مہدویت
شیعوں کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ وہ تمام مسلمان فرقوں بلکہ تمام الہی مذاہب کی جانب سے قطعی طور پر تسلیم شدہ اس موعود الہی کو اس کے نام، صفات، خصوصیات اور تاریخ ولادت کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ہماری بہت سی اہم شخصیات نے اسی غیبت کے زمانے میں اس عزیز، عاشقوں اور مشتاقوں کے دلوں کے محبوب کی قریب سے زیارت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے قریب سے ان سے بیعت کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ان سے حوصلہ افزائي کی باتیں سنی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے لطف و کرم کی سعادت حاصل کی ہے اور دوسرے بہت سے لوگوں کو، انھیں پہچانے بغیر ان کا لطف و کرم اور عنایت و محبت حاصل ہوئي اور وہ انھیں پہچان نہیں پائے ہیں۔
امام خامنہ ای
24/11/1999
قرآن کی روشنی میں
ہمارے مقدس دین اسلام میں، دوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار کرنا ممنوع ہے۔ یہ جو بعض مذاہب میں ہے کہ عبادت خانوں میں جائيں، عالم دین کے پاس، پادری کے پاس بیٹھیں، گناہ کا اعتراف کریں، یہ اسلام میں نہیں ہے اور اس طرح کی چیز ممنوع ہے۔ اپنے رازوں کا پردہ چاک کرنا، اپنے گناہوں سے دوسروں کو مطلع کرنا، اپنے اندرونی رازوں اور اپنے گناہوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا منع ہے، اس کا کوئي فائدہ بھی نہیں ہے۔ ان خیالی اور تحریف شدہ مذاہب میں یہ جو کہا جاتا ہے کہ پادری گناہوں کو بخش دیتا ہے، نہیں! اسلام میں گناہوں کو بخشنے والا صرف خدا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر بھی گناہوں کو نہیں بخش سکتے۔ آیت شریفہ میں کہا گيا ہے: "وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَھُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہ تَوَّابًا رَّحِيمًا." (اور جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتے تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ سورۂ نساء، آيت 64) جب انھوں نے کوئي گناہ کیا، اپنے آپ پر ظلم کیا تو اگر وہ آپ پیغمبر کے پاس آئيں، خداوند عالم سے مغفرت طلب کریں، معافی کی درخواست کریں اور آپ بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کریں تو اللہ ان کی توبہ قبول کر لے گا۔ یعنی پیغمبر ان کے لیے معافی کی درخواست کرتے ہیں، خود پیغمبر گناہ کو معاف نہیں کر سکتے؛ گناہ صرف اللہ تعالی بخشے گا۔ یہ استغفار ہے اور اس استغفار کا واقعی بڑا اہم مقام ہے۔
امام خامنہ ای
14 ستمبر 2007
درس اخلاق
طرز زندگي کی جو بات ہم نے پیش کی، وہ اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ طرز زندگی کے مختلف شعبے ہیں، ایرانی قوم کے دشمنوں اور اسلام کے دشمنوں کے سب سے اہم اہداف میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کے طرز زندگی کو بدل دیں اور اسے اپنے طرز زندگي جیسا بنا دیں۔ زندگي کے حقائق، انسان کی فکر پر اثر انداز ہوتے ہیں؛ روزانہ کا طرز عمل انسان کے دل اور روح پر اثر انداز ہوتا ہے - خود انسان کی روح پر بھی اور اس کے ساتھ رہنے والوں اور اس کے مخاطبین پر بھی - وہ لوگ اسے بدلنا چاہتے ہیں۔
اسلام ہمارے لیے ایک طرز زندگي لایا ہے۔ مثال کے طور پر ادب۔ اہم کاموں میں سے ایک ادب ہے۔ مغرب والے اپنی عام زندگي میں ادب کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھتے؛ ہم ایرانی قدیم ایام سے ہی اس بات کے لیے مشہور تھے کہ ہم اپنی گفتگو میں اور بات چیت میں ادب کا لحاظ کرتے ہیں، فریق مقابل کی عزت کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اسے بدلنا چاہتے ہیں اور افسوس کہ بعض جگہ وہ کامیاب بھی رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2016
خطبہ ہائے انقلاب
مجھے اس بات کی تشویش نہیں ہے کہ کوئي بات کہی جائے، کسی پر تنقید کی جائے، نہیں! ایک شخص تنقید کرتا ہے اور دوسرا شخص جواب دیتا ہے۔ مجھے معاشرے میں ناانصافی کے رویے کے رائج ہو جانے کی طرف سے تشویش ہے۔ بے شمار خدمات انجام پاتی ہیں، انسان سب کو درکنار کر کے ایک ہی بات پر اٹک جاتا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ البتہ یہ بات سبھی کے لیے کہی جا رہی ہے۔ ہم یہ بات کسی خاص شخص، کسی خاص گروہ، کسی خاص دھڑے سے نہیں کہہ رہے ہیں، یہ ہم سبھی سے عرض کر رہے ہیں۔ سبھی اس بات کی طرف سے چوکنا رہیں کہ ایک دوسرے کی امیج خراب نہ کریں۔ امیج بگاڑنے کا یہ ماحول، اچھا ماحول نہیں ہے۔ لوگوں کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ آپ بیٹھ کر فلاں عہدیدار یا فلاں دھڑے کی مذمت کریں تو لوگوں کو مزہ آئے گا اور وہ خوش ہوں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ عوام کو کردار کشی کا ماحول اچھا نہیں لگتا۔
امام خامنہ ای
19 ستمبر 2008
بقول امام خمینی:
آپ لوگ ہوشیار رہیے کہ لوگوں کے درمیان پہنچ جانے اور غلط پروپیگنڈہ کرنے والے ان افراد میں سے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ ہماری تحریک کو شکست سے دوچار کر دیں۔ آپ دوست حضرات اور میرے بھائيو! آگاہ اور ہوشیار رہیے اور خلل ڈالنے والوں کو اپنے درمیان گھسنے نہ دیجیے۔ ان کا ارادہ ہے کہ حالات کو پھر (انقلاب سے) پہلے کے برسوں کی طرف پلٹا دیں؛ یہ اغیار کے ایجنٹ ہیں۔ ہمیں آپ سے یہ توقع ہے کہ آپ اپنے اتحاد کو محفوظ رکھیں گے۔
امام خمینی
14 اپریل 1979
اسلامی گھرانہ
شادی کا ایک مقدس پہلو ہے، اس مقدس پہلو کو اس سے چھیننا نہیں چاہیے۔ اس کے مقدس پہلو کو چھیننا، ان ہی ناپسندیدہ کاموں کے ذریعے ہوتا ہے، جو افسوس کہ ہمارے سماج میں رائج ہو گئے ہیں۔ یہ مہر کی بڑی بڑی رقمیں، اس تصور کے ساتھ طے کی جاتی ہیں کہ یہ گھرانے کی حفاظت اور زوجیت کے رشتے کی حفاظت کا ذریعہ بن سکتی ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ شوہر مہر دینے سے انکار کرے گا اور اسے جیل میں ڈال دیں گے، ایک آدھ سال وہ جیل میں رہے گا۔ اس سے زوجہ کو کچھ حاصل نہیں ہوتا، اسے کوئي فائدہ نہیں ملتا سوائے اس کے کہ اس کی فیملی ٹوٹ جاتی ہے۔ یہ جو اسلام میں امام حسین علیہ السلام سے منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: "ہم نے اپنی بیٹیوں کا، اپنی بہنوں کا اور بیویوں کا عقد، مہر السنۃ کے علاوہ نہیں کیا ہے"، وہ اسی وجہ سے ہے ورنہ وہ اس سے زیادہ پر بھی کر سکتے تھے۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
مہدویت
شیعوں میں پائے جانے والے اس عقیدے کی سب سے بڑی خصوصیت، امید پیدا کرنا ہے۔ شیعہ معاشرہ صرف ماضی میں اپنی تاریخ کے نمایاں کارناموں سے وابستہ نہیں بلکہ اس کی نظر مستقبل پر ہے۔ شیعہ عقائد کے مطابق مہدویت پر عقیدہ رکھنے والا انسان انتہائی دشوار حالات میں بھی اپنے دل کو امید سے خالی نہیں سمجھتا اور امید ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تاریکی کا یہ دور، یہ ظلم و جور کا زمانہ اور باطل کے تسلط کا یہ سلسلہ یقینی طور پر ختم ہو جائے گا۔ یہ اس عقیدے کا ایک انتہائی اہم نتیجہ اور کارنامہ ہے۔ البتہ مہدویت کے سلسلے میں تشیع کا عقیدہ یہیں تک محدود نہیں: بِیُمنِہِ رُزِقَ الوَری وَ بِوُجُودِہِ ثَبَتَتِ الارضُ و السَّماء (ان ہی کی برکت سے لوگوں کو رزق عطا ہوتا ہے اور ان ہی کے وجود سے زمین و آسمان قائم ہیں۔ زاد المعاد؛ مفاتیح الجنان صفحہ 422) مہدویت کا عقیدہ کچھ اس طرح کا عقیدہ ہے۔ یہ شعلۂ جوالا اور یہ فروغ تاباں ماضی میں شیعہ معاشروں میں ہر دور میں موجود رہا ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ ان شاء اللہ ان کے منتظرین کا انتظار ختم ہوگا۔
امام خامنہ ای
3/6/2015
درس اخلاق
خداوند متعال نے انسان کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ اسے تربیت کی ضرورت ہے۔ باہر سے دوسرے بھی اس کی تربیت کریں اور اندر سے وہ خود بھی اپنی تربیت کرے۔ معنوی اور روحانی مسائل کے سلسلے میں یہ تربیت، اس کی فکری اور عقلی قوتوں کی تربیت سے مربوط ہے اور یہ تربیت، تعلیم کے ذریعے ہونی چاہیے۔ ایک دوسری تربیت، نفس اور روحانی طاقتوں، غضب اور شہوانی قوت کو کنٹرول کرنے کی تربیت ہے، جس کا نام تزکیہ نفس ہے۔ اگر انسان کا صحیح تزکیہ ہو جائے اور وہ صحیح تعلیم حاصل کرلے تو وہ اسی تیار شدہ جنس کی طرح ہوگا جس نے کارخانے میں اپنی مطلوبہ شکل حاصل کی ہے اور منزل کمال کو پہنچ گئي ہے۔ اس دنیا میں بھی اس کا وجود، خیر و برکت اور دنیا کی تعمیر اور انسانوں کے دلوں کے سکون کا باعث ہے اور اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی جب وہ قدم رکھتا ہے تو اس کا انجام بھی وہی ہے جس کے ازل سے لے کر آج تک تمام انسان مشتاق رہے ہیں۔ یعنی نجات، ابدی خوش نصیبی اور فردوس بریں۔ لہذا انبیائے کرام نے اول سے لے کر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک اپنا ہدف، تعلیم اور تزکیہ قرار دیا ہے۔
