امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس عظیم ہنرمندی کا مظاہرہ کیا اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ سماج کے افراد کو اور خاص طور پر نوجوانوں کو میدان میں اتارا اور انھیں میدان میں باقی رکھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یہ توانائی کہاں سے حاصل ہوئی۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر میں خاص طور پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا اور یہ آج ہمارے اور آپ کے لئے سبق آموز ہے۔ امام خمینی کی شخصیت میں بھی ایک خاص کشش تھی اور آپ کے نعروں میں بھی الگ کشش تھی، یہ کشش اتنی قوی تھی کہ مختلف عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان میدان عمل میں اتر پڑے۔ حالانکہ جدوجہد کے دور میں بھی اور انقلاب کی فتح کے بعد پہلے عشرے میں بھی نوجوانوں کے سامنے الگ الگ رجحانات، الگ الگ نظریات و افکار تھے۔ بائیں بازو کے رجحانات تھے، سرمایہ داری نظام سے تعلق رکھنے والے نظریات بھی تھے، یہ حلقے بھی رنگ برنگی باتیں کرتے تھے، گوناگوں باتیں کرتے تھے۔
اس کے علاوہ عام زندگی کی کشش بھی نوجوانوں کے سامنے موجود تھی۔ نوجوان ان راستوں کا بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ مگر نوجوانوں نے امام کا انتخاب کیا، امام کے راستے کے انتخاب کیا، تحریک کا، جدوجہد کا اور انقلاب کا انتخاب کیا۔ کیوں؟ اسی مقناطیسیت کی وجہ سے جو امام کے اندر تھی۔ کچھ مقناطیسی خصوصیات خود امام کی شخصیت سے تعلق رکھتی تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بڑی مستحکم اور توانا شخصیت کے مالک تھے، دشواریوں کا سامنا کرنے والے منفرد جذبہ استقامت کے مالک تھے۔ امام خمینی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے تھے اور صداقت کا پیکر تھے، ہمیشہ سچ بات کہتے تھے۔ ہر سننے والا شخص امام خمینی کی باتوں میں سچائی کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ سب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پرکشش خصوصیات تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ پر ایمان اور توکل آپ کے عمل اور بیان میں مساوی طور پر نمایاں تھا۔ ان کا عمل اور ان کا قول دونوں ہی اللہ تعالی پر ان کے ایمان اور توکل کا آئینہ تھے۔ یہ امام کی مقناطیسی خصوصیات تھیں۔
ان خصوصیات کے علاوہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کشش کا ایک حصہ ان اصولوں سے متعلق تھا جو آپ نے متعارف کرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عوام کے سامنے جو چیزیں پیش کیں ان میں ایک اسلام تھا، خالص محمدی اسلام۔ خالص اسلام یعنی وہ اسلام جو نہ تو رجعت پسندی کا اسیر ہے اور نہ خوشہ چینی میں مبتلا ہے۔ امام خمینی نے ایسے دور میں جب رجعت پسندی بھی تھی اور خوشہ چینی کا سلسلہ بھی تھا، حقیقی اسلام پیش کیا۔ یہ چیز مسلم نوجوانوں کے لئے پرکشش تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعلانیہ اصولوں میں خود مختاری، آزادی، سماجی انصاف، اقتصادی مساوات تھی۔ یہ امام کے اصول تھے جنھیں وہ برملا بیان کرتے تے۔ امام کا ایک اصول امریکی تسلط کے چنگل سے رہائی پر تاکید تھی۔ یہ امام خمینی کے اصول تھے، یہ سب پرکشش اصول ہیں۔ یہ ایرانی نوجوان کے لئے پرکشش اصول تھے اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آج بھی امریکی تسلط اور بالادستی سے باہر نکل جانا، ان ملکوں کے نوجوانوں کے لئے بھی پرکشش ہے جنھوں نے امریکہ کی فرماں برداری کے طویل المیعاد معاہدے کئے ہیں۔ مثلا سعودی عرب جیسے ملک میں جو امریکی مفادات کی خدمت پر خود کو مامور سمجھتا ہے، آپ اگر نوجوانوں سے پوچھئے تو آپ دیکھیں گے کہ سارے نوجوان امریکہ کی غلامی سے متنفر ہیں اور اس ظالمانہ تسلط سے نجات کے خواہش مند ہیں، اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔
امام نے جو اصول اور جو نعرے متعارف کرائے ان میں سے ایک عوامی بالادستی تھی۔ یعنی ملکی اقتدار عوام کے ہاتھوں میں رہے؛ عوام انتخاب کریں، وہ اپنی مرضی سے طے کریں، زندگی کے تمام شعبوں میں عوام اپنے ارادے کے مطابق عمل کریں۔
امام کا ایک اور نعرہ ملت کی خود اعتمادی تھی۔ یعنی وہ عوام کو تلقین کرتے تھے اور بار بار دہراتے تھے کہ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ کے اندر صلاحیت ہے۔ علم کے میدان میں، صنعت کے میدان میں، بنیادی کاموں کے شعبے میں، ملک کے انتظام و انصرام میں، ملک کے اہم اور حساس شعبوں کے مینیجمنٹ میں، معیشت وغیرہ جیسے میدانوں میں آپ حود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی توانائی رکھتے ہیں۔
امام خامنہ ای
4 جون 2017
امام سجاد، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کے عہد کو خالص اسلام کی فکری، علمی اور ثقافتی تشریح کا زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں امام زین العابدین علیہ السلام نے حقیقی اسلام کی تعمیر نو، امام محمد باقر علیہ السلام نے اسلام کے بنیادی ڈھانچے کی تشریح اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس ڈھانچے پر دین کو استوار کرنے کا کام کیا۔ لہذا موافق اور سازگار حالات اور پچھلے امام کے کاموں کے نتیجے میں ہموار ہونے والی راہ، اس بات کا سبب بنی تھی کہ امام صادق علیہ السلام، اسی سچی امید کا مظہر بن جائيں، جس کا شیعہ برسوں سے انتظار کر رہے تھے۔ (پیشـوائے صادق، صفحہ 59)
چنانچہ امام صادق علیہ السلام اپنے عظیم المرتبت والد کی نظر میں اور ساتھ ہی شیعوں کی نظر میں بھی، امامت اور تشیع کے آئيڈیلز کا مظہر ہیں۔ گویا سلسلۂ امامت نے انھیں، امام زین العابدین اور امام باقر علیہما السلام کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک ذخیرے کے طور پر مدنظر رکھا ہے۔ گویا وہ وہی ہیں، جسے علوی حکومت اور توحیدی نظام کی تعمیر نو کرنی اور اسلام کا دوبارہ احیاء کرنا ہے۔ ان سے پہلے کے دو امام اس دشوار راہ کے ابتدائي مراحل طے کر چکے ہیں اور اب آخری قدم اٹھانے کی ان کی باری ہے۔ (پیشـوائے صادق، صفحہ 62)
اسی بنیاد پر امام جعفر صادق علیہ السلام کا منصوبہ یہ تھا کہ امام باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد کاموں کو سمیٹیں، ایک اعلانیہ قیام برپا کریں، بنی امیہ کی حکومت کو گرا دیں اور خود خلافت کا پرچم بلند کریں۔(11/6/1979)
تاریخی لحاظ سے امام صادق علیہ السلام کی امامت کا زمانہ دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ پہلا حصہ، بنی امیہ کی حکومت کا آخری زمانہ ہے جس میں امام صادق علیہ السلام کی جدوجہد بہت پرجوش، ایک دم واضح اور بہت ٹھوس تھی۔ امام علیہ السلام کھلم کھلا خانۂ خدا میں، منیٰ میں اور عرفات میں لوگوں کی بھیڑ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ حاکم میں ہوں۔ (ہمرزمان حسین، صفحہ 195) امام کا یہ انداز بنی امیہ کے آخری دور میں ان کی جدوجہد کے عروج کی نشاندہی کرتا ہے۔ (6/9/1988)
امام صادق علیہ السلام کی امامت کا دوسرا حصہ، بنی عباس کی خلافت کے آغاز کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اس حصے میں امام عالی مقام کو بہت زبردست جدت عمل سے کام لینا تھا۔ سب سے پہلے اپنے تبلیغی مشن کو پھر سے شروع کریں، دوسرے، شیعہ طرز فکر کو عوام کے درمیان رائج کریں، تیسرے ان لوگوں کی تربیت اور پرورش کریں جنھیں ان کے ساتھ کھڑا ہونا، آگے بڑھنا اور قیام کرنا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام ان سارے کاموں میں مشغول تھے۔ (ہمرزمان حسین، صفحہ 199)
دوسرے الفاظ میں امامت کی تشریح اور تشہیر؛ شیعہ فقہ کی طرز پر دینی احکام کا بیان اور ان کی تبلیغ، شیعی نظریات کی بنیاد پر قرآن مجید کی تفسیر اور خفیہ نظریاتی و سیاسی سسٹم کی تشکیل، (پیشوای صادق صفحہ 65) الہی تحریک اور اپنی جدوجہد میں امام عالی مقام کے اصلی اقدامات میں سے تھے۔
آخری بات یہ کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کے زمانے میں، وقت نے انھیں ایک موقع دیا اور حضرت ایک ایسا کام کرنے میں کامیاب رہے کہ معاشرے میں صحیح اسلامی معرفت کی بنیادیں اتنی مضبوط ہو جائيں کہ پھر تحریفوں کے ذریعے ان بنیادوں کو نہ ہلایا جا سکے۔ آپ نے یہ کام کیا تاکہ یہ راستہ باقی رہے اور تاریخ کے کسی بھی حصے میں، جو لوگ اہل ہیں، وہ اس راہ پر چل سکیں اور اسلامی نظام اور اسلامی نظام پر مبنی ڈھانچہ وجود میں لا سکیں اور یہ اونچی عمارت تعمیر کر سکیں۔ یہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا کام ہے۔ (8/11/2005)
آیت اللہ العظمی خامنہ ای مزاحمت و استقامت کی فتح کی بات کرتے تھے اور ہمیشہ فرماتے تھے کہ انہیں اس فتح کا پورا یقین ہے اور اس یقین کی وجہ ان کا عقیدہ اور ایمان ہے۔
1996 کے بعد آپ فرماتے تھے کہ اسرائیل دلدل میں پھنس چکا ہے، وہ نہ آگے بڑھ سکتا ہے کہ لبنان پر دوبارہ قبضہ کر لے اور نہ پسپائی اختیار کرنے پر قادر ہے اور نہ ہی اپنی جگہ پر قائم رہ سکتا ہے۔ لہذا ہمیں اس کا منتظر رہنا چاہئے کہ کیا واقعہ رونما ہونے والا ہے؟ تاہم یہ معاملہ اسلامی مزاحمت کی کارکرگی پر منحصر ہے۔
