ایران نے سر دست امریکی چھاونی پر اپنے میزائلوں سے ایک جوابی حملہ کیا ہے اور ظالم و متکبر حکومت کی عزت و آبرو خاک میں ملا دی، تاہم اس کی اصلی سزا علاقے سے اخراج ہے۔
ہمارے عظیم قائد امام خمینی نے جنگ کے ایک اہم واقعے پر ایک فوجی آپریشن کے معاملے میں جس میں ہمارے جوانوں کو فتح نصیب ہوئی تھی، ایک پیغام دیا۔ اس پیغام میں یہ نکتہ تھا کہاسلامی انقلاب کی سب سے فیصلہ کن فتح ان جوانوں کی تربیت ہے۔ وہ اسلام اور مکتب امام خمینی کے پروردہ افراد کا ممتاز نمونہ تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی جہاد فی سبیل اللہ میں گزاری۔ شہادت ان طویل برسوں پر محیط ان کی جدوجہد کا انعام تھا۔
شہید سلیمانی شجاع بھی تھے۔ یہ صرف ان دنوں کے واقعات کی بات نہیں ہے، بلکہ مقدس دفاع کے دور میں بھی جب وہ ثار اللہ ڈویژن کے کمانڈر تھے، ایسے ہی تھے۔ بڑے مدبر انسان تھے۔ ان کی بات میں بڑا اثر تھا، قائل کر دینے والی بات ہوتی تھی۔ ان ساری چیزوں سے زیادہ اہم ان کا اخلاص تھا، با اخلاص تھے۔ وہ اپنی شجاعت اور اپنی مدبرانہ صلاحیت کو اللہ کے لئے استعمال کرتے تھے، دکھاوے اور ریا والے انسان نہیں تھے۔ میدان جنگ میں، کبھی لوگ حدود الہی کو بھول جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ اس قسم کی باتوں کا وقت نہیں ہے۔ مگر وہ نہیں، وہ بہت محتاط تھے۔
مقدس دفاع کے دور میں عوامی شراکت کا ایک نیا ماڈل وجود میں آیا۔ عوامی شراکت کا انداز حیرت انگیز انداز ہے۔ سارے عوام، جو بھی اس میدان میں دلچسپی رکھتے تھے، جو کوئی بھی تھا، جو بھی تھا، ایک زندہ اور کارآمد نیٹ ورک کے اندر رضاکارانہ طور پر، جوش و جذبے کے ساتھ اپنی جگہ پا گیا۔
"تمہارا کیا نام ہے؟
قاسم!
فیملی نیم؟
سلیمانی!
پڑھائی نہیں کرتے؟
کیوں نہیں، لیکن کام بھی کرنا چاہتا ہوں۔
چند منٹ بعد ایک پلیٹ چاول اور سالن آ گیا۔ میں اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسے قورمہ سبزی کہتے ہیں۔"
یہ 14 سال کے قاسم سلیمانی کی سرگزشت ہے تقریبا 1972 کے آس پاس کے دور کی۔ جب انہوں نے اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑا اور صوبے کے مرکزی شہر پہنچ گئے، جہاں وہ اپنے خیال کے مطابق کام کرکے والد کا قرضہ اتارنا چاہتے تھے۔ آپ خود کو اس زمانے کے اہل کرمان کی جگہ پر رکھئے! ایک قبائلی دیہات کے نو عمر اور ناتجربہ کار بچے کو جو زندگی میں پہلی دفعہ قورمہ سبزی کھا رہا تھا، کون کام دینے پر تیار ہوتا؟! قاسم نے لیکن عہد کیا تھا کہ والد کا قرض ادا کرنا ہے۔ وہ اپنے عہد پر قائم رہا۔
بچپن اور نوجوانی کے ایام کے بارے میں الحاج قاسم کی ڈائری کے مطالعے سے ایک چیز بہت اچھی طرح قاری کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے کہ بڑے کارنامے انجام دینے کے لئے بہت زیادہ وسائل، رئیس زادہ ہونے اور لاؤ لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بس اتنا کافی ہے کہ اللہ کے نیک بندے بنئے۔ جہاں مرضی پروردگار کا علم ہے آگاہانہ اس راہ پر چلئے اور جہاں اس کی مرضی کا علم نہیں وہاں اپنی پاکیزہ فطرت کی آواز سنئے اور کسی چیز سے نہ ڈرئے۔ اگر ایسا ہو گیا تو اللہ آپ کو سعہ صدر عطا کرے گا کہ آپ بڑے سے بڑا غم بھی بخوشی قبول کر لیں گے اور آپ کے بازوؤں کو ایسی قوت عطا کرے گا کہ وہ اس کی امانت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائیں گے۔ آپ کا نام بڑا ہو جائے گا کیونکہ آپ ایک عظیم راستے کے مسافر بن گئے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو عمر کے پانچویں اور چھٹے عشرے میں بھی آپ کی زندگی اسی پاک و پاکیزہ انداز میں جاری رہے گی جو پاکیزگی بارہ تیرہ سال کی عمر میں آپ کے اندر ہوتی ہے۔