امام خامنہ ای
3 ستمبر 1997
قرآن کی روشنی میں
يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّہَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوہُ بُكْرَۃً وَاَصِيلًا ھُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُہُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا. (سورۂ احزاب، آيات 41، 42 اور 43) اے ایمان والو! اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔ وہی ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمھارے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمھیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے اور وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔) قرآن کہتا ہے، تم ذکر خدا کرو، خداوند متعال بھی تم پر صلوات بھیجے گا، درود بھیجے گا۔ خود خداوند متعال بھی اور اس کے فرشتے بھی تم ایمان والوں پر درود بھیجتے ہیں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ ذکر خدا اور خدا کی یاد راستہ دکھانے والی ہے، راہ گشا ہے، ہاتھ تھامنے والی ہے، ہمیں عقدہ کشائي کی صلاحیت عطا کرتی ہے، ہماری بہت سی پریشانیاں ہیں اور خود ہم انسانوں کو اپنی قوت و توانائی سے ان پریشانیوں کی گرہیں کھولنا ہے لیکن یہ طاقت اور یہ توانائي، خدا ہمیں عطا کرتا ہے۔ ذکر خدا ہماری مدد کرتا ہے کہ ہم ان بند گلیوں اور دروازوں کو کھولیں۔
امام خامنہ ای
17 مئي 2016
ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے تجزیوں میں، حوادث کی شناخت میں غلطی اور خطا نہ کر بیٹھیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ امریکا اور صیہونزم، امت اسلامی کے دشمن ہیں۔ ظالم و جابر حکومتوں کے سربراہ، امت اسلامی کے دشمن ہیں۔ اگر ہم دیکھیں کہ وہ کہیں پر کسی ایک سمت میں ہیں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ وہ سمت، باطل کی سمت ہے، غلط سمت ہے؛ ہمیں تجزیے میں غلطی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ وہ مسلمان اقوام پر کبھی بھی ترس نہیں کھاتے، ان سے جتنا ممکن ہوتا ہے وہ کام بگاڑتے ہیں، کاموں میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ ہم سب کو بیدار اور چوکنا رہنا چاہیے، بابصیرت بننا چاہیے، اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیے، تجزیے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔
امام خامنہ ای
20 اگست 2015
کلام امام
خداوند عالم آپ سب کو توفیق عطا کرے اور تمام مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک مٹھی کی طرح ہو جائيں۔ خاص طور پر ایرانی قوم کو توفیق عطا کرے اور حکومت میں، پارلیمنٹ میں اور دوسری جگہوں پر جو یہ ادارے ہیں، انھیں توفیق عطا کرے کہ ان میں آپسی ہم آہنگی پیدا ہو جائے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تاکہ اس قوم کو کوئي نقصان نہ ہو۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں، خدا کے لیے قیام کریں، خدا کے لیے پرسکون رہیں، خدا کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑنے سے بچیں، خدا کے لیے فلاں یہ نہ کہے کہ میرے خلاف سازش ہے، دوسرا کہے کہ میرے خلاف سازش ہے۔ لوگ اس لائق نہیں ہیں کہ امریکا اس شخص کے خلاف سازش کرے یا اس شخص کے خلاف سازش کرے۔ امریکا جانتا ہے کہ وہ کیا ہے۔ امریکا، اسلام کا دشمن ہے، اسے اسلام سے چوٹ پہنچی ہے، لوگوں سے یا کسی شخص سے نہیں بلکہ اسلام سے اسے تھپڑ رسید ہوا ہے، اسے اس قوم سے تھپڑ رسید ہوا ہے جو اسلام کا نام لینے والی ہے۔
امام خمینی
5 اگست 1980
حقیقت یہ ہے کہ عید غدیر اور امیر المومنین علیہ السلام کو امت اسلامی کے ولی امر اور جانشین پیغمبر کے طور پر پیش کرنا اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت تھی۔ یعنی جس طرح خود نبوت و رسالت اللہ کا بڑا احسان اور بہت بڑی نعمت ہے؛ «لَقَد مَنَّ اللهُ عَلَی المُؤمِنینَ اِذ بَعَثَ فیهِم رَسولًا مِن اَنفُسِهِم» (سوره آلعمران، آیت نمبر ۱۶۴ کا ایک حصہ؛ «یقینا اللہ نے مومنین پر احسان کیا کہ ان کے درمیان سے ایک پیغمبر مبعوث کیا۔...») امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت کے بارے میں بھی یہی بات ہے کہ وہ بہت بڑی نعمت اور اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ «خَلَقَکُمُ اللهُ اَنوَاراً فَجَعَلَکُم بِعَرشِهِ مُحدِقینَ حَتّى مَنَّ اللهُ عَلَینا بِکُم فَجَعَلَکُم فی بُیُوتٍ اَذِنَ اللهُ اَن تُرفَع» الی آخرہ؛ (منلا یحضرهالفقیه، جلد ۲، صفحہ ۶١٣ (قدرے تفاوت کے ساتھ، زیارت جامعه کبیره، "اللہ نے آپ کو نور خلق کیا اور اپنے عرش کے چاروں سمت آپ کو قرار دیا۔ اللہ نے آپ کے ذریعے ہم پر احسان کیا اور آپ کو ان گھروں میں قرار دیا جن کا خاص احترام کرنے کی اللہ نے اجازت دی ہے۔") واقعی یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ امیر المومنین کی ولایت اور اس ولایت کا پورا موضوع قرآن میں ایک جگہ سورہ مائدہ میں کفار کی مایوسی کا سبب قرار دیا گيا ہے؛ اَلیَومَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم، (آج کفار آپ کے دین (کو مٹانے) کی طرف سے مایوس ہو گئے۔) جس دن ولایت کا موضوع سامنے آیا وہ ایسا دن ہے جو قرآن کے صریحی بیان کے مطابق «یَئِسَ الَّذینَ کَفَروا مِن دینِکُم» کفار کی مایوسی کی وجہ بنا ہے۔ علامہ طباطبائی اس سلسلے میں بڑی اچھی تشریح پیش کرتے ہیں تفسیر المیزان میں کہ یہ مایوسی کیسی تھی، اس مایوسی کی منطقی وجہ کیا تھی۔ اسی سورے میں ایک جگہ اور بھی یہ آیہ مبارکہ ہے؛ «وَمَن یَتَوَلَّ اللهَ وَ رَسولَه وَ الَّذینَ ءامَنوا فَاِنَّ حِزبَ اللهِ هُمُ الغّْلِبون» (اور جو اللہ اور اس کے رسول اور ایمان لانے والوں سے محبت کرتا ہے، بے شک اللہ کے لشکر کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔) یہاں پر اس آیت میں اس فقرے «الَّذینَ ءامَنوا» سے مراد، اسی طرح اس سے قبل والی آیت میں جو «وَهُم راکِعون» ہے، آیت رکوع کہ جو کہتی ہے کہ حالت رکوع میں انفاق کرتے ہیں، اس سے مراد حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام ہیں۔ «ءامَنوا» یہ لفظ اس آیت میں اسی جانب اشارہ ہے، یعنی وہ آیت جو «اِنَّما وَلِیُّکُمُ الله» کے بعد ہے۔ اس کے بعد یہاں پر «حِزبَ الله» کو، جو وہ لوگ ہیں جو اس ایمان کے مالک اور اس راہ پر چلنے والے ہیں، «غالبون» قرار دیا گيا ہے۔ یعنی ایک جگہ کفار کی مایوسی کا معاملہ ہے اور ایک جگہ پر اہل حق کے غلبے اور فتح کی بات کہی گئی ہے۔ امت اسلامی، اسلامی معاشرے اور خاص طور پر شیعہ سماج کے عمل کی بنیادیں یہی ہیں جو ان کی فتح اور کفار کی مایوسی کا سبب اور ہماری قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔
اسلامی حکومت اور اسلامی مملکت کی حیثیت سے ہمیں جس چیز کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ علوی حکومت کو معیار قرار دیں۔ خود کو علوی حکومت کے معیار پر پرکھیں۔ اس حکومت اور ہمارے اندر جتنا فاصلہ ہے اسے ہم اپنی پسماندگی شمار کریں۔ اگر ہم اچھے کام انجام دیتے ہیں، اگر روحانی اعتبار سے ہمیں کوئی ارتقا ملتا ہے، یا ایسے کام کرتے ہیں جو اسلامی اقدار کے مطابق باعث افتخار ہیں تو اس کی اہمیت کے اعتبار سے ہمیں چاہئے کہ حکومت علوی کے معیار پر اسے پرکھیں اور دیکھیں کہ ہمارے درمیان اور اس علوی حکومت کے طرز عمل کے درمیان کتنا فرق ہے۔ علوی حکومت میں ایک بنیادی معیار ہے عدل و انصاف، ایک معیار ہے پارسائی، پاکدامنی، ایک معیار ہے عوام دوستی، عوام کی ہمراہی۔ علوی حکومت کے یہی تو صفات ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی عدل و انصاف کا آئینہ ہے، زہد کا آئینہ ہے، عوام دوستی کا آئینہ ہے، پاکیزہ زندگی کا آئینہ ہے۔ ان چیزوں کو ہمیں معیار بنانا چاہئے۔ واقعی ہمیں اس سمت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم امیر المومنین جیسے بن جائیں کیونکہ یہ ناممکن ہے۔ لیکن ہم اس بلند چوٹی کو اپنی ںظر میں رکھیں اور اسی سمت آگے بڑھیں۔ اب اگر کوئی شخص اس چوٹی تک نہیں پہنچ سکا تب بھی اس کی پیش قدمی تو اسی سمت میں ہوگی۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ واقعی اسلامی حکومت میں ہم جیسے افراد جو اس کا حصہ ہیں تو ہمارا فریضہ یہ ہے کہ انصاف کی فکر میں رہیں، زہد کی فکر میں رہیں، پارسائی کی فکر میں رہیں، عوام کی مدد کی فکر میں رہیں، پاکیزہ زندگی بسر کرنے کی فکر میں رہیں۔ ہماری سمت اور رجحان یہی ہونا چاہئے۔ ان شاء اللہ یہ عید آپ کے لئے اور آپ کے اہل خانہ کے لئے باعث برکت اور مبارک ہوگی۔
