غمزدہ ہو جاتے ہیں۔
آج اس کی ضرورت ہے کہ تمام افراد اپنے فریضے کو سمجھیں اور بخوبی دیکھیں کہ ہم کہاں ہیں۔ بعض افراد ہیں جو غفلت کا شکار ہیں وہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ ہم کتنے آگے پہنچ چکے ہیں؟! وہ نہیں سمجھتے کہ ابھی کتنا طولانی سفر باقی ہے۔ نہیں سمجھتے کہ ہمارا دشمن موجود ہے۔ جو ہماری غفلت، سستی اور اختلاف سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس سلسلے میں میرا خطاب خاص طور پر سیاسی اور ثقافتی میدان کی اہم شخصیات سے ہے۔ انہیں اپنی باتوں کے سلسلے میں بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اتحاد و اتفاق رای جو تمام کامیابیوں کا راز ہے، آج ملک کو اس کی شدید ضرورت ہے۔ ملک کے حکام واقعی بڑی محنت کر رہے ہیں۔ زحمتیں برداشت کر رہے ہیں۔ حکومت، حکام، مختلف اداروں کے ڈائریکٹر سب کو محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئي تنقید کرنا چاہتا ہے تو ایسا انداز نہ اپنائے کہ جس پر تنقید کی جا رہی ہے اس کا حوصلہ ہی ٹوٹ جائے۔ اختلافات کی جڑ نفسانی خواہشات ہیں۔ اگر کسی متنازعہ اور تفرقہ انگیز فعل کے سلسلے میں کہا کہ یہ میں نے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے انجام دیا ہے تو آپ ہرگز اس بات پر یقین نہ کیجئے۔ مومنین کے درمیان تفرقہ انگیزی کبھی بھی اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں ہو سکتی۔ یہ تو شیطانی فعل ہے۔ مومنین کے درمیان بغض و کینہ پیدا کرنا جس سے اختلافات کی فضا وجود میں آئی شیطانی عمل ہے، اللہ کی خوشنودی کا باعث نہیں بن سکتا۔ الہی فعل تو لوگوں میں میل محبت پیدا کرتا ہے۔ اگر کوئي شخص کسی فریضے کو انجام دے رہا ہے تو دوسروں کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں تاکہ وہ کام کو بحسن و خوبی انجام دے سکے۔ اگر اس میں کہیں کوئي کمزوری ہے تو اسے متوجہ کریں، لیکن اس کی حوصلہ شکنی نہ کریں۔ جس شخص نے اپنے دوش پر علم سنبھالا ہے سب کو چاہئے کہ اس کی مدد کریں، کوئي اس کا پسینہ خشک کر دے، توکوئی اسے پنکھا جھلے، اگر محسوس ہو کہ وہ پرچم کو صحیح انداز میں بلند نہیں کر پا رہا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے کہ اس پر وار کرکے علم اور علم اٹھانے والے دونوں کو زمیں بوس کر دیا جائے۔ اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ جو کچھ کمی ہے دور ہو جائے۔ اس نکتے پر سب کو توجہ دینا چاہئے بالخصوص ان افراد کو جو سیاسی، ثقافتی، مواصلاتی یا دیگر اہم شعبوں میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔
پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہمیں اہل بیت علیھم السلام کے دوستداروں، عقیدتمندوں اور ان کی منزلت سے آشناؤں میں قرار دے۔ ہمیں اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ زندہ رکھ اور اسی ایمان و عقیدے کے ساتھ دنیا سےاٹھا۔ دنیا و آخرت میں ہمیں ان سے جدا نہ کرنا۔ پروردگارا! ہمارے فرائض ہمارے لئے آسان کر دے۔ جن چیزوں کے بارے میں تو ہم سے جواب طلب کرنے والا ہے ان کی انجام دہی کی ہمیں توفیق عطا فرما۔ حضرت امام زمانہ (ارواحنا فداہ) کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اسلامی جمہوریہ ایران میں عدلیہ کے سربراہ ڈاکٹر شہید بہشتی اور ان کے بہتر ساتھیوں کی اٹھائيس جون کے دہشت گردانہ حملے میں شہادت کی برسی اور یوم عدلیہ کی مناسبت سے قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے عہدہ داروں کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایا ، جو پیش خدمت ہے۔
چودہ خرداد سن 1387 مطابق تین جون 2008 کو امام خمینی (رہ) کی انیسویں برسی کے موقع پر امام خمینی کي آرام گاہ پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے لاکھوں کی تعداد میں جمع امام خمینی کے شیدائیوں، غیر ملکی مہمانوں اور سیکڑوں صحافیوں سے ایک اہم ترین خطاب فرمایا،
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين و صحبه المصطفين الاخيار. اللّهمّ صلّ و سلّم على وليّك و حجّتك حجّةبنالحسن صلواتك عليه و على ابائه.
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے لارستان کے محبتی لوگوں سے اس تاریخی شہر میں ملاقات کا موقع عنایت فرمایا۔ ماضی میں صوبہ فارس کے دوروں میں میری خواہش یہ رہی کہ لارستان کے علاقے اور شہر لار کے عوام سے ملاقات ہو لیکن ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ آج آپ لوگوں کے درمیان اس مہر و محبت کی فضا میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ جس بندہ مسلمان اور مومن کا دل، اس طرح اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو یقینا اس کی زندگی، اس کا ماحول، اس کا شہر اور اس کا معاشرہ اسی خوشبو اور پاکیزگي سے آراستہ ہوگا جو یہاں نظر آ رہی ہے۔ میں آپ عزیزوں کی مہر و محبت کے لئے آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور خود اپنے اندر بھی آپ کے لئے خاص الفت و انسیت کا احساس کرتا ہوں۔ اس موقع پر مناسب ہوگا کہ میں صوبہ فارس کے عوام کا بھی شکریہ ادا کروں۔ اس وسیع و عریض اور مایہ افتخار صوبے کے میرے اس سفر کا یہ آخری دن ہے۔ ان نو دنوں میں جو میں نے آپ کے صوبے میں گزارے، شہر شیراز اور دیگر شہروں کے عزیزوں سے بڑی محبت ملی، ان سب کا شکریہ ادا کرنا لازمی ہے۔
خوش قسمتی سے ملک کے حکام کی توجہات صوبہ فارس پر بھی مرکوز ہوئیں۔ کل شہر شیراز میں کابینہ کا اجلاس ہوا اور شہر لار و علاقہ لارستان سمیت صوبے کے عوام کے مختلف مسائل اور امور پر اہم گفتگو ہوئي اور کچھ فیصلے بھی کئے گئے۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالی کی توفیقات عہد ہ داروں کے شامل حال ہوں اور وہ ان عوام سے اپنی محبت اور انسیت کا اظہار کریں جو واقعی محبت و انسیت کے مستحق ہیں۔ آپ لوگوں کی جو حقیقی معنی میں خدمت کئے جانے کے لائق ہیں، خدمت کریں اور اپنے فرائض ادا کریں۔
ایران کی عصری تاریخ میں لار علاقے کا نام آیت اللہ العظمی سید عبد الحسین لاری سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم گزشتہ سو یا ایک سو بیس سال کی لار کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر واقعے میں اس عظیم شخصیت کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔
اپنے پیشرؤوں پر افتخار پر اکتفا کرنا ہمارا مقصود نہیں بلکہ ہم اپنی تاریخ، اپنے ماضی اور اپنی عظیم تاریخی شخصیات سے آشنا ہوکر، خود کو پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے زمانہ حال کو سمجھنے اور درک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سو سال سے کچھ اور قبل کی بات ہے جب لارستان کے علاقے میں اس مرد مجاہد نے شہری اور قبائلی عوام کی حمایت سے تاریخ کی ایک بڑی اہم تحریک کو وجود بخشا۔ اگر قوموں کے بارے میں کوئی نظریہ قائم کرنے کا معیار یہ ہے کہ ہم ان کی قابلیت کا اندازہ کریں، ان کے قومی عزم و ارادے کو دیکھیں، ان کی جرئت اقدام کو پرکھیں۔ اگر یہ کسی قوم اور بستی کی قدر و منزلت کے معیار ہیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ لار اور لارستان کے لائق احترام عوام ان معیاروں کی بنیاد پرہماری وسیع و عریض سر زمین میں نمایاں ترین افراد ہیں۔ جب ملک میں گاہے بگاہے حریت پسندی اور استبداد کی مخالفت کا موضوع اٹھتا تھا، اس زمانے میں اس بیدار مغز عالم دین کی برکت سے اس علاقے کے عوام میں حریت پسندی انگڑائياں لینے لگی تھی۔ جس وقت علاقے کی قوموں اور حتی خود ہماری قوم کے لئے بھی بیرونی جارح قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت تقریبا لا یعنی چیز تھی لارستان کے عوام نے اس مرد مجاہد کی قیادت میں برطانوی جارحیت کو للکارا اور برطانیہ کی زور زبردستی کے خلاف جاں بکف وارد میدان کارزار ہوئے۔ آیت اللہ سید عبد العزیز لاری نے اپنے فرزند کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا تھا کہ دباؤ بہت زیادہ ہے لیکن میں اپنے خون کے آخری قطرے تک مزاحمت کروں گا۔ جب قائد کا یہ انداز ہو، جب پیشوا اس خلوص کے ساتھ سینہ سپر ہو تو فطری بات ہے کہ قوم کے حوصلے بھی بلند ہوں گے اور یہ حوصلے قوم کو صحیح سمت میں لے جائیں گے۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند آیت اللہ سید عبد المحمد مرحوم نے، جو بڑی برجستہ علمی شخصیت کے مالک تھے، مزاحمت کا پرچم بلند کیا۔
لار کے اس ماضی سے اپنی موجودہ حالت اور اپنی عزیز و توانا قوم کے مستقبل کے لئے ہمیں درس لینا چاہئے۔ اس نمونے سے ہمیں پتہ چلا کہ اگر دنیا و ما فیھا کی طمع سے آزاد ایک مخلص قائد کی رہنمائی میں کوئی قوم دشوار گزار راستوں پر بھی چل پڑے تو ضدی اور بد ترین دشمن کے مقابلے میں بھی کامیابی اس کا مقدر ہوگی۔ اس علاقے اور ملک کے دیگر مقامات کی تاریخ سے یہ درس حاصل کرنے والی ایرانی قوم نے اس کا تجربہ اسلامی انقلاب کے دوران کیا۔ پرچم اسلام کی سربلندی اور تعلیمات محمدیۖ پر عمل آوری کے نعرے کے ساتھ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں قدم بڑھائے جب دنیا کی طاقتیں اس زعم میں تھیں کہ وہ دین و دینداری کو عوامی زندگی سے محو کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ ایرانی قوم نے ایک ایسے دور میں دین اور اسلام کے نام پر اپنے انقلاب کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائي کہ جب دنیا کی بڑی سامراجی طاقتیں یہ یقین کر چکی تھیں کہ دنیا منجملہ مسلم ممالک میں دین و دینداری کی جڑیں کاٹی جا چکی ہیں۔ وہ مطمئن ہو چکی تھیں کہ اب دین کا نام کبھی سامنے نہیں آئے گا اور دینی و مذہبی علامتیں رفتہ رفتہ مٹتی جائيں گی۔ وہ اس میٹھے تصور میں کھوئي ہوئی تھیں کہ ملت ایران نے اسلام کا پرچم لہراکر پوری دنیا کی انسانی زندگی میں دین و دینداری کی مشعلیں روشن کر دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اسلام کے لئے قیام کیا، لیکن ان ممالک میں بھی جہاں کے عوام کسی اور مذہب کے پیرو ہیں ہماری ملت کے انقلاب کے اثرات نظر آئے اور وہاں بھی دین و مذہب اور روحانیت و معنویت کی جانب لوگوں کی توجہ مرکوز ہوئي۔ یہ معجزہ ایرانی قوم نے کیا اور اسلام کے نام پر، قرآن مجید کے مبارک نام پر رونما ہونے والا یہ انقلاب دنیا کی اکثر اقوام کے لئے نمونہ بن گیا۔
اگر آج آپ مسلم ممالک کا سفر کریں تو دیکھیں گے کہ تیس سال قبل یعنی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے مقابلے میں فضا بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ ان دنوں اگر کوئی حریت پسند کی بات کرتا، قیام کرتا یا کوئي تحریک شروع کرتا تو ملحدانہ مکتب فکر اور نعروں کا سہارا لیتا تھا لیکن آج عالم اسلام میں، روشن فکر افراد، طلبا اور فرض شناس انسان جب حریت پسندی، آزادی و خود مختاری کی بات کرتے ہیں تو پرچم اسلام کے سائے تلے یہ نعرے بلند کرتے ہیں یا کوئي تحریک شروع کرتے ہیں۔ یہ ملت ایران کے قیام اور اسلامی انقلاب کی برکت ہے، جس کی جڑیں عصری تاریخ سے متصل زمانے میں پیوست ہیں۔ تنباکو کی تحریک اور آئينی تحریک جو عظیم الشان علما کے ذریعے شروع ہوئی اس میں لارستان کے عوام کا قیام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جب ہم اپنے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو اسی زاوئے سے ڈالتے ہیں۔ ہمارے لئے ماضی ایک وسیلہ اور آئینہ ہے۔ اس سے ہمیں درس ملتا ہے اور ہم اپنے مستقبل کا خاکہ کھینچنے میں اس سے مدد لیتے ہیں۔
آج سب سے پہلے مرحلے میں ہمارے سامنے جو چیز ہے وہ اسلام سے تمسک ہے۔ تمام خیر و برکتیں جو ایک قوم کی تمنا ہوتی ہے، اسلام کے زیر سایہ حاصل ہو سکتی ہیں۔ اگر ہم آزادی چاہتے ہیں، خود مختاری چاہتے ہیں، رفاہ عامہ کے خواہاں ہیں، سائنسی ترقی کے متمنی ہیں، مختلف شعبہ ہائے حیات میں پیش قدم رہنے کے آرزومند ہیں، ایرانی قوم کی حیثیت سے اپنے لئے عزت و وقار چاہتے ہیں تو ان سب کا واحد راستہ ہے اسلام سے تمسک۔اسلام کی تعلیمات میں، اور اس دین کی گہرائیوں میں کسی بھی قوم کے لئے یہ ساری نعمتیں پنہاں ہیں۔ اسلام سے تمسک ملت ایران کے پاس سب سے اہم راستہ اور طریقہ ہے۔
دوسری چیز ہے اتحاد، جس کے بارے میں میں اس سفر میں بھی اور دیگر دوروں میں بھی اپنی تقاریر اور قوم سے خطابات میں خاص تاکید کرتا رہا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ دشمن اس قوم پر ضرب لگانے کے لئے جس سازش پر کاربند ہے وہ اس مسلمان قوم کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی تگ و دو ہے۔ عالم اسلام اور مسلم امہ کے سلسلے میں یہی پالیسی اختیار کی گئي ہے۔ انقلاب کی کامیاب کے آغاز سے ہی ہمارے مسلمان ہمسایہ ممالک منجملہ خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک کو اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب سے ہراساں کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بد قسمتی سے بعض اوقات دشمنوں کو کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئيں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تو تمام مسلم اقوام اور حکومتوں کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران تو اپنے پورے وجود سے اسلامی اتحاد و یکجہتی کا خواہاں ہے۔ وہ اتحاد جو قوموں میں میل محبت اور حکومتوں کے درمیان تعاون کا ضامن ہو۔ بحمد اللہ قوموں میں مفاہمت ہے، فرقہ وارانہ اور گروہی اختلافات قوموں کے درمیان خلیج پیدا نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ دشمن کا وسوسہ کارگر ہو جائے۔ البتہ حکومتیں سیاست کے زیر اثر کبھی کسی طرف تو کبھی کسی اور جانب مائل ہو سکتی ہیں لیکن ہم آج بھی اعلان کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک ہمارے بھائي ہیں۔ ان ممالک کی جانب ہم نے دوستی و اخوت کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے۔ ہم کسی چیز کے لئے بھی ان کے محتاج نہیں ہیں۔ یہ اخوت کی دعوت، ضرورت کے تحت نہیں ہے۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ اللہ کی ذات پر توکل اور اپنی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کے ذریعے مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہم تو عالم اسلام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اختلافات سے گریزاں ہیں اور تمام ممالک کی جانب دوستی کا ہاتھ ہم نے بڑھا رکھا ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں اور امریکی و صیہونی جاسوسی کے اداروں کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود جو بلا وقفہ فتنہ پروری میں مصروف ہیں، ان کی بد بختی ہی کہئے کہ خطے کے عرب اور غیر عرب ممالک کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے تعلقات پروان چڑھ رہے ہیں۔ البتہ ان تعلقات میں روز افزوں وسعت لانے کی ضرورت ہے۔
ٹھیک یہی چیز ملک کے اندر بھی ذرا اور شدت کے ساتھ پیش آئی۔ اوائل انقلاب سے ہی ملک کے اندر یہ کوشش کی گئی کہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عظیم ملت ایران کے درمیان سیاسی اختلافات پیدا کئے جائیں۔ ہم نے دشمن کی ان سازشوں کو ناکام تو بنا دیا لیکن اب بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اور ہمارے تمام بھائي بہن اس سلسلے میں ہوشیار رہیں اور پوری توجہ سے کام لیں کہ دشمن اپنے مکر و حیلے کا استعمال نہ کرنے پائے۔ شیعہ سنی، مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد، مختلف سیاسی رجحانوں کے حامل لوگ، سب کو یہ علم ہونا چاہئے کہ ایرانی قوم، اسی مذہبی، نسلی، اور فکری تنوع کے ساتھ ایک عظیم پیکر ہے۔ ایک متحد یونٹ ہے۔ اسی اتحاد و یکجہتی کے ہی سہارے خطرناک ترین دشمن کے مقابلے میں اپنے مفادات، اپنے تشخص اور اپنے وقار کی حفاظت ممکن ہوگی اور اللہ کی نصرت و مدد سے دشمن کو زیر کیا جا سکے گا۔
لارستان کے علاقے میں بعض شہروں اور حصوں میں برادران اہل سنت بھی آباد ہیں اور اس علاقے میں شیعہ سنی اخوت و مفاہمت قابل تعریف نمونہ ہے۔ میں نے یہ چیز رپورٹوں میں بھی دیکھی اور پڑھی، مجھے اس کی پہلے سے بھی اطلاع تھی اور آج اس اجتماع میں اس کی نشانیاں سامنے ہیں۔ ہم سب کو اسلام کے لئے محنت کرنی ہے۔ کلمہ توحید اور حقیقی اسلامی اقدار اور شریعت محمدیۖ کو عام کرنے کے لئے شیعہ سنی مل کر کوششیں کریں اور اپنی زندگی اور روش پر، اختلاف رای، اختلاف نظر، اختلاف ذوق، ذاتی عناد و اغراض کا غلبہ نہ ہونے دیں کہ دشمن خوش ہو سکے۔
آج دشمن کی کوشش یہ ہے کہ عظیم اسلامی تحریک کی مرکزیت اور مسلم امہ کے اس محور یعنی ملت ایران کو جو دنیائے اسلامی میں نئي روح پڑ جانے کا باعث بنی ہے، بے اثر بنا دیں۔ دشمنوں اور سامراجی طاقتوں کی خواہش یہ ہے کہ اس عملی نمونے کو دنیا کے مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیں۔ اسلامی ملک ایران ایک عملی نمونہ ہے۔ اسلامی ملک ایران نے اپنے وجود، اپنے اثر و رسوخ، اپنی ترقی و علو اور اپنے اتحاد و خلوص سے عالم اسلام کو یہ یقین دلا دیا ہے کہ دشمن کی سازشوں کے سیلاب کے سامنے اور اس پر تلاطم دور میں بھی اسلامی نظام کی تشکیل کی جا سکتی ہے۔ عملی میدان میں اسلامی اقتدار کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے مسلمان اقوام کے سامنے اس کا کامیاب تجربہ کیا۔
دشمن کی نیت، اس کی خواہش اور مذموم آرزو یہ ہے کہ یہ مثالی نمونہ مسلم اقوام کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جائے۔ اب خواہ اس کے لئے سیاسی، فوجی اور اقتصادی یلغار کرنی پڑے یا تشہراتی مہم اور الزام تراشی کا سہارا لینا پڑے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں، عرب خطوں میں، کچھ نامہ نگاروں کے بکے ہوئے قلم ایسے گھٹیہ انداز میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ یقین نہیں آتا۔ ملت ایران، ایک مسلمان معشرے، اور اسلامی جمہوری نظام کے خلاف ایسی ایسی باتیں لکھتے ہیں کہ انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے کہ آیا کوئي بے ضمیر انسان اور کوئي بکا ہوا قلم یہاں تک بھی گر سکتا ہے؟! پست ترین دنوی مفادات کے لئے قرآن و اسلام کے مقابلے پر آ سکتا ہے؟!
اس کے سد باب کا واحد راستہ، ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ بھائيو اور بہنو! راستہ یہ ہے کہ ہم اپنے اتحاد و یکجہتی کو روز بروز مضبوط بنائيں، دلوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لائيں اور ملک کو ترقی کی بلندیوں پر لے جانے کے لئے اپنی کوششیں تیز کریں۔ آج بحمد اللہ بڑے پیمانے پر کوششیں نظر آ رہی ہیں۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسی لار اور لارستان کے علاقے میں خیر حضرات بڑے اہم کام انجام دے رہے ہیں جن کی ہمیں اطلاع ہے۔ ہمیں ان کاموں کی تفصیلات سے مطلع کیا جاتا ہے۔ عوام کی خدمت، عوام کی مدد، محروم طبقے کی دستگیری، علمی سرگرمیاں، مساجد کی تعمیر اور اسی جیسے دوسرے کام، ایسے کارہائے نمایاں ہیں جو خطے کے لوگ شوق و رغبت اور دلچسپی و تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔ عوام کی یہ خدمت، قومی سطح پر اسلامی جمہوری حکومت اور اسلامی جمہوری نظام کے ذریعے انجام پا رہی ہے اور انشاء اللہ اس سمت میں ہم روز بروز آگے ہی بڑھتے رہیں گے اور سائنس و ٹکنالوجی، اقتصادیات و معاشیات، سماجیات و اخلاقیات کے شعبوں میں مسلسل پیش رفت کرتے رہیں گے۔ سامراجی سازشوں کے سد باب کا واحد راستہ اور طریقہ یہی ہے۔
قوم کی بلند ہمتی ہی ملک کو بے نیاز بنا سکتی ہے۔ مختلف شعبوں میں عوام کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری بہت اہم ہے۔ خصوصا پروڈکشن کے شعبے میں سرمایہ کاری قابل تعریف ہے۔ میری نظر میں جو افراد عوام کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں ان کا یہ کام بہترین عمل صالح اور کار خیر ہے انہیں چاہئے کہ پیداوار کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے اور ملک کی ترقی میں بھی اس سے مدد ملے گی ساتھ ہی ملک سے غربت کا خاتمہ ہوگا اور یہی اسلامی جمہوری نظام کی عام پالیسی ہے کہ عوام کے مالی سرمائے، فکری سرمائے اور کارآمد افرادی سرمائے کا بھرپور استعمال کیا جائے کہ یہ ملک جن کی ملکیت اور مستقبل جن کے اختیار میں ہے۔
آج علاقے کی قوموں کی نظر میں سامراجی پالیسیاں آشکارہ ہو گئی ہیں۔ قوموں کو بخوبی پتہ ہے کہ سامراجی طاقتیں اس علاقے سے کیا چاہتی ہیں کس چیز کی تلاش میں یہاں آ دھمکی ہیں۔؟ خلیج فارس میں امریکیوں کی موجودگی بد امنی کا اہم سبب ہے۔ قومیں اس سے باخبر ہو چکی ہیں۔ وہ زمانہ جب دنیا کی تسلط پسند طاقتیں امن و امان قائم کرنے کے نام پر ملکوں، آبی راستوں، اور اہم گزرگاہوں پر قابض ہو جایا کرتی تھیں اب گزر چکا ہے۔ اب قومیں باخبر ہیں، عراقی عوام جانتے ہیں کہ امریکہ کو عراق کی فکر کیوں لاحق ہوئی۔ خود امریکی بھی اقرار کرنے لگے ہیں کہ ہم تو تیل کی تلاش میں آئے ہیں۔ انہوں نے عراقی عوام کو آزادی دلانے کے نام پر بے شمار مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ چو دیدم عاقبت گرگم تو بودی آج وہ بھیڑئے کی مانند عراقی عوام کی جان کو آ گئے ہیں لیکن اب بھی دعوا یہی ہے کہ ہم عراق میں امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی عوام کے لئے بد امنی کی سب سے بڑی وجہ قابض قوتوں کی موجودگی ہے جن کی نظر میں عراقی عوام کی جان و مال اور عزت و ناموس کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں ہے۔
عراق پر قبضے کے اوائل میں میں نے نماز جمعہ کے خطبے مں قابضوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح آپ لوگ اس قوم کی تحقیر و توہین کر رہے ہیں، عراقی نوجوان کو منہ کے بل زمین پر لٹا دیتے ہیں اور آپ کا فوجی اس نوجوان کی پیٹھ پر پیر رکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے، آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ عراقی عوام اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ عراقی قوم غیور قوم ہے۔ وہ قابض افواج کے خلاف عراقی عوام کی مزاحمت کا اصلی سبب تلاش کرنے میں لگے ہیں، اس دفعہ بھی ان سے اندازے کی شدید غلطی ہوئی ہے۔ کبھی ایران پر انگلی اٹھائي جاتی ہے تو کبھی شام کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ دوسروں پر الزام لگا رہے ہیں۔ ارے خود اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے۔ قابض افواج کی موجودگی ہی عراقی عوام کو مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ عراق کی سرحدوں کے باہر سے کوئی عراقی عوام کو اکسائے۔ دوسروں کے خلاف الزام تراشی احمقانہ حرکت ہے۔ اصلی ملزم اور مجرم خود آپ ہیں۔ مسئلہ عراق میں سب سے پہلے مرحلے میں امریکی مجرم ہیں۔ دیگر مقامات پر بھی یہی صورت حال ہے۔ خلیج فارس میں جو دنیا کا حساس ترین علاقہ ہے امریکی فوجیوں کی موجودگی کے سبب بد امنی کا شکار ہے۔ خطے کی سلامتی مقامی حکومتوں کے ہاتھوں یقینی بنائی جانی چاہئے۔ اسی طرح فلسطین کے مسئلے میں امریکہ کی مداخلت سے اس کی پیچیدگیاں بڑھ گئی ہیں۔
امریکی کی مداخلت سے مسئلہ فلسطین حل ہونے والا نہیں ہے۔ امریکیوں کی مداخلت جتنی بڑھتی جائے گی پیچیدگیوں میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔ فلسطینی قوم ایک بیدار، حریت پسند اور روشن فکر قوم ہے۔ اس نے ایک حکومت کا انتخاب کیا ہے تو اب عوام کی حمایت سے اس حکومت کو کام کرنے دیجئے۔ وہ صیہونی حکومت کے حق میں یکطرفہ طور پر مداخلت کرتے ہیں نتیجتا جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے مسئلہ فلسطین اور بھی پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ البتہ یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔ مسئلہ عراق بھی حل ہو جائے گآ اور مسئلہ فلسطین بھی نمٹ جائے لیکن تب امریکہ کا اعتبار، وجود اور تشخص بھی مٹ جائے گا۔
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس سفر میں خواہ وہ آپ کا شہر لار یا لارستان کا علاقہ ہو یا صوبہ فارس کے دیگر مقامات، مجھے اس صوبے اور یہاں کےعزیز عوام کے بارے میں جو باتیں معلوم تھیں جن کے بارے میں مجھے بتایا گيا تھا وہ میں نے خود دیکھیں۔ جہاد کے ایام میں شیراز کے افاضل اور علما و برجستہ شخصیات کے ساتھ میرا بڑا یادگار وقت گزرا ہے۔ جیسا کہ میں نے انقلاب کی تحریک کے آخری سال اور اس سے قبل والے سال میں آیت اللہ شہید سید عبد الحسین دستغیب مرحوم اور دیگر شخصیات کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا اسی طرح آیت اللہ ربانی شیرازی مرحوم بھی تھے جن کا شمار قم کے صف اول کے علما میں کیا جاتا تھا اور بڑے تجربہ کار مجاہد تھے۔ جلا وطنی کے کچھ ایام میں ان کا ساتھ رہا اور مختلف مسائل اور امور پر ان سے تبادلہ خیال ہوا۔ اسی دوران آیت اللہ دستغیب کے ساتھ میری خط و کتابت ہوئی۔ اسی وقت سمجھ میں آ گیا کہ صوبہ فارس اپنے جہاد میں کس قدر دانائي اور عقلمندی سے کام لے رہا ہے آگے چل کر یہ بات ثابت بھی ہوئي۔ آج بھی جب اسلامی انقلاب کی کامیابی کو تقریبا تین عشروں کا وقت گزر چکا ہے اگر ہم اس صوبے میں پہنچتے ہیں تو تمام شہروں اور پورے صوبے میں انقلاب کی خوشبوں رچی بسی نظر آتی ہے۔ یہ آپ نوجوانوں کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ یہاں اس میدان میں بھی اور اسی طرح ہر اس شعبے میں جس پر دنیا والوں کی نظریں رہتی ہیں آپ نوجوانوں کی موجودگی صاف محسوس کی جاتی ہے۔
عزیز نوجوانو! ملک آپ کا ہے، آپ کی ملکیت ہے۔ مستقبل آپ کا ہے۔ آپ اپنی طولانی اور خوشبختی سے سرشار عمر کے دوران انقلاب کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔ جتنی ہو کسے محنت کیجئے۔ جتنا ممکن ہو کام کیجئے۔ علمی میدانوں میں آگے بڑھئے سعی و کوشش کبھی رکنے نہ پائے۔ اخلاقیات و دینداری، ذکر خدا و تلاوت کلام پاک کی اہمیت کا ادراک کیجئے۔ ان کے سہارے آپ اس مقام تک پہنچیں گے جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔
پروردگارا ! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے دلوں کو اسلام کی جانب روز بروز زیادہ سے زیادہ راغب و مائل فرما۔ اسلام سے آشنائي میں اضافہ فرما۔ خدایا ہمارے عزیز عوام پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ خدایا ہمارے نوجوانوں کی حفاظت فرما، ان کی عاقبت سنوار دے۔ انہیں ہدایت دے۔ پروردگارا ان نوجوانوں کے مستقبل کو خود ان کے لئے بھی اور اس ملک کے لئے بھی تابناک بنا دے۔ شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے الیاء کے ساتھ محشور فرما ہمارے امام (خمینی رہ) کی روح مطہر کو بھی اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں بھی شہدا سے ملحق ہونے کی توفیق عطا کر اور ہمارے امام زمانہ کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
صوبے کے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے عزیز عہدہ داروں سے آج کی ملاقات، جو شیراز میں میرے قیام کے آخری دن انجام پا رہی ہے، آپ حضرات کے لئے میری طرف سے کچھ سفارشیں کئے جانے سے بڑھ کر، آپ کے شکرئے اور قدردانی کا موقع ہے۔
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
الحمدللَّه ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على اله الاطيبين الاطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين؛ سيّما بقيّةاللَّه فى الارضين.