سنہ 1999 کے اواخر میں اسرائیل میں نیتن یاہو اور ایہود باراک کے درمیان وزارت عظمی کے لئے مقابلہ آرائی ہوئي۔ ایہود باراک نے اعلان کیا کہ جولائی میں اسرائیل، لبنان سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ اس وقت لبنان اور شام کے حالات کچھ ایسے تھے کہ ہمیں یہ اندیشہ تھا کہ یہ تاریخ آ جائے گی اور اسرائيل عقب نشینی نہیں کرے گا۔ باراک نے لبنان سے پسپائی اختیار کرنے کے وعدے کے جواب میں حکومت لبنان اور (شام کے صدر) حافظ الاسد سے ضمانتیں اور مراعات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں تاہم اسے ناکامی ہاتھ لگی جس کے بعد یہ خیال عام ہونے لگا کہ اسرائیل لبنان سے پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ جب اس وعدے کے ایفاء کا وقت آئے گا تو وہ کہہ دے گا کہ اس نے ضمانتیں حاصل کرنے کی کوشش کی تھی جو اسے نہیں دی گئیں لہذا وہ لبنان کو چھوڑ کر پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اسلامی مزاحمتی تحریک (حزب اللہ) کی سطح پر ہم لوگوں کا بھی خیال تھا کہ یہی ہونے والا ہے۔
انہی ایام میں ہماری ملاقات آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ہوئی اور ہم نے اپنا خیال ظاہر کیا تو آپ نے بالکل مختلف رائے پیش کی اور کہا کہ لبنان میں آپ کی فتح بالکل قریب آ چکی ہے۔ اس سے بھی زیادہ نزدیک آ پہنچی ہے جتنا آپ سوچ سکتے ہیں۔ یہ بات دستیاب اطلاعات اور تجزیوں کے برخلاف تھی۔
اطلاعات تو یہ تھیں کہ اسرائیل کی جانب سے اس پسپائی کی کوئي تیاری بھی شروع نہیں کی گئی تھی۔ اس کے باوجود رہبر انقلاب نے ہم سے کہا کہ آپ خود کو اس کامیابی کے لئے تیار کیجئے اور اس بارے میں غور کیجئے کہ اسرائیل کی پسپائی کے بعد آپ کو کیا اقدامات کرنے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب اسرائیل نے پسپائی اختیار کی تو ہمیں تعجب نہیں ہوا کیونکہ ہم اس کے لئے پہلے سے تیار تھے۔
سید حسن نصر اللہ
جب ہم نے اعلان کیا کہ خرمشہر کو کو ہم نے واپس لے لیا ہے۔ تو ایک دو دن تک دنیا کی نیوز ایجنسیاں اس خبر کو شائع کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہو رہی تھیں۔ اسے بڑے شک و تردد سے دیکھ رہی تھیں۔ مگر یہ ہو چکا تھا۔ آخرکار سب کو اس فتح کا اقرار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس آپریشن میں ہمارے مجاہدین نے 15 ہزار سے زیادہ عراقی فوجیوں کو قیدی بنایا اور محاذوں کے پیچھے جنگی قیدیوں کے لئے بنائے گئے کیمپوں میں بھیجا۔
امام خامنہ ای
22 مئی 2002
جو نوجوان اسلام کی خدمت کی نیت سے پوری رات بیدار رہتا ہے، خود کو خطرات میں ڈالتا ہے، مجاہدت کرتا ہے، اس کے عمل کی قدر و قیمت کا ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ کس قدر ہے۔ اس کی پاداش کیا ہے! کیا اللہ کے علاوہ کسی کے بس کی بات ہے کہ اس عمل کا اجر ادا کر سکے؟ کیا فطرت اور اس کی آرائشیں اس انسان کا اجر قرار پا سکتی ہیں جس نے اللہ کے لئے قیام کیا ہے اور اللہ کی خاطر خود کو خطرے میں ڈالا ہے؟ آپ نے اللہ کے لئے قیام کیا اور اللہ کے لئے جہاد کیا اور ان شاء اللہ آخر تک اللہ کے لئے جہاد کرتے رہیں گے اور اس تحریک کو اللہ کی ہی خاطر فتح سے ہمکنار کریں گے۔ یہ جذبہ للہی آپ کو فتح کے ساحل تک پہنچائے گا۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ
17 ستمبر 1979
اخلاق پاکیزہ و لطیف ہوا کی مانند ہے، انسانی معاشرے میں اگر یہ موجود ہو تو لوگ اس فضا میں سانس لیکر صحتمند زندگی گزار سکتے ہیں۔ اگر اخلاقیات نہ ہوں اور بے اخلاقی کا غلبہ ہو جائے، حرص و طمع، خواہشات، جہالتیں، دنیا طلبی، ذاتی نفرتیں، حسد، کنجوسی، ایک دوسرے کے بارے میں سوئے ظن عام ہو جائیں، جب یہ اخلاقی برائیاں پھیل جائیں تو زندگی بہت دشوار ہو جائے گی۔ فضا تنگ ہو جائے گی۔ انسان صحتمند ماحول میں سانس نہیں لے پائے گا۔ آج ہمیں، ایرانی عوام کو بھی اور اسلامی معاشرے کو بھی اخلاقی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
20 جولائی 2009
تمام ادیان کی بنیاد عدل و انصاف کا قیام ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ہم نے پیغمبروں کو مبعوث کیا، آسمانی صحیفے بھیجے 'لیقوم النّاس بالقسط' (سورہ حدید آیت 25) تو اصلی ہدف یہ تھا کہ لوگ عدل قائم کریں اور معاشرہ انصاف کے محور پر کام کرنے والا معاشرہ بن جائے۔ ہم ان میدانوں میں پیچھے ہیں۔ کافی کچھ کرنا ہے۔ بڑی محنت کرنے کی ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
28 اگست 2021
حضرت حمزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مظلوم اصحاب میں سے ایک ہیں۔ ان کا جو کردار رہا ہے، چاہے ایمان لانے کے وقت، ایمان لانے کی وہ کیفیت کہ اس عظیم شخصیت نے ببانگ دہل اعلان کر دیا کہ میں مسلمان ہو گيا ہوں اور ابن اثیر کے بقول ابو جہل کی خوب پٹائي کے بعد انھوں نے اسلام کا اعلان کیا۔ اُسدُالغابہ میں ابن اثیر نے اسی طرح بیان کیا ہے۔ اس کے بعد ہجرت کا مسئلہ، مدینے پہنچنے کا مسئلہ، اسلام کی پرشکوہ عمارت کی تعمیر میں، جسے پیغمبر اس چھوٹے سے ماحول میں انجام دینا چاہتے ہیں، حضرت حمزہ کی شخصیت کا بڑا اثر تھا۔ پھر ایک روایت کی بنیاد پر رسول خدا نے جس پہلے سریّے(وہ جنگ جس میں رسول خدا خود شریک نہیں ہوئے) میں روانہ کیا تھا، وہ حضرت حمزہ کا سریہ تھا۔ آپ نے ان کے لیے پرچم تیار کیا اور انھیں جنگ کے لیے بھیجا۔ پھر جنگ بدر اور وہ عظیم کارنامہ جو انھوں نے اور ان دو بزرگوں نے انجام دیا اور پھر جنگ احد۔ جنگ بدر میں، بظاہر جنگ بدر میں ہی ایک قیدی نے پوچھا کہ وہ کون تھا جو لڑتے وقت اپنے ساتھ ایک علامت لئے ہوئے تھا؟ - حضرت حمزہ اپنے لباس میں کوئي علامت رکھتے تھے - اس قیدی کو بتایا گيا کہ وہ حمزہ ابن عبدالمطلب تھے۔ اس نے کہا کہ ہم پر جو بھی مصیبت آئی، وہ انہی کے ذریعے آئي۔ انھوں نے ہی جنگ بدر میں لشکر کفار کا بیڑا غرق کر دیا۔ مطلب ان کی اس طرح کی شخصیت تھی۔ ان سب کے باوجود، وہ ناشناختہ ہیں، ان کا نام نمایاں نہیں ہے، ان کی زندگي کے حالات کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے، ان کی خصوصیات لوگوں کو نہیں معلوم، واقعی وہ مظلوم ہیں اور میں کہتا ہوں کہ خدا رحمت کرے مصطفی عقاد پر اور ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے اپنی فلم 'الرسالۃ' (The Message) میں اس عظیم شخصیت کو، ایک معرکۃ الآرا فلم میں، واقعی معرکۃ الآرا فلم ہے، خاص طور پر حضرت حمزہ سے متعلق حصے میں، اور اس کردار کا اداکار بھی غیر معمولی طور پر مشہور اور اہم ہے اور اس کا ایک خاص جلوہ ہے، کسی حد تک اس عظیم شخصیت کی تصویر کشی کرنے میں کامیابی حاصل کی، البتہ کسی حد تک ہی۔ یہ کام ہونا چاہیے، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دیگر اصحاب کے سلسلے میں بھی یہ کام ہونا چاہیے۔ عمار کے بارے میں بھی یہ ہونا چاہیے، جناب سلمان کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، جناب مقداد کے بارے میں بھی ہونا چاہیے، مقداد کو کون پہچانتا ہے؟ کون جانتا ہے کہ انھوں نے کیا کیا ہے؟ یا جناب جعفر بھی اسی طرح کے ہیں، خاص طور پر حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زندگي میں ہنری صلاحیتیں بہت زیادہ تھیں۔ وہ حبشہ کا سفر، سفر کی کیفیت، سفر پر جانا اور واپس آنا، یہ بڑی معیاری چیزیں ہیں اور ہنری لحاظ سے ان پر بڑا اچھا کام کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو پہلے مرحلے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب حمزہ کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی مظلوم ہے کہ انھیں کما حقہ نہیں پہچانا گيا۔ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت حمزہ کی شہادت کے لمحے سے ہی انھیں رول ماڈل بنانا چاہا۔ آپ نے انھیں سید الشہداء کا لقب دیا، پھر مدینے لوٹے تو دیکھا کہ انصار کی عورتیں، کیونکہ جنگ بدر میں بہتّر لوگ شہید ہوئے تھے، چار افراد مہاجرین میں سے تھے اور اڑسٹھ انصار میں سے شہید ہوئے تھے، تو انصار کی عورتیں رو رہی تھیں، گریہ و زاری کر رہی تھیں، بین کر رہی تھیں، پیغمبر نے کچھ دیر تک سنا اور پھر فرمایا کہ حمزہ پر کوئي رونے والی نہیں ہے۔ یہ بات مدینے کی خواتین تک پہنچی اور ان سب نے کہا کہ ہم اپنے شہید پر رونے سے پہلے حمزہ پر گریہ کریں گي، پیغمبر نے انھیں اس کام کی ترغیب دلائي تھی نا، یعنی انھوں نے پورے مدینہ کو حضرت حمزہ پر رونے کی ترغیب دلائي، پورے مدینے میں کہرام مچ گيا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے رسول اللہ، جناب حمزہ کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سید الشہداء ہیں اور وہ ہیں جن پر سبھی کو گریہ کرنا چاہیے۔ یہ رول ماڈل بنانا ہے۔ امام خامنہ ای25 جنوری 2022
