قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے آٹھ تیر سن تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق انتیس جون انیس سو اکانوے عیسوی کو ہفتم تیر کے اہم ترین اور انتہائی اندوہناک سانحے کی برسی کی مناسبت سے اس دن کے شہیدوں کے اہل خانہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں اس واقعے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اسے ایسا واقعہ قرار دیا جو کسی بھی ملک، قوم اور نظام کے لئے کاری ضرب کا درجہ رکھتا ہے لیکن ملت ایران کے اندر ایسا استحکام پیدا ہو چکا تھا کہ اس واقعے کے بعد بھی یہ قوم اپنے راستے پر گامزن رہی۔ قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی سازشوں کا ذکر کیا اور ان سازشوں کی جانب سے ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ہدایت کی۔
عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ محمد یزدی، اعلی عہدہ داروں اور جج صاحبان نے پانچ تیر تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق چھبیس جون انیس سو اکانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کی کارکردگی کی تعریف کی اور مزید بہتر کارکردگی کے لئے اہم سفارشات کیں۔ آپ نے عدلیہ کو کسی بھی ملک کی صورت حال کو پرکھنے کا معیار قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے مطابق عدلیہ کی کارکردگی اتنی درست ہونی چاہئے کہ معاشرے کے ایک ایک فرد کو اس پر مکمل اعتماد ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں ملکی سطح پر تعمیر نو کے کاموں میں مصروف تعمیری جہاد کے ادارے کے عہدہ داروں اور اہلکاروں، حج کے دوران سامراجی طاقتوں کے خلاف اظہار نفرت کرنے پر سعودی عرب کے سیکورٹی اہلکاروں کے وحشیانہ حملے میں شہید ہو جانے والے ایرانی حاجیوں کے اہل خاندان اور سن انیس سو نوے میں ایران میں آنے والے زلزلے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ نے اٹھائیس خرداد تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق اٹھارہ جون سن انیس سو اکانوے عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ حاضرین سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے تعمیر نو کے کاموں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے تاکید فرمائی کہ زلزلے، عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ اور ملک کے سابق سلطنتی نظاموں کے نتیجے میں ملک بھر میں پھیل جانے والی تباہی اور پسماندگی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔
بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دوسری برسی پر ملک ہی نہیں بیرون ملک سے بھی عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر تہران کے بشہت زہرا قبرستان میں امام خمینی کے روضہ اقدس پر دکھائی دیا۔ اس اجتماع میں غیر ملکی مہمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ غیر ملکی مہمانوں نے برسی کے پروگراموں میں شرکت کرنے کے ساتھ ہی قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے بھی دو گروہوں کی شکل میں ملاقات کی۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے اپنے مختصر خطاب میں عالم اسلام کے لئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بے مثال خدمات اور آپ کے مقام و منزلت کا ذکر کیا۔
بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دوسری برسی پر ملک ہی نہیں بیرون ملک سے بھی عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر تہران کے بشہت زہرا قبرستان میں امام خمینی کے روضہ اقدس پر دکھائی دیا۔ اس اجتماع میں غیر ملکی مہمانوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ غیر ملکی مہمانوں نے برسی کے پروگراموں میں شرکت کرنے کے ساتھ ہی قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے بھی دو گروہوں کی شکل میں ملاقات کی۔ اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے اپنے مختصر خطاب میں عالم اسلام کے لئے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بے مثال خدمات اور آپ کے مقام و منزلت کا ذکر کیا۔ قائد انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ سب بہنوں اور بھائیوں کو جو دنیا کے مختلف علاقوں سے خود اپنے گھر تشریف لائے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ، آپ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ حضرت امام امت کی جدائی کا غم و اندوہ صرف ہم ایرانیوں تک محدود نہیں ہے۔ تمام مسلمین عالم بلکہ تمام مستضعفین اور کمزور اقوام اس میں شریک ہیں۔