خواہ وہ 1976 کا سال ہو، شہر کرمان ہو، قبائلی والدین کے سائے سے آپ دور ہوں لیکن وہی پاکیزگی و طہارت رہے گی جو گاؤں کی زندگی میں ہوتی ہے، پوری عمر پاکیزہ فطرت کی رہنمائی کے مطابق گزرتی ہے، کبھی غلط سمت میں قدم نہیں بڑھتے۔
بعد کے برسوں کی بہت سی خصوصیات و اوصاف اور حاج قاسم کی شخصیت کے شکوہ و وقار کی نشانیاں ان کے بچپن اور لڑکپن کے دور میں ہی دیکھی جا سکتی ہیں۔ سارے انسان ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن فن تو یہ ہے کہ زندگی کے اندر، نفسانی خواہشات و معصیت کے طوفانوں کے ہجوم میں، انسانی فطرت کے پاکیزہ پودے کا خیال رکھا جائے۔ دوسرے بہت سے افراد اور حاج قاسم کا فرق یہیں پر واضح ہوتا ہے۔ ان کی انسانی فطرت کے پاکیزہ پودے کی بخوبی آبیاری ہوئی۔ اس قدر اچھے انداز میں کہ برسوں بعد ایک با عظمت درخت، عزت و شکوہ و پائیداری و استقامت نیز بندگی پروردگار سے متبرک درخت اپنے پھل دینے لگتا ہے۔
حاج قاسم نے اسی انداز میں اپنی سادہ، ہر آلودگی سے پاک، غربت و محرومیت میں ڈوبی ہوئی زندگی کے حالات اسلامی انقلاب کی تحریک اور جدوجہد کے وسطی بروسوں تک بیان کئے ہیں۔ خواہ وہ بچپن کا دور ہو جب وہ اپنے خاندان اور والدین کے ساتھ ٹھنڈے اور گرم علاقوں کے درمیان آمد و رفت میں مصروف رہے، خواہ وہ دور ہو جب نوعمر لڑکے کے طور پر کرمان نام کی بڑی جگہ پر قدم رکھتے ہیں، خواہ وہ دور ہو جب انھوں نے 1974 میں شاہ ایران کے خلاف باتیں سنیں جو ان کے بقول اس وقت تک ان کے ذہن میں بہت اہم شخص تھا، خواہ وہ دور ہو جب 1977میں وہ امام رضا علیہ السلام کے حرم کی زیارت کے طفیل میں اور اس سورج کی روشنی کی برکت سے اس سرچشمے سے متصل ہوئے۔ قاسم کی زندگی کی ساری داستان یہی ہے۔
وہ پاکیزہ فطرت کی آواز پر عمل آوری نیز اپنے سادہ زیست اور گاؤں میں خیموں میں زندگی گزارنے والے والدین کی پاکیزہ و پر خلوص تربیت کے نتیجے میں نفسانی وسوسے اور معصیت سے محفوظ رہے۔ اللہ بھی ان کی حفاظت کرتا رہا اور زمانے کے حوادث و فتنوں کے طوفان میں انھیں اکیلا اور بے سہارا نہیں چھوڑا۔ گویا قاسم کی ساری زندگی بس یہی تھی کہ بعد کے برسوں کے ان کے دوست صیاد شیرازی کے بقول «من کان لله کان الله له» جو بھی اللہ کے ساتھ ہو اللہ اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ خود خداوند عالم کے بقول «وَالَّذينَ جاهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا»۔ آج کل کے لوگوں کے بقول جو لوگ میری راہ پر قدم بڑھاتے ہیں، ان کے لئے میں ہدایت کا راستہ واضح اور '4 لین' (کشادہ) کر دیتا ہوں۔ اسی کو الگ عبارت میں صدیوں پہلے عطار نیشاپوری نے بیان کیا ہے:
«تو پای به راه در نِه و هیچ مپرس؛ خود راه بگویدت که چون باید رفت...»
