رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بدھ کی صبح اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کی شہید ستاری ایروناٹیکل یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب میں ایمانی و عقیدتی، علمی و فنی، ادارہ جاتی اور ڈسپلن سے متعلق آمادگی میں روز افزوں اضافے اور مقدس دفاع کے تجربات نئی نسل کے فوجیوں کو منتقل کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے عید غدیر کے موقع پر ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں عید کی مبارکباد پیش کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ عید غدیر خم کا سب سے بنیادی پیغام اسلام میں امامت کو حکومتی سسٹم اور نظام کے طور پر متعارف کرانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سانحہ منٰی اور مسجد الحرام میں کرین گرنے کے سانحے کی پہلی برسی کے موقع پر ان سانحوں میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ سے انتہائی جذباتی ملاقات میں سانحے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور اس سلسلے میں عالم اسلام کی ذمہ داریوں کی نشاندہی کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فقہ کے درس خارج کے آغاز میں عوام الناس اور خاص طور پر نوجوانوں کے ذہن و دل کو دین سے منحرف کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر بنائے گئے منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علماء کا اولیں اور سب سے اہم فریضہ دین و عفت سے معاشرے کو دور کرنے کی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ دینی درسگاہوں اور علمائے کرام کو چاہئے کہ سائیبر اسپیس سے آشنائی حاصل کرکے اور اس کے امکانات کو بخوبی استعمال کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم کی ترویج کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نےعوام کے دینی ایمان و عقیدے کی تقویت پر ضرورت دیتے ہوئے اسے اسلامی نظام اور انقلاب کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا کہ در پیش مسائل کے بارے میں ذمہ داری کی تشخیص کے لئے ضروری ہے کہ دراز مدتی اور ثقافتی نقطہ نگاہ سے معاشرے کی مجموعی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے اور رجحان شناسی کی جائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے صدر مملکت روحانی اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات میں حکومت کی محنت و مشقت کی قدردانی کی اور ہفتہ حکومت کو اب تک انجام پانے والے کاموں کی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کا اچھا موقع قرار دیا اور سات موضوعات؛ استقامتی معیشت، خارجہ پالیسی، سائنس و ٹیکنالوجی، سیکورٹی، ثقافت، چھٹے ترقیاتی منصوبے اور سائیبر اسپیس کے تعلق سے جو ملک کی اہم ترجیحات کا حصہ ہیں ہدایات دیں۔
1395/05/11 ہجری شمسی مطابق 1 اگست 2016
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1 اگست 2016 کو ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے عوام کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے عوام الناس کی معیشتی مشکلات کو اپنی گہری اور دائمی تشوشی قرار دیا اور فرمایا کہ ان مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں داخلی توانائیوں پر اعتماد واحد راہ حل ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان نے ایک تجربے کی حیثیت سے امریکیوں سے مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے، ان کی عہد شکنی اور امریکا کے قابل اعتماد نہ ہونے کا ایک اور ثبوت پیش کیا ہے اور یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ملک کی پیشرفت اور عوام کے حالات زندگی کی بہبودی کا واحد راستہ داخلی توانائیوں پر توجہ دینا ہے نہ کہ ان دشمنوں پر جو علاقے اور دنیا میں ایران کے خلاف ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ملک کے مختلف صوبوں کے گوناگوں طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کی افراد کی موجودگی کو اس حقیقت کا آئینہ قرار دیا کہ ایران کے عوام قومیتی، لسانی اور مسلکی تنوع کے باوجود متحد ہوکر اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وطن عزیز ایران کو روحانی و مادی اعتبار سے نمونہ اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے متعارف کرائیں، تاکہ دیگر اقوام بھی استکبار کی تفرقہ انگیز اور استعماری پالیسیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے اسی پرافتخار راستے پر گامزن ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دشمن کبھی مشکلات کھڑی کرتا ہے جنھیں تدبر اور سوجھ بوجھ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، تاہم کسی بھی صورت میں ان کے حل کے سلسلے میں دشمن پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جامع مشترکہ ایکشن پلان کو دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کی نظرئے کی درستگی کا نمونہ قرار دیا اور فرمایا کہ آج تو سفارتی شعبے کے حکام اور وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شریک تھے، اس حقیقت کا بار بار اعتراف کر رہے ہیں کہ امریکا وعدہ خلافی کر رہا ہے اور نرم گوئی اور چرب زبانی کے ساتھ ہی مشکلات کھڑی کرنے اور دیگر ممالک سے ایران کے اقتصادی روابط خراب کرنے میں مصروف ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
مختلف صوبوں سے طویل مسافت طے کرکے یہاں تشریف لانے والے عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید! آپ نے آج ہمارے اس حسینیہ کو شہیدوں کے نام، شہیدوں کی یادوں اور انقلابی جذبات سے معطر کر دیا۔ ان برادران عزیز کا شکر گزار ہوں جنھوں نے ترانہ بھی پیش کیا اور اجتماعی طور پر تلاوت قرآن کی۔ البتہ نشست کے دوران تھوڑا شور تھا اور ان برادران گرامی کی انتہائی سماعت نواز تلاوت شاید بعض لوگوں کے کانوں تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ موقع ان کے ہاتھ سے نکل گیا، لیکن میں نے توجہ سے سنا اور مستفیض ہوا۔ قرآن کی آیات کریمہ اور قرآنی الفاظ کی تلاوت جس وقت بھی اور جس جگہ بھی کی جائے اس سے روحانیت و برکت ملتی ہے۔ خاص طور پر ان آیتوں کی تلاوت سے جن کا انتخاب ان برادران عزیز نے کیا تھا۔ سورہ احزاب کی آیتیں تھیں، جو سخت ادوار اور دشوار حالات میں اسلامی امت کے مستقیم اور روشن راستے کی عکاسی کرتی ہیں اور امت کے راستے کو واضح کرتی ہیں۔ یہ آیتیں بتاتی ہیں کہ اگر امت اسلامیہ کسی بھی دور میں اور کسی بھی موقع پر مشکلات سے دوچار ہو جائے، اس طرح کی مشکلات سے دوچار ہو جائے جن کا ذکر ان آیتوں میں تھا تو راہ حل کیا ہے۔ مِنَ المُؤمِنینَ رِجالٌ صَدَقوا ما عاهَدُوا اللهَ عَلَیه (۱)، جب اللہ تعالی سے کیا گيا میثاق اور مومن قلوب نے اللہ سے جو عہد کیا ہے وہ سچا ہو تو سارے کام انجام پائیں گے، ساری مشکلات برطرف ہوں گی۔ بے شک زندگی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کسی بھی قوم کے قدموں کے سامنے پختہ سڑک نہیں ہوتی، شاہراہ خود اپنی محنت اور بلند ہمتی سے تعمیر کرنی ہوتی ہے، راستہ ہموار کرنا ہوتا ہے، صاف کرنا ہوتا ہے اور پھر اپنی منزل کی جانب آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ جو قومیں، روحانیت، تمدن، رفاہ و آسائش اور سعادت و کامرانی کے اوج پر پہنچیں، انھوں نے اسی انداز سے اپنا سفر طے کیا ہے۔ یہ آیتیں ہمیں ان چیزوں کی تعلیم دیتی ہیں۔
ماہ ذیقعدہ جو نزدیک آن پہنچا ہے، حرام مہینوں میں سے پہلا مہینہ ہے۔ ماہ حرام یعنی احترام کے مہینے، یعنی وہ مہینے جو اللہ تعالی کی نظر میں محترم ہیں، «مِنهآ اَربَعَةٌ حُرُم» (۲)، چار مہینوں کو اللہ تعالی نے دیگر مہینوں سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ کچھ خاص احکام کے ذریعے واضح کیا ہے کہ یہ احترام کن چیزوں اور کن امور میں ہے۔ مسلمانوں کو ان تعلیمات الہیہ سے بھی سبق لینا چاہئے۔ معروف اور عظیم عارف الحاج میرزا علی آقا قاضی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بقول اللہ کی نظر میں محترم مہینے وہ مہینے ہیں جن میں مسلمانوں کو پہلے سے زیادہ اللہ کی جانب اپنی توجہ مرکوز کرنا چاہئے، خود کو زندگی کے حساس اور اہم میدانوں میں وارد ہونے کے لئے آمادہ کرنا چاہئے۔ آج ملت ایران کے سامنے، اس عظیم و سربلند قوم کے سامنے یہی صورت حال ہے کہ اس نے جو پرافتخار راستہ چنا ہے اس پر پوری توانائی کے ساتھ، پوری رفتار سے، پر وقار انداز میں اور سر بلندی کے ساتھ آگے بڑھے۔
ہماری آج کی یہ نشست بہت خاص قسم کی ہے۔ ملک کے چاروں گوشوں سے، کئی صوبوں سے ہمارے عزیز عوام تشریف لائے ہیں اور یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ملک کے جنوب مشرقی حصے سے لیکر شمال مغربی علاقے تک مختلف قومیتیں، فارس، ترک، کرد، بلوچ سب اس اجتماع میں موجود ہیں۔ اس کا خاص مفہوم ہے۔ وہ خاص مفہوم یہ ہے کہ مختلف اور متعدد قومیتوں والا متحدہ ایران ایک ہی ہدف رکھتا ہے اور ایک ہی راستے پر گامزن ہے۔ بے شک زبانیں الگ الگ ہیں، مسلک الگ الگ ہیں، لیکن اس قوم کے اعلی اہداف یکساں ہیں۔ یہ سب کی خواہش ہے کہ وطن عزیز ایران کو ایک مثالی اسلامی ملک کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اسلامی مملکت کا نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ملک میں سارے لوگ صرف نماز، روزے اور دعا و توسل میں مصروف ہیں۔ نہیں، یہ سب کچھ تو ہے ہی، یہی تو روحانیت و معنویت ہے، لیکن اس روحانیت کے ساتھ ساتھ مادی پیشرفت، علمی نمو، مساوات کا فروغ، طبقاتی فاصلے میں کمی اور اشرافیہ کلچر کے نمونوں اور مظاہر کا تصفیہ بھی ہے۔ اسلامی معاشرے کی یہ خصوصیات ہیں۔ اس معاشرے میں عوام الناس خوش بختی کی زندگی بسر کرتے ہیں، احساس تحفظ کے ساتھ جیتے ہیں، آسودہ خاطر رہتے ہیں اور اپنے اعلی اہداف کی جانب رواں دواں ہیں۔ اللہ کی عبادت بھی کرتے ہیں، دنیاوی پیشرفت بھی انھیں حاصل ہو رہی ہے۔ ملت ایران ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جانے کے لئے کوشاں ہے۔ سب کی یہی خواہش ہے۔ شیعہ اور سنی کا فرق نہیں ہے۔ کرد، بلوچ، فارس اور ترک میں کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے سب اس ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک نمونہ عمل بن جائے گا اور جب یہ نمونہ عمل آنکھوں کے سامنے آ جائے گا تو دیگر مسلم اقوام بھی اسی راستے پر چل پڑیں گی۔
آج ہماری مشکل یہ ہے کہ عالمی استکبار اور استعماری طاقتوں کو ایک دو صدی سے اپنا مفاد اس میں نظر آیا کہ مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈال دیں۔ انھیں اپنا مفاد اس میں نظر آتا ہے، کیوں؟ اس لئے کہ ایسی صورت حال ہو تو ان مسلم اقوام کی ثروت لوٹنا آسان ہوگا، انھیں اس پیشرفت سے جو ان کا حق تھی، دور رکھا جا سکے گا، ان کا استحصال کیا جا سکے گا۔ عالمی طاقتوں نے علم و سائنس کے میدان میں اپنی کامیابیوں کی مدد سے، حاصل ہونے والی ٹیکنالوجیوں کی مدد سے اور جدید اسلحے کی مدد سے اپنا یہ مقصد پورا کرنے کی کوشش کی اور افسوس کا مقام ہے کہ کافی حد تک انھیں کامیابی بھی ملی۔ ہم نے اوائل انقلاب سے لیکر آج تک ہمیشہ مسلمان اقوام کی جانب دوستی کا ہاتھ پھیلایا، سب کو اتحاد کی دعوت دی، سب کو وحدت کا پیغام دیا، دشمن کی سازشوں کے مقابلے میں استقامت کی اپیل کی تو اس کی وجہ یہی تھی۔
جب ملت ایران خود کو اس مقام پر پہنچا لے جائے گی جہاں وہ حقیقی معنی میں ایک مسلم امت کے طور پر خود کو دنیا کے سامنے متعارف کرائے تو یہی اسلام کی سب سے بڑی تبلیغ ہوگی۔ دیگر اقوام بھی اسی سمت چل پڑیں گی اور عظیم مسلم امہ کی تشکیل ہو جائے گی جو باعث عزت اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کی بنیاد بنے گی۔ وہ اسلامی تمدن معرض وجود میں آ جائے گا جس کے بارے میں ہمیں یہ توقع ہے کہ مغرب کے گمراہ کن مادی تمدن پر غلبہ حاصل کر لے گا۔ اس کا مقدمہ یہی ہے، مقدمہ یہ ہے کہ ہم ملت ایران کی حیثیت سے خود کو مثالیہ بنانے کی سمت پیش قدمی کریں۔ سب کو کمر ہمت کسنا چاہئے، عہدیداران کو بھی بلند ہمتی سے کام لینا چاہئے اور عوام کو بھی ہمت دکھانی چاہئے۔ یہ کوئی ایک دو سال کی مہم نہیں ہے۔ یہ دراز مدتی مشن ہے۔ اس کے لئے وقت درکار ہے۔ چنانچہ اگر آپ دیکھیں تو اسلامی تمدن میں، جس کا اوج چوتھی اور پانچویں صدی میں نطر آیا، نمایاں علمی مقام حاصل ہوا، عالم اسلام میں مایہ ناز اور شہرہ آفاق علما، محققین، فلاسفہ اور سائنسداں نظر آئے جو دنیا کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوئے، چنانچہ مغرب کی بہت سے میدانوں کی پیشرفت انھیں کی شروع کی ہوئی مہم کی مرہون منت ہے۔ آج ان شاء اللہ ہماری رفتار تیز ہوگی اور ہم زیادہ جلدی اس منزل پر پہنچ جائیں گے، تاہم وقت تو لگنا ہی ہے۔
ہم نے ان 37، 38 برسوں میں جو انقلاب آنے کے بعد گزرے ہیں، اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔ واقعی اگر کوئی منصفانہ نظر سے جائزہ لے تو امریکا اور برطانیہ کے قدموں میں پڑا رسوا و گمنام، پسماندہ اور مجبور ایران آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دیگر ممالک آکر صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں کہ علاقے میں موجود اسلامی جمہوریہ کے وسائل کو استعمال کریں، بلکہ کسی صورت سے ہڑپ لیں، مگر وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔ یعنی اسلامی وقار، اسلامی نظام کا وقار اور اسلامی مملکت ایران کی شان و عظمت اس طرح چار سو پھیلی ہے کہ جو طاقتیں اب تک ملت ایران سمیت اقوام کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتی تھیں، آج اسے اپنے برابر کی قوت کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ ملت ایران کی عمومی اور ہمہ گیر پیشرفت ہے۔ ہم نے علم و سائنس کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، سیاست کے میدان میں پیشرفت حاصل کی، اسلام کو مطلوب دیگر میدانوں میں بھی پیشرفت حاصل کی۔ سماجی انصاف کے اعتبار سے بھی آج صورت حال ماضی کی نسبت بالکل الگ ہے۔ البتہ اسلامی مساوات کی منزل تک پہنچنے کے لئے ابھی کافی فاصلہ طے کرنا ہے، مطلوبہ سماجی انصاف کی منزل سے ابھی ہم کافی دور ہیں۔ البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت بھی ہمارے معاشرے میں اشرافیہ کلچر کی علامات، تجملات اور بعض دیگر انحرافی چیزیں کم نہیں ہیں، لیکن جب ہم انقلاب سے قبل کے دور کو سامنے رکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ ماضی کی نسبت اس وقت ملت ایران کی پیشرفت، اس اسلامی ملک کی پیشرفت کافی نمایاں ہے۔ آپ میں جو نوجوان ہیں، انھوں نے انقلاب سے قبل کا دور نہیں دیکھا ہے لیکن ہم نے اور ہماری عمر کے افراد نے وہ زمانہ دیکھا ہے۔
