قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حجت الاسلام والمسلمین شیخ محمد رضا توسلی کے انتقال پر تعزیت پیش کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجت الاسلام و المسلمین الحاج شیخ محمد رضا توسلی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کی افسوسناک خبر ملی۔ یہ محترم عالم ربانی، امام خمینی (رہ) کے شاگرد اور آپ کی تحریک میں شامل سر فہرست افراد میں تھے۔ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) کی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک آپ ان کی خدمت میں رہے، انشاء اللہ آخرت کے دن بھی آپ امام خمینی (رہ) کے ساتھ ہی محشور کئے جائیں گے۔ میں اس محترم عالم دین کے انتقال پر ان کے بیوی بچوں اور دیگر ورثا نیز دوست و احباب کو تعزیت پیش کرتا ہوں اور مرحوم کے لئے رحمت و مغفرت اور ان کے خاندان کے لئے صبر واجر کی دعا کرتا ہوں۔
سید علی خامنہ ای
27/11/86
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے نام ایک پیغام میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حزب اللہ کے مخلص اور فداکار مجاہد الحاج عماد مغنیہ کی شہادت پر، تنظیم کے سربراہ، جانبازوں اور لبنانی عوام کو تہنیت و تعزیت پیش کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علامہ ڈاکٹر جعفر شہیدی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال پر، ان کے خاندان،ورثا، عقیدتمند شاگردوں اور ملک کے علمی و ادبی حلقوں کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ آپ بے مثال ادیب، وسیع النظر مورخ، عظیم انسان اور عصر حاضر کی قابل افتخار علمی شخصیت تھے۔ آپ نے بڑی قیمتی تحریریں چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالی اس سچے مومن انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور انہیں اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔
سید علی خامنہ ای25/10/86
بسم الله الرّحمن الرّحیم الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیّدنا محمد المصطفی وعلی آله الطیبین و صحبه المنتجبین سلام ہو خانۂ خدا کے زائروں، سرائے دوست کے میہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر۔ مخصوص درود و سلام ہو ذکر خدا سے منور اور الطاف و عنایات الہی سے معمور دلوں پر جن کے استقبال کے لئے رحمت کے دروازے وا ہو جاتے ہیں۔ حج کےشب و روز اور روح بخش لمحوں میں بہت سے لوگوں نے موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خود کو دریائے روحانیت و معنویت سے سیراب کر لیا۔ توبہ و استغفار کے ذریعے دل وجان کو نورانیت بخشی اور رحمت الہی کی امواج میں جو اس وادی مقدس میں پے در پے اٹھ رہی ہیں خود کو گناہ و شرک کے زنگ سے صاف کرلیا ہے۔ اللہ کا سلام ہو پاکیزہ دلوں، نیک سرشت افراد اور صاحبان دل پر۔ تمام بہن بھائیوں کے لئے بہتر ہے کہ ان ثمرات کے بارے میں غور و فکر کریں اور ان عظيم لمحات کی قدر کریں۔ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس مقدس وادی میں بھی مادی زندگي کے جھمیلے جس میں ہمیشہ ہم پھنسے رہتے ہیں ہمارے دلوں کو مشغول رکھیں بلکہ ذکر خدا، توبہ و استغفار، گریہ و زاری، صداقت و پاکیزگي، حسن کردار اور فکر صالح کے لئے عزم راسخ اور خداوند عالم کی بارگاہ میں نصرت و مدد کی التجا کے ذریعے اپنے دل بیتاب و مشتاق کو الوہیت و وحدانیت و معنویت سے معطر فضا میں پرواز کے قابل بنا لیں۔ خدا کی راہ میں استقامت اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے ضروری اسباب و وسائل حاصل کر لیں۔ یہ حقیقی وحدانیت کا مرکز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں خلیل خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پارۂ جگر کو قربان گاہ میں لاکر یکتا پرستی کا بے مثال نمونہ، جو در اصل نفس پر غلبےاور حکم الہی کے سامنےسراپا تسلیم ہو جانے سے عبارت ہے، پیش کیا اور پوری تاریخ عالم میں تمام یکتا پرستوں کے لئے یادگار بنادیا، یہی وہ جگہ ہے جہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زمانے کی بڑی طاقتوں اور زور و زر کے خداؤں کے سامنے توحید و وحدانیت کا پرچم لہرایا اور اللہ پر ایمان کے ساتھ ہی طاغوت سے نفرت و بیزاری کو نجات و سعادت کی شرط بنا دیا۔فمن یکفر بالطاغوت و یومن با الله فقد استمسک بالعروه الوثقی ( اب جو شخص بھی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا وہ اس کی مضبوط رسّی سے متمسک ہوگیا ہے ) حج انہی عظيم تعلیمات کے اعادے اور انہیں یاد کرنے کے معنی میں ہے، مشرکین سے برائت و بیزاری، بتوں اور بت سازوں سے نفرت کا اعلان، وہ جذبہ ہے جو مؤمنین اور صاحبان ایمان کے مناسک حج پر حکم فرما رہتا ہے۔ اعمال حج کا ہر مقام اور اس کا ہر لمحہ اللہ تعالی کے سامنے خود سپردگی، اس کی راہ میں سعی و کوشش، شیطان سے دوری و بیزاری اس کو کنکریاں مارنے اور خود سے دور کرنے اور خود کو اس کے مد مقابل کھڑا کرنے کا حقیقی مظہر ہے۔ حج کا ہر مرحلہ، قبلے کے محور پر اجتماع، اتحاد و یکجہتی، نسلی و لسانی تفریق کے انکار اور مسلمانوں کی حقیقی اخوت و دوستی کا نمونہ ہے۔ یہ وہ دروس و تعلیمات ہیں جو ہم سبھی مسلمانوں کے لئے خواہ دنیا کے کسی بھی گوشے سے ہمارا تعلق ہو، واجب العمل ہیں۔ ہمیں انہی کی بنیاد پر اپنی زندگي اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ قرآن نے دشمنوں کے مقابلے میں قوت و اقتدار کے ساتھ محاذ آرائی، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت اور خداوند عالم کے حضور خضوع و خشوع کو اسلامی معاشرے کی تین نشانیاں اور علامتیں قرار دیا ہے۔محمد رسول الله و الذین معه اشداء علی الکفار رحماء بینهم تراحم رکعا سجدا یبتغوه فضلا من الله و رضوانا ...(حضرت محمّد (ص) اللہ کے رسول اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں کے خلاف سخت آپس میں رحم دل ہیں آپ انہیں دیکھیں گے کہ رکوع اور سجدہ کررہے ہیں اللہ کے فضل و کرم اور رضا و خوشنودی کی کوشش میں رہتے ہیں ) امت اسلامیہ کے باشکوہ اور پر وقار پیکر و پرچم کے یہ تین بنیادی ستون ہیں۔ تمام مسلمان اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر عالم اسلام کے موجودہ مسائل و مشکلات کو صحیح طریقے سے پہچان سکتے ہیں۔ آج امت اسلامیہ کے سب سے بڑے دشمن وہ استکباری عناصر اور توسیع پسند اور جارح طاقتیں ہیں جو اسلامی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات اور عالم اسلام پر اپنے ظالمانہ تسلّط کے لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتی ہیں۔ تمام مسلمانوں اور خاصوصا سیاستدانوں، علماء و دانشوروں، روشن فکر افراد اور مختلف ملکوں کے سربراہوں کا فریضہ ہے کہ اس جارح دشمن کے خلاف زیادہ سے زیادہ قوت و استحکام کے ساتھ ایک متحد اسلامی محاذ تشکیل دیں۔ اپنی اندرونی توانائیوں کو منظم کریں اور امت اسلامیہ کو حقیقی معنی میں طاقتور اور با اثر بنائیں۔ علم و معرفت، دانشمندی و ہوشیاری، احساس ذمہ داری، سچی دینداری، الہی وعدوں پرایقان وایمان، فریضے کی ادائیگي اور رضائے خدا کے حصول کے لئے حقیر و ناچیز خواہشات سے چشم پوشی یہ سب امت مسلمہ کی قوت و اقتدار کی بنیادی شرطیں ہیں جو اس کو عزت و وقار، خود مختاری و آزادی اور مادی و معنوی ترقی سے ہم کنار کر سکتی ہیں، دشمن کو اسلامی ملکوں میں دست درازی توسیع پسندی اور ریشہ دوانیوں میں ناکام بناسکتی ہیں ۔ مؤمنین کے درمیان صلح و آشتی، امت مسلمہ کی ایک اور پسندیدہ صفت ہے۔ امت مسلمہ کے مختلف فرقوں اور مکاتب فکر کے مابین اختلاف و تفرقہ، خطرناک بیماری ہے جس کا پوری توانائي کے ساتھ فوری علاج کرنا چاہئے۔ ہمارے دشمنوں نے اس میدان میں بھی عرصہ دراز سے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے اور آج جب اسلامی بیداری نے ان کو وحشت میں مبتلا کر دیا ہے تو انہوں نے اپنی کوششیں اور تیز کردی ہیں۔ تمام ہمدردوں کا کہنا یہ ہے کہ تفاوت و فرق کو کینہ توزی و دشمنی کا باعث نہیں بننے دینا چاہئے، رنگ و نسل کا تنوع جنگ و جدل پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔ اس سال کو ملت ایران نے قومی اتحاد و اسلامی یکجہتی کے سال کا نام دیا ہے۔ مسلمان بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے والی سازشوں کی شدت کا ادراک کرتے ہوئے اس سال کو اس نام سے موسوم کیا گیا۔ فلسطین، لبنان، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دشمنوں کی یہ سازشیں کامیاب ہوئیں اور ایک ہی مسلمان ملک کے کچھ لوگ اسی ملک کے کچھ دوسرے لوگوں کے خلاف قتل و غارت کےلئے کمربستہ ہو گئے۔ ایک دوسرے کا خون بہایا۔ ان تمام تلخ اور افسوسناک واقعات میں دشمنوں کی سازشیں بالکل عیاں تھیں اور باریک بیں نگاہوں نے ( ان حادثات میں ) دشمن کا ہاتھ دیکھا ہے۔ قرآن کریم میں رحماء بینہم کا حکم اسی طرح کی جنگوں اور لڑائیوں کی بیخ کنی کے لئے ہے۔ آپ ان پرشکوہ ایّام اور حج کے گوناگوں مناسک میں دنیا کے مختلف مقامات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو دیکھ رہے ہیں جو ایک گھر کا طواف کررہے ہیں، ایک ہی کعبے کی جانب رخ کرکے نماز ادا کررہے ہیں۔ شیطان رجیم کی علامت (جمرات) کو ایک ساتھ ملکر پتھر ماررہے ہیں اور نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس کی قربانی کی علامت کے طور پر یکساں عمل انجام دے رہے ہیں اور عرفات و مشعر میں ٹھہرنے کے دوران ایک ساتھ مل کر ( خدا کے حضور ) گریہ و زاری کر رہے ہیں۔ اسلامی فرقے اپنے بنیادی عقائد اور بیش تر اعمال و احکام میں ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ان میں یکسانیت ہے۔ ان تمام مشترکات کے ہوتے ہوئے بھی تعصب اور تنگ نظری ان کے درمیان اختلاف کی آگ کیوں کر بھڑکاتی ہے اور خائن و غدار دشمن کو اس خطرناک آگ کو ہوا دینے کا موقع کیسے مل جاتا ہے؟ آج جو لوگ تنگ نظری و نادانی کی وجہ سے بے بنیاد مسائل کے بہانے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت و فرقے کو مشرک گردانتے ہیں اور حتی ان کا خون بہانے کو روا جانتے ہیں، یہ لوگ در حقیقت، دانستہ یا ندانستہ طور پر شرک و کفر اور سامراج کی خدمت کررہے ہیں۔ کیا معلوم کہ جن لوگوں نے پیغمبر اعظم (ص) اولیائے کرام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کی زیارت و تکریم کو جو دینداری کا مظہر ہے شرک و کفر قراردیا کہیں وہ خود کافروں اور ظالموں کے دربار کی تکریم میں مصروف تو نہیں ہیں، کہیں وہ ان کے ناپاک عزائم کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں ممد و معاون تو ثابت نہیں ہورہے ہیں؟! سچے علماء، دینی جذبے سے روشن دماغوں اور مخلص حکمرانوں کو چاہئے کہ اس طرح کی خطرناک لعنتوں اور اقدامات کا مقابلہ کریں۔ آج اسلامی اتحاد و یکجہتی ایک لازمی ہدف ہے جو دانشمندوں اور قومی ہمدردی کے جذبے سے سرشار افراد کے محنت و مشقت سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس عظیم مقصد کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ عزت و سربلندی کے یہ دونوں ستون، یعنی ایک طرف استکبار کے مقابلے میں مضبوط صف آرائي اور مستحکم محاذ کی تشکیل اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان اخوت و محبت و مہربانی جب تیسرے ستون یعنی پروردگار کے حضور خشوع و تعبّد و بندگي کے ساتھ مل جائیں گے توامت اسلامیہ دوبارہ اسی راستے پر چل پڑےگی جس پر چل کر صدر اسلام کے مسلمانوں کو عزت و عظمت ملی تھی۔ اس کے نتیجے میں مسلمان قومیں اس ذلت آمیز پسماندگی سے جو حالیہ صدیوں کے دوران ان پر مسلّط کر دی گئی ہے نجات و چھٹکارہ حاصل کرلیں گی۔ اس عظیم تحرک کا آغاز ہوچکا ہے اور پورے عالم اسلام میں بیداری کی لہریں ہر جگہ ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔ دشمنوں کے ذرائع ابلاغ، ان کی پروپیگنڈہ مہم اور ان کے ایجنٹوں کی کوشش ہے کہ عالم اسلام کے کسی بھی گوشہ میں عدل و انصاف کے مطالبے اور حریت پسندی کی جو بھی تحریک اٹھے اسے ایران یا پھر شیعیت سے منسوب کردیں اور اسلامی ملک ایران کو جو اسلامی بیداری کا کامیاب علمبردار ہے ان کاری ضربوں کا ذمہ دار قرار دیں جو میدان سیاست و ثقافت میں مسلمان ملکوں کے غیور عوام کی جانب سے ان پر لگائی جاتی ہیں۔ وہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ کے بے مثال کارناموں، عراقی عوام کی مدبرانہ استقامت کو جو غاصبوں کی مرضی کے برخلاف پارلیمنٹ اور (عوامی ) حکومت کی تشکیل پر منتج ہوئي، فلسطین کی قانونی حکومت اور وہاں کے جاں نثار عوام کی حیران کن مزاحمت و پائمردی، مسلمان ملکوں میں مذہبی بیداری اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی دیگر بہت سی علامتوں اورنشانیوں کو ایرانیت اور شیعیت کے دائرے میں محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اس بیداری کے لئے عالم اسلام کی ہمہ گير حمایت کو معمولی اور غیر اہم ظاہر کر سکیں، لیکن یہ ہتھکنڈہ سنت الہی کے مقابلے میں جو مجاہدین فی سبیل اللہ اور دین خدا کی مدد کرنے والوں کی کامیابی ہے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آنے والا دور امت اسلامیہ کا دور ہوگا اور ہم میں سے ہر ایک اپنی اپنی طاقت و توانائي، صلاحیت اور ذمہ داری کے لحاظ سے اس نئے دور کی جانب پیش قدمی کے عمل کو سرعت بخش سکتا ہے۔ حج کے مناسک آپ جیسے خوش قسمت حاجیوں کے لئے ایک بڑا اور بہترین موقع ہے کہ خود کو پہلے سے زیادہ اپنے اوپر عائد اس فریضے کی ادائیگي کے لئے آمادہ کریں۔ امید ہے کہ توفیق الہی اور حضرت مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج کی دعا اس عظیم مقصد تک پہنچنے میں آپ کی مدد کرے گی ۔و السلام علیکم و رحمه الله و برکاته السید علی الحسینی الخامنه ای 4 ذی الحجه 1428 هجری قمری12 دسمبر 2007
بسم اللہ الرحمن الرحیم والحمد للہ رب العالمین و الصلٰوۃ علیٰ سید المرسلین و علیٰ آلہ الطیبین و صحبہ الصادقین موسم حج ہر سال کی مانند معنوی بشارتوں کے ساتھ آن پہنچا ہے اور عالم اسلام کے سامنے گرانبہا موقع فراہم ہو گیا ہے۔ اگر چہ بے شمار مشتاق دلوں کو اس منزل کی جانب جانے کی تڑپ ہوتی ہے لیکن جن خوش نصیبوں کی یہ آرزو پوری ہوئی ہے ایسے بے شمار لوگوں میں بہت کم ہیں اور یہ صورت حال بجائے خود اس لازوال چشمہ سے دائمی تمسک و وابستگی کا باعث ہے۔ خانۂ محبوب میں (مسلمان ) بھائیوں کی سالانہ ملاقات دلوں کو ایک جانب قبلۂ کائنات اور دوسری طرف بچھڑے دوستوں سے ملادیتی ہے اور امت اسلامیہ کے پیکر میں معنویت کے اعتبار سے بھی اور سیاسی لحاظ سے بھی نشاط و شادابی پیدا کردیتی ہے ۔مادی آلودگیوں سے پاک ہونا، ہر مکان و مقام پر اور تمام اعمال کی ادائیگی کے وقت ایک جیسے لباس و انداز میں رہنا، خدا کو ( نگاہ بصیرت سے ) دیکھنا کچھ ہی دنوں کے لئے سہی لیکن انسان کے لئے ایک بہت بڑی سعادت اور بڑا کارساز توشہ راہ ہے۔ حج کے تمام آداب و مناسک اس لئے ہیں کہ فریضۂ حج بجا لانے والا اس معنوی و روحانی تجربے سے گزرے اور اس خاص لذت کو روح و دل کی گہرائیوں میں محسوس کرے۔ سیاسی لحاظ سے حج کا بنیادی نکتہ، امت اسلامیہ کے متحد تشخص کا مظاہرہ کرنا ہے۔ (مسلمان ) بھائیوں کی ایک دوسرے سے دوری بدخواہوں کو موقع فراہم کرتی ہے اور اس سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ پنپتا ہے۔ امت اسلامیہ مختلف قوموں، نسلوں اور مذاہب کے پیروؤں سے تشکیل پائی ہے اور روئے زمین کے حساس اور اہم علاقوں اور الگ الگ جغرافیائی خطّوں میں ان لوگوں کا آباد ہونا اور امت اسلامیہ کا یہ تنوع بھی اس عظیم پیکر کے لئے ایک مثبت اور مفید پہلو ثابت ہوسکتا ہے اور اس وسیع و عریض دنیا میں اس کی مشترکہ ثقافت، میراث اور تاریخ (امت اسلامیہ ) کو مزید فعال و کارآمد بنا سکتا ہے اور طرح طرح کی انسانی و فطری قابلیتوں اور صلاحیتوں کو مسلمانوں کے مفادات کے لئے بروئے کار لا سکتا ہے۔ مغربی سامراج نے اسلامی ملکوں میں داخل ہوتے ہی اس نکتے توجہ دی اور اس نے تفرقہ انگیز عوامل کو ہوا دینے کی مسلسل کوشش شروع کر دی ۔سامراجی سیاستدانوں کو بخوبی علم تھا کہ اگر عالم اسلام متحد ہوگیا تو اس پرسیاسی اور اقتصادی تسلّط جمانے کا راستہ مسدود ہوجائے گا۔ بنابریں انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی ہمہ جہتی اور طویل المیعاد کوشش شروع کردی اوراس خبیثانہ سیاست کی آڑ میں انہوں نے لوگوں کی غفلت اور سیاسی و ثقافتی زمامداروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اسلامی ملکوں پر تسلّط جمانا شروع کردیا۔گذشتہ صدی میں اسلامی ملکوں میں حریت پسندانہ تحریکوں کی سرکوبی، ان ملکوں پر تسلّط جمانے میں سامراجی طاقتوں کی پیشقدمی، ان ملکوں میں استبدادی حکومتوں کی تشکیل یا تقویت، ان کے قدرتی ذخائر کی لوٹ کھسوٹ، انسانی وسائل کی نابودی اور نتیجے میں مسلمان قوموں کی علم و ٹیکنالوجی کے قافلے سے عقب ماندگی یہ سب کچھ آپسی اختلافات اور دوری کی وجہ سے ہوا ہے جس کے نتیجے میں کبھی کبھی دشمنی، جنگ و جدل اور برادر کشی کے اندوہناک مناظر سامنے آئے ہیں۔ اسلامی بیداری کے آغاز سے جس کا نقطۂ عروج ایران میں اسلامی جمہوری نظام کا قیام تھا مغربی سامراج کو سنگین خطرے کا سامنا ہوا ۔مشرق و مغرب کے سیاسی مکاتب کی شکست اور سامراجی طاقتوں کی اُن اقدار پر خط بطلان اور ان کی نابودی سے جنہیں وہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا واحد ذریعہ گردانتی تھیں مسلمان قوموں کے درمیان اسلامی بیداری کی بنیاد مضبوط ہوئی اور اس نور الٰہی کو خاموش کرنے اور اس روشنی کو چھپانے میں استکباری طاقتوں کی پے در پے ناکامیوں نے مسلمان قوموں کے دلوں میں امید کے پودے کو مضبوط و بارور بنادیا ۔آج کے فلسطین کو دیکھئے جہاں اس وقت صیہونی قبضے سے آزادی کے جامع اصول پر کاربند حکومت بر سر اقتدار آئي ہے اور پھر ماضي میں فلسطینی قوم کی غربت، تنہائي اور ناتوانی سے اس کا موازنہ کیجئے، لبنان پر نگاہ ڈالئے جہاں کے جیالے و فداکار مسلمانوں نے اسرائیل کی مسلّح فوج کو جسے امریکہ و مغرب اور منافق عناصر کی پوری مدد حاصل تھی شکست دی اور پھر اس کا اُس دور کے لبنان سے موازنہ کیجئے کہ جب صیہونی جب چاہتے تھے اور جہاں تک چاہتے تھے کسی مزاحمت کے بغیر درآنہ گھس آتے تھے ۔عراق پر نگاہ ڈالئے کہ جس کی غیرت مند قوم نے مغرور امریکہ کی ناک رگڑ دی اور اس فوج اور ان سیاستدانوں کو جو کبر و نخوت کے عالم میں عراق پر اپنی مالکیت کا دم بھرتے تھے سیاسی، فوجی اور اقتصادی دلدل میں پھنسا دیا اور پھر اس کا اس عراق سے موازنہ کیجئے جس کے خونخوار حاکم نے امریکہ کی پشتپناہی سے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ افغانستان پر نگاہ ڈالئے کہ امریکہ اور مغرب کے تمام وعدے جہاں فریب اورجھوٹ ثابت ہوئےاور جہاں مغربی اتحادیوں کی غیر معمولی اور بے تحاشا لشکرکشی نے اس ملک کی تباہی و ویرانی اورلوگوں کوغربت زدہ بنانے، ان کا قتل عام کرنے اور منشیات کے مافیا گروہوں کو روز بروز مضبوط بنانے کے سوا اور کچھ نہیں کیاہے اور سرانجام اسلامی ملکوں میں جوان معاشرے اور پروان چڑھتی نسل پر نگاہ ڈالئے جس میں اسلامی اقدار کا رجحان بڑھ رہا ہے اور امریکہ و مغرب سے اس کی نفرت میں ہرروز اضافہ ہورہا ہے۔ان تمام واقعات پر نگاہ ڈالنے سے مغربی استکباری طاقتوں اور ان میں سر فہرست امریکہ کی بد بختی اور شکست خوردہ پالیسیوں کی حقیقی تصویر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور یہ تمام واقعات اس بات کی بشارت دے رہے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد ہورہی ہے۔اس وقت امریکی حکومت، مغربی سرمایہ دارانہ نظام اور مفسد صیہونی کارندے اسلامی بیداری کی زندہ حقیقت کو درک کررہے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ اسلحہ و فوجی قوت اس حقیقت کے مقابلے میں کارگر نہیں ہے، اپنی تمام تر قوت و صلاحیت مکاریوں اور سیاسی شعبدہ بازیوں میں صرف کررہے ہیں۔ آج وہ دن ہے جب امت مسلمہ کو خواہ اس کے سیاسی و مذہبی رہنما ہوں یا ثقافتی شخصیات و دانشور یا پھر عوام الناس، سب کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہئے کہ دشمن کے حیلوں کو سمجھیں اور ان کا مقابلہ کریں ایک سب سے موثر حیلہ اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے۔ وہ لوگ (دشمن ) پیسے اور مسلسل و بلاوقفہ کوششوں کے ذریعہ مسلمانوں کو اختلافات میں الجھانا چاہتے ہیں اور ایک بار پھر غفلتوں، نادانیوں، کج فہمیوں، اور تعصبات سے فائدہ اٹھا کر ہمیں آپس میں لڑانا چاہتے ہیں ۔آج ہر وہ اقدام جو عالم اسلام میں تفرقہ کا باعث ہو، تاریخی گناہ ہے۔ وہ لوگ جو دشمنانہ طریقے سے مسلمانوں کےایک عظیم گروہ کو بے بنیاد بہانوں سے کافر قرار دے رہے ہیں، وہ لوگ جو باطل گمان و خیالات کی بنیاد پر مسلمانوں کے کچھ فرقوں کے مقدسات اور مذہبی مقامات کی اہانت کررہے ہیں، وہ لوگ جو لبنان کے جانباز جوانوں کی پیٹھ میں جو امت اسلامیہ کی سربلندی کا باعث بنے ہیں خنجر گھونپ رہے ہیں، وہ لوگ جوامریکہ اور صیہونیوں کی خوشامد کے لئے ہلال شیعی یا شیعہ بیلٹ کے نام سے موہوم خطرے کی باتیں کررہے ہیں، وہ لوگ جو عراق میں عوامی اورمسلمان حکومت کو ناکام بنانے کے لئے اس ملک میں بد امنی اور برادر کشی کو ہوا دے رہے ہیں، وہ لوگ جو حماس کی حکومت پر جو ملّت فلسطین کی محبوب اور منتخب حکومت ہے ہرطرف سے دباؤ ڈال رہے ہیں خواہ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ایسے مجرم شمار ہوتے ہیں کہ تاریخ اسلام اورآئندہ نسلیں ان سے نفرت کریں گی اور انہیں غدار دشمنوں کا پٹھو سمجھیں گی۔دنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عالم اسلام کی حقارت و پسماندگی کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے یہ خیال باطل کہ مسلمان ملکوں کو ہمیشہ مغرب کے سیاسی و ثقافتی اقتدار کے پنجہ میں اسیر رہنا ہے اور انفرادی و اجتماعی افکار و گفتار وکردار میں مغرب کی ہی تقلید و پیروی کرنا ہے اب خود مغرب والوں کے ہاتھوں اور اس کے غرور و طغیان و انتہا پسندی کے نتیجے میں مسلمان قوموں کے ذہنوں سے مٹ ہوچکا ہے۔مغرب خاص طور پر امریکہ کی سرپرستی میں آنے کے بعد کھلم کھلا ظلم و ستم، غیر منطقی اقدامات اور بے حد و حساب غرور و تکبر کی وجہ سے عالم اسلام میں اقدار دشمن عنصر میں تبدیل ہوگياہے۔ فلسطینی عوام سے مغربی ملکوں کا سلوک اوراس کے مقابلے میں خونخوار صیہونی حکومت کے ساتھ ان کا رویّہ، ایٹمی ہتھیار رکھنے پرمبنی صیہونی حکومت کے اعتراف کے مقابلے میں ان کا موقف اور دوسری طرف پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی سے استفادے کے ایران کےحق کے خلاف ان کا موقف، لبنان پر فوجی حملے کے لئے ان کی حمایت اور جارحیت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے ان کی اسلحہ جاتی اورسیاسی امداد اوردوسری طرف اپنا دفاع کرنے والے لبنانی جانبازوں سے ان کی دشمنی عرب حکومتوں سے ان کی مسلسل و دائمی سودے بازی و (بلیک میلنگ) اور دوسری طرف صیہونی حکومت کے ذریعے خود مغرب کا بلیک میل ہونا، اسلامی مقدسات کی اہانت کرنے والوں حتی اس دین الہی کی شان میں پوپ جیسے مغرب کے اعلی ترین عہدیداروں کی کھلی اہانت و افترا پردازی کی حمایت اور دوسری طرف ہولوکاسٹ اور صیہونیت کے بارے میں تحقیق اور شک وشبہے کو جرم شمار کیاجانا، ڈیموکریسی کے نام پرعراق و افغانستان میں قتل عام، تباہی و ویرانی اورفوجی حملہ اور دوسری طرف فلسطین و عراق و لاطینی امریکہ میں منتخب جمہوری حکومتوں یا جہاں کہیں بھی امریکہ اور صیہونیزم کے آلۂ کار اقتدار میں نہ آئے ہوں ان حکومتوں کے خلاف سازشیں کرنا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ڈھنڈورا پیٹنا اور دوسری طرف عراق اور دوسری جگہوں کے دہشت گردوں سے خفیہ ساز باز اور حتی ان کی مدد کرنا ، ان نامعقول اور دشمنانہ حرکتوں اور اقدامات نے مسلمان قوموں پر حجت تمام کردی ہے اور اسلامی بیداری میں مدد دی ہے ۔آج خواہ وہ چاہیں یا نہ چاہيں دنیائے اسلام میں گہری اورمضبوط تحریک کا آغاز ہوچکاہے اور یہی وہ تحریک و بیداری ہے جو اپنے مناسب وقت پر امت اسلامیہ کی آزادی، سربلندی اور حیات نو پر منتج ہوگی ۔یہ ایک فیصلہ کن تاریخی مرحلہ ہے۔ اس مرحلے میں علماء، دانشوروں اور روشن خیال لوگوں کے کاندھوں پرسنگین ذمہ داری عائد ہوئی ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے ہر طرح کی کمزوری، سست روی، کوتاہی اور خود غرضی سے ایک المیہ بپا ہوسکتاہے۔ مذہب کے نام پر اختلافات کو ہوا دئے جانے کی کوششوں کے مقابلے میں علماء دین کو خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے۔ روشن خیال لوگوں کو جوانوں کے اندر امید کی روح پھونکنے میں کوتاہی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ سیاستدانوں اور حکام پر ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو میدان میں موجود رہنے کی تلقین کرتے رہیں اور عوام پر بھروسہ کریں! اسلامی حکومتیں اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط بنائیں اور تسلّط پسندوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں اس حقیقی قوت سے استفادہ کریں۔ آج امریکہ اور برطانیہ کی جاسوسی تنظیمیں عراق میں، لبنان میں، شمالی افریقہ کے ملکوں میں جہاں جہاں ان کی رسائی ہوسکتی ہے، پوری قوت کے ساتھ مذہبی اختلاف کے جراثیم پھیلارہی ہیں۔ حج کے اجتماع کو ہمیں اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھنا چاہئے اور آیۂ شریفہ واطیعوا اللہ و رسولہ و لا تنازعوا فتفشلوا و تذھب ریحکم و اصبروا ان اللہ مع الصابرین(اور اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرواورآپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤاور تمھاری ہوا بگڑ جاۓ اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)، کو مسلسل اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آج مشرکین سے برائت و بیزاری تمام مسلمان قوموں کی قلبی اور فطری آواز ہے۔ موسم حج وہ تنہا موقع ہے جب یہ آواز ان تمام قوموں کی جانب سے فلک شگاف نعرے کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس موقع کو غنیمت سمجھئے اور امت مسلمہ کے لئے دعا اور مہدی موعود سلام اللہ علیہ و عجل اللہ فرجہ کے ظہور میں تعجیل کی دعا کے ساتھ اس بحر نا پیدا کنار میں اپنے پورے وجود کو غوطہ زن کیجئے اور گناہوں کو دھو ڈالئے۔ آپ سب کے لئے کامیابی، خوشبختی اور حج کی مقبولیت کے لئے دعا گو ہوں ۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ سیدعلی خامنہ ای سوم ذی الحجہ 1427 مطابق 24 دسمبر 2006
حجّ بیت اللہ الحرام کے موقع پر حجاج کرام کے نام قائد انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا پیغام بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قٰالَ ۔۔۔ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´ ۔مسلمان بھائیو اوربہنو! حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مکینوں کے درمیان یکجہتی اپنی پوری شان و شوکت جلوہ نمائی کرکے ، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و دماغ کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔حجاج کرام ، حج کے رمز و اسرار سے معمور مناسک اداکرنے کے بعد، جو خود ہی ذکر الہی اور خشوع و خضوع کا گہوارہ ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں ، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا بخشی دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی کرن پیدا کرتی ہے ، اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو ، آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے ۔ حج کی معنویت و روحانیت بلاشبہ ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے ۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں ۔ انسان زندگي کے مختلف امور میں غفلت کا شکار ہے ۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی تباہی ، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ ، قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں ۔غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے ۔ حج کا بین الاقوامی پہلو یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ، ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے ۔عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت ، ہوا و ہوس اور آرام و آسائش سے اپنی وابستگي اور اسیری سے خود کو کچھ عرصے کے لئے آزاد کریں ۔ احرام طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتا ہے اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتا ہے ۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال ، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے ، آشنا کرتا ہے ۔یہ متحد و ہماہنگ اجتماع ، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں ، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب رخ کئے ہوئے ہیں ، یہ انسان جو دسیوں ملک و ملت کی نمائندگي کر رہے ہیں سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے ، آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پسماندگي ان غفلتوں کا ناگوار نتیجہ ہے اور اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے ، یا آرہی ہے ۔اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کے لئے ایک بنیادی اقدام کے آغاز کی نوید دے رہے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا ، مسلمانوں کی بیداری ، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ شمار کرتی ہے ، اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے نبرد آزما ہے ۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے استعمار اورجدید سامراج کے دور کا تجربہ ہے ۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں ماضي سے درس حاصل کرنا چاہیے اورایک بار پھر طویل عرصے تک کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہیں کرنا چاہئے ، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی ، سیاسی ،معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کو استعمال کیا ۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا ۔ ہماری بہت سے علمی شخصیات اور دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری ، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی ، اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اورہماری خود مختاری کی تھی کی صورت میں نکلا ، مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوگئیں اور تسلط پسند اور لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے ۔ اب جبکہ انقلابیوں کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض خطوں میں قائدین کی شجاعت و صداقت کے سبب اسلامی بیداری نے لہروں کو وسعت دی اور بہت سے اسلامی ملکوں میں نوجوانوں ، دانشوروں اور عوام میدان میں اتارا تو بہت سے مسلم حکمرانوں اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غداری آشکار ہوگئی ہے ،عالمی سامراج کے سرغنہ ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں ہیں ، جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے ۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسان کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہےاور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے ۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اورکٹھ پتلی عناصر سازش ، رشوت ، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور اندر سے امریکی ایما پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں ۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرکے اعلی اسلامی اقدار کو ایک بار پھر پس منظر میں ڈالنا ہے ۔ امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور ممکنہ طور پر اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں لہذا مسلم اقوام کو آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار رہنا چاہئے ۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں ، روشن خیال دانشوروں ، ادیبوں اور شاعروں ،فن کاروں ، نوجوانوں اور ممتاز سماجی شبہات کا فرض ہے کہ سب مل کر فہم فراست اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرے ۔ ان غاصب طاقتوں کے جمہوریت کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں ۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد اور خونریزي کررہے ہیں ۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز اقدام اور فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب سمیت یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں ، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں ۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کا محافظ قرار دیں ، کیوں کہ وہ ملزمین کی اذیت و آزار ، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں ، یہاں تک کہ وہ اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کوبغیر کسی عدالتی حکم کے قانونی سمجھتی ہیں ۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرکے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں ۔مسلمان بہنو اور بھائیو ! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے ، ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ، ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی امور میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے ۔دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے آج ایک طرف سے عراق ،دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے ۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی ، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو پرکھتے ہوئے بڑا ارو مؤثر قدم اٹھاسکتی ہیں ۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد ، عراق کی باشعور قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے ۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی ، دینی اور علمی شخصیات ، اکابرین قوم ، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یک جہتی اور فرقہ واریت و قومی اختلافات سے پرہیز ان کا نصب العین ہونا چاہیے ۔ سائنسی پیشرفت ، سیاسی ترقی اور علمی سطح پر جد و جہد اور ان بنیادی شعبوں میں طاقت توانائی کا استعمال ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے ، عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے ۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں ۔البتہ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو کمر ہمت باندھنا پڑے گی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات ، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے ۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئی ہیں ، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں ۔اسلام اپنی اعلی اقدار کے ساتھ ، انسانوں کی فلاح و نجات کااعلی سرچشمہ ہے اورقوموں کی بااثر شہادت پر ان اقدار کے احیا اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے ۔ ان ظالمانہ واقعات کے اصل مجرم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں ، عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش ان کے انتہائي ناپاک منصوبوں میں سے ہے ۔مسلمان بھائیو اوربہنو !اللہ پر توکل قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر یقین اوراسلامی اتحاد میں استحکام ہی ،امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج اللہ کے ذکر کے مفید اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سے گفتار اور کردار کے ذریعے بیزاری ، مثالی اور اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ میں آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کا خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعاء کا طالب ہوں ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہسید علی خامنہ ایذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم قٰالَ اللہ تَعالیٰ : فَاذَا قَضَیتُم مَناسکَکُم فَاذکُرُوا اللہَ کَذ کرکُم آبائَکُم اَو اَشَدَّ ذکرا´ مسلمان بھائیو اوربہنو!حج کے ایام امید و نوید کے دن ہیں ۔ ایک طرف خانۂ توحید کے مسافروں کے درمیان یکجہتی کی شان و شوکت، دلوں میں امید پیدا کرتی ہے اور دوسری طرف ذکر الہی کی برکت سے دل و جان کو ملنے والی طراوت باب رحمت کھلنے کی خوشخبری دیتی ہے۔ حجاج، حج کے رمز و اسرار سے لبریز مناسک اداکرنے کے بعد جو خود ذکر الہی اور خشوع و خضوع سے پر ہیں ایک بار پھر ذکر خدا کے لئے بلائے جاتے ہیں، یہ تاکید اس وجہ سے ہے کہ یاد الہی افسردہ دلوں کو جلا دیتی ہے اور ان میں ایمان و امید کی روشنی پیدا کرتی ہے اور دل جب پر امید اور باایمان ہوتا ہے تو آدمی کو زندگی کے پر پیچ و خم راستوں کو طے کرنے اور مادی و روحانی کمال کی چوٹیوں تک پہونچنے کی قدرت و طاقت عطا کرتا ہے۔ حج کی معنویت و روحانیت اسی ذکر الہی میں ہے کہ جو روح کی مانند حج کے ایک ایک عمل میں رچی بسی ہے۔ یہ مبارک سرچشمہ زمانۂ حج کے بعد بھی پھوٹتا رہے اور اس کے ثمرات جاری رہیں۔ انسان زندگي کے مختلف میدانوں میں اپنی غفلت کا شکار ہے۔ جہاں بھی غفلت ہے وہاں اخلاقی انحطاط، فکری کجروی اور نفسیاتی ہزيمت بھی ہے اور یہی تباہیاں انسان کی شخصیت کے اضمحلال کے علاوہ قوموں کی شکست اور تہذیبوں کے بکھرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ غفلت کو دور کرنے کے لئے اسلام کی ایک بڑي تدبیر حج ہے۔ حج کا بین الاقوامی ہونا یہ پیغام دیتا ہے کہ امت مسلمہ اپنے اجتماعی تشخص میں بھی ہر مسلمان کی انفرادی ذمے داری سے ہٹ کر خود سے غفلت کو دور کرنے کی ذمے دار ہے۔ عبادتیں اور مناسک حج یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ ہم لذت پسندی، ہوا و ہوس اور آرام طلبی سے اپنی غافلانہ وابستگي اور اسیری سے خود کو آزاد کریں۔ احرام، طواف، نماز اور سعی و وقوف ہمیں یاد خدا سے سرشار اور حریم الہی سے قریب کرتے ہیں اور ہمارے کام و دہن میں خدا سے انس کی لذت پیدا کرتے ہیں۔ دوسری جانب اس بے مثال اجتماع کارعب و جلال، ہمیں عظیم امت مسلمہ کی حقیقت سے جو قوم ونسل اور رنگ و لسان کے تفرقوں سے بڑھ کر ہے آشنا کرتا ہے۔ یہ متحد و ہماہنگ اجتماع، یہ زبانیں جو سب کی سب ایک ہی کلمے کا ورد کررہی ہیں، یہ جسم ودل جوایک ہی قبلے کی جانب متوجہ ہیں، یہ انسان جو دسیوں ممالک اور اقوام کی نمائندگي کر رہے ہیں، سب ایک ہی اکائی اور ایک عظیم مجموعے سے متعلق ہیں اور وہ امت مسلمہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ غفلت کے ایک طویل دور سے گذری ہے۔ آج کی سائنسی اورعملی پسماندگی اور سیاست و صنعت اور اقتصاد کےمیدانوں میں پچھڑاپن ان غفلتوں کا تلخ ماحصل ہے۔ اس وقت دنیا میں جو حیرت انگيز تبدیلی آئی ہے، یا آرہی ہے اس کے ذریعے امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنی ماضي کی غفلتوں کی تلافی کرے اور خوش قسمتی سے موجودہ دور کے بعض مسائل اس تلافی کی تحریک کے آغاز کی نوید دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سامراجی دنیا، مسلمانوں کی بیداری، اتحاد اسلامی اور علم و دانش اور سیاست و ایجادات کے میدانوں میں ہماری قوم کی پیشرفت کو اپنے عالمی غلبہ و تسلط کے لئے سب سے بڑا مانع شمار کرتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ اس سے بر سر پیکار ہے۔ ہم مسلمان قوموں کے سامنے سامراج اورجدید سامراج کے دور کے تجربے موجود ہیں۔ آج جدید سامراج کے دور میں ہمیں تجربوں سے درس حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہئے کہ ایک بار پھر طویل عرصے کے لئے دشمن کواپنی تقدیر پر مسلط نہ کریں، ان تلخ و تاریک زمانوں میں مسلط مغربی طاقتوں نے مسلمان قوموں اور ملکوں کو کمزور کرنے کےلئے تمام فوجی، سیاسی، معاشی اور ثقافتی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا۔ ان پر تفرقہ و اختلاف، جہالت اور غربت کو مسلط کردیا۔ ہمارے بہت سے ثقافتی دانشوروں کی فرائض سے دوری اوربہت سی سیاسی شخصیتوں کی کمزوری، کاہلی اورغفلت نے ان کی مدد کی اور اس کا نتیجہ ہماری دولت و ثروت کی لوٹ کھسوٹ، توہین اور حتی ہمارے قومی تشخص کے انکار اور ہماری خود مختاری کی نابودی کی صورت میں نکلا۔ مسلمان قومیں روز بروز کمزور ہوئیں اور تسلط پسند اور لالچی لٹیرے روز بروز مزيد مضبوط ہوتے گئے۔ اس وقت جب مجاہدین کی فداکاری اور دنیائے اسلام کے بعض حصوں میں قائدین کی شجاعت و اخلاص سےاسلامی بیداری نے اپنی لہروں کو وسعت دی اور نوجوانوں، دانشوروں اور عوام کو بہت سے اسلامی ملکوں کومیدان میں اتارا اور بہت سے مسلمان حکام اور سیاستدانوں کے سامنے تسلط پسندوں کی غدار شبیہ آشکار ہوگئی ہے، عالمی سامراج کے سرغنے ایک بارپھر دنیائے اسلام پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اوراسے جاری رکھنے کے لئے جدید ہتھکنڈوں کی فکر میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت پسندی اور انسانی حقوق کا نعرہ ان ہتھکنڈوں میں سے ایک ہے۔ آج شیطان اعظم ( امریکہ ) جو خود انسانیت کے خلاف برائیوں اور سنگدلی کا مظہر ہے، انسانی حقوق کی حمایت کا علمبردار بنا ہوا ہے اور مشرق وسطی کی اقوام کو جمہوریت کی دعوت دے رہا ہے۔ امریکہ کے نقطۂ نگاہ سے ان ممالک میں جمہوریت سے مراد یہ ہے کہ ایسے پٹھو اور کٹھ پتلی عناصر سازش، رشوت، اوچھے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے ظاہرا´ عوامی اور دراصل امریکی انتخابات کے بل بوتے پر بر سر اقتدار آئیں جو ناپاک سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے امریکہ کا آلۂ کار بن سکیں۔ ان مقاصد میں سر فہرست اسلام پسندی کی لہروں کو ختم کرنا اور ایک بار پھر اعلی اسلامی اقدار کو پس منظر میں ڈالنا ہے۔ امریکہ اور دیگر تسلط طلب طاقتیں آج اسلامی بیداری کی تحریک کو روکنے اور اگر ہوسکے تو اس کو کچلنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ مسلم اقوام کو چاہیے کہ وہ آج پوری طرح آگاہ و ہوشیار ہو جائیں۔ علمائے کرام اور مذہبی رہنماؤں، روشن فکر دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں، فن کاروں، نوجوانوں اور معاشرے کے ممتاز افراد پر فرض ہے کہ سب مل کر ہوشیاری اور بر وقت اقدام کے ذریعے عالمی لٹیرے امریکہ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ عالم اسلام میں سامراجی تسلّط کے ایک نئے دور کا آغاز کرسکے۔ ان قابض طاقتوں کی جمہوریت پسندی کے نعرے قابل قبول نہیں ہیں جو برسوں تک ایشیا، افریقہ اور براعظم امریکہ میں آمروجابر حکومتوں کی حامی رہی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے تشدّد اور دہشت گردی کے خلاف جد و جہد کے دعوے نفرت انگیز ہیں جو خود صیہونی دہشت گردی کا پر چار کرتے ہیں اور عراق وافغانستان میں پر تشدّد خونی واقعات کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ان شیطانوں کی طرف سے شہری حقوق کی حمایت ایک نفرت انگیز فریب کے سوا کچھ نہیں جنہوں نے فلسطین کے مظلوم عوام پر شیرون جیسے خون آشام دہشت گرد کے جرائم کی تعریف و تمجید کے ساتھ ساتھ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ گوانتانامو بے اور ابوغریب اسی طرح یورپ کی خفیہ جیلوں میں جرائم کے مرتکب ہونے والوں، عراقی و فلسطینی قوموں کی تحقیر کرنے والوں اور افغانستان و عراق میں اسلام کے نام پر مسلمانوں کے خون بہانے کو جائز سمجھنے والے گروہوں کی تربیت کرنے والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ انسانی حقوق کی بات کریں۔ امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہری حقوق کی محافظ قرار دیں۔ کیوں کہ وہ ملزمین کی ایذارسانی و آزار، نیز سڑکوں پر ان کاخون بہانے کو جائز سمجھتی ہیں، یہاں تک کہ وہ بغیر کسی عدالتی حکم کے اپنے ہی شہریوں کی ٹیلیفون کال سننے کو جائز سمجھتی ہیں۔ وہ حکومتیں جنہوں نے ایٹمی اور کیمیاوی ہتھیار تیار اور استعمال کرنے کے ذریعے عصر حاضر کی تاریخ میں ایک سیاہ باب رقم کیا ہے وہ جوہری ٹیکنالوجی کے عدم پھیلاؤ کی علمبردار نہیں بن سکتیں۔مسلمان بہنو اور بھائیو! آج دنیا خاص طور پر عالم اسلام ایک حساس دور سے گذررہا ہے۔ ایک طرف سے بیداری کی لہر نے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور دوسری طرف سے امریکہ اور دیگر مستکبروں کے مکارانہ چہروں سے فریب و ریا کے پردے اترگئے ہیں ۔ ادھر تشخص اور کھوتی ہوئی شان و شوکت کی بازیابی کے لئے عالم اسلام کے بعض مقامات پرتحریک اٹھ رہی ہے اورعظیم مملکت اسلامی ایران میں آزاد اور مقامی سائنس و ٹیکنالوجی کے ثمرات حاصل ہونے لگے ہیں اور جو خود اعتمادی سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں انقلابی دگرگونیوں کاباعث بنی تھی، سائنس اور تعمیر و ترقی کے میدانوں میں بھی اس کی جھلک نظر آنے لگی ہے، تو دوسری طرف دشمنوں کی سیاسی و عسکری صفوں میں ضعف و اضمحلال پیدا ہوا ہے۔ آج ایک طرف سے عراق، دوسری طرف سے فلسطین و لبنان میں طاقت کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود امریکہ اور صیہونیوں کی ناتوانی کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطی کی پالیسی میں ابتدا ہی میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں اور اس پالیسی میں اس کی ناکامی، اس کے نظر یہ پردازوں کے لئے سوہان روح بنی ہوئي ہے۔ وقت ہوا ہے کہ مسلم قومیں اورحکومتیں حالات کو اپنے قابو میں لاکر ایک عظیم کارنامہ انجام دے سکیں۔ مظلوم فلسطینی قوم کی مدد، عراق کی آگاہ قوم کی حمایت اور شام و لبنان اور علاقے کے دیگر ممالک کے استحکام کی حفاظت ایک اجتماعی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز سیاسی، دینی اور ثقافتی شخصیات ، اکابرین قوم، نوجوانوں اور دانشوروں کی ذمہ داریاں دوسرے طبقات سے زیادہ بھاری ہیں ۔ اسلامی فرقوں کے درمیان وحدت و یکجہتی اور فرقہ وارانہ و قومی اختلافات سے پرہیز ان ممتاز افراد کا نصب العین ہونا چاہیے۔ سائنسی پیشرفت، سیاسی ترقی اور ثقافتی جد و جہد اور ان بنیادی میدانوں میں تمام قوتوں کوبروئے کار لانا ان کی دعوت کی بنیاد ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کوعوامی اقتدار اور انسانی حقوق کے لئے مغرب کے بار بار پامال ہونے والے غلط نسخے کی ضرورت نہیں ہے۔ عوامی اقتدار اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے اور انسانی حقوق اعلی ترین اسلامی پیغام میں شامل ہیں۔ علم کو اس کے جاننے والوں سے جہاں سے اور جس سے ممکن ہو سیکھنا چاہیے ، لیکن عالم اسلام کو ہمت کی کمر باندھنا پڑےگی کہ وہ ہمیشہ طالب علم نہ رہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نت نئی ایجادات، سائنسی تخلیق اور انکشافات کے لئے سعی و کوشش کرے۔ مغربی اقدار جو مغربی ملکوں میں اخلاقی گراوٹ، نفسانی خواہشات اور تشدد کی ترویج نیز ہم جنس پرستی اور اسی طرح کی دیگر برائیوں کو قانونی شکل دینے پر منتج ہوئے ہیں، قابل تقلید اور مثالی اقدار نہیں ہیں۔ اسلام اپنے اعلی اقدار کے ساتھ، انسانوں کی فلاح و نجات کا اعلی سرچشمہ ہے اور قوموں کے ممتاز لوگوں پر ان اقدار کے احیاء اوران کو فروغ دینے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اندھی اور وحشیانہ دہشت گردی جسے آج عراق پرقابض طاقتیں اسلام اور مسلمانوں پرحملے کاوسیلہ بنائے ہوئے ہیں اور جو اس اسلامی ملک پر فوجی قبضہ جاری رکھنے کا بہانہ ہے، اسلامی تعلیمات کی رو سے قابل مذمت ہے۔ ان مجرمانہ واقعات کے اصل ملزم امریکی فوجی اور امریکہ اور اسرائیل کے ادارے ہیں۔ عراق میں حکومت کی تشکیل کے عمل پر اثر انداز ہونا ان کے ان اہم ناپاک منصوبوں میں سے ایک ہے ۔مسلمان بھائیو اوربہنو !اللہ پر توکل، قرآن مجید کےحتمی یقینی وعدے پر اعتماد اوراسلامی اتحاد کے استحکام میں ہی امت مسلمہ کے تمام بڑے مقاصد کی ضمانت ہے اور فریضۂ حج ذکر اللہ کے کارساز اور مالامال سرمائے کے ساتھ اوراس کے مناسک میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع اس وسیع تحریک کا نقطۂ آغاز اور پہلا قدم ہوگا اور اس فریضے میں استکبار اور کفر کے سرغنوں سےقول و فعل کے ذریعے بیزاری اس راہ میں پہلا قدم ہوگا۔ ہم آپ حجاج کےلئے نیک خواہشات کے خواہاں اور تمام مسلمانوں کے لئے امام زمانہ حضرت امام مہدی (عج ) کی دعا کے طالب ہیں ۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ سید علی خامنہ ای ذی الحجّہ 1426 ہج ، مطابق 9 جنوری 2006 ع