اگر گھر کے اندر عورت کو فکری و اخلاقی آسودگی حاصل ہو، سکون و چین حاصل ہو، شوہر واقعی زوجہ کے لئے 'لباس' کا کردار ادا کر رہا ہے اور اسی طرح زوجہ بھی شوہر کے لئے 'لباس' ہو۔ دونوں کے درمیان اسی انداز کی مہر و محبت ہو جس کی قرآن نے تاکید کی ہے۔ اگر خاندان کے اندر اس اصول 'و لھنّ مثل الذی علیھنّ' پر عمل کیا جا رہا ہو تو خاندان سے باہر کی فضا اور حالات اس عورت کے لئے قابل تحمل ہوں گے اور وہ ان کا سامنا کر سکے گی۔ اگر عورت اپنی رہائشگاہ کے اندر، اپنے اصلی محاذ کے اندر اپنی مشکلات کو کم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو یقینا معاشرے کی سطح پر بھی وہ اس میں کامیاب ہوگی۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جیسے ہی ہم بڑے شہروں سے باہر نکلتے تھے ایرانی ڈاکٹر بہت کم نظر آتے تھے۔ میں خود زاہدان میں، ایرانشہر میں رہ چکا ہوں۔ وہاں جو ڈاکٹر تھے ہندوستانی تھے۔ برے ڈاکٹر نہیں تھے لیکن بات یہ ہے ملک غیر ملکی ڈاکٹروں کا محتاج تھا۔ انقلاب کے اوائل میں امراض قلب کے لئے آٹھ سال، نو سال اور دس سال بعد کا نمبر ملتا تھا۔ یعنی دل کا مریض اسپتال جاتا تھا اور اسے آپریشن کے لئے دس سال بعد کا وقت دیا جاتا تھا۔ تب تک بیمار فوت ہو جاتا تھا۔ آج دور دراز کے شہروں میں بھی امراض قلب کے ماہر ڈاکٹر اوپن ہارٹ سرجری انجام دے رہے ہیں۔ یہ حقیقی پیشرفت ہے۔
امام خامنہ ای
10 جون 2018
جو چیز میری نظر میں بڑی حیرت انگیز ہے وہ طاغوتی شاہی حکومت کی شکست نہیں بلکہ شیطان کی شکست اور آپ نوجوانوں کا فرض شناس افراد میں بدل جانا ہے۔ 7 ستمبر 1979
حالات کو بدلنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص کسی انسان کو اس طرح بدل دے۔ فسق و فجور کے مرکز سے نکال کر عبادت و عرفان کی وادی میں پہنچا دے، کفار کے خلاف جنگ کے میدان میں اتار دے۔ اگر ہم سارے جمع ہو جاتے کہ صرف دس افراد کے اندر ایسی توانائي پیدا کر دیں تو ہرگز یہ ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ ایک روحانی معاملہ جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح بقیہ چیزیں بھی اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ 11 فروری 1986
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ
خاندان اور کنبے سے متعلق بحث میں بار بار عورت کے کردار اور رول کا ذکر آتا ہے۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ گھر کے اندر عورت کی پوزیشن مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ معاشرے کو اس کی قدر و قیمت کا احساس ہونا چاہئے۔ گھر میں خواتین کے کاموں کی قدر و قیمت کا نئے سرے سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ کچھ عورتیں ہیں جو باہر جاکر ملازمت وغیرہ بھی کر سکتی تھیں، کچھ ہائیر ایجوکیشن لے سکتی تھیں، کچھ تو ایسی بھی ہیں کہ جو اعلی تعلیم یافتہ خواتین تھیں لیکن انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کی پرورش کرنی ہے، تربیت کرنی ہے اس لئے ہم کام کے لئے باہر نہیں نکلے۔ ایسی خواتین کی قدردانی ہونی چاہئے۔ یہاں حضرات نے یہ کہا کہ ایسی خواتین کا انشورنس ہونا چاہئے۔ بیشک ہونا چاہئے۔ ان کی اقتصادی ضروریات کی تکمیل، ان کا بیمہ اور بقیہ ضروری چیزیں فراہم کی جانی چاہئے۔
امام خامنہ ای
4 جنوری 2012
نماز کی اہمیت اتنی ہے کہ اسے بیان کر پانا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام زندگی کے آخری لمحات میں اپنے وصی سے فرماتے ہیں کہ لیس منی من استخف الصلاۃ جو نماز کو غیر اہم قرار دے اس کا ہم سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ استخفاف کا مطلب ہے کم اہمیت سمجھنا، ہلکا تصور کرنا۔
اتنی خصوصیات اور اثرات والی نماز میں انسان کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ واجب نمازیں، یہ سترہ رکعتیں اگر انسان پوری توجہ اورغور و فکر کے ساتھ پڑھے تو زیادہ سے زیادہ چونتیس منٹ درکار ہوں گے اور ممکن ہے کہ اس سے کم ہی وقت صرف ہو۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم ٹیلی ویزن دیکھنے بیٹھے ہوئے ہیں، کوئی دلچسپ پروگرام آنے والا ہے لیکن اس سے پہلے ایڈ اور اشتہارات آتے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا، پندرہ بیس منٹ تک، اور یہ پورے کے پورے بے فائدہ نظر آتے ہے لیکن ہم بیس منٹ صرف کر دیتے ہیں اپنے اس پسندیدہ پروگرام کو دیکھنے کے لئے۔ تو ہماری زندگی میں بیس منٹ کی وقعت یہ ہے۔ ٹیکسی کا انتظار کر رہے ہیں، بس کے انتظار میں کھڑے ہیں، کہیں جانا ہے اور کسی دوست کا انتظار کر رہے ہیں، کبھی کلاس میں استاد کے انتظار میں بیٹھے ہیں، کبھی خطیب تاخیر کر دیتا ہے اور ہم مجلس میں اس کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار میں دس، پندرہ، بیس منٹ گزر جاتے ہیں۔ تو پھر نماز جیسے عظیم عمل کے لئے اگر ہم بیس، پچیس یا تیس منٹ صرف کریں تو کون سا ضیاع وقت ہے۔
امام خامنہ ای
19 نومبر 2008
میں آپ عزیزوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کیا ہے: "احی قلبک بالموعظۃ" اپنے دل کو وعظ و نصیحت سن کر زندہ کرو! یہ بات امیر المومنین علیہ السلام کہہ رہے ہیں، وہ بھی اپنے بڑے بیٹے، اپنے پیارے بیٹے امام حسن سے کہہ رہے ہیں اور آپ کے لیے یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ یہ خط امیر المومنین نے صفین سے واپسی میں، اپنے سامنے موجود بے شمار مسائل کے دوران لکھا تھا۔ یہ خط نہج البلاغہ میں موجود ہے، اگر آپ اس خط کا مطالعہ کریں تو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ احی قلبک بالموعظۃ؛ نصیحت بھی ضروری ہے۔
آج میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ سورۂ مریم کی ایک آيت ہے جو قرآن مجید کی ہلا دینے والی آيتوں میں سے ایک ہے۔ آیت میں کہا گيا ہے: وَ اَنذِرھُم یَومَ الحَسرَۃِ اِذ قُضِیَ الاَمرُ وَ ھُم فی غَفلَۃ یعنی اے ہمارے پیغمبر! ان لوگوں کو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، حسرت کے دن سے ڈرائیے۔
حسرت کا دن، قیامت کا دن ہے، اس دن کو یوم حسرت بھی کہا گيا ہے۔ اذا قضی الامر یعنی جب کام پورا ہو چکا ہوگا اور پھر کچھ بھی نہ کیا جا سکے گا۔ قضی الامر کا مطلب یہ ہے۔ آيت کہتی ہے کہ پیغمبر ان لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے۔ انسان قیامت میں دیکھے گا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ ایک چھوٹے سے کام سے یہاں ایک بڑا انعام حاصل کر لیا جائے۔ دنیا میں ایک چھوٹے سے کام کا یہاں پر بہت زیادہ سودبخش اور ابدی نتیجہ حاصل ہو جائے اور وہ کام، اس نے نہیں کیا ہے۔ اس پر انسان حسرت زدہ رہ جائے گا۔ یا وہ دنیا میں ایک پرہیز کے ذریعے، کسی کام سے اجتناب کر کے، کسی بات کو یا عمل کو ترک کرکے ایک دردناک عذاب کو خود سے دور کر سکتا تھا، لیکن اس نے نہیں کیا، کوشش نہیں کی۔
ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہ صحیح کام کریں، ہمیں صحیح عمل کرنے کا، صحیح بات کرنے کا، صحیح پروگرام تیار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے، حسرت کا دن، بہت سخت دن ہے۔ یہ کام اور یہ فیصلے جوانی میں ممکن ہیں، میرے اور میرے جیسی عمر کے لوگوں کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ کبھی کبھی ہم اس بڑی حسرت کے نمونے دنیا میں بھی دیکھتے ہیں۔ کوئي چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، ہم حاصل نہیں کر پاتے تو ہمیں حسرت ہوتی ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ ویسا کیوں نہیں کیا؟ البتہ یہ، قیامت کی حسرت کے مقابلے میں بہت چھوٹی چیز ہے۔ اس حسرت سے ہزاروں گنا چھوٹی ہے لیکن بہرحال حسرت ہی ہے۔ بحمد اللہ آپ کو آج یہ حسرت نہیں ہے، کیونکہ آپ جوان ہیں۔ یہ چیز ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے جو جوانی اور ادھیڑ عمر کو پار کر چکے ہیں، ہمیں کچھ کام کرنے چاہیے تھے، ہم نے نہیں کیے اور کچھ کام نہیں کرنے چاہیے تھے، وہ ہم نے کیے۔
امام خامنہ ای
26 اپریل 2022
آپ طلبہ سے میری پہلی سفارش بے عملی اور مایوسی سے پرہیز کی ہے۔ ہوشیار رہیے۔ یعنی اپنا خیال رکھیے، اپنے دل کا خیال رکھیے، ہوشیار رہیے کہ بے عملی کا شکار نہ بن جائيے، نا امیدی میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ آپ کو تو دوسرے شعبوں میں امید کا سرچشمہ بننا ہے۔ جی ہاں! مختلف شعبوں میں کچھ خرابیاں ہیں لیکن کیا ان خرابیوں کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا؟ بالکل کیا جا سکتا ہے، انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ وہ پہلی بات جس کی میں سفارش کروں گا یہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں تقوے سے کام لیجیے، تقوی یعنی مسلسل خود پر نظر رکھنا اور چوکنا رہنا۔ اپنی طرف سے ہوشیار رہیے کہ مایوسی، ناامیدی اور "نہیں ہو سکتا"، "کوئي فائدہ نہیں" اور اس جیسے خیالات میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔ اگر آپ نے اس سفارش کو نظر انداز کر دیا تو نہ صرف یونیورسٹی کے طالب علم کا کردار گر جائے گا بلکہ آگے لے جانے والے بقیہ انجن بھی ٹھپ ہو جائيں گے، سفر کی رفتار دھیمی پڑ جائے گي۔
امام خامنہ ای
26 اپریل 2022
تاریخ کے کسی بھی حصے میں دنیا کی کوئی بھی قوم اس رنج و اندوہ اور ایسے ظالمانہ اقدامات سے روبرو نہیں ہوئی کہ علاقے سے باہر رچی جانے والی ایک سازش کے تحت ایک ملک پر مکمل طور سے قبضہ ہو جائے، پوری قوم کو اس کے گھر بار سے بے دخل کر دیا جائے اور اس کی جگہ پر دنیا میں چہار سو سے جمع کرکے ایک گروہ کو بسا دیا جائے۔ ایک حقیقی وجود کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے اور اس کی جگہ ایک جعلی وجود کو دے دی جائے۔
