عید قربان سے لیکر عید غدیر تک کا وقت در اصل ایک ایسا دورانیہ ہے جو امامت کے مسئلے سے جڑا ہوا ہے۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: «و اذ ابتلى ابراهيم ربّه بكلمات فأتمّهنّ قال انّى جاعلك للنّاس اماما» (اور جب ابراہیم کا ان کے پروردگار نے کچھ کلمات کے ذریعے امتحان لیا اور انہوں نے اس آزمائش کو مکمل کیا تو ان سے کہا: میں تمہيں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں-بقرہ 124) ابراہیم کو خداوند عالم نے امامت کے منصب پر فائز کیا۔ کیوں؟ کیونکہ انہوں نے سخت امتحان کامیابی سے مکمل کیا تھا۔ اس کی ابتداء، عید الاضحی کے دن کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ غدیر کا دن آن پہنچا کہ جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کی امامت کا دن ہے۔ یہ بھی سخت امتحانات کے بعد ممکن ہوا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی پوری با برکت زندگی امتحانوں میں گزاری ہے اور ان سب امتحانوں میں کامیاب رہے ہيں۔ تیرہ یا پندرہ برس کی عمر سے، نبوت کی تصدیق سے لیکر، لیلۃ المبیت تک کہ جب آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور قربانی کے اس جذبے کی عملی شکل آپ نے پیغمبر اعظم کی ہجرت کے موقع پر پیش کی اور اس کے بعد بدر و احد و حنین و خیبر اور دیگر مواقع پر آپ نے بڑے بڑے مراحلے سر کئے۔ یہ عظيم عہدہ، انہی امتحانوں میں کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عید الاضحی اور عید غدیر کے درمیان ایک قسم کا رابطہ سا محسوس ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عشرہ امامت کا نام دیتے ہيں اور یہ مناسب بھی ہے۔
امام خامنہ ای
25 نومبر 2009
مسئلۂ مہدویت کے سلسلے میں ایک بات یہ ہے کہ اسلامی آثار میں شیعہ کتابوں میں حضرت مہدی موعود (عج) کے ظہور کے انتظار کو انتظار فرج سے تعبیر کیا گيا ہے، اس فرج کا کیا مطلب ہے؟ فرج یعنی گرہیں کھولنے والا۔ انسان کب کسی گرہ کھولنے والے کا انتظار کرتا ہے؟ کب کسی فرج کا منتظر ہوتا ہے؟ جب کوئی چیز الجھی ہوئی ہو، کہیں کوئی گرہ پڑ گئی ہو، جب کوئی مشکل پھنسی ہوئی ہو، کسی مشکل کی موجودگي میں انسان کو فرج یعنی گرہ کھولنے والے کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی اپنے ناخن تدبیر کے ذریعے الجھی ہوئی گرہ کھول دے۔ کوئی ہو جو مشکلوں اور مصیبتوں کے عقدے باز کر دے۔ یہ ایک بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔
انتظار فرج کا مطلب یا دوسرے الفاظ میں ظہور کا انتظار یہ ہے کہ مذہب اسلام پر ایمان اور اہلبیت علیہم السلام کے مکتب پر یقین رکھنے والا حقیقی دنیا میں موجود صورتحال سے واقف ہو، انسانی زندگي کی الجھی ہوئی گرہ اور مشکل کو جانتا ہو، حقیقت واقعہ بھی یہی ہے۔ اس کو انتظار ہے کہ انسان کے کام میں جو گرہ پڑی ہوئي ہے، جو پریشانی اور رکاوٹ ہے وہ گرہ کھل جائے اور رکاوٹ برطرف ہو جائے، مسئلہ ہمارے اور آپ کے ذاتی کاموں میں رکاوٹ اور گرہ پڑجانے کا نہیں ہے امام زمانہ علیہ الصلوۃ و السلام پوری بشریت کی گرہ کھولنے اور مشکلات برطرف کرنے کے لئے ظہور کریں گے اور تمام انسانوں کو پریشانی سے نجات دیں گے، انسانی معاشرے کو رہائی عطا کریں گے بلکہ انسان کی آئندہ تاریخ کو نجات بخشیں گے۔
امام خامنہ ای
17 / اگست / 2008
طاغوتی نظام اور اُس سے قبل کی حکومتیں بھی ایران میں عوامی حکومتیں نہیں تھیں، عوام کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ایک شخص انگریزوں کی مدد سے (اقتدار میں) آگیا تھا، تہران میں فوجی بغاوت کردی تھی اور خود کو بادشاہ کا نام دے دیا تھا، بعد میں بھی جب وہ ایران سے جارہا تھا یعنی جب اس کو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ وہ بوڑھا ہوچکا تھا اور ان کے کام کا نہیں رہ گیا تھا، اس نےاپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنا دیا، آخر یہ بیٹا کون ہے؟ اور کیا ہے؟ پھر عوام کس کام کے ہیں؟ اور ان کی رائے کا کیا ہوا؟ سرے سےاس کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس سے پہلے بھی قاجاری حکمراں تھے، ایک فاسق شخص مرتا تھا، دوسرا فاسق شخص اس کی جگہ لے لیتا تھا، عوام الناس حکومت کے تعین اور انتظام میں کوئی دخل نہیں رکھتے تھے، پوری طرح عضو معطل تھے، عوام ان کو پسند نہیں کرتے تھے وہ چاہتے تھے کہ حکومت ان کےاختیار میں ہو، حکومت ان کے ذریعے اقتدار میں آئے، ان کی رائے اس میں موثر ہے۔
امام خامنہ ای
12 / مئی /2000
کبھی کچھ مذاق اڑایا جانا اور توہین کیا جانا بڑے بڑے آدمیوں کو لاچار بنادیتا ہے اور اس طرح وہ نہ چاہتے ہوئے بھی جماعت کے ہمرنگ ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بڑی طاقتیں اپنے ہاتھ ان کے دلوں پر رکھ دیتی ہیں، چھپ کر قہقہہ لگاتی ہیں کہ ان کا کام ہو گيا اور انھوں نے راستے کی رکاوٹوں کو ہٹادیا۔ فلاں انقلابی تحریک کا اس قدر مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ صاف صاف لفظوں میں اپنے انقلابی نعروں اور اہداف و مقاصد سے دستبردار ہوجائے، ان میں شک کرنے لگے، یہاں تک کہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ یہ وہ منزل ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ماننے والے ایک شیعہ کو آپ کی شجاعت سے سبق لینا چاہئے۔ "لاتستوحشوا فی طریق الھدی لقلۃ اھلہ" راہ ہدایت میں افراد کی کمی سے وحشت زدہ نہ ہوں، گھبرائیں نہیں، دشمن منھ پھیر لے اور روگرداں ہوجائے تو تنہائی کا احساس نہ کیجئے، جو کچھ آپ کے پاس ہے اس پر دشمن کے مذاق اڑانے سے آپ کا ایمان کمزور نہ ہو کیونکہ وہ بڑا ہی قیمتی گوہر ہے، کبھی تمام نہ ہونے والے اس خزانے کو خود اپنے ملک کے اندر آپ نے کشف کیا ہے اور اسلام تک پہنچے ہیں، آزادی و خود مختاری حاصل کی ہے اور خود کو بیرونی قوتوں کے پنجوں سے آزاد کیا ہے۔
امام خامنہ ای
14 / ستمبر / 1984
وہ تمام چھوٹے بڑے ادارے جو دنیا میں مختلف عنوانوں سے پائے جاتے ہیں اور کمین میں بیٹھے ہیں کہ کسی گوشے میں ان ممالک میں کہ جن کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کسی بھی سبب اچھے نہیں ہیں، کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے تو فورا بھونپو بجانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہاں انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں، آخر کیوں اپنے ہونٹ سیے، خاموش بیٹھے ہیں، بشریت کے دشمن خبیث صہیونیوں کی غاصب حکومت دسیوں افراد کو مار ڈالتی ہے اور سیکڑوں افراد کو مجروح کر دیتی ہے اور انسانی حقوق کے جو محافظ ادارے ہیں گلا گھونٹے خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کہتے!! زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ کہہ دیا جاتا ہے فلاں ادارے نے اس کی مذمت کی ہے؛ ’’مذمت کی ہے‘‘ کا کیا مطلب؟ یہ جملہ جو مذمت میں کہہ دیا فلسطینیوں کے کس کام کا ہے؟ یہ ادارے جو انسانی حقوق کی بحالی کے دعویدار ہیں اگر سچ کہہ رہے ہیں تو ان کو اٹھ کھڑا ہونا چاہئے تھا، پوری دنیا میں شور و ہنگامہ مچانا چاہئے تھا۔ یقینا ہماری باوقار ملت نے ہمیشہ اپنے موقف کا اعلان کیا ہے اور کوئی یہ نہ کہے کہ اس کا کیا فائدہ ہے؟! ان مواقف (اور مخالفتوں) کا اعلان بہت اہم دباؤ ہے، جو غاصب حکومت پر پڑتا ہے، دنیا کے کسی بھی کونے سے یہ آواز کیوں نہ بلند ہوئی ہو غاصب دہل اٹھتا ہے۔