بسم اللہ الرحمن الرحیمیا قَومَنا اَِجیبُوا داِعیَ اللہ و آِمنُوا ِبہِ یَغْفرَلکُم ِمنْ ذُُنُو ِبکُم وَ یُجرکُم ِمن َعذاب اَلیماللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آؤ تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں درد ناک عذاب سے پناہ دے الٰہی دعوت قبول کرنے والوں لبیک کہنے اور ہرولہ کرنے والوں نے ایک بار پھر خود کو اپنے محبوب کے گھر پہنچا دیا ہے۔ حج کا موسم آپہنچا ہے اور صفا و معنویت کے دلدادہ لوگوں کے لئے شوق اور آرزؤوں کے منظر کھل گئے ہیں۔ خدا کا گھر اور دلوں کا قبلہ آپ کےسامنے ہے۔ ذکر و معرفت کے چشمے جاری کرنے کے لئے عرفات و مشعر آراستہ ہیں۔ منیٰ و صفا قرب الٰہی حاصل کرنے اور شیطان پرکنکریاں مارنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ توحید اور اتحاد و یکجہتی کے شفاف چشمے سے سیراب ہوکر اپنا کردار سدھارنےکا موقع آ پہنچا ہے۔ احرام باندھتے وقت آپ نے جو صدائے لبیک اپنی زبان پر جاری کی ہے، اسے اپنے دل میں اتارئے اور اپنے محبوب کے حریم کی طرف سفر کی آپ نے جو دعوت قبول کی ہے، اس میں حج کے معنی و مقصد پر غور کر کے اس عبادت سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کیجئے۔ فریضۂ حج جب معرفت و آگاہی کے ساتھ بجا لایا جائے تو حج کرنے والے مسلمانوں اور امت مسلمہ کو فائدہ پہنچاتا ہے، حاجی کو صفا و پاکیزگی اور معنویت کی طرف لے جاتا ہے اور اُمّت کو اتحاد و یکجہتی اور عظمت و شوکت سے نزدیک کرتا ہے۔ حاجیوں کے لئے پہلا قدم خودسازی ہے۔ احرام، طواف، نماز ، مشعر، عرفات، منٰی، قربانی، رمی (شیطان کو کنکریاں مارنا) اور حلق (سرمنڈانا) یہ سب کے سب خدا کے روبرو انسان کی انکساری، خشوع و فروتنی اور ذکر وگریہ و زاری اور تقرب الٰہی کے جلوے ہیں۔ ان پُر معنی مناسک و اعمال کو غفلت کے ساتھ انجام نہ دیجئے۔ حج کا مسافر اِن تمام اعمال میں خود کو اپنے محبوب کے ساتھ تنہا دیکھے۔ اس سے روزانہ راز و نیاز کرے، اس سے حاجت طلب کرے اور اسی سے لو لگائے۔ شیطانی اور نفسانی خواہشات کو دل سے نکال دے اور حرص و حسد، بزدلی اور نفسانی خواہشات کو خود سے دور کر دے۔ اپنی ہدایت اور اس کی عطا کردہ نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرے۔ دل کو خدا کی راہ میں جہاد کے لئے آمادہ کرے، مؤمنوں سے پیار و محبت نیز عناد رکھنے والوں اور حق کے دشمنوں سے دشمنی کو اپنے دل میں جگہ دے۔ اپنی اور اپنے ارد گرد کی دنیا کی اصلاح کے لئے مصمّم عزم کرلے اور دنیا و آخرت کی آبادی کےلئے اپنے خدا سے عہد و پیمان کرے۔ حج ایک گروہی و اجتماعی کام ہے۔ حج کی الٰہی دعوت اس لئے ہے کہ مؤمنین خود کو ایک دوسرے کے نزدیک دیکھیں اور مسلمانوں کے اتحاد کا مجسم نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حج اجتماعی طور سے خدا کا قرب حاصل کرنے اور شیاطین انس و جن سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنےکے لئے ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کے اتحاد ویکجہتی کی مشق ہے اور امتِ مسلمہ کو آج سے زیادہ اس باہمی بھائی چارے اور مشرکین سے کھلم کھلا برائت و بیزاری کی کبھی ضرورت محسوس نہيں ہوئی۔ آج عالم اسلام سائنسی، اقتصادی، تشہیراتی اور اب فوجی محاصرے میں ہے۔ قدس اورفلسطین پر قبضہ ، عراق اور افغانستان پر قبضے کی شکل میں آگے بڑھا ہے۔ صیہونزم کا آ کٹوپس اور بےشرم اور نفرت انگیز امریکی سامراج، دونوں آج پورے مشرق وسطٰی، شمالی افریقہ اور پورے عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہيں اور بیداری کی اس لہر کو جس نے امتِ مسلمہ کے جسم میں ایک نئی جان ڈال دی ہے، اپنی معاندانہ اور انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنا رہے ہيں۔ آج امریکہ سمیت مغرب کی مستکبر طاقتیں اس نتیجے پر پہنچی ہيں کہ دنیا پر قابض ہونے پر مبنی اُن کے عزائم کے خلاف بیداری اور استقامت کے مراکز، مسلم اقوام وممالک خاص طور پر مشرقِ وسطٰی میں ہیں اور اگر وہ اقتصادی، سیاسی، تشہیراتی اور بالآخر عسکری ہتھکنڈوں کے ذریعے آئندہ چند برسوں کے دوران اسلامی بیداری کی تحریک کا راستہ روک کر اس کو کچلنے میں کامیاب نہ ہوئیں تو دنیا پر حاکمیت اور تیل اور گیس کے عظیم ذخائر پر قبضے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا، جو اُن کی صنعتی مشینری کو فعّال رکھنے اور پوری انسانیت پر برتری حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہیں۔ اس طرح بڑے بڑے مغربی اور صیہونی سرمایہ دار جن کے ہاتھوں میں پسِ پردہ سامراجی حکومتوں کی باگ ڈور ہے اپنی جابرانہ طاقت کھو دیں گے۔ استکبار اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ میدان میں آگیا ہے۔ ایک جگہ سیاسی دباؤ، ایک جگہ اقتصادی ناکہ بندی کی دھمکی، کسی اور جگہ تشہیراتی فریب اور دوسرے مقامات مثلاً عراق اور افغانستان اور اس سے پہلے فلسطین اور بیت المقدس میں بموں، میزائیلوں، ٹینکوں اور فوجوں کے ذریعے فیصلہ کن جنگ کے لئے اترا ہے۔ ان آدم خور درندوں کا سب سے اہم ہتھیار نفاق اور فریب کی نقاب ہے جسے انہوں نے اپنے چہروں پر ڈال رکھا ہے۔ یہ لوگ دہشت گرد گروہ تیار کرتے اور انہیں اسلحوں سے لیس کر کے بے گناہوں کی جان لینے کے لئے روانہ کرتے ہیں اور خود دہشت گردی سے مقابلے کا دم بھرتے ہيں۔ اس دہشت گرد اور سفّاک حکومت کی کھل کر حمایت کرتے ہيں جس نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور جاں بلب فلسطینیوں کا دفاع کرنے والوں کو دہشت گرد کہتے ہيں۔ مہلک ایٹمی ، کیمیاوی اور جراثیمی اسلحے بناتے ہيں، انہیں تقسیم اور استعمال کرتے ہيں اور ان کے ذریعے ہیروشیما، حلبچہ اور ایران عراق جنگ کے دوران ایران کے دفاعی محاذوں پر قیامت ڈھاتے ہيں۔ ساتھ ہی مہلک ہتھیاروں پر کنٹرول کا نعرہ لگاتے ہيں۔ یہ لوگ خود منشیات کے مافیا کی پشت پر ہیں اور منشیات سے مقابلے کا دم بھرتے ہیں۔ یہ لوگ علمی رجحان اور سائنس کی عالمی حیثیت کی نمائش کرتےہيں، ساتھ ہی عالمِ اسلام کی علمی و سائنسی ترقی کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس پر روک لگاتے اور اسلامی ممالک میں صلح آمیز ایٹمی ترقی کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہيں۔ وہ اقلیتوں کی آزادی اور ان کے حقوق کا دم بھرتے ہيں ساتھ ہی مسلمان لڑکیوں سے اسلامی حجاب کی پابندی کے جرم میں تعلیم کا حق چھین لیتے ہيں۔ آزادی بیان اور آزادی عقیدہ کا نعرہ تو لگاتے ہيں لیکن صیہونزم کے سلسلے میں کسی نظرئیے کے اظہار کو جرم سمجھتےہیں اور بہت سے قیمتی فکری و قلمی اسلامی نسخے نیز تہران کے امریکی سفارت خانہ (جاسوسی کے اڈے ) کی دستاويزات کو امریکہ میں شائع نہیں ہونے دیتےہيں۔ انسانی حقوق کی آواز اٹھاتےہيں، لیکن گوانتانامو اور ابو غریب جیسی دسیوں شکنجہ گاہیں قائم کرتے ہیں یا ایسے کم نظیر بھیانک واقعات پر رضامندانہ خاموشی اختیار کرتےہيں۔ یہ لوگ تمام مذاہب کے احترام کی بات تو کرتے ہيں لیکن سلمان رشدی جیسے مرتد مہدورالدم (جس کا خون بہانا جائز ہے ) کی حمایت کرتےہیں اور برطانیہ کے سرکاری ریڈیو سے اسلامی مقدسات کے خلاف کفر آمیز باتیں نشر ہوتی ہيں۔ آج امریکی اور برطانوی حکام کی گستاخی اور بے حیائی کی وجہ سے ان کے چہروں پر پڑا ہوا دھوکے اور نفاق کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور مستکبروں کی نفرت خود ان کے اپنے ہاتھوں مسلمان قوموں اور جوانوں کے دلوں میں بھر چکی ہے۔ آج جس اسلامی ملک میں بھی آزادنہ انتخابات ہوں، قومیں امریکہ اور برطانیہ کی آرزوؤں اور تقاضوں کے خلاف ووٹ دیں گی۔ اس وقت عراق کے انتخابات ہمارے سامنے ہیں، عراقی قوم اور اس کے حقیقی رہنما غاصب طاقتوں کے خلاف ہیں۔ عراق کے رہنما اور عوام انتخابات کو عوامی حکومت اور عوامی ارادہ پر مبنی خودمختار، متحد اور آزاد عراق کے لئے چاہتے ہيں۔ ان کی نظر میں انتخابات کو امریکہ کے فوجی قبضے اور سیاسی تسلط کے خاتمہ کی شکل میں تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کو صہیونیوں کی فتنہ انگیز موجودگي، جو امریکی اسلحوں کے سایہ ميں فرات کے کنارے تک پہنچ گئے ہيں اور نیل سے فرات تک کے خواب پریشاں کی ناقص تعبیر پوری ہوتے دیکھنے لگے ہیں ان کےخاتمہ پر تمام ہونا چاہئے۔ ان انتخابات کےذریعےان کے درمیان فرقہ واریت اور نسلی کدورتوں کو دور کرکے ان میں اتحاد و اخوّت پیدا کی جائے جو زیادہ تر مشترکہ دشمن کے ہاتھوں پھیلائی گئی ہيں لیکن یہی انتخابات قابض دشمنوں کے خیال میں ایک اور ہی مقصد رکھتےہیں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عوامی انتخابات کے نام سے اپنے ان کارندوں کو عوام پر مسلط کریں جو بعث پارٹی سے سابقہ وابستگی کی بنا پر قابض طاقتوں کے آگے ذلیل اور رام ہيں۔ وہ چاہتے ہيں کہ عراق میں اپنی فوجی موجودگی کا خرچ اپنی گردن سے اتار کر ان کارندوں کے کاندھوں پر ڈال دیں اور جو کچھ خرچ ہوا ہے، عراقی قوم کے خزانے اور عراق کے تیل کے ذریعہ پورا کريں۔ وہ لوگ استعمار کو بالکل نئی شکل میں عراق میں قائم کرنا چاہتے ہيں، جدید ترین سامراجی دور میں دشمن کے کارندے ماضی کی طرح براہ راست استعماریوں کے ہاتھوں معین نہيں کئے جاتے بلکہ انتخابات کے نام پر ایسے لوگ برسر اقتدار لائے جاتے ہيں جو بظاہر جمہوریت کا دم بھرتے ہيں لیکن بباطن وہ مظلوم عوام پر اغیار اور بیرونی دشمنوں کی مطلق العنان حاکمیت کی راہ ہموار کرتے ہیں، اس وقت عراقی انتخابات کو دو خطرے در پیش ہيں۔ ایک عوامی ووٹ کو جعل اور جا بجا کرنا کہ امریکی اس کام میں ماہر ہيں۔ اگر عراق کے اہم افراد، سیاسی شخصیات اور پڑھے لکھے جوان ہمت اور شب و روز کی محنت سے کام لیں اور اس طرح کی جعل سازي کو روکيں اور ایک عوامی و منتخب حکومت بر سر کار لائیں تو اس وقت دوسرا خطرہ یہ ہوگا کہ فوجی بغاوت کے ذریعے ایک اور آمر عراق پر مسلط کردیا جائے۔ یہ خطرہ بھی عراق کے غیور و مومن عوام اور اس کے حقیقی و محترم قائدین کی ہوشیاری، موقع شناسی اور شجاعت سے دفع ہوسکتا ہے۔ یہ افراد اس تاریخی اور حسّاس وقت میں جس سے ان کے مستقبل کے دسیوں سال وابستہ ہيں، ایمان، شجاعت اور قومی یکجہتی سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ وسیع پیمانہ پر شفاف اور پر جوش انتخابات منعقد کریں اور اس کے نتائج کی پوری طاقت سے حفاظت کریں۔ شیعہ سنی، عرب وکرد یا ترک کا اختلاف اسی طرح دوسری تفرقہ انگیز گروہ بندیاں صرف دشمنوں کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ ناامنی جو ہمیشہ آمریت کے وجود میں آنے کا مقدمہ بنتی ہے دشمن کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعہ پھیلائی جاتی ہے۔ جو لوگ ظالمانہ و سفاکانہ دہشت گردی کے ذریعے عراقی شہریوں اور علمی و سیاسی شخصیتوں کو نشانہ بناتے ہيں، وہ ہرگز ان مجاہدوں کے زمرے میں شمار نہیں ہوسکتے جو اسلام کی شان و شوکت اور خود مختاری و آزادی کی راہ میں جارح اور ظالم دشمنوں سے لڑ رہے ہيں۔ اے حج ادا کرنے والے بھائیو اور بہنو! اے مسلمان قومو اور حکومتو! آج دنیائے اسلام کو اتحاد ویکجہتی اور قرآن سے تمسّک و وابستگی کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ دوسری طرف ترقی و پیشرفت اور عظمت و سر بلندی کے لئے عالم اسلام کی توانائیاں پہلے سے زیادہ آشکار ہوچکی ہيں اور امت مسلمہ کی عظمت وبزرگی آج پورے عالم اسلام کے جوانوں اور اہل علم افراد کی خواہش و آرزو بن گئی ہے۔ مستکبروں کے منافقانہ نعرے اپنا بھرم کھو چکے ہیں اور امتِ مسلمہ کے لئے ان کے ناپاک عزائم رفتہ رفتہ آشکار ہوتے جا رہے ہيں۔ دوسری جانب یہ استکباری آدم خور جو پوری دنیا پر حاکمیت کا سودا اپنے سر میں پال رہے ہيں، امت مسلمہ کی بیداری اور اتحاد سے خوفزدہ ہیں اور اسے اپنے تباہ کن ارادوں کے آگے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں نیزاس سے آگے بڑھ جانے اور اسے روکنے کی کوششوں میں مصروف ہيں۔ آج ہر میدان میں اور ہر فتنے کے مقابل عملی اقدام اور اخوّت و برادری کا دن ہے۔ حضرت مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی حکومت کے لئے زمین ہموار کرنے کا دن ہے۔ ہر میدان میں دعوت الٰہی پر لبیک کہنے کا دن ہے۔ وہ دن ہے کہ ہمیں ایک بار پھر قرآنی آیتوں انّما المؤمنون اخوۃ اور لا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مؤمنا اور اشدّ اء علی الکفار رحماء بینھم کو اپنے دلوں میں دہرانا چاہئے۔ چاہے نجف، فلوجہ اور موصل پر بمباری ہو یا بحر ہند کا سمندری زلزلہ جس نے دسیوں ہزار خاندانوں کو عمزدہ کردیا، عراق و افغانستان پر دشمنوں کا فوجی قبضہ ہو یا فلسطین کے ہر روز کے خونیں سانحے، ان سب کے سلسلے ميں ہمیں فریضۂ الٰہی کو اپنے کاندھوں پر محسوس کرنا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتےہيں۔ یہ اتحاد عیسائیوں یا دیگر تمام ادیان اور قوموں کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ اتحاد جارح طاقتوں، تسلط جمانے اور جنگ بھڑکانے والوں کے خلاف ہے۔ یہ اتحاد اخلاق و معنویت کو فروغ دینے، اسلامی عدل وانصاف اور عقلانیت کو زندہ کرنے نیز سائنسی اور اقتصادی ترقی اور اسلام کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے ہے۔ ہم دنیا والوں کو یاد دلاتےہیں کہ جب بیت المقدس خلفائے راشدین کے زمانہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا تو عیسائی اور یہودی پورے امن و سکون کے ساتھ رہتے تھے لیکن اس وقت جبکہ بیت المقدس اور دوسرے مراکز صیہونیوں یا صلیبی صیہونیوں کے قبضہ میں ہيں مسلمانوں کا خون بہانا کیوں جائز تصور کیا جارہا ہے؟ ہم حج ادا کرنے والے محترم افراد کوخشوع، ذکر خدا، توبہ و استغفار، تدبر اور توجہ کے ساتھ قرآن کی تلاوت، نماز جماعت میں شرکت، دوسرے ملکوں کے حاجیوں کے ساتھ پیار و محبت اسی طرح تضییع وقت سے پرہیز کی دعوت دیتے ہیں۔ خدائے متعال سے آپ سب کی کامیابی، عافیت و سلامتی اور عبادات کی قبولیت کے دعاگو ہیں اور آپ سب سے ذخیرۂ الٰہی یعنی حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ اور عالمی عدل و مساوات کی حکومت قائم ہونے کے لئے التماس دعا کرتے ہيں۔والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، السید علی الخامنہ ایذی الحجہ سنہ 1425مطابق 14 جنوری 2005
بسم اللہ الرّحمن الرّحیمامّت مسلمہ نے ایک بار پھر اپنا عظیم الشان سالانہ اجتماع منعقد کیا ہے اور اس ندائے الہی پر شاندار طریقے سے لبیک کہا ہے: و اذّن فی النّاس بالحج ( اور لوگوں کو حج کی طرف بلاؤ )یہ بے مثال فریضہ بھی دیگر الہی فرائض کی طرح رحمتوں کا خزانہ ہے جس کے دروازے اپنے مقرّرہ وقت پر بندوں کے لئے کھول دیئے جاتے ہیں اور ان کے لئے خداوند عالم کے فیض و برکت کے بحر بیکراں سے سیرابی کا موقع فراہم کیا جاتا ہے ۔حج اس لحاظ سے ایک منفرد اور بے مثال فریضہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے دوران دل وجان کو جلا حاصل ہوتی اور ہر ایک حاجی اپنی توانائي اور گنجائش کے مطابق اس باران رحمت سے مستفیض ہوسکتا ہے ۔اس کے علاوہ ان ایام میں اتحاد و یکجہتی، جرات و بہادری اور بیداری و آگہی کے ذریعے امت مسلمہ کا اجتماعی تشخص بھی زیادہ اجاگر ہوکر سامنے آتا ہے جو مختلف قوموں، نسلوں، خطوں اور تہذیبوں سےتعلق رکھنے والے افراد سے مل کر تشکیل پائي ہے اور یہی آج کی دنیا کا اہم ترین تقاضہ ہے۔عالم اسلام طویل عرصے تک جمود اور خواب غفلت کا شکار رہا جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا اور بالآخر اغیار کی سیاسی اور علمی بالادستی پر منتج ہوا اور جس کی وجہ سے اس ( عالم اسلام ) کے مادی اور انسانی ذخائر دشمنوں کی ترقی و پیشرفت اور عزت وعظمت اور تسلّط کے استحکام میں استعمال کئےگئے لیکن اب وہ ( عالم اسلام ) بیدار ہوچکا ہے اور آہستہ آہستہ غارت گروں اور لیٹروں کے سامنے صف آرا ہورہا ہے۔اسلامی بیدری کی ہوا کے جھونکے عالم اسلام میں حرکت پیدا کر رہے ہیں اور علمی میدان میں اسلام کی کارکردگی کےمطالبے سنجیدگی سے کئے جارہے ہیں۔ اسلام کے سیاسی پہلو کو اہل نظر کے کے نزدیک ایک اہم مقام حاصل ہوچکا ہے اور ان کے سامنے ایک روشن اور امید افزا افق نمودار ہوا ہے ۔سوشلزم اور مارکسزم جیسے بیرونی متنازعہ نظریات کی ناکامی اور بالخصوص لبرل ازم پر مبنی مغربی جمہوریت کےمکرو فریب کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد، اسلام کا انصاف و مساوات اور حریت و آزادی پر مبنی چہرہ ہر دور سے زیادہ نمایاں ہوا اور یہ ایسے واحد مکتب فکر کے طور پر نمودار ہوا ہے جو عدل و انصاف اور آزادی و حریت کے متوالوں کی امنگوں کے مطابق ہونے کے علاوہ اہل فکر و نظر کے معیارات پر بھی کھرا اترسکتا ہے ۔بڑی تعداد میں اسلامی ممالک کے نوجوان اور بلند ہمت افراد اسلام کے نام پر اور عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کی آرزوئيں لئے ہوئے سیاسی، سماجی اور علمی میدانوں میں جد وجہد کرنے لگے ہیں اور اپنے معاشروں میں غیر ملکی سامراجی طاقتوں کےظلم و تسلط کے خلاف استقامت و ثابت قدمی کے عزم و ارادے کی تقویت کر رہے ہیں۔عالم اسلام کے مختلف علاقوں میں جن میں مظلوم ملک فلسطین سر فہرست ہے، بہت سے مرد و زن اسلام کے پرچم تلے، خود مختاری اور سربلندی و آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے آئے دن زندۂ جاوید رزمیہ داستانیں رقم کررہے ہیں اور دنیا پرست سامراجی طاقتوں کو اپنی جرات و بہادری سے قعر مذلت میں پہنچا رہے ہیں ۔جی ہاں! اسلامی بیداری کی لہر نے سامراج کے اندازوں پر خط بطلان کھینچ دیا ہے، اور سامراجیوں کے وضع کردہ توازن کو بگاڑ کررکھ دیا ہے ۔دوسری طرف سیاست اور سائنس کے میدانوں میں اسلام کے زریں اصولوں اور جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر جدید اسلامی نظریات اور ان کے ارتقا نے عملی طور ثابت کردیا ہے کہ اسلام ایک زندہ جاوید نظریہ حیات ہے جو عالم اسلام کے اہل نظر اور روشن فکر افراد کے لئے راہیں وضع اور مقرر کر سکتا ہے۔ کل کی استعماری اور آج کی سامراجی طاقتیں جو اپنی مکارانہ پالیسیوں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو ایک طرف جمود و رجعت پسندی اور دوسری جانب غلامی اور اغیار کی نظریاتی تقلید کے درمیان الجھا کررکھنا چاہتی تھیں، آج وہ خود اسلامی فکر کے اس ارتقائی عمل کے سامنے بے بس نظر آرہی ہیں۔عالم اسلام میں نئے افکار و نظریات پروان جڑھ رہے ہیں، ان میں بہت زیادہ فعالیت اور سعی و کوشش نظر آ رہی ہے۔ لوگ ایمان اور نیک اعمال کی طرف راغب ہورہے ہیں اور یہ ایک با برکت تبدیلی ہے جس نے سامراجی طاقتوں کے مراکز کو لرزہ بر اندام کردیا ہے۔امّت مسلمہ کو چاہئے کہ اپنے آپ کو استعماری طاقتوں کے مراکز کی طرف سے در پیش خطرات کا سامنا کرنے کے لئے آمادہ کرے جو وہ ( استعماری طاقتیں ) غم و غصہ اور شر پسندی کی عادت کے تحت اس عظیم تبدیلی کے رد عمل کے طور پر پیدا کررہی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حق و باطل کے معرکے میں، بالآخر حق کوہی فتح ہوتی اور شکست و زوال باطل کا مقدّر بنتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ حق کی راہ میں لڑنے والے اپنی مادّی اور روحانی توانائیوں کو صحیح طریقے پر بروئے کار لائیں اور عقلمندی و پامردی، توکل بر خدا و شجاعانہ ثابت قدمی اور امید و اعتماد نفس کے ساتھ پہلے صحیح راستے کا انتخاب کریں پھر اس پر گامزن ہوجائیں ۔اس صورت میں خدا کی نصرت و مدد کے وہ مستحق ہوں گے جیسا قرآن میں وعدہ کیا گيا ہے۔ان تنصرواللہ ینصرکم و یثبّت اقدامکم( اگر تم خدا کی نصرت کروگے تو خدا تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو ثبات عطا کرےگا )و لینصرنّ اللہ من ینصرہ( اورخدا اس کی مدد کرتا ہے جو اس کی نصرت کرے )انّ الارض یرثہا عبادی الصّالحون( بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے )صیہونزم کا سرطانی جال اور امریکی حکام کا شیطانی اور جنگ پسند ٹولہ جو آج سامراجیت کا خطرناک ترین اور سب سے بڑا جتھہ شمار ہوتا ہے، مختلف طریقوں سے امت مسلمہ کے خلاف برسر پیکار ہے۔ نفسیاتی و تشہیراتی جنگ سے لے کر معاشی جدال تک، معاندانہ سیاسی اقدامات سے لے کر تشدد، قتل اور فوجی یلغار تک، وہ صرف اور صرف اپنے ناجایز مفادات کے درپے ہیں اور اس راہ میں کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتے ۔فلسطین میں غاصب صیہونیوں کے ہولناک جرائم پر سرسری نظر جو حکومت امریکہ کے تعاون سے انجام پا رہے ہیں نیز عراق اور افغانستان میں غاصبوں کے وحشیانہ سلوک کا جائزہ ان لوگوں کی شقاوت و بربریت کو آشکارا کردیتا ہے جو دنیا میں انسانی حقوق، ڈیموکریسی اور آزادی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو دہشت گردی کے خلاف جد وجہد کی آڑ میں بدترین قتل و غارتگری کا ارتکاب کررہے ہیں اور قوموں کو آزادی دلانے کے بہانے ان کو اپنی آمریت اور لوٹ مار کا نشانہ بنارہے ہیں ۔امریکا علی الاعلان مختلف ملکوں پر چڑھائی اور قوموں کے خلاف جارحیت میں خود کو حق بجانب تصور کرتا ہے۔ صیہونی حکومت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ فلسطینی رہنماؤں کو قتل کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ صیہونی، فلسطین کے اندر پیر و جواں، مرد و زن اور بچوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان کےگھروں کو مسمار کررہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ عراق کے اندر نہتے مظاہرین پر حملے کررہے ہیں، لوگوں کے گھروں اور ان کے خیموں اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیاجا رہا ہے اورابھی ان کی بھڑکائی ہوئي آگ کےشعلے خاموش نہیں ہوئے ہیں کہ عالم اسلام کو ایک اور جنگ کی نوید سنائي جا رہی ہے۔ان کا یہ اشتعال انگیز رویہ ان کی طاقت اور خود اعتمادی سے زیادہ ان کی سراسیمگی اور خوف و ہراس کا نتیجہ ہے۔ وہ اسلامی بیداری کا احساس کررہے ہیں اور اسلام کی سیاسی تعلیمات کے فروغ اور اسلام کی حاکمیت سے اپنے لئے سخت خطرہ محسوس کررہے ہیں، وہ اس دن سے ڈر رہے ہیں جب امت مسلمہ متحد ہوکر اٹھ کھڑی ہوگی۔ اس روز ملت اسلامیہ اپنے قدرتی وسایل اور عظیم تاریخی ثقافتی ورثے، اپنی وسیع و عریض جغرافیایی قلمرو اور بےپناہ افرادی قوت کے ذریعے تسلط پسند طاقتوں کو جنہوں نے دو سو سال تک اس کا خون چوسا اور اس کی عزت و وقار کو مجروح کیا جارحیت و سرکشی بند کرنے پر مجبور کر دےگی۔ آج دنیاے اسلام کی سیاسی و نظریاتی شخصیات پر ایک اہم فریضہ عائد ہوتا ہے ۔مسلمان مفکروں کو اسلام کے حریت پسندی کے پیغام کو قابل فہم اور مناسب طریقے سے لوگوں کے مختلف طبقات تک پہنچانا چاہئے، انہیں مسلمان قوموں کے اسلامی تشخص کو صحیح طور سے بیان کرنا چاہئے نیز انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں، بد عنوانی کے خلاف اقدام، امتیازی سلوک کے خاتمے، غربت و افلاس اور علمی پسماندگی کے خلاف جد وجہد جیسے موضوعات سے متعلق اسلام کی روشن تعلیمات سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا چاہئے اور لوگوں کو دہشت گردی اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خلاف جنگ کے دعوؤں کے پس پردہ کارفرما مغربی ذرائع ابلاغ کے ناپاک عزائم سے بھی آگاہ کرنا چاہئے ۔آج نظریاتی اور عملی لحاظ سے ان موضوعات کے بارے میں مغربی دنیا کو چیلنج کرنے کی ضرورت ہے، اسے عالمی رائے عامہ کے مقابلے میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ مغربی دنیا کو فلسطین میں معصوم بچوں کے قتل عام، حقوق نسواں، عورتوں کی عزت واحترام اور قوموں کے حق خود ارادی کی پامالی اور قوموں کے ذخائر کی لوٹ مار اور حتی خود اپنے شہریوں کی آزادی کے بارے میں جواب دینا پڑےگا۔ کیا بعض یورپی ملکوں میں حجاب پر پابندی، آزادی کے ان کے بلند بانگ دعؤوں کی قلی نہیں کھول دیتے؟ اسلامی ملکوں کے سیاستدانوں اور اعلی سرکاری عہداروں کی اہم تاریخی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوموں پر بھروسہ کرتے ہوئے سامراجی طاقتوں کے کبھی ختم نہ ہونے والے مطالبات کو ماننے سے انکار کردیں۔ یہ ان کا اہم ترین فریضہ ہے، وہ امت مسلمہ کے عظیم تشخص کو جو بہت سی مشکلات کا حل ہے فراموش نہ کریں ۔عالم اسلام کےمسائل کےحل میں فیصلہ کن امر ملت اسلامیہ کے مفادات کی تکمیل اوراس کے اقتدارکی برقراری ہونا چاہئے۔آج عراق سے غاصبوں کا انخلا، اور اس ملک میں قومی اقتدار اعلی کا استحکام، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء اور اس ملک کی خود مختاری و اسلامی ماہیت پر تاکید، فلسطین کی مظلوم قوم کی مدد اور ان لوگوں کی اخلاقی اور مادی حمایت جو اپنی جان و مال اور عزت و ناموس کے دفاع اور اپنی آزادی و خودمختاری کی راہ میں غاصبوں سے بر سر پیکار ہیں۔ عالم اسلام کے گوشے گوشے میں دینی اقدار ار ایمان و اعتقاد کی ترویج، مسلمان حکومتوں کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت، آپسی مسائل کا حل، اسلامی کانفرنس تنظیم کا خود کو موثر تنظیم بنانا اور سلامتی کونسل میں ویٹو کا حق حاصل کرنےکی امت مسلمہ کے مفادات ہیں، لہذا مسلمان حکومتوں کی پالیسیوں اور اقدامات میں انہیں شامل کیا جانا چاہئے اور قوموں کے دانشوروں اور دیگر افراد کواپنی حکومتوں سے اس کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ایران کی قوم اور حکومت جو اپنے اسلامی جمہوری نظام کے قیام کی 25 ویں سالگرہ کا جش منا رہی ہے اس سلسلے میں کافی گرانبہا اور قابل فخر اقدامات کرنے کے علاوہ دنیا والوں کے سامنے مناسب نظام پیش کرچکی ہے ، ہم خدائے بزرگ و برتر پر بھروسے اور ایمان و معرفت سے سرشار قوم کی طاقت کا سہارا لیتے ہوئے نیز اپنے عظیم نصب العین کی سمت گامزن رہتے ہوئے اس کی جانب ٹھوس قدم بڑھا چکے ہیں۔ دینی حدود ارو جمہوریت کے دائرے میں رہتے ہوئے معنویت اور آزادی و خود مختاری جیسے اقدار سے آمیختہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کا سرچشمہ قرآنی تعلیمات ہیں۔اس دوران ہمارے ملک کو سامراج کی جانب سے دشمنی اور عناد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ہماری قوم اس عرصے میں ایمان و استحکام اور افتخار کی اعلی منازل طے کر چکی ہے۔ ہم نے قرآنی تعلیمات پر عمل کیا ہے جو فرماتا ہے : ان کید الشّیطان کان ضعیفا( بے شک شیطان کی چال کمزور ہے )انّ اللہ مع الّذین اتّقوا و الّذین ہم محسنون( بے شک خدا ان کے ساتھ ہے جو تقوی و پرہیزگاری رکھتے اور جو احسان کرنے والے ہیں)و انّ اللہ علی نصرھم لقدیر(اور بےشک خدا ان کی مدد پر قادر ہے )ہم اپنی قوم اور عالم اسلام کے سامنے افق کو روشن دیکھ رہے ہیں اور الہی وعدوں پر یقین کامل رکھتے ہوئے اس راستے کو عزم راسخ کے ساتھ طے کررہے ہیں جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے معین کیا ہے۔والعاقبتہ للمتقین و السلام علی عباداللہ الصالحین سیّدعلی حسینی خامنہ ای ذی الحجہ 1424ھ مطابق جنوری 2004
بسم اللہ الرحمن الرحیم حج میں دسیوں لاکھ مسلمانوں کا اجتماع، ایک بے نظیر اور حیرت انگیز واقعہ ہے۔ ان چند دنوں میں دنیا کی ہر جگہ سے اور ہر معاشرتی طبقے سے، تمام مسلم اقوام خانہ خدا، اسلام اور پیغمبر اسلام کی جائے پیدائش میں جمع ہوتی ہیں اور حج کے رمز و راز سے مملو اعمال بجا لاتی ہیں۔ ان پرشکوہ اور پرمعنی شعائر میں خدائے بزرگ سے قلوب کا تعلق، دلوں کے باہمی رابطے، محور توحید پر حرکت، ہمہ گیر سعی و کوشش، شیطان کو پتھر مارنا، طاغوت سے دوری، خدا کا ذکر اور اس کے حضور خضوع وخشوع، گریہ و زاری اور اسلام کے سائے میں عزت و عظمت کا احساس، یہ سب عمل کے ذریعے اور علامت کے طور پر مسلم اقوام کو سکھایا جاتا ہے؛ اور دینی بھائیوں کے ساتھ محبت و مہربانی کے ساتھ رہنا، دشمنوں کے مقابلے میں سختی و پائیداری، خود پرستی کی آلائشوں سے رہائی اور الہی عزت و عظمت کے سمندر سے اتصال حج کے اعمال میں مجسم ہوتا ہے۔حج، امت اسلامیہ کے متحد وجود کی علامت ہے اور اس طرز عمل کی تعلیم دیتا ہے جو امت کو اپنی سعادت کے لئے اختیار کرنا چاہیئے۔ حج کو آگاہی کے ساتھ سمت واحد میں سب کی با مقصد پیش روی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس حرکت کی بنیاد یاد خدا اور بندگان خدا کا اتحاد ہے، اور اس کا مقصد انسان کی کامیاب زندگی کے لئے ایک مستحکم معنوی مرکز کا قیام ہے؛ جعل اللہ الکعبتہ البیت الحرام قیاما للناس والشہر الحرام والہدی والقلائد۔اس وقت امت اسلامیہ کواپنی حقیقی زندگی میں حج کی طرح ایک عظیم اور بامقصد تحریک کی ضرورت ہے اور مسلم اقوام اور حکومتیں، سبھی اس ذمہ داری میں شریک ہیں ۔ گزشتہ ایک صدی میں اسلامی ممالک کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچے ہیں۔ مغرب والوں کی ملک گیری اور سامراجیت کی لہر نے سب سے زیادہ مسلم اقوام کو نقصان پہنجایا ہے جن کی دولت و ثروت اور مادی ذخائر نے انہیں سامراجی حکومتوں کی یلغار کی آماجگاہ بنایا۔اس جارحیت کے نتیجے میں مسلمانوں کو سیاسی و اقتصادی اسارت اور علمی و مادی پسماندگی نصیب ہوئی اور سامراجی طاقتوں نے مسلمانوں کے انسانی و مادی ذرائع سے فائدہ اٹھایا اور غصب، ظلم، جنگ اور تشدد کے ذریعے اپنی دولت و طاقت میں اضافہ کیا۔طویل برسوں کے بعد مسلم اقوام ہوش میں آئیں، پوری اسلامی دنیا میں مسلمانوں کی تحریک بیداری اور حریت پسندی و آزادی کے پرچم نے ان کے سامنے امیدوں کے نئے افق کھولے اور سرانجام ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی نظام کے قیام نے اسلامی دنیا کے لئے ایک نئے دور کے آغاز کا اعلان کیا ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کے طاقت و دولت کے مراکز آسانی سے حق کے سامنے نہیں جھکیں گے اور مسلم اقوام کے سامنے طویل، دشوار مگر مبارک اور خوش انجام راستہ ہے ۔ اس راستے پر چلنے والے ، اگر استقامت و پائیداری سے کام لیں، تو خود کو اور اپنے بعد کی نسلوں کو پسماندگی اور سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اسارت کی ذلت سے نجات دلائیں گے اور اسلام کے سائے میں خوشگوار زندگی سے لطف اندوز ہونگے ۔ علمی اور سیاسی مجاہدت اور اپنے حق کے طاقتور دفاع کا یہ راستہ روشن ہے ۔ اس میدان میں اپنے پامال شدہ حقوق اور عزت و شرف کے مدافع ہیں ۔ انصاف اور انسانی ضمیر، آگاہ اور سخت گیر قاضی ہے جواس مظلومانہ مجاہدت کی تائید کرتا ہے اور سنت خداوندی ان کی یقینی کامیابی کی نوید دیتی ہے ؛اذن للذین یقاتلون بانہم ظلمواوان اللہ علی نصرھم لقدیر۔عالمی سامراج یعنی، پٹرولیم کمپنیوں کے کارٹلس، اسلحہ سازی کے کارخانوں عالمی صیہونیت اور ان سے وابستہ حکومتوں کا جال، امت اسلامیہ کی بیداری سے خطرے کا احساس کررہا ہے اور سراسیمہ ہوکر یلغار کے لئے کوشاں ہے۔ اس سیاسی، تشہراتی، فوجی اور دہشتگردانہ یلغار کے مظاہر، آج صیہونی حکومت اور ریاستہائے متحدہ امریکا پر مسلط عسکریت پسندوں کے تشدد آمیز اقوال و اعمال میں واضح طورپر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ خون میں آغشتہ مظلوم فلسطین ہر روز غاصب حکومت کے وحشیانہ ترین حملوں کی آماجگاہ بنتا ہے۔ فلسطینی قوم پر صرف اس لئے قتل و غارتگری، تخریب کاری، ایذارسانی اور تذلیل و اہانت سمیت یہ تمام مصیبتیں ڈھائی جاتی ہیں کہ اس نے آدھی صدی گذرنے کے بعد اپنے پامال شدہ حقوق کا سنجیدگی سے مطالبہ کرنے کی جرات کی ہے ۔عراقی قوم کو جنگ کی دھمکیاں اس لئے دی جارہی ہیں کہ امریکی حکومت تیل کی سپلائی پر تسلط، علاقے کے تیل کے باقی ماندہ ذخائر کی غارتگری اور فلسطین، ایران، شام اور سعودی عرب کی سرحدوں کے نزدیک موثر موجودگی کے لئے ضروری سمجھتی ہے کہ عراق میں اپنے قدم جمائے، اور اس کے نتیجے میں اس ملک کا انجام، جنگ میں مشرق وسطی کے تمام ملکوں کا دامنگیر ہو۔ افغان قوم نے صرف اس لئے ایک سال اور چند مہینوں سے امریکا اور برطانیہ کے اجتماعی قتل عام کے ہتھیاروں، بموں، اور ان کی مداخلت، توہین آمیز موجودگی اور غاصبانہ قبضے کوجسم و جان پر لمس کیا ہے کہ حکومت امریکا نے اپنے ناجائز مفادات کی اسی طرح تعریف کی ہے ۔اس انسانیت مخالف سامراجی گروہ کی حرص و طمع کی کوئی حد نہیں ہے۔ اگر ڈیڑھ سو سال قبل امریکا لاطینی امریکا کے ملکوں کا مالک بننا چاہتا تھا تو وہ حالیہ پچاس برسوں سے اس علاقے کے تمام اسلامی ملکوں کا آمر مطلق اور سلطان بننا چاہتا ہے۔ امریکا کی تمام خطرناک بین الاقوامی منصوبہ بندی اور اہداف کا تعین، اس کے اس متکبرانہ مگر احمقانہ مدعا کا ثبوت ہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکا اور اس کے اتحادی ناکام ہوں گے اور دنیا ایک بار پھر ایک بد مست طاقتور سلطنت کا زوال دیکھے گی، جیسا کہ افغانستان میں بھی اور فلسطین میں بھی اس کے تمام اندازے غلط نکلے ہیں لیکن اگر امت اسلامیہ نے، اسلامی اقوام اور حکومتوں نے بر وقت خردمندانہ اور دلیرانہ فیصلہ نہ کیا تو ایک بار پھربھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا جس کی تلافی دیر میں ہوگی۔ امریکا نے اپنی نئی دیوانہ وار تحریک میں جس کا آغاز گیارہ ستمبر کے مشکوک حادثے کے بعد ہوا، تشہیراتی حملے بھی شروع کئے ہیں؛ یعنی ڈیموکریسی اور دہشتگردی مخالف پرچم اٹھایا اور اسلامی اقوام کے لئے کیمیائی اور اجتماعی قتل عام کے ہتھیاروں کی مذمت کی باتیں کررہا ہے۔ کیا وہ یہ نہیں سوچتا کہ ممکن ہے کہ مسلمان پوچھیں کہ یہ ہتھیار کن حکومتوں اور کمپنیوں نے عراق کی بعثی حکومت کو دیئے؟ انیس ہزار کیمیائی بم جن کے لئے تم دعوا کرتے ہو کہ عراق کی بعثی حکومت کے پاس تھے اور چونکہ تیرہ ہزار اس نے ایرانیوں پر گرائے تو چھے ہزار اس کے پاس موجود ہونے چاہئیں اور تم اس بناپر عراق پر مستقبل کے حملے کی توجیہ کرتے ہو، اتنی مقدار میں کیمیائی وسائل اور ہتھیار حکومت عراق کے پاس کہاں سے آئے ؟ کیا تمھارے اور تمھارے اتحادیوں کے علاوہ کوئی اور اس تاریخی المئے میں شریک جرم ہے ؟ کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد اور نامعلوم گروہ اور اشخاص پر الزام لگاکر مسلم اقوام کو جو دنیا کی وحشی ترین دہشتگرد یعنی صیہونی حکومت کی امریکا کی جانب سے حمایت کا مشاہدہ کررہی ہے، دھوکہ نہیں دیا جاسکتا؟ امریکا بھاری اخراجات سے اپنی اس دیوانہ وار تشہیراتی مہم کے ذریعے مسلم اقوام کی نگاہوں میں جھوٹ، فریب اور حیلہ گری کا مظہر بن چکا ہے ۔ متکبر اور مستکبر امریکا فلسطین اور افغانستان میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا ہے اور ان تمام سنگین مادی اور معنوی اخراجات کا نتیجہ گھاٹے کے علاوہ اور کچھ نہ نکلا ، اور اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا، انشاءاللہ ۔عراق میں بھی اس کا دعوا ہے کہ مقصد صدام اور بعثی حکومت کا خاتمہ ہے، یقینا وہ جھوٹ بولتا ہے اور اس کا اصل مقصد اوپک پر قبضہ کرنا، علاقے کے تیل کو لوٹنا ، صیہونی حکومت کی نزدیک سے حمایت کرنا اور ایران، شام اور سعودی عرب کے خلاف قریب سے سازش کرنا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ اگرامریکا نے عراق پر جنگ کے ذریعے یا بغیر جنگ کے قبضہ کرلیا تو اس معاندانہ قبضے کی پہلی قربانی عراقی قوم اور اس تاریخی ملت کی عزت و شرف، غیرت، حمیت، ناموس اور دولت و ثروت ہوگی۔ اگر عراق کے پڑوسی ممالک ہوشیار رہیں تو یہ اہداف بھی حاصل نہیں ہوں گے ۔انشاءاللہ ۔سامراج جانتا ہے کہ مسلم اقوام اور حکومتوں کی پائیداری کا سر چشمہ اسلام اور اس کی نجات دہندہ تعلیمات ہیں۔ بنابریں اس نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وسیع نفسیاتی جنگ شروع کی ہے۔ گیارہ ستمبر کے حادثے کےبعد بےشمار قرائن صیہونیوں کے گھس پیٹھ کرنے والے خفیہ گروہوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں مگر بہت تیزی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے نام ان میں شامل کئے گئے اور شب و روز اس کی تکرار کی گئی ۔ کچھ مسلمانوں کو امریکا، افغانستان اور دیگر مقامات سے گرفتار کرکے جیلوں اور خوفناک عقوبت خانوں کے حوالے کردیا گیا۔ نہ ان افراد پر الزام کبھی ثابت ہوا اور نہ ہی امریکیوں کی جنگ کے معروف ملزم گرفتار ہوئے ۔ مگر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ نہ رکی اور اور شائد ابھی رکے گی بھی نہیں ۔ اسلام آزادی، عدل اور حق پسندی کا دین ہے۔ حقیقی جمہوریت وہی دینی جمہوریت ہے جو ایمان اور دینی ذمہ داری کی پشتپناہی میں سامنے آتی ہے اور جیسا کہ ایران اسلامی میں دیکھا جا رہا ہے، امریکا جیسوں کی ڈیموکریسی سے زیادہ عوامی حکومت ہے جو زیادہ صداقت کے ساتھ اورزیادہ اطمینان بخش انداز میں کام کرتی ہے۔ امریکی اسلامی اور عرب ملکوں کو جو ڈیموکریسی دینے کا وعدہ کررہے ہیں، وہ ان کے بموں میزائیلوں اور گولوں سے زیادہ تباہ کن ہے۔ دشمن اگر ہمیں ایک کھجور بھی دے تو یہ اطمینان نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو مہلک زہر سے آلودہ نہ کیا ہوگا۔ افریقا، مشرق وسطی اور مغربی ایشیا میں امت اسلامیہ نے بارہا حتی حالیہ برسوں میں بھی اس کا تجربہ کیا ہے ۔ان حساس اور سنگین حالات میں امت اسلامیہ کوحج کے عظیم نمونہ عمل سے پہلے سے زیادہ درس حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے سیدھے راستے پر اور قرآنی اہداف کی جانب آگاہی کے ساتھ بڑھنے والی با مقصد، متنوع اور ہمہ گیر تحریک کی ضرورت ہے۔ قال تعالی ؛ الذین آمنوا یقاتلون فی سبیل اللہ والذین کفروا یقاتلون فی سبیل الطاغوت فقاتلوا اولیاءالشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ، و قال تعالی ؛ و قال موسی لقومہ استعینوا باللہ واصبروا ان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین و صدق اللہ العلی العظیم ۔والسلام علیکم و رحمتہ اللہ ۔السید علی الخامنہ ای 5 ذیحجہ 1423ھ مطابق 2003/2/7ع
