قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 1 جون سنہ 1994 عیسوی کو ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مقننہ کی خصوصیات کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امور مملکت کے ایک ناظر کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجلس شورائے اسلامی میں چار خصوصیات پائی جائیں تو وہ اپنا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل کرلے گی۔ الحمد للہ آج تک جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے، اس پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ مگر ان خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور مزید خیال رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چار خصوصیات یہ ہیں؛ اول احساس ذمہ داری، دوم خودمختاری، سوم دلیری اور چہارم ہوشیاری، تدبر، علم اور مہارت سے کام لینا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 11 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 1 جون سنہ 1994 عیسوی کو ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں مقننہ کی خصوصیات کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امور مملکت کے ایک ناظر کی حیثیت سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر مجلس شورائے اسلامی میں چار خصوصیات پائی جائیں تو وہ اپنا حقیقی مقام و مرتبہ حاصل کرلے گی۔ الحمد للہ آج تک جو ہم نے مشاہدہ کیا ہے، اس پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات موجود ہیں۔ مگر ان خصوصیات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور مزید خیال رکھا جا سکتا ہے۔ یہ چار خصوصیات یہ ہیں؛ اول احساس ذمہ داری، دوم خودمختاری، سوم دلیری اور چہارم ہوشیاری، تدبر، علم اور مہارت سے کام لینا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 خرداد سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 29 مئی سنہ 1994 عیسوی کو عید غدیر کے موقع پر ملک کے حکام سے خطاب میں اس عظیم دن کی اہمیت اور مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسلمانوں کے اسلامی تشخص کی تحقیر کرنے کی دشمنوں کی کوششوں کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی معاشروں میں سامراجیوں کا ایک کام یہ تھا کہ انہوں نے کوشش کی ہے کہ مسلمان عوام، زندگی اور معاشرے میں جس رتبے اور مقام پر بھی ہوں، خود کو غیر اسلامی اقدار سے نزدیک کریں۔ یعنی ان کا لباس غیر مسلموں کے لباس کی طرح ہو، ان کا طرزعمل ان کے طرز عمل کی طرح ہو، ان کی بینش ان کی بینش کی مانند ہو اور ان کے اعمال، ان کے اعمال کی طرح ہوں۔ درحقیقت مسلمان غیر مسلموں کی اقدار کو اپنی اقدار سمجھیں اور ان چیزوں کو خلاف تہذیب سمجھیں جن چیزوں کو مغرب والوں نے خلاف تہذیت قرار دیا ہے اور اسلام کی کوئی بات انہیں یاد نہ آئے۔ آج بھی، جب ایرانی قوم اس بات پر ڈٹی ہوئی ہے اور مصر ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں، اپنی حرکات میں، اپنے لباس میں، اپنی عالمی روش میں اور دوست اور دشمن کے انتخاب میں اسلامی تہذیب، اسلامی موقف اور اسلامی اقدار کی پابندی کرنا چاہتی ہے تو اس وجہ سے اس پر حملے ہو رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 28 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 18 مئی سنہ 1994 عیسوی کو مختلف شہروں کے عوام کے اجتماع سے خطاب میں دعا و مناجات کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے ماہ ذی الحجۃ کی اہم بابرکت مناسبتوں کا حوالہ دیا اور عید الاضحی اور یوم عرفہ کے رموز پر گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا کہ عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ خدا کے حضور، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کے بندھ جانے اور پرواز میں رکاوٹیں پیدا ہو جانے کا باعث ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔ جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے پاک سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر رہے تو اس کو سمجھنا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہۓ۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 13 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 2 مئی سنہ 1994 عیسوی کو یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے ٹیچروں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے اجتماع سے خطاب میں معاشرے کے ان دونوں طبقات کی گراں قدر خدمات کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ بات کہنے سے رہ نہ جائے کہ ان دونوں طبقات کے پاس وسائل کم ہیں اور یہ پہلو بھی ان کا ایک خاص امتیاز ہے۔ بنابریں معلم اور محنت کش دونوں عزیز، محترم اور مکرم طبقات ہیں جن کی معاشرے کو ضرورت ہے اور دونوں ہی حقیقی قدروں کی اساس پر محترم ہیں اور یہ اپنی جگہ پر مسلمہ امر ہے۔ ملک کے منصوبے بنانے والے، پلاننگ کرنے والے اور دوسرے ذمہ دار افراد اس بات پر توجہ رکھیں کہ ہمارے معاشرے کے یہ دونوں طبقات، بہت مخلص، بہت مومن اور ملک کی سرنوشت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والے ہیں۔ اس اہم پہلو کو مد نظر رکھیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے ٹیچر اور محنت کش افراد کی خاص نیت اور سوچ کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 31 اردیبہشت سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ملاقات میں حج کے رموز پر گفتگو کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خداوندعالم تمام مسلم اقوام میں سے ایک جماعت کو دعوت دیتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ آؤ ان معین ایام میں ایک دوسرے کے ساتھ رہو۔ ثم افیضوا من حیث افاض الناس سب مل کر چلو۔ مل کر فیض حاصل کرو۔ سب مل کر طواف کرو۔ یہ ہمہ گیر اجتماع کس لئے ہے؟ دنیا کے مختلف علاقوں کے مسلمان ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، کیا کرنے کے لئے؟ جمع ہوں اور خاموشی سے ایک دوسرے کی صورت دیکھیں اور چند دنوں کے بعد اپنے اپنے وطن واپس لوٹ جائیں؟ ایک جگہ کیوں جمع ہوتے ہیں؟ اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ اپنے اختلاف بیان کریں؟ اکٹھا ہونے کا مقصد کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام مسلم اقوام کے افراد کا ایک جگہ اور وہ بھی ایک مقدس جگہ پر جمع ہونے کا صرف یہ فائدہ اور مقصد ہو سکتا ہے کہ ایک جگہ جمع ہوں تاکہ امت اسلامیہ کی سرنوشت کے بارے میں اہم فیصلے کریں اور اس مجمع میں امت کی حیثیت سے ایک اچھا قدم اٹھائیں اور تعمیری اور مثبت کام کریں۔ یہ مثبت اور تعمیری کام کس کیفیت کا ہو سکتا ہے؟ اس کیفیت کا کہ ایک زمانے میں مسلم اقوام اتنی ترقی یافتہ ہوں - دعا ہے کہ وہ دن جلد آئے- جب حج میں جمع ہوں اور اس عظیم عوامی اجتماع کے دوران، اقوام کے منتخب افراد کی ہزاروں افراد پر مشتمل اسمبلی تشکیل پائے اور یہ اسمبلی فیصلے کرے اور یہ فیصلے اسی عوامی اجتماع میں مختلف ملکوں سے آنے والے تمام عازمین حج کے ذریعے منظور کئے جائیں اور پھر عمل درآمد کے لئے اقوام اور حکومتوں کے حوالے کئے جائیں۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 24 فروردین سنہ 1373 ہجری شمسی مطابق 13 اپریل سنہ 1994 عیسوی کو یوم مسلح افواج کی مناسبت سے اپنے خطاب میں مسلح فورسز کی کلیدی اہمیت اور فرائض پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو ممتاز خصوصیات و صفات کا مالک قرار دیا۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران سے استکباری محاذ کی دشمنی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد ایران کی حکومت اور قوم سے سامراج کی دشمنی شروع ہوگئ جو گذشتہ پندرہ سال سے آج تک جاری ہے۔ یہ لڑائی اس حکومت اور ملت سے ہے جو پورے استحکام کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور اپنی جگہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گی اور دنیا میں اس کی بات سننے والے بہت ہیں۔ ہمارا دشمن اپنے تمام طمطراق کے ساتھ اب تک اس نظام پر کوئی وار لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پہلی فروردین تیرہ سو تہتر ہجری شمسی مطابق اکیس مارچ انیس سو چورانوے عیسوی کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں انتہائی اہم تقریر کی۔ ہر سال اسی دن اور اسی مقدس مقام پر انجام پانے والی اس تقریر میں قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کی موجودہ تحریک اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی مجاہدانہ کوششوں کا تقابلی جائزہ لیا۔ آپ نے ملت ایران کی تحریک کو نہایت موثر اور ثمر بخش قرار دیا اور سامراجی طاقتوں کی جانب سے جاری دشمنانہ اقدامات کو فطری رد عمل قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران کا دو ٹوک موقف بیان فرمایا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو تہران کی مرکزی نماز عید الفطر کی امامت کی۔ نماز عید کے خطبوں میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اپنے خطاب میں رمضان المبارک کے انتہائی معنوی ایام کی خصوصیات کا تذکرہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالمی اداروں خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کارکردگی پر تنقید کی اور اسے مختلف مسائل میں دوہری پالیسیاں اختیار کرنے والا ادارہ قرار دیا۔ آپ نے حج کے ایام کے قریب آنے کی مناسبت سے بھی گفتگو کی اور سعودی عرب کی جانب سے ایرانی حجاج کرام کے لئے پیدا کی جانے والی مشکلات کی سمت اشارہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 22 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 13 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو عید الفطر کے موقعے پر صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 26 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 16 جنوری سنہ 1994 عیسوی کو یوم پاسدار کی مناسبت سے پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے ہزاروں ارکان اور پولیس کے خصوصی دستوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے دن تین شعبان کو ایران میں یوم پاسدار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس موقعے پر اپنے خطب میں قائد انقلاب اسلامی نے امام حسین علیہ السلام کی عظیم تحریک کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آپ نے خود پسندی، میں، ذاتی، جماعتی یا قومی مفاد سے سخت اجتناب حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی پہلی خصوصیت ہے۔ اس میں جو کام انجام دیتے ہیں، اس میں ہمارے اور آپ کے اندر جتنا اخلاص ہوگا، اس کام کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ مرکز اخلاص سے جتنا دور ہوں گے اور خود پسندی، خود پرستی، اپنے لئے کام کرنے، اپنی فکر میں رہنے اور ذاتی و قومیتی مفادات وغیرہ کے جتنا قریب ہوں گے اتنا ہی دوسرے گروہ سے قریب ہوں گے۔ اس اخلاص مطلق اور اس خود پرستی مطلق میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اس طرف سے ہٹ کے جتنا اس طرف جائیں گے کام کی اہمیت اتنی ہی کم ہوگی اور اس کی برکت بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ اس کی بقا بھی اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یہ اس مسئلے کی خاصیت ہے۔ یہ جنس جتنی کم خالص ہوگی ، ملاوٹ جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی جلدی خراب ہوگی۔ اگر خالص ہو تو کبھی خراب نہیں ہوگی۔ سامنے کی چیزوں سے اس کی مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ سونا جتنا خالص اتنا ہی پائیدار ہوگا۔ اس میں زنگ نہیں لگے گا۔ لیکن اگر اس میں ملاوٹ ہو تو جتنا لوہا اور تانبا اور دوسری کم قیمت دھاتیں اس میں ملی ہوں گی اتنی ہی جلد یہ خراب ہوگا۔ یہ ایک مسلمہ اصول ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 دی سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 27 دسمبر سنہ 1993 عیسوی کو امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں حضرت علی کی ذات والا صفات کو مسلمانوں ہی نہیں تمام انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ اور بہترین نمونہ عمل قرار دیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دینی علوم کے مرکز اور یونیورسٹیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور دونوں کلیدی تعلیمی اداروں کے مابین تعمیری تعاون کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں انجام دی گئيں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں بھی اس عظیم دن کی پوری دنیا میں پھیلی امت مسلمہ، عزیز ایرانی قوم، حاضرین محترم اور ملک کے زحمت کش حکام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یوم بعثت کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے کہ مجھ جیسے لوگ اس کی تشریح کر سکیں۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی میں بعثت کی تاثیر ایسا نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔
بعثت کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ ایک خلاء تھا اور انسانیت کو بعثت کی شدید ضرورت تھی۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت بالغہ سے، اس عظیم واقعے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا کہ اس دور میں جو باتیں رائج تھیں ان سے آلودہ ہوئے بغیر اس دور کی دنیا میں بھی پہچانا جائے اور تاریخ میں بھی باقی رہے۔ یہ خود ایک اہم نکتہ ہے۔ ممکن تھا کہ فرض کریں کہ آخری پیغمبر کی بعثت اس دور کے روم میں ہوتی، اس دور کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی۔
بعثت کے زمانے میں دنیا میں عظیم تمدن موجود تھے۔ ایسی اقوام تھیں کہ جو انسانی علوم و فلسفے اور مدنیت کی اطلاعات سے بہرہ مند تھیں۔
بعثت ان ملکوں میں اور ان علاقوں میں ہو سکتی تھی۔ مگر خداوند عالم اس بعثت کو جو تاریخ بشریت میں ہمیشہ باقی رہنے والی تھی، ان جگہوں پر نہیں لے گیا۔ اس بعثت کو اس جگہ نہیں لے گیا، جہاں اس فکر اور اس دعوت میں بیرونی عناصر داخل ہو سکتے تھے۔ اس دور کے مغربی ممالک ایسے علاقے تھے جو عظیم تمدن کے مالک تھے۔ پیغمبروں کے ساتھ ان کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مدنیت کے مالک تھے۔ انہیں میں سے شہر انطاکیہ کے لوگ تھے۔ سورہ یاسین میں خداوند عالم نے وہاں تین پیغمبروں کو بھیجنے کا ذکر کیا ہے اور سر انجام اس دیار کے لوگوں کی ناسپاسی ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ تاریخ نے بھی ان اقوام کے واقعات بیان کئے ہیں۔ آخری پیغمبر کو وہاں مبعوث نہیں کیا۔
