امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR اس معصوم امام کی حیات نورانی کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے مورخہ 11 جون 1979 کے ایک اہم خطاب کے چند اقتباسات شائع کر رہی ہے۔
میں آج امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک بڑی اہم خصوصیت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، البتہ ان کی ذات متعدد نمایاں پہلوؤں اور خصوصیات کی حامل تھی لیکن جس خصوصیت کے بارے میں آج میں بات کرنا چاہتا ہوں وہ ان کی سب سے نمایاں اور سب سے اہم خصوصیات میں سے ایک ہے اور وہ ان کا تغیر آفرینی اور تغیر انگيزی کا جذبہ ہے۔
ان دنوں ملک کے بعض حکام سے ایسی باتیں سنائی دیں جو تعجب خیز اور افسوسناک ہیں۔ ہم نے سنا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اور مخالف ذرائع ابلاغ نے بھی ان باتوں کو نشر کیا۔
آپ دیکھئے کہ اچانک قم میں اشعریین نظر آنے لگے۔ وہ کیوں آئے؟ اشعریین تو عرب ہیں۔ وہ آئے قم۔ قم میں حدیث و اسلامی معارف کا بازار گرم ہو گيا۔ احمد بن اسحاق اور دوسرے افراد نے قم کو اپنا مرکز بنایا۔ ری کے علاقے میں وہ ماحول پیدا ہوا کہ شیخ کلینی جیسی ہستیاں وہاں سے نکلیں۔ اس لئے کہ شیخ کلینی جیسی عظیم ہستی یونہی اچانک کسی شہر میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ شیعہ ماحول ہو، مومنین کا ماحول ہو تاکہ اس ماحول میں پرورش پاکر بچہ بڑا ہو اور جوانی کے مراحل طے کرے اور ایسی خصوصیات کے ساتھ اس کی پرورش ہو کہ محمد بن یعقوب کلینی بن جائے۔ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا۔ آپ دیکھئے کہ شیخ صدوق رضوان اللہ علیہ ہرات، خراسان وغیرہ تک گئے اور جاکر شیعوں کی احادیث جمع کیں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ خراسان میں شیعہ محدثین کیا کر رہے تھے؟ شیعہ محدثین سمرقند میں کیا کر رہے تھے؟ سمرقند کہاں ہے؟ شیخ عیاشی سمرقندی خود سمرقند میں تھے۔ یعنی اسی شہر سمرقند میں تھے جس کے بارے میں کہا گيا ہے؛ «کانَت مَرتَعاً لِلشّیعَة وَ أَهلِ العِلم» یہ شیخ کشّی کے بیانوں میں ہے۔ خود شیخ کشّی بھی سمرقندی تھے۔ یعنی امام رضا علیہ السلام کی ایک تحریک، آپ کا آنا اور اس کے بعد حضرت کی مظلومانہ شہادت کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ یہ پورا علاقہ ائمہ علیہم السلام کے زیر نگیں ہو گیا۔ ائمہ علیہم السلام نے ان حالات سے استفادہ کیا۔ یہ مراسلہ نگاری، یہ آمد و رفت اور ابو الادیان وغیرہ جیسے افراد کو جو آپ دیکھتے ہیں تو یہ سب کچھ آسانی سے نہیں ہوا۔
سامرا کوئی بڑا شہر نہیں تھا، بلکہ ایسا شہر تھا اور ایسا دار الخلافہ تھا جسے نیا نیا بسایا گيا تھا اور وہاں حکومت کے عمائدین، عہدیداران وغیرہ اور عوام الناس کی بس اتنی تعداد رہتی تھی کہ روز مرہ کی ضرورت ان سے پوری ہو جائے۔ سُرّ مَن رأىٰ یا سامرا در حقیقت بغداد کے بعد ایک نو تعمیر شدہ شہر تھا۔ اسی شہر سامرا میں ان دونوں ہستیوں امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام نے رابطے اور اطلاع رسانی کا ایسا عظیم نیٹ ورک بنایا کہ وہ عالم اسلام کے گوشے گوشے تک پھیل گيا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یعنی ہم ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے ان پہلوؤں کو جب دیکھتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کر رہے تھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ صرف نماز، روزے اور طہارت و نجاست وغیرہ کے مسائل بیان نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اسی اسلامی معنی و مفہوم کے ساتھ امام کی منزلت میں تھے اور امام کی حیثیت سے لوگوں سے بات کرتے تھے۔