بسم اللہَ الرّحمن الرّحيمالحمد للَّہ ربّ العالمين والصّلاۃ والسّلام على البشير النذير والسّراج المنير سيّدنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الطاھرين و علىالخيرۃ من اصحابہ المنتجبينمسلمانوں کی سب سے بڑی سالانہ ملاقات کی خوشخبری کے ساتھ حج کے ایام آ گئے ہیں، اور بجا ہوگا کہ اشتیاق سے لبریز لاکھوں دل، جنہیں ان ایام میں اللہ تعالی کے فیض قربت سے استفادے کا موقع حاصل ہوگا، مسلسل جوش و خروش اور اپنے آپ کو تیار کرنے کے ہیجان میں رہیں، اور حج کے دسیوں لاکھ خواہشمند مسلمان، جن کا نام اس سال، اس موقع سے استفادہ کرنے والوں (حج سے مشرف هونے والوں) میں نہیں ہے، سعادت حاصل کرنے والوں کے ہر دن اور ہر لمحے کو یاد کرتے ہوئے اور ان کے لیے بھی اور اپنے لیے بھی دعا کرتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو معطر کریں، اور تمام صاحبان دل مسلمان، حج کے ایام کو کسی نہ کسی طرح حج اور اس کے جلال و جمال کی نشانیوں کے ساتھ گزاریں۔ہر سال حج کے مناسک، ایک اہم واقعہ ہوتے ہیں اور بجا ہوگا کہ ان ایام میں پورے عالم اسلام کے لوگوں کے افکار، توجہ، غور و فکر اور احساسات کا اصلی مرکز یہی مناسک ہوں اور ہر کوئی اپنی معنوی، فکری اور سیاسی پوزیشن کے لحاظ سے ان کے بارے میں کسی نہ کسی طرح غور و فکر کرے اور اسی ماحول میں پہنچنے کی کوشش کرے۔ بہت ہی واضح سی بات ہے کہ جن افراد کو حج سے فیضیاب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ہے وہ اس ذمہ داری اور توقع کے مرکز میں ہیں اور چونکہ ان کے جسم، جان، افکار اور کوششیں حج اور اس کی برکتوں اور اثرات سے وابستہ ہیں لہذا بہتر ہے کہ وہ اس سے معنوی، روحانی، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔اگرچہ حج کی برکتیں، حیات انسانی کے تمام پہلوؤں کو اپنے دائرے میں لے لیتی ہیں اور لایزال رحمت کی یہ بارش، انسان کے دل اور افکار کی خلوتوں سے لے کر سیاست اور معاشرے، مسلمانوں کے ملی اقتدار اور مسلم اقوام کے درمیان تعاون کے میدان تک کو بارور اور زندگی کو اشتیاق سے شرابور کر دیتی ہے لیکن شاید کہا جا سکتا ہے کہ ان سب کی کنجی، معرفت ہے اور اپنی آنکھوں کو حقائق کی جانب کھولنے اور سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت سے استفادہ کرنے پر مائل شخص کے لیے حج کا سب سے پہلا تحفہ، بے نظیر معرفت اور شناخت ہے جو عام طور پر حج کے علاوہ، مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ساتھ حاصل نہیں ہوتا اور کوئی بھی دوسرا دینی موقع حج میں حاصل ہونے والے شناخت کے اتنے سارے مواقع کو ایک ساتھ اسلامی امت کے حوالے نہیں کر سکتا۔یہ معرفت، کچھ باتوں کی شناخت سے عبارت ہے؛ جن میں سے کچھ یہ ہیں:ایک فرد کی حیثیت سے اپنی شناخت، اسلامی امت کے عظیم مجموعے کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، اس امت واحدہ کے نمونے کی شناخت، خدا کی عظمت و رحمت کی شناخت اور دشمن کی شناخت۔ایک فرد کی حیثيت سے اپنی شناخت، اپنے وجود کے بارے میں غور و فکر کرنے اور اپنی کمزوریوں اور صلاحیتوں کی شناخت کرنے کے معنی میں۔جس جگہ مادی تشخص اور مال، عہدہ، نام، زیور اور لباس اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں اور انسان فرق و امتیاز کے ان اسباب سے علیحدہ ہوکر دوسرے لاکھوں انسانوں کے ساتھ طواف، سعی، نماز، افاضے اور وقوف کرتا ہے اور امیر اور غریب، حاکم اور رعیت، عالم اور جاہل، سیاہ اور سفید سب کے سب ایک لباس میں اور ایک انداز میں خدا کی جانب رخ کرتے ہیں، اس کی جانب دست نیاز بڑھاتے ہیں اور اپنے آپ کو جمال، عظمت، اقتدار اور رحمت کے مرکز میں پاتے ہیں، اس جگہ ہر انسان غور و فکر کرکے خداوند متعال کے مقابل اپنی کمزوری اور تہیدستی اور خدا سے تقرب کے سائے میں اپنی بلندی، اقتدار اور عزت کو بخوبی سمجھ سکتا ہے، اپنے کمزور وجود کے بارے میں باطل اور غرور انگیز توہم کو دور پھینک سکتا ہے اور خودپسندی و نخوت کے شیشے کو چور چور کر سکتا ہے جو اس کی سب سے بری عادات اور اطوار کا سبب ہے۔ دوسری جانب وہ عظمت کے سرچشمے سے رابطے کی حلاوت کو چکھ سکتا ہے اور اس سے متصل ہو جانے نیز اپنے اندرونی بتوں سے دوری اختیار کرنے کو آزما سکتا ہے۔ یہ بنیادی شناخت، جو تمام عبادتوں کا جوہر اور اولیائے خدا کی دعا و مناجات کا مضمون ہے، انسان کو پاک و پاکیزہ بناتی ہے اور اسے اگلی شناخت کے لیے آمادہ اور کمال کی تمام راہیں طے کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ عام زندگی میں، دنیوی بکھیڑے، مادی جدوجہد کے لیے ضرورت سے زیادہ سرگرمیاں اور انسانوں کی روزمرہ کے زندگی میں کبھی نہ ختم ہونے والے جھنجٹ دل کو غافل بنا دیتے ہیں، اسے اس واضح و روشن معرفت سے باز رکھتے ہیں، باطل وہم و گمان کے جالوں میں پھنسا دیتے ہیں اور اس کے دل کو تاریکی اور ظلمت کی جانب کھینچ لے جاتے ہیں؛ حج ان تمام بیماریوں اور مسائل کا شافی علاج ہے۔ امت اسلامی کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنی شناخت، ان تمام حاجیوں حاجیوں، مسلمان اقوام اور اسلامی سرزمینوں کو دیکھنے کے مترادف ہے جنہوں نے اپنے لوگوں کو خانۂ خدا کے طواف کے لیے روانہ کیا ہے۔ تمام حاجیوں پر نگاہ، اس عظيم اسلامی امت پر نگاہ ہے جو آج پوری دنیا میں دسیوں اقوام اور کروڑوں انسانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے اور زندگی اور سماجی فلاح و بہبود کے اہم ترین مادی اور معنوی وسائل سے بہرہ مند ہے۔ نیز پوری انسانیت اور صنعتی تمدن اپنے تمام تر مادی وسعت کے ساتھ، اس کے اور اس کے بے پناہ وسائل و ذخائر نیز اس کی منڈیوں اور ثقافتی و علمی ورثے کے محتاج ہیں اور اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔اس عظیم حقیقت کے ایک جزو کی حیثیت سے اپنے آپ کی شناخت، حاجی کو اپنے بھائیوں اور اقرباء کے ساتھ حقیقی اور جذباتی رشتوں سے متصل کرتی ہے اور جدائی اور تفرقے کے سحر کو باطل کر دیتی ہے جو برسوں سے کل کے استعمار اور آج کے سامراج کے ہاتھوں سے رنگ و نسل، زبان، مذہب اور قومیت کے نام پر کیا جا رہا ہے۔طبقاتی دنیا کے سرغنہ یعنی وہ سیاستداں، جنہوں نے دنیا کو ہمیشہ طاقتور اور کمزور یا سامراجی اور پسماندہ جیسے دو طبقوں میں تقسیم کرنے اور پسماندہ اقوام کے خلاف طاقت اور اقتدار کے مرکز کو اپنے درمیان تقسیم کیے رکھنے کی کوشش کی ہے، گزشتہ دو صدیوں سے لے کر اب تک اسلامی اتحاد سے خوفزدہ رہے ہیں اور انہوں نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی ہیں! انہیں لوگوں نے جنہوں نے موجودہ عشرے میں بالکان کے مسلمانوں کے قتل عام یا یورپی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی رویے اور ناانصافی کے ذریعے یا ان باتوں کے سلسلے میں لاپرواہ رہ کر پورے یورپ کو عیسائي بنانے کا عزم ظاہر کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کو مختلف قسم کے اہانت آمیز ناموں سے پکارا اور تبلیغ اور عمل کے ذریعے اس میں رکاوٹیں ڈالیں۔فرد فرد میں اس احساس کی تقویت کہ وہ ایک عظيم مجموعے کا جزو ہے اور اس کی صحیح ہدایت کو تفرقہ ڈالنے والے تمام ہتھکنڈوں پر غلبہ کرنا چاہیے اور ساتھ ہی یہ کہ اس قومی اور مذہبی تشخص کو اسلامی امت کے مختلف میدانوں میں باقی رہنا چاہیے، اتحاد و یکجہتی کے فائدوں میں سے ہے اور اس پورے مجموعے کو بہرہ مند کرتا ہے اور اسلامی امت کے اتحاد میں پوشیدہ عزت و اقتدار، اس کے تمام اراکین اور اجزا کو حاصل ہوتا ہے۔حج میں طواف، سعی، نماز جماعت اور تمام اجتماعی عبادتیں اور مناسک، حاجی کو یہی سبق دیتے ہیں اور اسے اس کی روح کی گہرائیوں تک میں راسخ کر دیتے ہیں۔ اس امت واحدہ کے ایک نمونے کی شناخت کا مطلب ہے، اسلامی اتحاد کے عملی جامہ پہننے کی آرزو کی راہ میں ایک عملی قدم اور عالمی سیاست کے میدان میں ایک متحدہ اسلامی طاقت کا ظہور۔دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف زبانوں اور رنگوں کے ساتھ آنے والے حاجیوں کے جم غفیر کو دیکھنے سے مسلمان کی بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ذاتی، قومی اور ملی سرحدوں سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ اس کا اسلامی فریضہ اس کے برادرانہ رویے کو ان کے ساتھ میل جول، ہمزبانی اور یکجہتی کی راہ پر آگے بڑھاتا ہے، اقوام کی خاص خبروں کو پورے عالم اسلام تک پہنچاتا ہے اور دشمن کی تشہیراتی سازشوں کو جو ہمیشہ اور اس وقت ہمیشہ سے زیادہ حقائق کو تبدیل کرنے، جھوٹی خبریں تیار کرنے اور افواہیں پھیلانے میں مشغول ہے، ناکام بنا دیتا ہے اور علاقائیت، زبان اور اسی قسم کے خیالی فاصلوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک قوم کی کامیابی و کامرانی کی داستان سنا کر دوسری اقوام میں امید کی روح پھونک دیتا ہے اور ایک ملک کے تجربے کی تشریح کرکے ایک دوسرے ملک کو تجربہ کار بناتا ہے۔ افراد اور اقوام کے درمیان سے اکیلے پن اور تنہائی کے احساس اور ان کی نظروں سے دشمن کے رعب و دبدبے کو ختم کرتا ہے۔ ایک ملک کے اہم مصائب کو دوسروں سے بیان کرتا ہے اور انہیں ان کے حل کے لیے ترغیب دلاتا ہے۔حج کے ایام میں حاجیوں کا ایک جگہ پر قیام خصوصا عرفات اور مشعر میں وقوف اور منیٰ میں شب بسری یہ سب اس مفید اور کارساز شناخت کے بھرپور مواقع ہیں۔حج میں خداوند متعال کی عظمت و رحمت کی شناخت، اس گھر کی تعمیر پر غور کرنے کے مترادف ہے کہ جو خانۂ خدا ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کا بھی گھر ہے ؛ انَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكََّۃ مُبَارَكًا وَ ھُدًى لِّلْعَلَمِينَ.(1) (بلاشبہ (کعبہ) لوگوں کے لیے بنایا جانے والا پہلا گھر ہے جو مکے میں ہے۔ یہ تمام عالمین کے لیے مبارک اور (باعث) رحمت ہے۔)اسی طرح یہ، وہ جگہ ہے جہاں کا رخ حاجت مند انسان کرتا ہے، اور وہ مقام بھی ہے جہاں دین الہی کی عظمت جلوہ افروز ہوتی ہے۔ یہ شکوہ و جلال، سادگی و عظمت کا ایک نمونہ، اولین صدائے توحید کی یادگار اور اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کا مقام بھی ہے، اور وہ جگہ بھی ہے جہاں قدم قدم پر صدر اسلام کے ان مجاہدین کے نقوش پا موجود ہیں جنہوں نے اس جگہ پر عالم غربت میں جہاد کیا، مظلومیت کے ساتھ یہاں سے ہجرت کی اور بڑے ہی مقتدرانہ اور فاتحانہ انداز میں یہاں واپس لوٹے اور اسے عربوں کی جاہلیت کی نشانیوں سے پاک کر دیا۔ اسی طرح یہ جگہ، خدا کے حضور گڑگڑانے والوں کے انفاس، عبادت کرنے والوں کے سجدوں کے نشانوں اور خدا کی مدح و ثنا کرنے والوں کے حاجت مند ہاتھوں کی خوشبو سے معطر ہے۔ یہ ابتدا میں خورشید اسلام کے طلوع اور آخر میں مہدی موعود کے ظہور کا مقام بھی ہے، مضطرب دلوں کی پناہ گاہ بھی ہے اور تھک چکی روحوں کو امید عطا کرنے والا سرچشمہ بھی ہے۔فریضۂ حج کا وجوب اور اس کے مناسک کی ترتیب، عظمت کی علامت بھی ہے اور رحمت کی آیت بھی۔ اسی شناخت کے ذریعے ہی مسجدالحرام میں کعبۂ مکرمہ کا مشاہدہ کرتے ہی دل متغیر ہو جاتے ہیں، بڑی تیزی کے ساتھ صراط مستقیم سے ملحق ہو جاتے ہیں اور انسان تبدیل ہو جاتے ہیں۔ دشمن کی شناخت، ان تمام شناختوں کا نتیجہ اور ان کا تتمہ ہے۔ اس کے بغیر مسلمان کا دل اور ذہن، بغیر کسی حفاظت والے خزانے کی مانند ہے جو رہزنوں، دھوکے بازوں اور لٹیروں کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں ہے۔ حج کے اعمال میں رمی جمرات، دشمن کی شناخت اور اس سے مقابلے کا مظہر ہے اور پیغمبر معظم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کے موقع پر مشرکین سے برائت و بیزاری کی آواز بلند کی اور حج کے دوران برائت کی آیتوں کو امیر المومنین علیہ السلام کی آواز میں سنوایا۔ اگر کسی دن عالم اسلام اور اسلامی امت، جری دشمن کے وجود سے نجات حاصل کرلے اور یہ بات ممکن ہو سکے تو برائت کا فلسفہ بھی باقی نہیں رہے گا تاہم موجودہ دشمنوں اور دشمنیوں کی موجودگی میں دشمن کی جانب سے غفلت اور برائت کے سلسلے میں لاپرواہی بہت بڑی اور نقصان دہ غلطی ہوگی۔ اگر وہ قدیمی شناخت حاصل ہو جائے تو عالم اسلام کے دشمن بھی پہچانے جائيں گے۔ ہر وہ واقعہ یا شخص، یا حکومت و نظام کہ جو مسلمانوں کو ان کے اسلامی تشخص سے بیگانہ کردے یا انہیں بکھراؤ اور پراکندگی کی راہ پر ڈال دے یا انہیں اپنی اسلامی عزت و عظمت کے حصول کی جانب سے لاپرواہ یا مایوس کرے، وہ دشمنانہ کام کرے گا اور اگر وہ خود دشمن نہیں ہے تو دشمن کا آلہ کار ہے۔قرآن مجید میں شیطان کو برائی، شر اور انحطاط پیدا کرنے والی ایسی طاقتوں سے تعبیر کیا گیا ہے جو انبیاء کے مخالف محاذ پر کھڑی ہیں۔وَكَذلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِىٍّ عَدُوًّا شَياطِينَ الاِْنسِ وَالْجِنِّ.(2) (اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنات میں سے شیطانوں کو ہر نبی کے لیے دشمن بنایا۔) پورے قرآن مجید میں شیطان کے ذکر اور اس کی نشانیوں کو دہرایا گيا ہے اور نزول وحی کے پورے عرصے کے دوران شیطان کا نام لیا گيا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان معاشروں میں کبھی بھی دشمن کے ذکر اور اس کی علامتوں کی جانب سے غفلت نہیں برتی جانی چاہیے۔آج شیطان کی، جو وہی سامراج کا سیاسی محاذ ہے، پوری کوشش یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی جانب سے مایوس اور گرانقدر علم و ثقافت کے ذخیرے کے سلسلے میں لاپروا بنا دیا جائے۔ ہر وہ بات اور واقعہ جو مسلمانان عالم میں امید پیدا کرے اور انہیں اسلام کی بنیاد پر مستقبل کی تعمیر کے لیے ترغیب دلائے، سامراج کی نظر میں بہت بڑا دشمن اور قابل نفرت ہے۔ اسلامی ایران کے ساتھ بڑے شیطان کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل اور ایک بڑی آبادی نیز لامتناہی مادی و معنوی دولت و ثروت کے ساتھ ایک وسیع و عریض ملک کا انتظام بخوبی چلائے جانے سے مسلمانوں کو اسلامی عزت و عظمت کی نوید مل رہی ہے اور ان کے دلوں میں امید کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کو انیس برس گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں پوری دنیا نے مسلم اقوام کے رویے میں امید کی علامتیں دیکھیں اور اب بھی دیکھ رہی ہیں اور جیسے جیسے زمانہ آگے بڑھا اور اس عظیم موج کے مقابلے میں سامراجی دنیا کی سازشوں کو شکست ہوتی گئی اور اس امید میں مزید اضافہ ہوتا گيا ہے۔ فلسطینیوں کی بیداری اور غاصب صیہونیوں کے مقابلے میں اسلامی نعروں کے ساتھ ان کے حریت پسندانہ جہاد کے آغاز کے سبب یورپ میں مسلمان اقوام کی بیداری اور یورپ والوں کے ہاتھوں یا ان کی حامیانہ خاموشی کے سبب بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے پیش آنے والے خونریز المیے کے باوجود، ایک مسلمان بوسنیائی ملک کی تشکیل، ترکی اور الجزائر میں مغربی جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے مطابق اسلامی حاکمیت پر ایمان رکھنے والے افراد کا برسراقتدار آنا، البتہ دونوں ہی ملکوں میں بغاوت، غیر قانونی طاقتوں کی مداخلت اور اسلامی اقتدار کے عالمی دشمنوں کی عداوت کے سبب ان کی کامیابی ادھوری رہ گئی- سوڈان میں اسلامی بنیادوں پر حکومت کی تشکیل، کہ جو غیر ملکی سازشوں کے باوجود بحمد اللہ بدستور اسلامی اقتدار کی راہ پر گامزن ہے، ایسے بہت سے مسلمان ممالک میں اسلامی نعروں کا احیا، جہاں یہ نعرے طاق نسیاں کی زینت بن چکے تھےاور ایسی ہی دوسری متعدد مثالیں یہ سب کی سب پورے عالم اسلام اور امت مسلمہ پر ایران میں اسلامی جمہوریہ کی پیدائش کے گہرے اور روز افزوں اثرات کی نشانیاں ہیں۔اسی وجہ سے اسلامی ایران سے سامراج کی دشمنی روز بروز زیادہ سخت اور کینہ آمیز ہوتی جا رہی ہے۔ فوجی، اقتصادی، سیاسی اور تشہیراتی سازشوں کی مسلسل ناکامی کے بعد سامراج نے ایک نیا محاذ کھول دیا ہے جو اس سے پہلے بھی ایران اسلامی کے خلاف سرگرم رہا ہے۔ یہ محاذ، ایک تشہیراتی جنگ کا محاذ ہے؛ اور اس کا مقصد ایرانی قوم اور حکومت پر الزام تراشی کرنا اور اس کے نتیجے میں مسلمان اقوام کے دلوں میں روشن امید کے چراغوں کو خاموش کرنا ہے!اس تشہیراتی جنگ میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایرانی قوم، انقلاب کے سلسلے میں اپنی عظیم تحریک، اس کے نعروں اور اسلام و قرآن کی حاکمیت سے پشیمان ہو چکی ہے اور ملک کے حکام نے اسلام اور انقلاب سے منہ موڑ لیا ہے! مثال کے طور پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ ایرانی حکومت، امریکی حکومت کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ ملک کے حکام کی جانب سے اس دعوے کی بار بار تردید اور اسلام، انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریات کی پابندی کے سلسلے میں ان کی مسلسل تاکید، اس بات میں رکاوٹ نہیں ہے کہ سامراج خصوصا امریکی سامراج کے تشہیراتی ادارے حتی سیاسی حکام، زبانوں سے اور مخلتف طریقوں سے اپنے دعوے کو دہراتے رہیں اور تبصروں، خبروں نیز عالمی رپورٹوں خصوصا عالم اسلام کی سطح پر پہلے سے زیادہ اس دعوے کی تکرار کرتے رہیں۔حج میں دشمن کی شناخت کا مطلب ان طریقوں اور ان کے محرکات کی شناخت، اور برائت کا مطلب دشمن کی سازش کا پردہ چاک کرنا اور اس سے بیزاری کا اظہار کرنا ہے۔ایرانی قوم اور حکومت نے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم الشان قیادت میں اپنے عظیم انقلاب کے ذریعے اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اسلام و ایران کی عظمت کا پرچم لہرایا ہے اور اپنی عزت، قومی خودمختاری اور تاریخی حیات کو واپس حاصل کیا ہے۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے ایرانی قوم کو روز افزوں برائیوں، علمی و اخلاقی پستی، سیاسی آمریت اور امریکہ پر انحصار سے نجات حاصل ہوئی اور اس نے حیات اور تعمیر کے نشاط کو دوبارہ حاصل کیا۔ اسے اغیار کے پٹھو، نااہل، خیانت کار، بدکار، آمر اور ظالم مہروں سے نجات اور ایک عوامی حکومت، ہمدرد، ماہر، مومن اور امین حکام حاصل ہوئے۔ اس نے اپنے ملک کا اختیار اور اس کے قومی اور خداداد ذخائر کو، جنہیں اغیار لوٹ رہے تھے، اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے اندر موجود ماہر افرادی قوت کو، جو خیانت کار اور پٹھو بادشاہوں کی کمزوری اور بدعنوانی کے سبب برسوں تک عضو معطل بنی رہی تھی، زندہ کیا اور علم و عمل کے تمام میدانوں میں دو صدیوں کے پچھڑے پن کی تلافی کے لیے بڑے بڑے قدم اٹھائے۔ مستقبل کے لیے بھی اس نے اپنی بلند ہمتی، عزم مصمم اور روشن افکار کو اپنے انیس سالہ تجربے کے ساتھ، مشعل راہ بنا لیا ہے۔ایرانیوں اور ایران پر اسلام، اسلامی انقلاب اور اس کے عظیم قائد امام خمینی کا حق زندگی کا حق ہے اور ہماری قوم و حکومت اس حقیقت کو نہ تو کبھی فراموش کرے گی اور نہ ہی اس واضح راستے اور صراط مستقیم سے پیچھے ہٹے گی۔امریکی حکومت نے ابتدائی برسوں ہی سے، جب اس نے تقریبا پچاس برس قبل ایران کے سیاسی پلیٹ فارم پر قدم رکھا، ایران اور ایرانیوں کے ساتھ خیانت اور جفاکاری کی۔ بدعنوان اور غیر عوامی پہلوی حکومت کی حمایت کی۔ پٹھو، کمزور اور غلام ذہنیت والی حکومتوں کو اقتدار میں پہنچایا۔ ہماری قوم پر اپنے ارادوں کو مسلط کیا۔ ہمارے قومی ذخائر کی لوٹ مار کی۔ تیل اور اسلحوں کے زیاں بار سودوں کے ذریعے اس قوم کی بے پایاں دولت و ثروت کو لوٹا۔ ایران کی مسلح افواج کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ شاہ کی سکریٹ سروس اور اس کے ایذائیں پہنچانے والے افراد کو تربیت دی۔ ایران اور عربوں سمیت بہت سی مسلم اقوام کے درمیان اختلاف ڈالا۔ ایران میں برائیوں اور بے راہ روی کو ہوا دی۔ مختلف مراحل میں اسلامی تحریک کی سرکوبی کے لیے شاہ کی حکومت کے ساتھ تعاون اور اس کی رہنمائی کی اور جب ظلمت و کفر و طاغوت کے اس محاذ کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسلامی انقلاب کامیاب ہو گیا تو اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے ابتدائی ایام سے ہی ایران اور اس کی انقلابی قوم کے خلاف مختلف قسم کی دشمنیاں، حملے، سازشیں اور معاندانہ اقدام شروع کر دیئے۔ آٹھ سالہ جنگ میں عراقی حکومت کی بھرپور مدد سے لے کر ایران کے مکمل اقتصادی محاصرے کے لیے سرگرمیوں، خیانت کار اور فراری عوامل کی مدد، اس سے متعلق تمام تشہیراتی اداروں میں مستقل پروپیگنڈوں، علاقائي اختلافات میں اشتعال انگیزی، ایران اور اس کے ہمسایوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی بھرپور کوششوں، سی آئی اے کے ایجنٹوں کے توسط سے ایرانی حکومت کا تختہ پلٹنے اور ایران میں دہشتگردانہ کارروائیوں، ایران اور دنیا کے مختلف ملکوں کے درمیان اقتصادی سمجھوتوں پردستخط کو روکنے کی جی توڑ کوششوں اور تمام ممکنہ محاذوں اور تمام شعبوں میں ایران کے خلاف موذیانہ اور دھمکی آمیز کارروائیوں تک ہر طرح کے معاندانہ اقدامات کیے گئے۔یہ ایران اور ایرانیوں کے ساتھ امریکی حکومت کی دشمنیوں کی طویل فہرست کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ البتہ سبھی جانتے ہیں اور امریکی حکومت کے سرغنہ خود سب سے بہتر اور بڑی تلخی کے ساتھ جانتے ہیں کہ امریکی حکومت کو ان میں سے زیادہ تر میدانوں میں شکست ہوئی ہے اور وہ ناکام ہو کر الگ تھلگ ہو چکی ہے۔ ایرانی قوم خدائی امداد اور اسلام و انقلاب کی برکت سے حاصل ہونے والے قوت و عزت کے ساتھ ان میں سے بیشتر موقعوں پر اپنے دشمن کو شکست اور ناکامی کا تلخ مزہ چکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ان واضح حقائق کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت، اس دشمن کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھائے جو مسلسل شکستوں کے سبب کینے سے لبریز دل کے ساتھ بدستور ایران اور ایرانیوں پر وار کرنے کی کوشش میں ہے اور کس طرح ایرانی قوم اور حکومت اس دشمن کے زہر آگیں تبسم کے فریب میں آ سکتی ہے جس کے ہاتھ میں آج بھی زہر میں بجھا ہوا خنجر موجود ہے؟اسلامی جمہوریہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وہ ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو کشیدہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ خارجہ پالیسی میں عزت، حکمت اور مصلحت جیسے تین اصولوں پر مبنی مساوی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ ان تعلقات میں ملک کے مادی اور معنوی مفادات، ایران کی عظیم الشان قوم کی مصلحت اور عزت کی حفاظت اور دنیا کے سیاسی ماحول میں امن و امان کا تحفظ اس کا اصل معیار اور رہنما اصول ہے۔ہمسایوں اور یورپی ملکوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ایک واضح اور ٹھوس دلیل ہے اور مسلمان ممالک کے ساتھ برادرانہ مذاکرات کے لیے ہماری دائمی کوشش، جن میں سے بعض کے بہترین نتائج کا بحمد اللہ ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں، دنیا کے لوگوں کے سامنے ہے؛ تاہم ان سب کے باوجود دشمن کی شناخت اور اس کے مقابلے میں ہوشیاری اور مزاحمت کو بھی ایرانی قوم نے اپنا دائمی لائحۂ عمل بنا رکھا ہے اور وہ شیاطین کے فریب میں نہیں آئي ہے اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں آئے گی۔ایرانی قوم، صیہونی دشمن کو جس نے فلسطین کی اسلامی سرزمین میں ایک غاصب حکومت قائم کر دی ہے، کسی بھی صورت میں باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرے گی اور نہ ہی اس غاصب حکومت کے خاتمے اور خود فلسطینی ملک کے عوام کے ذریعے ایک حکومت کی تشکیل کی ضرورت کے اپنے عقیدے کو کبھی بھی پنہاں نہیں کرے گی۔ اسی طرح وہ امریکہ کو، جو شیطان بزرگ اور سامراجی فتنوں کا سرغنہ ہے، جب تک اپنی موجودہ روش پر باقی رہے گا، اپنا دشمن سمجھتی رہے گی اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائے گی۔پورے عالم اسلام کے محترم بھائیو اور بہنو اور عزیز ایرانی حجاج کرام! خداوند عالم سے مدد مانگ کر معرفت کو بیان کردہ وسعت کے ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کیجیے کہ جو حج کا سب سے بڑا ثمرہ ہے اور مذکورہ میدانوں میں نئی شناخت حاصل کرکے اپنے ملک واپس لوٹئے اور اسے مستقبل کے لیے اپنی کوششوں اور جد و جہد کی بنیاد قرار دیجئے۔ اس بار خاص طور سے کوسوو کے مسلمانوں کے آلام ایک دوسرے سے بیان کیجئے جو بلقان کے علاقوں کی خونیں داستان کا تسلسل اور بوسنیا و ہرزے گووینا جیسا ہی ایک دوسرا تجربہ ہے۔ کوسوو کے لوگوں کی کامیابی اور نجات کے لیے دعا اور ان کی مدد کے لیے اقدام کیجئے۔ اسی طرح دیگر مصیبت زدہ اسلامی علاقوں کے مسلمان عوام کے لیے راہ حل تلاش کرنے کی کوشش کیجئے، ان کے لیے دعا کیجئے اور مسلمانوں کے امور کی اصلاح کے لیے خداوند قادر و رحیم کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو جائیے۔امید کہ آپ سبھی حج مقبول اور اس کے معنوی، اخلاقی اور سیاسی ثمرات کے ساتھ اپنےگھروں کو لوٹیں گے۔ والسّلام على بقيۃاللَّہ فى ارضہ و عجّلاللَّہ فرجہ۔والسّلام عليكم و رحمۃاللّہ و بركاتہ على الحسينى الخامنہ اى تین ذي الحجۃالحرام 1418 ہجری قمری مطابق بارہ فروردين 1377 ہجری شمسی
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 20 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال 1373 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں نوروز کا جشن منانے والی اقوام بالخصوص ملت ایران اور شہدائے انقلاب کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کی۔ آپ نے گزرے ہوئے سال کا جائزہ لیا اور نئے سال کو جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط کا سال قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار۔یا مدبر اللیل والنہار۔یامحول حول والاحوال۔ حول حالنا الی احسن الحال۔ عید نوروز تمام ہم وطنوں اور پوری دنیا کے تمام ایرانیوں کو مبارک ہو۔ خاص طور پر ایثار و فداکاری کرنے والوں، ان گھرانوں کو جنہوں نے ایرانی قوم کی عظیم تحریک میں کوششیں کیں اور مشکلات برداشت کیں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان اور دفاع وطن کی جد و جہد میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ان کے گھروالوں کو، اسی طرح دشمن کی جیلوں سے رہا ہوکر آنے والوں اور ان اسیروں کو جو اب بھی دشمن کی قید میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ ہمارے لاپتہ افراد اور دشمن کی قید میں موجود افراد جلد سے جلد واپس آکر ہمارے دلوں کو شاد کریں۔ اسی طرح ان تمام اقوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز مناتی ہیں۔ جمہوریہ آذربائیجان کے عوام کو اور اپنے ملک کے اطراف کی ریاستوں کے عوام کو جو عید نوروز مناتے ہیں، مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خدا سے نئے ہجری شمسی سال میں سب کے لئے توفیق طلب کرتا ہوں۔ ہم تحویل سال کے آغاز کی دعا میں خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہمارے حال کو بہترین حال میں تبدیل کر دے۔ رمضان المبارک میں بھی ہم نے خدا سے دعا کہ اللہم غیر سوء حالنا بحسن حالک ہمارے حال کی برائیوں، مشکلات، ہماری سرشت، رمضان المبارک کی روزانہ کی دعاوؤں میں ہم خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہماری زندگی، ہماری روح اور ہمارے جسم کو اپنے خیر و رحمت کی برکت سے تبدیل کر دے۔ یہ تغیر و تبدل انسان کی تکاملی رفتار کے اہم ترین اسرار میں سے ہے جس کا اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے۔ یہ کچھ خاص لوگوں سے مخصوص نہیں ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حال کی تبدیلی ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو اسلامی معیاروں کے مطابق بد حالی کا شکار ہیں۔ جو اچھے اخلاق اور حال کے مالک ہیں، وہ بھی چونکہ بہترین نہیں ہیں، اس لئے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں بہترین صورت حال کی طرف لے جائے۔ ہم جو بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، علم و دانش، معرفت، کمال اور اخلاق کے جس مرتبے پر بھی ہوں، ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے حال کو بہتر کر دے اور کمال کے راستے پر آگے بڑھائے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اس کامل ہونے کی علامت اور جہت کیا ہے اور کس طرح انسان کا حال بہتر ہوتا ہے اور وہ منزل کمال کی طرف جاتا ہے؟ میں آپ عزیزوں سے جو آغاز سال پر میری یہ گفتگو سماعت کر رہے ہیں، دو علامتیں بیان کرتا ہوں۔ یہ دونوں علامتیں خدا کی قربت اور بندگان خدا سے محبت ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں جس کیفیت اور حالت میں بھی ہوں، خدا سے انس و محبت اور قربت کی طرف بڑھیں۔ یعنی اپنے کردار میں گناہوں کی جستجو کریں اور انہیں ترک کریں۔ انسان عام طور پر اپنے کام کی برائیوں کو نہیں پہچانتا۔ دوسرے الفاظ میں حب نفس کے سبب ہم اپنے نقائص اور عیوب کو نہیں دیکھ پاتے۔ بنابریں پہلے ان نقائص اور عیوب کا پتہ لگائیں اور پھر انہیں دور کرکے خدا کا تقرب حاصل کریں۔ تقرب خدا حاصل کرنے کے بعد، عوام سے محبت کریں، ان کے لئے مخلص رہیں، باوفا رہیں، نیکی کریں، اچھا سلوک کریں۔ یعنی تمام طبقات کے لوگوں بالخصوص کمزور لوگوں، چاہے وہ جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں، یا مالی لحاظ سے، سماجی حیثیت میں کمزور ہوں یا بے یار و مددگار ہونے کی وجہ سے کمزور ہوں، ان کے ساتھ محبت اور نیک رفتاری کو اپنا شعار بنائیں۔ جس کا بھی سامنا ہو بالخصوص اگر وہ کمزور ہو تو اپنے رویئے کی اصلاح کریں اور کوشش کریں کہ بندگان خدا کے ساتھ ہمارا سلوک اور طرزعمل اچھا ہو۔ اگر اس راستے پر چلیں اور لمحہ بہ لمحہ اپنی اصلاح کریں تو تحویل حال بہ احسن حال کا عمل انجام پائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بہترین ہو جائیں گے لیکن بہترین ہونے کے راستے پر انشاء اللہ آگے بڑھیں گے۔ میں اس وقت ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو بہترین ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے یہ عرض کر دوں کہ موجودہ حالات میں ایک طرف ہر منصف مزاج انسان کے لئے بہت اہم معیاروں اور اعلی اقدار پر استوار ہمارا نظام انتہائی پر کشش ہے جو ابھی جوانی کے مرحلے میں ہے، اور دوسری طرف ہمارا ملک عظمت و شوکت، درخشاں ماضی، اعلی تہذیب و ثقافت، قابل فخر تاریخ، ماضی کی قیمتی میراث اور فراواں مادی دولت و ثروت کا مالک ہے کہ اسی دولت و ثروت میں سے ایک تیل اور گیس ہے جو پتہ نہیں سب سے بڑی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ دیگر زمین دوز ذخائر بھی ہیں اور اس عظیم اور دولت و ثروت سے مالامال ملک میں ایک عظیم قوم رہتی ہے، مناسب ہے کہ ہمارے عوام اپنے اندر اسی معیار کی تبدیلی لائیں۔ جو اخلاقی نکتہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آغاز سال سے دو باتوں کو اپنا شعار بنائیں۔ یہ دو باتیں کام کا جذبہ اورسماجی نظم و ضبط ہے۔ یہ دونوں معیار ہمارے لئے ہم جہاں بھی مصروف کار ہوں، بہت اہم ہیں۔ کام کا جذبہ یعنی یہ کہ اگر کوئی کام قبول کیا، اس کو انجام دینے کا وعدہ کیا تو چاہے یہ کام اپنی ذات کے لئے ہو، اپنے خاندان کے لئے ہو، روزی کمانے کے لئے ہو، یا سماج اور عوام کے لئے ہو اور دوسروں سے تعلق رکھتا ہو، جیسے اہم سماجی امور اور ملکی ذمہ داریاں، اس کو اچھی طرح بھرپور توجہ کے ساتھ اور بنحو احسن انجام تک پہچائیں اور پوری دلجمعی سے کام کریں۔ اگر کسی قوم میں کام کا جذبہ ہو تو اس کے کام کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا۔ جب کام کا نتیجہ اچھا ہو تو یقینا سماج کی حالت اچھی ہوگی۔ ممکن ہے کہ سیاسی اور اقتصادی ماہرین میں سے ہر ایک ملک کے مختلف امور اور مسائل کے بارے میں مختلف تجزیئے پیش کرے۔ لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جو بھی تجزیہ پیش کیا جائے، مشکلات کا حل انہیں دو باتوں کام کے جذبے اور سماجی نظم و ضبط میں ہے۔سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں ڈسپلن کا خیال رکھنا۔ آپ یہ نظم و ضبط چھوٹے کاموں سے شروع کریں۔ فرض کریں، سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی مخصوص علامت پر گاڑیوں کا نہ آنا یا پیدل چلنے والوں کا سڑک عبور کرنے کے لئے بنائی گئی مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں اور سے سڑک عبور نہ کرنا۔ یہ کام پہلے مرحلے میں معمولی نظر آتا ہے۔ لیکن سماجی ضابطے کو یہیں سے شروع کریں اور تمام امور میں نافذ کریں تاکہ ملک کی اعلا ذمہ داریاں اور مسائل سے نمٹنے میں نظم و ضبط سے کام لیا جائے۔ جو لوگ ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں لوگوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے، لوگوں سے ملنے میں نظم وضبط کی پابندی کریں۔ جن لوگوں نے کوئی کام اپنے ذمہ لیا ہے، اس کام کی انجام دہی میں نظم و ضبط کی پابندی کریں تو ملک و قوم کو شادابی ملے گی اور ان کا کام اچھی طرح آگے بڑھےگا۔ آج خوش قسمتی سے اچھی پیشرفت ہو رہی ہے۔ میں ملک کے مسائل سے پوری آگاہی کی بنیاد پر آپ سے یہ بات عرض کر رہا ہوں۔ البتہ ہمارے بہت سے عوام، بالخصوص وہ جو ملک کے موجودہ مسائل پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس پیشرفت کو محسوس کرتے ہیں۔ ایرانی قوم اور خود مختاری کی مخالف تسلط پسندطاقتوں کی جانب سے ہمارے اوپر دباؤ بہت ہے مگر اس دباؤ کو ہماری عظیم قوم اور مخلص حکام پوری طرح ناکام بنا رہے ہیں اور ان کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ ممکن ہے کہ مختصر مدت کے لئے وہ بعض مشکلات کھڑی کر دیں لیکن ان کو اچھی طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم تعمیر و ترقی، پیشرفت اور ایک عظیم تمدن کی بیناد رکھنے میں مصروف ہیں۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم خود کو بچا لیں اور اپنے بارے میں ہی سوچیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اپنی منزلت اور شان کے مطابق، ایک تمدن وجود میں لا رہی ہے۔ اس تمدن کی بنیاد، صنعت، ٹکنالوجی اور سائنس نہیں بلکہ ثقافت، بینش، معرفت اور فکر انسانی کا ارتقاء ہے۔ جو چیز کسی قوم کو فراہم کرتی ہے اور اس کو علم کا تحفہ بھی دیتی ہے ہم اسی راستے پر اور اسی جہت میں گامزن ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ کام کریں بلکہ، اس تمدن کو وجود میں لانے کے لئے ملت ایران کی تاریخی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ ان حالات میں عظیم ملت ایران کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور کس راستے پر آگے بڑھنا ہے۔ میری نظر میں یہ دو باتیں، یعنی کام کا جذبہ اور سماجی نظم و ضبط ہمارے لئے دو معیار اور شعار ہو سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ دونوں خصوصیات ہمارے اندر تبدیلی اور تکامل لا سکتی ہیں۔ انشاء اللہ وہ تبدیلی خدا کے تقرب، خدائی اقدار سے انس اور عوام کے ساتھ مہربانی اور محبت کی شکل میں ہوگی۔ دعا ہے کہ ہمارے عوام کے لئے سن تیرہ سو تہتر نیکی اور برکتوں کا سال ہو۔ حضرت ولی عصراروحنا فداہ کی پاک دعائیں ان کے شامل حال ہوں۔ حکام بھی ان بڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جو انہوں نے قبول کی ہیں، کامیاب ہوں۔ میں دورد بھجیتا ہوں اپنے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر پر کہ یہ عظیم راستہ ہماری قوم کو آپ ہی نے دکھایا۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اس سال بھی گذشتہ برسوں کی طرح آپ کی روح مقدس کو اپنی برکت، مغفرت اور فضل و کرم میں شامل کرے اور آپ کے لئے اور اپنی زندگی کے امور کے لئے عوام کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔ و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 6-3-1372 ہجری شمسی مطابق 26-5-1993 عیسوی کو عازمین حج کے نام تاریخی پیغام جاری فرمایا۔ آپ نے اپنے اس پیغام میں مناسک و اعمال حج کے رموز بیان کئے اور ان اعمال سے کما حقہ استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے اس پیغام میں عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے سیاسی و سماجی حالات کا مختصر جائزہ پیش کیا اور مختلف ملکوں میں مسلمان بھائیوں کے خلاف سامراجی سازشوں کی نشاندہی فرمائی۔ آپ نے الجزائر، سوڈان، مصر، عراق، فلسطین، بوسنیا اور کشمیر میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے سد باب کے طریقوں کی جانب اشارہ کیا۔ تفصیلی پیغام مندرجہ ذیل ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ علی رسولہ الامین وعلی آلہ المیامین و اصحابہ المنتجبین والسلام علی جمیع عباد اللہ الصالحین۔ قال اللہ الحکیم ؛ واذا بوانا لابراھیم مکان البیت ان لا تشرک بی شیئا للطائفین والقائمین والرکع السجود ۔ ایک بار پھر خدا کے ارادہ نافذ نے مومنین کو مرکز توحید، بارگاہ رحمت و فضل ربوبیت، کعبہ قلوب اور قبلہ جان مسلمین عالم کے مرکز میں جمع کیا ہے اور واذن فی الناس بالحج کی آواز مسلمان بھائیوں کے فطری اور مسلط کردہ خلاؤں پر غالب آئی ہے اور ان دلوں کو جو ایمان، عشق اور یکساں احتیاج کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وحدت مسلمین اور مرکز توحید کی طرف کھینچ لائی ہے۔ طویل برسوں تک جہل وعناد کے ہاتھوں نے کوشش کی کہ عظیم اسلامی خانوادے کو اس مرکز میں بھی ان کی اعتقادی بنیادوں اور باہمی ایمانی تعلق اور محبت سے دور کر دے۔ مگر دوسری طرف ہر سال فریضہ حج اس قدیمی خانوادے کو وحدت اور توحید کا درس دیتا ہے اور ہرسال نئے شگوفے، پہلے سے زیادہ تجدید بہار ایمان، حیات دینی اور انس ومحبت اسلامی کی نوید دیتے ہیں اور دشمن کی کوششوں کو باطل کر دیتے ہیں۔ یہ معجزہ حج ہے کہ ان تنازعات اور لڑائیوں کے باوجود جن کے سبب مسلمان حکومتیں بارہا ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہوئی ہیں، مسلمان اقوام کے ایمانی، فکری اور محبت و مہربانی کے رشتے ہرگز منقطع نہیں ہوئے اور ایک دوسرے سے ان اقوام کا تعلق بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اگرچہ حج کے راز و رمز اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں گفتگو میں بیان کیا جائے، مگر ان کے درمیان ہر رمز شناس آنکھ پہلی نگاہ میں ہی تین نمایاں خصوصیات کو دیکھ لیتی ہے۔ پہلی یہ ہے کہ حج واحد فریضہ الہی ہے کہ خدا وند عالم جس کی ادائیگی کے لئے، تمام ان مسلمانوں کو جو استطاعت رکھتے ہیں، پوری دنیا سے گھروں اور عبادتخانوں کی خلوت سے نکال کر ایک خاص جگہ طلب کرتا ہے اور معینہ ایام میں، گوناگوں سعی وکوشش، حرکت وسکون اور قیام و قعود میں انہیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس واستغفروا اللہ ان اللہ غفور الرحیم دوسرے یہ کہ اسی اجتماعی اور آشکارا سعی و کوشش میں ذکر خدا کی برترین منزل مقصود یعنی قلبی اور روحانی کام کو پہچنواتا ہے۔ ویذکروا اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمت الانعام تیسرے یہ کہ اس کے روشن اور واضح منظر نامے میں ایک موحد انسان کی زندگی کی اجمالی تصویر پیش کرتا ہے اور عمل میں مسلمانوں کو بامقصد زندگی کے راز کا درس دیتا ہے۔ میقات میں پہنچنے، احرام باندھنے، لبیک کہنے، حالت احرام میں جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں انہیں ترک کرنے سے لیکر خانہ کعبہ کے گرد طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی، میدان عرفات اور مشعر میں رکنے، ذکر خدا مناجات اور وہاں کے آداب و اعمال، منی میں پہنچنے، قربانی کرنے، رمی جمرات، سرمنڈوانے یا بال ترشوانے اور پھر دوبارہ خانہ کعبہ میں واپس آکر طواف اور سعی تک، سب کے سب میدان توحید اور زندگی کی سعی میں اور اللہ کے محور کے گرد طواف کے لئے، مسلمانوں کے بامقصد اور معرفت آمیز اجتماعی اعمال کے واضح اور موثر درس ہیں۔ حج کے آئینے میں زندگی، مستقل تحریک اور مستقل پلٹ کے خدا کی جانب جانا ہے۔ حج وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا تعمیری عملی درس ہے کہ اگر ہم ہوش میں ہوں تو عملی میدان میں ہمارے سامنے زندگی کی روشن راہ و رسم پیش کرتا ہے۔ یہ ہمہ گیر اجتماع ہر سال ہوتا ہے تاکہ مسلمان، اس ماحول میں، وحدت، ایک دوسرے کو سمجھنے اور ذکر خدا کے سائے میں زندگی کے راستے اور جہت سے واقفیت حاصل کریں اور پھر اپنی سرزمین اور اپنے عزیزوں میں واپس جائیں۔ بعد کے برسوں میں دوسرا گروہ اور پھر کوئی گروہ آئے- جائے، سیکھے، ذخیرہ کرے، بولے، عمل کرے، سنے اور تدبر کرے اور سرانجام پوری امت وہ حاصل کر لے جو خدا چاہتا ہے اور دین نے سیکھایا ہے۔امت اسلامیہ کی زندگی پر نظر دوڑانا، اقوام، نسلوں اور قبیلوں سے ماوراء ہوکر دیکھنا، اپنے وجود کی گہرائیوں پر نظر ڈالنا اور راستہ، جہت اور طرز زندگی اس طرح اپنانا جو مناسب ہے اور یہ سب ذکر خدا کے سائے میں۔ یہ وہ فیاض اور لازوال سرچشمہ معرفت ہے جو ہرسال حج میں لوگوں کو نصیب ہوتا ہے، حرم امن الہی میں جاری ہوتا ہے اور جو لوگ اپنے دل و دماغ کے ظرف کو کھول دیتے ہیں انہیں یہ سیراب کرتا ہے۔ماضی میں بھی یہ کوشش ہوئی ہے اور آج بھی یہ کوشش ہو رہی ہے کہ حج کو ایک انفرادی فریضہ، جس میں ہرایک صرف اپنی عبادت اور خدا سے دعا میں مصروف ہو، قرار دیا جائے۔ ان غفلت زدہ لوگوں کو چھوڑ دیں جو اس کو ایک تجارتی اور سیاحتی سفر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، حج ان نمایاں خصوصیات کے ساتھ جو کسی دوسرے اسلامی فریضے میں ایک ساتھ نہیں پائی جا سکتیں، ان کی بے روشنی اور خطابین نگاہوں اور ان کی تنگ نظری کی بینش سے بہت بالاتر ہے۔ ہمارے زمانے میں جس عظیم ہستی نے حج کو پردہ اوہام سے باہر نکالا اور مسلمانوں کے اذہان اور عمل میں اس کے رازوں کو اجاگر کیا، وہ ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) تھے۔ آپ نے حج ابراہیمی کی آواز دی اور لوگوں کو اس کی دعوت دی۔ آپ نے ایک بار پھر اذن فی الناس بالحج کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی۔ حج ابراہیمی وہی محمدی حج ہے کہ جس میں توحید اور اتحاد کی سمت بڑھنا، تمام شعائر اور اعمال میں سرمشق ہے۔ یہ وہ حج ہے جو برکت و ہدایت کا سرچشمہ اور امت واحدہ کے قیام اور حیات کا بنیادی ستون ہے۔ یہ حج ذکر خدا سے سرشار اور فوائد سے سے مملو ہے۔ یہ وہ حج ہے کہ جس میں مسلم اقوام ہمہ گیر امت محمدی اور اس میں اپنے وجود کو لمس کرتی ہیں اور اقوام کی قربت اور برادری کا احساس کرکے، کمزوری، عاجزی اور ناتوانی کے احساس سے رہائی پاتی ہیں۔ حج ابراہیمی وہ حج ہے کہ جس میں مسلمین تفرقے سے نکل کے اجتماعیت کی طرف بڑھیں اور کعبے کا، جو توحید کی یادگار اور شرک و بت پرستی سے نفرت اور برائت کی علامت ہے، اس میں جو مفاہیم اور رمز ہیں ان کی معرفت کے ساتھ اس کا طواف کریں، اعمال حج کے ظاہر سے ان کے باطن اور روح تک پہنچیں اور اس سے اپنی زندگی کے لئے اور امت اسلامیہ کی زندگی کے لئے توشہ حاصل کریں۔ اس وقت میں، خدا کی رحمت و ہدایت کی امید اور دنیا بھر سے آنے والے آپ مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے حج کے قبول اور پر ثمر ہونے کی دعا کے ساتھ اعمال حج پر تدبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، چند مفید باتوں کی جانب تمام مسلمانوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یاد دہانی کے طور پر عرض کرتا ہوں:1- پہلی بات توحید کے تعلق سے ہے جو حج کی روح اور بیشتر مناسک و اعمال حج کی بنیاد ہے۔ توحید کا مطلب، عمیق قرآنی مفہوم کے ساتھ، اللہ پر توجہ، اس کی طرف بڑھنا اور تمام بتوں اور شیطانی طاقتوں کی نفی اور ان کا رد کرنا ہے۔ ان شیطانی طاقتوں میں سب سے زیادہ خطرناک، خود اس کے باطن میں نفس امارہ اور گمراہی و پستی کی طرف لے جانے والی ہوا و ہوس ہے اور معاشرے اور دنیا کی سطح پر فتنہ انگیز اور فسادی استکباری طاقتیں ہیں جنہوں نے آج مسلمانوں کی زندگی پر پنجے گاڑ رکھے ہیں اور شیطانی روشوں سے کام لیکر بہت سی مسلم اقوام کے جسم و روح کو اپنی پالیسیوں سے مجروح کر رکھا ہے۔ حج میں برائت کا اعلان، ان طاقتوں سے بیزاری کا اعلان ہے۔ ہر دیکھنے والی آنکھ اور عبرت آمیز نگاہ اسلامی معاشروں میں ان طاقتوں کے تسلط کا یا تسلط جمانے کی کوشش کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔ ان میں سے بعض ملکوں میں، سیاست، اقتصاد، بین الاقوامی روابط، دنیا کے واقعات پر موقف، سب، تسلط پسند طاقتوں کے، جن میں سر فہرست امریکا ہے، زیر اثر ہے۔ ان ملکوں میں برائیوں، فحاشی اور حرام کاموں کا عام ہونا ان طاقتوں کی شیطانی پالیسیوں کےنفوذ کا نتیجہ ہے۔ حج اس کے اعمال اور توحیدی شعائر، حج کرنے والے ہر مسلمان کے لئے ضروری اور لازم قرار دیتے ہیں کہ وہ ان تمام باتوں سے برائت اور بیزاری کا اظہار کرے اور یہ ان شیطانی باتوں کی نفی میں اسلامی ارادے کی تکمیل اور تمام اسلامی معاشروں میں توحید اور اسلام کی حاکمیت کی راہ میں پہلا قدم ہے ۔2- دوسری بات کا تعلق مسلمانوں کے اتحاد اور یک جہتی سے ہے جو اعمال حج کا دوسرا نمایاں مفہوم ہے۔ اسلامی ملکوں میں یورپی استعمار کی آمد کے آغاز سے سامراجیوں کی ایک پالیسی مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش رہی ہے۔ کبھی فرقہ وارانہ اختلافات کا حربہ استعمال کیا اور کبھی قومیت اور دوسری باتوں کو ہوا دی۔ افسوس کہ منادیان وحدت اور مصلحین کی فریادوں کے باوجود دشمن کا یہ حربہ اب بھی امت اسلامیہ کے پیکر پر کسی حد تک وار اور زخم لگا رہا ہے۔ شیعہ وسنی، عرب و عجم، ایشیائی و افریقی اختلافات کو ہوا دینا، عرب، تورانی اور ایرانی نیشنلزم کو اٹھانے کا آغاز اگر چہ غیروں کے ذریعے ہوا ہے مگر افسوس آج بہت سے اپنے، کج فہمی کی بناء پر یا غیروں کی شہہ پر وہ کام کر رہے ہیں جو دشمن چاہتا ہے۔ یہ انحراف اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بعض مسلم حکومتیں پیسے خرچ کرکے، اسلامی مذاہب اور مسلم اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالتی ہیں اور بعض عالم نما افراد، صراحت کے ساتھ بعض اسلامی فرقوں کے تاریخ اسلام میں جن کے درخشاں کارنامے ہیں، کافر ہونے کا فتوا صادر کرتے ہیں۔ مناسب ہے کہ مسلم اقوام ان کاموں کے پلید محرکات کو پہچانیں، ان کے پیچھے بڑے شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے ہاتھوں کو دیکھیں اور خیانت کاروں کو بے نقاب کریں۔3-ایک اہم نکتہ جو تمام مسلمانوں کو جاننا، اس سے مقابلہ کرنا اور اس کے سلسلے میں احساس ذمہ داری کرنا چاہئے، یہ ہے کہ آج تقریبا دنیا میں ہرجگہ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استکباری طاقتوں کی جانب سے سخت اور سازشی مہم جاری ہے۔ اگرچہ خود یہ مہم نئی نہیں ہے اور اس کی نشانیاں، یورپی سامراج کی تاریخ میں نمایاں ہیں، لیکن اس کے طریقوں کا متنوع ہونا، اس کا آشکارا ہونا اور بعض معاملات میں درندگی کے ہمراہ ہونا ایسی چیز ہے جس کی ابتک کوئی مثال نہیں ملتی اور یہ اس (جدید) دور کی پیداوار ہے۔ عالم اسلام کے موجودہ حالات پر ایک نظرڈالنے سے اس نئی صورتحال یعنی اسلام کے خلاف مہم کے شدید ہونے کی وجہ معلوم ہو جاتی ہے۔ یہ وجہ مسلمانوں میں بیداری پھیلنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالیہ ایک دو عشرے کے دوران عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں حتی غیر اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں نے، حقیقی اور عمیق تحریک شروع کی ہے جس کو تجدید حیات اسلام کی تحریک کا نام دینا چاہئے۔ آج یہ نوجوان اور تعلیم یافتہ نسل، زمانے کے علوم سے بہرہ مند ہے۔ جس نے کل کے سامراجیوں اور آج استکباریوں کی توقع کے برخلاف نہ صرف یہ کہ اسلام کو فراموش نہیں کیا ہے بلکہ پر جوش ایمان کے ساتھ، انسانی علوم سے فائدہ اٹھاکر پہلے سے زیادہ تیز بیں اور گہری نظر رکھنے والی ہو گئی ہے۔ اسلا کا رخ کیا ہے اور اپنے گم کردہ کو اس میں تلاش کر رہی ہے۔ ایران میں اسلامی جہوری نظام کا قیام اور اس کا روز افزوں استحکام اس مضبوط اور جوان تحریک کا نقطہ عروج ہے جس نے بذات خود مسلمانوں کی بیداری کی وسعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو استکبار کو جو اقوام کے عقائد اور مقدسات کی مخالفت کو آشکارا کرنے سے پرہیز کرتا رہا ہے ، مجبور کر رہی ہے کہ اسلام کی مخالفت میں آشکارا طور پر تمام ممکن روشوں سے اور بعض اوقات تشدد اور درندگی کے ساتھ میدان میں آئے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ایسے متعدد سربراہوں اور سیاستدانوں کو پہچانا جاسکتا ہے جنہوں نے اپنے بیانات میں کم سے کم ایک بار صراحت کے ساتھ اسلامی ایمان پھیلنے کو بڑا خطرہ قرار دیکر اس کے مقابلے کو ضرورت پر زور دیا ہے۔ ایمان اور اسلامی عمل کی جانب مسلمان نوجوانوں کے رجحان میں جتنی وسعت آئی دشمنی اور گھبراہٹ کی عکاسی کرنے والے ان کے بیانات واضح تر ہوتے گئے اور اب نوبت یہ آگئی ہے کہ بعض اسلامی ملکوں کے سربراہ اور سیاستداں بھی، جو ہمیشہ اسلام سے دشمنی کو نفاق کے پردے میں چھپاتے رہے ہیں، اپنے امریکی اور یورپی آقاؤں کی پیروی میں کھلے عام اسلام کے خطرے کا راگ الاپ رہے ہیں اور جن لوگوں پر حکومت کر رہے ہیں ان کے مقدس ایمان کو اپنے لئے خطرہ بتاتے ہیں۔ عالمی سطح پر اسلامی بیدار کے خلاف مہم کی مختلف شکلیں ہیں۔ الجزائر میں عوام کی اکثریت، مکمل طور پر جمہوری انتخابات میں اسلامی محاذ کو ووٹ دیتی ہیں۔ تشدد آمیز بغاوت کے ذریعے انتخابات کو منسوخ کرکے منتخب ہونے والوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور عوام کو کچل دیا جاتا ہے اور پھر امریکا اور یورپ کی استکباری طاقتیں سکون کا سانس لیتی ہیں اور بغاوت کرنے والوں کی حمایت کرکے اس میں اپنے خفیہ ہاتھ کو آشکارا کردیتی ہیں۔ سوڈان میں اسلامی جماعتیں عوام کی مکمل حمایت سے حکومت میں پہنچتی ہیں تو انواع و اقسام کی اشتعال انگیزی شروع کردی جاتی ہے اور اندر اور سرحدوں کے باہر سے مستقل انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ فلسطین اور لبنان میں فلسطینی مسلمانوں کو غاصب صیہونی انتہائی وحشیانہ انداز میں کچلتے ہیں اور انہیں ایذائیں دیتے ہیں اور امریکا ان درندہ صفت وحشی قاتلوں کی مدد کرتا ہے اور ان مظلوم مسلمانوں اور اپنا دفاع کرنے والے لبنانیوں پر دہشتگردی کا الزام لگاتا ہے۔ جنوبی عراق میں، عراقی عوام اسلامی جذبات اور نعروں کے ساتھ بعثی حکومت کے خلاف جد وجہد شروع کرتے ہیں تو بعثی حکومت ان پر انتہائی وحشیانہ انداز میں حملے کرتی ہے اور امریکا اور مغرب جنہوں نے دیگر معاملات میں صدام کے خلاف طاقت سے نمٹنے کے ارادے کا آشکارا اظہار کیا تھا، اپنی خاموشی سے اس کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہندوستان کشمیر میں، جاہل اور متعصب ہندو، حکومت کی چشم پوشی اور بعض اوقات اس کی مدد سے مسلمانوں کی جان اور ناموس پر حملے کرتے ہیں اور اس پر امریکا اور مغرب کی جانب سے مسکراہٹ اور بے اعتنائی کا اظہار ہوتا ہے۔ مصر میں اس ملک کی فاسد اور نالائق حکومت روشنفکر مسلمانوں کے ساتھ تشدد کرتی ہے اور امریکا اس وابستہ اور حقیر حکومت کو مالی امداد اور سیکیورٹی ایڈ دیتا ہے۔ تاجکستان میں مسلمان عوام کی اکثریت اسلام کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتی ہے، کمیونسٹ باقیات اسے سختی سے کچلتی ہیں۔ بہت سے لوگ بے گھر اور بے وطن ہوجاتے ہیں اور مغرب سابق سوویت کمیونسٹوں کی واپسی کی تمام تر تشویشوں کے باوجود اس کاوائی کو غنیمت سمجھتا ہے اور اسلام اور کمیونزم کے درمیان آشکارا طور پر اسلام کی دشمنی کا انتخاب کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں اسلام اور مسلم جماعتوں کی توہین کی جاتی ہے، ان پر الزامات لگائے جاتےہیں اور خواتین کے حجاب جیسے اسلامی احکام کی پابندی کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ حجاب پر پابند کی شکل میں اور مرتد مصنف کے ذریعے اسلام کی آشکارا توہین کی یورپی حکومتوں کے سربراہ مسلسل آشکارا حمایت کرتے ہیں حتی بدنام زمانہ برطانوی حکومت کا سربراہ، جس کا ماضی برائیوں سے بھرا ہوا ہے، اس ذلیل اور زرخرید مصنف سے ملاقات کرتا ہے۔ سب سے بدتر بوسنیا میں مسلمانوں کی ایسی نسل کشی ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے کہ نسل پرست سرب اور حال ہی میں کروٹ بھی ان کے ساتھ ہوگئے ہیں۔ سربیا کی حکومت کے وسائل اور اسلحے اور غیر ملکی امداد کے سہارے، بوسنیا کے مسلمانوں یعنی وہاں کے اصلی باشندوں کو وحشیانہ ترین ظلم وستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا قتل عام کر رہے ہیں، امریکا اور مغرب نے نہ صرف یہ کہ مظلوم کی کوئی مدد نہیں کی، سربوں کے وحشیانہ جرائم کو روکنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ سلامتی کونسل کے حربے سے کام لیکر، مظلوم مسلمانوں تک اسلحہ پہنچنے کی روک تھام کی اور اقوام متحدہ کی افواج بھیج کر ان کا محاصرہ مکمل کر دیا۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ بوسنیا کے المیے میں براہ راست امریکا اور یورپی حکومتیں ذمہ دار اور قصووار ہیں۔ اس ایک سال کے عرصے میں کچھ جھوٹے وعدے اور کھوکھلی باتیں کی ہیں لیکن بوسنیا کے ہزاروں قتل ہونے والے مظلوموں میں سے ایک کے قتل کو بھی نہیں روکا ہے اور اس سے بڑھ کر، ان کی اپنے دفاع کی توانائی کی بھی روک تھام کی ہے۔ یہ ہمارے زمانے میں اسلام اور مسلمین سے امریکا اور مغرب کی دشمنی کی اجمالی تصویر ہے۔ نہ التماس، نہ جھکنا اور نہ ہی مذاکرات، جس کی بعض سادہ لوحی کے ساتھ مسلمانوں کو تجویز پیش کرتےہیں، ان میں سے کوئی بھی راستہ، مسلمانوں کی مشکلات حل کر سکتا ہے نہ انہیں نجات دلا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک علاج ہے اور بس۔ وہ ہے، مسلمانوں کا اتحاد، اسلام اور اسلامی اصول واقدار کی پابندی، دباؤ کے مقابلے میں استقامت اور طویل مدت میں دشمن پر عرصہ حیات تنگ کر دینا۔ آج اسلامی دنیا کی نگاہیں، تمام اسلامی ملکوں کے رضاکار غیرت مند نوجوانوں پر ہیں کہ مرکز اسلام کا دفاع کریں اور اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔4- ایک اور اہم نکتہ جس پر تاکید ہونی چاہئے، یہ ہے کہ استکبار اپنی تمام شیطانی چالوں، طاقت، سیاسی حربوں اور جھوٹے پروپیگنڈوں سے کام لیکر اسلامی بیداری اور اسلام کی جانب رجحان کی تحریک کو روکنے میں کامیاب ہوا ہے نہ ہوگا۔ مختلف ملکوں میں اسلامی تحریک منجملہ ایران میں مقدس اسلامی جہموری نظام کے خلاف، امریکا، دیگر استکباری ملکوں اور ان کے علاقائی زرخریدوں کی ہمہ گیر سیاسی، سیکیورٹی اور سب سے بڑھ کر تشہیراتی مہم میں اتنی زیادہ وسعت آئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس درمیان علاقے میں امریکا کی ناجائز اولاد، صیہونی حکومت نے انتہائی رذالت اور خباثت آمیز کردار ادا کیا ہے جس کی اس سے توقع بھی تھی۔ عام اور مادی اندازوں کے مطابق ان تمام ہمہ گیر کوششوں کے نتیجے میں جو مستکبرانہ بغض و عناد کے ساتھ انجام دی جا رہی ہیں، اسلامی ملکوں میں اسلامی تحریک کو کمزور اور ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن اس کے بالکل برعکس، جیسا کہ سب دیکھ رہے ہیں، یہ تحریک روز بروز محکم تر اور وسیع تر ہوئی ہے۔ اس وقت بہت سے ایسے اسلامی ملکوں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ جس طرح دو سال قبل الجزائر میں ہوا اسی طرح ان کے ہاں بھی انتخابات کرائے جائیں تو، اسلامی جماعتیں اور اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد ان ملکوں میں عوام کی اکثریت کا ووٹ حاصل کریں گے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ ان میں اکثر ملکوں میں اسلامی جماعتوں، حتی اسلامی سرگرمیوں میں مصروف افراد کی تشہیرات اور سیاسی مظاہروں پر بھی پابندی ہے۔ انہیں حالیہ برسوں میں، مقبوضہ فلسطین کی سرزمینوں میں، عوام کی اسلامی جد وجہد نے جن کا مرکز مساجد ہیں، صیہونیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ انہیں برسوں میں لبنان کی اسلامی جہادی جماعتوں نے، پارلمانی انتخابات اور عوامی پوزیشنوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اسی دور میں اسلامی جمہوریہ ایران نے جس کے بارے میں کچھ لوگ سادہ لوحی کے ساتھ توقع کر رہے تھے کہ، ناکام ہوجائے گا یا اپنے اصول و اقدار سے چشم پوشی کرلے گا، اپنے انقلابی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے، غیر متوقع رفتار کے ساتھ پیشرفت کی ہے۔ میں عالم اسلام کے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتا ہوں کہ آپ کو بدبین اور مستقبل سے ناامید کرنا دشمن کا سب سے بڑا حربہ ہے۔ کافی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنے دل تک نا امیدی کو نہ پہنچنے دے۔ کوئی بھی چیز ہمیں نا امید ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر دشمن اس الہی تحریک کو ختم کرنے پر قادر ہوتا تو کم سے کم اس کے فروغ کو روک سکتا، مگر آپ سب دیکھ رہے ہیں وہ یہ بھی نہ کرسکا۔ الہی سنتیں اور زمینی حقائق نئی اسلامی تحریک کے روشن مستقبل کی نوید دیتی ہیں اور قرآن بارہا فرماتا ہے والعاقبۃ للمتقین 5- جدید اور عالمی تشہیرات یقینا استکبار کا کارآمد ترین حربہ ہے۔ آج ایسے اخبارات و جرائد اور صوتی و تصویری ذرائع ابلاغ عامہ کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے جنہوں نے اپنی کوششیں اسلام کی دشمنی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ زرخرید ماہرین، ایسی خبروں، مضامین اور تبصرے و تجزیئے میں مصروف ہیں جن کا مقصد مخاطبین کو گمراہ کرنا اور اسلامی تحریک نیز اسلامی شخصیات کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنا ہے۔ اسلامی جہموریہ ایران انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک بغیر کسی وقفے کے ان معاندانہ تشہیرات کی آماجگاہ رہا ہے۔ مگر کہنا چاہئے کہ فطرت و ضرورت پر استوار حقیقی اسلامی تحریک کے مقابلے میں یہ حربہ بھی کا میاب نہیں رہا اور دشمن کا مقصد پورا نہ کر سکا۔ پیغمبروں کے اس وارث کی ملکوتی شبیہ بگاڑنے کے لئے، ان تمام جھوٹے پروپیگنڈوں اور غلط باتوں کی تشہیر کے باوجود، پوری اسلامی دنیا میں امام (خمینی) طاب ثراہ کی اسلامی دعوت کا عام ہونا، آپ کی فکر، نام اور رہنمائیوں کا ہر جگہ پہنچنا اور دنیا کے مشرق و مغرب میں آپ کی تصاویر کا آویزاں ہونا ہمارے اس دعوے کی روشن ترین دلیل ہے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرنا چاہئے کہ مسلم اقوام کی فکر کی سلامتی اور استحکام کا ایک اہم عامل، علمائے کرام، روشنفکر حضرات، مصنفین، فنکاروں اور آگاہ و فعال نوجوانوں کی جانب سے حقائق کا بیان ہونا ہے۔ اس سلسلے میں سبھی بالخصوص راسخ العقیدہ علمائے دین کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن نے آج تک ہمیشہ، ایران اسلامی پر الزامات عائد کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی الزامات دنیا کی تمام اسلامی تحریکوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ تعصب اور فکری جمود کا الزام، جس کو بنیاد پرستی کا نام دیتے ہیں، دہشتگردی کا الزام، انسانی حقوق کو اہمیت نہ دینے کا الزام، ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام، خواتین کے حقوق سے بے اعتنائی کا الزام، صلح کی مخالفت اور جنگ کی طرفداری کا الزام، تھوڑا سا انصاف، ان الزمات کے بے بنیاد ہونے اور الزام لگانے والوں کی بے شرمی سے واقفیت کے لئے کافی ہے۔ ایران اسلامی پر ڈیموکریسی کی مخالفت کا الزام ایسی حالت میں لگایا جاتا ہے کہ عظیم اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پچاس دن بعد سے اس کے چودہ مہینے کے اندر دو ریفرنڈم انجام پائے جن میں سے ایک میں ایرانی عوام نے ملک کے سیاسی نظام کے عنوان سے اسلامی جمہوریہ کا انتخاب کیا اور دوسرے میں ملک کے آئین کو منظوری دی۔ اس کے علاوہ آئین ساز اسمبلی کے اراکین، صدر جمہوریہ اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کے انتخاب کے لئے، تین الیکشن ہوئے اور اب تک صدر اور اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے لئے، ہمیشہ قانونی مدت میں آزاد انتخابات ہوئے ہیں جن میں عوام نے بھر پور شرکت کی ہے۔ ایران اسلامی پر دہشتگردی کا الزام وہ لوگ لگا رہے ہیں جنہوں نے دہشتگرد صیہونی حکومت کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے۔ ایران کے انقلاب مخالف دہشتگرد گروہوں کی پشت پناہی کی ہے، اور ان کے زرخریدوں نے سیکڑوں بار ایران کے اندر بم کے دھماکے کئے ہیں، ہزاروں عام لوگوں، انقلابیوں، بے گناہ عورتوں، مردوں اور بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ ایران پر صلح کی مخالفت کا الزام وہ لگاتے ہیں، جنہوں نے بعثی عراقی حکومت کو ورغلاکر ایران پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کی اور اس پورے عرصے میں، اس حکومت کو انواع و اقسام کی امداد دیتے رہے جو ایران پر حملے کی وجہ سے ان کی پسندیدہ ترین حکومت تھی۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کا الزام وہ لگاتے ہیں کہ جو ایرانی خواتین کی اعلا شان و منزلت کو جو شرعی حدود میں رہتے ہوئے اور اسلامی حجاب کے ساتھ، ملک کی اعلاترین سرگرمیوں میں مصروف ہیں، پسند نہیں کرتے اور مغربی معاشروں میں عورت اور مرد کے روابط پر حکمفرما پستی اور عورتوں کے بزدلانہ استحصال و استفادے کو عورت کی سماجی زندگی کا بہترین معیار بتاتے ہیں۔ ایران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام وہ لگاتے ہیں جنہوں نے خود حیرت انگیز اور بدترین شکل میں انسانی حقوق کو پامال کیا یا اس پامالی کے اسباب فراہم کئے ہیں۔ آج بوسنیا میں جس طرح انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں کیا نئی دنیا میں انسانی حقوق کبھی اس طرح پامال ہوئے ہیں؟ کیا فلسطینی قوم کے انسانی حقوق کی پامالی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ کیا چار لاکھ سے زائد فلسطینی شہریوں کو انسانی حقوق کی نام نہاد طرفدار دنیا کی آنکھوں کے سامنے، ان کے گھر اور وطن سے باہر نکال دینا ، چشم پوشی کے قابل ہے؟ کیا خلیج فارس میں ایران کے مسافر بردار طیارے کو مار گرانے کا امریکا کا اقدام، امریکا کے سیاہ فاموں کے ساتھ ناانصافی، الجزائر میں فوجی بغاوت کرنے والوں کی حمایت یا مصر کی فاسد حکومت کی طرفداری یا امریکا میں کچھ لوگوں کو زندہ جلا کے مار دینا اور اسی قسم کے دیگر واقعات، انسانیت کی توہین اور انسانی حقوق کی پامالی نہیں ہے؟ کیا وہ حکومتیں جو اس طرح نڈر ہوکر انسانی حقوق کو پامال کر رہی ہیں یا اپنی حوصلہ افزا خاموشی سے انسانی حقوق کو پامال کرنے کا حوصلہ بڑھا رہی ہیں، واقعی جیسا کہ وہ دعوا کرتی ہیں ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر ناراض ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکی حکام اور دیگر الزام لگانے والے جنہوں نے اس پرانے اور زنگ آلود تشہیراتی حربے کے ذریعے، نیا ہنگامہ شروع کر رکھا ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ بے بنیاد باتیں کر رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی جو بات انہیں پسند نہیں ہے، وہ یہ نہیں ہے بلکہ دوسری چیزیں ہیں اور سیاسی مصلحتیں انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ صراحت کے ساتھ ان کا اعلان کریں۔ اگرچہ ان کی پالیسیاں تیار کرنے والوں اور مصنفین کے بیانات کے تحلیل و تجزیئے سے ان کا مقصود آشکارا ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام میں جو باتیں امریکا اور دیگر مستکبرین کی ناراضگی کا سبب ہیں وہ یہ ہیں: اول دین کا سیاست سے الگ نہ ہونا اور اسلامی جمہوریہ کی بنیاد۔ دوسرے اس نظام کی سیاسی خود مختاری یعنی سپر طاقتوں کی زور زبردستی کو نہ تسلیم کرنا۔ تیسرے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے واضح راہ حل کا اعلان جو اس بات پر مشتمل ہے کہ غاصب صیہونی حکومت ختم ہو، فلسطینیوں پر مشتمل فلسطینی حکومت قائم ہو اور فلسطین میں مسلمان، عیسائی اور یہودی امن و آشتی کے ساتھ رہیں۔ چوتھے تمام اسلامی تحریکوں کی سیاسی و اخلاقی حمایت اور دنیا میں ہر جگہ مسلمانوں پر دباؤ ڈالے جانے کی مخالفت۔ پانچویں اسلام، قرآناور پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ و سلم ) اور دیگر انبیائے الہی کے مقام و مرتبے کا دفاع اور ان مقدس ہستیوں کی توہین کا مقابلہ، جیسا کہ شیطانی آیات کے مرتد اور واجب القتل مصنف کے معاملے میں دیکھا گیا۔ چھٹے اسلامی اتحاد، اسلامی حکومتوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون اور عظیم امت اسلامیہ کے قالب میں مسلم اقوام کے اقتدار کے استحکام کی کوشش۔ ساتویں اس مغربی ثقافت کی جس کو مغربی حکومتیں تنگ نظری اور تعصب کی بناء پر، دنیا کی تمام اقوام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں، نفی اور اسے مسترد کرنا اور مسلمان ملکوں میں اسلامی ثقافت کے احیاء پر اصرار۔ آٹھویں جنسی بے راہ روی کی مخالفت کہ بعض مغربی حکومتوں بالخصوص امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے اس کی انتہائی انحرافی اور بے شرمانہ ترین شکل کو سرکاری منظوری دی ہے یا اس کوشش میں ہیں اور دسیوں سال سے مختلف شکلوں میں یہ برائیاں اسلامی ملکوں میں پھیلانے کی منصوبندی اور کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی دشمنی کی وجوہات۔ ظاہر ہے کہ اگر وہ صراحت کے ساتھ اپنی دشمنی کی وجہ بیان کرکے اس فہرست کو سب کے سامنے لائیں تو مسلم اقوام کے دلوں میں جو اصول پسند ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کا مقام و مرتبہ بڑھ جائے گا۔ اسی وجہ سے وہ اپنے پروپیگنڈوں میں ایک طرف ایران پر دہشتگردی اور اسی قسم کے دوسرے الزامات لگاتے ہیں اور دوسری طرف جعلی خبروں اور جھوٹے تجزیوں میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے اصولوں سے دستبردار ہوکر دشمن کے مطالبات کے سامنے جھک گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط اور استکبار کی فریبی چالیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے اصول، وہی امام (خمینی رہ) کا بتایا ہوا راستہ اور اسلام کے بنیادی اصول ہیں ، دشمن کے کہنے کے برعکس ایران اسلامی میں بدستور معتبر اور سیاسی و سماجی زندگی کی بنیاد ہیں۔ ایران کی حکومت اور قوم حقیقی محمدی ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسلام کے سائے میں زندگی سے، جو اس نے فداکاریوں اور عزیز ترین جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی ہے، کسی بھی حال میں دستبردار نہیں ہوگی اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ ) کے اصول اور ان میں سرفہرست دین کے سیاست سے الگ نہ ہونے اور اسلام اور قرآن کو گوشہ نشین کرنے کے لئے مادہ پرستوں کے دباؤ کے مقابلے میں اسقتامت کے اصول ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران میں باقی رہیں گے۔6- آخر میں حجاج کرام سے سفارش کرتا ہوں کہ مسلمان بھائیوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لئے حج (کے موقع) سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں، مسلمانوں کے رفتار و گفتار سے عالم اسلام کے حالات کو سمجھیں، ایک دوسرے سے تجربات، آرزؤوں، پیشرفتوں اور توانائیوں کا تبادلہ کریں اور اپنے حج کو اس حج سے نزدیک تر کریں جو اسلام کے پیش نظر ہے۔ ایرانی بہنوں اور بھائیوں سے میری سفارش ہے کہ اپنی رفتار و گفتار سے دوسرے ملکوں کے مسلمان بھائیوں تک پرشکوہ انقلاب، اپنے ملک اور قوم کا پیغام پہنچائیں۔ خانہ خدا، روضہ پیغمبر اکرم ( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حج کے مواقف اور یادوں سے پر سرزمین حجاز میں اپنے مختصر قیام کو، دل میں یاد خدا کو زندہ کرنے، رسول خدا( صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کی عترت طیبہ ( علیہم السلام) سے روحانی رابطے کو مستحکم تر کرنے بالخصوص حضرت ولی اللہ الاعظم سے کہ یقینا حج میں جن کی مقدس موجودگی صاحبان معرفت کے لئے فیض رساں ہوتی ہے، آپ سے توسل اور آپ کی عنایات حاصل کرنے، قرآن سے انس، اس کی آیات پر غور و فکر کرنے، دعا و مناجات اور توسل کے لئے جو یقینا تقرب خدا کا موجب ہے، غنیمت سمجھیں، اس سے بہرہ مند ہوں، مسلمانوں کی مشکلات دور ہونے اور اسلام نیز اسلامی جمہویہ کی عزت وطاقت میں روزافزوں اضافے اور حضرت امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کی روح مطہرہ اور شہدائے اسلام کی ارواح طیبہ کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں ۔والسلام علیکم ورحمت اللہ 24 ذیقعدہ 1413 مطابق 28 اردیبہشت 1372
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے سولہ اپریل انیس سو ترانوے کو عالم اسلام اور مسلک تشیع کی مایہ ناز شخصیت، جلیل القدر عالم دین شیخ مفید علیہ الرحمۃ کے نام سے منعقدہ عالمی کانفرنس کے نام اپنے تفصیلی پیغام میں اس عظیم الشان شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور مذہب تشیع کے لئے ان کی حیاتی کوششوں و علمی کاوشوں کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے مذہب تشیع کی اس عظیم شخصیت کے ایسے کارناموں کی نشاندہی فرمائی جو عام طور پر لوگوں کی نظروں میں نہیں ہیں: تفصیلی پیغام ملاحظہ فرمائیے:
16-4-1993
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین وافضل صلواتہ و ازکی تحیاتہ علی سیدنا النبی الاعظم محمد المصطفی وآلہ الغر المیامین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین روحی لہ الفداء
آج سے ہزار سال قبل بغداد کے حوادث سے بھرے ایک دن، بغداد کا میدان اشنان، لوگوں کے لئے تنگ پڑ گیا جو ایک غم انگیز واقعے کی وجہ سے وہاں جمع ہوئے تھے۔ اس پر ہزاروں آنکھوں نے گریہ کیا جس کی موت ایک عظیم سانحہ تھی۔ اس برگزیدہ انسان کی میت پر دسیوں ہزار لوگوں نے نماز پڑھی جس نے پچاس سال تک عالم اسلام کو اپنے علم و معرفت کی روشنی سے منور کیا اور دریائے دجلہ کے کنارے علم و معرفت کا ایک دریا جاری کر دیا تھا۔ عباسیوں کے دارالحکومت کے تلخ و خونیں حوادث کی آندھیاں اور بد خواہی و تعصب کے طوفان، اس چراغ علم وعمل کو خاموش نہ کرسکے جو اہلبیت علیہم السلام کے معارف اور علم قرآن کے شجرہ طیبہ سے متصل تھا اور جس نے مصباح خرد انسانی سے نور حاصل کیا تھا۔ کج فہمی و کج فکری کے خس و خاشاک، اس بحر خروشاں کو روکنے میں ناکام رہے کہ جس نے فقہ، کلام، معقولات اور علم حدیث کو زرخیز زمین تک پہنچا دیا تھا۔
جب شیخ مفید علیہ الرحمہ کی تشییع جنازہ میں دسیوں ہزار لوگوں نے شرکت کی اور سید علی مرتضی نے آپ کی نماز پڑھائی تو کینے سے پر اور حکمت و فراست سے عاری دلوں نے سمجھا کہ اس عظیم ہستی کا کام ختم ہوگیا اور انہوں نے آ پ کی رحلت کا جشن منایا۔
مگر ہر دانشمند کی آنکھ اور قلب اچھی طرح سمجھ سکتا تھا کہ فرزانوں کے اس قافلہ سالار کی موت، اس کے کاموں کا خاتمہ نہیں ہوسکتی اور اس کے پچاس سالہ فیضان نے فکر بشر میں علم و دانش، اخلاق و ثقافت اور حکمت کا ایک چشمہ جاری کر دیا ہے اور ارادہ الہی اور روایت تاریخ نے اس کو جاودانی اور نسلوں، ادوار اور صدیوں کو عبورکرکے، رشد انسانی کے دریائے بیکراں سے متصل ہونے تک اس کی بقا کو یقینی بنا دیا ہے۔
اس دن شیخ مفید کا نحیف و لاغر جسم بغداد کے درب الریاح میں آپ کے گھر میں سونپا گیا تاکہ ایک دن اسے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے روضہ اقدس میں منتقل کیا جائے اور رحمت الہی کے اس دارالسلام میں آپ کی آخری آرامگاہ ہو مگر آپ کی عظیم شخصیت جو چھپائی جاسکتی تھی نہ فراموش کی جا سکتی تھی، ہمیشہ زمانے کی آنکھوں میں باقی رہی، کبھی فراموش نہ ہوئی اور فقہ، کلام اور مذہب اہلیبت علیہم السلام کی نشر و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کرتی رہی۔
آج اس دن کے ایک ہزار سال بعد آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ کی ہزار سالہ یاد منانے کے لئے بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کرکے اس عظیم سانحے کی یاد تازہ کرنے اور اس کوہ علم وتقوا کو خراج عقیدت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ دس صدیاں گذرجانے، علم و تمدن کی پیشرفت کی دس صدیاں گزرنے کے باوجود، نگاہوں میں جس کی عظمت و بلندی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
آج کی علمی نسل، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی یاد منا کر اور آپ کی تصنیفات کی اشاعت کرکے در حقیقت، اس ہستی کے تئیں فریضہ سپاس پر عمل کر رہی ہے کہ جو خود اور اس کے افکار فقہ و کلام اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کو غنی اور مالامال کرنے میں بنیادی کردار کی مالک رہی اور ان ہزار برسوں میں انہیں شیعہ فقہ و کلام کی فلک بوس عمارت کا سنگ بنیاد تسلیم کیا گیا ہے، آپ تمام علمی کاموں کا سرچشمہ رہے ہیں ۔
زندہ علمی اور کلامی افکار و نظریات کے میدان میں، شیخ مفید علیہ الرحمہ کی موجودگی، ان کی کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کے ذکر تک محدود نہیں ہے۔ اگر چہ کتابوں کی اشاعت اور ان کے افکار کی ترویج، ان کے بعد آنے والے فقہا و متکلمین پر ان کے احسان کے سپاس کا مقتضا ہے، مگر ان کی اصل موجودگی فقہ و کلام میں اس روش اور سبک کا دوام ہے جس کے بانی وہ خود ہیں ۔
اس عظیم ہستی کی قدردانی اور سپاس کی غرض سے اس کی ہزار سالہ یاد منانے کی یہ کانفرنس، سب سے پہلے تو، موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اس عظیم ہستی سے زیادہ آشنا کرے گی اور اس کی اہمیت سے واقفیت کے ساتھ اس کی تصنیفات سے بہرہ مند ہونے کے لئے زمین ہموار کرے گی اور دوسرے فقہ و معقولات کی تاریخ کے محققین کو یہ موقع فراہم کرے گی کہ ان علوم کے رشد و تکامل کے مراحل، ان کی تشکیل اور بالندگی کی کیفیت اور تاریخ کے اس حساس دور میں ان کے عناصر تشکیل کی معلومات حاصل کریں۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت بڑھ جاتی ہے کہ جب چوتھی اور پانچویں صدی ہجری پر علمی ادبی اور ثقافتی ترقی اور رشد کے دور کی حیثیت سے توجہ دیں اور تحقیق کریں۔
تیسرے مسلمان اور ہر فرقے اور مذہب کے محققین اور عام مسلم مفکرین کے لئے شیعہ مذہب کے بنیادی اور کلامی معارف سے وسیع واقفیت کے مواقع فراہم کرے گی۔ اس نکتے کی اہمیت اس وقت زیادہ آشکارا ہوتی ہے کہ جب اس بات پر توجہ دیں کہ آج دشمن کے زرخرید، زہر آلود، کینہ پرور اور نفرت انگیز قلم شیعہ اعتقادات کے بارے میں جو آج بڑے اسلامی مذاہب میں سے ہے اور مسلمین کی بیداری کا علمبردارہے، کتنی جھوٹی اور افترا آمیز باتیں لکھ رہے ہیں اور پھیلانے کی کوشش ہیں جو پوری تاریخ میں جو کچھ انجام پایا ہے (6) اس سے قابل موازنہ نہیں ہے۔
افسوس کہ اس گمراہ کن تحریک میں سیاسی اور استعماری محرکات آج ہر زمانے سے زیادہ آشکارا ہیں۔ حتی اس زمانے سے بھی زیادہ کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس شیعہ مذہب کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے کو پیروان اہلبیت علیہم السلام کے خلاف ہمہ گیر مہم کا جز اور ان کی سرکوبی کے لئے ضروری سمجھتے تھے۔ اس نظر سے شیعہ عقائد ومعارف کی ہر تحقیق مسلمانوں کے درمیان اتحاد قائم کرنے کی ایک کوشش بھی ہے۔ کیونکہ دشمنان اسلام نے تفرقہ ڈالنے کے لئے، ہمیشہ ان کے فقہی اور اعتقادی معارف کو ایک دوسرے کے لئے برا ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس وقت ان تمام فضلائے کرام کہ جنہوں نے اس عظیم کانفرنس کا اہتمام کیا ہے اور ان تمام دانشوروں اور صاحب الرائے حضرات کے شکریئے کے ساتھ کہ جو اس کانفرنس میں اپنی شرکت سے اس کی علمی حیثیت بڑھنے کے اسباب فراہم کریں گے، میری کوشش یہ ہے کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے بارے میں ایک اہم نکتہ پیش کرکے اس عظیم اجتماعی کارنامے میں خود کو شریک کروں اور صدیوں اور ادوار پر محیط اس عظیم نورانی ہستی کو متعارف کرانے کے کام میں شرکت کروں۔ یہ نکتہ، فقہ اور کلام کے میدان میں، تشیع کے علمی تفکر کے رشد میں شیخ مفید کے مقام و مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اس کام میں، خود آپ کے مکتوب آثار، علمی نظریات اور اقوال نیز ان شخصیات کے اقوال سے کہ جنہوں نے آپ کے بارے میں کہا ہے اور ان کے شاگردوں اور مترجمین کے کارناموں سے حاصلہ شواہد پر اتکا کیا ہے ۔
مختصر الفاظ میں یہ نکتہ یہ ہے کہ؛ شیخ مفید سلسلہ علمائے امامیہ میں، صرف ایک معروف اور ممتاز فقیہ اور متکلم ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ اس ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی ہیں جو فقہ و کلام کے شعبوں میں آج تک شیعہ مذہب کے تعلیمی مراکز میں جاری ہے اور تاریخی، جغرافیائی اور مکتبی تاثیرات کے برطرف نہ ہونے کے ساتھ ہی اس کی اصل خصوصیات اور بنیادی خطوط اسی طرح باقی ہیں۔
اس نکتے کے بیان اور اثبات کی اہمیت اس وقت ظاہر ہوتی ہے کہ جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس علمی تحریک میں شیخ مفید کی زندگی سے متصل دور سے آپ کی رحلت سے تقریبا نصف صدی بعد تک ایسا تغیر اور تیز رفتار رشد و تکامل آیا ہے کہ اس کے سامنے، شیخ مفید علیہ الرحمہ کے بانی ہونے کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا۔
اس نکتے میں بنیادی تاکید اس بات پر ہے کہ شیخ مفید کے شاگرد رشید یعنی سید مرتضی علم الہدی ( متوفی 436ہ) اور اس سلسلے کی ممتاز ہستی شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی (متوفی 460ہ) کی تمام نمایاں علمی کاوشیں درحقیقت اسی تحریک کا دوام ہیں، جس کا سرچشمہ اور بانی محمد بن محمد بن النعمان المفید تھے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے ضروری ہے:
1- مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام
2-فقہ شیعہ کے صحیح علمی قالب اور شکل کی بنیاد رکھنے اور
3- فقہ وکلام میں معقولات ومنقولات کوجمع کرنے میں منطقی سبک کی تخلیق میں
شیخ مفید کے بنیادی اور موثر کردار کو بیان کیا جائے۔
گذشتہ دس صدیوں کے دوران شیعہ متکلمین اور فقہا نے جو بلند عمارت تعمیر کی ہے اور اپنے علمی آثار سے جو بے نظیر خزانہ جمع کیا ہے، وہ سب اسی علمی قاعدے پر استوار ہے جو شیخ مفید نے علمی جہاد کی ان تین جہات پر قائم کیا ہے۔
ان تینوں جہات کی تشریح سے پہلے یہ کہنا مناسب ہے کہ شیخ مفید اور ان کے زمانے میں بغداد کے شیعہ تعلیمی مراکز میں سے ہر ایک ایسا مرکز شمار ہوتے ہیں کہ اس زمانے تک شیعہ تاریخ میں ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
اس تاریخ سے پہلے، بےشک شیعہ تعلیمی مراکز، شام کے علاقوں سے لیکر ماوراءالنہر تک ہرجگہ پھیلے ہوئے تھے۔ قم کا تعلیمی مرکز جو حدیث کا بڑا مرکز اور دوسری تیسری ہجری کے کوفہ کے تعلیمی مرکز کا جانشین تھا اور ری کا تعلیمی مرکز کہ شیخ کلینی، ابن قبہ اور یہاں سے اٹھنے والی دیگر علمی شخصیات معروف ہیں، شیعہ علمی مراکز کا صرف ایک حصہ تھے۔ مشرق میں ماوراءالنہر کا تعلیمی مرکز تھا کہ جس سے نکلنے والی دو شخصیات، عیاشی سمرقندی اور ابوعمرو کشی معروف ہیں اور مغرب میں حلب کا علمی مرکز تھا کہ جہاں کے حسن بن احمد السبیعی الحلبی اور علی بن خالد الحلبی، شیخ مفید سے وابستہ پائے کے علماء میں شمار ہوتے ہیں۔ بنابریں قرائن تائید کرتے ہیں کہ شیعہ علوم و معارف کے اہم مراکز رہے ہوں گے۔ مشائخ کشی کی فہرست پر ایک نگاہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے میں بنیادی شیعہ علمی مراکز سے دوری کے باوجود کتنی قابل توجہ تعداد میں علماء و محدثین تیار ہوئے ہیں اور اس خیال کی تقویت ہوتی ہے کہ ان علاقوں میں اس قسم کی شخصیات تیار کرنے کی سرگرمیاں ، ایک شیعہ علمی مرکز سے زیادہ وسیع رہی ہیں۔ کم سے کم دس مشائخ سمرقند یا کش (سمرقند کے نزدیک واقع شہر) سے منسوب ہیں اور تقریبا اتنی ہی تعداد بخارا، بلخ، ہرات، سرخش، نیشابور، بیہق، فاریاب اور اس خطے کے بعض دیگر شہروں سے منسوب ہے ۔ (7)
خراسان اور ماوراءالنہر کے شہروں سے منسوب اتنے ناموں کا مشاہدہ کہ بظاہر سب یا تقریبا سبھی شیعہ تھے، اس بات کے پیش نظر کہ معمول کے خلاف ہے کہ کوئی قم، کوفے یا بغداد سے ان تمام خراسانی اور ترکستانی مشائخ کے پاس آیا ہو، اس گمان کی تقویت کرتا ہے کہ عیاشی کا گھر جونجاشی کے کہنے کے مطابق کانت مرتعا للشیعہ اھل العلم (8) یا وکانت دارہ کالمسجد بین ناسخ او مقابل او قاری او معلق مملوئہ من الناس (9) بغداد میں نہیں بلکہ سمرقند میں رہا ہوگا۔ اس صورت میں یہ بات بذات خود اس شہر میں شیعہ علمی مرکز اور علوم و معارف اہلبیت کی ترویج کی غمازی کرتی ہے ۔
شام اور حلب کے علاقوں میں شیعوں کی کثرت اور حمدانیوں کی حکومت کے پیش نظر، جو خود شیعہ اور شیعی رسومات وآداب کے پابند تھے، بیشک قابل توجہ شیعہ علمی مراکز رہے ہوں گے۔ اگرچہ عراق سے ان کی نزدیکی اور بغداد میں اور اس کے بعد شیخ طوسی کے زمانے میں نجف میں اس دیار کے فقہا اور محدثین کی موجودگی کے پیش نظر انہیں بڑے علمی مراکز میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
شیخ مفید کے زمانے پر جاکر ختم ہونے والے دور میں شیعہ علمی مراکز کی یہ اجمالی صورتحال ہے۔ بغداد کا علمی مرکز بھی اسی دور میں قائم اور علوم و معارف اسلامی کے تبادلے میں سرگرم ہوا۔ لیکن شیخ مفید کے سامنے آنے اور ان کی علمی شہرت کے پھیلنے کے بعد بغداد جو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے اسلامی قلمرو کا مرکز تھا، شیعہ علوم و معارف کے اہم ترین مرکز میں تبدیل ہوگیا اور شیعہ دینی و فکری مسائل کے حل کا مرکز ہی نہیں بلکہ طالبان علم کا کعبہ آرزو بن گیا ۔
اگرچہ شیخ مفید کے شاگردوں کی جن کی تعداد فطری طور پر بہت رہی ہوگی، کوئی جامع فہرست نہیں ہے اور ان لوگوں کی تعداد جن کا نام کتابوں اور تراجم میں ان کے شاگردوں کے عنوان سے لیا گیا ہے، اس سے بہت کم ہے کہ جس تعداد میں شیخ مفید جیسی ہستی نے جو تقریبا نصف صدی تک شیعہ علمی مرکز کے سربراہ رہے ہیں، علماء تیار کئے ہوں گے، لیکن شیخ طوسی جیسی نابغہ اور دانشمند ہستی کا طوس سے بغداد جانا اور اپنی جائے پیدائش کے نزدیک کے علاقوں یعنی خراسان اور ماوراءالنہر کے علمی مراکز کی طرف مائل نہ ہونا، قم اور ری میں نہ رکنا اور مذکورہ علمی مراکز کی شخصیات کا ایک طویل عرصے تک معروف نہ ہونا، یہ سب اس بات کی حکایت کرتا ہے کہ بغداد کا علمی مرکز شیخ مفید کی شہرت کے سبب اس مقام تک پہنچ گیا تھا کہ ہمیں یاد نہیں ہے کہ کوئی علمی مرکز اس سے پہلے اس مقام تک پہنچا ہو۔ اس علمی مرکز نے شیعہ علمی مراکز میں رائج تمام علوم کو جمع کرکے، دنیا کے دیگر علمی مراکز کی رونق ختم کردی اور نجف اشرف کے مبارک حوزہ علمیہ کے ( 448یا 449 میں ) وجود میں آنے تک ، شیعہ علمی مراکز کا درۃ التاج شمار ہوتاتھا۔
بیشک اس علمی مرکز کے عروج اور درخشندگی کا محور شیخ مفید علیہ الرحمہ تھے۔ انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت و استعداد، انتھک محنت، بغداد کی اسلامی دنیا کے سیاسی و جغرافیائی مرکز کی حیثیت اور مختلف مذاہب کی علمی شخصیات کی آمد و رفت سے فائدہ اٹھاکر اس علمی مرکز میں بے نظیر جامعیت پیدا کردی تھی اور پھر اپنے زمانے میں بغداد کے شیعہ علمی مرکز کو ممتاز بنانے والے عنصر، کشش محور اور قطب کی حیثیت اختیار کرلی۔ شیخ مفید کے علمی آثار پر ایک نظر ڈالنے اور دیگر قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے تک ممتاز شیعہ علمی شخصیات کی جو خصوصیات مشہور تھیں وہ سب شیخ مفید میں حیرت انگیز طور پر یکجا مجتمع ہوگئی تھیں۔ فقہ میں ان کے اندر قدیمین، ابن بابویہ اور جعفر بن قولویہ کی صلاحیت، کلام میں ہبن ابن قبہ اور بنی نوبخت کی استعداد، علم رجال میں کشی اور برقی کا علم ، حدیث میں شیخ صدوق، صفار اور کلینی کی مہارت کے ساتھ ہی فکری مجادلے اور بحث و مباحثے کی بے نظیر لیاقت اور بہت سی دیگر نمایاں خصوصیات جمع تھیں۔ ان میں سے ہر ایک یقینا راہ علوم اہلبیت کی مشعل ہے لیکن شیخ مفید کی ذات میں ان سب کی صفات و استعداد مجمتمع تھیں ۔ یہ وہ چیز ہے جو ان سے پہلے کسی بھی شیعہ علمی ہستی میں نہیں ملتی ۔ ان کے یکتا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ابن ندیم ( م380) کے مطابق وہ چوالیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ( 13) فقہ کلام اور حدیث میں سب سے ممتاز شیعہ شخصیت بن چکے تھے اور ذہبی، جس نے تاریخ اسلام میں انصاف سے دور اور کینہ آلود لہجے میں ان کے بارے میں لکھا ہے، اس کے باوجود، ان کے بارے میں ابن ابی طے سے نقل کرتا ہے کہ وہ تمام علوم میں یکتا تھے۔ اصول، فقہ، علم رجال، قرآن و تفسیر، نحو، نظم، ان تمام علوم میں وہ سب سے برتر تھے اور ہر عقیدے کے پیرو سے مناظرہ کرتے تھے۔(14)
جی ہاں مفید وہ ہستی ہے کہ جس میں اسلاف کے تمام علوم اپنے تکامل کے ساتھ مجتمع ہوگئے تھے۔ اس جامع اور ہمہ گیر شخصیت کی برکت سے اس شیعہ علمی مرکز کا قیام عمل میں آیا جو ان کے بعد صدیوں باقی رہا۔ جہاں فقہ، کلام، اصول، ادب، حدیث اور علم رجال ایک ساتھ اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے علوم کی حیثیت سے پڑھائے جاتے تھے اور ان پر تحقیق ہوتی تھی۔ یہی علمی مرکز ہے کہ جس نے منتہائے عروج میں سید مرتضی اور اوج کمال میں شیخ الطائفہ محمد بن الحسن الطوسی جیسی ہستیاں دیں۔
کم سے کم شہید اول کے دور تک، یعنی اس زمانے تک کہ جب علمی مراکز کو فقہ اور ان علوم سے مخصوص کرنے کا رجحان غالب ہوا ہے جو فقہ کے مقدمات میں شمار ہوتے ہیں، یہی انداز تمام یا اکثر علمی مراکز اور یہاں سے نکلنے والوں میں نظرآتا ہے اور یہ اسی تحریک کا تسلسل ہے کہ جس نے چار سو تیرہ تک شیخ مفید کی شخصیت اور ان کے قائم کردہ بغداد کے علمی مرکز سے سرچشمہ حاصل کیا ہے۔
بنابریں اگر یہ کہا جائے تو تعجب کا مقام نہیں ہے کہ اس یکتا و ممتاز ہستی نے ان تین محوروں کا راستہ کھولا ہے جن کے عناوین ترتیب سے بیان کئے جا رہے ہیں۔
اب مناسب ہوگا کہ شیخ مفید علیہ الرحمہ کی علمی شخصیت کے ان تینوں پہلوؤں کا جائزہ لیں ۔
مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کے علیحدہ تشخص کا استحکام
غیبت کے آغاز بالخصوص غیبت صغرا کے چوہتر سالہ دور کے خاتمے اور امام غائب (ارواحنا فداہ ) سے شیعوں کے رابطے کے مکمل منقطع ہونے کے بعد مکتب اہلبیت کو ایک خطرہ یہ لاحق تھا کہ اس مکتب سے منسوب لوگوں کی عمدی یا غیر عمدی غلطی اور انحراف، اس میں سے کچھ چیزیں کم کردے یا بڑھا دے یا مکتب کی اصولی حدود کم اہمیت ہوجائیں، انحرافی جہتیں اس میں شامل ہوجائیں اور اعتقادی مسالک اور جعلی مذاہب کی انحرافی باتیں اس کے حقائق کے ساتھ مخلوط جائيں۔ امام علیہ السلام کی غیبت شروع ہونے سے پہلے جب ایسی کوئی بات آتی یا اس کا خطرہ پیش کیا جاتا تو خود امام کی ذات گرامی وہ قابل اعتماد محور و مرکز تھی کہ ہر بات آپ کی ذات گرامی کے ذریعے پرکھ لی جاتی تھی اور اس کے بارے میں فیصلہ کر لیا جاتا تھا۔ بنابریں جب تک امام لوگوں کے درمیان تھے غلطی زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی تھی اور یہ معصوم پیشوا اہم مواقع پر اہم خطاؤں کو بیان فرما دیا کرتا تھا۔ شیعوں کو اطمینان تھا کہ اگر مسلک کی بنیادی جہت میں کہیں سے انحراف آیا تو حجت آشکارا ہوگی اور جو حقیقت جاننا چاہتا ہے جان ہی لے گا۔ آئمہ علیہم السلام کی زندگی کی تاریخ میں ایسے لوگوں کے نام ملتے ہیں کہ جن پر، بدعت شروع کرنے، یا غلط راستے کی بنا رکھنے اور باطل عقیدے کی ترویج کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام نے صراحت کے ساتھ اعتراض کیا ہے اور انہیں مسترد کیا ہے۔ جیسے محمد بن مفلاص المعروف بہ ابی خطاب یا ابن ابی العزافر معروف بہ شلمغانی ( یہ واقعہ غیبت صغری کے دور میں رونما ہوا) اور ان کے جیسے بہت سے لوگ ہیں۔ حتی ایسے واقعات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ سچے اور مخلص اصحاب کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں، اگر ان میں سے کوئی گروہ، کسی فرد یا گروہ کو کسی عقیدے کی وجہ سے بلا وجہ مسترد اور لعن طعن کرتا تھا تو امام علیہ السلام مطعون فرد یا گروہ کا دفاع کرتے تھے اور اس کی تعریف کرتے تھے اور اس طرح صحیح عقیدے کی تائید فرمایا کرتے تھے یا اس انحراف کو جس کا گمان کرتے تھے مسترد فرماتے تھے۔ جیسے جب قمیین نے یونس بن عبدالرحمن کو مسترد کیا تو امام علیہ السلام نے ان کی تائید فرمائی اور ان کے لئے رحمت اللہ کان عبدا صالحا ۔۔۔ یا ان یونس اول من یجیب علیا اذا دعا ( رجال کشی ، شرح حال یونس بن عبدالرحمن ، سے رجو ع کریں) اور جب طالبان علوم اہلبیت نے خاندان بنی فضال سے رجوع کیا تو امام علیہ السلام نے یہ عبارت خذوا ما رووا و ذروا ما دروا صادر کرکے، شیعوں میں ان کے انحرافی (فطحی ) عقیدے کے نفوذ کی روک تھام کی۔ اصحاب سے آئمہ کے روابط کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات بہت ہیں ۔
بنابریں امام علیہ السلام اپنے ظہور کے زمانے میں ہمیشہ بیدار اور ہوشیار نگہبان ہیں اور اس مکتب کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری بذات خود سنبھالتے ہیں۔
مگر غیبت کے دور میں بالخصوص غیبت کبری کے زمانے میں صورتحال بالکل مختلف ہے ۔اس دور میں روز افزوں ضروریات ہیں جنہیں اب امام علیہ السلام کے ذریعے نہیں بلکہ علمائے دین کے ذریعے پوراہونا ہے اور دوسری طرف علمائے دین کے درمیان فطری اختلاف کے سبب جن کو دور کرنے کا کوئی واضح اور ٹھوس محور بھی نہیں ہے، اصول و فروع دین میں مختلف افکار و نظریات اور مختلف نتائج کے حصول کے لئے راستہ کھلا ہوا ہے اور پیش کئے جانے والے گوناگوں نظریات میں فطری طور پر انحرافی مکاتب اور غیر امامی شیعی مذاہب ( زیدی ، اسماعیلی، فطحی ۔۔۔) کی کچھ باتیں مکتب اہلبیت (علیہم السلام) میں داخل ہو جاتی ہیں جو اس کے خالص اور یقینی ہونے کے لئے خطرہ ہیں حتی ممکن ہے کہ طویل عرصے میں مکتب کی جہت بالکل تبدیل کر دیں۔
اس منزل میں، اس زمانے میں رہبران امت کا اہم ترین فریضہ سامنے آتا ہے۔ وہ فریضہ کی جس کی صحیح انجام دہی مذہب کی حفاظت اور فیصلہ کن جہاد کے مترادف ہے اور وہ فریضہ یہ ہے کہ ایک فکری اور عملی نظام کی مانند تشیع کی سرحدوں کا تعین کیا جائے اور آئمہ علیہم السلام کے کلام سے استفادہ کرکے، اس کے لئے، عقیدتی اور عملی لحاظ سے حدبندی کی جائے۔ اس طرح مذہب اہلبیت علیہم السلام کا الگ تشخص معین ہوگا اور پیروان مکتب اہلبیت علیہم السلام اس کو سمجھ کے اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ کام شیعہ علماء و مفکرین کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ فقہ و اصول میں، اصولی انحراف یعنی مبانی مذہب کے دائرے سے نکل جانے کو مکتب کے اندر کے داخلی اختلافات سے الگ کر سکیں۔
بیشک یہ کام شیخ مفید سے پہلے تک انجام نہیں پایا تھا۔ فقہ ابن جنید میں قیاسی رجحانات اور خاندان نوبخت کے کلام میں معتزلی رجحانات کا وجود، اس دعوے کی بہترین دلیل ہے۔ اصول اور فروع دین میں مکتب تشیع کی حدبندی نہ ہونے کے نتائج کے یہ صرف دو نمونے ہیں۔ فقہ میں استنباط کے اصولی و عقلی مبانی اور اصل پر فرع کی تفریع سے جو آئمہ علیہم السلام کی مسلمہ تعلیمات میں سے ہے، استفادہ نہ کرنا، یا دوسری طرف وادی قیاس میں لڑکھڑا جانا، مکتب سے انحراف کی دو جہتیں اور اس کی سرحدوں کا تعین اور واضح حد بندی نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ کلام میں، مذہب کی حدود کا تعین نہ ہونے کی وجہ سے آنے والے انحراف کا مظہر کلام تشیع کا کلام معتزلی سے خلط ملط ہو جانا ہے۔ آخر الذکر مسئلے ( کلام ) میں مذہب کی حد بندی نہ ہونے کے نتائج زیادہ نقصاندہ رہے ہیں ۔ان میں سے مندرجہ ذیل پر توجہ دی جائے ۔
معروف اور بڑے متکلمین جیسے خاندان نوبخت علم کلام کے بہت سے مسائل میں، معتزلی رجحانات میں گرفتار ہوگئے اور معتزلہ کی طرح کلامی مباحث میں حد سے زیادہ عقل پر انحصار کیا۔
بڑی شیعہ شخصیات کے معتزلی ہونے کا دعوا کیا گیا اور معتزلی مصنفین نے انہیں اپنے میں شمار کیا۔ اس طرح کے افراد کا ایک نمونہ، معروف شیعہ متکلم اور دانشور حسن بن موسی النوبختی ہیں۔ ان کا معاصر اور بھانجا، ابوسہیل اسماعیل بن علی النوبختی نوبختیوں کی ممتاز شخصیت ہے ۔(15)
یہ سمجھا گیا کہ تشیع اور معتزلی افکار ایک شخص میں جمع ہوسکتے ہیں۔ بڑی اور معروف ہستیوں کو شیعہ اور معتزلی دونوں سمجھا گیا۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے خود بھی اس دعوے کو قبول کیا، اس کا اعادہ کیا اور اس پر یقین کیا ہے۔ اس کی ایک مثال صاح بن عباد ہیں جو ایک قطعہ میں کہتے ہیں کہ