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے حقیر کو اس سفر میں کازرون کے مومن اور انقلابی عوام کے اس اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ در حقیقت کازرون کے عوام کا مجھ پر یہ حق رہ گیا تھا۔ اپنی صدارت کے دوران جب میں نے صوبہ فارس کا دورہ کیا تھا تو اس وقت مجھے یہ توفیق حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس نے اس دفعہ توفیق دی کہ اس شہر کی زیارت کروں، جو اپنی درخشاں تاریخ اور انقلاب کی اہم ترین اور عظیم نشانیوں کے لحاظ سے صوبہ فارس بلکہ ملک کا اہم ترین شہر تصور کیا جاتا ہے، اور آپ عزیز بہن بھائیوں کی خدمت میں حاضر ہوؤں۔ یہ اجتماع بھی بحمد اللہ شوق و عشق، معنویت و روحانیت اور انقلابی جذبات و دینی عقیدے کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے آپ کے لئے خاص عنایت ہے کہ جو تاریخ میں راہ خدا میں آپ کی طویل جد و جہد کی جزا ہے۔
کازرون عصری تاریخ میں ایک نمایاں اور بہت اہم شہر رہا ہے۔ خلیج فارس پر برطانوی سامراج کی جارحیت کے وقت کازرون کے جوانوں نے استقامت کی راہ میں خود کو بلند مقام پر پہنچایا۔ تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک اور آیت اللہ کاشانی رضوان اللہ علیہ کی حمایت میں یہاں کے عوام نے سنہری تاریخ رقم کی ہے۔ پندرہ خرداد (چار جون) کے موقع پر کازرون ان شہروں میں شامل تھا جہاں کے عوام نے بہت شجاعت مندانہ اقدام کیا۔ انقلاب کی تحریک کے آخری سال میں بھی کازرونی نوجوانوں اور اس خطے کے غیور عوام نے طاغوتی حکومت کے خلاف ایسی استقامت کا مظاہرہ کیا اور شجاعت کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس وقت جن گيارہ شہروں میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا ان میں ایک کازرون بھی تھا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ اس موقع پر بھی کازرون نے شہدا کی شکل میں نذرانہ پیش کیا تھا۔
علم و ادب کے میدان کی ممتاز شخصیات کی پرورش کے لحاظ سے بھی کازرون کی تاریخ بڑی تابناک اور درخشاں ہے۔ تاریخ اسلام کی عظیم اور زندہ جاوید شخصیت حضرت سلمان فارسی کی کازرون سے نسبت، اس خطے کے لئے مایہ افتخار ہے۔ البتہ حضرت سلمان فارسی کا تعلق تمام ایرانیوں سے ہے سارے ایرانی عوام اور سارے فارسی زبان اور فارس کے وہ سارے لوگ جن کی پیغمبر اسلام نے تعریف فرمائي ہے حضرت سلمان فارسی پر نازاں ہیں۔ حضرت سلمان کی نسبت ہمارے پورے ملک سے ہے آپ کا پوری قوم سے تعلق ہے۔ کازرون کے عوام اس علاقے کو اس جلیل القدر صحابی کی جائے ولادت قرار دیتے ہیں، اصفہان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ نے اصفہان میں نشو نما پائي، دونوں باتوں میں تضاد نہیں ہے۔ شہر شیراز، صوبہ اصفہان شہر کازرون، دشت ارژنہ جو حضرت سلمان فارسی کے مبارک نام کو خود سے منسوب کرتے ہیں اور ان کو اس کا حق بھی حاصل ہے اسی طرح اصفہان کے لوگ جو کہتے ہیں کہ اس الہی شخصیت نے اصفہان میں نشو نما پائی، اور انہیں ایسا کہنے کا حق بھی ہے۔ ان کے علاوہ ایران کے ہر گوشے میں آباد مسلمان حضرت سلمان فارسی کی ذات پر فخر کرتے ہیں۔
قالوا ابوالصّقر من شيبان قلت لهم
كلاّ و لكن لعمرى منه شيبانُ
یہ نہیں کہنا چاہئے کہ سلمان فارسی فارس یا ایران سے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ فارس اور ایران سلمان فارسی سے ہے۔ مقام ایمان، مقام معرفت، مقام جہاد فی سبیل اللہ اور حقیقت کے پاکیزہ سرچشمے تک رسائی کی سعی پیہم کسی انسان کو اس منزل پر پہنچا دیتی ہے کہ پیغمبر کا ارشاد ہوتا ہے کہ سلمان منا اھل البیت،آپ کو اپنے اہل بیت کا جز قرار دیا۔ حضرت ابو ذر، عمار ، مقداد اور دیگر عظیم صحابائے کرام علو درجات کے لحاظ سے حضرت سلمان فارسی کے بعد آتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے ایک نمونہ ہے۔ یعنی حقیقت کی جستجو میں ڈوب جانا اور اسے حاصل کرکے اس پر ثابت قدم ہو جانا وہ کیمیا ہے جس نے سلمان کو سلمان بنا دیا۔ اسی طرح استقامت، خلوص اور اس حق پر عقیدہ جو آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے، کازرون کے عوام کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے نتیجے مین کازرون کےعوام کانام اس شہر کا نام ملک کی تقدیر اور مستقبل سے لگاؤ رکھنے والوں کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے درج ہو گيا ہے۔ یہ ہیں حقیقی فضیلتیں۔ اسلامی اقدار کے تعین میں ہم اس قسم کی اقدار پر بھروسہ کرتے ہیں۔ کازرونی زن و مرد، اور نوجوانوں کو اسلام میں اپنی سربلندی اور قدر و منزلت کی حفاظت کے لئے ان فضائل پر توجہ دینا ہوگی۔ اس حق بات پر استقامت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس کی انہیں شناخت ہو چکی ہے، جس سے انہیں قلبی لگاؤ اور جس کی انہوں نے پیروی کی ہے۔ یہ باعث عز و شرف ہے۔ اشراف امتی حملۃ القرآن و اصحاب اللیل لوگ دولتمندوں اور اہم منصب پر فائز افراد کا شمار امرا اور شرفا میں کرتے ہیں لیکن اسلام میں شرفا کے لئے معیار ذرا مختلف ہے۔ جو راہ خدا میں زیادہ تندہی سے جد و جہد کرتا ہے، جو الہی اصولوں سے متمسک ہے، جو اس راہ میں سچآئي اور خلوص کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اللہ تعالی کے نزدیک اس کا شمار شرفا میں ہوتا ہے۔
کازرون کے عزیز شہریوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ ملک کے حکام اور اس حقیر سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمارے دل بھی آپ کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
میں نے کازرونی عوام کی انقلابی سرگرمیوں کی جانب اشارہ کیا۔ صرف اسی بنیاد پر طاغوتی حکومت کے زمانے میں کازرون بلکہ ایک لحاظ سے پورا صوبہ فارس شاہی غیظ و غظب کا نشانہ تھا۔ آپ شیراز کے بارے میں پڑھئے اور اس طاغوتی حکومت کے دور میں نیا کلچر رائج کرنے کی کوششوں کا جائزہ لیجئے۔ اب آپ اس کا جائزہ لیجئے کہ ایک حکومت کسی صوبے کی ترقی و پیش رفت کے لئے کیا کام انجام دیتی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں اس علاقے کی تعمیر و ترقی پر کوئي توجہ ہی نہیں دی گئی تھی۔ صوبے کی سڑکیں ٹھیک نہیں تھیں۔ صوبے میں پانی کی سپلائی میں مسائل تھے، بند کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر اور صوبے میں بڑی بڑی صنعتیں لگانے سے گریز کیا گیا۔ ملک کے قلب میں واقع صوبہ جو اس عظیم تاریخ کا مالک ہے مواصلاتی لحاظ سے ملک کے پسماندہ ترین صوبوں میں ہے۔ اس لئے کہ اس کی ترقی سے دلچسپی نہیں تھی۔ طاغوتی حکومت کے دور میں اس صوبے بلکہ پورے ملک کے بنیادی مسائل کے سلسلے میں حکام میں دلچسپی، ہمدردی اور سنجیدگی تھی ہی نہیں۔ زاویہ نگاہ مختلف تھا، کچھ الگ ہی حساب کتاب تھا۔
آپ غور کریں کہ جب ملک میں ریل گاڑی آئی تو سب کے ذہنوں میں خیال آیا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے مرکز کو ریل پٹری کے ذریعے وسطی صوبوں یعنی فارس اور اصفہان سے گزر کر خلیج فارس سے متصل کر دیا جائے گا۔ یہ بالکل فطری بات نظر آتی تھی۔ لیکن یہ کام نہیں کیا گيا۔ برطانیہ کا وہ سیاسی مصنف جو خود ایک سیاستداں اور ملک کے ساتھ خیانت کرنے والے سامراجی نظام سے وابستہ ہے، اپنی ایک کتاب میں جس کا فارسی ترجمہ ایران و قضیہ ایران کے عنوان سے شائع ہوا ہے اعتراف کرتا ہے کہ ایران کی ریل سروس تہران سے شروع ہوکر ملک کے وسطی علاقوں صوبہ اصفہان اور صوبہ فارس سے گزرتی ہوئی خلیج فارس تک پہنچنی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں کیا گيا۔ طاغوتی دور میں جب رضاخان کی حکومت تھی ریل پٹری اس ملک کی دشمن تصور کی جانے والی طاقتوں یعنی برطانیہ اور روس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، بچھائي گئی اور اس کا نام قومی ریل پٹری رکھ دیا گیا! سراسر غلط کہاں کی قومی ریل پٹری؟ ان دنوں برطانیہ اور روس کو ایران کی دو سمتوں میں ہتھیار اور فوجی ساز و سامان منتقل کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے لئے، ان کے لئے تیل کی دولت لوٹنے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے خلیج فارس سے وہ بھی خاصے فاصلے کے بعد سے تہران تک ایک ریل پٹری بچھائی گئي۔ وہاں سے کیسپین سی کے بعض علاقوں تک رسائي کے مسئلے پر توجہ دی گئی تاکہ برطانیہ اور روس کے درمیان رابطہ آسان رہے۔ یعنی ایک ملک کی ترقی کے پروجکٹ یعنی ریل پٹری بچھانے میں اس حد تک سامراجی طاقتوں کا اثر و رسوخ رہتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے ملک کے قلب میں واقع شیراز ریل کی پٹری سے محروم رہا۔ لیکن اللہ تعالی کی مدد سے انقلاب کے ان ابتدائي برسوں میں ہی، مواصلاتی میدان میں اس علاقے میں کافی کام ہوا ہے۔ اسی طرح اس خطے کو ملک کے دیگر علاقوں سے جوڑنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کے زمانے میں ریل کی پٹری بچھائي جائيگي۔ یہ کام انجام دیا جائےگا یہ صوبہ فارس کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔ بالخصوص ان برسوں میں تمام شعبوں میں حوصلہ افزا کام ہوئے ہیں صنعتی میدان میں بند بنانے کی ٹکنالوجی میں اسی طرح دیگر میدانوں میں دیگر صوبوں کی مانند صوبہ فارس کے بھی شایان شان اقدامات کئے جائيں یہ عوام کا حق ہے جو حکومتیں انہیں دلائيں گي اور انشاء اللہ تعالی یہ حق انہیں ملے گا۔ ملت ایران نے اس عظیم ہدف اور مقصد کےحصول کے لئے اپنا پورا وجود داؤں پر لگا دیا۔ اسلامی انقلاب کے دوران قوم کو اپنے تشخص کا احساس ہوا۔ اس قوم کے دشمن ہمیشہ یہ چاہتے تھے اور اس کوشش میں رہتے تھے کہ اس قوم کا تشخص مٹا دیں۔ کیونکہ جب ایک قوم سے اس کا تشخص چھن جائے گا تو اسے بآسانی زیر کیا جا سکے گا۔ دشمن اس کے لئے اس قوم کے ماضی اور اس کے پاس موجود بے پناہ وسائل کی نفی کرتے تھے اس کے اندر موجزن صلاحیتوں کا انکار کرتے تھے کیوں؟ تاکہ اس قوم اور اس ملک کو آسانی سے اپنا دست نگر بنا لیں۔ یہ کام ثقافتی زوال کے دور یعنی پہلوی دور اقتدار میں انجام پا رہا تھا اور روز بروز اس عمل میں شدت آتی جا رہی تھی۔
اسلامی جمہوریہ نے سمت اور رخ کو ایک سو اسی درجہ تبدیل کر دیا۔ ملت ایران کو اپنے تشخص کی فکرہونے لگی، اسے اپنے اسلامی تشخص کا احساس ہوا کہ جو اس کے ایرانی تشخص کا بھی سرچشمہ ہے۔ اسے احساس ہو گیا کہ اپنے گمشدہ یا گم کردہ ایرانی، اسلامی تشخص کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور اسی کی بنیاد پر اپنی منزلیں اور اہداف طے کرنا ہے، منصوبہ بندی کرنا ہے اور اسی تناظر میں سعی پیہم انجام دینا ہے۔ یہ کام ہماری قوم نے بڑی خوش اسلوبی سے کیا ہے اور کر رہی ہے۔ میں ناامیدی اور مایوسی کی باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔ میں ایسے نظریات کا منکر ہوں۔ میں ملک کے گوناگوں مسائل اور عظیم الشان ملت ایران کی صورت حال کےپیش نظر کہتا ہوں کہ یہ قوم اور اس قوم کے نوجوان تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد انقلابی اقدار کے زیادہ گرویدہ اور اس راہ کے تجربہ کار سپاہی بن چکے ہیں، ان کے ارادوں میں زیادہ استحکام پیدا ہوا ہے۔
انقلاب کا جوش کسی شعلے کی مانند بلند ہوتا ہے، ممکن ہے آگے چل کر اس کی شدت میں کمی آ جائے لیکن اگر اس کے ساتھ سلیقے سے رکھی گئی لکڑیوں میں بھی اس کی حرارت منتقل ہو رہی ہے تو یہ آگ شعلہ ور رہے گی، یہ آگ زیادہ طاقتور بنے گی، اس کی حرارت میں اضافہ ہوگا۔ وہ پہلی آگ ممکن ہے اب باقی نہ رہے لیکن اس سے وجود میں آنے والے شعلوں میں پائداری ہوگی۔ اس کا دائرہ روز بروز بڑھےگا۔
آج ملت ایران کے دشمن سراسیمگی کا شکار ہیں، ملت ایران کی مسلسل پیش قدمی سے مضطرب ہیں۔ میں کازرون میں بسنے والے تمام دوستوں اور اس اجتماع میں موجود بھائي بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اسلامی جمہوری نظام کا دشمن یعنی عالمی سامراجی نیٹ ورک، جس میں امریکہ ہی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی نیٹ ورک کے مالکان، جو آج دنیا میں حکومتیں لاتے اور سرنگوں کرتے ہیں، خود ان ملکوں میں جہاں انہیں جمہوریت کے حامی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ خود امریکہ اور ان ممالک میں جو صیہونزم کی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں انہیں کا سکہ چلتا ہے، وہ ہیں ملت ایران کے دشمن۔ اسی طرح اس عالمی سامراجی نیٹ ورک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھنے والی حکومتیں، یہ سب اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے سامنے اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں۔ یہ ہیں ہمارے دشمن۔ اس دشمن نے ملت ایران کے مقابلے میں تمام وسائل اور ہر ممکن طریقے کا استعمال کیا لیکن پشیمانی کے سوا کچھ اس کے ہاتھ نہیں آیا۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ ان تیس برسوں میں انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ ان کے بس میں جو بھی تھا انہوں نے کیا۔ اگر کچھ رہ گیا ہے تو صرف اس لئے کہ نفع و نقصان کے حساب کتاب میں انہیں یہ لگا کہ ایسا کرنا فائدےمند نہیں ہے۔ اس میں نقصان زیادہ ہے۔ ورنہ انہوں نے اس قوم کے خلاف ہر وہ اقدام جو ان کے لئے ممکن تھا اور جس میں ان کا بڑا نقصان نہیں تھا، کیا ہے۔ انہوں نے اقتصادی محاصرہ کیا ہے، فوجی حملہ کیا ہے، فوجی بغاوت شروع کروائي ہے۔ ملک کے اندر سے اپنے لئے مہرے تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں، ایسے عناصر کو تلاش کرکے انہیں انقلاب کے خلاف پروپگنڈہ کرنے اور منفی فضا قائم کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ حتی انہوں نے ملک کے کمیونسٹوں سے ساز باز کی ہے۔
امریکی سامراج جو کسی زمانے میں مارکسزم اور کمیونزم کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا، ملت ایران کے مقابلے میں اسی سامراج نے ادھر ادھر ناکارہ پڑے کمیونسٹوں کو تلاش کرکے ان سے سازباز کر لی کہ شائد ملت ایران پر کوئي کاری ضرب لگائی جا سکے لیکن ناکامی، سامراجی طاقتوں کے گلے کا طوق بن گئی، ملت ایران نے انہیں ہزیمت سے دوچار کیا۔
ہمیں اس کا علم ہونا ضروری ہے کہ اس شکست خودہ دشمن کی ہمارے خلاف کیا سازشیں ہیں۔ ہمیں پوری طرح بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس اگر آپ کو حالات کا علم ہے، دشمن کی پہچان ہے، اس کی سازشوں کی خبر ہے تو آپ کبھی بھی غافل نہیں ہوں گے۔ ایرانی قوم کو یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے، یونیورسٹیوں اور دینی مراکز میں بڑی تعداد روشن فکروں، دانشوروں اور آگاہ افراد کی ہے جو عوام کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مختلف شعبوں میں ہمارے نوجوان قابل تعریف ترقی کر چکے ہیں۔ اس وقت ہمارے عوام اور ہمارے بسیجی (رضاکار) نوجوان علم و دانش، تجربہ و مہارت اور سائنس و ٹکنالوجی کے پیچیدہ مراحل میں بہت آگے پہنچ چکے ہیں۔ ہماری قوم اس طرح کی قوم ہے۔ بہرحال حالات سے با خبررہنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آج دشمن جس چیز پر سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ تقرقہ اندازی ہے۔ سیاسی نظریات میں تنوع، صوبائي اختلاف رای اور مذاہب کا تنوع اس تفرقہ انگیزی کے بہانے ہیں۔ عالم اسلام کی سطح پر بھی یہ حربہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ میں نے حال ہی میں ایک رپورٹ دیکھی ہے، ابھی کچھ ہی ہفتوں قبل برطانوی پارلیمان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ عالم اسلام کے ان مقامات کی نشاندہی کی جائے جہاں اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد نہیں ہے اور پھر ان کو بنیاد قرار دیکر اختلافات کو ہوا دی جائے فرقوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا جائے۔
ایک حربہ نوجوانوں کو ورغلانے کا ہے۔ میں نے کئي سال قبل بھی ملک کے نوجوانوں سے کہا ہے کہ ملک آپ کا ہے۔ آپ علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی سمت بڑھئے۔ یونیورسٹی کے طلبا نے اس پر عمل بھی کیا۔ تجربہ کار اساتذہ نے شب و روز کی تر خلوص محنت سے علمی کارواں کو آگے بڑھایا ہے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ دس، پندرہ سال قبل کے مقابلے میں ملک کی سائنسی ترقی بہت نمایاں نظر آ رہی ہے۔ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ نوجوانوں کو عبث اور بے سود کاموں اور لہوو لعب میں مصروف کر دینا اور انہیں ملت ایران کی انقلابی زندگی کے راستے سے منحرف کر دینا دشمنوں کا بہت بڑا ہدف ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی پاکدامنی اور تقوا و پرہیزگاری سے آراستہ ان کی زندگی دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔
اس کے مقابلے میں ہمیں اپنا تحفظ کرنا ہوگا۔ ملت ایران اپنے اتحاد و یکجہتی، سعی و کوشش اور کاملیت کے اوج کی سمت پیش قدمی کی تحریک کے ذریعے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالی ہم کو دشمن پر فتح حاصل ہوگی۔
اللہ تعالی نے ان تیس برسوں میں ہر آن ہماری مدد فرمائی ہے۔ مختلف مواقع اور مراحل پر اس قوم کے لئے غیبی امداد اور توفیق الہی کا مشاہدہ کیا گيا ہے۔ اس کا ایک نمونہ یہی ہے کہ آج جو حکومت سامراج کا مظہر ہے یعنی امریکی حکومت وہ بے شمار مسائل سے دوچار ہے۔ امریکہ کی ناکامیاں معمولی نہیں ہیں۔ آپ گزشتہ سات، آٹھ برسوں پر ایک نظر ڈالیں، اسے فلسطین میں شکست ملی، قوموں کے اذہان سے فلسطین کا نام مٹا دینے کی کوششوں میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی، عراقی عوام کی تقدیر و مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوششوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ امریکہ، عراق میں جو پٹھو حکومت لانا چاہتا تھا وہ اقتدار میں نہیں پہنچ سکی۔ ابھی دو، تین دن قبل امریکی صدارتی انتخابات کے امیدوار نے اعلان کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کا حملہ مشرق وسطی کی تیل کی دولت کے لئے کیا گيا۔ اس امیدوار کے بیان سے امریکہ کے ذرائع ابلاغ میں زلزلہ سا آگیا ہے۔ یہ بات تو ہم نے شروع ہی میں کہی تھی۔ جب امریکہ عراق پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا ہم نے اسی وقت اعلانیہ کہا تھا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں۔ آپ کی یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ عراقی عوام کو آزادی دلانے آئے ہیں۔ بالکل نہیں، آپ تو عراقی عوام کو اسیر بنانے کے لئے آئے ہیں۔ چو دیدم عاقب گرگرم تو بودی صدام امریکی افواج کے مقابلے میں کمزور بھیڑیا تھا۔ امریکی آئے، ہم نے کہہ دیا کہ تیل کے لئے آئے ہیں۔ عراق ہی نہیں پورے خطے کی تیل کی دولت کے لئے ان کا آنا ہوا ہے۔ اس آمد کا مقصد خلیج فارس میں سیاست نہیں بلکہ طاقت کے بل پر ایک مرکز قائم کرنا ہے۔ امریکی اس نیت کے ساتھ آئے تھے۔ اب امریکہ کی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار صریحی طور پر اعتراف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرے پاس ایک منصوبہ ہے جو امریکہ کو مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر سے بے نیاز کر دےگا اور امریکہ اپنے جوانوں کو میدان جنگ میں بھیجنے کے لئے مجبور نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام اپنی حکومت کی حکمت عملی سے، جنگ عراق اور عراق پر غاصبانہ قبضے سے اس درجہ متنفر ہیں کہ صدارتی امیدوار ووٹ حاصل کرنے کے لئے اسی بات کو موضوع اور اشو قرار دے رہا ہے۔
تو کیا یہ امریکی حکومت کی ناکامی نہیں ہے؟ اس سے بھی بڑی شکست ہو سکتی ہے؟ فلسطین میں انہیں ہزیمت ہوئی۔ عراق میں ناکامی ہوئی۔ کمزور سے ملک افغانستان پر بھی تو وہ تسلط قائم نہیں کر پائے۔ لبنان میں ان کی سازشیں شکست سے دوچار ہوئيں۔ البتہ ان کی دریدہ دہنی جاری ہے، دھمکیاں دئے چلے جا رہے ہیں۔ بڑی طاقتیں دوسروں پر رعب جمانے کے لئے مسلسل دھمکیوں کا سہارا لیتی ہیں۔ ملت ایران کو یہ بات معلوم ہو گئی ہے۔ یہ قوم امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں اور عالمی غنڈوں کو خاطر میں نہیں لاتی اور نہ ہی کبھی لائے گی۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ میرے عزیزو! کازرون کے بلند ہمت نوجوانو! با ایمان جیالو! ملک بھر کے نوجوانو! مرعوب نہ ہونا بہت اچھی صفت ہے۔ شجاعت بہت بڑی خصوصیت ہے۔ اپنی صلاحیتوں سے آشانائی اور آگاہی بہت ضروری ہے لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ یہ سب لازمی چیزیں ہیں لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کو کوشش کرنا ہوگی۔ حکومت اور عوام کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ ملک اسلامی ملک کے قابل اتباع نمونے میں تبدیل ہو جانا چاہئے۔ اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں پر عوام ، حکام اور نوجوانوں کی پوری توجہ ہونی چاہئے۔ ہر کسی کو ذمہ داری کا پورا احساس ہونا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنے فرائض سے صحیح معنی میں عہدہ برآ ہوں اور حکام، عوام کے تعاون سے ملک کو اس مقام تک پہنچائیں جو اسلام کے مبارک نام کے شایان شان ہے تو راستہ یہی ہے کہ عوام کے درمیان اور عوام و حکام کے مابین رابطہ براہ راست، مضبوط اور دوستانہ ہو جس طرح آج نظر رہا ہے۔ جو بھی قوم کو تفرقے کی سمت لے جائے جو بھی قوم اور حکام کے درمیان دوریاں پیدا کرنا چاہے، جو بھی اختلافات کو ہوا دے وہ در حقیقت ملت اور قوم کے مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ وہ خواہ کوئي بھی ہو۔
باہمی اتحاد و اتفاق، ایک دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن کی نعمت کی حفاظت کی جانی چاہئے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ لولا اذ سمعتمواہ ظن المومنون والمومنات بانفسھم خیرا(سورہ نور/62) ایک دوسرے سے دل صاف رکھئے۔ شانہ بشانہ آگے بڑھئے اور یقین رکھئے کہ اللہ تعالی ایسی قوم کو، ایسے پاکیزہ قلوب کو، اس بلند ہمتی کو اپنی توفیقات اور عنایات کا سہارا دےگا۔ بحمد اللہ خدا وند عالم کے فضل و کرم سے قوم پوری طرح آمادہ ہے، ملک کے عہدہ داران آمادہ ہیں، عوام کی خدمت پر کمربستہ ہیں۔ یہ قوم اور یہ حکام تمام مسائل اور مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دشمن کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کی عمر اتنے برس کی ہے اس سے زیادہ نہیں ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ سارے کے سارے دشمن اسلامی جمہوریہ کے زوال کی تمنا اپنی قبر میں لے جائیں گے اور ملت ایران سربلندی و سرفرازی اور عزت و سرخروئی کےساتھ روز بروز ترقی کی نئی نئي منزلیں طے کرے گی۔ ممکن ہے اس دن ہم نہ رہیں لیکن یہ نوجوان طبقہ موجود ہوگا۔ آپ یاد رکھیں کہ کامیابی کا راستہ وہ ہے جس پر اسلام اور خدا نے چلنے کو کہا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ با برکت ملک اور تہذیب و ثقافت کا یہ گہوارہ اپنے اصلی مقام پر پہنچے اور دیگر ممالک کے لئے نمونہ عمل بنے تو راہ اسلام اور اس راہ سے تمسک کو کبھی فراموش نہ کیجئے۔ دعا کرتا ہوں کہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ عزیزوں کے شامل حال ہوں۔
میں آپ کی نوازشوں، اس اجتماع، اجتماعی طور پر پورے جوش وجذبے کے ساتھ پڑھے گئے ترانے پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیشہ کازرون کے عوام اور پورے صوبہ فارس پر اپنی رحمتوں، برکتوں اور عنایات کا سایہ رکھے گا اور اپنے الطاف کو آپ کے شامل حال کرے گا۔
خدایا! ان عزیز نوجوانوں، ان عزیز حاضرین اور بہن بھائيوں کے قلوب کو اپنی ہدایت سے منور فرما۔ ملت ایران کو سربلند و سرفراز کر۔ دشمنوں پر فتح سے ہمکنار کر، دشمنوں کو ذلیل و رسوا کر۔ پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کے اعوان و انصار میں قرار دے، شہدا اور شہیدوں کے امام (امام خمینی رہ) کے درجات میں روز بروز اضافہ کر۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
کسی قوم کی پسماندگی بہت بڑا دکھھ ہے اور بہت بڑی بیماری ہے۔ بلند ہمتی اور سعی پیہم سے اس بیماری کا علاج کیا جانا چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم بیدار ہوں، اس بیماری کی نشاندہی کریں اور پھر اس کے علاج کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ یہ مراحل طے ہو چکے ہیں۔
بسم الله الرّحمن الرّحيم
الحمد لله ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام علي سيّدنا و نبيّنا ابي القاسم المصطفي محمّد و علی اله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيّة الله في الأرضين.