اگر ہم خود کو اس مطلوبہ منزل تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ کیا ہے؟ میں اس کا جواب دو لفظوں میں اگر دینا چاہوں تو یہ کہوں گا کہ اس کا طریقہ ہے داخلی توانائیوں اور وسائل پر تکیہ کرنا۔ ہمارے پاس صلاحیتوں اور توانائیوں کی کمی نہیں ہے۔ وہ صلاحیتیں اور توانائیاں جو اب تک استعمال نہیں ہوئی ہیں کافی زیادہ ہیں۔ ہم نے تو پیشرفت کے منصوبے میں آٹھ فیصدی کی اقتصادی ترقی کو مد نظر رکھا ہے اور کہا ہے کہ ملک کو اس پروگرام کے دوران آٹھ فیصدی کی شرح ترقی تک پہنچنا ہے تو اس کی وجہ وہ بے شمار توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں جو ملک کے اندر موجود ہیں۔ شروع میں تو کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ اقتصادی میدان میں آٹھ فیصدی کی شرح نمو ممکن نہیں ہے۔ لیکن بعد میں حکام نے خود آکر ہم سے کہا کہ آپ نے جو لکھا ہے وہی درست ہے۔ آٹھ فیصدی کی اقتصادی شرح نمو امکان میں ہے۔ البتہ اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صحیح پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ صحیح اور منصوبہ بند اسٹریٹیجی کی ضرورت ہے۔ تساہلی، بے عملی اور دوسروں کی دست نگری کی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔ اس کی بنیاد ملک کے اندر موجود صلاحیتیں ہیں۔ ملک کے پاس بے پناہ صلاحیتیں اور توانائياں موجود ہیں۔ ہماری آٹھ کروڑ کی آبادی میں تیس فیصدی سے زیادہ حصہ 20 سے 35 سال کی عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی عنفوان شباب میں ہے۔ نوجوانی، تحرک اور امید و نشاط کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان موجود ہیں۔ ان نوجوانوں میں دسیوں لاکھ تعلیم یافتہ، ماہر اور اختراعی صلاحیت کے مالک نوجوان ہیں۔ گزشتہ 37 سال کے عرصے میں ہمارے ملک کا انفراسٹرکچر بہت اچھا ہو چکا ہے۔ ہم نے مختلف میدانوں میں بہت کارآمد اور موثر انفراسٹرکچر تیار کر لیا ہے۔ میں یہ جو عرض کر رہا ہوں کہ ہم نے یہ کام کیا ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ کام ملک کے حکام نے انجام دیا ہے، اس سلسلے میں میرا کوئی رول نہیں ہے۔ سب کچھ تیار ہے تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کے لئے، پیشرفت کی منزلیں طے کرنے کے لئے۔
یہ پیشرفت بھی بحمد اللہ حاصل ہوئی۔ آپ اسلامی انقلاب کے بعد کے ان تیس برسوں کا موازنہ بعض دیگر ملکوں کی تیس سال کی پیشرفت سے کیجئے جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔ ایسے ممالک جنھوں نے تیس سال تک امریکا کے تسلط میں زندگی بسر کی۔ امریکا سے نقدی بھی حاصل کرتے رہے۔ یعنی سالانہ کئی سو ملین یا کئی ارب ڈالر امریکا سے لیتے رہے، لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ تیس سال بعد جب اعداد و شمار پیش کئے تو پتہ چلا کہ ان کے دار الحکومت میں بیس لاکھ افراد بے گھر ہیں جو قبرستانوں میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ کسی ملک پر امریکا کے اثر و نفوذ اور تسلط کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ بنابریں ضرورت اس بات کی ہے کہ داخلی توانائیوں کو بروئے کار لایا جائے۔
دشمن بسا اوقات مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جائے اپنی تدابیر سے ان مشکلات کو راستے سے ہٹائے، دشمن پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک مثال یہی ایٹمی مذاکرات اور مشترکہ جامع ایکشن پلان ہے۔ آج ہمارے سفارتی شعبے کے حکام بھی، وہ لوگ بھی جو مذاکرات میں شروع سے آخر تک شامل رہے، یہ لوگ بھی کہہ رہا ہے کہ امریکا نے وعدہ خلافی کی ہے۔ پرسکون ظاہری وضع قطع، حکام، وزیر خارجہ اور دیگر عہدیداران کی نرم و شیریں گفتگو کی آڑ میں امریکا تخریبی اقدامات کرتا ہے۔ دیگر ممالک سے وطن عزیز کے اقتصادی تعلقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے۔ یہ بات مشترکہ جامع ایکشن پلان سے تعلق رکھنے والے حکام بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ بات میں ایک سال، ڈیڑھ سال سے مسلسل کہتا آ رہا ہوں کہ امریکیوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ بعض لوگوں کے لئے یہ بات قبول کر پانا بڑا دشوار تھا، لیکن آج خود ہمارے حکام یہی کہہ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہمارے عہدیداران نے جو ایٹمی مذاکرات کار ہیں، یورپ میں دیگر فریقوں سے ملاقات کی۔ ہمارے عہدیداران نے یہی باتیں ان سے کہی ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ہمارے عہدیداران نے کہا کہ آپ نے عہد شکنی کی ہے، آپ نے یہ خلاف ورزی کی ہے، آپ کو یہ کام انجام دینا تھا اور آپ نے انجام نہیں دیا۔ پس پشت آپ نے یہ تخریبی اقدامات کئے۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کو چھے مہینے کا وقت گزر چکا ہے، مگر عوام کی معیشتی صورت حال میں کوئی قابل لحاظ بدلاؤ نظر نہیں آتا۔ حالانکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ پابندیاں ہٹائی جائیں، اس کا ہدف ہی یہ تھا کہ ظالمانہ پابندیاں ہٹا لی جائیں۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اب تک پابندیاں نہیں ہٹائی گئی ہیں، اب کہتے ہیں کہ رفتہ رفتہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے! کیا تدریجی طور پر پابندیاں ہٹانے کی بات ہوئی تھی؟ اس وقت عہدیداران نے ہم سے بھی اور عوام سے بھی یہی کہا تھا کہ ان مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ جس دن ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کر دیا، پابندیاں یکبارگی اٹھا لی جائیں گی۔ یعنی امریکا نے ملت ایران کے راستے میں یہ جو ظالمانہ اور خباثت آمیز رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، انھیں ختم کر دیا جائے گا۔ اس وقت سے اب تک چھے مہینے گزر چکے ہیں، لیکن پابندیاں نہیں ہٹی ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک کے لئے چھے مہینے کی مدت کم وقت ہے؟ اگر امریکیوں کی یہ خباثتیں نہ ہوتیں تو حکومت اس چھے مہینے میں کتنے کام کر سکتی تھی؟ یہ مشترکہ جامع ایکشن پلان ہمارے لئے ایک نمونہ ہے، ایک تجربہ ہے۔ میں نے گزشتہ سال یا ڈیڑھ سال قبل، مجھے تاریخ ٹھیک سے یاد نہیں ہے (3)، قوم سے اپنے خطاب میں کہا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان اور یہ ایٹمی مذاکرات ہمارے لئے ایک نمونہ ہوگا۔ ہم دیکھیں گے کہ امریکی کیا کرتے ہیں؟ یہ جو بڑی شیریں کلامی کر رہے ہیں، میٹھی میٹھی باتیں کر رہے ہیں، کبھی خط لکھتے ہیں، محبت کا اظہار کرتے ہیں، تعاون کی باتیں کرتے ہیں، مذاکرات کی نشستوں میں ایرانی حکام سے بڑی نرمی سے گفتگو کرتے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ عمل کے میدان میں کیا رخ اپناتے ہیں؟! اب واضح ہو گیا کہ عمل کے میدان میں ان کا کیا طریقہ کار ہے۔ بظاہر میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں، وعدے دیتے ہیں، لیکن جب عمل کا مرحلہ آتا ہے تو سازشوں میں لگ جاتے ہیں، تخریبی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں، ہمارے امور کی انجام دہی میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ ہے امریکا اور یہ ہے عملی تجربہ۔ اب امریکی کہہ رہے ہیں کہ آئیے علاقائی مسائل کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ مگر یہ تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ امریکیوں سے مذاکرات مہلک زہر کی مانند ہے۔
اس تجربے سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہم کسی بھی معاملے میں امریکا کو قابل اعتماد فریق سمجھ کر گفتگو نہیں کر سکتے۔ انسان کبھی دشمن سے بھی بات کرتا ہے اور وہ دشمن اپنے قول کا پابند ہوتا ہے تو اس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور عہد شکنی نہیں کرے گا۔ ایسے دشمن سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر ثابت ہو جائے کہ دشمن حد درجہ نابکار ہے، ایسا دشمن ہے جو عملی میدان میں وعدہ خلافی میں کوئی تامل نہیں کرتا، عہد شکنی کرتا ہے، اور جب آپ کہئے کہ تم نے عہد شکنی کیوں کی؟! تو بڑے مزے سے مسکراتا ہے، پھر وہی چرب زبانی شروع کر دیتا ہے اور اپنی حرکتوں کی توجیہ پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسے دشمن سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ یہ جو میں برسوں سے کہتا آ رہا ہوں کہ امریکا سے ہم مذاکرات نہیں کریں گے تو اس کی وجہ یہی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اور علاقائی مسائل کے بارے میں، اسی طرح دیگر معاملات میں امریکا اور اس جیسی دیگر حکومتوں سے ہماری مشکل ایسی ہے کہ مذاکرات سے حل نہیں ہونے والی ہے۔ ہمیں اپنا راستہ منتخب کرکے اس پر گامزن ہو جانا چاہئے۔ دشمن کو پیچھے پیچھے دوڑنے دیجئے، اسے پیچھے پیچھے بھاگنے دیجئے! ہمارے سیاسی و سفارتی حکام صریحی طور پر کہہ رہے ہیں کہ امریکی ہم سے سب کچھ لے لینا چاہتے ہیں اور اس کے عوض کچھ بھی دینے پر آمادہ نہیں ہیں! اگر ایک قدم آپ نے پیچھے کھینچا تو وہ اسی مقدار میں آگے بڑھ آئیں گے۔ ہم جو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ مذاکرات نہیں کریں گے اور بعض افراد کہتے ہیں کہ جناب! مذاکرات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تو مذاکرات کرنے حرج یہی ہے کہ فریق مقابل آپ کو آپ کے صحیح راستے سے ہٹا دےگا، آپ سے مراعات لے لیگا، کیونکہ جب آپ مذاکرات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ مراعات دیجئے اور کچھ مراعات لیجئے! مذاکرات کا یہی تو مطلب ہے! مذاکرات کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساتھ میں بیٹھیں، گپ شپ کریں، گفت و شنید اور ہنسی مذاق ہو، سب لطف اندوز ہوکر اٹھ جائیں! مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ کچھ دو اور کچھ لو! آپ کو جو دینا ہے اسے تو وہ فورا لے لیتے ہیں، لیکن جو آپ کو ملنا چاہئے اسے وہ دینے پر تیار نہیں! زور زبردستی کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ مستکبر اسی کو کہتے ہیں۔ عالمی استکبار کے یہی معنی ہیں، اس کے معنی ہیں زبردستی کی باتیں کرنا، خود کو برتر سمجھنا، اپنے قول کا پابند نہ رہنا، خود کو کوئی بھی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند نہ سمجھنا، استکبار سے مراد یہی ہے۔ وہ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا؛ 'امریکا سب سے بڑا شیطان ہے۔' واقعی یہ تعبیر بالکل درست اور غیر معمولی تعبیر ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن شیطان اپنی پیروی کرنے والوں سے کہے گا کہ: اِنَّ اللهَ وَعَدَکُم وَعدَ الحَقِّ وَ وَعَدتُکُم فَاَخلَفتُکُم (۴) اللہ تعالی نے تم سے سچا وعدہ کیا اور تم نے اللہ کے اس سچے وعدے کی پیروی نہیں کی، اس کے پابند نہیں رہے اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا اور تم میرے پیچھے چل پڑے، میں نے وعدہ خلافی کی، میں نے تم سے وعدہ کیا اور پھر اس وعدے کو توڑ دیا۔ شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کی اس طرح ملامت کرے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالی فرماتا ہے کہ شیطان اپنے پیروں کاروں سے کہے گا؛«فَلا تَلومونی وَلوموا اَنفُسَکُم» مجھے سرزنش نہ کرو بلکہ خود کو ملامت کرو۔ یہ چیز آج من و عن امریکا پر صادق آتی ہے۔ شیطان قیامت میں یہ باتیں کہے گا جبکہ امریکی آج اسی دنیا میں یہی باتیں کہہ رہے ہیں۔ وعدہ کرتے ہیں مگر اسے پورا نہیں کرتے، وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ مراعات لے لیتے ہیں، اور مراعات دینے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کرتے۔ آج امریکا کی یہی حالت ہے۔ لہذا اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے۔
ملک کے بڑے مسائل کے بارے میں جو باتیں ہو رہی ہیں، اسی طرح ملک کی دراز مدتی پالیسیوں کے بارے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کو چاہئے کہ غور کریں، اس کا جائزہ لیں۔ یہ تجربات کا نتیجہ ہیں، یہ دشمن کی مکمل شناخت کے بعد وضع کی جانے والی پالیسیاں ہیں۔ یہ ایسی چیزیں نہیں کہ کوئی کچھ کہے اور کوئی دوسرا آکر اس کے جواب میں کہے کہ؛ 'نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔' ان مسائل پر ہمارے نوجوان غور و خوض کریں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں بڑے ذہین اور ذی فہم نوجوان موجود ہیں۔ انھیں چاہئے کہ جائز لیں، تجزیہ کریں تو راستہ واضح ہوگا۔
صحیح راستہ کیا ہے؟ صحیح راستہ وہی ہے جو ہم نے عرض کیا؛ اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں پر تکیہ کیا جائے، داخلی ظرفیت کو بنیاد بناکر کام کیا جائے، انھیں نوجوانوں کی استعداد کو بنیاد بنایا جائے، نوجوانوں کی اختراعی صلاحیتوں کی مدد لی جائے، جو اختراعات ہمارے نوجوان کرتے ہیں، وہ جو علمی کاوشیں کرتے ہیں، جو دانش حاصل کرتے ہیں، وہ دانش جو ٹیکنالوجی میں تبدیل ہوتی ہے، ان پر تکیہ کیا جائے، ہمارے پاس صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق البتہ یہ اعداد و شمار کئی سال قبل کے ہیں کہ ہمارے پاس کئی سو چھوٹی پیداواری یونٹیں ہیں، یہ بہت بڑی بات ہے! میں نے اپنی تقاریر میں بارہا یہ بات کہی ہے، ملک کے عزیز حکام کو چاہئے کہ چھوٹی اور میانہ سطح کی پیداواری یونٹوں پر توجہ دیں۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی کئی لاکھ یونٹیں موجود ہیں، ان کو نئے سرے سے شروع کرنا چاہئے، اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اختراعی صلاحیتیں سامنے آئیں گی۔
