بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ سب عزیز نوجوانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ ان فارغ التحصیل طلبہ کوبھی جو آج سے پولیس کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے اور ملک کی عملی خدمت کے میدان میں داخل ہوں گے ؛ اور ان عزیز نوجوانوں کو بھی جو آج باضابطہ طور پر اس علمی اور تربیتی مرکز کے طالب علم بن جائیں گے ۔
اگر انسان تعلیم اور زندگي کے راستے کے انتخاب کے لیے اہم مقاصد میں سے کسی مقصد کو چننا چاہے تو بلا شبہ جو مقصد آپ نے چنا ہے وہ ایک بہترین اور برترین مقصد ہوگا۔ آپ کو اس توفیق کی قدر کرنی چاہیے، خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے اور خود پر فخر کرنا چاہیے؛ کیونکہ امن و سلامتی ایک انتہائی اہم امر ہے ۔آپ دیکھیے کہ خداوند متعال قرآن کریم میں ، وآمنھم من خوف ، امن و سلامتی کو ایک بڑی نعمت شمار کرتا ہے ۔
امن و سلامتی تمام کامیابیوں اور ترقیوں کی پہلی منزل ہے۔ اس کے علاوہ اگر معاشرے میں امن و امان نہ ہو اور عوام کو بدامنی کا دھڑکا لگا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا ایک بڑا حق پامال ہوا ہے۔ آپ نے اس ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیا ہے؛ اس فریضے کو نبھانے کا عہد کیا ہے۔
مختلف زمانوں میں انسانی معاشروں کے تمام طبقوں میں ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جو قانون شکنی اور دوسروں کی خواہشات پر اپنی ناجائز خواہشات کو ترجیح دے کر معاشرے میں بدامنی کے اسباب فراہم کرتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی لگام کون کسے؟ جس ادارے پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اعلی انسانی خصوصیات میں سے دو اہم خصوصیتوں کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایک تو لوگوں سے اس کی ہمدردی ہے کہ وہ ان کا دفاع کرنا چاہتا ہے، ان کے امن و امان کو تحفظ دینا چاہتا ہے؛ دوسرے وہ ان لوگوں کے خلاف طاقت اور زور بازو کا استعمال کرتا ہے؛ جو معاشرے میں قانون اور نظم و ضبط کو اپنا بازیچہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون کے احترام کے بجائے جو سب لوگوں کے لیے لازمی ہے، سینہ زوری پر اتر آتے ہیں۔ یہ ادارہ ایک طرف تو لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مہربانی کا برتاؤ کرتا ہے اور دوسری طرف، ان لوگوں کے سلسلے میں طاقت کا استعمال اور سختی کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان دونوں خصوصیتوں پیدا ہونا ضروری ہے۔آپ کو اس بات پر فخر اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ آپ کو ایسی ذمہ داری ملی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس فریضے کی اہمیت کے بارے میں بھی سوچیں اور خود کو حقیقی معنی میں آمادہ کریں۔
ہماری پولیس شاہی حکومت کے گذشتہ طاغوتی دور بہ نسبت بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے؛ آپ لوگ اس وقت پیدا نہیں ہوئےہوں گے۔ زمین آسمان کا فرق پیدا ہوا ہے۔ ایک دن وہ تھا جب اس ملک میں پولیس حکام لوگوں کو ڈرانے دھمکانے ان میں خوف و وحشت پیدا کرنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرتے تھے؛ آج پولیس کے افراد، عوام کے اپنے لوگ ہیں، ان کے ہمراہ ہیں، عوام کی پشت پناہی کر رہے ہیں؛ لوگوں کا ان پر اعتماد ہے۔ آپ جب میدان عمل میں ہیں اپنا کام بخوبی انجام دیتے ہیں، ان امور کو جنہیں لوگ معاشرے میں امن و امان اور نظم ونسق کے لحاظ سے اپنے مسائل کے عنوان سے پیش کرتے ہیں، آپ انہیں ڈھارس دیتے ہیں۔ لوگوں کا آپ پر اعتماد بڑھتاہے؛ وہ تحفظ کا احساس کرتے ہیں؛ آپ سے محبت کرتے ہیں؛ آپ پر فخر کرتے ہیں۔
گذشتہ عرصے کے دوران عوام کے نفسیاتی چین وسکون اور سماجی امن و سلامتی میں خلل ڈالنے والے افراد اور شر پسند عناصر کی پولس نے نکیل کسی نتیجتا عوام نے ہر جگہ آپ کی کامیابی اخلاقی و سماجی صورتحال میں بہتری کا مشاہدہ کیا، انہیں ایسا لگا کہ یہ ان کی اپنی کامیابی ہے، انہیں آپ پر فخر کرے کا موقع ملا۔
میں یہ دعوی تو نہیں کر سکتا کہ آج پولیس ہر جہت سے اسلامی معاشرے کی توقعات پر پوری اتری ہے لیکن میں یہ دعوی ضرور کر سکتا ہوں کہ جو راستہ طے کر کے آج آپ اس منزل پر پہنچے ہیں وہ راستہ انتہائی طویل، پر نشیب و فراز تھا۔ اس پر آگے بڑھنا قابل تحسین ہے، اس پیش قدمی کو ضرور جاری رکھیے۔
فرائض کی ادائگي کے لئے آپ کا سب سے بڑا سرمایہ، آپ کا وہ دل ہے جو فرض شناسی، ذمہ داری کے احساس اور عوام کی محبت سے سرشار ہے، جو اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف اقدام کی قوت عطا کرتا ہے جو معاشرے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کا کام بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ ظریف اور پیچیدہ بھی ہے۔عزیز نوجوانو! جتنا ہو سکے خود کو آمادہ کرو۔
اللہ تعالی کی عنایت اور اسلامی انقلاب کی برکت سے ہمیں علمی، سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت ملی، قومی عزت و افتخار حاصل ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں تحفظ کے احساس کی ضرورت ہے۔جس طرح کسی شخص کی کامیابی سے دوسرے افراد حسد کرتے ہیں ایک ملت کو بھی کامیابی کی مزلیں طے کرتا دیکھ کر حاسد جلنے لگتے ہیں لہذا جب کسی شخص کو کوئی کامیابی حاصل ہو تو اسے خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ حاسدوں کی نگاہوں سے بھی بچنا چاہئے۔ قوم بھی اسی طرح ہے۔ایسے لوگ ہیں جو صرف برا چاہتے ہیں حسد کرتے ہیں وہ ایرانی قوم کی ترقی و پیشرفت سے سخت ناراض ہیں؛ اس لیے کہ انہوں ( بیرونی طاقتوں ) نے اس علاقے میں اپنے لیے جو مفادات مدنظر رکھے ہیں ان کا حصول، قوموں کی علمی سائنسی اور سیاسی ترقی و پیشرفت کی صورت میں ممکن نہ ہوگا۔ اس قسم کے عناصر، یہ دشمن، یہ حاسد اور یہ بدخواہ باقی نہیں رہیں گے۔ ہر ملک اور قوم کے لیے انتہائي حساس مسائل میں ایک، امن و سلامتی کا مسئلہ ہے؛ آپ کو بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔راستے بحمداللہ ہموار کر دیے گئے ہیں؛ آپ بہ آسانی آگے بڑھ سکتے ہیں۔
خوش قسمتی سے اس تربیتی مرکز کا ماحول دینی ہے، روحانی ہے، انتہائی اچھا ہے؛ اس ماحول کو برقرار رکھیے اسے اور اچھا بنائیے۔ آپ طلبا جو اس یونیورسٹی میں داخل ہوئے ہیں اور اسی طرح جو طلبا یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی میدان میں داخل ہوں گے، آپ سب اس بات پر توجہ دیں کہ اس جذبے کو ہمیشہ باقی رکھیں؛اس بات کی اجازت نہ دیں کہ مختلف قسم کے عوامل آپ کے اس جذبے کو نقصان پہنچائیں اور آپ کے جوش و ولولے میں کمی واقع ہو۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم اور تمام لوگوں میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے عمل میں کسی سیاسی رجحان ھڑے بندی، مذہبی اختلافات اور نسلی و قومی تعصب وغیرہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ پر امن ماحول میں سانس لینا، معاشرے کی ہر فرد کا حق ہے۔امن و امان سے محروم صرف وہ شخص رہے جو لوگوں کا امن و امان تہہ و بالا اور درہم برہم کر دیناچاہتا ہے۔ ایسے ہی عناصر پر آپ کا خوف طاری رہنا چاہئے؛ ورنہ قوم کے تمام طبقے چاہے وہ کسی بھی مذہب،کسی بھی دین،کسی بھی سیاسی رجحان اور مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہوں، سب یکساں اور برابر ہیں ان میں کوئي فرق نہیں ہے، اس عظیم فریضے کے تعلق سے جو آپ کے کاندھوں پر ہے یعنی امن کا قیام۔
خداوند عالم کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ آپ کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ خدمت کا پرافتخار دور گزار سکیں، خدا کی بارگاہ میں اور شہداء کی پاکیزہ ارواح کے سامنے سربلند و سرفراز ہوں اور قوم آپ کی اس خدمت گذاری کے نتیجے میں روزبروز زیادہ تحفظ کا احساس کرے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حج کے امور کی انجام دہی میں مصروف منظمین، متعلقہ عہدہ داروں خاص طور سے جناب ری شہری اور جناب خکسار کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
بڑی خوشی کا مقام ہے کہ مناسک حج کے لئے تمام انتظامات اور اقدامات خوش اسلوبی سے انجام دئے گئے ہیں۔
دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ افواج جہاں فوجی ساز و سامان اور جدید ہتھیاروں سے مسلح ہیں وہیں اعلی اخلاقی قدریں اور معنوی و روحانی پہلو بھی ان میں نمایاں ہیں۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر اسلامی جمہوری نظام میں خاص طور پر قائد انقلاب اسلامی اور مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی جانب سے خاص تاکید کی جاتی ہے۔ کیڈٹ کالج کے فارغ التحصیل اور نووارد اسٹوڈنٹس کی مشترکہ تقریب سے رھبر معظم انقلاب حضرت آیت اللھ العظمی خامنھ ای نے اپنے خطاب میں ایسے ہی چند نکات کی جانب اشارہ فرمایا، تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پوری اسلامی امہ، ایران کی مؤمن اورسر بلند قوم اور اس محفل میں شریک اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف حکومتی شعبوں کے اعلی' حکام، اسلامی ممالک کے محترم سفیروں، اور آپ تمام حاضرین کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ایک نظر میں عیدالفطر کو اسلامی امہ کےاتحاد اور مسلم اقوام کی یکجہتی کا جشن قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں دل نورانی اورلطیف ہو جاتے ہیں جبکہ انسان کے وجود میں اختلافات کے شیطانی جذبات کمزور پڑ جاتے ہیں۔ عیدالفطر درحقیقت فطرت انسانی کی طرف رجوع ہے۔ ؛خداوندعالم، توحید اور ایک اعلی مرکز کی طرف رجحان، انسانی فطرت کاتقاضہ ہے۔ تمام محرکات اور انسانی جذبات و احساسات یکجا ہو سکتے ہیں اور ان میں ہم آہنگي پیدا ہو سکتی ہے۔
عیدالفطر کی نماز بھی جہان اسلام کے ہر مقام پر اسی اتحاد کا مظہر ہے۔ لہذا اس دعا میں جو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں( الذی جعلتہ للمسلمین عیدا ولمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ ذخرا و شرفا و کرامتا و مزیدا ) یہ عید نبی اکرم کی مقدس ذات کا ایک ذخیرہ ہے، شرف کا ایک وسیلہ ہے، اس مقدس ذات کی کرامت اور اعلی و بلند مقام میں اضافے کا وسیلہ ہے۔کب یہ خصوصیات پیدا ہوتی ہیں؟ اس وقت کہ جب یہ عید مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دے۔ قومی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے اور اسلامی امہ کی سطح پر بھی یہ بات صادق آتی ہے۔قومی سطح پر جیسا کہ ہماری غیور قوم نے انقلاب کے بعد کے برسوں میں آج تک اس کا مظاہرہ کیا ہے، اتحاد اور وحدت کلمہ اس کی عزت وسربلندی کا باعث ہے، اس کی طاقت و توانائي کاسرچشمہ ہے۔
ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے جہاں ہماری غیور اور متحد قوم مختلف فرقوں اور مذاہب مشتمل ہے۔ ہمارے دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ نسلی تعصب، مذہبی اختلافات، فرقہ واریت کو ایرانی قوم کے سیاسی عمل اور وحدت کلمہ کے عام جذبے او نظرئے پر مسلط کردیں لیکن آج تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے؛ ایران میں بسنے والی مختلف اقوام ایک دوسرے کی ہمدرد ہیں، مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔انہوں ( دشمن )نے بڑی سازشیں کی ہیں۔
انقلاب کی تحریک کے دوران جب فتح و کامرانی کا پرچم بابصیرت انسانوں کو دور سے نظر آنے لگا تھا تو شاہ کی طاغوتی حکومت کے آلہ کار اور ایجنٹ کہتے تھے کہ ایران تقسیم ہو جائے گا۔ وہ اس پر پورا یقین رکھتے تھے۔
ہمارے انقلاب کے اوائل میں ایرانی اقوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور مذاہب کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے بہت زیادہ پیسہ خرج کیا گیا ۔انقلاب ان ساری سازشوں پر غالب آیا۔ لہذا آپ نے دیکھا کہ ہماری غیور قوم کے عظیم الشان مظاہروں میں اس عظیم سرزمین کے سبھی علاقوں سے ہر طبقے اور ہر قوم اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ شریک ہوئے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب ایک ہی ہدف و مقصد کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
دو بھائی اکٹھا زندگی گذار رہے ہیں، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر چل رہے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کے سلسلے مین ان کے نظریات مختلف ہوں۔ یہ اختلاف نظر لڑائي جھگڑے کا باعث نہیں بننا چاہیے۔ انقلاب نے ہمیں یہ بات سکھائی ہے۔ یہ بات ہم نے انقلاب کی برکت سے سیکھی ہے اور اس پر عمل کیا ہے؛ لہذا آج ہماری قوم متحد ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران دشمنوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ جب ہماری قوم میں نسلی و قومی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، مذہبی اختلافات نہیں ڈالے جا سکے، لسانی اختلافات نہیں ڈالے جا سکےتو سیاسی اختلافات پیدا کئے جائيں۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ دھوکہ بھی کھا گيا اور غلطی کر بیٹھا تاہم قوم کے باشعور اور پڑھے لکھے افراد اس سازش کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک میں اتحاد کا محور و مرکز، اسلامی جمہوری نظام، اسلام اور قرآن کریم ہے کہ جس پر سب کا یقین اور اعتقاد ہے۔ نماز کے خطبے میں آج صبح میں نے عرض کیا کہ ماہ رمضان کے ایام، ماہ رمضان کی راتیں وطن عزیز کے نوجوانوں کا اعتقاد و ایمان اور ان کی معنوی لطافت، تقرب الہی اور خضوع و خشوع کا مظہر تھا۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔
آج ہماری قوم کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، بہت کم قوموں میں اتنے نوجوان ہیں جو خلوص دل سے ذکر پروردگار کرتے ہیں، آنسو بہاتے ہیں، خدا سے رازونیاز کرتے ہیں، پاکیزہ دل کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ عیدالفطر وہ دن ہے کہ جب ہمیں اپنا تجزیہ کرنا چاہیے اور اگر ہمارے دلوں میں کینہ و دشمنی، نفاق اور عناد ہے تو حتی المقدور ہمیں خود کو اس سے نجات دلانا چاہئے۔اپنے دلوں سے ان برے احساسات کو محوکردینا چاہیے۔ ہمارے سامنے ایک طویل راستہ ہے۔ یہ درست ہے کہ انقلاب نے ہمیں اور ہماری تحریک کو سرعت بخشی، ہم نے بہت زیادہ ترقی کی۔ ہم دنیا کی تیسرے درجے کی قوم سے ایک پر وقار قوم میں تبدیل ہو گئے اور ایک ایسی قوم بن گئے جو مسلم اقوام کی مطمح نظر ہے۔ خود اندرونی طور پر بھی ہم نے بہت زیادہ ترقی و پیشرفت کی ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے،لیکن یہ بھی آغاز ہے۔ ابتدائي مرحلہ ہے۔
اسلام میں ترقی کے لئے بہت زیادہ گنجائش ہے۔ اسلام نے ہمارے سامنے جو چوٹیاں رکھی ہیں وہ بہت بلند ہیں۔ ہمیں ان چوٹیوں کے راستے کو طے کر کے ان کو سر کرنا چاہیے۔ اسلام نے ایک ایسی عرب قوم کو کہ جس نے تہذیب و تمدن کی بو بھی نہیں سونگھی تھی اور انسانی علم و دانش سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا، عالمی سطح پر علم و دانش کی ایسی چوٹی پر پہنچا دیا کہ پوری دنیا کے انسانوں نے اس کے علم و دانش، اس کی معرفت، اس قوم کی تحریروں اور ان کے افکارونظریات سے فائدہ اٹھایا۔ یہ اسلام کا ہنر ہے۔ ہم مسلمانوں نے خود کو اس چوٹی سے نیچے گرا لیا؛ غلطی ہماری اپنی ہے، ہم نے پستی اور ذلتوں کو قبول کر لیا۔ اس لیے آج عالم اسلام پسماندہ ہے۔ ہم دوبارہ اسی راستے پر چل کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی' قوم حتی' یغیروا ما بانفسھم ہم نے اپنے آپ میں جتنی تبدیلی کی اتنا ہی ہم آگے بڑھے؛ اللہ تعالی ہمیں آگے لے گيا۔ یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے ملک کے اندرونی مسائل سے مربوط ہے۔ امتحان بھی زیادہ ہیں۔
اس سال کے آخر میں (2008 اوایل میں ) انتخابات آ رہے ہیں۔ انتخابات ہمارے اتحاد ، ہماری بصیرت و تدبر اور ہمارے قومی شعور کے اظہار اور مظاہرے کا موقع فراہم کرسکتے ہیں ۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انتخابات، انتخابی سرگرمیاں اور انتخابی ماحول اختلاف کا باعث ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد کا باعث ہو سکتا ہے، مثبت اور شفاف مقابلہ آرائي سے پیشرفت کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ ہر پارٹی قوم کی خدمت کے لیے وہ حصہ حاصل کرے جس کے لائق وہ خود کو سمجھتی ہے؛ اس میں کوئی برائي نہیں ہے۔ یہ مثبت رقابت اور مقابلہ معاشرے کو نشاط و شادمانی بخشتا ہے، ہمیں زندہ دل بناتا ہے، ہمارے معاشرے میں جوش و جذبہ بھر دیتا ہے۔ ان انتخابات میں اگر ہم برا طرزعمل اختیار کریں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں، ایک دوسرے سے کینہ رکھیں، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں کریں، اصول و آداب کے برخلاف عمل کریں تو یہ تنزلی، کمزوری اور انحطاط کا سبب بن سکتا ہے، یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے، یہ ایک الہی آزمایش ہے ۔
آج عیدالفطر کا دن ہے، جو الہی نعمتوں اور معنوی برکتوں سے سرشار اور بابرکت تیس دن کے ماہ رمضان کے بعد جلوہ افروز ہوا ہے۔ مبارک ہو آپ کو۔ آپ نے بڑی خوش اسلوبی سے ماہ رمضان گزارا ہے، آج عید آئي ہے۔ اسے اعلی' انسانی منزل کی سمت روانگی و سفر کا نقطہ آغاز قرار دیجیے۔ یہ ملک کے داخلی امور سے مربوط ہے۔
اسلامی امہ کی سطح پر بھی ایسا ہی ہے۔ آپ دیکھیے کہ بین الاقوامی توسیع پسند طاقتیں عالم اسلام کے تمام مسائل میں مداخلت کرنا چاہتی ہیں۔ امریکی سینیٹ بل پاس کرتی ہے کہ عراق تقسیم ہوجانا چاہیے۔ آخر آپ ہوتے کون ہیں جو یہ فیصلہ سنا رہے ہیں؟ تو عراقی قوم کس لیے ہے؟ یہ غلط ہے کہ ایک ملک کی قانون ساز اسمبلی دوسرے ملک کی قسمت کا فیصلہ کرے ۔ ایک اہم اسلامی ملک (عراق ) کو تقسیم کرنا، اس تین حصوں میں بانٹ دینا تاکہ اس پر آسانی سے تسلط قائم کیا جا سکے، اسے اپنا بازیچہ قرار دینا یہ عالم اسلام اورعراقی قوم کے ساتھ سب سے بڑی خیانت اور غداری ہے۔ عراقی حکام نے اس کی مخالفت کی ہے اور وہ حق بجانب ہیں ۔اسے دیکھیے یہ استعمار کی سامراجی اور خودسرانہ مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ایسا کب تک ہوتا رہے گا ؟
مسئلہ فلسطین اس کی دوسری مثال ہے۔ اب چونکہ صیہونیوں کو مسلمان عرب نوجوانوں سے منہ توڑ جواب ملا ہے، اس لیے اب وہ صیہونیوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور کسی طرح اس شکست کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ امن کانفرنس تشکیل دیتے ہیں۔ یہ امن کانفرنس ہے؟ امن کا مطلب یہ ہے کہ ایک قوم کو اس کے تمام حقوق سے محروم کردیا جائے، اور دوسروں کے کام میں بے جا مداخلت کرنے والے ایک بے سروپا اور غاصب گروہ کو ملت فلسطین پر مسلط کرکے اس قوم کو اس کے گھربار، حق زندگی، زمین اور وطن سے محروم کردیا جائے، اس کے بعد اسی قوم کے خلاف قانون پاس کیا جائے اقدامات کئے جائيں ! آپ کو اس کا کوئی حق نہیں ہے! امن کانفرنس اس لیے ہے؟ فلسطینی عوام کو گذشتہ کانفرنسوں سے کیا ملا ہے؟ بتائیے، آج غزہ میں عوامی حکومت منتخب ہوئی ہے۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے۔ اس میں کوئی شک ہے؟ عوام نے اس حکومت کو منتخب کیا ہے یا نہیں؟ چنانچہ اگر یہ ایسی حکومت ہے جسے فلسطینی قوم نے منتخب کیا ہے تو پھر امریکہ اور اس کے پٹھو کسی ملک کو کیا حق ہے کہ وہ اس قوم کے مسائل میں مداخلت کریں اور اپنی مرضی چلائیں ۔ یہ اس قوم کا حق ہے! فلسطینیوں نے کہا ہے کہ ہم مخالف ہیں۔ واضح سی بات ہے کہ یہ فلسطینیوں کے خلاف سازش ہے۔ علاقے کی بعض حکومتیں ماضی میں کہتی تھیں کہ ہم فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہیں ہیں- اس وقت کہ جب ان سازشی کانفرنسوں کو بعض ملکوں نے فلسطینی عوام کے نام پر قبول کر لیا تھا۔ (اس وقت کہا گیا ) کہ فلسطینیوں نے قبول کیا ہے۔ آپ فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی نہ بنیں اب کیا ہوا؟ اب توخود فلسطینی کہتے ہیں کہ ہمیں یہ امن کانفرنس قبول نہیں ہے، اب کیوں اسے مکروفریب قرار دیتے ہیں۔ کیوں بعض ممالک اس سلسلے میں امریکہ کا ساتھ دیتے ہیں حالانکہ یہ فلسطینی قوم کی خواہش کے برخلاف ہے، عالم اسلام کی خواہش کے برخلاف ہے، خود علاقے کی حکومتوں کی خواہش کے برخلاف ہے، کیوں یہ مداخلتیں کی جاتی ہیں؟ کیونکہ ہم آپس میں متحد نہیں ہیں، کیونکہ ہماری طاقت ایک دوسرے کی تقویت کا باعث نہیں ہے۔ اس لئے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔اگر عالم اسلام کے کسی بھی علاقے میں مسلمان ممالک کسی بھی زبان اور آبادی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں اور ایک ہی بات کریں تو پھر امریکہ یا کسی اور طاقت کو اسلامی امہ کے خلاف بات کرنے اور اقدام کرنے کی جرئت نہیں ہو گی۔
اسلامی جمہوریہ ایران نہیں کہتا کہ دوسری حکومتیں وہی کہیں جو ہم کہتے ہیں۔ آئیں مل بیٹھ کر مسئلہ فلسطین کے بارے میں کسی بھی توسیع پسند اور مداخلت پسند بڑی طاقت کی خواہش کو پیش نظر رکھے بغیر فیصلہ کریں، اسی فیصلے کا اعلان کریں، فیصلے کو قبول کرنا یا نہ کرنا خود فلسطینی قوم کا حق ہے ۔ کیوں دنیا کے دوسرے کونے سے اٹھ کر کوئی آئے اور ان کی پوری کوشش یہ ہو کہ ، اس علاقے میں سامراج اور استعمار کی اس ناجائز اولاد اسرائیل کے لیے امن و سلامتی فراہم کریں۔ چاہے قومیں تباہ و برباد ہو جائيں؛ جو ہوتا ہے ہو جائے۔ یہ ہماری کمزوری کا نتیجہ ہے۔
آبادی بتخانہ ز ویرانی ما ست جمعیت کفر از پریشانی ما ست
ہم مسلم قوموں کو اکٹھا ہونا چاہیے، ہم مسلمان حکومتوں کو اکٹھا ہونا چاہیے تاکہ ہماری طاقت کا لوہا مانا جائے۔ آپ خود کو پیش کر سکیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کا کہنا ہے۔ ہم یہ بات کہتے ہیں اور اس پر قائم ہیں۔ سامراج بھی ہم سے دشمنی رکھتا ہے۔ اس کی واضح مثال آپ ایٹمی توانائی کے مسئلے اور دوسرے امور میں دیکھ رہے ہیں۔ الحمد للہ سامراج کی دشمنیوں کا بھی ہماری قوم پر نہ تو اثر ہوا ہے اور نہ ہی ہو گا۔
خدا ہمیں ہدایت دے۔ خدا ہمیں اس امر کی ہدایت دے جو اسلامی امہ کے حق میں ہے اور یہ حساس تاریخی لمحہ، جس کا متقاضی ہے اور خدا ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری مدد کرے۔
پروردگارا ! شہداء عزيز راہ اسلام ،خصوصا اسلامی جمہوریہ کے مظلوم شہداء اور فلسطین،عراق اور دیگر مسلمان قوموں کے شہیدوں کی ارواح طیبہ پر اپنی رحمت نازل فرما اور امام خمینی بزرگوار (رہ) کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما اور امام زمانہ( ارواحنا فداہ ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
خطبہ اول
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمہ للہ الذی خلق السموات والارض و جعل الظلمات والنور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون ۔نحمدہ و نستعینہ و نستغفرہ و نؤمن بہ و نتوکل علیہ و نصلی و نسلم علی' حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرہ و مبلغ رسالاتہ بشیر رحمتہ و نذیر نقمتہ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی' آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین و علی' صحبہ المنتجبین۔
عید سعید فطر کی پورے عالم اسلام کے تمام روزہ دار مؤمنوں اور مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں؛ خاص طور پر ایران کی مؤمن اور غیور قوم اور آپ نماز گزار بہنوں اور بھائیوں کو۔
عید الفطر درحقیقت عید شکر ہے، ضیافت الہی کا ایک مہینہ کامیابی سے گزارنے کا شکر، روزہ داری کا شکر، عبادت، ذکر، خشوع اور بارگاہ کبریائی سے توسل کی توفیق کا شکر، حقیقت میں اس شکر کے لیے بھی مؤمن انسان کو عید منانی چاہیے۔ میرے پاس جو ٹھوس اور باوثوق معلومات ہیں ان کے مطابق ایران کی عزیز قوم نے اس مہینے (رمضان ) سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ہماری قوم نے حقیقتا رمضان المبارک کے مہینے سے فائدہ اٹھایا ہے، معاشرے کے تمام طبقے، مختلف رجحانات رکھنے والے لوگ اور وہ لوگ کہ جن کی روزمرہ کی زندگی، ان کے طرزعمل،لباس اور طور طریقوں میں ایک دوسرے کے ساتھ قدرے فرق پایا جاتا ہے، سب آئے۔ خدا کا اس عظیم نعمت پر کہ جو مسلمان قوم کے ایمان اور اس کے دین اور دینی و اسلامی حقائق پر قلبی ایمان کی نعمت ہے، بہت زیادہ شکر ادا کرنا چاہیے۔ یہ ہماری قوم کی ایک اہم نمایاں خصوصیت ہے۔ جو کچھ ذرائع ابلاغ مثلا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں لوگوں کی دینداری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، بلاشبہ وہ لوگوں کے خلوص اور خضوع و خشوع کا ایک گوشہ ہے۔ وطن عزيز میں، ان تمام شہروں میں، ان تمام دیہاتوں میں، ہزاروں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مراکز میں اس مہینے کی شبہائے قدر اور دیگر راتوں میں یہ لوگ، یہ نوجوان، یہ بچے اور بچیاں جمع ہوئے، توسل کے لیے ہاتھ بلند کیے، خدا سے حاجت طلب کی، خدا سے ہم کلام ہوئے اور رازونیاز کیا؛ یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
اس مہینے میں ہمارے لیے بہت سے سبق ہیں؛ اس قسم کے سبق نہیں جو انسان استاد یا کتاب سے سیکھتا ہے، بلکہ اس قسم کے درس جو انسان ایک عملی مشق میں، ایک عظیم اجتماعی کام کے دوران سیکھتا ہے۔ پہلا سبق خدا سے تعلق اور ذات احدیت اور حضرت حق کے ساتھ قلبی رشتہ قائم رکھنے کا سبق ہے۔ اس سبق کی لذت آپ نے چکھی ہے کہ کس طرح آسانی کے ساتھ خدا سے رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے (( و ان الراحل الیک قریب المسافۃ و انک لا تحتجب عن خلقک الا ان یحجبھم الاعمال دونک ))خدا کی راہ نزدیک ہے۔ اس کا مشاہدہ آپ نے شب قدر میں کیا؛ توسل، زیارت اور دعا کے موقع پر دیکھا؛ آپ نے رازونیاز کیا؛ اپنا دل خدا کے لیے تحفے میں لے کر گئے اور خدا سے اپنی محبت کو مضبوط کیا اور اسے استحکام بخشا۔ اس یہ سرور اپنے وجود میں برقرار رکھئے۔اس رابطے اور تعلق کو منقطع نہ ہونے دیجیے، یہ ہے پہلا سبق۔
ایک اور سبق مختلف طور طریقوں کے باوجود قوم کا دین اور توحید کے محور پر اکٹھا ہو جانا ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں قومی اتحاد، یہ جو ہم کہتے ہیں ایرانی قوم میں یکجہتی ہے، یہ اتحاد و یکجہتی بلا سبب نہیں ہے، صرف ایک نصیحت، ایک حکم اور فرمان کی بنا پر نہیں ہے؛ اس اتحاد کی بنیاد مذہب و ایمان ہے، دین اور اعتقاد ہے جو ہم سب کو ایک مرکز کی طرف لے جاتا ہے؛ وہ مرکز باری تعالی کی ذات اقدس ہے۔ یہ ہماری قومی یکجہتی کا باعث ہے؛ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کرتا ہے، عطر آگیں کرتا ہے۔ نماز جماعت میں، نماز جمعہ میں، شبہائے قدر میں عبادت، قرآن سر پر رکھنے، دعا اور گریہ و زاری کرنے میں آپ اایک دوسرے کے ہمراہ ہوتے ہیں خواہ وہ کوئي بھی ہو، کسی بھی طرزفکر اور معاشرے کے طبقے سے تعلق رکھتا ہو، کیسے ہی حلیے کا ہو، آپ کا بھائی ہے؛ آپ کے ہمراہ ہے، پروردگار عالم کی بارگاہ میں آپ کا ہمراز ہے۔ اس قلبی رابطے کو قائم رکھیے؛ یہ بھی ایک درس ہے۔
ایک اور درس خود پر جبر اور سختی کرنا اور دوسروں پر خرچ کرنا ہے۔ یہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا، اذان صبح سے لے کر اذان مغرب تک روزہ رکھنا، یہ خود پر جبر اور سختی کرنا ہے۔ہمارے بہت سے لوگوں نے روزہ رکھ کر خود پر جبر اور سختی کی ہے اور دوسروں پر انواع و اقسام کا انفاق کیا ہے۔انسان کتنی لذت محسوس کرتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ نیمہ ماہ رمضان کو امام حسن مجتبی (علیہ الصلواۃ والسلام) کی شب ولادت میں ایک تنور کے سامنے بورڈ لگا ہوتا ہے کہ آج رات امام حسن کے عشق میں اس تنور پر روٹی صلواتی(مفت)ہے؛جو چاہتا ہے روٹی لے جائے۔ اس قسم کے انفاق، اپنا نام ظاہر کیے بغیر افطار کا انتظام اور مساجد میں افطار کا بند و بست، یہ عمل ہمارے عوام نے انجام دیا ہے۔یہ ایک اور سبق ہے۔ایک اور مشق ہے۔اپنے اوپر سختی اور جبر کریں اور دوسروں پر انفاق کریں۔ میں اس نکتے پر تھوڑی روشنی ڈالوں گا؛ کیونکہ یہ ہمارے ملک اور معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
ہم اسراف(فضول خرچی) کرنے والے لوگ ہیں؛ ہم اسراف کرتے ہیں؛ پانی میں اسراف، روٹی میں اسراف، مختلف وسائل اور خشک میوے میں اسراف، پٹرول میں اسراف، تیل پیدا کرنے والا ایک ملک پٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول درآمد کرتا ہے! یہ باعث تعجب نہیں ہے؟ ہرسال اربوں خرچ کرکے پٹرول درآمد کریں یا دوسری چیزیں درآمد کریں اس لیے کہ ہمارے ملک اور قوم کے کچھ لوگ فضول خرچی کرنا چاہتے ہیں! کیا یہ درست ہے؟ اسے قومی سطح پر عیب و نقص کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اسراف بری چیز ہے؛ حتی راہ خدا میں انفاق کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔خداوند متعال قرآن میں اپنے پیغمبر سے فرماتا ہے (لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط)خدا کے لیے انفاق میں بھی اسی طرح عمل کرو۔افراط و تفریط نہ کرو۔میانہ روی؛ خرچ کرنے میں میانہ روی لازمی ہے ہمیں قومی سطح پر میانہ روی کو ایک کلچر میں تبدیل کر دینا چاہیے۔قرآن فرماتا ہے(والذین اذا انفقوا) اور وہ لوگ کہ جو، جب انفاق کرتے ہیں،(لم یسرفوا ولم یقتروا)نہ اسراف یعنی زیادہ روی کرتے ہیں، نہ کنجوسی کرتے ہیں۔ خود کو مصیبتوں سے دوچار کر لینا مناسب نہیں اسلام یہ نہیں کہتا۔اسلام یہ نہیں کہتا کہ لوگ ضرور ریاضت اور زہد کے ساتھ اس طرح کی زندگي گزاریں؛ نہیں، معمولی زندگی گزاریں، متوسط زندگی گزاریں۔یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والے لوگ مسلسل کئی برسوں سے ہماری قوم کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے، بائيکاٹ کر دیں گے۔ کئی بار بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے لیے امید کی کرن ہماری یہی بری عادت ہے۔ ہمارا شمار اسراف اور فضول خرچی کرنے والے لوگوں میں ہو تو ممکن ہے کہ یہ بائیکاٹ، اسراف اور فضول خرچی کرنے والے کے لیے بھاری اور سخت ہو؛ لیکن اس قوم کے لیے نہیں جو اپنا حساب کتاب رکھتی ہو، جو اپنی آمدنی اور خرچ کا حساب رکھتی ہو،جو اپنے فائدہ و نقصان کا حساب رکھتی ہو،جو زیادہ روی اور افراط نہیں کرتی، اسراف نہیں کرتی۔ اچھا، بائیکاٹ کر دیں۔ان خصوصیات کی حامل قوم کو بائیکاٹ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ماہ رمضان سے اس نکتے کو سیکھیں اور انشاءاللہ اس پر عمل کریں۔
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
والعصر ۔ ان الاانسان لفی خسر ۔ الا الذین آمنوا و عملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر
خطبہ دوم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما علی امیرالمؤمنین والصدیقۃ الطاہرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمد بن علی باقر علم النبیین و جعفر بن محمد الصادق موسی بن جعفر الکاظم وعلی بن موسی الرضا و محمد بن علی الجواد و علی بن محمد الھادی والحسن بن علی الزکی العسکری والخلف القائم المھدی حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک و صل علی ائمۃ المسلمین حماۃ لمستضعفین ھداۃ المؤمنین ۔اوصیکم عباداللہ بتقوی اللہ۔
دوسرے خطبے میں سب سے پہلے یوم القدس کے جلوسوں میں شرکت پر ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرناچاہوں گا۔ دل سے یہی آواز نکلتی ہے: سلام ہو ایرانی قوم پر! آپ نے دنیا کو اپنی عظمت، اپنا اسلامی تشخص پر رقار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ان جلوسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔استعماری طاقتوں نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ان کا مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے نام و نشان کو مٹا دیں اس مسئلے کو طاق نسیان کی زینت بنا دیں؛ دنیا کے لوگ اور بعد کی نسلیں بھول جائیں کہ کبھی دنیا میں فلسطین نام کی کوئی سرزمین اور ملک بھی تھا؛ ان کا مقصد یہ تھا، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور فلسطینی قوم کی عظیم تحریک نے، چاہے وہ انتفاضہ اول ہو یا انتفاضہ مسجد الاقصی، ایک بار پھر دنیا میں مسئلے کو زندہ کر دیا۔ قوموں، عوام اور دنیا کے انصاف پسندوں حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا، انہوں نے اس کا علاج یہ ڈھونڈا کہ وہ اس سرزمین میں واقع عرب فلسطین کو ایک زندان بنا دیں؛ محصور کر دیں۔شاد و آباد اور نعمتوں سے مالامال ملک فلسطین اور اس اسٹراٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو مکمل طور پر صیہونیوں کے حوالے کر دیں۔ اس کو صیہونی علاقہ بنا دیں۔ عربوں کو غزہ اور مغربی ساحل کی طرف دھکیل دیں۔
آج بھی آپ صیہونیوں کے طرز عمل کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جس قدر ہو سکے فلسطینی عوام میں استقامت و پائیداری کے جذبات کو ختم کر دیں؛ ان کے تمام کام اسی سیاست کے تحت انجام پا رہے ہیں کہ استقامت کا جذبہ ختم کر دیا جائے۔ لیکن فلسطینی عوام ڈٹے ہوئے ہیں۔اول تو یہ کہ انہوں نے جدوجہد ترک نہیں کی، دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنے ووٹوں سے ایک حکومت منتخب کی ہے کہ جس کا نعرہ قابضوں کے خلاف جدوجہد اور استقامت و پائیداری ہے۔ تمام تر دباؤ کے باوجود جو گذ شتہ ایک دو برسوں کے دوران حماس حکومت اور اس علاقے کے عوام پر ڈالا گيا ہے، یہ لوگ مضبوطی سے ڈٹے ہوئے ہیں؛ مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ایک گوشے میں الگ تھلگ محصور قوم کے پاس جس کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے، خدا سے امید کے علاوہ کوئی اور روشنی کی کرن ہونی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حق میں مسلمان قوموں کا یہ عظیم نعرہ انہیں جذبہ عطا کرتا ہے؛ ان کے دلوں کو استقامت و پائیداری کے لیے مزید آمادہ کرتا ہے،اس کے علاوہ عالمی رائے عامہ کو فلسطینی کاز کی حقانیت سے آشنا کرتا ہے۔
ایرانی قوم نے ان ( یوم قدس کے) جلوسوں سے اسلامی جمہوریہ کو عزت و آبرو بخشی ہے؛ ایران اور ہر ایرانی کو سربلند کر دیا ہے۔ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بدستور فلسطین اور فلسطینی قوم کے ساتھ ہیں۔ اسلامی امہ کے دفاع کے لئے صف اول میں موجود ہیں۔یہ انتہائی قابل قدر ہے ۔
فلسطین کےمسائل کے سلسلے میں آج یہ سازش ہو رہی ہے کہ ایک بار پھر امن کے نام پر فلسطینی عوام پر کچھ اور مسلط کر دیا جائے۔اب تک امن کے نام پر جو اجلاس منعقد ہوئے ہیں، ان کا نتیجہ فلسطینی عوام کے خلاف اور ان کے نقصان میں رہا ہے۔ پھر امریکیوں نے ایک اور کانفرنس کی تجویز پیش کی، جسے فلسطینی قوم ٹھکرا چکی ہے۔ اس کانفرنس کو جس کا نام انہوں نے خزاں کانفرنس رکھا، فلسطینیوں نے مسترد کر دیا۔ جب فلسطینی اپنے تعلق سے کوئی کام، کوئی اقدام کرتے ہیں تو دوسری حکومتیں اس کو مسترد کر دیتی ہیں، پھر کس طرح فلسطینی اس کانفرنس کو قبول کر سکتے ہیں۔ جب وہ ( فلسطینی ) اس کانفرنس کو نیرنگ و فریب سمجھتے ہیں تو دوسرے بھی فریب سمجھیں۔ یہ اقدامات درحقیقت صیہونیوں کو نجات دلانے کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت کے اقدامات ہیں۔ وہ صیہونی کہ جن کی حکومت اور فوج نے گذشتہ سال لبنان کی بہادر اور فداکار تنظیم حزب اللہ سے شکست کا تلخ مزہ چکھا اور اسی طرح فلسطین کی حکومت _ حماس کی حکومت _ کی انکار کی بلند دیوار کا انہیں سامنا ہوا ہے۔ وہ اس ذلت و رسوائی داغ اپنی پیشانی سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔اس وقت وہ فلسطینی کے مقابلے میں فلسطینی کو کھڑا کررہے ہیں۔ میں اگر فلسطینی بھائیوں کو پیغام دینا چاہوں تو ایک جملہ کہوں گا :بھائیو! ایک دوسرے کے مقابل نہ آؤ۔ دشمن آپ کے گھر میں ہے۔ دشمن آپ کے درمیان فتنہ انگيزی کر رہا ہے۔ فلسطینی عوام کو فلسطین بچانا ہوگا، اسلامی امہ کو بھی ان کی حمایت کرنا ہوگي۔ فلسطینی عوام، فلسطینی قوم کومتحد ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین ایک مسئلہ ہے۔ مسئلہ عراق عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ ہے۔ ہمارا دل عراق کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ عراقی قوم کے دشمنوں کی طرف سے تائید و حمایت یافتہ اس اندھی دہشت گردی نے عراقی قوم کی حالت تباہ کر کے رکھ دی ہے۔یہاں بھی پہلی غلطی غاصبوں کی ہے۔ وہ خود امن و امان قائم نہیں کرتے؛ یا نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے۔ عراقی عوامی حکومت کو بھی یہ موقع نہیں دیتے کہ سکیورٹی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لے لے اور وہ خود کام کرے۔ وہ (غاصب) قصوروار ہیں۔آج عراق میں جو بھی المیہ رونما ہوتا ہے _ انسانی المیہ،سماجی المیہ،سیاسی المیہ _ اس کے پہلے قصوروار اور ذمہ دار غاصبین ہیں؛ یعنی پہلے درجے میں امریکہ اور اس کے بعد اس کے وہ اتحادی ذمہ دار ہیں جو عراق پر فوجی قبضے میں شریک ہیں۔
پروردگارا ! اسلامی امہ کو دشمنوں کے شر سے نجات دے۔ پروردگارا ! اسلامی قوموں اور حکومتوں کو بیدار کر، انہیں طاقت و توانائي عطا فرما۔پروردگارا ! ہمیں اس چیز کی ہدایت و رہنمائی فرما جس میں تیری رضا ہے؛ ہمیں اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! شہدائے اسلام، اسلامی جمہوریہ اور مسلط کردہ جنگ کے شہدا اور امام خمینی(رہ) کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا ! ہمارے حق میں حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ)کی دعا مستجاب فرما اور اس عید کے دن ہمارا سلام اس بزرگوار ( امام زمانہ ع ) کی خدمت میں پہنچا-
والسلام علیکم و وحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انا اعطیناک الکوثر۔فصل لربک وانحر۔ان شانئک ھو الابتر
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ حضرات نے جو خیالات پیش کئے، اس پر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں؛ ان افراد نے بھی جنہوں نے تنظیموں کی نمایندگی کی ہے اور اسی طرح ان لوگوں نے بھی جنہوں نے اپنا ذاتی نقطہ نظر پیش کیا ہے، بڑی کارآمد باتیں ہم تک پہنچائی ہی، ان میں بعض نکات بہت اہم ہیں۔ انشاءاللہ یہ نظریات اور خیالات عملی اقدامات کی بنیاد قرار پائیں گے۔ البتہ یہ بات بھی اپنے آپ میں بہت اہم دلچسپ ہے بات ہے کہ ہمارے نوجوان، ہمارے طلبہ اہم اور بنیادی مسائل کے بارے میں، چاہے ان کا تعلق یونیورسٹی سے ہو یا سیاسی و سماجی میدان سے، اپنا ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں،اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں، مدعا بیان کرتے ہیں۔ یہ میرے لیے اہم اور دلچسپ ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ اس دن سے ڈریے کہ جب یونیورسٹی میں ہمارے طلبہ اور نوجوانوں میں مسائل پر تبصرہ کرنے، سوال اٹھانے اور مطالبات سامنے رکھنے کا جذبہ اور حوصلہ نہ رہے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم، مختلف میدانوں اور شعبوں کے تعلق سے مطالبات پیش کرنے اور نظریات بیان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔ ہمارے ملک کے نوجوان اور خاص طور پر علم دوست افراد میں جرئت تنقید ضروری ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ بہت سے مطالبات پورے نہ کئے جا سکیں، کیونکہ قلیل مدت میں مطالبات کی تکمیل ظاہر ہے کہ مشکل کام ہے۔ لیکن انہیں مطالبات کے آئینے میں ایک روشن مستقبل کا نظارہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں کو اپنے مطالبات پیش کرنا چاہئے اور ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ مطالبہ کتنا سودمند اور ثمربخش ثابت ہو سکتا ہے، ایسے مطالبات پیش کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ مطالبہ کرنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ صرف اسے پیش کر کے خاموش نہ بیٹھ جائے، نوجوان کی ذمہ داری صرف نعرہ لگانا اور آواز بلند کر دینا نہیں ہے بلکہ اسے چاہئے کہ ہدف تک رسائی کے لئے کوشش جاری رکھے۔ متعلقہ افراد سے رابطہ کرے اور ضرورت پڑے تو خود میدان عمل میں وارد ہو جائے۔یہ ہمارے نوجوانوں کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو مطالبات کےساتھ ہی ان ذمہ داریوں کا بھی پورا پورا احساس اور ادراک ہونا چاہئے۔
ایک بہت اہم مسئلہ، جس کی جانب ایک نوجوان نے اشارہ کیا، وہ قیاس آرائیاں ہیں جو عوام اور قائد انقلاب کے باہمی تعلقات کے سلسلے میں کی جا رہی ہیں۔
نشست میں کہی گئی اس بات کو معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔اس سلسلے میں جو قیاس آرائیاں کی گئي ہیں اور جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں، درست نہیں ہیں۔میرا موقف وہی ہے جو منظر عام پر بیان کیا جاتا ہے۔ اگر کسی بات کا منظر عام پر آنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے تو میں اسے برملا ذکر کرنے سے گریز کروں گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا ہے حقیقت اور سچائی کے خلاف کوئی بات کہوں۔ایسا ہرگز نہیں ہے کہ عوامی سطح پر ایک بات کہی جائے اور پھر خصوصی ملاقاتوں میں اس کی اصلاح کی جائے۔ ایسے بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں جنہیں منظر عام پر لانا حرام ہے۔ایسے مسائل کو موضوع بحث نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ہم وہ ساری باتیں اور سارے مسائل منظر عام پر لائيں جو ہمارے علم میں ہیں تو ان مسائل سے آپ کو آگاہی تو ہو جائے گي لیکن ہمارے دشمن بھی ان سے باخبر ہو جائیں گے، لہذا ضروی ہے کہ بہت سے حساس مسائل کو پردہ راز میں ہی رہنے دیا جائے لیکن یہ ہرگز درست نہیں ہے کہ حقیقت کے خلاف بات کی جائے۔ یہ واضح رہنا چاہئے کہ ہمارا موقف وہی ہے جو آپ ہماری زبان سے سن رہے ہیں، چاہے وہ نماز جمعہ میں ہو یا عمومی ملاقاتوں میں، موقف میں کوئي تبدیلی نہیں ہے ۔
ایک اور درخواست کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ منتخب طلبہ کی حیثیت سے تشریف لائے ہیں انہوں نے اپنے بیان میں بڑے اچھے اور اہم نکات پر گفتگو کی۔ البتہ بعض نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی بات پیش کی۔ میں تمام نکات نوٹ نہیں کر سکا۔میری آپ سے درخواست ہے کہ جو تجاویز آپ کے پیش نظر ہیں، واضح طور پر ایک کاغذ پر لکھیے، اس طرح آپ کے ذہن میں بھی ان کا صحیح خاکہ تیار ہو جائے گا اور میں بھی ان کا بغور جائزہ لے سکوں گا اور پھر ان تجاویز پر عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔
طلبہ کے لیے میری نصیحت یہی ہے جو میں نے عرض کی یعنی خواہ سیاسی و سماجی مسائل ہوں، علمی مسائل یا یونیورسٹی کے امور ہوں، ان کے سلسلے میں اپنی تجاویز اور مطالبات ضرور پیش کیجیئے۔ ہاں ان تجاویز کو عقل و منطق کی کسوٹی پر پرکھ ضرور لیجئے۔ انقلاب کے اوائل سے اب تک، میرا یہی خیال رہا ہے کہ طالب علم کو افراط و تفریط سے پرہیز کرنا چاہیے؛ میں کسی بھی جہت اور سمت میں افراط اور انتہا پسندی کا قائل نہیں ہوں۔ اعتدال پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عقلی و منطقی نقطہ نظر سے مسائل کا جائزہ لیجئے اور یاد رکھیے کہ آپ کی خواہش اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش بے اثر نہیں ہے۔ یہ خیال ذہن میں ہرگز نہ آئے کہ کیا فائدہ ہے ؟ نہیں بالکل فائدہ ہے۔ ابھی ایک عہدہ دار نے انصاف پسندی کا ذکر کیا، اگر ایسا ہوتا کہ انصاف پسندی کا نعرہ لگایا جاتا اور اس کا کوئی اثر نہ ہوتا، معاشرے میں کوئی بھی اسے لائق توجہ نہ سمجھتا تو آپ یقین رکھئے کہ ایک انصاف پسند حکومت اور انصاف پسندی کی ہمہ گير تحریک وجود میں نہ آ پاتی۔ لیکن وجود میں آئي آپ نے کر دکھایا؛ یہ آپ نوجوانوں کا کارنامہ تھا؛ انصاف پسندی کی تحریک کی حیثیت سے،انصاف پسندی کے مسئلے کو پیش کرنے کی حیثیت سے آپ کا موقف قابل ستائش ہے۔ میں اس وقت کسی خاص تنظیم کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں ، اسے یونیورسٹی کے مؤمن نوجوانوں نے، فرض شناس نوجوانوں نے، ذمہ دار نوجوانوں نے پیش کیا، اس کے بارے میں بات کی اور جب اس کو بار بار دہرایا گيا تو پھر یہ مسئلہ زباں زد خاص و عام ہو گيا۔ نتیجتا اس تحریک کے اثرات، عوامی رجحان،عوامی افکار و نظریات، نعروں اور انتخابات میں صاف طور پر نظر آئے۔ بنا بریں آپ ایک قدم آگے آئے۔