امام خامنہ ای
29 اگست 2018
مہدویت
انسان کی اصلی زندگي اور اس کی مطلوبہ حیات، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے وقت سے شروع ہوگي۔
اگر ہم تشبیہ دینا چاہیں تو ہمیں اس طرح کہنا ہوگا کہ ایک مسافر یا ایک کارواں دشوار گزار راستوں، سخت موڑوں، پہاڑی علاقوں، وادیوں، دلدلوں اور خاردار راہوں سے مسلسل گزرتا جا رہا ہے، راستہ طے کرتا جا رہا ہے تاکہ خود کو ایک جگہ تک پہنچا سکے، وہ جگہ کیا ہے؟ وہ جگہ ایک شاہراہ ہے، ایک اہم سڑک ہے، ایک کشادہ سڑک ہے، ایک ہموار راہ ہے۔
ہم آغاز سے لے کر آج تک کی انسانی تاریخ میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ، ان ہی دشوار راستوں، ان ہی نشیب و فراز، ان ہی خاردار راہوں، ان ہی دلدلی راستوں پر آگے بڑھنا ہے، انسانیت لگاتار اور بدستور یہ راستہ طے کر رہی ہے تاکہ شاہراہ تک پہنچ سکے، یہ شاہراہ، مہدویت کا زمانہ ہے، حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا زمانہ ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ جب ہم وہاں پہنچ جائيں گے تو پھر یکبارگی سارا راستہ طے ہو جائے گا اور سفر ختم ہو جائے گا، نہیں، وہ ایک راستہ ہے۔
درحقیقت یہ کہنا چاہیے کہ انسان کی اصل زندگي اور اس کی مطلوبہ حیات، وہاں سے شروع ہوگي اور انسانیت اس وقت ایک راستے پر آئے گی اور وہ راستہ، ایک صراط مستقیم ہے جو اسے آفرینش کی منزل تک پہنچائے گا۔
امام خامنہ ای
11 جون 2014
درس اخلاق
ایسا نہیں ہے کہ کوئی یہ سوچے کہ مادی ذرائع سے انسان تمام مقاصد پورے کر سکتا ہے بلکہ انسان کو کچھ چیزیں دعا کے ذریعے حاصل کرنی ہوتی ہیں۔ البتہ خالی دعا نہیں، عمل کے بغیر دعا نہیں! اس بات کا کوئي فائدہ نہیں ہے کہ انسان عمل روک دے اور صرف دعا پر اکتفا کرے۔ ہمیں عمل کے ساتھ ہی، اقدام کے ساتھ ہی، اپنی کوشش اور ہمت کو استعمال کرنے کے ساتھ ہی، اللہ سے دعا بھی مانگنی چاہیے۔ یہ دعا، انسان کی حاجت روائي کرتی ہے۔ دعا، دیگر وسائل کے ساتھ ہی ایک وسیلہ ہے۔ ہمارے محققین اور مفکرین کے بقول، جیسا کہ خداوند عالم نے، دسیوں وسیلے، اسباب اور ذرائع رکھے ہیں، دعا بھی ان میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔
امام خامنہ ای
26 فروری 1993
قرآن کی روشنی میں
انسان پر جو شرعی فرائض ہیں، ان کی انجام دہی کے لیے انتباہ اور یاد دہانی ضروری ہے۔ دین نے انسان کے لیے کچھ یاد دہانیاں اور انتباہات مدنظر رکھے ہیں اور بنیادی طور پر خود پیغمبر انتباہ دینے والے ہیں۔ "فَذَكِّرْ اِنَّمَا اَنتَ مُذَكِّرٌ" (سورۂ غاشیہ، آيہ 21، اے پیغمبر (لوگوں کو) متنبہ کر دیجیے کہ آپ تو بس انتباہ دینے والے ہیں۔) قرآن، انتباہ کا ایک ذریعہ ہے ... انتباہ کا ایک ذریعہ یہی نماز ہے جو (دن میں) پانچ بار ہمیں یاد دہانی کراتی ہے، ایک دوسرا ذریعہ وعظ و نصیحت ہے، واعظ و ناصح کی نصیحتیں ہمیں یاد دہانی کراتی ہیں، ایک ذریعہ کلام اللہ کی تلاوت ہے کہ آيات الہی کی تلاوت ہمیں غفلت سے باہر نکالتی ہے۔ یہ سارے ذرائع اس لیے ہیں کہ ہم غفلت میں مبتلا نہ ہونے پائيں۔ اگر ہم بھول گئے اور غفلت میں مبتلا ہو گئے، تو پھر کوشش کرنے سے غافل رہ جائیں گے اور اگر ہم کوشش کرنے سے غافل رہ گئے تو پھر اس حیات موعود میں ہماری حالت، یقینا خراب ہوگي۔
امام خامنہ ای
28 مئي 1987
اہم خطبے
امام خمینی کو کھل کر میدان میں لانا چاہیے۔ سامراج کے خلاف ان کے موقف، بنیاد پرستی کے خلاف ان کے موقف، مغرب کی لبرل ڈیموکریس کے خلاف ان کے موقف اور منافقوں اور دوہرے چہرے والوں کے خلاف ان کے موقف کو کھل کر بیان کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ اس عظیم شخصیت سے متاثر ہوئے، انھوں نے ان موقفوں کو دیکھا اور ان کے سامنے سر جھکا دیا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ فلاں اور فلاں امام خمینی کو پسند کرنے لگيں، اس لیے ہم ان کے موقف کو چھپا دیں، سامنے نہ لائیں یا ان چیزوں کو ہلکا کر دیں جو ہماری نظر میں سخت ہیں۔ کچھ لوگ ایک زمانے میں – وہ زمانہ ہمیں یاد ہے، ہماری نوجوانی کا زمانہ تھا – اس بات کے لیے کہ اسلام کے کچھ چاہنے والے اور حامی تیار ہو جائيں، اسلام کے بعض احکام کا رنگ پھیکا کر دیتے تھے، نظر انداز کر دیتے تھے؛ قصاص کے حکم کو، جہاد کے حکم کو، حجاب کے حکم کو چھپاتے تھے یا ان کا انکار کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کا اسلام سے تعلق نہیں ہے، قصاص، اسلام میں نہیں ہے، جہاد اسلام میں نہیں ہے، تاکہ فلاں مستشرق یا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے فلاں دشمن کو اسلام اچھا لگنے لگے! یہ غلط ہے۔ اسلام کو اس کی پوری جزئیات کے ساتھ بیان کرنا چاہیے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2010
ویب سائٹ KHAMENEI.IR مسجد گوہر شاد میں جولائی 1935 عیسوی میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے حکومتی فرمان کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے قتل عام کی برسی کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ایک تقریر کے کچھ اقتباسات قارئین کے لئے شائع کر رہی ہے۔
عیدالاضحی کے دن کی قربانی تاریح کی حیرت انگیز اور بے مثال قربانی ہے۔ حضرت ابراہیم کو حکم دیا گیا کہ اپنے نوجوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیں۔ فرمان الہی ہے، الہی امتحان ہے۔ وہ بھی اس فرزند کو کہ برسوں جس کی آرزو کرتے رہے اور بڑھاپے کے وقت اَلحَمدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَى الکِبَرِ إِسماعیلَ وَإِسحاق، اللہ تعالی نے یہ اولاد حضرت ابراہیم کو عطا فرمائی تھی۔ ظاہر ہے کہ عمر کے آخری حصے میں، بڑھاپے کے دور میں ہونے والی اولاد سے انسان کو کیسی قلبی وابستگی ہوتی ہے۔ اس فرزند سے کہ جو «فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ» شباب کو پہنچ چکا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ فرمان خداوندی ہے۔ وہ نوجوان جواب دیتا ہے: یا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُنی إِنْ شاءَ اللَهُ مِنَ الصَّابِرین. آپ دیکھئے کہ دین کی تاریخ، دینداری کی تاریخ، ایمان کی تاریخ اور اسلام کی تاریخ کے یہ حیرت انگیز واقعات ہیں۔
امام خامنہ ای
31 جولائی 2020
بنیادی طور پر ہر وہ تنظیم جس میں ان بڑی طاقتوں کا اثر و رسوخ ہے، ایسی تنظیمیں ہیں جنھیں ان کے مفاد کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ یہی اقوام متحدہ کی تنظیم، یہی نشستیں جو باہر ہوتی ہیں، سلامتی کونسل، یہ سب بڑی طاقتوں کی غلام ہیں اور دوسرے ملکوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لیے ہیں۔ اسی لیے ان طاقتوں نے اپنے لیے ویٹو کا حق قرار دیا ہے۔ جو بات بھی ان کی رائے کے خلاف ہوتی ہے، اسے وہ کنارے لگا دیتے ہیں بلکہ یہ تنظیمیں خود ہی بنیادی طور پر ان بڑی طاقتوں کی خدمت گزار ہیں۔ یہ لوگ جس نام سے بھی تنظیمیں بناتے ہیں، ان کے ذریعے چاہتے ہیں کہ سبھی کو اپنے مفادات کی طرف کھینچ لائيں۔ ان کے سلسلے میں ہماری بدگمانی اس حد تک ہے کہ اگر وہ کوئي صحیح بات بھی کریں تو ہمیں لگتا ہے کہ یہ کام انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ہی کیا ہے۔
امام خمینی
9 ستمبر 1980