میری نظر میں یہ پہلو بہت زیادہ قابل توجہ ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ سے سامرا لایا گيا اور جوانی کے ایام میں بیالیس سال کی عمر میں حضرت کو شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو اٹھائیس سال کی عمر میں شہید کر دیا گیا۔ یہ ساری چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ پوری تاریخ میں ائمہ علیہم السلام، آپ کے شیعوں اور اصحاب کی عظیم مہم مسلسل جاری رہی۔ حالانکہ حکومت بے حد ظالم تھی، ظالمانہ برتاؤ کرتی تھی لیکن اس کے باوجود ائمہ علیہم السلام کامیاب رہے۔ یعنی ائمہ کی غریب الوطنی اور بے کسی کے ساتھ ہی اس وقار اور اس عظمت کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
امام خامنہ ای
10 مئی 2003
رہبر انقلاب اسلامی نے 8 جنوری 2021 کے اپنے خطاب میں جہاں مختلف موضوعات کا احاطہ کیا وہیں یہ بھی بتایا کہ کس طرح امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے عالمی صحافتی اداروں کے اندر دراندازی کرتی ہے اور مصنفین و ذرائع ابلاغ کی زبان و قلم سے اپنی مرضی کے موضوعات کی تشہیر کرواتی ہے۔
اس مختصر سی عمر میں ایک نوجوان خاتون اتنے عظیم روحانی مدارج طے کرکے اولیاء و انبیاء اور ان جیسی ہستیوں کی صف میں کھڑی ہو جائے اور اولیائے الہی سے سیدہ نساء العالمین کا لقب حاصل کرے!!! اس عظیم روحانی مرتبے کے ساتھ ساتھ نمایاں اور ممتاز خصوصیات و صفات کا ظہور اور آپ کی شخصی زندگی کی عظیم حصولیابیاں یہ سب سبق اور درس ہے۔ آپ کا تقوی، آپ کی عفت و طہارت، آپ کی مجاہدت، شوہر کی اطاعت، بچوں کی تربیت، سیاسی شعور، اس زمانے کے انسان کے تمام حیاتی شعبوں میں بھرپور شراکت، بچپن میں بھی نوجوانی میں بھی اور شادی کے بعد کے ایام میں بھی، یہ سب سبق ہے۔ صرف آپ خواتین کے لئے سبق نہیں بلکہ تمام بشریت کے لئے سبق ہے۔ 20 اپریل 2014
ستارے آسمان میں چمکتے ہیں۔ وہاں عالم عظیم ہے۔ کیا یہ ستارے وہی ہیں جو ہم آپ دیکھتے ہیں؟ بعض ستارے جو آسمان میں ایک نقطے کی طرح جھلملاتے ہیں، در حقیقت کہکشائیں ہیں۔ کوئی ستارہ اس کہکشاں سے بھی جس میں اربوں ستارے ہیں، بڑا ہوتا ہے۔ مگر ہمیں اور آپ کو وہ ایک چھوٹا روشن ستارہ نظر آتا ہے۔ اچھا، ان باتوں کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ عاقل انسان کو جس کو خدا نے آنکھیں دی ہیں، ان ستاروں سے اپنی زندگی میں استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن فرماتا ہے و بالنجم ھم یھتدون ان کے ذریعے راستہ تلاش کرتے ہیں۔
عالم خلقت کے یہ ستارے وہی نہیں ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ان باتوں سے بہت بالاتر ہیں۔ ہم صرف درخشندگی دیکھتے ہیں مگر آپ کی ہستی اس سے بہت عظیم ہے۔ ہم اور آپ کیا استفادہ کرتے ہیں؟ کیا جان لینا ہی کافی ہے کہ آپ حضرت زہرا ہیں؟ میں نے روایت میں پڑھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا کی نورانیت ایسی ہے کہ اس سے ملکوت اعلی کے رہنے والوں کی آنکھیں بھی خیرہ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں اس درخشاں ستارے سے خدا کا راستہ، بندگی کا راستہ، جو سیدھا راستہ ہے اور جس پر چل کر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اعلی مدارج طے کئے، وہ راستہ تلاش کرنا چاہئے۔