البتہ یونیورسٹی کے طلبہ دریا کے بہاؤ کی مانند ہیں یعنی آج آپ طالب علم ہیں، پانچ سال بعد آپ میں سے اکثر طالب علم نہیں ہوں گے۔ کہیں اور پہنچ چکے ہوں گے، جبکہ آپ کی پہلی جگہ پر نئے چہرے نظر آئیں گے۔ یہ ایک تسلسل ہے جو دو انداز اور شکلوں میں ہمیشہ برقرار رہ سکتا ہے: ایک خود آپ کی شکل میں، یعنی جب آپ یونیورسٹی کے ماحول سے باہر نکلے تو یہ فراموش نہ کریں کہ طلبہ کی تنظیم میں،طلبہ کے ماحول میں،کلاس روم میں اور میٹنگوں میں آپ کن نظریات کے حامل تھے آپ کیا کہتے تھے، کیا چاہتے تھے آپ کے اہداف اور مقاصد کیا تھے؛ ان کو فراموش نہ کیجیے؛ ان کو محفوظ رکھیے۔ ہماری ایک بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ لوگ چند دن ایک ماحول میں رہتے ہیں، اس کا رنگ اختیار کرتے ہیں لیکن اس ماحول سے جب دور ہوتے ہیں تو اس لوہے کی مانند ہو جاتے ہیں جسے بھٹی سے باہر لایا گيا ہو؛ جب تک وہ بھٹی میں تھا اس کا رنگ سرخ تھا جب باہر لایا گيا تو آہستہ آہستہ اس کا رنگ سیاہ ہونا شروع ہو گيا؛اس طرح نہیں ہونا چاہئے، اندر سے کندن بنیے۔ان افکار کو اپنے دل میں جگہ دیجیے۔
البتہ ضمنی پیرائے میں یہ کام کیجئے ۔اس کا راستہ بھی یہی ہے کہ اسے ایمان اور عقائد سے جوڑیں۔آپ اس فریضہ الہی سے کبھی بھی خود کو الگ نہ سمجھئے۔ جو لوگ جدوجہد کرنے میں کامیاب رہے، جو ڈٹے رہے، جو مشکلات کے مقابل سینہ سپر رہے، انہوں نے اس دستورالعمل، اس نسخے سے فائدہ اٹھایا ہے ورنہ آج آپ طالب علم ہیں، یونیورسٹی کا ماحول ہے، نوجوانی کا زمانہ ہے جوش و جذبہ ہے، انصاف پسندی اور اعتدال پسندی کی باتیں ہیں، امنگیں ہیں، آرزوؤں ہیں۔ ایک وقت وہ آئے گا کہ آپ اس ماحول سے نکل جائیں گے پھر یا تو یہ سب کچھ آپ یکسر فراموش کر دیں گے یا وہ بتدریج آپے کے صفحہ ذہن سے محو ہوتی جائیں گي تو یہ درست نہیں ہے۔یہ تسلسل ٹوٹنا نہیں چاہئے۔
اس تسلسل کے جاری رہنے کی دوسری شکل، یونیورسٹی کی داخلی فضا ہے۔ آج آپ طالب علم ہیں اورآپ کے جذبات و محرکات ہیں؛ یہ بہت اچھی بات ہے، کل پانچ سال بعد،چھ سال بعد تو آپ یہاں نہیں ہوں گے، نئےافراد آ چکے ہوں گے۔ وہ کس کے وارث ہیں؟ دوسرے الفاظ میں، انہیں کس فضا میں سانس لینا ہے اور کس ماحول کو برقرار رکھنا ہے؟ یقینی طور پر اسی ماحول کو بر قرار رکھنا ہے جس کی ذمہ داری آج آپ کے کاندھوں پر ہے، ایک چیز جو میں نے یہاں نوٹ کی ہے جو میں آپ دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں،یہ ہے کہ ہم نے علمی میدان میں دانشورں کی تربیت کی بات کی ہے،میں اب سیاسی دانشوروں کی تربیت پر بھی تاکید کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور تشہیراتی مہم میں سیاسی اور سماجی دانشوروں کو سامنے لایا جائے، لیکن دانشوروں کی تربیت کا ایک حصہ آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے؛ یعنی طلبہ تنظیموں کے ماحول میں سیاسی دانشور تربیت پائیں؛ فضا تیار کیجئے۔یہ کام تو یونیورسٹی سے باہر کا نہیں ہے؛ خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ فکروشعور سے کام لیتے ہوئے آپ اپنے بعد آنے والے طلبہ کے لیے بحث و استدلال اور ذہنی رشد کے لئے ماحول کو سازگار بنائیے۔ امید اور حوصلے بڑھائیے، سیاسی شعور کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے منصوبہ بندی کیجیے۔ آپ اطمینان رکھئے کہ آئندہ آنے والے طلبہ آپ کی ہی مانند بلند مقاصد کی سمت قدم بڑھائیں گے۔البتہ بعض باتوں سے ہوشیار بھی رہنا چاہیے؛ گمراہی کو دیکھنا اور پہچاننا چاہیے۔
ایک اور نکتہ جو طلبہ کے مطالبے کے ذیل میں عرض کرنا چاہوں گا، یہ ہے کہ مطالبہ کرنا دشمنی پر اتر آنے سے مختلف ہے۔ میں نے کہا ہے کہ حکام سے ٹکراؤ کی صورت حال پیدا نہ ہو اور میں اب بھی اس پر تاکید کرتا ہوں؛ تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تنقید نہ کی جائے، مطالبہ نہ کیا جائے؛ قیادت کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ہمارا عزیز بھائی کہتا ہے کہ ضد ولایت فقیہ(ولایت فقیہ کے مخالف) کی وضاحت کیجئے۔تو ٹھیک ہے، آپ کو معلوم ہے کہ ضد کے معنی کیا ہیں۔ضدیت یعنی پنجہ لڑانا، دشمنی کرنا؛ اس کے معنی اعتقاد نہ ہونا نہیں ہے۔اگر میرا آپ پر عقیدہ نہ ہو تو میں آپ کا مخالف (ضد) نہیں ہوں؛ ممکن ہے کوئی کسی پر اعتقاد نہ رکھتا ہو۔البتہ یہ ضد ولایت فقیہ کا جملہ ،آسمان سے اتری ہوئی آیت نہیں ہے کہ ہم کہیں باریکی کے ساتھ اس لفظ کی حدود معین کی جانی چاہییں؛ بہرحال معاشرے میں رائج ایک بات ہے۔دو افراد ہیں، ایک دوسرے کے مخلص ہیں،ایک ہی کلاس میں ہیں، آپس میں مباحثہ کرتے ہیں، ایک دوسرے کی باتوں کو رد یا قبول کرتے ہیں؛ یہ اس کی بات کو رد کرتا ہے،وہ اس کی بات کو رد کرتا ہے۔بات کو مسترد کرنا،مخالفت دشمنی کے معنی میں نہیں ہے؛ ان مفاہیم کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چاہیے۔ بنا بریں ہم کسی بھی طرح تنقید کو مخالفت اور دشمنی نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ ملکی حکام اور حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس حمایت اور طرفداری کا مطلب یہ ہے کہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، یا میں خود تنقید نہیں کروں گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہے، ممکن ہے بعض مواقع پر میں بھی تنقید کروں۔لیکن ایک ایسی حکومت کی جو واقعا عوام کی خدمت گذار ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے ؛ انصاف کی بات تو یہی ہے کہ جو کام ہو رہے ہیں وہ آپ دیکھ رہے ہیں؛ نگاہوں کے سامنے ہیں۔ ان کاموں کو نظر انداز کرنا نا انصافی ہوگی۔
بہرحال مجھے طلبہ کے ماحول کے سلسلے میں آپ سے جو امید ہے وہ یہ ہے۔ واقعا ایسا ہی ہو گا ۔آپ اطمینان رکھیے۔ اس لیے کہ انسان کچھ چیزوں کا صحیح اندازہ کرنے پر قادر ہے کیونکہ جہاں ایمان ہو گا اس کے ساتھ جدوجہد بھی ہو گی اور اس کانتیجہ بھی واضح ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کامیابی ملنے والی ہے۔
جس چیز کی ہمیں طلبہ سے توقع ہے، وہ طلبہ کے ماحول میں علمی ترقی و پیشرفت،سیاسی شعور میں اضافہ، دینی نظریات اور ایمان کی گہرائی، معرفت میں اضافہ، روشن خیالی، علم کے میدان میں بھی،سیاست کے میدان میں بھی اور دینی معرفت کے میدان میں بھی نئی منزلیں طے کرنا ہے۔ البتہ یہ کام ہر شعبے کے استاد اور رہنما کی مدد سے ہونا چاہئے۔ ہر علمی کام کے لیے آپ کا ایک استاد ہونا چاہیے۔ دینی معرفت کے کام کے لیے بھی آپ کا کوئی استاد ہونا چاہیے، سیاسی شعور کے لیے بھی ایسا ہی ہے۔ کام آپ کریں گے؛ استاد رہنمائی کرے گا۔ تمام شعبوں اور میدانوں کے سلسلے میں ہماری یونیورسٹیوں اور ہمارے طلبہ کے ماحول کو حقیقی اور قابل ذکر ترقی و پیشرفت کی ضرورت ہے اور یہ ترقی و پیشرفت انشاءاللہ ہوگی۔
پروردگارا ! میں ان نوجوانوں کو اپنے ان فرزندوں کو، تیرے سپرد کرتا ہوں۔ پروردگارا ! ان سب کو اپنی مدد، ہدایت اور لطف و کرم کے سائے میں رکھ ۔ پروردگارا ! ہماری نوجوان نسل کو اس ملک کے مستقبل کا معمار قرار دے۔ پروردگارا ! ان سب کو،ان کے اقدامات کو اور ان کی پالیسیوں کو اپنی رضا کے مطابق بنا دے۔ پروردگارا ! ہمارے نوجوانوں کو ایسا علم اور مفید علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما کے ہمراہ عمل بھی ہو۔ پروردگارا ! ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما؛ ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ اور امام(خمینی) کی روح مطہر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ؛ ایران اور اسلامی جمہوریہ کو سربلند و سرافراز فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں تمام بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور جو دوست یہاں تشریف لائے اور مختلف موضوعات پر انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا،ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جناب ڈاکٹر لاریجانی کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس نشست کو اچھے طریقے سے چلایا۔
اگرچہ میں نے بار بار اس نشست میں گذ شتہ برسوں میں اور اس سے ملتی جلتی نشستوں میں کہا ہے کہ ہماری اس سالانہ نشست میں ایک علامتی پہلو ہے؛ یعنی ہم چاہتے ہیں کہ یہ ملاقات ملک کے اساتذہ، یونیورسٹی سے منسلک افراد کے حکومتی احترام کا مظہر ہو؛لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہ نشست نمائشی پہلو کی حامل ہے بلکہ اس کے برعکس توقع اور امید یہ ہے کہ اس نشست میں اٹھائے جانے والے موضوعات، حکومت کے پالیسی سازوں، وزرا،مختلف حکام اور خود ہماری کہ جو یہاں پر موجود ہیں،اس چیز کی طرف رہنمائی کریں گے جو اس سلسلے میں ترقی و پیشرفت اور علمی کام کے شایان شان ہے۔یہ جو میں نے عرض کیا کہ میں صرف آپ کی گفتگو سنوں گا ،اس جہت سے ہے۔فرض یہ ہے کہ جو قابل قدر اساتذہ یہاں بات کرنا چاہتے ہیں،انہوں نے لیا ہے اور ملک میں علم اور یونیورسٹی کی موجودہ صورت حال کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی اہم تجویز آئی ہے وہ اسے یہاں بیان کریں؛ہمیں اس نشست سے یہ توقع ہے۔البتہ اچھی باتیں بھی کہی گئی ہیں۔
ہم کیوں یونیورسٹی اور علم و تحقیق سے متعلق مسائل کے بارے میں یہ اہتمام کر رہے ہیں؟کیونکہ ہم پیچھے ہیں؛ہم کو پیچھے رکھا گيا ہے اور ہماری عزت اور ہمارا قومی و اسلامی تشخص اس سے وابستہ ہے کہ ہم اس شعبے میں ٹھوس کام کریں۔یہ اس کی وجہ ہے۔ہم مختلف ہیں فلاں ملک سے کہ فرض کیجیے جو ایک قلیل مدت تمدن کا حامل ہے۔ بعض ملک ہیں جو ایک سو سال بھی نہیں ہوا کہ ایک آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں؛اس جغرافیائی تشخص کا گزشتہ سو سال میں اس معنی میں اور اس نام کے ساتھ کوئی وجود نہیں تھا اور ہمارے ہی علاقے میں بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ جن کا تاریخ میں کوئی قابل ذکر ماضی نہیں ہے۔دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی ہیں؛لاطینی امریکہ میں یورپ میں اور دیگر مختلف جگہوں پر ایسے ممالک موجود ہیں۔لیکن ہماری قوم اور ہمارا ملک ایک قدیم ملک ہے؛ہماری قدیم تاریخ ہے؛ہمارا ماضی ہے؛ہم تازہ وجود میں نہیں آئے ہیں؛ہم اپنے ماضی سے بھی رہنمائی اور فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیں رہنمائی اور فائدہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔آپ اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی اور ساتویں صدی ہجری تک ملک کی علمی ترقی کے عمل پر نظر ڈالیے،اگر ہم اسی رفتار سے ترقی کرتے اور آگے بڑھتے تو آج چوٹی پر پہنچے ہوتے۔ہم نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی ہے؛کیوں نہیں کی ہے؟اس کا جائزہ لینے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کی ضرورت ہے؛ (شاہی) حکومتیں نالائق اور نااہل تھیں،ہمت کم تھی،اس کے بعد گزشتہ دو تین سو سال کے عرصے کے دوران غیر ملکی عوامل بھی دخیل رہے ہیں اور بالآخر حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اس رفتار سے حرکت اور ترقی نہیں کی ہے؛بلکہ پستی کی طرف ہی گئے ہیں۔
اب ہم ازالہ اور تلافی کرنا چاہتے ہیں،اب حکومت، ایک لائق اور اہل حکومت ہے؛قوم ایک بیدار قوم ہے؛دانشور ایسے ہیں جو مرد میدان ہیں؛اب ہم ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک باعث افتخار سند کے طور پر جیب میں ڈالتے ہیں اور کبھی اس کے بارے میں صرف باتیں کرتے ہیں،ایک وقت ہے کہ ہم مستقبل کے وژن کو ایک دستورالعمل کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ہر جزء پر عمل درآمد کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔اگر ہم دوسروں کے لیے نمونہ عمل بننا چاہتے ہیں تو ہمیں علاقے میں علمی مرکز اور محور بننا ہوگا،اس کا ایک راستہ ہے۔اس کا راستہ مستقبل کے وژن میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے،عمل درآمد کے شعبے کے ذمہ داروں اور حکام کو اسے واضح اور مشخص کرنا چاہیے؛ہمارا اصرار یہ ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام علم و تحقیق کے میدان میں صحیح،اچھے اور کامل طریقے سے انجام پائے۔اس اہتمام و انصرام کی وجہ یہ ہے۔
اس سلسلے میں البتہ بہت سی باتیں اور نصیحتیں ہیں کہ جنہیں ہم عام طور پر ان نشستوں میں عرض کرتے ہیں،آج بھی میں چند باتیں عرض کروں گا:
ایک بات جامع علمی منصوبے کے بارے میں ہے۔میں نے یہاں نوٹ کیا تھا کہ اسے ذکر کروں،خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار افراد نے اپنی تقریروں میں جامع علمی منصوبے کی طرف اشارہ کیا ہے، جناب ڈاکٹر لاریجانی نے بھی اس سلسلے میں بات کی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جامع علمی منصوبہ تیار کر کے پیش کیا جائے اور یہ علمی منصوبہ بندی کے لیے ایک دستورالعمل قرار پائے۔یہ ایک اچھی خوش خبری ہے؛لیکن مجھے اس سے پہلے اس کی اطلاع نہیں تھی ۔میں یہ جانتا ہوں کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے؛یعنی کچھ کمیٹیوں میں اس مسئلے پر کام ہو رہا ہے؛لیکن جس کام کی توقع ہے اور جو ہماری نظر میں انجام پانا چاہیے،وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں تاخیر ہو اور زیادہ عرصہ لگے؛ایک دو سال ہم بیٹھیں اور بالآخر ایک جامع علمی منصوبہ پیش کریں؛نہیں،ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی مدد سے دانشور،محققین اور اہم افراد بیٹھیں اور اسے پورا کریں اور ایک ایسی پختہ اور کامل چیز پیش کریں کہ جس کی بنیاد پر یونیورسٹیوں اور ملک کے مستقبل کے لیے علمی منصوبہ بندی کی جا سکے۔میں یہیں پر محترم وزراء اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے محترم عہدیداروں کو کہ جو یہاں تشریف فرما ہیں،ہدایت کرتا ہوں کہ اس مسئلے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے۔ہم اگر چاہتے ہیں کہ مستقبل کے وژن پر عمل درآمد ہو اور وہ علمی مقام و مرتبہ جو ملک کے لیے پیش نظر رکھا گيا ہے،وجود میں آئے تو ان کاموں کو انجام دینا ناگزیر ہے کہ جن میں سے اہم ترین ایک جامع علمی منصوبہ تیار کرنا ہے۔ یعنی ان اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں ایک اہم قدم اور باب ہے کہ جن کا ذکر کیا گيا اور بحمداللہ علمی ماحول میں یہ ہر ایک کی زبان پر ہے۔
دوسری بات جو محترم اساتذہ سے متعلق ہے،یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک کام یہ ہونا چاہیے کو شاگردوں کی تربیت کریں۔ استاد کی قدروقیمت اور استاد کا اعتبار اس کے شاگردوں سے ہے۔ہمارے اعلی دینی مراکز(حوزہ ہائے علمیہ)میں بھی ایسا ہی ہے۔اس استاد،اس فقیہ یا اصولی یا حکیم کی لوگوں میں زیادہ قدر ہے کہ جس کے وجودی آثار اس کے ممتاز شاگردوں میں نمایاں ہوں۔شاگردوں کی تربیت کیجیے۔یہ افراد جو آپ کی کلاسوں میں آتے ہیں _ چاہے وہ گریجویشن کی کلاسیں ہوں یا اس کے بعد اعلی تعلیم کی _ وہ آپ کے سامنے بیٹھتے ہیں اور آپ استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں،انہیں صرف ایک تقریر سننے والا نہیں سمجھنا چاہیے؛نہیں،آپ جیسا انہیں چاہتے ہیں اپنے ہاتھوں سے بنائیے،ان کے ساتھ میل جول رکھیے۔البتہ استعداد اور صلاحیت برابر نہیں ہے،جوش و ولولہ ایک جیسا نہیں ہے،مختلف قسم کی فضا اور ماحول یکساں نہیں ہے؛لیکن اساتذہ کے لیے یہ ہدف و مقصد میری نظر میں ایک سنجیدہ ہدف ہونا چاہیے،دیکھیے کہ آپ نے کتنے شاگردوں کی تربیت کی ہے۔شاگرد صرف وہی نہیں ہے کہ جو آپ کی کلاس میں حاضر ہوتا ہے؛وہ بھی ہے جسے آپ بناتے ہیں اور اسے ایک کارآمد اور علمی فرد کی حیثیت سے علمی دنیا کے حوالے کرتے ہیں۔
یہیں پر میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی حاضری اور موجودگي کے مسئلے کی طرف اشارہ کروں،جو یونیورسٹی کے قوانین کا حصہ بن گيا ہے،کہ اساتذہ کو ہفتے میں معین گھنٹوں میں حتما یونیورسٹی میں موجود ہونا چاہیے۔یہ بہت اہم چیز ہے؛اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ایک بات جو میں نے گزشتہ تین چار برسوں کے دوران بار بار کہی ہے اور اتنا زیادہ دہرایا ہے کہ اسے دوبارہ کہنا نہیں چاہتا تھا،طلبہ کے ساتھ استاد کی ہمراہی ہے؛سوال کا جواب دینا۔یعنی استاد اور شاگرد کا تعلق اور رابطہ صرف کلاس تک ہی نہیں ہونا چاہیے،طالب علم کے پاس موقع ہونا چاہیے کہ وہ استاد سے رجوع کرے اور اس سے معلوم کرے ،اس سے تشریح پوچھے،اس سے زیادہ تعلیم حاصل کرے؛بلکہ بعض مواقع پر استاد شاگرد کو اپنے کمرے میں بلائے اور ایک اضافی اور تکمیلی بات اسے سمجھائے یا اس کے ذمہ کوئی کام لگائے۔اسے کوئی علمی اور تحقیقی کام دے۔یہ سب کچھ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی موجودگي پر منحصر ہے۔ایک دن میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس اساتذہ کم ہیں،آج بحمداللہ اساتذہ کی ایک اچھی اور قابل ذکر تعداد موجود ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اسے اہمیت دینی چاہیے۔کلاس روم میں طالب علم کی تربیت _ جو میری نظر میں شاگرد اور دانشور کی تربیت ہے _ اس کا ایک حصہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی انہی چند گھنٹوں _ قوانین میں چالیس گھنٹے ہیں کی موجودگي پر منحصر ہے یعنی اساتذہ کو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اسے اہمیت دینی چاہیے۔
ایک اور مسئلہ کہ البتہ یہ مسئلہ تکراری ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، لیکن اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ دوبارہ عرض کر رہا ہوں _ تحقیق کا مسئلہ ہے۔ہم نے کابینہ کے اجلاس میں بھی سرکاری عہدیداروں کو ہدایت کی ہے اور کہا ہے، خود صدر جیسے حکام کے ساتھ خصوصی اجلاسوں میں بھی کہا ہے؛لیکن مسئلے کا ایک حصہ خود یونیورسٹیوں سے متعلق ہے کہ تحقیق کے بجٹ کو صحیح طریقے سے استعمال کریں؛خود اس کے مقام پر صرف کریں؛کیونکہ تحقیق تعلیم حاصل کرنے کا مآخذ و منبع ہے۔ہم اگر تحقیق کو سنجیدگي سے نہ لیں،تو ہمیں پھر برسوں غیرملکی ذرائع کی طرف دیکھنا پڑے گا اور انتظار کرنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی گوشے میں کوئی تحقیق کرے اور ہم اس کی تحقیق سے یا اس کی کتابوں سے استفادہ کریں اور یہاں تعلیم دیں۔یہ نہیں ہو گا؛یہ وابستگي ہے؛یہ وہی ترجمہ کا کام اور کسی ملک اور یونیورسٹیوں کے لیے علمی شخصیت کا آزاد و خودمختار نہ ہونا ہے۔کسی ملک کی یونیورسٹی،کسی ملک کا علمی ماحول دنیا کے ساتھ اپنے علمی تعلقات قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ ان سے علم حاصل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم ( کسی اور کا ) شاگرد بننے سے شرم محسوس نہیں کرتے؛استاد مل جائے،ہم اس کی شاگردی اختیار کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات پر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم ہمیشہ اور ہر مقام پر شاگرد ہی رہیں؛یہ نہیں ہو گا۔ایک علمی حلقے کے لیے یہ کمی اور نقصان کا باعث ہے کہ وہ تحقیق میں کہ جو علمی رشدوترقی کا مآخذ اور ذریعہ ہے،کمزور ہو؛اسے علمی لحاظ سے خود پر بھروسہ کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔البتہ دوسروں سے بھی استفادہ کرے،دنیا سے بھی تبادلہ کرے،اس وقت اور اس صورت میں دنیا میں علمی تبادلوں میں اپنا مناسب مقام پیدا کرے گا؛جب وہ اپنے علمی کام اور علم و دانش پر بھروسہ کرتا ہے۔یہ دنیا اور علمی تبادلوں میں اپنا اثر رکھتی ہے۔یہ ہے تحقیق کے بارے میں ہماری بار بار کی تاکید۔۔۔
وہ افراد جو یونیورسٹیوں میں علمائے دین کی حیثیت سے اور(میرے) نمائندہ ادارے کے دفتر کے عنوان کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں،انہیں خود کو یونیورسٹی میں دینی ارتقاء کا اصل ذمہ دار سمجھنا چاہیے ہم نے یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کو ہمیشہ ہدایت کی ہے کہ ان کے کاندھوں پر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے ماحول کو دینی کرنے کے سلسلے میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛یہ اپنی جگہ پر محفوظ،لیکن اگر تمام ضروری ابتدائی کام اور اقدامات انجام پائیں لیکن وہ عالم دین جو یونیورسٹی میں ( بحیثیت ہمارے نمائندے کے ) تعینات ہے، طلبہ کی نظر میں ایک گہری،بااستدلال،لائق تحسین اور دوسروں کو قائل کرنے والی دینی فکروسوچ کا منشا،منبع اور مرکز نہ ہو تو وہ تمام کام اور اقدامات بے فائدہ ہوں گے۔آپ کو یونیورسٹی کے ماحول میں مسلسل نئی اور مستدل دینی فکر پیش کرنی چاہیے اور طلبہ کی دینی سوچ کو بلند کرنا چاہیے۔ صرف متدین مذہبی اور حزب اللہی طلبہ کو ہی اپنے مخاطبین نہ سمجھیے؛البتہ وہ تو ہیں ہی۔آپ کے مخاطبین پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے تمام طلبہ ہیں؛حتی کہ وہ بھی جو دل میں دین کی طرف زیادہ مائل نہیں ہیں،وہ بھی آپ کے مخاطب ہیں؛ان کو بھی اپنی طرف کھینچیے اور قوی منطق،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا جا سکتا ہے،عناد و دشمنی کو حتی کم کیا جا سکتا ہے یا بہت سے مقامات پر ختم کیا جا سکتا ہے۔
یہی موضوع جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، کولمبیا یونیورسٹی کا واقعہ ،ایک اچھی مثال ہے۔انصافا اس قوی منطق،نفس پر تسلط یعنی اچھے جذبے،خود اعتمادی اور اس منطق پر اعتماد نے اپنا کام کر دکھایا۔البتہ ظاہر ہے کہ ابتدائی کام کیے گئے تھے؛اس تقریب کو براہ راست نشر کرنے کے لیے یورپ اور امریکہ کے بیس سے زائد ٹی وی چینلوں کو بلایا گيا تھا،جو کام انجام دیا گیا اور اس یونیورسٹی کے پروفیسر نے جو افسوسناک رویہ اختیار کیا کہ حقا اور انصافا نامناسب رویہ تھا اور یونیورسٹی کی ایک شخصیت کا رویہ نہیں تھا؛بلکہ ایک نفیس انسان کا رویہ نہیں تھا۔بنا برایں واضح تھا کہ انہوں نے ایسے کام انجام دیے تھے تاکہ مقابل (صدر احمدی نژاد ) کو غصہ دلایاجائے یا شرمندہ کیا جائے اور اسے ہمیشہ کے لیے ایک ثبوت اور دستاویز کے طور پر سیاسی و تشہیراتی شوروغل میں اپنے ہاتھ میں رکھیں؛لیکن خداوند متعال نے اس کے برخلاف کیا اور جیسا وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوا اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے تائید و تصدیق بھی کی۔میرا اعتقاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے ماحول میں یہ مسئلہ اتنی جلدی ختم نہیں ہو گا،ایک سوال کے طور پر،ایک مسئلے کے عنوان سے اور ایک بات کی حیثیت سے کہ مسئلہ کیا تھا،جاری رہے گا۔
اسلامی جمہوریہ کی منطق وہاں بیان کی گئی؛دین کی منطق بیان کی گئی؛علم،علم کے نور ہونے اور علم کے نورافگن کے ، خدا کے ہاتھ میں ہونے کے بارے میں اسلام اور دین کی نظر کے موضوع پر بات کی گئی۔ کہ یہ اچھی بحثیں ہیں _ اچھی بحث کی گئی۔وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو یہ خیال کرتے ہیں کہ فرنگی(یورپی،امریکی) ماحول میں جب وہ جاتے ہیں تو وہ خود انہی کی باتوں کو جو گزشتہ سو دو سو سال سے کی جا رہی ہیں،تکرار کریں اور اپنے آپ سے کہیں کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی اسلام کے پاس کہنے کے لیے کچھ ہے۔
آج حقا اور انصافا فکروسوچ کی دنیا میں _ جو لوگ فکروسوچ سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہمیں ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے _ ایک خلا اور ایک سوال مغربی دنیا میں موجود ہے؛اس خلا کو لبرل ڈیموکریسی کے نظریات پُر نہیں کر سکتے،جس طرح سوشلزم پر نہیں کر سکتا۔اس خلا کو ایک انسانی اور معنوی منطق پر کر سکتی ہے اور یہ اسلام کے پاس ہے۔ڈاکٹر زریاب مرحوم سے _ جنہوں نے یونیورسٹی کی اعلی تعلیم بھی حاصل کی تھی،اورایک اچھے دینی طالب علم بھی تھے انہوں نے بہترین دینی تعلیم حاصل کی تھی اور اسلامی علوم سے آشنا تھے اور امام(خمینی) کے شاگرد تھے _ میرے ایک دوست نقل کر رہے تھے _ میں نے خود ان سے نہیں سنا _ اپنی عمر کے آخری حصے میں وہ ایک مطالعاتی دورے پر یورپ گئے تھے،جب وہ واپس پلٹے تو انہوں نے کہا کہ آج جو چیز میں نے یورپ کی یونیورسٹیوں کے علمی ماحول میں مشاہدہ کی ہے،اس کو ملا صدرا اور شیخ انصاری کی ضرورت ہے۔شیخ انصاری کا کام قانون اور فقہ کے موضوع پر ہے اور ملا صدرا نے حکمت الہی میں کام کیا ہے۔وہ(ڈاکٹر زریاب)کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ملا صدرا اور شیخ انصاری کی تعلیمات کے پیاسے ہیں۔یہ خیال ایک مغرب شناس اور کئی یورپی زبانیں جاننے والے استاد کا ہے کہ جس نے برسوں وہاں زندگي گزاری اور علم حاصل کیا تھا اور اسلامی علوم سے بھی آشنا تھا۔یہ ان کا خیال ہے اور یہ صحیح بھی ہے۔
ہمیں خود اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں میں اس قوی منطق کی ضرورت ہے۔یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کی زبان کے ساتھ اس منطق کو فروغ پانا چاہیے۔یہاں بعض اساتذہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمارے عزیز اساتذہ کو بھی ان کی ضرورت ہے۔اساتذہ بھی خود کو دینی تعلیمات و معارف سے آشنائی سے بے نیاز نہ سمجھیں۔
اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھنے والے ایک محقق کہ جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوتی ہیں اور یورپ اور دیگر علاقوں میں ان کی کتابیں پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور ہمیں اس کی اطلاع ہے _ میں ان کا نام لینا نہیں چاہتا _ مجھے بتا رہے تھے کہ جب میں خلیج فارس کے ممالک سمیت عرب ملکوں میں جاتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ ان کے دانشور اور یونیورسٹی کے اساتذہ ہمارے دانشوروں اور اساتذہ کے مقابلے میں قرآن و حدیث سے زیادہ آشنا ہیں۔انہوں نے یہ بات تقریبا دس سال قبل مجھ سے کہی تھی۔البتہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی زبان ان کی زبان ہے؛یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کے ذہن میں سعدی ، فردوسی یا حافظ (شیرازی) کی ضرب المثل ہے؛ اس لیے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھی ہیں اور آپ کی زبان بھی وہی ہے،آپ کے ذہن میں باقی رہ گئی،اب آپ دیکھتے ہیں کہ جو مقررین حضرات آتے ہیں ان میں سے بعض شعر و ادب سے شروع کرتے ہیں۔ان کی زبان اور قرآن کی زبان چونکہ ایک ہے _ ان کا ایک امتیاز یہ ہے کہ قرآن کی زبان خود ان کی زبان ہے _ اس زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں؛اس لیے وہ قرآنی تعلیمات و معارف سے آشنا ہیں۔ان کے سیاستدانوں کو بھی ہم نے دیکھا ہے،ایسے ہی ہیں؛ ان کے سیاستدان بھی آتے ہیں_ تو اب اگرچہ وہ فاسق و فاجر اور معنویات سے دور افراد قرآن کی بعض آیات اور دین اور دینی کتابوں کے بارے میں بعض باتیں جانتے ہیں اور ان کے ذہن میں ہیں۔یہ کمی ہے،ہمیں اس کو دور اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔اب اس کے بنیادی اور اصولی ازالہ کے لیے البتہ منصوبہ بندی ضروری ہے؛لیکن جو مقدار اساتذہ کے لیے فوری طور پر ضروری ہے _ کہ جنہوں نے ایک عمر گزاری ہے اور زحمتیں کی ہیں _ یہ ہے کہ وہ خود کو اسلامی مسائل اور اسلامی تعلیمات و معارف سے آشنا کریں۔واقعا اس کام کے لیے منصوبہ بندی کریں؛خود اساتذہ بھی اور یونیورسٹی سے منسلک افراد بھی منصوبہ بندی کریں۔لیکن اصل مخاطب آپ طالب علم ہیں۔
بہرحال یونیورسٹیوں میں دینی فکر و سوچ کے ارتقاء کے مسئلے کو انتہائی سنجیدگي سے لینا چاہیے اور ہوشیار رہیے کہ ہمارے طلبہ اور یونیورسٹی کے روشن خیال افراد کے لیے فکری خلا پیدا نہ ہو۔ ہمارے پاس کہنے اور قائل کرنے والی بہت سی باتیں ہیں۔روشن خیالی کے معیارات سے مطابقت رکھنے والی نئی اور قوی باتوں سے تبلیغ کو وسیع کرنا چاہیے۔یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس دینی روشن خیالی ہے یا نہیں ہے؛میں ان بحثوں سے بیگانہ اور بیزار ہوں۔دینی مسائل اور اسلامی نظریاتی مسائل پر نئی اور تخلیقی نگاہ، بلاشبہ روشن خیالی کی نگاہ ہے اور اس کا مطلب بدعت کھڑی کرنا نہیں ہے۔انہی بنیادی تعلیمات اور اصولوں کو نئے زادیوں سے کہ، انسان وقت گزرنے کی برکت سے ان زاویوں کو پہچانتا ہے،سمجھنا اور بیان کرنا ہے اس سے ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
بہرحال امید ہے کہ خداوند متعال آپ تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو کامیاب کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا۔آج کی نشست بھی اچھی نشست تھی؛میرے لیے بھی مفید تھی۔بعض خصوصی باتوں کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو تفصیلات آپ نے بیان کی ہیں،انشاءاللہ اس کام کے ذمہ دار اداروں؛خود ہمارے دفتر میں اور ہمارے دفتر سے باہر ان کا جائزہ لیا جائے گا اور اس سلسلے میں جو اقدام ہم سے مربوط ہے انشاءاللہ انجام دیا جائے گا،جو حکومتی عہدیداروں سے مربوط ہے _ وزرائے محترم خود یہاں تشریف فرما ہیں _ ان سے کہا جائے گا اور انشاءاللہ اس پر عمل درآمد ہو گا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
١٠رمضان المبارک١٤٢٨ ھ ق مطابق 31 شہریور سنہ 1386 ہجری شمسی برابر ٢٢ ستمبر ٢٠٠٧ عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظميٰ خامنہ اي دامت برکاتہ نے ماہِ خدا اور ماہِ ذکر الٰہي کي مناسبت سے ملک کے اعلی عہديداروں اور حکام سے خطاب میں اہم سفارشات کیں۔ آپ نے حکام کے لئے اس مہینے سے کما حقہ بہرہ مند ہونے کو زیادہ ضروری قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پہلی رمضان المبارک سنہ چودہ سو اٹھائیس ہجری قمری، مطابق تیئیس شہریور سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی برابر چودہ ستمبر سنہ دو ہزار سات عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز جمعہ پڑھائي۔ قائد انقلاب اسلامی نے نماز جمعہ کے خطبوں میں ماہ رمضان المبارک کی خصوصیات کا ذکر کیا اور اسے قیمتی اور سنہری لمحات والا مہینہ قرار دیتے ہوئے اس سے بھرپور اور کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
طلب علم،تزکہ نفس اور ورزش و تفریح جوانوں کی ترقی کے اہم اسباب ہیں
آپ تمام لوگ ایک ایسے گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جسکی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے،کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے،کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہم نے بہت استفادہ کیا اور لطف اٹھایا آپ حقیقتا میرے بیٹوں کی طرح ہیں آپ عزيز نوجوانوں سے یہ باتیں سننا واقعا لذت بخش ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں یہ دیکھتا ہوں یہ خود آگاہی ملک کے نوجوانوں میں وسیع سطح پر روزبروز فروغ پارہی ہے۔یہ باتیں جو آپ نے یہاں بیان کی ہیں،ان میں سے ہر ایک _ چاہے وہ نیچرل سائنسز کے شعبے سے تعلق رکھتی ہو یا اخلاقی تعلیم و تربیت کے شعبے سے،چاہے اس کا تعلق سائنس و ٹیکنالوجی سے ہو یا دانشوروں اور باصلاحیت افراد کو وسائل و امکان فراہم کرنے سے _ یہ میری دیرینہ آرزوؤں میں شامل رہی ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران میں نے انہیں بیان کیا ہے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کہا ہے اور آج میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ایک عوامی خواہش میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں؛اس قومی کانفرنس کا انعقاد کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جو باتیں کی ہیں ان میں سے اکثر کو قبول کرتا ہوں؛ان پر اعتقاد رکھتا ہوں اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کیا ہے،یہ باتیں اور جو باتیں خود کانفرنس میں بیان کی گئی ہیں،نوٹ کر لی گئی ہیں۔ان میں سے ہر ایک پر توجہ دینی چاہیے اور عمل درآمد کرنا چاہیے اور ہو گا۔
ممکن ہے مختلف عوامل ان آرزوؤں تک پہنچنے میں ہمیں تھوڑی تاخیر میں ڈال دیں؛لیکن جان لیجیے اس علمی تحریک ،اس جذبے اور شکوفائی اور رشدونمو کو اب روکا نہیں جا سکتا اور یہ توفیق الہی سے آگے بڑھے گا،یہ کسی شخص پر قائم اور منحصر نہیں ہے۔یہ تحریک ملک میں شروع ہو چکی ہے؛ یہ آگاہی پیدا ہو چکی ہے اور انشاءاللہ یہ اپنی منزل پر بھی پہنچے گی۔
ہماری آج کی نشست کے میری نظر میں دو اہداف و مقاصد ہیں؛ایک،قومی اور عام سطح پر علامتی ہدف و مقصد،کہ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک میں _ ملک کی رائے عامہ کی سطح پر _ یہ خیال وجود میں آئے کہ ملک میں علمی تحریک سنجیدگی سے جاری ہے۔ملکی حکام اسے چاہتے ہیں اور سنجیدگی سے اس پر عمل کر رہے ہیں اور وہ علم،علم کے متلاشی اور علمی شخصیت کو اہمیت دیتے ہیں؛یہ آج یہاں پر ہمارے علامتی اجتماع اور علامتی اقدام کے معنی ہیں ۔
اور دوسرا مقصد ملکی حکام _ سرکاری حکام،مختلف شعبوں کے عہدیداروں _ کو ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ہے کہ وہ جان لیں اس خواہش پر عمل کرنا ہے۔بڑی پالیسیوں اور انتظامی پالیسیوں میں ملک کی علمی ترقی و پیشرفت کو قطعی اور حتمی پروگرام شمار کرنا چاہیے اور اسے مدنظر رکھنا چاہیے۔یہ دو ہدف و مقصد انشاءاللہ حاصل ہو گئے ہیں۔
میں صرف چند نکات بیان کروں گا؛بہت سی اچھی باتیں خود آپ لوگوں نے بیان کر دی ہیں۔ایک نکتہ جو نیا بھی نہیں ہے،یہ ہے کہ:ہمارے ملک کے لیے علمی تحریک ایک دوچندا ضرورت ہے؛ایک دوچندا اور حتمی ضرورت ہے۔ضرورت ہے؛کیوں؟اس لیے کہ علم ، کسی بھی قوم کی عزت و طاقت اور سلامتی کا باعث ہے _ اس کی میں مختصر وضاحت کروں گا _ دوچندا اور حتمی ہے؛ کیوں؟اس لیے کہ اس فریضہ پر بہترین زمانے کے سو سال کے دوران عمل نہیں ہوا؛قاجاری دور کے اواسط سے کہ جب دنیا کی علمی اور صنعتی تحریک نے عروج حاصل کیا اور پھلی پھولی تھی _ انیسویں صدی کے نصف دوم کے اواسط سے _ اور علم نے استعمار کی شکل میں خود کو دکھایا تھا؛مغرب علم کے وسیلے کو حاصل کر کے دنیا کو لوٹنے اور اس کے استثمار میں مشغول ہو گيا تھا۔اس دن سے لے کر _ تقریبا سو سال یا اس سے زیادہ _ کہ جو ہماری بیداری اور ہوشیاری کا دور تھا،اس عظیم فریضے،ملک کی علمی ترقی کے فریضے پر مختلف وجوہات کی بنا پر عمل درآمد رک گيا۔اس کی ایک بڑی وجہ تھی ( اور وہ یہ تھی )استبداد کی حاکمیت،طاغوتوں کی حاکمیت،کٹھ پتلی،کمزور اور ناتواں بادشاہوں کی حاکمیت، یہ پسماندگي ہمیں وراثت میں ملی ہے۔لہذا ہماری کوشش دوچند ہونی چاہیے۔پس،ایک ضرورت ہے اور یہ ضرورت دوچندا اور حتمی ہے۔
اس بارے میں علم ضرورت ہے،آپ لوگ جانتے ہیں،لیکن مناسب ہے میں ایک بار پھر بیان کر دوں کہ حقیقتا جس ملک کا ہاتھ علم کی جانب سے تنگ ہے ،اسے عزت،آزادی و خودمختاری،تشخص،شخصیت،سلامتی اور رفاہ کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔انسانی زندگی کی فطرت اور زندگی کے امور اسی طرح ہیں۔علم عزت دیتا ہے۔نہج البلاغہ میں ایک جملہ ہے کہ جملہ بہت ہی بامعنی ہے۔امیرالمؤمنین فرماتے ہیں(( العلم سلطان )) علم اقتدار ہے۔سلطان یعنی اقتدار،قدرت۔(( العلم سلطان من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ )) ؛ علم اقتدار ہے۔جو اس اقتدار کو حاصل کر لے ،وہ حکومت کر سکتا ہے؛ جو اس اقتدار کو حاصل نہ کرے (( صیل علیہ )) اس پر غلبہ ہو جائے گا؛ دوسرے اس پر تسلط اور غلبہ پا لیتے ہیں؛ اس پر حکم چلاتے ہیں۔اس حقیقت کو ایرانی قوم نے ایک طویل دور میں اپنے پورے وجود کے ساتھ محسوس کیا ہے۔ہم پر انہوں ( اغیار) نے حکم چلایا؛زور و زبردستی سے کام لیا؛ہمارے وسائل و ذخائر کو لوٹا؛ہماری قوم کو رفاہ سے محروم کیا۔ہمارے ملک کی اس سو سالہ دور کی تلخ اور محنت بار تاریخ ہے کہ جس کے نتائج ہم اس وقت بھگت رہے ہیں؛ہم نے تحریک شروع کی؛انقلاب نے حالات کو تبدیل کر دیا؛ورق کو الٹ دیا۔آج ہمارا ملک ایک ایسا ملک ہے کہ جو سیاسی و بین الاقوامی (سطح پر ) عزت کے لحاظ سے دنیا میں کم نظیر ہے؛اس بات کو ہمارے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔قوم بیدار ہو گئی ہے۔بہادر ہے۔ملک تشخص اور شخصیت کا حامل ہے؛لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ اس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔یعنی وہ لوگ جنہوں نے ہم سے سو دو سو سال پہلے علم حاصل کیا اور ہم سے چند میدان آگے حرکت کی اور آگے نکل گئے اور علم کی برکتیں حاصل کر لیں،اب زور و زبردستی کی زبان بول رہے ہیں۔یہی ایٹمی توانائی،سائنسی طاقت اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا مسئلہ،اس کا ایک نمونہ ہے۔(( آپ کے پاس نہیں ہونا چاہیے؛آپ پر اطمینان نہیں ہے ))؛ زور و زبردستی کی بات۔کون لوگ ہمیں کہتے ہیں:آپ پر اطمینان نہیں ہے؟ ! وہی لوگ جنہوں نے بیس سال کے دوران دو عالمی جنگیں شروع کیں اور پوری دنیا کو جنگ کے شعلوں میں جلا دیا؛یورپیوں نے۔
جو ہم سے کہتے ہیں کہ آپ پر اطمینان نہیں ہے،کہ جہاں پر بھی ان کا ہاتھ پہنچا انہوں نے اپنی فوجیں داخل کر دیں۔اس کی زندہ مثال عراق ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں؛اس کا قدیمی تر اور دردناک تر نمونہ فلسطین ہے؛اس کا ایک اور نمونہ افغانستان ہے؛اس کا ایک اور نمونہ کوسوو ہے؛اس کا ایک اور نمونہ دنیا کے مختلف علاقے ہیں؛اس کا ایک نمونہ ہیروشیما ہے۔
یہ لوگ ( یورپی مغربی ممالک ) کہ صنعتی دور میں دنیا کی اہم فتنہ انگیزی ان کی طرف سے ہوئی ہے ملت ایران کو کہ اب تک ان برسوں کے دوران ایک بار بھی _ منجملہ انقلاب کے بعد کے دور میں _ اس ملک ( ایران ) کی طرف سے کسی ہمسایہ اور غیر ہمسایہ ملک کے خلاف جارحیت کا مشاہدہ نہیں کیا گيا _ ہم اسلامی جمہوریہ حکومت کی بات کر رہے ہیں؛اس سے پہلے سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ کے دور میں ہمارے ملک کی طرف سے ابتدائی طور پر گولہ بھی کسی ہمسائے پر فائر نہیں ہوا ہے؛اس بات کو سب قبول کرتے ہیں _ کہتے ہیں:ہمیں آپ پر اطمینان نہیں ہے ! یہ یعنی زور و زبردستی۔اب شمالی افریقہ کے کسی ملک کی مانند ملک ( لیبیا ) کو ایسے آنکھیں دکھاتے ہیں کہ اس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں،اپنے تمام وسائل اور سازوسامان اکٹھا کرتا ہے بحری جہاز پر لادتا ہے اور کہتا ہے لے جائیے !
ملت ایران ڈٹی ہے اور ڈٹی رہے گی؛نہ صرف اس معاملے میں بلکہ ہم بہت سے دیگر معاملوں میں اسی طرح ڈٹے ہیں؛اب یہ معاملہ عوامی سطح پر لے جایا گیا ہے۔اول انقلاب سے لے کر آج تک دسیوں معاملوں میں ہم نے زور و زبردستیوں،بدمعاشیوں،ہٹ دھرمیوں اور دھمکیوں کے مقابل استقامت کا مظاہرہ کیا؛وہ جان چکے ہیں کہ ہم جھکنے والے نہیں ہیں۔لیکن یہ زور و زبردستی ہے۔یہ زور و زبردستی کس بنا پر ہے ؟ اس لیے کہ مقابل فریق علم سے مسلح ہے۔دیکھیے یہ آپ نوجوانوں کے لیے بہت عبرت انگیز ہے۔
امریکی حکومت کی مانند اخلاق سے عاری،معنویت سے عاری اور بین الاقوامی قوانین سے بے اعتنائی برتنے والی حکومت چونکہ علم کی حامل ہے اور اس نے علم کو ٹیکنالوجی میں تبدیل کیا اور اپنی زندگي میں اس کا استعمال کیا،وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح زور و زبردستی کرے۔(( من وجد صال )) جس کے پاس علم ہو،دوسروں پر حکم چلا سکتا ہے _ (( و من لم یجدہ صیل علیہ )) _ آپ کے پاس نہ ہو تو آپ پر حکم چلاتے ہیں۔دیکھیے،ضرورت یہاں ہے۔
ہر انسان کا ضمیر،وہ انسان جو اپنی ذات،اپنے تشخص،اپنے خاندان،اپنے بچوں،اپنی آئندہ نسل،اپنی قومیت،ملک اور اپنے قومی و ملی تشخص میں دلچسپی رکھتا ہے،اس معاملے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔میں جو برسوں سے علمی تحریک پر زور دے رہا ہوں،اصرار کر رہا ہوں اور اس پر عمل درآمد کا جائزہ لیتا ہوں تو اس کی وجہ یہی ہے۔
علم، سائنسی ترقی و پیشرفت،ہمارف ملک کی اولین ضرورت ہے؛البتہ تمام علوم _ ابھی عرض کروں گا _ صرف تجربی علوم نہیں بلکہ تمام علوم کو اپنے مقام پر حاصل کرنا چاہیے اور ہمارا ملک ایسا کر سکتا ہے۔بنابریں پہلے نکتے کا نتیجہ یہ ہے کہ آپ جو ملک کے دانشوروں کے عظیم ذخیرے کا ایک حصہ ہیں،قومی قوت و طاقت پیدا کرنے اور ملک کے مستقبل اور اس کی تعمیر میں مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارا ملک دانشوروں کی تربیت کی استعداد اور دانشوروں کا حامل ہونے کے لحاظ سے متوسط سطح سے بالاتر ہے۔حساب کتاب میں اس کا ذکر ہونا چاہیے۔میں نے ایک مرتبہ اسی مقام پر(حسینیہ میں) ملکی حکام کے اجتماع میں _ آج سے چند سال قبل _ کہا تھا ہمارے ملکی کی جغرافیائی سطح دنیا کی آباد جغرافیائی سطح کا تقریبا ایک فیصد ہے،ہمارے ملک کی آبادی بھی تقریبا سات کروڑ ہے کہ جو انسانی آبادی کا تقریبا ایک فیصد ہے۔بنابریں متوسط طور پر دنیا کے زیرزمین ذخائر میں ہمارا حق ایک فیصد بنتا ہے؛لیکن ہمارے پاس اہم ترین زیرزمین ذخائر ایک فیصد سے زیادہ ہیں: دھاتیں،فولاد،تانبا،سیسہ اور بہت سی دیگر معدنیات؛یہ تمام دنیا کے کل ذخائر کا تین فیصد،دو فیصد اور چار فیصد ہمارے ملک میں ہیں۔تیل،اس کی صورت حال تو آپ کو پتہ ہی ہے اور ہمارے پاس مشرق وسطی اور خلیج فارس کے تیل سے مالامال علاقے میں تیل کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔گیس،ہمارے پاس دنیا میں گیس کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔آپ دیکھیے ہماری قوم اور ہمارے ملک کے پاس انسانی آبادی کے فی کس سے کئی گنا زیادہ قدرتی ذخائر ہیں۔
میں اب یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہی نسبت کا اضافہ افرادی قوت کے سلسلے میں بھی ہے۔یعنی ہمارے ملک کے پاس دنیا کی دانشور افرادی قوت کا ایک فیصد نہیں ہے ،ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ہم اعداد و شمار نہیں دے سکتے؛اس لیے کہ اندازہ نہیں لگایا گیا ہے۔قدرتی ذخائر کے بارے میں میں نے جو کہا ہے اس کا اندازہ لگایا گیا ہے۔اس کا ہم نے اندازہ اور حساب کتاب نہیں لگایا ہے؛انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ آئندہ اس پر بھی کام ہو گا۔لیکن قرائن یہ ظاہر کرتے ہیں۔دنیا کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے جہاں دیدہ افراد سے جو باتیں ہم نے سنی ہیں،سب اسی کی تائید کرتی ہیں۔میں نے بہت سے افراد سے سنا ہے کہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ایرانی دانشوروں کی تعداد کہ جہاں ایرانی ہیں دوسرے ملکوں سے دوگنا اور تین گنا زیادہ ہے۔ڈاکٹر چمران مرحوم حقا اور انصافا خود ایک سائنسدان تھے _ اب ان کا علمی پہلو ان کے فوجی پہلو،جدوجہد،فداکاری اور شہادت کے پیچھے چھپ گيا ہے _ اور انہوں نے امریکہ کی اعلی ترین اور جدید ترین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی تھی۔وہ مجھے بتا رہے تھے اس مرکز میں دوسرے ملکوں کے دانشور بھی موجود تھے ؛لیکن یونیورسٹی کے اکثر شعبوں میں اور دوسری یونیورسٹیوں میں ایرانیوں کی تعداد زیادہ تھی اور وہ زیادہ ذہین اور ممتاز تھے۔۔۔۔ میں نے متعدد افراد سے یہ سنا ہے اور میرے پاس اس سلسلے میں متعدد رپورٹیں بھی موجود ہیں۔پس ہم مستقبل میں افرادی قوت کے لحاظ سے کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔
ہمارا ماضی بھی یہی ظاہر کرتا ہے ۔افسوس ہم ماضی سے بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔ہمارے نوجوان ہماری علمی تاریخ کو نہیں جانتے ہیں۔یہ ہماری ایک کمزوری ہے کہ البتہ تاکید کی گئی ہے اور کہا گيا ہے کہ اس شعبہ میں ایران میں علم کی تاریخ کے میدان میں _ کام کیا جائے؛اور کام ہو بھی رہا ہے اور اچھا کام بھی ہوا ہے۔کہ انشاءاللہ اس کے بعد مزید زیادہ کام ہو گا۔
ان تمام صدیوں میں ہمارے ملک میں ممتاز علمی شخصیات موجود تھیں کہ البتہ حالیہ صدیوں میں ان کی تعداد کم ہوئی ہے۔نالائق بادشاہوں اور مختلف داخلی جنگوں نے ( یہ کام) نہ ہونے دیا؛ورنہ مختلف ادوار میں اور دنیا کے رائج علوم کے مختلف میدانوں میں ہم دانشور پرور رہے ہیں۔
چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں _ یعنی دسویں اور گيارہویں صدی عیسوی کہ جو یورپ کے قرون وسطی کا دور ہے؛یعنی جہالت کا تاریک دور _ ہمارے پاس ابن سینا(بوعلی سینا) تھے،محمد بن زکریا رازی تھے۔یورپ والے جب ماضی پر نگاہ ڈالتے ہیں،تو وہ خیال کرتے ہیں کہ تمام دنیا قرون وسطی میں تھی! تاریخ بھی انہوں نے ہی لکھی ہے!افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کی تاریخیں بھی ہمارے ملک میں ترجمہ ہوئی ہیں اور ان کی ترویج ہوئی ہے۔یورپ کا قرون وسطی کا دور یعنی انتہائی تاریکی،ظلمت اور بےخبری کا دور؛یہ وہ دور ہے جب ہمارے پاس فارابی تھے،ابن سینا تھے،خوارزمی تھے۔دیکھیے فاصلہ کتنا ہے!