میں والدین سے گزارش کرتا ہوں اور آپ لوگوں سے التجا کرتا ہوں، مطالبہ کرتا ہوں کہ شادی اور اس سے متعلق امور کو تھوڑا آسان بنائيے۔ ماں باپ سختی کرتے ہیں، سختی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ خداوند متعال سورۂ "انّا فتحنا" میں فرماتا ہے: "وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّہِ ظَنَّ السَّوْءِ" (اور اللہ ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے گا جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ سورۂ فتح، آيت 6) منافق اور مشرک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا کے بارے میں بدگمانی رکھتا ہے، اللہ کے وعدوں کو نہیں مانتا۔ یہ جو خدا کہتا ہے کہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن يَنصُرُہُ (اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، وہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ سورۂ حج، آيت 40) اس پر مومن انسان تو دل کی گہرائی سے یقین رکھتا ہے لیکن منافق اسے تسلیم نہیں کرتا۔ خداوند عالم فرماتا ہے: عَلَيْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَيْھِمْ وَلَعَنَھُمْ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَھَنَّمَ وَسَاءَت مَصِيرًا (برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، ان پر اللہ کا غضب ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ سورۂ فتح، آيت 6) جو لوگ، اللہ سے بدگمانی رکھتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ کے وعدے پر پورا یقین تھا۔ ہم خدا کے لیے مجاہدت کرتے ہیں، خدا کے لیے قدم اٹھاتے ہیں، اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہیں؛ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری اور فرض ادا کرتے ہیں، لیکن خداوند متعال فریضے کے طور پر انجام دیے گئے اسی عمل کا ہمیں بہترین نتیجہ عطا کرے گا۔ یہ امام خمینی کی راہ کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2010
سیاست سے مذہب کی دوری کا، جس کی کچھ لوگ ہمیشہ عالم اسلام میں ترویج کرتے تھے – یہ چیز ہمارے ملک میں بھی تھی اور افسوس کہ آج بھی کچھ لوگ، سیاست سے مذہب کی دوری کا راگ الاپتے ہیں – ایک خطرہ یہی ہے کہ جب سیاست، مذہب سے الگ ہو جائے تو وہ اخلاق سے بھی الگ ہو جائے گی، روحانیت سے بھی دور ہو جائے گي۔ سیکولر اور دین سے عاری نظاموں میں، اخلاقیات تقریبا ان سبھی نظاموں میں رخت سفر باندھ چکے ہیں۔ اب شاید کبھی کسی جگہ کوئي اخلاقی عمل دکھائي دے جائے تو یہ ممکن ہے لیکن یہ استثناء ہے۔ جب مذہب، سیاست سے الگ ہو گيا تو سیاست غیر اخلاقی بن جاتی ہے جو صرف مادی اور منافع بخش حساب کتاب پر مبنی ہوتی ہے۔
امام خامنہ ای
24 اگست 2009
سورۂ آل عمران میں دو مواقع ہیں اور تعجب کی بات ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں ایک ہی سورے میں اور ایک ہی قضیئے سے متعلق ہیں، البتہ دو معاملوں سے متعلق ہیں لیکن یہ دونوں معاملے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دو طرح کی سنتوں کو بیان کیا جا رہا ہے: فتح کی سنت، شکست کی سنت۔ ایک سورۂ آل عمران کی آيت نمبر 173 میں ہے: اَلَّذینَ قالَ لَھُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم فَزادَھُم ایماناً وَ قالوا حَسبُنَا اللَہُ وَ نِعمَ الوَکیلُ. فَانقَلَبوا بِنِعمَۃٍ مِنَ اللَہِ وَ فَضلٍ لَم یَمسَسھم سُوء۔ اس کا قصہ آپ نے سنا ہی ہوگا، جنگ احد ختم ہو گئي، حمزہ سیدالشہداء جیسا انسان اس جنگ میں شہید ہو گيا، پیغمبر مجروح ہو گئے، امیر المومنین زخمی ہو گئے، کافی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، تھک ہار کر، زخمی ہو کر مدینہ واپس لوٹے، ادھر قریش، یہی دشمن جو کچھ نہیں کر پایا تھا – اس نے چوٹ پہنچائي تھی لیکن مسلمانوں سے جیت نہیں پایا تھا – یہ لوگ مدینے کے باہر، مدینے سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر اکٹھا ہوئے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات حملہ کریں گے، یہ لوگ تھکے ہوئے ہیں، یہ کچھ کر نہیں پائيں گے، آج ہی کام ختم کر دیں گے۔ ان کے ایجنٹ مدینے کے اندر آ گئے اور انھوں نے خوف پھیلانا شروع کر دیا: اَلَّذینَ قالَ لَھُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم، انھوں نے کہا: تمھیں پتہ ہے، خبر بھی ہے کہ وہ لوگ اکٹھا ہو گئے ہیں، لشکر تیار کر لیا ہے، تمھیں تباہ کر دینا چاہتے ہیں! آج رات حملہ کر دیں گے اور ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے! خوف پھیلانے کا کام۔ جن لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، انھوں نے کہا: قالوا حَسبُنَا اللہُ وَ نِعمَ الوَکیل، انھوں نے کہا: جی نہیں، ہم نہیں ڈرتے، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پیغمبر نے فرمایا: وہ لوگ جو آج احد میں زخمی ہوئے ہیں، اکٹھا ہوں۔ وہ سب اکٹھا ہو گئے، آپ نے فرمایا: ان کے مقابلے میں جاؤ! وہ لوگ گئے اور انھیں شکست دے کر لوٹے: فَانقَلَبوا بِنِعمَۃٍ مِنَ اللہِ وَ فَضل، کافی زیادہ مال غنیمت کے ساتھ لوٹے اور انھیں کوئي مشکل بھی پیش نہیں آئي، دشمن کو شکست دی اور لوٹ آئے۔ یہ سنت الہیہ ہے۔ بنابریں اگر دشمن کی جانب سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کے جواب میں آپ نے حقیقی معنی میں اس بات پر یقین رکھا کہ "حَسبُنَا اللہُ وَ نِعمَ الوَکیل" اور اپنے فرائض کو پورا کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہے۔ سورۂ آل عمران کا یہ حصہ، ہمارے سامنے اس سنّت کو بیان کرتا ہے۔ یہ احد کے بعد کا واقعہ تھا، مثال کے طور پر احد کی جنگ ختم کے کچھ گھنٹے بعد کا۔
معاملے کا دوسرا حصہ، خود احد کے اندر کا ہے، جنگ احد میں پہلے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئي تھی، یعنی انھوں نے پہلے حملہ کیا اور دشمن کو مغلوب کر دیا، پھر جب اس درّے کو دنیا طلبی کی وجہ سے گنوا دیا تو معاملہ بالکل پلٹ گيا، قرآن مجید سورۂ آل عمران میں ہی اسے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے: وَ لَقَد صَدَقَکُمُ اللہُ وَعدَہ، اللہ نے تم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا – ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم راہ خدا میں جہاد کروگے تو ہم تمھیں فاتح بنا دیں گے، ہم نے اپنے وعدے کو پورا کر دیا – اِذ تَحُسّونَھُم بِاِذنِہ، اللہ کے اذن سے تم ان پر دباؤ ڈالنے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گئے، پہلے تمھیں کامیابی حاصل ہوئي۔ تو یہاں خدا نے اپنا کام کر دیا، خدا نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، اسے پورا کر دیا لیکن پھر تم نے کیا کیا؟! خدا کے اس وعدے کی تکمیل پر شکر کرنے کے بجائے، اس الہی فضل و کرم کا شکر کرنے کے بجائے، حَتّىٰ اِذا فَشِلتُم، تمھارے قدم ڈھیلے پڑ گئے، تمھاری آنکھیں مال غنیمت پر ٹک گئيں، تم نے دیکھا کہ کچھ لوگ، مال غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو تمھارے قدم ڈھیلے پڑ گئے، وَ تَنازَعتُم؛ تم ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے، تم میں اختلاف ہو گيا۔ دیکھیے، ان قرآن جملوں پر سماجیات کے لحاظ سے علمی تحقیق ہونی چاہیے، یہ کہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ملک، ایک حکومت، ایک ریاست پیشرفت کرے، کیسے وہ جمود میں پڑ سکتی ہے اور کیسے زوال کا شکار ہو جاتی ہے؟ ان باتوں کو قرآن کی ان آیات میں تلاش کیجیے۔ حَتّىٰ اِذا فَشِلتُم وَ تَنازَعتُم فِی الاَمرِ وَ عَصَیتُم. تم نے نافرمانی کی، پیغمبر نے تم سے کہا تھا کہ یہ کام کرو، تم نے نہیں کیا، پھر جب ایسا ہو گيا، مِن بَعدِ ما اَراکُم ما تُحِبّون، جو تم چاہتے تھے، یعنی نصرت الہی، اسے اللہ نے تمھیں دے دیا تھا، دکھا دیا تھا، تم مکمل نصرت تک پہنچنے ہی والے تھے لیکن تم نے اس طرح کا عمل انجام دیا، پھر مِنکُم مَن یُریدُ الدُّنیا وَ مِنکُم مَن یُریدُ الآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُم عَنھُم(آل عمران آیت 152) یہاں بھی خداوند عالم نے اپنی سنّت پر عمل کیا، صَرَفَکُم عَنھُم، ان پر سے تمھارا تسلط ختم کر دیا، یعنی تم مغلوب ہو گئے، یہ سنت الہی ہی تو ہے۔ وہاں سنت الہی یہ تھی کہ دشمن کی طرف سے خوف پھیلائے جانے کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور آگے بڑھو، یہاں سنت الہی یہ ہے کہ دنیا، دنیا طلبی، آرام پسندی کی خواہش، کام نہ کرنے، زحمت نہ اٹھانے اور آسان کام تلاش کرنے وغیرہ جیسی باتوں کے ذریعے اپنے آپ کو اور دوسروں کو تباہ کرو۔ یہ دونوں آیتیں سورۂ آل عمران میں ایک دوسرے کے قریب ہیں، یہ دو سنّتوں کو بیان کرتی ہیں۔