24 نومبر سنہ 1994 عیسوی
اہل بیت علیہم السلام کی معرفت اور ان ذوات مقدسہ سے عقیدت بہت بڑی نعمت ہے۔ خداوند عالم نے اس حقیقت کے ادراک سے ہماری آنکھوں کو محروم و قاصر نہیں رکھا، ہمیں ان درخشاں اور ضوفشاں انوار کو اپنی استعداد بھر دیکھنے اور سمجھنے پر قادر بنایا، ان سے عشق و ارادت رکھنے کا موقعہ عنایت فرمایا اور ان سے ہمیں غافل نہیں رکھا۔ اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنے پر اگر ہم اپنی پوری زندگی صرف کر دیں تو بھی کم ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان والدین پر، ان پیشروؤں اور ان رہنماؤں پر جنہوں نے معنویت کے ان آفتابوں کی جانب کھلنے والا دریچہ ہمارے وجود میں رکھ دیا، ہمارے بچپن میں، ہماری زندگی کی شروعات میں، گہوارہ نشینی کے دور میں ہمارے کانوں میں محبت اہل بیت کی لوریاں سنائیں اور ہماری روح کو ان عظیم ہستیوں کی محبت سے سیراب کیا۔ پالنے والے! اس محبت و عقیدت و معرفت کو ہمارے دل و جان میں روز بروز زیادہ عمیق اور پختہ بنا۔ ہمیں اس نعمت سے ایک لمحے کے لئے بھی محروم نہ کر۔ 12 مئی 2012
عورت کا مسئلہ ہے۔ مادہ پرست ثقافت نے عورت کے سلسلے میں جو کچھ کیا ہے وہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سلسلے میں بیان کرنے کو بہت کچھ ہے۔ صنف نسواں کے سلسلے میں مغربی ثقافت نے جس گناہ عظیم کا ارتکاب کیا ہے، اس کا اتنی جلدی نہ تو ازالہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی اس کی بھرپائی کی جا سکتی ہے، یہی نہیں اسے آسانی سے بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اس کے لئے نئے نئے نام تلاش کر لیتے ہیں، اپنی دیگر حرکتوں کی طرح۔ وہ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسے انسانی حقوق سے موسوم کر دیتے ہیں، ظلم کرتے ہیں اور اسے قوموں کی حمایت کہتے ہیں، لشکر کشی کرتے ہیں اور اسے دفاع کا نام دیتے ہیں۔ انہوں نے یہ ماحول اور ذہنیت بنا دی ہے کہ دنیا میں عورت کا سب سے اہم فریضہ اگر نہ کہیں تو کم از کم یہ کہنا پڑے گا کہ عورت کے اہم ترین فرائض میں ایک فریضہ یہ ہے کہ خود نمائی کرے، اپنا حسن اور اپنی کشش مردوں کے محظوظ ہونے کے لئے پیش کرے! بد قسمتی کا مقام ہے کہ آج دنیا میں یہی ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ 1 مئی 2013
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے فیوضات ایک چھوٹے سے مجموعے میں جو پوری انسانیت کے مجموعے کے مقابلے میں چھوٹا شمار ہوتا ہے، محدود نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک حقیقت پسندانہ اور منطقی نگاہ ڈالیں تو پوری بشریت حضرت فاطمہ زہرا کی ممنون احسان نظر آئے گی۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ حقیقت ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں عورت کے وقار کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔ اللہ کی بارگاہ میں عورت مرد کی مانند ہے۔ روحانی و الوہی درجات کے حصول کے اعتبار سے ان دونوں صنفوں میں کوئی امتیاز اور تفریق نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام دنیا میں ان انسانوں کے لئے جو استکباری طاقتوں کے تسلط کے نتیجے میں جہالت، بدعنوانی، محرومیت اور تفریق کی گہرائیوں میں پھنسے ہوئے تھے، رحمت و برکت کی نئی کرن تھی۔