میں نے ایک مرتبہ نوجوانوں کے اجتماع میں(( جارج سارٹن کی تاریخ علم )) یا دیگر علوم کی تاریخ سے - اس وقت اس کے مؤلف کا نام مجھے یاد نہیں ہے۔یہ سب فرنگی(یورپی) ہیں؛میں ان کا نام دہرانا نہیں چاہتا - اس دور میں مسلمانوں کی ترقی و پیشرفت کی صورت حال کے بارے میں باتیں بیان کی تھیں۔
بنابریں ہم دانشور افرادی قوت کے لحاظ سے مشکل اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں؛نہ آج اور نہ ہی انشاءاللہ آئندہ۔روزبروز اسے بڑھنا چاہیے؛دانشوروں کو تلاش کرنا چاہیے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ: دیکھیے میرے عزیزو،ہم ملک کو علمی بنانا چاہتے ہیں؛لیکن ملک کے علمی بننے کا ہدف و مقصد یہ نہیں ہے کہ ملک کو مغربی بنائیں۔اشتباہ نہ ہو۔مغرب والے علم رکھتے ہیں۔لیکن اس علم و دانش کے ساتھ بعض ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن سے گریز کرتے ہیں۔ہم مغربی ہونا نہیں چاہتے؛ہم عالم ( دانشور) ہونا چاہتے ہیں۔آج کی دنیا کا علم کو جو عالم سمجھا جاتا ہے،انسان کے لیے ایک خطرناک علم ہے۔علم کو انہوں نے جنگ،تشدد،فحاشی و سیکس،منشیات،دوسری قوموں پر جارحیت،استعمار،اور جنگ و خونریزی کے لیے قرار دے رکھا ہے۔ایسا علم ہم نہیں چاہتے؛ہم ایسا عالم بننا نہیں چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ علم انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔انصاف کی خدمت کے لیے ہو،امن و سلامتی کی خدمت کے لیے ہو۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں۔اسلام ہم کو ایسے علم کی سفارش و ہدایت کرتا ہے۔
اس دن کہ جب اسلامی ممالک خصوصا ہمارا اسلامی ایران علم کے لحاظ سے دنیا میں آگے اور سربلند تھا،اس دن ہم نے کسی ملک کو نہیں لوٹا،کسی قوم کے خلاف جارحیت نہیں کی،کسی ملت سے زور و زبردستی نہیں کی۔اسلام علم کو ایمان،کتاب و سنت،اخلاقی تہذیب اور اخلاق و معنویت کے ساتھ چاہتا ہے۔میں مناجات شعبانیہ کے اس جملے سے جو اس بچی نے اپنی تقریر میں پڑھا،کتنی محظوظ ہوا :(( الہی ھب لی قلبا یدنیہ منک شوقہ و لسانا یرفع الیک ذکرہ )) یا (( صدقہ و نظرا یقربہ منک حقہ)) ؛ خدایا مجھے ایسا دل عطا کر کہ شوق و عشق اسے تجھ سے قریب کر دے۔مسلمان عالم ( دانشور) یہ چاہتا ہے؛خدا سے قربت،معنویت،اخلاص اور پاکیزگی۔اس وقت یہ علم ،یہ عظیم ذخیرہ،یہ عظیم ہتھیار انسانیت کے دفاع کے لیے استعمال ہوتا ہے؛انسانوں کی سلامتی،انسانوں میں انصاف،انسانوں اور انسانی معاشروں میں صلح صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد بنائیے۔
آپ آج ان کا لب و لہجہ دیکھیے جو سیاسی کرسیوں پر براجمان ہیں کہ جن کے پائے دولت اور منحرف علم - سرمایہ داری - پر استوار ہیں۔مغربی حکومتیں اس وقت ایسی ہیں۔اب مغربی طاقتوں کی چوٹی پر امریکہ ہے۔اس کی طاقت کی کرسی کے پائے سرمایہ داروں کی کمپنیوں کے پایوں پر ہیں اور اس کا حربہ اور وسیلہ علم ہے۔علم کے ذریعہ ہتھیار کو استعمال کرتے ہیں؛اطلاعات و معلومات کی جاسوسی اور چوری کے لیے علم کو ایک وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں؛دنیا کے مختلف علاقوں میں قیدوبند کے لیے علم کو وسیلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔آپ دیکھیے کہ اس قسم کے ممالک کے سربراہوں کا کہ جن کے پاس اس قسم کا منحرف اور گمراہ کن علم ہے، ان کا لب و لہجہ کیسا ہے؟ آپ نے چند روز قبل امریکی صدر ( جارج بش) کی تقریر سنی کہ کتنی نفرت انگیز،کتنی تشدد پسندانہ اور متکبرانہ تھی۔یہی غرور و تکبر انہیں روز بروز گرداب میں پھنساتا چلا جا رہا ہے۔آج آپ یہ جان لیں - میں اب آپ سے یہ کہہ رہا ہوں۔آپ وہ دن دیکھیں گے؛اس دن ہم نہیں ہوں گے،لیکن آپ نوجوان وہ دن دیکھیں گے - کہ یہ غلط بنیادوں پر بنایا گيا تمدن،گرداب میں ڈوبتا چلا جا رہا ہے؛ہر لمحہ دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اور سقوط کر جائے گا؛بلاشبہ یہی غرور،یہی احمقانہ تکبر اسی سقوط کے عوامل میں سے ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے۔یہ سقوط کر جائیں گے۔آج یہ اترا رہے ہیں؛لیکن پستی کی جانب حرکت کر رہے ہیں،خود بھی متوجہ نہیں ہیں؛البتہ ان کے ہوشیار اور باخبر افراد متوجہ ہیں جو برسوں سے فریاد کر رہے ہیں؛خبردار کر رہے ہیں؛خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں !لیکن کون ہے جو ان کی بات سنے؛مست ہی مست ہیں۔نشے میں ہیں۔
سکران سکر ھوی سکر مدامہ انّا یفیق فتی بہ سکران
ان میں دو نشے ہیں؛ہوس پرستی کا نشہ،طاقت کا نشہ۔جو آدمی ایک نشے کا شکار ہو اس کے ذہن میں کوئی چیز نہیں ڈالی جا سکتی؛جب کوئی دو نشوں میں مبتلا ہو تو پھر واویلا ہے!مثلا کوئی شراب بھی پئیے اور نشے کی گولی بھی کھائے انہوں نے دونوں کام کیے ہیں! اب علم کی تلوار بھی ان کے ہاتھ میں ہے۔ہنر مندی سے اور عقل کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور زمین پر گرانا چاہیے؛اور انشاءاللہ ہم ان کو چت کر کے رہیں گے۔
توجہ رکھیے کہ ہم اس علم کے پیچھے نہیں ہیں۔ہم ایسا علم چاہتے ہیں جو ہمیں معنویت،انسانیت،خدا اور بہشت سے قریب کرے۔آپ نوجوانوں کے دل پاک ہیں۔میں یہ باتیں کر رہا ہوں لیکن جو دل ان باتوں سے بننے اور شکل اختیار کرنے پر آمادہ ہے وہ آپ کا دل ہے۔آپ ہیں جو اپنے جوان دلوں اور اپنے شاداب و تروتازہ جذبات کے ساتھ اس راستے کو طے کر سکتے ہیں۔
چوتھا نکتہ یہ ہے:دانشوروں کے سلسلے میں ایک ذمہ داری حکومت کی ہے،ایک ذمہ داری دانشوروں کی ہے۔حکومت کی ذمہ داری وہی چیزیں ہیں جو - ہمارے عزیز صدر ( احمدی نژاد ) کے محترم نائب - جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے بیان کی ہیں۔یہ حکومت کی ذمہ داریاں ہیں،انہیں انجام دیا جانا چاہیے،میں بھی تاکید کرتا ہوں اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لوں گا انشاءاللہ۔خوش قسمتی سے حکومت کی پالیسی بھی یہی ہے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔یہ جو آپ نے کہا ہے کہ دانشوروں کو دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور مختلف مراکز میں ہونا چاہیے،یقینا اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔اب بھی میں کہنا چاہتا ہوں ایسا ہی ہے۔یہی افراد جو آج دانشوروں کی فاؤنڈیشن اور اس علمی ادارے کا انتظام چلا رہے ہیں،ہمارے نوجوان دانشوروں میں سے ہیں۔ان کا آپ سے عمر کے لحاظ سے زیادہ فرق نہیں ہے اور انہی دانشوروں کا حصہ ہیں کہ جو اب سرکاری عہدوں پر آگے آئے ہیں اور صدر کے نائب،علمی ادارے اور دانشوروں کی فاؤنڈیشن کی تشکیل تک اوپر آئے ہیں اور یہ عظیم کام درحقیقت آپ نوجوان دانشور ہی ہیں جو انجام دے رہے ہیں۔بعد میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے ۔
لیکن خود دانشور۔یہ آپ سے جو یہاں موجود ہیں،عرض کر رہا ہوں؛لیکن خطاب ملک کے تمام دانشوروں سے ہے۔ہمارے دانشور صرف آپ نہیں ہیں۔صلاحیت کے لحاظ سے ہزاروں،لاکھوں،شاید کروڑوں دانشور موجود ہیں کہ البتہ ان کو تلاش کرنا چاہیے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ہوشیار رہیے غرور کا شکار نہ ہوئيے۔ غرور،خود کو بڑاسمجھنا اور اپنا حق جتانا یہ صحیح نہیں ہے ؛ یہ آپ کے لیے نقصان دہ ہے ۔آپ اس گھر کے فرزند ہیں؛اس سرزمین کے فرزند ہیں۔آپ کے ماں باپ اس ملک میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جوانی صرف کی کہ اس عمارت کو تعمیر کریں تا کہ آپ اس عمارت میں آسائش سے زندگی گزار سکیں۔ان کے حقوق ہیں۔ہوشیار رہیے بزرگوں پر حکم نہ چلایا جائے،ان کی توہین نہ ہو،بے اعتنائي نہ ہو،ملک و قوم پ اپنا حق نہ جتایا جائے ۔البتہ میں نے کہا ہے کہ حکومت کے فرائض اور ان کے فرائض جو غیرسرکاری شعبوں میں توانائی رکھتے ہیں،معلوم ہیں؛ان کی ذمہ داری معین ہے؛لیکن آپ بھی اس طرف سے اس نکتے پر توجہ کریں۔
آپ عزیزوں کے لیے میری دوسری نصیحت:آپ اپنے لیے ایک تاریخی اور قومی کردار کی تعریف کیجیے،نہ کہ ایک ذاتی کردار کی۔جب انسان اپنے لیے ایک ذاتی کردار کی تعریف کرتا ہے - ایک بااستعداد آدمی - تو اس کا ہدف و مقصد یہ ہو جاتا ہے کہ دولت و ثروت حاصل کر لے،شہرت حاصل کر لے،سب اس کو پہچانیں،سب اس کا احترام کریں؛یہ ہو جاتا ہے ہدف و مقصد۔ان چیزوں کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اسے کوئی کام نہیں ہوتا،اس کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا؛لیکن جب انسان اپنے لیے ایک قومی کردار،ایک تاریخی کردار کی تعریف کرتا ہے تو پھر صورت حال مختلف ہو جاتی ہے۔آپ ملک کے مستقبل اور تاریخ کو پیش نظر رکھیے اور دیکھیے کہ قوم کو کہاں پہنچنا چاہیے اور آپ آج اس راستے میں کہاں پر ہیں۔آج آپ کو کون سا کردار ادا کرنا ہے تا کہ اس روز یہ قوم وہاں پر پہنچ سکے۔ایسا ہدف و مقصد اپنے لیے تعریف اور وضع کیجیے؛ہدف و مقصد کو اعلیٰ بنائیے ۔
میری تیسری نصیحت یہ ہے کہ اپنی ہمت بلند رکھیے۔میں نے نوجوانوں اور دانشوروں کے اجتماع میں کئی بار یہ بات کہی ہے۔ہمت یہ نہیں ہونی چاہیے کہ ہم کوئی خاص ٹیکنالوجی کہ جسے دوسروں نے بنایا ہے اور ہم ہمیشہ اسے خریدتے اور درآمد کرتے تھے،اب فرض کیجیے ہم خود یہاں بنا سکتے ہیں۔یہ تو کوئی بات نہیں ہے۔البتہ چیز ہے،کم اہمیت نہیں ہے؛لیکن وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے پیچھے ہیں۔آپ ہدف و مقصد یہ بنائیے کہ آپ کا ملک اور قوم ایک زمانے میں پوری دنیا میں علم و ٹیکنالوجی کا مرکز ہو۔میں نے ایک بارنوجوان دانشوروں کے اجتماع میں کہا تھا :آپ ایسا کام کیجیے کہ ایک وقت میں - اب ممکن ہے یہ وقت پچاس سال بعد یا چالیس سال بعد کا ہو - اگر کوئی دانشور تازہ ترین علمی و سائنسی نتائج حاصل کرنا چاہے تو وہ مجبور ہو کہ فارسی زبان سیکھے کہ آپ نے اپنی تحقیق فارسی زبان میں لکھی ہے؛جس طرح کہ آج آپ کوئی علم حاصل کرنے کے لیے کوئی زبان سیکھنے پر مجبور ہیں تا کہ آپ اصل کتاب حاصل کر کے اسے پڑھ سکیں۔آپ ایسا کام کیجیے کہ مستقبل میں آپ کے ملک کی صورت حال ایسی ہی ہو؛آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ایک دن ایسا ہی تھا؛ایرانی دانشوروں کی کتابیں وہ ( یورپی ) اپنی زبانوں میں ترجمہ کرتے تھے،یا اس ( فارسی ) زبان کو سیکھتے تھے تا کہ سمجھ سکیں۔یہ بھی برا نہیں ہے آپ جان لیجیے کہ طب کے موضوع پر لکھی گئی ابن سینا کی کتاب قانون کا گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران - میری صدارت کے دور میں - فارسی میں ترجمہ ہوا! میں اس کام کے پیچھے پڑا؛بعض افراد کو ذمہ داری سونپی،بعد میں میں نے سنا کہ ایک صاحب ذوق خوش قلم کرد مترجم نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا کہ آج اس کا فارسی ترجمہ موجود ہے۔اس وقت تک کتاب قانون کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا - ابن سینا نے یہ کتاب عربی میں لکھی ہے - اور اس کا فارسی میں ترجمہ نہیں ہوا تھا؛جب کہ کئی سو سال پہلے اس کا فرانسیسی میں ترجمہ ہو چکا تھا ! یعنی جن کے لیے یہ کتاب ضروری تھی وہ اسے لے گئے تھے اور اس کا ترجمہ کیا تھا۔دیکھیے،یہ ہے علمی مرجعیت؛وہ مجبور ہیں کہ آپ کی کتاب کا ترجمہ کریں یا آپ کی زبان سیکھیں۔اسے اپنا ہدف و مقصد قرار دیں۔اپنی ہمت بلند رکھیے۔علم و دانش کے میدان میں ترقی اور علم کی سرحدوں کو ختم کرنے اور توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے البتہ اس سلسلے میں میرے پاس اور باتیں بھی ہیں لیکن وقت ختم ہو گیا ہے اور میں مجبور ہوں کہ آخری نکتہ بیان کروں۔
ہمیں ملک کےلیے ایک جامع علمی وژن تیار کرنا چاہیے۔یہ بات میں نے گزشتہ سال بھی اس علمی مجموعہ میں کہی تھی،اس وقت بھی ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں یہ کام ہو رہا ہے،لیکن یہ کام زیادہ سے زیادہ سنجیدگي سے ہونا چاہیے۔ہمیں علم ہونا چاہیے کہ ملک کا جامع علمی وژن کیا ہے۔اس وژن میں کس علم کا کتنا اور کہاں پر مقام ہے۔ایسا نہ ہو کہ ہم ایک ایسے ایکسرسائز کرنے والے کی مانند ہوں کہ جو صرف بازوؤں کی ورزش کرتا ہے اور اس کے بازو موٹے ہو جاتے ہیں،جب کہ اس کی ٹانگیں اور شانے ایک کمزور آدمی جیسے ہوں! اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ایک ورزش کرنے والا صرف چھاتی کی ورزش کرے اور اس کے بقیہ بدن کے اعضاء میں کوئی طاقت نہ ہو،اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔،کام متناسب ہونا چاہیے۔ان عزیز نوجوانوں میں سے بعض نے نچرل سائنسز کے بارے میں بات کی ہے۔ہم نیچرل سائنسز کے بعض مضامین میں دنیا سے صدیوں آگے ہیں۔ان لوگوں سے کہیں آگے ہیں جو آج اس مضمون میں دنیا میں سر فہرست ہیں۔ہم ان پر کام کیوں نہ کریں؟نیچرل سائنسز کے مختلف شعبوں میں؛ادب،فلسفہ،تاریخ اور ہنر میں ہمارا قدیم ماضی ہے۔نیچرل سائنسز کے بعض مضامین ایسے ہیں کہ جو اگرچہ مغرب سے آئے ہیں،لیکن اگر ہم صحیح غور کریں تو اس کی بنیاد اور اصل کہ جو عقلانیت اور تجربے سے عبارت ہے،ایرانی - اسلامی روح اور فکر و سوچ سے ہے۔خرافاتی یورپ ،جیالوجی،اقتصاد،مدیریت(مینجمنٹ)،نفسیات اور سوشیالوجی کو اس شکل میں مرتب نہیں کر سکتا تھا۔یہ مشرق خصوصا ایران اسلامی کی علم دوستی اور تجربہ کرنے کی سوچ کی سوغات تھی کہ جو وہاں گئی اور اس تبدیلی کا باعث بنی۔بہرحال جن چیزوں میں ہم پیچھے ہیں ان میں ہمیں خود کو آگے لے جانا چاہیے اور ہم خود ایجاد کریں؛ترجمہ نہ کریں( دوسروں کے نظریات کی کاپی نہ کریں) یہ ہمارے لیے بہت زیادہ نقصان ہے۔
بنابریں جامع علمی وژن ایک لازمی چیز ہے۔مختلف علوم،ان میں سے ہر ایک علم،طلبہ کی تعداد،طلبہ کی جنسیت _ لڑکا،لڑکی _ مختلف علاقوں کا مقام و مرتبہ واضح ہونا چاہیے؛ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کام کرنا چاہتے ہیں۔یہ کام البتہ شروع ہو چکے ہیں،لیکن ان میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیجیے اور ان پر عمل درآمد کا جائزہ لیجیے۔
تحقیقات اور ایجادات کو کام میں لانے اور مفید بنانے کا مسئلہ - کہ اتفاقا بعض نوجوانوں نے اس کے بارے میں بات کی ہے - ان چیزوں میں سے ہے کہ جن پر میں زور دیتا ہوں۔ممکن ہے ہم تحقیقات انجام دیں،ایک تشہیراتی منصوبے میں ہمارا محقق اچھے مقام پر پہنچے؛لیکن اس کا ملک کی صورت حال، ملک کی ترقی و پیشرفت میں کوئی کردار نہ ہو؛یعنی یہ قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے۔ہمیں اپنے علم کو قومی دولت میں تبدیل کرنا چاہیے۔اس کے لیے کوشش ضروری ہے،منصوبہ بندی ضروری ہے۔اس کے ساتھ ایک اور نکتہ بھی ہے - کہ جو اسی جامع علمی وژن کے دائرے میں آتا ہے - کہ ہمیں علم اور ٹیکنالوجی کی زنجیر کو مکمل کرنا چاہیے،کہ بعض مقامات پر یہ زنجیر ٹوٹ گئی ہے،تاکہ حقیقی پیداوار کا سلسلہ شروع ہو اور علم تمام جہات سے اپنے اہداف تک پہنچ سکے۔
ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد آپ کا شوق،آپ کی ہمت،آپ کی دلچسپی اور متعلقہ افراد کی کوشش ہے مجھے امید ہے کہ خدا مدد کرے گا۔انشاءاللہ یہ کوشش کیجیے اور ہم دیکھتے ہیں کہ بحمداللہ ( کوشش ) شروع ہو گئی ہے؛یہ علمی تحریک شروع ہو گئی ہے اور انشاءاللہ نتائج تک پہنچے گی۔
میں خوش قسمت ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوئی اور مجھے امید ہے کہ یہ ملاقات ملک اور قوم کے اعلی اہداف و مقاصد تک پہنچنے میں مدد دے گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عید کے مبارک دن کی پوری امت مسلمہ،مومن و غیور ایرانی قوم اسی طرح ملک کے اعلی عہدیداران، اسلامی ممالک کے معزز سفرا کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں بلکہ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ میں اس عید کی مبارکباد تمام عالم انسانیت کو پیش کروں، کیونکہ ختم المرسلین کی بعثت، تمام انسانوں کے لئے ایک نیا موڑ ہے جہاں انسانی معاشروں کو سالہا سال کے رنج و الم سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں نے اس نئے باب کا حصہ بننے کی دعوت قبول کی اور کامبیاب و کامران ہو گئے اور جن لوگوں نے روگردانی کی وہ خسارے میں چلے گئے۔
ہماری نظر میں آج بھی انسانیت کو ضرورت ہے پیام بعثت کی اور انبیا ئے کرام کی تعلیمات پر عمل آوری کی جو مکمل طور پر اسلام اور قرآن کی تعلیمات میں مجتمع ہیں۔ تبلیغ دین کے مشن میں تین چیزیں سب سے زیادہ اہم ہیں اور ان پر قرآن کریم کی آیات میں بھی خصوصی تاکید کی گئی ہے: علم بصیرت، تزکیہ نفس و اخلاق اور عدل و انصاف۔
اگر غور کریں تو آج بھی عالم انسانیت کو انہیں تین چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔آج انسان علم کے میدان میں بہت آگے پہنچ چکا ہے، لیکن یہ علمی ترقی ایک خاص پہلو تک محدود ہے اور وہ ہے مادی پہلو، یعنی وہ علم جس کا تعلق انسان کی مادی زندگی سے ہے، انسانی معاشرے نے بلاشبہ سائنس میں بے پناہ ترقی کی ہے لیکن معنویت سے تعلق رکھنے والے علوم میں یعنی ان موضوعات کے سلسلے میں، جو انسانی ذہن کو خلقت کے آغاز اور خالق کی وحدانیت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس کے دل کو اس راہ کی جانب مائل کرتے ہیں جس پر گامزن ہونے کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے، ابھی بہت کچھ سیکھنا اور کرنا باقی رہ گیا ہے۔ جب اسلام حصول علم کی دعوت دیتا ہے تو یہ دعوت تمام پہلوؤں پر محیط ہوتی ہے۔ اخلاقیات، تزکیہ نفس اور معنویت اس سے بھی زیادہ اہم چیزیں ہیں۔ انسانی زندگی کی مشکلات، اخلاقیات اور تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔
سب سے پہلے مرحلے میں، اہم شخصیات، سرکاری حکام اور عہدیداروں کے لئے اس کی پابندی لازمی ہے۔ اگر انسانی معاشروں کی قیادت کرنے والے طبقے میں جو سیاسی، علمی اور سماجی شخصیات پر مشتمل ہوتا ہے، روحانیت، اخلاقیات اور پاکیزگی نفس کا ماحول قائم ہو جائے تو اس کا فیض آبشار کی مانند دیگر طبقات تک یقینا پہنچے گا اور عوام بھی اخلاق حسنہ سے آراستہ ہوں گے۔ مسلم ممالک کے حکام کی ذمہ داری اس سلسلے میں سب سے زیادہ ہے۔ حب دنیا، ہوس، گمراہ کن خواہشات، مادی بنیادوں پر دوستیاں اور دشمنیاں، جنگ کی آگ جس کا مقصد تسلط پسندی اور مادی مقام و منزلت کا حصول ہو، وہ بد امنی جس کا سرچشمہ سیاسی خباثتیں اور سیاستدانوں کی سازشیں ہوں، انسانیت کی سب سے بڑی مشکل ہے۔ ہر ملک کے لئے اخلاقی پاکیزگی، بہت ضروری ہے۔لوگوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت و انسیت، ایک دوسرے کے لئے احترام کا جذبہ، اپنے منصوبوں میں دیگر افراد کے حالات کا دھیان رکھنا، لوگوں میں مروت و ہمدردی، وہ چیزیں ہیں جوانسانی زندگی کو سکون بخشتی ہیں۔ اگر آج ہم دنیا میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ بے چینی، بد امنی اور تشدد دیکھ رہے ہیں اور بد امنی انسانی معاشرے کی سب سے بڑی مشکل یا کم از کم سب سے بڑی مشکلات میں سے ایک ہے، لوگ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، سماجی زندگی میں انہیں تحفظ حاصل نہیں، اپنے وطن اور اپنے ملک میں محفوظ نہیں ہیں، تو یہ بد امنی اور عدم تحفظ غلط سیاست کا نتیجہ ہے اور بری سیاست تسلط پسندی کا نتیجہ ہے، تسلط پسندی اخلاقیات سے دوری کا نتیجہ ہے اور اخلاقیات سے دوری تزکیہ نفس سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اسلام نے ہمیں تزکیہ نفس کی دعوت دی ہے اور یہ اسلام کی گرانبہا تعلیم اور ہدایت ہے ( یتلو علیکم آیاتناو یزکیکم و یعلمکم الکتاب و الحکمۃ ) آيات الہی کی تلاوت کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں تعلیم دیتے ہیں۔
عدل انصاف کا قیام تمام انبیائے کرام کی دعوت کا سب سے اہم اصول رہا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ انبیا کو بھیجنا، کتابوں کا نزول اور انبیا اور ان کے پیروکاروں کی یہ ساری زحمتیں اور کوششیں اس لئے تھیں کہ ( لیقوم الناس بالقسط) عوامی زندگی عدل و انصاف کے پیرائے میں ڈھل جائے۔
بھائیوں اور بہنو! اسلامی جد و جہد سے ہمارا مقصد و ہدف ایسے معاشرے کی تشکیل تھا کہ جو ان خصوصیات سے آراستہ ہو۔ اسلامی انقلاب کسی ایک گروہ، ایک جماعت یا افراد کی تسلط پسندی کے نتیجے میں رونما نہیں ہوا۔ اسلامی انقلاب کو ایران کے مسلمان عوام نےبرپا کیا اور اس انقلاب کا مقصد ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے، ایک مسلم سماج کی یہی خصوصیات ، یہی تشخص اور یہی معیار ہیں کہ وہ علم و اخلاق اور عدل و انصاف سے آراستہ ہو۔ سب کو اس کے لئے سعی پیہم کرنا چاہئے۔وہ رہنما اصول جن کے ہم پابند ہیں یہی ہیں۔ وہ اقدار جن کے لئے اسلامی معاشرہ تشکیل پایا ہے، یہی ہیں۔ یہی چیزیں ہیں جو ہماری مادی زندگی میں سکون و اطمینان دنیا میں ہمارے وقار اور ہماری سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہیں۔ سب کو یہ کوشش کرنا چاہئے کہ معاشرہ علم و اخلاق اور انصاف سے مالامال ہو۔ حکام کی فریضہ بھی یہی ہے۔ تمام عہدیداراں کی ذمہ داری یہی ہے۔ مختلف اداروں کے سربراہوں کا فریضہ یہی ہے۔عوام کے ہر فرد کی آرزو بھی یہی ہے۔ وہ حکام سے جس چیز کا مطالبہ کرتے ہیں علم و اخلاق اور انصاف سے آراستہ معاشرہ ہے۔اسلامی انقلاب کے شروع کے ایام سے لیکر اب تک جہاں بھی ہم نے اپنے اسلامی فریضے پر عمل کیا ہے، الہی احکام کی پابندی کی ہے، اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دیا ہے، ہم نے پیش رفت کی ہے اور جہاں بھی مختلف النوع تحفظات نے ہم پر غلبہ کیا، ہم نے اسلام کے ان بنیادو اصولوں سے کنارہ کشی کی، اپنے دل وجان میں دنیاوی زندگي کی رنگینیوں کو بسایا ہے وہیں ہمیں شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، ہم وہیں مغلوب ہو گئے ہیں اور وہیں ناکامیوں نے ہمیں گھیر لیا ہے۔
موجودہ دور کے دنیاوی مکاتب فکر، جو طاقتور ممالک میں عالمی سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں، انسانیت کی کامیابی و کامرانی کے ضامن نہیں بن سکتے۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کے حکام اور عہدیداران جو دعوے کر رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت انسانی معاشرہ دو بڑے مسائل سے دوچار ہے۔ ایک تو یہ کو انسان کو نجات کا جو راستہ دکھایا جا رہا ہے وہ دنیا پرستی کا راستہ ہے، دوسرے یہ کہ جو لوگ عالمی برادری کے امور کے نگراں کا رول ادا کر رہے ہیں، نیک اور بھلے لوگ نہیں ہیں۔ آپ عالمی حالات کو دیکھئے، مختلف اقوام پر جو مظالم ہو رہے ہیں، مسلم امہ پر جو ظلم ہو رہے ہیں، فلسطین میں جوظلم کا بازار گرم ہے، عراق و افغانستان میں جو بربریت پھیلی ہوئي ہے، اسلامی احکام اور اصولوں کی جو ناقدری ہو رہی ہے، ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو عناصر جنگ و جدال، مار کاٹ اور فتنہ و فساد کی جڑ ہیں وہی اسلام پر رجعت پرستی کا الزام لگا رہےہیں۔کچھ افراد پوری دنیا پر اپنی مطلق العنان حکومت اور تسلط کے خواہاں ہیں، آج سامراجی، شیطانی اور طاغوتی طاقت امریکہ پوری دنیا کو ہضم کر جانے کی کوشش میں ہے۔ وہ انسانی زندگی کے ہر گوشے اور پہلو میں اپنا تسلط دیکھنا چاہتا ہے اور دعوی یہ ہے کہ وہ جمہوریت کا حامی ہے انسانی حقوق کا حامی ہے۔ بد عنوان اور گمراہ ترین افراد نے انسانیت کو راہ راست پر لانے کا پرچم بلند کیاہے۔ یہ عالم انسانیت کے لئے بہت بڑا المیہ ہے۔
ہماری مسلم امہ آج ایک بہت بڑے امتحان اور آزمائش کے سامنے کھڑی ہے۔ ہم دوسروں کو نہیں دیکھیں گے خود مسلم امہ پر توجہ دیں گے۔ مسلم امہ کے پاس قرآن کریم ہے، اسلامی احکام ہیں، قرآن نے سعادتمند اور کامیابی سے سرشار انسانی زندگی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ مسلم امہ اپنے اسلامی تشخص کی جانب واپسی کےساتھ اس تخریبی لہر کو دبا سکتی ہے جو انسانی زندگي کی بنیادوں کو مٹا دینے کے لئے اٹھی ہے بس شرط ہے یہ کہ مسلم امہ ہمت سے کام لے۔ مسلم امہ کو چاہئے کہ شجاعت سے کام لے اور اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی ممالک کے حکام کی ہے انہیں چاہئے کہ کمر ہمت باندھیں۔
اسلامی یکجہتی یعنی مسلم ممالک مسلم امہ کی قدر کو پہنچانیں ہم ٹکڑوں میں بٹ گئے تو ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم ایک دوسرے سے دشمنی کرکے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ ہم نسلی، فرقہ پرستی ، شیعہ سنی، عرب اور عجم کے اختلافات سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ مسلم امہ ایک عظیم پیکر ہے جس میں بے شمار وسائل، بے پناہ سرمایہ ہے۔ لیکن مغربی دنیا نے ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ ہماری فرقہ پرستی کو مسلمانوں کی نابودی کا وسیلہ قرار دیا ہے، اور ہم نے ( مسلمانوں نے ) بھی نادانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس سازش کے سامنے ہتھیار ڈال دئے ہیں، اس جال میں پھنس گئے ہیں، ہمیں بیدار ہونا چاہئے۔
ہم نے موجودہ سال ( 1386 ھ ش ) کو اسلامی یکجہتی کا سال قرار دیا ہے تو یہ کوئي رسم کی ادائگي نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان بھائیوں کے درمیان تفرقہ اندازی کے لئے کوششیں ہو رہی ہیں، رقم خرچ کی جا رہی ہے تاکہ ہماری توانائیاں آپس ہی میں ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائي میں صرف ہو جائیں اور ہم میں آگے بڑھنے کی سکت نہ رہ جائے۔ ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں، عالم اسلام بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہمیں آگے جانا ہےاور اس سےبھی بڑھ کر ہمیں تہذیب نفس، اور خواب غفلت سے بیداری کی سمت قدم بڑھانا ہے۔
آج مغربی ممالک ڈیموکریسی کے نام سے جو چیز پیش کر رہے ہیں، در حقیقت عوامی حکومت نہیں ہے، عوامی حکومت تو اسلام نے قائم کی۔ اسلام میں عوام اور حکام کے تعلقات ایمان کی بنیاد پر استوار ہیں، یہ رابطہ محبت و انسیت کا رابطہ ہے، پر خلوص تعاون اور خدمت کا رابطہ ہے، حقیقی خوشی اور رضامندی کا رابطہ ہے۔ یہ طرز عمل آج ہمارے پاس ہے۔ ہم نے جب بھی جس مقدار میں بھی اس نسخے پر عمل کیا ہے اسی مقدار میں کامیابی اور کامرانی بھی ہمیں حاصل ہوئي ہے۔ آج عالم اسلام مجروح ہے۔ فلسطینی قوم کے لئے آنکھیں گریہ کناں ہیں، عراقی قوم کے لئے دل جلتا ہے۔ افغان عوام کے رنج و غم نا قابل برداشت ہیں، یہ سب شدید دباؤ میں ہیں یہ لوگ مسلم امہ کے سب سے بڑے دشمنوں کے شدید دباؤ میں ہیں۔
آج جو لوگ مسئلہ فلسطین میں فلسطینیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں، عراق میں عراقی عوام کو کچل رہے ہیں، یہ ایسے لوگ نہیں ہیں جنہیں عراقی یا فلسطینی عوام سے کوئی خاص دشمنی ہے بلکہ یہ مسلم امہ کے دشمن ہیں۔جہاں بھی ان کے قدم پڑتے ہیں یہی رویہ سامنے آتاہے۔ ان کے لئے شیعہ، سنی، عرب اور عجم میں کوئي فرق نہیں ہے۔ یہی تسلط پسندی ہے۔ یہ ہے طاقت کا نشہ کہ جس کے نتیجے میں مادی اہداف، ہوس و خواہشات کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا، عالم انسانیت کے لئے اس کا نتیجہ بھی سامنے ہے، مسلم امہ کو اب بیدار ہو جانا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مقدس ذات تمام مسلم فرقوں کے لئے نقطہ اتحاد ہے۔ سب کے دل نبی اکرم کی عقیدت سے لبریز ہیں۔ مسلم امہ کا ہر فرد اللہ کے اس منتخب بندہ کامل سے والہانہ لگاؤ رکھتاہے۔ اس مقدس ذات کو ہم مسلم امہ کے اتحاد کا محور قرار دے سکتے ہیں اور مسلم اقوام کو ایک دوسرے کے نزدیک لا سکتے ہیں۔
ہماری دعا ہے کہ خدا وند عالم ہماری ہدایت فرمائے، ہمیں صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی توفیق کرامت فرمائے۔ امام زمانہ علیہ السلام کو ہم سے راضی رکھے۔ درود ہو حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور شہدا کی پاکیزہ ارواح پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور اس پر گامزن ہونے میں ہماری مدد کی۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم الله الرحمن الرحيم
کچھ سال قبل ملک میں ایک مبارک علمی تحریک شروع ہوئي ۔سبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ مبارک تحریک اساتذہ ، طلباء ، محققین ، یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے ساتھ ساتھ سبھی علمی حلقوں میں پھیلی ہوئی ہے ۔ میری یہ ذمہ داری ہے کہ اس عظیم تحریک کی قدردانی و شکریہ اداکروں جسے پورے ملک میں ہمارے اساتذہ ، محققین اور دانشوروں نے شروع کیا ہے۔ ہمارے ملک میں خوش قسمتی سے شروع ہوئی اس عظیم اور وسیع تحریک کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے میری آج یہاں آمد ، حقیقت میں ایک علامتی قدم ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ تحریک اپنے شروعاتی دور میں ہے۔ میں نے اس جگہ کو اوّل تو رویان اور دوسرے جہاد دانشگاہی کی خاطر منتخب کیا ہے۔ سائنسی تحقیقاتی مرکز رویان ، ایک کامیاب ادارہ اور اس چیز کا ایک اہم و مکمل نمونہ تھا اور ہے جس کی انسان آرزو کرتا ہے ۔ مرحوم سعید کاظمی کی میرے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت کی وجہ یہی ہے اور آج بھی میرے دل میں اس عزیز جوان کا خاص مقام ہے۔ ان کا کام ، ان کا کام کرنے کا طریقہ ، ان کی انتظامی صلاحیتيں اور کاموں کا جائزہ لینا اور فرائض کی انجام دہی کی ان میں فکر ، یہ سب چیزیں ان میں کمال کی اس حد تک تھیں جسے آدمی پسند کرتا ہے اور اس کی آرزو کرتا ہے ۔
رویان سائنسی تحقیقاتی مرکز ان کی اور ان کے باقی ساتھیوں کی مدد سے کہ جو شروع سے ہی اس میں کام کررہے ہیں، پروان چڑھا۔ مجھے اس بات کا شروع سے اندازہ تھا ۔ میرے اور مرحوم کاظمی کے مشترک دوست نے پندرہ سولہ سال پہلے، مرحوم کاظمی کے منصوبے کو میرے سامنے پیش کیاتھا ، مجھے اس کام میں، ایک صحیح تحریک کی علامتوں کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس لئے میں نے کہا تھا کہ میں اپنے امکان بھر اس کام کا ساتھ دوں گا اور پشت پناہی کروں گا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا کیا میرا اندازہ یقین میں بدلتا گيا، اسے ٹھیس نہیں پہنچی۔ اگر اس مثالی شخصیت کا اک جملہ میں تعارف کراؤں تو یہ کہوں گا کہ وہ علم ، ایمان اور جد وجہد کا نمونہ تھے ۔ وہ ، مذہب پر عمل کے ساتھ ساتھ سائنس کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ۔ ایک بوجھ کی طرح نہیں بلکہ اسے وہ اسٹاف کے لئے بنیادی عنصر مانتے تھے ۔ وہ جانتے ہی نہیں تھے کہ تھکن کیا چیز ہے ۔ میرے خیال میں مرحوم کاظمی نے اپنی زندگی کو اسی کام کے لئے وقف کردیا تھا ، اس لئے میری نگاہ میں رویان کی بہت قدر و منزلت ہے ،اور آپ سب لوگ جو اس مرکز میں کام کررہے ہیں ، میرے لئے بہت محترم ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ رویان میں کام کرنے اور آگے بڑھنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے ۔ میرے حوالہ سے یہ کہا گيا ہے : یہ اسٹم سل ایک علمی تحریک ہے ، حقیقت بھی یہی ہے۔ جس طرح یہ اسٹم سل تحقیق کا ایک بیکراں سمندر ہے اور آپ اس کے بارے میں جتنا تحقیق کریں گے، آگے بڑھیں گے آپ کے سامنے تحقیق کا ایک نیا دریچہ کھل جائے گا جسے آپ تحقیق کا موضوع قراردے کر آگے بڑھ کر نئے نتیجوں تک پہنچ سکتے ہیں، رویان بھی ایسا ہی ہے آپ کا یہ ادارہ جتنا بھی کام کرے اور آگے بڑھے، نئي نئي منزلیں سامنے نظر آئیں گی۔ سائنس اور مذہب پر یقین رکھنے والے ہر ایک محقق کے بارے میں چاہے وہ اس ادارہ کا ہو یا کسی اور ادارہ کا، یہی حکم ہے یعنی یہ میدا بہت وسیع ہے۔ میں نے جہاد دانشگاہی ( جہاد دانشگاہی نامی ادارہ تہران یونیورسٹی کا ایک عظیم تحقیقاتی ادارہ ہے جس میں ایرانی محققین علم و سائنس کے میدان میں جہاد کرتے ہیں ) کا اس لئے انتخاب کیا کہ یہ انقلاب کا مبارک ثمرہ ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں دو مسجدوں کا موازنہ کرتے ہوئے اللہ فرماتا ہے : لمسجد اسّس علی التّقوی من اوّل یوم احقّ ان تقوم فیہ، فیہ رجال یحبّون ان یتطہّروا جہاد دانشگاہی بھی اسی طرح ان چنندہ اداروں میں ہے جو انقلاب کا ثمرہ ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جہاد دانشگاہی نے شروع سے جو نظریات قائم کئے اور جس طرح کام کیا سب صحیح ہے۔ نہیں ! ہم انسان کبھی صحیح سوچتے ہیں تو کبھی غلط، کبھی صحیح عمل کرتے ہیں تو کبھی غلط عمل کرتے ہیں ۔ کبھی کبھار کی غلطیوں کو کسی کی صلاحیت کے بارے میں فیصلہ سنانے کے لئے معیار قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ ہدف ، ہدف کی راہ میں چلنا اور بغیر کرے آگے بڑھتے رہنا معیار ہے، اگرچہ انسان سے کبھی غلطیاں اور لغزشیں بھی ہوجاتی ہیں۔ میری نظر میں جہاد دانشگاہی کا اپنا خاص تشخص ہے اور الحمدللہ اس سے بڑے اہم نتایج ملے ہیں ۔ اب میں تھوڑا بہت جہاد اور پھر اس کے بعد کچھ جملے علم ، تحقیق اور ملک کے دیگر امور کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا ۔
جہاد دانشگاہی ، یہ مرکب لفظ دو الفاظ پر مبنی ہے، ایک جہاد اور دوسرے دانشگاہ یعنی وہاں جہاد ایسا ہو جو یونیورسٹی کے شایان شان ہے ، ہر طرح کے کام کو جہاد نہیں کہا جا سکتا۔ جہد و کوشش اور جہاد کی اصل ایک ہے یعنی جہاد میں جد وجہد کا معنی موجود ہے لیکن جہاد صرف اس کو نہیں کہتے ۔ جہاد کامطلب ہے مقابلہ کرنا ، آج کی ہماری اصطلاح میں جہاد کی بھی کئي قسمیں ہیں مثلا علمی جہاد ، صحافتی اور مواصلاتی میدان میں جہاد ، سیاسی میدان میں جہاد ، فوجی و دفاعی میدان میں جہاد ، معیشتی میدان میں جہاد ، کھلا ہوا جہاد ، غیر اعلانیہ و پنہاں جہاد ، لیکن ان سب میں ایک مشترکہ عنصر ہے اور وہ ہے رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا موانع کو رفع کرنا۔ دوست سے جہاد کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ جہاد، دشمن کے مقابلے میں ہوتا ہے فرض کیجئے کہ طاغوتی حکومت میں اگر کوئی شخص ہرہفتہ پانچ کتاب پڑھتا تھا، یہ ایک اچھا کام تھا، جد و جہد تھی مگر جہاد نہيں تھا ۔ جہاد اس وقت ہوسکتا تھا جب وہ کسی ایسی کتاب کو پڑھتا جو طاغوتی حکومت کے خلاف اس کے افکار و ذہن پر اثر انداز ہوتی ، اس وقت اس کا یہ کام جہاد ہوتا ۔جہاد کی خاصیت یہی ہے ۔
سائنس اور ٹیکنالوجی آپ کے جہاد کا میدان ہے، یعنی آپ یہاں توپ و بندوق (شمشیر و نیزہ ) کو استعمال نہیں کریں گے بلکہ دماغ انسانی کے اندر سوچنے و غور کرنے کی صلاحیت، قلم، اور آنکھیں وغیرہ اس میدان کے ہتھیار ہیں ۔
آپ کا گروہ، ایک علمی گروہ ہے۔ آپ دیکھیں کہ آپ کے ملک ، آپ کے انقلاب اور انقلاب نے جو اہداف و مقاصد معین کئے ہیں اس کے خلاف کون ضدی دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے آپ کو اس دشمن سے مقابلہ کرنا چاہئے ۔اگر آپ کا کام اس راستہ پر ہوا تو جہاد کہلائے گا ۔اس لئے اگر آپ سائنس کے کسی ایسے شعبےمیں کوشش کررہے ہیں جو دشمن کو پسند ہے اور اسے کوئی تکلیف ہونے کےبجائے خوشی ہورہی ہے تو یہ جہاد نہیں ہے ۔ فرض کریں ، جہاد دانشگاہی یا اس سے مربوط کوئي ادارہ یہ کہے کہ فلاں سال ہمارے سو یا پانچ سو مقالے آئي اس آئی میں چھپے ۔ یہ معیار نہیں ہے ۔ یہ مقالہ کیا تھا ؟ کس مقصد کے لئے تھا ؟ اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟ اور جو آپ کے اہداف و مقاصد کے دشمن ہیں ان کا ان مقالوں کے بارے میں کیا موقف تھا ؟ کیا انہوں نے اس سے خطرے کا احساس کیا ؟ یا نہیں ؟ البتہ میری مراد ان کے سیاسی رہنما و شخصیتیں ہیں کیونکہ اہل علم کا طرز فکر الگ ہوتا ہے ۔ جب آپ نے کلوننگ کے اسٹم سل اور اس طرح کے کاموں کے بارے میں گفتگو کی اور میں نے یا کسی دوسرے شخص نے اس کام کو سراہا امریکی حکام نے یہ اعلان کیا کہ جینیاتی علوم (ژنتیک) کے لئے بھی ایک نگراں کمیٹی ہونی چاہئے، ان کے یہ کہنے کے پیچھے کیا مقصد ہے ؟ دشمن ، آپ کے اس میدان میں آگے بڑھنے سے پریشان ہوگیا ہے ۔اس کی ہزاروں واضح مثالیں ہیں جس دن آپ ایسا رڈار بنا لیں جو ملک کی فضائي حدود سے کسی چیز کو داخل نہ ہونے دے اس وقت آپ کا دشمن آپ سے پریشان ہوجائےگا، یعنی یہ وہ تیر ہے جو سیدھے اس کے سینے پر لگے گا ، اسے جہاد کہیں گے۔ جذبہ جہاد کے ساتھ کئے جانے والے کام ، علمی جد وجہد اور تحقیق کے لئے یہ عنصر لازمی شرط ہے۔
دشمن سے ہماری مراد صرف امریکہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہمارا کھلا دشمن امریکہ اور عالمی سامراج ہے لیکن دشمنوں کی کئی قسمیں ہیں ۔ کبھی ایک کثیر القومی کمپنی اس لئے آپ سے ناراض ہوجاتی ہے کہ آپ مثلا سمنٹ کا کارخانہ لگانا چاہتے ہیں وہ آپ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے، آگے بڑھنے نہیں دیتی یہاں پر مجھے جو رپورٹیں دی گئی ہیں اس میں یہ موضوع بھی شامل تھا وہ سمنٹ بنانے سے مربوط ایک نگراں کمیٹی بنانا چاہتے ہیں تا کہ کسی کے پاس سمنٹ کا کارخانہ لگانے یا سمنٹ پیدا کرنے کا حق نہ رہے ۔
جہاد کے جذبہ کے ساتھ کئے جانے والے کام کا مقصد معین ہونا چاہئے۔ اسے اہداف پر مرکوز ہونا چاہئے، اسے ہوشیاری اور دانشمندی سے کیا جانا چاہئے اور دشمن کو شکست دینے والا ہونا چاہئے ۔ جہاد کا معنی وہی ہے جسے ہم روز مرہ کی اصطلاح میں جد و جہد کہتے ہیں ، جیسے میں جد وجہد کررہا ہوں ، یہ ایک جد وجہد ہے ۔ جہاد کے یہ معنی ہیں اور یہ ہوئي جہاد کی تعریف ۔
یونیورسٹی میں جو سرگرمیاں ہوں معیاری ہونا چاہئیں وہ طلباء ، اساتذہ اور فعال علمی ذہنوں سے مطابقت رکھتی ہوں اور سبھی کاموں میں اس بات کا لحاظ رکھا جانا چاہئے، سطحی اور ہلکا کام مد نظر نہیں ہونا چاہئے ۔ البتہ کچھ سرگرمیاں سائنسی ہیں جیسے یہی ( اسٹم سل کے بارے میں ) تحقیق ۔ فرض کیجئے اگر علمی سرگرمیاں علوم انسانی کے میدان میں ہوں مثلا ادب میں ہو تو اس کا معیار اتنا بلند ہو کہ وہ کسی معمولی ادیب کے بس کی بات نہ رہے۔ ۔یعنی اس کی سطح بلند ہو ۔ تاریخ ، ادب اور فلسفہ جیسے موضوعات کے بارے میں بہت سی باتیں ہیں جن میں سے کچھ تو معمول کے مطابق عام باتیں ہیں، اگر اس بارے میں جہاد دانشگاہی نہ بھی بولے تب بھی بہت سے ہیں اس بارے میں بولنے والے۔ جہاد دانشگاہی کو ایسی بات سامنے لانی چاہئے جو خصوصیت کی حامل ہو ۔ مثلا آپ علوم قرآنی کے میدان میں سرگرم عمل ہیں ۔ بہت سے ہیں جو اسی سرگرمی کو انجام دے رہے ہیں ۔ سبھی سرگرمیاں خوب ہیں ، آپ جانتے ہیں میں ان لوگوں میں ہوں جو قرآنی سرگرمیوں کے متعلق احساس ذمہ داری رکھتے ہیں اور اس کے لئے خاص اہتمام کرتے ہیں۔ ایسا میں انقلاب سے پہلے بھی کیا کرتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے ۔ اگر ایک مسجد مین دس نوجوان اکٹھا ہوکر قرآن کی تلاوت کریں ، بہت اچھا کام ہے ، مجھے پسند ہے لیکن اگر آپ قرآنی سرگرمیاں انجام دینا چاہیں تو اس کا معیار معاشرے میں جاری سطحی سرگرمی سے بلند ہونا چاہئے ۔ فرض کریں کہ آپ کسی قاری کے لحن ، آواز اور تجوید کو بقیہ لوگوں کی طرح دہرانا چاہتے ہیں ، بہت اچھا کام ہے لیکن قرآنی علوم کے میدان میں جہاد دانشگاہی کی سرگرمیوں کا معیار اس سے بلند ہونا چاہئے ، اس بات پر غور کیجئے کہ جو یونیورسٹی میں ہیں انہیں قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے ، قرآن کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔آپ کو قرآن اس طرح سے پڑھنا چاہئے کہ جلسہ میں بیٹھے ہوئے لوگ اس کے مفہوم کو اپنے دل میں محسوس کریں ، آپ کا کلاس ایسا ہو جس میں قرآن کے مفاہیم سمجھائے جارہے ہوں ۔اس کے لئے جدت پسندی کی ضرورت ہے اور یہ آپ کا کام ہے ۔
اس لئے جہاد دانشگاہی کے پاس یہ امکانات اور وسائل موجود ہیں اور مجھے بھی جہاد دانشگاہی پر پورا بھروسہ ہے۔ بہت بڑے اور اچھے کارنامے انجام دیئے گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا کہ شروع سے اب تک میں نے جہاد دانشگاہی کو دین و تقوی کی سے منسلک پایا۔ اسے اسی حال میں باقی رکھئے ۔ کچھ منٹ پہلے یہاں کے عہدہ داروں کے ساتھ گفتگو میں میں نے کہا کہ اس بات کی کوشش کیجئے کہ جہاد (دانشگاہی ) کی شناخت بدلنے نہ پائے آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ انقلاب کے آغاز سے اب تک کچھ لوگوں کے افکار و خیالات ایک سو اسی درجہ تک بدل گئے ہیں یہ فطری روش نہیں ہے کہ آپ کہہ دیں کہ اس کی فطرت ہی ایسی تھی ، نہیں ، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ فطری یہ ہے کہ اگر انسان منطق اور دلیل کے ذریعہ کسی راستہ کوچنے تو اس پر مرتے دم تک چلتا رہے ۔ یہ فطری بات نہیں ہے کہ ہم کسی راستہ پر بہت جوش و خروش کے ساتھ چلیں اور پھر کچھ دور جانے کے بعد رخ بدل دیں یہاں تک کہ پوری طرح روگرداں ہوجائیں ۔
کچھ لوگ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ ابتدای انقلاب کا زمانہ کچھ اور تھا اور اب کا زمانہ کچھ اور ہے ، حالات بدل گئے ہیں ، ہم بھی بدل گئے ۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ زمانہ ایسے لوگوں کو بدل دیتا ہے جو کمزور، ناپائیدار اور بے بنیاد اعتقادات کے حامل ہیں ۔ زمانہ حریص اور لالچی لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے ۔قرآن کہہ رہا ہے : جولوگ جنگ احد سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ان میں ڈٹ جانے کی طاقت نہیں تھی، ان کی یہ لغزش ( ان کے ناپختہ افکار کا نتیجہ تھی) اس کام کے سبب تھی جسے انہوں نے پہلے انجام دیا تھا ۔جب تک ہم روح کی تربیت نہیں کریں گے اپنی شخصیت کو پختہ نہیں کریں گے اس وقت تک ہر چیز سے ہم متاثر ہو جائیں گے۔ ایک بار اثر انداز ہوگي، دوسری بار ہوگی تیسری بار اثر انداز ہوگي یہاں تک کہ پوری شخصیت ہی بدل جائے گي ۔ جب صحیح منطق اور صحیح فکر پر انسان کی دینی اور انقلابی شخصیت استوار ہوتی ہے اور اس میں فولاد کی طرح استحکام آجاتا ہے تو زمانہ گذرنے سے اس کی یہ شخصیت مزید نکھرکر سامنے آتی ہے اور اس میں استحکام پیدا ہوتا جاتا ہے۔ آدمی کچھ ایسا ہی ہے اور سرشت بھی ایسی ہی ہے۔ جہاد دانشگاہی کی ماہیت بدلنے نہ پائے کہ وہ کوئی غیر دینی اور غیر انقلابی شناخت اختیار کرے ۔
میں نے کچھ سال پہلے جہاد دانشگاہی کے کارکنوں کے بیچ کچھ گفتگو کی تھی، جو مجھے یاد نہیں تھی، اس کے ریکارڈ کو میرے سامنے لایا گیا میں نے پڑھا اور مجھے یاد آگیا ۔ اس کی صحیح و دینی شناخت کی حفاظت کیجئے ۔ خوشی کی بات ہے کہ یہ پہلے کی طرح ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جہاد دانشگاہی کا ڈھانچہ ، اس کی انتظامیہ، کارکردگی کی نوعیت پالیسی اور مقاصد اچھے رہے ہیں ۔ اس مرتبہ جو میں نے کہا تھا وہ یہ کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انقلابی ہونے یا انقلابی تحریک کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی تحریک جس میں بد نظمی اور افراتفری کا ماحول ہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں جناب وہ ایک انقلاب آیا تھا اب ختم ہوگیا۔ یہ غلط ہے۔ انقلابی تحریک میں خلفشارو انتشار، مطلق نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے برعکس انقلابی تحریکوں میں بہترین نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔
شروع میں انقلابیوں کے اندر جو بے نظمی دکھائی دیتی ہے اس کا سبب انقلابی تحریک کا ابتدائي مراحل میں ہونا ہے۔ چونکہ ایک پرانی عمارت (نظام ) کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کے بعد اس کی جگہ ایک نئی عمارت بنانی ہوتی ہے تو یہ ایک فطری امر ہے کہ اگر صحیح ستونوں پر نئی عمارت بن جاتی ہے تو اس کی بنیاد پر نظم و ضبط پیدا ہوجاتا ہے اور تحریک آگے بڑھنے لگتی ہے اور یہ ایک طرح کا انقلاب ہے ۔اس لئے انقلابی ہونے کو بے نظمی ، افراتفری اور قانون شکنی سے تعبیر نہ کیا جائے ۔ بہرحال جہاد دانشگاہی ان اداروں میں ہے جو ملک کے علمی و سائنسی مستقبل کو سنوارنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں ۔
علم اور تحقیق کے موضوع پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک ، علم و تحقیق کے میدان کو وسعت دیئے بنا ، ترقی نہیں کرسکتا ، اور یہ بات صرف ہمارے ملک سے مخصوص نہیں ہے علم و تحقیق ، کنجی ہے ترقی و پیش رفت کی ۔
کسی قوم و ملت کے دانشور ہونے کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے علوم سے فائدہ اٹھائے۔ یہ کام کا مقدمہ ہے علم کا دامن بہت وسیع ہے اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کرلیں کچھ مما لک یا قوموں کے سائنسداں ، علم کی نئي نئي منزلوں کو طے کریں ، جن میں سے کچھ سے خود فیضیاب ہوں اور جو بچ جائے اسے دوسروں کو دے دیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔اگر ایسا ہوگا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ کچھ ملک ہمیشہ پچھڑے رہیں گے ۔ملکوں کے درمیان غیر منصفانہ تعلقات ہوں گے اورترقی یافتہ ملک ، ترقی پذیر ملک ، پچھڑے ہوئے ملک اور شمال و جنوب جیسی تقسیم بندی کی باتیں سننے میں آتی رہیں گی جو آج کی سیاسی گفتگو میں عام ہیں اور پچھلی صدی میں بھی رائج تھیں ۔
سبھی انسان علم و تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ ان کی صلاحیتوں کی سطح میں فرق ہوسکتا ہے ہر ملک کے پاس باصلاحیت افراد ہیں جو علم و سائنس کے میدان میں اپنے لئے ایک مقام بنا سکتے ہیں ۔اگر کسی ملک کی تاریخ اور اس کے تجربے سے یہ پتہ چلتا ہو کہ اس کی توانائیاں صلاحیتیں اعلی سطح کی ہیں ، متوسط توانائیوں سے بالاتر ہیں اور ہمارا ملک بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے، تو ایسے ملک کو چاہئے کہ علم و سائنس کے میدان اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے اور اگر اس میں کامیاب ہوجائے تو سیاسی ، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں اس کا پچھڑاپن اور اس کے ساتھ امتیازی رویہ اور ناانصافی ختم ہوجائے گي۔ پھر وہ بھی آج کی بڑی طاقتوں اور دوسرے ملکوں سے برابری کرنے لگے گا ۔اس وقت خود اپنا انتظام چلا سکے گا ، خود کفیل ہوسکتا ہے، ایک چیز دے سکتا ہے اور ایک چیز لے سکتا ہے، جبکہ آج کی دنیا میں ایسا نہیں ہے۔
آج دنیا پر حکمفرما تسلط پسندانہ نظام کچھ دے کر کچھ لینے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ لینے پر یقین رکھتا ہے ۔ قوموں کے مال و دولت اور ان کے وسائل و ذرائع کو لوٹ لیتا ہے، ملکوں کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی اختیارات سلب کرلیتا ہے اور اس کے بدلے میں کچھ نہیں دیتا اور اگر دیتا ہے تو کبھی ضرررساں چیز تو کبھی بہت ہی حقیر سی چیز دیتا ہے ۔ آج دنیا کا سیاسی نظام و ڈھانچہ ایسا ہی ہے۔ تسلط پسندی اور تسلط کو تحمل کرنا۔
اس نظام کو توڑنے اور عالمی روابط میں ملکوں کو ان کی قومی صلاحیتوں کے مطابق مقام دلانے میں جو چیز سب سے زیادہ موثر ثابت ہوسکتی ہے وہ علم و سائنس ہے اس لئے علم و سائنس کے لئے سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ہماری تحریک شروع ہوچکی ہے لیکن ابھی ہم ابتدائی مراحل میں ہیں ۔ سائنسی اور تحقیقی مراکز کی مدد کی جانی چاہئے اور ساتھ ہی سائنسی، تحقیقی اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ منصوبوں کو آگے بڑھانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی سائنس اور تحقیق کا رجحان عام ہونا چاہئے۔ یہ صرف اساتذہ اور محققین تک محدود نہ رہے بلکہ طلباء کی سطح پر اس رجحان کو عام ہونا چاہئے ۔ یعنی طلباء میں علم سیکھنے اور اس میں آگے بڑھنے کا رجحان ہونا چاہئے اور یہ کام منصوبہ بندی سے ہوگا۔ سفارش، درخواست اور حکم و غیرہ سے اسے انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی اس سلسلہ میں ذمہ داری ہے چاہے وہ وزارت تعلیم ہو ، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ہو ، وزارت صحت ہو یا وہ ادارے ہوں جن پر ملک کی تہذیب و ثقافت کے امور کی ذمہ داری ہے ۔ وہ ایسا کام کریں جس سے یونیورسٹی کا ماحول حقیقی معنی میں علم دوستی کا ماحول بن جائے ۔ ہمارا نوجوان صحیح معنوں میں سائنسداں بنے صرف ڈگری لینے کے لئے وہاں نہ جائے ۔ اس کے لئے تحریک کی ضرورت ہے اور اسے جاری و ساری رہنا چاہئے اور اس سلسلے میں حکومت متعلقہ ذمہ دار اداروں اور با اثر لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ میری یہ تاکید ہے کہ جس وقت بھی سائنسی ترقی کے لئے کام کریں، اس بات کو نہ بھولیں کہ سائنس اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ دین سے عاری علم و سائنس ہوسکتا ہے کسی ملک کوکم مدت کے لئے کامیابیوں کی منزلوں سے ہمکنار کردے لیکن طویل مدت میں انسانیت کے لئے نقصان دہ ہے ۔جیسا کہ آپ دین سے عاری سائنس کے نقصانات کو دیکھ ہی رہے ہیں۔ دین سے خالی سائنس کا نتیجہ یہی ہوگا جسے ہم آج دیکھ رہے ہیں ۔ ایسا علم ایک طرف منہ زوری ، لوٹ کھسوٹ اور نسلوں کی تباہی کا ذریعہ ہے اور ایسے ہی علم کی دین ایٹم بم ہے تو دوسری طرف ایسے علم کا نتیجہ منشیات ہے اور ایسے ہی علم کے نتیجہ میں دنیا کےاکثر ممالک میں انسانی جذبہ سے خالی سیاستدان حکومت چلاتے ہیں ۔ سائنس کو دین کے ساتھ سمجھنا چاہئے سائنس کو مرضی خدا کے لئے حاصل کرن اور راہ خدا میں استعمال کرنا چاہئے۔ یہ ہمارا بنیادی اصول ہے۔
آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ایسے علم کی برکتیں بھی بہت ہیں۔ یہ نہ کہا جائے کہ اگر ہم نے سائنس کو مقدس مانا ، اسے دین کے ساتھ کردیا اور اللہ و رسول (ص) کی باتیں کرنے لگے تو اس سے ترقی نہیں ہوگي۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ آپ کا یہی جہاد دانشگاہی اور اس کے مؤمن کارکن کہ جن کی بدولت اتنے بڑے کام انجام پائے ہیں، اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ علم جب ایمان کے ساتھ ہوگا تو اس کی برکتیں بھی زیادہ ہوں گی ۔
کچھ چیزیں اور بھی لکھ کرلایا ہو مگر اب اسے ذکر کرنے کا وقت نہیں ہے ۔بارہ بج چکے ہیں (نماز ظہر کا وقت آگيا ہے ) مجھے امید ہے کہ ہماری یہ ملاقات ان شاء اللہ ملک کے علمی اور سائنسی حلقوں کے لئے قدردانی اور شکریہ کا پیغام ثابت ہوگي خاص طور سے جہاد دانشگاہی کے لئے اور خاص الخاص طور پر رویان انسٹیٹوٹ کے لئے، خدا ان شاء اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے ، مرحوم کاظمی کی روح کو اپنی نعمتوں سے سرشار کرے اور ان کے اہل خانہ کو جو یہاں تشریف رکھتے ہیں صبر و ضبط عطا فرمائے اور ہم روز بروز رویان انسٹیٹوٹ اور جہاد دانشگاہی کی ترقیوں کا مشاہدہ کریں۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ لوگوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ نگہبان کونسل کے ارکان اور دیگر نگراں اداروں کے ذمہ دار حضرات! آپ لوگوں نے اتنی بڑی اور اہم ذمہ داری اپنے دوش پر اٹھا رکھی ہے۔ انشاء اللہ اس عظیم فریضے کی ادائگی کے نتیجے میں خوشنودی باری تعالی آپ کے شامل حال ہو ۔
ہمارے ملک کے آئين میں نگہبان کونسل کا مسئلہ ، بہت ہی اہم اور حساس ہے اور یہ ادارہ دیگر اداروں سے قدرے مختلف ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور کئے جانے والے قوانین، آئين اور شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں اس کا تعین یقینا بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ اگر یہ کام نہ ہوتا تو پھر نظام کی اسلامی و شرعی ماہیت محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہ رہتی اور یہ ایسا حساس ادارہ ہے جو ہمارے نظام کے اسلامی تشخص کی بقا کا ضامن ہے۔ آئين کی تشریح بہت اہم اورسنگین ہے۔ کبھی بھی کسی وجہ سے آئین کی کسی شق کے سلسلے میں اختلاف رای پیدا ہو جائے تو نگہان کونسل کا نظریہ فیصلہ کن ہوتا ہے اور نگہبان کونسل کے نظریئے کی اہمیت آئين کے جتنی ہوتی ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ اسی طرح انتخابات کے انعقاد اور انتخابات کے شفاف ہونے کو یقینی بنانا بھی وہ اہم ذمہ داری ہے جو آئين میں نگہبان کونسل کو سونپی گئ ہے، اگر نـگہبان کونسل کی نگرانی نہ ہو اور اگر نگہبان کونسل انتخابات کے عمل کے شفاف ہونے کی تائید نہ کرے تو خود انتخابات پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے گا اور اس کی کوئي حیثیت باقی نہيں رہے گی۔ خواہ وہ پارلیمانی انتخابات ہوں یا ماہرین کی کونسل کے انتخابات یا صدارتی انتخابات، تمام انتخابات کی نگرانی نگہبان کونسل کی ذمہ داری ہے۔ نگہبان کونسل کے دوش پر یہ ایک سے بڑھ کر ایک اہم ذمہ داریاں ہیں ۔
آئين میں نگہبان کونسل کی شق، ملکی نظام کے صحیح ادراک کی علامت ہے ہی ساتھ ہی عقلی و منطقی نظام حکومت کے لحاظ سے بھی مدبرانہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدام ہے۔ جب نگہبان کونسل کی تشکیل کی تجویز پیش کی گئ، البتہ اصولی طور پر یہ ضروری بھی تھا کہ اسلامی حکومت کی کارکردگی کے دائرہ شریعت میں ہونے کی نگرانی کے لئے کوئی ادارہ ہو ، اس وقت بھی یہ تجویز معقول نظر آئی۔ چنانچہ اس وقت بھی جب جدید نظام اور عصر حاضر پر نظر ڈالی گئ تو ہم نے دیکھا کہ تقریبا تمام جگہوں پر اس قسم کا ایک ادارہ موجود ہے یعنی مستحکم اصولوں پر استوار حکومتی نظام میں شاید یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جو آئین اور نظام پر عملدرآمد کی نگرانی کرے۔ البتہ ہر نظام کے لئے اپنے اصول اور اقدار ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئي نگراں ادارہ ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ ملک کے مفاد میں ہے۔ اب کچھ جگہوں پر اسے آئینی عدالت کہا جاتا ہے، کچھ جگہوں پر آئین کا محافظ ادارہ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے ادارے ہوتے ہیں۔ ایران میں اسے نگہبان کونسل کہا جاتا ہے۔ البتہ اوائل انقلاب سے ہی بعض افراد کو نگہبان کونسل کے وجود پر اعتراض رہا ہے۔ ہمارے خیال میں اس قسم کا اعتراض نا انصافی تو ہے ہی، عالمی معاملات سے عدم واقفیت کی علامت بھی ہے۔ نگہبان کونسل یا ایسے کسی ادارے کے بغیر جو حکومت کی کارکردگی پر نظر رکھے، اصول و اقدار پر استوار کسی نظام کو چلانا عقل سے بعید نظر آتا ہے۔ اس بنا پر آئین میں نگہبان کونسل کی تشیکل کی شق ، نہایت اہم اور ضروری تھی۔ آج ہم جیسے جیسے آگے بڑھ رہے ہيں، نگہبان کونسل کی اہمیت واضح ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے مختلف مواقع آئے جب واضح طور پر محسوس کیا گیا کہ آئین میں نگہبان کونسل کی شق کتنی ضروری اور کارآمد تھی۔ خدا نے ہم پر کتنا بڑا کرم کیا ہے جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائي فرمائي۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اعتراضات کو مسترد فرما دیا اور نگہبان کونسل کی تشکیل کا دفاع کیا، آپ کتنا بڑا کام کررہے تھے اور آپ کی دور رس نگاہیں کن ممکنہ مسائل پر مرکوز تھیں، اس کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ اسلامی حکومت کے دشمن، اپنے پروپگنڈوں میں جس چیز کو ہدف تنقید قرار دینا کبھی نہيں بھولتے وہ نگہبان کونسل ہے۔ وہ اس اہم اور موثر ادارے کی موجودگی سے پریشان ہیں۔ ہمیں نگہبان کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے، ادارے میں شامل فقہاء کا بھی اور قانون داں حضرات کا بھی، جو بظاہر ایک چھوٹے سے ادارے میں عوام کی توقعات مد نظر رکھتے ہوئے اتنا عظیم فریضہ ادا کر رہے ہيں ۔ عوام کو یہ اطمینان ہے کہ نگہبان کونسل جو اقدام کرتی ہے وہ آئین کے دائرے میں اور عقلی و منطقی بنیادوں پر استوار ہوتاہے۔ کونسل کے اقدامات میں مکمل نظم و نسق اور ہم آہنگی ہونا چاہئے، اس کے اقدامات کا بر وقت ہونا بھی ضروری ہے، تاخیر مناسب نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس عرصے میں کسی کو اس ادارے سے شکایت کا موقع نہیں ملا۔
نگراں کمیٹیاں بھی نگہبان کونسل کی ہی ماہیت کا حامل ہیں یہ کمیٹیاں جو فیصلے کرتی ہیں وہ در حقیقت، نگہبان کونسل کے فیصلوں کی ہی ایک کڑی ہے، اس کے بارے میں میں یہ کہوں گا کہ یہ بھی بہت اہم کام ہے ۔ اگر کچھ لوگ اعتراض کرتے ہيں اور اس نظام پر سوال کھڑے کرتے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہيں ہے۔ نظریات کا الگ الگ ہونا ایک فطری امر ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر ادارہ اور ہر انسان پوری طرح آگاہ ہو کہ وہ کر کیا رہا ہے۔
آپ کے شانوں پر بہت حساس اور اہم ذمہ داری ہے۔ آپ ان افراد اور اداروں کی نگرانی کرتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قوم کا مستقل ہے۔ ماہرین کی کونسل کے اراکین ہوں پارلیمنٹ کے اراکین ہوں یا صدر مملکت، سب میں خاص صلاحتیوں اور کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے، ورنہ یونہی کسی کو قوم کے مستقبل کا ذمہ دار نہیں بنایا جا سکتا۔ ہر کسی کو تو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آئے اور قوم کے لئے قانون سازی کرے، احکام جاری کرے کہ یہ کرنا ہے وہ نہیں کرنا ہے۔ اس کے لئے کچھ صفات کا ہونا شرط ہے۔ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرنے والے افراد کے لئے کچھ شرطیں لازمی ہیں، کچھ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ ہر کسی کو تو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرے اور چاہےتو ہٹا دے۔ یہ ماہرین کی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اعلی صلاحیتوں کے حامل کچھ چنندہ افراد کو یہ اختیارات دئے گئے ہيں۔ یا وہ لوگ جو ملک کے لئے قانون سازی کرتے ہیں اور حکومت کے لئے لائحہ عمل طے کرتےہیں، حکومت کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ اسے کس پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہے، در اصل ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، ان اہم اور حساس عہدوں پر فائز ہونے کے لئے کچھ خصوصیات اور شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ یا جو حکومت کی باگڈور سنبھالنے والا ہے اور جس کے اختیار میں ملک کا سارا سرمایہ اور وسائل قرار پانے والے ہیں، جو چار برسوں تک ملک چلانے والا ہے، نظم و نسق پر نظر رکھنے والا ہے، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا ہے، جو ملک کو بنانے اور سنوارنے والا ہے، مسائل کو حل کرنے کی سنگین ذمہ داری قبول کرنے والا ہے وہ ہر کوئی تو نہيں ہو سکتا۔ اس میں کچھ صلاحتیوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان صلاحتیوں کا تعین کون کرے گا ؟ کیا کسی ایسے ادارے کی ضرورت نہيں ہے جو اس بات کا تعین کرے کہ کس شخص میں یہ صلاحتیں ہیں اور کس میں نہيں ہیں؟ ظاہر سی بات ہے کہ ایسے ادارے کی ضرورت ہے اور وہ ادارہ بلاشبہ نگہبان کونسل اور اس کے نگراں شعبے ہيں۔ دیکھیں یہ کتنا اہم کام ہے۔ جب ہماری سمجھ میں یہ آ جائے گا کہ یہ کونسل کتنی اہم ہے تو ہم یہ بھی سمجھ لیں گے کہ کیوں اسلامی نظام سے ناراض کچھ لوگ اس ادارے کے خلاف پروپگنڈے کرتے ہیں۔ غیر ملکی پروپگنڈہ مشنری کا کام بھی یہی ہے۔ ہمیشہ اور خاص طور پر انتخابات کے موقع پر نگہبان کونسل کا کردار اور کونسل کی جانب سے انتخابات کے امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیا جانا، دشمنوں کی ہنگامہ آرائی کا موضوع قرار پاتا ہے۔
کسی کو اہل یا نا اہل قرار دینا ایک ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اسے حکومتی نظام سے ہٹا دیں تو پھر نظام میں کچھ باقی نہيں بچے گا۔ کیوں کر اس کی اجازت دی جا سکتی کہ ایک آدمی جو نظام کے اصولوں پر یقین نہیں رکھتا ، جس کا طور طریقہ درست نہیں ہے، جسے ملک اور قوم کے مسائل سے کم اور غیر ملکیوں کے مفادات سے زیادہ دلچسپیی ہے، آئے اور حکومت یا قانون ساز ادارے کا سربراہ بن جائے؟ یہ مناسب ہے ؟ انتخابات کےامور کی دیکھ بھال نگہبان کونسل کی اہم ذمہ داری ہے، یہ بہت اہم اور ضروری کام ہے۔ اس کے خلاف جو ماحول تیار کیا جاتا ہے اس پر بالکل توجہ نہیں دی جانی چاہئے۔ ہاں کام صحیح ڈھنگ سے انجام دیا جانا چاہئے ۔ جتنا یہ کام اہم ہے اتنا ہی اس کام کو صحیح طریقے سے انجام دینے کی اہمیت ہے۔ یعنی معیاروں کو صحیح طور پر سمجھنا چاہئے اور صرف انہی معیاروں کی بنیاد پر کسی کی صلاحیت کی تائید یا تردید کرنی چاہئے۔ ان معیاروں سے آگے نہيں بڑھنا چاہئے اور نہ ہی ان پر توجہ دینے میں کوئی کوتاہی کرنا چاہئے۔
معیار کا مطلب ہے قوانین اور اصول ۔ ذاتی راے کی کوئي حیثیت نہیں ہے۔ سیاسی رجحان، جماعتی رجحان یا دھڑے بندی بالکل نہيں ہونی چاہئے، سفارش پر توجہ نہيں دی جانی چاہئے۔ خدا کو حاضر و ناظر جان کر معین معیاروں پر نظر رکھنا چاہئے، نگرانی کے معاملے میں بھی اور پارلیمنٹ کے قوانین کی تائید یا تردید کے معاملے میں بھی۔ صرف قانون کو معیار قرار دیا جانا چاہئے۔ قانون کا احترام ضروری ہے۔ ممکن ہے کبھی انسان یہ محسوس کرے کہ اس وقت قانون کی پابندی شائد مصلحت کے خلاف ہو، لیکن ایسے موقع پر بھی قانون کی پابندی کو مصلحت کوشی پر ترجیح دینا چاہئے۔ کیونکہ اگر یہ ہونے لگے کہ لوگوں کے خیالات و نظریات اور مصلحت پسندی کی وجہ سے معیار اور قوانین نظر انداز کر دئے جائيں تو قانون کا وجود ہی عبث ہوکر رہ جائے گا ۔ کسی دن ایک شخص کسی کام کو مصلحت کے مطابق سمجھ رہا ہے لیکن دوسرے دن دوسرے شخص کو کسی اور کام میں مصلحت نظر آنے لگے۔ یا ایک ہی دن دو لوگ الگ الگ کاموں کو مصلحت کے مطابق تصور کریں۔ ذاتی نظریات پر قوانین کو قربان کیا جانے لگا تو قانون کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائےگا ۔ اصول و قانون کو تمام مصلحتوں، آراء و نظریات پر ترجیح حاصل ہے۔ البتہ نگہبان کونسل میں قانونی و فقہی استدلال و بحث کے وقت ممکن ہے کچھ تبدیلیاں ہو جائيں اس میں کوئي مضائقہ بھی نہيں ہے ہر مجتہد و استدلال کرنے والے کی رائے میں تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ آج دلیلوں کی بنیاد پر وہ کسی نتیجے پر پہنچا ہے، کل ممکن ہے کہ مزید غور کرنے کے بعد اس کا خیال بدل جائے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہيں ہے۔ مختلف امور سے متعلق نگہبان کونسل کی آراء میں تبدیلی میں کوئي قباحت نہیں ہے لیکن اس تبدیلی کو بھی قوانین و اصولوں کی کسوٹی پر پورا اترنا چاہئے ۔
دوسری بات، جس کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں، یہ ہے کہ نگہبان کونسل میں جو چیز نظریئے اور رائے کے طور پر سامنے آتی ہے، خواہ وہ آئین کے سلسلے میں ہو، شریعت کے سلسلے میں ہو یا امیدواروں کی اہلیت کی تائید و تردید کے سلسلے میں ہو ، اس کے لئے پختہ دلیل و منطقی استدلال ضروری ہے۔ استدلال کا یہ عمل بڑی اہم قانونی شقوں اور پختہ دلیلوں پر استوار ہوتا ہے جو بعد میں قانونی اور شرعی امور سے سروکار رکھنے والے افراد کے لئے مستند مآخذ اور دستاویز قرار پا سکتا ہے۔ نگہبان کونسل میں کبھی کسی مسئلے پر بہت تفصیلی بحث ہوتی ہے۔ بڑی کارآمد باتیں اور نادر خیالات سامنے ہیں ، یہ بہت اچھی چیز ہے، یہ عمل جاری رہنا چاہئے، یہ گراں بہا فکری سرمایہ محفوظ کرکے محققین کو فراہم کیا جانا چاہئے تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
اس طرح نگہبان کونسل ہمارے لئے اللہ کی ایک نعمت ہے اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے اور یہ کوشش کرنا چاہئے کہ اس کا وقار مجروح نہ ہونے پائے۔ اس کے وقار کا خیال رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تعریفیں کی جائیں بلکہ نگہبان کونسل کے فیصلوں اور اقدامات کی حمایت کی جانی چاہئے ۔ یہ آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کی ذمہ داری ہے ۔
پروردگار عالم سے میری دعا ہے کہ آپ سب کو جزائے خیر دے۔ آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور امام زمانہ (ارواحنا لہ الفداء) کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چودہ تیر سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق پانچ جولائی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو دختر رسول حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اور شعرائے اہلبیت اطہار کے سالانہ اجتماع سے خطاب کیا۔
اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کے ارکان نے انیس اردیبہشت سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق نو مئی سنہ دو ہزار سات عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اسلامک اسٹوڈنٹس یونین کی اہمیت اور اس کے فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ تمام لوگ ایک ایسے نجات دہندہ گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں جس کی سعی و کوشش یہ ہے کہ کوئی غرق نہ ہو لہذا کسی کو خطا کا مرتکب نہ ہونے دیجئے، کسی کو پیچھے نہ ہونے دیجئے، کج رفتاری و ہلاکت ہی بری چیز نہیں ہے بلکہ آگے نہ بڑھنا اور قافلے سے پیچھے رہ جانا بھی بہت بری شئے ہے۔ اسلامی انجمن (اسلامک اسٹوڈنٹس یونین) کا نصب العین کچھ ایسا ہی ہونا چاہئے اور کچھ اسی طرح کا جذبہ ہونا چاہئے۔
عمدہ افکار و نظریات رکھنے والے منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم و تعلم کو بہتر بنانے کے لئے موجودہ تعلیمی امور میں تبدیلی لائیں۔
جب معلم کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے تو معلم کے عام معنٰی کو مد نظر رکھا جاتا ہے جو کہ کافی عظمتوں کا حامل ہوتا ہے۔
معلم وہ ہے جو انسان کے دل میں ایک چراغ روشن کرتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور علم و معرفت کی طرف لاتا ہے۔
معلم ہونے کا مطلب یہی ہے۔یہ انسانی زندگی میں تصور کی جانے والی سب سے بڑی فضیلت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے سترہ فروردین سنہ تیرہ سو چھیاسی ہجری شمسی مطابق چھے اپریل سنہ دو ہزار سات عیسوی کو یوم ولادت حضرت ختمی مرتبت اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کی مناسبت سے ملک کے حکام اور تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقات میں رسول اسلام کے ہاتھوں امت اسلامیہ کو حاصل ہونے والے عظیم ترین تحفے کے طور پر قرآن کریم کا نام لیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کی حمد و ستائش اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود و سلام
ربنا علیک توکلنا و الیک انبنا و الیک المصیر
اس سال کی عید دوہری مبارکبادیوں کی حامل ہے۔ عید نوروز کی بھی مبارکباددینی ہے اور ماہ ربیع المولود کی بھی مبارکباددینی ہے کونکہ اس میں نیّر اعظم، نبی اکرم حضرت محمد ابن عبداللہ (ص)کی ولادت ہوئی ہے۔ خود عید نوروز بھی ہم ایرانیوں کی مبارک عیدوں میں سے ہے۔
لوگ اپنا سال ذکر خدا سے شروع کرتے ہیں اور خدا وند متعال سے اپنے حالات بہترین حالات میں بدلنے کی دعا کرتے ہیں۔اس سال ان سب کے علاوہ ماہ محرم وصفر کی معنوی یادوں اور توسلوں کا ذخیرہ بھی اس عید کی برکتوں میں شامل ہے۔ اس صحن مبارک میں موجود آپ سب حضرات جو بارگاہ حضرت علی ابن موسٰی الرضا(ع)کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں،اور زیادہ برکتوں سے مالا مال ہیں۔میرے لئے بھی یہ ایک موقع ہے کہ چند مسائل جو آغاز سال میں ہمارے لئے انشاء اللہ مفید واقع ہوں گے ،بیان کروں۔
آغاز سال، قومی عزم کی تقویت اور سال رواں میں اپنی عمر کو با برکت بنانے کا بہترین موقع ہے۔ اگر ہم ایرانی عوام کا ایک ایک فرد آغاز سال سے ہی اپنا عزم اس بات پر مرکوز کردے کہ اپنی کوشش اور اپنے عمل سے اس سال کو ایک پر ثمر سال بنانا ہے تو خداوند متعال بھی یقیناً ہماری مدد کرے گا۔ البتہ اس بڑے قومی عزم میں بنیادی روح نیت کی پاکیزگی اور رضائے الٰہی کے حصول کا فیصلہ(یعنی) صراط مستقیم پر چلنے کا فیصلہ کر لینا ہے ، اور اس وقت دنیا کے موجودہ حالات میں اپنی حیثیت،اپنی کیفیت ، اپنے مقام اور ان چیلنجوں کا جاننا کہ جن کا قوم کو سامنا ہے ۔ ان چیلنجوں سے مقابلے کے بنیادی طریقوں کا جاننا ضروری ہے۔ یہ ایک زندہ قوم کی کامیابی کی اولین شرط ہے کہ اپنی پوزیشن ، اپنے مقام کو اور اپنے حالات کو صحیح طور پر جانے اور پہچانے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے پروگرام بنائے اور اس راہ میں ایک انسان کے لئے قدرتی طور پر پیش آنے والے تمام حالات سے مقابلے کا پختہ ارادہ کر لے۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں، جتنی دیر اس وقت میں آپ کی خدمت میں ہوں اسی سلسلے میں آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کروں گا۔
ہم ایرانیوں کے لئے جو بنیادی بات ہے۔ اور جسے ہمیں ہمیشہ مدّ نظر رکھنا چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم اور ہم تمام ایرانی لوگوں نے اپنے لئے ایک بڑے ہدف کا نقشہ کھینچا اور انقلاب کے بعد کی دہائیوں کے دوران ہم نے اسی ہدف کو حاصل کرنا چاہا ہے۔ ہم جتنا بھی غور کرتے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان دونوں اہداف تک پہونچنے کے لئے ہمارے اندر ضروری توانائی موجود ہے۔ یہ عظیم ہدف اسلامی ایران کی سربلندی اور مسلمان قوموں کے درمیان مادّی لحاظ سے بھی اور معنوی لحاظ سے بھی مثالی قرار پانے سے عبارت ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہماری قوم مادی لحاظ سے بھی اور معنوی پہلوؤں سے بھی ترقی کر ے، قومی خودمختاری کی مالک ہو، قومی وقار کی حامل ہو، قومی استعداد و صلاحیت سے آراستہ ہو، اور اپنی تمام صلاحیتوں کا بھر پور طریقے سے استعمال کرے، فلاح عامہ کی مالک ہو اور اس کی زندگی پر سماجی اور عوامی انصاف حکمفرماں ہو۔ اس وقت یہ قوم تمام مسلمان معاشروں حتی غیر مسلموں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جائے گی۔ ایرانی قوم چاہتی ہے کہ وہ ایک آزاد ، خوشحال اور با ایمان قوم کہلائے اور وہ ایک آباد اور ترقی یافتہ ملک کی مالک ہو۔یہ ایرانی قوم کا ہدف ہے۔
اس ہدف میں کوئی اختلاف بھی نہیں پایا جاتا۔ یہاں تمام گروہی جھگڑے اور سیاسی اختلافات ختم ہو جاتے ہیں،یہ ہدف ملت ایران کی ایک ایک فرد کےلئے قابل قبول ہے۔ ہمارا ملک ایک آباد ملک ہو، ہماری قوم ایک آزاد اور سربلند قوم ہو، ہم اپنی تمام تر قومی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں، ہم دوسروں سے آگے ہوں، سماجی انصاف کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں ہو، اسلامی ایمان کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہو اور تمام مسلمان اقوام میں ہم آگے آگے چلیں، یہ وہ چیز ہے کہ پوری ایرانی قوم جس کی عاشق و طلبگار ہے۔ اور ہم اس ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں؛ قومی صلاحیتوں کی شناخت بھی ہمارے اندر یہ امید جگاتی ہے اور تجربات بھی اس چیز کی تائید کرتے ہیں۔
ایرانی قوم ایک با استعداد قوم ہے، ثبات واستقامت کی مالک ہے، دینی غیرت اور قومی حمیت کی مالک ہے، اسلام پر دل کی گہرائیوں سے ایمان رکھتی ہے، اپنے ملک سے محبت کرتی ہے؛ یہی وہ چیزیں ہیں جو ہمیں یہ امید اور اعتماد بخشتی ہیں کہ ہماری قوم اس مقصد کے حصول پر قادر ہے اور اس ہدف کو پا سکتی ہے اور وہاں تک پہونچ سکتی ہے؛ یہ اس کی دسترس سے دور نہیں ہے تجربات بھی ہم کو یہی بتارہے ہیں۔
دیکھئے؛ ہم (غیروں سے ) وابستہ بد عنوان حکومتوں کے تسلط کے زیر اثر سالہا سال سے مسلسل عالمی رقابتوں کے میدان سے باہر رہے ہیں۔ ملت ایران جو ایک زمانے میں علم و دانش اور تہذیب و ثقافت کے میدان میں پیش پیش تھی، جابرو جائر بادشاہوں کے تسلط اور عوام سے دور اور ان کے لئے اجنبی طاقتوں کے سبب وہ اس مقام پر پہنچ گئی کہ تقریباً ۲۰۰ سال سے دنیا میں جو سیاسی اور علمی مقابلے شروع ہوئے ہیں، (یہ قوم ) مقابلوں کے میدان سے باہر رہی ہے۔ جب ایک قوم، بین الاقوامی مقابلوں میں شامل نہ ہو تو قدرتی طور پر اسکی توانائیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں اور اس کی کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ آپ کھیل کی ایک ٹیم کو ہی لے لیجئے، کہ جو قوت و نشاط سے سرشار ہو، کارکردگی دکھانا چاہتی ہو اور اس کو مقابلے کے میدانوں میں اترنے کا موقع نہ دیا جائے؛ تو قدرتی طور پر اس کی توانائیاں کم اور ضائع ہو جائیں گی۔ ہماری قوم کے ساتھ یہی کام کیا گیا۔
باوجود اس کے کہ سالہا سال (غیروں سے) مسلسل وابستہ رہنے والی حکومتوں، بد عنوان طاقتوں ، ناکارہ قوتوں اور ظالم بادشاہوں نے ہماری قوم کے لئےاس طرح کی حالت پیدا کر رکھی تھی۔ جیسے ہی اسلامی انقلاب کے ذریعہ اس شاہراہ کا دروازہ ہماری قوم کے لئے کھلا اور ہماری قوم عالمی مقابلوں کے میدان میں اتری، اسے بڑی ترقیاں حاصل ہوئیں۔ ہماری قوم علمی میدانوں میں بھی اور سیاسی میدانوں میں بھی آج عالمی سطح پر ایک جانی پہچانی رہنما قوم سمجھی جاتی ہے۔ اقوام عالم کے درمیان ایران کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہے۔ علمی میدانوں میں ہم دور حاضر کی نسبت ترقی یافتہ ہیں۔ یقینا دو سو سال کی پسماندگی کی تلافی بیس، تیس سالوں میں نہیں کی جاسکتی لیکن اسی مدت میں، اس مختصر عرصے کے لحاظ سے ہم بہت ہی زیادہ تیزی سے آگے بڑھے ہیں۔آج آپ دیکھئے؛ہمارے جوانوں نے جوہری توانائی کے میدان میں، بنیادی خلیوں (stem-cells)کے میدان میں، اور اسی طرح کے دوسرے دسیوں سائنسی میدانوں میں زبردست ترقی کی ہے۔ اگر ہماری قوم پوری طرح ان چیزوں سے مطلع ہوجائے تو اس کی خود اعتمادی میں زبردست اضافہ ہوگا۔
ہمارے ملک کی ممتاز علمی شخصیتوں کے نام اس وقت دنیا میں چمک رہے ہیں اور دنیا والے انہیں تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
سیاسی رسہ کشی کے میدان میں بھی یہی صورت ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت سیاسی میدانوں میں، چاہے علاقائی سطح پر ہو یا بین الاقوامی سطح پر، ان حکومتوں میں ہے جن کے موقف کو وسیع عوامی حمایت ملتی ہے۔ اس کی بات سننے والی ہوتی ہے، ہمارے ملک کے ذمہ دار حکام، عالمی تنظیموں میں بھی، دوسرے ممالک کے دوروں میں بھی جو موقف اختیار کرتے ہیں، وہ بالکل نمایاں اور ممتاز ہوتے ہیں۔ یہ حالات ان میدانوں میں قوم کی زبردست کارکردگي اور ترقی میں اس ملت کی استعداد وصلاحیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہماری قوم نے بین الاقوامی سیاسی نظام میں نئے افکار داخل کئے ہیں۔ دنیا دینی جمہوریت سے ناآشنا تھی؛ آج تمام اسلامی اقوام میں دینی جمہوریت ایک مقبول عنوان اور نعرہ بن ہے۔ دنیا تسلط پسندانہ نظام کی تعریف سے نا بلد تھی؛ ہماری قوم نے اس کی تعریف کی اور وہ بین الاقوامی سیاسی تہذیب میں شامل ہوگئی۔ ملک کی سیاست، قانون اور نظام میں دین کو محور قرار دینے کا مسئلہ؛ وہ جدید فکر ہےجو ہماری قوم نے اس نطام میں شامل کی ہے۔ لہذا ہم عالمی مقابلوں میں ۔ علمی، سیاسی، صنعتی، اقتصادی اور اسی طرح ثقافتی شعبوں میں رقابت اور مقابلے کی توانائی رکھتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں ہم کامیابی کی امید کر سکتے ہیں طولانی فہرست میں پہلےدرجے پر اپنا نام درج کرانے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کا مقام ہے۔
لیکن یہ راہ جس پر ایرانی قوم چلنا چاہتی ہے، آسان اور ہموار راستہ نہیں ہے۔ اس راستے میں ہمیں چیلنجوں کا بھی سامنا ہے۔ہمارے دو بڑے دشمن ہیں۔ میں آج ان دو دشمنوں کا مختصر تعارف آپ کے سامنے کراؤں گا تاکہ میں بھی اور آپ بھی دیکھیں کہ ان دو دشمنوں کے مقابلے میں ہم کیا کر سکتے ہیں۔ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کے منصوبوں سے باخبر ہو اور خود کو اس سے مقابلے کے لئے آمادہ کرے۔
ہمارے دو دشمن ہیں: ایک اندرونی دشمن ہے اور دوسرا بیرونی دشمن ہے۔ اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے۔ یہ دشمن کیا ہے؟ اندرونی دشمن وہ تمام بری خصلتیں ہیں جو ممکن ہے ہم میں پائی جائیں۔ سستی، کام کے لئے جوش و جذبہ کا فقدان، مایوسی، حد سے زیادہ خود غرضی یا مفاد پرستی، دوسروں کے سلسلہ میں بدگمانی، مستقبل کے سلسلے میں بدگمانی، خود اعتمادی کی کمی۔ نہ اپنے آپ پراعتماد ہو، نہ اپنی قوم پر تو یہ سب بیماریاں ہیں۔اگر یہ دشمن ہمارے اندر موجود ہو تو ہمارا کام مشکل ہو جاتا ہے۔ ملت ایران کے بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ہمارے ایرانی سماج میں ان جراثیم کی تقویت کریں: ''تم نہیں کر سکتے‘‘ ، ''تم میں اتنی توانائی نہیں ہے‘‘ ، ''تمہارا مستقبل تاریک ہے‘‘ ''تمہارا افق روشن نہیں ہے، ''تم بے بس ہو، تم بدترین صورت حال سے دوچار ہو۔ کوشش یہ رہی ہے کہ ہماری قوم کو مایوس، کاہل، اپنی طرف سے ناامیدی اور بے اعتمادی کا شکار بنا دیں ۔ اس قوم کو غیروں پر منحصر کر دیں۔ یہ سب اندرونی دشمن ہیں۔ ہمارے ملک میں اسلامی تحریک شروع ہونے سے قبل سالہا سال تک ہماری قوم کی اصل بلا یہی چیزیں تھیں۔اگر ایک قوم میں یہ بیماریاں موجود ہوں تو وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔اگر کسی قوم کے لوگ کاہل ہوں، مایوسی کا شکار ہوں، اپنے آپ پر اعتماد نہ رکھتے ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر نہ رہتے ہوں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوں،مستقبل سے مایوس ہوں تو ایسی قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ چیزیں ان دیمکوں کی طرح ہیں جو کسی عمارت کے ستون کو اندر سے کھوکھلا اور عمارت کو ویران کردیتی ہیں؛ اس کیڑے کی طرح ہیں جو کسی پھل میں گھس کر پھل کو اندر ہی اندر سے خراب کر دیتا ہے۔ ان بری عادتوں سے جنگ کرنا چاہیئے۔ہماری قوم کو پر امید ، پر اعتماد، مستقبل کے سلسلے میں خوش بین،ترقی کی دلدادہ اور معنویات پر اعتقاد اور ايمان رکھنا چاہئے کیونکہ یہ باتیں اس راہ میں اس کی معاون ثابت ہو ں گی۔ الحمد اللہ آج ہماری قوم اس طرح کا اپنے آپ پر اعتماد پایا جاتا ہے اور اس طرح کی امید موجود ہے؛ اس کی تکمیل ہونی چاہیئے۔اگر ہم ان دشمنوں کو اپنے وجود سے، اپنی زندگی سے اور اپنے سماج کے عام کلچر سے دور اور ناکارہ کر دیں تو بیرونی دشمن بھی ہمیں کوئی ضروری نقصان نہیں پہونچا سکتا ہے۔
اور اب بیرونی دشمن۔ تو ہمارے اس ہدف کا بیرونی دشمن ''بین الاقوامی سامراجی نظام‘‘ ہے۔ یعنی وہی چیز جسے ہم عالمی استکبار کہتے ہیں۔ عالمی استکبار اور سامراجی نظام،دنیا کو تسلط گروں اور تسلط پذیروں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اگر ایک قوم تسلط گروں کے خلاف اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہتی ہے تو تسلط گر اس کے دشمن ہو جاتے ہیں، اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کی مزاحمت کو توڑ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی قوم کا دشمن ہے جو خود کو خود مختار،عزت دار،آبرومند اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے اور تسلط گروں کا تسلط پسند نہیں کرتی۔ یہ بیرونی دشمن ہے۔ آج اس دشمنی کا مظہر عالمی صیہونیت کا پھیلا ہوا جال اور ریاستھائے متحدہ امریکہ کی موجودہ حکومت ہے۔ البتہ یہ آج کی دشمنی نہیں ہے؛صرف طریقے بدل جاتے ہے،لیکن ایرانی قوم سے دشمنی کی سیاست اوائل انقلاب سے آج تک ہمیشہ ایک رہی ہے۔ جتنا ان سے ممکن ہوا ہے، ہم پر دباؤ ڈالا ہے، لیکن بے کار؛ ان کا یہ دباؤ ایرانی قوم کو آج تک کمزور نہیں کر سکا اور نہ ہی پسپائی پر مجبور کر سکا ہے؛ نہ تو ان کا اقتصادی بائیکاٹ اور نہ ہی ان کی فوجی یلغار کی دھمکیاں،نہ ان کا سیاسی دباؤ اور نہ ہی ان کی نفسیاتی جنگ۔آج ہم پندرہ سال پہلے سے ، بیس سال پہلے سے ،ستائیس سال پہلے سے بہت زیادہ قوی ہیں؛ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دشمن، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اپنی دشمنی میں ناکام رہا ہے؛لیکن یہ دشمنی ہے۔
آج کی دنیا میں تناقض اور تضاد پایا جاتا ہے۔ ایرانی قوم،دیگر مسلمان اقوام اور علاقائی اقوام کی نظر سے ۔ایشیائی اقوام، افریقی اقوام، جنوبی امریکہ کی اقوام ،مشرق وسطٰی کی اقوام۔ کی نظر سے ایک بہادر،حق وانصاف کا دفاع کرنے والی اور زور زبردستیوں کے مقابلے میں ڈٹی ہوئی ثابت قدم قوم ہے؛ایرانی قوم کو اس طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ لوگ ملت ایران کی تحسین و تعریف کرتے ہیں۔ لیکن اسی ایرانی قوم اور اسی اسلامی جمہوری نظام پر جس کی قومیں اس قدر تعریف کرتی ہیں، سامراجی طاقتوں کی طرف سے حقوق انسانی کی پامالی کا الزام ہے۔ عالمی امن چھین لینے کا الزام ہے، دہشت گردی کی حمایت کا الزام ہے! یہی تناقض اور تضاد ہے۔ یہی تناقض جو قوموں کی نگاہوں اور بڑی طاقتوں کی خواہشوں کے درمیان ہے۔ یہی تضاد، عالمی سامراجی نظام کے لئے خطرہ اور چیلنج بن گیا ہے۔
روز بروز یہ لوگ اقوام عالم سے دور ہوتے جا رہے ہیں؛اس چیز نے مغرب کی لبرل ڈیمو کریسی کی عمارت کو اندر سے ہلا کر دراڑ پیدا کر دی ہے اور دن بہ دن یہ دراڑ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ سامراجی ذرائع ابلاغ بلآخر ایک مدت تک ہی حقائق کو چھپا سکتے ہیں، ہمیشہ تو حقائق کو چھپا سکتے ، قوموں میں روز بروز بیداری بڑھتی جا رہی ہے۔ آپ دیکھئے ملت ایران کا صدر جمہوریہ ایشیائی ممالک، افریقی ممالک، جنوبی امریکہ کے ممالک کا دورہ کرتے ہیں، تو قومیں اس کے حق میں نعرے لگاتی ہیں، اس کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں، اپنی حمایت کا اظہار کرتی ہیں؛ امریکی صدر جمہوریہ بھی جنوبی امریکہ کے ممالک کا ، جہاں امریکی اپنے فرصت کے اوقات گزارنے (عیاشی کے لئے) جاتے ہیں ، سفر کرتے ہیں تو قومیں امریکی جھنڈے کو ان کے آنے کے سبب نذر آتش کر تی ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ لبرل ڈیمو کریسی کے ستون لڑکھڑا رہے ہیں جس کی پرچمداری کا دعوی اس وقت مغرب کو ہے والے اور ان میں سب سے آگے امریکہ ہے۔ ان ملکوں کے مفادات اور قوموں کے رجحانات اور مشاہدات میں تضاد دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حکومتیں جمہوریت کا دم بھرتی ہیں، حقوق انسانی کا نعرہ لگاتی ہیں، عالمی امن کے دعوے کرتی ہیں، دہشت گردی سے مقابلے کا علم اٹھائے ہوئے ہیں،لیکن ان کا شرپسند باطن ان کی جنگ افروزی کی حکایت کرتا ہے۔قوموں کے حقوق کی پامالی کی حکایت کرتا ہے، ایندھن کے عالمی ذخیروں پر تسلط کے بے پناہ میلان اور کبھی نہ سیر ہونے والی اشتہا کی حکایت کرتا ہے؛ قومیں یہ سب کچھ دیکھ رہی ہیں۔ دن بہ دن لبرل ڈیمو کریسی کی آبرو اور امریکہ کی آبرو ، جو لبرل ڈیمو کریسی کا سر غنہ ہے۔ دنیا میں اور اقوام کی نظر میں کم سے کمتر ہوتی جا رہی ہے۔اسکے برعکس اسلامی ایران کی عزت وآبرو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔اقوام سمجھتی جا رہی ہیں کہ امریکی(حکام ) انسانی حقوق کے دفاع کے دعوے میں جھوٹ بول رہے ہیں؛ اس کا ایک نمونہ، ان لوگوں کا خود ہمارے ملک کے ساتھ رویہ ہے۔ ایران طاغوت کے زمانہ میں ، پہلوی حکومت کے زمانے میں ، پوری طرح امریکیوں کی مٹھی میں تھا، پورے ایران پر امریکیوں کا تسلط تھا ، ایران میں انہوں نے فوجی چھاؤنی بنا رکھی تھی کہ علاقے کے عرب ملکوں کے تحرک پر قابو رکھ سکیں ، چاہتے تھے کہ ان سب پر ایران کی چھاؤنی سے نگاہ رکھیں ۔ ایران،اسرائیل کامعاہدی تھا۔ بدترین ڈکٹیٹر شپ اس ملک پر حکمراں تھی؛ مجاہدین کو جیلوں میں شکنجے دئے جا رہے تھے، پورے ایران میں ۔اسی شہر مشہد میں، تہران میں اور ملک کے تمام شہروں میں، طاغوتی حکومت کے جلاد عمالوں کی سختی اور گھٹن لوگوں پر چھائی ہوئی تھی، ہمارا تیل تاراج کیا جا رہا تھا؛ عوامی اثاثے اور قومی سرمائے (شاہی) حکام اور بیگانہ حکومتوں کے مفاد میں تاراج کئے جا رہے تھے؛ ایرانی قوم پر عالمی سطح کے علمی اور صنعتی مقابلوں میں حصہ لینے کی پابندیاں تھیں تھی۔ قوم کو ذلیل کررکھا تھا۔ اس وقت کا ایران ، اس خطے میں امریکہ کا پہلے درجہ کا اتحادی تھا، اس کے حکام بھی امریکہ کے محبوب تھے، انسانی حقوق کی پامالی اور جمہوریت کی خلاف ورزی کے سلسلے میں اس طاغوتی حکومت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ آج ایران ایک آزاد ملک ہے اور اتنی کھلی جمہوریت کے باوجود جب کہ ہماری جمہوریت کی دنیا میں کم بی مثال ملے گی۔ عوام اور ملک کے حکام کے درمیان ایسے مضبوط رشتے کے باوجود ، یہ ایران،امریکیوں کی نظر میں، امریکی حکومت اور امریکی سیاستدانوں کی نظر میں ایک ناپسند ملک شمار ہوتا ہے، یہ چیز دنیا کے موجودہ حقائق کے سلسلے میں عالمی استکبار کی نگاہ اور پالسیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ یقینا امریکیوں کو اس دشمنی کا کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔
ملت ایران دن بہ دن زیادہ قوی اور مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور انقلابی اقدار روز بروز زیادہ نمایاں اور تازہ ہوتے جا رہے ہیں۔
ان دونوں دشمنوں کے مقابلے میں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلے دشمن کو پہچانیں پھر اس کے بعد اس کے منصوبوں کو سمجھیں ۔آج ہمارے بیرونی دشمنوں نے بھی ملت ایران کے خلاف منصوبے بنا رکھے ہیں۔ ہم نے اپنے پنج سالہ منصوبے بیان کئے ہیں۔ بیس سالہ منصوبوں کے خطوط معین و مشخص کئے ہیں؛ اس لئے کہ اپنی راہ کا تعین کر سکیں۔ہمارا دشمن بھی اسی طرح ہے،اس نے بھی ہمارے لئے منصوبے بنائے ہیں؛ اس کی بھی پالسیاں ہیں ، ہمیں اس کی پالیسی سے آگاہ ہونا چاہیئے۔
ملت ایران کے خلاف عالمی استکبار کے منصوبے کو میں صرف تین جملوں میں خلاصہ کرتا ہوں: ایک : نفسیاتی جنگ؛ دو؛ اقتصادی جنگ اور تین: علمی ترقی اور اقتدار سے مقابلہ ، ہماری قوم کے ساتھ عالمی استکبار کی دشمنیاں انہی تین اہم عنوانوں میں خلاصہ ہوتی ہیں۔ البتہ ان کے بارے میں ہمارے ذرائع ابلاغ ، تشہیراتی مشینریوں، اور سیاسی شخصیتوں کافریضہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس کی مزید وضاحت کریں۔ میں صرف اجمالی طور پر فہرست وار ان مطالب کا ایک خلاصہ آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں۔
