عاشورہ، درس و عبرت کا سرچشمہ

قربانی امام حسین علیہ السلام ، عاشور کا واقعہ، اآپ کا چہلم اور دیگر مناسبتیں، تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین موڑ ہے جہاں حق و باطل کا فرق پوری طرح نمایاں ہو گیا۔ اس قربانی سے اسلام محمدی کو نئی زندگی ملی اور اس دین الہی کو بازیجہ اطفال بنا دینے کے لئے کوشاں ی

1992 July
آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہيں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہيں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہيں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہيں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے _
1992/07/01
یہ اہم نکتہ یہ درس ہے کہ حسین ابن علی علیہ السلام ، تاریخ اسلام کے ایک حساس دور میں مختلف فرائض میں اصلی فریضہ کی شناخت کی اور اس پر عمل در آمد کیا - انہوں اس چیز کی شناخت میں جس کی اس دور میں ضرورت تھی کسی قسم کا وہم و تذبذب نہيں کیا جبکہ یہ چیز مختلف زمانوں میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کا ایک کمزور پہلو ہے یعنی یہ کہ عالم اسلام کے عوام اور ان کے اہم رہنما کسی خاص دور میں اصل فریضے کے بارے میں غلطی کریں اور انہيں یہ نہ پتہ ہو کہ کون سا کام اصل ہے اور اسے کرنا چاہئے اور دوسرے کاموں کو اگر ضرورت ہو تو اس پر قربان کر دیا جائے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ کون سا کام اہم اور کون سا کام دوسرے درجے کی اہمیت کا حامل ہے اور کس کام کو کتنی اہمیت دینی چاہئے اور کس کام کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے ۔  حسین ابن علی علیہ السلام کے تحریک کے زمانے میں ہی بہت سے ایسے لوگ تھے کہ اگر ان سے کہا جاتا کہ اب قیام کا وقت ہے اور اگر وہ سمجھ جاتے کہ اس قیام کے اپنے مسائل ہیں تو وہ دوسرے درجے کے اپنے فرائض سے چپکے رہتے جیسا کہ ہم نے دیکھا کچھ لوگوں نے ایسا ہی کیا ۔ حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ تحریک میں شامل نہ ہونے والوں میں مومن و پابند شرع افراد بھی تھے ۔ ایسا نہيں تھا کہ سب کے سب اہل دنیا تھے ۔ اس دور میں عالم اسلام کے برگزیدہ افراد اور اہم شخصیات میں مومن اور ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے فریضے پر عمل کرنا چاہتے تھے لیکن فریض کی شناخت نہيں کر پاتے تھے ، زمانے کے حالات کی سمجھ نہيں رکھتے تھے ، اصل دشمن کو نہيں پہچانتے تھے اور اہم اور پہلے درجے کی اہمیت کے حامل کاموں کے بجاۓ دوسرے اور تیسرے درجے کے کاموں کو اختیار کرتے تھے یہ عالم اسلام کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت رہی ہے ۔ آج بھی ہم اس مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہيں اور زیادہ اہم چیز کے بدلے کم اہم کام کر سکتے ہیں ۔ اصل کام کو جس پر سماج ٹکا ہوا ہو ، تلاش کرنا چاہئے ۔ کبھی اسی ہمارے ملک میں سامراج و کفر و ظلم و جور کے خلاف جد و جہد کی باتیں ہوتی تھیں لیکن کچھ لوگ اسے فرض نہيں سمجھتے تھے اور دوسرے کاموں میں مصروف تھے اور اگر کو‏ئی درس دیتا تھا یا کتاب لکھتا تھا یا چھوٹا موٹا مدرسہ چلاتا تھا اگر کچھ لوگوں کے بیچ تبلیغ کا کام انجام دیتا تھا تو وہ یہ سوچتا تھا کہ اگر جد و جہد میں مصروف ہو جائے گا تو یہ کام بند ہو جائيں گے ! اتنی عظیم جد و جہد کو چھوڑ دیتا تھا کہ ان کاموں کو پورا کر سکے ! یعنی ضروری اور اہم کام کی شناخت میں غلطی کرتا تھا ۔  