اسلامی نظام، عدل و انصاف، لوگوں کی خدمت، انسانوں کے حقوق کے احترام اور کمزور پر طاقتور کے ظلم سے مقابلے کا نظام ہے۔ پوری تاریخ میں انسان کی سب سے اہم مشکلات یہی ہیں۔ انسانیت ہمیشہ ان مشکلات سے دوچار رہی ہے اور اس وقت بھی انہی مسائل میں پھنسی ہوئي ہے۔ آپ دیکھیے کہ آج دنیا کے منہ زور اور طاقتور لوگ، پوری دنیا کے دعویدار ہیں۔ اقوام انہی منہ زوریوں کی وجہ سے چوٹ کھاتی ہیں اور ان کی زندگي سخت ہو جاتی ہے۔ اسلام کی منطق، امیرالمومنین کی منطق اور حکومت علوی کی منطق انہی چیزوں سے مقابلے کی ہے، چاہے وہ ایک سماج کے اندر ہو کہ جس میں کوئي منہ زور کسی کمزور کو نگلنا چاہے، چاہے عالمی اور بین الاقوامی سطح پر ہو۔
امام خامنہ ای
5/11/2004
اللہ کا وعدہ عملی جامہ پہنے گا، البتہ کچھ مدت بعد۔ اللہ کا وعدہ مسلمان اقوام کو عزیز بنانے کا ہے۔ یہ چیز ایک رات میں تو ہونے والی نہیں ہے، بغیر کوشش اور عمل کے بھی ممکن نہیں ہے۔ اللہ کا وعدہ یہ تھا کہ جو قوم اللہ کی راہ میں مجاہدت کرے گی اور اس پر ایمان رکھے گي، وہ فاتح ہوگي۔ آپ ایرانی قوم کا اللہ پر ایمان تھا، آپ نے مجاہدت کی، آپ کو فتح حاصل ہوئي۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ آپ اس فتح کے بعد، خدا کے دشمنوں سے ٹکرائیں گے اور اگر آپ نے صبر و استقامت سے کام لیا اور ڈٹے رہے تو دوبارہ آپ کو فتح حاصل ہوگي۔ مطلب یہ کہ فتح کا بھی وعدہ ہے اور ٹکراؤ کا بھی وعدہ ہے۔ جی ہاں! جب اللہ کی طاقت، اسلام کی طاقت، قرآن کی طاقت، روحانیت کی طاقت کہیں پر اپنا سر بلند کرتی ہے تو جو لوگ روحانیت کے مخالف ہیں وہ دشمنی کرتے ہیں، جو لوگ ظلم کرنے والے ہیں، وہ دشمنی کرتے ہیں، جو لوگ بے راہ روی کے عادی ہیں، وہ دشمنی کرتے ہیں، جو لوگ کسی بھی جہت سے روحانیت اور دین کو برداشت نہیں کرتے، وہ دشمنی کرتے ہیں ... اگر آپ نے جدوجہد کی، اگر ڈٹے رہے، اگر آپ نے اپنے صبر و استحکام کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا تو فتح آپ کو نصیب ہوگي لیکن اگر آپ نے جدوجہد چھوڑ دی، کمزوری محسوس کرنے لگے، مایوسی کا احساس کرنے لگے، پسپائی اختیار کرنے لگے تو پھر ایسا نہیں ہوگا۔
امام خامنہ ای
25/12/1998
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 24 ستمبر 1982 کو اپنی ایک تقریر میں فرزند رسول امام محمد باقر علیہ السلام کی شخصیت کے کچھ پہلؤوں کا جائزہ لیا اور امام کے تاریخی سفر شام کے سلسلے میں بڑے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔ خطاب کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
مغرب میں آزادی تھی لیکن ظلم و بے راہ روی کے ساتھ اور بے لگام آزادی تھی۔ مغرب میں اخبارات آزاد ہیں اور ہر چیز لکھتے ہیں لیکن مغرب میں اخبار کن لوگوں کے اختیار میں ہیں؟ کیا وہ عوام کے اختیار میں ہیں؟ یہ بہت واضح سی بات ہے، جا کر دیکھیں۔ آپ پورے یورپ اور امریکا میں ایک بھی ایسا اخبار دکھا دیجیے جو سرمایہ داروں سے وابستہ نہ ہو! تو اخبار آزاد ہے، یعنی سرمایہ دار کی آزادی کہ وہ جو چاہے کہہ سکے، جس کی بھی چاہے امیج خراب کر سکے، جسے بھی چاہے بڑا بنا کر پیش کر سکے، جس سمت میں بھی چاہے، رائے عامہ کو کھینچ کر لے جا سکے! یہ تو آزادی نہیں ہوئي۔ ہاں سرمایہ دار آزاد ہیں کہ اپنے اخبارات، ویڈیو اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے جو چاہے کہیں! یہ آزادی، اقدار میں نہیں ہے، اقدار مخالف ہے۔ یہ لوگ عوام کو بے راہ روی اور بے اعتقادی کی طرف کھینچ رہے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، وہاں جنگ شروع کروا دیتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں وہاں صلح تھوپ دیتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، وہاں ہتھیار بیچتے ہیں۔ کیا آزادی کا مطلب یہی ہے؟!