نفسیاتی جنگ کا کیا مطلب ہے؟نفسیاتی جنگ کا مقصد،خوف و دہشت ایجاد کرنا ہے۔ کسے خوف زدہ اور مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ قوم تو مرعوب ہونے سےرہی؛ لوگوں کی عظیم آبادی دہشت زدہ نہیں ہوا کرتی۔ تو پھر کس کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ حکام کو؟ سیاسی شخصیتوں کو؟ یا بقول معروف ہم غیر معمولی دماغوں کو؟ ایسے لوگ کہ جنہیں لالچ میں پھنسایا جا سکتا ہے، انہیں لالچ دینا چاہتے ہیں؛ عوامی عزم و ارادے کو کمزور کرنا چاہتے ہیں؟ خود اپنے سماج کی حقیقتوں سے متعلق لوگوں کے فہم و خیال بدل دینا چاہتے ہیں؛ نفسیاتی جنگ کا مقصد یہی ہے۔ایک آدمی جو بیمار نہیں ہے،سوبار اس سے کہیں گے: جناب! آپ بہت سست دکھائی دے رہے ہیں، لگتا ہے مریض ہیں اور یہ شخص واقعا خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر کوئی حقیقتاً بیمار ہو اور سو بار اس سے کہا جائے کہ آپ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں، تو مریض حود کو صحت مند محسوس کرتا ہے۔ اپنے القاآت کے ذریعہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے حقائق ہماری قوم کی نظر میں بدل ڈالیں۔ ہماری قوم ایک صاحب صلاحیت ،صاحب لیاقت، اور صاحب استعداد قوم ہے جو عظیم قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے؛ ایک ایسی قوم ترقی یافتہ قوم ہو سکتی ہے۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ ناامید ہو؛ لیکن وہ لوگ حقیقتوں کو الٹ دینا اور حقائق بدل کر قوم کو ناامید کردینا چاہتے ہیں؛ اپنے حکام پر سے ملت کا اعتماد کمزور کردینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ عوام کا اپنی حکومت اور اس کے حکام پر اعتماد ہو ایک ملک کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔یہ لوگ اس نعمت کو ہم سے چھین لینا اور لوگوں کا اعتماد ختم کر دینا چاہتے ہیں۔ خود اپنے آپ پر سے بھی اور اپنے ذمہ دار حکام پر سے بھی عوام کو افواہوں کے ذریعہ، بائیکاٹ اور سخت رویوں کے ذریعے دھمکاتے اور ڈراتے ہیں؛ اپنے پروپیکنڈوں میں مدعی اور ملزم کی جگہ بدل دیتے ہیں۔آج امریکہ ملزم ہے اور قومیں امریکہ کے خلاف مدعی ہیں۔ ہم آج امریکہ کے خلاف دعویدار ہیں، امریکہ ملزم ہے استکباری دست درازیوں کا، مستعمرہ پروری کا، جنگ افروزی کا، فوجی یلغار اور فتنے کھڑا کرنے کا۔ ہم طلبگار ہیں، ہم مدعی ہیں۔ یہ لوگ اپنے آپ کو مدعی کی جگہ اور ملت ایران کو ملزم کی جگہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ خود امریکہ میں انسانی حقوق کی حالت افسوسناک ہے اور بد امنی پھیلی ہوئی ہے۔ صرف ایک سال ۲۰۰۳ ء کے دوران خود ان ہی کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ تیس لاکھ (13000000) امریکی شہریوں کی گرفتاری عمل میں آئی ہے! تشدد اور آزار و اذیت کو قانونی کر دیا ہے، لوگوں کے ٹیلیفون سننے کی قانونی اجازت ہے۔ چند سال پہلے ۱۱ستمبر (۲۰۰۱ ء) کے حادثے کے بعد انہوں نے بیسیوں لاکھ افراد سے باز پرس اور تفتیش کی۔ اس طرح کا بد امن ماحول خود امریکہ کے اندر ہے؛ امریکہ کے باہر بھی، ابو غریب کے جیل خانے اور اذیت رسانیاں، گوانٹانامو جیل اور یورپ نیز دنیا کے دیگر خطوں میں ان کے خفیہ جیل خانے موجود ہیں۔ ان کو جواب دینا چاہئے، وہ لوگ ملزم ہیں، وہ لوگ انسانی حقوق پامال کررہے ہیں؛ اس کے بعد انسانی حقوق کے حامی و مدعی بھی ہیں اور ملت ایران پر جہاں کہیں بھی وہ چاہیں الزام لگا کر باز پرس کرتے ہیں کہ تم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے! دہشت گردی کی وہی لوگ ترویج کررہے ہیں۔ یہ سب نفسیاتی جنگ ہے جو وہ لوگ انجام دے رہے ہیں۔
دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک حصہ، اختلافات بھڑکانا ہے۔ یہ لوگ ہمارے ملک میں، قومی اختلافات، شیعہ و سنی۔ مذہبی اختلافات، جماعتی اختلافات، گروہی اور صنفی اختلافات اور صنفی رقابتوں کی ترویج اور پروپیگنڈے کیا کرتے ہیں۔ملک کے اندر ان لوگوں کے ایجنٹ اور زرخرید افراد بھی موجود ہیں جو یہاں مختلف شکلوں میں ان کے مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں۔یہ لوگ افواہیں پھیلاتے ہیں۔عراق کے مسئلے میں،ایران کو ملزم ٹھہراتے ہیں۔یہ لوگ جنہوں نے باہر سے آکر عراق پر اپنا قبضہ جما رکھا ہے، ملت عراق کو ذلیل کیا ہے، عراق کے مردوں، عورتوں اور جوانوں کی مختلف طریقوں سے توہین کی ہے اور اس وقت بھی امریکی اور برطانوی فوجی عراق میں نہایت ہی بدسلوکی سے کام لے رہے ہیں، یہی لوگ ایران پر الزام لگا رہے ہیں کہ عراق کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ جس وقت امریکی حکومت اور بہت سی مغربی حکومتیں نابود ہو جانے والے بعثی صدام کی حمایت کیا کرتی تھیں، ملت ایران نے عراقی حریت نوازوں کے لئے اپنی آغوش باز کر رکھی تھی ، عراقی حریت نواز یہاں آئے اور ہم نے صدام کے شر سے ان کی حفاظت کی ؛ آج ان ہی لوگوں نے عراق میں حکومت و اقتدار سنبھالا ہے۔ عراق میں دہشت گردی امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی جاسوسی ایجنسیوں کی تحریک کا نتیجہ ہے ، عراق میں یہ برادر کشی شیعہ ۔ سنی جنگ کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے؛ شیعہ اور سنی عراق میں صدیوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں اور آپس میں کوئی جنگ بھی نہیں ہوئی ہے۔ عراق میں بہت سارے ایسے گھرانے ہیں کہ جنکے بعض افراد شیعہ ہیں اور بعض سنی؛ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں، یہ قتل وغارت گری عراق پر قابض ان لوگوں نے شروع کی ہے، یہی لوگ وہاں کی بد امنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیعوں کے اثر و رسوخ اور ایران اور ہلال شیعی کی طرف سے تشیع کی ترویج اور اسی طرح کی باتیں افواہیں جنم دیتی ہیں۔ ان کی نفسیاتی جنگ کا ایک شعبہ یہی ہے:پہلا کام یہ کہ ملت ایران کے درمیان اختلافات ڈالیں، اور دوسرا کام یہ کہ ملت ایران اور دوسری مسلمان اقوام کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں۔ امریکہ کی سیاست یہی رہی ہے کہ خلیج فارس میں ہمارے پڑوسی ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے ڈرائے۔البتہ ان میں سے بعض نے اپنی ہوشیاری اور آگاہی سے اس سازش کو سمجھ لیا ہے لیکن ممکن ہے بعض اس سلسلے میں غلطی کر یں اور امریکہ کی سازش میں پھنس جائیں۔ ہم نے خلیج فارس کے پڑوسیوں کی طرف۔ کہ جہاں دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہمشہ دوستی کا ہاتھ پھیلایا ہے؛ اس وقت بھی ہم ان کے دوست ہیں اور دوستی کا ہاتھ انکی طرف پھلائے ہوئے ہیں اور ہمارا خیال یہ ہے کہ خلیج فارس کے خطے کے ممالک کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہونا چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ اس اہم خطے کے دفاع کے لئے امریکہ، برطانیہ، اجنبی طاقتوں اور دیگر لالچیوں کو یہاں آنا چاہئے؛ خود ہمیں اس خطے کے امن کی حفاظت کرنی چاہیئے، محفوظ بنائے رکھنا چاہئے؛ اور یہ خلیج فارس کے ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اسی مناسبت سے میں اپنے ملک کے اندرونی سیاسی عناصرکو بھی دوستانہ نصیحت کرتا ہوں کہ خبردار رہیں، اس طرح کی بات نہ کریں یا اس طرح کا موقف اختیار نہ کریں جو اس نفسیاتی جنگ میں دشمن کے مقاصد کی مدد کرے، دشمن کی مدد نہ کریں۔ آج جس کسی نے بھی ہمارے عوام کو ناامید کیا اور انہیں اپنے آپ سے، اپنے حکام سے اور اپنے مستقبل کی طرف سے بے اعتماد کیا اس نے دشمن کی مدد کی ہے۔ آج جو بھی اختلافات کو ہوا دے گا ۔ چاہے یہ اختلاف کسی بھی طرح کا اختلاف ہو ۔ اس نے ملت ایران کے دشمن کی مدد کی ہے۔ جو لوگ صاحب قلم ہیں، صاحب زبان ہیں، کوئی پلیٹ فارم اور کوئی مقام رکھتے ہیں، انہیں خبر دار رہنا چاہیئے؛ دشمن کو اپنے آپ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں۔ دشمن کی نفسیاتی جنگ،ملت ایران کے ساتھ دشمن کی جنگ کا اہم ترین حصہ ہے۔
اقتصادی جنگ بھی ایک دوسری جنگ ہے۔ یہ لوگ ملت ایران کو اقتصادی مسائل کے لحاظ سے بے بس و لاچار کر دینا چاہتے ہیں۔ میں یہ بتا دوں کہ ملت ایران کے لئے اقتصادی سرگرمیوں کا میدان کھلا ہوا ہے۔ آئین کی چوالیسویں شق میں مندرج پالسیوں کے تحت سرکاری طور پرابلاغ کی جا چکی ہیں اور حکومت بھی پورے شد و مد کے ساتھ کوشاں ہے کہ اس کو عمل میں لائے اور اسے کوشش کرنا بھی چاہئے، اقتصادی امور کے لئے میدان کھلا ہوا ہے، نہ صرف ثروت مند افراد کے لئے بلکہ عوام کی حتی ایک ایک فرد کے لئے۔
۸-۲۰۰۷ء اور اس کے ایک دوسال بعد تک حکومت اور ملک کے دوسرے مستعد ارکان کی اولین توجہ اقتصادی امور پر ہوگی۔ ہم اپنے اقتصاد کو شگوہ آور کر سکتے ہیں۔ ہمیں دھمکی دیتے ہیں کہ ہم بائیکاٹ کرینگے، بائیکاٹ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا۔ کیا اب تک انہوں نے بائیکاٹ نہیں کیا ہے؟ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں جوہری توانائی پر دسترس کی ہے؛ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں علمی ترقیوں کی منزلیں سر کی ہیں۔ ہم نے بائیکاٹ کی حالت میں ہی ملک میں اس وسیع سطح پر تعمیری کام کئے ہیں ، بائیکاٹ بعض حالات میں ممکن ہے ہمارے حق میں تمام ہو؛ اس اعتبار سے کہ یہ تلاش و کوشش کی راہ میں ہماری ہمت اور زیادہ بڑھا دے گا۔ نئے سال کے دوران کہ جس کا آج پہلا دن ہے حتی بعد کے ایک دو سال کے دوران بھی ملک کی توجہ کامرکز اقتصادی کارکردگی ہونی چاہئے۔ آئین کی چوالیسویں شق کی پالسیوں سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کی توانائی رکھتے ہیں حتی جو لوگ شراکت اور کمپنی کی صورت میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں، ان کے لئے بھی راہ اس میں موجود ہے۔ ہر فرد ، کسی بھی مشغلے اور صنف کا ہو ، سرمایہ کاری میں حصہ لے سکتا ہے؛اس راہ میں سب ایک دوسرے کے شریک و سہیم ہو سکتے ہیں۔ انصاف کی بر قراری کے حصص کے علاوہ جو تقریباً ایک کروڑ افراد کے شامل حال ہے اور معاشرہ کے نچلے اور غریب طبقوں کے لئے ہے، بقیہ لوگ بھی ان پالسیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؛ اس میں اس کی راہ رکھی گئی ہے۔ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ وہ اقتصادی سرگرمیوں میں لوگوں کی مشارکت کے طریقے انہیں بتائیں۔ ان پالسیوں کا مطلب سماج میں عمومی سرمایہ کی پیداوار ہے۔ سرمایہ کی پیداوار میں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرج نہیں ہے۔ سرمایہ کی پیداوار دوسروں کا سرمایہ غارت کرنے سے فرق کرتی ہے۔ کبھی آدمی بیت المال میں دست درازی کرتا ہے، کبھی کوئی لاقانونیت اور قانون کا کوئی لحاظ رکھے بغیر مادی ثمرات حاصل کرتا ہے؛ یہ ممنوع ہے؛ لیکن قانونی طریقوں سے سرمائے کی پیداوار شارع مقدس کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں قابل قبول اور مستحسن عمل ہے۔ ثروت و دولت کمائیں، لیکن اس کے ساتھ اسراف نہ ہو۔ اسلام نے ہم سے کہا ہے کہ سرمایہ بنائیں، لیکن اسراف نہ کریں۔ خرچ میں افراط کا رجحان اسلام قبول نہیں کرتا۔ سرمایہ کی پیداوار کے ذریعہ جو کچھ آپ حاصل کرتے ہیں، دوبارہ اس کو ثروت کی پیداوار کے لئے وسیلہ قرار دیں۔ مال کو راکد اور منجمد نہ رکھیں جسے اسلام میں احتکار اور ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں، اور نہ ہی مال خرچ کرنے میں فضول خرچی اور بربادی سے کام لیں یعنی اسے ایسی غیر ضروری چیزوں میں خرچ کر ڈالیں جس کی زندگی میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان سب چیزوں کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ثروت و دولت خود اپنے لئے کمائیں اور بنائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لوگوں کا سرمایہ پورے ملک کا سرمایہ ہے؛سب لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ چوالیسویں شق کی اصل روح اور بنیادی پالسی یہی ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ عوام مخصوصاً کمزور طبقوں کی آمدنی کے ذرائع مختلف ہوں اور لوگوں میں گشادگی پیدا ہوسکے؛ یہ عوامی فلاح و بہبود کی راہ میں ایک بلند قدم ہے۔
علمی اور سائنسی ترقی کے دائرے میں بھی مقابلہ آرائی کا ایک اہم نمونہ یہی جوہری توانائی کا مسئلہ ہے۔ بیانات میں اور سیاسی مذاکرات میں بھی کہتے ہیں کہ مغربی حکومتیں، ایران میں جوہری توانائی کی صلاحیت کے حق میں نہیں ہیں؛ تو ٹھک ہے نہ ہوں۔ کیا ہم نے جوہری توانائی پر دسترسی کے لئے کسی سے اجازت چاہی ہے؟ کیا ملت ایران دوسروں کی اجازت سے اس میدان میں اتری ہے؟ کہ کہتے ہیں ہم اس کے حق میں نہیں ہیں؟ ٹھک ہے آپ موافق نہ ہوں۔ ملت ایران موافق ہے اور چاہتی ہے اس کے پاس یہ انرجی (energy) اور توانائی ہو۔ پچھلے سال بھی میں نے 21 مارچ کے اسی اجتماع میں اسی جگہ کہا تھا کہ جوہری توانائی ہمارے ملک کے لئے ایک ضرورت ہے،ایک طویل المدت احتیاج ہے۔ آج اگر ملک کے حکام جوہری توانائی پر دسترسی میں کوتاہی برتیں گے تو آئندہ نسلیں ان سے جواب طلب کریں گی۔ ملت ایران اور مملکت ایران کو اپنی زندگی کے لئے ۔نہ کہ ہتھیارکے لئے۔ جوہری توانائی اور ایٹمی انرجی کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کر دشمن ہی کی باتیں دہراتے ہیں کہ:جناب!ہمیں ایسی کون سی ضرورت آگئی ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ کیا ملک کے مستقبل کو خطرے میں ڈالنے اور ملک کی کل کی ضرورت کو سرے سے نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج ہی نہیں ہے؟ کیا ملک کے حکام کو آئندہ نسلوں کےساتھ خیانت کرنے کا حق حاصل ہے؟ آج ہم تیل نکال کے خرچ کریں؛ تو ایک دن یہ پورا تیل ختم ہو جائے گا،اس دن ملت ایران کو اپنی بجلی کے لئے، اپنے کارخانوں کے لئے،اپنی گرمیوں کے لئے، اپنی روشنی کے لئے،اپنی زندگی چلانے کے لئے دوسرے ممالک کی طرف دست سوال پھیلانا ہوگا کہ وہ لوگ اسے انرجی فراہم کریں؟ کیا یہ ملک کے موجودہ حکام کے لئے جائز ہوگا؟ کچھ لوگ دشمن ہی کی باتوں کو دہراتے ہیں۔وہی لوگ جو ڈاکٹر مصداق اور آیت اللہ کاشانی مرحوم کے ذریعہ''تیل کے قومیانے کی آج تعریف و تمجید کرتے ہیں۔ جب کہ اس کام کے مقابلے میں وہ کام ایک چھوٹا سا کام تھا، اور یہ اقدام اس سے کہیں عظیم ۔ وہی لوگ آج جوہری توانائی کے سلسلے میں وہی باتیں کررہے ہیں جو ڈاکٹر مصدق اور مرحوم کاشانی کے مخالفین اس وقت کیا کرتے تھے۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ ہم اس راہ میں آگے بڑھے ہیں اور خود اپنی خلاقیت سے آگے بڑھے ہیں۔ ہمارے ملک کے حکام نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا ہے۔ ہماری تمام تر سرگرمیاں بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی(iaea) کی آنکھوں کے سامنے ہے ، کوئی حرج بھی نہیں ہے؛ ہميں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ ہماری سرگرمیاں انکے زیر نظرہوں۔
اس مسئلے ميں جنجال کھڑا کرنا ، ملت ایران پر دباؤ ڈالنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اپنے ناجائز مقاصد کے لئے استعمال کرنا ملت ایران کی مخالف طاقتوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ میں یہ کہے دیتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے سلامتی کونسل کا وسیلہ کے طور پر استعمال کیا اور ہمارے اس مسلمہ حق کو اس طریقے سے نظر انداز کرنا چاہا تو(یاد رکھیں) آج تک جو کچھ بھی ہم نے کیا ہے وہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا ہے، اگر یہ لوگ غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہیں گے تو ہم بھی غیر قانونی طریقہ کار اختیار کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ اگر یہ لوگ دھمکی، زور زبردستی اور تشدد کا رویہ اپنانا چاہیں گے تو یہ جان لیں کسی بھی شک و شبہ کے بغیر ایران کے عوام اور ایران کے حکام ان دشمنوں کے مقابلے میں جو ان کے خلاف جارحیت کرنا چاہیں گے، ان پر ضرب لگانے کے لئے اپنی پوری قوت و صلاحیت سے استفادہ کریں گے۔
میں اپنے عرائض تمام کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ملت ایران کے ایک خادم کی ایرانی قوم کے نام کچھ نصیحتیں ہیں۔ میری ایک اہم نصیحت یہ ہےکہ: یہ قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی کا نعرہ جو ہم نے اس سال دیا ہے ، سب اس کی رعایت کریں۔ قومی اتحاد یعنی ملت ایران کی اکائی اسلامی یکجہتی یعنی اسلامی اقوام کی ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہی ملت ایران اپنے روابط اسلامی اقوام کے ساتھ اور مضبوط کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ''قومی اتحاد اور اسلامی یکجہتی عملی شکل اختیار کرے تو ہمیں ان اصولوں پر تکیہ کرنا ہوگا جو ہمارے درمیان مشترک ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو فروعی مسائل میں جو اختلافی ہیں، نہیں الجھانا ا چاہیے۔
دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہماری پر وقار قوم خصوصاً ہمارے جوان اپنی خود اعتمادی کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں۔
میرے عزیزجوانو! ملت ایران کے عزیز جوانو! تم کرسکتے ہو ؛ تم بڑے بڑے کام انجام دے سکتے ہو، تم اپنے ملک کو عزت و اقتدار کی بلندیوں تک پہونچا سکتے ہو۔ اپنے آپ پر اعتماد، ملک کے حکام افراد پر اعتماد، حکومت پر اعتماد، وہی چیز ہے جو دشمن چاہتے ہیں کہ پیدا نہ ہو۔ دشمن چاہتے ہیں کہ عوام کا حکومت پر سے ۔ جو ملک کے امور چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔اعتماد اٹھ جائے؛ دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنادینے کی کوشش کیجئے۔ میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ میں نے عوام کے ذریعہ منتخب تمام حکومتوں کی حمایت کی ہے، اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا؛ موجودہ حکومت کی بھی خاص طور پر حمایت کررہا ہوں۔ یہ حمایت بلا وجہ اور کسی حساب و کتاب کے بغیر نہیں کر رہا ہوں ۔پہلی بات تو یہ کہ اسلامی جمہوری نظام میں اور ہمارے ملک کے سیاسی نظام میں ، حکومت ایک بہت ہی اہم مقام و منزلت رکھتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ملک کی زیادہ تر ذمہ داریاں حکومت ہی کے کندھوں پر ہیں؛ اس کے علاوہ اس کے فیصلوں میں یہ دینی ترجیحات اور اسلامی و انقلابی اقدار و معیارات کی طرف جھکاؤ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ سخت جدوجہد، انتھک کوششیں عام لوگوں کے ساتھ رشتہ، ملک کے مختلف صوبوں کے سفر، انصاف کی برقراری کی فکر اور عوامی رنگ و بو، یہ سب بیش بہا چیزیں ہیں اور میں ان چیزوں کی قدر سمجھتا ہوں۔ میں ان ہی چیزوں کی وجہ سے حکومت کی حمایت کرتا ہوں۔ یقینا یہ حمایت، بغیر سوچے سمجھے آنکھ بند کرکے کی جانے والی حمایت نہیں ہے۔ مجھے اس کے بدلے میں حکومت سے کچھ توقعات اور انتظارات بھی ہیں۔ سب سے پہلی توقع کے طور پر میں حکومت کے ذمہ داروں سے کہتا ہوں کہ وہ تھکن اور خستگی کا احساس نہ کریں؛ خدا پر اعتماد اور توکل اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں؛ خدا پر بھروسہ رکھیں اور ان عوام پر اعتماد کریں؛ اپنے عوامی رنگ، بو کو محفوظ رکھیں؛ ظاہری آرائش اور تجملات میں کہ اکثر لوگ جن کا شکار ہوجاتے ہیں، نہ پڑیں۔ ہر وقت خبر دار اور ہوشیار رہیں؛ جماعتی اختلافات میں شامل نہ ہوں؛ اپنے اوقات سیاسی جھگڑوں میں ضائع نہ کریں۔ اپنے تمام تر وجود اور تمام تر توانائیوں کے ساتھ عوام کے لئے کام کریں؛ جو کچھ لوگوں سے وعدے کریں اسے انجام دیں اور اسکی تکمیل کی جستجو میں لگے رہیں۔
ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیئں۔ ہمیں خدا سے متوسل رہنا چاہیئے، ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہنا چاہئے ۔ملت ایران ایک عظیم ملت ہے، قدرت و توانائی رکھنے والی قوم ہے، عظیم مقاصد کی حامل ہے اور ان ہی اہداف کی طرف گامزن بھی ہے جسے وہ طے کر سکتی ہے۔ مجھے میں دعا کرتا ہوں کہ خداوند متعال اپنا الطاف و کرم آپ تمام ملت ایران پر جاری وساری رکھے؛
آپ کے سروں پر اپنا باران لطف وکرم برساتا رہے اور انشاء اللہ آج کا دن جو ہمارے ایرانی سال (1386 ھجری شمسی)کا پہلا دن (۲۱مارچ۲۰۰۷) ہے، لوگوں کے لئے ایک با برکت سال کا نقطۂ آغاز ثابت ہو۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دوستو اور بھائیو! خوش آمدید!
بنیادی نکتہ اور اہم ترین بات یہ ہے کہ گورنر ہر صوبے میں اپنے مقام کو صحیح طرح سے پہچانے اور حقیقی معنی میں اس مقام کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھوں پر محسوس کرے۔ میرے خیال میں کسی بھی صوبے میں گورنر اس صوبے کے سربراہ کا کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ گورنر کہے کہ فلاں شعبے نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا اس وجہ سے یہ کام پیچھے رہ گیا۔ جی نہیں! گورنر کو اپنی کوششوں سے اور مرکز و حکومت سے رابطے کے ذریعے ایسا کام کرنا چاہیے کہ اس صوبے میں مختلف شعبے اپنا اپنا کام انجام دے سکیں۔ گورنر کے لیے ضروری ہے کہ وہ امور پر نظر رکھے تاکہ تمام کام مکمل ہو سکیں۔ --- تو پہلی بات یہ ہے کہ گورنر کو اپنے مقام اور اس ذمہ داری کا پوری طرح سے ادراک ہونا چاہیے جسے اس نے قبول کیا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس بات پر توجہ رکھیے کہ اس وقت ہمارا ملک کام کے لیے تیار ہے۔ بحمداللہ آج ہمارا ملک پوری توانائی اور ہمہ گیر آمادگی کے ساتھ اور روز افزوں امید کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں بسا ہوا ہے۔ آج خوش قسمتی سے لوگ امید، مثبت نقطہ نگاہ اور ملک و حکومت کی مرکزیت سے وابستگی کے ایک احساس کے ساتھ آپ یعنی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ جب ہم ذمہ داریوں کے لحاظ سے حکومت کا تجزیہ کریں اور نچلی سطح پر آئیں تو ابتدائی مراحل میں وہ گورنروں تک پہنچتی ہے۔ لوگ آمادہ ہیں اور راہ مکمل طور پر ہموار ہے۔ حکومت کی موجودہ صورتحال، صدر مملکت کی ذاتی خصوصیات اور لوگوں کے ساتھ رفتار و گفتار کے سلسلے میں حکومت کے رویے نے بہت بہتر انداز میں راہ ہموار کردی ہے اور لوگوں میں حقیقی معنی میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ اگر آپ لوگوں کی جانب سے رابطہ کیے جانے کی جگہوں پر جائیں تو مجھے اطلاع ہے کہ اس وقت لوگوں کی شکایتیں کم ہو گئي ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسائل ختم ہوگئے ہیں، نہیں، اگر مسائل کم بھی ہو گئے ہوں تو اتنے کم نہیں ہوئے ہیں کہ لوگوں کی شکایتیں ختم ہو جائيں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں میں امید پیدا ہو گئي ہے۔ امید اپنا کردار ادا کرتی ہے، لوگ محسوس کرتے ہیں کہ کاموں میں پیشرفت ہو رہی ہے۔
عزیز بھائیو! جب سے انقلاب کامیاب ہوا اور یہ نظام بر سر اقتدار آیا، ہمیں اپنے ملک میں ایک متوقع چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جو اب بھی ہمارے سامنے ہے اور مدتوں تک ہمارے سامنے رہے گا۔ اگر کوئي یہ سوچتا ہے کہ ہم ان معیاروں اور مقررہ حدود کے مطابق اسلامی جمہوری نظام کے مالک ہوں گے اور دنیا پر مسلط طاقتیں، جو ان معیارات کی ضد ہیں، اپنی جگہ پر بیٹھی رہیں گي اور نہ صرف یہ کہ ہمارے خلاف جارحیت نہیں کریں گی بلکہ ہماری مدد بھی کریں گی تو یہ ایک بیجا توقع ہے۔ اس کی قطعی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ہم بین الاقوامی انصاف، معنویت کی جانب رجحان، بنی نوع انسان کی تعظیم اور دین خدا، معنویت اور اخلاقیات کی جانب رجحان کے معیار کے ساتھ بر سر اقتدار آئے ہیں، ہم عالمی سطح پر تسلط پسند طاقتوں کی توسیع پسندی اور اقتدار پرستی کے آگے نہ جھکنے کے معیار کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ سب اسلامی جمہوریہ کے معیارات ہیں۔ واضح ہے کہ جب آپ کی بنیاد ہی زور زبردستی کے خلاف استقامت ہو تو دنیا کے جارحین آپ سے صلح نہیں کریں گے بلکہ مقابلہ آرائي پرتلے رہیں گے۔ یہ مقابلہ آرائی انقلاب کے آغاز سے ہی تھی، اب تک ہے اور مستقبل میں بھی تب تک باقی رہے گی جب تک وہ مایوس نہیں ہو جاتے۔ آپ اپنے آپ کو اور ملک کو ایسے مقام تک پہنچا دیجیے کہ وہ مایوس ہو جائيں۔ اس وقت بھی یہ مقابلہ آرائي ہوگي لیکن بہت کم اثرات کے ساتھ۔ بنابریں ہمیشہ اپنے آپ کو چیلنجوں اور توسیع پسندوں سے مقابلے کے میدان میں سمجھئے اور اس نظریے کے ساتھ اپنے مسائل کا جائزہ لیجئے۔
جن لوگوں کے ساتھ اسلامی نظام کی مقابلہ آرائی ہے وہ اپنا مفاد کس چیز میں سمجھتے ہیں؟ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کے قائم رہنے سے امریکہ اپنا مفاد کس میں دیکھتا ہے؟ وہ اپنا مفاد لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور آج عوام کے درمیان جو اتحاد و یکجہتی آپ دیکھ رہے ہیں اسے ختم کرنے اور ملک کی علمی و سائنسی تحریک کو روک دینے میں سمجھتا ہے کیونکہ علم اور علمی برتری؛ کسی بھی ملک کے اقتصادی، سیاسی، فوجی شعبوں اور اقتدار میں پیشرفت کا راز ہوتی ہے۔ ہم نے یہ کام برسوں پہلے شروع کر دیا ہے اور بہت بہتر انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں، ہماری تحریک کئی گنا تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اگرچہ ان کا دل تو یہی چاہتا ہے کہ یہ تحریک ختم ہوجائے کیونکہ ان کا مفاد ،لوگوں کی خدمت کرنے کی جو لہر اٹھی ہے، اسے رکوانے میں ہے۔ لوگوں کی خدمت کا نعرہ جو کئی سال قبل ملک میں پیش کیا گيا تھا آج ایک شعار بن گيا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اسی شعار کی بنیاد پر اقتدار میں آئي ہے اور اس نے اسی گفتگو کے تحت اقتدار سنبھالا ہے۔ یہ لوگ ( سامراجی طاقتیں ) چاہتے ہیں کہ لوگوں کی خدمت کا عمل رک جائے۔ ان کا مفاد بدامنی پیدا کرنے میں ہے اور بدامنی پیدا کرنے کے محرکات بہت زیادہ ہیں۔ آپ کے پاس بھی رپورٹیں ہیں اور ہمارے پاس بھی بہت زیادہ رپورٹیں ہیں کہ مختلف طریقوں سے بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کا مفاد حکومت کو سیاسی گروہ بندی اور لفاظیوں میں الجھانے میں ہے، ان کا مفاد لوگوں کو مایوس کرنے اور ان نعروں اور اس راہ کی سچائي پر ان کے ایمان کو سلب کرنے میں ہے، لوگوں کو پژمردہ کرنے میں ہے۔ یہ سب ایسے کام ہیں جو فطری طور پر واضح ہیں۔ اگر ہمارے پاس ایک بھی رپورٹ نہ ہو تب بھی ہم جانتے ہیں کہ امریکہ، صیہونی طاقتوں اور ہمارے خلاف محاذ بنانے والوں کی مصلحت ان کاموں میں ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسی رپورٹیں بھی ہیں جن سے ان باتوں کی تصدیق ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ حقیقت میں اس طرح کے کام کرنا چاہتے ہیں۔
آپ لوگ اپنے صوبے کے سربراہ ہیں۔ ان مسائل کے سلسلے میں آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہی کام کا معیار ہے۔ اپنی ترجیحات اور روش کو انہیں چیزوں کے مد نظر منتخب کیجیے۔ یہ باتیں جو آپ لوگوں نے کہیں، بہت اچھی تھیں۔ وہ باتیں بھی جو محترم گورنروں نے بیان کیں اور وہ باتیں بھی جو وزیر محترم نے کہیں۔اب آپ لوگ کیا کریں گے؟ اسے عملی طور پر ظاہر کیجیے اور جو بھی کام کرنا ہو اسے معین کیجیے۔ کام کے پیچھے پڑ جائیے اور اسے بالکل ترک نہ کیجیے۔ کام کو معمولی نہ سمجھیے اور نہ اس سے اکتائیے۔ وقت بہت تیزی سے گزر جاتا ہے۔ یہی دیکھیے کہ آپ لوگوں کو اپنا عہدہ سنبھالے ہوئے چھے مہینے کا عرصہ گزر گيا۔ آپ کے کام کی مدت چار سال ہے۔ یعنی آپ کے کام کی مدت کا آٹھواں حصہ گزر چکا ہے اور صرف سات حصے بچے ہوئے ہیں اور وہ بھی بہت تیزی سے گزر جائیں گے۔ اس مدت میں، جو زیادہ نہیں ہے، بہت زیادہ کام کرنے کی کوشش کیجیے کہ اگر اگلے دورے میں خود آپ ہی گورنر رہے تو آپ اپنے ہی کام کو آسان بنائیں گے اور اگر کوئی دوسرا آپ کی جگہ پر آئے گا تو وہ آپ کے کاموں کو دیکھ کر اگر، اس نے زبان سے آپ کی تعریف نہ کی توکم از کم اپنے دل میں ضرور کہے گا کہ یہاں کتنا اچھا گورنر تھا اور اس نے کتنے اچھے کام کیے ہیں نتیجتا آج ہم ان کاموں کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اس طرح سے آگے بڑھنا چاہیے۔
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو امن عامہ کے مسئلے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ لوگوں کی خدمت تو اہم ہے ہی اور لوگوں کی رضامندی کو بھی بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ جناب صدر اور ان کی کابینہ کے صوبوں کے دورے بہت اچھے کاموں میں شامل ہیں۔ لوگوں کے درمیان جانا اور براہ راست ان کی بات سننا، اس شخص کو ترغیب دلانے میں بہت مؤثر ہے جسے کام کرنا ہے۔ البتہ اس کام کے ساتھ ہی دو باتوں کو ضرور انجام دیجیے۔ ایک تو یہ کہ کسی غیر سنجیدہ بات کے ذریعے اس امید کو لوگوں کے درمیان مت جگائیے جو ناممکن ہو یا جس کے عنقریب انجام پانے کا امکان نہ ہو تاکہ لوگوں کوقول اور فعل کی یکسانیت ناممکن نہ لگے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کی خدمت، کہ جو نقد کام اور سکوں بخش دوا کی مانند ہے، آپ کو بنیادی اور ضروری کاموں سے نہ روک دے۔ ہمیں دونوں کاموں کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ صرف بنیادی کاموں میں ہی مشغول ہو جائیں اور لوگوں کی روز مرہ کی ضروریات کی طرف سے غافل ہو جائیں کہ جو بہت ہی خطرناک چیز ہے اور نہ ہی اس کے برخلاف ہونا چاہیے کہ ہم لوگوں کے فوری، ضروری اور امدادی کاموں میں مصروف ہو جائیں اور ان چیزوں کی طرف سے غافل رہیں جنہیں ہماری طویل مدت توجہ کی ضرورت ہے۔ ان دونوں باتوں پر ضرور توجہ دی جانی چاہیے۔
آپ کا رویہ عوام پسندانہ، منصفانہ اور منکسرانہ ہونا چاہیے۔ لوگوں سے گرمجوشی سے ملیے، ان کے ساتھ انکساری سے کام لیجیے، جہاں ضرورت پڑے لوگوں کے گھروں میں بھی جائیے۔ گورنری کا عہدہ آپ پر چھا نہ جائے، آپ پر غلبہ نہ کر لے۔ یہ بہت ہی زیادہ اہم ہے۔ لوگوں کو پتہ چلنا چاہیے کہ کوئي انہیں میں سے ہے؛ ایسی صورت میں گورنر کی شان و منزلت زیادہ باقی رہے گی۔ کبھی یہ مت سوچیے گا کہ اگر کوئی لوگوں سے الگ رہے گا تو اس کی زیادہ شان ہوگی؛ نہیں، شان و منزلت حکام کے لیے اچھی ہے یہ شان و منزلت لوگوں کو محسوس ہونی چاہیے اور یہ شان و منزلت آپ کے معنوی رویے سے حاصل ہوگی۔ جب آپ صحیح ہوں گے، اپنے ذاتی مفادات کی فکر میں نہیں رہیں گے، اپنے آرام کو لوگوں کے آرام پر قربان کر دیں گے، خدا کے لیے کام کریں گے اور خلوص کے ساتھ کام کریں گے تو خداوند متعال لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اور ہیبت دونوں پیدا کر دے گا۔ میں نے ایسے افراد کو بھی دیکھا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو لوگوں سے الگ کر لیا، یہ سوچ کر کہ یہ کام ان کے لیے ایک شان ہے ایک الگ پہچان ہے لیکن لوگ ایسے لوگوں کو ذرہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے تھے یعنی لوگوں کی نظروں میں ان کی کوئي عزت نہیں تھی، تو لوگوں کے ساتھ رہیے۔
مخلص اور ماہر افرادی قوت کی جانب سے غافل مت رہیے۔ پورے ملک میں ایسی افرادی قوت ہے جو ممکن ہے، مرکز میں رہنے والوں یعنی ہم لوگوں کے لیے جانی پہچانی نہ ہو لیکن اس میں ضروری مہارت اور اخلاص ہے۔ ایسے لوگوں کو کام کے دائرے میں شامل کیجیے اور ان کی صلاحیت سے استفادہ کیجیے۔ اسی طرح سے نظام اور حکومت کے بنیادی اہداف یعنی قومی ترقی کے پانچ سالہ منصوبے اور پنج سالہ پروگرام کو جو کہ منظور ہو چکا ہے، اپنے پروگراموں میں مدنظر رکھیے۔ آپ کے پروگراموں میں یہ ضرور دکھائی دینا چاہیے، اسی کے تناظر میں آگے بڑھیے۔
میری نظر میں ان تمام امور میں بنیادی نکتہ، اخلاص، خدا کے لیے کام کرنا، خدا سے رابطے کے لحاظ سے اپنا خیال رکھنا اور اپنے اندر معنوی پہلو کو مضبوط بنانا ہے۔ میں دیکھا رہا ہوں اور میرا خیال ہے کہ جو کوئی کام اور لوگوں کی خدمت کے لیے اہتمام کرتا ہے اگر وہ خدا سے اس رابطے کو مضبوط بناتا ہے تو خداوند عالم اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے سامنے راستے کھول دیتا ہے۔ ان شاء اللہ خدا آپ کو اس بات کی توفیق دے گا کہ آپ نے جن کاموں کی ذمہ داری قبول کی ہے، انہیں انجام دیں۔ ایسا بننے کی کوشش کیجیے کہ اگر ایک بار پھر ہم آپ سے ملے تو اس ملاقات میں جو کچھ آپ کہیں وہ یہ ہو کہ: ہم نے یہ کام کیا، یہ بڑا قدم اٹھایا اور اس قدر پیشرفت کی۔
خدمت کے لیے راہ بہت ہی ہموار ہے اور آپ لوگ خدمت گزار ہیں۔ اس میدان میں کمر ہمت مضبوطی سے باندھ لیجیے اور دشمن سے بالکل مت گھبرائیے، دشمن سے خوفزدہ ہونے کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔ یہ دشمن جنہوں نے بظاہر ایک متحدہ محاذ تشکیل دیا ہے بباطن اور درحقیقت یہ لوگ انتشار کا شکار ہیں۔ یہ لوگ ان بھیڑیوں اور کتوں کی طرح ہیں جنہوں نے اسلامی امت اور اسلامی معاشرے کے خلاف ایک گلہ تیار کیا ہے لیکن در حقیقت ان کے دل و جان بھی ان کے جسم کی مانند ایک دوسرے سے الگ ہیں؛ مگر بظاہر یہ ہمارے ملک میں اسلام اور سربلند اسلامی پرچم کے خلاف ایک متحد محاذ میں ہیں، ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سے ہرگز مرعوب نہ ہوئیے، یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو اس صراط مستقیم پر محفوظ رکھ سکیں اور استقامت کا مظاہرہ کر سکیں تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ان کی چالیں یہی ہیں جو آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں، یہ سب ناکام چالیں ہیں۔ آپ دیکھیے کہ آج امریکی، عراق میں اپنی مصلحت اختلافات پیدا کرنے اور عوام کے ذریعے برسراقتدار آنے والی حکومت کو نااہل ظاہر کرنے میں دیکھ رہے ہیں اور اسی لیے وہ اختلاف اور قبائلی جنگ شروع کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی ایک مثال پچھلے دنوں سامرا میں رونما ہونے والا وہ المناک واقعہ ہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے اور اپنے مختلف سیاسی اہداف کے حصول کے لیے توہین آمیز خاکوں کی شکل میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اہانت کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ دونوں کام ایک ہی نوعیت کے ہیں؛ یعنی لوگوں کے مقدسات کی اہانت کے میدان میں قدم رکھنا تاکہ اس سے پیدا ہونے والے ہیجان سے پورے پروگرام کے ساتھ اپنے مدنظر اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ نتیجہ کیا ہوا؟ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ آج توہین آمیز خاکوں کا مسئلہ عالم اسلام میں ایک عمومی تحریک اور سامراج کے خلاف عالم اسلام میں نفرت پھیلنے پر منتج ہوا ہے جبکہ سامرا کے واقعے کے سبب دنیا کے بہت سے علاقوں میں شیعوں اور سنیوں کے درمیان اتحاد ہوا ہے۔ شیعہ اور سنی علماء ایک ساتھ بیٹھے انہوں نے مل کر بیان جاری کیا اور اس واقعے کی مذمت کی۔ بنابریں دشمن میں اتنی صلاحیت نہیں ہے۔ اس کی سازشیں جانی پہچانی اور گھسی پٹی ہیں۔ انہوں نے برسوں تک ان سازشوں پر کام کیا ہے لیکن آج عالم اسلام بیدار ہو چکا ہے اور عالم اسلام کی بیداری کے بعد وہ کوئي کام نہیں کر سکتے۔ البتہ اس بیداری کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ شیعہ اور سنی بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے؛ امت مسلمہ کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہیے۔ دشمن کے اہداف کو مسلم رائے عامہ کے سامنے بیان کرنا چاہیے کہ وہ ( دشمن ) فتنہ پھیلانا اور مذہبی اختلافات پیدا کرنا چاہتا ہے؛ چاہے وہ عراق میں ہو یا دنیا کے دوسرے علاقوں میں۔ لوگوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ آج عراقی حکومت کو، جو امریکہ کی شکست کی مظہر ہے، ایسے لوگوں کے درمیان سے، جو اسلام کے عاشق و شیدا ہیں، ایک عوامی جمہوریہ نہیں بنانے دیا جا رہا ہے، کیونکہ امریکی اس کام کے لیے عراق میں نہیں آئے تھے۔ وہ اس لیے آئے تھے کہ عراق میں ایک ایسی حکومت کو بر سر اقتدار لے آئيں جو ان کی پٹھو ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ کر سکے وہ یہ تو نہیں چاہتے تھے کہ ایک اسلام پسند گروہ آ جائے جو مرجع تقلید کی نگاہوں اور علمائے دین کے اشارے سے قدم آگے بڑھائے یا رک جائے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایسی کوئی حکومت بر سر اقتدار آئے لیکن عراقی عوام کی یہی خواہش تھی اور یہ ہو گيا۔ اب وہ عراق میں، جو مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کی شکست کا مظہر ہے، کسی نہ کسی طرح اختلافات پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ عراقی حکومت جو عوام کی رائے اور ان کے ووٹوں سے برسر اقتدار آئي ہے، اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کر سکے۔ ان شاء اللہ وہ ناکام رہیں گے اور ایرانی عوام کی مانند عراقی عوام فہم و فراست سے ان کا جواب دے دیں گے ۔
ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ لوگو کی مدد اور دستگیری کرے۔ آپ لوگوں کی رہنمائی کرے کہ آپ لوگ پورے عزم و حوصلے کے ساتھ لوگوں میں نشاط اور امید پیدا کر سکیں۔ بہترین طریقے سے کام انجام دے سکیں اور یہ بات محسوس کر سکیں کہ کام میں پیشرفت ہو رہی ہے؛ یعنی جب آپ زمینی طور پر اور عملی میدان میں دیکھیں تو خود آپ کو محسوس ہو کہ کام آگے بڑھ رہا ہے۔ خداوند متعال آپ سب کو کامیاب کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
ماہ محرم اور شجاعت و ولولے سے معمور عشرہ محرم کی آمد کے طفیل میں حقیر کو یہ موقع ملا کہ آپ عزیز علما و خطبا و مقریرین و مبلغین کی زیارت کروں۔ میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے زحمت کی اور تشریف لائے۔ خصوصا ان عزیزوں کا جو قم سے تشریف لائے ہیں۔ میں چند باتیں عاشور اور تبلیغ کے سلسلے میں عرض کروں گا۔
عاشور کا واقعہ ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ
عاشور کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ عاشور کا واقعہ ایک خالص تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ امت اسلامیہ کے لئے ایک ثقافت اور ایک ابدی تحریک کا سرچشمہ اور ایک پائدار نمونۂ عمل ہے۔ حضرت ابوعبداللہ الحسین (ع) نے اپنی تحریک کے ذریعےجس کی اس دور میں شدید ضرورت تھی ملت اسلامیہ کے لئے ایک لائحہ عمل پیش کیا۔ یہ صرف درس شہادت ہی نہیں بلکہ بے شمار تعلیمات کا خزینہ ہے۔ حضرت امام حسین (ع) کی تحریک کے بنیادی عناصر تین ہیں منطق و عقل کا عنصر ، شجاعت و حمیت کا عنصر اور مہر و محبت کا عنصر ۔
واقعہ کربلا میں عقل و منطق کا عنصر
اس تحریک میں عقل و منطق کا عنصر امام کے بیانوں میں جلوہ گر ہے۔ تحریک کے آغاز سے قبل، مدینے سے لے کر شہادت تک کے ان نورانی بیانات کا ایک ایک جملہ ایک قوی منطق کو بیان کرتا ہے اور اس منطق کا نچوڑ یہ ہے کہ جب حالات سازگار ہوں تو مسلمان کا فرض اقدام کرنا ہے۔ چاہے اس اقدام میں انتہائي خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔ انسان مکمل خلوص کے ساتھ خود اپنے اعزاء و اقارب ، بیوی بچوں، بھائي بہنوں کو میدان میں لے آئے قید کے لئے تیار ہو جائے۔ یہ ایسی چیزيں ہیں کہ جن کو اس قدر زیادہ دہرایا گيا ہے کہ ہمیں معمولی نظر آتی ہیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک لفظ انقلابی تاثیر کا حامل ہے۔ بنابریں جب اقدام ناگزیر ہو تو انسان کو اقدام کرنا چاہئے، دنیا انسان کو اس سے روک نہ سکے۔ مصلحت پسندی اور بے جا احتیاط انسان کے سد راہ نہ ہو، جسمانی لذت و سکون اور آسائش و آرام انسان کے سدراہ نہ ہو ، انسان کو بڑھنا چاہئے انّ رسول اللہ (ص) قال : من رای سلطانا جائرا مستحلا لحرم اللہ و لم یغیّر علیہ بفعل و لاقول کان حقّا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ منطق یہ ہے کہ جب دین خطرے میں ہو ، اگر آپ ان دگرگوں حالات کا اپنے کلام یا عمل کے ذریعے مقابلہ نہ کریں تو اللہ کا یہ حق ہے کہ بے اعتنائي برتنے اور اپنی ذمے داری ادا نہ کرنے والے شخص کو اسی سزا سے دوچار کرے جس کا سامنا دوسرے فریق یعنی مستکبر اور ظالم کو ہوگا ۔
حسین بن علی (ع) نے مکے میں ، مدینے میں ، راستے کے مختلف حصوں میں اپنے مختلف فرامین اور محمد بن حنفیہ سے اپنی وصیت میں اس فرض کو بیان فرمایا۔ حسین ابن علی اس کام کے انجام کو جانتے تھے: یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ آپ اقتدار کے حصول کے لئے اپنی آنکھیں بند کرکے انجام سے بے خبر آگے بڑھے۔ نہیں تحقیقی جائزہ ہمیں اس نتیجے تک نہیں پہنچاتا، اس اقدام کا انجام کیا ہوگا اس کا پورا علم امام حسین (ع) کو تھا، وہ علم لدنی اور خداداد فہم و فراست کے ذریعے انجام کا قبل از وقت مشاہدہ کرنے پر قادر تھے لیکن مسئلہ تھا دین کی بقا کا، اس عظیم ہدف پر فخر کائنات حسین بن علی (ع) نے اپنی جان قربان کی۔ یہ مسلمانوں کے لئے قیامت تک کے لئے درس ہے اور یہ عملی درس ہے۔ یہ ایسا درس نہیں ہے جو وقت گزرنے کےساتھ طاق نسیاں کی زینت بن جائے۔ نہیں، یہ وہ درس ہے جو تاریخ اسلام کے افق پر سورج کی مانند ضو فشاں ہے۔ آپ کی آواز استغاثہ پر آج تک انسانی ضمیر صدائے لبیک بلند کر رہا ہے۔ 1961 ع کے محرم میں امام خمینی نے اس درس سے استفادہ کیا اور پھر وہ چار جون کا عظيم واقعہ پیش آيا۔ 1968 کے محرم میں بھی امام خمینی (رہ) نے دوبارہ اسی واقعے کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا : خون کو تلوار پر فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ بے مثال واقعہ، یعنی انقلاب اسلامی، رونما ہوا۔ یہ ہمارے اپنے زمانے کا واقعہ ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے جو ماضی میں بھی ہماری ملت کے لئے فتح و کامیابی کا ضامن رہا ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ منطق کا یہ حصّہ عقلی ہے اور اس میں استدلال ہے۔ بنابریں امام حسین (ع) کے اقدام کی تشریح صرف جذبات پر مبنی زاویہ نگاہ کے ذریعے نہیں کی جا سکتی ہے، اس زاویہ نگاہ سے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
واقعہ کربلا کا شجاعت کا پہلو
دوسرا عنصر شجاعت و حمیت کا ہے یعنی جہاد، اسلام کی عزت و سربلندی کے لئے ہونا چاہئے۔ کیونکہ العزۃ للہ و لرسولہ و للمؤمنین ۔ مسلمان کو اس تحریک کے راستے میں اور اس جہاد کے دوران بھی اپنی اور اسلام کی عزت کا تحفظ کرنا چاہئے۔ انتہائي مظلومیت کے عالم میں بھی آپ کربلا والوں کے چہروں پر عزت و توقیر کی چمک دیکھیں گے۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جنہوں نے تحریک چلائی ہے جنگ بھی کی ہے لیکن اپنی عزت اور اپنے وقار کی حفاظت نہیں کر سکے۔ حسین ابن علی کا کارنامہ ایسا نہیں ہے۔ ان کا ہر قدم با وقار اور عمل پر افتخار ہے۔ جب حسین بن علی (ع) ایک رات کی مہلت حاصل کرتے ہیں تب بھی اپنے عز و شان پر کوئي آنچ نہیں آنے دیتے۔ جب آپ نے "ھل من ناصر" کہہ کر نصرت طلب کی تو بھی اپنا وقار مجروح نہیں ہونے دیا۔ جب مدینے سے کوفے تک کے سفر میں مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئی اور ان سے باتیں کیں اور ان میں سے بعض کو مدد کے لئے کہا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ خود کو کمزور محسوس کر رہے تھے۔ یہ بھی ایک دوسرا نمایاں عنصر ہے۔ یہ عنصر عاشور کے پیروؤں کو اپنے منصوبوں میں شامل رکھنا چاہئے۔ جہاد کے تمام اقدامات، چاہے سیاسی اور تشہیراتی ہوں یا جان قربان کرنے کا مقام ہو، عزت کے ساتھ طے ہونے چاہئیں۔ عاشور کے دن مدرسہ فیضیہ میں امام خمینی کے چہرے پر نظر ڈالیں۔ ایسا عالم دین کہ جس کے پاس نہ مسلح افراد ہیں اور نہ جنگی ساز و سامان لیکن ایسے پر وقار انداز میں شعلہ بیانی کرتا ہے کہ دشمن کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ یہ مقام عزت و وقار ہے۔ تمام حالات میں امام کا طرز عمل یہی تھا ۔ آپ اکیلے تھے آپ کے پاس ساز و سامان اور ساتھی نہیں تھے لیکن آپ باوقار رہے۔ یہ ہمارے امام خمینی کی عظیم شخصیت تھی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جس میں امام کی شکل میں کربلائی تحریک کا مجسم نمونہ سامنے آیا اور ہمیں اس کی زیارت کرنے، اس کے گہربار فرامین کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا موقع ملا ۔