فلسطینی عوام کی وحشیانہ سرکوبی، وسیع پیمانے پر گرفتاریاں، قتل و غارت، اس قوم کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ اور وہاں کالونیوں کی تعمیر، مقدس شہر قدس اور مسجد الاقصی، اسی طرح اس شہر میں واقع دیگر اسلامی و عیسائی مقدس مقامات کی شناخت اور ماہیت تبدیل کرنے کی کوششیں، شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی اور دوسرے بہت سے مظالم بدستور جاری ہیں اور انھیں ریاستہائے متحدہ امریکا اور بعض دیگر مغربی حکومتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
تحریک انتفاضہ جو اس وقت مقبوضہ علاقوں میں تیسری دفعہ شروع ہوئی ہے، ماضی کی دونوں انتفاضہ تحریکوں سے زیادہ مظلوم ہے، لیکن درخشندگی اور امید کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اذن پروردگار سے آپ دیکھیں گے کہ یہ تحریک انتفاضہ جدوجہد کی تاریخ میں بڑا اہم مرحلہ رقم کریگی اور غاصب حکومت کے ماتھے پر ایک اور شکست چسپاں کر دیگی۔ یہ سرطان شروع سے اب تک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے موجودہ مصیبت میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کا علاج بھی مرحلہ وار ہے اور چند انتفاضہ تحریکوں اور بے وقفہ مزاحمت نے بڑے اہم مراحل کے اہداف حاصل کر لئے ہیں اور وہ اسی طوفانی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔
1973 عیسوی کی جنگ میں مختصر ہی سہی جو کامیابیاں ملیں ان میں مزاحمت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 1982 عیسوی سے عملی طور پر مزاحمت کی ذمہ داری فلسطین کے اندر موجود عوام کے دوش پر آن پڑی، اسی بیچ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک -حزب اللہ- کا طلوع ہوا جو فلسطینیوں کی جدوجہد میں ان کی مددگار بنی۔ اگر مزاحمت نے صیہونی حکومت کو زمیں بوس نہ کر دیا ہوتا تو آج ہم علاقے کی دیگر سرزمینوں، مصر سے لیکر اردن، عراق، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں تک اس کی جارحیت کا مشاہدہ کرتے۔ ہاں یہ بہت بڑا ثمرہ ہے، لیکن مزاحمت کا یہی واحد ثمرہ نہیں ہے، بلکہ جنوبی لبنان کی آزادی اور غزہ کی آزادی، فلسطین کو آزاد کرانے کے عمل کے دو اہم تدریجی اہداف کا حصول سمجھی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں صیہونی حکومت کی جغرافیائی توسیع پسندی کا عمل برعکس سمت میں مڑ گیا۔
فلسطین کے عوام اور فلسطین کے مزاحمتی محاذ کی ضرورتوں کی تکمیل بہت اہم اور حیاتی فریضہ ہے جسے پورا کیا جانا چاہئے۔ اس عمل میں غرب اردن کے علاقے کے مزاحمتی محاذ کی بنیادی ضرورتوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے جو اس وقت مظلومانہ تحریک انتفاضہ کا اصلی بوجھ اپنے دوش پر اٹھائے ہوئے ہے۔
امام خامنہ ای
21 فروری 2017
فلسطین کا قضیہ حل کرنے اور اس پرانے زخم کا مداوا کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ کی تجویز بالکل واضح، معقول اور عالمی رائے عامہ کی سطح پر مسلمہ سیاسی امور کے مطابق ہے جسے پہلے ہی بالتفصیل پیش کیا جا چکا ہے۔
ہم نے نہ تو اسلامی ممالک کی روایتی جنگ کی تجویز دی ہے، نہ ہی ہجرت کرکے آنے والے یہودیوں کو سمندر میں غرق کر دینے کی بات کہی ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیموں کی قضاوت کی پیشکش کی ہے۔ ہم نے فلسطینی قوم کے درمیان استصواب رائے کرانے کی تجویز دی ہے۔
دوسری اقوام کی طرح فلسطینی قوم کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے اور نظام کی تشکیل عمل میں لانے کا حق ہے۔ باہر سے آئے ہوئے مہاجرین نہیں، فلسطین کے اصلی عوام وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی، فلسطین کے اندر رہتے ہوں یا پناہ گزیں کیمپوں میں یا پھر دیگر مقامات پر، سب ایک شفاف ریفرنڈم میں شرکت کریں اور فلسطین کے لئے نظام حکومت کا انتخاب کریں۔ اس کے نتیجے میں تشکیل پانے والا نظام اور حکومت جب امور کو سنبھال لے تب غیر فلسطینی مہاجرین کے مستقبل کا فیصلہ کرے جو گزشتہ برسوں کے دوران اس ملک میں لاکر بسائے گئے ہیں۔
یہ ایک منصفانہ اور منطقی تجویز ہے جسے عالمی رائے عامہ بھی بخوبی سمجھتی ہے اور اس کے لئے خود مختار حکومتوں اور قوموں کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ البتہ ہمیں غاصب صیہونیوں سے یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ وہ آسانی سے اسے مانیں گے۔ اسی مرحلے کے لئے مزاحمتی تنظیموں، قوموں اور حکومتوں کے کردار کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ملت فلسطین کی مدد کا سب سے بنیادی طریقہ غاصب دشمن کی پشت پناہی بند کر دینا ہے جو اسلامی حکومتوں کا بہت بڑا فریضہ ہے۔
امام خامنہ ای
1/10/2011
کسی مسلم ملک کے لئے یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ امریکی صدر اعلانیہ کہے: "ہم اسے دودھ دینے والی گائے سمجھتے ہیں!"امریکہ کے صدر نے یہ بات کہی۔ انھوں نے کہا کہ ہم سعودی عرب کو دودھ دینے والی گائے سمجھتے ہیں۔ کسی حکومت اور کسی ملت کی اس سے زیادہ کیا تذلیل ہوگی؟ اس کا پیسہ بھی لے لیں اور پھر اسے دودھ دینے والی گائے کہیں اور اس کی توہین کریں۔ امام خامنہ ای 14 اپریل 2018
مسئلہ یمن کے تعلق سے میں سعودی حضرات سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ واقعی میری خیر خواہانہ نصیحت ہے: اس جنگ کو کیوں جاری رکھا ہے جس کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ جیت نہیں سکتے؟ کوئی امکان نہیں ہے۔ جس جنگ میں فتح کا کوئی امکان نہیں ہے اسے جاری رکھنے کا کیا تک ہے؟ کوئی راستہ تلاش کیجئے اور اس جنگ سے خود کو نجات دیجئے۔ امام خامنہ ای 12 اپریل 2022
کارٹون بشکریہ: arabic.Khamenei.ir
دوسرا برا نتیجہ کیا تھا؟ بے عملی۔ یہ چیز، غرور کے مقابلے میں ہے اور یہ بھی ایک بیماری ہے، یہ بھی ایک نقص ہے، یہ بھی انسان کو مصیبت میں ڈالنے والی چیز ہے۔ بے عملی کا مطلب کیا ہے؟ یعنی کمزور قوت ارادی، خود کو کمزور اور ناتواں سمجھنا، یہ محسوس کرنا کہ اب ہم سے کچھ نہیں ہو سکے گا۔ امور میں تعطل کا احساس، کامیابی کے عدم امکان کا احساس، بے عملی ہے۔ رحمت الہی سے مایوسی، اس بے عملی کے اثرات میں سے ایک ہے جو گناہان کبیرہ میں سے ہے۔ لَا تَیاَسوا مِن رَوحِ اللّہ گناہان کبیرہ میں جن گناہوں کا ذکر کیا جاتا ہے، ان میں سے ایک رحمت الہی سے مایوسی ہے۔ یہ بے عملی کا نتیجہ ہے کہ انسان یہ سوچتا ہے کہ وہ بند گلی میں پہنچ گيا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک مہلک زہر ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
غرور آیا تو زوال شروع
اگر غرور آ گيا تو یہ شکست کا پیش خیمہ ہے، زوال کا مقدمہ ہے۔ انسان میں جب غرور آ جائے تو اس کا اپنے اندر سے بھی زوال شروع ہو جاتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سماجی پوزیشن جو اس کے اطراف میں قائم ہوئی ہے وہ بھی ختم اور زائل ہو جاتی ہے۔ یہ آیت مبارکہ "لَقَد نَصَرَكُمُ اللہُ في مَواطِنَ كَـثيرَۃٍ وَ يَومَ حُنَينٍ اِذ اَعجَبَتكُم كَثرَتُكُم فَلَم تُغنِ عَنكُم شَيئًا وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت" اسی بارے میں ہے۔ جنگ حنین، فتح مکہ کے بعد وہ پہلی جنگ تھی جس میں پیغمبر شریک ہوئے۔ ان کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ تھے۔ جنگ بدر کے برخلاف، جس میں تین سو تیرہ لوگ تھے، یہاں کئي ہزار نو مسلم، اور مہاجر و انصار تھے جو فتح مکہ وغیرہ میں کامیاب ہوئے تھے، یہ لوگ طائف کی طرف جنگ حنین کے لیے گئے۔ جب انھوں نے خود پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ تعداد بہت زیادہ ہے، مغرور ہو گئے! خداوند متعال نے انھیں اس غرور کی وجہ سے بکھیر دیا۔ وَ ضاقَت عَلَيكُمُ الاَرضُ بِما رَحُبَت، زمین اپنی تمام تر وسعت کے ساتھ تم پر تنگ ہو گئي۔ ثُمَّ وَلَّيتُم مُدبِرين تم بھاگ نکلے۔ ان مواقع سے ایک، جہاں پیغمبر کے اطراف والے بھاگ کھڑے ہوئے اور صرف امیرالمومنین اور گنتی کے چند افراد ان کے پاس رہے، یہی جنگ حنین تھی۔ جنگ احد کی طرح۔ مغرور ہونے کا نتیجہ یہی تو ہے۔ البتہ اس کے بعد خداوند عالم نے ان کی مدد کی اور وہ فتحیاب ہوئے لیکن اپنے آپ پر گھمنڈ اور غرور کا نتیجہ یہ ہے۔
غرور ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے
اگر ہمارے اندر غرور پیدا ہو جائے تو اس کی ایک مشکل یہ ہے کہ وہ ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ اپنے اوپر غرور اور مغرور ہونا، ہمیں لوگوں سے دور کر دیتا ہے۔ لوگ ہماری نظروں میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کی بے عزتی کرتے ہیں اور نتیجتا ان سے دور ہو جاتے ہیں۔
غرور میں پڑے تو ہمیں اپنی غلطیاں نظر نہیں ائيں گی
گھمنڈ ہمیں اپنے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں، جو ہم ہیں۔ غرور کا برا نتیجہ یہ ہے۔ جب ہم اپنے آپ کو، جو کچھ ہم ہیں، اس سے بالاتر سمجھنے لگتے ہیں تو ہماری غلطیاں، ہماری نظروں میں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔ جب غلطیاں چھوٹی ہو گئيں تو ہم انھیں سدھارنے کے بارے میں غفلت برتتے ہیں۔ خطاؤں کی اصلاح نہیں کرتے، انھیں غلطیوں کو جاری رکھتے ہیں اور ویسے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ یہ سب مغرور ہونے کے برے نتائج ہیں۔ ان میں کتنی برائی ہے!