اس موقع پر جو بات عرض کرنا میں مناسب سمجھتا ہوں یہ ہے کہ دنیا کے منظر نامے پر ایک نظر ڈالنے سے احساس ہوتا ہے کہ عظیم اسلامی تحریک روز بروز قوی تر اور شدید تر ہو رہی ہے اور زمانہ، اسلامی اور معنوی اقدار کے حق میں بدل رہا ہے۔ مسلمین عالم بیدار ہو گئے ہیں اور بیدار ہو رہے ہیں۔ مستکبرین و سامراجی طاقتیں چاہیں یہ نہ چاہیں۔ امریکا کو اچھا لگے یا اچھا نہ لگے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہو رہی ہے۔ اس مرحلے کے خطرات پر نظر رکھنی چاہئے اور ہوشیار رہنا چاہئے۔
استبداد، استعمار، دشمن اسلام اور تسلط پسند حکومتوں نے مسلمانوں کو صدیوں کمزور بنائے رکھا۔ آج جب کہ مسلمانوں کی بیداری اور عزت کا دور ہے، یقینا دشمن راستے میں گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کی طرف سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے ایک خطرے کی طرف میں اشارہ کروں گا اور وہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہے۔ اسلامی مذاہب اور فرقوں میں اختلاف اور مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ۔
آپ دیکھیں کہ اسلامی دنیا میں کہاں خیانت کار عناصر، تفرقہ اور اختلاف ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں؟ کون سی ایسی جگہ ہے جہاں سامراجی منصوبہ سازی کرنے والے ذلیل عناصر کو ان کے اہداف کے لئے کام کرنے والے سادہ لوح اور کمزور فکر افراد نہ مل جاتے ہوں؟ اسلامی مذاہب اور مسلم فرقوں کے درمیان اتحاد و وحدت ہمارا سب سے بڑا ہدف ہے۔ بعض لوگوں کا مشن اسلام کی عزت آفریں تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا ہے۔ ان عناصر کو پہچانیں اور پوری ہوشیاری کے ساتھ ان سے نمٹیں۔ اگر مسلمین ہوشیار ہوں اور اسلام کی عزت میں ہی اپنی عزت اور اسلام کے استحکام میں اپنی قوت تلاش کریں تو یقینا یہ تحریک اپنے ہدف میں کامیاب رہے گی۔
میں اپ تمام بہنوں اور بھائیوں کو جو مختلف ملکوں، پاکستان، کشمیر، آذربائیجان، سوویت یونین، فلسطین، لبنان، شام، افریقی ملکوں اور دنیا کے دوسرے علاقوں سے تشریف لائے ہیں، ایک بار پھر خوش آمدید کہتا ہوں اور اس بات پر زور دیتا ہوں کہ یہ (شہر تہران) آپ کا گھر ہے۔ تہران تمام مسلمان بھائیوں کا وطن ہے اور یہاں کے لوگ آپ کے بھائی ہیں۔ امید ہے کہ یہاں آپ کا وقت اچھا گزرے گا۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
ایران کے ادارہ حج و زیارات کے عہدہ داروں منجملہ حجت الاسلام والمسلمین رے شہری اور دیگر کارکنوں اسی طرح علماء اور ذمہ دار افراد نے پہلی خرداد سن تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق 22 مئی 1991 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے عازمین حج کے لئے قبولی اعمال و عبادات کی دعا کی اور حج کے دوران بہترین طرز سلوک اور دوسرے ملکوں کے حجاج کرام سے محبت آمیز برتاؤ کی سفارش کی۔ آپ نے سفر حج کے دوران عازمین حج کے وقار کا خیال رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پانچ مئي سن 1991 کو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں ولی فقیہ کے نمائندے اور اس فورس کے کمانڈروں سے ملاقات میں بہت ہی اہم امور پر گفتگو کی جن میں اس فورس میں ٹریننگ، دفاعی تیاری، کمانڈروں کی مستقل موجودگي اور قواعد و ضوابط پر مکمل عمل درآمد جیسی باتیں شامل ہیں۔ تقریر کا متن حسب ذیل ہے۔
یوم استاد پرملک کے ممتاز اساتذہ اور وزیر تعلیم و تربیت نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام میں استاد کے بلند مقام کا تذکرہ کیا اور مغربی تہذیب میں استاد کے تعلق سے جاری روئے پر نکتہ چینی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے استاد کے سلسلے میں استثنائي حکم دیا ہے کہ خود کو استاد کے سامنے چھوٹا اور حقیر خیال کریں۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عزیز بہنو اور بھائیو! نیز ملک کے مثالی معلمین و معلمات' خوش آمدید۔ ہم نے معلم کے اعلی مقام و مرتبے کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ملک کے تمام معلمین سے اظہار خلوص کے لئے، اس ملاقات اور آپ بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اس بے تکلفانہ جلسے کا اہتمام کیا ہے۔ آج ملک کی اس ثقافتی فضا میں عوام کے ذہنوں میں معلمین کے احترام و تکریم میں اضافے کا سب کو احساس ہونا چاہئے کیونکہ معلمین کی حقیقی تکریم و احترام کے معاشرے کی ثقافت اور تعلیم و تربیت پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