کرمان رابر قنات ملک کے پہاڑوں اور ٹیلوں کا پاکیزہ اور ہر آلودگی سے دور قاسم اپنی عمر کے آخری لمحے اور بغداد ایئرپورٹ پر اپنی معراج تک فوق الذکر عبارت کے کامل و اتم مصداق تھے۔
انقلاب سے ٹھیک ایک سال قبل خمینی سے آشنائی کے نتیجے میں قاسم کی زندگی بدل گئی اور بندگی پروردگار کی رفتار میں کئی گںا اضافہ ہو گیا۔ نوجوان قاسم کی زںدگی کو برق رفتاری عطا کرنے والے خمینی تھے۔ وہ انھیں خصوصیات، سیرت اور طرز زندگی کا عملی نمونہ اور تصویر تھے جس کی تعلیم برسوں تک انھیں اپنے والدین اور اپنی پاکیزہ فطرت سے ملی تھی اور قاسم نے جسے بغور سنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے عہد کر لیا کہ زندگی کے آخری لمحے تک خمینی کے سپاہی بنے رہیں گے۔ زندگی کی آخری سانس تک وہ اپنے عہد پر قائم رہے۔ آپ نے ضرب المثل سنی ہے کہ سر چلا گیا لیکن عہد کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ قاسم کا سر واقعی چلا گیا لیکن عہد کا دامن نہیں چھوٹا۔۔۔۔
'میں کسی چیز سے نہیں ڈرتا تھا' وہ سوانح زندگی ہے جسے حاج قاسم نے اپنے زخمی ہاتھ سے رقم کیا ہے۔ کرمان کے دور افتادہ گاؤں کے اندر سے نکلنے والے مرد کی زندگی کا تذکرہ جس میں اس نے اپنی سادہ اور پرکشش زندگی کے کچھ حالات آپ کے لئے بیان کئے ہیں۔ یہ اس مرد کی شخصیت کی تعمیر کا قصہ ہے جو چرواہے سے اس مقام پر پہنچا جو آسمانوں کی وسعتوں کی بلندی کا مقابلہ کرے۔
***
اس کتاب کا پہلا نسخہ بدھ 16 دسمبر 2020 کو رہبر انقلاب اسلامی سے شہید سلیمانی کے اہل خانہ کی ملاقات کے اختتام پر رہبر انقلاب اسلامی کی خدمت میں پیش کیا گيا۔ شہید سلیمانی کی بیٹی نے کتاب کے مقدمے میں ذکر کیا ہے:
میں حاج قاسم کی نمائندگی میں آپ کے لئے ایک تحفہ لیکر گئی تھی۔ یہ تحفہ حاج قاسم کا خود نوشت زندگی نامہ تھا جسے ہم شہید کی برسی کے موقع پر کتاب کی شکل میں شائع کرنا چاہتے تھے۔ میرے ہاتھ میں اسی کتاب کا ابتدائی نسخہ تھا۔
ملاقات ختم ہونے کے بعد اسے میں نے رہبر انقلاب کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس کے بارے میں چند سوالات کئے اور اس چھوٹے سے تحفے کو بڑی محبت سے قبول کر لیا۔
ملاقات کے چند دن بعد ان لمحات میں جب کتاب کو حتمی شکل دی جا رہی تھی رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ایک عبارت مجھے موصول ہوئی۔ آپ نے کرم فرمائی کی اور مطالعے سے قبل ایک نوٹ اپنے وفادار سپاہی کی یاد میں تحریر فرمایا تھا۔ محبت و شفقت میں ڈوبی یہ عبارت اس کتاب کے پیکر کے لئے روح بن گئی۔:
جو بھی شئے ہمارے عزیز شہید کے ذکر کو نمایاں کرے بصارت نواز اور دلنواز ہے۔ ان کی یاد کو اگرچہ خداوند عالم نے بام ثریا پر پہنچا دیا اور اس طرح ان کے اخلاص و عمل صالح کا دنیوی اجر بھی انھیں عطا فرمایا لیکن ہم سب کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اس کتاب کو ابھی میں نے پڑھا نہیں ہے لیکن بظاہر یہ اسی راہ میں اٹھایا گیا ایک قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
سید علی خامنہ ای
27 دسمبر 2020
ایران میں جو جلوس جنازہ نکلا وہ واقعی عجیب اور نا قابل فراموش تھا۔ اسی طرح عراق میں دسیوں لاکھ لوگوں کی شرکت سے جو تشییع جنازہ ہوئی، در حقیقت یہ جلوس جنازہ اور اس کے بعد ان کی یاد میں جو پروگرام ہوئے انھیں دیکھ کر استکبار کے سافٹ وار کے ماہرین ششدر رہ گئے۔ ان کی شہادت کے واقعے سے جو صورت حال رونما ہوئی وہ امریکہ پر پڑنے والا پہلا طمانچہ تھا۔