امام خامنہ ای
12/5/2000
آج امریکی بھی ان تمام انسانوں اور گروہوں کی طرح جو اقتدار کے نشے میں چور ہیں – کہ عام طور پر اقتدار، غلطیوں کا سبب بنتا ہے، یعنی انسان فاش غلطیاں کر بیٹھتا ہے – فاش غلطیاں کر رہے ہیں۔ وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں چور ہیں اور صحیح طریقے سے سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ کیا کر رہے ہیں، اسی لیے وہ بڑی بڑی غلطیاں کر رہے ہیں۔ انہی غلطیوں کی وجہ سے ان کے پیروں سے زمین نکل جائے گي۔ مستقبل قریب میں، جو زیادہ دور نہیں ہے، یہی بڑی بڑی غلطیاں، امریکا کو گھٹنوں پر لے آئيں گي۔ صورتحال ویسی نہیں ہے، جیسی وہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے چینلز اور پروپیگنڈہ کرنے والے ادھر ادھر ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ اب کوئي چارہ نہیں ہے، امریکا سب سے بڑی طاقت ہے اور اس سے بنا کر رکھنا چاہیے، کسی طرح اسے خوش رکھنا چاہیے لیکن ایسا ہے نہیں۔ یہ بڑی طاقت، اقتدار کے نشے میں چور ہونے کی وجہ سے غلطیاں کر رہی ہے اور یہ غلطیاں اس کے پیروں کے نیچے بہت ہی خطرناک گڑھا بنا رہی ہیں۔
امام خامنہ ای
22/11/2002
جو بھی خدا کی راہ میں جدوجہد کرے گا یقینا خداوند عالم اسے راستہ دکھائے گا۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہم کبھی اپنی جوانی کے ایام میں پڑھا کرتے تھے، بتایا کرتے تھے، اس پر ہمارا عقیدہ بھی تھا اور ایمان بھی تھا لیکن یہ چیزیں کھل کر ہمارے سامنے نہیں آئي تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ خدا کا کلام، سچ ہے لیکن ہم نے اس کا تجربہ نہیں کیا تھا لیکن آج تجربہ ہو چکا ہے۔ اسی زمانے میں، ایران میں اسلامی تحریک کی جدوجہد کے دوران اگر کوئي چاہتا کہ اس ملک میں – جو آج اسلام کا گہوارہ اور اسلام کا مینارہ ہے – یا اس تہران میں صرف خود ہی مسلمان کے طور پر زندگي گزارنا چاہتا تو واقعی یہ ممکن نہیں تھا، مشکل تھا! ... اور اگر یہ کہا جاتا کہ میدان میں عوام کی موجودگي کی برکت سے ایک دن یہاں کی حکومت، اسلامی حکومت قائم ہوگي تو کوئي یقین نہ کرتا لیکن یہ الہی وعدہ تھا اور جو پورا ہوا کیونکہ عمل کیا گيا۔
امام خامنہ ای
25/12/1998
بچپنے سے ہی مکے میں، شعب ابو طالب میں، اپنے والد گرامی کی معاونت و مدد سے لے کر مدینے میں زندگی کے دشوار مراحل میں حضرت امیر المومنین کی ہمراہی تک، جنگوں میں، تنہائي میں، خطروں میں، مادی زندگی کی سختیوں اور مختلف مشکلات میں، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حضرت علی کو پیش آنے والے پرمحن دور میں، خواہ وہ مسجد النبی ہو یا علالت کا زمانہ، ہر لمحہ آپ مجاہدت و سعی و کوشش میں مصروف رہیں، ایک مجاہد حکیم کی مانند، ایک مجاہد عارف کی طرح۔ نسوانی فرائض کے نقطۂ نظر سے بھی آپ نے زوجہ اور ماں کا کردار ادا کرنے، بچوں کی تربیت کرنے اور شوہرداری کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ اس با عظمت ہستی کا امیر المومنین علیہ السلام سے جو خطاب نقل کیا گیا ہے وہ امیر المومنین علیہ السلام کے تئیں آپ کی اطاعت شعاری اور خضوع و خشوع کی علامت ہے، اس کے علاوہ بچوں کی تربیت، امام حسن اور امام حسین جیسے بچوں کی تربیت اور حضرت زینب جیسی ہستی کی تربیت یہ ساری چیزیں نسوانی فرائض کی ادائیگی، تربیت اولاد اور نسوانی مہر و محبت کے اعتبار سے ایک نمونہ خاتون کی علامتیں ہیں اور یہ ساری خصوصیات اٹھارہ سال کی عمر میں! ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی، جس میں یہ روحانی و اخلاقی خوبیاں ہوں، جس کا یہ طرز سلوک ہو، وہ کسی بھی معاشرے، کسی بھی تاریخ اور کسی بھی قوم کے لیے قابل فخر اور مایہ ناز ہستی ہے۔
امام خامنہ ای
3/6/2010
آج اسلامی نظام کی سب سے اہم بات، انصاف ہے۔ آج ہم انصاف نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ تمام کوشش اور مجاہدت اس لیے ہے کہ معاشرے میں سماجی انصاف قائم ہو، اگر انصاف قائم ہو گيا تو انسانی حقوق اور انسانی عزت و شرف بھی حاصل ہو جائے گا اور انسان اپنے حقوق اور اپنی آزادی کو بھی حاصل کر لیں گے۔ بنابریں، انصاف ہر چیز کا محور ہے۔ آج بھی اسلامی نظام کے سامنے مغرب کا سامراجی نظام اور امریکا ہے جو عدل کا دشمن اور انصاف کا مخالف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ انصاف خواہشمند نہیں ہے، بلکہ وہ سرے سے انصاف کا مخالف ہے۔ آج اگر طے ہو کہ عدل سے کام لیا جائے تو سب سے پہلے جو لوگ عدل کا تازیانہ کھائیں گے وہ عالمی سامراج کے سرغنہ ہیں! یہ لوگ نہ تو عدل کا نام زبان پر لا سکتے ہیں اور نہ ہی انصاف قائم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، اس لیے کہ یہ لوگ انصاف کے خلاف ہیں اور اسے غیر اہم بنانے کے لیے دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
امام خامنہ ای
14/11/2003
یہ جو 'سورۂ ھل اتی' میں خداوند عالم، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کے گھرانے کے کام کا ذکر کرتا ہے، یہ بہت ہی اہم چیز ہے۔ یہ ایک پرچم ہے جو قرآن مجید بلند کرتا ہے، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دروازے پر یہ پرچم لہراتا ہے: "اِنَّما نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللَّہِ لا نُرِیدُ مِنکُم جَزاءً وَ لا شُکورا."( سورۂ انسان، آيت 9، ہم تو صرف خدا کی خوشنودی کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں اور اس کے عوض نہ تم سے کوئی اجر چاہتے ہیں اور نہ ہی شکریہ۔) خدا کے لیے کام، اخلاص، بے لوث خدمت؛ کس کی؟ یتیم، فقیر اور اسیر کی؛ تو کیا یہ اسیر مسلمان تھا؟ بہت بعید ہے کہ اس وقت کوئي مسلمان اسیر رہا ہو۔ بغیر احسان جتائے خدمت؛ یہ درس ہے؛ حضرت فاطمہ زہرا کا پرچم یہ ہے؛ قرآن مجید اس کی عظمت بیان کر رہا ہے۔ یا مباہلے کی آیت میں: "وَ نِساءَنا وَ نِساءَکُم"( سورۂ آل عمران، آیت 61) حالانکہ پیغمبر کے اطراف میں بہت سی خواتین تھیں - ان کی زوجات تھیں اور ان کی قریبی عورتیں تھیں- لیکن "نساءنا" صرف فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں؛ کیوں؟ باطل کے محاذ سے حق کے محاذ کے ٹکراؤ کا حصہ بننے کے لیے؛ بات یہ ہے۔ فاطمہ زہرا، ان اعلی اور غیر معمولی حقائق کی مظہر ہیں۔ حضرت زہرا کے فضائل یہ ہیں۔