امام خامنہ ای
04 / مارچ / 1994
(جناب) جابر نے (حدیث کا یہ حصہ) امام باقر علیہ السلام سے روایت کیا ہے ’’وَالزَّکاۃُ تزیدُ فی الرِّزقِ‘‘ مسئلہ بظاہر ہماری مادی نگاہ میں یہ ہے کہ جس وقت ہم زکات نکالتے ہیں، یعنی صدقہ کے طور پر ایک رقم الگ کرتے ہیں در اصل اپنی چیز میں کچھ کمی کرتے ہیں، لیکن مسئلے کا باطنی پہلو یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت مسئلہ یہ ہے کہ زکات رزق میں اضافہ کرتی ہے اور یہ بھی اس معنی میں ہے کہ زکات نکالنے کا قدرتی اثر یہ ہوتا ہے کہ خداوند متعال اس کا بدلا انسان کو بھلائی کی صورت میں دیتا ہے اور رزق کو بڑھا دیتا ہے، اس سے زیادہ وسیع نگاہ سے جب انسان دیکھتا ہے، ذرا وسیع معنی میں جس وقت معاشرے میں زکات نکالنے کے لوگ عادی ہو جاتے ہیں تو اقتصاد میں رونق آ جاتی ہے اور جب اقتصاد میں رونق پیدا ہو جائے عوام کے تمام طبقے، ہر طرح کے لوگ اس سے بہرہ مند ہوتے ہیں، دوسرے لفظوں میں عبادت کا اصل مضمون یہ بھی ہو سکتا ہے، اس کے بعد فرمایا ہے کہ روزہ بھی اور حج بھی سکون دل کا سرچشمہ ہے، دل کا سکون خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے، ’’سکینہ‘‘ یعنی دل کا سکون و آرام، یہ آرام جاں وہی چیز ہے جس کے اولیائے خدا حامل تھے اور بے شمار سختیوں اور مشکلات میں ان کی روح و جان کو آرام و سکون حاصل رہتا ہے۔
امام خامنہ ای
03 / فروری/ 2019
اعلی ترین شکل اور کامل ترین طریقہ زندگی پر گامزن وہ انسان ہے جو خدا کی راہ پر چل سکے اور اپنے خدا کو خود سے راضی رکھ سکے، خواہشیں اس کو اپنا اسیر نہ بنا سکیں، مادی انسان جو خواہشات، غضب نفسانی، ہوا ؤ ہوس اور اپنے جذبات و احساسات کا قیدی بن جائے ایک حقیر انسان ہے، چاہے وہ ظاہر میں کتنا ہی بڑا نظر آتا ہو اور صاحب مقام و منصب ہو۔ استغفار آپ کو اس حقارت سے نجات دلا سکتا ہے، استغفار آپ کے دل کی سیاپہوں کو ہٹا کر وہ نورانیت جو اللہ نے آپ کو عطا کی تھی دل کو صاف و منور کر دیتا ہے، ہر انسان نورانی ہے حتی وہ انسان جو خدا سے کوئی رشتہ اور آشنائی نہیں رکھتا، اپنی حقیقت اور جوہر میں نورانیت رکھتا ہے، البتہ معرفت نہ ہونے کے سبب گناہ اور خواہشات نے صفحہ دل کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ استغفار اس زنگ کو صاف کر دیتا ہے اور پھر سے نورانیت بخش دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
31/جنوری/1997
فلسطین کا مسئلہ اسلامی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لئے ایک بنیادی مسئلہ اور ایک فریضہ ہے، تمام شیعہ، سنی علماء اور زمانہ ماضی کے قدماء نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ اگر کوئی اسلامی علاقہ اسلام دشمنوں کے تصرف (اور غاصبانہ قبضے) میں آجائے تو اس منزل میں سبھی کا فریضہ ہے کہ دفاع کریں کہ غاصبانہ قبضے میں جانے والی سرزمینوں کو واپس لے سکیں، ہر کوئی جس سے جو بھی بن پڑے ، جیسے بھی ممکن ہو دفاع کرے، فلسطین کے مسئلے میں ہر کسی کا فریضہ ہے، اسلامی سرزمین ہونے کے لحاظ سے فریضہ عائد ہوتا ہے، زمین اسلامی ہے جو اسلام دشمنوں کے قبضے میں ہے اور وہ واپس ہونا چاہئے، دوسرے یہ کہ اسّی لاکھ مسلمان جن میں کچھ آوارہ وطن ہیں اور کچھ مقبوضہ سرزمینوں میں آوارہ وطنوں سے ابتر زندگی گزار رہے ہیں، ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ فلسطین کا نام فراموشی کی نذر ہو جائے، لیکن آپ ایسا نہیں ہونے دیں گے، یوم قدس ایسا نہیں ہونے دے گا، امام خمینی نے اپنی فراست و تدبیر سے اس بات کی اجازت نہیں دی، یہ ایک عظیم کارنامہ ہے۔
امام خامنہ ای
31/دسمبر/1999
اس مذہبی جذبے نے اس انقلاب میں وہ کام کیا ہے کہ انقلاب کے دوران کمترین نقصان پیش آیا۔ وہ لوگ جنھوں نے دنیا کے مادی انقلابات خاص طور پر انقلاب اکتوبر کا مطالعہ کیا ہو اس چیز کو بہ خوبی سمجھ سکیں گے۔ انقلاب کامیاب ہو جانے کے بعد بھی جو حکومت انقلاب کی بنیاد پر وجود میں آئی ایک اسلامی حکومت تھی، ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ دائیں بازو اور بائیں بازو کی طرف نہیں مڑی بلکہ دین کی سیدھی راہ پر گامزن رہی اور اسلامی جمہوریہ بھی جب تشکیل پا گئی تو وقت گزرنے کے ساتھ اس نے دین کی راہ کو نہیں چھوڑا بلکہ آئین کی تدوین، حکام کے انتخابات اور نظام کے کارگزاروں مثلا پارلمانی اراکین اور دیگر نمائندے عوام کے ذریعے اسلامی معیارات پر کئے گئے انتخاب کی بنیاد پر چنے گئے۔ دین انقلاب کی خصوصیت تھی اور ہے، یہ خصوصیت کسی بھی انقلاب میں نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی دل میں اسلام کے لئے دھڑکنیں پائی جاتی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام پر گامزن ہے، اور کلمۂ اسلام کی سربلندی کی فکر میں ہے۔
امام خامنہ ای
09/ فروری / 1990
آج ہم علاقوں میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی نمایاں علامتیں اور نشانیاں دیکھ سکتے ہیں، ایک ملت ہماری ملت کی طرح جس کے پاس نہ ایٹم بم ہیں نہ علمی لحاظ سے اس کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ سو سال کی تاریخ میں علمی قافلوں کی طرح اگلی صفوں میں چلنے والوں کے قدم سے قدم ملاکر چل سکے اور بہت سے مواقع پر پسماندگی کا شکار رہی ہے، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی سرمایہ دار ملکوں تک نہیں پہنچتی لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ ملک؛ یہ قوم بڑی طاقتوں پر مشتمل ان ملکوں کی مجموعی سازشوں کو جو اسلحوں ٹکنالوجیوں، مادی دولت و ثروت اور ذرائع ابلاغ کے مالک ہیں اہم ترین میدانوں میں پسپائی پر مجبور کرنے اور ناکام بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے؟ یہ نکتہ غور و فکر اور توجہ کا طالب ہے، اس مسئلے کا سیاسی اور معاشرتی علوم کے دانشوروں کو جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا چاہئے؛ دیکھیں ان معنویتوں کے کردار کس طرح جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ چیز آج ایمان میں نمایاں ہے، لہذا اس پر اٹھنے والی نگاہ عبرت انگیز و سبق آموز ہے، یہ منظر امریکہ کی استکباری قوت کی شکست و ریخت کا منظر ہے۔
امام خامنہ ای
14/ ستمبر /2007
امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ 'لیس منی من استخف الصلاۃ' جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ 'استخفاف' کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔ اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے؟!