پوری تاریخ میں انسان کا ایک بڑا رنج و الم نا انصافی رہی ہے۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام نے اپنی پوری عمر عدل و انصاف قائم کرنے پر صرف کر دی۔ آج مقبوضہ فلسطین صیہونیوں کے بڑے مظالم او نا انصافی کا میدان بنا ہوا ہے۔
21 فروری 2001
کیتھولک عیسائی سسٹم سے تاکید کے ساتھ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف سنجیدگی سے اعتراض کریں۔
21 فروری 2001
اگر عیسی مسیح آج ہمارے درمیان ہوتے تو عالمی استکبار کے عمائدین کے خلاف محاذ سنبھالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے، اربوں انسانوں کی سرگردانی کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں اور کرپشن اور جنگی خو کی سمت دھکیلے جا رہے ہیں۔
28 دسمبر 1991
عیسی مسیح علیہ السلام انسان کو ظلم سے نجات دلانے اور اسے عدل و بندگی پروردگار کی روشنی کی سمت لے جانے کے لئے مبعوث ہوئے۔ یہ ایک سبق ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے جو ان بزرگوار کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
23 دسمبر 2008
ہم عیسائیوں کو چاہتے ہیں اور ان سے محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں
21 جولائی 1997
اسلام میں جو بھی حضرت عیسی اور حضرت مریم کی عصمت کا منکر ہو دین سے خارج ہے۔ عیسائیت کا ہم اس انداز سے احترام کرتے ہیں۔ قرآن اور توریت کی مانند انجیل بھی آسمان سے نازل ہوئی۔ لیکن موجودہ انجیلیں جن کا میں نے مطالعہ کیا وہ بیان حال ہے، یہ وہ چیز نہیں جو آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ اگر ہمیں وہ انجیل مل جاتی تو اسے آنکھ سے لگاتے۔
27 دسمبر 2015
حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا پیغام اللہ کی بندگی اور فرعونیت و سرکشی سے مقابلے کا پیغام ہے۔ آج کچھ لوگ اس عظیم المرتبت نبی خدا کی پیروی کے دعویدار ہونے کے باوجود فرعون پرستوں اور طاغوتی قوتوں کی جگہ پر براجمان ہیں جن سے عیسی ابن مریم نے پیکار کیا۔
27 دسمبر 200
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای شیعہ سنی اتحاد کے ساتھ ہی اسلام و عیسائیت اور ادیان کے اتحاد پر بھی زور دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی سنت اور قرآن کی آیات کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماؤں نے استکبار کے خلاف اپنی جدوجہد مرکوز رکھی۔ استکبار سے مراد کیا ہے اور اس کے مصداق اور مثالیں کیا ہیں اس بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنی مختلف تقاریر میں گفتگو کر چکے ہیں۔ چند اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔
آج مغربی میڈیا میں ایران کے خلاف تحریف کی ایک شدید لہر نظر آ رہی ہے۔ اس گمراہ کن تحریف کا مقصد علاقے اور دنیا کی سطح پر ایرانوفوبیا میں شدت لانا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطابات میں خاص طور پر ایرانوفوبیا کے موضوع کا ذکر کیا اور زور دیکر کہا کہ واشنگٹن ایرانوفوبیا کے حربے کو استعمال کرکے عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مسلمانوں کی توجہ صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانا چاہتا ہے۔