میری خوش قسمتی ہے کہ صوبہ فارس کے دورے میں ممسنی علاقے کے مخلص باایمان انقلابی حضرات سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس سے قبل کبھی یہ سعادت نصیب نہیں ہوئي۔ مجھے بڑی خوشی ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے آج میں اس شہر، اس علاقے اور اس ضلعے کے بہن بھائیوں کے اس عظیم اجتماع میں موجود ہوں۔
ممسنی علاقے کے باشندوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اسلامی بنیادوں پر شروع ہونے والے انقلاب کے دل و جان سے گرویدہ ہو گئے۔ بے شک خاندان رسالت سے اس خطے کے باشندوں کی الفت و محبت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قدیم ایام سے ہی ایسا تھا۔ انقلاب سے قبل طاغوتی دور حکومت میں بھی آیت اللہ شہید مدنی مرحوم نے جو اوائل انقلاب کے شہید محراب ہیں۔ کچھ عرصہ اسی دیار میں جلا وطنی کی زندگی بسر کی۔خطے کے عوام نے اس عالم جلیل القدر کا خیر مقدم کیا کہ جو انقلاب کے لئے ان کے خلوص اور خاندان پیغمبر پر ان کے ایمان کی نشانی ہے۔
مسلط کردہ جنگ کے دوران خطے کے غیور قبائلی، ان افراد میں تھے جنہوں نے میدان کارزار میں شجاعت کے جوہر دکھائے اور اپنا خلوص ثابت کرنے کے لئے اپنی زندگی اور اپنے وجود کا نذرانہ پیش کیا۔ اسلام، انقلاب، اسلامی نظام اور اسلامی ایران کے دفاع کے لئے یہ جیالے جان بکف میدان میں موجود رہے۔ عظیم اہداف کے لئے یہ سچا عشق اس قوم کی قابل فخر خصوصیت ہے۔
ممسنی میں آباد عزیزوں کی ایک اور خصوصیت ہے، جس کا سرچشمہ خطے کی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ اگر کوئي سماجی امور کا بنظر غائر جائزہ لے تو اسے بڑی حیرت انگیز باتیں اور نکات دکھائي دیں گے۔ ایک تو یہی قبائلی آبادی کا ڈھانچہ ہے۔ قبیلہ اور خاندان و عشیرہ، افراد کے درمیان خونی رشتے اور قریبی رشتہ داری کا مظہر ہے۔ اسلام نے اس پر تاکید کی ہے۔ اسلام میں رشتہ داری اور قرابت داری، رشتہ داروں کی احوال پرسی، مستحسن عمل ہے۔ یہ صلہ رحم ہے جس کا شمار واجبات میں ہوتا ہے جبکہ اس کی ضد قطع رحم یعنی رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لینا حرام ہے۔ صلہ رحم پر خصوصی تاکید اسی وجہ سے ہے۔ قبائلی آبادی میں رشتہ داری اور باہمی تعلقات، بڑی اہم خصوصیت ہے۔
میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس رشتہ داری اور گھریلو رابطے کا مثبت پہلو بہت با ارزش ہے کہ جس کی جانب میں نے اشارہ کیا لیکن اس کا منفی پہلو بھی ہے یعنی وہ تعصب جو قبائل کے درمیان ٹکراؤ اور لڑائي کا باعث بنتا ہے اس کی نفی کی جانی چاہئے۔ اسلام کے نزیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ قبائلی تعلقات رشتہ داری اور رابطہ بہت ٹھیک ہے لیکن اس سے دوسروں کی نفی نہیں ہونی چاہئے۔ اسلامی اخوت تمام مومنین پر سایہ فگن ہے۔
انّکم من آدم و آدم من تراب ہمارے پیغمبر نے ان لوگوں سے جو قبائلی تعلقات کو متعصبانہ شکل میں اہمیت دیتے تھے اور باہر کے افراد کی نفی کرتے تھے اسی جملے سے جواب دیا۔ یعنی قبیلے کے اندرونی تعلقات اور انس و محبت قابل تعریف اور پسندیدہ چیز ہے گھریلو تعلقات اور رابطے کو اہمیت دینا مثبت بات ہے لیکن اس سے ان افراد کی نفی نہیں کی جانی چاہئے جو ہمارے اپنے خاندان یا قبیلے سے تعلق نہیں رکھتے۔
میری گزارش ہے کہ قبیلے کی فضا میں آپ رشتہ داری اور باہمی تعلقات کی حفاظت و پاسداری کیجئے اس کی بڑی ارزش ہے لیکن مختلف عشائر اور قبائل ایک دوسرے کی نفی نہ کریں۔ ہم سب آپس میں بھائي ہیں۔ انّکم من آدم و آدم من تراب پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ آپ سب آدم کی اولادیں ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ تو اے اللہ کے بندو! خاکساری کو اپنا شیوہ بناؤ۔ ذرا غور کیجئے کہ ہر سطح کے افراد کے لئے یہ اسلامی تعلیم کتنی اہم ہے۔
عزیزو! بھائيو بہنو! آپ امتحان کے مرحلے سے سرخرو ہوکر نکلے ہیں۔ آپ نے اسلام اور انقلاب سے اپنے والہانہ لگاؤ اور بھرپور حمایت کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے ملک میں قبائل مایہ عز و افتخار ہیں۔ میں نے ایک اجتماع میں کہا تھا کہ بعض ممالک اپنی قوم کے فرقوں کے درمیان اختلافات سے فکرمند رہتے ہیں ہراساں رہتے ہیں لیکن ہم اپنے قبائل پر ناز کرتے ہیں ان کے وجود کو اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہمارے قبائل جہاں بھی ہیں قوم کے پاسدار، دین کے محافظ، علما کے طرفدار، اسلامی اصولوں اور مقامی روایات کے پاسباں ہیں۔ ہمارا قومی جذبہ جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہمارے دین و عقیدے سے آمیختہ ہے، ہر دور میں ان روایات اور طور طریقوں کی مدد سے باقی رہا ہے جو قبائلی علاقوں میں خاص طور پر رائج ہیں۔ بالخصوص یہ قبائل جو ملک کے وسطی علاقے فارس اور اصفہان میں آباد ہیں، تاریخ میں اہل بیت اطہار اور اسلامی تشخص کے طرفدار رہے ہیں۔
لہذا جب بھی طاغوتی حکومتوں کے دور میں علما اور ظالم نظام کے درمیان ٹکراؤ ہوا قبائل علما کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہو گئے ۔ اسی صوبہ فارس میں قبائل نے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی۔ قاجاریہ دور میں آيت اللہ سید عبد الحسین لاری کے قیام کے وقت ظالم بادشاہوں کا ان قبائل نے مقابلہ کیا۔ اس کےبعد رضاخان کے دور میں اور پھر علما کی تحریک کے دوران قبائل نے اپنی قبائلی غیرت اور دین پر اپنے ایمان راسخ کا ثبوت دیا۔ آپ اس چیز کی حفاظت کیجئے۔
عزیز قبائلی جوانو! یہ وہ دور ہے کہ جس میں کامیابی اسی قوم کی قسمت میں ہے جو پختہ بنیادوں پر استوار جذبہ ایمانی سے سرشار ہو۔ ایسے دور میں جب گوناگوں سامراجی پالیسیاں عوام کو بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی جانب دھکیل رہی ہیں، وہ مومن افراد جن کا عقیدہ محکم بنیادوں پر اسوار ہے اپنے ا یمان کی برکت سے دنیا میں چلنے والی آندھیوں پر غلبہ حاصل کر سکتے ہیں، جس طرح ہمارے جوانوں نے ان طوفانوں پر غلبہ حاصل کر لیا جن کا نشانہ اسلامی نظام تھا۔ سب سے پہلے انقلاب کی کامیابی اور پھر مقدس دفاع میں فتح اور اس کے بعد سے آج تک ہر موقع پر قوم کی استقامت اس کا ثبوت ہے۔
عزیز نوجوانو! اپنے اس ایمان کی حفاظت کرو۔ اپنے عقیدے کی فکری بنیادوں کو مستحکم کرو۔ شہری، دیہی قبائلی یا کسی بھی دیگر علاقے میں بسنے والے افراد سب کو چاہئے کہ خطے پر حکم فرما خلوص و پاکیز گي کی فضا میں اپنے عقیدے اور ایمان کی بنیادوں کو مطالعے، قبائل کے درمیان درس و تدریس، صاحب فکر افراد اور مفکرین کی مدد سے مسحکم بنائيں۔
آپ کے علاقے کی ایک ہی بات سے مجھے دکھ اور تشویش ہے اور وہ ہے مختلف میدانوں میں اس خطے کی محرومی اور پسماندگی۔ افسوس کی بات ہے کہ صلاحیتوں سے سرشار یہ علاقہ مختلف شعبوں میں محرومی کا شکار ہے۔ حکام کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں کچھ کوتاہیاں ہوئي ہیں جن کی اب جبکہ ایک محنتی حکومت بر سر اقتدار ہے تلافی کی جانی چاہئے۔اس سلسلے میں میں کابینہ کے صوبائي دوروں سے بہت خوش ہوں۔ ملک کے اعلی عہدہ داروں کا مختلف اضلاع میں جاکر لوگوں سے براہ راست ملنا اور حالات کا رپورٹوں کے ذریعے نہیں بلکہ بنفس نفیس نزدیک سے مشاہدہ کرنا مستحسن اقدام ہے۔ گزشتہ برسوں میں مختلف صوبوں کے دوروں میں میرا ایک اہم ہدف، جس کی جانب میں نے اپنی تقاریر میں اشارہ بھی کیا، یہ رہا کہ حکام کو ملک کے محروم اور پسماندہ علاقوں کی جانب متوجہ کروں۔ ان علاقوں کی جانب ان کی توجہ مبذول کراؤں۔ اب یہ مقصد پورا ہو رہا ہے یعنی عوام کی خدمت گزار حکومت کی ایک اہم حکمت عملی یہ ہے کہ ملک کے تمام گوشوں پر براہ راست نظر رکھے۔ بالخصوص یہ علاقہ اور یہ صوبہ جہاں بارش کی کمی کی وجہ سے کسانوں اور ان لوگوں کے لئے بڑے مسائل پیدا ہو گئے ہیں جن کے کاروبار کا انحصار بارش پر ہے۔ مجھے اطلاع ہے، مجھے بتایا گیا ہے کہ حکومت نے خشکسالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کچھ مشکلات کو دور کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کی ہے اور کچھ منصوبے بنائے گئے ہیں اسی طرح اس کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ حکومت نے حتی المقدور کوشش کرکے جو منصوبے تیار کئے ہیں ان پر بہترین انداز میں عملدرآمد ہو اور عوام کو ان کا فائدہ پہنچے۔ ہمارے ہاتھ دعا کے لئے آسمان کی جانب بھی اٹھے ہوئے ہیں اور ہم خشکسالی کا شکار اس سرزمین کے عوام کے لئے اللہ تعالی سے طلب رحمت و عنایت کرتے ہیں اور امید کہ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے ضرور نوازے گا۔
سال نو کے آغاز پر میں نے قوم اور حکام سے خطاب کرتے ہوئے جو چیز بیان کی وہ یہی اقتصادی سرگرمیوں کے دائرے کو وسعت دینے کا مسئلہ ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ دشمن نے اسی پہلو پر نظریں مرکوز کر دی ہیں۔ عزیزو! اسلامی انقلاب کے دشمن نے گزشتو برسوں یعنی تقریبا تیس سال کے دوران ایرانی قوم کے عزم و ارادے کو مضمحل اور کمزور کر دینے کے لئے ہر ممکن حربہ آزمایا ہے۔ سیاسی سازش، فوجی بغاوت، آٹھ سالہ جنگ اور سامراجی و صیہونی چینلوں سے اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کے خلاف مسلسل جاری منفی اور زہریلے پروپگنڈے، ہر حربے کا استعمال کر لینے کے بعد دشمن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ ایرانی قوم کو اقتصادی سازش میں پھنسا سکتا ہے۔ یہ کوئي نئي بات نہیں ہے۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک اقتصادی پابندیاں اور محاصرہ مختلف شکلوں میں جاری رہا ہے دباؤ ڈالا گیا ہے لیکن ملت ایران کے پای ثبات میں لغزش نہ آئي ۔ اب بھی دشمن نے اس حربے کا استعمال جاری رکھا ہے اور قوم بھی اپنے موقف سے ہٹنے والی نہیں ہے۔ جس طرح گزشتہ تیس برسوں میں ہماری قوم اقتصادی محاصرے کی سازش کا سامنا کرتے ہوئے ہر شعبے میں ملک کو ترقی کی راہ پر لانے میں کامیاب ہوئی اسی طرح اس دفعہ بھی عالمی سامراجی طاقتوں کی بدنیتی اور سازشوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرے گی۔
مناسب حکمت عملی یہ ہے کہ عوام باہمی سعی و کوشش سے ملک کو اقتصادی طور پر خود کفیل اور ناوابستہ بنا دیں۔ انقلاب نے ہم کو سیاسی خود مختاری عطا کر دی ہے۔ اقتصادی خود مختاری کی راہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام پائے ہیں تاہم ہر طبقے کے بھرپور تعاون کی ضرورت ہے جس کے سہارے ملک اقتصادی میدان میں وہ کارنامہ انجام دے کہ پھر ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے اور اس ملک کے اقتصادی محاصرے کی دھمکیاں بے معنی ہوکر رہ جائیں۔ میرا خطاب پوری قوم سے ہے۔ صرف ممسنی کے علاقے میں بسنے والوں سے نہیں۔ سب کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لینا ہے۔ ملک افرادی قوت کے عظیم سرمائے سے مالامال ہے ہمارے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ ضروری مقدار میں سرمایہ کاری، صحیح منصوبہ بندی اور محنت و مشقت اور سعی پیہم کے ذریعے ہم معینہ اہداف کے تحت ملک کو اس مقام پر پہنچا سکتے ہیں کہ جہاں عالمی اقتصادی میدان میں ایران کو اقتصادی پابندیوں اور اقتصادی محاصرے کا ذرہ برابر خوف و ہراس باقی نہ رہے۔ یہ قومی فریضہ ہے اسے ہم کو انجام دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہر فرد کوئی موثر رول ادا کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس وسیع و عریض سر زمین اور بے پناہ وسائل موجود ہیں
ایرانی قوم نے گزشتہ تیس برسوں میں بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے لیکن بہرحال قومی وقار کے لئے کچھ قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں۔ کوئی بھی ملک قربانیاں دئے بغیر، قومی وقار، خودمختاری اور مایہ افتخار تشخص جیسے اہداف حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی قیمت تو ادا کرنی ہی پڑتی ہے۔ ہماری قوم نے یہ قیمت ادا کی اور آئندہ بھی بخوشی ادا کرتی رہے گی۔ میں ان بڑی طاقتوں اور ان کے مہروں سے جو اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھے ہوئے ہیں، کہنا چاہوں گا کہ آپ حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے لفاظی، دھونس دھمکی اور چیخ پکار شروع کر دیتے ہیں۔ میں آپ سب کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ دھمکیاں ایرانی قوم کو پسپا نہیں کر سکیں گی۔ دھمکیاں ہماری قوم کو اس راہ سے منحرف نہیں کر سکتیں جس کا اس نے انتخاب کیا ہے۔ کاملیت، عزت نفس، مکمل خو مختاری، تمام مسائل کا حل پیش کرنے والے دین اسلام کے احکامات اور تعلیمات پر عمل آوری کی راہ کا ایرانی قوم نے انتخاب کیا ہے اور اس راہ سے اسے کوئي ہٹا نہیں سکتا۔ دشمن دھمکیوں سے ہمیں ہراساں نہیں کر سکتا۔ آج کل پھر دھمکیاں سنائي دے رہی ہیں۔ امریکہ اور صیہونیوں اسی طرح ان کی پیرو بعض احمق یورپی حکومتوں نے کیا ملت ایران کو اب تک آزمایا نہیں ہے؟ کیا آپ نے اب تک اس عظیم اور شجاع قوم کو نہیں پہچانا؟ ہم اپنے راستے پر پوری ثابت قدمی سے گامزن رہیں گے اور سامراجی طاقتوں کو اس کا موقع ہرگز نہیں دیں گے وہ اس قوم کے حقوق پامال کریں۔
یہ ہمارا فریضہ، ہماری ذمہ داری اور اس عظیم قوم کا حق ہے، اپنی اپنی ذمہ داری کے مطابق ہمیں اس حق کا دفاع کرنا ہے۔ اور دشمن کو اس کا قطعا موقع نہیں دینا ہے کہ وہ گوناگوں چالوں، مختلف حیلوں اور نفسیاتی حربوں سے اس قوم کا حق پامال کرے۔ انشاء اللہ ہم ہرگز اس کا موقع نہیں دیں گے۔
عزیزو! آپ سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری قوم اور اسی طرح تمام مسلم اقوام کی مشکلات اور مسائل سے نجات کا واحد راستہ اسلام ہے۔ اسلام ہی ہم کو نجات دلا سکتا ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد کے گزشتہ تیس برسوں میں بھی جس کے دوران اسلامی جمہوری نظام عنفوان شباب کو پہنچا ہے، جب بھی ہم نے اسلام پر پوری توجہ کے ساتھ عمل کیا ہے کامیابی نے ہمارے قدم چومے ہیں۔ اگر کبھی ہم ناکام ہوئے تو صرف اس لئے کہ ہم نے اس موقع پر اپنے اسلامی فریضے پر پوری طرح عمل نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنا یہ فریضہ پورا کیا تو کامیابی ہمارا مقدر ہوگی۔ بحمد اللہ یہ قوم، شجاع و حوصلہ مند، زیرک و دانشمند اور ہر طرح سے آمادہ قوم ہے، اپنے حقوق سے باخبر اور ان کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔
خدا وند عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے حکام کو قوم کی ہر فرد بالخصوص اس (صوبہ فارس کےممسنی) علاقے اور تمام محروم علاقوں کے تعلق سے اپنے فرائض کی انجام دہی کی توفیق دے۔ ضروری کاموں کی انجام دہی کے لئے وسائل و اسباب فراہم کرے اور حکام آپ عزیز عوام کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکیں۔ پروردگارا ! اپنے ان بندوں پر رحمتیں نازل فرما۔ خدایا عوام کے با ایمان اور پاکیزہ دلوں کو اپنی ہدایت کے نور سے منور کر دے۔ پروردگارا ! اسلامی جمہوری نظام کو روز بروز مزید استحکام و مضبوطی عطا فرما۔ ہمیں ان فرائض کے انجام دہی کی طاقت دے جو قوم کے تعلق سے ہم پر عائد ہوتے ہیں۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ آپ کی دعائیں ہمارے شامل حال کر دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللّه الرّحمن الرّحيم
یوم استاد اور ہفتہ اساتذہ ہر سال میرے لئے اہم باتوں اور ذمہ داریوں سے بھرے ہوئے ایام ہوتے ہیں ۔ اس برس ایسا اتفاق ہوا ہے کہ اساتذہ سے شیراز میں ملاقات ہو رہی ہے اور یہ توفیق حاصل ہوئی کہ آپ فارس صوبے سے تعلق رکھنے والے شیرازی اساتذہ بھائی بہنوں سے ملاقات ہوئی۔ یہ بہت اچھا موقع ہے اور در حقیقت کہنا چاہئے کہ آپ کے صوبے اور آپ کے شہر نے بہت سے مواقع پر دوسروں کے لئے استاد و معلم کا کردار ادا کیا ہے ۔ بہت کم ایسے علماء ہوں گے جو شیراز کے علماء و اساتذہ سے فیضیاب نہ ہوئے ہوں چاہے فقہ کا موضوع ہو یا فلسفے کا میدان، ادب و شعر و فن میں یا پھر دیگر موضوعات ۔
یوم اساتذہ آپ لوگوں کا دن اور ایک لحاظ سے تمام ایرانی قوم کا دن ہے کیونکہ استاد کی ذاتی شناخت کے علاہ ایک تعلیمی شناخت بھی ہوتی ہے جس کا تعلق ان تمام لوگوں سے ہوتا ہے جو اس سے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔ استاد کی سماجی شناخت بھی ہوتی ہے تاہم ایک استاد کی اہمیت اس کی اسی تعلیمی شناخت کی وجہ سے ہوتی ہے اور ہمیں یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ اس سلسلے میں ہم نے کم کام کیا ہے اور عملی طور پر ہم اس ثقافت اور ماحول سے متاثر ہوگئے جس میں استاد کی اہمیت مادی پہلو _ یعنی رقم کے مقابلے میں درس _ پر منحصر ہوتی ہے ۔ مادی تہذیب کی سوچ یہ ہے ۔ کسی چیز کی قدر سمجھنے کا معیار ہر چیز کو رقم میں بدلنے کی صلاحیت ہے اور اس ثقافت میں استاد جنتی دولت بنا سکے اتنی ہی اس کی عزت ہوتی ہے ، ہم یعنی ایرانی استاتذہ کا سماج اس غلط ثقافت سے متاثر ہو ہوا ہے جبکہ اسلام کی نظر میں مسئلہ اس سے کہیں بالاتر ہے ، تعلیم و تربیت ، ایک انسان کو زندگی عطا کرنا اور اسے نیا وجود بخشنا ہے ، اسلام کا یہ نظریہ ہے آپ لوگ کوشش کریں، سعی کریں کہ زمین کے اس حصے میں جو بظاہر خشک دکھائی دیتا ہے ، کھدائی کریں تاکہ وہاں سے چشمہ جاری ہو جائے ، آپ معمولی سے دکھنے والے ایک بیج کو زرخیز زمین میں بوئيں اور اس کی آبیاری کریں تاکہ وہاں سے سر سبز پودا اگ جائے اصل بات یہ ہے ، چاہے وہ دولت میں بدل پائے یا نہ بدلے ۔
اسلام استاد اور تعلیم و تربیت کو اس نظر سے دیکھتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہيں ہے کہ میں استاتذہ کی ماضی و حال کی مادی ضروریات کو نظر انداز کر رہا ہوں نہيں ، بات یہ نہیں ہے کچھ امیدیں ہیں ، کچھ ضرورتیں ہیں جن میں سے اکثر صحیح بھی ہیں ۔ متعلقہ حکام بھی ہیں اور مجھے کہنا چاہئے کہ متعلقہ حکام کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ نئے وزیر جو ہیں اور جن کی تقریر آپ نے سنی یہ بھی جیسا کہ میں نے دیکھا اور سمجھا ایک سرگرم ، جدو جہد کرنے والے اور محنتی آدمی ہیں اور ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ اس میدان میں بھی وہ اپنے فرائض پر عمل کریں گے لیکن میری بات اس سے آگے کی ہے اور میری مراد صرف آپ اساتذہ سے ہی نہيں ہے بلکہ میں یہ بات پوری ایرانی قوم سے کہہ رہا ہوں ، ان تمام لوگوں سے کہہ رہا ہوں جن کے لئے آپ نے تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے ہيں تاکہ وہ لوگ اس میں وارد ہو سکیں ۔ یہ ایک ایسے کام ، ایک ایسے اقدام ایک ایسی شناخت کی قدردانی ہے جس کی اہمیت ہماری نظر میں جس طرح سے پہچانی جانی چاہئے تھی پہچانی نہیں گئ ، ماضی میں ، ہاں ماضی میں قبل اس کے کہ ہمارے ملک میں مغربی تہذیب کا عمل دخل ہو یعنی گیارہ بارہ سو برس قبل اور اسلام کے بعد سے کہ جب مختلف زمانوں میں ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کے ابواب کھلے تھے تو اس وقت معنوی اعتبار سے استاد کی بہت اہمیت تھی ۔ اسلامی تعلیمی مراکز میں ، تعلیم و تربیت کی روش یہی تھی کہ کبھی کسی نے یہ نہيں دیکھا کہ کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے پیر پھیلا کر بیٹھے ۔ ہم بھی ایسے ہی تھے جب ہم تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اس وقت کے طلبہ ایسے ہی تھے ۔ شاگردوں کی نظر میں استاد کی حقیقی معنوں میں عزت ہوتی تھی جس کی کچھ علامتیں آج بھی ہمارے دینی مدارس میں باقی ہيں کیونکہ دینی مدارس ثقافتی میدان میں مغربی تہذیب سے کم متاثر ہوئے ہيں ۔ اس بنا پر آج بھی دینی مدارس میں یہی روش ہے اور استاد کی ایک خاص عزت اور اس کے لئے ایک خاص قسم کا احترام پایا جاتا ہے۔ اس کی ہیبت _ جو ڈر کی وجہ سے نہيں بلکہ اس کی عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے _ شاگردوں کے دلوں میں بیٹھی ہوتی ہے البتہ یہی شاگرد درس کے وقت اعتراض بھی کرتا ہے ۔ ہمارے دینی مدارس میں شاگرد جتنا استاد پر اعتراض کرتا ہے اتنا ہماری یونیورسٹیوں میں رائج نہیں ہے ۔ اس کے لئے اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ، کہ استاد ! اجازت ہے ؟ نہیں ، استاد بول رہا ہوتا ہے، استاد پڑھانے میں مصروف ہوتا ہے اسی وقت وہاں بیٹھا ایک طالب علم اعتراض کر دیتا ہے اور استاد بھی اس کا اعتراض سنتا ہے کبھی شاگرد تندی بھی کرتا ہے یعنی شاگرد جسارت کے ساتھ کسی علمی مسئلے پر استاد سے بات کرتا ہے لیکن یہی شاگر اپنے اسی استاد کے ساتھ بڑے احترام سے پیش آتا ہے اس کے ہاتھ چومتا ہے ۔ اس کے سامنے پیر نہيں پھیلاتا، اسے ، تم کہہ کر مخاطب نہیں کرتا ، بارہ تیرہ سو برسوں تک ہم نے اپنے ملک میں استاد و شاگرد کے درمیان اسی قسم کا رشتہ دیکھا ہے یہاں تک کہ ہمارے ملک میں مغربی ثقافت و اقدار آئيں ۔ آپ دیکھیں اس دوران کتنے اساتذہ نے شاگردوں کے ہاتھوں سے مار کھائي ! کتنے اساتذہ کا کلاس میں شاگردوں نے مذاق اڑایا ! کتنی بری باتیں سنی ، کتنے اساتذہ اپنے شاگردوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے ! کیونکہ استاد نے کم نمبر دئے تھے ۔ یہ سارے مسائل تھے البتہ قدیم تہذیب کی وجہ سے یہ مسئلہ ہمارے ملک میں کم تھا لیکن کچھ جگہوں پر بہت زیادہ اور شدت کے ساتھ ہے ۔ ان جگہوں میں جنہيں مغربی تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ میری کوشش یہ ہے کہ استاد کی اہمیت وہی ہو جو اسلام نے اسے دی ہے ۔ ہمارے سماج کو استاد کی عزت کی ضرورت ہے اس کا احترام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر شاگرد کے سرپرست صحیح معنوں میں اساتذہ کا احترام کریں تو وہ شاگرد کلاس میں اور کلاس کے بعد بھی استاد کو اسی نظر سے دیکھے گا ۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے یہ آپ لوگوں کے لئے تمام مادی سہولتوں سے زيادہ اہم ہے ۔ ہمارے بزرگوار امام ، صاحب حکمت تھے امام ، قرآنی معنوں میں صاحب حکمت تھے ۔ صاحب حکمت یعنی وہ جو ایسے حقائق کا مشاہدہ کرتا ہو جو دوسروں کی نظروں سے پوشیدہ رہتے ہوں ۔ اس کی باتیں ہو سکتا ہے بظاہر عام سی لگیں لیکن جتنا آپ غور کریں اتنی ہی تہیں اس میں موجود ملیں گی امام (خمینی رہ)اسی طرح تھے۔ آپ دیکھيں قرآن میں ، جہاں حکمت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے: «ذلك ممّا اوحى اليك ربّك من الحكمة»، یہ بظاہر معمولی نصیحت ہے وہی بات جو ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں لیکن آپ جتنا غور کریں دیکھیں گے کہ اس میں بہت گہرائی ہے مثال کے طور پر ماں باپ کا احترام حکمتوں کا ایک حصہ ہے ۔ ماں باپ کے احترام کی ، اس کے فوائد و برکتوں کے لحاظ سے ، کوئي حد نہیں ہے آدمی اس پر جتنا غور کرتا ہے اتنا اسے لگتا ہے کہ اس میں گہرائی ہے حکمت یہ ہے ۔ امام جو ایک حکیم تھے انہوں نے کہا ہے کہ تعلیم دینا ، انبیاء کا کام ہے یہ بہت بڑی بات ہے ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک حدیث بھی ہے ،ان آیتوں کے علاوہ جن میں : «يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة» بار بار دہرایا گیا ہے،جس میں تعلیم کو انبیاء سے منسوب کیا گیا ہے : «انّ اللّه لم يبعثنى معنّتا و لا متعنّتا ولكن بعثنى معلّما ميسّرا»؛ خدا نے مجھے استاد کی شکل میں مبعوث کیا ہے معلم میسر یعنی آسان بنانے والا ، میں زندگی کو اپنے شاگردوں کو اپنے تعلیمات کے ذریعے آسان بناتا ہوں اور امور کو ان پر آسان کرتا ہوں ۔ یہ آسان بنانا ، آسان سمجھنے سے مختلف ہے اس کا مطلب لاپروائی نہیں ہے میں معنت و متعنت نہیں ہوں یعنی نہ خود کو زندگی کے دشوار پیچ و خم میں پھنساتا ہوں اور نہ ہی لوگوں کو ، بلکہ اپنی تعلیمات سے لوگوں کو صحیح اور سیدھے راستے یعنی صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہوں ۔ آسان بنانے کا مطلب یہ ہے ۔ کبھی آدمی کسی مقصد کا حصول چاہتا ہے لیکن اسے راستے کا علم نہيں ہوتا ۔ کنکر پتھر ، سانس پھلا دینی والی چڑھائیاں ، مسلسل اوپر جا ئے ، مسلسل نیچے آئے آخر میں معلوم نہیں پہنچتا بھی ہے یا نہیں ۔ اسے تعنت یعنی خود کو پریشانی میں ڈالنا کہتے ہیں لیکن کبھی اس سے کچھ مختلف ہوتا ہے ، کوئی باخبر آدمی اس کے ساتھ جاتا ہے اور وہ باخبر شخص اس سے کہتا ہے جناب ادھر سے جائيں ! یہ راستہ ہموار بھی ہے اور نزدیک بھی اور یقینا آپ کو مقصد تک پہنچا بھی دے گا «معلّماً ميسّرا» کا یہ مطلب ہے ، استاد کی شان یہ ہے ۔ یہ میری اصل بات ہے میں چاہتا ہوں آپ لوگوں سے جو خود استاد ہیں ، آپ لوگ اپنی منزلت اور مقام کو اچھی طرح سے پہچانیں اور اسی طرح عوام سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں بلکہ اصل میں میرے مخاطب عوام ہیں کیونکہ عام طور سے اساتذہ کو اپنی قدر و منزلت کا علم ہوتا ہے ۔ ایک آگاہ استاد ، جس کے پاس حقیقت میں علم ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو علم عطا کرتا ہے ، اسے علم ہوتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے ، ایک بند تالا ہوتا ہے جس کی ایک چابی ہوتی ہے استاد، وہ چابی شاگرد کو دیتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس چابی کو اس طرح سے تالے میں لگاؤ ۔ اسے تعلیم کہتے ہیں ۔یہ ایک ایسا معما ہے جسے کسی بھی صورت میں حل نہیں کیا جا سکتا سوائے اس راستے سے ۔ اس لئے استاد _ اپنے مختلف مراتب کے ساتھ _ خود جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے اسی لئے عام لوگوں سے خاص طور پر میں یہ بات کہہ رہا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے سماج میں تعلیم و تربیت کا وہی مقام ہو جو اسے اسلام نے عطاکیا ہے ۔ یہ جو حدیث نقل ہوئی ہے کہ : «من علّمنى حرفا فقد صيّرنى عبدا» _ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ اس روایت کی سند کیا اور کیسی ہے اور کتنی قابل اعتماد ہے لیکن بات صحیح ہے _ حقیقت یہی ہے کہ آدمی کسی سے کچھ سیکھ کر در اصل ایک ایسے مرحلے سے گزر جاتا ہے جس کی وجہ سے مناسب ہے کہ وہ خود کو اس رہنما اور تعلیم دینے والے کا غلام سمجھے ۔ اصل بات یہ ہے ۔
یہاں پر ایک اور نکتہ ہے اور وہ بھی اہم ہے اسے بھی بیان کرتا ہوں یہ خاص طور سے آپ اساتذہ کے لئے ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اسلام کی نظر میں جس طرح سے استاد کا احترام کیا جانا چاہئے اسی طرح سے شاگردوں کی بھی عزت کی جانی چاہئے ، شاگرد کا بھی احترام کیا جانا چاہئے ، اس کی بے عزتی نہيں کی جانی چاہئے ۔ اس کا ایک نہایت گہرا تربیتی پہلو ہے ۔ اس سلسلے میں بھی ایک روایت ہے : «تواضعوا لمن تعلّمون منه و تواضعوا لمن تعلّمونه»؛ جس سے سیکھتے ہو اس کے سامنے انکساری کرو اور جو تم سے سیکھے اس کے ساتھ بھی انکساری سے پیش آؤ ، «و لا تكونوا جبابرة العلماء». جابر کی دو قسمیں ہوتی ہیں سیاسی جابر اور علمی جابر ، علمی جابر نہ بنو ۔ جبار عالم ، نہ بنیں ۔ فرعون کی طرح ۔ میں نے خود اپنے ہی ملک کی ایک یونیورسٹی میں ، کئ برس قبل شاید چالیس پینتالیس سال پہلے ایسا ایک استاد دیکھا ہے جو اپنے شاگردوں سے ایسے بات کرتا تھا اور اس طرح سے انہیں پڑھاتا تھا اور ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تھا جو فرعونیت سے بھرا ہوتا تھا ، اس میں باپ کی بیٹے کے لئے شفقت جیسی کوئی چیز نہيں تھی ۔ استاد ہو سکتا ہے سختی کرے لیکن سختی تحقیر سے مختلف چیز ہے ، بے عزتی کرنے سے مختلف ہے ۔ شاگردوں کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ آپ سب لوگوں کو یقینا بہت تجربہ ہوگا جن شاگردوں کا آپ نے احترام کیا ہوگا ان میں اس کے اثرات نظر آئے ہوں گے اور اس کی تربیت آسان تر ہو گئ ہوگی ۔ گالی دینا ، بے عزتی کرنا بلکہ مارنا اچھی بات نہيں ہے حالانکہ پرانے زمانے سے مشہور ہے کہ سیکھانے کے لئے مارنا چاہئے یہ عام بات تھی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نہيں ، مارنا ٹھیک نہیں ہے میرا بھی یہی ماننا ہے کہ شاگرد کو موم کی طرح ہاتھ میں لیکر شکل دینی چاہئے لیکن نرمی کے ساتھ ، استاد کا فن اسی میں ہے ۔ اس مسئلے کا ایک رخ یہ بھی ہے ۔
استاد اور تعلیم و تربیت کے سلسلے میں بہت سے مسائل ہیں میں نے بھی مختلف برسوں میں اسی مناسبت سے اساتذہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں کچھ باتیں کہی ہیں اور اب بھی اعلی ثقافتی انقلاب کونسل میں اور تعلیم و تربیت کے وزیر سے ملاقات میں بھی بہت سی باتیں کہی ہیں جو میری ذاتی رائے نہيں ہے بلکہ تقریبا ان ساری باتوں پر ماہرین نے کام کیا ہے اور تعلیم و تربیت کے میدان سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی اس کی تصدیق کی ہے ۔ میں نے ان سب باتوں پر عمل کا مطالبہ کیا اور خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ وزیر صاحب نے یہ جو ابھی رپورٹ دی ہے اس میں کہا ہے کہ ان میں سے کچھ کاموں کو یا تو شروع کر دیا ہے یا پھر اس کے لئے اقدامات کر دئے ہيں ، اچھی بات ہے ۔ لیکن اسی پر اکتفا نہیں کی جا سکتی بلکہ ہمیں تعلیم و تربیت کے میدان میں وسیع کاموں کی ضرورت ہے ۔
میں نے گذشتہ برس ، تہران میں اساتذہ سے اسی موقع پر ملاقات میں ، تعلیم و تربیت کے میدان میں بڑی تبدیلی کی بات کی تھی ۔ بڑی تبدیلی کا کیا مطلب ہے ؟ بارہا میں نے کہا ہے کہ ہمیں مغرب والوں یا کسی بھی دوسرے سے سیکھنے میں کوئی شرم نہیں ہے ، ایسا کرنے سے انکار بھی نہیں کرتے ۔ ہم ایک ادارتی روش ، ایک تعلیمی روش ، یا کوئی تکنیک و ایجاد کو دوسرے ملکوں سے سیکھیں اس میں ہمیں عار نہيں محسوس ہوتی ، ہم اس سے پیچھے بھی نہيں ہٹتے ، اس کے لئے کوشش بھی کرتےہیں ۔ شاگرد بنتے ہیں لیکن یہاں پر دو نکات ہیں ۔ سیکھتے وقت بڑے افسوس کی بات ہے ، ثقافتی تبدیلی کے وقت _ یعنی پہلوی دور میں جو ہمارے ملک میں ثقافتی تبدیلی کا دور ہے _ ان دو نکات پر توجہ نہیں کی گئ ۔ آنکھیں بند کر لی گئيں ، ہاتھ پھیلا لئے گئے ، جو بھی آیا ، جو بھی ملا ، اسے ان لوگوں نے لے لیا ۔ ان دو نکات میں سے ایک نکتہ یہ ہے کہ ہم جو بھی لیں اس کا پہلے جائزہ لیں ، دیکھیں کہ ہمارے کام کی چیز ہے بھی یا نہيں ۔ اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز ہو تو صد فی صد اسے قبول کر لیں ، اگر صد فی صد ہمارے کام کی چیز نہ ہو بلکہ نقصان دہ ہو تو اسے صد فی صد مسترد کر دیں اور اگر ان دونوں کے بیچ کی صورت ہو تو جتنا ہمارے کام کی ہو اتنا ہی لیں اور باقی کو مسترد کر دیں یہ تو پہلا نکتہ ہے ۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو شخص ، کوئی چیز ، کوئي پھل کوئي کھانے کی چیز یا کوئي دوا دیکھتا ہے ، اس کے بارے میں جانتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اپنی مرضی سے کھاتا ہے اور اسے اٹھا کر اپنے منہ میں رکھتا ہے تو وہ شخص اس آدمی سے الگ ہوتا ہے جس کے ہاتھ پیر باندھ کر کوئی چیز زبردستی اس کے بدن میں انجیکشن کے ذریعے ڈال دی جائے ۔ ان دونوں صورتوں میں فرق ہے ۔ پہلی صورت صحیح ہے ، دوسری صورت غلط ہے ۔ ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے ، ہمیں منتخب کرنا چاہئے ۔ اس نکتے کی جانب توجہ نہيں دی گئ ۔ جو کچھ بھی لائیں ، اس کے سلسلے میں ہم بے ہوش اور گہری نیند میں سوتے آدمی کی طرح نہ ہوں کہ جو چاہیں ہمارے اندر ٹھونس دیں ۔ ثقافتی تبدیلی کے زمانے میں ہم اپنے حلق میں ہر چیز ڈالنے کا انتظار کرتے تھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ شاگرد اور استاد کا قصہ قیامت تک نہ چلے ۔ جی ہاں ہم شاگرد بننے پر تیار ہیں اس کے جسے اس بات کا علم ہو جس کا ہمیں نہيں ہے لکن قیامت تک تو آدمی کو شاگرد ہی بنے نہیں رہنا چاہئے ، ہمیں خود بھی استاد بننا چاہئے ۔ ان دو نکات پر توجہ نہیں دی گئ ۔ ایک چیز جو ہم نے سیکھی تعلیم و تربیت سے تعلق رکھتی ہے ۔ تعلیم و تربیت کا ان کا طریقہ کار اچھا تھا جسے ہم نے ان سے سیکھ لیا ۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ پرائمری نظام، پہلے والے نظام سے بہتر تھا ، ہائی اسکول جیسی تقسیم اچھی تھی ہم اس کا انکار نہیں کرتے ۔ یہ فائدہ مند ہے لیکن کتنا ، کس طرح سے ، اس روش کے ساتھ ، ہم نے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا بس سب کچھ اکٹھا ہی قبول کر لیا ، انہوں نے کہا چھے کلاس ایسی ہوں چھے کلاس ویسی ہوں ہم نے وہی نظام چلا دیا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنا طریقہ کار بدل لیا پانچ کلاس ، تین کلاس وغیرہ ۔ ہم نے بھی یہی سیکھا اس پر عمل کیا ٹھیک ہے لیکن یہ تو نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنے مختلف نصاب کی کتابوں کو لائيں اور ہم سے کہیں اسے پڑھائيں ۔ ہم نے اسی طرح سے تعلیم حاصل کی تعلیم و تربیت کا نظام ، ڈھانچے اور مضامین کے لحاظ سے ، پوری طرح تقلیدی ہے ۔ یہ صحیح نہيں ہے ہمیں غور کرنا چاہئے یہ دیکھنا چاہئے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ جو روش ہے اس میں کیا خرابی ہے ، اس میں کچھ خرابیاں ہيں جن میں سے ایک سمجھنے کے بجائے رٹنے کو اہمیت دینا ہے ، ہمارا تعلیمی نظام رٹنے پر استوار ہے بچوں کو ہمیشہ رٹنا پڑتا ہے ۔ میں آپ لوگوں سے جملہ معترضہ کے طور پر کہتا ہوں کہ یاد رکھنے کے لئے رٹنا بری بات نہيں ہے ، بچوں کا رٹنا ، ان کا پڑھنا اور زیادہ پڑھنا بری بات نہیں ہے یہ تو اچھی بات ہے کیونکہ یاد کی ہوئی چیزيں باقی رہ جاتی ہیں ۔ البتہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ چیزیں ان کی سمجھ میں ہی نہ آئيں ۔ جب ہم پڑھتے تھے تو ہمارا اسکول ذرا مختلف تھا ۔ وہاں کا نصاب اس وقت رائج تعلیمی نصاب سے مختلف تھا ۔ وہاں ہمیں گلستان پڑھائی جاتی تھی ۔ مجھے گلستان کے کچھ اشعار اور عبارتیں اسی زمانے سے آج تک یاد ہیں جب ہم گلستان پڑھتے تھے تو اس کے معانی ہماری سمجھ میں نہیں آتے تھے ۔ دھیرے دھیرے وقت گزرنے کے ساتھ ہی ان اشعار و جملوں کے معانی ہماری سمجھ میں آ گئے یہ اچھی بات ہے ۔ آدمی ممکن ہے کچھ باتوں کو صحیح طور پر نہ سمجھ پائے لیکن یاد کی ہوئی یہ چیزیں ذہنی کاوش کا ماحول بناتی ہیں ۔ حفظ کرنا اچھا ہے لیکن اس کو سب سے زيادہ اہمیت دینا برا ہے یعنی ساری کوشش رٹنے اور یاد کرنے کے لئے ہو بلکہ اہمیت سمجھے کو دی جانی چاہئے بھلے ہی اس کے ساتھ رٹ بھی لیا جائے جی تو یہ ایک بہت بڑی برائی ہے اسے دور ہونا چاہئے-
ہم نے اگر آج اس غلطی کو نہ سدھارا تو پھر کون سدھارے گا ؟ وہ ثقافتی دور ، مرحوم آل احمد غربزدگی کے بقول مغربی تمدن کی چمک دمک کے سامنے حیرت و تعجب کا زمانہ گزر گیا ، آج اس سجے ہوئے چمکتے دمکتے چہرے کی حقیقت ہمارے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے سامنے کھل گئ ہے ، اس کی برائیاں ، کمیاں ، بری صورت سب کچھ واضح ہو چکا ہے ۔ آج ہمیں ایسی بہت سی باتوں کا علم ہے جن کا پچاس برس قبل علم نہيں تھا ایرانی قوم کو آج اس قسم کے بہت سے حقائق کا علم ہے ۔ ہمیں آج اس کی اصلاح کرنی چاہئے ۔ یہ کام کون کرے گا ؟ اصل ذمہ دار ، تعلیم و تربیت کا ادارہ ہے ۔ لیکن مجھے کہنے دیں صحیح ہے کہ تعلیمی ادارے میں اس کے لئے ایک شعبے کی تشکیل ہوئي ہے یہ ضروری بھی ہے کے تعلیمی ادارہ اس سلسلے میں آگے بڑھے لیکن ، تعلیمی شعبوں کے ذمہ دارو! اصلی بات تو ماہرین کا نظریہ ہے ۔ آپ لوگ اعلی ثقافتی انقلاب کونسل یا دوسری جگہوں پر جو ماہرین ہیں ان کے نظریات و خیالات سے محروم نہ رہیں ، ان سے استفادہ کریں اور ایرانی قوم اور آئندہ نسلوں کے لئے ایک اہم اور بڑا کام کریں تاکہ یہ ہمیشہ باقی رہنے والی اچھائی بن جائے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو میری نظر میں بہت اہم ہے ۔
دوسری بات ، اساتذہ اور تعلیمی شعبے میں تعلیم دینے والوں کی ٹریننگ اور تربیت ہے ۔ یہ بہت اہم ہے اس سلسلے میں _ خوش قسمتی سے ہمارے تعلیمی ادارے میں اساتذہ کی ٹریننگ کے بہت سے وسائل ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جانا چاہئے _ میرا خیال ہے کہ اس کے لئے یونیورسٹیوں کے وسائل سے بھی استفادہ کیا جانا چاہئے اور باہر والوں کے لئے دروازے بند نہیں کرنا چاہئے تمام وسائل سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہ ہو لیکن کسی مضمون یا کام میں اسے مہارت ہو ۔ مشہد میں کچھ ایسے اہل شعر و ادب تھے جن کے پاس یونیورسٹی بلکہ کچھ لوگوں کے پاس یونیورسٹی سے نیچے کی بھی تعلیم نہیں تھی لیکن وہ استاد تھے ، انہيں ناصر خسرو ، مسعود سعد سلمان ، سعدی ، حافظ ، صائب جیسی ہستیوں پر عبور حاصل تھا یونیورسٹیوں میں ادب کی تعلیم حاصل کئے ہوئے بہت سے اساتذہ سے کئ گنا زیادہ ! یہی صورت حال دیگر علوم میں بھی ہو سکتی ہے ان لوگوں سے محروم نہیں رہنا چاہئے ۔ اسی طرح میں دوسرے فریق سے بھی کہنا چاہتا ہوں تعلیمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ تمام سطحوں پر پڑھے لکھے لوگ سماج کو دے لیکن اگر ہم یہ سمجھيں کہ تعلیمی ادارے کے تحت چلنے والے اسکول ہر حالت میں یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ ہیں تو یہ غلط ہے ۔ جی نہیں ، کچھ لوگوں نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو یونیورسٹی میں داخلے پر منحصر کر لیا ہے ۔ آپ نے سنا ہوگا ۔مثلا یونیورسٹی میں داخلے کے کمپٹیشن میں فیل ہونے والے کسی طالب علم نے الٹا سیدھا قدم اٹھا لیا یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو گیا ۔ یا ماں باپ نے اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کیا ؟ جی نہیں جناب یونیورسٹی علمی ترقی و تحقیق کا راستہ ہے ، ٹھیک ہے ، یہ ملک کے لئے ضروری ہے ۔ آپ لوگوں کو علم ہے کہ میں تعلیم میں توسیع و گہرائی کا قائل ہوں اور اس پر زور بھی دیتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں اچھے دکاندار کی ضرورت نہيں اچھے ڈرائیور کی ضرورت نہیں ، اچھے تاجر کی ضرورت نہيں ، اچھے ٹیکنیشئن کی ضرورت نہيں ہے ۔ پورے ملک کے تمام مرد عورتوں کا ہر حالت میں یونیورسٹی جانا ضروری نہیں ہے لیکن ابتدائی تعلیم کی ضرورت ہے اس طرح سے ابتدائی تعلیم جس کا ذمہ دار تعلیمی ادارہ ہے ، ضروری نہیں ہے کہ صرف یونیورسٹی میں جانے کا مقدمہ اور اس کی راہ ہموار کرنے والی ہو ۔ جی نہيں ، یونیورسٹی اچھی ہے ، ضروری ہے لیکن ابتدائی تعلیم کے ذمہ دار تعلیمی ادارے کا دائرہ اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعلیمی ادارے کے ذریعے ایسے افراد تیار کئے جائيں جنہيں ضروری حد تک علم و مہارت ہو تاکہ وہ جہاں بھی کام کریں اس حد تک علم و معلومات سے بہرہ مند ہوں ۔ اب کچھ لوگوں میں صلاحیت ہے ، اشتیاق ہے وہ یونیورسٹی چلے جاتے ہیں لیکن کچھ لوگ نہيں جاتے ، یا جانے کا شوق نہیں ہوتا یا حالات نہيں ہوتے تو وہ نہيں جاتے ۔
البتہ یہ ، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی بات سے مختلف ہے ۔ وہاں ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہئے جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں یعنی اگر کسی کو شوق ہو ، صلاحیت بھی ہو لیکن مادی وسائل نہ ہوں تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ یونیورسٹی تک پہنچ سکے ۔ یہ انصاف ہے ۔ یعنی یہ سہولت سب کو حاصل ہونی چاہئے ۔ ایک بار میں نے تعلیم چھوڑ دینے والے ایک نوجوان سے اپنی عادت کے مطابق پوچھا : پڑھائی کیوں چھوڑ دی ، کیوں آگے کی تعلیم حاصل نہیں کی اور کام میں مصروف ہو گئے ؟ اس نے مجھے یونہی ایک جواب دے دیا میں نے تھوڑا اصرار کیا _ اس نے جو کام شروع کیا تھا وہ اچھا کام تھا _ وہ نوجوان اپنے خاص مشہدی لہجے میں کہنے لگا : یہ کام میرے خون میں ہے ۔ وہ کام اس کے خون میں تھا اس کے وجود میں ہے یہاں پر کہنا چاہئے ٹھیک ہے کوئي کام یا دکانداری اگر کسی کے خون میں ہے تو اسے جانے دیں کیا ضروری ہے کہ وہ ہر حالت میں یونیورسٹی جائے ، اس سے یہ اصرار کی کیا ضرورت ہے کہ نہيں تم ضرور یونیورسٹی جاؤ ۔ یہ اس معاملے پر صحیح نظریہ ہے ۔
دوسری بات ، تربیتی سرگرمیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا ، انقلاب کے بعد جو اچھے کام کئے گئے _ جس کے بانی مرحوم شہید با ھنر تھے خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے _ ان میں سے ایک تربیتی ادارے کا قیام ہے ۔ اسے مختلف بہانوں سے بند کر دیا گیا میں اس معاملے پر بد ظنی کے ساتھ نظر نہيں ڈالنا چاہتا لیکن بہرحال کج فکری تھی اس لحاظ سے کہ تربیت ، مختلف اساتذہ کے ذریعے کلاس میں ہونی چاہئے اسے الگ نہیں ہونا چاہئے ۔ اس مرکز کو ، جو تربیتی امور سے مخصوص تھا ، بند کر دیا گیا ۔ جی ہاں ، میرا بھی یہی خیال ہے ، میرا بھی یہی خیال ہے کہ آپ جو فزیک ، ریاضیات ، الجبرا ، ادب ، سماجیات یا جس علم کے بھی استاد ہيں ، آپ دینی امور اور اخلاقیات کے استاد اور اپنے شاگردوں میں اخلاقی اقدار کو مضبوط بنانے والے بن سکتے ہيں ۔ کبھی ایک ریاضی کا استاد ، کوئی مسئلہ حل کرتے وقت ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ جس کے اثرات شاگرد کے دل کی گہرائی پر پڑتے اور ہمیشہ باقی رہتے ہیں اسے ہر استاد کو اپنا فرض سمجھنا چاہئے اور میں آپ لوگوں سے جو یہاں پر تشریف فرما ہیں اور تمام اساتذہ سے _ وہ چاہے جو پڑھاتے ہوں _ عرض کرتا ہوں کہ اس طرف سے غافل نہ ہوں کہ تربیت بھی آپ کے کام کا حصہ ہے اور اس سے بہتر کیا ہوگا کہ آپ استاد کے مقام اور شاگردوں پر اپنی باتوں کے اثرات سے اس سلسلے میں فائدہ اٹھائيں اور اپنے شاگرد کے دل میں ایک نورانی و روشن نقطہ پیدا کر دیں ، ممکن ہے خدا کے سلسلے میں ایک بات ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں کوئي بات ، قیامت کے بارے میں کوئی بات ، معنویت و خدا کی طرف توجہ و اس سے محبت کے بارے میں کوئی بات ، ریاضیات ، ادب ، پہلی یا دوسری کلاس کے استاد کی حیثیت سے آپ کے منہ سے نکل جائے جو اس بچے ، نوجوان اور آپ کے شاگردون کی شخصیت کو مناسب شکل عطا کر دے اور اس کے اثرات دوسری شکلوں میں سو گھنٹے بولنے سے زیادہ ہوں ۔ یہ تو اپنی جگہ پر ایک فرض ہے لیکن یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ہم تعلیمی ادارے میں ایک ایسا شعبہ بھی بنائيں جو پابندی و ذمہ داری کے ساتھ تربیتی پہلو کا خیال رکھے کیونکہ ہمیں معلوم ہے تربیت کہ بغیر تعلیم کا کوئي فائدہ نہيں ہے ۔ بغیر تربیت کے تعلیم سے انسانی سماج اسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گا جس میں آج ، سو ڈیڑھ سو یا اس سے زیادہ وقت کے بعد مغربی سماج پھنسے ہوئے اور اسے محسوس کر رہے ہیں ۔ یہ وہ امور ہیں جن کے اثرات دس بیس برس میں ظاہر نہیں ہوتے ۔ جب ہوش آئے گا تو نظر آئے گا کہ ایک نسل برباد ہو چکی ہے اور اب اس کا کچھ نہيں کیا جا سکتا ، ایک نسل مایوس کن ہے ۔ اس سلسلے میں میرے پاس بہت معلومات اور دہلا دینے والے اعداد و شمار ہیں _ یہاں پر ان کے ذکر کی جگہ نہيں ہے البتہ کچھ مقامات پر میں نے ان کا ذکر کیا ہے _ صریح و کھلے ہوئے اعترافات ۔ یہ نہ سوچيں کہ ہم یہاں اتنی دور بیٹھ کر یہ بات یونہی کہہ رہے ہيں جی نہیں ، یہ خود ان کی باتیں ہیں وہ انتباہ ہے جو خود وہ اپنے آپ کو دے رہے ہيں ۔ یہ واقعہ مغرب میں پیش آ چکا ہے اور یہ وہی سیلاب ہے جو گھر کو بنیاد سمیت اکھاڑ کر تباہ کر دیتا ہے ۔ بغیر تربیت کے علم ایسا ہے ۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کسی سماج میں علمی ترقی ہوتی ہے لیکن تربیت کا انتظام نہیں ہوتا ۔ آپ مغرب کے ایٹم بم کو چھوڑیں ، مختلف قسم کی سیاسی عدم شفافیت کو چھوڑیں ، ان کے مختلف جھوٹ کو چھوڑیں ، بڑی بڑی کمپنیوں اور تنظیموں کی جانب سے فائدہ کے لئے ہاتھ پیر مارنے کو چھوڑيں ، ان کا الگ قصہ ہے تاہم وہ بھی اسی کا نتیجہ ہے ۔ اصل بات ، انسانی نسل کا ضیاع ہے ۔ اس بنا پر تربیتی امور کا معاملہ بہت اہم ہے وہ بھی ایک طاقتور و مفید ادارے اور شعبے کی شکل میں ، صرف ظاہری نہیں ۔