البتہ ممکن ہے کہ دنیا میں مختلف مناسبتوں پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہوں۔ وہ بھی اپنی جگہ پر ضروری ہیں لیکن وہ تکریم نہیں ہے۔ تکریم یہ ہے کہ معاشرے کا ماحول ایسا ہوکہ ہر ایک یہ احساس کرے کہ اپنے معلم اور تمام معلمین کا دل اور روح کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہے اور ان کی عظمت کا قائل ہے۔ یہ تعلیم و تربیت کی سب سے بڑی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ وہی چیز ہے جو اسلام میں ہے۔ اسلام میں معلم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ کون ہے کہ معاشرے میں اس کا کوئی معلم نہ ہو؟ اسلام کا یہ حکم اس لئے ہے کہ تعلیم و تربیت کا بازار گرم ہو، اس میں کمی نہ ہو۔ حق اور انصاف یہ ہے کہ پورے ملک میں معلمین کو اس کی ضرورت ہے۔
اسلامی ثقافت و تعلیمات میں آپ نے دیکھا ہے کہ معلم کا کتنا خیال رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ شاگرد اپنے معلم سے جھک کے ملتا ہے اور خود کو اس سے چھوٹا سمجھتا ہے۔ یہ پسندیدہ بات ہے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی بھی انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں خود کو حقیر اور چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن معلم کے سلسلے میں استثناء ہے۔ والدین کا احترام و تکریم بھی استثنائی ہے۔ انسان کو والدین سے جھک کے ملنا چاہئے، ان کے سامنے خود کو چھوٹا بناکے پیش کرنا چاہئے۔ واخفض لھما جناح الذل (1) خود کو ماں باپ کے سامنے حقیر اور چھوٹا کرو۔ جبکہ کسی بھی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی کے سامنے بھی خود کو حقیر اور چھوٹا بناکے پیش کرے لیکن ماں باپ کا معاملہ استثنائی ہے۔ معلم بھی اسی طرح ہے۔
روایتوں میں ہے کہ جب معلم کے ساتھ چلو تو اگر تاریک رات ہو تو معلم کے آگے چلو تاکہ اگر راستے میں گڈھا ہو تو تم گر جاؤ معلم محفوظ رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معلم کی تکریم کیا ہے۔ اگر معاشرے میں یہ جذبہ عام ہو جائے اور ہر ایک یہ احساس کرے کہ معلم کے لئے اس کے اندر خضوع پایا جاتا ہے تو معلمین کے لئے فضا سازگار ہو جائے گی۔ اگر معاشرے میں معلمین کے دل خوش ہوں گے تو تعلیم عام ہوگی۔ یہ تکریم ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ بعض دیگر مادی و معنوی امور بھی ضروری ہیں لیکن اصل قضیہ یہی ہے جو انجام پانا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ مادی سوغات کی دنیا میں معاملہ اس کے برعکس ہے اور احترام و تکریم کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ یعنی اس ثقافت میں جو ہم نے یورپ سے لی ہے، معلم کا احترام نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ معلمین کی بے احترامی کریں۔ لیکن مغربی تہذیب میں معلم کے احترام کی تعلیم مد نظر نہیں رکھی گئی ہے۔ میں نے کسی تقریر میں عرض کیا ہے کہ برسوں بلکہ صدیوں اسلامی ماحول میں شاگرد معلمین کا احترام کرتے رہے ہیں، لیکن چند عشروں سے جب سے ملک میں یورپی تہذیب آئی ہے اور علمی ماحول میں دین کو علم سے الگ کر دیا گیا، کتنے اساتذہ آدھے نمبر کے لئے، یا کلاس میں کسی نامناسب طرز عمل کے سبب شاگردوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔ یہ یورپی ثقافت ہے۔
البتہ آج خوش قسمتی سے اسی اسلامی اصل کی طرف واپسی ہو رہی ہے۔ آپ معلمین کو بھی اپنی قدر معلوم ہونی چاہئے۔ یعنی اپنے معلم ہونے کو اہمیت دیں۔ معلم ہونے پر فخر کریں ۔ معلم ہونا فخر کی بات ہے۔ یہ سب سے بالاتر ہے۔ یہ بات کہ کوئی معلم ہونے پر فخر کرے، معلم ہونے کی قدر کو سمجھے، تعلیم و تربیت کے لئے کوشش کرے ، اسلامی نظام کی اہم اقدار میں سے ہے۔