قرآن مجید الہی سنتوں کے بیان سے بھرا ہوا ہے، میں نے عرض کیا کہ قرآن کی ابتدا سے لے کر اختتام تک جیسے جیسے آپ دیکھتے ہیں، الہی سنتوں کو بیان کیا جاتا ہے اور دوہرایا جاتا ہے، کئي جگہ یہ بھی کہا گيا ہے: سُنَّۃَ اللہِ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبلُ وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبدیلًا(فتح آیت 23) –چار پانچ مقامات پر اس طرح کا بیان ہے– کہ خداوند عالم فرماتا ہے: الہی سنتوں میں کوئي تبدیلی نہیں آتی، اللہ کے قوانین، ٹھوس قوانین ہیں۔ کسی کے ساتھ خدا کی رشتہ داری نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ہم مسلمان ہیں، شیعہ ہیں، اسلامی جمہوریہ ہیں اس لیے ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، نہیں! دوسروں اور ہم میں کوئي فرق نہیں ہے، اگر ہم نے اپنے آپ کو پہلی طرح کی سنتوں کے مطابق ڈھالا تو اس کا نتیجہ وہ ہے، اگر دوسری طرح کی سنتوں کے مطابق خود کو ڈھالا تو اس کا نتیجہ یہ ہے، یہ یقینی ہے، اس میں کوئي تبدیلی نہیں ہوگي۔
امام خامنہ ای
28 جون 2022
قرآن مجید، انسان کی تربیت کی کتاب ہے، انسان کو زندگی میں جتنے بھی مرحلے پیش آتے ہیں، ان تمام مراحل کے لئے قرآن کے پاس دعوت ہے، راستہ ہے۔ قرآن مجید میں وہ تمام قصے، جو نقل ہوئے ہیں اور کبھی کبھی دوہرائے بھی گئے ہیں، اس لیے ہیں کہ اس چیز کی خاص اہمیت ہے۔ ایسا انسان کی اصلاح اور تہذیب نفس کے لیے ہے۔ قرآن، فقہی احکام کی کتاب نہیں ہے، اس نے بنیادی باتیں، فقہی احکام کی بنیادی باتیں، ان کے اصول بیان کر دیے ہیں وہ بھی مکمل طور پر نہیں، قرآن مجید دعوت کی کتاب ہے اور معاشرے کے اصلاح کی کتاب ہے۔ جب اس معاشرے کی قرآن کے ذریعے اصلاح ہو جائے تو پھر سنت نبی پر اور ائمۂ ہدی اور ان کے راویوں کے ذریعے منقول پیغمبر اکرم کی حدیثوں پر عمل کیا جائے۔
امام خمینی
20 جنوری 1982
میں خواتین کی مختلف طرح کی سماجی سرگرمیوں سے اتفاق کرتا ہوں، عورتیں سماج کا آدھا حصہ ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہوگي کہ سماج کے اس آدھے حصے سے گوناگوں امور میں استفادہ کیا جائے۔ لیکن دو تین بنیادی باتوں اور اصولوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایک بنیادی بات یہ ہے کہ یہ مشارکت، اس بنیادی کام کو – جوگھر کا کام ہے، گھرانے کا کام ہے، بیوی کا کام ہے، ماں کا کام ہے، خاتون خانہ کا کام ہے– متاثر نہ کرے!
یہیں پر حکومت کے کندھوں پر بھی ایک ذمہ داری ہے۔ ان خواتین کی، جنھوں نے کسی بھی وجہ سے، فل ٹائم یا پارٹ ٹائم ملازمت قبول کی ہے، مدد کی جائے کہ وہ ماں کی حيثیت سے اپنے فرائض پورے کر سکیں، امور خانہ داری انجام دے سکیں۔ چھٹیوں کے ذریعے، ریٹائرمینٹ کے وقت (میں کمی) کے ذریعے، روزانہ کام کے اوقات کے میں کمی کے ذریعے، کسی طرح حکومت کو مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ خاتون، جو کسی بھی وجہ سے یہاں آ کر کام کر رہی ہے، اپنے گھریلو کاموں کو بھی انجام دے سکے۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
عقیدہ مہدویت کی چند خصوصیات ہیں جو کسی بھی قوم کے پیکر میں دوڑنے والے خون کا کام کرتی ہیں، یہ جسم کے اندر روح کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایک خصوصیت ہے امید۔
بسا اوقات مستبد و جابر عناصر کمزور اقوام کو ایسی حالت میں پہنچا دیتے ہیں کہ ان کی امید مر جاتی ہے۔ جب امید مر گئی تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔ یہی سوچتی ہیں کہ کیا فائدہ ہے؟!
مہدویت کا عقیدہ، حضرت امام مہدی ارواحنا فداہ کے وجود کا اعتقاد دلوں میں امید کی شمعیں روشن کرتا ہے۔ اس عقیدے کا ماننے والا انسان کبھی قنوطیت میں مبتلا نہیں ہوتا۔ کیوں؟ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایک تابناک منزل آنے والی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ خود کو اس منزل تک پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔
امام خامنہ ای
16 دسمبر 1997
امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) سے عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے اندر مہدوی معاشرے کی جھلک اور مناظر پیدا کریں، مہدوی معاشرہ، عدل و انصاف کا معاشرہ ہے، عزت و اقتدار کا معاشرہ ہے، علم کا معاشرہ ہے، اخوت و تعاون کا معاشرہ ہے۔ ہمیں ان چیزوں کو حتی المقدور اور اپنی توانائي کے حساب سے اپنی زندگي میں عملی جامہ پہنانا چاہیے، یہ چیز ہمیں قریب کرتی ہے۔
امام خامنہ ای
8 اپریل 2020
اقوام اور ان کے حکام کا غرور ہمیشہ ان کی سرنگونی اور زوال کا سبب بنا ہے۔ کوئي یہ نہ کہے کہ "میں نے" کیا ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں اپنے بہت سخت استہزائيہ لہجے میں کہتا ہے کہ قارون نے کہا: "قَالَ اِنَّمَا اُوتِيتُہُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِندِي"( سورۂ قصص، آيت 78) میں خود اپنی صلاحیت و توانائی کی بنا پر اس مقام تک پہنچا ہوں! خداوند عالم نے اسے زمین کی گہرائيوں میں گرا دیا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے، ہمیں مجاہدت کرنی چاہیے۔ کوئي بھی قوم مجاہدت کے بغیر، کوشش کے بغیر، جدت عمل کے بغیر، نئے افکار کے بغیر اور پیشرفت کے مختلف مرحلوں کو سر کیے بغیر، کسی مقام تک نہیں پہنچتی لیکن برکت اللہ دیتا ہے، توفیق اللہ دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
28جون 2005
دشمنوں نے ہمارے ملک کے عزیز نوجوانوں اور جوانوں کے لیے بھی بہت سے خواب دیکھے اور بہت سی سازشیں کیں لیکن بحمد اللہ وہ ناکام رہے۔ البتہ ان کی یہ ناکامی آپ کی ہوشیاری کی وجہ سے ہے۔ اس ہوشیاری اور بیداری کو یونیورسٹیوں میں بھی اور اسکولوں میں بھی بڑھائيے اور اسلامی تعلیمات کی صحیح شناخت، مذہبی فرائض اور اچھے اخلاق کی ادائیگي اور پابندی کے لیے کوشاں رہیے۔ اس ملک کو، جو اپنی سرفرازی کے لیے کوشش کر رہا ہے اور اس نے خود آپ کے زمانے میں اتنے بڑے بڑے قدم اٹھائے ہیں، ہر لحاظ سے ایک نمایاں اور پیشرفتہ جگہ میں تبدیل کر دیجیے۔ یہ آپ کا کام ہے اور آپ کے ہاتھوں میں ہے اور آج ہی سے اپنے اندر اس کی تمہیدیں شروع کیجیے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے آپ متقی ہوں، اسمارٹ ہوں، سوچیں، غور کریں، دوست کو پہچانیں، دشمن کو پہچانیں۔
امام خامنہ ای
30/10/1998
بیدار رہیے! ہوشیار رہیے! برائي پھیلانے والے تاک میں ہیں، اغیار کمیں گاہوں میں ہیں۔ وہ سوئے نہیں ہیں، آپ کو سونا نہیں چاہیے؛ آپ کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ وہ لوگ مختلف طریقوں سے، مختلف شکلوں میں سازشوں میں مصروف ہیں، ہوشیار اور بیدار رہ کر اپنی تحریک کو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔ اگر خدانخواستہ یہ تحریک، ڈھیلی پڑ گئي تو پھر انہی مصیبتوں کی واپسی کا انتظار کیجیے۔ اگر آپ ایران کو نجات دینا چاہتے ہیں، اسلام کو نجات دینا چاہتے ہیں، قرآن مجید کو نجات دینا چاہتے ہیں تو اس تحریک کو باقی رکھیے۔ ضروری موقعوں پر مظاہرہ کیجیے، اجتماع کیجیے، یہ تحریک محفوظ رہنی چاہیے، یہ قوم زندہ رہنی چاہیے۔
امام خمینی
1/3/1979
گھریلو مسائل میں شوہر کی نظر میں، بچے کی نظر میں، باپ کی نظر میں، بھائي کی نظر میں، خواتین کا احترام ہونا چاہیے۔ اگر گھر میں، گھریلو ماحول میں عورت کو لائق احترام سمجھا جائے اور اس کی عزت کی جائے تو سماج کی مشکلات کا ایک اہم حصہ حل ہو جائے گا۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہیے کہ بچے، ضرور ماں کا ہاتھ چومیں، اسلام یہ چاہتا ہے۔ جیسا کہ زیادہ مذہبی، زیادہ بااخلاق اور ایک دوسرے سے زیادہ قریب گھرانوں میں یہ دیکھا جاتا ہے۔ گھر کے بچوں کو ماں کا بہت زیادہ احترام کرنا چاہیے۔ یہ احترام، اس پیار اور اپنائیت بھرے رویے کے بالکل بھی منافی نہیں ہے جو ماں اور بچے کے درمیان پایا جاتا ہے، یہ احترام ہونا ہی چاہیے، گھر کے اندر عورت کا احترام ہونا ہی چاہیے۔
امام خامنہ ای
11/5/2013
حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کا سب سے اہم مشن ہے؛ «یَملَأُ اللَهُ بِهِ الاَرضَ قِسطاً وَ عَدلا» (بحار الانوار جلد 36 صفحہ 316) اس عظیم ہستی کی ذمہ داری ہے عدل و انصاف قائم کرنا۔ بہت سی روایتوں میں، دعاؤں میں اور زیارتوں میں اس مفہوم کی طرف اشارہ ہے؛ عدل و انصاف۔ یہ ایسا عظیم ہدف ہے جس کا حصول حضرت صاحب الزمان کی آستین سے باہر آنے والے دست قدرت خداوندی سے ہی ممکن ہے۔ حضرت کے ہاتھوں جس عدل و انصاف کے قیام کا انتظار ہے وہ کسی خاص شعبے تک محدود عدل نہیں ہے، وہ زندگی کے تمام شعبوں میں قائم ہونے والا عدل ہے۔ قدرت میں عدل، ثروت میں عدل، سلامتی میں عدل، انسانی وقار میں عدل، سماجی مقام و مرتبے میں عدل، روحانیت اور ارتقاء کے امکانات میں عدل، زندگی کے تمام شعبوں میں عدل۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں انتظار ہے کہ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے ہاتھوں عالم وجود میں، اس دنیا میں رونما ہوں۔ ان شاء اللہ لطف خداوندی سے یہ ضرور ہوگا۔
امام خامنہ ای
9 اپریل 2020
توجہ دیجیے کہ انسان اسی طرح زبان سے کہتا رہے: استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ، لیکن اس کا ذہن اور اس کی توجہ ادھر ادھر رہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ استغفار نہیں ہے۔ استغفار ایک دعا ہے، دل سے مانگنا ہے، انسان کو حقیقت میں خدا سے مانگنا چاہیے، مغفرت الہی اور معافی کو اپنے پروردگار سے مانگنا چاہیے: میں نے یہ گناہ کیا ہے، اے میرے پروردگار! مجھ پر رحم کر، میرے اس گناہ کو معاف کر دے۔ ہر ایک گناہ پر اس طرح استغفار کرنے کا نتیجہ یقینی طور پر مغفرت کی صورت میں سامنے آئے گا، خداوند عالم نے اس دروازے کو کھولا ہے۔ البتہ دین مقدس اسلام میں دوسروں کے سامنے اپنے گناہ کا اقرار ممنوع ہے۔ یہ جو بعض مذاہب میں ہے کہ عبادت خانوں میں جائيں، عالم دین کے پاس، پادری کے پاس، بیٹھیں، گناہ کا اعتراف کریں، یہ اسلام میں نہیں ہے اور اس طرح کی چیز منع ہے۔ اپنے گناہوں سے دوسروں کو مطلع کرنا، اپنے اندرونی رازوں اور اپنے گناہوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا، منع ہے، اس کا کوئي فائدہ بھی نہیں ہے۔ یہ جو ان خیالی اور تحریف شدہ مذاہب میں ایسا کہا جاتا ہے کہ پادری گناہوں کو بخش دیتا ہے، نہیں! اسلام میں گناہوں کو بخشنے والا صرف خدا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر بھی گناہوں کو نہیں بخش سکتے۔
امام خامنہ ای
14 ستمبر 2007
قرآن کی روشنی میں :
مومن، اللہ کے وعدوں پر ایمان رکھتا ہے
اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ خداوند متعال سورۂ "انّا فتحنا" میں فرماتا ہے: "وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللّہِ ظَنَّ السَّوْءِ" (اور اللہ ان منافق مردوں اور عورتوں اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے گا جو اللہ کے متعلق برے گمان رکھتے ہیں۔ سورۂ فتح، آيت 6) منافق اور مشرک کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا کے بارے میں بدگمانی رکھتا ہے، اللہ کے وعدوں کو نہیں مانتا۔ یہ جو خدا کہتا ہے کہ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن يَنصُرُہُ (اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، وہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ سورۂ حج، آيت 40) اس پر مومن انسان تو دل کی گہرائی سے یقین رکھتا ہے لیکن منافق اسے تسلیم نہیں کرتا۔ خداوند عالم فرماتا ہے: عَلَيْھِمْ دَائِرَۃُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَيْھِمْ وَلَعَنَھُمْ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَھَنَّمَ وَسَاءَت مَصِيرًا (برائی کے پھیر میں وہ خود ہی آ گئے، ان پر اللہ کا غضب ہوا اور اس نے ان پر لعنت کی اور ان کے لیے جہنم مہیا کر دی جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ سورۂ فتح، آيت 6) جو لوگ، اللہ سے بدگمانی رکھتے ہیں، ان کی حالت ایسی ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ کے وعدے پر پورا یقین تھا۔ ہم خدا کے لیے مجاہدت کرتے ہیں، خدا کے لیے قدم اٹھاتے ہیں، اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لاتے ہیں؛ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، جیسا کہ اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری اور فرض ادا کرتے ہیں، لیکن خداوند متعال فریضے کے طور پر انجام دیے گئے اسی عمل کا ہمیں بہترین نتیجہ عطا کرے گا۔ یہ امام خمینی کی راہ کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2010
قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی تقوی لفظ ہے، اس کا مطلب ہے مکمل توجہ اور پوری طرح چوکنا رہنا۔ اس شخص کی طرح جو لمبا لباس پہن کر، علمائے دین کے لباسوں کی طرح، ایک خاردار راستے پر چل رہا ہے، تو وہ چوکنا رہتا ہے کہ کہیں کوئي کانٹا اس کے لباس میں نہ لگ جائے، قدم بہ قدم اور ہر لمحہ نگرانی۔ اپنے پیروں کے نیچے بھی دیکھے اور یہ بھی دیکھے کہ یہاں پر وہ جگہ کہاں ہے جہاں کانٹے کم ہیں کہ اسی طرف بڑھے۔ مطلب یہ کہ نیچے بھی دیکھے اور آگے بھی دیکھے، یہی تقوی ہے۔ "تقوی اللہ" کے معنی، جس کا ترجمہ عام طور یہ کیا جاتا ہے کہ انسان، اللہ سے ڈرے، خوف رکھے، یہی ہیں! تو خوف خدا کا مطلب یہ ہے، یعنی پوری شدت سے اس بات کا خیال رکھیے کہ خدا کے حکم کے خلاف، خدا کے اوامر و نواہی کے خلاف عمل نہ ہو، یہی تقوی ہے۔ ایسے ہی موقعوں پر جب قرآن مجید فرماتا ہے "ان تصبروا و تتقوا"(اگر تم صبر کرو اور تقوی اختیار کرو) تو اس کی ایک خصوصیت ہے: یہ تقوی، دشمن کے مقابلے میں تقوی ہے۔ یعنی چوکنا رہنا، دشمن پر نظر رکھنا، اس کے حرکنات و سکنات پر گہری نظر رکھنا، اس کے مقابلے کے لئے اپنی نقل و حرکت کی نگرانی کرنا، اس کی مشقوں اور سرگرمیوں کی نگرانی کرنا۔
امام خامنہ ای
28 اگست 2017
لوگوں کا سرگرم عمل رہنا بہت ضروری ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ چھوٹے بڑے شیطان، لوگوں کو بہکانے کے درپے ہیں، جیسا کہ ان کے سرغنہ نے کہا تھا: لاغوینّھم اجمعین یعنی میں ضرور ان سب کو بہکا کر رہوں گا۔ (سورہ، ص، آيت 82) تو مسلسل لوگوں کو بہکانے میں مصروف ہیں، ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے جنھوں نے آج کسی بھی بات کو، کسی بھی جھوٹ کو پہنچانا اور ہر غلط بات کو سنوارنا اور اس کا جواز پیش کرنا بہت آسان بنا دیا ہے۔ یہ لوگ مسلسل معاشرے کے ذہن میں کچھ نہ کچھ انڈیلتے رہتے ہیں، بہکاتے رہتے ہیں، لاغوینّھم اجمعین تاکہ لوگوں کو اس ایمان سے، اس یقین سے، اس امید سے، اس خود اعتمادی سے دور کر دیں، انھیں مایوس کر دیں ... دشمن یہ کام کر رہا ہے۔
امام خامنہ ای
10 مارچ 2022
امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر میں سب سے پہلی چیز جو موجود نظر آتی ہے وہ 'خالص محمدی اسلام' پر تاکید اور امریکی اسلام کی نفی ہے۔ امام خمینی نے خالص اسلام کو امریکی اسلام کی ضد قرار دیا ہے۔ امریکی اسلام کیا ہے؟ ہمارے زمانے میں، امام خمینی کے زمانے میں اور تمام ادوار میں جہاں تک ہماری معلومات ہے، ممکن ہے آئندہ بھی یہی رہے کہ امریکی اسلام کی دو شاخیں ہیں۔ ایک ہے ملحدانہ اسلام اور دوسری رجعت پسندانہ اسلام۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ان لوگوں کو جو الحادی فکر رکھتے تھے یعنی دین کو، سماج کو، انسانوں کے سماجی روابط کو اسلام سے الگ رکھنے کے قائل تھے، ہمیشہ ان لوگوں کے زمرے میں رکھا جو دین کے سلسلے میں بنیاد پرستانہ نظریہ رکھتے تھے۔ یعنی دین کے بارے میں ایسا قدامت پسندانہ نظریہ جو نئی فکر کے انسانوں کے لئے ناقابل فہم ہو، جو متعصبانہ طور پر غلط بنیادوں پر اور بنیاد پرستی پر زور دیتا ہو۔ امام خمینی ان دونوں نظریات کے حامل لوگوں کا ہمیشہ ایک ساتھ ذکر کرتے تھے۔
آج اگر آپ غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ دنیائے اسلام میں ان دونوں شاخوں کے نمونے موجود ہیں اور دونوں کو دنیا کی توسیع پسند طاقتوں اور امریکا کی حمایت و پشت پناہی حاصل ہے۔ آج منحرف گروہوں جیسے داعش اور القاعدہ وغیرہ کو بھی امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے اور اسی طرح ایسے حلقوں کو بھی امریکا کی سرپرستی حاصل ہے جن کا نام تو اسلامی ہے لیکن اسلامی عمل اور اسلامی فقہ و شریعت سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے عظیم قائد کی نگاہ میں خالص اسلام وہ ہے جو کتاب خدا اور سنت پیغمبر پر استوار ہو۔ جو روشن فکری کے ساتھ، زمان و مکان کے تقاضوں سے واقفیت کے ساتھ، مسلمہ علمی طریقوں اور روشوں سے اور دینی درسگاہوں میں تکمیل کے مراحل طے پانے والے عمل کے ذریعے اخذ کیا جاتا ہے اور حاصل ہوتا ہے۔