دوسرا ایک مسئلہ تعلیم بالغاں کا ہے اور ہمیں تعلیم سے محرومیت کی اس مصیبت کو ملک سے ختم کرنا چاہئے ۔ پہلی بات تو ملک کے کچھ علاقوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بچہ ، تعلیم شروع کرنے کی عمر میں _ وہ بچے جن کی عمر تعلیم حاصل کرنے کی ہو گئ ہے _ اسکول نہیں جاتے یہ بہت خطرناک ہے ۔ بہت بری بات ہے ۔ کچھ ایسا انتظام کیا جانا چاہئے کہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنا سب کے لئے ضروری ہو جائے ، کم سے کم ابتدائی تعلیم کی ڈگری سب سے کے لئے ضروری قرار دی جائے ، شناختی کارڈ کی طرح ، ڈرائوینگ لائسنس کی طرح یہ ڈگری سب کے پاس رہے ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ جس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی اور ہماری یہ عدم توجہ باعث بنتی ہے کہ ملک کے کچھ علاقوں میں کچھ لوگ اس سے غلط فائدہ اٹھائيں ۔ بچوں کو تعلیمی ادارے کے چینل سے گزرنا چاہئے اور اس مرحلے کو پورا کرنا چاہئے اس کے بعد جو بھی کریں وہ الگ بات ہے لیکن اس حد تک ضروری ہونا چاہئے ۔ تعلیمی شعبے اور تعلیم بالغاں تحریک کے ذمہ داروں کو بیٹھ کر ایک حد کا تعین کرنا چاہئے ۔ مثال کے طور پر پچاس برس یا پچپن یا ساٹھ برس سے کم عمر کے لوگ ۔ اس کے لئے ایک مدت کا تعین کریں مثال کے طور پر پانج برس کہ اس کے دوران پورے ملک میں تمام لوگوں کو تعلیم یافتہ ہو جانا چاہئے ۔ اب جو لوگ اس عمر سے زيادہ کے ہوں ان پر کم سختی کے ساتھ دھیان دیا جائے ۔ نہ یہ کہ مکمل طور پر انہیں چھوڑ دیا جائے لیکن جو لوگ پچاس یا پچپن سے کم کے ہوں چاہے مرد ہوں یا عورت ، انہيں ہر حالت میں تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تاکہ اس معنی میں ہمارے ملک میں کوئی ناخواندہ نہ رہے ، تو جو اہم مسائل ہمارے ذہن میں تھے ہم نے انہیں آپ کے سامنے بیان کر ديئے اور میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک کی موجودہ نئ نسل جس نے انقلاب کو دیکھا ہے ، مقدس دفاع کا مشاہدہ کیا ہے ، کسی حد تک اس وقت کے ماحول کو محسوس کیا ہے _ ان سے ہم دور نہیں ہوئے _ بہت ہی با صلاحیت ہے ۔ یہ نسل بہت سے کام کر سکتی ہے ۔ ہمیں اب بھی اپنے کاموں میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی کی تائید محسوس ہوتی ہے ، ان کا وہ مضبوط ارادہ وہ عزم راسخ ، ملکی معاملات پر مدبرانہ و خدائی نگاہ ہمیں آج بھی محسوس ہوتی ہے ۔ایک طرح سے وہ زندہ ہیں ہم نے امام کی جو بیعت کی ہے ، انقلاب کی جو بیعت کی ہے اس کی عزت کرنی چاہئے جو لوگ امام سے ، انقلاب سے اور اسلامی جہموریہ سے کیا گیا عہد توڑتے ہیں وہ خود اپنا نقصان کرتے ہیں : «فمن نكث فانّما ينكث على نفسه و من اوفى بما عاهد عليه اللّه فسيؤتيه اجرا عظيما» اس عہد کو ہمیں یاد رکھنا چاہئے ، سنبھالے رہنا چاہئے اور موجودہ نسل کے اس عہد کی بدولت _ جو خوش قستی سے پر جوش نوجوانوں سے بھری ہے _ بہت بڑے بڑے کام کئے جا سکتے ہيں جس کا ایک نمونہ ایٹمی انرجی کا معاملہ ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی قوم نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی ہے ، یہ صحیح ہے کہ سیاست داں اور تشہراتی مہم چلانے والے برا بھلا کہتے ہيں لیکن آپ کو جان لینا چاہئے کہ اقوام عالم آپ کی تعریف کرتی ہیں خود وہ سیاست داں بھی دل ہی دل میں ایران کی تعریف کرتے ہیں ۔ مختلف مذاکرات کی _ چاہے آئی اے ای اے میں ہوں چاہے دیگر سیاسی حلقوں میں _ جو تفصیلات ہمارے سامنے پیش ہوتی ہیں ان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مزاحمت ، علم کے شوق اور اس قومی و علمی افتخار کے تحفظ پر ایرانی قوم کے اصرار کی تعریف کرتے ہیں تعجب میں پڑ جاتے ہيں ۔ ہمارے پاس یہ جو رپورٹیں ہیں ان سب سے یہ بات ثابت ہوتی ہے یہ ایک نمونہ ہے ۔
اگر بیس برس قبل اس ملک میں کوئي کہتا کہ ایک دن ایرانی نوجوان ، باہر کہیں تعلیم حاصل کئے بغیر صرف ادھر ادھر کی تعلیمات اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سینٹری فیوج مشین بنانے میں کامیاب ہو جائيں گے اور یورینئم کی افزودگی شروع کر دیں گے اور یورینئم سے بجلی پیدا کریں گے تو ایک ہزار میں سے ایک آدمی بھی اس پر یقین نہ کرتا اور سب سے پہلے جو لوگ انکار کرتے وہ خود ماہرین اور پڑھے لکھے لوگ ہوتے وہ کہتے جی نہيں! یہ نہيں ہو سکتا ۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ کیا یونہی ہی ہے ؟ ملت ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ تمام میدانوں میں ایسی ہی ہے لیکن یہ معاملہ ظاہر ہو گیا ہے اور پوری دنیا کو علم ہو گیا ہے ، ایرانی قوم تمام شعبوں میں اس بات کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ اس کا شوق بھی ہے اور ان میدانوں میں اترنے کی جرات بھی اس میں ہے ۔ اچھا یہ تو واضح ہو گیا ، اس کا انکار کرنے والے پر لعنت لیکن کچھ اور چیزیں بھی آپ کا مسلمہ حق ہیں ! ( یہاں پر حاضرین ، ایٹمی انرجی ہمارا مسلمہ حق ہے کے نعرے لگاتے ہیں )
میں نے تنوع کی جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ تنوع کی سوچ کے ساتھ ، تنوع کے راستے پر ، اپنے نوجوانوں کی خلاقیت و تنوع پسندی کے سہارے ، ہماری قوم ، فکری و ذہنی میدانوں میں سرگرم افراد کو جن میں آپ اساتذہ بھی شامل ہیں ، آگے بڑھے خدا بھی انشاء اللہ مدد کرے گا ۔
خدا وند عالم ! اس قوم کو توفیق دے اور اس کی مدد کر ! پروردگار ! ہمارے روئے ، ہمارے اعمال اور اقدامات سے امام زمانہ ارواحنا فداہ کو راضی کر ۔ پروردگار ! ایرانی قوم کی خوشیوں میں روز بروز اضافہ کر ____
والسّلام عليكم و رحمه اللّه
ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔
ہمیں طالب علم کو یہ موقع دینا چاہئے کہ اپنی فکر، اپنی زبان، اپنی آزادی،اور اپنی گفتار و رفتار سے فیصلے کے مقدمات فراہم کرے۔ فیصلے کرنے کا کام اسے سونپا جائے جو جوابدہی کر سکتا اور ذمہ داری اٹھا سکتا ہے۔
اگرچہ اسلامی انقلاب کے دوران رونما ہونے والے تعجب خیز بے نظیر واقعات کم نہیں ہیں اور ایرانی قوم کی عظیم تحریک کے آغاز سے ، جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی، اسلامی انقلاب کی کامیابی تک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے اب تک، جدوجہد اور انقلاب کے دوران رونما ہونے ہونے والے حیرت انگیز اور عدیم المثال واقعات یکے بعد دیگرے آنکھوں اور دلوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں تاہم ان حیرت انگیز واقعات کے دوران شہید کا مسئلہ ایک خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز کمانڈروں اور جوانوں سے ملاقات جن کا تعلق فوج، پاسداران انقلاب فورس، پولس یا بسیج (رضاکار فورس) سے ہے، میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران صوبہ فارس کی فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں کی کارکردگی ایسی نہیں ہے کہ اسے کبھی فراموش کیا جا سکے۔ مسلط کردہ جنگ کے پہلے سال کے دوران جو بڑا سخت اور کٹھن سال تھا اہواز میں بٹالین سینتیس اور پچپن کے پہنچنے کی خبر سے افسران میں خوشی کی لہر دوڑ گئي تھی۔ اس وقت جب میں نے خرم شہر کا دورہ کیا تو وہاں جاں بکف اور جاں نثار جیالے دکھائي دئے جو ہر آن اپنی جان نچھاور کر دینے کے لئے آمادہ تھے۔ میں نے سوال کیا کہ آپ حضرات کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ جواب ملا کہ شیراز سے۔ اس کے بعد شیراز اور فارس سے جوانوں کی شمولیت سے الفجر اور المھدی نامی بٹالینیں تشکیل پائیں، اس وقت شیراز اور فارس فوجی قوت سے سرشار علاقے کی شکل میں سامنے آیا۔ فوج کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے جیالوں نے مقدس دفاع کی تاریخ میں اپنی اہم یادگاریں چھوڑی ہیں۔
آج اس میدان میں آپ جوانوں سے ملاقات جو اپنے پیشروؤں کے راستے پر چلنے کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کر رہے ہیں میرے لئے بہت یادگار لمحہ ہے۔
آپ جوانوں کو سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ امام زین العابدین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ مسلح افواج قومی سلامتی کا قلعہ ہے۔ اگر یہ قلعہ ساز و سامان اور جوش و خروش کے لحاظ سے مستحکم ہے اور سربلند و سرفراز ہے تو قوم میں احساس تحفظ برقرار رہے گا۔ اگر احساس تحفظ نہ ہو تو قوم کو خواہ وہ کتنی ہی پیش رفتہ کیوں نہ ہو چین و سکون نصیب نہیں ہوگا۔ احساس تحفظ سے ذہنی اور نفسیاتی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسلح فورسز دلیرانہ، شجاعانہ، دانشمندانہ انداز میں اپنے فرائض اور کردار کو انجام دیں اور خود کو اس مقام پر رکھیں جو ان کے شایان شان ہے تو وہ اس احساس تحفظ اور امن و امان کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ مسلح فورسز کی موجودگی اور ان کی تقویت کا مطالبہ بذات حود کسی بھی ملک میں جنگ پسندی کے معنی میں نہیں ہے۔
ہم نے ملت ایران کی توانائيوں سے آج دنیا میں ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم اور ایران ہمسایہ اور دیگر ممالک کے لئے خطرہ نہیں ہے۔ ہم پر حملہ ہوا اور ہم نے قدرتمندانہ انداز میں اپنا دفاع کیا لیکن کبھی بھی جارحیت، حملے، اور غاصبانہ قبضے کا خیال ہمارے ذہنوں میں نہیں آیا۔ بہرحال مسلح فورسز کو قوی اور طاقتور ہونا چاہئے۔ دنیا، جارحیت کی دنیا ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ پالیسیوں کا غلبہ ہے۔ تسلط پسند طاقتوں اور سامراجی نظاموں کے ارادے، تمام اقوام کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی ڈھانچے کی تقویت کے لئے پوری تیاری رکھیں۔ بڑی طاقتوں کو جہاں موقع ملا وہ وسیع پیمانے پر جارحیت کے لئے راستا بنانا شروع کر دیتی ہیں۔
عراق و افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کس بہانے سے یہ (طاقتیں) عراق میں داخل ہوئيں؟ کس بہانے سے انہوں نے افغانستان پر قبضہ جمایا؟ وہ عراقی عوام کو امن و امان اور آزادی کا پیغام دے رہی تھیں لیکن آج عراقی قوم بد امنی کے لحاظ سے اپنی زندگي کے پانچ بد ترین برسوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی سرشت ہے۔ افغانستان میں بھی ایک الگ انداز سے یہی سب کچھ ہوا۔ جہاں بھی سامراجی طاقتوں کو مالی حساب کتاب کے مطابق جارحیت فائدے میں نظر آئی وہ ایک لمحہ بھی تامل نہیں کریں گي۔ البتہ وہ ایران سے واقف ہیں۔ ایرانی قوم، اسلامی جمہوریہ، مسلح فورسز، عوام اور مقدس نظام نے گزشتہ تیس برسوں میں جارح طاقتوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملت ایران، یہ عظیم قوم، یہ گہرے ایمان سے آراستہ قوم، یہ زیرک قوم، تر نوالہ نہیں کہ جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ آج دنیا میں سب اس سے واقف ہیں۔ دنیا کی کس فوج میں مجال ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں عراقی عوام کے ساتھ کیا جانے والا برتاؤ ایرانی قوم کے ساتھ روا رکھنے کا تصور بھی کر سکے۔ ایرانی قوم طاقتور قوم ہے۔ ملک کے مسلح اداروں کے پاس ملت ایران کی شکل میں پشتپناہی کرنے والی ایک عظیم طاقت ہے۔شہروں، دیہاتوں، اور ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ جوان، دسیوں لاکھ پختہ ارادے، دسیوں لاکھ با ایمان قلب اس سلسلے میں سب ایک ساتھ ہیں۔ وہ آہنی عزم و ارادے کے مالک ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آپ آمادہ اور طاقتور بنے رہیں۔
ہم سامراج کے اس تند و تلخ لہجے اور دھمکی آمیز باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کو در خور اعتنا نہیں سمجھتے۔ یہ سب نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ملت ایران کے دشمنوں کے پاس یہ جرئت نہیں ہےکہ ایسے میدان میں وارد ہو جائیں جہاں سے نکل پانا نا ممکن ہو۔ ہمیں اس کا علم ہے تاہم آپ پوری طرح قوی و آمادہ رہیں۔
مسلح فورسز کو، خواہ وہ فوج ہو یا پاسداران انقلاب فورس، بسیج ہو یا پولس، روز بروز قوی سے قوی تر ہو بننا چاہئے۔ خلاقیت کا یہی مطلب ہے۔ خلاقیت صرف جدید ہھتیار بنانے کو نہیں کہتے حالانکہ جدید فوجی ساز و سامان اور ہتھیار تیار کرنا ایک اہم خلاقیت ہے لیکن تربیت، نظم و نسق، انتظامات، دستور العمل سب میں خلاقیت لازمی ہے۔ بڑے اور مستحکم قدم اٹھائیے۔ واضح اور مشخص اہداف کی سمت پوری قوت و طاقت سے آگے بڑھئے۔ خود کو طاقتور اور توانا بنائیے۔ اس قلعے اور سور البلد کو قوم کے لئے اطمینان بخش بنائیے۔
عالمی سیاسی فضا لا دینیت کی فضا ہے۔ اسی فضا کی وجہ سے سامراجی طاقتیں اپنے دوستوں پر بھی رحم نہیں کرتیں۔ آپ نے دیکھا کہ ملعون، روسیاہ صدام کا انہوں نے کیا انجام کیا۔ جب تک انہیں اس کی ضرورت تھی، اس کی خوب تقویت کی گئی۔ ہم پر مسلط کردہ جنگ کے دوران یہی امریکی تھے جنہوں نے صدام حسین کی جتنی ممکن تھی مدد اور پشت پناہی کی۔ خفیہ اطلاعات اور نقشوں سے لیکر فوجی ساز و سامان اور اپنے اتحادیوں کے ذریعے مالی امداد تک سب کچھ اسے مہیا کرایا۔ چونکہ انہیں اس کی ضرورت تھی۔ وہ اس خام خیالی میں تھے اس کے ذریعے وہ غیور اور عظیم ایرانی قوم کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جائيں گے۔ جب وہ مایوس ہو گئے اور اس کے استعمال کا وقت گزر گيا تو اس کی کیا درگت بنائي اس کا آپ سب نے مشاہدہ کیا۔ اب انہوں نے اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے دوسرا راستا اختیار کیا۔ یہ سب ان لوگوں کے لئے جو بے تقوا اور لا دین طاقتوں سے امیدیں وابستہ کئے بیٹھے ہیں درس عبرت ہے۔
ایرانی قوم نے سامراجی طاقتوں کو پہچان لیا تھا اور آج بھی ان سے بخوبی آگاہ ہے۔ جرائم پیشہ امریکیوں کے خلاف ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے عہدہ داروں کا دو ٹوک موقف اسی شناخت کی بنیاد پر ہے۔ آج کون نہیں جانتا کہ موجودہ امریکی صدر کا دور اقتدار انسانی معاشرے کی عصری تاریخ کا سب سے نا امن دور رہا ہے۔ ان کے نام کے ساتھ یہ سیاہ داغ ہمیشہ باقی رہے گا۔وہ خود تو چند مہینے بعد جانے والے ہیں اور ان کی پیدا کردہ مشکلات آنے والے شخص کو منتقل ہو جائیں گي تاہم تاریخ میں یہ باب ہمیشہ کھلا رہے گا اور کبھی بھی بند نہیں ہوگا۔ یہ سب ہمارے عقلمند نوجوانوں کے لئے درس عبرت ہے۔ آپ خود کو پہنچانئے، اس انقلاب اور اس مقدس نظام نے جو طرز فکر آپ کو عطا کیا ہے اس کی عظمت کو سمجھئے۔ نہ مغرب نہ مشرق کا نعرہ، سامراجی طاقتوں کی نفی کا نعرہ، ملت ایران کی خود مختاری کا نعرہ، ملک کے ہر گوشے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں پر اتکا کا نعرہ یہ سب ہمارے زندہ جاوید نعرے ہیں۔ ہر نعرہ حکمت کے مرکز کا درجہ رکھنے والے اس قلب پاک سے باہر آیا ہے جو عالم غیب اور اللہ تعالی سے خاص رابطے اور بندگی پروردگار کے جذبے سے سرشار تھا۔ اس عظیم انسان، اس پیر فرزانہ اور اس حکیم دلاور نے ہمیں ان نعروں کی تعلیم دی ہے۔
عزیزو! آپ مسلح فورسز کے جوان ہیں۔ مسلح فوج آپ کی ہے۔ ملک نوجوانوں کا ہے۔ مسلح فوج کے جوان جہاں تک ممکن ہے خود کو علم و دانش، تقوا و پرہیزگاری اور پاکیزگي و پاکدامنی سے مزین کریں، اور یہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال ہیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
بہت اچھی اور دلچسپ نشست ہے ۔ ایسے فضلاء، علماء، طلاب، جوانوں اور نوجوانوں کا بڑا مجمع کہ جنہوں علم دین اور خدا کے بندوں کی مدد و نصرت کی راہ میں قدم رکھا ہے، آج یہاں موجود ہے۔ یہ صوبہ بھی علمی شخصیتوں اور علمائے دین کا مرکز رہا ہے۔ ہم اگر ماضی پر نظر ڈالیں تو ہر دور میں عظیم شخصیات کو میدان عمل میں پہنچانے میں اس صوبے کا کردار نظر آتا ہے، قدیم ایام سے، تیسری ہجری
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے کچھ تاخیر سے ہی سہی لیکن شیراز کے عزیز عوام سے ملاقات کا موقع مرحمت فرمایا۔
صوبہ فارس سے تعلق رکھنے والے احباب اور شیرازی دوستوں کی ایک مدت سے شکایت تھی کہ ایک عرصے سے صوبہ فارس کا دورہ انجام نہیں پایا ہے۔ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آپ عزیزوں سے ملاقات، آپ کے دلکش شہر کے نظارے اور آپ کے مایہ فخر اور پر برکت صوبے کے دورے کا میں بھی آپ ہی کی طرح مشتاق تھا۔ یہ فرزانہ شخصیات کا گہوارہ اور علم و ادب اور ذوق و فن کاری کا شہر ہے۔ یہ تاریخی اور شہرہ آفاق چہروں کا شہر ہے۔ شہر شیراز اور صوبہ فارس کو ملک کے شہروں اور صوبوں میں خاص مقام حاصل ہے۔ مختلف شہروں کے دوروں اور مقامی عوام سے ملاقاتوں کے دوران یہ میرا وتیرہ رہا ہے کہ متعلقہ شہر کی تاریخی حیثیت اور دیگر خصوصیات کا تذکرہ کرتا ہوں اس سے میرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس عظیم سر زمین کے ہر خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں کے سامنے اپنے علاقے کے تشخص اور تاریخ کی واضح تصویر آ جائے تاہم شہر شیراز اور صوبہ فارس کے سلسلے میں اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ کے شہر اور صوبے کی عظیم شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہے اور دنیا کے گوشے گوشے میں ان کا ایسا شہرہ ہے کہ شیراز کے تعارف اور یہاں کی تاریخ کے تذکرے کی ضرورت ہی نہیں۔ البتہ میں ایک خاص نتیجے پر پہنچا ہوں، جس کے تحت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ صدیوں کے دوران تمام علمی شعبوں میں شیراز کے باسیوں نے اپنی انسانی استعداد اور صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ اسی طرح سماجی اور دینی شعبوں اور اس اہم چیز کے سلسلے میں جس پر قوموں کی تقدیر کا انحصار ہوتا ہے یعنی قومی عزم و ارادہ، صوبہ فارس اور شہر شیراز کی بڑی تابناک تاریخ ہے۔ آپ کی تاریخ پر جتنا زیادہ غور کیا جائے اس خطے اور یہاں کہ عوام کی عظمت کے نئے نئےپہلو سامنے آتے جاتے ہیں۔ دینی پہلو کا جہاں تک سوال ہے کہ جس کے بارے میں میں بعد میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا، خاندان رسالت سے تعلق رکھنے والے حضرت احمد بن موسی اور آپ کے بھائیوں اور دیگر امام زادوں کی قبور، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرزندان رسول نے فارس کے علاقے اور یہاں کے عوام کو اپنا مخاطب اور اپنی منزل کے طور پر منتخب فرمایا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ بالخصوص جناب احمد بن موسی جو خاندان رسالت کی بڑی برجستہ شخصیت تھی ان کے بارے میں نقل کیا گيا ہے، و کان احمد بن موسی کریما جلیلا ورعا و کان ابوالحسن علیہ السلام یحبہ و یقدمہ، آپ کے والد گرامی اپنی اولادوں میں آپ کو خاص درجہ دیتے تھے اور آپ سے انہیں خاص لگاؤ تھا۔ آپ سخی، پرہیزگار اور بڑے عظیم المرتبت انسان تھے۔ خاندان رسالت کے اس چشم و چراغ اور دیگر شخصیات کی نگاہ انتخاب شیراز پر ٹھہری وہ آئے اور عوام نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان عظیم شخصیات کی برکتیں آج بھی ملک کے اس اہم علاقے اور اس صوبے میں جاری و ساری ہیں۔
علم و ادب کے شعبے میں دیکھا جائے تو سعدی و حافظ زبان فارسی اور فارسی ادب کی پیشانی کے دو درخشاں ستارے ہیں۔ کون ہے جو اس سے آگاہ نہ ہو۔ علم و ادب کے مختلف شعبوں میں اس خطے سے عظیم شخصیات سامنے آئي ہیں جو اپنے اپنے دور میں یکتائے زمانہ تصور کی جاتی تھیں۔ فلسفہ، فقہ، ادبیات، فن و ہنر، تفسیر و لغت، نجوم، فزکس اور طب جیسے شعبوں کی عظیم شخصیات جو مختلف علوم کے نقطہ کمال پر فائز تھیں اور زمانے کے سرکردہ شخصیات میں شمار کی جاتی تھیں ان کا فردا فردا تعارف کرانے کا اس وقت موقع نہیں ہے اس کے لئے ایک الگ قسم کی محفل اور اجتماع کی ضروت ہے۔ یہاں تو بس سرسری تذکرہ ہی کافی ہے۔
سماجی امور اور آپ عزیزوں کی غیرت دینی اور جرئت اقدام کے سنہری صفحات تاریخ میں موجود ہیں۔ ملک کی دینی علوم کی تاریخ میں جتنے مجاہد علما اس صوبے سے نکلے ہیں اس کی مثال ملک کے کسی اور صوبے میں مل پانا مشکل ہے۔ مرزا شیرازی سے سب واقف ہیں، سید علی اکبر فال اسیری مرحوم نے انگریزوں اور غیر ملکیوں کے خلاف اسی شہر سے قیام کیا اور اپنی مخالفت کا اعلان فرمایا۔ انہیں گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا لیکن ان کی تحریک کے اثرات باقی رہے۔ یہی جگہ حافظیہ جہاں اس وقت آپ حضرات تشریف فرما ہیں اس کے بارے میں لکھا گيا ہےکہ سید علی اکبر فال اسیری حافظیہ کے نزدیک زیارت عاشورا پڑھنے میں مصروف تھے کہ اچانک دبش پڑی اور آپ کو گرفتار کرکے جلا وطن کر دیا گیا۔ مرزا شیرازی اسی طرح مرزا دوم مرزا محمد تقی شیرازی کہ جو پہلی عالمی جنگ کے بعد کے برسوں میں برطانیہ کے حملے اور قبضے کے خلاف عراقی عوام کی جد وجہد کی روح رواں تھے۔ سید عبد الحسین لاری مرحوم بھی ایک برجستہ اور ممتاز شخصیت تھی جس نے اسی صوبہ فارس کے غیور اور شجاع قبائل کی مدد سے برطانوی سامراج کے خلاف جنگ کی اور آئینی نظام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے جد و جہد فرمائي۔ اس مجاہد شخصیت نےتقریبا سو سال قبل اپنی جد و جہد شروع کی۔
صوبے میں ایسے علما بڑی تعداد میں گزرے ہیں جنہیں صوبہ فارس کے قبائل اور شہروں بالخصوص شیراز سے تعلق رکھنے والے مومن و غیور عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سید نور الدین حسینی مرحوم نے اسی شہر شیراز میں ایک غیر ملکی سفارت خانے کے اہلکار کو جس نے دینی مقدسات کی بے حرمتی کی تھی حد الہی جاری کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کوڑے لگائے۔ آپ نے ظالم نظام کے خلاف شجاعانہ انداز میں سیاسی اور سماجی جد و جہد کی۔ اس کے بعد بھی علما کے جہاد کے زمانے میں آیت اللہ شہید دستغیب، آیت اللہ محلاتی مرحوم اور دیگر علما نے شیراز کی جامع مسجد عتیق کو اپنی تحریک کا مرکز قرار دیا۔ شیراز کے علما کی تحریک کا شہرہ اور اس تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے آیت اللہ دستغیب مرحوم کی شعلہ تقاریر گوشے گوشے تک پہنچیں۔ میں اس وقت قم میں تھا۔ شہید دستغیب کی تقریر کی کیسٹ طلبا کے درمیان گشت کر رہی تھی۔ ہم نے اسی وقت شیراز کے مجاہد علما کے موقف سے آگاہی حاصل کی۔