ہم نالج بیسڈ اکانومی پر زور دے رہے ہیں، اس سلسلے میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران خوش قسمتی سے بہت اچھا کام ہوا ہے، لیکن اس میں مزید وسعت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں داخلی پیداوار پر توجہ دینا چاہئے۔ میں نے داخلی مصنوعات کے استعمال پر بار بار تاکید کی۔ ایک بار پھر آپ کی خدمت میں، عزیز عوام کی خدمت میں، ملک کے حکام کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ پیداواری سرگرمیوں کی جانب قدم بڑھائیے۔ داخلی پیداوار کو بڑھائیے، اس کی ترویج کیجئے۔ افسوس کی بات ہے کہ زمینی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ مختلف شعبوں میں، مثال کے طور پر گھریلو سامان ملکی کارخانے بھی بنا رہے ہیں، بڑی معیاری، غیر ملکی مصنوعات کی ہم پلہ بلکہ بسا اوقات ان سے زیادہ بہتر مصنوعات بنا رہے ہیں، لیکن آپ جب بازار میں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ غیر ملکی سامان بھرا پڑا ہے۔ کیوں؟ یہ سارا سامان کہاں سے آیا؟ میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ ملک کے اندر جو مصنوعات تیار کی جا رہی ہیں انھیں غیر ممالک سے امپورٹ نہ کیا جائے، اس کی یہی وجہ ہے۔
اسمگلنگ کے معاملے میں میں نے حکام سے کہا کہ جب آپ کسی گروہ کو پکڑیں اور اسمگلنگ کا سامان برآمد کریں جو کئی ہزار ٹن کی مقدار میں ملک کے اندر آ رہا ہے تو اسے سب کے سامنے آگ لگائیں۔ اسمگلروں پر اس طرح ضرب لگائیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جب کوئی غیر ملکی سامان آ جاتا ہے، خواہ قانونی طریقے سے آیا ہو جیسے کسٹم وغیرہ ادا کرکے لایا گیا ہو، یا اسمگلنگ کے ذریعے لایا گیا ہو جس کی مقدار بہت زیادہ ہے، تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ داخلی پیداواری یونٹیں بند ہو جائیں گی۔ جب پیداواری یونٹیں بند ہوتی ہیں تو اس کے نتیجے میں یہی حالات پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو روزگار نہیں ملے گا، روزگار کے مواقع محدود ہو جائیں گے، ملک میں کساد بازاری کا ماحول پیدا ہوگا، عوام کی زندگی اور معیشت بہت دشواریوں سے دوچار ہو جائے گی۔ ان مسائل کو تو آپ یورپ اور امریکا سے تعلقات بڑھا کر حل نہیں کر سکتے۔ ان مسائل کو ہمیں خود حل کرنا ہے۔ یہ ذمہ داری تو خود ہمارے دوش پر ہے۔ اس کا راستہ یہی ہے۔
ملک کے پاس توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ اختراعی صلاحیتیں بھی موجود ہیں۔ آٹھ کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں، جس کے پاس پندرہ کروڑ آبادی کی گنجائش موجود ہے، ان شاء اللہ حکام جیسا کہ میں نے بار بار کہا ہے کہ مدد کریں اور نوجوانوں کی آبادی بڑھائیں، نوجوانوں کی تعداد کا یہ اچھا تناسب جو آج ہے اسے قائم رکھیں، اسے ختم نہ ہونے دیں، ایسا نہ ہو کہ رفتہ رفتہ ملک کی آبادی بڑھاپے کی جانب بڑھتی چلی جائے۔ یہ ملک، یہ آبادی، یہ صلاحیتیں، چار موسموں والی سرزمیں مادی اعتبار سے پیشرفت کے مراحل طے کر سکتی ہے اور عوام کی معیشتی مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔ اس کا یہی طریقہ ہے۔
عوام کے معاشی مسائل کی مجھے بہت فکر ہے۔ مجھے عوام کی معیشت کے بارے میں ہمیشہ فکر لگی رہتی ہے۔ تاہم میں جتنا بھی سوچتا ہوں، ماہرین اور باخبر افراد سے جب بھی مشاورت کرتا ہوں تو یہی پاتا ہوں کہ ہمارے پاس داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ غیر ملکی تاجروں کی آمد و رفت رہے اور حالات میں کوئی بہتری نہ آئے، چنانچہ اب تک نہیں آئی ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ تقریبا ایک سال سے مسلسل یہ آنا جانا لگا ہوا ہے اور اب تک کچھ بھی نہیں ہو پایا ہے۔ وہ اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ان کی نظر ایران کے بازار کو اپنے قبضے میں کر لینے پر ہوتی ہے اور یہ ہمارے نقصان میں ہے۔ وفود کی آمد و رفت کا فائدہ سرمایہ کاری کی صورت میں اور پیداوار میں اضافے کی صورت میں ہونا چاہئے، اس کے نتیجے میں ہمیں ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی ملنا چاہئے، نئی ٹیکنالوجی ملک میں آنا چاہئے، لیکن فی الواقع اس کا یہ نتیجہ یا تو بالکل نہیں ہے یا بہت محدود پیمانے پر ہے۔ محترم حکام کو چاہئے کہ ان چیزوں پر توجہ دیں، ان کا خیال رکھیں۔ ہم نے جو 'اقدام و عمل' (کے نعرے) کا اعلان کیا اس کا نمایاں نتیجہ سامنے آنا چاہئے، البتہ اس وقت کام ہو رہا ہے لیکن نتیجہ اتنا واضح ہونا چاہئے کہ عوام باقاعدہ محسوس کریں۔ یہ طریقہ ہے۔
ثقافتی اور روحانی امور کے بارے میں بھی کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن اس وقت ان موضوعات کو نہیں چھیڑنا چاہتا، اس کا اپنا موقع و محل ہے۔ اس وقت بحث کا موضوع اقتصادی اور معیشتی مسائل ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوامی معیشت میں بہتری آئے، جو مشکلات ہیں، طبقاتی فاصلہ ہے، یہ سب حل ہو تو ہمیں یہ سارے کام کرنا چاہئے۔
ایک اور اہم ترین مسئلہ ہے داخلی بدعنوانی کی روک تھام۔ یہ جو ابھی بات ہوئی اور حکام نے بھی صریحی طور پر کہا ہے کہ بدعنوانی اور کرپشن کا سد باب کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں بحمد اللہ ہمیں بعض اداروں سے رپورٹ ملی ہے کہ موثر کارروائی ہوئی ہے۔ تمام اداروں میں اسی طرح اقدامات ہونے چاہئے۔ پوری توجہ سے کارروائی کی جانی چاہئے۔ اسے بیچ میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بدعنوانی کا سد باب ضروری ہے۔
اشرافیہ کلچر کی روک تھام ہونا چاہئے۔ یہ کلچر ملک کے لئے ایک مصیبت ہے۔ اگر ملک میں اونچی سطح پر اشرافیہ کلچر رائج ہو تو باقی جگہوں تک اس کا سرایت کر جانا فطری ہے۔ ایسی صورت میں آپ دیکھیں گے کہ جو گھرانہ مالی اعتبار سے بہت اچھی حالت میں نہیں ہے وہ بھی جب اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرتا ہے یا کوئی اور تقریب منعقد کرنا چاہتا ہے تو رئیسانہ انداز میں اخراجات برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جب اشرافیہ کلچر رائج ہو جائے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اشرافیہ کلچر کو روکنا چاہئے۔ حکام کی روش، ان کا طرز بیان، ان کی تعلیمات سب کچھ اشرافیہ کلچر کے خلاف ہونا چاہئے۔ اسلام نے یہی درس دیا ہے۔
یہ تو ملکی مسائل کے بارے میں میرے چند معروضات تھے۔ اقتصادی مسائل کے بارے میں میرا جو موقف ہے وہ یہی ہے جسے میں عوام کے سامنے بھی اور حکام کے سامنے بھی بیان کرتا رہتا ہوں۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ اپنی داخلی توانائیوں پر بھروسہ کیا جائے۔ احتیاجات اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے اور پھر ان کے ازالے کے لئے منصوبہ بندی کی جائے۔
اب علاقائی مسائل کے تعلق سے کچھ باتیں؛ اس وقت علاقہ بڑی ہیجانی کیفیت سے دوچار ہے۔ اگر اس کیفیت کا بھی باریکی سے جائزہ لیجئے تو امریکا کی ریشہ دوانیاں صاف نظر آتی ہیں۔ یہ جو سعودی حکومت صیہونی حکومت کے ساتھ اعلانیہ طور پر اظہار دوستی کرنے لگی ہے، علی الاعلان آمد و رفت ہو رہی ہے، یہ امت مسلمہ کی پشت میں خنجر گھونپنے کی مانند ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو حرکت سعودی حکام نے کی ہے اور صیہونی حکومت کے ساتھ اپنے روابط کو آشکارا کر دیا ہے تو یہ انھوں نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں خنجر مارا ہے، انھوں نے بہت بڑی خیانت کا ارتکاب کیا ہے، وہ گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں، تاہم اس قضیئے میں بھی امریکیوں کا ہاتھ ہے۔ سعودی حکومت تو امریکا کی تابعدار ہے، امریکا کے ہاتھ میں ہے، امریکا کے اشاروں پر کام کرتی ہے، اس نے جب یہ نہایت احمقانہ اقدام کیا ہے تو اس میں بھی امریکا کا اہم رول ہے۔
یا اگر آپ دیکھتے ہیں کہ یمن پر تقریبا ڈیڑھ سال سے بمباری ہو رہی ہے تو یہ کوئی معمولی بات ہے؟ ایک ملک پر، صرف عسکری مراکز پر نہیں نہیں بلکہ بازاروں، اسپتالوں، رہائشی مکانات، اجتماعات، چوراہوں اور اسکولوں پر اندھا دھند بمباری کر رہے ہیں! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑا جرم ہے۔ نہ ماہ رمضان کا تقدس ان کی سمجھ میں آتا ہے، نہ ماہ حرام کا انھیں کوئی احساس ہے، نہ بچوں کا خیال ہے، کس بڑے پیمانے پر طفل کشی انھوں نے کی ہے؟! یہ بھی بہت سنگین جرم ہے جس کا ارتکاب سعودی حکومت کر رہی ہے۔ تاہم یہ جرم بھی امریکا کی پشت پناہی سے انجام پا رہا ہے، امریکا سے گرین سگنل ملنے کے بعد انجام دیا جا رہا ہے، امریکی طیاروں کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے، امریکا سے امپورٹ کئے جانے والے ہتھیاروں کے ذریعے ان جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ سارے وسائل وہی فراہم کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ بھی اگر اس بارے میں کچھ بولنا چاہتی ہے، وہ بھی ایک عرصہ دراز کے بعد ایک حق بات زبان پر لانا چاہتی ہے اور مذمت میں کچھ بولنا چاہتی ہے تو اس کا منہ پیسے سے، دھمکی سے، دباؤ سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اس روسیاہ سکریٹری جنرل نے اعتراف بھی کیا اور کہا کہ مجھ پر دباؤ ڈالا گیا ہے! اگر دباؤ ڈالا گیا ہے اور آپ دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو عہدہ چھوڑ دیجئے! اس عہدے پر بنے رہ کر آپ بشریت سے خیانت کیوں کر رہے ہیں؟ یہ ساری انسانیت کے ساتھ خیانت ہے۔ اس معاملے میں بھی امریکا ملوث ہے۔
بحرین کا قضیہ دیکھئے کہ وہاں ایک غیر ملک سے فوج آتی ہے عوام پر مظالم ڈھانے کے لئے۔ یہ بھی امریکا کے ہی گرین سگنل سے ہوا ہے۔ اس وقت سعودی حکومت کا یہ حال ہے کہ اسے 'بچے' چلا رہے ہیں، واقعی احمق بچوں کے ہاتھ میں یہ حکومت ہے، تاہم مسائل کا جائزہ لیکر انسان جو نتیجہ اخذ کرتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ سب کچھ امریکا کے ذریعے اور امریکا کی پشت پناہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ان تکفیری تنظیموں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ (امریکی) دعوے کرتے ہیں کہ انھوں نے تکفیری تنظیموں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے، ویسے تو انھوں نے اب بھی ان گروہوں کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہیں کی ہے، بلکہ ہمیں ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بعض اوقات وہ ان گروہوں کی مدد بھی کر رہے ہیں، تاہم ان گروہوں کی تشکیل بھی امریکا کی ہی دین ہے اور اس کا اعتراف بعض امریکا حکام نے بھی کیا ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا اور کہا کہ داعشی عناصر کی ہم نے مدد کی کہ وہ یہاں آئیں اور امت مسلمہ کے اندر اختلاف کی آگ بھی بھڑکائیں اور اموی و مروانی اسلام کی ترویج بھی کریں۔ یہ وہابی و تکفیری اسلام در حقیقت اموی اسلام اور مروانی اسلام ہے، یہ وہی اسلام ہے جو حقیقی اسلام سے کوسوں دور ہے، انھوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے۔ البتہ اب اس آگ کی لپٹیں خود ان تک بھی پہنچ رہی ہیں۔ فارسی کا مشہور مقولہ ہے؛ «هر که باد بکارد، طوفان درو خواهد کرد» (جو ہوا بوتا ہے، طوفان کی فصل کاٹتا ہے۔) اب دھیرے دھیرے وہ اس طوفان کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ لیکن یہ خود ان کی غلطی کا نتیجہ ہے، یہ انھیں کا کیا دھرا ہے۔
دوسرے مسائل میں بھی یہی صورت حال ہے۔ امریکیوں کا دعوی ہے کہ وہ علاقے کی مشکلات کو حل کرنا چاتے ہیں، لیکن امر واقعہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ امریکا ہی مشکلات پیدا کر رہا ہے، یا ان میں شدت لا رہا ہے یا ان کے حل میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ اگر علاقے کی اقوام کے ہاتھ میں امور ہوں تو ان مشکلات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم اسلامی حکومتوں کو، ان عرب حکومتوں کو جو ہمارے اطراف میں ہیں، ایک بار پھر دعوت دیتے ہیں کہ اس حقیقت کو سمجھیں کہ امریکا قابل اعتماد نہیں ہے۔ امریکا انھیں ہتھکنڈے اور حربے کے طور پر دیکھتا ہے، صیہونی حکومت کو تحفظ دینے کے حربے اور علاقے میں امریکا کے استکباری مفادات کی حفاظت کے ذریعے کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکا کو حقیقت میں ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی دولت استعمال کرتا ہے، ان کی توانائیوں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتا ہے، حفاظتی دیوار کھڑی کرکے صیہونی حکومت کو تحفظ دینا چاہتا ہے، علاقے میں اپنے سامراجی اغراض و مقاصد کی حفاظت کرتا ہے۔ ان ملکوں سے وہ یہ کام کروا رہا ہے۔
علاقے کے مسائل کی راہ حل ہماری نظر میں یہ ہے کہ مسلمان اقوام متحد ہوں، مسلم حکومتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور استکباری اہداف اور امریکا کے عزائم نیز بعض یورپی حکومتوں کے مطالبات کے سامنے ڈٹ جائیں۔ بعض یورپی حکومتوں نے بھی امریکا کے نقش قدم پر چل کر علاقے کے عوام کی نگاہ میں خود کو گرا لیا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں کا عوام کی نظر میں خود ہمارے ایرانی عوام کی نگاہ میں خاص احترام تھا، لیکن انھوں نے امریکا کی پیروی کرکے خود کو رسوا کر لیا۔ ان کے اہداف و مقاصد کی نشاندہی کی جانی چاہئے اور پھر ان اہداف کے سد باب کے لئے اقدام کرنا چاہئے۔ قومیں ایسا کر سکتی ہیں، ہماری قوم تو خیر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ان تمام باتوں کے باوجود علاقے میں امریکا روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے منصوبے طشت از بام ہوتے جا رہے ہیں، سب کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کس فکر میں ہے۔ وہ مختلف ملکوں کے امور میں مداخلت کے در پے ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف ہم سے دشمنی کا برتاؤ کر رہا ہے اور دوسروں سے اس کی بڑی دوستی ہے۔ نہیں، آپ نے ترکی میں دیکھا۔ البتہ ابھی ہماری نظر میں اس کے ثبوت نہیں ہیں، لیکن محکم الزام ہے کہ ترکی میں جو فوجی بغاوت ہوئی وہ امریکیوں کی پشت پناہی اور ان کی تدابیر سے ہوئی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے تو امریکا کے لئے بڑی رسوائی کی بات ہوگی۔ ترکی وہ ملک ہے جس کے امریکا سے اچھے تعلقات تھے، وہ خود کو امریکا کا علاقائی اتحادی کہتا تھا۔ لیکن ان کی ترکی سے بھی نہیں بن سکی۔ اس لئے کہ اس ملک میں اسلامی رجحان موجود ہے۔ امریکا اسلام کا دشمن ہے۔ اسلامی رجحان کا دشمن ہے۔ لہذا اس ملک میں بھی فوجی بغاوت کرواتا ہے۔ البتہ اس بغاوت کو کچل دیا گيا، باغیوں پر غلبہ حاصل کر لیا گيا ہے اور وہ ترک عوام کی نگاہ سے بھی گر گئے۔ دوسری جگہوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ عراق میں بھی، شام میں بھی، اسی طرح دوسرے خطوں میں بھی امریکا روز بروز زیادہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