لو شق قلبی لیری وسطہ سطران قد خطا بلاکاتب
العدل والتوحید فی جانب وحب اہل بیت فی جانب (16)
یا؛ فقلت : انی شیعی ومعتزلی ۔۔۔
اور یہ ایسے عالم میں ہے کہ شیعوں کا اہلبیت علیہم السلام کی امامت کا مخصوص عقیدہ ، ایسا ہے جس کو کوئی معتزلی قبول نہیں کرتا اورم عتزلیوں کا اصول المنزلۃ بین المنزلتین کا عقیدہ شیعہ مسلمات کے منافی اور اس سے متصادم ہے۔
بعض شیعہ علماء نے معتزلیوں کے اصول خمسہ میں سے ایک کو قبول کیا ہے بغیر اس کے کہ وہ خود کو یا دوسرے انہیں معتزلی سمجھیں۔ مثلا نجاشی محمد بن بشر الحمدونی کے بارے میں لکھتاہے؛ وہ خوش عقیدہ تھے اور وعید کے قائل تھے (381)
مجموعی طور پر شیعہ کلام کو معتزلہ سے ماخوذ سمجھا گیا اور خاص طور پر دو اصولوں توحید اور عدل کو اس دعوے کے ساتھ کہ معتزلی مکتب سے تشیع میں آئے ہیں، اس دعوے کی دلیل قرار دیا گياہے۔ ملل و نحل لکھنے والوں، قدما ء سے لیکر متاخرین کے دورتک کے غیر شیعہ متکلمین اور ان لوگوں کی تحریروں میں جنہوں نے معلومات جمع کرنے میں غیر شیعہ کتابوں پر انحصار کیا ہے، جیسے مستشرقین، بارہا اور بارہا اس بات کی تکرار کی گئی ہے۔ حتی خود شیخ مفید کے زمانے میں اہل صاغان حنفی معتزلی فقیہ و متکلم نے، جس کو شیخ مفید نے المسائل ساقانیہ میں شیخ گمراہ کے نام سے یاد کیا ہے، خود شیخ مفید کے بارے میں یہ غلط گمان کیا اور ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے بغداد کے ایک شیخ نے، جس نے اپنی باتیں معتزلہ سے لی ہیں، ایسا اور ایسا کہا ہے۔ (المسائل ساقانیہ ص 41) البتہ شیعہ مصنفین اور محققین ان کو چھوڑ کر کہ جنہوں نے مستشرقین کی طرح غیر شیعی ماخذوں یا خود مستشرقین سے استفادہ کیا ہے، اس غلطی سے محفوظ رہے ہیں اور یہ شیخ مفید اور اس عظیم کارنامے کی برکات میں سے ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے ۔ (17)
جو کچھ کہا گیا اس کے پیش نظر اس کام کی اہمیت زیادہ آشکارا ہو جاتی ہے جو شیخ مفید نے مکتب اہلبیت کی حد بندی کے عنوان سے انجام دیا ہے۔ اس عظیم دانشور نے وقت کے تقاضے کا احساس اور اپنی علمی صلاحیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اس دشوارگزار میدان میں قدم رکھا اور انتہائی اہم، حساس اور بے نظیر کام کا آغاز کیا اورانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اعتراف کیا جائے کہ اس عظیم کام میں کامیاب رہے ہیں۔ دعوا یہ نہیں ہے کہ شیخ مفید کے اس کام کے بعد کوئی تشیع کے مفاہیم کو سمجھنے میں جہالت و گمراہی کا شکار نہیں ہوا یا نہیں ہوسکتا تھا بلکہ دعوا یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے اس مکتب کو سمجھنا اور اس کی حدود کو پہچاننا ممکن ہوگیا جو یہ چاہتے ہوں اور فقہ وکلام میں مکتب اہلبیت، کسی دوسری شاخ سے مشتبہ ہوئے بغیر، اپنی مخصوص علامات و خصوصیات کے ساتھ، ہمیشہ محققین کی فہم و شناخت کے سامنے موجود ہے۔
مفید نے اس ہدف کے لئے جو علمی کام کئے ہیں ان میں سے ہر ایک الگ سے تحقیق کا متقاضی ہے۔ میں دومیدانوں، فقہ و کلام میں، ان کے کاموں کی فہرست پر اکتفا کروں گا۔
فقہ میں انہوں نے کتاب مقنعہ لکھی جس میں پوری فقہ موجود ہے اور اس میں انہوں نے فقہی استنباط کا درمیانی راستہ اور صراط مستقیم طے کیا جو ادلہ لفظیہ اور قواعد اصولیہ سے استفادے اور قیاس استحسان اور دیگر غیر معتبر ادلہ سے اجتناب پر مبنی ہے۔ (اس بارے میں بعد کی بحث میں کچھ باتیں کہوں گا)
اس کے علاوہ کتاب التذکرہ باصول الفقہ لکھی اور اس میں، کتاب کے وجود اور اس کی تحریروں کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے کہ پہلی بار فقہی استنباط کے قواعد جمع کئے اور ان کی اساس پر فتوا دیا۔ (اس کتاب کے بارے میں بھی بعد کی بحث میں گفتگو ہوگی) اور ان سب سے بڑھ کر کتاب الاعلام تحریر کی اور اس میں وہ باتیں جمع کیں جن کے بارے میں شیعہ فقہا کا فتوا متفق علیہ ہے اور اہلسنت فقہا کے درمیان عدم فتوا متفق علیہ ہے۔ یعنی کسی بھی اہلسنت فقیہ نے اس کا فتوا نہیں دیا ہے۔ اس کتاب کے ابواب فقہ میں سے کچھ میں نقل اجماع کے بارے میں بحث و تحقیق کی گئی ہے۔ فقہ امامیہ اور فقہ حنفی کے درمیان حدود کے تعین کے لئے کتاب المسائل الساقانیہ بھی بہت اہم کتاب ہے جو چند شیعہ فقہی مسائل پر ایک حنفی فقیہ کے اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے۔
اس درمیان شیخ مفید کا ایک کارنامہ کتاب النقض علی ابن الجنید ہے جس کا عنوان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی فقہی حدود اور سرحدوں کی مستحکم نگہبانی کی عکاسی کرتا ہے۔ البتہ اس کتاب کے مضامین کے بارے میں کوئی فیصلہ، کتاب کے دسترس میں نہ ہونے کے باعث ممکن نہیں ہے۔ مگر مفید کے کام کی روش، مذہبی بحث میں ان کے قوی دلائل ، دینی منابع کے بارے میں ان کی وسیع معلومات، عقلی استدلال کے مقدمات ترتیب دینے میں ان کا فکری استحکام اور ابن جنید کے قیاسی رجحان کے مقابل ان کا ٹھوس موقف، جس کا نمونہ المسائل الساقانیہ میں دیکھا جاسکتا ہے، (18) ان سب سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ کتاب عالمانہ اور قانع کنندہ مضامین پر مشتمل ہوگی اور بیشک شیخ مفید کے بعد شیعہ فقہا میں اس رجحان کے جاری نہ رہنے میں بہت مفید اور موثر واقع ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یعنی مکتب اہل تشیع کے علیحدہ تشخص کے استحکام میں شیخ مفید کا سب سے اہم اور وسیع تر کام، علم کلام کے میدان میں انجام پایا ہے۔ اس میدان میں شیخ مفید نے شیعہ عقائد اور دیگر کلامی شاخوں کے درمیان سرحد کے تعین میں پوری دقت نظر سے کام لیا ہے اور دیگر اسلامی یا شیعہ فرقوں کے اعتقادی عناصر کے عقائد امامیہ کی حدود میں داخل ہونے اور غلط افکار کو جن سے شیعہ مبرا ہیں ، مکتب تشیع سے منسوب کئے جانے کی روک تھام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی بناء پر ہے کہ اگر چہ وہ دیگر مذاہب سے بحث میں، اپنے دور کے تمام مکاتب فکر کو بحث کی دعوت دیتے ہیں اور اشعری، معتزلی، مرجئی، خارجی، مشبہ، اہل حدیث، غالی، ناصبی اور اسلام سے منسوب دیگر چھوٹے بڑے فرقوں سے بحث کرتے نظر آتے ہیں مگر اس درمیان معتزلہ اور اس کے معروف فرقوں سے ان کا فکری تصادم زیادہ نظر آتا ہے اور متعدد چھوٹے بڑے رسائل اور کتابوں میں، مختلف مباحث میں معتزلہ کے نظریات پر زیادہ تنیقید کرتے ہیں اور انہیں مسترد کرتے ہیں۔ اس کا راز یہ ہے کہ مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان چونکہ معتزلہ کے بعض اصول شیعہ مکتب کے اصولوں سے مشابہ ہیں، اس لئے یہ شبہہ پیدا کیا گیا کہ ان کا مکتب بہت سے شیعہ عقائد کی بنیاد اور سرچشمہ ہے یا حتی اس سے بڑھ کر یہ دعوا کیا گیا کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اعتزال ہی تشیع ہے اور اس سے یہ غلط گمان پیدا ہو گیا کہ شیعہ کلام، معتزلی کلام سے ماخوذ ہے یا شیعی کلام کے اصول، وہی معتزلی کلام کے اصول ہیں اور جیسا کہ اس سے پہلے کہا گیا اس غلط فہمی کے کچھ نتائج بھی بر آمد ہوئے ہیں۔
شیخ مفید کی کتابوں میں معتزلہ کے عقائد کا بیان مکتب تشیع کی نگہبانی اور اس مکتب کے کلامی نظام کی اصالت اور استقلال کے اثبات کا ثبوت ہے۔
اس بارے میں شیخ کی اہم ترین کتاب اوایل المقالات فی المذاہب والمختارات
ہے جو معتزلہ اور شیعہ مذہب کے فرق کو بیان کرنے کے لئے لکھی گئی ہے۔ خود انہوں نے کتاب کے مقدمے میں جو لکھا ہے اس کے مطابق حتی متفقہ اصولی مسائل میں بھی ان دونوں فرقوں کے درمیان اختلاف جیسے عدل کے مسئلے میں دونوں کے اختلاف پر توجہ دی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہیں۔(19)
اس مختصر مقدمے میں شیخ مفید کی عبارت سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ اس کتاب کی تالیف سے شیخ مفید کا مقصد، ان لوگوں کے لئے ایک قابل اطمینان عقیدتی مرجع اور اصول فراہم کرنا ہے جو اس مکتب کے فکری مبانی پر تفصیلی ایمان رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کتاب میں حتی ان شیعہ دانشوروں کے عقائد پر بھی تنقید کرتے ہیں جنہوں نے معتزلہ کے بعض نظریات اخذ کرکے کلام تشیع کو خالص نہیں رہنے دیا تھا اور اس بارے میں نوبخت کے نام کا ذکر کرکے ان پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ وہی مکتب تشیع کے فکری نظام کی نگہبانی اور دفاع ہے جس کا پرچم پہلی بار، جیسا کہ تفصیل سے ہمیں معلوم ہے، شیخ مفید نے اٹھایا ہے ۔
البتہ تشیع اور معتزلہ کے درمیان عقیدتی سرحدوں کا تعین، کتاب اوایل المقالات تک محدود نہیں ہے اور شیخ نے اپنی دوسری کتابوں میں بھی، گوناگوں بیانات کے ذریعے اور کبھی طرز بیان کا انتخاب کرکے بہت خوبصورت اور موثر انداز میں یہ مہم انجام دی ہے۔ مگر اوایل میں یہ خصوصیت مکمل اور ہمہ گیر انداز میں نظر آتی ہے۔ اس کتاب میں وہ جگہیں بھی آتی ہیں جہاں معتزلہ اور اہل تشیع کے درمیان اشتراک عقیدہ پایاجاتا ہے۔ وہ ان جگہوں پر انداز بیان ایسا اختیار کرتے ہیں کہ اس عقیدے میں مکتب اہلبیت کا موقف آشکارا ہو جاتا ہے اور معتزلہ کی پیروی کا گمان ختم ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر رویت خدا کی نفی کے سلسلے میں کہتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ ان آنکھوں سے خدائے سبحان کو دیکھنا ممکن نہیں ہے اور اس بات کی عقل گواہی دیتی ہے، قرآن اس پر گویا ہے اور روایات ائمہ اس بارے میں متواتر ہیں اور جمہور اہل امامت اور ان کے متکلمین اس پر متفق ہیں الا ایک کے جو اس مسئلے میں سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے، کیونکہ تاویل روایات میں وہ شبہے میں گرفتار ہوگیا ہے اور معتزلہ سبھی اس مسئلے میں اہل امامت سے متفق ہیں اور مرجئیہ اور بہت سے خوارج اور زیدیہ اور اہل حدیث کے بہت سے گروہ بھی ( ص 162اوایل المقالات)
اس مسئلے میں اس کے علاوہ کہ عقلی دلیل بھی اس پر دلالت کرتی ہے ، شیعہ اپنے معتبر ادلہ یعنی کتاب اور سنت متواترہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بنابریں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اس بات کو معتزلہ یا کسی دوسرے سے اخذ کریں، بلکہ یہ معتزلہ ہیں جنہوں نے اس مسئلے میں اہل امامت سے اتفاق کیا ہے۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اس مسئلے میں معتزلہ نے شیعہ مکتب سے قرض لیا ہے۔
اس کے بعد چیزوں کے وجود میں آنے سے پہلے ان کے بارے میں علم خدائے تعالی کے بارے میں اس طرح کہتے ہیں میں کہتا ہوں کہ خدائے تعالی ہر اس چیز کا جو وجود پاتی ہے، اس کے وجود پانے سے پہلے عالم ہے اور کوئی واقعہ نہیں ہے الا یہ کہ اس کے وقوع سے پہلے اس کا عالم ہے اور کوئی معلوم یا وہ چیز جو معلوم ہوسکتی ہے، نہیں ہے الا یہ کہ وہ اس کی حقیقت کا عالم ہے اور اس سبحانہ تعالی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پنہاں نہیں ہے اور اس بات پر عقلی دلائل، کتاب مسطور اور آل رسول کی روایات متواتر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام امامیہ مکتب کا مذہب ہے اور جو معتزلہ نے ہشام بن الحکم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس کے خلاف کہا ہے۔ ہمیں اس کی خبر نہیں ہے اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ یہ نقل ان پر ان کی جانب سے تہمت ہے اور ان لوگوں کی غلطی ہے جنہوں نے اس نقل میں ان کی تقلید کی ہے اور اس کو شیعوں سے منسوب کیا ہے ۔۔۔ اور اس عقیدے میں توحید سے منسوب سبھی ہمارے ساتھ ہیں الا مجیرہ کے جہم بن صفوان اور معتزلہ کے ہشام بن عمرو الفوطی کے ( ص 60-61) یہاں بھی انداز گفتگو اور حدیث متواتر، قران اور عقل سے استناد اس طرح ہے کہ منشاء استناد میں تشیع کی ممتاز حیثیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اگرچہ معتزلہ نے بھی دوسرے فرقوں کی طرح اس کو قبول کیا ہے۔
بعض مسائل میں، شیعہ اور معتزلہ، کسی معروف مسئلے کے ایک حصے میں ایک دوسرے کے موافق ہیں۔ مفید ان مسائل میں معتزلہ یا دوسرے فرقوں سے شیعوں کے فرق کا نقطہ بیان کرتے ہیں تاکہ عنوان مسئلہ میں اتفاق اس کے جوانب میں اشتباہ کا موجب نہ ہو۔ مثلا شیعہ اور معتزلہ دونوں لطف اور اصلح کے قائل ہیں مگر مفید لطف کے بیان میں اس لئے کہ مسئلے کو سمجھنے میں غلطی نہ ہو اور شیعہ اس مسئلے میں معتزلہ کے اشتباہ میں گرفتار نہ ہوں، اصلح کے بیان کے فورا بعد کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ وہ لطف جس کو اصحاب لطف لازم شمار کرتے تھے، صرف خدا کے جود و کرم کے سبب لازم ہے نہ اس طرح جو انہوں ( معتزلہ اور دوسروں) نے سمجھا ہے کہ عدل اس لطف کو ( خدا پر ) واجب کرتا ہے کہ اگر نہ کرے تو ظلم کرے گا (ص65)
حتی بعض مسائل میں جن میں کچھ شیعہ متکلمین معتزلہ سے متفق ہوگئے ہیں، اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کا نام لے کر یا اشارتا ذکر کریں تاکہ ان کم لوگوں کا نظریہ شیعہ عقیدہ اور مکتب اہل تشیع میں نہ شمار کیا جائے۔
مثال کے طور پر، عصمت کے مسئلے میں، امامیہ نقطہ نگاہ سے، گناہان صغیرہ حتی سہو و نسیان سے بھی آئمہ علیہم السلام کی عصمت کے بیان کے بعد کہتے ہیں تمام امامیہ کا مذہب یہ ہے الا اس کے جوان کے جو سیدھے راستے سے ہٹ گیا ہے اور اپنے عقیدے کے لئے بعض روایات کے ظواہر سے تمسک کیا ہے جن کا باطن اور تاویل اس کی فاسد رائے کے برعکس ہے اور معتزلہ سب، اس مسئلے میں مخالف ہیں اور آئمہ کے لئے، گناہان کبیرہ حتی ارتداد کو بھی ممکن شمار کرتے ہیں۔ (ص 74) گویا شیخ مفید کا اشارہ شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کی جانب ہے ۔
ان مثالوں میں اور پوری کتاب اوایل المقالات میں شیخ مفید کا نمایاں کردار مکتب کی حدود معین کرنے والے اور ہوشیار اور غفلت سے دور نگہبان کا ہے جس کی پوری کوشش یہ ہے کہ شیعہ مکتب کی کلامی اور اعتقادی حدود اس طرح معین کریں کہ کسی بھی دوسرے فرقے اور مذہب سے قابل اشتباہ نہ رہے۔ یہی ہدف دوسری کتابوں میں بھی مد نظر رہا ہے۔ اگرچہ تقریبا مختلف روشوں کے ساتھ مثلا الحکایات میں جس کا بڑا حصہ مختلف کلامی عناوین کے تحت معتزلہ کے عقائد کے رد پر مشتمل ہے، ایک باب التہام التشبیہ ہے کہ جس میں حکایات کے راوی گویا سید مرتضی ہیں ، کہتے ہیں؛ معتزلہ نے ہمارے اسلاف پر تشبیہ کا الزام لگایا ہے اور امامیہ کے بعض اہل حدیث نے ان کی اس بات کو قبول کرلیا ہے اور دعوا کیا ہے کہ ہم نے نفی تشبیہ کا عقیدہ معتزلہ سے لیا ہے اور پھر شیخ مفید سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی حدیث بیان کریں جو اس تہمت کو باطل کر دے۔
شیخ مفید جواب میں اس الزام کی جڑ اور تاریخچہ بیان کرنے کے بعد تشبیہ کی رد میں اہلبیت علیہم السلام سے منقول بے شمار روایات تحریر کرتے ہیں اور حضرت ابی عبداللہ ( علیہ السلام ) کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں یہ ابی عبداللہ (علیہ السلام ) کا کلام ہے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم نے اسے معتزلہ سے لیا ہو؟ صرف ایک بات رہ جاتی ہے کہ اس بات کا کہنے والا دینداری میں ضعیف ہو۔ ( الحکایات ص 81-79)
یہ جو شیخ مفید اتنی شدت کے ساتھ ، تشبیہ ، جبر اور رویت کے عقائد شیعہ سے ہونے کے الزام کی نفی کرتے ہیں، خود شیخ کی جانب سے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے علیحدہ تشخص کے استحکام اور اس کی نگہبانی کا ایک اور مصداق ہے، جو ہماری موجودہ بحث کا عنوان ہے۔
جو کچھ شیخ مفید نے کتاب اوایل المقالات اور دیگر کلامی کتب جیسے تصحیح الاعتقاد والفصول المختارہ وغیرہ میں، اہل تشیع کے عقائد بیان کئے ہیں اور ان عقائد اور دیگر کلامی فرقوں بالخصوص معتزلہ کے عقائد کے درمیان فرق کو واضخ کرنے کے لئے جو باتیں بیان کی ہیں، اس پر توجہ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کوشش یہ تھی کہ تشیع کے لئے، ایک شفاف فکری نظام پیش کریں کہ جس کی حدود واضح اور معین ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس فکری نظام کا نقطہ امتیاز مسئلہ امامت ہے۔ اس معنی میں کہ کوئی دوسرا فرقہ اس میں شیعوں کا شریک نہیں ہے اور کسی شخص یا جماعت کو شیعہ مذہب سے منسوب کرنے کی بنیاد اس مسئلے پر اعتقاد ہے۔ یہ صحیح ہے کہ شیعہ اپنے بہت سے دیگر اعتقادات میں بھی، عنوان مسئلہ جیسے توحید، عدل اور صفات وغیرہ میں دوسرے فرقوں سے شباہت کے باوجود روح، معنی، بعض فروع اور جزیئات میں کافی اختلافات رکھتے ہیں مگر مسئلہ امامت میں، شیعہ اور دیگر اسلامی فرقوں میں فرق زیادہ آشکارا اور نمایاں ہے۔ لہذا شیخ مفید نے اس کے ساتھ ہی کہ اپنی مفصل کتابوں جیسے اوایل المقالات وغیرہ میں مسئلہ امامت کو افتتاح کلام میں رکھا ہے، امامت کے موضوع پر مختلف ناموں سے متعدد مختصر اور ضخیم رسائل بھی تحریر کئے ہیں۔
یہاں اس نکتے کا ذکر مناسب ہے کہ شیخ مفید کے فکری نظام میں مسئلہ امامت کے نمایاں نقطہ ہونے کا مطلب وہ نہیں ہے جو ایک مستشرق نے سمجھا ہے اور امامت کو اس نے شیخ مفید کے نظام فکری کے محور کے عنوان سے متعارف کرایا ہے۔ شیعہ فکری نظام اور شیخ مفید نیز اس فرقے کے دیگر متکلمین کا محور صانع اور توحید باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ اہم مسائل جیسے صفات حق تعالی، معنی اور حضرت حق (عز اسمہ ) کی ذات سے اس کی نسبت، مسئلہ نبوت اور اس کی شاخیں، مسئلہ عدل اور مسئلہ امامت اور فرائض اور قیامت وغیرہ سے مربوط مسائل، سب کے سب اسی مسئلے سے نکلے ہیں اور اسی پر مبنی ہیں۔ افسوس کہ مستشرقین اور جو لوگ اسلامی مفاہیم کا لازمی احاطہ نہیں رکھتے، شیخ مفید جیسی عظیم ہستیوں کی مراد کو سمجھنے میں اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ اس قسم کے جلسوں اور مباحث میں ان کی کج فہمیوں کی اصلاح ہو اور حقائق روشن کئے جائیں۔ ایک مغربی محقق جس نے شیخ مفید کے بارے میں کچھ باتیں لکھی ہیں، کبھی لکھتا ہے کہ ان کا کوئی الگ فکری نظام نہیں تھا اور کبھی لکھتا ہے کہ ان کا ایک فکری نظام تھا جو امامت پر استوار تھا۔ جیسا کہ کہا گیا، یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ شیخ مفید کا فکری نظام ان کے متعدد رسائل اور کتابوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس کا محور مسئلہ معرفت کے بعد جو اعتقادی مسائل کا فطری مقدمہ ہے، ذات و صفات باری تعالی کا مسئلہ ہے۔ تمام بنیادی مسائل حسب مراتب اسی سے نکلے ہیں۔ مسئلہ امامت جیسا کہ کہا گیا، اس مکتب کو دوسرے مکاتب فکر سے الگ اور ممتاز کرنے والا نقطہ ہے اور ایسا عقیدہ ہے جس سے اہل تشیع پہچانے جاتے ہیں۔ شاید اس مسئلے کا معتزلہ کے المنزلۃ بین المنزلتین سے قیاس کیا جا سکے جو مکتب معتزلہ کے اصول خمسہ میں پہلا، اہم ترین یا بنیادی ترین مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ توحید و عدل ہے۔ لیکن مسئلہ المنزلۃ بین المنزلتین معتزلہ کا خاص عقیدہ اس کی نمایاں علامت اور اس کے وجود میں آنے کا سرچشمہ ہے۔ کوئی معتزلی ایسا نہیں ہے کہ یہ نام اس پر صادق آئے اور وہ اس کا معتقد نہ ہو۔ شیعہ فکری نظام میں یہ خصوصیت امامت (کے عقیدے) سے تعلق رکھتی ہے ۔
جو کچھ کہا گیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ شیعہ کی نابغہ ہستی، شیخ مفید پہلی شیخصیت ہیں کہ جنہوں نے فقہ اور کلام میں مکتب تشیع کی حد بندی کی اور مرتب کیا۔ علم کلام میں، ایک منظم اور تمام شیعی عقائد پر محیط فکری نظام پیش کیا اور دیگر اسلامی فرقوں، مذاہب اور غیر امامی مکاتب سے اس کے مشتبہ کی روک تھام کی ہے اور علم فقہ میں تعلیمات اہلبیت ( علیہم السلام ) سے ماخوذ اصولوں پر مبنی روش استنباط کے ذریعے فقہ کا پورا دورہ تیار کیا اور غیر معتبر روشوں جیسے قیاس، ناقص اور ابتدائی (روشوں) جیسے اہل حدیث کی روش کا راستہ بند کردیا اور یہ ان تین پہلوؤں میں سے پہلا ہے کہ، مکتب اہلبیت (علیہم السلام ) کی ترقی پذیر علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت جن پر استوار ہے ۔
2- شیعہ فقہ کے صحیح علمی قالب کی بنیاد؛
شیعہ مکتب فکر میں کتاب وسنت کے منابع سے حکم شریعت کے استنباط کے معنی میں فقاہت کی تاریخ اور ماضی بہت طولانی ہے۔ ابان بن تغلب سے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کا یہ کلام اجلس فی مسجد المدینۃ و افت الناس ۔۔۔(20) اور عبد الاعلی کو آپ کی یہ تعلیم کہ یعرف ھذا و اشباھہ من کتاب اللہ عز و جل قال اللہ تعالی ما جعل علیکم فی الدین من حرج ۔۔۔ ( 21) اور اسی قسم کے دیگر بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اصحاب آئمہ ( علیہم السلام) قدیم الایام سے قرآن اور سنت پیغمبر (صل اللہ علیہ والہ وسلم) اور آنحضرت کے اقوال سے استنباط کے مرحلے پر فائز تھے اور فقہ، معرفت احکام کے معنی میں آئمہ علیہم السلام کے شیعوں کے دائرے میں، صرف آئمہ علیہم السلام کی تقلید اور آپ کے اقوال پر عمل کرنے تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اس میں زیادہ جزئیات اور استدلال کے پیچیدہ تر ہونے پر محیط وسعت آ چکی تھی۔ اس کے باجود فقہائے اصحاب آئمہ ( علیہم السلام ) فقاہت اور فتوے کے سلسلے میں جو کچھ انجام دیتے تھے، اس میں اور اس دور کی فقاہت میں جس کو شیعہ فقہ کی پیشرفت کا دور سمجھا جاتا ہے، یعنی فروع کو اصول کی طرف پلٹانا، کتاب وسنت اور حکم عقلی سے ہزاروں پیچیدہ اور مشکل احکام اور سیکڑوں کلی قاعدوں کا استنباط اور بے شمار فروع کا استخراج کہ جس کے ذریعے غیبت امام معصوم میں مکلفین کے تمام سوالوں کا شریعت سے جواب دیا جاسکے، تمام امور میں حلال و حرام خدا کو تمام جزئیات کے ساتھ بیان کیا جاسکے، فاصلہ بہت گہرا تھا اور اس فاصلے کو تدریجی طورپر فقاہت کی پیشرفت سے پر ہونا تھا۔
بیشک شیخ مفید سے پہلے کے فقہا نے اس راہ میں اہم قدم اٹھائے ہیں مگر شیخ کبیر، اپنی نابغہ فکری قوت سے اس میدان میں بھی ایک پر تغیر تاریخ کا سرآغاز اور روزبروز وسیع تر اور عمیق تر ہونے والی پربار تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔گویا کئی صدیوں تک منابع فقہ یعنی معصومین سے صادر ہونے والے کلمات کی جمع آوری اور متون و ظواہر روایات کی اساس پر فتاوی صادر کئے جانے کے بعد تاریخ فقہ کے ایک دور میں ضروری تھا کہ اس قیمتی سرمائے اور ذخیرے کو علمی فکر کے قالب میں ڈھالا جائے اور استنباط کی فنی روش ایجاد کی جائے ۔
شیخ مفید سے پہلے شیعہ فقہ میں دو مختلف گروہ تھے ۔ ایک گروہ کی نمائندگی علی بن بابویہ ( 329) کرتے ہیں اور شاید اس کو گروہ قمیین کا نام دیا جاسکتا ہے اور گمان غالب یہ ہے کہ فقہ میں شیخ مفید کے استاد یعنی جعفر بن قولویہ (متوفی 368) کا تعلق اسی گروہ سے ہے۔ اس گروہ میں فقاہت کا مطلب متون روایات کے مطابق فتوا دینا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کی فقہی کتب میں ہر فتوا اپنے مضمون میں کسی روایت کی حکایت کرتا ہے بنابریں اگر صاحب فتوا ضروری اعتماد اور امانتداری کا مالک ہو تو وہ فتوا حدیث کی جگہ لے سکتا ہے۔اسی بناء پر شہید (علیہ الرحمہ ) ایک ذکر میں فرماتے ہیں کہ : قد کان الاصحاب یتمسکون بما یجدون فی شرائع الشیخ ابی الحسن بن بابویہ رحمت اللہ عند اعواز النصوص الحسن ظنھم بہ و ان فتواہ کروایتہ (22)
ظاہر ہے کہ اس کیفیت کے ساتھ فقاہت ابتدائی اور فنی و پیچیدہ اسلوب سے عاری ہے اور اس گروہ کی فقہی کتب میں جن فروعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ منصوص، محدود اور بہت کم ہیں اور یہ وہی چيز ہے جس کی وجہ سے مخالفین شیعوں کو فروعات کے کم ہونے کا طعنہ دیتے تھے اور شیخ طوسی رحمت اللہ علیہ نے بعد میں اس طعنے کو دور کرنے کے لئے کتاب المبسوط تالیف فرمائی۔
دوسرا گروہ اس کے بالکل برعکس تھا جو استدلال اور ظن غالب پر بھروسہ کرتا تھا اور یہ سبک سنی فقہ سے ماخوذ تھا اس گروہ کی دو معروف ہستیاں، حسن ابن ابی عقیل العمانی ( متوفی ؟ ) اور ابن جنید الاسکافی ( متوفی احتمالا381) ہیں۔ اگرچہ اس گروہ اور حتی ان دونوں معروف فقیہوں کے بارے میں کافی اطلاعات نہیں ہیں جن سے پتہ چلے کہ استنباط میں اس گروہ کے فقہا کی بنیاد اور نظریہ کیا تھا لیکن شیخ مفید اور دوسروں نے ابن جنید کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس سے مسلمہ نظر آتا ہے کہ وہ قیاس اور رائے کی طرف رجحاں رکھتے تھے اور شیعوں کے معروف اور مقبول طریقے سے دور تھے لیکن عمانی اگرچہ اس رجحان سے منسوب نہیں کئے گئے ہیں بلکہ نجاشی کے کہنے کے مطابق جو کہتے ہیں وسمعت شیخنا ابا عبداللہ یکثر الثناء علی ھذا الرجل رحمت اللہ (23) اور جو انہوں نے اور شیخ نے، دو فہرست میں ان کی کتاب کے بارے میں کہا ہے (24) اس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ وہ فقیہ مستقیم اور شاید اس طریقے سے نزدیک تھے جو شیخ مفید نے اختیار کیا ہے ، اس پر چلے ہیں ، اس پر تالیف و تحقیق انجام دی ہے اور اس پر اپنے شاگردوں کی تربیت کی ہے ۔لیکن اس کے باوجود چونکہ ان کی آراء نادر اور متروک شمار ہوتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے علامہ اور محقق (رحمت اللہ ) کے بعد کے ادوار کے لئے ان کی کتاب سے اس کے نام کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا ہے اس لئے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بعد کے لئے فقہی تحریک کے اسلاف میں نہیں ہوسکتے اور ان کی فقاہت میں نقص تھا۔ البتہ شک نہیں کرنا چاہئے کہ وہ عالم اقدم تھے جن کے بارے میں بحرالعلوم نے کہا ہے کہ ھواول من ھذب الفقہ واستعمل النظر و فتق البحث عن الاصول والفروع فی ابتداء الغیبت الکبری ( فتاوی العلمین ص 13) اور فقاہت کے صحیح قاعدے اور بنیاد تک شیخ مفید کی دسترسی میں، جس میں پہلا قدم خود ان کے بارے میں شمار کیا جانا چاہئے، موثر رہے ہیں اور ان کے لئے مقدمہ شمار کئے گئے ہیں ۔
جیسا کہ ملاحظہ کیا جا رہا ہے، فقاہت کی دونوں روشیں ایک لحاظ سے ناقص ہیں۔ پہلی روش میں فتوا وہی متن روایت ہے تفریع اور فرع کو اصل پر پلٹائے بغیر اور بحث ومباحثے، تحلیل، استخراج اور اجتہاد کی، اس کے اصطلاحی معنی میں، فقاہت میں کوئی مداخلت اور تاثیر نہیں ہے۔ دوسری روش میں اگرچہ استدلال اور رائے ہے مگر گویا وہ نہیں ہے جو مکتب اہلبیت ( علیہم السلام ) کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے۔ یہ روش قیاس کے ساتھ ہے یا ایسے طریقے پر ہے کہ نادر آراء پر منتج ہوتی ہے جو شیعہ مدرسہ فقاہت میں قابل دوام نہیں ہے ۔
شیخ مفید کی فقہ ان دونوں نقائص سے پاک اور دونوں خوبیوں کی حامل ہے؛ امامیہ کے نزدیک معتبر روشوں پر استوار بھی ہے اور اس میں اصطلاحی اجتہاد سے استفادہ بھی ہے اور استدلال و استنباط نظری کی مداخلت بھی ہے۔ بنابریں شیخ وہ ہستی ہیں کہ جس نے شیعوں کے نزدیک معتبر اور مقبول علمی قالب تیار کیا، ماثور ( معصومین سے منقول ) مضامین اور اصول متلقات میں علمی نظم پیدا کیا اور اس کو شیعہ فقاہت کے مرکز میں باقی رکھا۔ یہ وہی چیز ہے کہ ان کے بعد صدیوں تک اور آج تک ، اصولی فقاہت میں جاری ہے اور اس کو رشد و ترقی کی اس منزل تک پہنچایا ہے جہاں آج وہ ہے۔
شیخ مفید کے فقہی کارنامے کی اہمیت سے اجمالی واقفیت کے لئے، اس سلسلے میں انکی تین تصنیفات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
الف ؛ کتاب مقنعہ
ب ؛ شیخ مفید کے مختصر فقہی رسائل
ج ؛ کتاب التذکرہ باصول الفقہ
الف ؛ کتاب مقنعہ ؛
مقنعہ فقہ کا ایک مکمل دورہ ہے۔اس سے پہلے اس خصوصیت کی حامل فقہ کی کوئی کتاب نہیں تھی۔ مقنع شیخ صدوق قطع نظر اس کے کہ علی بن بابویہ کی کتاب کی طرح متون روایات ہے، جامعیت مباحث فقہی کے لحاظ سے بھی، مقنعہ کے پائے کی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مباحث زیادہ مختصر اور زیادہ کوتاہ ہیں۔ مفید نے اس کتاب میں اگرچہ اپنے فتووں کے استدلال کا ذکر نہیں کیا ہے جس کی بناء پر ان فتووں کے استدلال کی کیفیت کو سمجھنا آسان نہیں ہے لیکن اطمینان بحش قرینے کی اساس پر کہا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں ان کے فتوے ، متین فقہی استدلال پر استوار ہیں اور اگرچہ یہ استدلال مکتوب نہیں ہیں کہ آئندہ والے اس سے استفادہ کریں، لیکن اس طرح ہیں کہ ان سے متصل فقہا اور تلامذہ انہیں اپنے کام کے لئے سرمشق قرار دیں اور ان میں اضافہ کریں۔ وہ قرینہ اطمینان بخش شیخ طوسی کی کتاب تہذیب ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، تہذیب شرح مقنعہ اور اس کے فقہی استدلال کے بیان کی کتاب ہے۔ شیخ طوسی ( علیہ الرحمہ) اس کتاب کے مقدمے میں، اس کتاب کو لکھنے کے محرک کے بیان اور اس ذکر کے بعد کہ اسی صدیق سے کہ جس سے انہوں نے تالیف کتاب طلب کی ہے ، وہ بھی چاہا ہے کہ جس مقصود کو پورا کرنے کے لئے شیخ نے ، مفید کی مقنعہ کی جو کافی و شافی اور فضول نیز فالتو باتوں سے پاک ہے، شرح کی ہے، استدلال میں اپنی روش بیان کرتے ہیں جو اختصار کے ساتھ اس طرح ہے ؛ ہر مسئلے میں استدلال، ظاہر یا صریح قران سے یا اس کے مختلف مفہومی دلائل ( جیسے ؛ مفہوم موافقہ ، مفہوم مخالفہ اور دلالت التزامی وغیرہ ) ، اور سنت قطعیہ سے، خبر متواتر یا قرینے کے ہمراہ خبر کے معنی میں، استدلال، اجماع مسلمین یا اجماع امامیہ، اس کے بعد ہر مسئلے میں مشہور احادیث کا ذکر اور پھر دلیل معارض پیش کرنا، ( اگر ہو) دو دلیلوں کے درمیان جمع دلالی اور اگر جمع دلالی ممکن نہ ہو تو سند کی کمزوری یا اس کے مضمون سے اصحاب کے اجتناب کی وجہ سے دلیل مقابل کو رد کر دینا اور جہاں دونوں دلیلیں سند وغیرہ ( جیسے جہت صدور یا اعراض مشہور وغیرہ ) کے لحاظ سے برابر ہوں اور کسی کو کسی پر ترجیح حاصل نہ ہو تو اس روایت کو ترجیح دینا جو شریعت سے استخراج ہونے والے ،اصول و قواعد کلیہ کے موافق ہو، اور اس دلیل کو ترک کرنا جو اصول و قاعدہ کے خلاف ہو اور مسئلے میں کوئی حدیث نہ ہونے کی صورت میں ، مقتضائے اصل پر عمل اور ہمیشہ ترجیح سندی پر جمع دلالی کو ترجیح دینا ، اور جمع دلالی کو شاہد جمع کے مطابق منصوص انجام دینا اور حتی المقدور اس سے انحراف نہ کرنا۔
یہ کتاب مقنعہ کو استدلالی کرنے کی وہ روش ہے کہ جس کا شیخ طوسی ، کتاب تہذیب کے شروع میں ذکر کرتے ہیں۔ اہل فن اچھی طرح جانتے ہیں کہ استدلال کی یہ جامع روش ، فقاہت شیعہ کے تمام ادوار میں جاری رہی ہے اور آج بھی موجود ہے اور فقہی استدلال کا کلی قالب شیخ طوسی کے بعد تمام ادوار میں اور آج تک یہی رہا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا شیخ مفید جو خود کتاب مقنعہ کے مصنف ہیں، اس جامع روش استدلال سے جو فقیہ کو اس کتاب کے تمام فتووں تک پہنچا سکتی ہے، غافل تھے اور بغیر واقفیت کے اس روش استدلال سے ان فتووں تک پہنچے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں کیا شیخ طوسی ( رحمت اللہ علیہ ) اس طرز استدلال کے موجد ہیں؟ یا انہوں نے اسے اپنے استاد شیخ مفید سے سیکھا ہے؟ موضوع کے جوانب پر توجہ سے اس سوال کا جواب حاصل ہو جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب کی تالیف شیخ مفید کی حیات میں یعنی 413 سے پہلے شروع کردی تھی اور یہ مقدمہ اسی وقت لکھا تھا۔ شیخ طوسی 408 میں عراق پہنچتے ہیں جب وہ تیئس سال کے نوجوان تھے۔ انہوں نے شیخ مفید کی خدمت میں اعلا علمی مدارج طے کرنے اور تحقیق کا آغاز کیا اور 413 تک پانچ سال اس عظیم نابغہ ہستی سے استفادہ کیا - بقیہ علمی استفادہ شیخ طوسی نے تیئس سال تک سید مرتضی سے کیا ہے ۔
اس طرح شک باقی نہیں رہتا ہے کہ شیخ طوسی نے وہ اسلوب استدلال فقہی شیخ مفید کے حضور اور خود ان سے سیکھا ہے اور چونکہ اپنے استاد کی روش استدلال سے واقف تھے، لہذا ان کی کتاب کو خود ان کے اصولوں کے مطابق مستدل کرنے میں کامیاب رہے ۔
اس خیال کو اس وقت زیادہ تقویت اور استحکام ملتا ہے جب کتاب اصول میں جس کے بارے میں ہم بعد میں گفتگو کریں گے ، شیخ مفید کے مبانی اصول پر توجہ دی جائے۔ اس کتاب کے مطالعے اور کتاب اور سنت متواتر و محفوف بہ قرینہ یا مرسل مشہور اور عمل اصحاب پر شیخ مفید کے تکیہ کرنے کے مشاہدے اور اصول میں ان کے دیگر نطریات سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ شیخ طوسی نے کتاب تہذیب میں جو اسلوب استدلالی بیان کیا ہے وہ وہی ہے جس کے ان کے استاد معتقد تھے اور اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اپنے شاگردوں کو سکھاتے رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب مقنعہ اگرچہ استدلال کے ساتھ نہیں ہے، مگر جو کچھ کہا گیا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ مفید اسی طرز استدلال سے جو ان کے ایک ہزار سال بعد بھی شیعہ فقہی مراکز میں رائج ہے، اس کتاب میں مذکور فتووں تک پہنچے ہیں۔
یہ طرز استدلال وہی جامع اور کامل اسلوب ہے کہ جو ان سے پہلے فقہ شیعہ کے دونوں گروہوں ، یعنی گروہ ابن بابویہ اور گروہ قدیمین میں سے کسی میں بھی رائج نہیں تھا اور شیخ مفید اس کے موجد و بانی ہیں ۔
ب فقہی رسائل
یہ رسائل مختصر ہونے کے باوجود شیخ کی فقہی دانش کی گہرائیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔اگرچہ ان میں بعض جیسے رسالہ المسح علی الرجیلین اور ذبائح اھل الکتاب بحث و مباحثے کے استدلال اور شبہ عقلی پر مشتمل ہے، مگر بعض دیگر واقعی متین، مستحکم اور منظم فقہی اسلوب پر محیط ہیں۔ مثلا رسالہ المہر یا جوابات اھل موصل فی الرویۃ و العدد یا المسائل الساقانیہ ۔ رسالہ رویت و عدد میں جو ماہ رمضان کے تیس روزہ ہونے پر مبنی شیخ صدوق (رحمت اللہ علیہ) اور بعض دیگر قدیم فقہا سے منسوب قول کے رد میں ہے، شیخ مفید نے آیات سے استظہار، الفاظ سے استفادہ، مسلمہ فقہی احکام کے استشہاد، ان روایات کے فقہ الحدیث میں بحث جن سے مخالف نے استدلال کیا ہے، سند میں بحث، احوال رجال کا ذکر اور احادیث سے استنباط کے فہم میں بہت سے نکات جمع کئے ہیں اور ہر ایک سے بہترین اور محکم ترین انداز میں استفادہ کیا ہے۔اس رسالہ میں ان کے قابل توجہ کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک جگہ اس حدیث کے ذکر کے بعد جس سے مخالف نے استدلال کیا ہے، اس کی سند کو کمزور ثابت کرتے ہیں، اس کے بیان کو بھی متین استدلال کے ذریعے ، غیر معقول، امام کے حکمت آمیز بیان سے عاری اور اس کے جعل کا نتیجہ بتاتے ہیں جو عام اور جاہل شخص ہے اور قرائن سے اس کے ارسال سند کا احتمال بھی پیش کرتے ہیں اور یہ آخری نکتہ حدیث میں ان کے تبحر اور مہارت کی نشاندہی کرتا ہے ( مذکورہ رسالہ کے صفحہ تئیس اور اس کے بعد کے صفحات پر حضرت ابی عبد اللہ علیہ السلام سے یعقوب بن شعث کی روایت سے متعلق فصل سے رجوع ہو)
رسالہ المسائل الساقانیہ جس میں آپ دس فقہی مسائل میں، ساغان کے حنفی فقیہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہیں، شیخ عالی مقام کے تبحر اور قوت استدلال کا ایک اور ثبوت ہے۔ یہ رسالہ اگرچہ کلامی ماہیت یعنی غیر شیعہ مخالف سے بحث و مباحثے اور اس کی جانب سے بدعت کے الزام کے رد اور جواب میں خود اس سے اور اس کے امام سے بدعت منسوب کرنے سے تعلق رکھتاہے، لیکن چونکہ پیش کردہ مسائل عموما فقہی ہیں اس لئے ہر صاحب نظر ناظر ان کی قوت استدلال اور ان کے علمی مقام اور مجتہدانہ فقاہت سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہے۔
یہ رسالہ اور رسالہ العدد و الرویہ شیخ مفید کی علمی تخلیقی صلاحیت اور اس حقیقت کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں میں علمی فقاہت کے جو اسلوب نظر آتے ہیں، ان سب کا سرچشمہ وہ اسلوب ہے کہ جس کے بانی اور موجد شیخ مفید شمار ہوتے ہیں۔
ج کتاب التذکرہ باصول الفقہ
یہ شیعہ علمی تحریک کے بانی کی حیثیت سے شیخ مفید کی شخصیت کا تیسرا پہلو ہے۔
یہاں بھی شیخ عالی مقام نے معتزلہ اور ان کی پیروی کرنے والے شیعوں جیسے نوبخت کے عقل پر مطلق انحصار کرنے اور شیخ صدوق کے حدیث پر انحصار کرنے کے درمیان نئی راہ کھولی۔
معتزلہ، اعتزال کے رواج کے زمانے میں یعنی عباسی خلافت کے پہلے دور کے اواخر میں (جو تیسری صدی ہجری کے اواسط پر ختم ہوتا ہے) بیرونی فلسفیانہ افکار (یونانی ، پہلوی اور ہندوستانی وغیرہ) کی عالم اسلام میں آمد اور ان کی کتابوں کے تراجم سے بہت متاثر تھے اور اس زمانے میں اس بیرونی تحریک کو بھی اور معتزلہ کے رجحان کو خلفاء بالخصوص مامون کی پشت پناہی حاصل تھی۔ عقل پر انحصار کی اس انتہا پسندی کے ردعمل میں، اہلسنت اور شیعہ محدثین جیسے شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ کے درمیان اہل حدیث کی تحریک شروع ہوئی جو چاہتے تھے کہ اعتقادی اور کلامی معارف کو حدیث سے ہی سمجھیں۔
شیخ مفید کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ثابت کر دیا کہ عقل اکیلے، علم کلام کے تمام مباحث کو سمجھنے سے قاصر ہے مثلا صفات باری جیسے، ارادے، سمع اور بصر وغیرہ کو۔ عقل، وحی کی مدد سے وادی معرفت میں قدم رکھ سکتی ہے اور اکیلے اس وادی میں جو حضرت حق (جل وعلا ) سے مربوط ہے، داخل ہونا، کوہ ضلالت پر قدم رکھنا ہے اور یہ در حقیقت اس روایت کا مفہوم ہے جو انسان کو خدائے متعال کے بارے میں گفتگو کرنے سے منع کرتی ہے۔ بنابریں شیخ مفید کا کام، عقل کو اس کے قلمرو سے جہاں روایت و وحی کارگر نہیں ہے، یعنی اثبات صانع اور وجود باری یا توحید یا نبوت عامہ پر استدلال کی وادی سے محروم کرنا نہیں بلکہ عقل کو ان حدود میں محدود کرنا ہے جو خدائے عقل نے اس کے لئے معین کی ہیں تاکہ گمراہی میں نہ پڑے۔
ایک جگہ اوائل المقالات کی عبارت اس طرح ہے ان استحقاق سبحانہ بھذہ الصفات(اعنی کونہ تعالی سمیعا بصیرا و رائیا و مدرکا) کلھا من جہت السمع دون القیاس و دلائل العقول (31) اور دوسری جگہ اس طرح ہے ان کلام اللہ تعالی محدث وبذلک جائت الاثار عن آل محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ ) ( 32) اور ایک دوسری جگہ اس طرح ہے ان اللہ تعالی مرید من جھت السمع والاتباع والتسلیم علی حسب ما جاء فی القران ولا اوجب ذلک من جھت العقول (33) اور ایک دوسری جگہ مجموعی طور پر اس طرح ہے اتفقت الامامیہ علی ان العقل یحتاج فی علمہ و نتائجہ الی السمع وانہ غیر منفک عن سمع ینبہ العاقل علی کیفیۃ الاستدلال۔۔۔واجتمعت المعتزلہ ۔۔۔ علی خلاف ذلک و زعموا ان العقول تعمل بمجردھا عن السمع والتوقیف ۔۔۔ (34)
مفید کے کلام میں اس طرح کی وضاحتیں بہت ہیں۔ اس کے باوجود روایت کی سندیت کو وہاں قبول کرتے ہیں جہاں برہان عقلی اس کے امتناع پر قائم نہ ہو۔ بنابریں آئمہ ( علیہم السلام ) سے ظہور معجزات کے بارے میں، ان پر سماعی دلیل کے ذکر سے پہلے کہتے ہیں کہ فانہ من الممکن الذی لیس بواجب عقلا ولا ممتنع قیاسا (35) دوسری جگہوں پر بھی اس طرح کی باتوں کا ذکر کیا ہے۔ (36) لیکن تصحیح اعتقادات الامامیہ میں جو اعتقادات شیخ صدوق پر تعلیقات ہیں، مخالف قران حدیث کے رد کا حکم صادر کرنے کے بعد دوسری جگہوں سے زیادہ صراحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ و کذلک ان وجدنا حدیثا یخالف احکام العقول اطرحناہ، لقضیت العقل بفسادہ (37) اس بیان میں حدیث مخالف حکم عقل کو رد کرنے کے ساتھ ہی، اس کی بنیاد اور اساس بھی حکم عقل کو قرار دیتے ہیں اور اس طرح استدلال عقلی کی حجیت پر تاکید مکرر کرتے ہیں ۔
شیخ مفید کے مکتب میں عقلی استدلال پر اس حد تک اعتماد ہے کہ الالم للمصلحۃ دون العوض کی بحث میں، اپنا منفرد نظریہ بیان کرنے کے بعد جس میں عدلیہ اور مرجئہ میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہے، کم نظیر خود اعتمادی کے ساتھ کہتے ہیں وقد جمعت فیہ بین اصول یختص بی جمعھا دون من وافقنی فی العدل والا رجاء بما کشف لی فی النظر عن صحتہ ولم یوحشنی من خالف فیہ ، اذ بالحجت لی اتم و آنس ولا وحشت من حق والحمد للہ (38) اس بات کے پیش نظر کہ بحث الم اور لطف کی بحثوں میں عموما سمعی ادلہ پر نہیں بلکہ عقلی ادلہ سے استناد کیا ہے ، بنابریں مذکورہ عبارت میں حجت سے مراد وہی استدلال عقلی ہے ۔
شیخ مفید کے مکتب کلامی میں، عنصر سمع کا وارد ہونا اس بات کا موجب ہوا کہ بیانات آئمہ ( علیہم السلام ) کی مدد سے بہت سے دشوار مباحث جن میں حق تک پہنچنا، طولانی راستہ طے کرنے کا متقاضی ہے، شیخ کے کلامی مجموعے میں آسانی کے ساتھ ، جگہ پاجائیں اور شیخ مفید کے بعد شیعہ کلام کو راستے سے منحرف ہونے اور فکری اضطراب سے محفوظ رکھیں ۔
مثال کے طور پر اشارہ کیا جاسکتا ہے کہ صفات باری کے مسئلے میں، معتزلہ نے کلمات واصل بن عطاء میں نفی صفات اور صفات کے نیابت ذات کی نفی کے نظریئے سے اس معنی میں کہ صفات باری زائد بر ذات نہیں ہیں اور صفات حق تعالی، وجود میں اس کی عین ذات ہیں، توحید تک پہنچنے میں لمبا راستہ طے کیا ہے، درآنحالیکہ کلمات مفید میں یہ مسئلہ سمع یعنی نہج البلاغہ اور آئمہ (علیہم السلام) کی روایات سے ماخوذ ہے۔ حتی ان روایات سے یہ استفادہ بھی ہوتا ہے کہ یہ مباحث آئمہ ( علیہم السلام) کے زمانے میں شیعوں کے درمیان موجود تھے اور ان میں علم اہلبیت کے منبع لایزال سے استفادہ کیا جاتا تھا۔( کافی ج1، ص 107، باب صفات الذات اور توحید صدوق کی مختلف فصول اور نہج البلاغہ سے رجوع کریں )
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ النکت فی مقدمات الاصول جیسے مختصر رسالوں میں حتی صفات باری کے باب میں بھی کہ اوائل المقالات میں سمعی استدلال کو جس کا واحد مرجع بتاتے تھے ، سمعی استدلال کے ساتھ ہی عقلی استدلال کا بھی سہارا لیتے ہیں۔ مثالا اس عبارت میں:
فان قال ؛ ما الدلیل علی انہ قادر؟ فقل : تعلق الافعال بہ مع تعذرھا فی البدائۃ علی العاجز۔۔ اور پھر ما الذی یدل علی انہ عالم ؟ فقل ؛ مافی افعالہ من الاتقان والتظافر علی الاتساق ، وتعذر ما کان بھذہ الصفہ فی البدائہ علی الجاھل اور اسی طرح سمیع بصیر حکیم و ھکذ ( النکت فی مقدمات الاصول ص 33-34)
اس کو اوائل المقالات میں بیان کئے گئے مبنا سے عدول نہیں کہا جاسکتا۔ پہلے کہا گیا ہے کہ امکان قوی ہے کہ وہ مختصر رسالے جو شیخ مفید نے سوال و جواب کی شکل میں تحریر کئے ہیں، کلامی بحث کے نئے شاگردوں یا دور دراز کے ان شیعوں کے لئے لکھے گئے ہوں گے ، جن کی پہنچ شیخ مفید تک نہیں تھی اور شیخ نے ان رسالوں میں عقلی بحث کے اسلوب کا انتخاب کیا ہے جو ہر مخاطب کے لئے زیادہ قابل استفادہ ہوسکتا ہے۔
اس طرح واضخ ہوتا ہے کہ جمع بین حجت عقلی اور دلیل نقلی، کلام مفید کے اسلوب میں، ان کی ایجاد اور نمایاں کارناموں میں سے ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس علمی اجتماع میں ان ابواب اور شیخ مفید کی علمی زندگی کے دیگر درخشاں پہلووں پر توجہ دی جائے گی۔
اس مقالے کے اختتام پر مناسب ہے کہ اس بات کی یاددہانی کرا دی جائے کہ اس عالی مقام نابغہ نےاس طولانی علمی جہاد ، علم فقہ کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھنے اور کلام میں درمیان کا راستہ کھولنے کا کارنامہ ، دشوار سماجی حالات میں انجام دیا ہے۔ اگرچہ بغداد میں آل بویہ کی حکومت نے آزاد علمی بحث کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا تھا ، مگر حنبلی فقہا کے تعصب آمیز طرزعمل اور شیخ مفید اور تمام شیعوں پر عباسی حکومت کے دباؤ کا مسئلہ ہر گز حل نہ کرسکی۔ بغداد کے علاقے کرخ کے شیعوں کی مظلومیت اور انہیں اور ان کے عظیم پیشوا کو جو اذیتیں دی جاتی تھیں، وہ ایسے حقائق ہیں کہ تاریخ صراحت کے ساتھ اس کی گواہی دیتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید کی تین بار کی جلاوطنی کے علاوہ جو تاریخ میں درج ہے ، 405 سے 407 تک تقریبا دوسال انہیں ایسی پریشانیوں اور اذیتوں میں مبتلا رکھا گیا کہ جن کی نوعیت صحیح طور پر معلوم نہیں ہے۔ یہ خیال اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ 406 میں شیخ مفید کے شاگرد رشید سید رضی کہ جنہیں شیخ بہت چاہتے تھے، کتابوں میں ان کی وفات کے تذکرے میں، تشیع وغیرہ کی تفصیلات موجود ہیں مگر شیخ مفید کا کوئی ذکر نہیں ہے جبکہ اصولا ان کا ذکر بار بار ہونا چاہئے تھا۔ دوسرا قرینہ جو ذہن میں یہ خیال پیدا کرتا ہے ، یہ ہے کہ ، ہر سال رمضان کے آس پاس، شیخ کے گھر میں یا درب الریاح میں ان کی مسجد میں کئی جلسوں میں امالی شیخ مفید کا دورہ ہوتا تھا اور یہ سلسلہ 404 سے 411 تک جاری رہا ، مگر 405 اور 406 میں یہ دورہ انجام نہیں پایا۔ مجموعہ امالی شیخ مفید میں ان دو برسوں سے متعلق کسی جلسے کا ذکر نہیں ہے۔
ایک اور قرینہ یہ ہے کہ 406 کے محرم کے قضیے میں، جب شیعوں کے خلاف بڑا فتنہ برپا ہوا اور اس میں ان پر بارہا ڈھائی جانے والی مصیبتیں دوبارہ ڈھائی گئیں تو حکومت بغداد نے مذاکرات کے لئے، شیعہ فرقے کے نمائندے اور قائد کی حیثیت سے سید مرتضی کا انتخاب کیا شیخ مفید کا نہیں۔ جبکہ اس زمانے میں اور اس سے برسوں پہلے سے شیعوں کے غیرمتنازع اور مطلق قائد، شیخ مفید تھے اور سید مرتضی ان کے شاگرد، مرید، مخلص اور تابع سمجھے جاتے تھے۔