عہد حاضر میں بھی خواہ وہ انقلاب کے بعد کا زمانہ ہو، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ ہو یا اس کے بعد سے اب تک کے ایام، آپ عزیزوں، نوجوانوں، برجستہ شخصیات اور مومنین نے خود کو ہر مرحلے پر ممتاز مقام پر رکھا ہے اور صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ اپنے عمل سے صوبہ فارس اور شہر شیراز کے عوام کے تشخص کی پاسداری کی ہے۔ اس وقت بھی سائنس و ٹکنالوجی، تحقیق و خلاقیت اور علمی سرگرمیوں کے سلسلے میں یہ صوبہ زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کے صوبے سے تعلق رکھنے والے سائنسداں اور دانشور آج عالمی سطح کی شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں۔ میڈیکل سائنس، الیکٹرانک انڈسٹری، پیٹرو کیمیکل انڈسٹری، سائنس کے مختلف شعبوں اور انجینئرنگ میں یہ صوبہ بہت آگے ہے۔ شیراز یونیورسٹی کئی نئے موضوعات اور اسپشلائیزیشنس میں پیش قدم رہی ہے۔ مختلف شعبوں اور میدانوں میں آپ نوجوانوں اور لوگوں کا تعاون بہت نمایاں ہے۔ اس شہر میں تعینات فوج اور پاسداران انقلاب فورس کی بٹالینوں نے مقدس دفاع کے دوران بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح ماضی میں دین و ایمان اور عقیدے کے لحاظ سے، علمی کوششوں کے زاوئے سے دفاعی سرگرمیوں کی رو سے اسلامی انقلاب کے ثمرات کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے اور دیگر متعدد امور میں اس صوبے اور شہر نے ایسی استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جو قابل صد ستائش ہے۔ اس نکتےپر کہ یہ انسانی صلاحیتوں کا عظیم سرچشمہ ہے حکام کے کی توجہ بھی مرکوز رہنی چاہئے اور خطے کے عوام بالخصوص نوجوانوں اور تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان میں سے ہر فرد میں یہ صلاحیت ہے کہ اس سرزمین اور پوے خطے کو اپنے فیض سے سیراب کرے اس وضاحت سے میرا مقصد یہی ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ صوبہ فارس بالخصوص شہر شیراز کے عوام کے گہرے ایمان و عقیدے کی بابت صرف دعوا نہیں ہے بلکہ تمام پہلؤوں پر غور کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ مذہبی تشخص کی درخشاں تاریخ اور گزشتہ برسوں کے دوران اہم سرگرمیاں انجام دینے والے مجاہد علما کے اس شہر کے خلاف، دینی رجحان کو ختم کر دینے کے لئے دو سمتوں سے حملے ہوئے ایک تو طاغوتی حکومت کے دربار کی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ شہر شیراز کو صد فیصد مغرب زدہ شہر کی حیثیت سے دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اس کا سلسلہ انیس سو پچاس کے عشرے سے شروع ہوکر انقلاب کی کامیابی تک بیس سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا۔ سن ستاون اٹھاون کی بات ہے کہ ہم نے اسی شہر شیراز میں بے راہ روی کے مناظر دیکھے جس کے لئے با قاعدہ منظم طور پر کوششیں کی گئیں۔ نوجوانوں کو اخلاقی انحطاط اور دین سے بیزاری کی طرف لے جایا گيا۔ یہ سلسلہ اسی طرح سن ستر اکہتر تک جاری رہا۔ جشن ہنر شیراز اور کچھ دیگر معاملے جس کے بارے میں آپ بخوبی واقف ہیں البتہ شائد ہمارے کچھ نوجوانوں کے اس کا علم نہ ہو، یہ سب کچھ منصوبہ بند سازش کا نتیجہ تھا۔
ایک اور فکری انحراف کہ جس کی شیراز میں دیگر شہروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ترویج کی جا رہی تھی الحادی مکتب فکر تھا، اس کی ترویج ایک گروہ بڑے شد و مد سے کر رہا تھا۔ خاص طور سے سید نور الدین مرحوم کے زمانے میں جو بڑے شجاع، حالات سے آگاہ اور بہت فعال و زیرک عالم دین تھے، جب یہ دیکھا گيا کہ شیراز میں علما کا خاص اثر و رسوخ ہے تو دربار اور مارکسسٹوں نے ایک قینچی کی دو بلیڈوں کی طرح عوام اور نوجوانوں کے دین و ایمان کو نابود کر دینے کی کوششیں کیں لیکن جب سن باسٹھ ترسٹھ ع میں اسلامی تحریک شروع ہوئي تو انہی علما اور نوجوانوں نے اس شہر میں بڑے اہم اور فیصلہ کن اقدامات انجام دئے یعنی قومی سطح پر قم، تہران، شیراز، تبریز اور مشہد صف اول کے شہروں میں تھے، شیراز انہیں صف اول کے شہروں میں ایک تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شیراز کی برجستہ علمی شخصیات کو گرفتار کرکے تہران لے جایا گيا تھا۔
عوام کو دین سے دور کرنے کی جی توڑ کوشش کی گئي لیکن عوام کا جواب دو ٹوک تھا۔ عوام نے اپنے عمل اور اپنی استقامت سے ان کے سارے کئے دھرے پر پانی پھیر دیا۔ اس کے بعد بھی طاغوتی حکومت کے اقتدار کے آخری برسوں یعنی ستتر اٹھہتر میں شیراز کے عوام نےملک کے تمام شہروں کے لئے خود کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا۔
میں نے یہ جو باتیں عرض کی ہیں انہیں آپ مقدمہ سخن نہ سمجھئے یہ تکلفات کی باتیں نہیں ہیں، خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے، یہ کسی خاص نتیجے تک پہنچنے کے لئے ہے۔ اب میں یہاں ایک نکتے کی جانب اشارہ کروں گا جو انقلاب کے امور سے متعلق ہے اور جس کا ان باتوں سے تعلق ہے۔
اپنے ملک کی تاریخ میں ہم جتنا غور کرتے ہیں اور ماضی میں جتنا بھی دور تک پلٹ کر دیکھتے ہیں، اسلامی انقلاب کی کوئي نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ میں اس کی تھوڑی وضاحت کرتا ہوں، ہمارے ملک کی تاریخ میں، جنگ پسندوں کی کوششوں، لشکر کشی، کودتا یا بغاوت اور ٹکراؤ کے ذریعے اقتدار کی چھین جھپٹ ہمیشہ رہی ہے تاہم اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا، کئي خاندان اقتدار میں آئے اور گئے۔ آپ غور فرمائیں کہ اسی شہر شیراز اور صوبہ فارس میں مثال کے طور پر زندیہ بادشاہوں کی حکومت رہی پھر قاجاریہ خاندان آیا اور اس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا، دو فوجوں اور دو اقتدار پرستوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ دونوں فوجی طاقتیں تھیں۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں تھا۔ ہماری پوری تاریخ میں خواہ وہ اسلام سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا آج تک اقتدار کی منتقلی اسی طرز پر انجام پائي۔ ماضی میں صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے جس کے بارے میں میں ابھی وضاحت کروں گا، اس کے علاوہ ہمیشہ اقتدار پر قبضہ، لشکر کشی، فوجی چڑھائی سے ہوا۔ اس میں عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ عوام میں اس کے لئے کوئي دلچسپی ہی نہیں تھی، خواہ ایک سلسلہ حکومت سے دوسرے سلسلہ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ ہو یا ایک ہی سلسلہ حکومت کے اندر کشمکش کا واقعہ ہو۔ اس سلسلے میں قاجاریہ دور اقتدار کی ایک مثال آپ کے شہر کی ہی ہے کہ فتح علی شاہ قاجار کی موت کے بعد فتح علی شاہ کے ایک بیٹے حسین علی مرزا کی شیراز میں حکومت تھی، وہ تہران کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا، فتح علی شاہ کے پوتے محمد شاہ کو بادشاہت مل گئي تھی دونوں میں اسی بات پر جنگ ہو گئی۔ اسی شہر شیراز کے دروازے کے باہر دو فوجوں کے درمیان جنگ ہوئي۔ البتہ ان جنگوں میں پستے تھے عوام انہیں بھی نقصان پہنچتا تھا، ان کی کھیتیاں برباد ہو جایا کرتی تھیں ان کی جان و مال کے لئے خطرے پیدا ہو جاتے تھے۔ تاہم ان جنگوں میں ان کا کوئي کردار نہیں ہوتا تھا۔ تاریخ میں یہی سلسلہ رہا ہے۔ صرف ایک واقعہ اس سے مستثنی ہے تاہم تاریخی لحاظ سے اس میں کچھ شکوک و شبہات ہیں اور کچھ افسانے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔ یہ واقعہ ایک لوہار کاوہ کا ہے۔ بتاتے ہیں کہ عوام کی پشتپناہی سے اس نے ضحاک کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس کا خاتمہ کر دیا، اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ ہے، اس کے علاوہ تاریخ میں کوئي اور مثال نہیں ہے۔ البتہ پہلوی دور کے آغاز کے بعد کی جو تاریخ یورپیوں نے مرتب کی ہے اس میں فریدون، ضحاک اور کاوہ لوہار کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا۔انہوں نے الگ ہی نہج پر تاریخ لکھی ہے کہ جوایک الگ موضوع ہے جس پر اس وقت میں گفتگو نہیں کروں گا۔ اگر صحیح ہے تو یہی ایک واقعہ تاریخ میں ہے اور بس۔
اسلامی انقلاب ہماری تاریخ میں اقتدار اور حکومت کی تبدیلی کا سب سے بڑا واقعہ ہے جس نے شہنشاہی نظام کو عوامی حکومت میں تبدیل کر دیا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی ہے جو عوامی قوت سے انجام پائی۔ اس واقعے میں دو حکومتوں کا ٹکراؤ اور لڑائي نہیں تھی۔ عوام باہر آئے انہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا اور عظیم الہی قوت کے ذریعے بادشاہوں، طاغوتی طاقتوں اور نفس پرست ظالموں کے ہاتھ سے اقتدار چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ حکومت عوامی حکومت بن گئي ۔ جہاں تک ہم نے غور کیا اور سمجھا ہے یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا واحد واقعہ ہے۔ تو یہ واقعہ ایسی اہمیت کا حامل ہے کہ اس پر مختلف پہلؤوں سے غور کرنے اور اس کا تجزیہ کرنے کی صرورت ہے۔ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد مناسب ہوگا کہ ہم اس واقعے کے بنیادی امور پر ایک نظر ڈالیں، بہت زیادہ تفصیلات میں جانے اور چھوٹے موٹے واقعات کا جائزہ لینے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے اور اس سے کسی بات کی پوری وضاحت نہیں ہو سکتی۔ ہمیں پورے واقعے پر ایک وسیع نظر ڈالنے کی ضرورت ہے البتہ ہمارے دانشوروں اور علمی شخصیات نے اس واقعے کا اسی انداز سے جائزہ لیا ہے تاہم عوامی سطح پر بھی اس واقعے کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس پر توجہ دی جانی چاہئے۔
دنیا کے کسی بھی واقعے کے سلسلے میں چندعناصر کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھنا چاہئے۔ پہلا عنصر واقعے کے اتبدائي عوامل ہیں یعنی، اہداف، تاریخی حالات، جغرافیائي صورت حال اور سیاسی ماحول یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی واقعے کو صحیح طور پر سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔ دوسرا عنصر واقعے کے علمبردار ہیں۔ ہمارے انقلاب میں پہلا عنصر یہی عوام کا ایمان، حریت پسندانہ جد و جہد اور اس تحریک کی وہ چنگاری ہے جو آئینی انقلاب، مرزا شیرازی کی طرف سے تمباکو کو حرام قرار دئے جانے کے واقعے، دیگر بہت سے واقعات اور تیل کی صنعت کے قومیائے جانے کے واقعے سے پیدا ہوئی۔ اس طرح حالات بنے اور مجاہد علما اور خود امام (خمینی رہ) نے اس سے استفادہ کیا اور اس تحریک کو سمت عطا کی۔ یہ رہا پہلا عنصر۔
دوسرا عنصر یعنی واقعے کے علمبردار، ہمارے عوام تھے۔ تاریخ کے بے نظیر واقعے عظیم اسلامی انقلاب میں عوام نے بنیادی کردار ادا کیا۔ آج جو نام نہاد روشن فکرانہ نظرئے میں عوام کے کردار کو نظر انداز کیا جاتا ہے اس سے بے اعتنائي برتی جاتی ہے، غلط ہے۔ جب عوام کا رجحان کسی سمت بڑھتاہے اور کچھ لوگ اسے اپنے لئے نفع بخش نہیں دیکھتے تو اس کی اہمیت کو کم کرنے لگتے ہیں یہ درست نہیں ہے۔ عوامی ارادے اور عوامی تعاون سے ہی اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے۔
ملت ایران نے اپنے ایمان، اپنے جذبات، اپنی قومی حمیت، اپنی پر افتخار تاریخ و ثقافت کے ذریعے یہ عظیم تحریک شروع کی۔ ایرانی قوم کے ہدف کے بارے میں جس سے بھی سوال ہوتا تھا وہ اپنی زبان میں اس ہدف کو بیان کرتا تھا۔ اس طرح اسلام کے پرچم تلے، آزادی اور خود مختاری حاصل ہوئي۔ انقلاب کے دوران رائج نعرہ :استقلال (خود مختاری)، آزادی ، جمہوری اسلامی در حقیقت عوام کی دلی خواہش اور ان کے ما فی الضمیر کا آئينہ دار تھا۔ عوام کی یہی خواہش تھی۔ عوام دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے تھے کہ اس عظیم مملکت کے حکام اور ذمہ دار افراد فکری طور پر غلام بنے ہوئے تھے۔ اغیار کے تابع تھے، سامراجی طاقتوں کی غلامی کا پٹہ گلے میں پہنے اس پر نازاں تھے۔ ان کے سامنے تو بھیگي بلی بنے رہتے لیکن عوام کے ساتھ ان کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ فرعون بھی شرمندہ ہو جائے۔ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے ان پر کوڑے برسائے جاتے تھے۔ عوام کو کسی طرح کے انتخاب کا حق نہیں تھا۔ اسلامی انقلاب سے قبل تک کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عوام ، شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ ووٹ ڈالیں اور کسی کا انتخاب کریں اس کا کوئي تصور ہی نہیں تھا۔ حکومت موروثی، حکام اغیار کی ہدایت پر منصوب کردہ آئينی انقلاب سے وجود میں آنے والی پارلیمان مجلس شورا غیر منتخب پارلیمان اور عوام، اس غیر ذمہ دار ادارے کے فیصلوں کی قربانی تھے۔ عوام نے خود مختاری چاہی آزادی کی للک ان میں پیدا ہوئی قومی وقار کی چاہت ان میں جاگی، مادی آسائش اور روحانی و اخروی سر بلندی کا جذبہ ان میں پیدا ہوا جس نے عوام کو میدان عمل میں پہنچایا۔ تو یہ رہا اس واقعے کا دوسرا عنصر۔
تیسرا عنصر وہ رکاوٹیں اور مخالف طاقتیں ہیں جو واقعے کو رونما نہیں ہونے دینا چاہتیں جن کی وجہ سے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ اسلامی انقلاب میں بھی یہ عنصر ابتدا سے ہی سامنے رہا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ ایرانی قوم نے سعی و کوشش اور جی توڑ محنت سے خود مختاری و آزادی حاصل کی ہے۔ البتہ اس کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہے اور قوم یہ قیمت ادا کر بھی رہی ہے۔ اگر کوئي قوم یا شخص اپنے مطلوبہ ہدف اور مقصد کی تکمیل تو چاہتا ہے لیکن اس کے لئے کوئي قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں تو اس کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔ کوئي رسک نہ لینے اور سعی و کوشش سے کنارہ کشی کی صورت میں ہدف تک رسائي کا تصور خام خیالی ہے۔ قوموں کے سلسلے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ وہی قوم عزت و سربلندی حاصل کرتی ہے جو پوری شجاعت سے میدان عمل میں قدم رکھتی ہے اپنے ہدف کی جانب بڑھتی ہے اور اس کی قیمت بھی پوری آگاہی کے ساتھ ادا کرتی ہے۔ایرانی قوم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ ایران نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کی شکل میں قیمت ادا کی ہے۔ یہ قیمت ہے حریت پسندی اور آزادی کی۔
سرمایہ دارانہ نظام اور سامراجی طاقتیں اپنی پوری سیاسی و اقتصادی قوت سے اور اپنے تشہیراتی نیٹ ورک کے ذریعے دباؤ ڈال رہی ہیں کہ شائد ایرانی قوم کو پسپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ صرف ایٹمی حق سے نہیں، ایٹمی حق تو قوم کے حقوق کا ایک حصہ ہے۔ وہ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے حق سے، آزادی و خود مختاری کے حق سے، خود ارادی کے حق سے، سائنسی ترقی کے حق سے عقب نشینی اختیار کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہیں۔ ایرانی قوم جو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور دو صدیوں کی پسماندگی کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس سے یہ طاقتیں سراسیمہ ہو گئی ہیں۔ وہ نہیں چاہتیں کہ ایرانی قوم جو دنیا کے اس اہم ترین خطے میں آباد ہے اور اسلام کی علمبردار کی حیثیت سے پہنچانی جاتی ہے یہ کامیابیاں حاصل کرے۔ لہذا دباؤ ڈالا جا رہا ہے لیکن ایرانی قوم کے بے مثال ثابت قدمی کے ساتھ کھڑی ہوئي ہے۔
۔۔۔۔۔ حاضرین کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔
دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ ہم آپ پر پاندیاں عائد کر دیں گے۔ آپ کا اقتصادی محاصرہ کر لیں گے۔ اچھا تو آپ نے ان تیس برسوں میں ایرانی قوم کا کبھی سخت تو کبھی نرم اقتصادی محاصرہ جاری رکھا، اس سے کس کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ایرانی قوم کو نقصان اٹھانا پڑا؟ ہرگز نہیں۔ ہم نے پابندیوں سے اپنی پیش رفت کے لئے زمین ہموار کی۔ ایک وقت وہ تھا جب ہم آپ کے فوجی ساز و سامان کے محتاج تھے۔آپ معمولی ترین فوجی ساز و سامان ہمیں فروخت نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ صاحب آپ پر پابندیاں ہیں۔ ہم نے انہی پابندیوں سے استفادہ کیا۔ آج ایرانی قوم نے ایسی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں کہ کل ہم پر پابندیاں عائد کرنے والے آج بوکھلائے ہوئے ہیں کہ ایران تو علاقے کی سب بڑی فوجی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے۔ تو یہ نکلا پابندیوں کا نتیجہ۔ پابندیوں نے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا، ہم نے اسے سنہری موقع میں تبدیل کر دیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں مغرب کی پابندیوں کا خوف نہیں۔ ایرانی قوم ہر پابندی اور اقتصادی محاصرے کے سامنے سعی پیہم کی ایک ایسی مثال پیش کرے گی جس سے اس کی ترقی میں اور بھی چار چاند لگ جائيں گے۔
۔۔۔۔۔۔ حاضرین کے اللہ اکبر کے نعروں کی گونج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب پر اس زاوئے سے غور و فکر، یعنی اس کے پس پردہ کارفرما جذبات، اس کے حالات، عوامل اور نظام کی تشکیل اسی طرح اس میں بنیادی کردار کے حامل عوام اور ان کے ایمان کے بارے میں غور و فکر اور ان کی قربانیوں کا جائزہ لیں تو ہم جس مقام اور جس جگہ پر بھی ہوں گے اپنے معمولی اختلافات کو نظر انداز کر دیں گے۔ ہماری نظریں انقلاب کی عظمت اور تیس برسوں میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے جاری انقلابی سفر اس نکتے پر مرکوز رہیں گی کہ ایرانی قوم دشمنوں کی سازشوں میں شدت کے باوجود اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئےہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حاضرین کے اللہ و اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایرانی قوم کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں کہ اس قوم کے عزم و ارادے کے کمزور کرنے کے لئے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کا استعمال کریں، یہاں تک کہ قدرتی آفات، زلزلے، خشکسالی، اور دنیا کے عام مسائل جیسے مہنگائی جیسے مسائل۔ اگر آپ آج غیر ملکی نشریات کے تبصرے سنیں تو دیکھیں گے کہ ہمارے دشمن اپنے پروپگنڈے میں اقتصادی مسائل کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ ملت ایران کے پختہ ارادے کو کمزور کر دیں۔ ایرانی عوام اپنے حکام سے آشنا ہیں۔ جو یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مہنگائي کی وجہ یہ ہے کہ متعلقہ حکام اور محکمے بے اعتنائي برت رہے ہیں، غلط ہے۔ وہ ہرگز بے اعتنائي نہیں برت رہے ہیں۔ انہیں خوب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔ آج مغربی ممالک دوسروں سے زیادہ اقتصادی مسائل سے دوچار ہیں۔ خود انہیں کے بقول، جو اقتصادی بحران امریکہ سے اٹھا ہے رفتہ رفتہ یورپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اور دوسرے بھی بہت سے ممالک اس کی زد میں ہیں۔ کہتے ہیں کہ گزشتہ ساٹھ برسوں میں یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک اس صورت حال کا کبھی سامنا نہیں ہوا تھا۔
اقوام متحدہ نے دنیا میں غذائي اشیاء کے بحران کا اعلان کیا ہے۔ ملت ایران کی مشکلات بڑے بڑے دعوے کرنے والے ان ممالک میں بہتوں سے کم ہیں۔ البتہ عوام اور حکام کی محنت اور کوشش سے ان مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے سب کو مل جل کر کوشش کرنی چاہئے۔
مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سارے شعبوں کے حکام کی ذمہ داری ہے اسی طرح اپنی جگہ پر عوام کا بھی فریضہ ہے کہ کوشش کریں۔ میں نے آپ کے صوبے اور شہر کی انسانی صلاحیتوں کے بارے میں جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ صلاحیتیں اور توانائیاں ملک اور انقلاب کے مستقبل کے لئے استعمال کی جائیں، لوگ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ ہم میں سے ہر شخص جس جگہ پر بھی ہو اسے ملک کی تقدیر اور مستقبل کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہم موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ طالب علم، استاد، کسان، صنعت کار اور سرمایہ کار کو مختلف صنعتی اور زراعتی شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو محسوس کرنا چاہئے۔ جب سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں گے اور حکومتی ادارے، پارلیمان اور عدلیہ کی جانب سے صحیح رہنمائي ہوگی تو قوم، مسائل مسلط کرنے کی دشمنوں کی تمام کوششوں کو نقش بر آب کرتے ہوئے تمام رکاوٹوں سے گزر جائے گي اور اپنی صلاحیتوں اور حکیمانہ طرز فکر سے ایسا معاشرہ تشکیل دے گي جو اسلام چاہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر کے نعرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے عرض کیا کہ یہ سال ہماری قوم کی لئے خلاقیت کا سال ہونا چاہئے۔ یہ خلاقیت کسی ایک شعبے سے مختص نہیں ہے۔ تجربہ گاہیں ہوں کہ تحقیقاتی مراکز، دینی تعلیمی مرکز ہوں کہ یونیورسٹیاں، ادارے ہوں کہ صنعتی کارخانے، زراعت ہو کہ باغبانی ہر جگہ اور ہر میدان میں تخلیقی صلاحیتوں کے مالک افراد کو ایک ایک قدم آگے بڑھنا ہے تاکہ مجموعی طور پر ملک ایک اہم موڑ سے آگے بڑھے۔
میں نے اقتصادی مسائل کے سلسلے میں اس سال کے آغاز میں بھی اور گزشتہ سال کی ابتدا میں بھی عوام اور حکام دونوں کو یاددہانی کرائي کہ دشمن کی نگاہیں حساس ترین نقطے یعنی معیشت پر مرکوز ہیں اور ملک کو اقتصادی میدان میں مسائل سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان سے جو بھی بن پڑ رہا ہے کر رہے ہیں اور جو ان کے بس کے باہر ہے اس کا اپنی تشہیراتی مہم میں پروپگنڈہ کر رہے ہیں۔ دشمن کی تشہیراتی مہم کے تحت مختلف شکلوں میں ہم پر جو وار کئے جا رہے ہیں اس کا توڑ، مالی نظم و نسق ہے، کفایات شعاری ہے، صارف کلچر کے سلسلے میں محتاط انداز اختیار کرنا ہے ۔ میں اپنے عزیز شہریوں سے عرض کرنا چاہوں گا کہ اسراف کی حد تک پہنچ جانے والا صارف کلچر کسی بھی قوم کی بڑی خطرناک بیماری ہے۔ ہم کسی حد تک اس بیماری سے دوچار ہیں۔ پانی کی کمی کی مشکل کے بارے میں جس کا صوبہ فارس سمیت کئي صوبوں کو سامنا ہے، سب سے پہلے میری اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ باران رحمت نازل فرمائے ساتھ ہی میں آپ سے بھی عرض کروں گا کہ اسراف کی ایک مثال پانی کی فضول خرچی ہے۔ گھروں کے دروازوں پر پانی گرانا ہی پانی کا اسراف نہیں ہے بلکہ زراعت کی آبیاری میں بھی فضول خرچی اور اسراف ہوتا ہے۔ اس شعبے کے عہدہ داروں اور ذمہ داروں کا فریضہ ہے کہ اس نکتے پر خاص توجہ کریں۔ اسراف کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں۔ پانی کے سلسلے میں بھی اور دیگر امور کے سلسلے میں بھی۔