امام خامنہ ای
19 نومبر 2008
امام صادق علیہ الصلاۃ و السلام نے اپنے شاگرد سے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس بیش قیمتی ہیرا ہو تو ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ پتھر ہے، مگر چونکہ تمہیں علم ہے کہ یہ ہیرا ہے تم دنیا والوں کی بات کا اعتبار نہیں کروگے۔ اسی طرح اگر تمہارے ہاتھ میں پتھر ہے اور ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ قیمتی ہیرا ہے تو تم دنیا کی بات نہیں سنوگے کیونکہ تمہیں علم ہے کہ وہ پتھر ہے۔
جب بیش قیمتی جواہرات آپ کے پاس ہیں تو ساری دنیا کہتی رہے کہ یہ تو بے وقعت شئے ہے، آپ کا علم یہی کہے گا کہ نہیں یہ بہت قیمتی شئے ہے۔ ہماری قوم کو علم ہے، وہ سمجھ چکی ہے، اسی لئے ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
امام خامنہ ای
13 فروری 2004
میرے عزیز جوانو! اور بچو! آپ سب کے سب اپنے ملکوں میں ایک کردار کے حامل بن سکتے ہیں۔۔۔ دینی مسائل، ثقافتی مسائل، سیاسی مسائل یا اخلاقی مسائل کے موضوع پر اپنے ارد گرد کے ماحول میں اچھے مستقبل کی فکر سرور و نشاط اور امید و اطمینان کی فضا ایجاد کرنے نیز اطاعت و بندگی اور شریعت اسلامی کی پابندی کی راہ میں جو افراد اور معاشرے کی سربلندی کا بہت بڑا سرمایہ ہے، مجاہدت کر سکتے ہیں، آپ سب مدرسوں میں، اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں، اپنے دفتروں اور کاروباری مرکزوں میں کردار ادا کر سکتے ہیں، ایک بیدار و آگاہ، پر نشاط و پر امید، پاکیزہ دامن جوان، ایک تاریخ کا پاسباں بن سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ صیہونیوں ، سامراجی طاقتوں اور دنیا پر مسلط کمپنیوں نے دنیا کے مختلف ملکوں کے جوانوں پر برسوں کام کیا ہے اور تلاش و کوشش کی ہے کہ شاید وہ جوان نسلوں کو خراب کرنے میں کامیاب ہو جائیں، اُن کے عزم و ہمت اور امید و اطمینان کو ان سے سلب کر لیں، اُن کے مستقبل کو ان کی نگاہوں میں تیرہ ؤ تار کردیں وہ سب اپنے مستقبل کی طرف سے مایوس ہوجائیں اور ان کو اخلاقی اور اعصابی مشکلات سے دوچار کر دیں جو کچھ آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
30/ اکتوبر /1998
سالہا سال کی مسلسل شخصی اور استبدادی حکومتوں نے ہماری قوم کو ایک لات زبوں حال اور نکمی قوم میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ قوم جو خداداد صلاحیتوں اور ممتاز قسم کی غیر معمولی اجتماعی عادتوں کی حامل ہے، ایک ایسی قوم جس کو اسلام کے بعد تاریخ کے طویل دور میں اس قدر سیاسی افتخارات کے ساتھ اس قدر علمی افتخارات حاصل رہے، ایک کمزور و ناتواں رسوا قوم میں تبدیل ہوگئی، بیرونی طاقتوں نے ایک مدت تک انگریزوں نے، ایک مدت روسیوں نے اور ایک مدت امریکیوں نے اور بعض مقامات ان کے گوشہ ؤ کنار میں بعض دوسری یورپی حکومتوں نے ہماری قوم کو ذلیل و خوار کر رکھا تھا۔۔۔ ہمارے عزیز ( و ناقابل شکست) امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ نے ملت ایران کی خوابیدہ غیرت اور قومی غرور و افتخار کو بیدار کردیا۔۔۔، ہمارے عوام اب محسوس کرتے ہیں کہ وہ اتنی قوت و توانائی رکھتے ہیں کہ مشرق و مغرب کی مسلط کردہ پالیسیوں اور زبردستیوں کے مقابلے میں کھڑے رہ سکتے ہیں، یہ عزت و خود اعتمادی کی روح، قومی غرور، حقیقی اور اصلی افتخارات کی روح ہمارے امام نے ہماری ملت کے اندر بیدار کردی ہے۔
امام خامنہ ای (دام ظلہ)
14/ جولائی /1989
انقلاب کے نعرے آج بھی وہی ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ انقلاب صحیح راہوں پر گامزن ہے، نعرے انگلی کے اشاروں کی طرح اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں، اہداف کو مشخص کرتے ہیں، جب ایک نظام اور انقلاب میں باقی اور جاری رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نظام کے اہداف پہلی شکل میں باقی ہیں، اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مملکت کے ذمہ دار افراد اور عوام دونوں صراط مستقیم اور بنیادی مقاصد سے منحرف نہیں ہوئے ہیں، آج بھی ایرانی قوم کے نعرے وہی انقلاب کے ابتدائی دنوں کے نعرے ہیں۔ ہماری زندگی اُن ہی بنیادی خطوط پر قائم و برقرار ہے، ہم نے ترقیاں کی ہیں، (البتہ) کمزوریاں اور نقائص بھی رہے ہیں، ہمیں اپنی ترقیوں کو سمجھنا چاہئے، ہمیں اپنی کمزوریوں کا بھی علم ہونا چاہیے، اگر ہم نے اپنی کمزوریوں کو چھپایا، نہیں جان سکے یا نہیں جاننے کا مظاہر کیا تو یہ کمزوریاں باقی رہ جائیں گی، نظام کا حصہ بن جائیں گی ، برطرف نہیں ہوسکیں گی، لہذا تمام قوی و ضعیف نقطوں سے واقف ہونا چاہئے۔
امام خامنہ ای
2/ جنوری /1998
استکبار پروپگنڈوں پر بہت دھیان دیتا ہے اور یقینا یہ چیز غلط بھی نہیں ہے ایک معنی میں استکباری مشینریاں یہ جو پروپگنڈوں پر دھیان دیتی ہیں غلط بھی نہیں کرتیں! در اصل استکبار کو پروپگنڈے کا پتہ ہے، مسلمان قوم کی راہ و روش تعلقات اور مواقف کے خلاف جنگ اس کا ہدف ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ آج ایسا ہورہا ہے بلکہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں سے ہی یہ کام شروع ہوچکا تھا، لیکن در حقیقت قسمت نے استکبار کا ساتھ نہیں دیا، جیسا کہ آج بھی اس راہ میں تقدیر استکبار کے ساتھ نہیں ہے، وہ لوگ جو پروپگنڈے پر اس قدر توجہ دیتے ہیں اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے پروپگنڈے کے اثرات دنیا میں دیکھے ہیں، اس ملت (ایران) کا سابقہ استکبار کے ساتھ، جو ان ریڈیوز (یاذرائع ابلاغ) کے ڈائریکٹرز شمار ہوتے ہیں، مثلا امریکہ اور برطانیہ ، جنھوں نے سابق میں (قوم کے درمیان) فاصلوں اور شگاف کو اور بڑھایا ہے اُس ملت نے دسیوں سال ان کی خیانت، ملعونیت اور دشمنیوں کی مار تحمل کی ہے، ان کو بھلایا نہیں جاسکتا، انقلاب کے ابتدائی دنوں کے بعد سے آج تک ان کی خودغرضیاں ان کے پروپگنڈوں میں ملت نے مشاہدہ کی ہیں۔
امام خامنہ ای
2/ جنوری / 1998