جزیرۃ العرب میں انسانی علوم نہیں تھے۔ شرک تھا اور شرک آلود رسومات تھیں اور وہ بھی پست ترین سطح پر۔ لہذا آپ قرآن میں بھی ملاحظہ فرماتے ہیں کہ شرک کے خلاف سخت جدوجہد ہوئی ہے۔ سورہ اخلاص جس نے لم یلد ولم یولد کو اتنا واضح اور نمایا ں کیا ہے۔ چار آیتوں کے اس چھوٹے سے سورے میں لم یلد لم یولد قلب میں واقع ہے اور لم یکن لہ کفوا احد نمایاں اور آشکارا ہے تاکہ شرک ذہنوں سے دور کر دیا جائے اور پیام خدا سے مخلوط نہ ہو۔ اسلام میں ہر شرک آلود کام مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھیں تو اسلام خالص شکل میں منظر عام پر آيا اور اکناف و اطراف عالم میں خالص شکل میں منتقل ہوا اور پھیلا۔ بنابریں جہاں بھی گیا، مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو چیلنج کیا اور ان کے مقابلے میں اپنے نمایاں ہونے کا ثبوت دیا۔ یہاں تک کہ اس کی تبلیغ کرنے والوں کا خلوص ختم ہو گیا تو تبلیغ کا خلوص بھی ختم ہو گیا۔ یہ بعثت، بشریت کے لئے ہمشیہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ یعنی جب بھی عالم اور زندگی بشر معنویت سے خالی ہو جائے تو وہی معارف اور اصول جن کی قرآن کریم بات کرتا ہے، آکر اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔ اسلامی معارف و اصول کی کیفیت ایسی ہے اور اس قانونی مجموعے میں ایسی قوت ہے کہ تمام حالات میں معنوی خلاء کو پر کر سکتا ہے اور بشریت کو معنوی فضا میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کر سکتا ہے۔
آج بھی انہیں حالات میں سے ایک حالت ہے۔ ملکوں اور اقوام میں کسی دعوت کے موثر اور مقبول ہونے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط دعوت کا منطقی اور معقول ہونا ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام کو اس کی معقولیت اور منطقی پہلو سے الگ کرے، اسلام کے رشد اور نشر و اشاعت کو نقصان پہنچائے گی۔ جو لوگ اسلامی مسائل کے بارے میں بولتے ہیں اور اظہار رائے کرتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں۔ اسلام عقلی اصولوں پر استوار ہے۔ اسلام ایسا دین ہے کہ عقل سلیم اس کو سمجھتی ہے۔ اس کو درک کرتی ہے۔ اس کو پسند کرتی ہے اور قبول کرتی ہے۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اسلامی حکم کے ساتھ ایک عقلی دلیل بھی موجود ہونی چاہئے۔ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے؟ کیا اس کے لئے عقلی دلیل کی ضرورت ہے؟ نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی بھی عقل میں کوئی بات آ گئی تو وہ اسلام میں بھی ضرور نظر آئے۔ یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، اسلام سے جس کا رابطہ قابل قبول ہے اور اہل علم و اہل فن مانتے ہیں کہ یہ اسلام سے مربوط ہے، ہر علمی اور عاقلانہ ماحول میں قابل پیشکش ہے۔ نماز کو دنیا کے مادی ترین فرد کو بھی سمجھایا جا سکتا ہے، بتایا جا سکتا ہے کہ نماز کیا ہے اور اسلام نے نماز کیوں واجب کی ہے۔ انیسویں صدی کا جو مغرب کی بے دینی کی صدی ہے ایک مغربی مفکر جو بہت معروف ہے لیکن میں اس کا نام لینا نہیں چاہتا، کہتا ہے کہ نماز میں بہت بڑا راز نہفتہ ہے جی ہاں اگر اس میں عظیم راز نہ نہفتہ ہوتا تو مادہ پرستی کے اس ماحول میں ایک مفکر اس کے بارے میں یہ نہ کہتا۔ اہل انصاف، اہل علم، صاحبان عقل اور صاحبان منطق و استدلال، تمام اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔
معقول اور منطقی ہونا اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلام کو اس خصوصیت سے الگ کرنے کی کوشش کریں، یا اپنے پروپیگنڈوں میں کہیں کہ یہ علم اور عقل کا مخالف دین ہے یا عمل میں ایسی باتوں کو اسلام سے منسوب کریں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس قابل نہ ہو کہ عقل سلیم اس کی تصدیق اور تائید کر سکے، تو یہ باتیں یقینی طور پر اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچائیں گی، ان سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ بنابریں معقول اور منطقی ہونا ایسی خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ معنوی اور خدائی دین ہے۔ عیسائیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں آخرت کے پہلو دنیاوی پہلوؤں پر غالب ہیں، اسلام ایسا نہیں ہے۔ اسلام دنیا کو بھی آخرت کا جز سمجھتا ہے۔ یہی آپ کی زندگی، آپ کی تجارت، آپ کا پڑھنا، آپ کا ملازمت کرنا، آپ کے سیاسی امور، یہ سب آخرت کا جز ہیں۔ دنیا بھی آخرت کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس طرز فکر کے ساتھ آپ اچھی نیت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ نیکی ہے جو آخرت میں تقرب خدا اور معنوی درجات تک پہنچائے گی اور اگر خدا نخواستہ بری نیت یا خود پسندی کی نیت سے کوئی کام انجام دیا تو یہ بات زوال، پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوگی ۔
اسلام اس طرح کی تعلیمات کا حامل دین ہے۔ ہماری پوری زندگی، ہماری تمام دنیاوی کوششیں، آخرت کا حصہ ہیں۔ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ برائی اس میں ہے کہ روزمرہ کی زندگی سے مربوط یہ مادی کوشش، بری نیت سے انجام دی جائے۔ وہ دنیا جس کو مذموم کہا جاتا ہے یہی ہے۔ مگر یہ عالم اس عالم سے الگ نہیں ہے۔ یہ عالم اس عالم آخرت کی کھیتی ہے۔ کھیتی یعنی کیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فصل کھیت کے بجائے کسی دوسری جگہ حاصل کی جائے؟ یہ تعبیر انتہائی وحدت، ہم آہنگی اور دونوں کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک معنوی دین بھی ہے۔ اسلام میں دلوں کو خدا کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ نیتیں خدا کے لئے ہونی چاہئیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت اور اس کے عام ہونے کا ایک سبب ہے۔
آج دنیا میں جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور خود دنیا کے عوام اس کا احساس کرتے ہیں، خاص طور پر مغرب میں، معنویت کی کمی اور روحانیت کا خلاء ہے۔ مادیات میں غرق ہو گئے ہیں، معنویات سے دور ہیں اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہشات کی خصوصیت یہ ہے کہ ابتدائے امر میں تو یہ خواہش ہوتی ہیں لیکن جاری رہنے کی صورت میں عالم جہنم بن جاتی ہیں۔ جب کسی فرد یا قوم کی زندگی میں خواہشات غالب آ جائیں تو وہ زندگی جہنم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی خواہشات کی خاصیت ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا مل جائے جو زیادہ عرصے تک خواہشات میں غرق رہنے کے بعد بھی خوش ہو۔ ایسے کسی شخص کو خدا نے پیدا نہیں کیا ہے۔ آپ جائیں، دیکھیں، تحقیق کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ ایک مسلمہ اور واضح بات ہے۔ خواہشات کے نرغے میں باقی رہنا انسان کے لئے جہنم کی زندگی بن جاتا ہے۔ یہ وہی جہنم ہے کہ جس میں آج مغرب کے کچھ متمول لوگ مبتلا ہیں اور جو متمول نہیں ہیں وہ غربت، لاچاری اور دوسری برائیوں کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ البتہ ان میں مستثنی افراد بھی ہیں۔ ہر طبقے میں یقینا مستثنی لوگ مل جائیں گے۔ وہاں اچھے انسان بھی ہیں لیکن عمومی حالت یہی ہے۔
آج کی دنیا اس بعثت کی محتاج ہے۔ ایران اسلامی میں ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت بھی دوسری حکومتوں کی طرح ہو۔ کچھ دن اس خاندان نے اور کچھ دن دوسرے خاندان نے حکومت کی اور اب مسلمین اور مومنین حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارا قضیہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا قضیہ ایک پیغام سے عبارت ہے۔ ایک بعثت کا قضیہ ہے۔ ہم دنیا والوں کے سامنے نئی بات پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ نئی بات اور نیا پیغام جس کا پہلا اثر خود ہماری زندگی میں اور ہمارے ملک میں نظر آنا چاہئے، دنیا میں ایک نیا راستہ پیش کرتا ہے۔ اس کو اسلامی جمہوریہ کے کارکن فراموش نہ کریں۔ یہ وہ نظام ہے جو اس لئے آیا ہے کہ بشریت کو بعثت کی حقیقت سے روشناس کرائے۔ یہ نظام گمراہ نظاموں، حکومتوں اور معاشروں سے کچھ سیکھنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم بہت برے ہوں، ہم میں بہت نقائص ہوں، اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ہم بہت چھوٹے ہوں، مگر یہ پیغام نجات انسانیت کا پیغام ہے۔ اس پر سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اس پیغام میں اپنے مزاج کے مطابق رد و بدل کریں، اس میں کچھ کمی بیشی کر دیں۔ نہیں' یہ پیغام پوری بشریت کے لئے ہے اور انسان اس کا محتاج ہے۔ ہم بشریت کے طرفدار ہیں۔ ہم بشریت کے دشمن نہیں ہیں۔ ہم دنیا کی تمام اقوام کے علم، پیشرفت اور آرام و آسائش کے طرفدار ہیں۔ ہمیں پتہ ہے ان کی تکلیف کیا ہے۔ انہیں معنویت کی ضرورت ہے اور معنویت یہاں ہے۔ البتہ معنویت مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اگر مسلط کی جائے تو دوسروں پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ ہم اس کو صرف پیش کرتے ہیں۔