اگر ہم ایرانی عوام اللہ کے وعدے پر یقین رکھیں اور اس کی تکمیل کے مقدمات فراہم کریں تو مشکلات دور ہو جائیں گی۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ: اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (۵) اگر تم دین خدا کی نصرت کرو گے، الہی عزائم کو مستحکم بناؤں گے اور مدد کروگے تو یقینا اللہ تعالی بھی تمہاری نصرت فرمائے گا اور جس کی مدد اللہ کرتا ہے، دنیا کی کوئی بھی شئے اسے کمزور نہیں بنا سکتی، روز بروز اس کی طاقت بڑھتی ہی جائے گی اور اسے فتح ملے گی۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ملت ایران کو تمام میدانوں میں، اقتصادی میدان میں، عسکری میدان میں، سیاسی میدان میں، ثقافتی میدان میں، علمی میدان اور سیکورٹی کے میدان میں فتحیاب کرے اور آپ عزیز ملت ایران کو کامیاب و کامران بنائے۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) سوره احزاب، آیت نمبر۲۳ کا ایک حصہ؛ «مومنین میں سے کچھ مرد ایسے ہیں جنھوں نے اللہ سے کیا ہوا میثاق سچ کر دکھایا۔»
۲) سوره توبه، آیت نمبر۳۶ کا ایک حصہ؛ «... ان (بارہ مہینوں) میں سے چار مہینے (ماہ) حرام ہیں۔»
۳) حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے ذاکرین اہل بیت سے خطاب مورخہ 9 اپریل 2015
۴) سوره ابراهیم، آیت نمبر22 کا ایک حصہ
۵) سوره محمّد، آیت نمبر ۷ کا ایک حصہ
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختلف طلبہ تنظیموں کے نمائندوں سمیت ایک ہزار سے زائد طلبہ سے ملاقات میں مختلف موضوعات کے بارے میں گفتگو کی۔
فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مشہد مقدس میں واقع روضہ اقدس میں محفل مقاصدہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مشہد کے فارسی زبان شعرا نے اپنے اشعار پیش کئے۔ شعرا کا کلام سننے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے مختصر تقریر میں مشہد مقدس میں شعری فن و ذوق کی تاریخ اور ارتقا کا جائزہ لیا اور شعرا کی ذمہ داریوں کے تعلق سے اہم ہدایات دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے اعلی عہدیداران، اسلامی ملکوں کے سفیروں اور عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں فرمایا کہ استکباری طاقتیں اور ان میں سر فہرست امریکا، علاقے اور عالم اسلام میں پھیلی بد امنی اور دہشت گردی کا سرچشمہ ہے۔
کریم اہل بیت حضرت امام حسن علیہ السلام کی شب ولادت، ایران، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان کے کچھ شعرا و ادبا نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں، سائنس و ٹیکنالوجی کے پارکوں اور علمی و تحقیقاتی مراکز کے اساتذہ، محققین اور ممتاز علمی شخصیات سے ملاقات میں ایران کو مقتدر، باوقار، پوری طرح خود مختار، دولتمند، مساوات سے آراستہ، عوام دوست، پاکدامن، محنتی، ہمدرد اور پرہیزگار حکومت رکھنے والی ریاست بنانے کیلئے بیس سالہ اہداف کا خاکہ کھینچا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1395/03/25 ہجری شمسی 14 جون 2016 کو مقننہ، عدلیہ اور مجریہ کے سربراہوں، اعلی حکام، سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعبوں کی شخصیات سے ملاقات میں بنیادی توانائیوں کی توسیع کو ملک و قوم کی طاقت اور تحفظ کا باعث قرار دیا۔
ماہ مبارک رمضان کی پہلی تاریح کو شام کے وقت 'محفل انس با قرآن' کا انعقاد ہوا۔ تین گھنٹے تک چلنے والی اس نورانی نشست میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی شرکت کی۔ روحانیت و معنویت کی خوشبو سے معمور اس محفل میں ملک کے آٹھ قاریوں اور حافظوں نے کلام اللہ کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی جبکہ اجتماعی قرآنی خوانی کے گروہوں نے مدح و ثنائے پروردگار کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1395/03/16 ہجری شمسی مطابق 5 جون 2016 کو نو تشکیل شدہ دسویں پارلیمنٹ کے اسپیکر اور ارکان سے ملاقات میں پارلیمنٹ 'مجلس شورائے اسلامی' کی سرلوحہ امور کی حیثیت اور اقتدار و عظمت کو قائم رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا اور ایوان کے اندر بہترین انداز میں قانون سازی کئے جانے کے لوازمات کا ذکر کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعے کی صبح امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اور پرشکوہ اجتماع سے خطاب میں امام خمینی کو مومن، مطیع پروردگار اور انقلابی شخصیت قرار دیتے ہوئے ملت ایران کے انقلابی قائد کے راستے پر گامزن رہنے پر تاکید کی اور اسے عوام اور اسلامی نظام کی امنگوں کی تکمیل کا واحد راستہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1395/03/06 ہجری شمسی مطابق 26 مئی 2016 کی صبح نو منتخب پانچویں ماہرین اسمبلی کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں اس اسمبلی کو ایک عظیم ادارہ قرار دیا اور اس اسمبلی کی انقلابی روش اور شناخت کی تشریح کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ اسلامی نظام کی بقا و پیشرفت اور انقلاب کے اہداف کی تکمیل کا واحد راستہ ملک کا حقیقی معنی میں مقتدر ہونا اور جہاد کبیر یعنی دشمن کی ہرگز پیروی نہ کرنا ہے۔
3 خرداد مطابق 23 مئی کا دن اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کا بڑا اہم دن ہے، آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران اس دن بیت المقدس نامی افتخار آمیز فوجی آپریشن کے نتیجے میں خرمشہر کو قابض بعثی فوج سے آزادی ملی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے قرآن کریم کے 33ویں بین الاقوامی مقابلوں کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی کو قوت و طاقت کا اصلی سرچشمہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ امریکا 'طاغوت اعظم' اور 'شیطان اکبر' ہے۔
بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موقع پر جمعرات کی صبح اسلامی نظام کے عہدیداروں اور تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں نیز شہدا کے اہل خانہ نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔1395/02/16 ہجری شمسی مطابق 5 مئی 2016 کو ہونے والی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر اسلام سے لیکر اب تک دو رجحانوں بعثت اور جاہلیت کے جاری رہنے کا حوالہ دیا۔
بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے موقع پر جمعرات کی صبح اسلامی نظام کے عہدیداروں اور تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں نیز شہدا کے اہل خانہ نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 13 اردیبہشت 1395 ہجری شمسی مطابق 2 مئی 2016 کو ملک بھر کے ہزاروں اساتذہ سے ملاقات میں اس صنف کی زحمتوں اور کوششوں کی قدردانی کرتے ہوئے آئندہ نسل کی حریت پسندی، عزت نفس اور دینداری کا تشخص رکھنے والی اور ممتاز اوصاف کی حامل اور رجحان ساز نسل کے طور پر تربیت کو اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے شعبے کا بنیادی فریضہ قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1395/02/08 ہجری شمسی مطابق 27 اپریل 2016 کو بدھ کی صبح یوم مئی کی مناسبت سے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انقلاب اور اسلامی نظام کے تعلق سے اس صنف کی وفاداری اور ثبات قدم کی قدردانی کی۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 1395/02/01 ہجری شمسی مطابق 20 اپریل 2016 کو ملک بھر کی اسلامی طلبہ یونینوں کے ہزاروں ارکان سے ملاقات میں فرمایا کہ استکباری محاذ سے اسلامی جمہوری نظام کی مقابلہ آرائی کا ایک اہم میدان نوجوان نسل ہے۔
عالم تشیع اور عالم اسلام کی مایہ ناز ہستی اور صاحب رائے مذہبی پیشوا آیت اللہ سید محمد باقر الصدر کے یوم شہادت 8 اپریل 1980 کی برسی کی مناسبت سے ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے شہید سید محمد باقر الصدر اسٹڈی سینٹر کے ارکان سے ملاقات میں آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کے خطاب کے کچھ اقتباسات شائع کئے اور اس کی ویڈیو بھی اپ لوڈ کی۔ یہ ملاقات 15اگست 2016 کو انجام پائی۔ منتخب اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ہجری شمسی کیلنڈر کے نئے سال 1395 کے آغاز پر مقدس شہر مشہد میں فرزند رسول حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں زائرین اور خدام کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کلیدی مسائل اور امور کا جائزہ لیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 11 فروری کو جشن انقلاب میں عوام کی پرشکوہ اور تاریخی شرکت کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے عوام کے عزم راسخ، استقامت اور بیداری کی نشانی قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فوج کی فضائیہ کے کمانڈروں اور اہلکاروں سے ملاقات میں جشن انقلاب کے دن گیارہ فروری کے جلوسوں میں عوام کی نمایاں اور 'دشمن شکن' شرکت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ چھبیس فروری کے دن انتخابات میں بھی عوام کی ہمہ گیر شرکت ایک نئی روح کی طرح ایران اور اسلامی نظام کی عزت و قوت کی ضامن بنے گی اور عیار و مکار دشمن کی سازشوں کو نقش بر آب کر دیگی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے 30 دی 1394 ہجری شمسی مطابق 20 جنوری 2016 کو انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار اداروں کے عہدیداران اور کارکنوں سے ملاقات میں انتخابات کے تعلق سے بہت بہت اہم نکات بیان کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 9 جنوری 1978 کو شہر قم کے تاریخ ساز عوامی قیام کی سالگرہ کے موقع پر قم سے آنے والے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں اہل قم کے اس تاریخی قدم کی ستائش کی اور اسلامی انقلاب کے دوام کے عوامل پر روشنی ڈالی
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک بھر کے ائمہ جمعہ سے ملاقات میں فرمایا کہ نماز جمعہ کے لئے چھاونی کا لفظ اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ ہم روحانی، اعتقادی، ایمانی و سیاسی جنگ میں شامل ہیں جو مقدس دفاع کی طرح ہمارے اوپر مسلط کر دی گئی ہے، بنابریں دفاع لازمی اور ضروری ہے۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملت ایران کے اندر دفاع نفس کی بھرپور توانائی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس جنگ میں عوام کے ایمان، بصیرت، تقوی اور اخلاقیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور معاشرے کے اندر بڑے خطرناک وائرس پھیلائے جا رہے ہیں۔
پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت 17 ربیع الاول کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداران، تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اور وحدت اسلامی کانفرنس میں شرکت کے لئے تہران آنے والے مندوبین، نیز مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد نے منگل کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا کے پیدل سفر کے بامعنی اور پرمغز عمل میں شرکت کی توفیق حاصل کرنے والوں کی عراقی عوام کی طرف سے محبت آمیز اور پرتپاک پذیرائی و خدمت کا ذکر کرتے ہوئے سفارش کی کہ ان لمحات کی قدر کی جانی چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم بھی دور سے اربعین حسینی کے زائرین کو دیکھ کر رشک اور یہ آرزو کرتے ہیں کہ 'اے کاش ہم بھی آپ کے ساتھ ہوتے!'
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رضاکار فورس 'بسیج' کے ڈھائی ہزار کمانڈروں سے ملاقات میں اس ادارے کو بابرکت اور بالیدگی کی منزلیں طے کرنے والا ملت ایران کا نمائندہ ادارہ قرار دیا اور ملت ایران سے استکباری طاقتوں کی دشمنی کی روشوں کی تشریح کرتے ہوئے زور دیکر کہا کہ خود مختاری اور تشخص کی حفاظت کے لئے کوشاں محاذ کے خلاف استکباری محاذ کی حقیقی جنگ میں ملت ایران مظلومین بالخصوص شجاع ملت فلسطین اور غرب اردن کی تحریک انتفاضہ کی حمایت کے اپنے فریضے پر عمل کرے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے25 نومبر 2015 کو اپنے اس خطاب میں پانچ آذر مطابق چھبیس نومبر کے دن کی مبارک باد دی جس دن رضاکار فورس 'بسیج' کی تشکیل کا فرمان جاری ہوا تھا اور اس فرمان کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ہنرمندی اور ایک بابرکت و تخلیقی حقیقت سے تعبیر کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ بعض ملکوں میں گھٹن کے ماحول میں مزاحتمی گروہوں کی تشکیل کا ماضی رہا ہے، لیکن یہ چیز کہ مزاحمتی گروہ تحریک کی فتح کے بعد بھی باقی رہیں، بالیدگی کی منزلیں طے کریں اور تعداد اور معیار کے اعتبار سے ان میں توسیع پیدا ہو، صرف رضاکار فورس 'بسیج' کا طرہ امتیاز ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عوامی رضاکار فورس 'بسیج' کی صحیح تعریف پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'بسیج' کا ادارہ عوام کے اندر سے نکلا ہے اور عوام کی نمائندگی کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ 'بسیجی' عوام الناس کا حصہ ہوتے ہیں جو عظیم خدائی اہداف کے لئے اور ہر تھکن سے نابلد جذبے کے ساتھ، ہر اس میدان میں جہاں ان کی ضرورت پڑے، اتر پڑتے ہیں، اپنی استعداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس راستے کے خطرات سے بھی نہیں گھبراتے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحیم (۱)
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین و لعنة الله علی اعدائهم اجمعین.