یہ قرائن ذہن میں یہ خیال پیدا کرتے ہیں کہ ان دو برسوں کے دوران وہ کسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا رہے ہوں گے، جس کی بناء پر بغداد میں نہ رہے ہوں گے۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے مگر جو چیز مسلم ہے وہ یہ ہے کہ عراق اور بغداد میں آل بویہ کی حکومت کے ایک سو تیرہ برسوں کا بڑا حصہ ، بغداد میں شیعوں اور ان کے رہنماؤں کی زندگی کی سختیوں، دشواریوں، اذیتوں، قتل عام اور مظلومیت سے پر رہا ہے ۔(39) اور ان سخت مشکلات میں شیخ مفید نے عراق بلکہ پوری دنیا کے شیعوں کی قیادت کی ذمہ داری سنبھالی اور شیعہ معارف کے میدان میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ۔
اس مقالے کا اختتامی نکتہ اس ثقافتی اجتماع میں شریک علماء اور دانشوروں سے میری یہ تاکیدی سفارش ہے کہ پوری کوشش کریں کہ یہ علمی اجتماع، اسلامی مذاہب کے درمیان علمی اتحاد اور فکری قربت کا وسیلہ بنے۔ اپنے زمانے میں مذہبی مخالفت سے نمٹنے میں شیخ مفید کا طرز عمل یقینا ان تلخ حوادث اور مصائب کا نتیجہ تھا جن سے اس دور کے مظلوم شیعہ دوچار تھے اور اندھے تعصب کی آگ ان کا باعث تھی۔ وہ طرز عمل، آج اسلامی فرقوں کے ایک دوسرے کے ساتھ، حتی کلامی میدانوں میں، روش اور طرز عمل کے لئے نمونہ نہیں بن سکتا۔ آج تمام اسلامی فرقوں کو تاریخ کے ان دردناک مناظر کے مشاہدے سے، مصالحت اور مہربانی کا درس حاصل کرنا چاہئے اور ایسے زمانے میں کہ جب اصول اسلام ، جن کے احیاء کے لئے ہر مذہب میں شیخ مفید جیسی شخصیتوں نے اتنی مصیبتیں برداشت کی ہیں، عالمی دشمنوں کی جانب سے خطرات سے دوچارہیں، تمام فرقوں اور ان کے مفکرین کی وحدت، قربت اور تعاون کے بارے میں سوچیں۔ یہ ہمارے انقلاب اور ہمارے امام (قدس اللہ نفسہ الزکیہ ) کی ہمیشہ باقی رہنے والی ہدایت ہے۔
ایک بار پھر خدائے متعال سے آپ کے لئے توفیق اور کانفرنس کے شایان شان اور باقی رہنے والے نتائج کے لئے دعاگو ہوں۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
علی الحسینی الخامنہ ای
فروردین 1372 مطابق شوال 1413
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
6- ماضی میں اس سلسلے میں ایسی متعصبانہ اور جاہلانہ کوششیں کی گئی ہیں جو ایک شیعہ محقق کے لئے دہشتناک اور حیرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اس بات پر توجہ دیں کہ شیخ صدوق نے خدا شناسی کے مسائل میں پانچ سو تراسی احادیث اور سڑسٹھ ابواب پر مشتمل کتاب توحید لکھی۔ انہوں نے خود اس کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے کہ مخالفین، شیعوں پر جبر و تشبیہ کے عقیدے کا الزام لگاتے تھے جبکہ دو اصول امربین الامرین اور نہ تشبیہ اور نہ تعطیل شیعہ اعتقاد کے معروف ترین مبانی میں رہے ہیں۔ کتاب ملل و نحل میں شہرستانی نے جو نسبتیں دی ہیں اور ان سے پہلے اور ان کے بعد کے بہت سے لکھنے والے اور ان کی تحریریں، پیروان مکتب اہلبیت (علیہم السلام) کی نسبت ان ظالمانہ کوششوں کے نمونے ہیں اور ہمارے زمانے کے غیر ذمہ دار مصنفین نے جنہوں نے شیعوں کے بارے میں اپنی تحریروں کے لئے خود کو جواب دہ نہیں سمجھا ہے اور اس بات کو اہمیت نہیں دی ہے کہ ارباب اقتدار کو خوش کرنے اور تھوڑے سے ڈالر حاصل کرنے کے لئے، حقیقت کو پامال اور حجاب تقوا چاک کرنے کی کیا قیمت دینی پڑسکتی ہے، بہت زیادہ بے لگام ہوکر لکھا ہے کہ ایک نسل پہلے کا شیعہ مخالف مصری مصنف، یعنی احمد امین، جو ہرزہ سرائی اور دروغ بیانی میں کسی حد کا قائل نہیں تھا، دوسرے اور تیسرے درجے پر چلا گیا ہے۔ اس بات کی یاد دہانی بے جا نہیں ہے کہ ان کتابوں اور تحریروں سے کوئی گلہ یا شکوہ نہیں ہے جو کسی مذہب کے اثبات یا کسی مذہب کے رد میں ایمانداری و صداقت کے ساتھ لکھی گئ ہیں بلکہ مسلمانوں کے رشد افکار اور حسن انتخاب کے لئے ایسی کتابوں کا وجود ضروری ہے۔ یہاں گفتگو جعل و فریب، گندگی پھیلانے اور جھوٹی نسبت دینے کے بارے میں ہے۔
7- جبریل بن احمد الفاریابی (فاریاب بلخ اور مروالرود کے درمیان واقع ایک شہر ہے) وہ شیخ طوسی کے کہنے کے مطابق کش کے رہنے والے تھے۔ ابراہیم بن نصر الکشی (کش سمرقند کا ایک قریہ ہے) خلف بن حماد الکشی، خلف بن محمد الملقب بہ امان الکشی، عثمان بن حامدالکشی، محمد بن الحسن الکشی، محمد بن سعد بن مزید الکشی، ابراہیم بن علی الکوفی السمرقندی (دو نسبتوں کی ترتیب سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ شیخ کوفی مہاجرت کرکے سمرقند آئے ہوں گے) ابراہیم الوراق السمرقندی، آدم بن محمد القلانسی البلخی، احمد بن علی بن کلثوم السرخسی، احمد بن یعقوب البیہقی، علی بن محمد بن قتیبہ النیشابوری ، محمد بن ابی عوف البخاری، محمد بن الحسین الھروی، محمد بن رشید الھروی ، نصر بن الصباح البلخی و۔۔۔۔
8- عبارت نجاشی در شرح حال شیخ کشی ص 372
9- عبارت نجاشی در شرح حال عیاشی ص 351
10-اس کا دوسرا موید یہ ہے کہ پہلی بار 356 میں علی بن محمد القزوینی عیاشی کی کتابیں بغداد لائے تھے۔( نجاشی ص 267 سے رجوع کیا جائے )
11-مولوی مثنوی میں ایک شاعر کی داستان نقل کرتے ہیں کہ عاشور کے دن حلب میں تھا ، اس نے دیکھا کہ شہر سیاہ پوش ہے اور بازار تعطیل ہیں ، اس نے سوچا کہ کوئی امیر یا شاہزادہ مرگیا ہے ۔ جب شہر کے لوگوں سے سوال کیا تو انہوں نے اس سے کہا، لگتا ہے تم یہاں اجنبی ہو۔۔۔
12- اطراف و اکناف بلاد اسلامی سے آنے والے سوالوں کے جواب میں لکھے گئے شیخ مفید کے رسالوں اور ان سوالوں کے تنوع اور وسعت پر توجہ دی جائے ۔۔ ۔ جن میں سے بعض ایسے ہیں کہ شیخ مفید کا جواب نہ صرف سوال کرنے والے کی فکری مشکل کو حل کرتا ہے بلکہ ایک فکری و کلامی حریف سے مقابلے کا ہدف بھی پورا کرتا ہے۔گویا وہ بغداد میں اپنے مکتب کی حرمت کے دفاع کے ساتھ ہی خطرناک دشمنوں کی یلغار کے مقابلے میں مومنین کی پشت پناہی کا بیڑا بھی اٹھاتے ہیں۔ المسائل الساقانیہ کو دیکھیں جس کا سخت اور مستحکم حملے کا لہجہ، خراسان کے مستضعف شیعوں کا حوصلہ بڑھاتا ہے جن کی فکری حدود پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس سے خیال پیدا ہوتا ہے کہ ان قیل فقل کے طرز پر لکھے گئے رسالے، جیسے النکت فی مقدمات الاصول، اور النکت الاعتقادیۃ، عام طور پر ان لوگوں کے لئے لکھے گئے تھے جو دور تھے اور ان کے سامنے مستقل طور پر مخصوص قسم کے مذہبی سوالات پیش کئے جاتے تھے جن کے محکم کلامی جواب کے لئے انہیں دستورالعمل کی ضرورت تھی ۔۔۔۔
13- کیونکہ ان کی وفات کے سال، شیخ مفید جو 336 میں پیدا ہوئے تھے، چوالیس سال کے تھے اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اپنی فہرست میں مفید کا شرح حال کتنے سال پہلے لکھا ہے ۔
14 - ذہبی کےکلام کا یہ حصہ، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، کا ایک حصہ ہے، جو ابھی شائع نہیں ہوئی ہے اور جو نقل کیا گیا ہے وہ گویا کہ اس نسخے سے لیا گیا ہے جو چھپنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔
14- تاریخ علوم اسلامی مجلال ھمایی ص 51و
16- الکنی والالقاب ج 2 ص 404
17- تعجب ہے کہ حتی ہمارے زمانے میں بھی ایک مستشرق نے مفید کے کلامی افکار کے بارے میں ایک تحریر میں انہیں بغداد کے معتزلہ مکتب کا پیرو بتایا ہے۔
18- مفید نے المسائل الصاقانیہ میں ابن جنید پر سخت اعتراض کیا ہے، ان کی باتوں کو ہذیان سے تعبیر کیا ہے اور ان کے نظریات کو غیر سدید کہا ہے۔ (المسائل الصاقانیہ ص 62 کو دیکھا جائے )
19- و فصل ما بین العدلیۃ من الشیعۃ من ذھب الی العدل فی المعتزلۃ والفرق ما بینھم من بعد وما بین الامامیۃ فیما اتفقوا علیہ من خلافھم فیہ من الاصول ( اوائل المقالات ص 40)
20- رجال نجاشی ص 10
21-وسائل ج 1 ص 327
22- فتاوی العلمین ص 5
23- رجال نجاشی ص 48
24 - نجاشی کی عبارت اس طرح ہے ؛ کتاب مشھور فی الطائفہ وقیل؛ ما ورد الحاج من خراسان الا طلب و اشتری منہ نسخ ( ص 48) اور فہرست میں شیخ کی عبارت اس طرح ہے : لہ کتب اخر منھا کتاب التمسک ۔۔۔ فی الفقہ، کبیر حسن ( ص 368 فہرست اور تھوڑے سے فرق کے ساتھ، ص96 )
25- عدہ ص 5
26- عدہ سے منقول عبارت کو دیکھیں ۔۔۔فی المختصر الذی فی اصول الفقہ ۔۔۔
27- ولیس یصح فی النظر دعوی العموم بذکر الفعل و انما یصح ذلک فی لکلام المبنی والصور منہ المخصوصۃ، فمن تعلق بعموم الفعل فقد خالف العقول التذکرہ ۔۔۔ ص38
28- اذا ورد لفظ الامر معاقبا لذکر الحظر افاد الاباحہ دون الایجاب ( ص 30)
29- والاستثناء اذا اعقب جملا فھو راجع الی جمیعہا ، الا۔۔ ( ص 41)
30- عدہ ص 8
31- اوائل المقالات ص 59
32- اوائل المقالات ص57
33- اوائل المقالات ص 58
34- اوائل المقالات ص 50
35- اوائل المقالات ص79
36- اوائل المقالات القول فی سماع الائمہ (ع ) کلام الملائکۃ الکرام ۔ ص80
37-تصحیح الاعتقاد ص 149
38- اوائل المقالات ص 129
39- بغداد پر عضد الدولہ دیلمی کے تسلط کا دور ( 367-372) اس قاعدے سے مستثنی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے بائیس مارچ انیس سو ترانوے کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد پر حسب دستور قوم کے نام ایک پیغام نوروز جاری فرمایا۔ آپ نے اس پیغام میں بیتے سال کی اہم تبدیلیوں کا سرسری جائزہ لیا اور شروع ہونے والے سال کی اہم ترجیحات پر روشنی ڈالی۔ آپ نے سال تیرہ سو بہتر ہجری شمسی کو منصوبہ بندی کے سال سے موسوم فرمایا اور ساتھ ہی منصوبہ بندی سے متعلق اہم نکات ذکر کئے۔ تفصیلی پیغام زیر نظر ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار ۔ یا مدبر اللیل والنہار ۔ یا محول الحول الاحوال حول حالنا الی احسن الحال عید نوروز اور نئے سال کی آمد اور اسی طرح عید الفطر کی ایرانی قوم اور ان تمام اقوام کو جو دونوں عیدوں کی اہمیت اور احترام کے قائل ہی، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص ان لوگوں کو جن کا احترام پوری ایرانی قوم کا فریضہ ہے اور درحقیقت سب ان کے احسانمند ہیں، یعنی محترم شہیدوں کے خاندان والوں، آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں، لاپتہ ہونے والے افراد اور ان کے اہل خاندان اور ان جنگی قیدیوں کو جو ابھی دشمن کی جیل میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اپنے عزیز امام (خمینی رہ) کی روح مطہرہ کے لئے خدا کی رحمت و برکات طلب کرتا ہوں۔ہماری عمر کا ایک سال اور گذرگیا اور ہم اپنی عمر کے ایام کے بعد کے سال میں پہنچ گئے۔ جو گذرگیا وہ الہی امتحان تھا۔ اگر اس کی گھڑیوں، اوقات اور لمحات میں ہم نے اپنے فریضے پر عمل کیا تو جو گذرگیا اس پر حسرت نہیں ہوگی۔ امید ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا اور اگر خدانخواستہ، جو سال گذرگيا اس میں ہم نے غفلت، کوتاہی اور تقصیر کی، اپنے فرائض کو اہم نہیں سمجھا، جو ہمیں کمال تک پہنچا سکتا تھا، اس کی طرف سے ہم نے غفلت برتی یا خدا نخواستہ اس راستے پر چلے جو نقصان اور افسوس پر منتج ہوتا ہے، تو اس صورت میں جو گذرگیا اس پر بہت زیادہ حسرت ہوگی، عمر ہے جو چلی گئی، سرمایہ تھا جو ختم ہوگيا اور سیاہ اعمال نامہ ہے جو ممکن ہے کہ خدانخواستہ وجود میں آیا ہو۔ امید ہے کہ آنے والا سال عبودیت، پرہیزگاری، حسن عمل، عبادات کی قبولیت، الہی عنایات اور برکات کے نزول کا سال ہوگا۔ انہیں چند ایام میں جو ماہ رمضان کے باقی رہ گئے ہیں، زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس مہینے کے لحمات سے بہرہ مند ہوں اور خود کو رضائے خدا کے راستے پر قرار دیں۔ گذرنے والا سال، عالمی مسائل کے لحاظ سے حادثات سے پر تھا۔ پوری دنیا میں، ہرطرف، ممالک اور اقوام آزمائش میں مبتلا ہوئیں۔ خاص طور پر مسلمین اس سال، سخت آزمائش سے گذرے۔ اگرچہ ہم دنیا کی ان مشکلات سے جن میں سبھی گرفتار ہوئے اور اسی طرح ان مشکلات سے جو دنیا کی سامراجی طاقتوں نے ترقی پذیر ملکوں پر مسلط کی ہیں، بالکل بچے نہیں رہ سکتے تھے، مگر مجموعی طور پر مطمئن ہوسکتے ہیں کہ دنیا کے اس متلاطم سمندر میں اور اس طوفانی دنیا میں، ہمارے ملک کے حکام کو توفیق الہی نصیب ہوئی اور وہ قوم کے تعاون سے ملک کو بڑی عالمی مشکلات سے بچانے میں کامیاب رہے۔ملک کے اندر، جو ہم کہہ ستے ہیں اور جس چیز کا واضح طور پر احساس کر رہے ہیں، یہ ہے کہ الحمدللہ ملک کے حکام نے، اس پانچ سالہ منصوبے اور اہداف کے حصول کے لئے، جس کو پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا، پوری طاقت و توانائی سے سعی و کوشش کی۔ یہ ہم دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ اسے خدا کے حضور شرف قبولیت حاصل ہوگا، ان نتائج واہداف تک پہنچیں گے جو معین کئے گئے ہیں، عوام کو فائدہ پنہچے گا اور انشاء اللہ حکام تمام کوششیں بروئے کار لانے میں کامیاب رہیں گے۔ اعلی سطحی حکام کی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں، ملک کی تعمیر کی کوششوں کے آثار، پورے ملک میں دیکھے جا رہے ہیں۔ اپنی عزیز قوم کی گذشتہ سال کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اطمنان اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ سال کے شروع میں ہی عوام ایک بڑے امتحان سے روبرو ہوئے اور انہوں نے چوتھے دور کی پارلیمنٹ کے اراکین کا پوری ذمہ داری، سنجیدگی، دلچسپی اور خلوص کے ساتھ انتخاب کیا۔ سال کے اواخر میں، عشرہ فجر اور یوم آزادی کے عظیم الشان جلوسوں میں پرشکوہ انداز میں شرکت کی اور ہم نے سیاسی و سماجی میدانوں میں ہرجگہ مستحکم عوامی اور قومی موجودگی کا مشاہدہ کیا۔ انصاف یہ ہے کہ، جہاں عوام کو حکومت کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، جہاں انہیں، بلا و مصیبت میں گرفتار اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے آنا چاہئے تھا، بوسنیا کے سلسلے میں، ملک کے حالیہ حوادث میں، ہر جگہ آنے والے تباہ کن سیلاب میں، ان کی مشارکت، اطمینان بخش، دشمن شکن اور موثر رہی ہے۔ میں یہاں گذشتہ سال کے اواخر میں ملک کے متعدد علاقوں میں آنے والے سیلاب کے تعلق سے کچھ باتیں اشارتا عرض کروں گا۔ حادثہ بہت افسوسناک تھا، اس حادثے میں جن لوگوں کو نقصان پہنچا ہے اور وہ مشکلات میں گرفتار ہوئے، ان کے لئے ہم غمگین ہیں۔ دعا ہے کہ رمضان المبارک کے پر برکت ایام میں، عید الفطر اور نئے سال کی تحویل کی خوشی کے موقع پر خداوند عالم خود اپنی قدرت سے اور ہماری حکومت اور قوم کے ہاتھوں ان کی مشکلات کو دور کرے۔ لوگوں نے تعاون اور مدد کی ہے۔ مگر مجھے جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق، سانحہ اس سے بہت وسیع ہے جو ہم ذرائع ابلاغ عامہ میں دیکھ سکے ہیں۔ بنابریں اس سلسلے میں حکومت کی مدد ضروری ہے۔اب ایک نظر اس سال پر ڈالتے ہیں جو شروع ہوا ہے یعنی 1372 ہجری شمسی ( 1993-94)پر ۔ امید ہے انشاءاللہ یہ سال مبارک ہوگا۔ حکومت اور حکام سے امید ہے کہ جس طرح گذشتہ سال کے دوران انہوں نے حکومت کے اعلان شدہ اہداف تک پہنچنے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے، وہ اس سال میں بھی جاری رکھیں گے اور کوششیں بڑھائیں گے۔ یہ منصوبہ بندی کا سال ہے۔ اس سال حکومت دوسرا پنجسالہ منصوبہ تیار کرکے منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔ میں، ملک کے حکام اور منصوبہ تیار کرنے والوں سے تاکید کے ساتھ سفارش کروں گا کہ توجہ رکھیں کہ اس منصوبے میں، اصل ہدف معاشرے کے محروم طبقات کی مدد ہو۔ یہ کام ہمیں سماجی انصاف سے نزدیک کرے گا۔ ہمارے ملک میں، اسلامی جمہوری نظام میں اصل ہدف، انصاف کی فراہمی ہے جبکہ اقتصادی ترقی اور تعمیراتی کام، اس کا مقدمہ ہیں۔ ہم وہ ترقی اور اقتصادی پیشرفت نہیں چاہتے کہ جس کے نتیجے میں کچھ لوگ زیادہ رفاہ میں ہوں اور کچھ لوگ زیادہ غریب ہوجائیں۔ یہ بات نہ ہمیں منظور ہے، نہ اسلام کو قبول ہے اور نہ ہی رضائے الہی اس میں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعمیر ہو، اقتصادی ترقی ہو اور مادی پیشرفت آئے تاکہ ہم سماجی انصاف سے نزدیک تر ہوں اور ملک میں کوئی غریب نہ رہے۔ محروم طبقات محرومیت کا احساس نہ کریں، کوئی محروم نہ رہے۔ ملک میں کوئی محروم علاقہ نہ ہو۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ روز بروز کم سے کمتر ہو۔ یہ اصل ہدف ہے۔ منصوبے میں اس کو مد نظر رکھیں۔ ان پنجسالہ منصوبوں میں سے ہر ایک، انقلاب کے اہداف کی طرف حکومت اور قوم کے بڑھنے کے لئے ہے، اس میں اس جہت کا جو انقلابی جہت ہے سخت تاکید اور اصرار کے ساتھ لحاظ اور حفاظت ہونی چاہئے ۔اپنی عزیز قوم اور حکام سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ ماضی میں ہمیں جو بھی کامیابی ملی ہے وہ اس لئے ملی ہے کہ ہم نے انقلاب کے اصولوں کا احترام اور پابندی کی ہے اور جہاں ناکامی ملی ہے اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ کم و بیش الہی، اسلامی اور انقلابی اصولوں سے انحراف کیا گیا ہے۔ ہماری کامیابیاں انقلاب کے اصولوں کی برکت سے ہیں۔ البتہ ملک سے باہر ہمارے دشمن اور ملک کے اندر ان کے ایجنٹ اس کے برعکس ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری خباثت اور موذیانہ انداز میں لکھتے ہیں اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ انقلاب کی پابندی مشکلات پیدا کرتی ہے۔ جی نہیں' یہ جھوٹ اور بہتان ہے۔ انقلاب کی پابندی سے حکومت اور قوم کے مسائل حل ہوتے ہیں، راستہ کھلتا ہے اور مشکلات برطرف ہوتی ہیں۔ انقلاب اور اسلام کے اصولوں سے انحراف مشکلات پیدا کرتا ہے، چاہے یہ انحراف عمل میں ہو یافکر میں۔ ممکن ہے کہ کبھی فکر انقلابی ہو مگر عمل انقلابی نہ ہو۔ یہ مشکل ساز ہے۔آپ آٹھ سال مسلط کردہ جنگ پر ایک نظر ڈالیں، وہاں اس قضیے نے واضح طور پر خود کو ثابت کیا ہے۔ خارجہ سیاست پر ایک نگاہ ڈالیں، وہاں بھی یہ مسئلہ آشکارا طور پر نظر آۓ گا۔ دیگر تمام امور میں بھی ایسا ہی ہے۔ منصوبہ بندی میں اس کی پابندی ہونی چاہئے۔ میں اسی بناء پر اور دیگر وجوہات کی اساس پر اپنی عزیز قوم سے سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ سال بھی اور رواں سال میں بھی جو الحمدللہ شروع ہوچکا ہے اور مبارک ہوگا، کوشش کریں کہ اسی انقلابی و اسلامی جہت اور حکومت نیز حکام کی مدد اور ان کے ساتھ تعاون کا جذبہ باقی رکھیں اور قومی اتحاد و یکجہتی اور ہم آہنگی کی حفاظت کریں۔ یہ ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے والی چیزیں ہیں ۔ اگر دشمن کے پروپیگنڈوں اور کوششوں پر ایک نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ان کی کوششیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ ہماری قوم کی یکجہتی ختم کردیں۔ یقینا دشمن ہمارا برا چاہتا ہے۔ یک جہتی اس قوم کے مسائل و مشکلات کا علاج ہے۔ دشمن حکومت اور قوم ، حکام اور عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس کے برعکس سمت میں چلنا چاہئے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام اسلام اور انقلاب کے اہداف سے دور ہوجائیں۔ بنابریں یہ چیز قوم کے نقصان میں ہے اور ہمیں یہ فاصلہ کم کرنا اور اسلام اور انقلاب کی سمت میں زیادہ بڑھنا چاہئے۔اسی بناء پر میں تاکید کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز مومن نوجوان، تمام عوام، مسلمان خواتین اور مرد، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو فراموش نہ کریں جو دو الہی فرائض اور اہم اقدار میں سے ہیں، ملک کے مختلف حکومتی اور انقلابی ادارے بھی خود کو انقلابی و اسلامی اصول و ضوابط سے نزدیک کرنے کی کوشش کریں۔ دعا ہے کہ خدا کے تفضل و برکات اور حضرت ولی عصرارواحنا فداہ، عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی عنایات سے ملت ایران کی زندگی روز بروز شفاف، پیشرفتہ اور خدا کی رحمت اور برکت سے سرشار ہو، یہ عید آپ سب کو، تمام خاندانوں کو، نوجوانوں کو اور قوم کے ایک ایک فرد کو مبارک ہو۔ والسلام علیکم ورحمت اللہ برکاتہ
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 28-12-1370ہجری شمسی مطابق 19-3-1992 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال کی آمد کی مناسبت سے قوم کے نام اپنے پیغام میں ملکی اور عالمی امور کا اختصار سے جائزہ لیا۔ آپ نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور اس کے تسلط والے ممالک میں اسلامی لہر سامنے آنے کو خاص اہمیت کا حامل واقعہ قرار دیا۔ آپ نے ملک کے اندر عوام اور حکام کی یکجہتی کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سال نو کی تقریبات کے تعلق سے اسراف اور فضول خرچی سے گریز کی سفارش کی۔ عید نوروز کا پیغام حسب ذیل ہے؛بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل والنّھار، یا محوّل الحول والاحوال حوّل حالنا الی احسن الحال۔ با برکت عید نوروز کی اپنے عزیز ہم وطنوں کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بالخصوص فداکاروں کو کہ وطن جن کا ممنون کرم ہے، شہیدوں کے خاندان والوں کو، مسلط کردہ جنگ میں اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور جانباز سپاہیوں اور ان کے گھروالوں، جنگی قیدیوں، دشمن کی قید سے رہائی پاکے آنے والے سپاہیوں، لاپتہ ہو جانے والوں اور ان کے کنبے والوں کو اور اسی طرح تمام مجاہد سپاہیوں اور ان تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے مسلط کردہ جنگ کے سخت دور کا اپنے پورے وجود سے سامنا کیا ہے، چاہے وہ فوجی ہوں، پاسداران انقلاب ہوں یا لاکھوں بسیجی (رضاکار) ہوں۔ اس سال خوش قسمتی سے عید نوروز کی مبارکباد ان دیگر اقوام کو بھی پیش کرسکتے ہیں جو سرکاری طور پر اس عید پر جشن مناتی ہیں۔ میں جمہوریہ آذربائیجان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمنستان اور علاقے کے ان دیگر ملکوں کے عوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز اور اس کا جشن مناتے ہیں۔ میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مقدس پر، جو پوری اسلامی دنیا اور علاقے میں اس عام جوش و جذبے کو بیدار اور جان و دل کو متحد کرنے والے تھے، درود و سلام بھیجتا ہوں اور آپ کی روح کے لئے طلب مغفرت کرتا ہوں۔ اس سال عید نوروز رمضان المبارک میں، بالخصوص شبہائے قدر اور حضرت امام حسن مجتبی علیہ الصلاۃ والسلام کے یوم ولادت باسعادت سے متصل ہے۔ امید ہے کہ اس سال موسم بہار میں قدرت کا تغیر ہم سب کے اندر اخلاقی و روحانی تغیر اور معنوی بلندی کے پیدا کرے گا۔ کسی قوم کے لئے مکمل عید اس وقت ہوتی ہے جب قوم کے لوگ، امید، ایمان، جذبہ عمل، آگاہی اور معرفت کے ساتھ اپنے باطن کی تعمیر کر سکیں۔ خداوند عالم سے اپنے رابطے کو محکم اور اپنے اندر معنویت کی تقویت کرکے، خدا سے دعا اور اس کی نصرت طلب کرکے، اس پر توکل اور خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت سے اپنے دل و جان کو روشن کرسکیں اور اس امید، طمانیت اور سکون تک پہنچ سکیں جو انسان کی سعادت کے لئے ضروری ہے۔ اس صورت میں قوم حوادث زمانہ کے مقابلے میں ناقابل تسخیر ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ اس نئے سال میں اور بالخصوص رمضان المبارک کے ان ایام ، ان دنوں اور ان شبہائے قدر میں ہم یہ توفیق حاصل کر سکیں۔ گذرنے والا سال،عالمی سطح پر حوادث سے پر تھا اور فطری بات ہے کہ ہم بھی ان حوادث کے آثار سے پوری طرح محفوظ نہیں رہے۔ ان حوادث کے نتائج شیریں اور پسندیدہ بھی تھے اور ساتھ ہی ناگوار بھی تھے۔ البتہ ملک کے حکام کی کوشش یہ ہے کہ حوادث عالم کے تعلق سے شیریں و دلچسپ اثرات زیادہ ہوں اور ناگوار و تلخ نتائج کم ہوں۔ ان حوادث میں سے ایک سوویت یونین کی بڑی سلطنت کا شیرازہ بکھرنا اور ایک سپر پاور کا زوال ہے، جو درحقیقت ہمارے دور اور ہماری تاریخ کا بڑا واقعہ شمار ہوتا ہے۔ یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ سب سے پہلے اس لحاظ سے کہ اس کے نتیجے میں جن ملکوں اور اقوام نے آزادی و خود مختاری حاصل کی ان میں مسلم اقوام بھی ہیں۔ اس علاقے میں اور ہمارے پڑوس میں، دسیوں لاکھ مسلمان آشکارا طور پر اور صراحت کے ساتھ اپنی اسلامی اقدار، اسلامی ثقافت اور اسلامی آرزوئیں زبان پر لائے اور ان کا اظہار کیا جبکہ وہ دسیوں سال سے اس فطری حق سے محروم رکھے گئے تھے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں جو عالمی میدان اور اقوام کی زندگی میں سپر طاقتوں کی غارتگری کا دور ہے، ایک سپر طاقت کا زوال، کمزور اقوام کو امید عطا کر سکتا ہے، دنیا کے عقلمندوں کے لئے عبرت کا باعث ہو سکتا ہے اور دنیا کے بہت سے لوگوں کے دلوں میں امید کی روشنی پیدا کر سکتا ہے۔گذشتہ سال دیگر اہم واقعات میں، مختلف ملکوں میں مسلمانوں کی بیداری اور اسلامی تحریکوں میں شدت بھی ہے کہ جس کی خبریں گذشتہ سال کے دوران تسلسل سے آ رہی تھیں اور ہماری عزیز قوم نے ان خبروں کو سنا۔گذشتہ سال کے شیریں واقعات میں عالمی سطح پر ہمارے عزیز ملک کے اثر و رسوخ اور اعتبار میں اضافہ بھی ہے۔ بین الاقوامی امور میں ہمارے ملک نے نمایاں کردار ادا کیا اور عالمی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی ۔ یہ بات دنیا کے اچھے ملکوں کے ساتھ مثبت سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی روابط میں توسیع اور فروغ کا سبب بنی جو ہمارے لئے بہت اچھی بات تھی۔ یہ سب ان لوگوں کی فداکاریوں اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے جنہوں نے ان چند برسوں کے دوران مختلف میدانوں میں دل و جان سے کوشش کی اور اس سلسلے میں ہماری عظیم قوم اور دلیر نیز حریت پسند عوام کا تعاون سب سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے طویل برسوں تک مختلف میدانوں میں اپنی پرجوش موجودگی اور مشارکت سے انقلاب کو اس طرح متحرک اور زندہ رکھا کہ اس نے دنیا میں اور اقوام عالم کی نگاہوں میں نمایاں حیثیت حاصل کی ۔ گذشتہ سال کے تعلق سے ہمارے ملک کا ایک مسئلہ ملک کی تعمیر نو کے لئے حکومت اور حکام کی کوشش رہی ہے۔ اس ایک برس کے دوران، بہت اچھے بنیادی کاموں سے اس کا آغاز ہوا اور بہت اچھی منصوبہ بندی کے ساتھ اس پر عمل ہوا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی و پیشرفت اور غربت نیز و بے روزگاری کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ، بنیادی کام یہ ہے کہ ملک کے اندر بڑی منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ یہ وہ کام ہے جو الحمد للہ گزرنے والے سال میں انجام پایا ہے۔ یعنی ان منصوبوں کا بڑا حصہ شروع ہو گیا یا منصوبہ بندی ، نفاذ اور استفادے کے مرحلے میں ہے اور خدا کے فضل سے آئندہ برسوں کے دوران بھی اس پر عمل جاری رہے گا۔ میں گذشتہ سال کے تعلق سے، جس کے اختتام کا ہم نے مشاہدہ کیا، جو عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ گذشتہ سال، عالمی واقعات اور داخلی مسائل کے لحاظ سے ہمارے لئے حوادث سے پر اور کامیاب سعی و کوشش کا سال تھا۔ یہاں ضروری ہے کہ اپنی عظیم قوم کی اس بہت بڑی سیاسی کامیابی کی یاد دہانی کراؤں کہ اقوام متحدہ نے مسلط کردہ جنگ کے بارے میں اعلان کیا کہ جنگ شروع کرنے والا عراق تھا۔اس قوم کی آٹھ سال تک جاری رہنے والی مجاہدت میں، اس عالمی گواہی کے بعد دوسرا ہی رنگ اور انداز دیکھنے میں آیا ہے۔ اگر چہ حق پسند اور حق پرست اس گواہی سے پہلے بھی حقیقت واقعہ سے واقف تھے اور ہماری قوم اپنی مظلومیت اور حقانیت سے سب سے زیادہ واقف تھی لیکن ہماری قوم کو معتبرترین بین الاقوامی تنطیم کی جانب سے اس گواہی کی ضرورت تھی۔بہرحال یہ سال کامیابیوں کا سال تھا۔ الحمد للہ ہمیں کافی کامیابیاں ملیں اور ہم نے آگے کی سمت قدم بڑھائے۔ البتہ کوئی یہ دعوی ہرگز نہیں کر سکتا کہ ان چند برسوں کی کوششوں کے مکمل اہداف تک ہم پوری طرح پہنچ گئے۔ لیکن ان اہداف کی سمت میں ہم نے قدم بڑھائے ہیں اور ان شاء اللہ ہماری قوم آخری اہداف تک پہنچے گی۔اس سال کے آغاز پر اپنی پوری قوم اور ملک کے حکام سے جو سفارش کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ قوم، حکومت اور خدمتگزار حکام، سب کوشش کریں کہ حکومت اور عوام کے درمیان محبت و صداقت کے اس رشتے اور اس اتحاد ویکجہتی کو زیادہ سے زیادہ مضبوط، وسیع اور مستحکم کریں۔ ہماری عزیز قوم، انقلاب کے میدانوں میں پوری قوت کےساتھ اپنی موجودگی کو جاری رکھے جو ملک کی تمام مشکلات کے حل میں کارساز رہی ہے اور دنیا کو ہماری حقانیت کی طرف متوجہ کر سکی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں یوم قدس آ رہا ہے، اس دن کے جلوسوں میں عوام کی شرکت بہت اہم ہے۔ اسی طرح مستقبل قریب میں انتخابات ہونے والے ہیں، جن میں عوام کی شرکت بہت اہم اور فیصلہ کن کردار رکھتی ہے۔ مستقبل میں، تمام شعبوں میں تعمیر نو اور حکومت کے ساتھ مختلف قسم کے تعاون کے کئی مراحل سامنے ہیں۔ ان تمام مراحل میں ہماری قوم کو اپنی موجودگی کا ثبوت دینا ہے۔ حکومت اور زحمت کش نیز عوام کے خدمتگزار حکام سے بھی چاہتا ہوں کہ ملک کی تعمیر نو میں عوام کی مشارکت کے لئے منصوبہ بندی کریں۔ اس امر میں انہیں منظم کریں۔ سب سے میری سفارش یہ ہے کہ کام کو بہت زیادہ اہمیت دیں۔ آج واقعی کام، جس محاذ پر بھی ہو، جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ جو لوگ اپنے لئے کام کرتے ہیں، وہ بھی کوشش کریں کہ ان کا کام ملک، قوم اور عوام کی مصلحت اور اہداف سے ہم آہنگ ہو۔ عوام اپنے اتحاد کو محفوظ رکھیں۔ ہمدلی اور قومی اتحاد کی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی جو بہت اہم ہے، حفاظت کریں۔ اقوم کی مشکلات و مسائل کے تمام قلیل المیعاد اور طویل المیعاد حل، اتحاد و یکجہتی میں مضمر ہیں۔ میں سفارش کرتاہوں کہ عوام عید نوروز کے ایام میں اور آئندہ سال کے دوران ، خاص طور پر ان تقریبات میں جن میں اسراف ہوتا ہے، اسراف سے پرہیز کریں۔ فضول خرچی اور اسراف معمولا متمول طبقہ کرتا ہے۔ کیونکہ کمزور طبقات زیادہ خرچ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ ایک طبقے کی جانب سے زیادہ خرچ اور اسراف ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس میں اقتصادی لحاظ سے بھی نقصان ہے اور سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی لحاظ سے بھی ضرر ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے، ایک بار پھر کہتا ہوں اور گزارش کرتا ہوں کہ فضول خرچی ترک کریں۔ خرچ ایک معقول مقدار کے اندر ہونا چاہئے۔ اسراف اور فضول خرچی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ معقول مقدار ہر الگ الگ زمانے میں مختلف ہوتی ہے۔ آج عوام کے بہت سے طبقات اور گھرانے، مشکل اور مصیبت میں ہیں اور ابھی ملک کی تعمیر نو کے اثرات و ثمرات پوری طرح ظاہر نہیں ہوئے ہیں اور اس کی برکتیں سب تک نہیں پہنچی ہیں۔ معقول مقدار سے مراد یہ ہے کہ انسان جہاں تک ہو سکے، خود کو ان طبقات سے نزدیک کرے۔ ملک کے عزیز حکام اور عہدیدار، چاہے حکومت سے ان کا تعلق ہو، عدلیہ سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسرے شعبوں سے متعلق ہوں، خاص طور پر اس اصول کی دوسروں سے زیادہ پابندی کریں۔ دعا ہے کہ خدا وند عالم اپنی برکات آپ پر نازل فرمائے ، اس عید کو حقیقی معنوں میں آپ کے لئے مبارک قرار دے اور اس سال کو آپ کے لئے بہت اچھا، پرشکوہ، باعظمت، خوش قسمتی اور شادمانی کا سال قرار دے ۔ والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مریم انّ اللہ یبشّرک بکلمۃ منہ اسمہ المسیح عیسی ابن مریم وجیہا فی الدنیا والاخرہ ومن المقربین۔ (1)
خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت عیس مسیح کے یوم ولادت کی اپنے ہم وطن عیسائیوں، اور تمام عیسائیوں اور مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
اس کلمہ خدا نے گمراہی، جہالت، بے عدالتی اور انسانی اقدار کی جانب سے بے اعتنائی کے دور میں انسانوں کی ہدایت اور نجات کا پرچم اٹھایا، دولت و قوت کی مالک ستمگر طاقتوں کے خلاف مجاہدت شروع کی اور توحید، رحمت اور عدل کو پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔ آج خدا کے اس عظیم الشان پیغمبر پر ایمان رکھنے والوں یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کو مناسب عالمی نظام کے قیام کے لئے، پیغمبروں کے راستے اور تعلیمات کو اپنانا چاہئے اور ان معلمان بشریت کی تعلیم کے مطابق انسانی فضائل کو عام کرنا چاہئے۔
دنیا کی ظالم طاقتیں خاص طور پر گذشتہ سو برسوں کے دوران انسانی معاشروں کی زندگی میں اعلا انسانی اقدار اور معنویت کو ختم کرنے پر کمر بستہ رہیں جس کے نتیجے میں اخلاقی برائیاں پھیلیں، منشیات کی عادت بڑھی، بے راہ روی کا چلن ہوا، خاندان کی بنیادیں تباہ ہوئیں،استحصال میں اضافہ ہوا امیر اور غریب اقوام کے درمیان خلیج میں روز افزوں اضافہ ہوا، سماجی انصاف ناپید ہوا، انسانی کرامت سے توجہ ہٹی، مہلک ہتھیار بنے اور اجتماعی قتل عام، میں وسعت آئی۔ انسانوں کی طرح علم بھی معنویت کے خاتمے اور دینی اقدار سے بے اعتنائی کی بھینٹ چڑھا۔
اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) آج ہمارے درمیان ہوتے، تو عالمی سامراج اور ظلم کے علمبرداروں کے خلاف مجاہدت میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتے اور اربوں انسانوں کی بھوک اور پریشانی کو جو بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال، جنگ اور لڑائی کی بھینٹ چڑھائے جارہے ہیں، ہرگز برداشت نہ کرتے۔
مجھے امید ہے کہ انسانی معاشروں کی بیداری، دینی معرفت کے علمبرداروں کی سچی سعی و کوشش اور سوئے ہوئے ضمیروں کے بیدار ہونے کے نتیجے میں انسانیت، معنویت اور دینی اقدار کی طرف واپسی کی صدی میں قدم رکھے گی اور دنیا نے جس طرح کمیونسٹ حکومتوں کا خاتمہ دیکھا اسی طرح سامراجی اور ظالمانہ بنیادوں کو بھی زمیں بوس ہونے کی شاہد ہوگی۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
علی حسینی خامنہ ای
7-10-1370 (27-12-1991)
1- سورۂ آل عمران ؛ 45
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا و ان اللہ علی نصرہم لقدیر۔ الذین اخرجوا دیارہم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا اللہ ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لہدمت صوامع وصلوات ومساجد یذکر فیہا اسم اللہ کثیرا ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز۔(1)
اقوام کی تاریخ میں ایسے لمحات آتے ہیں کہ جن میں کیا جانے والافیصلہ اس قوم کی پوری عمر پر اثرا انداز ہوتا ہے اوربعد کی نسلوں کے لئے تلخی، غم، ذلت اور اسیری لاتا ہے یا انہیں آزادی، عزت اور شادمانی کا تحفہ دیتا ہے۔
جب صیہونی فلسطینی قومیت کی جڑوں پر پہلا تیشہ مار رہے تھے، تاکہ اس کی جگہ پر مسلمانوں کی سرزمین میں اپنی جھوٹی، جعلی اور بے اساس قومیت کی بنا رکھیں، مسلم سربراہان، موثر شخصیات اور ان کی پیروی میں عوام نے اپنی محکم، ہوشیارانہ اور سنجیدہ موجودگی کا ثبوت دیا ہوتا، تو آج ان تمام پریشانیوں اور مصبتوں کی جو صیہونی حکومت کے شجرہ خبیثہ کی دین ہیں، اس علاقے میں کوئی خبر نہ ہوتی اور شاید علاقے کی اقوام بالخصوص مظلوم فلسطینی قوم نے ان پینتالیس برسوں میں جو مصیبتیں اٹھائی ہیں، ان سے محفوظ رہتی۔
اس دن بعض عناصر کی کمزوری، بعض کی اقتدار پرستی اور بعض کی غیر دانشمندی نے ملکر عام خیانت کو عملی شکل دیا اور نتیجہ جو ہوا وہ سامنے ہے۔ ہزاروں خون ناحق زمین پر بہایا گیا، ہزاروں ناموس کی بے حرمتی ہوئی، ہزاروں گھر ویران ہوئے، ہزاروں سرمائے برباد ہوئے، ہزاروں آرزوئیں دفن ہوگئيں، ایک پوری قوم کے ہزاروں رات اور دن تلخی، مصیبت، رنج و غم، دربدری،آوارہ وطنی اور سسکیوں اور آنسووں کے ساتھ اردن اور لبنان کے کیپموں میں بسر ہوئے یا مقبوضہ وطن میں دشمن کے بوٹوں اور سنگینوں کے سائے میں گزرے۔ ہزاروں انسان بغیر کسی جرم کے زمانے کی سخت ترین عقوبت میں مبتلا ہوئے اور ہزاروں ایسے ناگفتہ بہ غم کہ جنہیں ان کے علاوہ کوئی اور درک نہیں کرسکتا جنہوں نے اپنے غصب شدہ وطن کے قریب کیمپوں میں یا ان گھروں میں جن کے سرپرست غیر تھے، سخت ایام بسر کئے ہیں۔ یہ سب اس بڑی خیانت کا نتیجہ ہے جو دیگر خیانتیں بھی اپنے ساتھ لائی۔ اور خیانتوں کے ان لہروں نے کتنی فضیلتوں کو ختم کردیا، کتنے جذبات مردہ کردیئے، اور کتنے شعلوں کو خاموش کردیا۔
ہر وہ فرد جو اس دن کچھ کرسکتا تھا اور اس بڑے ظلم کو دفع کرنے کی راہ میں قدم اٹھا سکتا تھا، لیکن کچھ نہ کیا کوئی قدم نہ اٹھایا، وہ فلسطین کی ان دو نسلوں کی لعنت اور بددعا، موجودہ اور مستقبل کی تاریخ کے سخت اور ٹھوس فیصلے،اور روز قیامت خدا کے عذاب کا مستحق ہے۔اور اس سلسلے میں سیاستدانوں، ماہرین اقتصادیات، ثقافتی وادبی شخصیات اورماہرین جنگ و مجاہدت میں کوئی فرق نہیں ہے۔
آج ایک بار پھر فصیلہ کن وقت اور عام امتحان کی گھڑی سامنے ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ امریکا اس چیز کے درمیان جس کو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کامیابی کا نام دیا جارہا ہے، اس علاقے کے بعض ملکوں پر طاری وحشت آمیز سکوت کی برکت اور خلیج فارس میں غاصبانہ فوجی موجودگی کے بھروسے، اپنا اور غاصب صیہونیوں کا مسئلہ حل کرلینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ عرب اسرائیل کو سرکاری طور پر تسلیم کرلیں اور فلسطین کا دعوا ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔
عرب حکومتوں کی مخالفت کے خدشے سے اسرائیل کی نجات، سب سے پہلے امریکا کی تیارکردہ اس غاصب حکومت کو اس کے اصلی فریضے یعنی اس علاقے میں اسلامی تحریکوں کے جو امریکا کے لئے سخت ترین خطرہ شمار ہوتی ہیں، مقابلے کے لئے آمادہ کرے گی، دوسرے اس حیاتی اہمیت کے علاقے کے ملکوں میں امریکا کے نفوذ کو یقینی بناکرعلاقے کو امریکا کے لئے پرامن بنادے گی اور مشرق وسطی کااختیار بغیر کسی پریشانی کے امریکا کو مل جائے گا اور تیسرے اسرائیل مقبوضہ علاقوں کی توسیع اور نیل سے فرات تک آرزو پوری کرنے کے لئے ایک اور مضبوط مورچہ فتح کرلے گا۔
دشمن فلسطین کو پیکر عالم اسلام سے الگ کردینا اور مسلمانوں کے گھر میں صیہونیت کے شجرۂ ملعونہ کو باقی رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا غاصب حکومت کو مستحکم کرکے، اس حساس علاقے کی زندگی کی تمام رگوں کو اپنے قبضے میں لینا اور خود کو مشرق وسطی اور افریقا میں اسلامی بیداری کی تشویش سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ اسلام کی ساری دشمنی یہاں نکال لیں اورحالیہ برسوں کے دوران مسلمانوں کی بیداری سے انہیں جو شکستیں ہوئی ہیں، ان کا بدلہ لے لیں۔ یہ واقعہ حالیہ چند برسوں کے دوران مشرق وسطی کے بارے میں کی جانے والی کسی بھی سازش سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ یہاں ایک ملک کے غصب، ایک قوم کی مستقل اور ابدی دربدری اور عالم اسلام کے پارہ تن، عظیم اسلامی وطن کے جغرافیائی مرکز اور مسلمانوں کے قبلۂ اول کو الگ کردینے کی بات ہے۔
اس خطیر وقت میں مسلمین عالم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا جو فریضہ ہے اس کو پہچانیں۔ ایک طرف اسلامی سرزمین کی حفاظت کا فریضہ ہے، جو مسلمانوں کی فقہ کی ضروریات میں سے ہے اور دوسری طرف ایک مظلوم قوم کی فریاد کا جواب دینے کا مسئلہ ہے۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو مسلمانوں کی فریاد کو سنے اور اس کا جواب نہ دے، وہ مسلمان نہیں ہے، اور آج ایک فرد کی فریاد نہیں ہے بلکہ پوری قوم فریاد کررہی ہے۔
آج مسلم حکومتیں ذمہ داری کا احساس کریں۔ مسلمان حکومتوں کی طاقت، اگر متحد اور ایک آواز ہوں، تو امریکا کی طاقت سے زیادہ ہے۔ یہ علاقہ امریکا کا محتاج نہیں ہے بلکہ امریکا اس علاقے کا زیادہ محتاج ہے۔ حکومتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلم اقوام چاہتی ہیں کہ یہ سب ملکر امریکا اور اسرائیل کے مستکبرانہ مطالبے کا جواب نفی میں دیں۔ یہ خود حکومتوں کی بقا اور اسلامی ملکوں کے عزت و شرف کی حفاظت کا قابل اطمینان ترین اقدام ہے۔امریکا کی لالچ، اس کی دھمکیوں اور صیہونی جرائد کے تشہیراتی دباؤ میں نہ آئيں اور اپنے قومی اور اسلامی فریضے کا تقاضا پورا کریں۔
مسلم اقوام بھی جان لیں کہ وہ بھی خدا اور تاریخ کے سامنے اتنی ہی جواب دہ ہیں جتنامسلم حکومتیں جواب دہ ہیں۔آپ حکومتوں کو استکباری دباؤ کے سامنے مزاحمت پر مجبور کرسکتے ہیں اور اس راہ میں ان کی مدد کرسکتے ہیں اور جو حکومتیں اس یقینی فریضے سے فرار کریں ان کے لئے بڑے خطرات وجود میں لاسکتے ہیں۔
اسلامی ملکوں کے یونیورسٹی طلبا، قلمکار اور روشنفکر حضرات، اور علمائے اسلام' آپ کا فوری فریضہ ہے۔ آپ اقوام کو اس بڑی مصیبت سے جو امریکا اور اسرائیل عالم اسلام کے لئے تیار کررہے ہیں، آگاہ کرسکتے ہیں اور اس کے مقابلے کے لئے عظیم قومی طاقت کو متمرکز کرسکتے ہیں۔ جو حکومتیں اس خیانت میں شریک ہونے کے لئے تیار ہورہی ہیں انہیں اپنی اقوام کے غیض و غضب کے خطرے کو محسوس کرنا چاہئے۔
اس حساس اور سنگین مجاہدت کا محور، فلسطین کی بہادر اور مظلوم قوم ہے جس نے پورے وجود سے مصیبتوں کو محسوس کیا ہے اور اس وقت اسلام سے تمسک کی برکت سے، اپنے غصب شدہ وطن کے اندر، عظیم مجاہدت سے دشمن کے لئے عظیم خطرات خلق کردیئے ہیں۔بڑی سامراجی سازش یہ ہے کہ اس مجاہدت کو ختم کردے۔ لیکن خدا کی قدرت اور قوت، بہادر فلسطینیوں کی ہمت اور مسلم اقوام اور حکومتوں کی مدد سے اس شعلے کو روز بروز بلند تر ہونا چاہئے تاکہ دشمن کی تمام کھوکھلی بنیادوں کو نگل لے۔ یہ ہوگا ان پر نصرت الہی نازل ہوگی: "ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز" (2)
دشمن کو معلوم ہونا چاہئے کہ فلسطینی اقدار سے روگردانی کرنے والے فلسطینیوں کو امریکی کانفرنس میں شریک کرنے جیسی کوئی بھی چال ان مومنین کو جنہوں نے فلسطین کی نجات کے لئے جہاد کو اپنا اسلامی فریضہ سمجھا ہے، اس برحق مجاہدت سے نہیں ہٹاسکتی اور امریکا، اس کا ساتھ دینے والوں اور اس کے حواریوں کی خواہش کے برخلاف، فلسطینی قوم کا جہاد جاری رہے گا اور پٹھو فلسطینی اور عرب سیاستدانوں کی خیانت سے یہ شعلہ خاموش نہیں ہوگا۔
امریکا کی سازش کا علاج مقبوضہ فلسطین کے اندر اور فلسطینی مجاہدین کے توانا ہاتھوں میں ہے لیکن تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس جہاد میں شرکت کریں اور فلسطینیوں کی مالی، فوجی، سیاسی، انٹیلیجنس اطلاعات اور وسائل کی مدد کریں۔ فلسطینی قوم کو تنہائی کا احساس نہیں ہونا چاہئے۔ صیہونی اور وہ لوگ جو فلسطینی مجاہدین کے قتل اور انہیں ايذائیں دینے میں ملوث ہیں، دنیا میں کہیں بھی خود کو محفوظ محسوس نہ کریں۔ پوری دنیا میں حکومتوں اور اقوام کو فلسطینی مجاہدین کی مدد کے لئے فنڈ اور مراکز قائم کرنا چاہئے۔ غاصب حکومت کا بائیکاٹ اور اس کو سرکاری طور پر تسلیم نہ کرنا تمام مسلمان حکومتوں کا فریضہ ہے اور اقوام کو اس مسئلے میں حساسیت کا مظاہرہ کریں اور ان وسائل اور تمام ممکن وسائل سے کام لیکر موجودہ سازشوں کا مقابلہ کریں اور اس کی تاثیر کو روکیں۔ بہرحال مسئلۂ فلسطین کی ایک سے زیادہ راہ حل نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ پوری سرزمین فلسطین میں فلسطینی حکومت قائم ہو۔
تمام مسلمان حکومتوں اور اقوام کے لئے خدا کی ہدایت و نصرت کا دعا کرتا ہوں اور ہمیشہ ان کی کامیابی چاہتاہوں۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
علی الحسینی الخامنہ ای
پچیس مہرماہ سن ایک ہزار تین سو ستر (شمسی) مطابق آٹھ ربیع الثانی چودہ سو بارہ ہجری (قمری)
1- سورۂ حج : 39 و 40
2- سورۂ حج: 40