امید ہے کہ خداوند عالم نصرت و توفیق عطا کرے کہ ہماے ملک میں تعلیم و تربیت میں روز بروز زیادہ فروغ آئے اور وزارت تعلیم و تربیت کی کوششوں سے ملک میں کہیں بھی تعلیم و تربیت کا خلاء نہ باقی نہ رہے۔ حالیہ برسوں میں، اس میدان میں ہم نے زیادہ کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اب بھی کافی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہماری مملکت کے اچھے نوجوانوں کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرگرم ہوں اور اپنے سے پہلے کی نسل کے ساتھ مل کے، خود ان کو تعلیم سے آراستہ کرکے ، ملک سے ناخواندگی اور جہالت کو جڑ سے ختم کر دیں۔ طویل برسوں کے دوران یورپی تربیت کے نتیجے میں ہم نے کافی نقصان اٹھایا ہے جس کی تلافی طویل المیعاد مجاہدت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
خدا وند عالم انشاء اللہ آپ کو توفیق عطا کرے، آپ کی نصرت کرے کہ یہ عظیم فرائض انجام دے سکیں۔ میں تعلیم و تربیت کے وزیرجناب نجفی اور اس وزارت کے محترم حکام پر بھی جو واقعی محنت اور کوشش کر رہے ہیں، درود بھیجتا ہوں اور ان زحمتوں پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک بار پھر آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کا جو ملک کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہیں ، خیر مقدم کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1- اسراء 24
ملک کے ممتاز اساتذہ اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے 11 اردیبہشت سن 1370 ہجری شمسی مطابق پہلی مئی 1991 عیسوی کو قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے محنت کش طبقے اور اساتذہ کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ پر روشنی ڈالی اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اندر ان دونوں طبقات کی اہمیت کو بیان کیا۔ آپ نے دونوں ہی طبقات کو مخلصانہ جذبے کے تحت عمل کرنے کی ہدایت کی تاکہ ان کا عمل عبادت کا درجہ بھی حاصل کر لے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقائي حالات اور عالمی سامراج کی پالیسیوں اور ریشہ دوانیوں پر بھی تبصرہ کیا۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی ثقافت و ہدایت کے وزیر سید محمد خاتمی اور بیرونی ممالک میں ایران کے ثقافتی نمائندوں (ایرانی کلچر ہاؤس کے سربراہوں ) سے ملاقات میں اس شعبے کی اہم ترین ذمہ داریوں اور کام کرنے کے لئے قوموں کی سطح پر فراہم سازگار ماحول پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے ایران کے خلاف سامراجی طاقتوں کی تشہیراتی مہم کا بھی ذکر کیا اور ایران کے نمائندوں کو ایران کی اعلان شدہ پالیسیوں پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرنے کی ہدایت دی۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں آپ تمام حضرات کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ سلامت رہیں۔ جیسا کہ جناب خاتمی صاحب نے اشارہ کیا ہے، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ثقافتی امور میں سرگرم افراد کی حیثیت سے آپ غیر مانوس اور ناسازگار حالات سے روبرو ہیں اور یقینا عالمی سامراج کی نمایاں اور خفیہ پالیسیاں آپ کے سامنے ہیں اور کہا جا سکتا ہے کہ بہت کم جگہیں ایسی ہوں گی یا کوئی جگہ ایسی نہیں ہوگی جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کی موثر کوششوں پر عالمی سامراج اور کفر کا کیمپ حساس نہ ہو اور اپنی توانائی بھر ان کے سد باب کے لئے کوشش نہ کرے۔ آپ جو ان حالات میں سرگرم ہیں، درحقیقت آپ کا کام بذات خود قابل تعریف و ستائش ہے۔
ثقافتی کام اور اس کی اہمیت کے بارے میں جو بھی کہا جائے وہ پہلے کہی گئی باتوں کی تکرار ہی ہوگی۔ یہ وہی ایک نکتہ ہے جو پیغام انقلاب اور اس کی ترویج سے عبارت ہے۔ یہ کام مسلمہ اسلامی اصولوں میں سے ہے۔ تبلیغ یعنی پہنچانا۔ الذین یبلغون رسالات اللہ (40) یعنی پردوں اور رکاوٹوں کو ہٹانا اور حق بات اس مرکز تک پہنچانا جہاں اس کو پہنچنا چاہئے۔ جو بھی کہا جائے اسی نکتے کے بارے میں ہوگا اور اس سلسلے میں ساری باتیں کہی اور لکھی جا چکی ہیں۔
میں جو عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ آپ اس صورتحال کا جو متوقع ہے، اس صورتحال سے موازنہ کریں جس میں اسلامی جمہوریہ ایران آج ہے۔ اس موازنے کا نتیجہ ہمیں نئے طریقہ کار، نہ انجام پانے والے کاموں یا جو کام ہوئے ہیں ان کی تصحیح کی طرف رہنمائی کرے گا۔ یہاں از سر نو جائزہ، اپنے آپ کو دیکھنا اور اپنے نفس کا محاسبہ ضروری ہے۔