حقیقی قوت اس قومی قوت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ اس بات کی آگاہی بھی ہو کہ اس کے گرد و پیش کیا کچھ ہو رہا ہے، دوسرے یہ کہ اپنے حق اور اپنی راہ پر ایمان رکھتی ہو، تیسرے یہ کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس راہ پر گامزن رہے گی، اگر کوئی قوم ان تین خصوصیتوں کی حامل ہے، دنیا کی کوئی طاقت اس سے زیادہ قوی نہیں ہو سکتی۔ ہم اپنی حیثیت، اپنی عزت و شرافت، اپنے دین، اپنے انقلاب، اپنے انسانی حقوق اور اپنی خود مختاری کا دفاع کر رہے ہیں، ہر قوم جو اپنے ان حقیقی حقوق کے بارے میں ایمان و آگاہی کے ساتھ فیصلہ کر لے قطعی طور پر کامیاب ہوگی، لہذا ہم اپنے دشمنوں سے زیادہ طاقتور ہیں … ہماری یہ قوت اور اقتدار اس وقت سے ہے کہ جب ہم متحد اور ایک ہوں، ایک قوم جو متحد ہو ... اختلاف در اصل پوری حیات کو، آبرو کو اور اقتدار کو ملت سے چھین لیتا ہے۔ قوم کے اس اتحاد کی اگر آپ نے حفاظت کی آپ کا یہ اقتدار باقی رہے گا۔
امام خامنہ ای
14/ جولائی/ 1989
دشمنوں سے جنھیں اسلام سے نقصان پہنچا ہے اور جن کو ضرب پڑی ہے اس بات کی توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ اسلامی جمہوری نظام کے سلسلے میں آرام سے خاموش بیٹھے رہیں گے؛ دشمن یقینا دشمنی دکھائے گا، دشمن کی طرف سے دشمنی کا منتظر رہنا چاہئے، مگر آگاہی اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کا سامنا کرنا اور قومی مفادات کے تحفظ کے لئے، عوامی مفادات کی حفاظت کے لئے بہترین راہ اپنانا اور پیش نظر رکھنا چاہئے؛ وہ چیز جس کو میں تمام چیزوں سے زیادہ لازم سمجھتا ہوں قوم کی ایک ایک فرد کا متحد رہنا اور ممتاز شخصیتیوں اور حکمرانوں کے درمیان بنیادی اصولوں میں اتحاد پایا جانا ہے، بہت سی چیزوں میں ایک بات جو ہمارے ملک کے لئے حقیقتا اہم ہے یہ ہے کہ ہمارے عوام سیاسی اور نفسیاتی امن و تحفظ کا احساسس کریں معاشرے کی نفستیاتی فضا بے چین و مضطرب نہ ہو۔ (دشمن) کوشش کررہے ہیں بے چینی اور اضطراب پھیلائیں، اصل چیزیہ ہے؛ یہ اسلامی جمہوری نظام کے مخالفین کی پالیسیوں کا ایک حصہ ہے۔
امام خامنہ ای
19/ ستمبر/ 2008
بحمدللہ ملت ایران ان برسوں کے دوران انقلاب کی کامیابی سے آج تک ایک راہ مستقیم پر آگے بڑھی ہے اور یہ راہ مستقیم، اسلامی اصول اور بنیادوں پر ثابت قدم رہنے کا راستہ ہے، ملت ایران کوئی جمود کی شکار قوم بھی نہیں ہے، عصری تقاضوں کو سمجھتی ہے، صاحب علم ، صاحب تحقیق، صاحب فکر اور صاحب فہم ہے، ہماری ملت اس طرح کی ہے، ہر دور اور ہر زمانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ہماری ملت نے ان تقاضوں کے مطابق عمل کیا ہے، ملت نے بحمداللہ اپنی پیش قدمی کو جاری رکھا ہے یہ راہ کمال کی راہ اور ارتقا کی راہ ہے۔ ہم اس بات کے دعویدار نہیں ہیں کہ اس انقلاب کے اعلی مقاصد یعنی حقیقی اسلامی معارف تک پہنچ چکے ہیں؛ نہیں! لیکن اس راہ میں آگے بڑھ رہے ہیں، آگے کی طرف گامزن ہیں۔
امام خامنہ ای
19/ ستمبر/۲۰۰۸
امیرالمومنین کی سیاسی روش کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ لوگوں سے تکلفاً نہیں بلکہ سنجیدگی سے کہتے تھے کہ کوئی ان سے خوشامدانہ لہجے میں بات نہ کرے، چاپلوسی نہ کرے، دکھاوا نہ کرے ... ان کا یہ جملہ بہت مشہور ہے: "فلا تکلمونی بما تکلم بہ الجبابرۃ" جس طرح تم بادشاہوں اور جابروں سے بات کرتے ہو، اس طرح مجھ سے بات نہ کرو۔ "ولا تتحفظوا منی بما یتحفظ بہ عند اھل البادرۃ" یہ جو تم خیال رکھتے ہو کہ فلاں بادشاہ کو کہیں یہ بات بری نہ لگ جائے، ناگوار نہ گزرے اور اسی خیال سے کچھ باتیں نہیں کہتے ہو اور کچھ باتوں کا خیال رکھتے ہو، میرے سامنے اس طرح کا کام نہ کرو۔ "ولاتخالطونی بالمصانعۃ و لا تظنوا بی استثقالا فی حق قیل لی" تم یہ نہ سوچو کہ اگر تم نے سچ بات کہہ دی تو علی کو وہ بات بری لگ سکتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ یہ بھی امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی روش کی ایک خصوصیت ہے۔
امام خامنہ ای
10/9/2009
عشرۂ فجر میں جو چیز لازمی ہے وہ دو شکریے ہیں: پہلا، اللہ کا شکر۔ پورے خضوع کے ساتھ، مکمل تواضع کے ساتھ ہم بارگاہ الہی میں سرجھکاتے ہیں کہ اس نے ایرانی قوم کو یہ توفیق عطا کی، یہ عظیم اقدام، یہ بڑا کام، یہ تاریخ رقم کرنے والی تحریک ایرانی قوم کے ہاتھوں اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی قیادت میں تشکیل پائي، ایرانی قوم کا سفر اللہ کی جانب، الہی اہداف کی جانب اور الہی اقدار کی جانب شروع ہوا۔ اس سے بڑی کوئي نعمت نہیں ہے اور اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا، ہمیشہ ضروری ہے اور عشرۂ فجر کے ایام میں تو زیادہ ضروری ہے۔ دوسرا شکریہ، ایرانی قوم کا شکریہ ہے، لوگوں نے وفاداری دکھائي، جوانمردی کا مظاہرہ کیا، قربانیاں دیں، ایثار سے کام لیا، شجاعت کا مظاہرہ کیا، بصیرت سے کام لیا ... یہ پودا، تمام تر خطروں، تمام تر مشکلات کے باوجود روز بروز زیادہ تناور، زیادہ ثمردار اور زیادہ بالیدہ ہوتا گيا۔
امام خامنہ ای
1986/12/05
آزادی یہ نہیں ہے کہ کوئي، اس کے نام پر جو بھی غلط فائدہ اٹھانا چاہے، اٹھائے جیسا کہ دنیا میں یہ کام ہوا ہے، جیسا کہ آزادی کے نام پر انسانوں پر سب سے بڑے بوجھ تھوپ دیے گئے ہیں، آزادی کے نام پر سب سے بڑے جرائم ہوئے ہیں، آزادی کے نام پر انسانی نسلوں کو اخلاقی اور جنسی بے راہ روی میں مبتلا کر دیا گيا ہے۔ اگر ہم عورت کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ہم دنیا کے مقروض نہیں ہیں۔ اگر سماج میں عورت کی حدود اور اس کی ذمہ داریاں طے ہو جائيں تو دنیا ہمارے اوپر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ سوال پوچھنے کا حق تو ہمیں ہے۔ اگر ہم آزادی کے مسئلے میں بھی اسلام کے نظریے کو صحیح طریقے سے بیان کریں، اس کی صحیح تشریح کریں تو دنیا کے اور ان ملکوں کے مقروض نہیں ہوں گے جو جھوٹی، جعلی اور گمراہ کن آزادی کا دم بھرتے ہیں۔ اسی لیے آزادی کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ بیان ہونا چاہیے۔