دوم: امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے اصولوں میں سے ایک ہے نصرت خداوندی پر اعتماد۔ اللہ کے وعدوں کی صداقت پر اعتماد، دوسری جانب دنیا کی مستکبر اور استبدادی طاقتوں پر عدم اعتماد۔ اللہ تعالی نے مومنین سے وعدہ کیا ہے اور جو لوگ اس وعدے پر یقین نہیں رکھتے کلام خداوند میں ان پر لعنت بھی کی گئی ہے:۔ جو لوگ «اَلظّآنّینَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوءِ عَلَیهِم دائِرَةُ السَّوءِ وَ غَضِبَ اللهُ عَلَیهِم وَ لَعَنَهُم وَ اَعَدَّ لَهُم جَهَنَّمَ وَ سآءَت مَصیرًا» اللہ کے وعدے پر یقین، اللہ کے وعدے کی صداقت پر ایقان۔ امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک ستون یہ ہے کہ اللہ کے وعدوں پر یقین و توکل کیا جائے۔
سوم؛ عوام کی قوت ارادی اور عوامی توانائی پر تکیہ کرنا اور حکومتوں سے آس لگانے کی مخالفت۔ یہ امام خمینی کی تحریک کا اہم اصول ہے۔ انھیں عوام پر بڑا اعتماد تھا۔ اقتصادی مسائل میں بھی عوام پر بہت بھروسہ تھا اور دفاعی میدان میں بھی عوام پر انھیں بہت اعتماد تھا۔ آپ نے پاسداران انقلاب فورس کی تشکیل انجام دی، رضاکار فورس تشکیل دی۔ دفاعی شعبے کو عوامی شعبہ بنا دیا۔ تشہیراتی شعبے میں عوام پر بھروسہ اور سب سے بڑھ کر ملک میں انتخابات کا مسئلہ اور ملک اور سیاسی نظام کو چلانے میں عوام کی رائے اور ووٹوں پر اعتماد۔
چوتھا اصول ملک کے داخلی مسائل سے متعلق ہے۔ امام خمینی محروم و مستضعف طبقات کی حمایت پر بہت زیادہ تاکید کرتے تھے۔ اقتصادی عدم مساوات کے شدید مخالف تھے۔ اشرافیہ کلچر کو ترش روئی سے مسترد کر دیتے تھے۔
پانچواں نکتہ خارجہ امور سے متعلق ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ آشکارا طور پر عالمی استکبار اور بین الاقوامی غنڈوں کے مخالف محاذ کا حصہ تھے اور اس سلسلے میں کبھی تکلف سے کام نہیں لیتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ دنیا کی استبدادی طاقتوں، مستکبرین اور بین الاقوامی غنڈوں کے مقابلے میں مظلومین کا ساتھ دیتے تھے، مظلومین کی حمایت میں کھڑے دکھائی دیتے تھے۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور بنیادی اصول ملک کی خود مختاری پر تاکید اور بیرونی تسلط کی نفی ہے۔ یہ بھی بہت اہم باب ہے۔
امام خمینی کے مکتب فکر کا ایک اور اہم اصول قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ تفرقہ اندازی کی سازشوں پر خواہ وہ تفرقہ مذہب و مسلک کے نام پر ہو، شیعہ سنی اختلاف کے نام پر یا قومیتوں کی بنیاد پر، فارس، عرب، ترک، کرد، لر اور بلوچ کے نام پر ہو، پوری توجہ رہنی چاہئے۔ تفرقہ انگیزی دشمن کی بہت اہم چال ہے اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے شروع ہی سے قومی اتحاد اور عوام الناس کی یکجہتی پر حد درجہ توجہ دی اور یہ آپ کے اہم اصولوں میں ہے۔ امریکی اب اس حد تک آگے بڑھ چکے ہیں کہ باقاعدہ شیعہ اور سنی کا نام لیتے ہیں۔ شیعہ اسلام اور سنی اسلام، پھر ان میں سے ایک کی حمایت کرتے ہیں اور دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے روز اول سے مسلکی اختلاف کے سلسلے میں بالکل مساویانہ موقف اختیار کیا۔ ہم نے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ جو سنی ہیں بالکل ویسا ہی برتاؤ کیا جیسا برتاؤ ہم نے حزب اللہ لبنان کے ساتھ کیا جو شیعہ تنظیم ہے۔ ہم نے ہر جگہ ایک ہی نہج پر کام کیا ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2015
پائیداری اور مزاحمت کی خصوصیت، یہ وہ چیز ہے جس نے امام کو ایک مکتب فکر کی شکل میں، ایک نظرئے کی حیثیت سے، ایک فکر کے طور پر، ایک راستے کے طور پر متعارف کرایا۔
میں جب امام کی اس خصوصیت کے بارے میں سوچتا ہوں اور قرآنی آیات پر نظر ڈالتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ امام نے حقیقت میں اپنی اسی استقامت و مزاحمت کے ذریعے قرآن کی بہت سی آیتوں کی عملی تصویر پیش کی۔ مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت کہتی ہے؛ «فَلِذالِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ لا تَتَّبِع اَهواءَهُم» دھمکی، لالچ اور فریب کی کوششوں کا امام پر کبھی کوئی اثر نہ ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو دھمکی نہیں دی گئی، لالچ نہیں دیا گيا یا فریب دینے کی کوشش نہیں کی گئی۔ کیوں نہیں، یہ سب ہوا لیکن امام خمینی پر ان کوششوں کا رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا، ان کی استقامت و مزاحمت پر ذرہ برابر بھی اس کا اثر نہیں پڑا۔
مزاحمت سے مراد کیا ہے؟ مزاحمت سے مراد یہ ہے کہ انسان نے کسی راستے کو چنا ہے جسے وہ حق کا راستہ سمجھتا ہے، صحیح راستہ مانتا ہے۔ اس راستے پر وہ اپنا سفر شروع کر دے اور راستے کی رکاوٹیں اسے پیش قدمی جاری رکھنے اور سفر سے روک نہ پائیں۔ یہ مزاحمت و استقامت کا مفہوم ہے۔ مثال کے طور پر کبھی کسی راستے میں انسان کے سامنے سیلابی طوفان آ جاتا ہے، کوئی گڑھا آ جاتا ہے، یا کوہستانی علاقے میں کسی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اور راستے میں کوئی بڑی چٹان آ جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جب چٹان سامنے آ جائے یا کوئی اور بڑی رکاوٹ آ جائے، کوئی چور موجود ہو، کوئی بھیڑیا موجود ہو تو وہیں سے قدم واپس کھینچ لیتے ہیں، سفر جاری رکھنے کا ارادہ ترک کر دیتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ ہیں جو ایسا نہیں کرتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ کہیں سے گھوم کر اس چٹان سے آگے بڑھنے کا راستہ ہے یا نہیں۔ اس رکاوٹ سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہے؟ وہ اس راستے کو تلاش کر لیتے ہیں، اس رکاوٹ کو دور کرتے ہیں یا پھر دانشمندی سے کام لیتے ہوئے گھماؤ دار راستے پر چل کر اس رکاوٹ کو عبور کر لیتے ہیں۔ مزاحمت و استقامت کا یہی مطلب ہے۔ امام خمینی ایسے ہی تھے۔ آپ نے ایک راستہ چن لیا تھا اور اس راہ پر گامزن تھے۔ یہ راستہ کیا تھا؟ امام کی بات کیا تھی جس پر آپ استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے تھے؟ امام کا موقف تھا دین خدا کی حکمرانی، دین خدا کی حاکمیت، مسلمانوں پر اور عوام کی عمومی زندگی پر مکتب الہیہ کی حکمرانی۔ یہ امام کا موقف تھا۔
یہ بھی ظاہر ہے کہ دنیا کی جابر قوتیں اس موقف اور اس روش کی مخالف ہیں۔ دنیا کا استکباری نظام ظلم پر استوار ہے۔ جس وقت امام خمینی نے اس تحریک کا آغاز کیا اس وقت دو سال سے مغربی حکومتیں دنیا کے گوشہ و کنار میں، ایشیا میں، افریقہ میں، مختلف ممالک میں قوموں کو اپنے بے تحاشا مظالم کے نشانے پر رکھے ہوئے تھیں۔ انگریزوں نے ہندوستان اور اس علاقے کے دیگر ممالک میں، فرانسیسیوں نے افریقا میں، الجزائر اور دیگر ممالک میں، بعض دیگر یورپی ممالک نے دوسرے گوناگوں ملکوں میں آشکارا طور پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ظاہر ہے اس نعرے سے ان طاقتوں کا برافروختہ ہونا لازمی تھا۔
یہ مزاحمت رفتہ رفتہ اسلامی جمہوریہ کی حدود سے باہر نکلی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم اس مزاحمت کو ایک فکر اور نظرئے کے طور پر باہر پھیلا رہے تھے جیسا کہ بعض سیاسی رہنما اور دیگر افراد گوشہ و کنار میں اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انقلاب کو برآمد کرنے کی فکر میں کیوں ہیں؟! ہم انقلاب کو ایکسپورٹ نہیں کر رہے ہیں۔ انقلاب ایک فکر ہے، ایک نظریہ ہے، ایک راستہ ہے، اگر کوئی قوم اسے پسند کرنے لگے تو وہ قوم خود بخود اسے اپنا لے گی۔
امام نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ امام نے ہیجان زدہ ہوکر یہ راستہ نہیں چنا، جذبات و احساسات کے بہاؤ میں اس راستے کا انتخاب نہیں کیا۔
اس منطقی فکر کا ایک پہلو یہ ہے کہ مزاحت جبر و زیادتی پر ہر با وقار اور آزاد منش قوم کا فطری رد عمل ہوتا ہے۔ اس کے لئے کسی اور وجہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جو قوم بھی اپنے وقار کو، اپنے تشخص کو، اپنی انسانیت کو خاص ارزش و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اگر وہ محسوس کرے کہ اس پر کوئی چیز مسلط کی جا رہی ہے تو ضرور مزاحمت کرتی ہے۔