آپ برادران و خراہران عزیز نے یہاں تشریف لاکر ہمیں شرف بخشا اور اس حسینیہ کو اپنی سانسوں کی خوشبو، دلوں میں امڈتی محبت اور عزیز کمانڈروں نے اپنی تقاریر سے معطر فرمایا، رضاکار فورس کی خوشبو سے معمور کر دیا۔ رضاکار فورس کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہئے، اس سے محظوظ ہونا چاہئے، اس حیرت انگیز اور بابرکت ادارے کی حقیقت کا صحیح طور پر ادراک کرنا چاہئے۔ رضاکار فورس کے یوم تشکیل کی سالگرہ کی آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ آپ تمام برادران و خواہران گرامی اور آپ کی ماتحتی میں کام کرنے والے تمام افراد حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی خوشنودی کا باعث بنیں گے، آقا آپ سب سے راضی ہوں گے، آپ کے لئے دعا فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ آپ دنیا و آخرت میں اپنے دلوں کے ان مقدس انوار کے ساتھ، اپنے اس جسم و جان کے ساتھ محشور ہوں گے۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں یہاں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلی چیز یہ عرض کرنی ہے کہ رضاکار فورس ایک اختراعی حقیقت ہے، اس معنی میں نہیں کہ دیگر ممالک میں اور دوسری جگہوں پر عوامی مزاحمتی فورس تشکیل نہیں پائی، بیشک تشکیل پائی ہے، ہم اس سے واقف ہیں، لیکن دنیا کے مختلف ملکوں میں، مشرق و مغرب میں تشکیل پانے والی عوامی مزاحتمی فورس، عام طور پر گھٹن کے ماحول میں، دباؤ اور سختیوں کے حالات میں، جدوجہد کے دور میں نظر آتی ہے۔ جب جدوجہد کا مرحلہ ختم ہو جاتا ہے تو یا تو یہی گروہ اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں، یا ان کی مدد سے دوسرے لوگوں کو اقتدار مل جاتا ہے اور یہ مزاحمتی فورس وہیں ختم ہو جاتی ہے اور یہ عوامی نیٹ ورک منتشر ہو جاتا ہے۔ دنیا میں یہی چیز رائج ہے۔ افریقا، یورپ اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں عوام مزاحمتوں سے جو لوگ واقف ہیں، انھیں یہ حقیقت معلوم ہے۔ مثال کے طور پر الجزائر پر فرانس کے قبضے کے دوران، عوامی مزاحمتی تنظیمیں تشکیل پائیں۔ انھوں نے برسوں لڑائی لڑی۔ شاید تقریبا آٹھ دس سال جنگ چلی۔ انھوں نے بڑی سختیاں اٹھائیں، لیکن جب انقلابی حکومت تشکیل پا گئی تو پھر ان تنظیموں کا کہیں کوئی نام و نشان باقی نہیں رہا۔ ان میں بعض اقتدار میں پہنچ گئیں۔ بعض نے پارٹیاں بنا لیں، مگر ان مزاحمتی تنظیموں کا نام باقی نہیں رہا۔ اسی طرح فرانس پر جرمنی کے قبضے کے دوران مزاحمتی تنظیمیں بنی تھیں۔ لیفٹسٹ، رائٹسٹ، میانہ رو۔ سب نے خوب جنگیں بھی لڑیں۔ لیکن جب قبضہ ختم ہوا اور حکومت تشکیل پا گئی تو پھر ان مزاحمتی تنظیموں کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ سب ختم ہو گئیں، لوگ چلے گئے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ تنظیمیں یا تو اقتدار میں پہنچ گئیں اور اقتدار میں پہنچنے کے بعد ان مصیبتوں میں گرفتار ہو گئیں جو اقتدار سے جڑی ہوتی ہیں۔ یہ چیز اس حقیر نے بعض ملکوں میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ وہی لوگ جو محاذوں پر برسوں لڑے، زمین پر بیٹھے، گرد و خاک کی چادر اوڑھی، وہی اقتدار میں پہنچے تو اپنی حکومت کے زمانے میں انھوں نے بھی وہی رویہ اور طرز عمل اختیار کر لیا جو مثال کے طور پر ان کے اقتدار میں پہنچنے سے قبل (قابض) پرتگالی کمانڈر کا رویہ تھا۔ ان کا طور طریقہ بھی ویسا ہی ہو گیا۔ کوئی فرق نہیں رہا۔ جدوجہد کا مقصد اقتدار کا حصول تھا۔ میں نے متعدد مقامات پر خود اس چیز کا مشاہدہ کیا ہے۔ حالات یہ ہو جاتے تھے کہ یہ لوگ گویا اپنی ماہیت ہی تبدیل کر لیتے تھے۔ یا پھر کچھ دوسرے لوگ اقتدار میں پہنچتے تھے اور یہ تنظیمیں سیاسی جماعتیں تشکیل دیتی تھیں۔ انھیں کچھ ملکوں میں یہ پارٹیاں موجود ہیں، ان کی جدوجہد بھی اقتدار کے حصول کی لڑائی تھی۔ اس وقت مغربی ملکوں کی جماعتوں اور انھیں کے نہج پر دنیا کے دیگر ملکوں میں سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مقصد ہے اقتدار کا حصول۔ یعنی ایک جماعت جدوجہد کرتی ہے اس لئے کہ اسے اقتدار مل جائے۔ پھر دوسری پارٹی یہی اقتدار اپنے قبضے میں کرنے کے لئے جدوجہد میں مصروف ہو جاتی ہے۔ یعنی آج دنیا میں جن تنظیموں کو سیاسی پارٹی کہا جاتا ہے وہ اپنے نقطہ نگاہ کے مطابق کچھ خاص اعلی مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں نہیں ہیں۔ اوائل انقلاب میں ہمارے ذہنوں میں جماعت کے یہی معنی ہوا کرتے تھے۔ آج دنیا میں وہ ذہنیت نہیں ہے۔ آج اصلی ہدف یہ ہے کہ ایک گروہ تشکیل پائے جو ڈٹ کر محنت کرے اقتدار کے حصول کے لئے۔ جب اقتدار مل جائے تو پھر گزشتہ حکومت کے ڈھرے پر وہ بھی چل پڑے، کہیں کوئی بنیادی تبدیلی نہ ہو۔ مختصر یہ کہ مزاحمتی تنظیمیں فتح ملنے کے بعد منحل ہو جاتی تھیں، ناپید ہو جاتی تھیں، ختم ہو جاتی تھیں۔ یہ چیز کہ مزاحمتی تنظیمیں، پانی کے بہاؤ کی طرف، بہتی ہوئی ندی کی مانند، فتح کے بعد بھی باقی رہیں اور روز بروز ان میں شگوفائی پیدا ہو، ان کی آگاہی میں اضافہ ہو، ملک کی ضرورت کے مطابق مختلف میدانوں میں تنظیمی سطح پر شرکت کریں، تعداد اور کوالٹی کے اعتبار سے ان میں فروغ پیدا ہو، نئی نئی چیزیں حاصل کریں۔ نئے مقابلوں میں اپنا کردار ادا کریں، جیسا کہ ہماری رضاکار فورس کر رہی ہے۔ دنیا میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساری دنیا کے لئے یہ ایک نئی چیز ہے۔
یہ امام (خمینی رحمۃ اللہ) کا کارنامہ تھا۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے عوامی حلقوں کی مدد سے رضاکار فورس کی تشکیل کی۔ یہ عوام سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ رضاکار فورس یہی مختلف عوامی طبقات میں موجود افراد ہیں۔ وہی افراد جو یونیورسٹیوں میں ہیں، کھیتوں میں مصروف عمل ہیں، بازاروں میں ہیں، مختلف اداروں میں کام کرتے ہیں، رضاکار فورس کا حصہ ہیں۔ یہی لوگ رضاکار دستوں کا حصہ ہیں۔ رضاکار فورس در حقیقت افراد ملت کے درمیان سے انجام پانے والا خاص انتخاب ہے۔ یہ قوم کا نمائندہ گروہ ہے۔ یہ ہے رضاکار فورس کی ماہیت ہے۔ اس کی تشکیل امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کی اور پھر اس میں روز بروز وسعت پیدا ہوتی گئی۔ اس کے اندر سے بڑی عجیب، عظیم اور بڑی نمایاں چیزیں نکلیں۔ پاسداران انقلاب فورس کے ہمارے بہت سے کمانڈر جو شہید ہوئے یا بحمد اللہ بقید حیات ہیں اور آپ ان کے بارے میں مبہوت کن باتیں سنتے ہیں یا تحریروں میں پڑھتے ہیں، یہ سب رضاکار فورس کے کارکن ہیں۔ یہ لوگ رضاکار فورس کے کارکن کی حیثیت سے وارد میدان ہوئے۔ ان کے لئے لازمی نہیں تھا، مگر وہ پھر بھی رضاکارانہ طور پر مقدس دفاع کے میدان میں اترے، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں اور وہ مایہ ناز کمانڈر بن گئے۔ جیسے شہید باقری، شہید کاظمی، شہید بروجردی اور دوسرے بے شمار افراد۔ یہ میدان جنگ کی بات ہے۔ دوسرے میدانوں میں بھی یہی چیز نظر آئی۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں عظیم کارنامے انجام دینے والوں میں بڑی تعداد یا ماضی میں رضاکار فورس کا حصہ تھی، یا آج بھی اس فورس کے کارکنوں میں شامل ہے۔ خواہ ان کا نام رضاکار فورس کے کارکنوں کی فہرست میں شامل نہ ہو۔ مگر وہ پھر بھی خود کو رضاکار مانتے ہیں۔ یہی جوہری سائنسداں جو شہید ہو گئے؛ رضائی نژاد، احمدی روشن، شہریاری، علی محمدی اور دوسرے بہت سے افراد جنھوں نے جوہری ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی امور میں موثر کردار ادا کیا۔ یہ چیز ہم نے قریب سے دیکھی ہے۔ حقیقت میں یہ سب رضاکار ہیں۔ بسیج (رضاکار فورس) کی واضح تعریف ہے؛ وہ عام افراد جو بلند الہی اہداف کے لئے، بلند ہمتی کے ساتھ، جہاں ضرورت پڑ جائے بیچ میدان میں نظر آئیں، اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں، جو کچھ ان کے پاس ہے پیش کر دیں، اس راہ کے خطرات سے ذرہ برابر نہ ڈریں، یعنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہوں۔ ظاہر ہے یہ چیزیں زبان سے کہہ دینا آسان ہے کہ فلاں اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہے، لیکن عملی طور پر یہ کام آسان نہیں ہے۔ رضاکار وہ انسان ہے جو اس دشوار کام کے لئے، یعنی جان قربان کرنے کے لئے، بلکہ وہ چیزیں بھی نچھاور کرنے کے لئے آمادہ ہو جو اسے جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ یہ ہیں بسیج (رضاکار فورس) کے معنی۔ یہ ہمارے ملک کی انفرادی خصوصیت ہے، یہ اسلامی انقلاب کی خصوصیت ہے، اس کا تعلق اسلامی جمہوریہ سے ہے۔
رضاکار فورس کی ایک اہم خصوصیت، وسیع پیمانے پر اس کی شراکت ہے، جسے اسی طرح قائم رکھنا چاہئے، ہر جگہ؛ فوجی میدانوں میں، علم و دانش کے میدانوں میں، فن و ہنر کے میدانوں میں۔ شہید آوینی بھی ایک رضاکار ہی ہیں۔ اسی طرح آرٹ اور فنون لطیفہ کے مختلف میدانوں میں سرگرم انسان ایک رضاکار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان اور معروضی حالات میں اقتصادی میدان میں بھی (رضاکار اپنا کردار ادا کر سکتا ہے)۔ میں نے حکومتی عمائدین سے بھی سفارش کی اور کہا کہ رضاکار فورس مزاحمتی معیشت کے میدان میں تعاون کرنے اور سرگرمیاں انجام دینے کے لئے آمادہ ہے۔ البتہ رضاکار فورس اور پاسداران انقلاب فورس کے ہمارے عزیز کمانڈر بہت محتاط رہیں! اقتصادی سرگرمیوں کے میدان میں قدم لڑکھڑا جاتے ہیں۔
«چو گِل بسیار شد پیلان بلغزند» (۲)
اس کا خیال رہے۔ میں بعد میں بھی اس پر گفتگو کروں گا۔ دشمن کا ایک جال یہی مالیاتی و اقتصادی اور اس جیسے دیگر امور ہیں، لہذ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انسان ہمیشہ امتحان کی منزل میں رہتا ہے۔ اسے آپ جان لیجئے! خیر، آپ یہ بخوبی جانتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں یہ چیز بالکل واضح ہے۔ یعنی انسان اگر 'بلعم باعورا' بھی ہو جائے، کہ بارگاہ خداوندی میں جس کی دعا ہرگز رد نہیں ہوتی، جو دعا بھی وہ کرتا ہے مستجاب ہوتی ہے، اس مقام پر پہنچ جائے تب بھی، اس کے قدم ڈگمگا جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، ممکن ہے اس کے قدم بھی لڑکھڑا جائیں۔ ایک راستہ ہے جس سے آپ چڑھائی چڑھ رہے ہیں۔ اس راستے سے اوپر جاتے وقت ہر لمحہ، ہر آن اور ہر قدم آپ کے سقوط کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ہر لمحہ، آپ جتنی زیادہ بلندی پر پہنچیں گے سقوط اتنا زیادہ خوفناک، خطرناک اور سخت ہوگا۔ بہت محتاط رہنا چاہئے۔ اس احتیاط کی بابت بھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ مختصر یہ کہ رضاکار فورس کی ان تمام میدانوں میں جس کا ہم نے ذکر کیا اور جن کا ذکر نہیں کیا مگر وہ رضاکار فورس کی سرگرمیوں کے لئے مناسب ہیں، وسیع سطح کی شرکت بھی اس ادارے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ رضاکار فورس کی شرکت کا مطلب ہے عوام کی شراکت۔ اگر کسی جگہ رضاکار فورس موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں عوام موجود ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا؛ 'بسیج' در حقیقت ملت ایران کا نمونہ اور آئینہ ہے۔ یہ پوری قوم کا ایک نمونہ اور نشانی ہے۔ یہ موجودگی ظاہر ہے کہ اعلی اہداف اور آرزوؤں کی حفاظت کے لئے ہے، اقدار کے دفاع کے لئے ہے، انقلابی تشخص اور ملی شناخت کی حفاظت کے لئے ہے۔ اس ملت اور اس ملک کو اس کے شایان شان مقام و منزل تک پہنچانے کے لئے ہے۔ اس مقام تک جس کا تعین انقلاب کی برکت سے ہوا ہے اور قوم جس کی جانب رواں دواں ہے۔ رضاکار فورس کی شراکت اور موجودگی کا یہ مطلب ہے۔ اسے دفاع کرنا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ رضاکار فورس کو دفاع کرنا ہے تو ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا کہیں سے کوئی حملہ ہو رہا ہے جو دفاع کرنا ہے؟ کیا کوئی دشمن سامنے ہے جس کی مزاحمت کرنی ہے؟ یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے۔ آپ اس سوال کا جواب بخوبی جانتے ہیں۔ بیشک دشمن موجود ہے۔ یہ عیار، چالاک، وسائل سے لیس، دھوکے باز اور شیطان صفت دشمن ہے جو اس عظیم تحریک کے راستے کی رکاوٹ ہے۔ وہ دشمن کون ہے؟ استکبار!