امام خامنہ ای
1986/12/05
ان شاء اللہ خداوند عالم حضرت علی اکبر علیہ السلام کے طفیل آپ جوانوں کی حفاظت کرے، آپ کو اسلام کے لیے محفوظ رکھے، ثابت قدم رکھے۔ نوجوان اس بات پر خاص توجہ رکھیں: وہ صراط مستقیم یا سیدھے راستے کو پہچان سکتے ہیں، اس سے لو لگا سکتے ہیں، اپنے آپ کو سیدھے راستے کے مطابق ڈھال سکتے ہیں لیکن اس راستے پر باقی رہنا دشوار ہے، صراط مستقیم پر اپنے آپ کو باقی رکھیے۔ بقول مرحوم امیری فیروزکوھی:
شباب عمر بہ دانش گذشت و شیب، بہ جہل
کتاب عمر مرا فصل و باب، پیش و پس است
(جوانی علم میں گزری جبکہ بڑھاپا جہالت میں گزر گيا، میری عمر کی کتاب کی فصل اور باب برعکس ہے)
بعض لوگوں کی نوجوانی اچھی تھی لیکن بڑھاپا! خدا کی پناہ، بوڑھے تو خیر ہوئے ہی۔ اس جوانی کو باقی رکھنے کی کوشش کیجیے۔ البتہ آپ لوگ اچھے ہیں، بحمد اللہ آپ لوگ انقلاب اور اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ یہی حالت باقی رہے۔ صحیح راستے پر ثابت قدم رہنا اور استقامت کرنا، ایک اچھی چیز ہے۔
امام خامنہ ای
8 مئي 2017
دشمن چاہتا ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان تنازعہ رہے، خاص طور سے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن، انقلابی اور اسلامی ایران اور دیگر اقوام کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتا ہے لیکن یہ انقلاب، قرآن کی بنیاد پر، توحید کی اساس پر، خالص اسلام کی بنیاد پر، تمام مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اخوت کی بنیاد پر آنے والا ایک اسلامی انقلاب ہے۔ یہ بات ہماری قوم نے شروع سے ہی کہی ہے اور امام خمینی نے بھی ببانگ دہل بیان کی ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ ہمارے مسلمان بھائي جہاں بھی ہیں اور ان کا مسلک جو بھی ہے، ویسے ہی رہیں لیکن سبھی ایک دوسرے کے بھائي بنے رہیں اور اسلام، توحید اور قرآن کی راہ میں سامراج سے – جو اسلام، توحید اور قرآن کا دشمن ہے – جدوجہد کریں۔
امام خامنہ ای
27/9/1991
امام زین العابدین علیہ السلام تین کردار ادا کر رہے تھے۔ دو کردار ان کے اور بقیہ ائمہ علیہم السلام کے درمیان مشترک ہیں۔ اسلام اور اسلامی معاشرے کے سلسلے میں اپنی امامت کے ڈھائي سو سالہ عرصے میں ائمہ علیہم السلام جو اہم فریضہ ادا کر رہے تھے، ان میں سے ایک اسلامی معارف، اسلامی احکام، اسلامی فقہ کی تشریح اور اسلام پر مسلط کیے جانے والے انحرافات، تحریف اور کجی سے اس کی حفاظت تھی اور دوسرا، اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، ایک ایسا الہی معاشرہ جس کا انتظام حکومت علوی کے تحت چلایا جائے۔
امام زین العابدین علیہ السلام پر اپنی امامت کے دوران ایک دوسرا فریضہ، واقعۂ عاشورا کو زندہ رکھنے کا بھی تھا اور یہ بھی ایکی درس ہے۔ واقعۂ عاشورا، ایسا واقعہ تھا جو اس لیے رونما ہوا تاکہ تاریخ، آئندہ نسلیں اور آخری زمانے تک کے مسلمان اس سے درس حاصل کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی
قوم اس بات پر توجہ رکھے کہ اسلام کے دشمن اور آپ کے ملک کے دشمن ہر راستے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ راستے آپ نے دیکھے ہی ہیں کہ واضح ہے کہ وہ سازشیں کریں گے اور مثال کے طور پر ہنگامے مچائيں گے، بلوے کریں گے اور آپ یہ سب جانتے ہیں۔ ایک دوسرا راستہ جو اس وقت ان کی نظروں میں ہے، یہ ہے کہ ان مراکز کو، جو علمائے دین اور قوم کے رابطے سے جڑے ہوئے ہیں، کمزور کر دیں اور رفتہ رفتہ ختم کر دیں۔ مساجد سے امور چلائے جانے چاہیے۔ یہ مساجد ہی تھیں جنھوں نے ہماری قوم کے لیے اس فتح کو فراہم کیا، ہماری فتح مساجد کا انتظام چلانے کے لیے ہے، یہ وہ مراکز ہیں جو حقیقت اسلام کے فروغ کے لیے ہیں، اسلامی فقہ کے فروغ کے لیے ہیں اور یہ مسجدیں ہیں، انھیں خالی نہ رہنے دیجیے۔ یہ ایک سازش ہے کہ وہ رفتہ رفتہ مساجد کو خالی کرانا چاہتے ہیں۔
امام خمینی
11/7/1980
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دعا، مومن کا وسیلہ، مضطر و بے کس کا سہارا اور علم و قوت کے پرفیض سرچشمے سے کمزور اور نا واقف انسان کے رابطے کا ذریعہ ہے۔ خداوند عالم سے روحانی رابطے اور اس بے نیاز کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر انسان اپنی زندگي میں سرگرداں ہی رہے گا اور اس کی زندگي بے کار گزر جائے گي: "قل ما یعبؤا بکم ربیّ لولا دعاؤکم"(سورۂ فرقان، آيت 77) اے پیغمبر! کہہ دیجیے کہ اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا پروردگار تمہاری پروا بھی نہ کرتا۔
بہترین دعا وہ ہے جو خدا کی عاشقانہ معرفت اور انسان کی ضرورتوں کی عارفانہ بصیرت کے ساتھ کی گئي ہو اور یہ چیز صرف رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے پاکیزہ اہلبیت کے مکتب میں، جو پیغمبر کے علم کے ظروف اور ان کی حکمت و معرفت کے وارث ہیں، پائي جا سکتی ہے۔ بحمد اللہ ہمارے پاس اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کا لافانی ذخیرہ ہے جس سے انس معرفت، کمال، محبت اور پاکیزگي عطا کرتا ہے اور انسان کو آلودگیوں سے پاک رکھتا ہے۔
ماہ شعبان کی ماثورہ مناجات – جس کے بارے میں روایت ہے کہ اہلبیت علیہم السلام اسے کبھی ترک نہیں کرتے تھے – ان دعاؤں میں سے ایک ہے، جن کا عارفانہ لہجہ اور فصیح و دلنشیں زبان انتہائي اعلی مضامین اور اعلی معارف سے سرشار ہے اور اس کی مثال عام زبانوں اور بول چال میں ڈھونڈھی نہیں جا سکتی بلکہ بنیادی طور پر اس زبان میں یہ دعا کی ہی نہیں جا سکتی۔
یہ مناجات، اپنے معبود، اپنے محبوب اور پروردگار عالم کی مقدس ذات سے خدا کے سب سے برگزیدہ بندوں کی دعا، التجا، منت اور عاجزی کا ایک کامل نمونہ ہے۔ یہ معارف کا درس بھی ہے اور خدا سے مومن انسان کی التجا اور درخواست کا نمونہ بھی ہے۔