خیر خواہوں کی بھی تنقید ناقابل برداشت
گھمنڈ ہمیں خیر خواہانہ تنقید سننے سے محروم کر دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی دشمنی میں، عناد میں ہم سے کچھ کہتا ہے، ممکن ہے ہم اس کی بات کو برداشت نہ کر پائيں اور غصے میں آ جائيں۔ لیکن کبھی کوئي ہمدردی میں اور خیر خواہانہ انداز میں ہم پر تنقید کرتا ہے لیکن ہم میں اسے بھی سننے کی طاقت نہیں ہوتی۔ تو یہ، مغرور ہونے کا نتیجہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
یہ شہادت ایسی مصیبت نہیں ہے کہ کسی زمانے میں رونما ہوئي ہو اور اب ہم اس کی یاد میں آنسو بہائیں! نہیں، یہ مصیبت، ہر زمانے کی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کو شہید کرنے کی مصیبت، اس "تھدّمت واللہ ارکان الھدی" نے صرف اس زمانے کو خسارہ نہیں پہنچایا، پوری تاریخ انسانی کے لیے خسارہ پیدا کر دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس تاریخ سے پچیس سال پہلے مدینے کی عورتوں سے فرمایا تھا: اگر علی کو بر سر اقتدار لایا گيا ہوتا تو "لسار بھم سیراً سُجُحاً" سجح کا مطلب ہوتا ہے ہموار، یعنی حضرت، لوگوں کی زندگي کے سفر کو ہموار کر دیتے۔ "لا یکلِمُ خُشاشہ" وہ ذرہ برابر نقصان نہ ہونے دیتے، یعنی اسلامی حکومت کی طاقت اور حکمرانی کے جذبے کو اسلامی معاشرے کے جسم پر کسی بھی طرح کا زخم لگانے نہیں دیتے، وہ اسلام کو آگے بڑھاتے اور ہر طرح کے نقصان کا سد باب کرتے۔
پیغمبر اکرمۖ کے زمانے کا اسلامی معاشرہ کیا تھا؟ دس سال تک صرف ایک شہر تھا۔ کچھ ہزار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر۔ پھر جب مکے اور طائف کو فتح کر لیا تو انتہائي محدود ثروت والا ایک محدود علاقہ۔ غربت ہر طرف پھیلی ہوئي تھی اور وسائل بہت ہی کم تھے۔ اسلامی اقدار کی بنیاد ایسے ماحول میں رکھی گئي۔ جس دن پیغمبر اکرم اس دنیا سے گئے ہیں، تب سے اب تک پچیس برس ہوئے ہیں۔ پچس سال کے اس عرصے میں اسلامی ملک کی وسعت دو تین اور دس گنا نہیں بلکہ سیکڑوں گنا بڑھ چکی ہے۔ مطلب یہ کہ جس دن امیر المومنین کو حکومت حاصل ہوئي، اس دن وسطی ایشیا سے لے کر شمالی افریقا یعنی مصر تک کا علاقہ اسلامی حکومت کے دائرۂ اختیار میں تھا۔ ابتدائي اسلامی حکومت کے زمانے کی دو بڑی ہمسایہ سلطنتیں یعنی ایران اور روم میں سے ایک پوری طرح سے تباہ ہو چکی تھی، جو کہ ایران کی سلطنت تھی۔ اس کے تمام علاقے اسلام کے اختیار میں آ چکے تھے۔ جبکہ سلطنت روم کے زیادہ تر علاقے بھی، جیسے شام، فلسطین، موصل اور دوسری جگہیں جو تھیں، اسلام کے زیر حکومت آ گئی تھیں۔ اتنا وسیع و عریض علاقہ، اسلام کے اختیار میں تھا۔ بنابریں بہت زیادہ ثروت وجود میں آ چکی تھی۔ اب غربت، محرومی اور کھانے پینے کی کمی نہیں تھی۔ سونے کے سکے رائج ہو گئے تھے۔ پیسہ زیادہ ہو گيا تھا، بے حساب دولت و ثروت آ چکی تھی۔ لہذا اسلامی مملکت دولتمند ہو چکی تھی۔ بہت سے لوگوں کو حد سے زیادہ عیش و آرام حاصل ہو گيا تھا۔
ان کچھ برسوں میں کچھ لوگوں نے بیت المال سے خود سرانہ طور پر پیسے نکالے تھے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: میں ان سب کو بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا، یہاں تک کہ اگر میں یہ دیکھوں کہ تم نے انھیں اپنی عورتوں کا مہر قرار دے دکھا ہے یا اپنے لیے کنیز خرید لی ہے، تب بھی میں انھیں بیت المال میں واپس لوٹاؤں گا۔ لوگوں اور اکابرین کو جان لینا چاہیے کہ میرا طریقۂ کار یہ ہے۔
آج امیر المومنین کی شہادت کا دن ہے۔ میں ان کے مصائب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ سلام ہو آپ پر اے امیر المومنین! کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو آج نجف میں امیر المومنین کی قبر اطہر کے قریب ہیں اور قریب سے ان کی قبر کی زیارت کر سکتے ہیں اور انھیں سلام کر سکتے ہیں۔ ہم بھی دور سے ایک بار پھر عرض کرتے ہیں: السّلام علیک یا امیرالمؤمنین، السّلام علیک یا امام المتقین، السّلام علیک یا سیّد الوصیین۔ جب انیسویں رمضان کی سحر کو وہ عظیم سانحہ رونما ہوا تو ہاتف غیبی کی آواز ہر جگہ گونجی: "تھدّمت واللہ ارکان الھدی." کوفے اور پھر بتدریج بعض دیگر شہروں کے لوگ، جن تک اس وقت یہ خبر پہنچ سکتی تھی، مسلسل اضطراب میں تھے۔ امیرالمومنین کوفے میں بہت زیادہ مقبول اور محبوب تھے۔ سب کو علی سے عقیدت تھی۔ عورتیں، مرد، بچے، بڑے خاص کر امیر المومنین کے بعض قریبی صحابی بہت زیادہ پریشان اور مضطرب تھے۔ ان کی شہادت سے ایک دن پہلے لوگ امیر المومنین کے گھر کے اطراف اکٹھا ہو گئے تھے، روایت کے مطابق امام حسن علیہ السلام نے دیکھا کہ لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اور امیر المومنین کی عیادت کے مشتاق ہیں تو انھوں نے فرمایا: بھائيو اور مومنین! امیر المومنین کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ لوگ ان سے نہیں مل سکتے۔ لہذا آپ چلے جائيے! انھوں نے لوگوں کو ہٹا دیا اور وہ چلے گئے۔ اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: میں نے حتی الامکان کوشش کی لیکن دیکھا کہ میں امیر المومنین کے گھر کے پاس سے نہیں جا سکتا، لہذا میں رکا رہا۔ تھوڑی دیر بعد امام حسن علیہ السلام، گھر سے باہر نکلے اور جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی، انھوں نے کہا: اصبغ! کیا تم نے سنا نہیں کہ میں نے کہا چلے جاؤ؟ ان سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا: اے فرزند رسول! مجھ میں اب سکت نہیں ہے۔ میں یہاں سے نہیں جا سکتا۔ اگر ممکن ہو تو میں ایک لمحے کے لیے چل کر امیر المومنین کو دیکھ لوں۔ امام حسن علیہ السلام گھر کے اندر گئے اور پھر باہر آ کر مجھے اندر جانے کی اجازت دی۔ اصبغ کہتے ہیں: میں کمرے میں داخل ہوا، دیکھا کہ امیرالمومنین بستر بیماری پر پڑے ہوئے ہیں اور ان کے زخم کو پیلے کپڑے سے باندھ دیا گيا ہے۔ لیکن میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ کپڑا زیادہ پیلا ہے یا امیر المومنین کے چہرے کا رنگ؟ حضرت کبھی بے ہوش ہو جاتے اور کبھی ہوش میں آتے۔ ایک بار جب وہ ہوش میں آئے تو اصبغ کا ہاتھ پکڑا اور ایک حدیث نقل کی۔ "ارکان الہدی" جو کہا جاتا ہے، وہ اسی وجہ سے ہے۔ اپنی زندگي کے آخری لمحات میں اور اتنی شدید تکلیف میں بھی، ہدایت ترک نہیں کرتے۔ ایک طولانی حدیث ان سے بیان کی اور پھر بے ہوش ہو گئے۔ اس دن کے بعد نہ تو اصبغ ابن نباتہ اور نہ ہی امیر المومنین کے کسی دوسرے صحابی نے علی کی زیارت کی۔ علی اسی اکیسویں کی رات میں جوار رحمت الہی میں پہنچ گئے اور ایک دنیا کو سوگوار اور ایک تاریخ کو سیاہ پوش کر گئے۔
امام خامنہ ای
5 نومبر 2004
امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اور جنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں "این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ "و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ" وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔
یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔
لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر "فزت و رب الکعبۃ" کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!
امام خامنہ ای
18 ستمبر 2008
وہ نصیحت جو میں آج کرنا چاہتا ہوں وہ دو برے نتائج پر توجہ سے متعلق ہے: ایک برا نتیجہ، غرور کا نتیجہ ہے۔ جبکہ دوسرا برا نتیجہ بے عملي کا نتیجہ ہے۔ یہ دو نقصانات اور برے نتائج ہیں جن کا آپ کو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔
غرور، شیطان کا ہتکنڈہ ہے۔ غرور، گھمنڈ، شیطان کا حربہ ہے۔ اس کی مختلف وجہیں ہیں۔ ویسے اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا کہ اس کی وجہ کیا ہے: کبھی اس کی وجہ عہدہ اور منصب ہے۔ غرور کا ایک سبب، کامیابی ہے۔ آپ کو توفیق حاصل ہوتی ہے اور جو کام آپ انجام دیتے ہیں اس میں پیشرفت ہوتی ہے۔ یہاں انسان کو اپنے اوپر غرور ہوتا کہ میں یہ کام انجام دینے میں کامیاب رہا۔ غرور کا ایک سبب، لطف خدا اور اس کی برکتوں پر مغرور ہونا ہے۔ جس کے بارے میں دعاؤں میں بہت زیادہ اور قرآن مجید تک میں آيا ہے: وَ لا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّہِ الغَرور غَرور کہ جو شیطان ہے، تمھیں خدا کے سلسلے میں مغرور نہ کر دے۔ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان، خدا کی طرف سے پوری طرح مطمئن ہو جائے اور پھر اسے کسی چیز کی کوئي پروا نہ رہے۔ مثال کے طور پر وہ کہے کہ ہم تو اہلبیت کے دوستوں میں سے ہیں، خدا ہمیں کچھ نہیں کہے گا! یہ خدا کے سلسلے میں مغرور ہونا ہے۔ وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك صحیفۂ سجادیہ کی دعا ہے، میرے خیال سے چھالیسویں دعا، جمعے کے دن کی دعا ہے: وَ الشَّقاءُ الاَشقىٰ لِمَنِ اغتَرَّ بِك۔ اے پروردگار! جو تیرے سلسلے میں مغرور ہو جائے اس کی بدبختی سب سے زیادہ ہے۔ یہ گھمنڈ کرنا ہے۔ مغرور ہونا یہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
ایک چیز جس پر میں نے بارہا توجہ دي ہے، کبھی کبھی اسے بیان بھی کیا ہے اور جو قرآن کی دل دہلا دینے والی باتوں میں سے ایک ہے، وہ عظیم پیغمبر الہی حضرت یونس علیہ الصلاۃ و السلام کا واقعہ ہے: وَ ذَا النّونِ اِذ ذَھَبَ مُغاضِبا. وہ غصے میں کیوں تھے؟ اس لیے کہ ان کی قوم کے لوگ کافر تھے، وہ جو بھی کہتے تھے وہ لوگ نہیں مانتے تھے، حضرت یونس نے برسوں تک، اس قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی لیکن کوئي اثر نہیں ہوا، وہ بھی طیش میں آ گئے، ناراض ہو گئے اور ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ ہم لوگ جو واجبات ترک کرتے ہیں اگر ان سے موازنہ کیا جائے تو یہ کسی بھی اعتبار سے کوئي بڑا کام نظر نہیں آتا لیکن خداوند عالم نے اسی کام پر ان کا مؤاخذہ کیا: فَظَنَّ اَن لَن نَقدِرَ عَلَيہ، انھوں نے سوچا کہ ہم ان پر سختی نہیں کریں گے۔ کیوں نہیں؟! سختی کریں گے! ان کے سلسلے میں سختی یہ تھی کہ وہ محبوس ہو گئے۔ اس کے بعد قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ پر کہا گیا ہے: فَلَو لا اَنَّہُ كانَ مِنَ المُسَبِّحين. لَلَبِثَ فی بَطنِہِ اِلىٰ يَومِ يُبعَثون۔ کیا بات ہے؟! ترک فعل کے باعث۔ اگر یہ تسبیح اور یہ گڑگڑانا اور یہ ذکر سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمين، کہ جس کے بارے میں ہے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ قیامت تک مقید رہتے، محبوس رہتے۔ البتہ اس آيت کے بعد ایک خوش خبری بھی ہے: فَنادى فِی الظُّلُماتِ اَن لا اِلہَ اِلّا اَنتَ سُبحانَكَ اِنّی كُنتُ مِنَ الظّالِمينَ* فَاستَجَبنا لَہُ وَ نَجَّيناہُ مِنَ الغَمِّ وَ كَذٰلِكَ نُنجِی المُؤمِنين یہ "و کذلک ننجی المومنین" میرے اور آپ کے لیے خوش خبری ہے، مطلب یہ کہ ہم بھی اللہ کی تسبیح کر کے، اس کی حمد کر کے، استغفار کر کے، اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اور پروردگار عالم سے معذرت طلب کر کے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ بنابریں استغفار، ممنوعہ اور حرام کام کے ارتکاب پر بھی ہے اور صحیح کام نہ کرنے، بے عملی اور غلط کام کرنے پر بھی ہے۔ ان دونوں کے لیے استغفار ضروری ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