میرے خیال میں جو متوقع ہے، اس کا صحیح تجزیہ بہت اہم ہے۔ اس ماحول میں جس میں تمام عوامل ایمانی اور دینی بالخصوص اسلامی رجحان کے خلاف ہوں، اقوام ان مخالف عوامل کے باوجود روحانی اور معنوی باتیں سننے کی مشتاق ہیں۔ اس عالم میں ایک قوی، صادقانہ اور مستحکم آواز بلند ہوئی اوربولنے والی کی صداقت، اخلاص اور قول سے عمل کی ہم آہنگی کے باعث کہ جس نے ثابت کر دیا کہ یہ صرف بات نہیں ہے اور دنیا کے بد نما چہروں یعنی سامراجیوں، رجعت پسندوں، زراندوزوں اور ایسے ہی دیگر گوناگوں عوامل کی جانب سے اس کی دشمنی کے سبب، اس آواز نے اقوام بالخصوص مسلم قوموں کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی اور حقیقی نیز بہت گہرے اثرات مرتب کئے۔ چنانچہ اوائل انقلاب سے اب تک ہم اور آپ جیسے انقلابی عناصر نے جہاں بھی قدم رکھا ہے، دیکھا کہ ان سے پہلے وہ آواز اور اس آواز کو بلند کرنے والا وہاں پہنچ چکا ہے۔
اوائل انقلاب میں، میں خود ہندوستان گیا اور اس ملک کے تقریبا تمام سیاسی و ثقافتی مراکز میں گیا۔ جہاں بھی میں نے قدم رکھا دیکھا کہ انقلاب اور امام پہلے سے وہاں موجود ہیں۔ ہم گئے تو لوگوں نے ہمارا زبردست استقبال کیا کیونکہ ہم اس مرکز کے نمائندے تھے۔ ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں ہم جاتے اور وہاں کے لوگ بے خبر ہوتے اور ہم ان کو بتاتے کہ یہ واقعہ ہوا ہے۔
اب بھی ایسا ہی ہے۔ جن ملکوں میں ہمارے نمائندہ دفاتر نہیں ہیں، آپ ان ملکوں میں جائیں، اگر ممکن ہو تو عوامی حلقوں میں جائیں۔ ان گروہوں کی بات میں نہیں کرتا جو ان مسائل سے دور ہیں۔ اگر آپ یونیورسٹی طلبا، روشنفکر حضرات، مومن اور مخلص لوگوں کے درمیان جائیں تو دیکھیں گے کہ پیغام انقلاب آپ سے پہلے وہاں پہنچ چکا ہے۔ میں نے مختلف جگہوں کے جو دورے کئے ہیں، بلا استثنا تمام ملکوں میں چاہے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی حتی کمیونسٹ ملکوں میں یہی عالم دیکھا ہے۔
بنابریں ملاحظہ فرمائیں کہ اس چشمے کا نفوذ اور اثر اتنا زیادہ ہے کہ بغیر اس کے کہ کوئی مبلغ کہیں جائے، لوگوں کو بھیجا جائے، جیسے عیسائی، کمیونسٹ جماعتیں اور انجمنیں، اپنے عوامل اور مبلغین کی فوج بھیجتی ہیں، حتی بغیر اس کے کوئی رسالہ کوئی تحریر روانہ کی جائے یہ پیغام باد بہاری کی طرح، نسیم سحر کی مانند، بوئے گل کی شان سے سرحدوں کو عبورکرکے ہر جگہ پہنچ گیا۔
جب اوائل میں یہ چیزیں دیکھتا تھا تو درحقیقت میرے ذہن میں یہ تصور مجسم ہو جاتا تھا کہ جیسے کسی باغ میں کسی پر برکت پھول کی خوشبو پھیل گئی ہے۔ پھول کی خوشبو یہ نہیں کہتی کہ باغ بند ہے اور مجھے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے یا یہاں اس باغ کے خاردار تار ہیں اور مجھے حق نہیں ہے کہ اس کو پار کروں بلکہ فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ واقعی ہمیشہ میرے ذہن میں یہی تصویر مجسم ہوتی تھی۔ یہ حقیقت کا نقش تھا۔
آپ دنیا میں کس نظریئے ، مکتب، فکر، سلوگن اور دعوت سے واقف ہیں جو اتنی رسا اور سازگار فضا رکھتی ہو جتنی ہماری فکر کی تھی؟ ہمارے انقلاب، ہمارے امام ، ان کی فریاد، ان کے عمل اور ان کی قوم کی تاثیر تھی؟ اب ایک نظام کی حیثیت سے ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ ایسی سازگار فضا میں ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا؟ ضروری تھا کہ بلا تاخیر کار آمد لوگ جاتے اور جو کچھ ہوا تھا اس میں نظم اورگہرائی و گیرائی پیدا کرتے۔ ہمیں اس کی ضرورت تھی۔ یعنی ہمیں وہاں پیغام لے جانے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایسا کام کرنے کی ضرورت تھی کہ جو کچھ خود سے وہاں پہنچا تھا وہ عمیق تر ہو۔ اس کے لئے کام ضروری تھا۔ گہرائی ایسے ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے کام ، ظرافت اور دقت نظر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس میدان میں اسلامی جمہوریہ ایران کے تبلیغی اداروں نے بارہ سال کام کیا۔ آپ خود ان مسائل کے ماہر ہیں۔ ہم جیسے لوگ حقائق سے واقفیت کے لئے آپ جیسے لوگوں سے رجوع کرتے ہیں تاکہ آپ ہمیں بتائیں کہ حقیقت کیا ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا ان بارہ برسوں میں ہم اس فیض بخش، ہمہ گیر، پرکشش اور ولولہ انگیز میدان کے ہموار ہونے کے باوجود، اپنے متاع گراں کے لئے کوئی جگہ بنا سکے؟ اور اس میں گہرائی و گیرائی لا سکے یا نہیں؟ حقائق کا تجزیہ آپ کے ذمے ہے۔