قوم بڑے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے اور بھاری قیمتیں ادا کرتے ہوئے، جو کہ واقعی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی اور ایرانی قوم نے شوق و رغبت اور آگاہی کے ساتھ یہ قیمت ادا کی، آج بہت سے منزلیں طے کر چکی ہے اور دشوار گزار مراحل کو عبور کر چکی ہے اور اللہ تعالی کے فضل کرم سے آج اس مقام پر کھڑی ہے تاہم اب بھی ہم ابتدائي منزلوں میں ہیں۔
ہماری قوم اپنے عزم راسخ سے اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں سے تہہ در تہہ جمع ان توانائيوں سے انشاء اللہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ انشاء اللہ ان تدابیر سے کہ جن کے بارے میں میں صوبے میں مختلف اجتماعات اور جلسوں میں وضاحت کروں گا اور موقع کی مناسبت سے جن پر روشنی ڈالوں گا انشاء اللہ عوام اپنا یہ سفر سربلندی و سرفرازی کے ساتھ مکمل کریں گے۔
میں آپ با ذوق، مہربان، مخلص، مہمان نواز، خوش اخلاق اور خوش گفتار دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بے شک ایرانی قوم کی بہت سی قابل ستائش خصوصیات شیرازی شہریوں اور صوبہ فارس کے عوام میں نمایاں ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ کو خاص جوش و جذبے سے نوازا ہے۔ روز بروز یہ جوش و جذبہ بڑھے اور اللہ تعالی آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اس مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کی ہی مانند ہے۔ اہمیت کے لحاظ سے دونوں مرحلوں کے انتخابات میں کوئي فرق نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں جس احساس ذمہ داری نے ہم سب کو پولنگ مراکز تک پہنچایا وہی جذبہ اور احساس ذمہ داری اس بار بھی ہمیں پولنگ مراکز پر لایا ہے کہ ہم اپنے حق رای دہی کا استعمال کریں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بھائيو اور بہنو آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نمونہ محنت کش افراد، محنت کش طبقے کے نمائندگان اور شعبہ محنت سے وابستہ عہدہ داران! یقینا ایسے افراد کا اجتماع جن کا شعار اور نعرہ محنت کشی ہے، اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین اجتماعات میں سے ایک ہے۔ قرآن اور اسلام میں محنت مزدوری کا بڑا بلند مقام ہے۔ البتہ کام اور محنت و مزدوری کارخانوں، کھیتوں اور اس طرح کے دیگر شعبوں تک محدود نہیں ہے تاہم قرآن میں جس عمل صالح پر خاص تاکید کی گئي ہے اس کے دائرے میں یہ کام بھی آتے ہیں۔ آپ جب ذمہ داری کے احساس کے ساتھ، پوری تندہی اور سنجیدگی کے ساتھ، خلاقیت کے جذبے کے ساتھ، ایک خاندان کے لئے آذوقہ فراہم کرنے کی پاکیزہ نیت کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں اور کام انجام دیتے ہیں تو یہ اپنے آپ میں ایک عمل صالح ہے۔ الا اللذین آمنو و عملوا الصالحات تو عزیزان گرامی عمل صالح اس کو کہتے ہیں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟! اس سے بہتر کیا ہے کہ انسان ایسے کام اور مشغلے میں مصروف ہے جس پر اس کے آذوقے کا دارومدار ہے۔ یہ کام عمل صالح ہے جسے قرآن میں ایمان کے ہمراہ ذکر کیا گیا ہے۔ آمنو و عملوا الصالحات محنت مزدوری اور کام کا مقام یہ ہے۔
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز پر قائد انقلاب اسلامی نے فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں دسیوں ہزار کی تعداد میں جمع ہونے والے زائرین اور خدام سے اپنے خطاب میں اہم ترین دینی، سیاسی، اقتصادی، علمی و ثقافتی امور پر روشنی ڈالی۔ تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آغاز سال کے موقع پر ایک دفعہ پھر حضرت امام علی رضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کے جوار میں آپ عزیز زائرین اور خدام کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع مرحمت فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ماہرین کونسل کے وسط مدتی اور پارلیمنٹ مجلس شورای اسلامی کے آٹھویں دور کے انتخابات کے لئے ووٹ ڈالنے کے بعد ایران کے ریڈیو ٹیلی ویزن ادارے آئی آر آئ بی کے ایک نامہ نگار کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا کہ انتخابات کسی بھی قوم کے لئے ایک معینہ دور کے لئے انتہائي فیصلہ کن ہوتے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں تمام بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قرب و جوار اور دور دراز سے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں اس محفل کو رونق بخشی ہے۔
میں ماہ ربیع الاول کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت اور عالم انسانیت کے لئے اہم ترین تاریخی موڑ کا مہینہ ہے۔ اس مہینے کے پہلے دن، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت فرمائي، مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے، اسی دن سے مسلم معاشرے میں ہجری سال کا آغاز ہوا۔ اس طرح اس مہینے میں ولادت اور ہجرت کی دو بہاریں ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سےپہلے تو میں شکریہ ادا کروں گا اپنے بھائیوں اور بہنوں کا جو دور دراز سے طویل راستہ طے کرکے تشریف لائے اور اس حسینیہ میں، دوستانہ فضا میں یہ اجتماع ہو۔ آپ کا خیر مقدم ہے، میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
آذربائيجان کے عوام کے حریت پسندانہ اور دانشمندانہ کارنامے ملت ایران کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ انہیں یادگار کارناموں میں ایک انتیس بہمن تیرہ سو چھپن ( اٹھارہ فروری انیس سو ستتر) کا واقعہ ہے۔ آپ کی تاریخ کے مختلف ادوار، خواہ وہ انقلاب سے قبل کا دور ہو، تحریک انقلاب کا دور ہو، مسلط کردہ جنگ اور دفاع مقدس کا دور ہو یا اس کے بعد سے اب تک کا دور ہو، آپ کے ایسے ہی کارناموں سے پر ہیں۔ البتہ آذربائيجان کے عوام نے بعض مواقع پر اپنی جد و جہد کو نقطہ کمال تک پہنچایا ہے، انتیس بہمن کا شمار ایسے ہی مواقع میں کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو، جو اس وقت موجود نہیں تھے، اس عظیم واقعے سے اگر روشناس کرانا چاہیں تو مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ، شاہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف ملک کے ایک گوشے یعنی قم سے آواز بلند ہوئي، امریکا کے رحم و کرم پر منحصر، غدار شاہی حکومت نے اس کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لوگ سمجھے کہ مخالفت کی آواز نابود ہو گئي لیکن جس واقعے نے اس آواز کو ختم ہونے سے بچا لیا اور اس واقعے کو ایک تحریک کی شکل دے دی وہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کا کارنامہ تھا۔ تبریز کے عوام نے اس آواز کو قم میں ہی دفن ہو جانے سے بچا لیا۔ اگر ہم صدر اسلام سے اس کی مثال پیش کرنا چاہیں تو فرزند رسول حضرت امام زین العابدین اور زینب کبری سلام اللہ علیھما کے کارنامے کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے جنہوں نے واقعہ کربلا کو سر زمین کربلا میں دفن ہو جانے اور محو ہو جانے سے بچایا۔ آپ نے قم کی تحریک کا پرچم بلند کیا اور یہ پرچم اس تحریک کی پہچان بن گيا، اس طرح ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انتیس بہمن کے واقعے کی اہمیت کیا ہے۔
اس واقعے کی روشنی میں آذربائیجان کے عوام کا تعارف ان الفاظ میں کرایا جا سکتا ہے کہ آذربائیجان کے عوام میں جوش و خروش ہے، اعلی سطح کا شعور اور ہوشیاری ہے، انہیں علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور کب کرنا ہے۔ شجاعت و حمیت سے سرشار یہ عوام ہر خطرے سے ٹکرا جانے کے لئے آمادہ ہیں۔ یہ بیداری کا پیکر و سرچشمہ ہیں۔ میں بیداری کے آپ کے نعرے کی تائید کرتا ہوں میں برسوں سے کہتا آیا ہوں کہ آپ کے نعرے کی صداقت کی تائيد میں میں کہوں گا آذربائیجان اوباخسان، انقلابا دایاخسان ( آذربائیجان تو بیدار ہے، انقلاب کا پشت پناہ ہے)
یہ پورا واقعہ ہی، بیداری و ہوشیاری، ادراک و موقع شناسی، شجاعانہ و بر وقت کاروائي سے عبارت ہے۔ آپ تصور کریں کہ ایک زمانے تک حکومت کے ظلم و استبداد اور فتنہ و فساد کے باعث ایک قوم، پسماندگي کا شکار ہو جاتی ہے، اسے حالات کی خبر نہیں رہ جاتی، علم و دانش سے محروم ہو جاتی ہے۔ پھر سامراجی طاقتیں وارد میدان ہوتی ہیں۔ پیچیدہ، گوناگوں اور پر اسرار حربوں سے اس قوم کو اسی صورت حال میں قید رکھنے کی کوششیں کرتی ہیں، ان کے قدرتی ذخائر، تاریخی و ثقافتی اقدار کو نابود کر دیتی ہیں۔ اس قوم کی باگڈور اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں۔ اب یہ قوم چاہتی ہے کہ اس کی تقدیر بدل جائے تو اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ظالم سامراجی طاقتوں سے درخواست کی جائے کہ آپ سامراجیت کی بساط سمیٹ لیں، اپنے مفادات کو نظر انداز کر دیں؟ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا اس کا کوئي نتیجہ نکلے گا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو ہم یہی کہیں گے کہ درخواست کرنا بے فائدہ ہے، مذاکرات کئے جائيں۔ تو کیا مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ منطقی و مدلل گفتگو اور درخواست سے آیا بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کرانا ممکن ہے؟
ایسے مواقع پر قوموں کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اپنی طاقت کو منظم کریں اور اپنی توانائيوں کو بروی کار لائيں تاکہ دشمن ان کی کمزوریوں کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ یہ واحد راستہ ہے اس کے علاوہ قوموں کے پاس کوئي چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس کے لئے بیدار ہونا ضروری ہے، آکاہ رہنا ضروری ہے، ہر قسم کی کوتاہی سے بچنا ضروری ہے، بے وقعت مادی آسائش اور خواہشات کے دام میں نہ آنا ضروری ہے، بلند اہداف و حوصلے کے ساتھ میدان عمل میں اتر جانا ضروری ہے۔ ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایرانی قوم نے یہ کارنامہ کر دکھایا۔
بائيس بہمن اس شجاعانہ اقدام کا نقطہ اوج تھا۔ عوام کو بیدار کرنے کے لئے برسوں جس شخصیت نے جد و جہد کی وہ امام خمینی (رہ) کی شخصیت تھی۔ اس عظیم کام میں تمام مخلص دانشوروں، اور علما کا تعاون ملا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بتدریج اس تحریک کا حصہ بنتے گئے۔ پھر کیا تھا ہماری قوم جس نے دور قاجاریہ کے ظلم و استبداد برداشت کئے تھے اور جسے پہلوی دور حکومت میں کچل کر رکھ دیا گيا تھا، ایک زندہ و بیدار قوم بن گئي۔ یہ قوم میدان عمل میں اتر آئی اور دنیا نے اس کی بے مثال قوت کا مشاہدہ کیا۔ یہ قومی طاقت تھی یہ قوم کے ایک ایک فرد کی طاقت تھی، اس قوت کا سامنا کرنے کی کون جرئت کر سکتا ہے؟ قومیں اس کا تجربہ تو کریں، البتہ یہ تجربہ آسان نہیں ہے۔ اس کے لئے ایثار و قربانی کی ضرورت ہے۔ صحیح قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر یہ شرطیں پوری ہو جائيں تو دنیا میں کوئي بھی قوم ظلم کے پنجے میں قید نہیں رہ سکتی۔ غربت کا شکار نہیں رہ سکتی۔ ہمارے ملک میں یہ شرطیں پوری کی گئيں۔
اس بیداری میں سچے ایمان کا کردار بھی کلیدی رہا۔ ایمان نے کسی طاقتور انجن کی طرح لوگوں کے پیکر میں توانائياں بھر دیں۔ اگر ایمان نہ ہوتا تو موت کو بازیچہ اطفال میں تبدیل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ ایمان ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے کی جرئت پیدا کرتا ہے۔ موت کی کوئي وقعت نہیں رہ جاتی۔ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ایمان، موت کو ایسی معمولی شیء بنا دیتا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ موت سے وحشت کیسی میں تو اس سے خاص انسیت رکھتا ہوں۔ ( آنس للموت من الطفل بثدی امہ) مجھے تو موت سے محبت ہے، اس سے ڈرنا کیسا میں تو اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ یہ ایمان کا اثر ہے۔ اگر ایمان ہے تو موت کو زندگي کا خاتمہ تصور نہیں کیا جاتا۔
وقت مردن آمد و جستن ز جو کل شیء ھالک الی وجہہ
مومن انسان موت کی جانب جھپٹ کر آگے بڑھتا ہے۔ موت دنیا و آخرت کے درمیان ایک لکیر ہے۔کچھ لوگوں کو، کشاں کشاں اس طرف سے اس طرف لے جانا پڑتا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی میں غرق ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں جو چھلانگ مار کر اس لکیر سے گذر جاتے ہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہیں علم ہے کہ لکیر کے دوسری طرف کیا ہے۔ وہ وعدہ الھی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے عزیز شہدا، جن کے نام آپ کے ذہنوں میں ہیں، آپ بہتوں سے آشنا ہیں، آپ ان کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گذار چکے ہیں۔ یہ شہدا موت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہیں اپنی زندگي سے پیار تھا۔ ان کے وصیتنامے پڑھ کر یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے۔ کسی قوم کا مثالی راستہ یہ ہے اور ہماری قوم نے اس راستے کے خد و خال واضح کئے ہیں۔
اس قوم اور اس قوم کے انقلاب کا دنیا کی دیگر اقوام اور انقلابوں کے مقابلے میں طرہ امتیاز یہ ہے کہ اس قوم نے خود کو بڑی مضبوط پناہ گاہ سے وابستہ کر لیا۔ ( قد استمسک بالعروۃ الوثقی) عروہ وثقی کو آپ یوں سمجھئے کہ بالفرض آپ کو کسی گہری کھائي سے گذرنا ہے، اگر آپ کسی مضبوط رسی کو پکڑے ہوئے ہیں تو آپ مطمئن ہیں کہ گریں گے نہیں۔ عروہ وثقی اسی کو کہتے ہیں۔ ( فمن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی) ، طاغوت کا انکار اور اللہ پر ایمان کی خصوصیات سے ہماری قوم آراستہ تھی۔ نتیجتا یہ قوم کھائي سے عبور کر گئي۔ اس پر خوف و دشہت طاری نہیں ہوئي اور یہی وجہ ہےکہ یہ عظیم تحریک آج بھی باقی ہے۔
ہمارے نوجوان اس نکتے پر توجہ دیں، اہل معرفت اس پر غور فرمائيں۔ انقلاب ایک طویل تحریک ہے، یہ یکبارگي رونما ہوکر ختم ہو جانے والا کوئي واقعہ نہیں ہے۔ البتہ یہ تحریک دنیا کے بہت سے خطوں میں بیچ راہ میں ہی رک گئي۔ آپ گوناگوں انقلابوں کی تاریخ پڑھئے۔ یہ انقلاب بیچ راہ میں ٹھہر گئے۔ انقلاب آئے، کچھ لوگوں کو زبردست فائدہ ہوا اور وہ مست ہوکر رہ گئے، رفتہ رفتہ عوام نے میدان سے کنارہ کشی کر لی، پھر سب کچھ ختم ہو گيا۔
فرانس کا انقلاب جو اٹھارہویں صدی کے آواخر میں شروع ہو، انیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو گیا اس کا کوئي نام ونشان باقی نہ رہا۔ ایک مطلق العنان سلطنت کے خلاف بغاوت کی گئي اور سلطنت کا خاتمہ کر دیا گیا لیکن تقریبا پندرہ سال گذرے تھے کہ نیپولین نامی ایک دوسرے آمر نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔ کئي دہائيوں تک عوام مسائل سے دوچار رہے پھر رفتہ رفتہ کسی طرح بعض مسائل سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
انقلاب ادھورے رہ جاتے ہیں، بیچ ہی میں مٹ جاتے ہیں، اس لئے کہ ایمان کے عنصر سے خالی ہیں۔ چونکہ عروہ وثقی سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارا انقلاب عوام کے درمیان ہے اور روز بروز اس پر مزید نکھار آتا جا رہا ہے۔ اس کی افادیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ غور کیجئے، اس سال انقلاب کو انتیس سال پورے ہو گئے۔ اس سال بھی جیسا کہ احباب نے بتایا اور میں نے خود بھی تہران سمیت ملک کے مختلف علاقوں کی صورت حال کا جائزہ لیا، جو لوگ صاحب نظر ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس سال جشن انقلاب کے مظاہروں میں عوام کی شرکت گذشتہ برسوں سے زیادہ تھی۔ کیوں؟ کیونکہ یہ قوم بیدار ہے اور یہ انقلاب زندہ ہے۔
جو افراد گذشتہ برسوں کے دوران کبھی کبھی ہیجان زدہ ہوکر کہنے لگے کہ انقلاب کی کہانی ختم ہو چکی ہے، انقلاب طاق نسیاں کی زینت بن گیا ہے۔ ان سے اندازے کی بہت بڑی غلطی ہوئی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انقلاب پر اور بھی نکھار آیا ہے۔ انقلابی اقدار کو جلا ملی ہے۔
آج عالم یہ ہے کہ جو شخص عوام کے درمیان جاکر انقلاب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتا ہے، عوام اس کی حمایت کرتے ہیں، اس کا انتخاب کرتے ہیں، کیوں کہ انقلاب کے اثرات و ثمرات ان کے سامنے ہیں۔ انقلاب نے ملک کی جو خدمت کی ہے، قوم کو دنیا میں جو مقام دلایا ہے، نوجوانوں میں جو خود اعتمادی، نئي روح پھونک دی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لئے سیکڑوں سال جتن کرنے پڑتے ہیں۔ انقلاب نے یہ کارنامے کئے ہیں، مسائل کو اس طرح حل کیا ہے۔
اندرونی صلاحیتیں، توانائیاں، رفتہ رفتہ انگڑائياں لےکر باہر آ رہی ہیں، ادھوری شخصیتوں کے مالک انسان، قابل رشک شخصیت کے مالک بن رہے ہیں۔ انتظامی صلاحیتیں، خلاقیت، پیداواری توانائیاں، عالمی مقابلوں کے لئے ضروری مہارتیں سب یکجا ہوکر قوم کو آگے لے جا رہی ہیں۔ یہ سب انقلاب ہی کے ثمرات ہیں، انقلابی اقدار ہی کا نتیجہ ہے۔
ان قدروں کو استحکام و دوام حاصل ہونا چاہئے۔ اب تک یہ قدریں محفوظ رہی ہیں، زندہ رہی ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا آج کا نوجوان، انیس سو اسی کی نوجوان نسل کے مقابلے میں میدان کارزار کے لئے اگر زیادہ صلاحیت مند اور آمادہ نہیں ہے تو اس نسل سے کم بھی نہیں۔ مستقبل کے لئے ہمارا راستہ طے ہے۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے طولانی مدت منصوبوں میں انقلابی تشخص کو یقینی بنا دیا گیا ہے۔ ہمارے آئندہ پروگرام پوری طرح واضح ہیں۔
ایرانی قوم کے پاس ملک کے اندر عوام کی صلاحیتوں میں اور تاریخ کی گہرائیوں میں بڑے بیش بہا خزینے ہیں۔ ہم ان خزانوں کو بروی کار لانا چاہتے ہیں۔ اگر ان خزانوں کا استعمال شروع ہو گیا تو یہ قوم دولتمند ہو جائے گی۔ علم کے کارواں کا پرچم اس کے ہاتھوں میں ہوگا۔ علم و دانش، تہذیب و ثقافت اور قوت و طاقت کے میدان میں اسے ممتاز عالمی مقام حاصل ہوگا۔ پھر یہ قوم دنیا کی دیگر اقوام کے لئے مثالی نمونہ ہوگی۔ البتہ اس وقت بھی یہ قوم، ایک نمونہ قوم ہے۔
اسلامی انقلاب سے قبل تک فلسطینی قوم کو ہر موقع پر شکست ہوئي، اسے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ مسلم قوموں میں کچھ نوجوان ایسے تھے جن میں جوش و جذبہ تھا لیکن وہ بھی سیاسی تغیرات کے نتیجے میں دب کر رہ گئے۔ اسلامی انقلاب نے ان قوموں میں نئی روح ڈال دی۔ ان میں بیداری پیدا کر دی۔ ہم اپنے اطراف اور عالم اسلام کے حالات کا سرسری جائزہ لیں تو اس بات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ایرانی قوم اب تک بھی نمونہ عمل رہی ہے، لیکن جس دن آپ نوجوانوں نے ملک کے ذرے ذرے سے چھلکتی صلاحیتوں کو صحیح طور پر بروی کار لانے میں کامیابی حاصل کر لی اس دن پوری دنیا ایرانی قوم کا اتباع شروع کر دے گی اور ایران ان ممالک کے لئے بہترین نمونہ عمل بن جائے گا جو ظلم و جور کا شکار ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر اور دیگر اقوام کی تقدیر کی کنجی ہمارے نوجوانوں کے پاس ہے۔ البتہ دشمن بھی اس سے آگاہ ہے اور وہ مسلسل اسی کوشش میں مصروف ہے کہ اس قوم کا رخ بدل دے۔
سیاسی، تشہیراتی اور اقتصادی کوششیں، مختلف زاویوں سے شدید دباؤ، پابندیاں، قراردادیں، سب کا ایک ہی ہدف ہے، ایرانی قوم کو اس راستے سے ہٹانا جس پر وہ گامزن ہے۔ دشمن چاہتا ہے کہ یہ قوم کسی اور راستے پر چلے۔ انہیں اندازہ ہے کہ یہ قوم اسی راستے پر اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو ظلم و استبداد، سامراج و استکبار اور قتل و غارت گری کا جو بازار عالم اسلام میں گرم ہے وہ باقی نہ رہے گا۔ امت مسلمہ کا جز شمار ہونے والے ممالک میں سامراجی طاقتوں کے مفادات نابود ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن اپنی سازشوں میں مصروف ہے۔
آپ غور فرمائیں، ابھی چند ہی روز قبل امریکی صدر نے کہا کہ ہم ایران پر دباؤ بڑھائیں گے تاکہ ایران کے عوام اس نتیجے پر پہنچ جائيں کہ ایٹمی توانائی حاصل کرنا بے فائدہ ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایرانی قوم نے سائنس و ٹکنالوجی کے اوج تک، جس کا ایک مظہر آج ایٹمی توانائی ہے، رسائی حاصل کر لی تو دیگر اقوام کے بھی حوصلے بلند ہوں گے۔ مسلم قومیں جاگ جائیں گی، انہیں بھی اپنی صلاحیتوں کا علم ہو جائے گا اور پھر ان قوموں پر اغیار کا تسلط باقی نہیں رہ پائےگا۔ اس کے لئے وہ بڑی عیاری کے ساتھ بہانہ پیش کرتے ہیں کہ ہم ایٹم بم کی بابت تشویش میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی بخوبی جانتے ہیں اور اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک آگاہ ہیں کہ ایٹم بم کا الزام بے بنیاد ہے۔ ان کی تشویش کی وجہ ایٹم بم نہیں ہے۔ انہیں علم ہے کہ ایرانی قوم ایٹم بم حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے بلکہ ایٹمی ٹکنالوجی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یہی ان کی ناراضگی کی وجہ ہے۔ کوئی قوم ان کی مرضی اور مدد کے بغیر ان کی جانب دست نیاز دراز کئے بغیر صرف اپنی صلاحیتوں کے سہارے اس طرح ترقی کی منزلیں طے کر لے کہ ثریا اس کے قدم چومے تو یہ طاقتیں اسے کیسے برداشت کر سکتی ہیں۔ ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے۔ ان کی طرف سے اعلان ہوتا ہے کہ ہم فلاں گروہ اور فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اس لئےکہ اس گروہ نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے اس سفر سے متفق نہیں ہے، استقامت سے متفق نہیں ہے بلکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کی خدمت میں بصد احترام یہ عرض کرے کہ آپ کی مرضی ہوئی تو ہم آگے بڑھیں گے ورنہ نہیں۔
بھیڑئے کے منہ سے شکار کو آزاد کروانے کے لئے مذاکرات بے اثر ثابت ہوں گے۔ اس کے لئے طاقت کا استعمال ضروری ہوگا۔
مہتری گر بہ کام شیر در است رو خطر کن ز کام شیر بجوی
ہمارے ملک میں بسا اوقات اس نصیحت پر عمل ہوا ہے اور بسا اوقات اسے نظر انداز کیا گيا ہے، لیکن آج ایرانی قوم پوری استقامت کے ساتھ اس نصیحت پر عمل کر رہی ہے۔