استغفار کے ذریعے فتح
استغفار کے بارے میں ہماری سوچ صرف یہ نہ ہو کہ یہ صرف انفرادی گناہوں کی معافی اور ہمارے دلوں کی پاکیزگي کے لیے ہے۔ استغفار کی قومی میدانوں میں، بڑے سماجی میدانوں میں بڑی تاثیر ہے، اثر ہے اور یہ ہمیں بڑی بڑی توفیقات سے ہمکنار کرتا ہے۔
ماہ رمضان کی دعاؤں میں، ایک بات جو بار بار دوہرائي گئي ہے، وہ اللہ سے مغفرت طلب کرنے کی بات ہے۔ خدا سے معافی مانگنا، استغفار کرنا۔ دعاؤں کے جملے ہیں: ھذا شھر المغفرۃ، یہ مغفرت کا مہینہ ہے۔
استغفار سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں
یہ عذر خواہی جو سچی نیت کے ساتھ ہے، آپ کے اندر ایک نشاط پیدا کرتی ہے، ایک پاکیزگي ایجاد کرتی ہے اور یہ نشاط اور پاکیزگي، اللہ کی رحمت کے نزول کا موجب بنتی ہے۔ دعا میں ہم پڑھتے ہیں: اَللّھُمَّ اِنّی اَسئَلُكَ موجِباتِ رَحمَتِك، اس میں کچھ اسباب ہیں جو رحمت الہی کو وجود میں لاتے ہیں اور انسان تک پہنچاتے ہیں۔
استغفار سے قوت بڑھتی ہے
سورۂ ھود میں کہا گيا ہے: وَ يا قَومِ استَغفِروا رَبَّكُم ثُمَّ توبوا اِلَيہ يُرسِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدرارا. یعنی خداوند متعال تم پر آسمانی برکتیں نازل کرے گا۔ اس کے بعد کہا گیا ہے: وَ يَزِدكُم قُوَّۃً اِلىٰ قُوَّتِكُم تمھاری طاقت کو بھی بڑھا دیتا ہے۔
استغفار کا اثر اس آيت سے زیادہ واضح، زندگي کے ایک سخت ترین میدان میں یعنی دشمن کے ساتھ کھلے مقابلے کے میدان میں سورۂ مبارکۂ آل عمران کی اس آیت میں بیان کیا گيا ہے: وَ كاَيِّن مِن نَبیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبّيّونَ كَثيرٌ فَما وھَنوا لِما اَصابَھُم فی سَبيلِ اللّہِ وَ ما ضَعُفوا وَ مَا استَكانوا وَ اللّہُ يُحِبُّ الصّابِرين. وَ ما کانَ قَولَھُم اِلّا اَن قالوا رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا یعنی یہ لوگ جو میدان جنگ میں پیغمبر کے ساتھ جہاد کر رہے تھے، جس میدان جنگ میں پیغمبر جاتے تھے، یہ بھی جاتے تھے اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے تھے، ان ربانیوں، خدا پرستوں اور خدا پرستی کا محور یہ دعا تھی: رَبَّنَا اغفِر لَنا ذُنوبَنا وَ اِسرافَنا فی اَمرِنا وَ ثَبِّت اَقدامَنا وَ انصُرنا عَلَى القَومِ الكافِرين مطلب یہ کہ جنگ سے، ثبات قدمی سے، نصرت سے استغفار کا رشتہ ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 2022
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا واقعی مظلوم ہیں۔ پیغمبر کی زوجہ ہونے کا جو شرف آپ کو حاصل ہوا وہ دوبالا ہے۔ دیگر ازواج کو پیغمبر کی زوجیت کا شرف تو ملا مگر کار رسالت میں پیغمبر کی سختیوں کا جو دور ہے اس کا سامنا ان ازواج کو نہیں کرنا پڑا۔ آپ دس سال مدینے میں جو رہے تو وہ وقار کا دور تھا، احترام کا دور تھا، گزشتہ دور کی نسبت سکون کی زندگی تھی۔ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا نے پیغمبر کے رنج و الم کا دور، سختیوں کا دور دیکھا اور برداشت کیا۔
پہلی بات یہ کہ پیغمبر پر ایمان لانا، ظاہر ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں امیر المومنین اور حضرت خدیجہ تھے، یہ بہت بڑا افتخار ہے، بڑی گراں قدر چیز ہے۔
امام حسن مجتبی علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ آپ نے کئی دفعہ اپنا سارا سرمایہ راہ خدا میں خرچ کر دیا، یا اپنا نصف سرمایہ صرف کر دیا۔ یہ بہت بڑے افتخارات ہیں۔ اس عظیم خاتون کا افتخار یہ ہے کہ اپنے سارے اثاثے دے دئے، سب کو اسلام کی ترویج اور پیغمبر کو تقویت پہنچانے کے لئے صرف کر دیا۔ اس کے بعد طاقت فرسا مشکلات اور سختیوں کا سامنا کیا جن میں ایک شعب ابو طالب کا دور ہے، وہ تین سال جب یہ لوگ وہاں رہے اور ان بڑی سختیوں کو برداشت کیا اور اپنا ایمان پوری مضبوطی سے قائم رکھا۔
امام خامنہ ای
9 مئی 2016
کسی بزرگ عالم دین کے بارے میں ہے کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ امام ظہور کیوں نہیں فرماتے؟
ان بزرگ نے جواب دیا کہ امام کا ظہور آپ کیوں چاہتے ہیں؟ آپ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اچھا انسان بننا چاہتے ہیں؟ تو ٹھیک ہے اچھے انسان بن جائیے!
امام آکر دنیا کی اصلاح کریں گے۔ امام کے ظہور کے معاملے سے خود آپ کا ذاتی طور پر کیسا تعلق ہے؟ آپ امام کا ظہور اس لئے تو نہیں چاہتے کہ وہ آکر آپ کو پیسے دیں، عہدہ دیں، منصب دیں!
آپ امام کی آمد اسی لئے تو چاہتے ہیں کہ دنیا کی اصلاح ہو جائے۔ بہت اچھی بات ہے۔ آپ بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو امام کی آمد کے بعد اچھے انسان بن جائیں گے۔ تو بہت اچھا ہے! آپ کو اس وقت جو کام کرنا ہے وہ ابھی انجام دے ڈالئے! البتہ امام کی آمد کے بعد یہ کام آسان ہوگا، اس وقت مشکل ہے۔ لیکن اس کا اجر بھی تو زیادہ ہے۔ ہمارا فریضہ یہی ہے۔
امام خامنہ ای
23 جون 2013
ہماری بات یہ ہے: "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" (3/4/2019) آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای کے اس جملے کو اسلامی انقلاب کی ماہیت کے بارے میں سب سے جامع و مانع جملہ سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ انقلاب کہ جس میں "قوم، امام خمینی جیسی ایک عظیم شخصیت کے پیچھے کھڑی ہو جاتی ہے۔ کئي ہزار سالہ ایک بوسیدہ طاغوتی اور خبیث عمارت کو خطے کی اہم ترین جگہ یعنی ایران میں مسمار کر دیتی ہے اور اسلامی عمارت تعمیر کرتی ہے، یہ پیغمبر کی بعثت کا تسلسل ہے۔" (3/4/2019) بعثت کی ماہیت میں دو بنیادی عناصر ہیں: 'دینی ہونا اور طاغوت مخالف ہونا۔'
اب یہ بھی اہم ہے کہ طاغوت کا مصداق بیان کیا جائے۔ "ہمارا انقلاب اور نظام، بنیادی طور پر امریکا کے خلاف تشکیل پایا۔ صحیح ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے پہلوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا لیکن یہ جنگ، صرف پہلوی سلطنت کے خلاف نہیں تھی، امریکا کی موجودگي اور امریکیوں کے تسلط اور اثر و رسوخ کے خلاف بھی جنگ تھی جو اس قوم کی ہڈیوں کے گودے تک میں گھسے ہوئے تھے۔" (26/7/2000)
اس تشریح کی بنیاد پر کہ طاغوت کا اصل مصداق امریکا ہے، جب ہم یہ کہتے ہیں کہ "انقلاب، بعثت پیغمبر کا تسلسل تھا۔" تو اس کا مطلب یہ ہے کہ "عوام کے قیام کا دینی پہلو بھی تھا اور امریکا مخالف پہلو بھی تھا۔" (8/1/2021) کیونکہ "امریکا ہمارے ملک میں فرعونیت کر رہا تھا ... زمانے کے موسی آئے، اس فرعون اور اس کے حواریوں کا تخت و تاج الٹ دیا اور ختم کر دیا ... اور ان لوگوں کے توسط سے امریکا کو اس ملک سے نکال باہر کیا۔" (9/9/2015)
اگر ہم سنہ انیس سو ترپن سے انیس سو اٹھہتر تک امریکا کی کارکردگي پر ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس پچیس برس کے عرصے میں پیش آنے والی تمام مشکلات، سختیوں، جلاوطنیوں، ایذا رسانیوں، موت کی سزاؤں، لوٹ مار، غارتگری اور المیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکا کا کردار رہا ہے۔ درحقیقت "اگرچہ ظاہری فریق طاغوت کی ظالم حکومت اور پہلوی سلطنت تھی لیکن امریکی اس حکومت کی پشت پر تھے؛ وہی اس حکومت کی حمایت کر رہے تھے اور اس کے ذریعے ہمارے ملک کے تمام امور پر مسلط ہو گئے تھے۔" (31/10/2012) مطلب یہ کہ "ایران پوری طرح امریکا کی مٹھی میں تھا ... ملک کے وجود کے تمام اصلی ستون، امریکیوں کی مرضی سے کام کرتے تھے۔" (9/9/2015) بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ "امریکی، براہ راست ملک کے مسائل میں دخل انداز کرنے لگے تھے اور انھوں نے امام خمینی کو ملک بدر کر دیا۔" (31/10/2012)
اس درمیان جو چیز عوامی جدوجہد کے 'امریکا مخالف' ہونے کو زیادہ واضح کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ "قم کے عوام کے قیام سے ایک ہفتے پہلے، امریکی صدر نے -اس وقت کارٹر تھے- تہران میں پہلوی حکومت اور محمد رضا کے سلسلے میں اپنی سو فیصد حمایت اور پشت پناہی کا اعلان کیا۔" (8/1/2021) اس کے بعد ہی عوام نے سامراج اور امریکا کے خلاف ہمہ گیر قیام اور تحریک کو اوج پر پہنچا دیا اور ایک سال کے اندر، ان کا کام تمام کر دیا۔
ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کی اصل وجہ
انقلاب کے بعد ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کا اصل راز بھی یہی مسئلہ ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا زور دے کر کہا ہے کہ "اسلامی جمہوری نظام کی مخالفت کی اصل وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے ملک پر سے امریکا کے تسلط کا خاتمہ کر دیا، ساری بات یہی ہے ... انھیں نوکر چاہیے؛ اسلامی جمہوریہ نے ان کے سامنے اپنی عزت نفس کا مظاہرہ کیا اور یہ لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔" (9/5/2018) ایرانی قوم سے ان کی دشمنی کی وجہ "اسلام کی طرفداری اور اسلامی نظام پر ڈٹے رہنا اور اس کا بھرپور دفاع کرنا ہے۔" (9/1/2003) یہی وجہ ہے کہ "امریکیوں، ان کے حلیفوں اور ساتھیوں کی طرف سے جو اقدام بھی کیا جاتا ہے وہ ایرانی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے اور اس کی تحقیر کے لیے ہوتا ہے۔" (8/2/2015)