جہاں تک میں معاملات اور امور سے واقفیت رکھتا ہوں، میرا تجزیہ یہ ہے کہ ہماری کارکردگی سازگار زمین کے مطابق نہیں تھی۔ یہ نہیں ہے کہ اس میں کسی کا قصور ہو۔ بحث یہ نہیں ہے۔ جب کسی کمپنی کے اختیار میں کوئی سرمایہ دیا جاتا ہے مثلا دس ملین تومان اس کو دیئے جاتے ہیں کہ تجارت اور کاروبار کرے۔ اگر اچانک اس کو دس ارب تومان دے دئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ کام نہیں کر سکتی۔ اس میں کسی کا قصور نہیں ہے۔ لیکن جو ہے اور جو ہونا چاہئے، ان کا موازنہ ضروری ہے جس میں ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کمیاں کہاں ہیں۔
ضروری ہے کہ کمیوں کو تلاش کیا جائے اور بغیر کسی چشم پوشی کے ان کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ ہمارے کام میں نقص کیا تھا۔ آیا تبلیغ میں متوازی خطوط پر کام کیا گیا اور کسی ایک مرکز کا فقدان موثر رہا ہے؟ آیا ذمہ داروں کی ناواقفیت موثر رہی ہے؟ آیا اس کے ذمہ دار دو اداروں کا ٹکراؤ موثر واقع ہوا ہے؟ آیا ترجیحی بنیادوں پر کاموں کی شناخت کا نہ ہونا موثر رہا ہے؟ آیا جس کام کو تیسرے درجے کی ترجیح دینا چاہئے تھا اس کو پہلی ترجیح دینا یا جس کو پہلی ترجیح دینا چاہئے تھا اس کو تیسری ترجیح دینا، اور ترجیحی سلسلے کی پابندی نہ کرنا موثر رہا ہے؟ آیا مالی بجٹ اور وسائل کی کمی موثر رہی ہے؟ آیا دشمنوں کا وجود اور ان کے کارآمد اور وسائل سے لیس تشہیراتی ادارے جنہیں عالمی سامراج کی پشت پناہی بھی حاصل ہے ، یہ ادارے موثر رہے ہیں؟ ان سب کا امکان ہے۔
آسان ترین کام یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ سب ایک ساتھ موثر رہے ہیں۔ پیسے کی کمی تھی، افراد کی کمی تھی، مثال کے طور پر اس وقت بیرون ممالک ہمارے جو نمائندہ دفاتر ہیں، یہ اتنے تو نہیں ہیں جتنے کی ضرورت ہے۔ اس سے کئی گنا کی ضرورت ہے۔ اصولا افرادی قوت اور مادی وسائل کی کمی ہے۔ ہمیں ایک حساب کتاب کرنے والے اور ایک دانشور مفکر کی طرح بیٹھ کے ایک چارٹ بنانا چاہئے۔ چارٹ میں ان کمیوں کو لکھیں اور دیکھیں کہ ان میں سے کیا ہمارے اختیار سے باہر ہے اور کیا ہمارے اختیار میں ہے۔ محنت کریں اور مشکلات کو دور کریں۔ اس کام میں غفلت جائز نہیں ہے۔
ہم نے شروع سے کہا ہے کہ انقلاب کا چہرہ، انقلاب کی علامت، انقلاب کا بیرونی منظر، اس کا ثقافتی پہلو ہے۔ ہماری سیاست بھی ثقافت کی پابند ہے۔ ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ اپنی دیانت کو سیاست سے الگ کر دیں۔ ہماری ثقافت ہمارے انقلاب ہمارے مکتب اور ہماری تاریخ کی تیار کردہ ہے۔ اس بڑے دعوے کے ساتھ عوام کو ہم سے توقعات ہیں۔ ان چند برسوں میں بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ہمارے راسخ العقیدہ اور اسلامی جمہوریہ کے وفادار روشن فکر حضرات مختلف عرب اور ایشیائی ملکوں سے آئیں اور مجھ سے ملاقات کریں الا یہ کہ ان میں سے ہر ایک نے آکر ثقافتی تبلیغ کے میدان میں موجود نقائص کی نشاندہی کی ہے۔
ہمیں ان نقائص کو سنجیدگی سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جن لوگوں کو ہم اس کام کے لئے بھیجتے ہیں، ان میں، ان کے انقلابی نظریئے، ثقافتی صلاحیت، عقل اور سب سے بڑھ کر تقوا کو نظر میں رکھیں کہ وہ اپنے فریضے کو محسوس کریں۔ ایسے لوگوں کو بھیجا جائے جو خدا کو حاضر و ناظر جان کر ان وسائل اور سہولتوں سے کام لیں جو انہیں فراہم کرائی جاتی ہیں۔
دنیا کے عوام مشتاق ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی جو مخالفتیں کی گئی ہیں اور استکباری و سامراجی کیمپ نے اسلام کی دشمنی میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف جو زہریلے پروپیگنڈے کئے ہیں (بحث اسلام کی ہے، ایران کا مسئلہ درپیش نہیں ہے، ان کے باوجود) ان کی وجہ سے ممکن تھا کہ لوگوں کے افکار زیادہ متاثر ہو جاتے لیکن اس کے باوجود اب بھی ہم سے اقوام کی وفاداری زیادہ ہے۔
اپنی صدارت کے دور میں، میں چند ملکوں کے دورے پر جانے والا تھا۔ میرا دورہ شروع ہونے سے پہلے عالمی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے لئے ایک حادثہ رونما ہوا جس کو صیہونی، امریکی اور سامراجی تشہیراتی ادارے کافی ہوا دے رہے تھے۔ میں امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) سے رخصت ہونے اور ہدایات و رہنمائی لینے کے لئے، جو ہر سفر سے پہلے عموما امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) دیا کرتے تھے، ان کی خدمت میں گیا۔ میں نے کہا کہ اتفاق سے ہمارے سفر کے موقع پر یہ حادثہ رونما ہو گیا اور ہمارے دشمن اور حکومتیں اس مسئلے میں کافی حساس ہیں۔ امام نے فرمایا ہاں لیکن اقوام آپ کے ساتھ ہیں اسی سفر میں، میں نے اس بات کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جو سو دلیلوں سے بھی اتنی وضاحت کے ساتھ میرے لئے ثابت نہیں ہو سکتی تھی۔
ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ اقوام ہمارے ساتھ ہیں۔ اقوام کے دل یہاں ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہماری طرف سے انہیں جواب ملے۔ اگر انہیں احساس ہو کہ ہم ان کی بات سن رہے ہیں، ہمارا دل ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ہمارے مختلف شعبوں سے انہیں جواب ملے تو ان کی امید بڑھ جائے گی۔
کام کا خیال رکھیں۔ ملک سے باہر اسلامی جمہوریہ کی اعلان شدہ پالیسیوں کی پابندی بہت اہم امور میں سے ہے۔ آپ جہاں بھی رہیں، یہ کبھی نہ ہو کہ آپ کی فکر، عمل اور گفتار میں، اسلامی جمہوریہ کی اختیار کردہ پالیسیوں پر ذاتی اور انفرادی پسند اور صواب دید غالب آ جائے۔ بالفرض کوئی پالیسی غلط ہو تو بھی اس غلطی کو دور کرنے کا راستہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ سے وابستہ کوئی رکن عوام یا خواص کی محفلوں میں اس کی مخالفت کا اعلان کرے۔ یہ عمل اس بات کا مظہر ہوگا کہ اسلامی جمہوریہ غلط پالیسی اختیار کرنے کے ساتھ ہی تنظیمی لحاظ سے بھی دیوالیہ ہو چکی ہے۔ یہ دو عیب ہوئے۔
ہر تنظیم میں چاہے وہ خاندان کی ہی تنطیم کیوں نہ ہو، اتحاد ہونا چاہئے تاکہ اس پر اعتماد کیا جا سکے۔ ہمیں ایک دوسرے سے منسلک رہنا چاہئے۔ جس نظام نے اتنا سنگین فریضہ اپنے کندھوں پر لیا ہے، اس کو اتحاد و یک جہتی کا مظہر ہونا چاہئے۔ عوام میں ممکن ہے کوئی ہو جو سرکاری نظریات کا مخالف ہو۔ لیکن جو نظام کا رکن ہے اس کو وہاں نظام کا سرکاری نظریہ ہی بیان کرنا چاہئے اور عملا سسٹم کی تنظیمی یک جہتی کا ثبوت پیش کرنا چاہئے۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ باہر کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ان چند برسوں میں ملک میں گوناگوں پالیسیاں رہی ہیں۔ جو بھی ملک سے باہر ڈیوٹی پر جاتا رہا، وہ ممکن ہے کہ کسی زمانے میں کسی پالیسی کا مخالف رہا ہو۔ آپ کو یاد ہے کہ سن انسٹھ ( انیس سو اسی عیسوی ) میں حکومت کی اختیار کردہ سرکاری پالیسیوں کے لحاظ سے کیا صورتحال تھی۔ جن برسوں میں انقلابی عناصر بیرونی ممالک کے دورے کرتے تھے انہیں برسوں میں، میں نے خود تجربہ کیا ہے اور نزدیک سے دیکھا ہے۔ باہر والوں کی نظر میں جو چیز اہم ہے یہ نہیں ہے کہ جو شخص وہاں گیا ہے اور نظام کے کسی اعلی عہدیدار سے اس کے روابط اچھے نہیں ہیں، مثال کے طور پر وہاں وہ کہے کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے یا اس کی بات بہت معتبر نہیں ہے یا اس نے جو پالیسی اختیار کی ہے وہ غلط ہے، ہمیں قبول نہیں ہے یا کچھ لوگوں کو قبول نہیں ہے۔ اگر وہ پالیسی غلط بھی ہو تو اس کا علاج یہ نہیں ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ اس زمانےمیں غلط پالیسیوں کا بازار گرم تھا۔ ایک طرف تو نظام کے ظاہر و باطن پر مسلط لبرل عناصر کی غلط پالیسی تھی اور دوسری طرف انقلابی عناصر جاتے تھے اور جانتے تھے کہ کیا روش اختیار کریں کہ تنظیمی لحاظ سے نظام پر حرف نہ آئے ۔ یہ بہت بنیادی اور اساسی نکتہ ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔
البتہ میں نے وہاں سنا کہ خارجہ پالیسی اور تبلیغات کے نظام میں ٹکراؤ ہے۔ اس سے چند سال پہلے صدارت کے زمانے میں بھی یہ مسئلہ پیش آیا تھا اور شاید اب بھی ہے۔ اس تضاد اور ٹکراؤ کو دور کریں۔اس کو باقی نہیں رہنا چاہئے۔ کبھی مسائل کا تعلق کام سے اور سیاست سے ہوتا ہے اور کبھی مسائل کا تعلق ذات سے ہوتا ہے۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ یہ اختلاف باہر دکھائی دے۔ اگر یہ اختلاف باہر نظر آیا تو یقین جانیں کہ اسلامی جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا۔ اس نکتے پر بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
خدا وند عالم انشاء اللہ آپ کو تفیق عطا کرے ، آپ کی نصرت کرے۔ یہ بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ اسی کے ساتھ بہت بافضیلت بھی ہے۔ آپ نے بہت باشرف اور بافضیلت کام کا انتخاب کیا ہے۔ انشاء اللہ توفیقات و رضائے الہی آپ کو حاصل ہو اور جو اسلام، مسلمین اور انقلاب کے فائدے میں ہے وہ کام آپ کے ہاتھوں انجام پائے۔