کربلا مہر و محبت کا حقیقی مظہر
تیسرا عنصر مہر و محبت کا ہے یعنی اس واقعے کے دوران اور پھر اس کے بعد کی منزلوں میں مہر و محبت کے جذبے نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اسی جذبے نے عاشور کی تحریک کو ایک الگ تشخص عطا کر دیا ہے۔ واقعہ کربلا جنگ و جدل، قتل و خونریزی ہی نہیں بلکہ مہر و محبت اور عشق و مودت کے پلؤوں پر استوار ہے۔ مہر و محبت کا درجہ بہت عظیم ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں محبت حسین میں گریہ کرنے کا حکم ہے ۔زينب کبری (س) کوفہ و شام میں منطقی باتیں کرتی ہیں لیکن ساتھی ہی مصائب بھی بیان کرتی ہیں۔ مصائب بیان کرنے کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا تا کہ محبت و مودت کے جذبات ہمیشہ بیدار رہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جنہیں عطوفت اور عشق و محبت کے ماحول میں ہی سمجھا جا سکتا ہے، اس ماحول سے دور رہ کر اس کا ادراک ممکن نہیں۔ یہ تین عناصر حسین بن علی (ارواحنا فداہ ) کی عاشورائي تحریک کے بنیادی عناصر ہیں ۔ان کے بیان کے لئے ایک ضخیم کتاب درکار ہے جبکہ یہ عاشورائے حسینی کی تعلیمات کا صرف ایک چھوٹا سا پہلو ہے ۔
حسینی تحریک سے دینی تبلیغ کا موقع ملا
ہم مبلغین! حسین بن علی (ع) کے نام پر تبلیغ کرتے ہیں اور یہ عظیم موقع اس عظيم ہستی کے تذکرے کے طفیل میں مبلغین کو میسر ہوا ہے کہ وہ مختلف سطحوں پر دین کی تبلیغ کریں۔ ہماری تبلیغ میں ان تینوں میں سے ہر عنصر کا کردار نمایاں ہونا چاہئے ۔ صرف جذباتیت کو بیان کرنا اور واقعۂ کربلا میں موجود عقلی و منطقی پہلو کو نظر انداز کرنا اس واقعے کی اہمیت کم کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح شجاعت و حمیت کے پہلو کو نظر انداز کرنا بھی اس عظیم واقعے کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس مسئلے کا ذاکروں اور خطیبوں سب کو خیال رکھنا چاہئے۔
تبلیغ کے کیا معنی ہیں؟ تبلیغ کے معنی پہنچانے کے ہیں۔ آپ کو پہنچانا ہے۔ کس تک؟ کہاں تک؟ کانوں تک نہیں بلکہ دلوں کی گہرائیوں تک۔ ہماری بعض تبلیغات حتی ٹھیک طرح سے کانوں تک بھی نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ کان ان کو قبول کرتے ہیں نہ ہی منتقل کرتے ہیں۔ کان بات حاصل کرنے کے بعد دماغ تک منتقل کرتا ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کو دل تک پہنچنا چاہئے اور اس کا اثر ہم اور سامع دونوں پر نظر آنا چاہئے۔ یہ ہے تبلیغ کا مقصد۔ ہم تبلیغ صرف اس لئے نہیں کرتے ہیں کہ کوئی بات بس بیان کر دی جائے بلکہ تبلیغ کا مقصد یہ ہے کہ جو تبلیغ کا موضوع ہے وہ مخاطب کے دل میں اتر جائے۔ وہ موضوع کیا ہے؟ موضوع ایسی تمام چیزیں ہیں جن کی حفاظت کے لئے حضرت امام حسین (ع) نے اپنا بھرا گھر لٹا دیا۔ تمام انبیاء و اولیاء نے بھی یہی طرز عمل اختیار کیا البتہ اس روش کا اوج حسین بن علی (ع) ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دین کی مدلل تعلیمات اور اصولوں کو ایسے پیش کیا جائے کہ مخاطب کا ذہن و دل اسے قبول کرے اور یہ چیزیں اس کی شخصیت کا جز بن جائیں۔
شخصیت کی تعمیر
ان تعلیمات میں سے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل ہے۔ میں یہ عرض کر دوں کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کسی معجزے سے کم نہیں ہے لیکن حکومت تشکیل دینے کے ساتھ ہی افراد کی شخصیت کو سنوارنا بہت اہم ہے ۔ نبی اکرم نے پہلے انسانوں کی تربیت کی۔ پہلے پاکیزہ شخصیت کی بنیاد رکھی اور پھر آپ نے اس بنیاد پر دین کی عمارت کو تعمیر کیا۔ دس سال کے عرصے میں کہ جس میں سو برسوں کا کام انجام دیا گيا تھا، پیغمبر (ص) نے کبھی بھی لوگوں کی شخصیت کی تعمیر کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ معرکہ کارزار ہو، محراب عبادت ہو یا کوئي اور مقام ہر وقت اس نقطے پر آپ کی توجہ مرکوز رہی۔ پیغمبر (ص) نے خندق ، بدر اور احد جیسی خطرناک جنگوں میں بھی انسان سازی کا کام انجام دیا۔ قرآن کریم کی آیات کا مطالعہ کیجئے۔ انسان سازی اس تبلیغ کا مقصد ہے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔
سیاسی مسائل کی اہمیت
ہمیں دینی تبلیغ کے وقت بھی سیاسی مسائل کو اپنی گفتگو، کوشش اور جد وجہد کے دائرے سے خارج نہیں ہونے دینا چاہئے ۔ دشمنوں نے اس سلسلے میں دسیوں سال تک کام کیا لیکن اسلامی انقلاب رونما ہو گيا اور ان کی ساری کوششوں پر پانی پھر گیا۔ انقلاب نے سیاسی گفتگو اور نظریات کو دینی سرگرمیوں کے دائرے میں داخل کر دیا۔ دوسری اہم بات مخاطب کے جذبات کی قدر کرنا اس کی شخصیت کی اہمیت کا خیال رکھنا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کے افکار و نظریات کی تعمیر کریں اسے آباد اور سیراب کریں۔ البتہ اس کے لئے ایک باطنی سرچشمے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے اپنے اندر ایک چیز موجود ہونی چاہئے تاکہ مخاطب پر اس کا اثر ہو سکے ورنہ نہیں ہوگا ۔ اس باطنی سرمائے میں فکر و منطق کا عنصر ہونا چاہئے۔ ہم کو صحیح فکر و منطق سے لیس ہونا چاہئے تا کہ بات کمزور نہ ہو، جن افراد نے کہا ہے کہ مؤثرترین حملہ، کمزور اور ناقص دفاع ہے انہوں نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔ اگر دین کا دفاع کمزور اور نادرست ہو تو اس کا اثر دین پر حملے سے بھی زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات سے خدا کی پناہ حاصل کرنا چاہئے۔ مبادا ہماری باتوں، تقریر اور تبلیغ میں یعنی جو چیز ہم تبلیغ کے نام پر انجام دے رہے ہیں، کوئی کمزور ، غیر منطقی اور غیر مسلّم بات ہو۔ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جو کتابوں میں تحریر ہیں لیکن ان کی کوئی سند نہیں ہے۔ یہ دل میں اتر جانے والی حکمت اور اخلاقی مسائل پر مشتمل باتیں ہیں۔ ان کی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کو بیان کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ایسی بات ہے جو مخاطب کے ذہن میں اترنے والی نہیں ہے۔ اس کا قبول کرنا اس کے لئے مشکل ہے تو یہ بات بیان نہیں کرنی چاہئے ۔کیونکہ یہ بات اس کو اصل مسئلے سے دور کر دے گی اور اس کے ذہن میں دین اور مبلغ کی ساکھ خراب ہوگی۔ وہ خیال کرے گا کہ یہ بات منطق سے خالی ہے حالانکہ ہمارے کام کی بنیاد منطق ہے۔ بنابریں منطق، ہماری تبلیغ کا اصل عنصر ہے ۔
عمل، قول کی تاثیر کی ضمانت
اس کے بعد ہمارے عمل کی نوعیت کی باری آتی ہے۔ ہم فلاں شہر یا دیہات میں تبلیغ کے لئے جاتے ہیں تو ہمارا کردار ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ملنا جلنا ، ہماری عبادت ، دنیوی نعمتوں سے ہمارا لگاؤ یا عدم لگاؤ ، کھانا پینا اور ہمارا سونا ہماری تبلیغ میں ممد ومعاون بھی بن سکتا ہے اور ہماری تبلیغ کو بے اثر بھی بنا سکتا ہے ۔ اگر یہ کام ٹھیک ہوں تو یہی تبلیغ ہیں اگر غلط ہوں تو تبلیغ کے منافی ہیں۔ ہم سماجی ماحول اور زندگي کے میدان میں لوگوں کو اپنی گفتگو سے کیسے مطمئن کر سکتے اور کس طرح ان کا اعتماد حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ہم دنیوی خواہشات کی مذمت میں باتیں تو کرتے ہیں لیکن ہمارا اپنا عمل خدا نخواستہ اس کے خلاف ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ ایسی باتیں مؤثر واقع ہوں؟ یا تو بالکل مؤثر واقع نہیں ہوں گي، اگر موثر ہوئیں بھی تو ان کا اثر دیر پا نہیں ہوگا۔ جب ہمارے عمل کی حقیقت سامنے آئے گي تو ان باتوں کا الٹا اثر ہوگا۔ بنابریں عمل بہت اہم ہے ۔ تیسرا عنصر فن بیان ہے۔ میں فن تقریر کا بہت قائل ہوں ۔آج کے دور میں انٹرنیٹ ، سیٹیلائٹ ، ٹیلی ویژن جیسے مواصلاتی ذرائع ہیں لیکن تاثیر میں کوئی ایک بھی تقریر کے ہم پلہ نہیں ہے ۔ تقریر یعنی لوگوں کے سامنے اور ان کے ساتھ بات کرنا ۔اس کا ایک واضح اور نمایاں اثر ہوتا ہے اور دوسرے کسی بھی مواصلاتی ذریعے میں یہ اثر نہیں پایا جاتا ہے ۔اس کا تحفظ کیا جانا چاہئے ۔یہ گرانقدر چیز ہے ۔البتہ اس کو فن کے ساتھ ادا کرنا چاہئے تا کہ مؤثر واقع ہوسکے ۔
خوف الہی کی ضرورت
ایک نکتہ اسی تبلیغ کے بارے میں بیان کروں۔ صحیفۂ سجادیہ کی ایک دعا میں حضرت سجاد (ع) اپنی جانب سے خداوند تعالی سے عرض کرتے ہیں کہ تفعل ذلک یا الہی بمن خوفہ اکثر من رجائہ لا ان یکون خوفہ قنوطا میرا خوف رجاء سے زیادہ ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ میں ناامید ہوں۔ یہ ایک باضابطہ دستور العمل ہے۔ خوف کو امید کے ساتھ دلوں میں ضرور پھونکئے البتہ خوف کا پہلو غالب رہے۔ یہ کہ ہم رحمت الہی سے متعلق آیات پڑھیں کہ جن میں سے بعض آیات اور بشارتیں خاص مؤمنین کے گروہ کے ساتھ مختص ہیں اور ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں نتیجے میں بہت سے افراد واجبات اور محرمات سے غافل ہو جائیں یہ درست نہیں ہے اللہ کا خوف سب کو ہونا چاہئے قرآن میں خوشخبری مؤمنین سے مختص ہے لیکن انذار کا تعلق سب سے ہے ۔ مؤمن اور کافر سب کے لئے ہے۔ پیغمبر خدا گریہ کر رہے تھے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ (ص) اللہ تعالی نے فرمایا ہے : لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک و ماتاخر ۔تو یہ گریہ کس لئے ہے آپ (ص) نے فرمایا : او لا اکون عبدا شاکرا یعنی تو کیا میں شکر بھی ادا نہ کروں، اگر اس مغفرت کا شکر ادا نہ کروں تو اس مغفرت کی بنیاد کمزور ہوجائے گی۔ ہرحالت میں انذار کو ہمارے اور ہمارے سامع کے دل پر حکمفرما ہونا چاہئے۔ راستہ بہت کٹھن ہے۔ انسان کو یہ راستہ طے کرنے اور اس کی منزل تک پہنچنے کے لئے تیار ہونا چاہئے۔ تبلیغ کا کام، بہت عظیم، حساس اور مؤثر کام ہے۔ آج ہم سابق تبلیغات کی برکات و نتائج دیکھ رہے ہیں اور آپ لوگوں کی آج کی تبلیغات کی برکات معاشرہ آئندہ دیکھے گا ان شاء اللہ ۔ تبلیغ کا اثر اچانک اور فورا نہیں ہوتا ہے بلکہ طویل مدت میں ہوتا ہے ۔ دین کا مبلغ اگردیکھے کہ ظواہر غیر دینی ہیں تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ افواہیں جو بعض لوگ پھیلا رہے ہیں کہ جوان دین سے منہ موڑ چکے ہیں ، ان سب باتوں کو آپ نفسیاتی جنگ سمجھئے یہ افواہ ہے حقیقت نہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے دل دین کی طرف مائل ہیں ، وہ حقائق کے پیاسے ہیں اور ان کے دل پیاسے ہیں ۔ ہر پاک فطرت جو ان اسی طرح ہے۔ آپ کی محنتوں کانتیجہ آئندہ نسلوں کو ملے گا۔ آج پہلے کی محنتوں کے نتیجے میں ماحول سازگار ہے لوگ علوم و تعلیمات اہل بیت کے پیاسے اور آپ کی باتیں سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں آپ اپنے بیان سے انہیں بہرہ مند کیجئے
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ وہ ہم سب کو تبلیغ دین اور اس صراط مستقیم کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے کہ جو انقلاب نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور ہمیں اس بات کی بھی توفیق دے کہ ہم سنگین فرائض کو پورا کر سکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارا یہ سالانہ جلسہ ایک تو آپ سب لوگوں سے ملاقات کا اچھا موقع ہے، دوسرے اس جلسے کے توسط سے میں آپ کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار اور آپ کی زحمتوں کا شکریہ ادا کرسکتا ہوں۔ میں ثقافتی کونسل کے تمام کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی باتیں سننے کے لئے بھی تیار ہوں اور کچھ باتیں آپ سے کہنا بھی چاہتا ہوں۔ جو باتیں آج کرنا چاہتا ہوں وہ وہی پرانی باتیں ہیں ملک میں اس کونسل اور ثقافت کی اہمیت پر میں نے بارہا تاکید کی ہے۔ آپ نے بھی یہ کہا ہے اور دیگر دوستوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔ لیکن یہ احساس ہورہا ہے کہ ان باتوں کی تکرار ہم سب کے لئے ، میرے کے لئے ، عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں ، آپ سب کے لئے جو کونسل کے اراکین ہیں اور ملک کے ثقافتی شعبوں میں کام کرنے والوں کے لئے ضروری ہے ۔
میں ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں، تقریبا دوتین برس قبل ہمارے ایک بڑے اچھے دوست نے جو اس کونسل میں بھی سرگرم عمل تھے ، میرے ساتھ ملک کے عام کلچرل، تربیتی امور اور معاشرے میں پیش آنے والے بعض مسائل کے بارے میں گفتگو کی ۔ میں نے ان سے کہا کہ اس سلسلے میں جو کچھ کررہا ہوں بس وہی کرسکتا ہوں یعنی قومی ثقافتی کونسل کی تشکیل اور اس میں اہل فکر و نظر افراد کی شمولیت جو ملک کی تہذیب و تمدن کے بارے میں منصوبہ بندی کرسکیں۔ اس کے علاوہ میں اس کونسل کی قانونی مدد اور حمایت بھی کرسکتا ہوں۔ میں اتنا کام کرسکتا ہوں یہ میری ذمہ داری ہے لیکن اس کے بعد آپ کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں خدا کے سامنے آپ کی شکایت کروں گا اور خدا سے کہوں گا کہ میں نے اپنی دانست میں بہترین افراد کو اس کونسل میں اکٹھا کیا اب آپ کو بھی خدا کے سامنے جواب دینا ہوگا۔ جو کچھ کہنا ہے خدا سے کہئے اور اس کی فکر میں رہئے ۔ اب میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کونسل کی ذمہ داری علم و ثقافت کی اہمیت کے پیش نظر نہایت سنگین ہے۔ البتہ یہاں زیادہ اہمیت ثقافت کو حاصل ہے کیونکہ خود تعلیم و تربیت اور متعلقہ موثر پالیسیاں اور حکمت عملی سب کچھ معاشرے کی ثقافت کے تحت آتی ہیں ۔
میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ انقلاب کی جڑیں اس سرزمین کے عوام کے دینی عقائد میں پیوست ہیں انہیں ہیجانات اور سطحی اور مختلف طرح کے ہتکھنڈوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا ۔ ہم ملک میں ایسے نواجوان طبقے کے طلوع کا نظارہ کر رہے ہیں جو باایمان اور انقلاب کے سلسلے میں حساس ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ ماہرین بھی سامنے آرہے ہیں یہ قابل انکار نہیں ہے۔ یہ طبقے ہماری یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز میں سے نکل رہے ہیں لیکن اگر سطحی بیماریوں کا علاج نہ کیا جائے تو وہ بدن کی گہرائیوں میں سرایت کرجائیں گی اگر دانت کی سطح پر موجود کیڑوں کو نہ نکالا جائے تو وہ دانت کو سڑا دیں گے نتیجے میں دانت نکالنا پڑے گا ۔
ہمارے ملک میں یہ نئی صورتحال جو وجود میں آئی ہے اور حکومت اور عوام میں جو ر جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے یہ امید جاگتی ہے کہ غلط فیصلوں کےاثرات کم کرنے کے لئے ماحول مناسب ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم ہر چیز کے بارے میں پہلے سے قطعی نظریات قائم کرلیں۔ نہیں یہ مناسب نہیں، بہت سے کام بتدریج انجام پاتے ہیں۔ بہرحال ماحول مناسب ہے، کیونکہ اب ایسے نعرے سننے میں آرہے ہیں جو انقلاب کے بنیادی اہداف سے ہماہنگ ہیں اور عوام نے ان نعروں کا مثبت جواب دیا ہے، میں نے یہ بات بارہا کہی ہے، ابھی کچھ دنوں پہلے جو انتخابات ہوئے تھے ان میں عوام کی اکثریت نے انقلابی اقدار کو ووٹ دیا۔ لوگوں نے جناب رفسنجانی کو ووٹ دئے اور جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے لیکن یہ ووٹ دراصل انقلابی اقدار کو دئے گئے۔ جناب رفسنجانی بھی انقلاب کی ممتاز شخصیتوں میں ایک ہیں۔ وہ ایک عالم دین ہیں۔ بہت سے لوگوں نے جو انہیں ووٹ دیا ہے در اصل انقلابی اقدار کو ووٹ دیا ہے۔ یہ تصور نہ کیا جائے کہ سترہ ملین افراد نے جناب احمدی نژاد کو ووٹ دئے ہیں اور دس ملین نے نہیں دئے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ ان انتخابات میں عوام کی اکثریت نے دین کی پابندی، انقلابی اقدار کی پائیداری اور امام خمینی (رہ) سے محبت کو ثابت کیا ہے اور اسی اساس پر نئي حکومت تشکیل پائي ہے اور یہ حکومت بھی ان ہی نعروں کو دوہرا رہی ہے اور ان پر عمل پیرا ہے۔ عوام بھی خیر مقدم کررہے ہیں اور بھرپور طرح سے ان باتوں کو تسلیم کررہے ہیں۔ یہ ایک بڑے اچھے ماحول کی علامتیں ہیں ہمیں اس ماحول سے استفادہ کرنا چاہئے۔ نئي فضا میں، اس کونسل کی دلجمعی، نشاط ،جدت پسندی اور کام کا جذبہ سب دگنا ہوجانا چاہئے۔ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں ہے کہ ہماری اعلی قومی ثقافتی کونسل، جو ملک کے کلچرل مسائل کوحل کرنے کا اہم ترین اور بنیادی مرکز ہے، جمود کا شکار ہوجائے ۔میں اس بات کا تصور تک نہیں کرسکتا کیونکہ ثقافتی چیلنج ہمیشہ رہیں گے اور کوئی ملک ان سے نہیں بچ سکتا ۔
اس کونسل کا سربراہ ملک کا صدر ہے یعنی مجریہ کا سربراہ ہے، اور قانونی مدد کے لئے مقننہ یا پارلیمنٹ کے سربراہ اور پارلیمنٹ کے اراکین بھی موجود ہیں لہذا کسی چیز کی کمی نہیں ہے ایسے عالم میں اہداف کا حصول یقینی ہونا چاہئے۔ در اصل مقننہ اور مجریہ کےسربراہوں کی رکنیت کا فلسفہ یہی ہے ورنہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک کونسل جو قومی سطح پر منصوبہ سازی کرتی ہے اس میں صدر اور اسپیکر و غیرہ زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔ ایسی کونسل میں مختلف شعبوں کو وقت دینا چاہئے اور مسائل کا جائزہ لینا چاہئے۔ بنابریں صدر، اسپیکر، پلیننگ کمیشن کے سربراہ اور دیگر اعلی حکام جو یہاں موجود ہیں ان کی اس کونسل میں رکنیت کا ہدف یہی ہے کہ اس کونسل کے فیصلے محض کاغذ کی زینت بن کرنہ رہ جائيں بلکہ ان پر عمل درآمد ہو ۔
امام خمینی (رہ) بھی یہی فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ثقافتی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے اور میں نے بھی ہمیشہ اس پر تاکید کی ہے۔ میں نے گزشتہ سال اسی اجلاس میں کہا تھا کہ ملک کی تہذیب و ثقافت کی ذمہ داری اس کونسل پر ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یہ کونسل تہذیب و ثقافت کا مرکزي ہیڈکوارٹر ہے جبکہ دیگر ذیل کونسلیں یا کمیٹیاں، مثلا ماہرین کی کمیٹیاں اور بہت سے دیگر ادارے آپ کے معاون ہیں، آپ کے فیصلوں پر عمل کرنے والے ادارے وزارت تعلیم، وزارت ہدایت و ارشاد اور دیگر متعلقہ ادارے ہیں۔ آپ سب نے اسی ذمہ داری کو قبول کیا ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ ہم نے یہ باتیں کہی ہوں اور بعد میں ہمیں یہ معلوم ہوا ہو کہ آپ نے انکار کردیا ہے کہ آپ ملک کی تہذیب و ثقافت پر نگرانی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے یا یہ کہ یہ کونسل اس ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتی، ایسا نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ اجلاس کے بعد حاضرین جلسہ نے گفتگو کی، ان کے نظریات سے مجھے آگاہ کیا گيا سب نے اپنی ذمہ داریاں قبول کیں اور یہی صحیح بھی ہے۔ بہرحال اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ ملک کی تہذیب و ثقافت سے متعلق منصوبے آپ کی میز پر آمادہ رہیں۔ ان پر کافی تبادلۂ خیال ہوچکا ہو۔ کام ہوچکا ہو۔ فیصلے کئے جاچکے ہوں، قومی سطح کی منصوبہ بندی عملدرآمد کے واضح طریقوں کی نشاندہی کے ساتھ آمادہ ہو صرف نیک تمناؤں اور خواہشات کے اظہار پر اکتفا نہ کر لیا گيا ہو۔
مجھے اس اجلاس سے خصوصی دلچسپی ہے کیونکہ یہ کونسل واقعا ایک کلچرل کونسل ہے آپ جانتے ہیں کہ میں نے سات آٹھ سال تک ہر ہفتے اس کونسل کے اجلاس میں شرکت کی ہے اور صدارت کی میعاد ختم ہونے کے بعد ہر سال ایک بار یا اس سے زیادہ اس اجلاس میں شرکت کی ہے۔ میں اس اجلاس میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ یہ کونسل ملک کی ثقافت و کلچر کے تعلق سے بنیادی کونسل ہے اور آپ سب ہمیں عزيز ہیں اس کونسل کے بعض اراکین پرانے ہیں جن میں کچھ لوگوں کے ہم نے نام لئے بعض لوگ جیسے ڈاکٹر فاضل اس کونسل کے بڑے بزرگ اراکین میں سے ہیں۔ جب وہ وزارت میں تھے تو ہم ان کے ساتھ کونسل کے اجلاس میں شرکت کرتے تھے، ان کا نام ہم نے نہیں لیا تھا کچھ اور بھی لوگ ہونگے جن کے نام ہم نے نہیں لئے ہیں کچھ لوگ کئی برسوں سے اس کونسل میں ہیں اور کچھ لوگوں کو دو یا تین برس ہوئے ہیں اور کچھ لوگ نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ اس کونسل میں شرکت کررہے ہیں اور چونکہ اس اجلاس میں مخلص افراد شامل ہیں اس لئے میں اپنے دل کی بات کہنا چاہتا تھا جو میں نے کہہ دی۔ یہ بڑا سنگین کام ہے۔ آپ کو یہ ذمہ داری نبھانی ہے۔ یہ کام ضرور انجام دیا جانا چاہئے۔ اب ممکن ہے کسی کے پاس وقت نہ ہو، کام زیادہ ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ بہرحال ان تجربہ کار افراد سے ذیلی کمیٹیوں اور ماہرین کی کمیٹیوں میں فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔
علم و سائنس کے تعلق سے جو منصوبہ بندی کی گئی ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یعنی عمل درآمد شروع ہو اور کام کا مطالبہ کیا جائے۔ فرض کریں اگر آپ کو علم و سائنس کے تعلق سے یونیورسٹیوں سے کام ہے تو متعلقہ شخصیت کو ذمہ داری سونپی جائے۔ ٹائم فریم تیار کیا جائے اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ آپ نے اس مدت میں کیا کام کیا ہے اور وہ کونسل کو رپورٹ دیں۔ اگر آپ کو ان کا کام پسند نہیں آیا تو آپ کمیوں کی نشاندہی کریں، اور اگر کام پسند آیا تو پھر اگلا قدم اٹھائیں۔
ثقافتی کونسل کو ایک متحرک، فعال، حساس اور جد و جہد کے عمل میں پیش پیش ہونا چاہئے اور ملک کے تہذیبی اور ثقافتی مسائل پر اس کی گہری نظر رہنی چاہئے۔ اس بات پر میں بنیادی طور پر تاکید کرتا آیا ہوں۔ ہم نے بارہا اسے دوہرایا ہے اور بعض اوقات کچھ چیزوں کو دہرانا واجب ہوجاتا ہے جیسا کہ آپ نماز میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ صبح کی نماز میں آپ سورۂ حمد اور رکوع و سجود کے ذکر بڑھتے ہیں اور یہی چیزيں تمام نمازوں میں دہراتے ہیں۔ ظہر و عصر و مغرب و عشا میں ان کی تکرار کرتے ہیں کیونکہ ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اس کی تکرار ہونا ضروری ہے تا کہ انسان کا ذہن ان حقائق سے بخوبی آشنا ہوجائے اور انسان حرکت میں آجائے ۔
میں نے ملک کے ثقافتی مسائل ، تعلیمی امور اور خود کونسل کے مسائل کے بارے میں کچھ نکات لکھے ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا ۔
خود کونسل کے بارے میں بتایا گیا کہ متعلقہ لوگوں کو کونسل کے فیصلوں سے مطلع کیا جارہا ہے ۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ میرے خیال میں اطلاع رسانی مسلسل اور ہر وقت ہونی چاہئے۔ خاص طور سے یونیورسٹیوں اور دینی تعلیمی مراکز کی علمی شخصیتوں کو بر وقت مطلع کیا جانا چاہئے۔ آپ کو اطلاع رسانی کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ ملک کی علمی شخصیات یہ احساس کریں کہ وہ ذہنی و فکری لحاظ سے کونسل سے جڑی ہوئی ہیں، اس کام میں ان کا تعاون حاصل کریں۔ یعنی جب ملک کی علمی شخصیتوں کو خواہ یونیورسٹی کی ہوں یا دینی تعلیمی مراکز کی، یہ معلوم ہوتا رہے کہ کونسل کون سے مسائل پر کام کررہی ہے تو وہ خود ان مسائل کے بارے میں سوچیں گے اور کام بھی کریں گے۔ کونسل کے ساتھ تعاون کریں گے۔ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی بات اور نکتہ آئے جس سے کونسل کو فائدہ پہنچے۔ علمی شخصیتیں آپ کو ان مسائل سے آگاہ کریں گي، بنابریں اطلاع رسانی علمی شخصیتوں کے تعاون کا سبب بنے گی۔ اس کے علاوہ ملک کی علمی شخصیتوں کو یہ نہیں لگنا چاہئے کہ آپ لوگ ایک ادارے میں بیٹھے ہیں اور ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھتے بلکہ انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ بھی کونسل کے رکن ہیں۔ وہ بھی کونسل کے کاموں میں دخیل ہیں لہذا اطلاع رسانی کا مسئلہ میری نظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ۔
دوسرا نکتہ ملک کے پرانے نظام تعلیم میں اصلاح اور اس کی پھر سے تدوین ہے۔ اس بات کی طرف ڈاکٹر شریعتمداری نے بھی اشارہ کیا۔ البتہ ان کی تاکید دوسرے پہلو پر ہے، متعدد اجلاسوں میں جو ملک کے تعلیمی اور ثقافتی مسائل کے بارے میں یہاں منعقد ہوئے ہیں، خیرخواہ افراد نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کا قدیم نظام تعلیم بدل کر اسے دنیا کے جدید اور ماڈرن نظام تعلیم میں ڈھالنا چاہئے۔ آج دنیا میں بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے لئے نئے نظام آچکے ہیں۔ اسکول اور یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا جدید نظام لانے کے لئے ہمیں کہیں نہ کہیں سے تو شروع کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں چھ دھائیوں سے وہی پرانا نظام تعلیم جاری ہے۔ ہمیں اس میں اصلاح و تبدیلیاں کرنا ہونگی یا اسے پوری طرح بدلنا ہوگا یا تدریجا اس میں تبدیلیاں لانی ہونگی ۔ اس سلسلے میں غور و خوض کرنے اور فیصلہ کرنے والے آپ لوگ ہیں۔ یہ آپ لوگوں کا کام ہے ۔ ایک اور مسئلہ ملک میں علمی اور سائنسی سطح پر ترقی کا ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی مشکلات کا حل علمی اور سائنسی ترقی کے بغیر ناممکن ہے۔ ہمارے لئے کئی دھائیوں کی پسماندگي کو ختم کرنا ناگزير ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ علم و سائنس اجارہ داری قائم کر لینے والے ممالک کس طرح زور زبردستی کی بات کررہے ہیں۔ علم وسائنس ہی کے استعمال سے وہ باطل کو حق بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ آپ آج مشاہدہ کررہے ہیں کہ عدالت کی اجازت کے بغیر عوام کی ٹیلیفونی گفتگو کا سنا جانا، گوانتانامو میں قیدیوں کو جسمانی ایذائیں دینا، قیدیوں کی غیر قانونی منتقلی، حکومتوں اور سکیورٹی سروس کو اعتماد میں لئے بغیر کسی بھی یورپی ملک سے لوگوں کا اغوا، دوسرے ملک پر حملے کرکے اس کےتیل کی دولت اور دیگر اثاثوں کو لوٹنا، لوگوں کا قتل عام یہ سارے کام ایک طاقت انجام دے رہی ہے اور یہ سب کچھ آشاکارہ ہو انجام پا رہا ہےدنیا چیختی چلاتی رہ جاتی ہے اور طاقتیں اپنا کام پورے سکون سے انجام دیتی رہتی ہیں۔کیوں ؟ اس لئے کہ علم و سائنس وہ مالامال ہے جنگی اور سیاسی وسائل سے لیس ہے، اگر ہم چاہیں کہ ہمارا ملک اور ہماری قوم بھی اس مقام پر پہونچ جائے کہ اپنی حق بات کو بہادری سے دنیا کے سامنے کہہ سکے تو اس کے لئے علم و سائنس درکار ہے ۔ یہ صرف ہمیں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ سارے اسلامی ملکوں کا یہی حال ہے۔ ہمیں علم و سائنس کے میدانوں میں، اسلامی ملکوں کا پیشرو ہونا چاہئے۔ یہ ہماری ذمہ داری تھی۔ یہ ہم جو امید و ایمان کی نعمت سے مالامال ہیں۔ ہمارے پاس توانائي ہے اور اس کام کے وسائل بھی ہیں۔ ہماری قوم اور ملک با صلاحیت ہے۔ ہمارے پاس باصلاحیت افرادی قوت ہے۔ ہمیں ایک بڑا قدم اٹھانا ہوگا اور علم و سائنس کے میدانوں میں بنیادی اور ٹھوس کام انجام دینا ہوگا۔ اپنی قوم ہی نہیں تمام مسلم اقوام کو اپنے تجربات اور علمی ترقی سے فائدہ پہنچانا ہمارا نصب العین ہونا چاہئے۔
علمی میدان میں ترقی اور علم کی ترویج آپ کا بنیادی کام ہے۔ میں صدر مملکت سے یہ گزارش کروں گا کہ وہ کونسل کی مالی مدد کریں تا کہ کونسل کام کرسکے۔ انشاء اللہ آپ ان کی مدد کریں، اس بارے میں سوچیں، تا کہ یہ کونسل اپنا کام کرسکے۔ یہ کام الفاظ اور آرزؤں کی حدود تک محدود ہوکر نہ رہ جائے۔ بعض اوقات کچھ عہدیدار ہمارے پاس آتے ہیں اور اپنے دائرہ اختیار کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں یہ کام کرنا چاہئے وہ کام کرنا چاہئے۔ میں ان سے کہتا ہوں بھائی کام اور ذمہ داری کا تعین میں کروں گا، آپ لوگ یہ بتائیں آپ کیا کررہے ہیں کیا کیا ہے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ محض یہ کہنا کہ یہ کام ہونا چاہئے کافی نہیں ہے۔ اگر ہمارے اجلاس میں صرف یہ طے کر دیا جائے کہ کونسل کو فلاں فلاں کام انجام دینے چاہیں تو یہ کوئي بڑا کارنامہ نہیں ہے ضرورت ہے عملی اقدامات کی۔
ہم اگر دنیا کے ملکوں کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے ان کی ترقی ریاضیات، فزکس، کمسٹری اور بائیولوجی کی مرہون منت ہے۔ ہمیں ان علوم میں ترقی کرنی ہوگی ۔گرچہ ڈاکٹر، انجینئر اور بڑی تعداد میں قانونداں فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور ملک کو پانی اور ہوا کی طرح ان مہارتوں کی ضرورت ہے لیکن اس بات پر توجہ رہنی چاہئے کہ معاشرے کو مستقل طور پر طبیب، انجینئر قانونداں اور اساتذہ کی ضرورت رہتی ہے لیکن ہماری ضرورتیں یہیں پر ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ اس کے علاوہ ہمیں سائنس دانوں اور محققین کی اشد ضرورت ہے جو ہمارے مستقبل کی ضمانت دے سکیں۔ انجینیئر آج ہماری ضرورت پوری کر سکتا ہے اور اگر ہمارے پاس ڈاکٹر کافی تعداد میں نہ ہوں تو سابق طاغوتی حکومت کی طرح ہمیں باہر سے ماہرین کو بلانا پڑے گا یہی بات انجینیئروں کے بارے میں بھی صادق آتی ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ آج ہم نے سڑکوں، بندوں اور اہم عمارتوں کے سلسلے میں عظیم منصوبے مکمل کئے ہیں۔ خود ہمارے انجینیئروں نے منصوبوں پر کام کیا ہے اور ہمارے ملک میں بہت سے اطباء بھی ہیں جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں۔ ایسے کارنامے کہ ان کے بارے میں ہمارے ملک میں خواب میں بھی نہیں سوچا جاتا تھا، یہ اچھا سرمایہ ہے لیکن اسے خرچ کرنے کے بجائے ہمیں سرمایہ کاری کے پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے اس سرمائے سے دوسرا عظیم سرمایہ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ یونیورسٹیوں میں سائنس و ٹکنالوجی پر خاص توجہ دیں۔ ہیومن سائنسز کے بارے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نے دوسروں کے آگے دست نیاز دراز کر رکھا ہے۔ سماجیات ،نفسیات، تاریخ یہاں تک کہ فسلفے اور ادب کے موضوعات پر جو نئے نظریات باہر سے آرہے ہیں۔ ہمیں ان علوم کے سلسلے میں بنیادی کام کرنا ہوگا یہ کوئی نکئی بات نہیں ہے بلکہ برسوں سے کہی جا رہی ہے اب اس پر عمل ہونا چاہئے، یہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ آپ ہی لوگوں پر عائد ہوتی ۔ ایک اور مسئلہ ان موضوعات میں طلبہ کا داخلہ اور فارغ التحصیل ہونا ہے ۔ طلباء کا داخلہ لیتے وقت
یہ جائیزہ لینا ضروری ہے کہ کون کس موضوع کا انتخاب کررہا ہے اور یونیورسٹیوں سے کون سے موضوعات میں طلباء فارغ التحصیل ہونے چاہئیں اور کن امور کے ماہرین کی ہمیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ ضرورت عارضی ضرورت بھی ہوسکتی ہے اور مستقل ضرورت بھی ہوسکتی ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے قدم اٹھایا جائے۔ ایک اور نکتہ دانشوروں کے فاونڈیشن کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ فاونڈیشن ڈاکٹر عارف کی ہمت سے قائم ہوا اس کا منشور لکھا گیا اور دیگر بہت سے کام ہوئے۔ ہمارے پاس بھی یہ ساری چیزيں بھیجی گئیں کہ ہم بھی اپنی رای دیں۔ میں نے جو باتیں ملک کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں ابتدا میں عرض کیں ان کے تناظر میں جب میں دانشوروں کے بارے میں کئے جانے والے اقدامات کا جائیزہ لینا چاہتا ہوں تو مجھے کچھ نظر نہیں آتا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہر سال دو تین بار ممتاز طلبہ اور عالمی علمی مقابلوں میں انعام پانے والے مجھ سے ملاقات کرتے ہیں، میں بھی انہیں اپنے دل کی بات کہنے کا موقع دیتا ہوں۔ مجموعی طور پر ان لوگوں کی باتوں سے جو سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ دانشوروں کے لئے عملا کچھ نہیں کیا گيا ہے۔ میں تاکید کرتا ہوں کہ دانشوروں کے لئے سنجیدگي سے کام کیا جائے، ایک کام یہ ہوسکتا ہے کہ دانشوروں کو زیادہ مواقع دئے جائيں۔ یہ کام اسی فاونڈیشن میں ہونا چاہئے۔ دوسرا کام دانشوروں کا پتہ لگا کر ان کے صحیح اعداد و شمار تیار کرکے ان کے امور کو منظم کرنا ہے تا کہ ملک کی ترقی کے لئے ان کی خدمات سے استفادہ کیا جا سکے۔ اس وقت ہمارے ملک میں بہت سے ادارے ہیں جہاں نوجوان سائنس دان اور دانشور اچھا خاصہ کام کرسکتے ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم ہے کہ کس کو کون سی جگہ پر بٹھانا ہے۔ وہ منصوبہ جو ڈاکٹر احمدی نژاد کے ذہن میں تھا یعنی وزارتوں میں جوانوں کی خدمات حاصل کرنے کا پتہ نہیں اس میں کتنی پیشرفت ہوئي ہے البتہ یہ ایک بڑا اچھا منصوبہ ہے اور تمام شرایط کا خیال رکھتے ہوئے لاگو ہونا چاہئے۔ بہرحال جو لوگ اس منصوبے پر عمل درآمد میں مدد کرسکتے ہیں خود سائنس داں اور دانشور ہیں۔ ہمیں کوشش کرکے اپنے دانشوروں کو تلاش کرنا ہوگا اور ان کے امور منظم کرنے ہونگے۔ ہمارے لئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کون سا آدمی کس کام کے لئے مناسب ہے۔ یہ ان کاموں میں ہے جو دانشوروں کے فاونڈیشن میں انجام پانا چاہئے۔ اس کے بعد کا مسئلہ دانشوروں اور سائنس دانوں کو تحقیقات میں در پیش مسائل کا حل کیاجانا ہے، اس امر پر دانشوروں کے فاؤنڈیشن کے منصوبے میں بھی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح دانشوروں کی ذاتی ضرورتیں بھی پوری کی جانی چاہئیں، اس طرح دانشوروں کی ترغیب ہوگی اور انہیں دوسرے ملکوں میں پناہ لینے سے روکا جا سکے گا۔ یہ بار بار سننے میں آتا ہے کہ ہمارے دانشور چلے گئے اور واپس نہیں آتے، یا چلے گئے اور پھر آگئے البتہ اس میں ذرا مبالغے سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ میں نے جو باتیں کہیں ہیں ان کے ذریعے ہی دانشوروں کو روکا جا سکتا ہے۔ یہاں ان کی دلچسپی کے اسباب فراہم ہونے چاہئیں۔ البتہ ان کاموں میں یونیورسٹی کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور میں نے اس سلسلے میں بات چیت کی ہے اور اب بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں خیال رکھیں ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کے ساتھ امتیازي سلوک کیا جا رہا ہے۔ خاص طور سے تکمیلی کورس، ڈاکٹریٹ اور اسکالرشپ دینے میں ہرگز امتیازی سلوک نہ ہو۔ اگر ہمارے جوان سائنس دان یہ احساس کریں کہ ملک میں ان کے علم و دانش اور ان مہارتوں کی قدر نہیں کی جا رہی ہے تو اس سے بڑے تباہ کن اثرات مرتب ہونگے، میں اس چیز کو اچھی طرح سمجھتا ہوں ۔
ایک بات ذیلی کمیٹیوں کے بارے میں بھی کہنا چاہتا ہوں، مجھے رپورٹ دی گئی ہے کہ بعض ذیلی کمیٹیاں اچھا کام کررہی ہیں مثال کے طور پر خواتین کی کمیٹی اور بعض کم کام کررہی ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ذیلی کمیٹیوں کو بھر پور طرح سے فعال بنائیں۔ ان کمیٹیوں میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو زیادہ وقت کمیٹیوں کو دے سکیں۔ ان کمیٹیوں کی کارکردگی کی رپورٹ تیار کی جائے۔ ان رپورٹوں سے استفادہ کیا جائے۔ یہ رپورٹیں قومی کونسل کے لئے مفید ثابت ہوتی ہیں۔
امید کہ خداوند متعال آپ سب کو توفیق عنایت کرے گا اور اس سنگین ذمہ داری کو نبھانے میں آپ کی مدد کرے گا یہ مبارک ذمہ داری ہے ، خدا آپ کے ان کاموں میں برکت دے اور آپ بخوبی عمل کرسکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ حضرات اور آپ کے اہل خانہ، سب کا خیر مقدم کرتاہوں۔ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے جنگي معذور حضرات ، ان کے والدین اور ان کے بیوی بچوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ یہ میرے لئے بہت بڑی توفیق ہے ۔
ہمارا ایک مقصد یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام میں جنگی معذور حضرات کو ایک مستقل شناخت کے ساتھ باقی رکھا جائے۔ یہ معذور حضرات حقیقت میں ایسے زندہ شہید ہیں جن کو خداوند عالم نے یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک حصہ جہاد اور سخت آزمائش میں بسر کریں۔ جنگ میں اپنے جسمانی اعضا کا نذرانہ پیش کر دینے والے ہمارے یہ عزیز، ہمارے شہید بھائیوں کی طرح ہیں۔ ایک علاقے میں کسی محاذ پر ایک واقعہ رونما ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بم دھماکہ ہوتا ہے یا دشمن کی طرف سے گولوں اور بموں سے حملہ ہوتا ہے۔ اس واقعہ میں ایک شخص شہید ہوتا ہے اور ایک زخمی ہوجاتا ہے۔ ان دونوں افراد کےلئے ایک ہی حکم ہے۔ دونوں ہی ایک مقصد اور ایک نیت سے راہ خدا میں جہاد کرنے گئے۔ دونوں نے ہی زندگي کو خطرے میں ڈالا ، دونوں کی آزمائش بھی ایک ہی تھی ۔اب ایک شہید ہوگیا اور اس کی جد وجہد کا سلسلہ ختم ہوگیا البتہ اس کے اجر وثواب کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس کی کوشش ، اور جد وجہد کا باب بند ہوا ہے۔ جبکہ دوسرا زندہ رہتا ہے اور اس کی جد وجہد اور کوششوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا ہے ۔
اگر کوئی جنگی معذور اپنی زندگي میں الہی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے پرہیزگاری پر باقی رہے تو خدا کے نزدیک اس کا اجر بہت زیادہ ہے جسے خدا نے اجر عظیم سے تعبیر کیا ہے۔ واضح ہے کہ جسے خدا خود اجر عظیم سے تعبیر کرے وہ کتنا عظیم اجر ہوگا۔ معذوری کے بعد ہر طرح کی مشکل آپ کے لئے ایک نیکی شمار کی جائے گي۔ زندگي میں ہر طرح کا رنج وغم اور مشکلات کاایک اجر ہے۔ بعض اوقات مشکلات کے وقت ہم جو صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں وہ اس لئے ہے کہ ہم کو یہ نہیں معلوم کہ ان مشکلات کو برداشت کرنے میں ہمیں آخرت میں کیا ملے گا۔ ان مشکلات میں سے ہر ایک کا کوئي نہ کوئي اجر ہے ۔
روایت میں ملتا ہے کہ قیامت کے دن جب تمام مخلوقات کے سامنے دنیا میں مشکلات برداشت کرنے والوں کو اس کا اجر دیا جائے گا تو لوگ رشک کریں گے کہ خداوند عالم نے مشکلات برداشت کرنے والوں کے لئے کیسا اجر رکھا ہے۔ اس اجر کو دیکھ کر دوسرے افراد ہی نہیں بلکہ خود اجر پانے والے یہ لوگ بھی آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں وہ اپنے جسم کو مشکلات پر قربان کر دیا ہوتا اور اس کا بدلا ان کو یہاں پر ملتا۔ یہ بات ہم سے اور آپ سے اس لئے کہی گئي ہے کہ ہم اور آپ اس بات کو درک کریں کہ دنیا کی ہر مشکل کا اجر خدا کے پاس ہے۔ لہذا اپنی اس حالت اور کیفیت کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کے لئے خدا کا شکر ادا کریں ۔ البتہ آپ کی خدمت کے تعلق سے دوسروں پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ اپنی جگہ ہیں اور ان کا ثواب بھی اپنی جگہ محفوظ ہے ۔
دوسرا نکتہ جنگی معذوروں کی شریک حیات سے متعلق ہے۔ میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر جنگي معذور کی زندگي میں خود کو شامل کیا ہے اور مشکلات مول لی ہیں۔ اس کام کا ان کو خدا کی بارگاہ میں عظیم اجر ملے گا۔ جنگی معذوروں کی بیویوں کا اجر بہت زیادہ ہے اور حقیقت میں ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ البتہ ان کو بھی جاننا چاہئے کہ یہ معذور ان کے ہاتھوں میں خدا کی ایک نعمت ہے جوان کے لئے رضایت خدا اور اجر الہی کا ایک وسیلہ ہے ۔ رضائے الہی کوشش اور زحمت سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی ہر اچھائی کے حصول کا اصول یہی ہے۔ کوئی بھی شخص بنا کسی زحمت اور مشکل کے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا۔ انسان معنوی یا پھر مادی لحاظ سے جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے وہ زحمتیں برداشت کرکے ہی حاصل کرتا ہے۔ علم، مال و ثروت یا نیک نامی و غیرہ سب کچھ مشکلات برداشت کرکے ہی حاصل ہوتا ہے۔ آرام اور آسائش سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ قومیں کامیابی یا عزت کو مصائب برداشت کرکے ہی حاصل کرتی ہیں۔ آخرت کے حصول کا بھی یہی قانون ہے۔ خدا کی رضامندی ، ثواب آخرت اور بہشت سب کچھ زحمتوں سے ہی ملتا ہے بغیر دشواریوں کے نہیں۔ انسان کو کوشش اور جد و جہد کرنی چاہئے۔ ان کوششوں اور زحمتوں میں سے ایک یہی ہے جو جنگي معذوروں کی شریک حیات برداشت کررہی ہیں۔
تیسرا نکتہ جنگي معذوروں کی اولاد کے بارے میں ہے۔ میں جنگ میں معذور ہوجانے والے افراد کے بچوں سے جو یہاں پر موجود ہیں ، پورے ملک کے جنگی معذوروں کے بچوں اور ان کے والدین یعنی خود معذوروں اور ان کی بیویوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ ہم ان کی اولاد ہیں جنہوں نے الہی اور اسلامی مقاصد کے حصول کے لئے اپنی زندگي کو داؤ پر لگادیا ۔
ایک وقت ایسا تھا کہ جب یہ ملک ، مشکلات اور شدید ترین حملوں کی زد میں تھا۔ ایسے میں کچھ لوگ تو بھاگ گئے، میدان جنگ جانا تو دور کی بات ہے بہت سے لوگ سختیوں کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے لیکن کچھ لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے ، انہوں نے دشمنوں کو روکا۔ ملک، قوم اور ناموس عزت و حرمت کی پاسبانی کی۔ ان میں سے کچھ شہید ہوگئے جبکہ کچھ زخمی ہونے کےبعد معذور ہوگئے۔ آپ کے والد بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو یہ عظیم شرف حاصل ہوا ہے۔ جنگ میں معذور ہونے والے لوگوں کی اولاد کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے کیوں کہ یہی نقطہ نظر درست ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مفروروں کے بارے میں فرمایا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ ڈر کے مارے چوہوں کی طرح بلوں میں گھس جاتے ہیں لیکن جب مصیبت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ شیر بن جاتے ہیں اور سینہ سپر ہوکر اپنا حق مانگتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے جنگي معذوروں، شہیدوں کے اہل خانہ، مجاہدین اور معاشرہ کے بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مشکلات اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس کا مظہر یہی جنگی معذور ہیں جو اس وقت زندہ ہیں یہ ملت ایران کے عظیم جہاد کا ثبوت ہے۔ مجھ کو امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو کامیاب اورکامران کرے اور ہمیں بھی یہ توفیق دے کہ آپ کے بارے میں ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان کو پورا کرسکیں ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بات میں کوئي شک نہیں کہ آپ لوگوں کے اس اجتماع میں ایسے لوگ کم نہیں ہیں جو بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ایسی باتیں ہیں جو کم از کم ان کی نظر میں قابل بیان اور قابل سماعت ہیں اور ہماری آج کی نشست میں ان کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے ورنہ میں اپنے بڑھاپے اور کم حوصلگی کے باوجود آپ لوگوں کی مزید باتیں سنتا لیکن کیا کیا جائے کہ وقت میں گنجائش نہیں ہے۔
نوجوانوں کو اپنی باتوں کو نگلنے کی بھی تھوڑی بہت عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ بھی ایک مشق ہے۔ زندگی کے بہت سے مسائل میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی کوئی بات کہنا چاہتا ہے لیکن بوجوہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملتا اور اسے اپنی بات کو نگلنا پڑتا ہے۔ بعض مواقع پر یہ ایک بہت بڑی مصلحت ہوتی ہے۔ اس کی عادت ڈالنے میں بھی مضائقہ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ آپ کو ایسے مواقع میسر آئیں گے جہاں آپ وہ ساری باتیں کہہ سکیں جو آپ کے خیال میں کہنی چاہیے۔