اس کے علاوہ امریکیوں کو "نظام سے قطع نظر، ملک کی خودمختاری سے بھی مشکل ہے۔" (12/6/2017) اس کی واضح مثال تیل کی صنعت کو قومیانے کی تحریک تھی۔ یہ چیز قومی خودمختاری سے وابستہ تھی لیکن امریکیوں کی بغاوت سے اس کی سرکوبی کر دی گئي۔
انقلاب کی ماہیت کی تحریف کے لیے مغرب پرستوں کا مغالطہ
اس کے برخلاف "کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم سے جو عداوتیں کی جا رہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے تنازعہ کھڑا کیا ہے؛ ہم نے ہمیشہ انھیں اکسایا ہے۔" (14/6/2016) یہ غلط خیال، تاریخ سے لاعلمی کے سبب ہے۔ امریکا کی عداوتوں کی تاریخ پر ایک نظر اور ایرانی قوم کے تجربوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب امریکا سے ایران کا کوئي تنازعہ نہیں تھا، تب بھی وہ ایران کے خلاف دشمنی اور سازش میں مصروف تھا۔ ایرانی قوم سے امریکا کی دشمن کی گہرائي کو عیاں کرنے والے تلخ تاریخی تجربات میں سے ایک یہ تھا کہ "اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي مہینوں میں، امریکی سینیٹ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک سخت بل اور قرارداد منظور کی اور عملی طور پر دشمنی شروع کر دی۔ یہ ایسے عالم میں تھا کہ ابھی ایران میں امریکی سفارتخانہ کھلا ہوا تھا!" (3/11/2015)
مغرب پرست، اپنے مغالطے کو جاری رکھتے ہوئے امریکا سے تعلقات اور دوستی کو، اس کی دشمنی سے محفوظ رہنے کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ وہی تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ امریکا سے تعلقات کسی بھی صورت میں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ سے اس کی دشمنی کو کم نہیں کریں گے۔ "جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ امریکا سے تعلق، امریکا سے دوستی اس بات کا سبب بنتی ہے کہ انسان، امریکا کی شرپسندی سے محفوظ رہے، انھیں اس تاریخی تجربے پر نظر ڈالنی چاہیے۔" (3/11/2015)
ایرانی قوم، بدستور امریکا مخالف جدوجہد کی راہ پر
اس چھوٹے سے گروہ کے مغالطوں کے مقابلے میں ایرانی قوم، استقامت کے ساتھ اپنے اسی 'امریکا مخالف' نظریے پر اور اس بات پر یقین کے ساتھ کہ "اسلامی انقلاب میں یہ مغرب اور امریکا مخالف نظریہ، ایک صحیح تجربے اور صحیح و معقول رائے اور صحیح اندازے پر مبنی ہے" (23/7/2014) اسلامی انقلاب سے پہلے کی اسی جدوجہد کی سمت میں پوری طاقت سے آگے بڑھ رہی ہے اور چونکہ "انقلاب، ایک دائمی اور مسلسل عمل ہے ... ایک زندۂ جاوید حقیقت اور دائمی حقیقت ہے ... اور کبھی بھی ختم نہیں ہوگا" (16/9/2015) اس لئے طاغوت اور بڑے بت پر مکمل غلبے تک ایرانی قوم کی 'امریکا مخالف' جنگ بھی جاری رہے گي۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت پر حضرت کے بارے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے خطابات کے کچھ اقتباسات پیش کئے جار ہے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام ایک دعا میں ارشاد فرماتے ہیں: "و عدلک مہلکی" تیرا انصاف، مجھے ہلاک کر دے گا۔ اسی لیے ہم عرض کرتے ہیں: "عاملنا بفضلک" ہمارا حساب اپنے فضل سے کر! اگر انصاف کی بات آ جائے اور باریکی سے کام لیا جائے، ہمارے اعمال کو بغور دیکھا جائے تو پھر مصیبت ہے۔ ہمیں خداوند عالم سے اس کے فضل کی دعا کرنی چاہیے، اس کی چشم پوشی کی دعا کرنی چاہیے، اس کے درگزر کی دعا کرنی چاہیے۔
امام خامنہ ای
5 اپریل 2010
امام زین العابدین علیہ السلام جو امیر المومنین کے پوتے تھے اور معصوم تھے، جب ان سے کہا گيا کہ آپ کس قدر عبادت کرتے ہیں؟! تو انھوں نے فرمایای کہ ہم کہاں اور علی کی عبادت کہاں؟ یعنی امام زین العابدین اور سید الساجدین کہہ رہے ہیں کہ امیر المومنین سے میرا موازنہ نہیں ہو سکتا۔
امام خامنہ ای 5
نومبر 2004
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں: "و لیس من صفاتک یا سیدی ان تامر بالسؤال و تمنع العطیّۃ" آپ فرماتے ہیں کہ اے پروردگار! یہ تیری عادت نہیں ہے کہ لوگوں کو مانگنے کا حکم دے لیکن جو چیز وہ مانگیں، وہ انھیں عطا نہ کرے۔ مطلب یہ کہ کرم الہی، رحمت الہی اور وسیع قدرت الہی کے معنی یہ ہیں کہ اگر وہ کہتا ہے کہ مانگو تو اس نے اس دعا کو پورا کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔
نماز جمعہ کا خطبہ،
25 دسمبر 1998
امام زین العابدین علیہ السلام نے سانحہ کربلا کے بعد تقریبا چونتیس سال اس دور کے اسلامی ماحول میں زندگی گزاری اور یہ زندگی ہر لحاظ سے سراپا درس ہے۔ کاش جو لوگ اس زندگی کی اعلا کیفیات سے واقف ہیں، وہ اس کو لوگوں کے لئے، مسلمانوں کے لئے حتی غیر مسلموں کے لئے بیان کرتے تاکہ معلوم ہوتا کہ واقعہ کربلا کے بعد جو(یزید ملعون کی طرف سے) حقیقی اسلام کے پیکر پر ایک کاری وار تھا، چوتھے امام نے کس طرح استقامت و پائیداری سے کام لیکر دین کو ختم ہونے سے بچایا ہے۔ اگر امام زین العابدین علیہ الصلاۃ و السلام کی مجاہدت نہ ہوتی تو امام حسین علیہ السلام کی شہادت رائگاں ہو جاتی اور اس کے اثرات باقی نہ رہتے۔ چوتھے امام کا کردار بہت اہم ہے۔
چوتھے امام کی زندگی کے کارناموں کے کئی پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک اخلاق ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اسلامی معاشرے کی تربیت اور اخلاقی طہارت کا بیڑا اٹھایا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اسلامی دنیا کے ان مسائل کا ایک بڑا حصہ جو سانحہ کربلا پر منتج ہوا، لوگوں کی اخلاقی پستی اور رذالتوں کا نتیجہ تھا۔ اگر لوگ اسلامی اخلاق سے آراستہ ہوتے تو یزید، ابن زیاد، عمر سعد اور دوسرے افراد، یہ المیہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر اتنے پست نہ ہوئے ہوتے، تو حکومتیں، چاہے وہ کتنی ہی فاسد کیوں نہ ہوتیں، کتنی ہی بے دین اور ظالم کیوں نہ ہوتیں، اتنا بڑا المیہ انجام نہ دے سکتیں۔ یعنی نواسہ رسول اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیٹے کو قتل نہ کر سکتیں۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ تھا؟ ایک قوم اس وقت تمام برائیوں کی جڑ بنتی ہے جب اس میں اخلاقی برائیاں آ جائیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس بات کو اسلامی معاشرے کے چہرے پر پڑھ لیا تھا۔ آپ نے اسلامی معاشرے کے چہرے کو اس برائی سے پاک کرنے اور اخلاق سدھارنے کا تہیہ کیا۔ لہذا دعائے مکارم اخلاق، دعا ہونے کے ساتھ ہی درس بھی ہے۔ صحیفہ سجادیہ دعا ہے مگر درس بھی ہے۔ میں آپ نوجوانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ صحیفہ سجادیہ پڑھیں اور اس پر غور کریں۔ بغیر توجہ اور فکر کے پڑھنا کافی نہیں ہے۔ اس پر غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ صحیفہ سجادیہ کی ہر دعا اور دعائے مکارم الاخلاق اخلاق اور زندگی کا ایک درس ہے۔
امام خامنہ ای
14 جولائی 1993
میں جس بات پر زور دینا ضروری سمجھتا ہوں وہ نرس کا مرتبہ ہے۔ میری تاکید ہے کہ یہ بات کہی جائے، دہرائی جائے، بار بار کہی جائے تاکہ سبھی کو معلوم ہو جائے کہ نرس خادم نہیں بلکہ زندگی عطا کرنے والی صنف ہے۔ حقیقت میں جب انسان میڈیکل سروسز پر توجہ دیتا ہے تو نرس کے رول کی تعریف ایک بنیادی رول کے طور پر کی جانی چاہئے۔ اگر ڈاکٹر اچھا ہو، اسپتال اچھا ہو، لیکن نرسنگ اچھی نہ ہو تو بیمار کے ٹھیک ہونے کی کوئی گیرنٹی نہیں ہے۔ جبکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ حالات بہت اچھے نہ ہوں لیکن ایک ہمدرد نرس موجود ہو تو اس بیمار کے ٹھیک ہونے کے امکانات موجود ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ نرسوں کی اہمیت اس طرح کی ہے۔ اسے سب کو جان لینا چاہئے۔ خود نرسوں کو بھی اپنی اس اہم پوزیشن پر توجہ دینا چاہئے اور اپنے کام کی قدر کرنا چاہئے۔ عوام اور عہدیداران کو بھی سمجھنا چاہئے۔ یہ تو ایک پہلو ہے۔
دوسرا پہلو بہت زیادہ دباؤ سے متعلق ہے جو نرس پر پڑتا ہے۔ یعنی ڈاکٹر بیمار کے سلسلے میں ذمہ دار ہوتا ہے اور حقیقت میں طبی خدمات بہت اہم اور بے مثال چیز ہے لیکن بیمار کی نرس پر جو ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے، ڈاکٹر پر کبھی وہ دباؤ نہیں ہوتا۔
بیمار کی چیخ پکار، گریہ و زاری سننا، اس کے درد کو محسوس کرنا، مسلسل اس کی دیکھ بھال کرنا، اسے نہلانا دھلانا، اس طرح کے کام کیا مذاق ہیں؟ کوئی کسی بیمار کے پاس پوری ذمہ داری کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھے تب اس کی سمجھ میں آئے گا کہ اس نرس کا کیا حال ہوتا ہوگا جسے الگ الگ بیماروں کے ساتھ دن اور رات کے کئی گھنٹے گزارنے پڑتے ہیں۔
ایران کی اعلی نرسنگ کونسل کے ارکان سے رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب کا ایک حصہ
امام خامنہ ای
16 اپریل 2012
رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای: آپ سید الشہدا علیہ السلام کی دعائے عرفہ کے مندرجات کو شعری پیرائے میں پرو سکتے ہیں۔ امام حسین کی دعائے عرفہ عاشقانہ کلام ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام سے بھی یوم عرفہ کی دعا منقول ہے۔ صحیفہ سجادیہ میں سینتالیسویں دعا دعائے عرفہ ہے۔ وہ بھی بڑے عمیق مفاہیم و مشمولات کی حامل دعا ہے لیکن امام حسین علیہ السلام کی دعا کا انداز والہانہ و عاشقانہ ہے، یہ الگ ہی چیز ہے۔
اگر آپ اس سے پوری طرح آشنا ہوں، اس کی گہرائی میں اتریں، اس پر غور و خوض کریں تو اس دعا کے ایک ایک فقرے سے پورا ایک قصیدہ، ایک نظم، ایک قطعہ، ایک خوبصورت غزل کہہ سکتے ہیں۔
15 جون 2011
یوم عرفہ اعتراف کا دن ہے
عرفہ کی اہمیت کو سجمھیں۔ میں نے ایک روایت میں دیکھا ہے کہ عرفہ اور عرفات کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی ہے جہاں پروردگار کے حضور اپنے گناہوں کے اعترا ف کا موقع ملتا ہے۔ اسلام بندوں کے سامنے گناہ کے اعتراف کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس نے جو گناہ کیا ہے، اس کو زبان پر لائے اور کسی کے سامنے اس کا اعتراف کرے۔ لیکن ہمیں چاہئے کہ خدا کے حضور ، اپنے اور خدا کے درمیان، خدا سے تنہائی میں اپنی خطاؤں، اپنے قصور، اپنی تقصیروں اور اپنے گناہوں کا جو ہماری روسیاہی، بال و پر کٹ جانے اور پرواز میں رکاوٹ آ جانے کا مستوجب ہیں، اعتراف کریں اور توبہ کریں۔
امام خامنہ ای
28 مئی 1994
آج اگر امت اسلامیہ کے تمام افراد یہ قبول کریں...