امام خامنہ ای
23 جنوری 2022
رہبر انقلاب اسلامی کی مختلف تقاریر کے اقتبسات کی روشنی میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور شخصیت
حضرت فاطمہ زہرا کی زندگي کو بغور دیکھنا چاہیے، نئي سوچ کے ساتھ اس زندگي کی شناخت حاصل کرنی چاہیے، اسے سمجھنا چاہیے اور حقیقی معنی میں اسے آئيڈیل بنانا چاہیے۔ (19 اپریل 2014) حضرت زہرا کی شخصیت، جوانی کی عمر میں ان تمام غیور، مومن اور مسلمان بلکہ غیر مسلم مردوں اور عورتوں کے لیے ایک آئيڈیل ہے جو آپ کے مقام و منزلت سے آگاہ ہیں۔ (13 دسمبر 1989)
یہ روایت، جسے کبھی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نقل کیا تھا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد جبرئيل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آتے تھے، ایک صحیح روایت ہے؛ ہم نے اس روایت کی سند پر نظر ڈالی ہے، سند معتبر اور بڑی ٹھوس ہے اور اس بات میں شک کی کوئي گنجائش نہیں ہے کہ جبرئیل آتے تھے۔ عبارت یہ ہے: "وَ کانَ یَاتیھا جَبرَئیلُ علیہ السّلام فَیُحسِنُ عَزاءَھا عَلَی اَبیھا." ہماری آج کی زبان میں کہا جائے تو وہ حضرت زہرا کے پاس برابر آيا کرتے تھے اور پیغمبر کی وفات کی تعزیت پیش کیا کرتے تھے؛ انھیں تسلی دیتے تھے؛ "و یخبرھا عن ابیھا و مکانہ" اور انھیں بتایا کرتے تھے کہ پیغمبر کس حال میں ہیں، عالم برزخ میں، خداوند عالم کے محضر میں، پیغمبر اکرم کے عظیم مقامات دکھایا کرتے تھے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لیے تصویر کشی کیا کرتے تھے؛ "وَ یُخبِرُھَا بِما یَکونُ بَعدَھا فِی ذُرِّیَّتِھا" ان کے بعد مستقبل میں ان کی اولاد کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے - امام حسن علیہ السلام کا ماجرا، کربلا کا ماجرا، ائمہ علیہم السلام کے ماجرے اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کا ماجرا ان سے بیان کرتے تھے؛ "وَ کَانَ عَلیٌّ علیہ السّلام یَکتُبُ ذَلِک"( اصول کافی، جلد 1، صفحہ 458) امیر المومنین بھی بیٹھ کر یہ ساری باتیں لکھا کرتے تھے؛ یہ بہت اہم بات ہے۔
امام خامنہ ای
23 جنوری 2022
دشمن کچھ چیزوں سے طیش میں آتا ہے، اس پر ہماری توجہ ہونی چاہیے۔ دشمن قومی اتحاد سے طیش میں ہے، وہ اس قومی اتحاد کو ختم کرنا چاہتا ہے ... وہ اس بات سے برہم ہے کہ مومن، سرگرم، بانشاط اور دل سے کام کرنے والے افراد ملک کے اہم انتظامی منصبوں پر آ جائیں اور پوری طاقت سے امور کو اسی راستے پر لے کر چلیں جس پر چلنا اسلامی اصولوں اور قومی مفادات کا تقاضا ہے، وہ اس بات سے غصے میں ہیں کہ عوام، حکومت کے پشت پناہ ہیں، وہ اس بات پر طیش میں ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں جہاد کی روح ہو، ہمارے نوجوان مومن ہوں، ہمارے جوان مذہبی پروگراموں میں شریک ہوں ... بحمد اللہ ایرانی قوم پوری طرح سے چوکنا ہے، بیدار ہے، لیکن مزید ہوشیار اور بیدار رہیے۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ ملک میں سیاسی کشیدگی رہے، وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی امن و استحکام نہ رہے ... قوم ہوشیار رہے، جوان چوکنا رہیں، مختلف طبقے ہوشیار رہیں۔
امام خامنہ ای
5/11/2004
دشمن اسلامی فرقوں میں لڑائی کرانا چاہتا ہے۔ خاص طور پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دشمن نے انقلابی اور اسلامی ایران اور دیگر اقوام کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ اسلامی دنیا میں کہا جائے کہ یہ شیعہ ہیں، ان کا انقلاب شیعی انقلاب ہے اور ہم سنّیوں سے اس انقلاب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایرانی قوم نے انقلاب کے شروع سے ہی کہا ہے کہ ہاں، ہم شیعہ اور محبان اہلبیت پیغمبر ہیں لیکن یہ انقلاب، اسلامی انقلاب ہے جو قرآن، توحید، خالص حقیقی اسلام اور تمام مسلمانوں کے اتحاد و اخوت پر مبنی ہے۔ ہماری قوم نے شروع سے ہی یہ بات کہی ہے۔ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے بھی یہی بات ببانگ دہل کہی ہے۔ اس اتحاد کو نقصان نہ پہنچنے دیجیے۔ دوسرے تمام ملکوں میں سبھی مسلم اقوام اس بات کی اجازت نہ دیں کہ بکے ہوئے مصنفین اور اہل قلم ایرانی قوم ، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف لکھیں اور ان پر تہمت لگائیں۔
امام خامنہ ای
27/9/1991
ایرانی قوم کے دشمنوں نے انقلاب کی شروعات سے لے کر اب تک پوری سنجیدگی سے جو کام کرنا چاہا ہے وہ سماج کے مختلف گروہوں کے درمیان ایک دوسرے کے سلسلے میں کدورت پیدا کرنا ہے، چاہے وہ سیاسی گروہ ہوں، چاہے دینی و مذہبی گروہ ہوں یا دوسرے گروہ ہوں۔ پوری تاریخ میں، سامراج، خاص طور پر برطانوی سامراج – جب وہ مشرق وسطی کے تمام علاقوں، ہمارے ملک اور دیگر ممالک پر مسلط تھا، اس پالیسی پر عمل کرتا رہا ہے، اس کے بعد دوسروں نے یہ بھی یہ پالیسی سیکھ لی۔ امریکی بھی اس وقت یہی کام کر رہے ہیں، ایرانی قوم کے دشمن بھی ہمارے ملک کے سلسلے میں اسی کام کو اپنی سازشوں میں شامل کیے ہوئے ہیں: دلوں کو ایک دوسرے سے مکدر اور طبقوں کو ایک دوسرے کے خلاف کر دیں ... آج وہ ایک بار پھر یہ خلیج اور یہ فاصلے پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس طرح سے کہ وہ مذہبی فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں اور مذہبی گروہوں کو ایک دوسرے سے دشمنی دکھانے کے لیے مجبور کر رہے ہیں تاکہ خلیج پیدا ہو جائے۔ لوگوں کے متحد ڈھانچے میں جو دراڑیں پڑ جاتی ہیں وہ دشمن کے لیے راستہ کھول دیتی ہیں اور دشمن، ان اختلافات کے ذریعے ایک معاشرے میں اور ایک ملک میں دراندازی کر سکتا ہے اور اپنی چالیں چل سکتا ہے۔ سبھی کو بہت زیادہ چوکنا رہنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