آپ لوگوں نے یہاں پر جو تجاویز دی ہیں ان سے قطع نظر، جن میں سے بہت سی قابل غور ہیں اور ہمارے دفتر میں انہیں جمع کرکے ان کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا، میرے خیال میں طلباء کے لیے ان کی طالب علمی کے پیش نظر جو بات اہم ہے اور اہم ہونی ہی چاہیے وہ یہ ہے کہ ایک مجموعی نگاہ میں ہمارا ملک ایران ،تاریخ اور جغرافیا میں کہاں واقع ہے؟ ہم یہ فرض کرنا چاہتے ہیں کہ طالب علم اپنے دل کی گہرائیوں میں اور اپنے جوان ذہن کی بلند پروازیوں میں ذاتی مسائل، روزگار وغیرہ سے عبور کر چکا ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ روزگار، زندگی، شادی اور گھر نہیں چاہتا، یہ سب تو زندگی کی ضروریات ہیں، بلکہ اس معنی میں کہ وہ زندگی کے ان عارضی اور چھوٹے موٹے اسٹیشنوں پر ہی رک نہیں جاتا بلکہ اس طالب علم کا جوان ذہن ان مقامات سے پرواز کرتا ہے اور آرزؤوں اور امنگوں کی تلاش کرتا ہے۔ امنگوں کی اس نگاہ میں، جو ہونی ہی چاہیے اور اگر نہ ہو تو جوانی اور زندگی بے معنی ہے، تاریخی، جغرافیائی اور سیاسی جغرافیا کے لحاظ سے ہمارا مقام کہاں ہے؟ آج اسلامی جمہوریۂ ایران کی حیثیت سے دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے؟
دوسرے یہ کہ اگر یہ امر عملی جامہ پہنے تو اس کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ طلباء کے ساتھ ہماری اصل بات یہی ہے اور میرے خیال میں یہی وہ اصل نظریہ ہے جس کے بارے میں طلباء کو غوروفکر کرنا چاہیے۔
پہلے سوال کا جواب کہ ہمارا مقام کیا ہے؟ ایک مختصر سے جملے میں یہ ہے کہ ہمارا مقام ان برائیوں، مشکلات اور مصائب کا مقابلہ کرنا ہے جو دولت اور طاقت کے تسلط نیز دولت اور اقتدار کی بدعنوانی کے سبب پوری دنیا میں اور عالمی سطح پر وجود میں آئے ہیں۔ اسے کم مت سمجھیے۔ پیسے اور پیسے کی طاقت نے آج کی مادی دنیا کے سب سے ظریف، لطیف اور برجستہ حقائق کو بھی اپنی خدمت میں لینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ یہی اداکاری جس کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں نے بات کی ہے۔ آج دنیا میں فلمی صنعت کا سب سے برجستہ اور مضبوط مرکز ہالیووڈ ہے۔ آپ دیکھیے کہ ہالیووڈ کس چیز اور کن افراد کی خدمت کر رہا ہے؟ کن افکار اور کن نظریات کی ترویج کر رہا ہے؟ اور اس نے انسانیت کے لیے کیا منصوبہ بنایا ہے؟ مجھے نہ تو فلموں کے بارے میں مہارت حاصل ہے اور نہ ہی میں ہالیووڈ کو اچھی طرح سے پہچانتا ہوں، یہ میری بات نہیں ہے بلکہ میں ان افراد کا قول نقل کر رہا ہوں جن کا کام ہی یہی ہے اور جو انہیں مناظر اور میدانوں کے نقاد ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آج سنیما کا آرٹ، جس کے لیے میں نے برجستہ ترین مظہر کی حیثیت سے ہالیووڈ کی مثال دی ورنہ دنیا میں دیگر فلمی مراکز بھی اسی طرح سے ہیں، بے راہروی کی ترویج، انسان کی شناخت مٹانے کی کوشش ، تشدد کا پرچار اور اقوام کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے لے آنے کی راہ میں کام کر رہا ہے تاکہ اونچا طبقہ بغیر کسی پریشانی اور تشویش کے زندگی گزارے۔ سنیما جو بہت ہی پیشرفتہ اور ماڈرن آرٹ ہے، اس طرح کا ہے، شاعری بھی ایسی ہی ہے، قصہ بھی ایسا ہی ہے، پینٹنگ بھی ایسی ہے، فن و ہنر کے دیگر شعبے بھی ایسے ہی ہیں۔
اقتصادی طاقتیں مذہب سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں، چرچ سے بھی فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ایک دو سال قبل میں نے ایک امریکی مصنف کی ایک کتاب پڑھی جس کا یہاں ترجمہ ہوا تھا اور طبع بھی ہوئي تھی۔ اس نے اس کتاب میں اہل اقتدار کی جانب سے چرچ اور اس سے متعلق مراکز سے فائدہ اٹھانے کے طریقوں کی تشریح کی ہے۔ میں جو چرچ کہہ رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسجدیں ایسی نہیں ہیں، جی نہیں، زور و زر مسجد اور معنویت سے بھی استفادہ کرتا ہے۔ دنیا پر پیسے کا تسلط بہت ہی عجیب چیز ہے۔ اس کا نتیجہ دنیا بھر میں بے پناہ غربت، کئی ارب لوگوں کی بھوک، انسان کی ترقی کرتی ہوئي نسلوں کی غلط اور معنویت سے عاری پرورش، اقوام پر تھوپی گئی جنگیں اور عالمی تنظیموں اور اداروں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہے اور ایٹمی اسلحوں کے عدم پھیلاؤ پر نظر رکھنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ آپ دیکھیے کہ ملکوں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے، اس کا امتیازی سلوک کیسا ہے، اس میں سیاسی عناصر کی مداخلت کس طرح کی ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ طاقت اور ثروت کا اس ادارے پر تسلط ہے۔ یہ سب آج کی دنیا کی برائیاں اور چیلنجز ہیں؟ کون ان سب کا مقابلہ کرے گا؟ یہ ایک انسان، ایک جماعت یا ایک گروہ کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ چیز جو ان قاتل اور تباہ کن امواج کے سامنے کھڑی ہو سکتی ہے وہ ایک عظیم اجتماعی بین الاقوامی تشخص ہے۔ آج یہ عظیم اجتماعی اور عالمی تشخص وجود میں آتا جا رہا ہے اور اس کا محور اسلامی جمہوری نظام ہے۔ ان باتوں پر غور کیجیے۔ یہ چیزیں آسان اور بغیر توجہ کے گزر جانے والی نہیں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے فولادی جسم پر پڑنے والے مسلسل تازیانوں کی وجہ بھی یہی ہے کہ ہم ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ بھی مایوسی کے ساتھ نہیں بلکہ پورے حوصلے کے ساتھ۔ بعض افراد ڈٹے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے۔ البتہ اگر ضرورت پڑی تو ہم خون کا آخری قطرہ تک نثار کر دیں گے لیکن ہمیں معلوم ہے کہ اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ہم آگے بڑھ چکے ہیں اور اس راہ پر جو اسلامی انقلاب نے ہمارے لیے معین کی ہے، بہت ہی واضح انداز میں پیشرفت کر رہے ہیں۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ دنیا کے سیاسی اقتدار کے مراکز وا شگاف الفاظ میں یہ کہیں کہ ایران ایک علاقائي طاقت میں تبدیل ہو چکا ہے اور اگر ہم نے روک تھام نہیں کی تو وہ ( ایران ) ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہو جائے گا؟ یہ کوئي معمولی بات ہے؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ سائنسی لحاظ سے اتنی پیشرفتہ اتنی زیادہ دولت و ثروت والی دنیا میں دین، معنویت اور انصاف کے نام پر اور لوگوں کی پشتپناہی سے ایک سیاسی نظام کا وجود میں آنا اور ایسا مقام اور ایسی پوزیشن حاصل کرلینا معمولی بات ہے؟ آج یہ کام ہو چکا ہے۔ وہ خیمہ جو یہاں نصب ہے اور اس خیمے کی مضبوط رسیاں اور گہرائی تک پیوست کیلیں جو اس اسلامی ملک میں ہیں، دوسرے ممالک میں ٹھونکی گئی ہیں۔ مختلف اقوام میں ہماری جڑیں گہرائی تک پیوست ہیں۔ آپ لوگ ان شاء اللہ جب بڑے میدانوں میں داخل ہوں گے، ديگر ممالک کا سفر کریں گے اور اقوام کے درمیان جائیں گے تو اس بات کو زیادہ محسوس کریں گے۔ اس وقت دنیا کے ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران مسلم اقوام کے دل میں بستا ہے۔ ہم کچھ چیزوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب اسلامی جمہوریۂ ایران کے سربراہان مملکت دوسرے ملکوں کا دورہ کرتے ہیں تو ان کا جو عوامی سطح پر استقبال ہوتا ہے اس کا تصور کسی بھی ملک کے سربراہ کے لیے اپنے ملک کے علاوہ محال ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ میں بھی جب صدر تھا اور دوسرے ممالک کے دورے پر جاتا تھا تو ایسا ہی ہوتا تھا۔ میرے بعد والے صدر اور ان کے بعد والے صدر بھی جب مختلف ملکوں کے دورے پر گئے تو اقوام نے ان کے تئیں اپنی ارادت و محبت کا اظہار کیا۔ یہ صدر کا کمال نہیں ہے بلکہ اس عظیم تحریک کا کمال ہے، بیداری کی موج پیدا کرنے کا کمال ہے، آپ کے تشخص کا کمال ہے، اسلامی جہوری نظام کا تشخص۔ یہ ہماری شان ہے۔ ہم شیطانی مراکز کی اجارہ دارانہ اقتصادی طاقت کے لیے رکھی جانے والی بنیادوں کو متزلزل کر سکتے ہیں۔ وہ لوگ دنیا میں جنگ شروع کراتے ہیں، غربت و افلاس پھیلاتے اور بحران پیدا کرتے ہیں۔ ایک ثروتمند شخص اچانک ہی کئی ممالک میں اقتصادی بحران پیدا کر دیتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یورپ میں رہنے والے ایک امریکی یہودی سرمایہ کار نے اپنے جانے پہچانے نام کے ساتھ ملیشیا، انڈونیشیا، فلیپائن اور تھائی لینڈ کو دیوالیہ بنا دیا تھا۔ پیسے کی طاقت کو ملاحظہ فرمائیے۔ بنابریں اقتصادی طاقتیں بحران پیدا کر سکتی ہیں۔ بحران پیدا کرنا، جنگ شروع کرانا اور اسرائیل جیسے تشدد پسند اور سنگدل نظاموں کو وجود بخشنا ان کا کام ہے۔ ان سب کو چیلنج کرنا ہوگا۔ یہ کام کون کر سکے گا؟ ایک نہ تھکنے والا بین الاقوامی اجتماعی تشخص جو قلبی اور دینی ایمان پر استوار ہو۔ یہ انسان کو تھکنے نہیں دیتا۔ دین پر راسخ ایمان کے علاوہ ہر چیز تھکنے والی ہوتی ہے۔ یہ ان طاقتوں کو چیلنج کر سکتا ہے اور انہیں متوازن بننے پر مجبور کرنے کے بعد ختم کر سکتا ہے۔ ان شاء اللہ امام مہدی علیہ السلام کی سراپا عدل و انصاف حکومت میں یہ سارے کام ہوں گے البتہ اگر حوصلے، عزم، استقامت اور تدبیر سے کام لیں تو ہم بھی اس کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ ان امور کے لیے استقامت، شجاعت اور طاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور عقل و تدبیر کی بھی۔ یہ ایسے کام نہیں ہیں کہ انہیں آسانی سے اور یونہی انجام دے دیا جائے ، لیکن یہ کام ممکن ہے اور اب تک ایسا ہوتا آیا ہے ۔ اسلامی جمہوری نظام، کہ جس کا ایٹمی مسئلہ آج حل ہو چکا ہے، اور جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے، یہ صرف ایک مثال ہے، وہی نظام ہے جس کے پہلے دن سے ہی دنیا کے مستکبرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور اگر سوچ بھی لیتے تو اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ یہ ملک سائنسی شعبوں میں ترقی اور پیشرفت کرسکے گا ۔ آپ میں سے کسی نوجوان نے بتایا کہ اسلامی انقلاب کے اوائل میں یونیورسٹیوں میں پروفیسروں کی کمی تھی، ڈاکٹروں کی کمی تھی، ماہرین کی کمی تھی لیکن آج ہمارا ملک علمی اور سائنسی لحاظ سے پیشرفتہ ہے، البتہ ہمیں اسی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے جو پیشرفت کی ہے وہ اس سے بہت کم ہے جتنی ہمیں پیشرفت کرنی چاہیے تھی یا جو ہماری صلاحتیوں کے مطابق ہو۔
کچھ دنوں قبل یہاں اساتذہ کی نشست تھی اور مختلف مضامین اور شعبوں کے اساتذہ اسی بات پر زور دے رہے تھے جو میرا ہمیشہ کا عقیدہ ہے اور وہ یہ کہ اسلامی جمہوری نظام کی صلاحیت اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، ہمارا مقام یہ ہے کہ ہم ہر کام کر سکتے ہیں۔ آج اگر آپ یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے خلاف اقدام کئے جارہے ہیں، سازشیں کی جا رہی ہیں اور حملے کیے جا رہے ہیں تو یہ ہمارے مقام کی وجہ سے ہے۔ یہ پہلے سوال کا جواب ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم اس مقابلے میں کس طرح کامیاب ہوں گے؟ یہ ایسی چیز ہے جس کا تعلق آپ جوانوں سے ہے۔ وہ قوت جو ہمیں مختلف میدانوں میں پیدا کرنی ہے وہ پہلے مرحلے میں علمی قوت ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹیوں کی ذمہ داری سنگین ہے۔ یہاں پر ایک صاحب نے کہا کہ آئیے ہم لوگ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی کی جگہ اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی بات دنیا کے سامنے پیش کریں۔ یہ بہت ہی اچھا اور مناسب خیال ہے، اس کا کہنا بھی بہت آسان ہے؛ لیکن ایک عالمی معاہدہ صرف کچھ لوگوں کے کہنے سے تو ہو نہیں جاتا؛ اس کی پشت پناہی کے لیے ایک طاقت اور قوت کی ضرورت ہے جو اسے ایک بین الاقوامی معاہدے کی شکل میں لے آئے۔ اُس وقت کی دو بڑی طاقتوں امریکہ اور سابق سوویت یونین نے بیٹھ کر اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے بارے میں ایک دوسرے سے اتفاق کیا لیکن چونکہ ان کا عمل کرنے کا ارادہ نہیں تھا اس لیے یہ بات عملی جامہ نہیں پہن سکی۔ کون ایک معاہدے کو اسلحے کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی حیثیت سے پیش کر سکتا ہے اور پھر دنیا کے ممالک کو اس معاہدے پر عمل کے لیے پابند کر سکتا ہے؟ البتہ طاقت اور اسلحے کے زور پر نہیں، بلکہ سیاست کے زور پر، مضبوط تہذیب کے زور پر اور قومی تشخص اور شخصیت کے غلبے کے زور پر۔ یہ کام ایک طاقتور ملک کر سکتا ہے۔
قوت حاصل کیجیے، اگر اسلامی ایران علمی اور سائنسی میدان میں اپنی بات دنیا کی سب سے اہم باتوں کی حد تک پہنچا دے تو یہ کام ہو سکتا ہے کیونکہ علم دولت و ثروت بھی پیدا کرتا ہے، فوجی طاقت بھی پیدا کرتا ہے اور خود اعتمادی بھی پیدا کرتا ہے۔ میں نے بارہا کہا ہے، ایک بار پھر کہہ رہا ہوں اور آئندہ بھی بار بار کہتا رہوں گا کہ آپ کے مستقبل کی طاقت کی بنیاد، علمی قوت میں ہے۔
یونیورسٹیوں کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔ آپ طلباء کو بھی اور پروفیسروں کو بھی جاننا چاہیے کہ ہماری یونیورسٹیوں کی افادیت کو ختم کرنے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں۔ آپ لوگوں کو اس بات پر افسوس ہوتا ہے کہ تحقیقی مراکز کا بجٹ دیر میں دیا جاتا ہے، ٹھیک ہے اس کی تلافی کی جا سکتی ہے اس کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگ سازشیں کر رہے ہیں کہ کلاسوں اور تحقیقی ورکشاپس کے دروازے ہی بند کر دئیے جائیں اور طالب علم کو علم کے حصول کی طرف سے بے رغبت کر دیا جائے۔ ان سازشوں کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اس مقابلے کی ذمہ داری حکومت اور حکام پر بھی ہے، آپ لوگوں پر بھی ہے اور اثر و رسوخ رکھنے والے افراد پر بھی ہے۔
خدایا! اس ماہ مبارک میں ہمارے دلوں کو اپنے سے زیادہ آشنا اور مزید قریب کر دے۔ خدایا! تو نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں جو نورانیت پیدا کی ہے اور ہمارے نوجوانوں کو جس شفافیت اور معنویت سے بہرہ مند کیا ہے اسے ہمارے اسلامی ملک کے عزیز جوانوں کے لیے ہمیشہ محفوظ رکھ۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا کر اور ان کی مرادوں کو بر لا۔ خدایا! ہمارے نوجوانوں اور دیگر ممالک کے نوجوانوں کے تعلقات میں، جو ہمارے ایک دوست کی بات تھی جس کی میں دعا کے طور پر تائید کر رہا ہوں، روز بروز اضافہ کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج کی نشست بھی ماضی میں منعقد ہونے والی اس قسم کی نشستوں کی مانند اچھی تھی۔ یونیورسٹیوں کے محترم اساتذہ، طلباء اور اہل علم کا ایک جگہ پر جمع ہونا، اپنی باتیں بیان کرنا، مجھ سمیت حکام اور پھر عوام تک اپنی باتیں پہنچانا خود ایک بڑی کامیابی ہے۔ ایک مقرر نے کہا کہ نشست میں موجود لوگوں کو پچھلے سال کی نشست میں پیش کیے جانے والے موضوعات کے نتائج کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے۔ ایسا ہونا چاہیے۔ البتہ مجھ سے کہا گيا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں۔
آج ہونے والی نشست کے بارے میں دو تین مختصر سے نکات عرض کرنا چاہتا ہوں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ یہ نشست اور اس میں ہونے والی باتیں میرے لیے، حکومت کے لیے، عہدیداروں کے لیے اور عوام کے لیے ان شاء اللہ مفید اور گرانقدر ہوں گی۔ اول یہ کہ اس قسم کی نشستوں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے عہدیداروں کے بجائے اساتذہ بات کریں تو بہتر ہوگا کیونکہ جب عہدیدار بات کرتے ہیں یا کوئي مطالبہ کرتے ہیں تو خود انہیں کو ان باتوں کا جواب دینا چاہیے اور انہیں سے مطالبہ ہونا چاہیے۔ یہ، صرف اسی نشست سے مخصوص نہیں ہے بلکہ مجھے یاد ہے کہ گزشتہ ایک دو نشستوں سے یونیورسٹی کے عہدیدار کچھ ایسی باتیں شکوے کے طور پر کرتے ہیں جن کا جواب درحقیقت خود انہیں کو دینا ہوتا ہے۔ ان سے اوپر والے لوگوں سے ان باتوں کا بہت زیادہ واسطہ نہیں ہوتا۔ یا یہ کہ وہ کچھ ایسی برحق باتیں کرتے ہیں جن کے مخاطب اس جگہ اور اس میٹنگ میں شامل لوگ نہیں بلکہ حکومت ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر ایسی ہی نشست ہو اور اس میں صدر مملکت یا وزیر تعلیم یا وزیر صحت موجود ہوں تو اس نشست میں اس طرح کی باتیں کرنا اچھا ہے لیکن یہاں پر ان باتوں کو پیش کرنے کا بہت زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ حاضرین تو کچھ نہیں کر سکتے، حقیر بھی زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتا ہے کہ آپ کی باتوں کو متعلقہ افراد تک منتقل کر دے۔ لیکن جب یونیورسٹی کا استاد کوئی بحث پیش کرتا ہے تو وہ انتظامیہ کی بحث نہیں ہوتی؛ وہ ایسی بحث ہوتی ہے جو علم کی پیشرفت کے لیے، یونیورسٹیوں کے منتظمین کے لیے، سرکاری حکام کے لیے اور میرے لیے بھی مفید ہوتی ہے۔ لہذا بہتر ہوگا کہ منتظمین سے زیادہ اساتذہ بات کریں۔
دوسری بات یہ کہ سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹی کی بحث عوامی سطح تک نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ یہ انتہائي بری بات ہے۔ کچھ حضرات نے غیر سرکاری یونیورسٹی کے بارے میں جو باتیں کیں تو ان کا زیادہ تر وقت گلے شکوے میں گزر گیا۔ ان بحثوں کی جگہ پارلیمنٹ کے کمیشن، سرکاری کمیشن، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے متعلقہ کمیشن اور اسی طرح کے دوسرے کمیشن ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ مطالبے ہوں اور حق بھی ہوں، ممکن ہے کچھ تجاويز ہوں اور ان میں سے بعض صحیح بھی ہوں، لیکن ان کی جگہ یہاں نہیں ہے۔ یہاں پر اس کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں ہے کہ انسان ایک عمومی جگہ پر اپنے گلے شکوے کو دوسروں تک پہنچا دے۔ البتہ گزشتہ نشستوں میں یہ شکوے اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اس نشست میں دیکھے گئے لیکن میری اپیل ہے کہ عام جگہوں پر اس مسئلے کو مت اٹھائیے۔ غیر سرکاری یونیورسٹی بھی ہمارے ملک میں یونیورسٹیوں کا ہی ایک حصہ ہے، اپنے خوبیوں اور عیوب نیز اصلاح کی راہوں اور مختلف تجاویز کے ساتھ۔ اس سلسلے میں عہدیداروں کو مناسب سطح پر بحث کرنی چاہیے اور مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔
غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کو جمع کرنے کے جس دفتر کی بات کی گئی وہ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کے اُس انسٹی ٹیوٹ سے الگ ہے جس کا خیال ہم نے پیش کیا ہے۔ اس دفتر کی تجویز بھی ہم نے ہی پیش کی ہے۔ اس وقت میں ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کا سربراہ تھا اور وہیں پر اس دفتر کی تجویز سامنے آئی تھی۔ اس وقت ہمارے سامنے جو مسئلہ تھا وہ آج ملک میں موجود نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں کافی تعداد میں ڈاکٹر نہیں تھے، یونیورسٹی کے اساتذہ نہیں تھے، اہم کام رکے ہوئے تھے۔ یہی ماہر افراد کو جمع کرنے کا مطلب تھا۔ تمام شعبوں میں ہمراے سامنے مسائل تھے، پڑھے لکھے افراد، دانشوروں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ تھا۔ خوش قسمتی سے آج وہ کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں اور ان کا نتیجہ وہ چیز ہے جسے آپ بیان کر رہے ہیں۔ بحمداللہ آج ملک کے سو فیصد علمی اور سائنسی شعبوں، تجربہ جاتی شعبوں اور دیگر شعبوں میں مختلف قسم کی پیشرفت ہو رہی ہے۔ البتہ جیسا کہ آپ لوگوں نے بارہا کہا اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے ملک کی گنجائش اور استعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات لفاظی نہیں ہے بلکہ میں علمی اور یقینی شواہد کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔ غیر معمولی صلاحیتوں کے افراد کا انسٹی ٹیوٹ، جو بدقسمتی سے اب تک شروع نہیں ہو سکا ہے، اس لیے ہے کہ ملک کے تمام متعلقہ اداروں سے استفادہ کرکے غیر معمولی صلاحیت کے اور ماہر افراد کو ترغیب دلانے اور ان میں اطمینان پیدا کرنے کے احساس کے مسئلے کو برطرف کرے اور ان کی زندگی کے تمام مسائل کو حل کرے۔
باقی بچے کچھ منٹوں میں میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ معزز اساتذہ اور یونیورسٹی سے متعلق ا فراد کو یہ جاننا چاہیے کہ ٹھوس عقیدہ اس بات پر استوار ہے کہ ملک کی پیشرفت کے تمام بنیادی کاموں میں علمی ترقی و پیشرفت کو سب سے آگے ہونا چاہیے؛ یعنی ملک کا سب سے بنیادی کام، علم و سائنس کے توسط سے انسان کی بنیادی ترقی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو علمی غربت سے دور کرنا ہوگا، یہ ہمارا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ ہے۔ دو عشروں سے زیادہ کے عرصے کےتجربے نے بارہا یہ بات ہمارے سامنے ثابت کی ہے۔
دنیا کی جنگوں اور جغرافیائی نیز سیاسی اختلافات کے ہنگامے میں ایسا ہوا کہ پچھلے عرصے میں مغرب یعنی یورپ ماڈرن سائنس تک جلدی پہنچ گیا۔ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یورپ والوں کا دماغ اہل مشرق سے زیادہ بہتر کام کرتا ہے اسی طرح سے یہ اس بات کی بھی دلیل نہیں ہے کہ اُن اقوام اور ممالک میں ایسے وسائل موجود ہیں جو جغرافیائي اور دیگر لحاظ سے اِس طرف نہیں ہیں؛ نہیں، ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے، یہ صرف ایک اتفاق تھا جو سامنے آيا۔ ایک زمانے میں مشرق علمی لحاظ سے آگے تھا اور مغرب جہل کی تاریکیوں میں غوطہ زن تھا۔ تاریخ میں یہ مرحلہ بھی گزر چکا ہے۔ وقت کے اس زمانے میں یعنی مغرب میں انسانیت کی جدید علمی و سائنسی تحریک کے زمانے میں جو کام ہوا، اور جو ممکنہ طور پر بے نظیر ہے، یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی کہ علم و سائنس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لیں۔ انہوں نے کوشش کی کہ ترقی و پیشرفت کے اس ذریعے کو صرف اپنے تک ہی محدود رکھیں اور اس سے سیاسی اور اقتصادی قوت حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔ انسانیت کی پوری تاریخ میں کہ جس میں علم و تمدن ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا رہا ہے، ہمیں اس قسم کی کوئي بات نظر نہیں آتی۔
سامراج کے ظلم کی چکی میں پسنے والے ممالک کے سلسلے میں ایک کام یہ کیا گيا کہ انہیں علمی و سائنسی لحاظ سے پسماندہ رکھا گیا۔ عملی طور پر بھی انہیں پیشرفت سے روکا گیا اور معنوی طور پر بھی ان کے ترقی کے جذبات کو کمزور بنایا گیا تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان میں پیشرفت کی صلاحیت نہیں ہے۔ ہماری قوم کے ساتھ یہ رویہ کافی طویل مدت تک روا رکھا گیا اور ہماری ترقی و پشرفت میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سارے کام علم کے علمبرداروں نے انجام دیئے اور ملکی طاقتوں، مطلق العنان پالیسیوں اور حکومتوں کی نااہلی کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا، مسئلے کے اس پہلو کے ہم منکر نہیں ہیں لیکن اُس پہلو نے بھی سب سے زیادہ اثر ڈالا۔ قاجار دور حکومت میں بڑی شخصیات کی بےتدبیری، کج فہمی، حرص و طمع اور سستی ملک کے حالات پر اثرانداز ہو رہی تھی لیکن جب اسی زمانے میں امیر کبیر جیسا کوئي شخص سامنے آتا ہے اور سیاسی شخصیات کے درمیان علم کی ترقی و پیشرفت اور اس کے اثرات کے کردار کے بارے میں بات کرتا ہے تو دوسرا عنصر، جو بیرونی عنصر ہے، اپنے آپ کو واضح طور پر سامنے لے آتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس شعلے کو خاموش کر دے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس بات کی جانب متوجہ ہیں کہ اگر کسی ملک کو سیاسی اور اقتصادی طور پر اپنے زیرنگیں رکھنا ہو تو اسے علمی پیشرفت نہیں کرنے دینا چاہیے۔ پہلوی دور حکومت میں بھی یہ بات بالکل اسی انداز میں موجود رہی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں بیان کرنا اور جن کا تجزیہ کرنا طویل المدت کاموں کا حصہ ہے۔ البتہ اس طرح کے کام ہوئے بھی ہیں، یہ صرف دعوے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ دلیل بھی موجود ہے۔
آج خوش قسمتی سے ہمارا ملک ایسے دور میں ہے جس میں دو باتوں کی مکمل آگہی ہے۔ ایک اپنی صلاحیتوں اور استعداد کی آگاہی اور دوسرے اس بات کی آگاہی کہ ہمارے ملک اور ہمارے جیسے ممالک کو اپنے تسلط میں لینے کی خواہاں طاقتیں ہمارے ملک کی علمی اور سائنسی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ یعنی اپنی شناخت کے بارے میں آگاہی اور دشمن اور اس کی سازشوں کی شناخت سے آگاہی۔ ان دونوں آگہیوں کی برکت سے اس بات کی امید ہے کہ ہم عظیم علمی پیشرفت کے مدارج طے کریں گے۔
حال ہی میں میں ایرانی اخبارات و جرائد کا مطالعہ کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ امریکہ میں اعداد و شمار کے ایک اہم ادارے نے امریکہ میں مقیم ایرانیوں یا ان کے بقول ایرانی نژاد امریکیوں کے بارے میں لکھا تھا کہ ان کی علمی اور سائنسی معلومات امریکی عوام کی اوسط معلومات سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ بات بعید نہیں ہے کہ جو لوگ ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ رکھتے تھے اور ہمارے ملک کی علمی تحریک کو مسائل میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے تھے وہ ایرانیوں کی اس عظیم استعداد اور صلاحیت سے واقف تھے اور بخوبی جانتےتھے کہ اگر ایرانی علم وسائنس کے میدان میں آ گئے تو اس میدان سے ان ( اغیار ) کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
آج اسلامی جمہوری نظام بر سر اقتدار ہے کہ جو عدل و انصاف، ظلم سے جنگ اور عظیم انسانی اقدار کے دفاع کا علمبردار ہے۔ اگر یہ نظام اپنے عوام کو علم کے اوج پر پہنچا سکا تو یقینی طور پر عالمی سامراج کے سامنے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا؛ یہ ایسی حقیقت ہے جو آج بخوبی نظر آ رہی ہے۔
اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں علم اور علمی و سائنسی پیشرفت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ البتہ علمی پیشرفت، کسی کی نقل سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اسے جدت عمل، سرحدوں کو توڑنے اور غیر مفتوحہ میدانوں میں جانے اور انہیں فتح کرنے سے حاصل کیا جا سکے گا۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں بعض دوستوں نے تحقیق کی اہمیت کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ بالکل بجا اور صحیح ہے۔ سرکاری حکام کو بھی اس بنیادی کام یعنی تحقیق پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ سرگرم تحقیقاتی مراکز کے بغیر نہ تو علم و سائنس میں ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کی جا سکتی ہے۔ یونیورسٹیوں اور یونیورسٹیوں سے باہر تحقیقاتی مراکز کی حمایت کی جانی چاہیے اور ان پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
بظاہر وقت ختم ہو چکا ہے اور مجھے اپنی گفتگو ختم کرنی چاہیے۔ غروب اور افطار کا وقت ہے۔ آخر میں میں صرف چند دعائیں کرنا چاہتا ہوں جو ان شاء اللہ آپ لوگوں کے نورانی اور پاکیزہ قلوب کی برکت سے مستجاب ہوں گی۔
خدایا! جو کچھ ہمارے دل میں ہے، جو کچھ ہماری زبانوں پر ہے اور جو کچھ ہم کر رہے ہیں سب کو اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے اور انہیں ہماری جانب سے قبول فرما۔ خدایا! ہمیں حقیقی معنی میں اسلام اور اسلامی اہداف کی خدمت کی توفیق عنایت کر۔ خدایا! ہماری قوم کو روزبروز مزید علمی و عملی عزت عطا کر۔ خدایا! امام زمانہ ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی رکھ۔ خدایا! مغتنم اور اکسیر صفات ان لمحوں، ان گھنٹوں، ان دنوں اور راتوں کو ہمارے لیے، ہمارے دلوں کے لیے، ہماری بصیرتوں کے لیے، ہمارے لیے اور ہمارے عمل کے لیے مبارک قرار دے اور ہم سب کو اس مہینے میں اپنی ضیافت سے بہرہ مند ہونے کی توفیق عطا کر۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی نے صدر مملکت ڈاکٹر محمود احمدی نژاد اور ان کی کابینہ کے اراکین سےملاقات میں حکومتی اور انتظامی امور سے متعلق اہم ترین نکات بیان فرمائے اور حضرت علی علیہ السلام کی تعلیمات کی روشنی میں انتہائی اہم ہدایات دیں۔ تفصیلی خطاب پیش خدمت ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نشست مکمل ہو چکی۔ یہ نشست اسی لیے تھی کہ آپ لوگ یہاں آئیں اور آپ ہی لوگ بولیں، البتہ میرے ذہن میں بھی بہت سی باتیں ہیں؛ آپ بااستعداد لوگوں کے لیے بھی، طلباء، اساتذہ، یونیورسٹی اور دینی تعلیمی مراکز کے اہل علم حضرات کے لیے بھی اور ملک کے تمام نوجوانوں کے لیے بھی لیکن چونکہ دامن وقت میں گنجائش نہیں ہے لہذا مجھے کوئی جلدی نہیں ہے کہ جو کچھ میرے ذہن میں وہ سب کا سب اسی نشست میں بیان کر دوں۔ اس کے بعد بھی موقع ملے گا اور ان شاء اللہ دیگر نوجوانوں، طلباء اور بااستعداد افراد کے ساتھ ہماری اور بھی نشستیں ہوں گی اور میں ان نشستوں میں جو کچھ ضروری ہوگا بیان کروں گا، یہاں میں کچھ مختصر سی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے تو یہ کہ ہم ہر سال جو اس قسم کی نشست منعقد کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نشست ہم کرسکتے ہیں کا مظہر ہے۔ آپ لوگ اس بات پر توجہ کیجیے کہ ہمارے ملک میں دسیوں برس تک پوری منصوبہ بندی کے ساتھ یہ ثابت کرنے کے لیے کام کیا گيا ہے کہ ایرانیوں میں استعداد نہیں ہے اور وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ایرانیوں میں استعداد ہے اور وہ سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ہمارے اسلامی انقلاب کا ایک اہم ہدف یہ تھا کہ دنیا کو بھی اور خود ایرانی قوم کو بھی یہ بتا دیا جائے کہ ہم میں استعداد ہے اور ہم سب کچھ کر سکتے ہیں اور میں آپ سے کہتا ہوں کہ ہمارا انقلاب اس سلسلے میں کامیاب رہا ہے۔ ہمارے ملک میں خوداعتمادی پیدا ہو چکی ہے۔
آپ حضرات نے علمی پیشرفت کے سلسلے میں جو کچھ بتایا وہ ہمارے ملک میں سائنس، تحقیقات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔اس سلسلے میں ایسی بہت سی باتیں بھی وسیع پیمانے پر بتدریج سامنے آئيں گی جو اس وقت جاری ہیں۔ یہ نشست، ہم کر سکتے ہیں کا مظہر ہے۔
ملک کے بااستعداد افراد صرف آپ لوگ نہیں ہیں بلکہ آپ ہمارے ملک کے اس ذی وقار طبقے اور جوانوں کے چنندہ افراد ہیں۔ اس سے سب کو اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسے افراد موجود ہیں جو عالمی مقابلوں میں اور ملک میں وسیع سطح پر ہونے والے مقابلوں میں اہم پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی لوگ درخشندہ استعداد کے حامل ہیں اور اس طرح کے افراد ہمارے ملک میں بہت زیادہ ہیں۔ ان افراد کے سہارے ایرانی قوم اور وطن عزيز اپنی تعمیر کرے گا اور ترقی کی منزلیں طے کرے گا۔ انہیں کے سہارے ہمارا ملک اس گہری خلیج کو پُر کرے گا جو ہمارے اور دنیا کی علمی چوٹیوں کے درمیان حائل کر دی گئي ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کام کرنا چاہتے ہیں۔ آج جو بات آپ لوگوں نے کہی ہے، یعنی علم کو اہمیت دینے کی بات، تحقیق کو اہمیت دینے کی بات، ٹیکنالوجی کو اہمیت دینے کی بات اور اسی طرح بااستعداد افراد کو اہمیت دینے کی بات یا یہ کہ جب ہم ایک بااستعداد شخص کو خوش رکھتے ہیں تو وہ دنیا کے جس حصے میں بھی جائے گا ہمارے ملک کا ہی رہے گا اور اسی طرح کی بہت سی باتیں جو آپ لوگوں نے کہیں اور میں نے اس کا خلاصہ نوٹ کرلیا ہے، تو یہ سب میری باتیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو دس بارہ برسوں سے میں کہتا آ رہا ہوں۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگ اس بات کو جانے بغیر کہ یہ باتیں ملک کے عہدیداروں کی جانب سے کہی جا چکی ہیں، اس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں اور یہ آپ کے دل کی بات ہے تو یہ خود ایک پیشرفت ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو ہم چاہتے تھے اور دشمنوں کی خواہشوں کے برخلاف عملی جامہ پہن چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البتہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اگلا قدم اٹھائیں۔ اگلا قدم یہ ہے کہ یہ سارے کام ایک ایک کرکے عملی جامہ پہنیں۔ یہ وقت کے لحاظ سے اگلا قدم نہیں ہے بلکہ مرحلوں کے لحاظ سے اگلا قدم ہے، یعنی جب یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے تو اس کے فورا بعد اسے نافذ بھی کیا جانا چاہیے۔
میں نے ان سب باتوں کو نوٹ کر لیا ہے اور اپنے دفتر کے لوگوں اور یہاں موجود دوستوں سے کہتا ہوں کہ جو کچھ آپ لوگوں نے کہا ہے ان سب کو نوٹ کرکے ان کی فہرست بنا لیں۔ وزیر علم و ٹیکنالوجی کے وزیر اور کچھ دیگر حکام بھی یہاں تشریف فرما ہیں، ان دوسرے افراد تک بھی آپ کی باتیں پہنچ جائیں گی اور ان شاء اللہ اس سلسلے میں اقدام کیا جائے گا۔
تیسری بات بااستعداد افراد کے فاؤنڈیشن کے بارے میں ہے جس کی تجویز میں نے گزشتہ سال اسی نشست میں دی تھی۔ تجویز یہ تھی کہ ان مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے جنہیں آپ نے بیان کیا ہے ایک فاؤنڈیشن کی تشکیل ہونی چاہیے۔ اس فاؤنڈیشن کا دستورالعمل منظور کیا جا چکا ہے اور میرے پاس بھی بھیجا گيا تھا۔ میری نظر میں اس میں کچھ کمی ہے جسے یقینی طور پر دور کیا جانا چاہیے اور ان شاء اللہ دور ہو جائيں گی۔ صدر مملکت سے لے کر دوسر افراد تک، تمام سرکاری حکام کی جانب سے منصوبوں اور پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں جو اہتمام میں دیکھ رہا ہوں اس نے میرے دل میں یہ امید پیدا کر دی ہے کہ بااستعداد افراد کے سلسلے میں ہمارے ذہن میں پائی جانے والی تمام تشویشیں ختم ہو جائیں گی۔
البتہ یہ کام تدریجی طور پر انجام پائے گا۔ جیسا کہ آپ لوگ کہہ رہے ہیں کہ اگر ایک تحقیقاتی کام پورا ہونے میں چار سال کے بجائے ساڑھے چار سال لگ جائیں تو یہ نہ کہا جائے کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس قسم کے کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں بہت سے مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسے چھوڑ نہ دیں بلکہ جاری رکھیں تاکہ یہ کام ان شاء اللہ پورا ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ جلدی یا دیر ہو جائے، لیکن ہوگا ضرور۔ یہ ملک کے حکام کی نیت ہے، یہ قومی عزم ہے جو آج ہمارے ملک میں موجود ہے۔
میں نے بارہا کہا ہے کہ اور آج آپ عزیز نوجوانوں سے بھی کہہ رہا ہوں کہ ملک کا بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ اسکول میں لکھا جانے والا کوئی مضمون نہیں تھا کسی نے بیٹھ کر اسے لکھ دیا ہو؛ یہ کوئی آرزو اور خیال خام نہیں تھا، بلکہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو مکمل حساب کتاب اور ہمہ جہت توجہ کے ساتھ کاغذ پر آئی ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ اگلے بیس برسوں میں ہمیں سائنس اور معیشت کے لحاظ سے علاقے میں سب سے آگے ہونا چاہیے تو یہ تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر لکھا گیا ہے اور تیار کیا گيا ہے اور یہ ممکن ہے۔
البتہ تمام ممکن کاموں کے لیے کوشش، ہمت، حوصلے اور اقدام کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم بیٹھ کر صرف نظارہ کرتے رہیں تو کوئی کام نہیں ہوگا۔ کوششوں اور جدوجہد سے ہی کام ممکن ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ ہم کوشش کریں اور خدا کے فضل و کرم اور اس کی مدد سے یہ کام ہو جائے گا۔ البتہ شاید ہم لوگ اس وقت موجود نہ ہوں لیکن آپ لوگ دیکھیں گے، یہ آپ ہی کا کام ہے، مستقبل بھی آپ ہی کا ہے۔
میں نے طلباء کی ایک نشست میں کہا تھا کہ آپ لوگ اس بات کی کوشش کریں کہ پچاس سال بعد آپ کا ملک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ جس کسی کو سائنسی پیشرفت کی ضرورت ہو اس کے لیے فارسی زبان سیکھنا ناگزیر ہو۔ یعنی آپ کا ملک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا زیادہ کام کر چکا ہو، جیسا کہ آج امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی ٹیکنالوجی اور سائنس میں پیشرفت کے سبب انگریزی زبان دنیا میں رائج ہوگئی ہے اسی طرح آپ بھی اپنی سائنسی ترقی کی برکت سے فارسی زبان کو دنیا میں رائج کر سکیں۔ آپ چوٹی پر پہنچ سکیں۔ یہ ممکن ہے اور اگر آپ لوگ عزم اور حوصلہ کریں تو یقینی ہے۔
البتہ اے میرے عزیزو! اے نوجوان لڑکو اور لڑکیو! یہ جان لیجیئے کہ نیک اعمال کے ساتھ ایمان اس میدان میں ترقی و پیشرفت کا سب سے اہم سہارا ہے۔ پاک، نورانی، شفاف، مستدل اور منطقی ایمان، جس کا مواد اسلامی تعلیمات میں کثرت سے موجود ہے ، عمل کے ساتھ آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ صرف ایمان سے کام آگے نہیں بڑھے گا۔ ایسا ایمان جس کے ساتھ عمل بھی ہو، اخلاص بھی ہو، لاابالی پن جس سے دور ہو وہ آپ کی دنیا میں بھی مدد کرسکتا ہے اور آپ کے ملک کے لیے بھی مددگار ہو سکتا ہے، اس چیز کا خاص خیال رکھیں، جیسا کہ میں نے آپ لوگوں کی باتوں میں بھی دیکھا ہے۔
بہت اچھی نشست تھی، یہ دو گھنٹے، جب آپ لوگوں نے بات کی، میرے لیے بہت اچھا موقع تھا اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں کی باتیں سنیں۔ البتہ آپ لوگوں کی باتوں کے دوسرے فوائد بھی ہیں، میں نے شروع میں ہم کر سکتے ہیں کا مظہر والی جو بات کی تھی صرف وہی نہیں ہے۔ یہ کہ ایک ایرانی نوجوان میں اتنا حوصلہ ہو کہ وہ ایک قومی پلیٹ فارم سے ــــ یہ ایک قومی پلیٹ فارم ہی ہے کیونکہ جو کچھ آپ یہاں کہیں گے پوری ایرانی قوم اسے سنے گی ــــ اپنی تحقیقات کے نتائج بیان کرے، یا یہ کہ خود اعتمادی سے سرشار ہو، ایک بہت بڑا سرمایہ ہے جو ہمارے ملک کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ مجھے بہت سے لوگوں کی اس خود اعتمادی سے بہت خوشی ہوتی ہے۔
ہمارے دوستوں نے کہا کہ یہ باتیں یہاں پر نہیں کہی جانی چاہیے تھیں، نہیں، کوئی بات نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ لوگ یہاں پر آئيں اور جو کچھ آپ کے ذہن میں آتا ہے اسے یہاں کھڑے ہو کر بیان کریں۔ میرے لیے یہ اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جو بات آپ کریں وہ بہت زیادہ سنجیدہ نہ ہو، جو تجویز آپ دے رہے ہوں وہ بہت نئی نہ ہو؛ کوئی بات نہیں ہے۔ جو بات ہمارے لیے اہم ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ خود اعتمادی کے ساتھ یہاں پر آئيں اور اپنی بات ٹھوس انداز میں خود اعتمادی کے ساتھ بیان کریں اور آپ کی یہ بات پورے ملک میں نشر ہو، ہمارے لیے یہ بات اہمیت رکھتی ہے۔
خدا آپ لوگوں کو کامیاب کرے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مقدس دفاع (1980 تا 1988) کے واقعات کو تحریری، تصویری اور فلمی شکل میں محفوظ اور ناظرین کے سامنے پیش کرنے والے ماہر کیمرامین، فوٹوگرافروں اور ادبا سے ملاقات میں ان کی کاوشوں اور فنی تخلیقات کو نہایت اہم قرار دیا اور اس قسم کی سرگرمیوں کے جاری رہنے پر تاکید فرمائی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس مبارک اورعظیم دن کی تمام منتظرين( مہدی عج ) تمام عاشقوں اوراہلبیت کے شیدائیوں اوربالخصوص آپ بہن بھائیوں کی خدمت میں جویہاں تشریف فرماہیں مبارکباد پیش کرتاہوں
درحقیقت اس عظيم ہستی کی ولادت ایک حقیقی عید ہے لہذا اس روزکا جشن منانا اورپرمسرت گھڑی کی یاد منانا ہرگزمہدویت کے معتقدین فراموش نہیں کرسکتے ۔ یہ فقط شیعہ نہيں ہیں جومہدی موعود( سلام اللہ علیہ ) بلکہ منجی اور مہدی کا انتظار سبھی مسلمانوں کے عقید ے میں ہے ۔ صرف دوسروں اورشیعوں میں فرق یہ ہے کہ شیعہ اس عظیم ہستی کواس کے نام ونشان اورمختلف خصوصیات سے جانتے ہيں لیکن دوسرے مسلمان جو منجی کے معتقد ہیں وہ منجی کونہیں پہچانتے فرق یہاں پر ہے
وگرنہ اصل مہدویت پرتمام مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔دوسرے ادیان کے لوگ بھی آخرزمان میں ایک منجی کی آمد اوراس کے انتظار پر عقیدہ رکھتے ہیں ان لوگوں نے بھی کم ازکم اس سلسلے میں ایک چیزپرتویقین رکھتےہیں کہ آخرزمان میں ایک منجی یا نجات دہندہ آئے گا اوریہاں تک وہ صحیح سمجھے ہیں لیکن اصل مطلب میں جو منجی کی معرفت کا مسئلہ ہے وہاں پر انھوں نےسمجھنے میں غلطی کی ہے ۔شیعہ اپنی قطعی اور مسلّمہ روایتوں کی بدولت نجات دہندہ اورمنجی کو اس کے نام ، نشان ، خصوصیات اورتاریخ ولادت سے پہچانتے ہيں ۔
اعتقاد مہدویت کے بارے میں چند نکات کو میں یہاں پر اجمالی طورپرعرض کررہاہوں ۔
ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت بقیہ اللہ ( ارواحنافداہ )کاوجود مقدس اول تاریخ سے اب تک نبوتوں اورالہی دعوتوں کاہی تسلسل ہے ، یعنی جیساکہ ہم دعائے ندبہ پڑھتے ہيں ( فبعض اسکنتہ جنتک ) سے کہ جس سے مراد حضرت آدم ہيں ( الی ان انتہی الامر ) تک کہ جس سے مراد خاتم الانبیاء تک پہنچناہے - اوراس کے بعد وصایت اوراہل بیت کا مسئلہ یہاں تک کہ امام زمانہ تک یہ موضوع پہنچتاہے یہ سب کچھ ایک ہی سلسلہ ہے جو تاریخ بشریت میں بہم مرتبط اورمتصل ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ نبوت کی وہ عظیم تحریکيں اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کا وہ سلسلہ کھبی بھی متوقف نہيں ہوا ہے انسان کو پیغمبروں اوردعوت الہی اورداعیان الہی کی ہمیشہ ضرورت ہے اوریہ احتیاج آج تک باقی ہے اورجتنابھی زمانہ گذراہے انسان انبیاء الہی کی تعلیمات سے نزدیک ہواہے
آج انسانی معاشرہ اپنی فکرمیں ترقی وپیشرفت اورتہذیبوں میں بالیدگي اورمعرفت میں پختگي کی بدولت انبیاء الہی کی بہت سی تعلیمات کوجو دسیوں صدیاں قبل انسان کے لئے قابل درک نہیں تھیں درک کررہاہے ۔ اسی انصاف کے معاملے کولے لیجئے یا آزادی اورانسانی شرافت واحترام کے موضوع کولے لیجئے اورجوباتیں آج رائج ہیں دنیامیں یہ سب تعلیمات انبیاء ہيں ۔ اس دورمیں عام لوگ اوررائے عامہ ان مفاہیم کودرک نہیں کرتی تھی ۔پیغمبروں کا یکی بعد ديگری آنا اورپیغمبروں کے ذریعہ دعوت الہی کی ترویج نے ان افکارکولوگوں کے ذہنوں اورعوامالناس کی فطرت اورانسانوں کے دلوں میں نسل درنسل مستحکم کیابٹھایاہے اوران داعیان الہی کاسلسہ آج تک منقطع نہیں ہواہے اورحضرت بقیہ اللہ الاعظم ارواحنافداہ کا وجود مقدس داعیان الہی کے سلسلے کی ہی کڑی ہے جیساکہ زیارت آل یاسین میں بھی پڑھتےہیں ( السلام علیک یاداعی اللہ وربّانی آیاتہ ) یعنی آپ اسی جناب ابراہیم کی دعوت یاحضرت موسی کی دعوت حضرت عیسی کی اسی دعوت اورتمام پیغمبروں ومصلحان الہی کی دعوتوں اورپیغمبرخاتم کی دعوت کوحضرت بقیہ اللہ کے وجود میں مجسم دیکھ رہے ہیں یہ عظیم ذات ان تمام نبیوں اورمصلحان الہی کی وارث ہے اوران سب کی دعوت اوران پرچم کواپنے ہاتھ میں لئے ہوئے ہے اورپوری دنیاکوانہی تعلیمات سے روشناس کرارہی جوان نبیوں نے متعارف کرایاتھا یہ ایک اہم نکتہ ہے