یہاں دو نکات ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ ایک نکتے پر ہم اور آپ، اس نظام کے تمام حکام توجہ دیں! نکتہ یہ ہے کہ ہمیں صرف منتظم اور حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ دنیا میں نئی فکر پیش کرنے والے کی حیثیت سے اس طرح عمل کرنا چاہئے اور اپنی رفتار و کردار کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہئے اور اس فکر کی خود مختاری اور اس کی خالص شکل کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اس میں ایک نکتے کا تعلق دنیا کے عوام سے ہے۔ سامراج کے ذرائع ابلاغ عامہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جارح اور دنیا کے تمام نظاموں کا قلع قمع کرنے پر آمادہ نظام کی حیثیت سے متعارف کرائیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں جو جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ ہم صرف وہ چیز پیش کرتے ہیں جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ طبیب دوار بطبہ قد احکم مراحمہ و احمی مواسمہ ہمارے پاس بشریت کے آج کے مسائل کی دوا موجود ہے۔ جو نہ چاہے نہ لے۔ ہم کسی سے لڑتے تو نہیں ہیں۔ اگر انسان آج تشخص کے بحران سے دوچار ہے، معنویت کے فقدان میں گرفتار ہے، انسانی روایات کی بے حرمتی سے تکلیف میں ہے کہ باپ بیٹے پر رحم نہیں کرتا، بیٹا باپ کا احترام نہیں کرتا، ماضی کی روایات کا پاس نہیں کرتے، اپنی ذاتی اقدار کے علاوہ دیگر اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، تو یہ ایک المیہ ہے۔ آج مغربی اقوام اس بحران سے دوچار ہیں اور اس کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ اگر آج دنیا میں دولت مندوں کی دولت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کچھ افراد اور کمپنیاں افسانوی انداز میں اربوں کما رہی ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو راتوں کو سڑکوں کے کنارے کارٹون بچھا کر سوتے ہیں تو یہ مغرب کی مشکلات ہیں۔ اگر شادی کرنے کی ہزاروں سفارشات، اور خاندان کی تشکیل کے تمام تر تشہیرات کے باوجود مغربی ملکوں میں خاندانی بنیادیں روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوتی جا رہی ہیں، اگر لڑکے اور لڑکیاں موجودہ صورتحال پر راضی نہیں ہیں، جو لوگ خود اس جرم میں شریک ہیں وہ بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں، خاندان کی بنیادیں متزلزل ہیں اور بچے پریشان ہیں، اگر نفسیاتی بحران نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تویہ کس لئے ہے؟ اتنی زیادہ خودکشی کی وارداتیں کس لئے؟ گذشتہ چند مہینوں یا تقریبا ایک سال کے اندر امریکا میں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم و دولت کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صرف انہیں چیزوں کی اہمیت ہے، کئ افراد قتل کر دیئے گئے۔ اب وہ کتے بلی سے محبت اور ہمدردی کے اظہار کے لئے ہیلی کاپٹر لیکے بیابانوں میں اپنے گمشدہ کو تلاش کریں، کیا اندھے ہیں؟ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟ ایک شخص ریل کے ڈبے میں داخل ہوتا ہے اور مشین گن سے فائرنگ کرکے کئی افراد کو قتل کر دیتا ہے۔ اس ڈبے سے نکلتا ہے تو دوسرے ڈبے میں جاتا ہے وہاں بھی کئی افراد کو قتل کرتا ہے۔ اگر بشریت ان بیماریوں میں مبتلا ہے اور علاج نظر نہیں آتا تو ہم کہتے ہیں علاج یہاں ہمارے پاس ہے۔ علاج اسلام ہے۔ علاج آج کی دنیا میں بعثت کی تجدید ہے۔ آج آپ ہراول دستہ ہیں۔ ایرانی قوم ہراول دستہ ہے۔ اس کو عمل کرنا چاہئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔
اب وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران کا سب سے جھگڑا ہے۔ ایران کو سب پر اعتراض ہے۔ نہیں، ایران کو صرف مستکبر حکومتوں کی جاسوسی کی تنظیموں پر اعتراض ہے جو ان ملکوں کے گھناؤنے ترین مراکز میں شامل ہیں۔ ہمیں ان پر اعتراض ہے جو یہ پروپیگنڈے تیار کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، ان غیر ملکی نشریات کے پروپیگنڈے کون ترتیب دیتا ہے؟ مثلا یہی بی بی سی کے پروپیگنڈے کون تیار کرتا ہے؟ برطانوی انٹیلیجنس کی تنظیم اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور یہ پروپیگنڈے تیار کرتی ہے۔ ہم ایک ملک اور قوم ہیں اور ہمارا ایک پیغام ہے۔ ہم طاقت و توانائی اور قابل فخر ماضی رکھتے ہیں۔ ہمارا ماضی بھی درخشاں تھا اور حال بھی درخشاں ہے۔ آج کے دور میں امام خمینی جیسی ہستی ہمارے درمیان تھی اور ایسی کوئی شخصیت نہ آج کے دور میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں کہ جنہوں نے اپنی عظمت کا اعتراف ساری دنیا سے کروایا ہے۔ ایسی مائیں، ایسے باپ، ایسے خاندان ہیں اور ایسے سائنسداں ہیں کہ ہمیں کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ کسی سے خوف بھی نہیں ہے۔ کسی سے بھی۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس ملک کے پیچھے جائیں۔ یا کسی جگہ کو فتح کریں، کسی جگہ کو مسمار کریں۔ کسی جگہ دھماکہ کریں۔ یہ انسانیت مخالف نظاموں کا کام ہے۔ یہ ان حکومتوں کا کام ہے جو آج اس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ہمارے کام نہیں ہیں۔
ہمارا پیغام اسلام ہے۔ اسلام پھیلنے کے عوامل میں سے ایک، جیسا کہ میں نے عرض کیا، نرمی ہے۔ ما کان رفق فی شئ الا ذاتہ یعنی نرم ہونا، ہموار ہونا، نرمی کا مطلب سستی نہیں ہے۔ نرمی کا مطلب کمزور ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ناہموار نہ ہونا ہے، جگر خراش نہ ہونا ہے۔ آپ کسی سخت چیز پر جیسے فولاد پر ماریں تو آپ کے ہاتھوں میں درد کا احساس ہوگا، چبھن کا احساس ہوگا۔ نرمی کا مطلب یہ ہے کہ ہموار ہو، کسی چیز پر ہاتھ پھیریں تو ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر خراش آ جائے زخم آ جائیں حالانکہ وہ چیز ممکن ہے کہ فولادی نہ ہو، لکڑی کا ایک ٹکڑا ہو۔ ممکن ہے لکڑی اس طرح کاٹی جائے کہ ناہموار ہو۔ بعض لوگ ناحق، غیر مدلل، بے معنی بات اس طح کرتے ہیں کہ سب کو نشتر کی سی چبھن کا احساس ہونے لگتا ہے اور ممکن ہے کہ کوئی بامعنی، قوی اور صحیح فکر کو اس طرح بیان کرے کہ کسی بوجھ کا احساس نہ ہو، بات بالکل آسان لگے۔ اسلام کی یہی خصوصیت ہے۔ قرآن کی یہی خصوصیت ہے۔
ہمارے لئے بعثت کا سب سے اہم درس یہی ہونا چاہئے۔ بھائیو اور بہنو' درس قرآن یہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک نیا پیغام پہنچانے والے ہیں اور ہم خود اس نئی بات کی حفاظت کریں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی انسانوں کو اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ زندگی کی خوبیوں سے محروم اور نابلد ہیں۔ ان چیزوں کو جو ہمارے پاس ہیں، دنیا کے ان مفکرین کی باتوں سے مخلوط نہ کریں جنہوں نے اپنے عوام کے لئے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔
تیسرے یہ کہ دوسروں کی بڑی بڑی باتوں سے مرعوب نہ ہوں۔ ہمارے پاس منطق ہے۔ ہمارے پاس حقانیت کا پیغام ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز صحیح نہیں ہوئی تو سمجھ لیجئے کہ اس کا صحیح ہونا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے صحیح مالک کے پاس جائیں تا کہ وہ اسے صحیح کرے۔ منطقی، مستحکم اور قوی بات۔ یہ وہی مشعل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روشن کی ہے۔ اس مشعل نے اس دور کی دنیا کو روشن کیا، اس دور میں تہذیبوں کی، ایک تہذیب کی نہیں متعدد تہذیبوں کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہ شمع ایسا ہی کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس دور میں بھی دنیا کے پاس نئی چیزیں تھیں۔ علم تھا، پیشرفت تھی۔ انطاکیہ تھا، روم تھا، یونان تھا، ایران تھا، ہگمتانہ تھا، پرسپولیس تھا، اس دور میں بھی دنیا علم سے بالکل ہی خالی نہیں تھی۔ لیکن جب یہ مشعل روشن ہوئی، جب یہ سورج نکلا تو تمام شمعوں کی روشنیاں ماند پڑ گئیں اور یہ نور سب پر غالب آ گیا۔ لیظھرہ علی الدین کلہ اسلام فطری طور پر معنویت کے غلبے کے لئے آیا تھا۔ جب سورج نکلے تو آپ ایک ہزار شمعیں اس کے سامنے رکھہ دیں، روشنی نہیں دیں گی۔ بعثت اسی طلوع اور غلبے کا نام ہے۔ یہ وہی مشعل ہے، وہی چراغ ہے، وہی سورج ہے۔ اس کی قدر کریں۔ بعثت کو اپنے وجود میں اپنی زندگی میں شمع فروزاں کی مانند روشن رکھیں۔ خدا سے نصرت طلب کریں، یقینا خدا مدد کرے گا۔
پالنے والے ہمیں امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کا مستحق قرار دے۔ ہمیں اپنی رحمت اور ہدایت عنایت فرما۔ ہمارے قلب، ہمارے جسم، ہمارے عمل، ہماری زبان اور ہماری فکر کو نورانی کر دے۔ ہمیں اور ہماری ذریت کو اسلام سے زندہ رکھ اور اسلام پر ہی موت دے۔ ہمارے امام خمینی کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ اس عید کو پوری دنیا کے تمام مومنین و مومنات کے لئے مبارک کر۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 30 آبان سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 21 نومبر سنہ 1993 عیسوی کو ہفتہ رضاکار فورس کی مناسبت سے بسیج (عوامی رضاکار فورس) کے کمانڈروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 12 آبان سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 3 نومبر سنہ 1993 عیسوی کو عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے طلباء کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں چار نومبر کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالی اور اس دن رونما ہونے والے اہم ترین واقعات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 7 مہر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 29 ستمبر سنہ 1993 عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی کی چھاونی انصار الحسین میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقعے پر خطاب میں پاسداران انقلاب فورس کے اخلاص عمل کا ذکر کیا۔ آپ نے اس مسلح فورس کے دنیا میں عدیم المثال خوبیوں کا حامل قراردیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 25 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 16 ستمبر سنہ 1993 عیسوی کو پاسداران انقلاب اسلامی فورس کے جوانوں اور عہدیداروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ خطاب میں آپ نے ملت ایران کو دنیا میں ممتاز مقام کی حامل قوم اور پاسداران انقلاب فورس کو اس قوم کی چنندہ جماعت سے تعبیر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام کے خلاف دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی مشترکہ سازشوں کے بارے میں گفتگو کی اور ان تمام سازشوں کا سامنا کرنے میں ملت ایران کی کامیابی کو اہم پیغام قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین پر خاص طور سے روشنی ڈالی اور اس تعلق سے عرب حکمرانوں کی کارکردگی پر نکتہ چینی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 3 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 25 اگست سنہ 1993 عیسوی کو صدر ہاشمی رفسنجانی کے دوسرے دور صدارت کے آغاز کے موقعے پر صدر مملکت اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں حکومت اور عہدیداروں کے فرائض پر گفتگو کی۔ آپ نے اس خطاب میں عدلیہ اور مقننہ کے ساتھ مجریہ کے بھرپور تعاون کو لازمی قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 14 شہریور سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 4 اگست سنہ 1993 عیسوی کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ملک کے حکام اور مختلف عوامی طبقات سے ملاقات میں اسلام کی دونوں عظیم الشان ہستیوں سے ملنے والی تعلیمات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اس خطاب میں اتحاد بین المسلمین پر خاص تاکید فرمائی۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر اکرم کی مجاہدانہ زندگی اور انتہائی دشوار اور ناسازگار حالات میں تبلیغ دین کے لئے آپ کی مساعی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ظاہر ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام یہ نہیں تھا کہ پوری دنیا کی اصلاح کریں۔ نہیں بلکہ آپ کا کام یہ تھا کہ یہ صحیح اور عملی نمونہ وحی سے حاصل کرکے انسان تک پہنچا دیتے تا کہ انسان زندگی میں اس کی پابندی کرے اور ہر لمحہ اس سے استفادہ کرے۔ اب یہ کہ کس نے عمل کیا اور کس نے ضائع کر دیا، یہ دوسری بحث ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آج انشاء اللہ ایرانی قوم کے لئے ایک مبارک دن ہے۔ ہمارے عزیز، محترم اور با لیاقت صدر کی حکومت اور ذمہ داری کا دوسرا دور درحقیقت عالمی حالات اور دشمنوں کی کوششوں اور ان کے اہداف کے پیش نظر ایک بڑی نعمت الہی ہے۔ البتہ مجھے پہلے اپنے عزیز عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کیونکہ وہی تھے جو میدان میں آئے، انتخاب میں بھرپور شرکت کی اور الیکشن صحیح طور پر انجام پایا۔
ہم اس الیکشن اور اس بات پر خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ جناب ہاشمی رفسنجانی نے الحمد للہ یہ ذمہ داری سنبھالی ہے۔ مجریہ پر ہماری تاکید کی وجہ ملک کی بقا و پیشرفت میں اس کی خاص اہمیت ہے۔ ملک چلانے کے بنیادی امور کا کم سے کم نصف حصہ مجریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر پالیسیوں، منصوبوں اور پروگراموں کو پچاس فیصد سمجھیں تو امور مملکت کا کم سے کم پچاس فیصد حصہ اس مدیر سے تعلق رکھتا ہے جس کے ذمے منتظمہ ہے۔ کوئی بھی شعبہ چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، چاہے جتنی وسعت رکھتا ہو اگر اس کا سربراہ اس کو چلانے کی ضروری صلاحیت رکھتا ہے تو انسان مطمئن رہتا ہے کہ سارے کام ٹھیک طور پر انجام پائیں گے۔
میری نظرمیں کسی بھی سربراہ میں تین باتیں ہونی چاہئیں۔ اول یہ کہ خود اس عمل اور کام کے لئے تیار ہو۔ سستی، کاہلی، لاپرواہی اور کام کو تقدیر کے سپرد کرکے بیٹھ جانا، پہلی بلا ہے جو کسی بھی مدیر کو ضروری شرائط سے عاری کر سکتی ہے۔ کام میں سنجیدہ ہونا، کام میں سست نہ ہونا، کام، اقدام اور اس فریضے کی انجام دہی میں جو قبول کیا ہے، ذمہ داری کا احساس بہت اہم ہے۔ بنابریں اگر ملک کے کسی شعبے میں کوئی یہ احساس کرے کہ اس کام کے لئے ضروری صلاحیت اس کے اندر نہیں ہے تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز ہوگا یا نہیں۔ کیونکہ اس کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ قبول کرے اور عہد کرے کہ اس کام کو انجام دے گا جو بغیر صلاحیت اور لیاقت کے ممکن نہیں ہے۔ مدیر اور سربراہ کے بارے میں یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا ملک کے بنیادی منصوبوں اور پالیسیوں کے مطابق آمادگی، استعداد اور کام انجام دینے کا عہد ہے۔ اگر کسی مسئلے میں ملک کی پالیسی معین ہے تو اجرائی امور کی ذمہ داری قبول کرنے والے کو اسی ہدف کے ساتھ اس میں میں آگے بڑھنا ہے۔ چاہے خود اس نے مکمل طور پر اس پالیسی کی تائید نہ کی ہو، اگر چہ کسی پالیسی کا نفاذ کرنے والا اگر اس کو قبول نہ کرتا ہو تو معلوم نہیں ہے کہ اس کو کس حد تک صحیح انجام دے گا، لیکن جو چیز لازم ہے اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ مدیر، سربراہ اور وزیر جس نے یہ ذمہ داری قبول کی ہے، کام کو اسی پالیسی کے تحت انجام دے جو پالیسی ساز نے تیار کی ہے۔ یہ بھی وہ نکتہ ہے جو انتظامی اور کا دوسرا اہم ستون ہے۔