جید عالم دین، ممتاز مفکر اور مجاہد قلمکار آیت اللہ مصباح یزدی کے انتقال پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے تعزیتی پیغام جاری فرمایا۔ 1 جنوری 2021 کو آیت اللہ مصباح یزدی کا انتقال ہو گیا۔
ہمیں انتظار کرنا ہے۔ بشریت کے کارواں کے سفر کے اختتام کے بارے میں ادیان الہی کی نظر آس و امید کی نظر ہے۔ واقعی امام زمانہ کا انتظار، ان سے قلبی وابستگی قائم کرنا، آپ کے آنے کا انتظار امید کا دریچہ ہے اسلامی معاشرے کے لئے۔ ہم فرج کے انتظار میں ہیں تو خود یہ انتظار ایک فرج ہے، گشائش ہے، امید کی کرن ہے، طاقت عطا کرتا ہے۔
آج کچھ لوگ ایسے ہیں جو نبی خدا کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں، مگر ان طاغوتی اور سرکش طاقتوں کی پشت پناہی کرتے ہیں جن کے خلاف حضرت عیسی علیہ السلام نے جہاد کیا۔
امام خامنہ ای
27 دسمبر 2000
سنہ 2009 میں ایران میں بھی دیگر ممالک کی طرح صدارتی انتخابات ہوئے۔ مگر استعماری طاقتوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ ملک کے اندر کچھ عناصر کو ورغلایا اور اپنے مشن پر کام شروع کر دیا۔ لیکن پھر جب ملت ایران نے بیرونی سازشوں کو محسوس کرکے جواب دیا تو ایک تاریخ رقم ہو گئی۔
بہت ذہین انسان تھے۔ اس سلسلے میں بہت سے نکات ہیں۔ یہ جو ایک بظاہر مذہبی تنظیم کے ابھرنے کا مسئلہ ہے، جو خاص مسلک کی جانب مائل ہے جو مزاحمتی محاذ کے خلاف ہے، انھوں نے اس کی پیش بینی پہلے ہی کر دی تھی اور مجھے بتایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میں دنیائے اسلام کے حالات میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں۔ انھوں نے کچھ ملکوں کا نام بھی لیا تھا، اس سے لگتا ہے کہ ایک تنظیم معرض وجود میں آ رہی ہے۔ کچھ عرصہ بعد داعش سامنے آ گئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام دنیا میں ان انسانوں کے لئے جو استکباری طاقتوں کے تسلط کے نتیجے میں جہالت، بدعنوانی، محرومیت اور تفریق کی گہرائیوں میں پھنسے ہوئے تھے، رحمت و برکت کی نئی کرن تھی۔
طاغوت (شاہ) کے اس دور میں، قرآن اور تفسیر کی کلاس میں جو نوجوان آیا کرتے تھے، میں ان سے کہا کرتا تھا کہ اپنی جیب میں ایک قرآن رکھا کیجئے، جب بھی وقت ملے یا کسی کام کے انتظار میں رکنا ہو تو ایک منٹ، دو منٹ، آدھا گھنٹہ، قرآن کھولئے اور تلاوت کیجئے، تاکہ اس کتاب سے انسیت ہو جائے۔
پوری تاریخ میں انسان کا ایک بڑا رنج و الم نا انصافی رہی ہے۔ حضرت عیسی مسیح علیہ السلام نے اپنی پوری عمر عدل و انصاف قائم کرنے پر صرف کر دی۔ آج مقبوضہ فلسطین صیہونیوں کے بڑے مظالم او نا انصافی کا میدان بنا ہوا ہے۔
21 فروری 2001
کیتھولک عیسائی سسٹم سے تاکید کے ساتھ ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ فلسطین میں صیہونیوں کے جرائم کے خلاف سنجیدگی سے اعتراض کریں۔
21 فروری 2001
اگر عیسی مسیح آج ہمارے درمیان ہوتے تو عالمی استکبار کے عمائدین کے خلاف محاذ سنبھالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے، اربوں انسانوں کی سرگردانی کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں اور کرپشن اور جنگی خو کی سمت دھکیلے جا رہے ہیں۔
28 دسمبر 1991
عیسی مسیح علیہ السلام انسان کو ظلم سے نجات دلانے اور اسے عدل و بندگی پروردگار کی روشنی کی سمت لے جانے کے لئے مبعوث ہوئے۔ یہ ایک سبق ہے عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے جو ان بزرگوار کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