باب مہدویت میں دوسرانکتہ انتظارفرج ہے ۔ انتظارفرج ایک بہت ہی وسیع وعریض مفہوم ہے ۔ایک انتظار، آخری فرج کا انتظارہے ،یعنی یہ ہے کہ اگرانسان دیکھے کہ طواغیت زمانہ ظلم وستم کررہے ہيں لوٹ مارکررہے ہیں اورکھلے عام لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں تواسے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ دنیااسی کانام ہے اوراس کا انجام بھی یہی ہے اسے یہ نہیں سمجھ لیناچاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے اوراسی صورت حال پر صبر کرکے بیٹھ جاناچاہئے نہیں ایساہرگزنہیں ہے بلکہ اسے یہ جانناچاہئے کہ یہ وقتی حالات ہیں جو گذرجائیں گے (للباطل جولہ ) اورجوچیزاس دنیاسے متعلق ہے اوراس عالم طبیعت سے متلعق ہے وہ عبارت ہے عدل وانصاف کی حکومت کے قیام سے ، اوروہ آئیں گے ۔انتظارفرج اورراحت وآرام اوربالآخروہ دورجس میں ہم زندگی گذاررہے ہيں اورانسان ظلم وستم کا شکارہے وہ انتظارفرج کا ایک مصداق ہے لیکن انتظارفرج کے اوربھی مصداق ہيں ۔ جب ہم سے کہتےہیں کہ فرج کاانتظارکرو تو اس کامطلب صرف یہ نہيں ہے کہ آخری فرج کا انتظارکرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرمشکل کا حل ہے اورہرمشکل کوحل کیاجاسکتاہے فرج کا مطلب یہ ہے ۔ یعنی مشکلات کے بعد راحت وآرام ۔ مسلمان درس انتظارسے فرج کوسیکھتاہے اوراس سے تعلیم لیتاہے کہ انسان کی زندگي میں کوئی بھی ایسی مشکل نہیں ہے جو قابل حل نہ ہو یا اسے حل نہ کیاجاسکتاہو ۔ جب انسان کی زندگي کے آخری دورمیں ان تمام ظالمانہ اورستمگرانہ اقدامات کامقابلہ کرنے کے لئے خورشید فرج ظہورکرے گا تو اس جاری زندگي کے دوران بھی جومصائب ومشکلات ہيں ان کے مقابلے میں اسی طرح کے ایک فرج کی توقع رکھنی چاہئے ۔یہ تمام انسانوں کے لئے درس امید ہے ، یہ تمام انسانوں کےلئے حقیق انتظارکادرس ہے اسی لئے انتظارفرج کوسب سے افضل اعمال میں قراردیاگیاہے تواس سے یہ معلوم ہواکہ انتظار ایک عمل ہے بے عملی نہيں ہے اس سلسلے میں غلطی اورغلط فہمیوں کا شکارنہیں ہوناچاہئے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ انتظارکامطلب یہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہيں اوراس بات کاانتظارکریں کہ کوئی حل نکل آئے گا اورخود سے سب ٹھیک ہوجائےگا
انتظارایک عمل ہے ،خود کوآمادہ کرنے کانام ہے اوردل اپنے باطن کی تقویت کانام ہے ایک جذبے اورتحرک کانام ہے جوتمام میدانوں سے متعلق ہوتاہے ۔ یہ درحقیقت قرآن کریم کی ان آیات کریمہ کی تفسیرہے کہ (ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض ونجعلھم آئمہ ونجعلھم الوارثين ) یا ( ان الارض للہ یورثھا من یشاءمن عبادہ والعاقبہ للمتقین ) یعنی کبھی بھی امتوں اورقوموں کوفرج اورراحت سے مایوس نہیں ہوناچاہئے ۔
جس دن ملت ایران نے قیام کیااورتحریک چلائی اس نے امید حاصل کی کہ قیام کیا اورآج وہ امید پوری ہوگئی ہے اسی قیام کے نتیجے میں ۔ اوراس نے وہ عظیم نتیجہ حاصل کرلیاہے اورآج بھی مستقبل کی بابت پرامیدہے اورپوری امید اورنشاط کے حرکت کررہی ہے ۔یہ نورامید ہے جوجوانوں کوحوصلہ عطاکررہاہے اوران کے اندر تحرک ونشاط پیداکررہاہے اوران کے حوصلوں کے پست اوران پر پژمردگی طاری ہونے سے روکتاہے اورمعاشرے میں تحرک وآگے بڑھنے کا جذبہ پیداکرتاہے یہ انتظارفرج کا نتیجہ ہے ۔بنابریں ہمیں آخری فرج کا بھی منتظررہناچاہئے اورزندگي کے تمام مراحل میں بھی فرج وآسانی کی امید اوراس کامنتظررہناچاہئے خواہ وہ انسان کی انفرادی زندگی ہویاپھر اجتماعی زندگي ہو ۔ آپ اپنے اوپر ہرگزمایوسی کوطاری نہ ہونے دیں اوریہ جان لیجئے کہ یہ مشکل حل ہوکررہے گی اورآسانی آپ کومیسرہوگی البتہ اس کے شرط یہ ہے کہ آپ کا انتظارحقیقی معنوں میں انتظارہو۔یہ انتظارعمل ہو، کوشش ہو، جذبہ ہو، اورتحرک ہو۔
مسئلہ مہدویت میں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ ہماراعقیدہ یہ ہے کہ امام زمانہ (ارواحنافداہ) ہمارے اعمال ورفتارپر ناظرہیں ، ہمارے اعمال ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہيں ۔یہ ہمارے مومن جوجوان جومختلف میدانوں میں خواہ وہ معنویت معرفت کامیدان ہویا کام وکوشش کا میدان ،جدوجہدکامیدان ہویاسیاست کامیدان ، یاپھرجہاد کامیدان ہو جب اس کی ضرورت ہوئی تھی جب اس طرح سے اپنے اخلاص اورشادابی کامظاہرہ کرتے ہيں تو امام زمانہ خوش ہوتے ہيں ۔ یہ جو اسلامی ملک میں مثال کے طورپرہمارے مسلمان ملک میں اس بات کی کوشش ہورہی ہے کہ ملک کے نظم ونسق پرنگرانی رکھی جائے ، ملک کی پیشرفت پر دھیان دیاجائے،
اس سلسلے میں فیصلے کئے جائیں اوراقدامات کئے جائیں اوراس بات کی اجازت نہیں دی جاتی کہ ملک کے اندر استکباری اورسامراجی مقاصد عملی جامہ پہن سکے ان تمام باتوں سے امام زمانہ خوش ہوتے ہیں کیونکہ امام زمانہ ناظرہیں اوران کی خدمت میں ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہيں
آپ کے انتخابات کوامام زمانہ نے دیکھاہے آپ کے اعتکاف کوامام زمانہ نے دیکھاہے پندرہ شعبان کے موقع پر سڑکوں اورگھروں اورديگرمقامات پر چراغانی وسجاوٹ جو آپ لوگوں اورہمارے جوانوں نے کی ہے ان سب کوامام زمانہ نے ملاحظہ فرمایاہے ۔ آپ تمام خواتین وحضرات کی مختلف میدانوں میں بھرپورموجودگی کوامام زمانہ نے دیکھاہے اوردیکھتے ہيں ،
اسی طرح ہمارے ملک کے حکام کے اعمال اوران کی کارکردگي جومختلف میدانوں میں ہوتی ہے امام زمانہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اوران کاموں میں ہمارے عزم راسخ کی اگرجھلک ہوتی ہے اورکوئی کام ایساہوتاہے جوایک مسلمان کے شایان شان ہوتو امام زمانہ اس سے خوش ہوتےہیں اوراگرخدانخواستہ اس کے برخلاف ہم سے کوئی کام اورغلطی سرزد ہوجائے تو امام زمانہ کوہم سے تکلیف پہنچتی ہے ۔آپ ذراملاحظہ کیجئے کہ یہ سب کتنابڑاعامل ومحرک ہے ۔
ایک اورنکتہ اورآخری بات یہ ہے کہ جومعاشرہ مہدویت پریقین رکھتاہے اسے قوت قلب حاصل ہوتی ہے ۔ قوموں کے لئے یہ قوت قلب بہت ہی اہم ہے ۔ آپ یہ جان لیجئے کہ اسلامی ملکوں پر سامراجی طاقتو ں کا تسلط اسی وقت ہواجب انھوں نے ان کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے عاری کردیا اورجب ان کے اندر ضعف وکمزوری کااحساس ہونے لگا جب ان کے اندر توانائی کے فقدان کا احساس پنپنے لگا ، اس کے بعد سامراجی طاقتوں آئیں اوران پر مسلط ہوگئیں ۔اورآج بھی ایساہی ہے ۔آج ہم دنیاکے سیاسی اورسفارتی تعلقات کے میدان میں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہيں کہ عالمی استکبارکا ایک سب سے بڑاہتکنڈہ یہ ہے کہ مختلف ملکوں اوراب خاص طورپراسلامی ملکوں کے حکام کے دلوں کوہرطرح کے جذبات سے خالی کردے اوران کے اندریہ احساس پیداکرے کہ ان کی مددکرنے والاکوئی نہيں ہے تاکہ وہ یہ سمجھ لیں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اورکوئی چارہ نہيں ہے کہ امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ یہ احساس کمزوری ایک بہت بڑی مصیبت ہے قومیں حرکت نہيں کررہي ہیں کیونکہ وہ خود کوکمزورمحسوس کررہی ہيں ۔فلسطینی قوم دسیوں سال خاموش اورہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی کیونکہ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ کمزورہے اورکچھ بھی نہيں کرسکتی اورجس دن فلسطینی قوم میں کچھ کرگذر نے کا جذبہ پید ہوگيا وہ اٹھ کھڑی ہوئی اوراس انے اپنے اس قیام سے یہ تمام کامیابیاں حاصل کیں( فلسطینی قوم ) مشکلات ومصائب برداشت کررہی ہے مگرآگے بڑھ رہی ہے ۔اس قوم میںجوحرکت نہیں کررہیہے ،طمانچے بھی کھارہی ہے لیکن رووبروزپسماندگي کا شکارہورہی ہے اوربدبخت وزیردست ہورہی ہے اوراس بات پرخوش ہے کہ اس کوطمانچے نہيں لگ رہے ہيں اوراس قوم میں فرق ہے جو اپنے راستے کی سختیاں برداشت کررہی ہے اس کے راستوں میں کانٹے ہيں اورخونی بھی ہوجاتےہيں لیکن کامیابی اورسعاد ت وخوش بختی کی راہ کی جانب گامزن ہے اوراپنی عزت وسربلندی حاصل کررہی ہے ۔ ملت فلسطین نے آج اپنے دلوں میں امید کی شمع روشن کررکھی ہے اب وہ آگے بڑھ رہی ہے اورآگے کی سمت جارہی ہے اورآگے کی جانب یہ حرکت جب تک پائی جاتی رہے گی اس بات کاباعث بنتی رہے گی کہ فرج وآسانیوں کے دروازے اس کے سامنے کھلتے جائیں اوراس کے راستے آہستہ آہستہ طے ہوتے جائیں اوریہاں تک کہ انشاءاللہ اپنے آخری مقصد کوپہنچے ۔
کسی بھی قوم کے لئے احساس کمزوری ایک بہت ہی خطرناک احساس ہے اورزہرقاتل ہے ۔
مہدویت پراعتقاد کی ایک برکت یہ ہے کہ انسان احساس اطمینان کرتاہے ،اسے قوت قلب کااحساس ہوتاہے اسے قوت وطاقت کااحساس ہوتاہے اوربحمداللہ ہماری قوم اسی طرح ہے
ہم نے محاذجنگ پر اپنے جوانوں کودیکھاہے کہ انھیں امدادغیبی اورحضرت ولی عصر کے لطف وتوجہ پراعتقاد رہتاتھا اوراسی اعتقاد اوراسی قوت قلب سے استفادہ کرتےتھے اوران کے اندردوگنی قوت کا احساس پیداہوتاتھا اوراسی کے سہارے آگے بڑھتے ۔البتہ امداد غیبی کامطلب اگریہ لیاجائے کہ انسان بیکاربیٹھارہے تمام دروازے اپنے اوپربندکرلے اوراس انتظارمیں رہے کہ غیب سے اس کی مددہوجائے گی تواسے یہ معلوم ہوناچاہئے کہ غیب سے اس کی مدد نہیں ہوگی (وجعلہ اللہ الّا بشری لکم ولتطمئن قلوبکم بہ ) میدان جنگ میں ، سیاسی مشکلات کے میدان میں اورقوموں کے اٹھ کھڑے ہونے کی صورت میں غیبی مدد انسانوں کے شامل حال ہوتی ہے اگرانسان اٹھ کھڑاہوتو اس کی غیب سے مدد ہوتی ہے ۔ آج عالمی استکبار نے اپنی توجہ قوموں کے نقاط قوت یا مضبوط پوائنٹ کونشانہ بنارکھاہے تاکہ قوموں سے ان کا یہ مضبوط پوائنٹ چھین لے البتہ وہ کہیں کہیں پر کامیاب بھی ہواہے اورکہیں کہیں پر اسے منھ کی بھی کھانی پڑی ہے اورجن جگہوں پر اللہ تعالی کی مدد ونصرت کے طفیل عالمی استکبارکوکا میابی نصیب نہيں ہوسکی ان میں اسلامی جمھوریہ ایران ہے اورملت ایران ہے ۔بحمد اللہ اقوام متحدہ کے ڈائس سے اوردنیابھر کے سربراہان مملکت کی آنکھوں کےسامنے ہمارے محترم صدرصاحب نے ایرانی عوام کے دل کی بات بیان کردی ۔ استحکام ومتانت وقوت بیان اوراپنے موقف کا ستحکام اس عالمی اسٹیج سے ایرانی عوام کی نمائندگی میں پوری دنیاکی آنکھوں کے سامنے بیان کردیاگیا اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ ملت ایران دھونس ودھمکی اورکسی کے دباؤ میں نہيں آئے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران نے گذشتہ ستائیس برس سے جب سے اسلامی انقلاب کامیاب ہواہے دباؤ برداشت کرکے نہ صرف یہ کہ کمزوری کا احساس نہيں کیاہے اوراس کے عزم وارادے متزلزل نہیں ہوئے ہيں بلکہ آج وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ مضبوط وتواناہے اورمضبوط عزم وارادے کے ساتھ اپنے اہداف ومقاصد کوآگے بڑھانےکے لئے کہ جن میں ان کے قومی مفاد ات پوشیدہ ہيں بدستورمستحکم اندازمیں ڈٹی ہوئی ہے
خداوندعالم کی ذات پربھروسہ اورقوم پر حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کے لطف وشفقتوں پر اعتقاد نے ہماری زندگی اورہمارے اعمال وکردارپر یہ اثرمرتب کیاہے کہ جس کی وجہ سے ہمارے اندرقوت قلب پیداہوتی ہے جو مختلف قسم کی امواج کے مقابلے میں ہمیں استقامت وپائمردی عطاہوتی ہے ۔ملت ایران کوشکست نہیں دے سکتے ۔ خداوندعالم کی تائید ونصرت کی بدولت ملک کے حکام مومن وصابر ملکی عہدیداراپنی پوری کوشش و سعی جمیل کے ذریعہ یکی بعد ديگری تمام مشکلات کوحل کرلیں گے ۔ انھیں اپنے ملک کی علمی سطح کو اتنے اوپرلے جاناہوگا کہ دشمنوں کی حریصانہ نگاہيں کلی طورپر اس قوم اوراس ملک سے دورہوجائیں ۔
خداوندعالم سے دعاکرتاہوں کہ حضرت بقیہ اللہ (ارواحنافداہ ) کی دعائیں ایرانی عوام اوردنیا کی تمام مستضعف قوموں کے شامل حال ہوں اورآپ لوگوں کوروزبروزاپنی عزت وجلال کے صدقے میں اوراپنے اولیاء کرام کی عزت کے طفیل باعزت ومقتدر قراردے
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عظیم عید کی پوری دنیاکے مسلمانوں، اقوام عالم، حکومتوں،اپنے ملک کے سربلند عوام ملک کےحکام اور حاضرین محترم اوربالخصوص معززمہمانوں اور یہاں موجود اسلامی ملکوں کے سفارتکاروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتاہوں ۔
عید مبعث سب کی عید ہے ، یہ فقط مسلمانوں کی ہی عید نہیں ہے ۔ ہرپیغمبر کی ولادت اورہربعثت پوری انسانیت کے لئے ایک نیادن اورعید ہے ۔پیغمبران الہی جوبھی آئے انھوں نے بشریت کے سرگرداں اورپریشان قافلے کو ترقی وکمال علم واخلاق اورعدل وانصاف کی جانب رہنمائی کی اورانھیں انسانی کمال کی منزلوں کے قریب پہنچادیا ۔
پوری تاریخ میں انسانوں نے جوبھی علمی اورعقلی ترقی کی وہ سب پیغمبروں کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے ۔نظریہ توحید اورعبودیت خداکی بندگي پیغمبران الہی کے ہی دروس سے عبارت ہے انسانی اقدارواخلاق اوراس کی قوت تخلیق جو انسانوں کی حیات کے آگے بڑھنے کی توانائي اسے عطاکرتی ہے اوراسی طرح اس کے اخلاقی فضائل سب کے سب پیغمبران الہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں ۔پیغمبران خدانے انسانوں کے زندگی آمادہ کی اور پھر اس زندگي کو ترقی وتحرک اورکمال میں تبدیل کیا ، اورنبی مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ ) خاتم رسل ،آخری الہی پیغام کے پہنچانے والے اورانسانیت کے لئے لامتناہی شخصیت کے حامل ہیں ۔ہم مسلمانوں کو البتہ اس بات کی قدرسمجھناچاہئے ،ہميں واقعہ بعثت میں غوروفکرکرناچاہئے ، اس سے درس لینے کی ضرورت ہے ہميں چاہئے کہ اس شانداراورپرفروغ ماضی کواپنے آنے والے دشوارمستقبل کےلئے مشعل راہ قراردیں ۔
آج دنیامیں کچھ حقائق ایسے ہيں جوناقابل انکارہيں ۔
پہلی حقیقت اسلامی دنیامیں بیداری ہے ، اس بات میں کوئي شک نہیں کرسکتا ۔ اورپوری دنیامیں مسلمانان عالم خواہ وہ مسلمان ملکوں میں رہتے ہوں یا ایسے ملکوں میں جہاں وہ اقلیت میں ہیں اسلام کی جانب رجحان کا احساس کررہے ہيں اوران کے اندر اسلامی تشخص کی جانب دوبارہ لوٹنے کا احساس پیداہورہاہے ۔آج اسلامی دنیاکے روشن خیال افراد سوشلزم اورمغربی مکاتب فکر سے دل برداشتہ اوربیزارہوکر اسلام کی جانب مائل ہورہے ہيں اوراسلام کی جانب کی ان کارجحان بڑھتاجارہاہے اوروہ انسانیت کے درد کا علاج اسلام میں تلاش کررہے ہيں ۔امت اسلامیہ کا دل آج گذشتہ کئی صدیوں کے مقابلے میں دیکھاجائے تو انتہائی غیرمعمولی سطح پر اسلام کی جانب راغب ومائل ہے ،گذشتہ دسیوں برسوں کے بعد اسلامی ملکوں پر مغرب اورمشرق کے وسیع تر غلیظ ثقافتی اورسیاسی تسلط کے بعد آج اسلامی دنیا کے جوانوں کی نگاہیں اسلام اوراسلامی تعلیمات پرلگی ہوئی ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے ، خود مغرب اورمستکبران عالم نے بھی اس کا اعتراف کیاہے انھوں نے بارہا اس بات کودوہرایاہے کہ کسی بھی ا سلامی ملک میں اگرآزادانہ انتخابات کرائے جائیں توعوام انھیں لوگوں کومنتخب کریں گے جو اسلامی احکامات اورتعلیمات کے پابند اور مروج اسلام ہوں گے ۔ اسی لئے آج مغرب کے ڈیموکریسی کے دعوؤں میں تضاد پیداہوگیاہے ۔ مغرب ایک طرف سے تو جمہوریت اورڈیموکریسی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہے اوردوسری طرف اس بات کی بھی جرات نہیں کرپارہاہے کہ ڈیموکریسی کا یہ پرچم اس کے حقیقی معنوں میں اسلامی دنیامیں لوگ بلند کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی اسلامی ملک میں اگرعوام کے انتخاب اوران کی آراء کا احترام کیاجائے گا اور عوام کی رائے فیصلہ کن ہوگي تواس میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں کہ اس ملک کی زمام حکومت اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں آجائے گی اورعوام کے نمائندے مسلمان نمائندے ہوں گے ۔
آج مغربی دنیا ، امریکہ ، مغربی سیاستداں ، تھنک ٹینک - صیہونی اورمغرب کے سرمایہ دارحلقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہيں کہ فلسطین کے عوام کی یہ عظیم تحریک اسلام کی جانب ان کے رجحان کا ہی نتیجہ ہے ۔ کیونکہ فلسطینی عوام نے اپنی تحریک کا محوراسلام کوقراردے رکھاہے ان کے اندرشجاعت پیداہوگئي ہے اورانھوں نے حقیقی معنوں میں جہاد اورمجاہدت کوگلے لگایاہے ۔جہاں بھی کسی قوم کے اندریہ جذبہ پیداہوگا وہاں کوئی بھی فوجی یاسویلین طاقت ان کا مقابلہ کرنے یاانھیں کچلنے کی توانائی نہیں رکھ سکے گی ۔ اس بات کووہ اچھی طرح جانتے ہيں ۔آج اسلامی دنیاکے واقعات ان تمام حقائق کی تصدیق کرتے ہيں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج عالم اسلام میں اسلامی بیداری ، اوراسلامی تحریک ایک روشن حقیقت ہے ، کوئی بھی اس سے انکارنہیں کرسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس بیداری اوراسلام کی جانب رجحان اوراس حریت پسندی کی دشمن نمبر ایک استکباری طاقتیں ہیں ۔وجہ بھی معلوم ہے ، کیونکہ اسلام تسلط کا مخالف ہے اغیارکی طاقتوں سے قوموں کی وابستگی کا مخالف ہے ،اسلام علمی وعملی پسماندگي کا جوپچھلی کئی صدیوں سے اسلامی ملکوں پر مسلط کی گئ ہے مخالف ہے ،اسلام اس بات کا مخالف ہے کہ قومیں محض اطاعت کریں اوردوسروں کی اندھی پیروی کرتی رہیں ۔یہ ساری اسلامی تعلیمات استعماری پالیسیوں سے بالکل متضاد ہیں یہ پالیسیاں گذشتہ تقریبا دوسوبرسوں سے استکباری طاقتوں اورمغرب کی طرف سے اسلامی دنیا پرمسلط کی گئیں ۔یہ طاقتیں آج بھی اس علاقے میں اپنے ہی مفادات کوتلاش کررہی ہیں انھیں حاصل کرناچاہتی ہیں ،اسلامی بیداری استکباری طاقتوں کی ان پالیسیوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اسی لئے یہ طاقتیں اپنے پورے وجود کے ساتھ اسلامی بیداری کی مخالف ہيں اوروہ اس کی سیاسی اورتشہیراتی مخالفت کرتی ہیں ۔
آج اسلام کے خلاف تمام تشہیراتی ہتکنڈوں کااستعمال ہورہاہے ۔آپ دیکھیں کہ مغربی حکومتیں مسلمانوں اوراسلام کے خلاف جواقدامات کررہيں ان آپ غورکیجئے ۔ ان کی یہ کاروائیاں خواہ وہ امریکہ میں ہوں یا مغرب میں آپ دیکھیں کہ کس قدرپیچیدہ ہيں ۔فن وہنرکے تمام وسائل ان کے پاس ہیں مذموم مقاصد کےلئے انھیں استعمال کیا جارہاہے ۔البتہ اس اسلامی بیداری کے مظہر وہ لوگ نہيں ہیں جوآج اسلامی دنیامیں دہشت گردی کی تصویرپیش کررہے ہیں یا جولوگ عراق میں دہشت گردی اورجرائم کاارتکاب کررہے ہیں یا جولوگ اسلامی دنیامیں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہیں یاجولوگ اپناسب سے بڑامشن مسلمانوں کے درمیان سنی وشیعہ کے نام پر اختلاف اورتفرقہ ڈالناسمجھتے ہیں یہ لوگ کسی بھی قیمت پر اسلامی بیداری کے مظہر نہیں قرارپاسکتے ، یہ بات خود استکباری طاقتیں بھی سمجھتی ہیں جولوگ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ اسلام کومغرب کے سامنے ایک دہشت گرد اورشدت پسند ورجعت پسند گروہ کی شکل میں پیش کرتےہیں وہ بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ حقیقت کچھ اورہے ۔ وہ اسلام ،جس کی بیداری کا عالم اسلام میں آج احساس کیاجارہاہے وہ تفکروتدبر عقل ومنطق غوروفکر خلاقیت کا دین اسلام ہے ،وہ اسلام ہے جو انسانی زندگی کی گتھیوں کوسلجھانے کے لئے راہ حل پیش کرتاہے نہ کہ سخت گیراوررجعت پسند اسلام ، یہ چشم بستہ اسلام اورہرطرح کی آزادی فکرسے عاری اسلام نہیں ہے ، اس بات کواستکباری دنیابھی سمجھتی ہے ۔
آج اسلامی جمھوریہ ایران کا نعرہ فکری آزادی، علم ومعرفت کی توسیع ،انسانی حقوق واختیارات کا احترام اور اس پر توجہ اور لوگوں کےدرمیان مہربانی اورمحبت کارواج ہے ، یہ سب اسلام کا نعرہ اورپیغام ہے دنیااس کودیکھ رہی ہے اوراس کی تلاش میں ہے ۔
ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ ) کی منطق عقل وفکرکی منطق روشن بینی پر مبنی عمل کی منطق انسانیت وانسانی اقدارکی منطق انسانی اخلاق کی منطق اوراخلاقی فضائل کی منطق تھی ، دنیااس چیزکے پیچھے بھاگ رہی ہے اس کی تلاش میں ہے ۔اسلامی بیداری کے مظہروہ لوگ نہيں ہیں جواپنا کرخت اورسپاٹ چہرہ لئے ہوئے پوری دنیاسےملتے ہیں اورحتی مومنوں اورمسلمانوں سے بھی ان کے ملنے کا یہی اندازہوتاہے یہ وہ لوگ ہیں جوکچھ لوگوں کوکافرگردانتےہیں اوران کی تکفیر کرتے ہیں ، کچھ لوگوں پر قوم پرستی کاالزام لگاکرتوکچھ لوگوں پر قبائلی نظریات کا حامل ہونے کاالزام تھوپ کراورکچھ لوگوں پر بلا جواز حملہ کرتے ہيں ۔ان عناصرکا وجود پورے طورپر مشکوک ہے کہ کیا ان کا یہی نظریہ بھی ہے ، یا پھر وہ اسرائیل امریکہ اوربرطانیہ کے خفیہ اداروں کے ایجنٹ ہيں جواس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہيں۔ان عناصر نے غفلت کے شکارچند افراد کواپناآلہ کاربنالیاہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکارنہیں کیاجاسکتا ۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیااپنی پوری قوت کے باوجود بھی اسلامی بیداری پر غلبہ نہیں پاسکی ہے ، وہ اسلامی دنیا کےمختلف علاقوں میں اسلام ، اسلامی جمھوریہ ، عظیم اسلامی مصلحین اوراسلامی احکامات اورتعلیمات کے خلاف پروپیگنڈے کررہے ہیں ، مغربی ملکوں نے اسلام کوگالیاں دینے کےلئے کرائےکے ایجنٹوں کوخریداہے وہ اپنے ان ایجنٹوں کے ذریعہ اسلامی واسلامی احکامات کوموردالزام ٹھہراتےہيں ،انھوں نے فوجی طاقت کا بھی سہارالیا ،اقتصادی حربوں کوبھی آزمایا اورذرائع ابلاغ کے ذریعہ انتہائي عجیب وغریب اورحیرت انگیزطورپروسیع پروپیگنڈہ کیا لیکن اس کے باوجود انھیں ابھی تک کوئی کامیابی حاصل نہيں ہوئی ۔اسلامی ملکوں میں مسلمان جوانوں کازیادہ رجحان اسلام اوراسلامی آئیڈیالوجی کی جانب ہے اورمسلمانوں کے دلوں ميں ذوق وشوق روزبروزبڑھتاجارہاہے ۔اورجوچیزان حقائق کی متقاضی ہے وہ یہ کہ اسلامی دنیاکو ان حقائق کی قدرکرنی چاہئے ۔
آج اسلامی دنیا کے پاس امت مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے اس کے علاوہ اورکوئي چارہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے محورپر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرے اوریہ کہ دشمنوں اورسامراجی طاقتوں کے مفادات اور عزائم کی نفی کی جائے ۔سامراجی طاقتوں کامقصداسلامی تشخص اورقومیت کونابود کرناہے اوروہ یہ کام خاص طورپر مشرق وسطی میں کرناچاہتی ہیں اوران کے عزائم کا مقابلہ مزید آپسی اتحاد مزید ہم آہنگی اسلام سے تمسک اسلام کی ترویج اورامریکہ وسامراجی طاقتوں کی توسیع پسندیوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے سے ہی ممکن ہوسکتاہے اوراس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے ۔آج امریکہ کوپوری دنیامیں نفرت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اس کادنیاوالوں کی نظروں میں ایک کریہہ چہرہ ہے آج امریکیوں نے اپنے ہی اعمال وکردارسے اپنے ہی نعروں کوپیروں تلے روند دیاہے آج عراقی عوام پرامریکیوں کادباؤ ، عراق میں پائی جانے والی بدامنی ، قاتل صیہونیوں کےلئے ان کی ہمہ جانبہ حمایت ، افغانستان میں امریکیوں کے مظالم اور اسلامی ملکوں پرامریکیوں کاپڑنےوالادباؤ ان ساری باتوں کی وجہ سے آج پوری دنیامیں امریکہ کاچہرہ ایک منفورچہرے میں تبدیل ہوچکاہے اورپوری دنیاکے عوام اس سے نفرت کرتے ہيں ۔آج اسلامی دنیا اس توسیع پسند طاقت کے مقابلے میں کھڑی ہوسکتی ہے اوراس کوکھڑابھی ہوناچاہئے اوراس کے علاوہ کوئی اورچارہ بھی نہيں ہے ۔
اسلامی حکومتوں کو اپنے قومی مفادات کے تحفظ ،اپنی قوموں کےاعتماد کوحاصل کرنے اوراپنی تاریخی ذمہ داریوں کواداکرنے کےلئے امت اسلامیہ کے تشخص کے بنیادی نقاط پر تکیہ کرناہوگا ملت فلسطین کا کھل کردفاع کرناہوگا ،عراق کی مکمل خودمختاری اورعراق کانظم ونسق اس ملک کے عوام کوہی سپردکئے جانے کے مطالبے کی حمایت کرنا ہوگي اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ افغانستان کے عوام کا دفاع کریں یورپ افریقہ اورایشیاء میں مظلوم مسلمان قوموں کی حمایت کرنی چاہئے اسلامی حکومتوں کوچاہئے کہ وہ اپنے ملکوں میں قرآنی تشخص اورقرآنی احکام کادفاع کریں ایک دوسرے کےساتھ اپنے تعلقات مضبوط اوردوستانہ بنانے کی ضرورت ہے آپس میں مخلص ہونے کی ضرورت ہے انھیں چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی مددکریں پھرکہیں جاکرامت اسلامیہ خود کواستکباراورسامراج کے چنگل سے نجات دلاسکے گی اوران دھمکیوں اورخطرات کامقابلہ کرسکتی نجات پاسکتی ہے جوعالمی سامراج کی طرف سے اسے لاحق ہے
ہماری دعاہے کہ خداوندعالم ہمیں بیداری عطاکرے ، انشاءاللہ ہمیں ہمارے فرائض سے آشناکرے اورحضرت بقیہ اللہ( ارواحنافداہ )کی دعائیں پوری امت اسلامیہ بالخصوص ایران کی عظیم قوم کے شامل حال کرے ۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے آٹھ شہریور سنہ تیرہ سو چوراسی ہجری شمسی مطابق تیس اگست دو ہزار پانچ عیسوی کو ہفتہ حکومت کی مناسبت سے ملاقات کے لئے آنے والے صدر، کابینہ کے ارکان اور حکومتی عہدیداروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں صدرجمہوریہ ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے نعروں کی تعریف کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے تو میں اساتذہ کو خوش آمدید کہتا ہوں، ہمارا یہ اجلاس ایک لحاظ سے علامتی اجلاس ہے اور ایک لحاظ سے ہمارے فریضے کا حصہ ہے۔ علامتی اس لحاظ سے کہ ہر سال اساتذہ کے ساتھ ہمارا اجلاس اس تعظیم اور احترام کی علامت ہے جو اسلامی نظام نے معاشرے میں اساتذہ کو دیا ہے۔ فریضے کی ادائگي اس لحاظ سے کہ یہ اجلاس آپ کا ہے اس میں آپ کو گفتگو کرنا ہے اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس ہے جسے ہم نے تشکیل دیا ہے۔ اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہمارے اجلاس ہوتے رہے ہیں جن میں میں نے نہیں بلکہ اجلاس میں حاضر کسی فرد نے خطاب کیا ۔ اس کا بڑا اچھا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ کیوں کہ اہل نظر افراد کی زبانی ان کے پیش نظر اہم مسائل سننے کو ملے۔ ان اجلاسوں کی تفصیلات ٹیلی ویژن سے نشر کی جاتی ہیں انہیں عوام بھی دیکھتے ہیں اور عہدیداران بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔ یہ میرے لئے بھی بہت مفید ہے۔ اب تک اساتذہ کے ساتھ اس نوعیت کا کوئي اجلاس نہیں ہوا۔ ایک دو ہفتہ قبل کسی معلم نے خط ارسال کرکے یا پیغام بھیج کر اعتراض کیا تھا کہ فلاں صاحب اساتذہ کے ساتھ اس قسم کا اجلاس کیوں نہیں کرتے۔ ہمیں یہ بات مناسب محسوس ہوئی اور اچانک اس اجلاس کا موقع آ گیا۔ ہم نے پہلے یہ منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ یہ اجلاس کرمان میں ہو بلکہ اس علاقے کا سفر پیش آ گيا اور میں ہر سال ہفتہ اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کےساتھ جلسہ کرتا ہوں تو اس بار یہ موقع یہاں پیش آیا۔ تو یہ جلسہ آپ حضرات کا ہے۔
ابتدا میں میں چند جملے عرض کر دوں جس کے بعد، احباب اجلاس کو آگے بڑھائیں گے ۔
اساتذہ کے ساتھ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے جو کہ میرے لئے بڑا عجیب اتفاق ہےکیوں کہ تعلیم و تربیت کے سلسلے میں کرمان سے میرا خاص تعلق اور رشتہ ہے۔ البتہ دیگر شعبوں میں بھی کرمان کے باسیوں سے میرے روابط رہے ہیں، طالب علمی اور جد و جہد کے زمانے میں ہمارے بہت سے کرمانی رفقا تھے مثال کے طور پر جناب ہاشمی رفسنجانی، جناب حجتی کرمانی، جناب باہنر اور اسیطرح دیگر افراد کرمان کے ہمارے وہ احباب بھی تھے جو دینی مدرسے کے طالب علم نہیں تھے ان سے میرے بڑے گہرے تعلقات رہے مثال کے طور پر جناب اسلامیت اور بعض دیگر افراد۔ البتہ کرمان سے تعلیم و تربیت کا جو میرا رشتہ اور رابطہ ہے وہ ان سب سے پرانا ہے۔ میں مشہد میں جب اسکول جاتا تھا تو اس وقت ہمارے استاد مرحوم مرزا حسین تدین کرمانی تھے۔ مشہد میں یہی ایک اسکول تھا جس میں مذہبی اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔ اس اسکول کا نام دار التعلیم دیانتی تھا اور میں نے اس مدرسے میں چھے سال جناب تدین سے تعلیم حاصل کی ۔ مرحوم تدین واقعی ایک بڑی اہم شخصیت تھی ان کے سلسلے میں میرا یہ خیال طالب علمی کے زمانے میں ہی نہیں بلکہ اس وقت بھی تھا جب میں صدر تھا اور وہ مجھ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے۔ میں نے ان پر نظر ڈالی مجھے ایک بڑی با وقار اور محترم شخصیت نظر آئی۔ آپ معلم بھی تھے اور منتظم بھی۔ وہ اسکول کے صحن میں ہاتھ میں ایک چھڑی لئے جب چلتے تو ان کے چہرے پر خاص رعب اور دبدبہ ہوتا ہے۔ ان سے لوگ محبت کرتے تھے۔ میں اور دیگر بچے بھی ان سے خاص لگاؤ رکھتے تھے۔ جب اس اسکول میں میری تعلیم مکمل ہو گئي تو میرے ایک بھائی نے اس اسکول میں داخلہ لے لیا، تاہم بعد میں بھی ان سے میرا رابطہ رہا۔ ہر مہینے میں اپنے بھائي فیس دینے اسکول جاتا تھا تو بھی میں ان کو اسی وضع قطع میں دیکھتا تھا وہی وقار اور وہی احترام۔ ان کی خاص ہیبت تھی۔ غرضیکہ تعلیم و تربیت کے تعلق سے کرمان اور کرمانیوں سے میرا جذباتی لگاؤ اور رشتہ بہت پرانا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ اجلاس کرمان میں منعقد ہوا ہے۔
البتہ اس کے بعد بھی بعض کرمانی اساتذہ سے میرا رابطہ رہا ہے۔ سن انیس سو ساٹھ کے عشرے کے اواخر اور ستر کے عشرے کے اوائل میں جب میں مذہبی تقاریر کے لئے کرمان آتا تھا تو بعض مذہبی اور انتہائی فعال نوجوان میرے پاس رہتے تھے ان میں سے ایک جناب محمد رضا مشارزادہ تھے جو استاد تھے۔ بہرحال اساتذہ سے میرے اچھے روابط ہیں۔
آپ حضرات جو یہاں پر موجود ہیں وہ صوبے کے اساتذہ کے طبقے کے نمائندہ ہیں ورنہ صوبے کے اساتذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں ہمارے نوجوان بہت زیادہ فعال ہیں لہذا صوبے کی سطح پر قومی اور عوامی امور کو آگے بڑھانے میں آپ اساتذہ کا کردار بہت اہم ہے۔
میں اساتذہ کے طبقے کا دل سے احترام کرتا ہوں اور آپے کے کردار کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں۔ میری تمنا یہ ہے کہ یہ احساس و ادراک پورے معاشرے بالخصوص منصوبہ ساز اداروں اور شعبوں میں موجود رہے اور سب کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کا صحیح اندازہ رہے۔
اجلاس میں بعض اساتذہ اور دانشوروں نے اپنے خیالات پیش کئے جس کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے دوبارہ حاضرین سے خطاب فرمایا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری نظر میں یہ اجلاس بہت اچھا رہا۔ بعض احباب نے فرمایا کہ ان باتوں کو ہم جانتے ہیں یہاں ہم آپ کے خطاب سے محظوظ ہونے آئیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ نہیں اساتذہ ان باتوں سے آگاہ ہیں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ یہ اساتذہ کی باتیں ہیں جو دوستوں نے بیان کی ہیں۔ یہ باتیں متعلقہ حکام تک بھی پہنچیں گی اور عوام بھی انہیں سنیں گے۔ میرے لئے بھی یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان باتوں اور تجاویز کو نئی سمت ملے اور موثر اقدامات کئے جائیں۔
اساتذہ میں سے دس افراد نے خطاب کیا ۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ اجلاس میں موجود ہمارے بہت سے بھائي بہن کچھ باتیں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے یہ باتیں بہت اہم ہوں یا بہت اہم نہ ہوں لیکن ان کے خیال میں یہ باتیں بیان کرنے والی ہیں۔ البتہ دامن وقت تنگ ہے۔ اگر ہمارے سارے دوست اجلاس میں تقریر کرنا چاہیں تو ایک یا دو گھنٹے کا وقت کافی نہیں ہوگا۔ بلکہ پینتیس چھتیس گھنٹے کے ایک پروگرام کی ضرورت ہوگی۔ لیکن یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ لہذا اگر آپ کی نظر میں کچھ ضروری باتیں ہیں تو آپ تحریر شکل میں مجھے دے دیں میں متعلقہ حکام سے کہوں گا کہ ان پر غور کریں۔
جو تجاویز اساتذہ نے پیش کیں ان میں بعض ایسی ہیں جن پر عملدرآمد تدریجی ہے۔ اساتذہ کی منزلت جیسا کہ بعض احباب نے فرمایا، حکم تقرری یا کسی قانون سے پیدا نہیں ہوتی یہ منزلت ایک تدریجی عمل کے تحت وجود میں آتی ہے بشرطیکہ اس پر پورا ایقان ہو۔ یہی کام جو ہم انجام دے رہے ہیں اس غرض سے ہے کہ معاشرے میں تعلیم و تربیت اور اساتذہ کی منزلت پہچانی جائے۔ لہذا کسی حکم اور قانون سے یہ ہدف حاصل نہیں ہوتا۔ انہیں آسودہ بنانے کی ضرورت ہے۔ البتہ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں خود اساتذہ کی ہیں کچھ تعلیمی شعبے کے عہدیداران کی اور کچھ ذمہ داریاں ملک کے منصوبہ ساز حکام کی ہیں۔
ریٹائرڈ اساتذہ اور تنخواہوں کے سلسلے میں جو تجاویز آپ نے پیش کیں ان کا ماہرین کے ذریعے جائزہ لئے جانا چاہئے اور پھر نتائج سے حکومت کے آگاہ کیا جانا چاہئے۔ ایک استاد کو قانون قاعدے کے مطابق پورا حق ملنا چاہئے۔ البتہ جو کام ہم کر رہے ہیں وہ راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے اس سے اصل کام کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ ہم مجریہ کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم یہ باتیں وزارت تعلیم و تربیت کو گوش گذار کریں گے پلیننگ و مینیجمنٹ ادارے کو اس سے آگاہ کریں گے۔ خود صدر محترم سے یہ بات کہیں گے۔ متعلقہ عہدیداران سے بھی سفارش کی جائے گی۔ صوبائی عہدیداروں سے بھی اس موضوع پر بات ہوگی۔ البتہ جہاں تک انتظامی امور اور مجریہ کے کام کا تعلق ہے قائد انقلاب کا اس میں کوئي رول نہیں ہوتا۔ یہ کام حکومت کا ہے، یہ حکومت کا فریضہ ہے اور صحیح روش یہ ہے کہ یہ کام حکومت انجام دے۔
جو تجاویز پیش کی گئيں بنیادی طور پر بہت اچھی تجاویز تھیں۔ ان سے تعلیم و تربیت کے امور میں آپ کی مہارت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں یہ تجاویز اپنے شعبے کے حوالے کروں گا کہ ان پر غور کیا جائے۔ انشاء اللہ جو تجاویز قابل عمل اور ممکن ہیں ان پر عمل کیاجائے گا۔
میں یہاں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تعلیم و تربیت اور اساتذہ کے سلسلے میں میرا ایک بنیادی اور اصولی نظریہ ہے انگریزی نوازوں کے بقول آئيڈیالوجیکل نظریہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ سیاست کا تقاضا ہے کہ اساتذہ کی مدد کی جائے اور ان کی ضروریات کی تکیمل کی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئي بھی مثبت یا منفی تبدیلی اس وقت تک نہیں آتی جب تک کہ اس میں اساتذہ اور شعبہ تعلیم و تربیت کا کردار نہ ہو۔ اگر کسی معاشرے کا تعلیم و تربیت کا شعبہ فعال، خلاقی صلاحیتوں کا حامل اور ذمہ دار ہے تو قومی سطح پر بڑے بنیادی اثرات مرتب ہوں گے۔ البتہ سیاسی جماعتیں اور حلقے بھی کوتاہ مدت اہداف مثلا فلاں انتخاب اور فلاں خواہش کے تحت تعلیم و تربیت پر توجہ دیتے ہیں لیکن ان چیزوں کی اہمیت بہت کم ہے۔ یہ تعلیم و تربیت اور استاد کی تحقیر ہے۔
نئي نسل کے تشخص کا معمار استاد ہوتا ہے یعنی اس کا کردار خاندان اور والدین سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ آپ کے بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ آپ کے بچے کے لئے استاد کی بات وحی کا مقام رکھتی ہے۔ بچہ گھر آتا ہے تو کچھ کام کرتا ہے کچھ کام نہیں کرتا۔ ورزش کرتا ہے یا آرام کرتا ہے یا کوئي اور کام کرتا ہے، کیوں، اس لئے کہ اس کے استاد نے ایسا کہا ہے۔ ماں باپ یہی باتیں بارہا کہہ چکے ہیں لیکن اس کا کوئي اثر نہیں ہے لیکن استاد کی بات کا بڑا اثر ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں بسا اوقات استاد کی بات والدین کی بات سے زیادہ اہم اور قابل ترجیح ہوتی ہے ۔ تو یہ ہے معلم کا کردار۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچے کی شخصیت سنورے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ خود اعتمادی اور سماجی اقدار سے سرشار ذمہ داریوں کا احساس کرنے والی با صلاحیت اور کارہای عظیم پر قادر تخلیقی صلاحیتوں کی حامل نسل جس میں انسیت و ہمدردی کا جذبہ ہو جو منفی جذبات سے پاک ہو، ایسی نسل جو قربانیاں دینے کو تیار ہو وہ نسل جو اسراف اور فضول خرچی کو ناپسند کرتی ہو، ہمارے معاشرے میں ستاروں کی مانند جگمگائے تو اس کا راستہ تعلیم و تربیت ہی ہے۔ ایسی نسل کے لئے تعلیم و تربیت کے شعبے کو چاق و چوبند ہونا پڑے گا۔
البتہ ہمارے احباب نے تعلیم و تربیت کے شعبے کی افرادی قوت، دفتری نظام اور مینیجمنٹ پر روشنی ڈالی، یہ سب بہت اہم ہے۔ اساتذہ کی مالی ضرورتوں کی تکمیل اور ان کو روزمرہ کی زندگی کی فکروں سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئي شک نہیں، اس سلسلے میں تجاویز پیش کی گئي ہیں اور کام ہو رہا ہے۔ البتہ میں یہاں موجود اپنے بھائيوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ایک دیندار اور اپنے فرائض سے آگاہ معلم کو مادی مسائل فرائض کی ادائگي سے روک نہیں سکتے۔ میری اس بات کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ اساتذہ کی زندگي کی ضروریات کے سلسلے میں کوئی کوتاہی کی جائے، حکومت کے اختیار میں جو کچھ ہے وہ انجام دیا جانا چاہئے لیکن میری خواہش یہ ہے کہ مشکلات آپ کے پختہ ارادوں اور تعلیمی جذبے کو متاثر نہ کریں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی کوشش کرے ساتھ ہی آپ کو بھی اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ ملک کا مستقل آپ کے ہاتھوں میں ہے اساتذہ کو چاہئے کہ حقیقی معنی میں اپنے فرايض اور منزلت کی پاسداری کریں ۔ استاد کی منزلت یہ نہیں ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور لوگ اس کے ہاتھوں کا بوسہ لیں، استاد کی منزلت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کے تاریخی اور علمی عمل میں موثر کردار ادا کرے۔
اگر اساتذہ یہ کام کر سکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ٹیچنگ کے حقیقی فریضے کو ادا کیا ہے۔
میرا نظریہ یہ ہے کہ اس شعبے کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے ایک مشاورتی کمیٹی کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں کسی ایک شخص کے ذاتی نظریات کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ ورنہ ممکن ہے کہ اس شعبے میں کوئي مغربی ممالک کی پیروی کرتے ہوئے محسوس کرے کہ نوجوانوں کو جنسیات کی تعلیم دینا چاہئے اور اچانک اس موضوع پر کوئي کتابچہ بھی شائع ہو جائے۔ لیکن سوال یہ ہےکہ اس موضوع پر کہاں تبادلہ خیال کیا گيا۔ اس سلسلے میں کہاں فیصلہ کیا گیا۔ کہاں اس کا جائزہ لیا گيا۔ ہم کب تک مغرب کی تقلید کرتے رہیں گے۔ کیاں جنسی امور میں مخصوص روش اختیار کرکے مغرب والوں کو کوئي فائدہ ہوا ہے؟ اس مسئلے میں وہ آج پریشان ہوکر رہ گئے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں بوڑھوں، مردوں اور عورتوں پر دینی تعلیمات کے نتیجےمیں حیا و عفت کا پاکیزہ حصار ہے۔ تو کیا ہم اس پاکیزہ پردے کے اپنے ہاتھوں سے چاک کر دیں۔ اس کو کون سی عقل سلیم قبول کرےگی۔ البتہ اس کا تعلق آپ لوگوں سے نہیں ہے، میں آپ کی خدمت میں بیٹھ کر متعلقہ افراد کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بھی ہوتا کہ کسی شخص کے دماغ میں یہ بات آتی ہے کہ بچوں کی پہلی کلاس سے ہی انگریزی کی تعلیم دی جائے۔ کیوں؟ جب یہ بڑے ہو جائیں گے تو جس کو ضرورت کا احساس ہوگا انگریزی زبان سیکھےگا۔ امریکہ اور برطانیہ کتنے وسیع پیمانے پر پیسے خرچ کر رہے ہیں، تاکہ کسی قوم میں اپنی زبان کو آسانی سے رائج کر دیں؟ زبانی فارسی کے لئے دنیا میں ہمارے سامنے کتنی مشکلات ہیں ؟ دنیا میں ہمارے کلچر ہاؤس کام کر رہیں، ہمارے ثقافتی مرکز کے عہدیدار کو قتل کر دیا جاتا ہے ہماری ثقافتی سرگرمیوں کے لئے متعدد مسائل پیدا کئے جاتے ہیں؟ کیوں کہ ہم فارسی سکھانا چاہتے ہیں۔ اور ہم آپنے ہاتھوں سے انگریزی زبان کی ترویج کرتے ہیں جو مغربی کلچر کی ترویج کا اہم ترین ذریعہ بھی ہے۔ البتہ میں غیر ملکی زبانیں سیکھنے کے حق میں ہوں ۔ ایک ہی زبان نہیں آپ دس غیر ملکی زبانیں سیکھئے اس میں کوئي قابل اعتراض بات نہیں ہے لیکن یہ کام معاشرے کی ثقافت کا حصہ نہ بن جائے۔
آج کچھ ممالک ہیں جن کی قومی زبان ، سرکاری زبان نہیں۔ آج ہندوستان اور پاکستان کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ ان ممالک کے عدالتی امور کی زبان انگریزی ہے۔ جبکہ ان کے پاس ہندی اور اردو کے علاوہ سیکڑوں اپنی زبانیں ہیں۔ پاکستان میں اردو اور ہندوستان میں ہندی رائج ہے۔ لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ کس طرح ایک غیر ملکی زبان آئي اور اس نے ان کی قومی زبان پر غلبہ پالیا؟ اسی طرح یہ لوگ داخل ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان میں بے تحاشا پیسے خرچ کئے اور نتیجے میں حالات موجودہ صورت اختیار کر گئے۔ بعض افریقی ممالک کی زبان، پرتگالی یا اسپینش ہے۔ وہ اپنی سرکاری زبان پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ یہ مناسب ہے؟ ایک غیر زبان کا قومی زبان پر غالب ہو جانا ٹھیک ہے؟ زبان کسی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے۔ ہم اسی کو کمزور کر دیں؟ کیوں؟ اس لئے کہ فلاں صاحب کا نظریہ یہ ہے۔ مدارس اور بچے آزمائش گاہ کے چوہے نہیں ہیں کہ ہم ان پر تجربہ کریں اور دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ لوگوں کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا جا سکتا اس بنا پر دانشوروں اور مفکرین کا ایک مرکز قائم کیا جانا چاہئے۔ اسی طرح تعلیم و تربیت کے شعبے میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
میں جس بات کی پوری سنجیدگي سے حمایت کرتا ہوں وہ استاذہ کی تعلیمی سطح کو جہاں تک ممکن ہو بہتر بنانا ہے۔ اس سلسلے میں بعض تجاویز بھی پیش کی گئي ہیں مثال کے طور پر اساتذہ کے درمیان تحقیق، تصنیف کی ترویج۔
ان سب سے بڑھ کر دینداری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی اور آئندہ نسل آپ سے راضی اور خوش ہو اور آپ کو اچھے نام سے یاد کیا جائے تو آپ بچوں کو دیندار بنائیے۔ بچوں کی دیندار بنانا صرف دینی تعلیم دینے والے استاد کا کام نہیں ہے بلکہ ریاضی کا استاد، فیزکس کا استاد اور ادبیات کا استاد بھی اپنے شاگردوں کے دلوں میں دینداری کی شمعیں روشن کر سکتا ہے۔ کبھی کبھی تو وہ دینیات کے استاد سے زیادہ موثر واقع ہوتا ہے۔ جب دینیات کا استاد کلاس میں آتا ہے تو دینی امور کی تعلیم اس کا فریضہ ہے، بچے بلکہ سبھی انسان فرائض کو اپنے شانوں پر بوجھ کی طرح محسوس کرتے ہیں۔ یہ استاد بچوں کو کچھ ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہے۔ اگر وہ اس انداز بیان اور اس کی زبان میں شیرینی ہو اور بہت اچھا استاد ہو تو کسی حد تک وہ اپنی بات شاگردوں کے دلوں میں اتار سکتا ہے، اور اگر یہ خصوصیات نہ ہوئيں تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ لیکن فزکس کا استاد، کیمسٹری کا استاد، ریاضیات کا استاد، ادبیات فارسی کا استاد، تاریخ کا استاد اپنی گفتگو کے دوران صرف ایک لفظ سے بچے اور نوجوان کے دل و دماغ کو متاثر کر سکتا ہےاور اسے دیندار بنا سکتا ہے۔ آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں بھی اور بعد کے مراحل میں بھی۔ بچوں کو دیندار بنائيے۔ بچوں کو دیندار بنانا وہ اہم ہدف ہے جس سے ملک کا مستقبل سنور سکتاہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ملک صنعتی اور دیگر شعبوں میں ترقی کرے علمی پیش رفت کرے اور علاقے میں پہلے نمبر پر رہے تو یہ ہدف دینداری کے جذبے کے زیر سایہ ہی ممکن ہے۔ جب ایمان ہوتا ہے تو انسان ایمان کی سمت حرکت کرتا ہے اور تمام مسائل اور مشکلات کو برداشت کرتا ہے۔
انقلاب کی جدوجہد کے دوران جب جیل میں مجھے بہت زیادہ مشکل صورت حال در پیش ہوتی تھی تو مجھے کمیونسٹوں پر رحم آتا تھا میں کہتا تھا کہ ان کا تو کوئي خدا نہیں ہے۔ جب ہم بہت زیادہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہیں دعا کرتے ہیں اور دو آنسو بہا لیتے ہیں ہمارے دلوں میں امید کی کرن موجود ہے۔ لیکن ان کمیونسٹوں کے پاس یہ نہیں ہے۔ انسان کے پاس اگر خدا ہے تو امید اور تابناک مستقل بھی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