22/11/2002
امیر المومنین علیہ السلام نے (اپنی حکومت کی) اس مدت میں دکھا دیا کہ ان اسلامی اصولوں اور اسلامی اقدار کو، جو اسلام کی گوشہ نشینی کے دور میں اور چھوٹے سے اسلامی معاشرے میں وجود میں آئي تھیں، اسلامی سماج کی توسیع، آسودگي اور مادی ترقی و پیشرفت کے دور میں بھی عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔ ہم اس نکتے پر توجہ کریں، یہ بہت اہم ہے۔ ہمارا آج کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ اسلامی اصول، اسلامی عدل و انصاف، انسان کا احترام، جہاد کا جذبہ، اسلام کے تعمیری اقدار، اسلام کی اخلاقی بنیادیں، یہ سب چیزیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں وحی کے ذریعے نازل ہوئيں اور جہاں تک ممکن تھا، پیغمبر کے ذریعے انھیں اسلامی معاشرے میں نافذ کیا گيا۔
امام خامنہ ای
5/11/2004
امریکا کی چال یہ ہے کہ خود ہمارے ملک کے اندر ایسا کچھ کرے کہ ہم اس راستے پر، جس پر ہم نے چلنا شروع کیا ہے، چل نہ سکیں۔ ہمارے خلاف یہ اس کی داخلی سازش ہے جس پر ان لوگوں کے ذریعے عمل کیا جا رہا ہے جو ملک میں موجود ہیں اور ان کے آلہ کار ہیں۔ سازش یہ ہے کہ ایران کو ملک کے باہر ایسا ظاہر کیا جائے کہ نہ تو وہاں کی حکومت، ملک چلا سکتی ہے اور نہ ہی وہاں کی قوم ایسی ہے جو آزادی کے لائق ہو۔ یہ شیطان ہر جگہ ہنگامہ مچا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہر جگہ، چاہے یونیورسٹی ہو، چاہے صوبے اور کاؤنٹیاں ہوں، چاہے عدالتیں ہو، چاہے فورسز کے مراکز ہوں، پولیس کے مراکز، ہر جگہ ایک سازش کے ذریعے ہنگامہ مچانا چاہتے ہیں تاکہ یہ حکومت، مضبوطی سے قائم نہ ہو سکے۔ امریکا کو اسلام سے چوٹ پہنچی ہے اور وہ اسلام سے خوفزدہ ہے۔ اس نے ان جوانوں سے چوٹ کھائي ہے جنھوں نے قیام کیا، جان دی، قربانی دی۔ اسی لیے وہ تفرقہ پھیلا رہا ہے کہ وحدت اور اتحاد کے ذریعے جس قوم نے اپنے مقاصد کو اس حد تک حاصل کر لیا ہے، وہ آگے نہ بڑھنے پائے، اسے راستے میں ہی مفلوج کر دے۔
امام خمینی
7/1/1980
مختلف زیارتوں میں ہم جو توسل کا انداز دیکھتے ہیں جن میں بعض کی سند بھی بہت معتبر ہے، ان کی بہت اہمیت ہے۔ حضرت سے توسل آپ کی سمت توجہ، آپ سے انسیت۔ اس انسیت سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں تو حضور کو دیکھتا ہوں، آپ کی صدائے مبارک کو سنتا ہوں۔ ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ اس طرح کی باتیں جو کہی جاتی ہیں ان میں بیشتر یا تو جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں یا وہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا ہے بلکہ اپنے تصورات اور تخیلات کے زیر اثر اس طرح کی باتیں شروع کر دیتا ہے۔ ہم نے ایسے کچھ لوگوں کو دیکھا ہے جو جھوٹ بولنے والے انسان نہیں تھے بلکہ اپنی خیالی باتوں کے زیر اثر تھے۔ اپنی ان خیالی باتوں کو لوگوں کے سامنے حقیقت کے طور پر پیش کرتے تھے۔ ان باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ صحیح راستہ منطقی اور دلیلوں کا راستہ ہے۔ توسل اور امام سے راز و نیاز کا جہاں تک سوال ہے تو یہ عمل، انسان دور سے انجام دیتا ہے۔ امام علیہ السلام اسے سنتے ہیں اور التجا کو قبول بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنے مخاطب سے جو ہم سے دور ہے کچھ حال دل بیان کرتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اللہ تعالی سلام کرنے والوں اور پیغام دینے والوں کا پیغام اور سلام حضرت تک پہنچاتا ہے۔ یہ توسل اور یہ روحانی انسیت فعل مستحسن اور لازمی امر ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
حضرت زینب کبری ایک عظیم خاتون ہیں۔ اس عظیم خاتون کو مسلم اقوام میں جو عظمت حاصل ہے، وہ کس وجہ سے ہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس لئے ہے کہ آپ علی بن ابیطالب کی بیٹی یا حسین بن علی یا حسن بن علی (علیہم السلام) کی بہن ہیں۔ نسبتیں ایسی عظمت کا سبب نہیں بن سکتیں۔ ہمارے تمام ائمہ کی مائیں اور بہنیں تھیں لیکن حضرت زینب کبری کے مثل کون ہے؟
حضرت زینب کبری کی اہمیت و عظمت فریضہ الہی کے مطابق آپ کی عظیم اسلامی اور انسانی تحریک اور موقف کی وجہ سے ہے۔ اس عظمت کا ایک حصہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے موقع کو پہچانا، امام حسین( علیہ السلام ) کے کربلا جانے سے پہلے کے موقع کو بھی، یوم عاشور کے بحرانی موقع کو بھی اور شہادت امام حسین ( علیہ السلام) کے بعد کے ہولناک واقعات کے موقع کو بھی پہچانا اور پھر ہر موقع کی مناسبت سے ایک اقدام کا انتخاب کیا اور اسی قسم کے فیصلوں نے حضرت زینب کی شخصیت کی تعمیر کی۔
کربلا کی جانب روانگی سے پہلے ابن عباس اور ابن جعفر جیسی صدر اسلام کی معروف ہستیاں جو فقاہت، شجاعت اور صدارت کی دعویدار تھیں، گومگو کا شکار تھیں، نہ سمجھ سکیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ لیکن حضرت زینب کبری تذبذب کا شکار نہیں ہوئیں اور آپ سمجھ گئیں کہ آپ کو اس راستے کا انتخاب کرنا چاہئے اور اپنے امام کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے اور آپ گئیں۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نہ سمجھتی ہوں کہ یہ راستہ بہت سخت ہے۔ آپ دوسروں سے بہتر اس بات کو محسوس کر رہی تھیں۔ آپ ایک خاتون تھیں۔ آپ ایک ایسی خاتون تھیں جو اپنے فریضے کی ادائيگی کے لئے اپنے شوہر اور کنبے سے دور ہو رہی تھیں، اسی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ لیا۔ آپ بخوبی محسوس کر رہی تھیں کہ سانحہ کیسا ہے۔
امام خامنہ ای
13 نومبر 1991