وہ پندرہ مناجاتیں جو امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل ہوئي ہیں، اہلبیت علیہم السلام کی ماثورہ دعاؤں کی واضح خصوصیات تو رکھتی ہی ہیں، ساتھ ہی ان کی ایک نمایاں صفت یہ بھی ہے کہ انھیں ایک مومن انسان کے مختلف حالات کی مناسبت سے بیان کیا گيا ہے۔
خداوند عالم ان مبارک کلمات کی برکت سے سبھی کو فیض حاصل کرنے اور اپنے نفس کی تعمیر کی توفیق عطا کرے۔
امام خامنہ ای
22 دسمبر 1990
آیات و روایات وغیرہ کی رو سے میرے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت ایک ہوا ہے جو گھر کی فضا میں رچی بسی ہوئي ہے یعنی جس طرح آپ سانس لیتے ہیں تو اگر ہوا نہ ہو تو سانس لینا ممکن نہیں ہے، عورت اسی ہوا کی طرح ہے، گھر کی عورت اس ماحول میں سانس کی طرح ہے۔ یہ جو روایت میں کہا گيا ہے: "اَلمَراَۃُ رَیحانَۃٌ وَ لَیسَت بِقَھرَمانَۃ" وہ یہیں کے لیے ہے، گھرانے کے لیے ہے۔ ریحانہ کا مطلب ہے پھول، عطر، خوشبو، وہی ہوا جو فضا میں بس جاتی ہے۔ عربی زبان کا 'قہرمان' - لیست بقھرمانۃ" - فارسی زبان کے قہرمان کے معنی سے الگ ہے۔ عربی میں قہرمان کے معنی ہیں مزدور یا کام کرنے والا، عورت ایک قہرمانہ نہیں ہے۔ گھر میں ایسا نہیں ہے کہ آپ سوچیں کہ آپ نے شادی کر لی ہے تو سارے کام عورت کے کندھوں پر ڈال دیجیے، جی نہیں۔ اگر وہ اپنی مرضی سے کوئي کام کرنا چاہتی ہے تو کوئي بات نہیں۔
امام خامنہ ای
4/1/2023
تمام مسلمان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اولیائے خدا سے مروی معتبر احادیث کی بنیاد پر مہدئ موعود کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت، عالم اسلام میں کہیں بھی ہماری قوم اور شیعوں کی طرح اتنی نمایاں نہیں ہے اور اس کا ایسا درخشاں چہرہ اور ایسی دھڑکتی ہوئي اور پرامید روح بھی کہیں اور نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی متواتر روایات کی برکت سے، مہدئ موعود کو ان کی خصوصیات کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ہمارے لوگ، اللہ کے اس عظیم الشان ولی اور زمین پر اس کے جانشین کو اور اسی طرح اہلبیت پیغمبر کے دوسرے افراد کو ان کے نام اور خصوصیات سے پہچانتے ہیں، جذباتی اور فکری لحاظ سے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، گلے شکوے کرتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں اور اس آئيڈیل زمانے – انسانی زندگي پر اللہ کے اعلی اقدار کی حکمرانی کے زمانے– کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار کی بہت زیادہ قدروقیمت ہے۔ اس انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کا وجود، انتظار کرنے والوں کے دلوں سے امید ختم نہیں کر پاتا۔ اگر اجتماعی زندگي میں یہ امید کا مرکز نہ ہو تو انسان کے پاس اس بات کے علاوہ کوئي دوسرا چارہ نہیں ہے کہ وہ انسانیت کے مستقبل کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا رہے۔
امام خامنہ ای
9/12/1992
ماہ شعبان بہت اہم مہینہ ہے؛ اَلَّذى کانَ رَسولُ اللَہِ صَلَّى اللَہُ عَلَیہِ وَ آلِہِ یَداَبُ فى صیامِہِ وَ قیامِہِ فى لَیالیہِ وَ اَیّامِہِ بُخوعاً لَکَ فى اِکرامِہِ وَ اِعظامِہِ اِلىٰ مَحَلِّ حِمامِہ. (اے خدا! یہ ماہ شعبان وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول خدا اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں قیام کیا کرتے تھے۔ تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے۔) پیغمبر اپنی عمر کے آخری دنوں تک اس مہینے میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ "فَاَعِنّا عَلَى الاِستِنانِ بِسُنَّتِہِ فیہ" (تو اس مہینے میں ان کی سنت کی پیروی کی ہمیں توفیق دے۔) خود وہ زبردست مناجات بھی جو اس مہینے کے لیے نقل ہوئي ہے (مناجات شعبانیہ)، اس ماہ کی عظمت کی گواہ ہے۔ ایک بار میں نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ جو دعائیں ہیں، ان کے درمیان آپ کس دعا کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا کس دعا سے زیادہ مانوس ہیں؟ مجھے اپنے جملے بعینہ یاد نہیں ہیں لیکن ایسا ہی کچھ سوال کیا تھا۔ انھوں کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ اتفاق سے یہ دونوں دعائيں، دعائے کمیل بھی واقعی ایک بہت ہی زبردست مناجات ہے، معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعض فقرے تو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں۔ خود یہ دعا بھی واقعی ایک نعمت ہے۔ اِلٰہی ھَب لی قَلباً یُدنیہِ مِنکَ شَوقُہُ وَ لِساناً یَرفَعُ اِلَیکَ صِدقُہُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُہُ مِنکَ حَقُّہ. (اے میرے معبود! مجھے ایسا دل عطا کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے، اور ایسی زبان جس کی سچائی اسے تیری جانب اوپر لے آئے اور ایسی نگاہ جس کی حقانیت اسے تیرے دائرہ قرب میں داخل کرے۔) واقعی خداوند متعال سے اس طرح بات کرنا، اپنی حاجت بیان کرنا، حق تعالی کے حضور اپنا اشتیاق ظاہر کرنا، بہت غیر معمولی چیز ہے، بہت عظیم ہے؛ یا یہ فقرہ کہ "اِلٰہی بِکَ عَلَیکَ اِلّا اَلحَقتَنى بِمَحَلِّ اَہلِ طاعَتِکَ وَ المَثوَى الصّالِحِ مِن مَرضاتِک" (اے میرے معبود! تجھے تیری ذات گرامی کا واسطہ! مجھے اپنے مطیع بندوں کے مرتبے اور اپنی خوشنودی کے نتیجے میں شائستہ منزلت تک پہنچا دے۔) یا یہ فقرہ جو اس دعا کا نقطۂ عروج ہے اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بار بار اپنے بیانوں میں دوہراتے تھے کہ "اِلٰہى ھَب لى کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِھا اِلَیکَ حَتَّى تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور. (اے میرے معبود! تیرے علاوہ تمام مخلوقات سے دور ہونے اور ان سے امید منقطع کرنے میں مجھے ایسا کمال عطا فرما کہ میں مکمل طور پر تجھ تک پہنچ سکوں اور ہمارے دلوں کی بصارتوں کو اپنی طرف مکمل توجہ کے نور سے روشنی عطا کرتے رہنا، یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔) واقعی ہم لوگ کس طرح یہ باتیں کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے سامنے تو یکے بعد دیگرے ظلمتوں کے پردے ہیں؛ جبکہ اس دعا میں درخواست یہ کی گئي ہے کہ حَتَّى تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور (یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔)