امریکہ اور عالمی سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہمارا سارا تنازعہ اسی بات کا ہے۔ سامراجی طاقتیں کہتی ہیں کہ آپ اپنا وجود، صلاحتیں اور توانائیاں منظر عام پر نہ لائیں تاکہ ہماری طاقت، ہمارے اسلحوں اور ہماری تشہیراتی مہم کا کوئی جواب نہ ہو، میدان ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے۔ ان طاقتوں کے لئے ہماری قوم کا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں گے ، ہم آپ کی جارحیتوں کا راستہ بند کر دیں گے۔ اگر ہم نے یہ نہ کیا تو اللہ تعالی کے سامنے ہم جوابدہ ہوں گے۔
ملت ایران نے بالکل صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ میدان عمل میں ہمیشہ موجود رہنا، اب تک کے ثمرات اور کامیابیوں کا بھرپور تحفظ، یہ بالکل صحیح راستہ ہے۔ ضمنی باتوں اور چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ جماعتوں اور افراد میں نظریات کا اختلاف کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ انقلاب کے ورثا کو چاہئے کہ اس عظیم وراثت کی حفاظت کریں۔ میں نے اس سال (1386 ہجری شمسی ) کے اوائل میں عرض کیا تھا کہ قومی اتحاد کے معنی یہ ہیں کہ ہمارا قومی کنبہ، انقلاب کا کنبہ اپنے اتحاد، باہمی انس و محبت اور لگاؤ کی حفاظت کرے۔ ایک دوسرے سے غفلت کا ماحول نہ بننے دیجئے۔ ہماری قوم اس سلسلے میں بیدار ہے اور ہماری نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بھی اسی عظیم فکری ماحول کا ایک حصہ ہیں۔ ہم نے قوم کے سامنے یہ باتیں پیش کیں اور قوم نے انہیں سچ کر دکھایا۔
انتخابات کی دستک سنائي دینے لگی ہے۔ انتخابات میں شرکت بھی اسی ماہیت کا فعل ہے۔ میں نے تمام انتخابات میں عوامی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حق رای دہی کے لئے باہر نکلنا چاہئے دشمن کو مزید مایوس کرنا ضروری ہے۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ا؛ران میں انتخابات نہ ہوں، انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر مظاہرے نہ ہوں۔ یوم قدس کے موقع پر مظاہرے نہ کئے جائيں۔ دینی پروگراموں میں عوام کی پر جوش شرکت کا سلسلہ ختم ہو جائے۔ دینی جذبات کی گرمی ختم ہو جائے۔ ہمارے نوجوان، لا پرواہ، مایوس اور بے حس ہو کر منشیات اور نفسانی خواہشات میں غرق ہو جائیں۔ دشمن کی دلی خواہش یہ ہے۔ دشمن کے لئے یہ سازگار ہے اس لئے اس کا خوب پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کبھی نظریات اور آئیڈیالوجی، کبھی سیاسی دھمکی، کبھی فوجی دھونس، کبھی منشیات کی اسمگلنگ کے گروہوں اور کبھی غیر اخلاقی فلموں کے ذریعے دشمن میدان میں آتا ہے اور اپنی سازشوں کو علمی جامہ پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایرانی قوم کو عزت و وقار کے راستے سے ہٹانے کے لئے جی توڑ کوشش کرتا ہے۔ جب بھی انتخابات کا وقت آتا ہے تو اشارے کنائے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں۔ سادہ لوح افراد کو استعمال کیا جاتا ہے، بکے ہوئے ضمیروں کا سہارا لیا جاتا ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عوام اس عظیم اور اہم ترین پروگرام میں شرکت نہ کریں۔
عوام کو میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ انتخابات میں شرکت کریں۔ ووٹنگ کے عمل کو پر رونق بنائیں۔ صفوں میں ایک گھنٹہ یا اس سے کم زیادہ کھڑے رہنا ممکن ہے تکلیف دہ ہو لیکن یہ جہاد ہے۔ اس کا اللہ تعالی کے نزدیک اجر ہے۔ تو لوگ ضرور جائیں اور حق رای دہی کا استعمال کریں۔
اب سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دیں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کے نعرے اور اہداف کو متعلقہ حکام بنیادی معیار کے طور پر پیش کریں۔ یہی سب سے اہم معیار ہے۔ ناموں اور گروہ بندی کی کوئي اہمیت نہیں ہے۔ اس قوم کے مسائل کا حل اور اس کے درد کی دوا انقلاب کے اہداف اور امنگیں ہیں۔ ان چیزوں کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ جو لوگ ان نعروں اور اہداف کے مخالف ہیں انہیں کبھی بھی پالیسی ساز اداروں میں داخل ہونے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ ایسے لوگ عوام میں شامل ہیں تو کوئي بات نہیں ہے، معاشرے میں ہر طرز فکر اور خیال کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن جس شخص کی آرزو یہ ہے کہ یہ گاڑی آگے نہ بڑھے اسے اسٹیئرنگ پر نہیں بٹھایا جا سکتا۔ ایسے شخص کو اگر اسٹیئرنگ پر بٹھا دیا گیا تو گاڑی آگے بڑھنے والی نہیں ہے۔ ایسے شخص کا انتخاب کیا جانا چاہئے جو آگے بڑھنے میں یقین رکھتا ہو۔ اس راستے کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہو، انقلاب کے اہداف سے قلبی وابستگی رکھتا ہو، قومی صلاحیتوں سے آشنا ہو۔ اسلام کا دلدادہ ہو۔ انقلاب کا پیرو ہو۔ معیاروں کو تسلیم کرتا ہو۔ یہ ہوئي دوسری بات۔
بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ دو چہرے والوں، ظاہر و باطن میں اختلاف والے افراد اور دوہری شخصیت کے مالک لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ایسے افراد سے بڑا نقصان پہنچا ہے۔ اس سلسلے میں کئی روایتیں منقول ہیں۔ اس نکتے پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم بیدار قوم ہے اسے کوئي تسلیم کرے یا نہ کرے، گذشتہ انتیس برسوں کے تجربے سے ہمارے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ یہی عماد مغنیہ اور دیگر شہدا جو چند روز قبل صیہونیوں کے ذریعے شہید کر دئے گئے خود کو امام خمینی (رہ) کا پیروکار مانتے تھے اور اس پر افتخار کیا کرتے تھے۔ عماد مغنیہ امام خمینی (رہ) سے قربت اور لگاؤ کے سلسلے میں خود کو کسی بھی ایرانی نوجوان سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ کیوں؟ کیوں کہ امام خمینی(رہ) نے انہیں نئي زندگي دی تھی۔ ان کے پیکر میں نئي روح ڈال دی تھی۔ یہی جوان، لبنان فلسطین، غزہ اور دیگر علاقوں میں پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن وہ اتنے بڑے کارنامے نہیں کر پاتے تھے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ لبنانی جوان معمولی اسحلوں کے سہارے اسرائیل کی کیل کانٹوں سے لیس فوج کو اتنی شرمناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ جب تینتیس روزہ جنگ ختم ہوئي تو شروع کے ایام میں صیہونی حکام کہتےتھے کہ ہمیں شکست نہیں ہوئي ہے۔ لیکن اب وینوگراڈ کمیٹی کی رپورٹ نے معاملہ صاف کر دیا ہے۔ اس کمیٹی نے بھی بڑی رفوگری کی ہے تاکہ بہت زیادہ بے عزتی نہ ہو جائے لیکن اتنا تو واضح ہے کہ جدید اسلحوں سے مسلح فوج جسے امریکہ کی بھی حمایت حاصل تھی شکست کھا گئي۔ آپ یہ یاد رکھئے کہ اس جنگ میں امریکہ اسرائيل کی حمایت بھی کر رہا تھا اور براہ راست بھی اس جنگ میں شریک تھا لیکن اسرائيل کو شکست ہو گئي۔ کس سے؟ ایسے مٹھی بھر جوانوں سے جن کا اسلحہ تھا خود اعتمادی، توکل بر خدا، موت سے بے باکی اور میدان میں استقامت۔ طاقتوں کے نا قابل تسخیر ہونے کے افسانے اس طرح قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔
ہم انقلاب کی عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں۔ امام خمینی (رہ) کی شکل میں ملنے والی نعمت پر ہم اللہ تعالی کے شکر گذار ہیں۔ ایرانی قوم کی اس عظمت پر جس کا وہ مظاہر کر رہی ہے ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ جو کامیابیاں ہماری قوم کو ملی ہیں اس پر ہم اللہ تعالی کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہمارا ایک ایک نوجوان ایک بڑی نعمت ہپے۔ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ( وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصواھا) بھلا اللہ کی نعمتوں کو کون شمار کر سکتا ہے۔ ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں کی اہمیت کا اندازہ حکام کو ہونا چاہئےاور انہیں ان نعمتوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ ان نعمتوں پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے تاکہ یہ نعمتیں ہمیشہ ہمیں ملتی رہیں۔ عوام کو بھی ان نعمتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ اس قوم کا آنے والا کل، آج کی بہ نسبت زیادہ تابناک اور دلکش ہے۔ ان شاء اللہ آپ نوجوان اس دل آویز منظر کا مشاہدہ کریں گے۔ آپ دنیا کو سعادت و خوش بختی سے آراستہ کر يں گے۔
اے پروردگار، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مبارک کو ہم سے خوشنود فرما۔ ہمیں ان کے سپاہیوں میں قرار دے۔ ہمیں ان کی محبت کے ساتھ زندہ رکھ۔ پروردگارا امام خمینی(رہ) کی روح طیبہ کو ہم سے راضی رکھ اور انہیں اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
جو واقعہ انیس بہمن تیرہ سو ستاون کو رونما ہوا بلا شبہ ایک اہم ترین موڑ تھا۔ فضائیہ کے جوانوں اور عہدیداروں نے ایک سچے باطنی جذبے کے تحت جو ان جوانوں کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا آئينہ دار تھا ایسا کارنامہ انجام دیا جو طاغوتی شاہی حکومت کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا۔ یہ انتہائي شجاعانہ اورساتھ ہی دانشمندانہ اقدام تھا۔
بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم
اسلامي ممالک سے تشريف لانے والے اپنے تما م مہمانوں کو آپ کے اپنے وطن ''ايران‘‘ميں خوش آمديد کہتا ہوں۔آج آپ اپنے گھر ميں اور اپنے بھائيوں کے درميان موجود ہيں۔ بين الاقوامي سطح پر اسلامي ممالک کي عدليہ کے سربراہوں کا اپني نوعيت کا حساس اور اہم ترين اجلاس ہماري نظر ميں ايک سنہری موقع ہے جس سے ہميں زيادہ سے زيادہ استفادہ کرنا چاہئے۔اِس قسم کے اجلاسوں اور ملاقاتوں سے ہم اپنے مسلم بھائیوں سے متعارف ہوتے ہیں جو کہ بڑی اہم چیز ہے۔
مسلمان ہوتے ہوئے بھی ايک دوسرے سے نا آشنا اور اجنبي!
اُمت ِ مسلمہ کے دشمن عرصہ دراز سے ہم مسلمانوں کي غفلت سے بہت فائد ہ اُٹھاتے رہے ہیں اوراُنہوں نے مختلف حربوں کوبروئے کارلاتے ہوئے ہميں ايک دوسرے سے دور اور جدا کر ديا ہے، ہمارے درميان جدائي اور فاصلے ڈال کر ہميں ايک دوسرے سے بے گانہ بنا ديا ہے اور ہميں ايک دوسرے کي بابت بدگمانی و غلطفہمی ميں مبتلا کرديا ہے۔ ہم وہ بھائي ہيں جو آپس میں غیروں اور بےگانوں کی طرح ملتے ہیں۔ امت ِ مسلمہ کے اندے ہماری اس حالت کا، دشمن پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہيں۔ ہميں ہر حالت ميں اس کاسد باب کرنا چاہئے اور اِس قسم کے يہ اجلاس اِس راستے ميں سنگ ِميل ثابت ہوں گے۔
مسلمانوں کا اتحاد اُن کے مشترکہ اہداف تک رسائي کيلئے نا گزير ہے
امت ِ مسلمہ ايک بڑے اور زندہ پیکر کي مانند ہے، اِس کے اپنے اہداف، آرزوئيں اورامنگیں ہیں۔ يہ اہداف اور يہ آرزوئيں کسي ايک قوم یا کسي ايک اسلامي ملک سے مختص نہيں ہيں؛ بلکہ يہ پوري دنيائے اسلام کي مشترکہ آرزوئيں ہيں۔ اِن آرزوؤں کو پورا کرنے کيلئے ضروري ہے کہ ہم ايک دوسرے سے نزديک ہوں۔ اسلامي حکومتوں کي قربت اُن کي اقوام کي دوستی کا سبب بنے گي اور جب يہ اقوام ايک دوسرے کے نزديک ہو جائيں گي تو اُ س وقت اپنے تجربات، ہمت وحوصلے اور اپني اچھي اور پسنديدہ صفات کا ايک دوسرے سے تبادلہ کريں گي، نتيجتا امت ِمسلمہ کو جو چيزملے گي وہ بہت قيمتي ہو گي۔
اگرمسلمان فقہا کے مرتب کردہ قوانين ہمارا نقطہ اتحاد ہو تے!
آج ہم دنيائے اسلام کے پيکر واحد پر استعماري طاقتوں کي جانب سے مسلسل ضربوں کا مشاہدہ کر رہے ہيں؛ يہ حملے کسي ايک ملک يا قوم پر نہيں بلکہ پوري امت ِ مسلمہ پر ہو رہے ہيں۔ ايک حملہ اسلامي قوانین اور اسلامي عدالتی نظام پر ہو رہاہے۔ اسلام بہترين اورترقی یافتہ ترين عدالتی قوانين کا حامل ہے اور اِسي طرح اسلام ميں بيا ن کيے گئے (حشرات وحيوانات کي سطح سے لے کر انسانوں اور اُس سے بھي بڑھ کے تمام موجودات کی سطح تک) تمام حقوق و قوانین، دنيا کے ترقی یافتہ اور عالي ترين قوانین سے بالا و برتر ہیں۔ اِس با ت کو سب اچھي طرح ديکھ سکتے ہيں۔ آپ تاريخ کے اوراق ميں اسلامي ممالک کے عدالتی اور قانونی مسائل، حدود وتعزيرات اور ديت وغيرہ کے مسائل اورعدليہ کے قوانين کو مرتب و مدوّن کرنے کے سلسلے ميں مسلمان فقہا و علما کی کوششوں کا جائزہ ليجئے۔ جب ہم اِن قوانين پر نگاہ ڈالتے ہيں تو ديکھتے ہيں کہ يہ بہت ہي قيمتي قوانين ہيں۔ اگر ہم مسلمان، تاريخ ميں مرتب کيے جانے والے اِ ن قوانين پر اپني توجہ مرکوز کرتے اوراِنہي کواپنا نقطہ اتحاد قرار ديتے تو ہم آج حالات کچھ اور ہی ہوتے۔ دنيائے اسلام ميں يہ کا م انجام نہ پا سکا۔ استعماري طاقتوں نے جس طرح امت ِ مسلمہ کي'' سياست اور اقتصاد‘‘ پرغلبہ پايا اُسي طرح اسلامي ممالک کے عدالتی نظام کو بھی اپنی گرفت میں جکڑ لیا۔ ہماري عدليہ بغیر کسی وجہ کے مغربی عدلیہ میں تبدیل ہو گئی۔ يہ ہيں امت ِ مسلمہ کے درد اور مشکلات۔!
آج امت ِ مسلمہ کوخود اعتمادی اور خدا ئے وحدہ لا شریک لہ کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنے کي اشد ضرورت ہے؛ ہميں اپنی خوداعتمادی دوبارہ حاصل کرنا چاہئے۔جب ايک انسان دنيائے اسلام پر نگاہ ڈالتا ہے تو وہ ديکھتا ہے کہ ايک فقيہ فتويٰ دينے ميں خود اعتمادی کی کمی سے دوچار ہے، قاضي عدالت ميں آزادانہ فيصلے کرنے ميں ہچکچاتا ہے وہ مغرب کی تشہیراتی مہم سے گھبراتا ہے۔ آج پوري دنيائے اسلام کوخود اعتمادی کي ضرورت ہے۔ سیاسی میدان ہو ثقافتی میدان ہو اقتصادی میدان ہو یا عدالتی نظام ہر مرحلے پر خود اعتمادی کی ضرورت ہے ۔
قرآن و سنت کي حقيقي تعليمات سے عصر حاضر کے مسائل کا تصفیہ
ہم کبھي اِس چيز کا مشاہدہ کرتے ہيں کہ ايک فقیہ ايک اسلامي حکم کو صراحت کے ساتھ بيان نہيں کرتا ہے یا اُس کا انکار کر تا ہے کيونکہ مغرب کے سياستدان اُسے پسند نہيں کرتے ہيں، يہ بہت ہي بري با ت ہے۔ ہر( چيز کے اچھے اوربر ے ہونے) کا ہمارے پا س ''معيار‘‘ موجود ہے اور وہ ''قرآن و سنت‘‘ ہے۔ يہ وہ معيار ہيں کہ جو آج اکيسويں صدي ميں بھی انساني زندگي کی صحيح سمت ميں راہنمائي کيلئے بہت مفيد اور کا رآمد ہيں۔ايسا نہيں ہے کہ ہم قرآن و سنت کے چودہ سو سال قبل بيا ن کيے جانے والے معياروں پر عمل پيرا ہونے کي وجہ سے دنيا سے پيچھے رہ گئے ہيں، اگر ہم اسلامي احکا مات کي جانب صحيح طور پر رجوع کريں اور اُنہيں نا فذ کريں تو ہم عصر حاضر کے انسان کي تمام ضرورتوں کو مغربي ثقافت سے زيادہ بہتر انداز سے پورا کر سکتے ہيں۔
دنيا پر مغربي ثقافت کے تسلط وغلبے کے نتائج!
آپ دنيا ميں مغربی ثقافت کے غلبے اور تسلط کا نتيجہ خود اپني آنکھوں سے دیکھ رہے ہيں؛ آج دنيا ميں عدل و انصاف عنقا ہے، امن و امان کا دور دور تک کو ئي نا م ونشان نہيں ہے، انسانوں کے درمیان سے اخوت و برادري اُٹھ گئي ہے اور اِس کے بر عکس ايک دو سرے سے دشمني، کينہ اورمنافقت کا بول بالا ہے، بے مہار استعماري طاقتوں کا تسلط اور قبضہ آپکو جگہ جگہ نظر آرہا ہے۔ دوستو! يہ سب مغربي ثقافت اور دنيا پر اُس کے تسلط و قبضے کے نتا ئج ہيں۔
غير مسلم اقليتوں سے اسلام کاسلوک!
آپ آزادي قلم وصحافت کادعويٰ کرنے والے ممالک ميں مسلمان اقليتوں سے اُن کے رويے اور سلوک کا جائزہ لیں اور اُ ن کے اِس رويے اور سلوک کا تاريخ کے مختلف حصوں ميں اسلامي ممالک ميں موجودغير مسلم اقليتوں سے اسلام کے برتاؤ سے موازنہ کريں۔ خلفائے راشدين کے زمانے ميں ہو نے والي فتوحات کے بعد مسلمان جس علاقے ميں بھي گئے ، اختمام جنگ کےبعد اُن کي حکومت و اقتدار کے زمانے ميں غير مسلموں سے اُن کا رويہ اور سلوک مہرباني اور رحمدلي سے لبریز تھا۔ مشرقي روم کے اِسي علاقے کو ہی لے ليجئے جہاں بہت سے يہودي زندگي بسر کرتے تھے۔اِن تمام واقعات کو تاريخ نے ذکر کيا ہے کہ جب مسلمان وہاں گئے تو يہوديوں نے قسم کھائي؛'' وَالتَّورَاۃِ لِعَدلِکُم اَحَبُّ اِلَينَا مِمَّا مَضيٰ عَلَينَا ‘‘؛''توریت کي قسم ، آپ مسلمانوں کا عدل و انصاف ہميں اپنے ماضي کے مقابلے میں بہت پسند ہے‘‘ وہ تقريباً اِسي قسم کے الفاظ سے مسلمانوں کے عدل وانصاف کوسراہتے تھے۔
ايران ميں غير مسلم اقليتوں کي آزادي!
آج آپ اسلامي جمہوریہ ایران پرنظر ڈاليے، ہمارے ملک میں يہودي، عيسائي اور آتش پرست آزادانہ زندگي بسر کر رہے ہيں، يہ اقليتيں انتخابات ميں آزادانہ طور پرحصہ لے کر اپنے نمائندے پارليمنٹ ميں بھيجتي ہيں اوراپنے مذہب پر بغير کسي روک ٹوک کے آزادانہ طور پر عمل کرتي ہيں۔ دوسرے اسلامي ممالک ميں بھي يہي صورتحال ہے ، يہ ہے اسلام ! آپ اِن اقليتوں سے اسلام کے سلوک کا آج کي مہذب اور بظاہر انساني حقوق کي طرفدار حکومتوں کے اس برتاؤ سے موازنہ کريں جو وہ مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کےساتھ روا رکھتی ہیں۔
اسلام ہي عالمي سطح پر عدل وانصاف اور امن و امان کا ضامن بن سکتا ہے
آج دنيا عدل وانصاف کي پیاسی ہے، وہ امن و امان کي طالب ہے اور طبقاتي نظام کے ہاتھوں ظلم و ستم کا شکا ر ہے؛ يہ اسلام ہي ہے جو اِن تمام مسائل کو حل کر سکتا ہے۔ مغربي تہذیب و ثقافت نے يہ بات ثابت کر دي ہے کہ وہ انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے سے عاجز کو قاصر ہے۔ آپ آج دنيا کي موجودہ حا لت پر ايک سرسری نگاہ ڈاليے، فلسطين کو ديکھئے، صہيوني صاحبان اقتدار کھلے عام اِس بات کا اظہار کر رہے ہيں کہ''اگر ہم صہيونيوں اور فلسطينيوں کے درميان غصب شدہ فلسطيني سرزمين برابر برابر تقسيم ہو جائے تو جو کچھ جنوبي افريقہ ميں وقوع پذير ہوا تھا وہي چيز ہميں بھي حاصل ہو جائے گي! يعني وہ اِس با ت کا اقرار کر رہے ہيں کہ وہ نسل پرستي کي ترويج و حمايت کر رہے ہيں گويا وہ طبقاتي نظام اور نسل پر ستي کا اعتراف کر رہے ہيں۔ دنيا اِن تمام واقعات کا اپني آنکھوں سے مشاہدہ کر رہي ہے، مغربي تہذیب و ثقافت کے پنجوں ميں جکڑي ہوئي دنيا يہ سب ديکھ رہي ہے ليکن اُس نے اپنی زبان پر تالے لگا ليے ہيں اور وہ اپنےفرائض کي انجام دہي سے گریز کر رہی ہے۔
يہ ہمارے لئے خطرے کي گھنٹي ہے اور ہم مسلمانوں انتباہ ہے کہ ہميں خود اعتمادی پيدا کر نا ہوگی، ہميں خدا وندعالم کي ذات پر توکل اور بھروسہ کرنا چاہئے اوراِس با ت کو اچھي طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اگر ہم اپنے عقيدے، طرزفکر، تدبير، منصونہ بندي اوراتحاد کے ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے تو خدا وندعالم بھي ہماري مدد فرما ئے گا اور ہميں کاميابي سے ہمکنار کرے گا۔ ہميں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، خدا وند عالم قرآن کريم ميں ايسے لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اُس کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہيں:''وَيُعَذِّبُ المُنَا فِقِينَ وَالمُنَافِقَاتِ وَالمُشرِکِينَ وَالمُشرِکَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السّوئِ عَلَيھِم دَائِرَۃُ السُّوئِ وَغَضبَ اللّٰہُ عَلَيھِم وَلَعَنَھُم وَاَعَدَّلَھُم جَھَنَّمَ وَسَا ئت مَصِيراً‘‘ اللہ تعالي منافق مردوں عورتوں اورمشر ک مردوں و عورتوں کو عذاب دے تا ہےجو اللہ تعالي کے بارے ميں بدگمانی کا شکار ہیں، اِن پر خدا نےاپنا غضب نا زل کيا ہے اوراِن پر لعنت کي ہے اور اِن کيلئے جھنم تيا رکيا ہے۔لہذا ہميں خدا کي ذات پر بھروسہ و توکل رکھناچاہئے۔ ہم نے کب اور کہاں کوئي عمل انجام ديا اور کوئي اقدام کيا کہ جس میں خدا وند عالم نے ہماري مدد نہ کي ہو؟ ہميں وہیں مشکلات کا سامنا ہوا اور ہم وہیں کمزوري اور شکست سے دوچار ہوئے جہاں ہم نے عمل انجام نہيں ديا تھا اور اپني ذمہ داريوں اور فرائض سے کنا رہ کشي اختيار کي، ليکن جہاں بھي ہم نے اپني ذمہ داريوں کو پورا کيا خدا وند عالم نے وہاں ہماري مدد فرمائي اور يہ خدا کا وعدہ ہے؛''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُواالصَّالِحَاتِ لَيَستَخلِفَنَّھُم فِي الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِينَ مِن قَبلھِم‘‘؛ اور اِس طرح دوسری آيات میں بھی یہی بات کہی کئي ہے۔
مسلم ممالک کو ایک دوسرے کے عدالتی نظام اور عدلیہ کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہئے
آج کے اِ س بين الاقوامي اجلاس میں جو با ت کہي جا سکتي ہے وہ يہ ہے کہ ہم اسلامي عدليہ کے قوانين ميں اپني آرا و نظريات کی آزادی، خود اعتمادی اور قرآن ميں بيان کي گئي اسلامي تعليمات کي طرف واپس آئیں۔ اِس قسم کے اجلاس اور نشستيں اِس راہ ميں ہماري مدد کر سکتي ہيں۔ بہت خوشي کي با ت ہے کہ اسلامي ممالک نے اِس سلسلے ميں بہت اچھے تجربا ت حاصل کئے ہيں اور ہمارے پاس بھي اچھے تجربا ت موجود ہيں۔ اسلامي انقلاب کي کا ميابي کے بعد گزرنے والي اِن تين دہا ئيوں ميں ہمیں مفید تجربات حاصل ہوئے ہيں ليکن اِس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے بھائيوں کے قيمتي تجربا ت سے بھي استفادہ کريں گے اور وہ ہمارے تجربا ت سے مستفيد ہوسکتے ہیں۔ ہم ايک دوسرے کي مدد کريں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تا کہ اسلامي عدالتی نظام اورعدليہ کو جو ايک عظيم الشان عمارت کي مانند ہے ، حقيقي معنيٰ ميں رفعت و بلندي حاصل ہو سکے۔
اِس اجلاس ميں شرکت کرنے والے مہمانوں اور ميزبا نوں کي جا نب سے بہت اچھي آرا وتجاويز سامنے آئي ہيں، ميں نے سب کو سنا ہے، يہ بہت اچھي تجاويز ہيں اور ہم اِن تجاويز کو عملي جامہ پہنانے کيلئے ايک بين الاقوامي کميٹي یا کميشن تشکيل دينے کي حمايت کرتے ہيں۔ ہميں ايک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ايک دوسرے کي مدد کرني چاہئے تا کہ موجودہ زمانے ميں اسلامي ممالک ترقي کر سکيں۔ اِس با ت کي طرف توجہ رہے کہ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے اور باہمی قربت سے بہت سی طاقتيں ناخوش ہيں اور وہ اِس با ت کو ہر گز پسند نہيں کريں گي۔ ہمارے ايک ساتھ بيٹھنے پر ہمارے مخالفين خاموش نہيں بيٹھے رہيں گے؛اِس کي طر ف بھي متوجہ رہيں۔ مل جل کر فيصلہ کريں اور اللہ تعالی کی مدد سے باہمی تعاون کےساتھ اپنے امور انجام دیں۔ اپنے اِس کا م کيلئے اللہ تعالی سے توفيق کی دعا کيجئے، اُ س سے مدد طلب کیجئے۔ اِ ن شائ اللہ اُميد رکھيں کہ خدا وند عالم ہماري مدد و اعانت فر مائے گا۔
مجھے اُميد ہے کہ تہران اور دوسرے مقامات پر آپ کا سفر اچھا گزرےگا اور آپ ايران سے اچھي ياديں اپنے ہمراہ لے کر جائيں۔
والسّلام عليکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