میرے عزیز بچو اور جوانو! آپ سب اپنے ملک میں کردار حاصل کر سکتے ہیں۔ کسی دن کردار، حسین فہمیدہ (13 سالہ شجاع ایرانی بچہ جس نے ایران پر صدام کے حملے کے دوران دشمن کے ٹینکوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے اپنے جسم پر دھماکہ خیز مواد باندھا اور خود کو دشمن کے ٹینک سے ٹکرا دیا۔) کا کردار تھا، کسی دن، دوسرے کردار ہیں۔ مذہبی امور میں، ثقافتی مسائل میں، سیاسی معاملات میں، اخلاقی باتوں میں، مستقبل پر نظر، امید پیدا کرنا، اپنے اطراف کے ماحول میں امنگ پیدا کرنا، اسلامی شریعت کی پابندی اور پاسداری، یہ سب ایسے میدان ہیں جن میں مجاہدت کی جا سکتی ہے۔ البتہ ان میں، جان دینے کی بات نہیں ہے لیکن عزم، کوشش اور حوصلہ ضروری ہے۔ آپ سبھی، اسکولوں میں، کالج اور یونیورسٹیوں میں، کام کی جگہوں پر اور دوسرے مقامات پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک پر جوش، پرنشاط، پرامید اور پاکدامن جوان، ایک پوری تاریخ کو سنوار سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے ملکوں کے نوجوانوں پر صیہونیوں، سامراجیوں اور بڑی بڑی عالمی کمپنیوں کے مالکوں نے برسوں کام کیا ہے، کوشش کی ہے کہ شاید جوان نسل کو بہکا سکیں، ان سے امید اور عزم کو چھین سکیں، ان کی نظروں میں مستقبل کو تاریک بنا سکیں، انھیں مستقبل کی طرف سے مایوس کر سکیں اور انھیں اخلاقی اور نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر سکیں۔ آپ جو کچھ دنیا میں دیکھ رہے ہیں وہ محض اتفاق نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
30/10/1998
#بسیج (رضاکار فورس) کی تشکیل کی مناسبت سے کثیر تعداد میں بسیجیوں نے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کے حالات، سامراجی طاقتوں کی پالیسیوں اور سازشوں اور دیگر انتہائی اہم موضوعات کا جائزہ لیا۔
خطاب کے چند اہم نکات:
تاریخ میں بہت سے دعویدار پیدا ہوئے ہیں۔ یہ دعویدار ظہور کی کسی ایک علامت کو اپنے اوپر یا کسی اور پر منطبق کر لیتے تھے۔ یہ سراسر غلط عمل ہے۔ بعض باتیں جو ظہور امام زمانہ علیہ السلام کی علامات کے طور پر بیان کی جاتی ہیں حتمی نہیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو معتبر روایات میں مذکور نہیں ہیں۔ ضعیف روایتوں میں ان کا ذکر ضرور ملتا ہے لہذا ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ جو علامتیں معتبر ہیں ان کے لئے بھی صحیح مصداق کی تلاش کرنا کارے دارد۔ تاریخ میں مختلف ادوار میں کچھ لوگ شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کو مختلف لوگوں پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ چیز تو میں نے خود بھی دیکھی ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ یہ گمراہ کن باتیں ہیں، یہ غلط راستے پر لے جانے والے کام ہیں۔ جب انحراف اور گمراہ کن باتیں شروع ہو جاتی ہیں تو حقیقت متروک ہوکر رہ جاتی ہے، مشتبہ ہو جاتی ہے۔ عوام الناس کے اذہان کی گمراہی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ لہذا عامیانہ کاموں سے اجتناب، عامیانہ افواہوں پر سکوت سے اجتناب بہت ضروری ہے۔ عالمانہ، مدلل، معتبر سند پر استوار کام جو اہل فن کا کام ہے، ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے لئے اہل فن کی ضرورت ہوتی ہے، علمائے حدیث کی ضرورت ہوتی ہے، علم رجال کے ماہر افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو سند کو پہچانتے ہوں، اہل نظر ہوں، باخبر لوگ ہیں، حقائق سے آشنا ہوں، ایسے لوگ ہی اس وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں اور علمی تحقیق کر سکتے ہیں۔ اس پہلو کو جہاں تک ممکن ہے زیادہ سے زیادہ سنجیدگی اور توجہ سے انجام دیا جائے تا کہ لوگوں کے لئے راستہ کھلے۔ دل اس عقیدے سے جتنے محرم ہوں گے، مانوس ہوں گے، حضرت کا وجود مبارک ہمارے لئے جو زمانہ غیبت میں زندگی بسر کر رہے ہیں جتنا زیادہ قریب اور قابل ادراک ہوگا، حضرت سے ہمارا رابطہ جتنا زیادہ قوی ہوگا ہماری دنیا کے لئے، اعلی اہداف کی جانب ہماری پیش قدمی کے لئے اتنا ہی زیادہ بہتر ہوگا۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
انقلاب کی سرکوبی اور انقلاب کو شکست دینا، جو ایک سامراجی منصوبہ تھا، اس خطے میں شکست کھا چکا ہے اور اس کے برخلاف انقلاب پر حملہ کرنے والے، امریکا جیسی بڑی اور طاقتور حکومت تک روز بروز شکست اور ہزیمت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہم خطے میں امریکی پالیسیوں کی شکست کی واضح علامتیں اور نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہماری قوم، ہمارے جوانوں اور ہمارے تجزیہ نگاروں کے لیے اہم نکات ہیں جن پر واقعی بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی روحانیت کے سہارے کھڑی ہونے والی عوامی فورس یا منہ زوری اور دھونس دھمکی کے سہارے ٹکی ہوئی مادی طاقت کے درمیان ٹکراؤ کی بڑی بحث جس پر سماجیات، اقوام کی نفسیات اور سماجی نفسیات کی بحثوں میں توجہ دی جانی چاہیے ... اس ملک اور اس قوم نے ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور مادی و ابلاغیاتی دولت سے مالامال طاقتور ملکوں کی سازشوں کو اہم ترین میدانوں میں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے اور انھیں شکست دی ہے۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اصفہان سے ملاقات کے لئے آنے والے مختلف عوامی طبقات کے اجتماع سے خطاب میں ملت ایران سے امریکہ کی سرکردگی میں سامراج کی دشمنی کی وجوہات بیان کیں۔