تیسرا ستون، طہارت و تقوی کی حفاظت ہے۔ عمل میں پاکیزگی کی حفاظت ہے۔ غیر شرعی، غیر مسلمہ اور غیر اخلاقی اہداف سے احتناب ہے۔ یہ تیسری صلاحیت ہے۔ اچھا مدیر وہ ہے کہ جو بھی کام قبول کرے، صحیح اخلاقی اصولوں کی پابندی کے ساتھ اس کو انجام دے۔ اسلامی نظام میں جس چیز کی سختی سے محالفت کی جاتی ہے وہ بدعنوانی ہے۔ اسلامی نظام میں برے اور غلط نظریئے کی اتنی شدید مخالفت نہیں ہوتی جتنی کہ غیر اخلاقی عمل اور خدا نخواستہ بدعنوانی پھیلنے کی مخالفت کی جاتی ہے۔ تعمیر نو کے اس دور میں، ملک کے حکام، عہدیداروں، دوسرے اور تیسرے درجے کے ذمہ داروں سے لیکر نچلی سطح تک سبھی افراد کو جس چیز کا خیال رکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اس دور میں بدعنوانی پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ بہت سنجیدہ ہے۔ بدعنوانی خود تو نہیں کہے گی میں بدعنوانی ہوں بدعنوان شخص، جو دوسروں کو بھی بدعنوانی کی طرف لے جاتا ہے، مالی بدعنوانی کی طرف، کام کی بدعنوانی کی طرف، غیرقانونی اور ناجائز طور پر کام چھوڑ دینے کی طرف لے جانا چاہتا ہے، لوگوں میں لغزش پیدا کرتا ہے، اکساتا ہے، وہ شروع میں ہی تو نہیں کہتا کہ میں تم لوگوں کو بدعنوانی میں مبتلا کرنے کے لئے آیا ہوں پہلے وہ ایک جواز کے ساتھ اور ایک چھوٹی سی شکل میں اس میدان میں اترتا ہے۔ انسان ہے، اس کے قدموں میں لغزش پیدا سکتی ہے۔ لغزش کا امکان اس کے اندر بہت ہے لہذا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
مجریہ پر ہمارے بھروسے اور پروردگار عالم کے اتنے شکر کی وجہ یہ ہے کہ امور مملکت ایک جانے پہچانے اور تجربے کار شخص کے ہاتھ میں ہیں۔ میں جھتیس سال، تقریبا چالیس سال سے انہیں نزدیک سے جانتا ہوں۔ مختلف میدانوں میں ایک ساتھ رہے ہیں۔ ایک ساتھ کام کیا ہے اور ہم فکر رہے ہیں۔ چالیس سال کا امتحان کسی انسان پر اعتماد کے لئے کافی ہے۔ اس تمام عرصے میں میں نے انہیں راہ خدا میں، راہ حقیقت میں، کلمہ دین کی سرافرازی کی راہ اور اسلامی اہداف کو آگے بڑھانے کی راہ میں پایا ہے۔ اس راہ سے الگ اور ہٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔
ہماری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ ایک اعلی عہدیدار میں یہ کردار پایا جاتا ہے۔ شرکائے کار بھی جہاں بھی ہیں، اسی خصوصیت کے مالک ہیں۔ البتہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کئی برسوں کے دوران مجریہ کے کام کا جو تجربہ مجھے حاصل ہوا ہے، اس سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ایک مدیر اگر یہ چاہے کہ جہاں تک اس کا دائرہ کار ہے ماحول پاک اور صحتمند رہے تو انجام کار میں موثر نچلی ترین سطح تک کا خیال رکھے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم نے یہاں ایک اچھا وزیر متعین کر دیا ہے، اب ہمارا کام ختم ہو گیا۔ نہیں؛ اس وزیر کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے معاون اچھے ہوں۔ اچھے عہدیداروں کا تعین کرے۔ مختلف شعبوں کے انچارج اچھے ہوں۔ البتہ کام جتنا بڑا ہوگا معیار اتنا ہی اعلا ہوگا۔ اعلا سطح کے عہدیدار سے جو توقع ہے وہ دوسرے درجے کے عہدیدار سے نہیں ہے لیکن اچھائی، سالم ہونا، کام کی شناخت، کام کرنے میں دلچسپی، تقوی و پاکیزگی ہر سطح کے لوگوں میں ہونی چاہئے۔
میں نے ملک کے حکام سے مختلف جگہوں پر بارہا عرض کیا ہے کہ کسی دور افتادہ گاوں یا شہر کے لوگ، نظام کو مقامی حاکم یا پولیس چوکی کے انچارج یا متعلقہ عہدیدار کی شکل میں ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں صدر مملکت، وزیر، نائب وزیر سب کچھ وہی ہے جس سے انہیں سروکار ہے۔ اگر وہ صحیح ہو، امین ہو، لوگوں کا ہمدرد ہو، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کا پورا نظام اسی طرح ہے۔ اگر خدانخواستہ غلط ہوا تو لوگ اسی سے حکومت کو پرکھیں گے اور اس کو روکا نہیں جا سکتا۔
انشاء اللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یہ حکومت ہمارے ملک اور ایرانی قوم کو مبارک ثابت ہوگی۔ اس حکومت کے آغاز میں تاکید کے ساتھ میری سفارش یہ ہے کہ شرکائے کار کا انتخاب بہت اہم ہے۔ البتہ وزیروں کی سطح پر کافی دقت نظری سے کام لیا جاتا ہے۔ صدر مملکت بھی اور پارلیمنٹ بھی، بہت اچھی طرح تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتی ہے مگر اسی پر اکتفا نہ ہو۔ میں ان محترم وزیروں سے جو مختلف شعبوں کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں یا سنبھالیں گے، عرض کرتا ہوں کہ اپنے شعبے میں، ہر معاون، ہر مدیر، ہر انچارج کا انتخاب، الہی معیاروں کے مطابق کریں۔ ماہر، لائق، پاک اور ایک مدیر کے لئے ضروری ہے کہ ان صفات سے آراستہ ہو۔
دوسرا مسئلہ پالیسیوں اور منصوبوں کا ہے۔ اقتصادی پالیسیوں کے تعلق سے میں صرف ایک جملہ عرض کروں گا، الحمد للہ ہماری محترم حکومت نے پہلا منصوبہ آخر تک پہنچایا اور بہت جلد دوسرا منصوبہ، ایک سال یا اس سے کم مدت میں شروع کرے گی، اسلامی نظام میں بنیاد، عوام کی آسائش اور سماجی انصاف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے ہمار نمایاں فرق یہی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اساس اقتصادی ترقی، اقتصادی پیشرفت اور پیداوار نیز دولت میں اضافہ ہے۔ جو زیادہ اور اچھی مصنوعات اور دولت پیدا کرے وہ آگے ہے۔ وہاں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ امتیاز اور دوری پیدا ہو جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو لوگوں کی آمدنیوں میں فاصلہ بڑھ جانے اور عوام کے ایک بڑے حصے کے آسائش سے محروم ہو جانے کی پرواہ نہیں ہوتی۔ حتی سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی تقسیم کا سسٹم بھی خراب اور ناقابل قبول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کہتا ہے یہ بات بے معنی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ دولت جمع کرو تا کہ اسے تم سے لیکر تقسیم کر دیں۔ یہ بیکار بات ہے۔ اس طرح ترقی نہیں ہوگی اسلامی نظام اس طرح نہیں ہے۔ اسلامی نظام دولت مند معاشرہ چاہتا ہے، غریب اور پسماندہ معاشرے پر یقین نہیں رکھتا۔ اقتصادی ترقی کا قائل ہے لیکن اقتصادی ترقی سماجی انصاف اور عوام کی آسائش کے لئے چاہتا ہے۔ اس نظام میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے، محروم نہیں ہونا چاہئے، عام رفاہی وسائل سے استفادے میں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے خود جو وسائل حاصل کئے ہیں وہ اس کے ہیں۔ لیکن جو چیز عمومی ہے جیسے مواقع اور امکانات، یہ پورے ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کوئی سرکاری حکام کے سہارے اور خدا نخواستہ، غلط روشوں اور چالوں سے کام لیکر مراعات حاصل کر لے اور افسانوی انداز میں ترقی کرے اور پھر کہے جناب یہ دولت میں نے خود کمائی ہے۔ اسلامی نظام میں یہ چیز نہیں ہے۔ جس دولت کی بنیاد صحیح نہیں ہے وہ ناجائز ہے۔