23 دسمبر 2008
ہم عیسائیوں کو چاہتے ہیں اور ان سے محبت اور لگاؤ رکھتے ہیں
21 جولائی 1997
اسلام میں جو بھی حضرت عیسی اور حضرت مریم کی عصمت کا منکر ہو دین سے خارج ہے۔ عیسائیت کا ہم اس انداز سے احترام کرتے ہیں۔ قرآن اور توریت کی مانند انجیل بھی آسمان سے نازل ہوئی۔ لیکن موجودہ انجیلیں جن کا میں نے مطالعہ کیا وہ بیان حال ہے، یہ وہ چیز نہیں جو آسمان سے نازل ہوئی تھی۔ اگر ہمیں وہ انجیل مل جاتی تو اسے آنکھ سے لگاتے۔
27 دسمبر 2015
دنیا پر مسلط طاقتوں اور حکومتوں نے جو عیسائیت کے زیر سایہ اور عیسائیت کے بھیس میں نظر آتی ہیں جبکہ در حقیقت وہ حضرت مسیح کی روش اور تعلیمات سے بیگانہ اور مادہ پرست ہیں، مظلوم افراد اور قوموں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
امام خامنہ ای
دشمن پر اعتماد نہ کیجئے۔ یہ تاکید کے ساتھ میری نصیحت ہے۔ دشمن پر بھروسہ نہ کیجئے۔ آپ نے دیکھ لیا کہ ٹرمپ کے امریکہ نے اور اوباما کے امریکہ نے آپ کے ساتھ کیا کیا۔ البتہ یہ صرف ٹرمپ تک محدود نہیں ہے کہ مثلا یہ فرض کر لیجئے کہ ٹرمپ کا دور ختم ہوا تو یہ کہا جائے کہ دشمنی ختم ہو گئی۔ نہیں، اوباما کے امریکہ نے بھی آپ کے ساتھ بدی کی، ملت ایران کے ساتھ بدی کی، تین یورپی ممالک کا بھی وہی حال ہے۔
اگر عیسی مسیح آج ہمارے درمیان ہوتے تو عالمی استکبار کے عمائدین کے خلاف محاذ سنبھالنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرتے، اربوں انسانوں کی سرگردانی کو ہرگز برداشت نہ کرتے جو بڑی طاقتوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں اور کرپشن اور جنگی خو کی سمت دھکیلے جا رہے ہیں۔
امام خامنہ ای
حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا پیغام اللہ کی بندگی اور فرعونیت و سرکشی سے مقابلے کا پیغام ہے۔ آج کچھ لوگ اس عظیم المرتبت نبی خدا کی پیروی کے دعویدار ہونے کے باوجود فرعون پرستوں اور طاغوتی قوتوں کی جگہ پر براجمان ہیں جن سے عیسی ابن مریم نے پیکار کیا۔
27 دسمبر 200
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای شیعہ سنی اتحاد کے ساتھ ہی اسلام و عیسائیت اور ادیان کے اتحاد پر بھی زور دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی سنت اور قرآن کی آیات کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔ یہاں چند اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔
حقیر کے لئے اس پوری مدت میں عوام سے ملاقات بڑی مسرت بخش رہی ہے اور عوام الناس سے ملاقات میرے لئے بڑی پرکشش ہوتی ہے کہ لوگوں کی باتیں سنوں، اپنی بات کہوں۔ مختلف عوامی طبقات سے ملاقات کروں۔ یہ حقیر اور خطرناک دشمن، یعنی کورونا وائرس جو بہت حقیر اور چھوٹا بھی ہے لیکن بہت خطرناک بھی ہے، اس نے رکاوٹ ڈال دی ہے۔ دوسری بہت سی دلچسپی کی چیزوں کی مانند یہ موقع بھی ہم سے سلب کر لیا۔
شہید سلیمانی ملت ایران کے بھی قومی ہیرو بنے اور مسلم امہ کے بھی چیمپیئن بنے۔ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ ایرانیوں کو بھی اپنے اوپر ناز ہے کہ ان کے درمیان سے ایک مرد ایک دور افتادہ گاؤں سے اٹھتا ہے، محنت کرتا ہے، جدوجہد کرتا ہے، خود سازی کرتا ہے اور مسلم امہ کی درخشاں شخصیت اور چیمپیئن بن جاتا ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کے رہنماؤں نے استکبار کے خلاف اپنی جدوجہد مرکوز رکھی۔ استکبار سے مراد کیا ہے اور اس کے مصداق اور مثالیں کیا ہیں اس بارے میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای اپنی مختلف تقاریر میں گفتگو کر چکے ہیں۔ چند اقتباسات یہاں پیش کئے جا رہے ہیں۔