مندرجہ ذیل متن میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطابات کے چند متعلقہ اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ Khamenei.ir 20 اپریل 2019 کی آپ کی ایک تقریر کے کچھ اقتباسات شائع کر رہی ہے جس میں آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کے مستقبل کے بارے میں ایک پیش بینی کی ہے۔
حالانکہ امریکی حکومت نے ایٹمی ڈیل کے تحت اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور اس معاہدے سے نکل گئی تاہم ملت ایران کی بجا اور منطقی توقع یہ تھی کہ یورپی حکومتیں ایٹمی ڈیل کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ باہر نکل جانے سے ہونے والے نقصان کی بھی بھرپائی کرتیں۔ مگر خاصا وقت گزر جانے کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا۔
اتحاد کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنا چاہئے۔ ایک تو اندرونی عامل ہے؛ ہمارا یہ تعصب، اپنے عقیدے کی پابندی، اس پر ہر مسلک کو چاہئے کہ قابو رکھے۔ اپنے اصولوں اور بنیادوں پر عقیدہ و ایمان اچھی و پسندیدہ چیز ہے، اس پر قائم رہنا بھی ٹھیک ہے لیکن یہ جذبہ اپنی بات کے ثابت کرنے کی حدوں سے نکل کر جارحیت، تجاوز اور دشمنی کی حدود میں داخل نہ ہونے پائے۔ امت مسلمہ کے مختلف گروہوں میں ہمارے جو بھائی موجود ہیں وہ ایک دوسرے کا احترام کریں۔
ہمارے عزیز امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا طرز زندگی قرآن کی اس آیت پر استوار نظر آتا ہے: "کہہ دو کہ میں تمہیں ایک ہی چیز کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے قیام کرو" (سورہ سبا، آیت نمبر 46)۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 3 فروری 2020 کو فقہ کے درس خارج کے آغاز میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کی تشریح کی جس میں نیند سے جاگ کر اپنا دن شروع کرنے والے افراد کو تین گروہوں میں رکھا گيا ہے۔
پاسداران انقلاب فورس آئی آر جی سی کے کمانڈروں نے شام کے شہر دیر الزور میں داعش کے ٹھکانوں پر کامیاب حملے کے بعد رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے میزائل کے شعبے میں پاسداران انقلاب فورس کی پیشرفت کی قدردانی کی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے چند نکات پر تاکید فرمائی:
بعض لوگوں نے بڑی اچھی جوانی گزاری مگر ان کا بڑھاپا الامان!
بحق حضرت علی اکبر علیہ السلام خداوند عالم آپ نوجوانوں کو اسلام کی خدمت کے لئے محفوظ رکھے اور آپ کو ثابت قدم رکھے۔ نوجوانوں کو اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے کہ وہ صراط مستقیم کو پہچان سکتے ہیں، اس سے قلبی وابستگی پیدا کر سکتے ہیں، خود کو صراط مستقیم کی شکل میں ڈھال سکتے ہیں، تاہم اس حالت کو قائم رکھنا بہت سخت ہے۔
شب قدر، دعا و مناجات اور ذکر پروردگار میں ڈوب جانے کی شب ہے۔ پورا ماہ رمضان المبارک بالخصوص شبہائے قدر، ذکر پروردگار اور خضوع و خشوع کی بہار ہے۔ اسی طرح یہ بہترین موقع ہے اپنے ذہن و دل کو امیر المومنین، سید المتقین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ملکوتی مقام و منزلت سے آشنا کرنے اور درس لینے کا۔
پیش نظر اقوال مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گہربار احادیث اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ارشادات کا وہ انتخاب ہے جو قائد انقلاب اسلامی نے احادیث کی معتبر کتب سے فقہ کے دروس میں حسن آغاز کے عنوان سے مختصر شرح و توضیح کے ساتھ پیش کیا ہے۔