سوشلسٹ نظام سے ہمارا اتنا ہی فرق ہے۔ سوشلسٹ نظام عوام سے مواقع سلب کر لیتا ہے۔ کام، پیداوار، دولت، پیداوار کے وسائل، سرمائے اور پیداوار کے اہم منابع سب حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں۔ یہ غلط انداز ہے۔ اسلام میں یہ چیزنہیں ہے۔ نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ وہ بھی غلط ہے اور یہ بھی غلط ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام صحیح ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلامی اقتصادی نظام کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں جو بھی مصلحت ہو ویسا عمل کیا جائے۔ جی نہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا نظریہ بھی یہ نہیں تھا۔ میں نے خود ایک بار ان سے پوچھا تھا۔
اسلام کی اپنی خاص روش ہے۔ جامع اقتصادی مسائل میں اسلام کا اپنا ایک راستہ ہے۔ ملک کی کلی اقتصادی پالیسی کی بنیاد، عوام کی آسائش اور سماجی انصاف پر استوار ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ کوئی زیادہ استعداد اور زیادہ کوشش سے اپنے لئے زیادہ سہولیات اور وسائل جمع کر لے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن معاشرے میں کوئی غریب نہیں ہونا چاہئے۔ منصوبہ سازی کرنے والوں کا ہدف یہ ہونا چاہئے۔ ملک کا پلاننگ اور منصوبہ ساز ادارہ، اس کلی سیاست کی بنیاد پر منصوبے تیارکرے۔
ثقافتی شعبوں میں بھی عرض کروں گا کہ یہ ہمیں سے مخصوص نہیں ہے۔ دنیا کی تمام زندہ اقوام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اس بات کی اجازت دے دی کہ اس کی قومی ثقافت، بیرونی ثقافتی یلغار میں پامال ہو جائے تو وہ قوم ختم ہو جائے گی۔ غالب قوم وہ ہے جس کی ثقافت غالب ہو۔ ثقافتی غلبہ اپنے ساتھ اقتصادی، سیاسی، فوجی اور سیکیورٹی، ہر طرح کا غلبہ لاتا ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک کوشش کرتے ہیں کہ دنیا میں اپنی زبان رائج کریں۔ کیونکہ زبان ثقافت منتقل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے جو لباس، آداب، دین، عقائد اور سماجی نظریات سب کچھ منتقل کرتی ہے۔ آج عالمی طاقتیں حتی فوجی طاقت کے ذریعے اپنی ثقافت منتقل کرنا اور پھیلانا چاہتی ہیں۔ امریکی اپنی حکومت، اقتصادی اور سماجی نظام کے لئے جن روشوں کے قائل ہیں، ان کے ذریعے یہاں وہاں دنیا میں ہر جگہ لشکر کشی کرتے ہیں۔ یعنی اغیار کی ثقافتی یلغار یہاں بھی پہنچتی ہے مگر دوسرے ناموں سے جیسے انسانی حقوق وغیرہ۔ کوئی نہیں ہے جو امریکیوں سے پوچھے کہ دنیا میں کہاں سیاہ فاموں کے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوتا ہے جو تم کرتے ہو؟ دنیا میں کہاں کئی سو افراد کو، عورتوں، مردوں اور بچوں کو ایک عمارت میں آگ لگا کر جلا کر مار ڈالتے ہیں؟ جہاں یہ ہو وہاں اعتراض کرو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ امریکا میں یہ کام ہوا ہے ۔ دوسری جگہ ہمیں ایسا کوئی کام نظر نہیں آیا۔ صیہونی بھی دنیا کے وحشی ترین انسان ہیں اور امریکیوں کی حمایت سے یہ کام کرتے ہیں۔
ثقافتی شعبے میں ملک کی پالیسی قومی ثقافت کی حفاظت اور اس سے مکمل اور شدید وابستگی پر استوار ہونی چاہئے۔ البتہ قومی ثقافت کا اہم ترین رکن اسلام ہے۔ ہم ایرانی عوام اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہماری ثقافت، زبان، آداب و رسوم، لباس سب کچھ ایک ہزار تین سو پچاس سال پہلے ہی اسلام سے آمیختہ ہو چکا ہے۔ شاید دنیا کی کوئی اور قوم اسلام سے اس طرح آمیختہ نہیں ہوئی ہے جس طرح ہم ہوئے ہیں۔ اسلام اور اسلامی آداب و ثقافت ہماری قومی ثقافت کا جز ہے۔ یہاںقومی اسلامی کے مقابلے پر نہیں بلکہ عین اسلامی ہے۔
قومی ثقافت یعنی اپنی تہذیب۔ اپنی ثقافت کی حفاظت ہونی چاہئے۔ البتہ اپنی ثقافت دیگر ثقافتوں سے بھی کچھ چیزیں اخذ کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اطلبو العلم و لو بالصین یہ بھی ثقافت ہے۔ یہ کہ دنیا میں ہر طرف جاکے اچھی چیزیں لائی جائیں یہ بھی جزو ثقافت ہے۔ اس کی بھی حفاظت ہونی چاہئے۔ لیکن جو ہمارے جسم کے لئے ضروری ہے اس کو تلاش کریں، جسم کو دیں نہ کہ ہم وہاں جاکے گر جائیں اور دوسرے آکے جو مصلحت سمجھیں ہمارے جسم میں انجیکٹ کریں۔ ایک مرے ہوئے اور بے ہوش انسان کی طرح، یہ اقتصاد، یہ ثقافت، یہ خود مختاری کی سیاست جو اسلامی جمہوری نظام کی سیاست کی بنیاد ہے، ہمارا اصلی نعرہ ہے۔ مکمل خودمختاری ہرلحاظ سے۔ یعنی کسی کی زور زبردستی قبول نہ کرنا۔ عالمی مسائل کو اپنے معیاروں کے مطابق حل کرنا اور اس راہ پر چلنا۔
مسئلہ فلسطین کو ہم اپنے معیاروں کے مطابق حل کریں گے اور اسی بنیاد پر فیصلے اور اقدام کریں گے اور دنیا کی کسی بھی طاقت کے تابع نہیں ہوں گے۔ بلقان کے مسئلے میں بھی اسی طرح عمل کریں گے۔ مسئلہ افغانستان میں بھی، آٹھ سالہ جنگ کے دوران، تمام پریشانیوں اور تنگ دستیوں کے باوجود ہم اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اپنے اسلامی نظریئے کی اساس پر اس مسئلے میں عمل کیا۔ اگر یہ سیاست مدنظر ہو اور وہ انتظامی روش ہو تو امور مملکت اچھی طرج انجام پائیں گے۔ مگر پہلی شرط بے مثال قوم کا وجود ہے جس پر ملک کے حکام اعتماد کر سکتے ہیں۔ یہ قوم بہت عظیم اور بہت اچھی ہے۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے اس قوم کو خوب پہنچانا تھا۔ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس نے آپ کی طرح اس قوم کی خصوصیات کو پہچانا ہو۔ جس طرح قرآن میں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرمایا ہے کہ یومن باللہ و یومن بالمومنین امام اس قوم پر ایمان رکھتے تھے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ حضرت ولی عصر اروحنا فداہ کی عنایات اس حکومت، ہمارے صدر محترم، زحمت کش حکام، عظیم الشان قوم اور ہمارے بزرگوں کے شامل رہیں گی۔ بفضل پروردگار یہ قوم اس مقام تک پہنچے جو اس کے شایان شان ہے اور جس کا اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے۔
و السلام علیکم و رحمت اللہ برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 6 مرداد سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 28 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو حمزہ 21 چھاونی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ کے موقعے پر اپنے خطاب میں ایران کی مسلح فورسز کے اہم کردار اور ممتاز پوزیشن کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آپ اس قوم کی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں کہ جو خودمختاری کے لئے اپنی لیاقت ثابت کر چکی ہے۔ آپ اس ملک کی سرحدوں اور عظمت کا دفاع کر رہے ہیں کہ تاریخ میں جب بھی فاسد طاقت برسراقتدار نہیں رہی اور اس کو موقع ملا ہے تو اس نے دنیا میں ایک عظیم انسانی ذمہ داری پوری کی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چھبیس تیر تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق سولہ جولائی انیس سو ترانوے عیسوی کو پولیس کیڈٹ یونیورسٹی میں جلسہ تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب میں اسلامی جمہوری نظام میں پولیس فورس کے کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے پولیس فورس کو امین قرار دیا اور فرائض کی درست انجام دہی کی ضرورت پر تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 تیر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 14 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو وزارت تعلیم و تربیت، معذور افراد کی نگہداشت کرنے والے ادارے اور سوشل سیکورٹی کے محکمے کے کارکنوں سے خطاب میں اسلامی انقلاب سے رونما ہونے والے تغیرات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 23 تیر سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 14 جولائی سنہ 1993 عیسوی کو وزارت تعلیم و تربیت، معذور افراد کی نگہداشت کرنے والے ادارے اور سوشل سیکورٹی کے محکمے کے کارکنوں سے خطاب میں اسلامی انقلاب سے رونما ہونے والے تغیرات کا ذکر کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے انیس خرداد تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق آٹھ جون انیس سو ترانوے عیسوی کو عید غدیر کے موقع پر ملک کے سول اور دفاعی شعبوں کے اعلی حکام سے ملاقات میں عید غدیر کی اہمیت کو بیان کیا اور اس عید سے ملنے والے درس کا ادراک اور اس پر عمل کرنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھارہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق آٹھ مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو شمالی ایران کے نوشہر نامی علاقے میں عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں ملک اور اسلامی انقلاب کے لئے اس خطے کے عوام کی خدمات اور ایثار کی تعریف کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے حالات حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بوسنیا ہرزے گووینا کا موضوع اٹھایا اور اس مسئلے میں بوسنیائی مسلمانوں کی مظلومیت اور بڑی طاقتوں کی فریبی چالوں کا ذکر کیا۔ آپ نے اس تعلق سے امریکا سمیت بڑی طاقتوں کی پالسیوں کی مذمت کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کا بھی ذکر کیا اور فلسطینیوں کی حمایت پر تاکید فرمائی۔ آپ نے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اٹھارہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق سات مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو نوشہر کے دورے کے دوران بحریہ کے مرکز میں فوجیوں سے خطاب کیا۔ آپ نے ملک و قوم کی توقعات بیان کیں اور عقیدہ و عمل کے سلسلے میں نہایت اہم نصیحتیں فرمائیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے پندرہ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق چار مئی انیس سو ترانوے عیسوی کو یوم محنت کشاں اور یوم استاد کی مناسبت سے اپنے خطاب میں معاشرے میں دونوں ہی طبقات کی اہمیت اور موثر کردار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اقتصادی خود مختاری کے حصول میں محنت کش طبقے اور ثقافتی خود مختاری کے سلسلے میں اساتذہ کی ذمہ داریوں کو بہت سنگین قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ اردیبہشت تیرہ سو بہتر ہجری شمسی مطابق ستائیس اپریل انیس سو ترانوے عیسوی کو حج کمیٹی کے عہدہ داروں اور کارکنوں سے ملاقات میں فلسفہ حج پر روشنی ڈالی اور اتحاد بین المسلمین نیز دیگر امور کے تعلق سے حج کی اہمیت اور افادیت کو بیان کیا۔ آپ نے حالات حاضرہ پر تصبرہ کرتے ہوئے فلسطین کے سلسلے میں جاری مغربی ممالک کی سازشوں اور کچھ عرب حکومتوں کی مغرب سے ساز باز پر تنقید کی۔ آپ نے امریکا میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کی جانب اشارہ کیا اور بوسنیا ہرزےگوویان کے سلسلے میں مغربی ممالک کے عیارانہ روئے کا پردہ فاش کیا۔
تیئیس مارچ انیس سو ترانوے کو عیدالفطر پر ملک کے حکام اوراعلی عہدیداروں سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے الہی تعلیمات پر حکام کی خاص توجہ کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے اس موقع پر عالم اسلام کے مسائل کا ذکر کیا اور مشکلات سے نمٹنے کے لئے اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر تاکید فرمائی۔
کا خطاب ۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 23 فروری 1993 پہلی رمضان المبارک کو اپنے خطاب میں خود سازی کے ذیل میں بڑے اہم نکات پیش کئے۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں اخلاص عمل کی اہمیت بیان کی اور رمضان المبارک کے مہینے سے بھرپور استفادہ کرنے کی سفارش کی۔
امام حسین علیہ السلام کے یوم ولادت پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پاسداران انقلاب اور پولیس کے اہلکاروں سے خطاب کیا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھبیس مرداد تیرہ سو اکہتر ہجری شمسی مطابق سترہ اگست انیس سو بانوے عیسوی کو عراق کی بعثی حکومت کی قید سے آزاد ہونے والے ایرانی جنگی قیدیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے قیدیوں کی رہائی پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور ان کی جیل کی صعوبتوں اور سختیوں کو اہم ترین تجربات سے تعبیر کیا۔ آپ نے آزاد شدہ جنگی قیدیوں کو اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کی بہترین اور فرض شناس افرادی قوت قرار دیا اور ان سے ہمیشہ میدان میں موجود رہنے کی سفارش کی۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اکیس مرداد تیرہ سو اکتہر ہجری شمسی مطابق بارہ اگست انیس سو بانوے عیسوی کو وزیر تعلیم اور تعلیم و تربیت کے شعبے کے مختلف عہدہ داروں اور تعلیمی مراکز کے ذمہ دار افراد کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تعلیم و تربیت اور ثقافتی شعبے کی اہمیت اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ثقافتی یلغار اور ثقافتی لین دینے کے فرق کو واضح کیا اور ثقافتی یلغار کو سامراجی طاقتوں کا ایک اہم حربہ قرار دیا۔ آپ نے اس سلسلے میں اہم احتیاطی تدابیر کی نشاندہی بھی فرمائی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید الفطر کے موقع پر مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہما السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں زندگی کے مادی و معنوی پہلوؤں کا جائزہ لیا اور اسلام میں ان دونوں پہلوؤں پر بھرپور توجہ اور مغربی معاشرے میں معنوی پہلو کو نظر انداز کئے جانے کے فرق کے اثرات و نتائج پر روشنی ڈالی۔
حزب اللہ لبنان کے نو منتخب سیکریٹری جنرل حجت الاسلام سید حسن نصر اللہ سمیت تنظیم کی مرکزی کمیٹی کے ارکان پر مشتمل وفد نے 13-12-1370 ہجری شمسی مطابق 4-3-1992 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے تہران میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حزب اللہ کے جام شہادت نوش کرنے والے سربراہ سید عباس موسوی کو خراج تحسین پیش کیا اور تنظیم کے نئے سربراہ کو مخاطب کرکے انتہائی اہم نکات بیان کئے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 2-12-1370 ہجری شمسی مطابق 21-2-1992عیسوی کو مقدس شہر قم کے اپنے دورے میں ممتاز مراجع کرام سے ملاقاتیں کیں۔ آپ آیت اللہ العظمی گلپائگانی اور آیت اللہ العظمی اراکی سے بھی ملے اور قم کے دینی تعلیمی مرکز کے تعلق سے بعض نکات بیان کی۔ دونوں ممتاز علمائے کرام سے ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی کی گفتگو بالترتیب پیش خدمت ہے؛
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے دو بہمن سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق بائیس جنوری سنہ انیس سو بانوے عیسوی کو انتظامی فورس (پولیس) کے سیاسی اور عقیدتی ادارے کے عہدیداروں اور کمانڈروں سے ملاقات میں اس محکمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور محکمے کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایک شہری کو دل سے انتظامی فورس پر اطمینان اور اعتماد حاصل ہونا چاہئے۔ یعنی جب دکان بند کرتے وقت اس کو تشویش ہو تو کہے کہ انتظامی فورس کا اہلکار ہے۔ سفر پر گھر چھوڑ کے جائے تو کہے کہ انتظامی فورس ہے۔ اگر گاڑی پر بیٹھے تاکہ کسی جگہ سے روانہ ہو اور کسی دوسری جگہ بیابانوں میں پہنچے اور سلامتی سے متعلق کوئی مشکل پیش آئے، اگر کہیں کہ مشکل ہے، مجرمین سڑک پر آگئے ہیں اگر کہیں کہ کچھ لوگ، لوگوں کی عزت و آبرو کے لئے خطرہ پیدا کر رہے ہیں، اگرکہیں کچھ لوگ لوگوں کی عزت و ناموس پر حملہ کرتے ہیں تو اس کے دل میں امید کی شمع روشن ہو کہ انتظامی فورس ہے۔ ایسا ہونا چاہئے کہ لوگ انتظامی فورس کو امن و امان برقرار کرنے والے اور سلامتی کے مرکز کی حیثیت سے دیکھیں۔ آپ کو یہ حالت وجود میں لانی چاہئے۔