آج استکبار کا مظہر امریکا ہے، ایک زمانے میں برطانیہ ہوا کرتا تھا۔ یہ دشمن کبھی بیکار نہیں بیٹھتا، ہمیشہ مصروف رہتا ہے، دائمی طور پر اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔ جناب جنرل جعفری صاحب نے اپنی تقریر کی ابتدا میں جو تجزیہ پیش کیا وہ بالکل درست تجزیہ ہے۔ آج دنیا میں استکباری مہم سے اقدار، قومی شناخت اور خود مختاری کی مہم کا، جس کا مظہر اسلامی انقلاب یا اسلامی جمہوریہ ہے، تصادم جاری ہے۔ آج دنیا میں یہ تنازعہ چل رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ دوسرے تنازعات نہیں ہیں، دوسرے جھگڑے بھی ہیں، ظاہر ہے کہیں کوئی مردار پڑا ہوگا تو اس کے لئے کتوں میں لڑائی بھی ہوگی، وہ آپس میں لڑیں گے۔ یہ تو ہے ہی، لیکن اصلی جھگڑا وہی ہے۔ اصلی محاذ اور اصلی صف آرائی وہی ہے۔ تو دشمن موجود ہے اور یہ دشمن بہت چوکنا بھی ہے۔ آج اس استکبار کا مظہر امریکا ہے، البتہ یہ استکبار کا سیاسی پہلو ہے، کیونکہ استکبار صرف سیاسی پہلو تک محدود نہیں ہے، استکبار کے مالیاتی پہلو بعض اوقات زیادہ موثر اور اہم ہو جاتے ہیں۔ جیسے یہ دنیا کی بڑی کمپنیاں ہیں جن کے پاس بہت زیادہ دولت ہے اور ان میں اکثریت کے مالک صیہونی ہیں، یہ استکباری نیٹ ورک ہے۔ یہ دائمی طور پر مصروف کار ہیں۔ یعنی در حقیقت پیسہ اور طاقت دونوں چیزیں ہیں۔ یہ جو 'زر زور اور تزویر' (بالترتیب دولت، طاقت اور عیاری) کے مثلث کی بات کہی گئی ہے بالکل بجا ہے۔ قدیم زمانے میں جب ہم کہتے تھے؛ 'زر زور تزویر' تو تزویر سے ہماری مراد ہوتی تھی دین کی آڑ لیکر اپنا کام انجام دینا۔ یعنی کچھ عناصر دین کا لبادہ اوڑھ کر آتے تھے اور میدان صاف کرتے تھے، راستہ ہموار کرتے تھے زر و زور کے لشکر کی پیش قدمی کا۔ مگر اب 'تزویر' سے مراد صرف دین کے نام پر عیاری کرنا نہیں ہے، بلکہ اس میں سیاسی عیاری بھی شامل ہو گئی ہے۔ یعنی سیاسی ادارے، سفارتی ادارے بڑی شد و مد سے عیاری، سازش اور منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجائے نمودار ہوتے ہیں، پرتپاک انداز میں آپ کی سمت لپک کر آتے ہیں اور عین اسی وقت، جیسا کہ آپ نے بعض فلموں میں دیکھا ہوگا، فریق مقابل کو گلے لگاتے ہیں اور اپنا خنجر اس کے دل میں پیوست کر دیتے ہیں۔ یعنی آج اس عیاری کے دائرے میں سیاسی اور سفارتی عیاری کا بھی اضافہ ہو گیا ہے، لہذا اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے یہ دشمنی ہے۔ یہ دشمنی مختلف شکلوں میں ظاہر ہو سکتی ہے۔ ان چیزوں پر ہماری توجہ رہنی چاہئے۔ یعنی ان باتوں کو ہم بار بار دہرائیں اور مشق کریں تاکہ کبھی فراموش نہ کریں اور وہی اقدام کریں جو کرنا چاہئے۔ ہم سب کو، ملک کے سیاسی رہنماؤں کو، اعلی عہدیداران کو، آپ عزیز رضاکاروں اور دوسرے سرگرم عناصر جو کام کر رہے ہیں، فکر و تدبر میں مصروف ہیں، سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے۔
دشمنی کا ایک انداز یہ ہے کہ ہتھیار سے حملہ کیا جائے، بم ھماکہ کر دیا جائے، فائرنگ کر دی جائے، دہشت گرد بھیج دئے جائیں۔ دشمنی کی ایک اور قسم ہے جس میں نفسیاتی اور تشہیراتی حربے استعمال ہوتے ہیں۔ میں نے کچھ عرصے سے 'دراندازی' کا موضوع اٹھایا ہے۔ دراندازی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم جب دراندازی کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ چیں بجبیں ہو جاتے ہیں کہ جناب! یہ دراندازی کا مسئلہ جماعتی مسئلہ بن گیا ہے، اس سے ایک خاص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مجھے ان باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس کا جماعتی مفاد کے لئے استعمال نہ کیا جائے، دراندازی کے مسئلے میں عبث بحثیں نہ کی جائیں، بے جا اور بے محل اس موضوع کو نہ اٹھایا جائے۔ لیکن یہ اہم ہے کہ جو بات بھی کی جائے اور جو اقدام بھی انجام دیا جائے، اصلی قضیئے کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔ ہمیں ہرگز غافل نہیں ہونا چاہئے کہ دشمن دراندازی کی کوشش میں ہے۔ میں دراندازی کے بارے میں تھوڑی تشریح کرنا چاہوں گا کہ یہ دراندازی ہے کیا اور اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ اصلی ماجرا کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہئے۔ مختلف دھڑے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی نہ کریں کہ جناب آپ نے جو یہ بات کہی تو آپ کی مراد یہ تھی، دوسرا کہے کہ نہیں، بلکہ تم نے جو بات کہی تھی تو تمہاری مراد یہ تھی۔ مراد جو بھی ہو، لیکن یہ خیال رہے کہ اس قضیئے کے سلسلے میں غفلت نہ ہونے پائے۔ دشمن اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے میں مصروف ہے۔
دراندازی دو طرح سے ہوتی ہے۔ ایک دراندازی کسی خاص شخص اور فرد تک محدود ہوتی ہے اور ایک دراندازی پارٹی اور دھڑے کی سطح پر ہوتی ہے۔ کسی خاص شخص کی حد تک دراندازی کی مثالیں بہت ہیں۔ مثال کے طور پر آپ فرض کیجئے کہ آپ کا ایک ادارہ ہے جس میں آپ عہدیدار ہیں۔ آپ کے اس ادارے میں دشمن کسی شخص کو ماسک پہنا کر، میک اپ کرکے بالکل الگ شکل میں بھیجتا ہے۔ آپ یہ خیال کریں گے کہ وہ آپ کا دوست ہے۔ جبکہ وہ آپ کا دوست نہیں ہے۔ وہ بھیجا گیا ہے کہ اپنا کام انجام دے۔ کبھی اس کا کام جاسوسی کرنا ہوتا ہے، یہ سب سے کمترین چیز ہے۔ یعنی سب سے کم اہمیت جاسوسی کی ہے؛ معلومات حاصل کرنا اور انھیں منتقل کرتے رہنا۔ کبھی اس کی مہم جاسوسی سے بھی بالاتر ہوتی ہے۔ وہ آپ کا فیصلہ تبدیل کر دیتا ہے۔ آپ بڑے عہدیدار ہیں، ڈائریکٹر جیسا عہدہ رکھتے ہیں، اہم فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ کوئی بڑی کارروائی انجام دینا آپ کے اختیار میں ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ یہی کارروائی کسی خاص انداز سے انجام دیں تو اس سے دشمن کو فائدہ پہنچنے کے امکانات ہوں، اب وہ آتا ہے اور ایسے حالات بنا دیتا ہے، ایسے اقدامات انجام دیتا ہے کہ آپ خود بخود کارروائی کو اسی خاص انداز میں انجام دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ یعنی فیصلے کے مقدمات فراہم کر دیتا ہے۔ تمام اداروں میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ یہ چیز صرف سیاسی شعبے تک محدود نہیں ہے۔ دینی و مذہبی اداروں میں بھی یہ چیز دیکھنے میں آئی ہے۔ جناب حسن تہامی مرحوم ہمارے ملک کے بڑے علما میں سے تھے، جو بیرجند کے رہنے والے تھے۔ وہیں جاکر رہنے لگے تھے۔ بہت بڑے علما میں تھے۔ اگر وہ قم یا نجف میں سکونت پذیر ہوتے تو یقینا بڑے مراجع تقلید میں قرار پاتے۔ بڑے دانا انسان تھے۔ انھوں نے مجھے خود بتایا کہ جس زمانے میں عراق کے لوگ انگریزوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے، یہ 1918 کی بات ہے، تقریبا سو سال پرانی بات ہے۔ مراجع تقلید میں سے کسی کے یہاں ایک خادم ہوا کرتا تھا جو بڑا اچھا انسان تھا۔ طلبہ سے بڑے تپاک سے ملتا تھا، گفتگو کا دور رہتا تھا۔ سب سے جان پہچان اور دوستی تھی۔ انھوں اس شخص کا نام بھی بتایا تھا، لیکن مجھے یاد نہیں رہا۔ انھوں نے بتایا کہ جب انگریزوں کو غلبہ حاصل ہو گیا اور وہ عراق پر قابض ہو گئے۔ سب سے آخر میں وہ نجف اشرف میں داخل ہوئے تو طلبا کو معلوم ہوا کہ یہی آدمی جو ایک عالم دین کا خادم تھا در حقیقت ایک انگریز افسر ہے! انھوں نے کہا کہ مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے بعد انھوں نے بتایا کہ حویش بازار سے میں گزر رہا تھا جو نجف کا معروف بازار ہے، تو میں نے دیکھا کہ آٹھ دس انگریز افسر اور فوجی، گھوڑے پر سوار چلے آ رہے ہیں۔ اس زمانے میں آمد و رفت کے لئے گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ ان کے آگے آگے ایک بڑا افسر چل رہا تھا۔ میں کنارے کھڑا ہو گيا کہ یہ لوگ گزر جائیں۔ جب یہ لوگ قریب آئے تو جو افسر آگے آگے چل رہا تھا؛ گھوڑے کے اوپر سے بولا؛ جناب سید حسن صاحب! کیسا مزاج ہے؟! اب جو میں نے دیکھا تو واقعی یہ تو وہی آدمی تھا جو ایک مرجع تقلید کا خادم ہوا کرتا تھا۔ میں اسے برسوں سے دیکھ رہا تھا۔ تو کبھی دراندازی اس طرح کی ہوتی ہے۔ شخصی اور ایک فرد کی سطح پر ہوتی ہے۔ کسی کے گھر میں پہنچ جاتے ہیں، یا کسی ادارے میں گھس جاتے ہیں۔ سیاسی اداروں میں بھی اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ آج بھی ممکن ہے کہ ایسے افراد ہوں۔ یہ بھی خطرناک چیز ہے لیکن اس سے زیادہ خطرناک نیٹ ورک اور تنظیم کی سطح کی دراندازی ہے۔ نیٹ ورک کی سطح کی دراندازی سے مراد یہ ہے کہ کسی قوم کے اندر ایک نیٹ ورک تیار کر لینا۔ پیسے کے ذریعے، اور یہیں پر پیسے اور اقتصادی امور کا کردار واضح ہوتا ہے۔ بنیادی حربے دو ہیں؛ ایک ہے پیسہ اور دوسرے جنسیات۔ کچھ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرکے، ایک جگہ جمع کرکے کوئی فرضی اور جھوٹا ہدف پیش کر دیا جاتا ہے اور بااثر افراد کو، ایسے افراد کو جو معاشرے میں اپنا خاص اثر رکھتے ہیں، انھیں اپنے مطلوبہ اہداف کی سمت کھینچا جاتا ہے۔ مطلوبہ اہداف کیا ہیں؟ مطلوبہ اہداف ہیں؛ عقائد، نظریات، اعلی مقاصد، طرز فکر اور طرز زندگی کو تبدیل کرنا۔ ایسا جال بچھاتے ہیں کہ وہ شخص جس پر کام کیا جا رہا ہے، اس طرح متاثر ہوتا ہے کہ اسی انداز میں سوچنے لگتا ہے جس انداز میں ایک امریکی سوچ رہا ہے۔ یعنی ایسے انتظامات کرتے ہیں کہ آپ جب ایک خاص معاملے پر نظر ڈالیں تو اسی انداز سے سوچیں جس انداز سے ایک امریکی سوچتا ہے۔ البتہ امریکی سیاستداں اور امریکی عوام کا معاملہ الگ الگ ہے۔ یعنی آپ اس طرح سوچنے لگیں، جس طرح سی آئی اے کا اعلی افسر سوچتا ہے اور نتیجتا آپ بھی وہی چاہیں جو اس افسر کی مرضی ہو۔ اس طرح وہ خاطر جمع ہو جاتا ہے۔ اسے نہ خود کو خطرے میں ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ میدان میں آنے کی احتیاج ہوتی ہے، کیونکہ آپ خود اس کا کام انجام دے رہے ہیں۔ یہی ہدف ہے۔ دراندازی کا مقصد یہی ہے۔ جماعت اور نیٹ ورک کی سطح کی وسیع دراندازی کا یہی ہدف ہے۔ کسی ایک شخص تک محدود رہنے والی دراندازی کا معاملہ الگ ہوتا ہے۔ اگر دراندازی کرکے ان لوگوں پر دشمن اثر انداز ہو جائے جن کے ہاتھ میں ملک کے فیصلے ہیں، ملک کی سیاست ہے، ملک کے مستقبل کے تعلق سے جو بااثر افراد ہیں تو آپ اندازہ کر لیجئے کہ کیا نتیجہ نکلے گا؟ اعلی اہداف و مقاصد تبدیل ہو جائیں گے۔ اقدار تبدیل ہو جائیں گے۔ مطالبات بدل جائیں گے۔ نظریات دگرگوں ہو جائیں گے۔
آج جب آپ غور کرتے ہیں تو مسئلہ فسلطین کے بارے میں آپ یقین کے ساتھ یہ مانتے ہیں کہ ایک قوم پر کھلے عام ظلم ہو رہا ہے۔ اسے آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کا یہ زاویہ نگاہ ہے۔ مگر جب ایک عرب فلسطینی خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اپنے گھر کے اندر حملے کا نشانہ بن رہا ہے تو وہ ایک امریکی کی نگاہ میں قابل مذمت ہے۔ آپ کی نگاہ میں وہ مظلوم ہے۔ اب اگر وہ آپ کی فکر بدلنے میں کامیاب ہو جائیں تو آپ بھی اسی امریکی کے زاوئے سے سوچیں گے اور کہیں گے کہ اسرائیل اپنے تشخص کا دفاع کر رہا ہے۔ کیا اوباما نے یہی نہیں کہا؟! اسی دوران جب یہ (صیہونی) غزہ کے عوام کے سروں پر شب و روز بم برسا رہے تھے، نہتے عوام کو، ان کے گھروں کو، ان کی زندگی کو، ان کی کھیتیوں کو، ان کے بچوں کو، ان کے اسکولوں کو، ان کے اسپتالوں کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنائے ہوئے تھے، اسی دوران امریکی صدر نے کہا کہ اسرائیل اپنا دفاع کر رہا ہے! یعنی یہ طرز فکر ہے! نیٹ ورک سازی ہو جاتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مثال کے طور پر جو شخص ایران کے اندر زندگی بسر کر رہا ہے، یا کسی اور ملک میں رہتا ہے، اس کا طرز فکر بدل کر کچھ اور ہی ہو جائے۔ یہ ہے نفوذ اور دراندازی کا مطلب۔ آپ ذرا غور کیجئے یہ کتنی خطرناک چیز ہے؟!