جو لوگ خود کو تمام عیوب اور خطاؤں سے مبرا سمجھتے ہیں ان کی اصلاح کبھی نہیں ہو سکتی۔ کوئی بھی قوم اگر چاہتی ہے کہ خدا کے سیدھے راستے پر ثابت قدم رہے تو اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس سے غلطی کہاں ہوئی ہے؟ اس کی خطا کیا ہے؟ اور اسے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ آج اگر امت اسلامیہ کے تمام افراد یہ قبول کریں کہ اسلام کے سلسلے میں انہوں نے کوتاہی کی ہے، اگر مسلمین عالم اس بات کو قبول کریں اور اعتراف کریں کہ طاقتوں کی پیروی میں غلط راستے پر چلے ہیں اور مغرب کی فاسد اور پر فریب تہذیب قبول کرکے ان سے غلطی ہوئی ہے، تو انہیں دوبارہ راستہ مل جائے گا اور وہ اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ عالمی تشہیرات کی کوشش ہے کہ لوگوں کو یہ معلوم ہی نہ ہو سکے کہ طریقہ اور راستہ کیا ہے۔
امام خامنہ ای
28 مئی 1994
ہمارے ایک امام کو پچیس سال کے سن میں کیوں شہید کر دیا گیا؟ وقت کی ظالم حکومت اہل بیت پیغمبر کی اس عظیم ہستی کو اس سے زیادہ برداشت کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئی؟ اس سوال کا جواب امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت اور زندگی سے ہمیں ملتا ہے۔ وہ باطل کے خلاف جنگ کا آئینہ تھے، وہ حکومت الہی کے قیام کے داعی تھے، وہ خدا و قرآن کے لئے محو پیکار رہتے تھے، وہ دنیاوی طاقتوں سے ہرگز ہراساں نہیں ہوتے تھے۔
8 ستمبر 1983
امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی نمونہ عمل ہے۔ امام محمد تقی علیہ السلام کی شخصیت بے پناہ عظمتوں کی حامل تھی مگر وہ پچیس سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ ہم نہیں کہتے،غیر شیعہ مورخین نے بھی لکھا ہے کہ یہ عظیم ہستی اپنی نوجوانی اور بچپن کے ایام میں ہی (خلیفہ وقت) مامون اور دنیا کی نظر میں خاص مرتبہ حاصل کر چکی تھی۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ یہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔
27 اپریل 1998
اللہ کے اس صالح بندے کی مختصر سی زندگی کفر و طغیان سے جنگ میں گزر گئی۔ نوجوانی کے ایام میں آپ منصب امامت پر فائز ہوئے۔ بہت کم مدت میں آپ نے دشمن خدا سے موثر انداز میں جہاد کیا۔ ابھی محض پچیس سال کا آپ کا سن تھا کہ دشمنان خدا کو یقین ہو گیا کہ وہ اس وجود کو اب اور برداشت نہیں کر سکتے، چنانچہ زہر دیکر آپ کو شہید کر دیا گیا۔ ہمارے سارے اماموں نے اپنے جہاد سے اسلام کی مایہ ناز تاریخ کا ایک باب رقم کیا۔ امام محمد تقی علیہ السلام نے بھی اسلام کے ہمہ گیر جہاد کے ایک اہم پہلو کو عملی جامہ پہنایا اور ہمیں درس دیا۔ وہ درس یہ ہے کہ جب منافق و ریاکار طاقتیں مد مقابل ہوں تو ہمیں چاہئے کہ ان طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے عوام الناس کی بصیرت و ادراک میں اضافہ کریں۔ اگر دشمن کھل کر عناد کر رہا ہے، ریاکاری اور دکھاوا نہیں کر رہا ہے تو اس سے مقابلہ آسان ہوتا ہے لیکن جب مامون جیسا شخص دشمنی پر تلا ہو جو اسلام کی حمایت اور اپنے تقدس کا دعویدار ہو تو عوام الناس کے لئے اس کی حقیقت کو سمجھ پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔
10 اکتوبر 1980
ماہ ذی القعدہ کی برکتیں بھی بے پناہ ہیں۔ ماہ ذی القعدہ پہلا 'ماہ حرام' ہے۔ اس مہینے کی گیارہ تاریخ فرزند رسول، امام ہشتم حضرت علی ابن موسی الرضا علیہ آلاف التحیۃ و الثناء کا یوم ولادت با سعادت ہے۔ اس مہینے کی 23 تاریخ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خاص زیارت کی تاریخ ہے، اس مہینے کی پچیس تاریخ 'دحو الارض' (یعنی فرش زمین بچھائے جانے) کا دن ہے، نیمہ ماہ ذی القعدہ کی شب بھی سال کی انتہائی بابرکت شبوں میں سے ایک ہے اور اس شب کے بھی خاص اعمال ہیں۔
ماہ ذی القعدہ میں پڑنے والے اتوار کے دن توبہ و استغفار کے ایام ہیں۔ ان ایام کے مخصوص اعمال ہیں۔ گراں قدر عارف مرحوم الحاج میرزا جواد آقای ملکی نے المراقبات میں یہ اعمال نقل کئے ہیں، جن کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے خطاب میں فرمایا کہ آپ میں سے کون ہے جو توبہ کرنا چاہتا ہے؟ سب نے جواب دیا کہ ہم توبہ کرنا چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ ذیقعدہ کا مہینہ تھا۔ اس روایت کے مطابق سرور کائنات نے فرمایا کہ اس مہینے میں اتوار کے ایام میں یہ نماز پڑھو۔ المراقبات میں اس نماز کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ الغرض یہ کہ ماہ ذی القعدہ کے ایام جو ان تین لگاتار حرام مہینوں میں پہلا مہینہ ہے، بڑے بابرکت ایام اور راتیں ہیں، برکتوں سے معمور ہیں۔ ان سے بھرپور استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
امام خامنہ ای
9 ستمبر 2015
کسی بھی سماجی نظام کی کامیابی کا دار و مدار ہے عدل و انصاف ایران میں ہفتہ عدلیہ کے موقع پر عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداران نے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔
جب یثرب کے لوگوں کے نمائندے مکے آئے اور پیغمبر کو یثرب آنے کی دعوت دی، جو بعد میں مدینۃ النبی بنا، انھوں نے منیٰ کے قریب پیغمبر سے بات کی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے عہد لیا، کہا کہ میں آؤں گا لیکن تمھیں دفاع کرنا ہوگا، جان دے کر بھی حمایت کرنی ہوگي۔ ان لوگوں نے اسے قبول کیا اور وعدہ کیا۔ پھر جب پیغمبر مدینے پہنچے تو انھوں نے اسلامی حکومت تشکیل دی، حاکمیت کو وجود عطا کیا۔ یہ حاکمیت ان کی پیغمبری سے متعلق تھی یعنی کوئي اور بات نہیں تھی بلکہ اس لیے کہ وہ پیغمبر تھے، اس لیے کہ لوگ ان پر ایمان لائے تھے، اس لیے انھوں نے حکومت تشکیل دی تھی۔
امام خامنہ ای
4 جون 2021
حضرت فاطمۂ معصومہ سلام اللہ علیہا جب اس علاقے میں پہنچیں تو آپ نے قم آنے کی خواہش ظاہر کی… لوگ گئے ان کا استقبال کیا، حضرت معصومۂ کو اس شہر میں لے آئے اور یہ نورانی بارگاہ اس دن سے، اس عظیم ہستی کی وفات کے بعد سے ہی اس شہر قم میں نورافشانی کر رہی ہے۔ اہل قم نے اسی دن سے اس شہر میں معارف اہلبیت علیہم السلام کا مرکز تشکیل دیا اور سیکڑوں عالم، محدث، مفسر اور اسلامی و قرآنی احکام کے مبلغ عالم اسلام کے مشرق و مغرب میں روانہ کئے۔ قم سے ہی خراسان کے خطے میں اور عراق و شامات کے مختلف حصوں میں علم پھیلا۔
امام خامنہ ای 19 اکتوبر 2010
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کا قم میں جو کردار ہے اور جس طرح اس تاریخی و مذہبی شہر کو عظمت ملی ہے اس میں تو کسی کو کوئي کلام نہیں ہے۔ اس عظیم خاتون نے، اہل بیت اطہار کی آغوش میں پلنے والی اس نوجوان خاتون نے ائمہ معصومین علیہم السلام کے عقیدتمندوں اور دوست داروں کے درمیاں اپنی کوششوں سے اہل بیت پیغمبر علیہم السلام کی ولایت و معرفت کا جو چمن لگایا اس کے نتیجے میں یہ شہر جابر حکمرانوں کی حکمرانی کے اس تاریک اور ظلمانی دور میں بھی معارف و علوم اہل بیت کے مرکز کی حیثیت سے ضوفشاں ہوا اور اہل بیت اطہار کے علم و معرفت کے نور سے تمام دنیائے اسلام اور مشرق و مغرب میں روشنی پھیلنے لگی۔ آج بھی عالم اسلام کے علم و معرفت کا مرکز شہر قم ہے۔
امام خامنہ ای 21 اکتوبر 2010
امام خمینی اللہ پر توکل اور عوام پر اعتماد کے ساتھ اور دین کے بارے میں اپنی گہری شناخت کے سہارے مضبوطی سے ڈٹ گئے اور انھوں نے اس نظریے کو آگے بڑھایا اور اپنی اس عظیم جدت طرازی کو معاشرے کی سطح پر جامۂ عمل پہنایا۔ اجمالا ہی سہی لیکن مجھے یہ بات ضرور عرض کرنی ہے کہ یہ ایک جذباتی بات نہیں ہے بلکہ ایک عالمانہ استنباط ہے کہ دین کو حکومت کرنی چاہیے اور اس حاکمیت میں عوام کی شراکت ہونی چاہیے، یعنی مذہبی ڈیموکریسی، یہ چیز اسلام کے بطن سے نکلی ہے اور بنیادی اسلامی تعلیمات پر استوار ہے۔
دین کی حاکمیت کا سرچشمہ قرآن و احادیث
قرآن مجید نے دین کی حکمرانی کو واضح طور پر بیان کیا ہے؛ اگر کوئي اس کا انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی اس نے قرآن مجید میں غور و خوض نہیں کیا ہے۔ ایک طرف قرآن مجید سورۂ نساء کی ایک آیت میں اعلان کرتا ہے: "وَمَا اَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللَّہ" (سورہ نساء آیت 64) ہم نے پیغمبروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگ اذن خداوندی سے ان کی اطاعت کریں۔ تو کس چیز میں اطاعت کریں؟ پیغمبروں کی اطاعت کن چیزوں میں کی جانی چاہیے؟ اس چیز کو قرآن مجید کی سیکڑوں آیتیں بیان کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آیات جہاد، عدل و انصاف قائم کرنے سے متعلق آيات، حدود اور تعزیرات سے متعلق آيات، سودوں اور سمجھوتوں سے متعلق آيات، عالمی سمجھوتوں سے متعلق آیات؛ وَ اِن نَكَثوا اَيمـانَھُم (سورہ توبہ آیت 12 اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں) وغیرہ وغیرہ۔ ان سب کا مطلب ہے حکومت؛ ان آیتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان امور میں پیغمبر کی اطاعت کی جانی چاہیے، ملک کے دفاع کے معاملے میں، حدود جاری کرنے کے معاملے میں، معاملات اور سماجی سمجھوتوں کے مسئلے میں، دوسرے ملکوں سے سمجھوتوں کے بارے میں، عدل و انصاف کے قیام کے معاملے میں، سماجی انصاف قائم کرنے کے معاملے میں پیغمبر کی اطاعت ہونی چاہیے؛ اس کا مطلب ہے حکومت۔ کیا حکومت کے معنی اس کے علاوہ کچھ ہیں۔ قرآن مجید میں اسلام کی حکمرانی کو اتنی صراحت کے ساتھ بیان کیا گيا ہے۔
امام خامنہ ای
4 جون 2021
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ اس نظریے (اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل) کے مخالفین بھی تھے۔ پہلے ہی دن سے اس معاملے کے دونوں پہلوؤں کے یعنی حکومت کے اسلامی ہونے اور جمہوریت دونوں کے سخت مخالفین تھے اور آج تک اس کے مخالفین ہیں جن کی اپنی آراء ہیں۔