بحمد اللہ اس وقت انتظار کے موضوع پر عالمانہ انداز میں کام کیا جا رہا ہے۔ انتظار کے مسئلے میں باریک بینی کے ساتھ عالمانہ انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عامیانہ اور جاہلانہ باتوں سے بہت سختی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو چیزیں خطرناک ہو سکتی ہیں ان میں یہی عامیانہ، جاہلانہ، معرفت سے عاری اور معتبر سند کے بغیر امام زمانہ علیہ السلام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلے میں بحث کرنا ہے۔ کیونکہ اس طرح مہدویت کے جھوٹے دعویداروں کے لئے زمین ہموار ہوتی ہے۔ غیر عالمانہ، غیر معتبر، پختہ دلائل اور سند سے عاری بحث در حقیقت وہم و خیال ہے۔ اس طرح کی باتیں لوگوں کو حقیقی انتظار سے دور کر دیتی ہیں اور دجال صفت دروغگو لوگوں کے لیے راستہ کھل جاتا ہے۔ لہذا ان باتوں سے سختی کے ساتھ اجتناب کرنا چاہئے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
انقلابوں سمیت تمام بڑی سماجی تبدیلیوں کا اصل چیلنج، اس انقلاب یا اس تبدیلی کے اصلی اہداف اور پالیسیوں کا تحفظ ہے۔ یہ ہر اس بڑی سماجی تبدیلی کے سامنے موجود سب سے بڑا خطرہ ہے، جس کے کچھ اہداف ہیں اور وہ ان اہداف کی طرف بڑھ رہی ہے اور دوسروں کو دعوت دے رہی ہے۔ یہ اہداف اور یہ بنیادی پالیسیاں محفوظ رہنی چاہیے۔ اگر کسی انقلاب میں، کسی سماجی تحریک میں اہداف کی سمت آگے بڑھنے کے عمل کی حفاظت نہ ہو اور وہ محفوظ نہ رہے تو وہ انقلاب، خود اپنی ضد میں تبدیل ہو جائے گا، اپنے اہداف کی مخالف سمت میں بڑھنے لگے گا ... اس انحراف اور بنیادی پالیسیوں سے دوری کو روکنے کے لیے، کچھ طے شدہ معیاروں اور کسوٹیوں کی ضرورت ہے۔ راستے میں کچھ کسوٹیاں ہونی چاہیے ... خود امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سب سے بڑی کسوٹیوں میں سے ایک ہیں۔ امام خمینی کا رویہ اور کردار، ان کے اقوال، بحمد اللہ ان کے بیانات ہماری دسترس میں ہیں، اکٹھا کر دیے گئے ہیں، ان کا وصیت نامہ، انقلاب کے مستقبل کے لیے امام خمینی کے مکمل لائحۂ عمل کی تشریح کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
4/6/2010
ایسا نہیں ہے کہ جب ہم وہاں (امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کے زمانے میں) پہنچیں گے تو دفعتا ایک تیز حرکت ہوگي اور پھر وہ رک جائے گی۔ نہیں، وہ جگہ ایک راستہ ہے۔ در حقیقت کہنا چاہیے کہ انسان کی اصلی زندگی اور اس کی مطلوبہ حیات کا وہیں سے آغاز ہوگا اور تب انسانیت اس راستے پر اپنے سفر کا آغاز کرے گی جو صراط مستقیم ہے اور اسے اس کی تخلیق کے مقصد تک پہنچائے گا، "انسانیت" کو پہنچائے گا، بعض انسانی گروہوں کو نہیں، کچھ انسانوں کو نہیں، بلکہ پوری انسانیت کو۔
امام خامنہ ای
11/6/2014
انقلاب کی کامیابی کے بعد، امریکا سے ہمارے تعلقات، ہماری جانب سے منقطع نہیں ہوئے۔ یعنی ایرانی قوم نے محکم پوزیشن میں پہنچ جانے کے بعد بھی اپنی ماضی کی مظلومیت کو نظر انداز کیا اور امریکی حکومت کو معاف کر دیا لیکن امریکی حکومت نے ایرانی قوم اور انقلاب کی اس عظمت و فراخدلی کو نظر انداز کر دیا۔ امریکیوں نے پہلے دن سے سازشیں تیار کرنا اور دشمنی برتنا شروع کر دیا۔ آج امریکی، جب امریکی حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیان دشمنی کی تاریخ بیان کرنا چاہتے ہیں تو سفارتخانے کے معاملے سے شروع کرتے ہیں۔ جبکہ اس کی تاریخ وہاں سے شروع نہیں ہوتی ہے، امریکی حملے، ان کی جانب سے پیٹھ میں خنجر گھونپنا، غداری کرنا، بغاوت کروانا، شہید نوژہ چھاؤنی میں بغاوت کا معاملہ اور اسی طرح کے دوسرے معاملے لگاتار اسلامی جمہوریہ کے خلاف مسلط کردہ جنگ تک جاری رہے۔ ان کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایرانی قوم، ان اقدامات اور ان مظالم کے مقابلے میں اس طرح ڈٹ کر کھڑی ہے۔
امام خامنہ ای
16 جنوری 1998
حقیقت انتظار میں ایک اور خصوصیت شامل کر دی گئی ہے اور وہ خصوصیت یہ ہے کہ انسان موجودہ صورت حال پر، اس وقت تک حاصل ہونے والی پیشرفت پر ہی قانع نہ ہو جائے بلکہ روز بروز اس ترقی میں اضافہ، ان حقائق اور روحانی و معنوی صفات کو اپنے اندر اور معاشرے کی سطح پر نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ یہ انتظار کی لازمی باتیں ہیں۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
اسلامی جمہوریہ، اس وقت حقیقی معنی میں اسلامی جمہوریہ ہے جب وہ امام خمینی کے ٹھوس نظریات کی سمت میں سنجیدگي سے بڑھے، وہی چیزیں جو ان کی پاکیزہ حیات میں پیش کی گئي تھیں، جو نعروں کی صورت میں سامنے تھیں۔ ہم جہاں بھی ان نعروں کے ساتھ آگے بڑھے، ہم نے ترقی کی، ہمیں فتح حاصل ہوئي، سربلندی حاصل ہوئي، دنیوی فائدے بھی حاصل ہوئے۔ جہاں بھی ہم نے ان نعروں سے پسپائي اختیار کی اور تساہلی سے کام لیا، وہاں ہم نے میدان دشمن کے ہاتھوں میں دے دیا، ہم کمزور ہو گئے، ہمیں پیچھے ہٹنا پڑا، ہمیں عزت حاصل نہیں ہوئي، دشمن زیادہ جری ہو گيا، وہ زیادہ آگے بڑھ آيا، مادی لحاظ سے بھی ہم نے نقصان اٹھایا ... اسلامی نظام کو حقیقی معنی میں، اسلامی ہونا چاہیے اور روز بروز اسلام کی بنیادی تعلیمات سے زیادہ قریب ہونا چاہیے، یہی چیز بند گرہوں کو کھولے گي، مشکلات کو حل کرے گي، یہی چیز معاشرے کو عزت و طاقت عطا کرے گي۔
امام خامنہ ای
11/9/2009
بشر کو اس انتظار کی ضرورت ہے اور امت اسلامیہ کو تو بدرجہ اولی اس کی احتیاج ہے۔ یہ انتظار انسان کے دوش پر کچھ فرائض ڈال دیتا ہے۔ جب انسان کو یقین کامل ہے کہ اس طرح کا مستقبل آنے والا ہے، چنانچہ قرآن کی آیات میں بھی اس کا ذکر ہے "و لقدكتبنا فى الزّبور من بعد الذّكر انّ الارض يرثھا عبادى الصّالحون. انّ فى ھذا لبلاغا لقوم عابدين" (اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ بےشک اس میں عبادت گزار لوگوں کے لیے بڑا انعام ہے۔ سورۂ انبيا، آيات 105 و 106) جو لوگ بندگی پروردگار سے مانوس ہیں، سمجھتے ہیں انہیں چاہیے کہ خود کو آمادہ کریں، منتظر رہیں اور نظر رکھیں۔ انتظار کا لازمہ ہے خود کو آمادہ کرنا۔ اگر ہمیں علم ہے کہ کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے اور ہم اس کے منتظر ہیں تو کبھی ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ابھی تو بڑا طویل عرصہ باقی ہے اس واقعے کے رونما ہونے میں اور نہ ہی ہم یہ کہیں گے کہ یہ واقعہ بالکل نزدیک ہے اورعنقریب رونما ہونے والا ہے۔ ہمیں ہمیشہ منتظر رہنا ہوگا، ہمیشہ نظر رکھنی ہوگی۔ انتظار کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خود کو اسی وضع قطع میں ڈھالے اور وہی اخلاق و انداز اختیار کرے جو اس زمانے کے لئے مناسب ہے جس کا اسے انتظار ہے۔ یہ انتظار کا لازمہ ہے۔ جب اس زمانے میں عدل و انصاف کی بالادستی قائم ہونے والی ہے، حق کا بول بالا ہونے والا ہے، توحید و اخلاص و عبودیت پروردگار کا پرچم لہرانے والا ہے، ان خصوصیات کا حامل دور آنے والا ہے اور ہم جو اس کے انتظار کی گھڑیاں گن رہے ہیں تو خود کو ان صفات سے متصف کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں چاہئے کو عدل و انصاف کے حامی بنیں، خود کو انصاف کے لئے تیار کریں، خود کو حقانیت تسلیم کرنے کے لئے آمادہ کریں۔ انتظار اس طرح کی حالت پیدا کر دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
ہماری قوم جیسی قوم، جس کے پاس نہ ایٹم بم ہے، نہ علمی و سائنسی لحاظ سے اسے پچھلے سو برس میں اس بات کا موقع دیا گيا ہے کہ وہ آگے بڑھنے والے سائنسی کارواں کے قدم سے قدم ملا کر چل سکے اور زیادہ تر موقعوں پر وہ پیچھے ہی رہی ہے، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی وہ ان دولتمند ممالک تک نہیں پہنچ پائي لیکن اس کے باوجود یہ ملک اور یہ قوم، ہتھیار، ٹیکنالوجی، مادی دولت اور میڈیا کی طاقت سے لیس تمام طاقتور ممالک کی سازشوں کو ناکام بنانے، اہم ترین میدانوں میں انھیں پسپائی پر مجبور کرنے اور شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ سوچنے اور غور کرنے کے لائق ہے۔ سیاسی و سماجی علوم کے دانشوروں کو اس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ انھیں دیکھنا چاہیے کہ روحانیت کا یہ کردار کس طرح خود کو نمایاں کرتا ہے، جیسا کہ اس نے آج خود کو ایران میں نمایاں کیا ہے۔ بنابریں اس منظر کو عبرت حاصل کرنے اور سبق حاصل کرنے کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ منظر، امریکا کی سامراجی طاقت کی شکست کا منظر ہے۔ ہم بے بنیاد دعوی نہیں کرنا چاہتے، نہیں، یہ بہت واضح چیزیں ہیں اور وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
امام خامنہ ای
14/9/2007
انتظار کا مسئلہ بھی مہدویت کے عقیدے کا لازمی جز ہے اور یہ بھی منزل کمال کی سمت امت مسلمہ کی عمومی و اجتماعی حرکت اور حقیقت دین کو سمجھانے میں بنیادی حیثیت رکھنے والے مفاہیم میں ہے۔ انتظار یعنی توجہ، انتظار یعنی ایک یقینی حقیقت پر نظر رکھنا۔ یہ ہے انتظار کا مفہوم۔ انتظار یعنی یہ مستقبل جس کے ہم منتظر ہیں یقینی ہے۔ بالخصوص اس لیے بھی کہ یہ انتظار ایک جیتے جاگتے انسان کا انتظار ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی شخص پیدا ہونے والا ہے، منصۂ وجود پر آنے والا ہے۔ نہیں، وہ ایسی ہستی ہے جو موجود ہے، لوگوں کے درمیان موجود ہے۔ روایتوں میں منقول ہے کہ لوگ انہیں دیکھتے ہیں اور حضرت بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں لیکن لوگ آپ کو پہچانتے نہیں۔ بعض روایات میں حضرت یوسف سے تشبیہ دی گئی ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی انھیں دیکھ رہے تھے حضرت یوسف ان کے سامنے تھے، ان کے قریب جاتے تھے لیکن وہ انھیں نہیں پہچان پاتے تھے۔ آپ کا وجود اس طرح کی نمایاں، واضح اور حوصلہ افزاء حقیقت ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
ہم سب چوکنا رہیں کہ اسلامی جمہوری نظام - جو اسلامی نظام ہے، دینی نظام ہے، اس بات پر مفتخر ہے کہ دینی، اسلامی اور قرآنی احکام کے پیرائے میں آگے بڑھنا چاہتا ہے - کبھی ایسے نظام میں تبدیل نہ ہو جائے جس کا دین پر کوئی عقیدہ نہ ہو، بعض حضرات کے بقول سیکولر(دین مخالف) نظام اور ایسا نظام نہ بن جائے جس کا باطن سیکولر (دین مخالف) اور ظاہر دینی ہو، جس کا باطن مغربی ثقافت اور اس ثقافت کی علمبردار طاقتوں پر فریفتہ ہو اور اس کا ظاہر معمولی دینی نعروں اور مذہبی مسائل پر مبنی ہو۔ ایسا نہ ہونے پائے۔ اسلامی نظام حقیقی معنی میں اسلامی ہونا چاہیے اور اسے روز بروز اسلامی اصولوں سے زیادہ قریب اور ہماہنگ ہونا چاہیے۔ یہی چیز عقدہ کشا ہے، یہی چیز مشکلات کو حل کرتی ہے، یہی معاشرے کو عزت و وقار عطا کرتی، یہی پوری دنیا میں اسلامی جمہوری نظام کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔
امام خامنہ ای
11/9/2009
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 12 اکتوبر 2022 کو تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے ارکان سے خطاب میں ملکی و عالمی حالات، اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت اور دیگر کلیدی امور پر گفتگو کی۔ تقریر کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔
اسلام میں امام زمانہ علیہ السلام سے متعلق عقیدہ مسلمہ عقائد میں ہے، یعنی یہ صرف شیعوں سے مختص نہیں ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سرانجام دنیا میں حضرت مہدی (علیہ الصلاۃ و السلام و عجل اللہ فرجہ) کے ہاتھوں عدل و انصاف کی حکمرانی قائم ہوگی۔ مختلف حوالوں سے پیغمبر اسلام اور دیگر عظیم ہستیوں کی روایات اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں۔ بنابریں اس میں کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس درمیان شیعوں کا ایک خاصہ یہ ہے کہ مہدویت کا عقیدہ ان کے یہاں ذرہ برابر ابہام سے دوچار نہیں ہے، ان کے نزدیک ایسا پیچیدہ عقیدہ نہیں ہے جو لوگوں کے لئے قابل فہم نہ ہو۔ یہ بالکل واضح اور عیاں مسئلہ ہے جس کا بالکل واضح مصداق ہے۔ ہم اس مصداق کو جانتے ہیں، اس کی خصوصیات سے ہم واقف ہیں، اس ہستی کے آباء و اجداد سے ہم واقف ہیں، ان کے خاندان کو ہم جانتے ہیں، ان کی تاریخ ولادت ہمیں معلوم ہے، اس کی تفصیلات سے ہم آگاہ ہیں۔ اس تعارف میں بھی صرف شیعہ علماء کی روایات نہیں ہیں، غیر شیعہ راویوں کی روایات بھی ہیں جو ان علامات کو واضح کرتی ہیں۔ دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چاہئے کہ ان روایات پر توجہ دیں تاکہ حقیقت ذہن نشین ہو جائے۔ تو اس عقیدے کی اہمیت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے اور اس سلسلے میں دوسروں سے پہلے خود ہمیں گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں محکم اور مدلل علمی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