شہید سلیمانی کے قاتل اور قتل کا حکم صادر کرنے والے کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ حالانکہ کے سلیمانی کے جوتے بھی ان کے قاتل کے سر سے زیادہ شرف رکھتے ہیں۔
امام خامنہ ای
16 دسمبر 2020
رہبر انقلاب اسلامی نے بنت علی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ٹی وی پر براہ راست خطاب میں نرس ڈے کی مبارکباد دی۔ 20 دسمبر 2020 کے اپنے خطاب میں آپ نے فرمایا کہ آج نرسنگ کے پیشے سے وابستہ افراد عوام کی نگاہ میں پہلے سے زیادہ محترم ہو گئے ہیں۔ آپ نے نرس کو بیمار کے لئے فرشتۂ رحمت قرار دیا۔
نرس بیمار کے لئے فرشتہ رحمت ہے۔ یہ بالکل صحیح لفظ ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ اس کا بیمار کے جسم سے بھی سروکار رہتا ہے اور اس کے ذہن و روح سے بھی۔ نرس در حقیقت بیمار کے لئے غمگسار، شفیق ہستی اور آسودگی کا ذریعہ ہے۔
~امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے بنت علی حضرت زینب کبریٰ علیہا السلام کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ٹی وی پر براہ راست خطاب میں نرس ڈے کی مبارکباد دی۔ آپ نے فرمایا: "تمام عزیز نرسز کو نرسز ڈے کی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو بی بی زینب سلام اللہ علیہا کے نام سے مزین ہے۔ نرسز کے ان محترم خاندانوں کو تعزیت پیش کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے اس کورونا میں اپنے عزیزوں کو کھو دیا۔
پابندیاں اٹھانا دشمن کے ہاتھ میں ہے اور پابندیوں کو بے اثر بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے...ہمیں زیادہ اسی کی فکر ہونا چاہئے۔ البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم پابندیاں ہٹوانے کی کوشش ہی نہ کریں۔ کیوں نہیں، اگر واقعی پابندیوں کو ہٹوا سکتے ہیں تو اس میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں کرنا چاہئے... 2016 سے ہی پابندیاں ایک ساتھ ہٹنے والی تھیں، لیکن اب تک ہٹیں تو نہیں، ان میں اضافہ ضرور ہو گیا۔
~امام خامنہ ای
16 دسمبر 2020
رہبر انقلاب اسلامی نے بنت علی حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت اور نرس ڈے کی مناسبت سے ٹی وی پر براہ راست خطاب میں نرس ڈے کی مبارکباد دی۔ 20 دسمبر 2020 کے اپنے خطاب میں آپ نے فرمایا کہ آج نرسنگ کے پیشے سے وابستہ افراد عوام کی نگاہ میں پہلے سے زیادہ محترم ہو گئے ہیں۔ آپ نے نرس کو بیمار کے لئے فرشتۂ رحمت قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛
اسلامی انقلاب در اصل دور جاہلیت کے طور طریقوں کے خلاف، جو ظلم، تفریق اور نسل پرستی کا باعث بنے، علم بغاوت بلند کرنے سے عبارت ہے۔
امام خامنہ ای
16 جون 1991
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح شہید جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کے پروگرام کے منتظمین اور اس عظیم شہید کے اہل خانہ سے ملاقات میں شہید قاسم سلیمانی کو مسلم امہ کا چیمپیئن اور ملت ایران کا قومی ہیرو قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کے پروگراموں کا اہتمام کرنے والی کمیٹی کے ارکان اور شہید سلیمانی کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