اس دراندازی کا نشانہ کون لوگ بنتے ہیں؟ عام طور پر اہم شخصیات، با اثر افراد، عام طور پر وہ افراد جو اہم فیصلے کرتے ہیں یا اہم فیصلوں کے مقدمات تیار کرتے ہیں۔ ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے افراد پر کام کیا جاتا ہے۔ لہذا یہ دراندازی بہت خطرناک ہے، یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ صاحب! 'دراندازی کے مسئلے کو کچھ لوگ جماعتی مفادات کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔' تو یہ کہہ دینے سے اس قضیئے کی اہمیت کم نہیں ہو جائے گی۔ کوئی استعمال کرے یا نہ کرے، یہ حماقت ہے کہ کوئی اسے جماعتی مفاد کے لئے استعمال کرے۔ مگر یہ عین حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
فروعی جھگڑے اس دراندازی کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ اس دراندازی کی تکمیل میں مددگار واقع ہونے والی چیزوں میں سے ایک ان افراد کی کردار کشی کرنا ہے جو صحیح زاویہ فکر، اصولوں اور اقدار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس سے دراندازی میں مدد ملتی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ 'بسیج' کو غلط کہتے ہیں، اس پر انتہا پسندی اور نہ جانے کس کس چیز کا الزام لگاتے ہیں، وہ عمدا دراندازی کرنے والے عناصر سے تعاون کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ میں یہ دعوی نہیں کرتا۔ مجھے ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ اس سے مدد پہنچ رہی ہے۔ جو لوگ مختلف جگہوں پر، الگ الگ انداز سے 'بسیج' پر انتہا پسندی کے اور دوسرے گوناگوں الزامات لگاتے رہتے ہیں، وہ در حقیقت دراندازی کی سازش کی تکمیل کا کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی مدد سے دراندازی کا منصوبہ مکمل ہو رہا ہے۔ کیونکہ 'بسیج' فولادی محاذوں میں سے ہے، اس محکم محاذ کو کمزور نہیں کرنا چاہئے۔
میں سفارش کروں گا، نصیحت کروں گا ان تمام افراد کو جن کے پاس پلیٹ فارم ہیں اور وہ اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے ہیں، وہ انقلاب کے بنیادی اصولوں کو، ملک کے بنیادی اقدار کو کمزور نہ کریں۔ یہ ٹھیک نہیں کہ جیسے ہی کوئی اقدار اور اصولوں کی بات کرے فورا اس پر انتہا پسندی کا الزام لگا دیا جائے۔ یا محاذ بندی اور دھڑے بندی کا الزام لگا دیا جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ اصولوں کو غلط نہ ٹھہرائیں، انتہا پسندی کا الزام نہ لگائیں۔ انقلاب کے مسلّمہ اصولوں کا انکار نہ کریں۔ انقلاب میں کچھ مسلّمہ حقائق ہیں۔ اس انقلاب میں محکمات اور مسلّمات ہیں۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی تقاریر اور بیانوں کا بیس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل یہ مجموعہ موجود ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) انقلاب کا آئینہ تھے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) انقلاب کے ترجمان تھے، انقلاب کے حقائق بیان کرنے والے تھے۔ لوگوں کو چاہئے کہ جاکر دیکھیں کہ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے کن چيزوں پر تاکید فرمائی ہے۔ انقلاب کے مسلّمہ اصولوں کا انکار نہ کریں۔ یہ ان چیزوں میں ہے جن کی بڑی اہمیت ہے۔
میں رضاکار فورس کو بہت اہم مانتا ہوں۔ 'بسیج' کو حد درجہ اثر انگیز، بابرکت، اہم اور اچھے مستقبل کا ادارہ مانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ جو کوششیں انجام دی جا رہی ہیں، جو کام انجام پا رہے ہیں، جو کردار کشی ہو رہی ہے، اس سے رضاکار فورس میں کوئی کمزوری آنے والی نہیں ہے۔ رضاکار فورس کی جڑیں ان شاء اللہ روز بروز زیادہ گہری ہوں گی۔ 'بسیج' کا ادارہ ایک زمانے میں نازک پودے کی مانند تھا، مگر آج ایک تناور درخت بن چکا ہے اور فضل پروردگار سے اس میں اور بھی بہتری آئے گی۔ مگر آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس تناور درخت کو کوئی بیماری نہ لگنے پائے۔ یہ بات میں آپ لوگوں سے عرض کروں گا، آپ بہت محتاط رہئے۔ کبھی کچھ لوگ آری لیکر کسی تنومند درخت کو کاٹنے آتے ہیں تو انھیں روکا جا سکتا ہے۔ لیکن کبھی کوئی بیماری اس درخت کو اندر سے کھوکھلا کرنے لگتی ہے۔ اس کا علاج بہت دشوار ہوتا ہے۔
'بسیج' کی ایک ممکنہ بیماری غرور ہے۔ یہ سوچنا کہ ہم تو رضاکار ہیں، چنندہ افراد میں سے ہیں، گلدستے میں سجے پھولوں کی مانند ہیں، ہماری تعریفیں ہو رہی ہیں، ہم نے کتنی تعریفیں کیں! تو اب ہم دوسروں کی تحقیر کر سکتے ہیں۔ نہیں، یہ بیماری ہے۔ یہ مرض ہے۔ آپ جتنے بڑے ہوتے جائیں، جتنی زیادہ بلندی پر پہنچتے جائیں، آپ کے تواضع میں اتنا ہی اضافہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آپ کا خضوع و خشوع اتنا ہی بڑھ جانا چاہئے۔ آپ دیکھئے کہ ہم اور آپ بھی استغفار کرتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں؛ استغفرالله ربّی و اتوب الیه آپ اس استغفار کو دیکھئے اور ایک نظر امام زین العابدین علیہ السلام کے طریقہ استغفار پر ڈالئے۔ دعا ہم بھی پڑھتے ہیں، مگر ان دعاؤں کے دوران ہمارے تضرع کو آپ دیکھئے اور پھر حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا تضرع آپ کی مناجاتوں میں دیکھئے یا امام حسین علیہ السلام کا تضرع دعائے عرفہ میں دیکھئے، یا امام زین العابدین کا تضرع صحیفہ سجادیہ میں دیکھئے۔ وہ ہستیاں کہاں ہیں اور ہم کس مقام پر ہیں! لیکن ان کا تضرع اور گریہ و زاری ہم سے ہزارہا گنا زیادہ سنجیدہ ہے۔ ان کے استغفار میں بے حد گہرائی ہے۔ اپنی اس بے مثال عظمت و مرتبت کے باوجود، اس بندگی و تقوی کے باوجود امیر المومنین علیہ السلام دعائے کمیل میں عذاب الہی سے اپنا خوف ظاہر کرتے ہیں۔ آپ جتنی زیادہ بلندی پر پہنچ جائيں گے۔ اللہ کے سامنے اور خلق خدا کے سامنے خود کو اتنا ہی زیادہ حقیر اور ناچیز محسوس گے۔ دعائے مکارم الاخلاق میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دوسروں کی نظر میں ہم جتنی بلندی اور رفعت حاصل کریں، اپنی نظر میں؛ اِلّا حَطَطتَنی عِندَ نَفسی مثِلَها (3) دوسروں کی نظر میں ہماری منزلت جتنی زیادہ ہو، خود اپنی نگاہ میں ہمیں خود کو اتنا ہی خاکسار تصور کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر اتنی ہی زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اپنی کوتاہیوں کا اتنی ہی باریکی سے جائزہ لینا چاہئے۔ اپنی خامیوں پر اور اپنے نقائص پر اتنی ہی گہری نظر رکھنی چاہئے۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں۔ آپ نوجوان ہم سے بہت بہتر ہیں، لیکن بہرحال کچھ نقائص باقی رہتے ہیں۔ ہمیں اپنے ان نقائص پر اور زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ غرور اور خود پسندی ایک بیماری ہے۔ بہت محتاط رہئے۔ اس تصور کی بنیاد پر کہ آپ رضاکار ہیں، قربانی کے لئے تیار ہیں، جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں، آپ کے اندر غرور نہیں پیدا ہونا چاہئے۔
ایک اور بیماری غفلت ہے۔ غرور کے نتیجے میں جو چیزیں پیش آتی ہیں، ان میں ایک یہی غفلت ہے۔ جب انسان اپنی طاقت پر، اپنی توانائیوں پر، اپنے اقدار پر غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے، گویا ایک طرح سے اطمینان ہو جاتا ہے تو وہیں وہ غفلت میں دوچار ہوتا ہے۔ آپ غافل نہ ہوئیے، غفلت میں نہ پڑئے۔ ہمیشہ آپ کی آنکھیں کھلی رہنی چاہئیں، آنکھیں جاگتی رہیں، نظر باریک بینی کی عادی رہے۔
ایک اور بیماری زندگی کے زرق و برق میں مبتلا ہو جانا ہے۔ میں اتنے ہی پر اکتفا کرنا چاہوں گا۔ یہ بھی ایک طرح کا مقابلہ ہوتا ہے۔ زندگی کی زرق و برق کی جانب دوڑنا، تجملاتی اشیاء کی سمت بھاگنا، بہتر زندگی اور زیادہ آمدنی کی جانب دوڑنا۔ دوڑنا ایک طرح کا مقابلہ ہے۔ اہل دنیا اس مقابلے میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ افراد زیادہ چالاک ہوتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں تاکہ اربوں ہڑپ لیں، دوسرے افراد اتنے زیادہ زیرک نہیں ہوتے۔ لیکن اس دوڑ میں اہل دنیا جو دنیا پرست ہیں وہی شامل ہیں۔ آپ اس دوڑ میں شامل نہ ہوئیے! آپ یہ نہ کہئے کہ فلاں کے پاس تو ہے، فلاں نے کما لیا ہے، میرے ہاتھ خالی ہیں، میرے پاس بھی ہونا چاہئے۔ نہیں، یہ صرف رضاکار فورس کے لئے ایک بیماری نہیں بلکہ ہر مومن کو پیش آنے والی آفتوں میں سے ہے۔ ہم نے بہت سے افراد کو دیکھا جو اچھے انسان تھے، ہمدردی رکھنے والے افراد تھے، مگر جب وہ دنیا کے زرق و برق میں پڑ گئے تو رفتہ رفتہ زور ٹوٹتا گیا، توانائیاں کم ہوتی گئيں، جذبات ماند پڑتے گئے، جذبات کمزور ہو جائیں تو ارادے بھی کمزور ہو جاتے ہیں۔ ارادے کمزور ہو جائیں تو اس کا اثر انسان کے عمل میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ وہ ختم ہوکر رہ گئے۔ یہ ہیں آفتیں۔
اس وقت عوامی رضاکار فورس کی ترجیحات کیا ہیں؟ سب سے پہلی چیز ہے تقوا و پاکیزگی، تقوی و طہارت۔ جتنے بھی 'اہل معنی' گزرے ہیں، بزرگ اہل معنی اور جن میں بعض کی خدمت میں کبھی کبھی ہم حاضر ہوتے تھے، ان کی سفارش یہی رہتی تھی کہ گناہ نہ کیجئے! بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ کون سا 'ورد' پڑھا جائے کہ جو بہت اچھا ہو اور ہم بلند مقامات تک پہنچیں؟ وہ کہتے تھے کہ سب سے پہلا 'ورد' یہ ہے کہ گناہ نہ کیجئے۔ پہلا قدم یہی ہے۔ اگر یہ انجام دے دیا گيا تو آپ کی بہت سی مشکلات، روحانی مشکلات، معنوی مشکلات اور مادی مشکلات، رفع ہو جائیں گی۔ ہم سب گناہ کی زد پر ہیں، ہمارے قدم بہک جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت محتاط رہئے۔ اگر آپ اس احتیاط اور نگرانی میں کامیاب ہو گئے، تو یہی اپنے نفس کی نگرانی ہی تقوی ہے۔ تقوی جس کا قرآن میں بار بار ذکر ہوا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ اپنی نگرانی کیجئے کہ گناہ سرزد نہ ہو، کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ آپ کے قدموں کو ثبات عطا کرے گا۔ یہی احتیاط اور محاسبہ نفس رحمت خداوندی کے نزول کی تمہید بھی ہے، یہ زندگی میں برکتوں کا سبب بھی ہے۔ انسان کی زندگی، انسان کی عمر، انسان کی زندگی کے لمحات اور گھڑیاں تقوی کے نتیجے میں برکتوں سے مملو ہو جاتی ہیں۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔
دوسری سفارش ہے بصیرت۔ میں نے اپنی تقریروں میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا یہ جملہ بارہا نقل کیا ہے؛ الا ... وَ لا یَحمِلُ هَذَا العَلَم اِلّا اَهلُ البَصَرِ و الصَّبر (4) سب سے پہلے 'اہل بصر' یعنی وہ لوگ جن کی نظر ٹھیک ہے، جن کے اندر بصیرت ہے، جو ماحول کو سمجھتے ہیں۔ بصیرت کو مسلسل بڑھاتے رہئے۔ ہمیں داخلی منظرنامے کا ادراک ہونا چاہئے، یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اندرونی سطح پر کیا حالات ہیں۔ کون سی جگہیں ہیں جہاں انسان دشمن کی ریشہ دوانیوں کو محسوس کر رہا ہے، وہ کون سے میدان ہیں جن کے تعلق سے انسان خاطر جمع ہے اور سکون سے اپنا کام کر رہا ہے۔ بصیرت یعنی ہم دنیا میں اپنی پوزیشن سے باخبر ہوں اور یہ سمجھیں کہ ہم کس منزل پر ہیں؟
کچھ لوگوں کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنوں کو، خود کو حقیر قرار دیں، قوم کو حقارت سے دیکھیں۔ جناب ہم تو کسی شمار میں ہی نہیں ہیں! اس بات کو وہ الگ الگ انداز سے بیان کرتے ہیں۔ کسی ملک کی، کسی ملک کے عوام کی یا کسی ملک کے طرز عمل کی تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں، بڑائیاں کرتے ہیں اور ان میں بیشتر باتیں خلاف واقع ہوتی ہیں، زیادہ تر باتیں فلموں کی باتوں جیسی ہوتی ہیں۔ فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ پولیس آتی ہے اور کسی کو گرفتار کرنا چاہتی ہے تو شروع ہی میں کہہ دیتی ہے کہ ہوشیار ہو جاؤ، جو بھی کہوگے ممکن ہے تمہارے خلاف عدالت میں ثبوت کے طور پر استعمال کیا جائے۔ یعنی یہ پولیس اہلکار بڑا پاک صاف آدمی ہے کہ ملزم کو جو ممکن ہے مجرم ثابت ہو، شروع ہی میں یہ نصیحت کر دیتا ہے کہ خبردار! بہت زیادہ بولنے کی کوشش نہ کرو! ورنہ عدالت میں تمہارے خلاف اسے ثبوت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ ایسی ہوتی ہے مغربی ملکوں کی پولیس؟! امریکی پولیس اس مزاج کی ہے؟ یہ صرف ہالیووڈ کی فلموں میں ہوتا ہے۔ امریکی پولیس تو پہلے ہتھکڑی پہناتی ہے، ہتھکڑی پہنا لینے کے بعد اس کی پٹائی کرتی ہے، فائرنگ کرتی ہے، قتل کر ڈالتی ہے، کسی شخص کو اس وجہ سے کہ اس کی جیب میں کھلونا بندوق تھی گولی مار کر قتل کر دیتی ہے۔ پولیس ایسی ہوتی ہے۔ فلموں میں عدالت کو، پولیس کو، حکومتی اداروں کو، اسی طرح دوسری چیزوں کو بڑی شائستہ شکل میں پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ تو ایک فلم ہے۔ اب کچھ لوگوں کی مقالہ نگاری کا انداز، ان کی تحریریں، ان کے بیانات، انھیں ہالیوڈ فلموں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کی وہ خوبیاں بھی بیان کریں جو ان میں موجود نہیں ہیں، انھیں بہت سجا کر پیش کرتے ہیں، تاکہ ہمارے عوام کے اندر احساس کمتری پیدا کریں! جی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہماری قوم بڑی عظمتوں کی مالک ہے۔ بڑے امتحانات سے کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر باہر نکلی ہے۔ اس نے عظیم کارنامے رقم کئے ہیں۔ ہماری قوم تو وہ عظیم قوم ہے کہ جنگ کے دوران جب دشمن فوجی کو قیدی بنا لیتی تھی تو اسے زدوکوب نہیں کرتی تھی۔ اس قیدی کو قتل نہیں کرتی تھی۔ بلکہ اس کا علاج کرتی تھی، اپنے فلاسک سے اسے پانی پلاتی تھی۔ ہمارے عوام ایسے باکردار ہیں۔ کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ سمندر سے کسی ملک کے شہری کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے جاسوس ہونے کے امکانات بھی بہت زیادہ تھے، مگر اس کے باوجود اسے نئے کپڑے دیکر وطن واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ہمارے عوام اس مزاج کے ہیں۔ یہ ہے ان کا برتاؤ، یہ ہے ان کی مہربانی کا عالم، ان کی انصاف پسندی اور ان کی شجاعت۔ ہماری قوم تو وہ قوم ہے جس نے صدیوں کے احساس حقارت سے خود کو باہر نکالا اور عزت و وقار کی چوٹیوں پر قدم رکھے۔ ہمارا تعلق ایسی قوم سے ہے۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ مختلف ممالک، وہ ممالک جو دنیا کی بڑی طاقتوں میں شمار ہوتے ہیں، آپس میں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں یہ جائزہ لینے کے لئے کہ اسلامی مملکت ایران سے کیسے نمٹا جائے۔ ظاہر ہے یہ اس قوم کی قوت و طاقت کا ہی نتیجہ ہے۔ مادی قوت، عسکری قوت، سیاسی قوت، عقل و منطق کی قوت اور اخلاقیات کی قوت۔ البتہ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے اندر اب کوئی کمزوری باقی نہیں رہی۔ بیشک کمزوریاں بھی کافی ہیں۔ لیکن ہماری توانائياں، ہمارے باارزش کارنامے اور ہمارے روشن پہلو بھی کم نہیں ہیں۔ کچھ لوگ قوم کی تحقیر کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ کچھ لوگوں کو تو عادت سی ہو گئی ہے کہ ہمیشہ تحقیر کرتے ہیں۔ ملک کی، قوم کی، حکومت کی تحقیر کرتے ہیں۔ بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حقائق سے باخبر ہو، حقائق کا اسے ادراک ہو، اپنی پوزیشن سے آگاہ ہو، اپنے ملک کے مقام و مرتبے سے آشنا ہو، اپنی قوم کی پوزیشن کا علم رکھتا ہو، اسلامی انقلاب کی منطق کی منزلت کو جانتا ہو، ملک میں ہمارے عظیم قائد (امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے جو 'صراط مستقیم تعمیر کیا اس کے مقام و مرتبے سے آگاہ ہو۔ انسان کو ان چیزوں کا علم ہو، اسے کہتے ہیں بصیرت۔
آمادہ رہنا، کمربستہ رہنا اور مستعد رہنا بھی اہم شرطوں میں ہے اور یہ بھی ان لازمی سفارشات میں ہے جو آپ 'رضاکار' بھائیوں اور بہنوں سے مجھے کرنی ہیں۔ آمادہ رہنا چاہئے (5)۔ بہت شکریہ، بہت شکریہ، ہم جانتے ہیں کہ آپ آمادہ ہیں (6)، اچھی بات ہے، بس کافی ہے۔ اس طرح آپ نے بھی اپنی تھکن دور کر لی (7)۔ دیر سے آپ خاموش تھے (8)، کچھ نعرے لگائے، تھکن دور ہو گئی، اب توجہ فرمائيے؛
آج دنیا میں یہ جو جھگڑا ہے، یہ ایک حقیقی تنازعہ ہے۔ متصادم فریق ایسے ہیں کہ جو انسانی اقدار سے بہت دور ہیں، بہت زیادہ دور۔ لہذا ہمارے گرد و پیش کے اسی علاقے میں جو تغیرات رونما ہو رہے ہیں ہم ان معاملات سے خود کو لا تعلق نہیں رکھ سکتے۔ سب سے پہلے فلسطین کا قضیہ ہے، مسئلہ فلسطین ہے۔ مسئلہ فلسطین کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے۔ سرزمین فلسطین پر غاصبانہ قبضے کو ساٹھ سال یا اس سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ اس قوم کی، ان فلسطینیوں کی کئی نسلیں گزر چکی ہیں لیکن فلسطین کے اہداف اپنی جگہ قائم ہیں، دشمن کی کوشش یہ ہے کہ فلسطین کے اہداف کو مٹا دے۔ مگر یہ اہداف بدستور باقی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ عرب حکومتیں دوسرے امور میں اس طرح الجھی ہوئی ہیں کہ انھیں یا تو فرصت ہی نہیں یا وہ چاہتیں ہی نہیں، تکلف کی وجہ سے یا کچھ اور وجوہات کی بنا پر، امریکا اور دوسروں کی اتحادی ہونے کے باعث، کہ مسئلہ فلسطین پر توجہ دیں۔ فلسطین کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم مسئلہ فلسطین سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔ اس وقت غرب اردن میں فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ شروع ہو چکی ہے۔ عوام لڑ رہے ہیں۔ استکباری تشہیراتی اداروں کا اس بارے میں فیصلہ بالکل ظالمانہ ہے۔ جس کا گھر ہڑپ لیا گیا ہے، جسے اپنے گھر کے اندر بھی جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں ہے؛ بلڈوزر لیکر آتے ہیں گھر کو منہدم کر دیتے ہیں، وہاں (صیہونی) بستیاں تعمیر کرتے ہیں، کھیتوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ایسا شخص جب پتھر سے حملہ کرتا ہے تو کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو دہشت گرد ہے! لیکن وہ حکومت جس نے اس انسان کی زندگی، اس کا امن و چین، اس کی عزت و آبرو، اس کی دولت اور اس کی دنیا سب کچھ نابود کرکے رکھ دیا ہے، اس حکومت کو مظلوم کہتے ہیں، کہ وہ تو اپنا دفاع کر رہی ہے!! یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ تو ہماری آج کی دنیا کا ایک عجوبہ ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور ایک گھر غصب کر لیتا ہے۔ صاحب خانہ کو باہر نکال دیتا ہے اور اسے مسلسل ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ جبکہ اس مظلوم شخص کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنے دفاع میں کوئی اقدام نہ کرو۔ اپنا دفاع نہ کرو۔ اس مظلوم صاحب خانہ کو جس کا امن چین چھن گیا، جس کا گھر ہڑپ لیا گيا، جس کے بیوی بچے اور آبرو سب کچھ خطرے میں پڑ گیا۔ اس کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو دہشت گرد ہے!! کیا یہ معمولی بات ہے؟ کیا یہ معمولی زیادتی ہے؟ یہ چھوٹی غلطی ہے؟ کیا یہ معمولی ظلم ہے کہ جسے آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے؟ اسے ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہم فلسطینی عوام کی تحریک کا اپنی پوری توانائی سے اور جب تک ممکن ہوگا اور جیسے بھی ممکن ہوگا دفاع کریں گے۔
ہمارے گرد و پیش اور بھی مسائل ہیں، ان کا بھی یہی عالم ہے۔ آج جو بیشتر واقعات رونما ہو رہے ہیں، وہ ایسے مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں ایک منصفانہ اور انسان دوستانہ فیصلہ کچھ ہوتا ہے جبکہ مغرب، وہاں کے سیاسی رہنماؤں اور تشہیراتی اداروں کا فیصلہ بالکل خباثت آمیز اور خود غرضی پر مبنی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مسئلہ بحرین، مسئلہ یمن اور مسئلہ شام ہے۔
بحرین کا مسئلہ؛ بحرین کے عوام کیا چاہتے ہیں؟ بحرین کے عوام کہتے ہیں کہ جناب اس قوم کے ہر فرد کو حکومت کے انتخاب کے سلسلے میں ایک ووٹ دینے کا حق دیا جائے۔ ہر شہری کو ایک ووٹ کا حق۔ کیا آپ (اہل مغرب) جمہوریت کی باتیں نہیں کرتے؟ کیا آپ یہ نہیں کہتے کہ ہم جمہوریت کا مظہر ہیں، ہم جمہوریت کے محافظ و پاسباں ہیں؟ اچھا! تو اس سے زیادہ واضح جمہوریت اور کیا ہوگی؟ یہ حق ان (بحرینی عوام) کو دینا تو در کنار، الٹے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، ان کی توہین کی جا رہی ہے، ان کی تحقیر ہو رہی ہے۔ ایک قوم کی اکثریت کو، یہ اکثریت ہے، جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں، وہ ستر فیصدی، اسی فیصدی ہیں، اس اکثریت کو ظالم اقلیت جس کے پاس اقتدار ہے، ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس کے مقدسات کی توہین کر رہی ہے۔ اس سال محرم میں جو بھی منبر پر بیٹھا، جس نے مرثیہ خوانی کی، جس نے عزاداری کے علم اٹھائے، جس نے تقریر کی اس کے خلاف کارروائی کی گئی۔ جس نے یزید پر لعنت بھیجی اس کے خلاف کارروائی کی گئی کہ تم یزید پر لعنت کیوں بھیجتے ہو۔ ان کی آبرو اور حیثیت کا اندازہ لگانے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ یزیدی ہیں۔ یزید کے طرفدار ہیں۔ وہ خبیث یزید جس کے اتنا بے غیرت شخص پوری تاریخ اسلام میں کہیں نہیں ہے، کیا اس پر لعنت نہیں بھیجنی چاہئے؟ اللہ کی لعنت ہو ان لوگوں پر جنھوں نے پیغمبر کو، اولاد پیغمبر کو اور خاندان پیغمبر کو اذیتیں پہنچائیں۔ تو یہ ہے ان (بحرینی حکام) کا رویہ۔ یہ ہے بحرین ( کا قضیہ)۔
یمن میں کئی مہینوں سے لگاتار عوام پر بم برسائے جا رہے ہیں۔ گھربار، اسپتال، اسکول، ہر جگہ بم گرائے جا رہے ہیں۔ ان عوام پر جن کی کوئی خطا نہیں ہے، جن کا کوئی گناہ نہیں ہے، بمباری کر رہے ہیں۔ مگر جمہوریت، انسانی حقوق اور اس طرح کی چیزوں کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ادارے ان حملہ آوروں کی حمایت کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ ہے دنیا! یہ ہے ظالم دنیا! وہ دنیا جس کے مقابل آپ ڈٹے ہوئے ہیں، یہی وہ استکبار ہے جس کے خلاف آپ نعرے لگاتے ہیں۔
شام کے قضیئے میں بھی یہی صورت حال ہے۔ ہم نے ان چند دنوں کے دوران شام کے مسئلے کے بارے میں کچھ باتیں بیان کیں جو ذرائع ابلاغ میں نشر بھی ہوئیں۔ یہ لوگ بے رحم ترین دہشت گردوں کا دفاع کر رہے ہیں۔ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ شام میں بھی اور عراق میں بھی۔ براہ راست مدد کر رہے ہیں یا بالواسطہ طور پر مدد پہنچا رہے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ شام میں حکومت ایسی ہونی چاہئے، ویسی ہونی چاہئے۔ یہ مطالبہ کس حق کی بنیاد پر ہے؟ ہر قوم کو یہ حق ہے کہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اور اپنی حکومت کا فیصلہ خود کرے، اپنی حکومت خود منتخب کرے۔ اس بیچ آپ کون ہوتے ہیں دخل دینے والے؟ دنیا کے دوسرے سرے سے اٹھ کر آئے ہیں اپنے خبیثانہ اغراض و مقاصد کی برآری کی خاطر۔ دنیائے استکبار کا یہی مزاج ہوتا ہے۔ اس دنیا کے مقابلے میں، صاحب بصیرت انسان کو خوب معلوم ہے کہ کیا کرنا چاہئے۔ اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا کون سا موقف حق بجانب ہوگا۔
رضاکار فورس دوسروں کو یہ سمجھا سکتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی موقف ایسے معقول اور منطقی موقف ہیں جسے ہر منصف مزاج اور عاقل انسان پسند کرتا ہے۔ آج شام کے مسئلے میں، عراق کے معاملے میں، بحرین کے سلسلے میں، یمن کے تعلق سے، فلسطین کے بارے میں ہمارے سرکاری عہدیداران اور اداروں کے سیاسی موقف بالکل واضح اور نمایاں ہیں۔
عوامی رضاکار فورس اسلامی جمہوری نظام کے لئے بہت بڑی نعمت ہے، ایک سرمایہ اور خزانہ ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ اس لئے کہ خود یہ ملت ایک خزانہ اور کبھی نہ ختم ہونے والا سرمایہ ہے۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ توفیق خداوندی سے ملت ایران سب سے پہلے درجے میں تو اس خزانے کی حفاظت کرے گی، پھر اسے باہر نکالے گی اور تیسرے مرحلے میں یہ بلند ہمتی اور یہ قوت ارادی مطلوبہ انداز میں اپنے اوج تک یقینا پہنچے گی۔ دشمن مجبور ہیں کہ یہ منظر دیکھیں اور ملت ایران کی پیشرفت کا مشاہدہ کریں، ان کے بس میں اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ان شاء اللہ یہی ہوگا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم قائد امام خمینی پر جنھوں نے ہمارے لئے اس راستے کی تعمیر کی۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں عزیز شہدا پر جنھوں نے اپنی قربانیوں سے ہمیں عملی طور پر درس دئے اور ہمیں یہ بتایا کہ کس طرح عمل کیا جاتا ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں آپ عزیزوں پر، آپ اپنی اس آمادگی سے ملت ایران کے دلوں کو خوشی اور امید کی روشنی عطا کر رہے ہیں۔
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۱) یہ ملاقات رضاکار فورس 'بسیج' کی تشکیل کی سالگرہ کی مناسبت سے ہوئی جو 5 آذر 1358 ہجری شمسی مطابق26 نومبر 1979 کو عمل میں آئی۔ ملاقات کے آغاز میں پاسداران انقلاب فورس کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری اور 'ادارہ بسیج' کے سربراہ جنرل محمد رضا نقدی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔
۲) گلستان سعدی، باب پنجم؛ «بگفت آنجا پری رویان نغزند / چو گِل بسیار شد پیلان بلغزند»
3) صحیفہ سجّادیّه
4) نهج البلاغه، خطبه نمبر ۱۷۳
5) حاضرین کے نعرے؛ 'اے رہبر آزادہ آمادہ ایم آمادہ'
6) حاضرین کے نعرے
7) حاضرین کی ہنسی
8) رہبر انقلاب نے بھی مسکراتے ہوئے اپنی بات آگے جاری رکھی۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ موجودہ دور اور مستقبل کی علمی ضرورتوں کی نشاندہی، علمی پیشرفت کی رفتار میں کمی نہ آنے دینا، جامع علمی منصوبے پر باریک بینی کے ساتھ عملدرآمد، ہائیر ایجوکیشن کی کوالٹی پر توجہ، یونیورسٹی اور صنعت کے باہمی رابطے کے لئے سنجیدہ اقدامات، مستحکم مزاحمتی معیشت میں یونیورسٹیوں کا کردار، ایمانی و اسلامی کلچر کی ترویج، دینی و سیاسی بصیرت میں گہرائی پیدا کرنا اور اقدار کے پابند، انقلابی و دیندار طلبا اور اساتذہ کو کام کے لئے میدان فراہم کرنا، جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں یونیورسٹیوں کی شراکت و تعاون کے لوازمات ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کے ہزاروں طلبا سے ملاقات میں عالمی استکبار سے ملت ایران کی مقابلہ آرائی کو منطقی، خردمندانہ اور تاریخی تجربات پر استوار لڑائی قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ملک کے ممتاز طلبا اور علمی ہستیوں سے ملاقات میں حکام اور علمی شخصیات کو انتہائی کلیدی سفارشات کیں اور 'الیٹ فاؤنڈیشن' کو اسٹریٹیجک قومی فاؤنڈیشن کی نگاہ سے دیکھنے اور معاشرے میں نوجوان صلاحیتوں کے عملی طور پر کردار ادا کرنے کی زمین ہموار کئے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ دشمن اعلی حکام کے تخمینوں کو بدلنے اور عوام بالخصوص نوجوانوں کی فکر تبدیل کرنے کے در پے ہیں، لہذا سب ہوشیار اور بیدار رہیں۔