میں آپ تمام برادران عزیز، محترم وزیر اسلامی ثقافت و ہدایت جناب آقائے خاتمی اور ان تمام ذمہ دار عہدیداروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو دنیا کی سطح پر اس کام میں مصروف ہیں ۔انشاء اللہ یہ کام زیادہ تیزی کے ساتھ، زیادہ بہتر اور زیادہ کارآمدانداز میں اور زیادہ حکمت آمیز طریقے سے آگے بڑھے گا۔
میں نے چند سال قبل، دو تین گھنٹوں پر مشتمل ایک خصوصی میٹنگ میں، پتہ نہیں اس جلسے میں موجود حضرات میں سے کوئی وہاں تھا یا نہیں ، بعض سفارشات کی تھیں۔ اس وقت بھی میرے پیش نظر وہ سفارشات ہیں لیکن میں ان کو دہرانا نہیں چاہتا۔ بہرحال وہ سفارشات بہت زیادہ اہم ہیں۔ انشاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
احزاب ؛ 39 و 40
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 فروردین 1370 مطابق 18اپریل 1991 کو مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین کے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں ملکی مسائل میں قوم کے بھرپور تعاون کی قدردانی کی اور اسلام اور اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ سے حیات طیبہ کا تعارف کرایا۔ آپ نے بعض علاقائی اور عالمی امور پر بھی گفتگو فرمائی۔ (1)
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 27 فروردین 1370 ہجری شمسی مطابق 16 اپریل 1991 عیسوی کو عید الفطر کے دن پولیس افسروں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ نے اپنے خطاب میں پولیس افسران کے اچھے کردار کے حلقے کے عوام پر پڑنے والے اچھے اثرات کی جانب اشارہ کیا اور فرائض کی انجام دہی کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 12 دی سن 1370ہجری شمسی مطابق 2 جنوری 1992 عیسوی کو بوشہر میں بحری فوج کے دوسرے علاقائی مرکز میں صبح کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں مسلح افواج کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے جہاد اور دفاعی سرگرمیوں میں مسلح فورسز کے کلیدی کردار کے ساتھ ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی ان کی موثر سرگرمیوں اور شراکت کی اہمیت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مسلح افواج نے جہاد اور ملک کی حفاظت کے مرحلے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا اور اب ملک کی تعمیر و ترقی میں بھی انہیں اسی انداز سے اپنا کردار نبھانا چاہئے۔ آپ نے اس موقع پر فرمایا کہ ملک کی پوزیشن ماضی کی بنسبت بہت بہتر ہو چکی ہے لیکن پھر بھی مسلح فورسز کو اپنی محنت و مشقت اور دلجمعی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں خلیج فارس کے علاقے میں بیرونی افواج کی موجودگی کو نا قابل تحمل قرار دیا اور فرمایا کہ ان افواج کو ایک نہ ایک دن اس علاقے سے باہر نکلنا ہوگا کیونکہ یہ خلیج فارس کا علاقہ اس خلیج کے ساحل پر بسنے والے ممالک کا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس خطاب میں یہ یاددہانی کرائی کہ تاریخ میں ان قوموں کا ذکر دائمی ہو جاتا ہے جو شجاعت سے کام لیتے ہوئے اپنے دین و ایمان اور اقدار کی حفاظت کرتی ہیں جبکہ صرف آسائشوں اور آرام دہ ماحول میں زندگی بسر کرکے ختم ہو جانے والی قوموں کو کوئی یاد نہیں رکھتا۔
خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے حسینیہ امام خمینی میں مختلف عوامی طبقات سے خطاب میں دنیا میں اسلام کے نمو اور عالمی استکباری قوتوں کی معاندانہ سرگرمیوں کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے 22 نومبر 1989 کے اپنے اس خطاب میں ملت ایران کے انقلاب اور اس انقلاب سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہفتم تیر سنہ 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 کو پیش آنے والے سانحے اور اس سانحے میں انتہائی اہم شخصیات کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے شہدا اور ان کے اہل خانہ کی قدردانی کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں بحرین میں بزرگ عالم دین شیخ عیسی قاسم سے اس ملک کے حکام کے تعرض کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ان حکام کی حماقت کی علامت قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 31 مارچ 1977 کو ایک عقد کے موقع پر شادی، ازدواجی زندگی، اولاد کی تربیت جیسے موضوعات پر قرآن و سیرت کی روشنی میں بصیرت افروز گفتگو کی جو پیش خدمت ہے۔