آج مغربی میڈیا میں ایران کے خلاف تحریف کی ایک شدید لہر نظر آ رہی ہے۔ اس گمراہ کن تحریف کا مقصد علاقے اور دنیا کی سطح پر ایرانوفوبیا میں شدت لانا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطابات میں خاص طور پر ایرانوفوبیا کے موضوع کا ذکر کیا اور زور دیکر کہا کہ واشنگٹن ایرانوفوبیا کے حربے کو استعمال کرکے عرب ممالک کو ہتھیار فروخت کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور مسلمانوں کی توجہ صیہونی حکومت کی جانب سے ہٹانا چاہتا ہے۔
مندرجہ ذیل متن میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطابات کے چند متعلقہ اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔
صدام کی لشکر کشی جس نے آٹھ سال تک ہمیں جدوجہد اور جنگ کی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں تھا۔ خود مختار اور حریت پسند اقوام کے خلاف استکبار کی دائمی روش یہی ہے۔ میری صدارت کے ابتدائی برسوں کی بات ہے گنی کوناکری کے صدر احمد سیکوتورے جو افریقا کی ممتاز انقلابی، باوقار، علمی و سیاسی شخصیت کے حامل تھے اور ساری دنیا میں اور یورپ میں بھی ان کی بڑی عزت تھی، ایران آئے۔ مجھ سے گفتگو میں انھوں نے یہ بات کہی کہ انقلاب کے بعد آپ پر بغداد کا حملہ شروع ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ بیشتر خود مختار ممالک کے خلاف سامراج نے یہ ایک حربہ ضرور استعمال کیا کہ سرحدوں کی طرف سے اس پر فوجی دباؤ بڑھا دیا تاکہ اس ملک کے مالیاتی اور انسانی وسائل تباہ ہو جائیں اور وہ ملک ان قوتوں کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے کے قابل نہ رہے۔ تو یہ ہمارے خلاف دشمن کا طے شدہ منصوبہ تھا۔
یہی امریکی اور ان کے موجودہ وزیر دفاع جو آئے دن اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، ان افراد میں تھے جو صدام سے، خود تعاون کر رہے تھے، اس کی سائنسی، اسلحہ جاتی اور انٹیلیجنس مدد کر رہے تھے تاکہ وہ ایران کو شکست دے سکیں۔ مگر وہ ناکام رہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ بیدار ہیں اور جب تک عہدیداران حقیقی معنی میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی محسوس کر رہے ہیں، اس وقت تک امریکہ اور دوسری طاقتیں اس ملت اور اس نظام کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔
امام خامنہ ای
14 اکتوبر 2003
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی جانب سے سائنسداں محسن فخری زادہ شہید کو نشان نصر (فارسی میں فتح کو نصر بھی کہتے ہیں) ایوارڈ سے نوازا گیا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ Khamenei.ir 20 اپریل 2019 کی آپ کی ایک تقریر کے کچھ اقتباسات شائع کر رہی ہے جس میں آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کے مستقبل کے بارے میں ایک پیش بینی کی ہے۔
حالانکہ امریکی حکومت نے ایٹمی ڈیل کے تحت اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا اور اس معاہدے سے نکل گئی تاہم ملت ایران کی بجا اور منطقی توقع یہ تھی کہ یورپی حکومتیں ایٹمی ڈیل کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس معاہدے سے امریکہ کے یکطرفہ باہر نکل جانے سے ہونے والے نقصان کی بھی بھرپائی کرتیں۔ مگر خاصا وقت گزر جانے کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا۔