اسٹوڈینٹس کی پوائزننگ کے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو بھی اور اس جرم کے اسباب فراہم کرنے والوں کو بھی سخت ترین سزا دی جانی چاہیے کیونکہ یہ ایک معمولی جرم نہیں ہے۔ یہ معاشرے کے سب سے معصوم ارکان یعنی بچوں کے خلاف بھی ایک جرم ہے اور ساتھ ہی معاشرے کی نفسیاتی بدامنی اور فیمیلیز کی تشویش کا بھی سبب ہے۔
امام خامنہ ای
اے امام زمانہ! یہ ہمارے لیے بہت سخت ہے کہ ہم اس دنیا میں جس کا تعلق صالح لوگوں سے ہے، خدا کے دشمنوں کو تو دیکھیں، لیکن آپ کو نہ دیکھیں اور قریب سے آپ کی زیارت کا فیض حاصل نہ کر پائيں۔
امام خامنہ ای
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے پیر کی صبح اپنے دفتر کے صحن میں تین پودے لگائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ہر ایرانی تین پودے لگائے تو اگلے ہجری شمسی سال سے ایک ارب پودے لگانے کا حکومت کا پروگرام چار سال میں پورا ہو جائے گا۔
آج دنیا کے پیشرفتہ ممالک اسلامی ملکوں میں مداخلت کر رہے ہیں اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں! وہ خود اپنے ملکوں کا انتظام چلانے میں بے بس ہیں اور ان کا دعوی یہ ہے کہ وہ ان کے مسائل کو حل کریں گے!
واقعی فلسطینی قوم پر، اس کی اپنی سرزمین میں، اس کے اپنے گھر میں آئے دن ظلم ہو رہا ہے۔ عالم اسلام کی نظروں کے سامنے ہر دن یہ کام ہو رہا ہے، برسوں سے پوری دنیا کی نگاہوں کے سامنے اس طرح سے ایک قوم پر ظلم ہو رہا ہے۔
دنیا میں کہاں ایسی چیز پائي جاتی ہے کہ ایک سیاسی واقعے کے لیے چالیس پینتالیس سال سے لوگ لگاتار اور زیادہ تر سخت موسمی حالات میں، اس طرح آتے رہیں ہر سال، لگاتار؟
موجودہ عالمی نظام میں بنیادی تبدیلی اور ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی طرف دنیا کی پیش قدمی کے بارے میںKHAMENEI.IR وب سائٹ نے عدلیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد لاریجانی سے گفتگو کی۔
یہ بعثت، اس بات کی توانائی رکھتی ہے کہ اس نے انسانوں کی زندگي کو جس طرح اُس وقت نیکی، فلاح و خوش بختی کی سمت میں موڑ دیا تھا، آج بھی اسی طرح بدل دے۔
امام خامنہ ای
اتنا زیادہ پروپیگنڈہ، مخالفین، روز مرہ کے اتنے مسائل جنھیں لوگ اپنے جسم و جان سے محسوس کر رہے ہیں، دشمنوں کے بہکاوے، کڑاکے کی ٹھنڈ، یہ سب کچھ، ایرانی عوام کے ایمان اور بصیرت کی گرمی کے سبب نظر انداز کر دیے گئے۔
22 بہمن (11 فروری) یہ ہے، 22 بہمن ایک الہی نعمت ہے، یہ خود کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا، یہ اپنے فولادی عزم کے اظہار کا ایک الہی موقع ہے۔ جو کچھ اس قوم کے لوگوں کے دل میں ہے، وہ 22 بہمن کے دن پورے ملک میں ہر جگہ ان کے نعروں میں دکھائي دیتا ہے۔
آج اسلامی جمہوریہ ایران علاقے کی سطح پر اور کچھ معاملات میں عالمی سطح پر ایک بااثر طاقت بن چکا ہے۔ یہ ایک زمینی سچائی ہے۔ ہمیں اپنی قدر کرنا چاہیے، اپنی ارزش و اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اس قوم کی عظمت کو سمجھنا چاہیے۔
نینو ٹیکنالوجی، جوہری ٹیکنالوجی اور دیگر ٹیکنالوجیوں کے میدانوں میں یہ پیشرفت اسی جذبہ خود اعتمادی کی دین ہے۔ ایران میں دشمن کا ایک محاذ، قوم کا خود پر عدم اعتماد تھا۔ ملت ایران اور ایرانی نوجوانوں کی فتح کا ایک بڑا محاذ خود اعتمادی کا جذبہ ہے۔
آپ پیاری بچیوں کو، اپنی عزیز بچیوں کو میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ خدا سے دوستی کیجیے۔ کوشش کیجیے کہ بچپن کے آغاز سے ہی، خدائے مہربان کی دوست بن جائيے۔
طاغوتی حکومت اس ملک میں امریکا اور برطانیہ کا سب سے اہم محاذ سمجھی جاتی تھی۔ انقلاب آیا تو اس نے اس محاذ کو نابود کر دیا، مسمار کر دیا۔ اس نے اس ملک میں شاہی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور اس شاہی حکومت کی جگہ، آٹوکریسی کی جگہ عوامی حکومت تشکیل پائی۔
میں آپ کے جشن عبادت پر آپ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، امیر المومنین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا بھی اپنی عزیز بچیوں کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔
ماہ رجب کے بابرکت ایام میں اور امیر المومنین علیہ السلام کی شب ولادت کے موقع پر اسکولی طالبات کے جشن عبادت کا پروگرام، جمعے کی شام کو رہبر انقلاب کی موجودگي میں امام خمینی امام بارگاہ میں منعقد ہوا۔
ایک انسان جن صفات اور اقدار کا احترام کرتا ہے، وہ سب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے اندر اکٹھا ہیں۔ جس شخص کا کوئی دین نہ ہو، وہ بھی جب امیر المومنین سے آشنا ہو جاتا ہے تو ان کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔
جن افراد کا دین سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ تو اپنی جگہ، حتی دیندار لوگ، یہاں تک کہ بعض علمائے دین بھی یہ نہیں مانتے تھے کہ اسلام، سیاسی امور میں مداخلت کر سکتا ہے، حالانکہ ابتدا سے اسلام کا ظہور ہی سیاسی عزائم کے ساتھ ہوا تھا۔
آج صبح، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مزار، 28 جون 1981 کے سانحے کے شہیدوں اور اسی طرح 30 اگست 1981 کو وزارت عظمی کے دفتر میں ہونے والے دھماکے کے شہیدوں کے مزاروں نیز ملکی سیکورٹی کے تحت اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے شہید ہونے والے آرمان علی وردی کے مزار پر رہبر انقلاب اسلامی کی حاضری۔
جب انسان غفلت کی حالت سے باہر نکل آئے اور اس جانب متوجہ ہو جائے کہ وہ دیکھا جا رہا ہے اور اس کا محاسبہ کیا جا رہا ہے تو فطری طور پر وہ محتاط رہے گا۔ اگر اس کیفیت میں انسان ایک خاص پاکیزگی اور طہارت کے عالم میں ماہ رمضان میں قدم رکھے تو پھر وہ ضیافت پروردگار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے گا۔
اس مہینے میں پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا و مناجات اور توسل جتنا زیادہ ہو سکے کیجیے! بزرگوں نے، عارفوں نے، اللہ کی راہ پر چلنے والوں نے ماہ رجب اور شعبان کو، ماہ رمضان کی تمہید قرار دیا ہے۔
ماہ رجب الوہی اقدار سے خود کو قریب کرنے، ذات مقدس پروردگار کا قرب حاصل کرنے اور خود سازی کا سنہری موقع ہے۔ یہ ایام، جو ہماری روایتوں میں اہم ایام کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں، یہ سب بڑے اہم مواقع ہیں۔
جو سامراجی طاقتیں کسی بھی قیمت پر اسے اپنے کنٹرول سے باہر نہیں جانے دینا چاہتیں، اس کے لئے انہوں نے کیا منصوبے بنائے اور ان منصوبوں کا انجام کیا ہوا؟ ان اہم سوالوں کا جائزہ۔
جہاں تک ماں کے حق کی بات ہے تو یہ زندگی کا سرچشمہ بننے والی ہستی کا حق ہے ، یعنی عورت ایسے لوگوں کو وجود عطا کرتی ہے جو اس کی ذات سے وجود پاتے ہیں۔ باپ بھی مؤثر ہے لیکن ماں سے بہت کم، ماں کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
دشمن سوچ رہا تھا کہ ایرانی قوم، معاشی مشکلات کی وجہ سے -کہ جو موجود ہیں- تختہ پلٹنے اور ملک کو توڑنے کی دشمن کی سازش کا ساتھ دے گي، یہ ایک غلط اندازہ تھا۔
جنگ بدر میں جب کافروں نے نعرے لگانا شروع کیا، اپنے بتوں کا نام لینا شروع کیا تو پیغمبر نے مسلمانوں سے کہا کہ کہو: اللہ مولانا و لا مولی لکم۔ خدا ہمارا مولا ہے، ہمارا پشت پناہ ہے، ہماری طاقت، اسی کی طاقت پر منحصر ہے جو تمھارے پاس نہیں ہے۔ ایرانی قوم کی طاقت کا سب سے اہم اور اصلی حصہ، اللہ کی حمایت کے عقیدے پر مبنی ہے۔
ان لوگوں نے ان مراکز کو ٹارگٹ بنایا کہ انھیں بند کر دیں تاکہ علم حاصل نہ کیا جا سکے۔ سیکورٹی نہ رہے، علم کا حصول نہ رہے۔ یہ لوگ کمزور پہلوؤں کو ختم نہیں کرنا چاہتے تھے، یہ، مضبوط کاموں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔
دشمن کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ کسی جگہ پر کوئي کام بہت شور و غل سے شروع کرتا ہے تاکہ سب کی توجہ اس جانب مبذول ہو جائے، پھر کوئي اصلی کام جو وہ انجام دینا چاہتا ہے، کسی دوسری جگہ انجام دیتا ہے۔
عام طور پر طاغوتی اور ظالم ملکوں میں کوئي بڑا عہدہ مل جانے کو اعزاز سمجھا جاتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ان ملکوں میں غیر سفید فاموں کا اہم عہدوں پر آنا، ان کی پالیسیوں میں تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے؟