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے چھبیس خرداد تیرہ سو ستر ہجری شمسی، تین ذی الحجہ سن چودہ سو گیارہ ہجری قمری مطابق سولہ جون سن انیس سو اکانوے عیسوی کو عازمین حج کے نام اپنے پیغام میں حج کے اعمال کے رموز و اسرار پر روشنی ڈالی۔ آپ نے حج کے بنیادی مقاصد کی جانب اشارہ کیا اور عالم اسلام کے مسائل اور سامراجی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔پیغام کے متن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛ بسم اللہ الرحمن الرحیم واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق ۔ لیشھدوا منافع لھم و یذکرو اسم اللہ فی ایام معلومات علی ما رزقھم من بھیمۃ الانعام فکلوا منھا واطعمو البائس الفقیر (1) حمد و سپاس خداوند حکیم کے لئے ہے کہ جس نے اپنے بندوں پر احسان کیا، انہیں خانہ خدا کے گرد جمع ہونے کی دعوت دی اور اپنے عظیم پیغمبر کو گلدستہ تاریخ میں دعوت حج دینے پر مامور کیا۔ اس گھر کو جائے امن و امان قرار دیا، جاہلیت کے بتوں سے پاک کیا، مومنین کی طواف گاہ ، دور دراز کے لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز، مظہر اتحاد و اتفاق، جلوہ گاہ شوکت اور جلسہ گاہ امت قرار دیا۔ بیت اللہ کو کہ جس کو جاہلیت اولی کے دور میں خادمین کعبہ اور امور طواف و سعی کے ذمہ داروں نے اپنی سرداری و حکمرانی کی دکان اور بازار تجارت میں تبدیل کر دیا تھا،عوام الناس سے متعلق قرار دیا اور ان کے لئے استفادہ کرنے اور بہرہ مند ہونے کا مرکز بنایا، وہاں کے ساکنین اور دوسری جگہوں سے آنے والے مسافرین کا حق برابر قرار دیا، حج کو مسلمین کی وحدت و عظمت، ہم آہنگی اور ان کے ایک دوسرے سے منسلک ہونے کا راز اور ایسی بہت سی بیماریوں کا علاج قراردیا جس میں افراد اورمسلم معاشرے ، اپنے مرکز سے جدائی کے نتیجے میں مبتلاء ہوتے ہیں جیسے غیروں کی پرستش ، خود فراموشی ، سازشوں میں پھنس جانا، خدا سے غفلت اور اہل دنیا کا اسیر ہونا ، اپنے بھائیوں کی نسبت بد گمانی اور ان کے بارے میں دشمنوں کی باتوں یقین، امت اسلامیہ کے مستقبل کی نسبت بے حسی بلکہ امت اسلامیہ کو نہ پہچاننا، دوسرے اسلامی علاقوں کے حوادث سے بے خبری ، اسلام اور مسلمین کے بارے میں دشمنوں کی سازشوں کے سلسلے میں ہوشیاری کا فقدان اور بہت سی دوسری مہلک بیماریاں جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ مسلمانوں کے امور پر نا اہلوں اور خدا سے بے خبر لوگوں کے تسلط کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے خطرہ بنی رہیں اور حالیہ صدیوں میں علاقے میں بیرونی استعماری طاقتوں کی آمد اور ان کے زرخریدوں اور دنیا پرستوں کی حکمرانی کے باعث تباہ کن اور بحرانی شکل اختیار کرچکی ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اس نے حج کو امت خالدہ کے لئے ، کبھی ختم نہ ہونے والا ذخیرہ، ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ اور دریائے زلال قرار دیا کہ اس کی شناخت رکھنے والا اور اس کی قدر جاننےوالا ہر حال میں اس سے استفادہ کرسکے گا اور اس کو مذکورہ مہلک بیماریوں کی دوا قرار دے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ملت ایران پر رحمت نازل فرمائی اور صحرا و بیاباں کے طالب خارہائے مغیلاں کی سرزنش کے بعد شوق کعبہ مقصود کی، جام وصل سے، جس میں عزت و کامرانی دونوں کی شیرینی تھی تکمیل کی۔ جس حق سے کئی برسوں تک اس کو ناروا طریقے سے محروم رکھا گیا ، اپنی شان کریمانہ سے اسے واپس دلایا اور اس قوم کی خالی جگہ کو جس نے بوجہلی حج کی جگہ حج ابراہیمی و محمدی (صلی اللہ علیھما وآلھما) کو رائج کیا، ( اسی قوم سے) بنحو احسن پر کیا۔ مشتاقان مہجور و محصور کے قلب تپاں کو جرعہ وصال سے سکون عطا کیا، انوار معرفت سے منور اور شوق زیارت سے لبریز دلوں کی آرزو پوری کی، اپنے مخلص بندوں کو فضل و کرم خاص سے نوازا، مومنوں کی نصرت کا وعدہ پورا کیا اور اپنے گھر کو اعتکاف میں بیٹھنے والوں اور طواف کرنے والوں کا مرکز قرار دیا۔پالنے والے ان عاشق و مشتاق عازمین حج پر جنہیں جانگداز انتظار کے بعد دیار معشوق میں جانا نصیب ہوا ہے اور ان تمام بہنوں اور بھائیو پر جو دنیا کے مختلف گوشوں سے تیری بارگاہ رحمت و مغفرت میں آئے ہیں نظر کرم فرما ، ان کے دلوں کو انوار معرفت و بصیرت سے روشن فرما، اپنی ہدایت اور نصرت ان کے شامل حال فرما، انہیں اصلاح امت کا عزم راسخ عطا فرما اور انہیں ان کے دشمنوں پر کامیابی عطا کر، یا رب العالمین! پالنے والے ! چار سال پہلے حرم امن الہی میں جو شہداء، دشمنی و کینے کا نشانہ بنے اور عورت، مرد، جوان اور بوڑھے، مظلومانہ انداز میں تیرے آستانے پر اپنے خون میں غلطاں ہوئے اور ان کے انتظار میں لگی ہوئی ان کے عزیزوں کی منتظر نگاہوں کا انتظار ان کے جنازے آنے پر ختم ہوا، ان شہیدوں کی ارواح پر فضل و رحمت نازل فرما اور اس حج کا مکمل ثواب انہیں عطا فرما جس کی حسرت میں انہوں نے ملکوت اعلی کی طرف پرواز کیا۔پالنے والے! ہمارے رہبر و امام ، اس آزمودہ عبد صالح، اولیاء کے سچے وارث، اس پارسا، پرہیزگار اور بیدار انسان کی روح پر اپنا فضل و کرم نازل فرما جو تیری رضا کی جستجو میں رہا، جس کی دوستی اور دشمنی تیرے لئے تھی اور تیری راہ میں وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا۔ تیرا حج کرنے والے ، تیری عبادت کرنے والے اور تیری راہ میں سعی و کوشش کرنے والے ان تمام لوگوں کے حج، عبادت اور سعی و کوشش کا ثواب ہمارے امام کو بھی عطا کر جنہیں ان کی رہبری و ہدایت حاصل رہی۔ پالنے والے ہمارے امام کی یہ آرزو پوری کر کہ حج، حج ابراہیمی ہو اور اس عظیم عبادت الہی سے امت اسلامیہ بہرہ مند ہو۔پالنے والے! تمام صدیوں اور ادوار کے منجی بشریت، اپنے برگزیدہ اور عظیم پیغمبر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر بہترین درود و سلام نازل فرما، جنہوں نے انسانوں کو سیدھا راستہ دکھایا، تیری وحی انہیں سنائی، دنیا و آخرت کی سعادت کے راستے سے انہیں روشناس کرایا اور اپنی سیرت طیبہ سے تمام صدیوں کے انسانوں کے لئے اسوہ حسنہ پیش کیا۔ آنحضرت ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اور آپ کے اہلبیت طیبین و طاہرین و معصومین ، بالخصوص بقیۃ اللہ الاعظم، حجت اللہ فی الارض حضرت مہدی منتظر (عجل اللہ فرجہ و ارواحنا فداہ) پر تیرا درود و سلام ہو۔ اوراب آپ عزیزبہنوں اور بھائیوں کے لئے جو دنیا کے مختلف علاقوں سے حج کی وعدہ گاہ عظیم میں جمع ہوئے ہیں اور قومی، نسلی اور فرقہ وارنہ میں سے ہجرت کرکے، اسلامی اور قرآنی ہم میں ضم ہو گئے ہیں، ضروری ہے کہ کچھ مسائل کو مد نظر رکھیں، دوسرے مسلمانوں سے ان کے بارے میں تبادلہ خیال اور مشاورت کریں اور حج سے واپسی پر اس کو اپنے فکر و عمل کی اساس قرار دیں۔1- پہلی بات اسرار و رموز سے مملو اس عظیم واجب، حج بیت اللہ کی قدر کو سمجھنا ہے۔ حج مظہر توحید اور کعبہ، کاشانہ توحید ہے۔ یہ جو حج سے متعلق آیات کریمہ میں بارہا ذکر خدا کی بات کی گئی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس گھر میں اور اس کی برکت سے مسلمانوں کے ذہن و عمل کو، غیر خدا سے اور ان کی زندگی کو، شرک کی تمام اقسام سے پاک ہونا چاہئے۔ اس جگہ، ہر عمل کا محور و مرکز خدا ہے اور طواف، سعی، رمی جمرات، وقوف اور حج کے دیگر اعمال، سب ایک طرح سے خدا میں جذب ہونے اور اللہ کے علاوہ تمام خداؤں کی نفی، انکار اور ان سے برائت کا مظہر ہے۔ یہ ہے بت شکن اور تاریخ کے منادی توحید حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) کی امت حنیف۔ شرک ہمیشہ ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا۔ بت ہمیشہ لکڑی، پتھر اور دھات کی مختلف شکلوں میں ہی ظاہر نہیں ہوتے۔ خانہ خدا اور حج کے تعلق سے ہر زمانے میں شرک کو اس زمانے کے مخصوص لباس میں اور خدا کے شریک بت کو اس دور کی مخصوص شکل میں پہچاننے اور اس کی نفی اور اس کو مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ آج لات منات اور عزی کی کوئی خبر نہیں ہے۔ لیکن ان کے بجائے، ان سے زیادہ خطرناک، دولت، طاقت، سامراج اور جہالت و سامراجیت کے نظاموں کے بت ہیں جو اسلامی ملکوں میں مسلمین کی زندگی پر سایہ فگن ہیں۔وہ بت جس کی عبادت و اطاعت پر آج دنیا کے بہت سے لوگوں اور بہت سے مسلمانوں کو زور زبردستی کے ذریعے مجبور کیا جا رہا ہے، امریکی طاقت کا بت ہے جو مسلمانوں کے تمام سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں پر قابض ہے اور اقوام کو وہ چاہیں یا نہ چاہیں، مسلمانوں کی بھلائی و مصلحت کے خلاف اپنے اغراض و مقاصد کے راستے پر چلاتا ہے۔ یہی بے چوں و چرا اطاعت ہی عبادت ہے جو آج سامراجی طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکا کے تعلق سے اقوام پر مسلط کی جا رہی ہے اور انہیں مختلف شکلوں میں اس سمت لے جایا جا رہا ہے۔اخلاقی برائیاں اور فحاشی جو سامراجی کارندوں کے ذریعے اقوام میں پھیلائی جارہی ہے، فضولخرچی کرنے کا رواج، جو ہماری اقوام کی زندگی کو روز بروز اپنی دلدل میں غرق کرتا جا رہا ہے تاکہ مغربی کمپنیاں جو سامراجی کیمپ کا دل و دماغ ہیں زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں، مغربی سامراج کا سیاسی تسلط جس کے ستون عوام مخالف زرخرید حکومتوں نے کھڑے کئے ہیں اور فوجی موجودگی جو مختلف بہانوں سے روز بروز آشکارتر ہو رہی ہے، یہ سب اور اس جیسی دوسری چیزیں، شرک اور بت پرستی کے مظاہر ہیں جو توحیدی زندگی اور توحیدی نظام کے بالکل خلاف ہیں جو اسلام نے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ حج اور خانہ توحید کے اس عظیم اجتماع میں شرک کے ان مظاہر کی نفی ہونی چاہئے اور مسلمانوں کو ان سے خبردار کرنا چاہئے۔ اسی واضح اور روشن مفہوم کے پیش نظر حج کو مشرکین سے اعلان برائت کی بہترین جگہ سمجھا گیا اور خدا وندعالم نے خود اپنی زبان میں، اپنے نبی (ص ) کے ذریعے مشرکین سے اعلان برائت کو حج اکبر کے دن پر موقوف کیا ہے و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ فان تبتم فہو خیر لکم وان تولیتم فاعلموا انکم غیر معجزی اللہ و بشر الذین کفروا بعذاب الیم (2) آج مسلمین حج میں جو برائت کے نعرے لگاتے ہیں وہ سامراج اور اس کے زرخریدوں سے برائت کی فریاد ہے جن کا نفوذ ، افسوس کا مقام ہے کہ اسلامی ملکوں میں زیادہ ہے اور انہوں نے اسلامی معاشروں پر شرک آلود نظام زندگی ، مشرکانہ سیاست اور ثقافت مسلط کرکے، مسلمانوں کی زندگی میں توحید عملی کی بنیادیں منہدم کر دی ہیں اور انہیں غیر خدا کی عبادت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان کی توحید صرف زبانی ہے۔ توحید کا صرف نام ہے، ان کی زندگی میں معنی توحید کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔حج اسی طرح اتحاد اور وحدت مسلمین کا مظہر ہے۔ خداوند عالم تمام مسلمانوں کو اور ان میں سے جس میں بھی استطاعت ہو، ایک خاص جگہ پر، خاص زمانے میں بلاتا ہے اور انہیں ایسے اعمال بجا لانے کا حکم دیتا ہے کہ جو نظم، ہماہنگی اور ایک ساتھ زندگی گزارنے کا مظہر ہیں اور انہیں کئی دن اور کئی راتیں ایک جگہ پر ایک ساتھ رکھتا ہے۔ اس کا پہلا نمایاں اثر ان میں سے ہر ایک میں وحدت و اجتماعیت کا احساس پیدا ہونا ہے۔ انہیں مسلمانوں کے اجتماع کا شکوہ نظر آ جاتا ہے اور احساس عظمت سے ان کے اذہان سرشار ہو جاتے ہیں۔ اس عظمت کے احساس کے بعد اگر کوئی مسلمان اکیلا کسی غار میں بھی زندگی گزارے، تو خود کو اکیلا نہیں محسوس کرے گا۔ اس حقیقت کے احساس سے تمام اسلامی ملکوں میں، مسلمانوں میں اسلام مخالف کیمپ یعنی سرمائے کی حکمرانی کی دنیا کے سیاسی و اقتصادی تسلط ، اس کے کارندوں اور زرخریدوں اور ان کے نیرنگ و فتنے کے مقابلے میں دلیری و شجاعت پیدا ہوتی ہے اور ان پر تحقیر کا جادو جو یلغار کا نشانہ بننے والی اقوام کے لئے، مغربی سامراج کا پہلا حربہ ہوتا ہے ، اثر نہیں کرتا۔ اسی عظمت کے احساس کے نتیجے میں ، مسلمان حکومتیں اپنے عوام پر بھروسہ کرکے خود کو بیرونی طاقتوں سے بے نیاز محسوس کرتی ہیں اور مسلم اقوام اور حکومتوں کے درمیان فاصلہ جو مصیبتیں وجود میں لاتا ہے، ان کے ہاں نہیں ہوتا۔ اس جماعت و وحدت کا احساس ہے جس کی وجہ سے کل اور آج کا استعماری نیرنگ یعنی انتہا پسندانہ قوم پرستی مسلم اقوام کے درمیان وسیع اور گہرے فاصلے وجود میں نہیں لا پائی اور عرب، فارس، ترک اور افریقی و ایشیائی قومیتیں، بجائے اس کے کہ واحد اسلامی شناخت سے متصادم ہو اس کا جز اور اس کی وجودی وسعت کی علامت بن جاتی ہے اور اس کے بجائے کہ ہر قومیت، دوسری اقوام کی نفی و تحقیر کا باعث ہو، اقوام کے درمیان ایک دوسرے کی مثبت تاریخی، نسلی اور جغرافیائی خصوصیات کے تبادلے کا وسیلہ بن جاتی ہے۔ حج کو اپنے شعائر، مناسک اور مناظر کے ساتھ ایسا ہونا چاہئے کہ دنیا کے تمام علاقوں کے مسلمانوں کے اندراتحاد، مہربانی، جماعت اور عظمت کا احساس زندہ کر دے، مختلف فرقوں اور قبائل سے امت واحدہ کی تشکیل کرے اور اس امت واحدہ کی عبودیت مطلق، خداوند عالم کی وادی امن کی طرف ہدایت کرے اور خداوند عالم کے اس قول کے عملی شکل اختیار کرنے کے لئے حالات کو سازگار بنائے کہ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ و انا ربکم فاعبدون (3) عبودیت پروردگار، ربوبیت و وحدانیت کے آستانے پر جبہ سائی کرنے والی امت واحدہ کی تشکیل اسلام کی وہ بڑی آرزو ہے کہ جس کے سائے میں مسلمانوں کے لئے تمام انفرادی و اجتماعی کمالات تک پہنچنا ممکن ہو جائے گا اور یہ وہ ہدف ہے کہ جس کے حصول کے لئے شریعت میں جہاد اسلامی کو رکھا گیا اور تمام اسلامی عبادات و واجبات اس کے ایک حصے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ حج ابراہیمی و محمدی ( صلی اللہ علیہما و آلہما) یقینا ان دو عظیم اہداف کی تمہیدات اور ارکان میں سے ہے۔ اسی بناء پر اس عظیم اجتماع میں ذکر خدا فاذکروا اللہ کذکرکم ابائکم او اشد ذکرا (4) اور مشرکین سے برائت کے اعلان کو و اذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر ان اللہ بری من المشرکین و رسولہ (5) رکن حج قرار دینے کے ساتھ ہی، ایسے ہر اقدام کی نسبت جو بھائیوں کے درمیان یعنی اس امت واحدہ میں دشمنی اور تفرقہ بڑھائے، حساسیت بھی اپنی اعلا حد پر پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ دو مسلمان بھائیوں کے درمیان کہا سنی بھی جو معمول کی زندگی میں زیادہ اہم چیز نہیں ہے، حج میں ممنوع اور حرام ہے۔ فلا رفث و لافسوق و لاجدال فی الحج۔ (6) جی ہاں جہاں مشرکین یعنی توحیدی امت واحدہ کے بنیادی دشمنوں سے برائت کا اعلان ضروری قرار پاتا ہے وہیں مسلمان بھائیوں یعنی توحیدی امت واحدہ کے بنیادی اراکین سے بحث و مباحثہ ممنوع و حرام ہو جاتا ہے۔ اس طرح حج میں وحدت و جماعت کا پیغام زیادہ صراحت کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔حج کے رمز و راز اس سے بہت زیادہ ہیں جن کا یہاں اشارتا ذکر کیا گیا۔ ان رموز پر جن کا مقصد مسلمان معاشرے اور افراد کے تشخص کا احیاء اور اس کی نابودی کے عوامل کے خلاف جدوجہد ہے، غور و فکر حاجی کے سامنے نئے افق کھول دیتی ہے اور اس کو سعی و کوشش کے کبھی ختم نہ ہونے والے عالم میں لے جاتی ہے۔ ہر حاجی کا پہلا فریضہ ان رموز پر غور و فکر، تبادلہ خیال، ان تمام امور کے محور و بنیاد کی جستجو اور اس بات پر غور کرنا ہے کہ بعض عوامل و عناصر یہ کوشش کیوں کرتے ہیں کہ حج کو اس کے سیاسی و اجتماعی مفاہیم سے عاری کرکے صرف ایک انفرادی عبادت کے عنوان سے پیش کریں؟ دین کو دنیا کے عوض بیچنے والے عالم نما افراد، جن کے نام اور دینی شان کا تقاضا ہے کہ لوگوں کو اسرار سے آشنا کریں اور ان کے جسم و روح کو اس کے اہداف کی طرف لے جائیں، اس کے برعکس اس سلسلے میں ہر قسم کی حقیقت بیانی کی مخالفت اور حقائق کو چھپانے پر اصرار کیوں کرتے ہیں؟ لاؤڈ اسپیکروں سے بار بار یہ اعلان کیوں کیا جاتا ہے کہ حج میں سیاست کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے؟ کیا اسلام اور اس کے نورانی احکام انسانوں کی مادی و معنوی زندگی کی ہدایت اور ان کے امور چلانے کے لئے نہیں ہیں؟ کیا اسلام میں دینداری سیاست سے ملی ہوئی نہیں ہے؟ یہ عالم اسلام کی بڑی مصیبتوں میں سے ہے کہ کچھ لوگوں کی دنیاپرستی، رجعت پسندی اور کوتا بینی نے ہمیشہ غیروں کی خباثت آلود اور منظم دشمنی میں ان کی مدد کی ہے اور وہ زبانیں اور قلم جنہیں اسلام اور اس کے حقائق کے بیان میں مصروف رہنا چاہئے، اسلام کے ہوشیار اور سازشی دشمنوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ یہ وہی مصیبت ہے کہ حضرت امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) نے بارہا جس کو بیان کیا ہے اور اس کا شکوہ کیا ہے۔ ضروری ہے کہ امت کے باہوش افراد عوام الناس کو اس سے واقف کرائیں۔ سچے علمائے کرام اور دین کو دنیا کے ہاتھوں بیچنے والے زرخریدوں کے درمیان فرق کو واضح کریں۔2- خاص طور پر اس زمان و مکان میں جس پر غور و فکر ضروری ہے، اپنی تاریخ سے امت اسلامیہ کے منسلک ہونے کا مسئلہ ہے اور اسی طرح اس انجام کے بارے میں بھی غور و فکر ضروری ہے جو امت اسلامیہ کو خود اپنے لئے رقم کرنا ہے۔ امت اسلامیہ کا ماضی ایسا ہے کہ سامراج نے ایشیا اور افریقا میں اپنی آمد کے بعد اسے مخدوش کرنے اور اس بات کی بہت کوشش کی کہ اس کو فراموش کر دیا جائے۔ اسلامی ملکوں کے مادی اور افرادی قوت کے ذخائر پر تسلط اور مسلمان اقوام کے امور پر قبضے کا جو اٹھارھویں صدی کے اواخر سے سامراجیوں کا براہ راست اور بالواسطہ ہدف رہا ہے، تقاضا تھا کہ مسلمان اقوام کا تشخص اور ان کے اندر پایا جانے والا احساس عظمت ختم کر دیا جائے اور انہیں ان کے پرشکوہ ماضی سے بالکل الگ کر دیا جائے اور اس طرح انہیں اپنے اخلاقی اصول و ثقافت کو چھوڑ کے مغربی ثقافت اور سامراجی تعلیم کو قبول کرنے پر مائل کیا جائے۔ اسلامی ملکوں میں حکمفرما بدعنوان اور استبدادی حکومتوں کے تسلط سے پیدا ہونے والے ساز گار حالات میں یہ حیلہ کارگر ہوا اور مغربی ثقافت اور ان تمام چیزوں کا سیلاب شروع ہو گیا کہ جنہیں سامراج مسلم اقوام پر اپنے سیاسی اور اقتصادی تسلط کے لئے ان کے درمیان پھیلانا ضروری سمجھتا تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی ممالک دو سو سال تک مغربی لٹیروں کی لوٹ مار کی آماجگاہ بنے رہے اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ انہوں نے براہ راست حکمرانی سے لیکر، قدرتی ذخائر پر قبضے، یہاں تک کہ قومی زبان کے رسم الخط کی تبدیلی، فلسطین جیسے ایک اسلامی ملک پر مکمل قبضے اور اسلامی مقدسات کی توہین تک سب کچھ کیا اور مسلمانوں کو علمی و ثقافتی رشد سمیت، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی خودمختاری کی تمام برکات سے محروم کر دیا۔آج مسلمان ملکوں کی ثقافتی، سماجی، اقتصادی اور فوجی حالت پر ایک نظر، مادی اور معنوی کمزوری کے مشاہدہ اوران ملکوں کی اکثر حکومتوں کی حالت اور ان کے سیاسی نظاموں پر غور کرنے سے ، جن میں ہر چیز ناتوانی اور احساس ذلت کی عکاسی کرتی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ ان ملکوں اور اقوام کا اپنی تاریخ ، ماضی اور اس عظمت سے کٹ جانا ہے جو ہر کمزور اور نا امید انسان میں امید کی روشنی اور سعی و کوشش کا جذبہ پیدا کر سکتی ہے۔ اس تاریخی عظمت و شکوہ کی بنیاد خدا کے لئے قیام اور مخلصانہ جہاد کے آغاز میں، اسلام کے حریت آموز اور حیات بخش احکام پر عمل ، صدر اسلام میں مسلمانوں کی سعی و کوشش، مکے کے ایام غربت اور مدینے کے عہد جہاد میں رکھی گئی تھی۔ وہ نومولود جس کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے حجاز کے جہاد اور جدوجہد کی برکت سے ایک طاقتور اور ذہین نوجوان میں تبدیل ہوا اور پھر صدیوں اس نے دنیا میں اقتدار و سیاست کا پرچم سربلند رکھا اور علم و معرفت کی روشنی پھیلائی۔ اس عظمت کا سرچشمہ مکے اور مدینے کے جہاد کی عظمت کا سرچشمہ تھا۔مکہ اورمدینہ مرکز وحی اور اس مومن و مجاہد جماعت پر برکات الہی کے نزول کا مقام ہے جس نے آیات الہی پر ایمان و عمل کی برکت سے خاک مذلت کو ترک کرکے وہ آزادی حاصل کی جو بشریت کے شایان شان ہے۔ آزادی بشریت اور دولت و طاقت کے سلطانوں کے تسلط سے بنی نوع انسان کی رہائی کا پرچم بلند کیا، اس نور معرفت سے جس کا سرچشمہ قرآن تھا، دانش بشری کا عظیم مرکز قائم کیا، صدیوں علم و معرفت بشری کی روشنی پھیلائی، پوری بشریت کو چشمہ علم سے سیراب کیا، صدیوں گرانبہا ترین علمی آثار رقم کئے اور عالم بشریت کی تقدیر کو اپنے علم ، سیاست اور ثقافت سے جوڑ دیا۔ یہ سب زمانہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور صدر اسلام کے ایک دور میں، حکومت الہی اور خالص اسلامی تعلیمات کی برکت سے تھا جو شاہی حکومتوں کے شجرہ خبیثہ کے رشد و تسلط اور عہد توحید سے لوگوں کے پلٹ جانے کے باوجود صدیوں مسلمانوں کو اپنے ثمرات عطا کرتی رہیں اور ان کے ذریعے پوری بشریت کو سیراب کیا جاتا رہا۔ اس سرزمین کی ایک ایک بالشت زمین پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور آپ کے باوفا اور نورانی ساتھیوں کی یاد دلاتی ہے۔ اسی سرزمین سے اسلام طلوع ہوا، پرچم اسلام بلند ہوا اور جہالت کی تمام زنجیروں سے بشریت کو آزادی ملی۔آج جبکہ مسلمان اقوام میں صدیوں کے زوال ، جمود اور تذلیل کے بعد بیداری اور خدا کے لئے قیام کا رجحان پیدا ہوا ہے اور بہت سے اسلامی ملکوں میں آزادی و خودمختاری اور اسلام و قرآن کی طرف واپسی کی خوشبو پھیل گئی ہے، مسلمانوں کو اپنے نورانی اورمعجز نما ماضی، اسلام کے ابتدائی دور کی اسلامی جدوجہد اور خدا کے لئے قیام کے دور سے اپنے رشتوں کو زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سرزمین کی اسلامی یادیں، ہر صاحب تدبر مسلمان کے لئے ایسی شفابخش دوا ہے جو اس کو کمزوری، زبوں حالی، مایوسی اور بد گمانی سے نجات دلاکر اسلامی اہداف کے حصول کا راستہ دکھاتی ہیں، جو ہمیشہ ہر صاحب حکمت وتدبر انسان کی زندگی اور سعی و کوشش کا ہدف ہے۔ اس سرزمین پر پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اپنے یاران باوفا کے ساتھ تیرہ سال تک سختیاں اور مشقتیں برداشت کیں تب جاکے اسلام کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ اسی سرزمین پر کئی سال شعب ابیطالب میں مصیبتوں سے پر زندگی گزارنے، بلال، عمار، یاسر، سمیہ، عبداللہ بن مسعود اور ایسے ہی ديگراصحاب کو سخت ترین ایذائیں دیئے جانے، مکہ اور طائف کے قبائل کے درمیان رسول خدا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طویل اور پر مشقت رفت و آمد کے بعد اہل یثرب سے بیعت عقبہ واقع ہوئی اور مدینہ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جانب ہجرت پربرکت پیش آئی اور اسلامی حکومت تشکیل پائی۔ یہاں فتح بدر، شکست احد، معرکہ خندق اور حدیبیہ کے امتحان کا سامنا ہوا۔ یہاں اخلاص اور جہاد نے فتح رقم کی اور دولت پرستی اور غنیمت طلبی نے ناکامی دکھائي۔ یہاں ایک ایک آیت کرکے قرآن نازل ہوا، اسلامی تمدن و ثقافت اور اسلامی حیات طیبہ کی بنیاد کی ایک ایک اینٹ رکھی گئی۔ مسلمان اس ماضی پر پرتدبر اور اس کے ساتھ ایک ایک لمحہ زندگی گزار کے، مستقبل کے ساتھ تعمیری رابطہ قائم کر سکتے ہیں، زندگي کی راہ اس کے ہدف کو پہچان سکتے ہیں، راستے کے خطرات سے آگاہ ہو سکتے ہیں، اس تحریک کے مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور خود کو یہ راستہ طے کرنے کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں اور کمزوری اور حقارت کے احساس اور دشمن کے خوف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں اور یہ سب حج کی برکت سے ہے۔میں نے جو کچھ کہا اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کل کے استعمار اور آج کی سامراجی اور تسلط پسند طاقتیں ماضی سے مسلمانوں کے فکری اور جذباتی لگاؤ سے کیوں ڈرتی ہیں؟ یہ ماضی سے تعلق ہے جو حال اور مستقبل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوریہ کے قیام اور اس اعلان کے بعد کہ ایرانی قوم اسلامی اقدار پر استوار ایک معاشرہ وجود میں لانا اور اس میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتی ہے، مشرق و مغرب اور ان سے وابستہ ملکوں کے تشہیراتی اداروں نے اسلامی جمہوریہ کو بنیاد پرست، قدامت پسند اورماضی کی طرف جانے والا رجعت پسند نظام قرار دیا اور یہ کہتے ہوئے کہ ایران اسلامی، ماضی کی روایات کی پابندی چاہتا ہے، اس پر سخت تشہیراتی حملے شروع کئے جبکہ رجعت پسند، استبدادی اور قدیم کھوکھلی روایات کے پابند نظام جو نئی عالمی اصطلاحات جیسے آزادی، ڈیموکریسی اور انسانی حقوق کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں، دنیا کے مشرق اور مغرب میں کم نہیں ہیں لیکن ان پر کبھی تشہیراتی حملے نہیں کئے گئے۔ عبرت انگیز بات یہ ہے کہ ان حکومتوں کے ریڈیو نے بھی جن کے یہاں نئی سیاسی روش کے ابتدائی ترین طور طریقے کی بھی کوئی خبر نہیں ہے، قومی پارلیمنٹ نام کی کوئی چیز ان کے یہاں نہیں ہے، آزاد انتخابات اور غیر سرکاری اخبارات و جرائد افسانے کی حیثیت رکھتے ہیں، وہ بھی اس ملک کو جہاں اسلامی عوامی حکومت ہے، اسلامی قوانین عوام کے منتخب اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ میں پاس ہوتے ہیں اور عوام کی منتخب حکومت ان کا نفاذ کرتی ہے اور اس کے تمام حساس مسائل میں عوام کی فعال مشارکت ہوتی ہے، اس کو رجعت پسند کہا اور دنیا کے صاحبان عقل کو اس مضحکہ خیز تقلید پر ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ جی ہاں، سامراج اور اس کے تشہیراتی اداروں ، اس کے زرخرید قلم اور پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکروں کو اس ملک سے جو قدامت پرستی کی گہرائیوں میں غرق ہو اور اس قوم سے جو جاہلیت کی رسومات میں جکڑی ہوئی ہو لیکن اس کے مادی خزانوں کے دروازے ان پر کھلے ہوں ، نہ صرف یہ کہ کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ اس سے بہت خوش ہیں۔ لیکن جن اقوام کا ماضی انہیں عزت و عظمت کی یاد دلائے، جہاد اور شہادت کے راستے ان کے لئے کھول دے، انہیں انسانی کرامت واپس دلائے، ان کی دولت و عزت کو تسلط پسندوں کی غارتگری سے محفوظ بنا دے، انہیں آیہ ولن یجعل للکافرین علی المومنین سبیلا (7) کی تعلیم دے ، آیہ کریمہ وللہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین (8) انہیں پڑھ کے سنائے، وما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین (9) کا خطاب ان کے دل و دماغ تک پہنچائے اور ان الحکم الا للہ (10) کا فرمان ان کی زندگی میں نافذ کرے ، مختصر یہ کہ خدا، دین اور قرآن کو ان کی زندگی کا محور بنا دے اور ان کی زندگی سے تسلط پسند، مستکبر اور مستبد طاغوتوں کا تسلط ختم کر دے، وہ ایسے ماضی کی طرف واپسی اور ایسی تاریخ سے منسلک ہونے سے ناراض، سراسیمہ اور خوفزدہ ہیں۔ اس لئے ہر قیمت پر اس کو روکنا چاہتے ہیں۔ مسلمین، بالخصوص وہ معاشرے جو الہی قیام اور آزادی کی نسیم سے آشنا ہو چکے ہیں، خاص طور پر علماء دانشور اور آگے آگے رہنے والے حضرات، ہوشیار رہیں کہ کہیں اس دام میں نہ پھنس جائیں۔ بنیاد پرستی کے الزام سے نہ ڈریں، رجعت پسندی اور قدامت پسندی کے بہتان سے نہ گھبرائیں، خبیث اور چالاک دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اسلامی بنیاد، اسلام کے نورانی احکام اور دینی معاشرے نیز توحیدی نظام کے اہداف کی تشریح سے اظہار برائت نہ کریں، خدا کے کلام کو سنیں کہ ولن ترضی عنک الیھود و لاالنصاری حتی تتبع ملتھم (11 ) اور قل یا اھل الکتاب ھل تنقمون منا الا ان امنا باللہ وما انزل الینا وما انزل من قبل وان اکثرکم فاسقون (12) اور فلعلک تارک بعض ما یوحی الیک وضائق بہ صدرک ان یقولوا لولا انزل علیہ کنز او جاء معہ ملک (13) اور وما نقموا منھم الا ان یومنوا باللہ العزیز الحمید (14) حج میں، مکے اور مدینے میں، احد میں، حرا میں، اس سرزمین میں جہاں رسول اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) اور آپ کے اصحاب کرام کے مبارک قدم پڑے اور یہ سرزمین ان کی مشقتوں، مصبتوں، مجاہدتوں اور غم و اندوہ کی شاہد رہی، وحی، جہاد، قرآن اور سنت کی اس سرزمین پر، ہر قدم پر، اس کے ماضی پر غور کریں۔ خود کو اس سے جوڑیں، اس کے سائے میں راستے اور سمت کی جستجو کریں، سرانجام اس کے تجربے سے آپ کو راستہ مل ہی جائے گا۔ خدا پر توکل اور اس کی قوت کاملہ کے سہارے، اس سے لو لگاکے، اس کی نصرت اور اپنی توانائی پر اعتماد کرکے اس راستے اور سمت میں قدم بڑھائیں واللہ معکم ولن یترکم اعمالکم (15) 3- ایک اور اہم موضوع جس پر عازمین حج کو حج کے ایک اہم ہدف کے عنوان سے توجہ دینی چاہئے، اسلامی دنیا کے اہم اور موجودہ مسائل ہیں۔ اگر حج پوری دنیا کے مسلمانوں کا سالانہ اجتماع اور کانفرنس ہے تو یقینا اس اجتماع اور کانفرنس کا سب سے اہم اور فوری ترجیحات، دنیا کے ہر علاقے کے مسلمانوں کے موجودہ مسائل ہیں۔ یہ مسائل سامراجی تشہیرات میں اس طرح پیش کئے جاتے ہیں کہ نہ اس سے مسلمانوں کو کوئی درس ملے، نہ تجربہ حاصل ہو اور نہ ہی ان کے اندر کوئی امید پیدا ہو اور اگر کسی واقعے اور حادثے میں سامراج کی بد نیتی اور بد عملی موثر واقع ہو جائے تو حقائق سامنے نہ آئیں اور مجرم رسوا نہ ہوا یا اس کو پیش ہی نہ کیا جائے۔ حج وہ جگہ ہے جہاں یہ تشہیراتی خیانت آشکارا، حقیقت بے نقاب اور مسلمانوں کی عام واقفیت کے لئے حالات ہموار ہونے چاہئیں۔ اب اسلامی دنیا کے اہم واقعات کی فہرست مسلمان بہنوں اور بھائیوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ الف: آج اہم ترین مسئلہ فلسطین کا ہے جو گذشتہ نصف صدی کے دوران ہمیشہ اسلامی دنیا اور شاید عالم بشریت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے۔ یہ ایک قوم کی مصیبت، بے وطنی اور مظلومیت کی بات ہے۔ ایک ملک غصب کر لئے جانے کا معاملہ ہے۔ اسلامی ملکوں کے قلب میں اور عالم اسلام کے مشرق و مغرب کے سنگم پر ایک سرطانی پھوڑا وجود میں لانے کی بات ہے۔ یہ اس مستقل ظلم کی بات ہے جو فلسطین کی دوسری نسل کو دامنگیر ہے۔ آج جبکہ سرزمین فلسطین میں عوام الناس پر استوار خونیں قیام نے بے دھڑک جرائم کا ارتکاب کرنے والے، انسانیت سے ناواقف اور بے ضمیر جارحین کے لئے سنجیدہ خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے تو دشمن کا طریقہ کار پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہوگیا ہے۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس مسئلے میں پہلے سے زیادہ سنجیدگی سے کام لیں، اس کی چارہ جوئی کریں اور اقدام کریں۔ آج اسلامی دنیا کی آشفتہ حالی اور امریکا کی بے لگام طاقت پر علاقے کے ملکوں کے روز افزوں انحصار نے غاصب صیہونی حکومت کے حملے کے لئے زمین ہموار کر دی ہے، جو بڑے شیطان کی---جو واقعی اسلام اور مسلمین کا خطرناک ترین دشمن ہے--- پشت پناہی سے اپنے کھلے اہداف کے جنہیں اس نے کبھی بھی چھپانے کی زیادہ کوشش نہیں کی ہے ، حصول کے لئے تگ و دو کر رہی ہے۔ سوویت یونین کے یہودیوں کی منتقلی جو اس سابق سپر پاور کے لئے مغرب کی امداد کا ایک حصہ ہے، ایتھوپیا کے یہودیوں کی منتقلی جو فلسطین کے غاصب امریکی اور یورپی صیہونیوں کی خدمت کے لئے منتقل کئے گئے ہیں اور حال ہی میں ہندوستانی یہودیوں کی منتقلی، مقبوضہ فلسطینی اور حتی ممکنہ طور پر لبنان کے مقبوضہ علاقوں میں بھی صیہونی کالونیوں کی تعمیر فوجی وسائل اور عام تباہی کے ہتھیاروں میں اضافہ، جبکہ امریکا نے مشرق وسطی میں ان ہتھیاروں کی برآمد پر پابندی کے نعرے بلند کئے ہیں، جنوبی لبنان پر مسلسل، ہر روز ہوائی حملے، نہتے فلسطینی اور لبنانی عوام پر بمباری، عرب فلسطینی شہریوں یعنی فلسطین کے اصلی مالکین کے ساتھ روز افزوں سختی، عوام کے ساتھ پولیس کی وحشیانہ ترین مجرمانہ روش اسی کے ساتھ سیاسی میدان میں پی ایل او اور عرب حکومتوں کی پسپائی اور بعض عرب سیاستدانوں کی جانب سے کمزوری کے مظاہرے کے مقابلے میں جارحانہ پوزیشن اختیار کرنا اور حتی بین الاقوامی یا علاقائی سطح کی کانفرنس کرانے کی فکر، ایک طرح سے سب کو مسترد کر دینا اور سرانجام سرزمین فلسطین کے ایک گوشے میں فلسطینی حکومت کی تشکیل کی تجویز کو بھی جو فلسطینی فریقوں کی پسپائی اور ذلت قبول کرنے کا نتیجہ تھی، صراحت کے ساتھ اور سختی سے مسترد کر دینا، صیہونیوں کی آشکارا اور انسانیت سوز پالیسیوں کا مجموعہ ہے اور یقینا ان آشکارا اقدامات کےساتھ ہی اس کی کئی گنا ، خفیہ سرگرمیاں، سازشیں، شخصیات کے قتل، لوگوں کے اغوا کی وارداتیں، نفسیاتی جنگ، زہریلے پروپیگنڈے اور ایسے روایتی اور غیر روایتی جرائم کے لئے جاری ہیں جن کا ارتکاب صرف صیہونیوں اور ان کے حامیوں سے ہی ممکن ہے۔ عالمی سامراج اور استعماری حکومتوں نے شروع سے لیکر آج تک غاصب اسرائیلی حکومت سے علاقے کی عرب اور اسلامی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے ایک حربے کی حیثیت سے کام لیا ہے۔ اسی مقصد سے اس کو قائم کیا ہے اور چاہتی ہیں کہ اسلامی دنیا کے پہلو میں چبھائے گئے اس خنجر کو ہمیشہ اسی طرح باقی رکھیں۔آج اس پالتو کتے کی باگ ڈور بڑے شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی، انسانی حقوق کی مسلسل پامالی اور وہ بھی انتہائی وحشیانہ انداز میں، پڑوسی ملکوں پر مسلسل جارحیت، دہشتگردانہ کاروائیاں، کھلے عام لوگوں کا اغوا اور ایٹمی اور دوسرے عام تباہی کے ہتھیاروں کا حصول کہ ان میں سے کوئی بھی کام اگر دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میں ہو جائے جو امریکا یا دوسری طاقتوں سے مالک اور غلام کا رابطہ نہ رکھتا ہو، تو بہت بڑا واقعہ سمجھا جائےگا ، صیہونیوں سے قابل قبول ہے اور سامراجی طاقتیں بالخصوص امریکا اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا۔بنابریں آج غاصب صیہونی حکومت اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے حال اور مستقبل کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس کے علاج اور اس بڑے ظلم کو دور کرنے کے لئے چارہ جوئی ضروری ہے۔ افسوس کہ اکثر اسلامی ملکوں کے سربراہوں میں اس بڑے خطرے کے علاج کے لئے جو نسل پرست صیہونی حکومت کے خاتمے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ، عزم و ارادے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی بلکہ اس کے برعکس بعض عرب حکومتوں میں کیمپ ڈیوڈ کی توسیع اور سادات نے جو خیانت کی ہے اس کی تکمیل کی چاہت ضرور نظر آتی ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ ان حکومتوں نے اپنے اس ذلت آمیز طرز عمل اور مسلمانوں اور عربوں کے دشمن کے سامنے شرمناک انداز میں سر بسجود ہو جانے پر اپنے عوام اور خدا کے لئے کیا جواب تیار کیا ہے؟ اس خطرے کا حقیقی علاج مسلمانوں کے پاس ہے۔ وہ مسلمان مجاہدین کی حقیقی امداد کے ذریعے فلسطین کے اندر تحریک اور قیام کو قوی تر اور محکم تر کر سکتے ہیں۔ وہ مختلف طریقوں سے، علاقے کی حکومتوں کو امریکا کی خواہش اور مطالبے پر اسرائیل کے ساتھ ساز باز سے روک سکتے ہیں۔ لبنان کے سربلند مسلمانوں کی فداکاری اور ان کے دلیرانہ اقدامات، جنہوں نے بارہا صیہونیوں اور ان کے حامیوں کو کمزور اور دفاعی پوزیشن میں پہنچا دیا ہے، اس کے گواہ ہیں کہ اقوام اور مومن نوجوان عظیم کارناموں پر قادر ہیں۔ب: ایک دوسرا مسئلہ بعض عرب اور افریقی ملکوں میں اسلامی تحریکوں کا ہے۔ یہ عالم اسلام کے نوید بخش ترین واقعات ہیں کہ کوئی قوم اپنے نوجوانوں کی مدد سے، اپنے دانشوروں کے تعاون سے، کوچہ و بازار کے لوگوں اور عوام کی شراکت سے اسلامی احکام کے نفاذ اور اسلامی حکومت کے قیام کا دعوا کرے اور اس راہ میں آگے بڑھے۔ایران میں اسلامی انقلاب کے طلوع ہونے اور اسلامی حکومت قائم ہونے سے دوستوں میں یہ امید اور توقع پیدا ہوئی ہے اور سامراجی کیمپ میں جس میں امریکا سب سے آگے ہے، یہ تشویش پائی جاتی تھی کہ ایران کا اسلامی انقلاب پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کی کا میابی کا سر آغاز بن جائےگا ۔پوری دنیا میں ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، اس سے قبل اور اس کے بعد ایران اسلامی پر مشرق اور مغرب کے مشترکہ دباؤ کا بڑا حصہ اس خیال خام کے تحت رہا ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کی شکست سے تمام ملکوں میں مسلمانوں کی نگاہ میں اسلامی تحریک کا تجربہ ناکام ہو جائےگا اور پھر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ان کے دلوں میں جو امید کی روشنی پیدا ہوئی ہے، وہ ان کی توانائی کو اس مبارک راہ میں نہ لگا سکےگی۔ آج بھی سامراجی پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکر جو یہ وسیع پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ ایران میں اسلامی انقلاب رک گیا ہے، ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے، اسلامی جمہوری نظام عظیم الشان امام ( خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ) کے راستے سے ہٹ گیا ہے اور غدار امریکا سے آشتی کی کوشش کر رہا ہے، اس بے بنیاد پروپیگنڈے کا ہدف بھی اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ یہ وہی پروپیگنڈہ لاؤڈ اسپیکر ہیں جنہوں نے حضرت امام (خمینی) قدس سرہ کی زندگی میں بارہا اسرائیل کے ساتھ رابطہ برقرار کرنے، اس سے اسلحہ خریدنے اور اس کے ہاتھ تیل بیچنے کا بہتان بے شرمی کے ساتھ اسلامی ایران پر جو غاصب صیہونی حکومت کا سب سے بڑا دشمن ہے، لگایا تھا۔ خدا کا شکر کہ سامراج کی کوئی بھی کوشش، چاہے وہ عملی اقدام کی رہی ہو یا تشہیراتی، کارگر نہیں ہوئی اور امید کا وہ شعلہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کے عزم محکم سے اسلامی دنیا اور مسلمانوں کے گھروں میں ضوفشاں ہوا، اس نے اپنا کام کر دیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج متعدد اسلامی ملکوں میں عوامی تحریکوں کی شکل میں اسلامی حکومت کے مطالبات دیکھے جا رہے ہیں۔ لیکن میں ایک ہمدرد اور تجربہ کار بھائی کے عنوان سے اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ ان اقوام بالخصوص ان کے رہنماؤں، روشنفکروں اور علمائے دین کو یاد دہانی کرا دوں کہ ؛ اولا اس راستے میں، بے صبری اور بے بصیرتی سے تحریک کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس لئے صبر اور بصیرت پر دوسری چیزوں سے زیادہ توجہ دیں۔دوسرے، اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کا مطلب جاہلیت کی اقدار اور طاغوتی نظاموں کے خلاف اٹھنا ہے کہ جنہوں نے بشریت کو زنجیروں میں جکڑ رکھا ہے، ظلم اور برائیوں کو عام کیا ہے، طبقاتی اور نسلی امتیاز کی بنیاد رکھی ہے، اقوام میں فحاشی اور یہ فکر پھیلائی کہ انہیں ظلم و ستم اور دیگر مصیبتوں کو قبول کر لینا چاہئے اور اپنا سب کچھ دولت اور طاقت والوں کی ظالمانہ حکمرانی اور ان کے منافع میں اضافے پر قربان کر دینا چاہئے۔ بنابریں صحیح اسلامی تحریک اقدار کے دو نظاموں کے درمیان صف آرائی اور دو ثقافتوں کے درمیان تصادم سے عبارت ہے۔ یہ بشریت کو پابہ زنجیر کرنے کی ثقافت اور بشریت کو نجات دلانے کی ثقافت کے درمیان ٹکراؤ ہے۔ لہذا ہر اسلامی تحریک کو دنیا کے تمام تسلط پسندوں کے مقابلے میں مزاحمت کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ دھوکے میں اس پر وار نہ ہو سکے۔تیسرے، دشمن تشہیراتی حربوں سے کام لیکر کوشش کر رہا ہے کہ آپ اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے نام سے دستبردار ہو جائیں اور شاید بعض سادہ لوح یہ سوچنے لگیں کہ امریکا اور مغربی حکومتوں کو ناراض کرنے سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ آشکارا بیانات میں اسلامی حکومت کا نام لینے سے سے اجتناب کیا جائے۔ میری نصیحت یہ ہے کہ اس مصلحت کوشی کے تحت، (اسلامی حکومت کا نام لینے سے) اجتناب، خلاف مصلحت ہے۔ اسلامی نظام اور اسلام و قرآن کی حکومت کے قیام کے ہدف کا ہر حال میں کسی بھی تردد و تامل کے بغیر صراحت کے ساتھ بار بار اعلان کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کے مقدس نام سے عدول، دشمن کے اندر لالچ پیدا کر دے اور ہدف کو مبہم اور غبار آلود بنا دے۔ چوتھے، اسلام اور اسلامی تحریکوں کو ہمیشہ کھلے کفر سے زیادہ نفاق سے نقصان پہنچا ہے۔ آج امریکی اسلام کا خطرہ یعنی جہاں اسلام کے نام اور عنوان سے طاغوتوں کی خدمت اور امریکا اور دیگر سامراجیوں کے اہداف کے لئے کام لیا جائے، اس کا خطرہ فوجی اور سیاسی وسائل سے کمتر نہیں بلکہ زیادہ ہے۔ امریکی اسلام کے علم برداروں سے چاہے وہ عالم دین کے لباس میں ہوں اور چاہے سیاستدانوں کے حلئے میں، ہوشیار رہیں۔ ان کی گفتگو ، اشاروں اور پالیسیوں پر اعتراض کریں اور ان کی مدد کی کوشش ہرگز نہ کریں۔پانچویں، دیگر ملکوں میں اسلامی تحریکوں کے تجربات اور ان کی حالت سے بے خبر نہ رہیں اور سامراج کی خواہش کے برخلاف ان سے رابطہ برقرار رکھیں۔ چھٹے آیہ شریفہ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا و لاتفرقوا کو جس میں دین سے تمسک اور وحدت کلمہ کی پابندی کی سفارش کی گئی ہے، ہمیشہ یاد رکھیں، دونوں سفارشوں کو اپنا نصب العین قرار دیں اور اس سلسلے میں دشمن کی مکاری سے ہوشیار رہیں۔ ج: عالم اسلام کا ایک اور مسئلہ عراق اور اس قوم کی مصیبت اور دردناک حالت ہے جو اپنے حکام کی بدنیتی اور غلط اقدامات کی وجہ سے، گھٹن اور آمرانہ حکومت برداشت کرنے اور اس کے بعد کہ دس سال سے اب تک پڑوسیوں کے خلاف غیر عادلانہ جنگ پر مجبور ہوئی، ملک کے حکام کی ابلہانہ فکر اور جاہ طلبی کے نتیجے میں اس کے ہزاروں مرد ، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان بمباریوں اور تخریبی کاروائیوں میں قتل کر دیئے گئے۔ جس نے عزیزوں کا داغ اٹھایا، لوگ زخمی ہوئے، معذور ہوئے، بے گھر ہوئے، اس کی تاریخی اور قومی دولت و ثروت کا بڑا حصہ غارت ہوگیا اور اب وہی حکام جو ان تمام مصیبتوں کا موجب تھے، براہ راست اس قوم کو ختم کر رہے ہیں، بمباری اور کیمیائی اسلحے اور عام تباہی کے دیگر ہتھیاروں سے اس قوم کا قتل عام کر رہے ہیں اور اس کو زندگی سے ناامید کر رہے ہیں۔ جب عراقی فوج نے اس ملک کی حکومت کے سربراہوں کی جاہ طلبی اور لالچ کی تسکین کے لئے کویت پر حملہ اور اس پر قبضہ کر لیا اور امریکا کو خلیج فارس میں اپنی فوج بھیجنے اور اس کے نتیجے میں اپنا منحوس سیاسی اور اقتصادی نفوذ بڑھانے کا نادر موقع دیا اور خلیج فارس کے علاقے کو، عراقی حکومت نے اور اس کے مغربی اتحادیوں، دونوں نے آگ لگادی تو مسلمانوں میں سے کچھ سادہ لوحی میں خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ اور شاید کچھ بد خواہی اور سازش کے تحت اسلامی جمہوریہ ایران سے اصرار کر رہے تھے کہ عراق کی بعثی حکومت کی مدد کرے اور اپنے طور پر جنگ وسیع تر کر دے۔ یہ نظریہ اسلام کے مسلمہ اصولوں کے خلاف تھا جس نے جہاد کو صرف دین خدا کے فروغ یا کمزور اقوام یا اسلامی حکومت کے دفاع کے لئے واجب قرار دیا ہے۔ کسی حملہ آور، جارح، غاصب اور اقتدار پرست حکومت کے دفاع کے لئے نہیں۔ جبکہ بعث پارٹی کا نظریہ دین اور معنویت کے آشکارا اور اعلانیہ انکار پر مبنی ہے۔ اس کا ماضی ظلم، بد عنوانی، گھٹن اور نسل کشی سے پر ہے جس میں عراقی حکومت اپنی مثال آپ ہے، یہ وہ حکومت ہے کہ جس کی سامراجی طاقتوں کی فرمانبرداری اور بے چوں و چرا اطاعت کو ایرانیوں نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے دوران جو سامراج کے کہنے اور اس کے اسلحے اور ہمہ گیر امداد سے اسلامی نظام پر مسلط کی گئی تھی، اچھی طرح دیکھا ہے۔ایسی حکومت کے دفاع کو اسلام نہ صرف یہ کہ جہاد نہیں سمجھتا بلکہ جائز نہیں مانتا ہے۔ لیکن یہ تجویز پیش کرنے والوں میں سے بعض، عراقی حکام کے موقع پرستانہ اور ریاکارانہ بیانات کے زیر اثر آگئے تھے، جو سادہ لوح لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے، ایک مختصر عرصے میں اسلام اور دینی مقدسات کا جھوٹا دم بھرنے لگے تھے۔ بعض سادہ لوح افراد بعثی عراقی حکومت کی بدعنوانی، خباثت اور ظلم کا اعتراف کرتے تھے مگر عراقی قوم کے دفاع کو اپنی اس تجویز کا محرک بتاتے تھے۔ ہم ان سے کہتے تھے کہ مظلوم عراقی عوام کی مدد واجب ہے لیکن جنگ میں شمولیت، عراقی حکومت کے فائدے میں ہے، اس سے اس کا تسلط مستحکم ہوگا عراقی عوام کی کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ یہ عوام مخالف حکومت کی مخالفت اور عراقی عوام کے ساتھ ظلم ہوگا جن پر اس منحوس حکومت نے دس سال سے ایسی جنگ مسلط کر رکھی ہے جس کو وہ نا پسند کرتے ہیں۔اب عراقی حکومت اور عراقی فوج نے امریکا اور اس مغربی اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال کے اور سامراجیوں کی تمام شرائط کو تسلیم کرکے، نامعلوم مدت کے لئے، ناقابل فخر حکومت اور ذلت آمیز اقتدار پر اپنے تسلط کی ضمانت حاصل کرلی ہے۔اس حال میں بھی یہ برسوں سے ظالم و جابر حکومت کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے مظلوم عراقی عوام ہیں جنہیں اس جنگ کے ساتھ ہی، جو حکومت کے سربراہوں کی لالچ اور تسلط پسندی کے باعث ان پر مسلط کی گئی تھی، اس حکومت کی ذلت آمیز شکست کا بھی تاوان ادا کرنا ہے۔یہ وہ حکومت اور فوج ہے جو بیرونی دشمنوں سے جو ان کے گھر کے اندر داخل ہوگئے تھے، سو گھنٹے سے زیادہ جنگ نہ کر سکی، لیکن اب سو دن سے زیادہ ہو رہے ہیں کہ عراقی قوم کی جان کو آئی ہوئی ہے، ان کے گھروں کو منہدم کر رہی ہے، شہروں پر بمباری کر رہی ہے، مقدس مراکز کی توہین کر رہی ہے، لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کر رہی ہے، علماء اور عمائدین کو گرفتار کر رہی ہے اور ان میں بہت سے لوگوں کو وحشیانہ ایذائیں دے رہی اور قوم کا قتل عام کر رہی ہے۔ ملک کے شمالی حصے میں کردوں کا اور جنوبی حصے میں عربوں کا اس طرح قتل عام کیا ہے ، انہیں مارا ہے، دربدر کیا ہے اور انہیں انکے عزیزوں کے غم میں مبتلا کیا ہے کہ حالیہ دور کے کسی بھی معروف مجرم سے بھی ایسے جرائم کے ارتکاب کی بات نہ سنی گئي اور نہ ہی ان کا تصور کیا گيا۔ عراقی عوام کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے جو باضمیر انسان جانوروں کےساتھ بھی نہیں کرتے۔شمالی عراق کے کردوں کی حالت تو امریکا اور مغربی حکومتوں کی برہمی اور دھمکیوں کے باعث فی الحال کچھ بہتر ہے دیکھتے ہیں کہ بعد میں کیا ہوتا ہے لیکن جنوبی عراق کے شیعوں کی حالت بدستور بد تر ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بغض و کینے کا ہدف ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام اور اسلامی حکومت کی تشکیل کا عزم پایا جاتا ہے۔ وہ مستقل خطرات میں ہیں، دین مخالف اور نسل کشی کرنے والی حکومت کی جانب سے مستقل مصیبتوں اور بلاؤں میں گرفتار ہیں۔ یہ عراق کی صورتحال کی سادہ سی تصویر ہے۔ ایک مظلوم، ستم رسیدہ، بے یار و مددگار، نہتی قوم انتہائی ظالم حکومت کے مقابلے میں ہے جو تمام اسلامی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے بے اعتنا اور عوام کا خون بہانے اور ان پر ظلم کرنے میں بیباک ہے اور اس قوم کی یا للمسلمین کی فریاد گونج رہی ہے۔ ابھی حالیہ چند دنوں میں لاکھوں مفرور لوگوں کے محاصرے اور ان پر خونیں حملے کے آثار کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو عراقی فوج کے خوف سے بصرہ، عمارہ اور ناصریہ کے درمیان واقع دلدلی علاقوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں، ان میں عورتیں بچے اور بیمار افراد بھی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان میں سے بہت سے افراد کالرا اور دیگر وبائی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ مغربی ملکوں بالخصوص امریکا نے بعض خبریں اور وہ بھی مختصر اور سرسری انداز میں نشر کرنے کے علاوہ کوئي مدد نہیں کی ہے۔ان مظلوموں کی امید صرف خدا اور مسلمان عوام سے وابستہ ہے جو کم سے کم ان اقدامات پر احتجاج کرکے ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ د: اس کے بعد کا مسئلہ کشمیری مسلمانوں کی حالت کا ہے۔ہندوستانی حکومت نے حالیہ مہینوں میں اسلامی دنیا کے اہم مسائل میں الجھے رہنے سے، کہ جو سب سے الگ پڑے ہوئے ان مظلوم (کشمیری) بھائیوں کی حالت سے غفلت کا موجب ہوا، کشمیری مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔ ان کی جان و مال حتی بعض اطلاعات کے مطابق ان کی عزت و آبرو پر بھی حملے اور غارتگری کا بازار گرم کیا ہے۔ میں اس وقت مسئلہ کشمیر کی ماہیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا اورحالات سے باخبر حضرات جانتے ہیں کہ یہ وہ پرانا زخم ہے جو برطانوی سامراج نے ہندوستان سے مجبور ہوکر نکلتے وقت، برصغیر کے پیکر پر لگایا تھا اور اس طرح ہندوستانی مسلمانوں سے انتقام لیا تھا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہندوستانی حکومت نے اس مسئلے سے نمٹنے میں تشدد اور نامناسب وسائل سے کام لیا ہے اور اس بات سے مطمئن ہوکر کہ بڑی حکومتیں اور انسانی حقوق کے دفاع کی دعوےدار تنطیمیں مسلمانوں کا کوئی عملی دفاع نہیں کریں گی، غیر انسانی روشوں سے کام لیا ہے۔مسلم اقوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ کشمیری مسلمانوں کو توقع ہے کہ وہ ان کا دفاع کریں گی اور یہ مسلمانوں کا اسلامی اور برادرانہ فریضہ بھی ہے۔ حکومت ہندوستان اگر سمجھتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پر دباؤ برقرار رکھےگی اور مسلمین عالم کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آئے گا تو یقینا غلط سوچتی ہے۔ یہاں ضروری ہے کہ بعض ملکوں منجملہ یورپی ملکوں میں مسلم اقلیت کا بھی اشارتا ذکر کر دیا جائے کیونکہ ان مسلمانوں پر جو اپنے اسلامی تشخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں، پڑنے والا دباؤ اس آزادی اور ڈیموکریسی کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جس کا مغرب مسلسل دم بھرتا ہے۔ بعض یورپی حکومتوں میں مساجد کی تعمیر یا اسلامی اجتماعات، یا اسلامی لباس وغیرہ کے تعلق سے جو حساسیت پائی جاتی ہے یا اس سلسلے میں لوگوں کو جو اشتعال دلایا جاتاہے، اس سے مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں ان حکومتوں کے حقیقی موقف سے واقف ہو جانا چاہئے۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں کہ جن کے بارے میں مسلمین عالم کو سوچنا چاہئے اور اس سے آج کے دور میں اپنے فریضے کو سمجھنے میں فائدہ اٹھانا چاہئے۔ہ: اس دور کا ایک اہم مسئلہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات کا مسئلہ ہے۔ البتہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ بعض کلامی اور فقہی مسائل میں اختلاف اور تنازعہ پہلی صدی ہجری سے ہی رہا ہے لیکن اس سلسلے میں نئی بات یہ ہے کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور پوری دنیا میں اس کی فکر کے پھیلنے کے بعد اس ہمہ گیر اسلامی لہر کے مقابلے میں سامراج کا ایک ہتھکنڈہ یہ رہا ہے کہ ایک طرف تو اسلامی انقلاب کو، ایک شیعہ تحریک --اسلامی اصطلاح اور عرف عام میں جو شیعہ کا جو مفہوم رائج ہے اس معنی میں نہیں بلکہ فرقہ واریت کے معنی میں--- کے عنوان سے متعارف کرائے اور دوسری طرف شیعہ سنی اختلافات و تفرقہ پھیلانے کی پوری کوشش کرے۔ ہم نے شروع سے ہی، اس شیطانی چال کے پیش نظر ہمیشہ مسلم فرقوں کے اتحاد و وحدت پر اصرار کیا ہے اور اس فتنہ انگیزی کو ناکام بنانے کی کوشش کی ہے اور الحمد للہ خدا کے فضل سے اس سلسلے میں بہت زیادہ کامیابیاں بھی ملی ہیں جن میں سے تازہ ترین کامیابی، عالمی انجمن تقریب مذاہب اسلامی کی تشکیل ہے۔ اس وقت پوری اسلامی دنیا میں علماء، دانشور، شعرا، قلمکار اور سبھی اسلامی مذاہب کے عام لوگ ایک زبان، ایک جان اور متحد ہوکر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاع کرتے ہیں۔لیکن دشمن پیسے، منصوبہ بندی، پروپیگنڈے اور بے انتہا خباثت سے کام لے رہا ہے اور دنیا میں اس کو کچھ لوگ مل ہی جاتے ہیں جن کے ذہن و زبان پر، وہ لالچ دلاکراور دھوکہ دے کے قبضہ کر لیتا ہے۔ اس لئے کبھی کبھی، کسی ملک میں کوئی سیاستداں یا کسی دوسرے ملک میں کوئی عالم دین کے بھیس میں، یا کوئی انقلابی بن کے شیعوں یا ایرانی قوم کو جو دور حاضر کا عظیم ترین انقلاب لائی ہے اور حیرت انگیز طورپر اس کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہی ہے، برا بھلا کہتا ہے۔ اس کے خلاف زبان اور قلم چلاتا ہے ۔یا نظر آتا ہے کہ مسلمان ملک پاکستان میں جس کی قوم ہماری نظر میں عزیز ترین اقوام میں شمار ہوتی ہے اور جو ہمیشہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاع کی اگلی صفوں میں رہی ہے اور اب بھی ہے، کچھ لوگ اسلام اور وحدت مسلمین کے دشمنوں کے ڈالروں کی لالچ میں جلسے منعقد کرکے اور کتاب اور مقالے لکھ کے اہل تشیع اور اہلبیت رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے شیعوں پر حملے کرتے ہیں اور ان کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں۔ہم ان سب کا ذمہ دار امریکا ، اس کے ساتھیوں اور اس کے زرخریدوں کو سمجھتے ہیں۔ سچے علمائے اسلام اور اقوام کے دامن کو اس سے پاک سمجھتے ہیں۔ یہ ان مسائل میں سے ہے کہ جو مسلمانوں کی ہوشیاری سے حل ہونا چاہئے اور دشمنان اسلام کو غارتگری کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے ۔و: آخری بات، بہت اہم مسئلہ، اسلامی ملکوں کے ذخائر پر بڑے شیطان کا روز افزوں تسلط اور ان ملکوں میں اس کے پہلے سے زیادہ سیاسی اور اقتصادی نفوذ اور فوجی موجودگی کا مسئلہ ہے۔ یہ ظالم اور تسلط پسند بڑی طاقت، دنیا کے حالیہ تغیرات کے بعد جو الحادی کمیونسٹ نظاموں کے خاتمے پر منتج ہوئے اور سوویت یونین امریکا کی رقابت کے میدان سے ہٹ گیا، اس کوشش میں ہے کہ پوری دنیا بالخصوص زرخیز اسلامی علاقوں کواس طرح اپنے تسلط میں لے لے کہ کوئی اس کا مد مقابل نہ رہے ۔امریکا سرد جنگ سے فارغ ہونے کے بعد اسلامی بیداری کے خلاف جو اس کے تسلط کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہمہ گیر جنگ پر کمر بستہ ہے ۔یہ شیطانی حکومت اپنی فطرت مخالف اور انسان دشمن خو کی بناء پر اندر سے لاینحل مشکلات سے دوچار ہے لیکن اپنی سامراجی اور غارتگری کی طینت کے تحت کوشش کر رہی ہے کہ اپنی مشکلات کو پوری دنیا میں منتقل کر دے اور دنیا کے تمام اہم مراکز اور دولت و ثروت کے ذخائر منجملہ مشرق وسطی بالخصوص خلیج فارس پر قبضہ کرکے پہلے سے زیادہ طاقتور انداز میں اپنی زندگی جاری رکھے۔ اگر اس کا یہ منحوس خواب پورا ہوگیا تو اس علاقے کی اقوام پر ایسے سخت ایام گزریں گے کہ جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملے گی۔امریکی حکومت اس شیطانی ہدف کے لئے ہر وسیلے سے کام لے رہی ہے اور افسوس کہ عراقی حکام کی جہالت، غرور، اور اقتدار پرستی نے، جس کے اسباب بھی عراق کے لئے امریکا اور مغرب کی اس سے پہلے کی امداد نے ہی فراہم کئے ہیں، اس علا قے میں ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں کہ اس کے تلخ اور دردناک نتائج سے کم وبیش سبھی واقف ہیں۔ ان نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ امریکا اس علاقے کے بڑے حصے کے بارے میں اصلی فیصلہ کرنے والا بن گیا ہے اوراس نے علاقے کی حکومتوں کو مرعوب کر لیا ہے۔ یہ اس علاقے میں اور دنیا کے جس علاقے میں بھی یہ واقعہ رونما ہو وہاں اسلام بلکہ انسانیت کے وجود کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔آج اسلام اور مومن انسانوں کے بجز، اس بڑے خطرے سے نمٹنے کا کوئی نقطہ امید نہیں ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج حیات آفریں خورشید اسلام ایک بار پھر انسانوں کے دل و جاں کو منور کر رہا ہے اور بہت سی مسلم اقوام نے اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کرنے کے لئے، دین خدا سے لوگوں کو دور کرنے والے عوامل کے خلاف جدوجہد شروع کر دی ہے۔ یہ مبارک اور امید افزا تحریک ہے اور توفیق الہی سے یہی تحریک، امریکا اور دیگر باغی طاقتوں کے شیطانی تسلط کی زنجیر توڑے گی اور سب کو نجات دلائےگی۔ کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی (17) اقوام اور حکومتیں حقیقی محمدی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) اسلام کے رجحان کی نسبت برابر سے جواب دہ ہیں ، جس کا اہم ترین ہدف اقوام کی زندگی سے بڑے شیطان اور دیگر شیاطین کے تسلط اور نفوذ کو ختم کرنا ہے۔اسلامی حکومتیں اگر اپنے ملک اور قوم سے محبت کرتی ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ وہ چیز ہے کہ جو ملکوں اور اقوام کی زندگی، شرف اور خود مختاری اور حکومتوں کی طاقت و اقتدار کی ضامن ہے ۔خداوندعالم سے دنیا کے تمام مسلمانوں کی بیداری، ان کے عز و شرف، سامراج کے چنگل سے ان کی رہائی اور دشمنان خدا سے مقابلے میں ان کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں ۔پالنے والے! مسلمین کے دلوں پر اسلام اور قرآن کی ضوفشانی جاری رکھ۔ ان پر اپنا فضل و رحمت نازل فرما، ان کی نصرت فرما، ان کے دلوں کو امید اور ایمان سے استحکام عطا کر، حضرت ولی اللہ الاعظم ( ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے دل کو ہم سے شاد فرما، ہمارے حق میں ان کی دعا کو مستجاب فرما، حجاج کے حج اور تیری راہ میں کوشش کرنے والوں کی کوششوں کو مقبول فرما، مسلمانوں کے دلوں کو روز بروز نزدیکتر اور تفرقے کے عوامل کو نابود فرما، شہدائے راہ حق کی ارواح اور اس راہ میں قربانیاں دینے والوں کے جسم و جان کو اپنی رحمت سے بہرہ مند فرما۔ پالنے والے! دنیا میں جو تحریک بھی تیرے دین کی حاکمیت کے لئے انجام پائے اس کی جزائے خیر اپنے صالح اور برگزیدہ بندے حضرت امام خمینی کو عنایت فرما۔ آمین یا رب العالمین۔ والسلام علی جمیع اخواننا المسلمین و رحمت اللہ علی الحسینی الخامنہ ای تین ذالحجہ الحرام سن 1411 ہجری قمری مطابق چھبیس خرداد سن 1370 ہجری شمسی (سولہ جون 1991 عیسوی ) 1- سورہ حج ؛ 27 اور 28 2- سورہ توبہ : 3 3- سورہ انبیاء : 92 4- سورہ بقرہ:200 5- سورہ توبہ 3 6- سورہ بقرہ 1977- سورہ نساء : 141 8- سورہ منافقون : 8 9- سورہ نساء : 75 10- سورہ یوسف: 40 11- سورہ بقرہ : 120 12- سورہ مائدہ:59 13- سورہ ھود: 12 14- سورہ بروج : 8 15- سورہ محمد:35 16- سورہ آل عمران:103 17- سورہ مجادلہ : 21
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیرہ خرداد سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق تین جون سنہ انیس سو اکانوے عیسوی کو بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دوسری برسی کے موقعے پر اپنے پیغام میں امام خمینی کی رحلت کو ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام کے لئے عظیم سوگ کا دن قرار دیا۔ آپ نے اپنے پیغام میں امام خمینی رحمت اللہ کی شخصیت اور عظیم خدمات کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملکی اور عالمی امور کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کے موقف پر روشنی ڈالی۔پیغام کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛بسم اللہ الرحمن الرحیم الم تر كيف ضرباللَّه مثلا كلمة طيّبة كشجرة طيّبة اصلها ثابت و فرعها فىالسّماء تؤتى اكلها كلّ حين باذن ربّها و يضرباللَّه الامثال للنّاس لعلّهم يتذكّرون(1)ایک بار پھر چودہ خرداد مطابق چار جون، عالم اسلام کے عظیم سوگ کا دن آ گیا، وہ دن کہ جب ایران میں سورج کے بغیر صج کا آغاز ہوا۔ جس دن انقلاب نے اس قلب تپاں کی دھڑکن نہ سنی۔ وہ دن جب پوری دنیا میں ہر مسلمان اور ہر حریت پسند انسان نے یتیمی کا احساس کیا۔ وہ دن جب ملت ایران نے اس مستحکم چٹان کو جس کا اس کو سہارا حاصل تھا، اس سرو بلند کو جس کے سائے میں وہ سکون سے رہ رہی تھی اور اس روح عظیم کو جو اس قبلہ گاہ عشق و ایمان تھی، اپنے پاس نہ پایا۔ عزاداری کا دن، امتحان کا دن، عظیم سانحے کا دن اور اس سے دائمی میثاق کا دن جس نے اس جامہ عارضی کو حیات ابدی سے تبدیل کر لیا تھا۔جی ہاں اس دن، امام کی جسمانی موجودگی اور آپ کی عینی قربت کی نعمت ہم سے سلب کر لی گئی اور وہ شعلہ برق جو اس زمانے کی مادی اور آلودہ زندگی کی فضا میں قدرت الہی سے ضو فگن ہوا تھا، خاموش ہو گیا لیکن اسی کے ساتھ امام کی معرفت کے نئے پہلو وا ہوئے اور آپ کی حیرت انگیز و بے نظیر رہبری کے برسوں کے ناقابل تکرار لمحات کی یاد سے اذہان غور و فکر کرنے پر جو معمولا کسی شخصیت کے بارے میں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ زندہ رہتی ہے، مجبور ہو گئے اور آنکھیں اس خورشید فروزاں و آفتاب حیات آفریں کو ڈھونڈنے لگیں جو اب دسترس سے دور ایک ستارے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس مجدد دوراں اور یگانہ زمانہ کی تعریف و توصیف میں ایک دن میں اور ایک ہفتے میں جو زبانوں پر جاری ہوا، اشعار میں کہا گیا اور تحریروں میں لایا گیا، وہ ان کی رہبری کے تمام اداوار میں نہیں کہا گیا تھا۔ دوسری طرف امام کبیر و عظیم کے خلاء کے احساس نے ممکنہ خطرات کے اندیشوں میں مبتلا دلوں کو ایک کر دیا اور سب کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر، ان کی گرانبہا میراث یعنی اسلامی نظام اور انقلابی اقدار کے دفاع میں ثابت قدم کر دیا؛ قوم کو نیا جوش و ولولہ، ملک کے خدمتگاروں کو بے مثال عزم اور حکومت اور قوم کے رابطے کو پہلے سے زیادہ استحکام حاصل ہوا۔ اس وارث انبیاء و منادی راہ صالحین کی برکات بیکراں اس کی رحلت کے بعد بھی انقلاب، ملک اور قوم کے شامل حال ہے۔ فسلام علیہ یوم ولد و یوم ارتحل و یوم یبعث حیا اس سانحہ جانکاہ کو دو سال ہو گئے۔ اگر چہ اس دن کی یاد سے جب زمین و آسمان نے گریہ کیا، ایک بار پھر دلوں پر غم و اندوہ کے بادل چھا گئے، لیکن یہ مشاہدہ کہ ہمارے امام عظیم الشان اب بھی انقلاب کے تمام مشاہدات و مناظر میں حاضر و ناظر اور خورشید تاباں کی طرح ضوفگن ہیں، دلوں کو امید و اطمینان سے سرشار کر دیتا ہے۔ خدا کا شکر کہ دشمنوں کی یہ خواہش اور توقع کہ امام کی رحلت کے بعد ملک میں نراجیت پھیل جائے گا، انقلاب بند گلی سے دوچار ہو جائے گا، ایرانی قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور ان کی سازشیں کامیاب ہو جائیں گی، سراب ثابت ہوئی اور ان کا نیرنگ اور چالیں جنہوں نے کوشش کی کہ ملک، قوم اور حکومت، راہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ہٹ جائیں، حکام کی ہوشیاری اور میدان میں عوام کی موجودگی سے ناکام ہو گئیں اور قوم اور حکومت امام کے بتائے ہوئے راستے اور آپ کے معین کردہ خطوط پر اب بھی پوری قوت کے ساتھ گامزن ہے۔اس وقت چار جون کی تلخ یادوں کے ساتھ ہی یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اگر چہ جسمانی لحاظ سے ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنی فکر، اپنے بتائے ہوئے راستے اور اپنی ہمیشہ باقی رہنے والی وصیت کے توسط سے ہمارے درمیان موجود اور زندہ ہیں اور خدا کے فضل و قدرت سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ اس موجودگی اور حیات کو سلب کر سکتی ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ کو اس کے عظیم معلم اور بانی سے الگ کر سکتی ہے۔اب میں چند نکات بیان کرنا چاہتا ہوں؛ دشمن، ایران اسلامی کو امام کے راستے اور ان کے فکری و سیاسی خطوط سے الگ نہیں کر سکے ہیں اور خدا نے چاہا تو کبھی الگ نہ کر سکیں گے، اب اپنے زہر آلود پروپیگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنی بنیاد اور اساس سے الگ ہو چکی ہے۔ یہ خاص طور پر ان مواقع پر اپنے تشہیراتی لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اپنے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو زیادہ زور و شور کے ساتھ دہراتے ہیں جب ملک کے اندر یا عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس زہریلے پروپیگنڈے سے ان کا مقصد اسلامی ملکوں کے انقلابی مسلمانوں کو متاثر کرنا ہے جو ایران اسلامی کی پائیداری اور بیداری سے فکر حاصل کرکے، اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے بہت سے ملکوں میں سامراجی زرخریدوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی اداروں کی کوشش ہے کہ ان بیدار مسلمانوں کی امید اور توقع کو ناامیدی اور بد گمانی میں بدل دیں اور اس کے لئے اس سے بہتر اور موثر کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ملت ایران کے ہراول دستے اور تمام رکاوٹیں دور کرنے والے اسلامی انقلاب کو ناکام اور ناتواں ثابت کریں اور یہ ظاہر کریں کہ ایران اسلامی مشکلات سے دوچار ہوکر، حقیقی محمدی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسلام کے راستے اور امام خمینی ( قدس سرہ ) کی معین کردہ جہت سے ہٹ گیا ہے۔ میں پورے وثوق سے اعلان کرتا ہوں کہ سامراج کی یہ چال خود ایران کے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں اس کی عاجزی کی محکم دلیل ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلامی نظام کی جائے پیدائش میں یہ مقدس جہت اور راستہ جاری ہے۔ ملت ایران اس بات کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہے کہ سامراجی کیمپ بالخصوص غدار امریکا کی زر اور زور زبردستی کی پالیسیوں کے مقابلے میں جو کھلے عام مظلوم اور کمزور اقوام پر تسلط جمانے کی کوشش کرتا ہے، واحد محکم محاذ اسلام اور قرآن سے تمسک اور اس کے حیات آفریں اصولوں کی پابندی ہے اور اس اصول سے انحراف دشمنان اسلام کے نفوذ کا راستہ کھول دے گا اور انہیں اس قوم پر جس نے سامراجیوں کے ناجائز مفادات اور جھوٹی شان پر کاری ترین وار کئے ہیں، انتقام آمیز تسلط جمانے میں کامیاب بنا دے گا۔ بنابریں اس ہوشیار اور دلیر قوم نے اپنی عظیم تحریک کے اوج کے زمانے سے ہمیشہ اپنے پورے وجود سے حقیقی محمدی ( صل اللہ علیہ والہ وسلم ) اسلام کا دفاع کیا ہے اور سامراجی سربراہوں اور امریکی اسلام کی ترویج کرانے والوں کی سازشوں اور چالوں کے مقابلے میں مجاہدت کی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ اسی طرح یہ مجاہدت جاری رہے گی۔دوسری بات یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں اسی سیاست کے تحت جس کا ابھی ذکر کیا گیا، سامراجی پروپیگنڈہ اداروں نے مغربی ملکوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے روابط کا مسئلہ اٹھایا ہے، اس کو بحث کا موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے دعوے، تجزیئے اور نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ پروپیگنڈہ ادارے، مختلف سمتوں سے مگر مشترکہ مقصد کے تحت، اس عوامی اور اسلامی نظام پر سوالیہ نشان لگانے اور اس کی حیثیت کو مجروح کرنے کے لئے اس مسئلے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ میں اس ہوشیاری اور قوت تجزیہ پر جو الحمد للہ انقلاب کی برکت سے ہمارے عوام کے اندر پیدا ہوئی ہے، مکمل اعتماد اور اطمینان کے ساتھ یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سامراجی ترجمانوں کے دعوؤں اور ان کی خواہش کے برخلاف، اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی جس کی اصل بنیاد نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول ہے، تبدیل نہیں ہوئی ہے اور کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دشمنوں کا افواہ پھیلانا اور ہلڑ ہنگامہ ایران اسلامی کی قوم کو اس راہ سے ہٹانے پر قادر نہیں ہے جس کا اس نے بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا ہے۔اس زمانے میں جب دنیا کی مشرقی اور مغربی بلاک میں تقسیم کے باعث حکومتیں، حتی ملکوں میں آنے والے سیاسی اور انقلابی تغیرات بھی، ان دونوں میں سے کسی ایک سے ملحق ہونے اور امریکا یا سوویت یونین میں سے کسی ایک کے حکام کا تسلط قبول کرنے پر مجبور تھے، نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول اس طلسم کو توڑنے اور دونوں سپر طاقتوں سے آزادی کے لئے اپنایا گیا تھا اور آج جبکہ سوویت یونین اور یورپ کے تغیرات کے نتیجے میں مشرقی بلاک ٹوٹ چکا ہے، روس کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہو چکی ہے اور امریکی حکومت کا بظاہر میدان میں کوئی حریف نہیں رہا اور وہ دیوانے پن اور غرور آمیز حرکتوں میں سرگرم ہے، عالمی روابط کے اصول و ضوابط کی کوئی پابندی کئے بغیر تمام اقوام کی مصلحتوں پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے، تمام امور میں خودسرانہ مداخلت کرتی ہے، اس چیز کے حصول کے لئے جس کو اس نے اپنا مفاد فرض کر رکھا ہے، بے لگام ہوکر جرائم کا ارتکاب کرتی ہے، اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک بے گناہوں کے خون سے آلودہ کرتی ہے اور دونوں، سابق مشرقی اور مغربی بلاکوں کو اپنی افواج، جاسوسوں اور تشہیراتی کارندوں کی جولانگاہ بنا رکھا ہے، نہ مشرقی اور نہ مغربی کے اصول کا مطلب اس کے سامراجی تسلط کو نہ تسلیم کرنا، امت اسلامیہ کے مفادات پر اس کی دست درازی کے خلاف مجاہدت اور ان تمام ضوابط اور طریقوں کی نفی ہے جو اس حکومت نے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی جگہ، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے وضع کئے ہیں اور گڑھ لئے ہیں۔اسلامی جمہوریہ امریکی حکومت سے روابط کو مسترد کرتی ہے جو ناحق تسلط اور زور زبردستی کی علامت اور دنیا کی کمزور اقوام پر ستم کا مظہر ہے۔ جب تک یہ حکومت اقوام پر مستکبرانہ مظالم کرتی رہے گی، ملکوں اور حکومتوں میں مداخلت کرے گی، غاصب صیہونی حکومت جیسی ناجائز حکومتوں کی حمایت کرے گی، ستم رسیدہ اقوام کی بیداری اور آزادی کی تحریکوں کی مخالفت کرے گی اور خاص طور پر مسلمان ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام کی دشمنی جاری رکھے گی، اس کے ساتھ ہرگز روابط بر قرار نہیں کئے جائیں گے۔دوسرے ملکوں سے روابط چاہے وہ یورپی ہوں یا ایشیائی، افریقی ہوں یا ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہوں، چاہے دوسرے ممالک ہوں، اگر حکام کی تشخیص ہو کہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہیں، تو ہمارے لئے ہمیشہ پسندیدہ بلکہ ضروری ہیں اور حکومتی عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ ان روابط کو برقرار کریں۔ حکام اور قوم کو معلوم ہونا چاہئے اور معلوم ہے کہ ان روابط کے قیام اور استحکام سے ہمارا نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول مخدوش نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ تنقید اور حکام کی مشفقانہ نصیحت، خدائی نعمتوں اور اسلام کی قابل فخر باتوں اور امور میں رشد، ترقی اور پیشرفت کے اسباب میں سے اور امر بالمعروف کی واضح ترین مصداق ہے اور معاشرے میں اس کو باقی رہنا چاہئے بلکہ اس میں فروغ آنا اور اس کی کیفیت کو بہتر ہونا چاہئے لیکن اس مستحسن اور ضروری کام کو ملک کے اصلی خادمین کی نسبت بد ظنی اور بد گمانی پھیلانے اور ان کی برائی کرنے سے جو حوصلوں کے پست ہونے اور ان کی حیثیت کے کمزور ہونے پر منتج ہو، مخلوط کرنا بہت بڑی غلطی اور بد دیانتی ہے۔اگر کوئی اپنی گفتگو یا تحریر سے یا اپنے عمدی روئے سے، ملک کے اعلی رتبہ حکام کے بارے میں دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرے، ماحول کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرے، اس کو کسی بھی طرح خدمتگزار اور خیر خواہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں جس کا نظام اسلامی اور انقلابی ہے، حکام مکمل طور پر عوامی ہیں، قوم مخلص اور فداکار ہے، عوام اور حکام کے درمیان بے مثال پرخلوص رابطہ پایا جاتا ہے، کام اور پیشرفت کی درخشاں صلاحیت و استعداد موجود ہے اور اس کو دنیا اور اقوام عالم میں نمایاں حیثیت حاصل ہے، یہ کام بیشک ملک کے مستقبل پر وار، انقلابی اقدار سے خیانت اور ناقابل معافی جرم شمار ہوگا۔میں اپنے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روشن اور لا زوال راہ و روش کی پیروی کرتے ہوئے، ملک کے تمام قانونی اداروں کا دفاع اپنا فریضہ اور حکومت، مجلس شورائے اسلامی(پارلیمنٹ)، عدلیہ اور دیگر قانونی اداروں کی پشت پناہی کو اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں اور ملک کے سچے ہمدرد حکام کی نسبت کوئی بھی دشمنانہ اور کمزور کرنے والا طرز عمل برداشت نہیں کروں گا۔ خاص طور پر محترم صدر مملکت اور خدمتگزار حکومت کے دفاع کو جس کو الحمد للہ آج خدا کے فضل سے ایک ایسی ہستی چلا رہی ہے جو درخشاں ترین انقلابی شخصیات اور ملک کے لئے کارآمد ترین ذہین ہستیوں میں سے ہے، جو جد و جہد کے سولہ برسوں اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بارہ برسوں کے دوران ہمیشہ انقلاب کی اگلی صف اور ممتاز حیثیت میں رہی ہے، سب پر واجب سمجھتا ہوں۔ البتہ ملک کے حکام اور ذمہ دار عہدیداروں کو بھی معلوم ہونا چاہئے اور وہ جانتے ہیں کہ تنقید اور نصیحت پر توجہ، کاموں کے نقائص اور عیوب کو دور کرنا، اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی اور انقلابی موقف کا تحفظ ایسا فریضہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں تمام حکام کی لیاقت کا انحصار اس کی ادائیگی اور اس کو محترم سمجھنے پر ہے۔اسلامی نظام میں عدل و انصاف تمام فیصلوں کی بنیاد ہے اور نظام کے تمام ذمہ داروں کو، مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے لیکر مجریہ کے مختلف شعبوں کے حکام، بالخصوص ماہرین اور پالیسیاں تیار کرنے والوں اور عدلیہ کے ججوں، سب کو چاہئے کہ پورے خلوص کے ساتھ معاشرے میں عدل کے نفاذ کے لئے جدوجہد کریں۔ آج ہمارے معاشرے میں قیام عدل کا سب سے بڑا اقدام، محروم، غریب اور کم آمدنی والے طبقات کی محرومیت کو دور کرنا ہے جنہوں نے تمام مراحل میں نظام کا بوجھ سب سے زیادہ اٹھایا ہے اور اب بھی یہ بوجھ انہی کے کندھوں پر ہے، ہمیشہ خلوص اور دل کی گہرائیوں سے انقلاب اور اسلام کا دفاع کیا ہے۔ محروم طبقات کے دفاع کو جو اس انقلاب کے حقیقی مالک ہیں، ملک کے تمام منصوبوں میں سب سے اوپر، مختلف شعبوں میں اقتصادی اقدامات کا کلیدی محور اور تمام طویل المیعاد اور قلیل المیعاد اقتصادی منصوبوں اور پالیسیوں کا معیار ہونا چاہئے اور اس کو اس طرح پرکھا جائے کہ اس ہدف میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے۔اسی طرح نظام کے حکام، مجلس شورائے اسلامی کے اراکین، مجریہ کے ذمہ داروں اور عدلیہ کے عہدیداروں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان بیماریوں سے جو غیر عوامی اور طاغوتی نظاموں میں عام ہوتی ہیں، پوری دقت اور حساسیت کے ساتھ خود کو دور رکھیں۔ رفاہ و آسائش کی خواہش، عیش و عشرت کی طلب، غیر قانونی جوڑ توڑ، مالی اور دفتری بدعنوانی، تکبر، عوام سے دوری، عوام کی ضروریات و مطالبات اور ان کی موجودگی سے بے اعتنائی، غلط پارٹی بازی، عوام کی مصلحتوں پر گروہی مصلحتوں کو ترجیح دینا وغیرہ، یہ وہ بیماریاں ہیں جو لگ جائیں تو کسی بھی نظام کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ اسی طرح طاغوتی طور طریقوں کو پسند کرنا اور ان کے احیاء کی رغبت، اسلامی اور انقلابی اقدار سے بے اعتنائی دل کو مردہ کر دیتی ہے اور عوامی خدمت کے جذبے اور شوق و ذوق کو سلب کرلیتی ہے جنہوں نے راہ انقلاب میں اپنی جان و مال سب کچھ نثار کر دیا ہے۔ ان کو ناامید اور غمگین کر دیتی ہے۔ ہر شعبے میں بالخصوص منصوبہ بندی اور ماہرین کے شعبوں میں نظام کے اہلکاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ واحد چیز جو ملک و قوم کو دشمنوں اور جابروں کے تسلط اور غربت و جہالت کے شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے، اسلامی اقدار اور عدل اسلامی کی پابندی اور اس قوم اور اس کی مخلص اور خالص افرادی قوت پر بھروسہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ملک کو غیروں پر انحصار اور دشمنوں کی محتاجی سے بچا سکتی ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ الشریف) کی دو برسیوں کے درمیان حضرت حق (تعالی) کی عنایات اور حضرت ولی اللہ الاعظم (امام زمانہ علیہ السلام) کی توجہات ہماری قوم کے شامل حال رہیں اور اس سرفراز و عظیم الشان قوم کے پامال کئے گئے حقوق اس کو واپس ملے جن میں سب سے اہم ہمارے سربلند جنگی قیدیوں کی فاتحانہ وطن واپسی ہے۔ میں خدا کے حضور شکر و سپاس کے ساتھ ایک بار پھر ان عزیزوں کو جنہوں نے اس وقت تہران میں ایک عظیم الشان اجتماع تشکیل دیا ہے اور اپنے پیشوا سے تجدید عہد کے لئے پورے ملک سے یہاں آئے ہیں، خراج تحسین اور عظیم شہداء کے پسماندگان، اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے فداکار جانبازوں اور مخلص و غیور سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اس بات کی یاد دہانی کراتا ہوں کہ یہ بھی آپ کے صبر و پائیداری اور امام عالی مقام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رہبری کی دین ہے و لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ قوی عزیز (2) اسی طرح ضروری ہے کہ پندرہ خرداد مطابق پانچ جون کے خونیں قیام اور اس دن کے شہداء کو جو طاغوتی تاریکیوں سے نکلنے کی کوششوں میں مظلومانہ انداز سے اپنے خون میں غلطاں ہوئے، یاد کریں اور خداوند عالم سے ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کریں۔ خداوند عالم سے اس قوم اور تمام مسلمین عالم کے لئے برکات و فیضان رحمت اور دنیا کے کمزوروں اور مظلوموں کی نصرت کی دعا کرتا ہوں۔ والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ 19 ذیقعدہ 1411 ہجری قمری مطابق 13 خرداد 1370 ہجری شمسی برابر 3 جون 1991 عیسوی1- ابراہیم ؛ 24 و 25 2- حج : 40
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اکیس مارچ انیس سو اکانوے کو نئے ہجری شمسی سال تیرہ سو ستر کے آغاز پر حسب معمول پیغام نوروز جاری فرمایا۔ آپ نے اس پیغام میں بیتے سال کے اہم واقعات و حوادث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان سے سبق اور تجربہ حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کی جانب سے حکومت کے ساتھ تعاون کے جاری رہنے کی ضرورت پر تاکید کی اور نئے سال میں سرعت کے ساتھ منصوبوں پر عمل آوری کی امید ظاہر کی۔پیغام نوروز مندرجہ ذیل ہے:بسم اللہ الرحمن الرحیم یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبر اللیل و النھار، یا محول الحول والاحوال ، حول حالنا الی احسن الحالاپنے تمام ہموطنوں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان، اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ان کے کنبے والوں کو عید نوروز کی جو اس سال رمضان المبارک کے ساتھ آئی ہے، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ الحمد للہ کہ خداوند عالم نے ہم پر احسان کیا کہ ہمارے جنگی قیدیوں کو ان کے خاندان کے آغوش میں لوٹا کے ہماری عظیم الشان قوم کو عیدی دی ہے۔ خدا وند عالم سے عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ ہمارے بقیہ جنگی قیدیوں کو بھی جو عراقی جیلوں میں ہیں، صحیح و سلامت وطن واپس لوٹائے اور بقیہ خاندانوں کے دلوں کو بھی ان کے عزیزوں کی واپسی کی خبر سے شاد کرے اور ہمارے معذور جانبازوں کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔گذشتہ سال پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں جو امت اسلامیہ کے لئے حادثات سے پر تھا۔ خلیج فارس اور ہمارے علاقے میں بھی اور دنیا کے دیگر علاقوں میں بھی متعدد حادثات رونما ہوئے، خاص طورپر عراقی قوم کے لئے یہ سال بہت سخت تھا۔ ان حادثات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تیسری دنیا کی دیگر اقوام کی طرح مسلم اقوام کو بھی آزادی و خود مختاری اور اس بات کی کتنی ضرورت ہے کہ ان کی تقدیر جاہ طلب طاقتوں اور ان لوگوں کے اختیار میں نہ رہے جو اپنے فائدے کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر میں نہیں رہتے۔ یہ حوادث تلخ تھے۔ لیکن ہماری قوم اور دیگر اسلامی اقوام کو ان سے بڑے تجربات ہوئے۔ ہمیں ان تجربات سے ہمیشہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان حادثات سے جو درس ملے ہیں انہیں کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔چو باتیں ایرانی قوم دس برسوں سے کہہ رہی تھی، پروردگار کی عنایت سے گذشتہ سال کے دوران، ان کی حقانیت دنیا والوں پر عیاں ہوگئی اور دنیا کے لوگوں کی نگاہ میں ایرانی قوم کو وہ عزت اور مقام مل گیا جس کی یہ قوم مستحق تھی۔گذشتہ سال، ہماری قوم ملک کے اندر بھی حادثات سے دوچار رہی۔ سب سے المناک اور غم انگیز حادثہ ملک کے شمالی حصے میں آنے والا زلزلہ تھا۔ اسی طرح سیستان کا سیلاب، اسی قسم کے دیگر حوادث سے ہماری قوم دوچار رہی۔ یہ حوادث ناگوار اور سخت تھے لیکن یہی حوادث ہماری قوم کے لئے آزمائش اور تجربے کا میدان بھی تھے کہ دیکھیں کہ یہ قوم کتنی مدد کرنے والی ہے، حکومت کے ساتھ کتنا تعاون کرتی ہے اور کتنی ہمدرد اور زخموں پر مرہم رکھنے والی ہے۔ان حوادث میں ہماری عزیز قوم نے حکومت اور مصیبتوں میں گرفتار لوگوں کی ایسی مدد کی جو تاریخ میں بے نظیر ہے۔ ہم نے بہت سے زلزلے دیکھے ہیں، ماضی قریب اور بعید میں قدرتی بلاؤں اور حوادث کا بہت مشاہدہ کیا ہے۔ ملک کے شمالی علاقے میں جو زلزلہ آیا ہے اس طرح کے حوادث اس سے پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں لیکن کبھی بھی، ناگوار حوادث کے منفی اثرات اتنی تیزی کے ساتھ زائل نہیں ہوئے ہیں جس طرح اس بار ہوا ہے۔ البتہ ان علاقوں میں ابھی بہت سی چیزوں کی کمی ہے لیکن زلزلے کے متاثرین کی مدد اور انہیں رہائش وغیرہ فراہم کرنے میں جوکچھ کام ہوا ہے وہ حکومت کے ساتھ عوام کے بھر پور تعاون اور حکومت اور قوم کی کوششوں سے انجام پایا ہے۔الحمدللہ گذشتہ سال حکومت نے اپنے منصوبوں اور اپنی پالیسیوں میں پیشرفت کے لئے کافی کوششیں کی ہیں جس کے عوام کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور مزید مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن ہمارے سامنے بہت لمبا راستہ ہے اور ہمیں کافی مجاہدت اور سعی و کوشش کی ضرورت ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت اور عوام متحد ہوکے ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کے، ملک اور انقلاب کے اعلی اہداف کی طرف بڑھیں اور مشکلات کو دور کریں۔ایک نظر (ایرانی کیلنڈر کے ہجری شمسی سال) تیرہ سو ستر پر بھی جس کا آغاز ہوا ہے، ڈالتے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مبارک سال ہوگا۔ یہ سال آغاز رمضان المبارک کے ساتھ شروع ہوا اور خدا وند عالم نے اس سال کے آغاز میں ہی بارش کی نعمت کی شکل میں اپنا لطف و کرم تقریبا ملک کے ہر حصے میں نازل فرمایا، اس کے پیش نظر ہمیں امید ہے کہ یہ سرسبز و شاداب سال ہوگا، اس سال پیداوار اچھی ہوگی، یہ ہماری قوم کے لئے عزت و عظمت اور تمام خاندانوں اور عوام کے لئے خوشیوں کا سال ہوگا۔ ہم روشن صبح کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم محسوس کررہ ہیں کہ ایرانی قوم مرضی پروردگار سے پیشرفت کر رہی ہے۔ اس قوم کی آزادی، خودمختاری اور تمام میدانوں میں نظر آنے والی اس کی دلیری وشجاعت، اخلاص و تندہی، ہمدردی و ہمدلی، انقلابی جذبے اور دلچسپی کے ساتھ خدمت انجام دینے والے حکام کا وجود، اس قوم کے رشد و بالیدگی کا نتیجہ ہے۔ یہ اس قوم کی غنی تاریخ کا نتیجہ ہے۔ ہم جانتے ہیں۔ البتہ عوام کا تقوائے الہی، پرہیزگاری، خوف خدا اور اہداف الہی کی جانب ان کی پیشرفت ان کی مدد کرے گی کہ یہ راستہ آسانی اور تیزی کے ساتھ طے کریں اور بفضل الہی اعلی اہداف تک پہنچیں۔ماہ رمضان، دعا اور پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہمیں عبادت اور اپنے پروردگار پر توجہ کی برکت سے روحانی و معنوی طاقت حاصل کرنی چاہئے اور اس روحانی و معنوی طاقت سے صعب العبور پتھریلے راستوں کو آسانی اور تیزی کے ساتھ طے کرنا چاہئے۔امید ہے کہ ایرانی عوام ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، اپنے درمیان، برادری، تعاون اور ہمدلی کو بڑھائیں گے اور ان کی قدر کریں گے۔ عوام ایکدوسرے کے ساتھ مہربان رہیں، ایک دوسرے کی مدد کریں، خاص طور پر ان ایام میں حاجتمندوں کی مدد کریں۔ جن کے پاس استطاعت ہے اور وہ دوسروں کی مدد کرسکتے ہیں، وہ ناداروں اور حاجتمندوں کی ضرور مدد کریں۔ ہماری قوم کے اندر تعاون اور امداد باہمی کا یہ جذبہ جو ہماری قدیم روایت اور اسلام کے اعلی احکام میں سے ہے، بہت اہم ہے۔ اس کو محفوظ رکھیں۔ خاص طور پر عید نوروز اور رمضان المبارک کے ان ایام میں اس کو زیاہ اہمیت دیں۔ عوام کی محبت، ایثار و فداکاری کا جذبہ دوسروں کی فکر اور دوسروں کے کام آنے کا جذبہ، وہ جذبہ ہے جو ہماری قوم کو اس تحریک کے نتائج و اہداف تک پہنچائے گا۔جس طرح اب تک آپ حکومت اور حکام کے ساتھ رہیں ہیں اسی طرح اس ہم دلی کو باقی رکھیں، مدد کریں۔ دشمن آپ کے سامنے ہے، سب ایک مورچے پر رہیں۔ سن تیرہ سو ستر میں انشاء اللہ ملک کی تعمیر کے لئے اس مجاہدت میں زیادہ رشد اور سرعت آئے گی اور ہم اس سال کے اختتام تک کافی پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔ خدا کی توفیق اور نصرت آپ سب کے شامل حال رہے۔میں ایک بار پھر ملت ایران، ایرانی کنبوں، گرانقدر حکام، شہیدوں کے اہل خاندان، معذور جانبازوں، آزاد ہوکر آنے والے جنگی قیدیوں، جو لوگ وطن سے دور ہیں اور ملک سے باہر ہیں ان سب کو پرخلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آپ سب کے لئے خدا وند عالم سے توفیقات کی دعا کرتا ہوں۔ والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
قائد انقلاب اسلامی نے بے مثال شخصیت کے حامل حزب اللہ لبنان کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سید عباس موسوی کی صیہونی حکومت کے ہاتھوں مظلومانہ شہادت پر 28-11-1370 ہجری شمسی مطابق 17-2-1992 عیسوی کوتعزیتی پیغام جاری کیا۔ پیغام میں قائد انقلاب اسلامی نے شہید کی خصوصیات کا ذکر کیا اور ساتھ ہی امریکا اور اسرائيل کو خبردار کیا کہ وہ ان مجرمانہ حرکتوں سے اپنے مظالم کے لئے زمین ہموار نہیں کر پائیں گے کیونکہ عباس موسوی شہید کی تحریک جانباز جوانوں کے ہاتھوں آگے بڑھتی رہے گی۔ پیغام کے متن کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛بسم اللہ الرحمن الرحیم من المومنین رجال صدقوا ما عاھدو اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر وما بدّلوا تبدیلا (1) کبھی نہ تھکنے والے مجاہد عالم اور حزب اللہ لبنان کے فداکار رہبر حجت الاسلام والمسلمین آقائے سید عباس موسوی، ان کی اہلیہ اور ان کے کمسن بچے کی، صیہونی حکومت کے مجرمانہ ہاتھوں سے مظلومانہ شہادت کی خبر نہایت غم و اندوہ کے ساتھ سنی ۔(2) اس مخلص، ذہین، دلیر اور عالی قدر سید پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں اور جلاد اور خوں آشام صیہونیوں پر جو اپنے گھناونے اور جارحانہ مقاصد کے لئے کسی بھی جرم سے دریغ نہیں کرتے اور ان کے خبیث سامراجی حامیوں پرجو اس حکومت کے بڑے جرائم کو نظر انداز کرکے اور اس کے دوام میں مدد کرکے اپنی خباثت آمیز غیر انسانی ماہیت پہلے سے زیادہ آشکارا کرتے ہیں اورحق پسند مسلمانوں کے خلاف کسی بھی سازش اور خیانت سے پس و پیش نہیں کرتے، خدا اور اس کے بندوں کی لعنتیں ہوں۔ اس عظیم شہید اور اس کے مظلوم ساتھیوں کا خون ناحق غاصب صیہونیوں کے خلاف لبنان اور فلسطین کے عوام کی حق طلبی کی جدوجہد میں شدت اور وسعت لائے گا۔ یہ عالی قدر سید جس نے علم کو عمل سے، گفتار کو صداقت سے اور فداکاری کو ذہانت و ادراک سے آمیختہ کیا تھا، مقدس اور خدائی اہداف یعنی اسلام کے دفاع اور ظلم و جارحیت کے مقابلے کی راہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوا اور ابدی سعادت حاصل کی۔ اس عظیم ہستی کی تحریک کو اس کے ساتھی، اس کے مورچے کے سپاہی اور لبنان نیز فلسطین کے مظلوم مسلمان آگے بڑھائیں گے۔اسرائیل اور امریکا جان لیں کہ اس قسم کے جرائم سے ان کے ظالمانہ تسلط کی راہ ہموار نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ اس طرح، ان اقوام کو جو طولانی برسوں سے ان کی شرپسندیوں اور اور مظالم کا سامنا کر رہی ہیں، خوفزدہ کر سکتے ہیں۔ میں اس افتخار شہادت کی جو اس فداکار اور مخلص انسان کے جہاد مسلسل پر خدا کا انعام تھی، لبنانی قوم، حزب اللہ کے پاکیزہ جوانوں اور اس کے رہنماؤں بالخصوص شہید کے پسماندگان ان کے دوستوں اور مخلصین کو مبارکباد اور تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان کے لئے خدا کے فضل و رحمت کا طالب ہوں۔ والسلام وعلیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ سید علی خامنہ ایتیرہ شعبان ایک ہزار چار سو بارہ مطابق اٹھائیس بہمن ایک ہزار تین سو ستر 1- احزاب 23 2- شہید عباس موسوی تیرہ سو اکتیس ہجری شمسی ( مطابق انیس سو باون عیسوی) میں لبنان کے شہر بعلبک کے مضافاتی قصبے نبی شیت میں پیدا ہوئے۔ تیرہ سو چھیالیس ہجری شمسی ( مطابق انیس سوسڑسٹھ عیسوی) میں دینی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے حوزہ علمیہ نجف اشرف گئے اور آیت اللہ العظمی خوئی اور آیت اللہ العظمی سید باقر الصدر شہید جیسے بزرگ اساتذہ سے کسب فیض کیا۔ تیرہ سو ستاون ( مطابق انیس سو اٹھہتر عیسوی) میں لبنان واپس گئے اور اسی سال بعلبک میں دینی مدرسہ قائم کیا۔ وہ لبنان بالخصوص جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی دشمن کے خلاف مجاہدت کے سخت ترین حامیوں اور انقلابی تحریک حزب اللہ لبنان کے بانیوں میں تھے۔ تیرہ سو انہتر ( مطابق انیس سو نوے عیسوی ) میں شیخ طفیلی کے بعد حزب اللہ لبنان کے دوسرے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے اور ستائیس بہمن تیرہ سو ستر مطابق سولہ فروری انیس سو بانوے کو جبشیت میں شیخ راغب حرب کی شہادت کی آٹھویں برسی میں تقریر کے بعد ایک کار میں بیروت جا رہے تھے کہ جنوبی لبنان کے تفاحتا نامی علاقے میں صیہونی حکومت کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نےحملہ کرکے انہیں، ان کی اہلیہ اور ان کے کمسن بچے کو شہید کر دیا۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 18 مرداد سنہ 1363 ہجری شمسی مطابق 9 اگست سنہ 1984 عیسوی کو امام ہشتم فرزند رسول حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی شخصیت پر منعقدہ بین الاقوامی سمینار کے لئے اپنے پیغام میں حضرت کی مدبرانہ روش کے اہم نکات اور آپ کے خلاف عباسی خلیفہ مامون کے شاطرانہ حربوں کا جائزہ لیا۔ آیت اللہ العظمی خامنہ ای اس وقت ایران کے صدر جمہوریہ تھے۔
پیغام کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