امام خامنہ ای
10 مارچ 2022
یہ شعبان کا مہینہ ہے، توسل، دعا اور تدبر کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ مبارک رمضان کا مقدمہ ہے، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں پڑھی جانے والی خاص دعاؤں میں ہمارے لئے سعادت و خوش بختی کا راستہ روشن اور نمایاں ہے۔ اے پروردگار مجھے وہ دل عنایت کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر دے، ایسی زبان عطا کر جس کی صداقت تیری سمت بلند ہو، اور ایسی نظر دے جس کی درستگی اسے دیرے پاس لے جائے۔... اے میرے اللہ مجھے تیری بارگاہ کی طرف مکمل توجہ کی توفیق دے۔ (مناجات شعبانیہ کے فقرے) یہ اولیائے خدا کی اعلی و ارفع آرزوئیں ہیں جو الفاظ کے قالب میں ہمیں سکھائی گئی ہیں تا کہ ہمارے ذہنوں کی رہنمائی ہو ان اہداف کی جانب جن کا مطالبہ کیا جانا چاہئے، اس راستے کی جانب جس پر گامزن ہونا چاہئے، رابطے کی اس نوعیت کی جانب جو اللہ اور بندے کے رابطے میں ہونی چاہئے۔
امام خامنہ ای
7 مئی 2017
ایک ایسی قوم کے لیے جس نے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جان ہتھیلی پر رکھ کر قیام کیا تھا اور اس کا قائد ایک عالم ربانی اور پیغمبروں کا جانشین تھا، مغربی نظام آئيڈیل نہیں بن سکتا تھا۔ تو ہم نے آئيڈیل نہ تو مشرقی حکومتوں سے لیا اور نہ ہی مغربی حکومتوں سے بلکہ ہم نے اسلام سے آئيڈیل حاصل کیا اور ہمارے عوام نے اسلام کی شناخت کی بنا پر اسلامی نظام کو منتخب کیا۔ ہمارے عوام نے اسلامی کتابیں پڑھ رکھی تھیں، وہ احادیث و روایات سے آشنا تھے، قرآن سے آشنا تھے، انھوں نے مجالس میں شرکت کی تھی، پچھلی حکومت میں وہ جتنا بھی تلاش کرتے تھے، اس طرح کے اقدار کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔ انقلاب، ان اقدار کے حصول کے لیے تھا۔ اگر ہم ان اقدار کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں تو میں کہوں گا، اسلام۔ ہماری قوم ان اقدار کی متلاشی تھی جو سب کی سب اسلام میں ہیں۔
امام خامنہ ای
21/4/2000
رضا خان کے کارندوں نے حجاب ختم کرنے کی جو سازش شروع کی تھی، اس کی تلخی اب بھی مجھے یاد ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے ان محترم خواتین کے ساتھ کیا کیا، معاشرے کے دیگر تمام طبقوں کے ساتھ کیا کیا؟ یہ لوگ تاجروں کو، دکانداروں کو، علمائے دین کو، جہاں بھی ان کا زور چلتا تھا، سب کو مجبور کرتے تھے کہ پارٹی رکھو اور اپنی عورتوں کو پارٹی میں لے کر آؤ، عمومی پارٹیوں میں لے کر آؤ۔ پھر اگر یہ لوگ مخالفت کرتے تھے تو انھیں زدوکوب کیا جاتا تھا، باتیں سنائي جاتی تھیں، ہر طرح کی باتیں ہوتی تھیں۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ عورتوں کو جوانوں کی تفریح کا سامان بنا دیں تاکہ جوان اہم کاموں میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ انھوں نے بے راہ روی کے مراکز قائم کر رکھے تھے اور تہران سے لے کر تجریش کے آخر تک سیکڑوں ایسے اڈے تھے جہاں عیاشی کی جاتی تھی، یہ سب زنانہ مراکز تھے اور اسی لیے ہمارے جوان، کلیدی مسائل پر، جن پر انھیں توجہ دینی چاہیے تھی، بالکل بھی توجہ نہیں دیتے تھے۔
امام خمینی
10/9/1980
بعثت کا دن اور بعثت کی رات، وہ دن اور وہ رات ہے جو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو، جو خداوند عالم کے سب سے عظیم بندے ہیں، عالم وجود کا سب سے بڑا تحفہ عطا کیا گيا، جسے مبعث کی شب کی دعا میں "التجلی الاعظم" سے تعبیر کیا گيا ہے۔
قرآن مجید میں کئي جگہ، بعثت کے اہداف میں سب سے پہلے اخلاق اور تزکیۂ نفس کا ذکر کیا گيا ہے۔ ھُوَ الَّذی بَعَثَ فِی الاُمِّيّينَ رَسولاً مِنھُم يَتلوا عَلَيہِم آياتِہِ وَ يُزَكّيھِم پہلے تزکیہ ہے؛ اسی طرح دوسری آیتوں میں: لَقَد مَنَّ اللَّہُ عَلَى المُؤمِنينَ اِذ بَعَثَ فيھِم رَسولاً مِن اَنفُسِھِم يَتلوا عَلَيھِم آياتِہِ وَ يُزَکّيھِم. قرآن میں کئي اور جگہیں ہیں جہاں تزکیے کو بعثت کا ہدف و غایت، مقرر کیا گيا ہے؛ بعثت کے اہداف میں سر فہرست تزکیہ ہے۔
بعثت نبی مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت نے اس چیز کو عملی جامہ پہنایا جو ناممکن نظر آ رہی تھی، محال لگ رہی تھی، وہ کیا چیز تھی؟ وہ یہ تھی کہ اس نے جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگوں کو، میں ابھی یہ عرض کروں گا کہ ان کی خصوصیات کیا تھیں، مسلم امہ جیسی ایک بافضیلت قوم میں تبدیل کر دیا اور وہ بھی خود پیغمبر کے زمانے میں؛ یہ چیز عام نظروں سے ناممکن دکھائي دیتی ہے؛ جاہلیت کے دور کے جزیرۃ العرب کے لوگ، بعثت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے کچھ خصوصیات کے حامل تھے جن میں سے بعض کا ذکر نہج البلاغہ میں ہے اور بعض کا تاریخ میں ہے؛ گمراہ، سرگرداں، بے ہدف، بری طرح جہالت میں مبتلا، بڑے بڑے فتنوں میں مبتلا، تعصب اور بڑی جہالتوں کی وجہ سے شروع ہونے والے فتنے، ان ساری صفات کے علاوہ لاعلمی، معرفت کا فقدان، ذرہ برابر بھی اخلاق کا نہ ہونا، کسی ہدف کا نہ ہونا اور اس کے باوجود بری طرح سے گھمنڈی، بہت زیادہ تشدد پسند، حق کو تسلیم نہ کرنے والے، اڑیل اور ہٹ دھرم، یہ جزیرۃ العرب، مکے اور اس وقت موجود دوسری جگہوں کے لوگوں کی صفات تھیں۔ ان کے بڑوں سے لے کر چھوٹوں تک اور سرداروں سے لے کر ماتحتوں تک میں یہ باتیں پائي جاتی تھیں۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مختصر سی مدت میں انہی لوگوں کو ایسی قوم میں بدل دیا جو پوری طرح سے متحد تھی۔ آپ پیغمبر کے زمانے کے مسلمانوں کو دیکھیے، چاہے اس وقت کے ہوں جب وہ مدینے تک محدود تھے اور چاہے اس وقت کے ہوں جب مکے، طائف اور بعض دوسری جگہوں تک پھیل گئے تھے، متحد، بافضیلت، عفو و درگزر سے کام لینے والے، قربانی دینے والے اور اعلی ترین فضائل کے حامل تھے۔ پیغمبر نے انہی لوگوں کو، اس طرح کے انسانوں میں بدل دیا؛ یہ بظاہر ناممکن تھا، یہ چیز کسی بھی حساب کتاب سے ممکن نہیں لگتی تھی کہ ایک مختصر سی مدت میں اس طرح کی اخلاقی عادتوں اور خصوصیات کے حامل یہی لوگ، جب اسلام قبول کر لیتے ہیں تو بیس سال سے بھی کم عرصے میں ان کا ڈنکا پوری دنیا میں بجنے لگتا ہے، انھوں نے اپنے مشرق کی طرف سے، اپنے مغرب کی طرف سے، اپنی سوچ کو، اپنے نظریے کو اور اپنی عظمت کو پھیلا دیا، آج کل کی اصطلاح میں ہارڈ ویئر کے پہلو سے بھی اور سافٹ ویئر کے زاویے سے بھی اسے فروغ دیا۔ یہ وہ کام تھا جو اسلام نے انجام دیا اور واقعی یہ ناممکن کام تھا، ناممکن دکھائي دے رہا تھا لیکن اسلام نے اسے کر دکھایا؛ بعثت نے اسے عملی جامہ پہنا دیا۔
تو یہ وہ واقعہ ہے جو تاریخ میں رونما ہوا لیکن ہم آج اس واقعے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس معنی میں کہ یہ پوری تاريخ میں تمام مسلمانوں کے لیے ایک بشارت ہے کہ جب بھی لوگ، اللہ کے ارادے کی سمت میں، اس کی راہ میں آ جائيں اور الہی ارادے کے تابع ہو جائيں تو وہ ایسے ایسے کام انجام دے سکتے ہیں جو ناممکن دکھائي دیتے ہیں، ایسے اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نظروں سے اور معمولی اندازوں سے انسان کی دسترس سے باہر معلوم پڑتے ہیں، ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ پوری تاریخ میں یہ نبوی تجربہ دوہرائے جانے کے لائق ہے؛ اگر انسان، اس سمت میں آ جائیں تو وہ ایسے اعلی اہداف حاصل کر سکتے ہیں جو عام نگاہوں سے اور عام اندازوں سے ناممکن نظر آتے ہیں۔
امام خامنہ ای
1 مارچ 2022
اسلام میں کام کے طریقے بہت اہم ہیں، یہ طریقے، اقدار کی طرح ہیں۔ اسلام میں جس طرح سے اقدار کی بہت اہمیت ہے، اسی طرح کام کے طریقوں کی بھی اہمیت ہے اور اقدار، ان طریقوں میں بھی دکھائي دینے چاہیے۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت، حقیقی معنی میں اسلامی ہو تو ہمیں بغیر کسی رو رعایت کے اسی راہ پر آگے بڑھنا چاہیے۔ مختلف شعبوں کے عہدیداروں، مجریہ، عدلیہ، مقننہ، اوسط درجے کے عہدیداروں سبھی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کاموں اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے صحیح اور اخلاقی طریقہ استعمال کریں۔ اس طریقے کا استعمال ممکن ہے بعض جگہوں پر طاقت کے حصول کے لحاظ سے ناکامیوں اور پریشانیوں کا سبب بنے لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ اسلام کی نظر میں اور امیرالمومنین کی نظر میں، غیر اخلاقی طریقوں کا سہارا لینا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے۔ علی علیہ السلام کا راستہ یہ ہے اور ہمیں اسی طرح آگے بڑھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
16/3/2001
اسلام کے دشمن اور ایران کے دشمن یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک سال، دو سال یا پانچ سال بعد عوام تھک جائیں گے، انہیں یاد بھی نہیں رہے گا، وہ انقلاب سے کنارہ کشی کر لیں گے، چنانچہ دنیا کے بہت سے انقلابوں کے سلسلے میں ایسا ہی ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ بہت سے انقلابوں میں ایسا ہوا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہے کہ تمام انقلابوں میں یہ صورت حال پیش آئی۔ یہ تمام انقلاب جو گزشتہ دو سو سال اور ڈھائی سو سال کے عرصے میں رونما ہوئے، جہاں تک مجھے علم ہے، یہی حالات ہوئے۔ تھوڑا وقت گزرا تو جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا، انقلاب کی لہر بیٹھ گئی اور سب کچھ پہلے والی حالت پر لوٹ گیا۔
امام خامنہ ای
3/6/2014
عوام نے دکھا دیا کہ وہ دشمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ البتہ دشمن، میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، جھوٹی بھیڑ، جعلی مجمع، آپ دشمن کے مختلف ذرائع ابلاغ میں دیکھتے ہی ہیں، وہ اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ غافل اور بے خبر انسان محسوس کرتا ہے کہ واقعی کچھ ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جو چیز نمایاں اور عظیم ہے وہ انقلاب کی خدمت میں اور انقلابی میدانوں میں عوام کی موجودگي ہے۔
امام خامنہ ای
19/11/2022
اسلام میں کام کے طریقے بہت اہم ہیں، یہ طریقے، اقدار کی طرح ہیں۔ اسلام میں جس طرح سے اقدار کی بہت اہمیت ہے، اسی طرح کام کے طریقوں کی بھی اہمیت ہے اور اقدار، ان طریقوں میں بھی دکھائي دینے چاہیے۔ آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حکومت، حقیقی معنی میں اسلامی ہو تو ہمیں بغیر کسی رو رعایت کے اسی راہ پر آگے بڑھنا چاہیے۔ مختلف شعبوں کے عہدیداروں، مجریہ، عدلیہ، مقننہ، اوسط درجے کے عہدیداروں سبھی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کاموں اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے صحیح اور اخلاقی طریقہ استعمال کریں۔ اس طریقے کا استعمال ممکن ہے بعض جگہوں پر طاقت کے حصول کے لحاظ سے ناکامیوں اور پریشانیوں کا سبب بنے لیکن بہرحال یہ طے ہے کہ اسلام کی نظر میں اور امیرالمومنین کی نظر میں، غیر اخلاقی طریقوں کا سہارا لینا کسی بھی طور پر صحیح نہیں ہے۔ علی علیہ السلام کا راستہ یہ ہے اور ہمیں اسی طرح آگے بڑھنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
16/3/2001
اس عظیم شخصیت، حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے تشریح کا جہاد، روایت کا جہاد شروع کیا۔ انھوں نے واقعے کے بارے میں دشمن کی بات اور دشمن کی روایت کو غلبہ حاصل نہیں کرنے دیا۔ انھوں نے ایسا کام کیا کہ حسینی روایت نے رائے عامہ پر غلبہ حاصل کر لیا۔
امام خامنہ ای
12/12/2021
آیت اللہ خامنہ ای کا سفر شام اور بی بی زینب کے روضے کی زیارت (ستمبر 1984)