جو لوگ امام خمینی سے ٹکرائے، انھوں نے اپنے آپ کو رو سیاہ کر لیا۔ بدبخت ہیں وہ لوگ جنھوں نے صیہونیوں کا دل خوش کرنے، امریکا کو خوش کرنے اور رجعت پسندوں کے پیٹرو ڈالرز سے جیب بھرنے کے لیے حقیقت کو چھپایا اور ہمارے امام خمینی سے ٹکرا گئے۔ روسیاہ ہیں وہ لوگ جو اس مہربان باپ، استاد اور معلم کی مہربان آغوش میں آ سکتے تھے اور ان سے استفادہ کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی قسمت کو لات مار دی اور ان کے دشمنوں کی آغوش میں چلے گئے۔ یورپ، امریکا، لاطینی امریکا، عراق اور بعض دیگر ملکوں میں بھٹکنے والے اور دربدر پھرنے والے یہ بے چارے، سیہ بخت اور سرگرداں لوگ اور اسی طرح ملک کے اندر موجود بعض لوگ، ایک سمندر کے مقابلے میں قطرہ تھے لیکن وہ سمجھ نہیں پاتے تھے کہ وہ کتنے حقیر ہیں، کتنے چھوٹے ہیں ... مستقبل ان لوگوں کا ہے جو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلے۔
امام خامنہ ای
14/7/1989
ان گزشتہ صدیوں میں انسانی قافلہ مختلف راستوں، دشوار گزار اور سخت وادیوں سے گزرا ہے، مختلف رکاوٹوں اور مشکلوں سے دوچار ہوا ہے، زخمی بدن اور لہولہان قدموں کے ساتھ ان راستوں پر چلا ہے کہ کسی صورت خود کو شاہراہ پر پہنچا دے۔ یہ شاہراہ وہی امام زمانہ علیہ السلام کے زمانہ ظہور کی شاہراہ ہے۔ ظہور کا زمانہ ہی در حقیقت بشر کے ایک نئے سفر کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر مہدویت کا عقیدہ نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انبیائے الہی کی تمام تر سعی و کوشش، یہ دعوت حق، یہ بعثت رسل، یہ طاقت فرسا جفاکشی، سب کا سب سعی لاحاصل تھا، بے سود تھا۔ بنابریں مہدویت کا عقیدہ ایک بنیادی معاملہ ہے۔ بنیادی ترین الہی معارف کا جز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام ادیان الہی میں جہاں تک ہمیں اطلاع ہے ماحصل اور نصب العین کا درجہ رکھنے والے اس عقیدے کا وجود ہے اور وہی حقیقت میں عقیدہ مہدویت ہے۔ البتہ اس عقیدے کی شکلیں الگ الگ اور تحریف شدہ ہیں، اس میں واضح طور پر اس عقیدے کو بیان نہیں کیا گيا ہے۔
امام خامنہ ای
2011/07/09
اسلامی خود آگہی نے، عالم اسلام کے قلب میں ایک متحیر کن اور معجزہ نما قوت پیدا کر دی ہے جس کے مقابلے میں سامراجی طاقتیں بری طرح پریشان ہیں۔ اس چیز کا نام 'استقامت' اور اس کی حقیقت، ایمان، جہاد اور توکل کی طاقت کا اظہار ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے ایک نمونے کے بارے میں اسلام کے ابتدائي دور میں یہ آیت نازل ہوئي تھی: "الَّذِينَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ. فَانقَلَبُوا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللَّہِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْہُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّہِ وَاللَّہُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ." (وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر اکٹھا کر لیا ہے تو ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ تو یہ لوگ اللہ کی عنایت اور اس کے فضل و کرم سے اس طرح (اپنے گھروں کی طرف) لوٹے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف نے چھوا بھی نہیں تھا۔ اور وہ رضائے الہی کے تابع رہے اور اللہ بڑے فضل و کرم والا ہے۔سورۂ آل عمران، آیت، 173 اور 174) فلسطین کے میدان میں اس حیرت انگیز چیز کی ایک جھلک نظر آتی ہے جس نے سرکش صیہونی حکومت کو جارحانہ اور رجزخوانی کی پوزیشن سے نکال کر دفاعی اور پسپائي کی حالت میں پہنچا دیا ہے اور اس پر موجودہ بڑی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی مشکلات مسلط کر دی ہیں۔
امام خامنہ ای
5/7/2022
خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم اور حکومت اب باہری طاقتوں کی مسلط کردہ باتوں کو ماننے کے لیے مجبور نہیں ہے۔ باہری طاقتیں جو بھی چاہیں، ان کی خواہش کے مطابق انجام پانا چاہیے، اگر انھوں نے آپ کے ملکی مفادات کو بھی قربان کر دیا تو حکومت، خاموش رہے، اگر ملک کے قومی ذخائر پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی تب بھی کوئي کچھ نہ کہے، اگر قوم نے مخالفت کی تو حکومت اسے زد و کوب کرے! پہلوی دور حکومت میں یہی صورتحال تھی جسے ہم نے اپنے پورے وجود اور اپنی روح سے محسوس کیا ہے۔ انقلاب آيا اور اس نے ملک و قوم کو خودمختار بنا دیا۔ آج دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے ملک کے مسائل میں دخل نہیں دے سکتی اور ہمیں کسی کام کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ ملکی حکام دیکھتے ہیں اور جس چیز میں مصلحت سمجھتے ہیں، اسی کو انجام دیتے ہیں۔ قوم، حکام اور عہدیداروں کے کاموں کو دیکھتی ہے اور ان کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے، اگر انھیں پسند کرتی ہے تو ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور اگر پسند نہیں کرتی تو انھیں بدل دیتی ہے، اختیار قوم کے ہاتھ میں ہے۔
امام خامنہ ای
13/2/2004
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح فورسز کی آفیسرز اکادمیوں کے کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب کا امام حسن مجتبی علیہ السلام آفیسرز اینڈ پولیس ٹریننگ اکیڈمی میں انعقاد، مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی شرکت۔