دوم: مزاحمت کی صورت میں دشمن پسپائی پر مجبور ہوتا ہے، ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب دشمن آپ سے زبردستی کا برتاؤ کرے اور آپ ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں تو وہ آگے آ جائے گا، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ اس کو آگے بڑھنے سے روکنے کا راستہ یہ ہے کہ آپ اپنی جگہ ڈٹ جائیے! دشمن کے بے جا مطالبات، غنڈہ ٹیکس وصولی اور باج خواہی کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت دشمن کی پیش قدمی روکنے کا موثر طریقہ ہے۔ لہذا کفایتی روش مزاحمت کی روش ہے۔
مزاحمت کی منطق کا تیسرا پہلو وہ چیز ہے جسے میں نے ایک دو سال قبل اسی جلسے میں ذکر کیا اور وہ یہ ہے کہ مزاحمت و استقامت کی ایک قیمت ادا کرنا ہوتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس کی کوئی قیمت نہ چکانی پڑے لیکن دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی جو قیمت ہے وہ استقامت و مزاحمت کی صورت میں چکائی جانے والی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ جب آپ دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو آپ کو ایک قیمت چکانی پڑتی ہے۔ آج سعودی حکومت پیسہ بھی دیتی ہے، ڈالر بھی ادا کرتی ہے، امریکہ کے اشارے پر اپنا موقف طے کرتی ہے، لیکن پھر بھی اسے توہین برداشت کرنا پڑتی ہے، اسے دودھ دینے والی گائے کہتے ہیں! مصالحت کر لینے، ہتھیار ڈال دینے، مزاحمت نہ کرنے کی قیمت مزاحمت و استقامت کرنے کی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مادی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اور معنوی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں جس مزاحمتی مکتب فکر کی بنیاد ہمارے بزرگوار امام نے رکھی اس کا چوتھا پہلو اور چوتھا عنصر یہ قرآنی حصہ اور اللہ کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں مکرر یہ وعدہ کیا ہے کہ اہل حق اور حق کے طرفداروں کو حتمی فتح ملے گی۔ اس مفہوم پر قرآن کی بہت سی آیتیں دلالت کرتی ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں قربانی دینی پڑے لیکن اس مقابلے میں آخر میں انھیں شکست نہیں ہوتی بلکہ وہ فتحیاب ہوتے ہیں۔ قربانی برداشت کرنی پڑتی ہے لیکن ناکامی برداشت نہیں کرنی پڑتی۔
پانچواں نکتہ جو مزاحمتی منطق کے تعلق سے مد نظر رکھنا چاہئے، چنانچہ امام خمینی رحمۃ اللہ بھی اسے مد نظر رکھتے تھے اور ہم بھی اسے جانتے ہیں، سمجھتے ہیں اور تخمینہ لگاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ مزاحمت ایک ممکن عمل ہے۔ ان لوگوں کی غلط سوچ کے بالکل بر خلاف جو کہتے ہیں اور پرچار کرتے ہیں کہ "جناب! کوئی فائدہ نہیں ہے۔ آپ کیسے مزاحمت کریں گے؟ فریق مقابل تو بہت بڑا غنڈہ ہے، بہت طاقتور ہے۔" یہی سب سے بڑی بھول ہے، سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ کوئی یہ تصور کر لے کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مد مقابل مزاحمت نہیں کی جا سکتی، ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اندازے کی غلطی ہے۔ کسی بھی مسئلے میں تخمینے کی غلطی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں ہم اس قضیئے کے گوناگوں عوامل اور پہلوؤں کو دیکھ نہیں پاتے۔ جب ایک مقابلے کی بات ہو رہی ہے، دو محاذوں کے تصادم کی بات ہو رہی ہے تو اندازے کی غلطی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ ہم اپنے محاذ سے بھی بخوبی واقف نہیں ہیں اور دشمن محاذ کو بھی اچھی طرح نہیں پہچانتے۔ اگر ہمیں شناخت نہیں ہے تو اندازہ لگانے میں بھی ہم سے ضرور غلطی ہوگی۔ اگر ہمارے پاس صحیح شناخت ہو تو ہمارے تخمینے الگ ہوں گے۔ میں یہی عرض کر رہا ہوں کہ دنیا کی جابر قوتوں کے مقابلے میں مزاحمت کے مسئلے میں اندازہ اور تخمینہ لگائیں تو ضروری ہے کہ ان قوتوں کے حقائق کا ہمیں صحیح علم ہو اور ہمیں اپنے حقائق سے بھی پوری آگاہی ہو۔ ان حقائق میں سے ایک مزاحمتی محاذ کی طاقت ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2019
اول: مخاصمتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہونے پر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا رد عمل بہت شجاعانہ اور فعالانہ ہوتا تھا۔ کبھی کمزوری اور پسپائی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ کبھی گھبراتے نہیں تھے، نہ کمزوری کا احساس کرتے تھے، نہ کبھی کمزوری ظاہر کرتے تھے۔ دشمنوں کے مد مقابل بڑے مقتدرانہ اور سرگرم انداز میں ڈٹ جاتے تھے۔
دوم: امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کبھی بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ الگ الگ حالات میں کبھی بھی وہ مضطرب اور ہیجان زدہ نہیں ہوتے تھے، کبھی بھی عقل و منطق سے عاری جذبات کی بنیاد پر کام نہیں کرتے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ شجاعانہ اور محکم جذبات پر مبنی ہوتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ عقلی تخمینوں پر استوار ہوتے تھے۔
سوم: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ترجیحات پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انقلابی تحریک کے زمانے مین آپ کا مقابلہ سلطنتی نظام سے تھا تو کبھی بھی فروعی مسائل کو کام کے میدان میں نہیں آنے دیتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں آپ کی ترجیح جنگ تھی تو آپ نے یہ بات بارہا کہی کہ تمام امور میں جنگ سر فہرست ہے، مقدس دفاع سر فہرست ہے اور امر واقعہ بھی یہی تھا۔ ہمیشہ ترجیحی مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور فروعی مسائل کو اپنی توجہ کے دائرے میں نہیں آنے دیتے تھے۔
چہارم: عوام الناس کی توانائیوں پر اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایرانی قوم کو بہت عظیم، آگاہ اور توانا قوم مانتے تھے۔ اس پر انھیں بھرپور اعتماد تھا۔ عوام کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے خاص طور پر نوجوانوں کے بارے میں۔ آپ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات میں دیکھئے کہ آپ کس قدر عوام کی طرف سے پرامید رہتے تھے، نوجوانوں کے بارے میں کتنے پرامید نظر آتے تھے۔
پنجم: دشمن پر عدم اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی نظام کے سربراہ کی حیثیت سے گزارے گئے اپنے دس سال کے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی دشمن پر اعتماد نہیں کیا۔ دشمن کی تجاویز کو ہمیشہ مشکوک نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے دکھاوے پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ دشمن کو حقیقی معنی میں دشمن سمجھتے تھے اور اس پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔
ششم: عوام کی یکجہتی اور اتحاد پر توجہ۔ اس دشمنی کے مقابلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں ہر وہ چیز مسترد کر دینے کے قابل تھی جو عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرے اور عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دے۔
ہفتم: نصرت خداوندی اور وعدہ پروردگار پر گہرا یقین و ایمان۔ یہ بھی بڑا بنیادی نکتہ تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نصرت خداوندی پر تکیہ کرتے تھے۔ وہ جی جان سے محنت کرتے تھے، اپنے پورے وجود سے میدان میں سرگرم عمل رہتے تھے لیکن ساری امیدیں نصرت خداوندی اور قدرت پروردگار سے وابستہ رکھتے اور قوت الہیہ پر تکیہ کرتے تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا 'اِحدی الحُسنَیین' پر گہرا ایقان تھا۔ ما لنا الّا اِحدی الحُسنَیین ان کا یہ نظریہ تھا کہ اگر اللہ کے لئے کام کیا جائے تو نقصان اور خسارے کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر کام اللہ کی خاطر انجام دیا جائے تو اس میں نقصان کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یا تو اس میں پیشرفت حاصل ہوگی اور اگر پیشرفت حاصل نہ ہوئی تب بھی ہم نے اپنا جو فریضہ تھا اسے پورا کر دیا، بنابریں بارگاہ خداوندی میں ہم سرخرو ہیں۔
امام خامنہ ای
4 جون 2018