حسین ابن علی علیہ السلام نے اپنے خطبوں سے یہ سمجھا دیا کہ عالم اسلام کے لئے ان حالات میں ظالم و جابر طافت کے خلاف جد و جہد اور شیطانی طاقتوں سے انسانوں کو نجات دلانے کے لئے لڑائی سب سے زیادہ ضروری کام ہے ۔ ظاہر ہے حسین ابن علی علیہ السلام اگر مدینے میں ہی رہ جاتے اور عوام کے درمیان احکام اسلام اور علوم اہل بیت پھیلاتے تو کچھ لوگوں کی تربیت ہو جاتی لیکن جب اپنے مشن پر وہ عراق کی سمت بڑھے تو یہ سارے کام رہ گئے وہ لوگوں کو نماز کی تعلیم نہيں دے سکتے تھے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث لوگوں کے سامنے بیان نہیں ہو سکتی تھیں ، درس گاہ اہل بیت بند ہو جاتی اور مدینہ کے یتیموں اور بے نواؤں کی امداد بھی ممکن نہیں ہوتی ۔ یہ سب ایسے کام تھے جنہيں آپ انجام دیتے تھے لیکن آپ نے ان تمام کاموں کو ایک زيادہ اہم کام پر قربان کر دیا ۔ یہاں تک کہ حج جیسے فریضے کو بھی جس کے بارے میں تمام مبلغین بات کرتے ہيں اس فریضے پر قربان کر دیا وہ فریضہ کیا تھا ؟ جیسا کہ آپ نے فرمایا اس نظام کے خلاف جد و جہد جو بد عنوانی کی کی جڑ تھا ۔ آپ نے فرمایا : «اُریدُ اَن اَمُرَ بالْمَعْروف وَاَنْهى‏ عَنِ الْمُنْكَر وَ اَسیرَ بِسیرة جَدّى.» میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور اپنے جد کی سیرت پر چلنا چاہتا ہوں اسی طرح آپ نے ایک دوسرے خطبے میں فرمایا کہ «اَیهاالنّاس! اِنَّ رَسول‏اللَّه، صلّى‏اللَّه‏علیه‏وآله، قال مَنْ رأى‏ سُلطاناً جائراً مُسْتَحِلّاً لِحُرَمِ اللَّه، ناكِثاً لِعَهْداللَّه [تا آخر] فَلَمْ یُغَیِّر عَلَیْهِ بِفِعْلٍ و َلا قَولٍ كانَ حَقاً عَلَى‏اللَّه اَنْ یَدخل یُدْخِلَهُ مُدْخِلَه.» یعنی ظالم و جابر سلطان کے مقابلے میں تبدیلی ، یعنی وہ طاقت بدعنوانی پھیلاتی ہے اور جو نظام انسانوں کو تباہی اور مادی و معنوی فنا کی سمت لے جاتی ہے ۔ یہ حسین ابن علی علیہ السلام کی تحریک کی وجہ ہے البتہ اسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی مصداق سمجھا گیا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے فریضے کی طرف رجحان میں ان نکتوں پر بھی توجہ دی جانی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے آپ زیادہ اہم فریضے کے لئے آگے بڑھتے ہيں اور دوسرے فرائض کو بھلے ہی وہ بھی اہم ہوں ، اس زیادہ اہم فریضے پر قربان کر دیا۔ آج یہ واضح ہونا چاہئے کہ اہم کام کیا ہے ؟ ہر زمانے میں اسلامی سماج کے لئے ایک تحریک معین ہے ، ایک دشمن ، دشمن کا ایک محاذ عالم اسلام اور مسلمانوں کے لئے خطرے پیدا کرتا ہے اسے پہچاننا چاہئے اگر ہم دشمن کی شناخت میں غلطی کریں گے ، جس سمت سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچ رہا ہے اور ان پر حملہ ہو رہا ہے اگر اس کی شناخت میں ہم غلطی کر رہے ہيں تو اس سے نا قابل تلافی نقصان ہوں گے اور بڑے بڑے مواقع ہاتھ سے نکل جائيں گے _
1992/07/01
1989 September
چہلم سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ دشمنوں کے تشہیراتی طوفان کے سامنے حقیقت اور شہادت کی یاد کو زندہ رکھا جانا چاہئے ۔ آپ دیکھیں انقلاب کے آغاز سے آج تک ، انقلاب ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ ، اسلام اور اس قوم کے خلاف پروپگنڈے کتنے وسیع رہے ہيں ۔ جنگ کے خلاف کیا کیا پروپگنڈے نہيں کئے گئے ۔ وہ بھی اس جنگ کے خلاف جو اسلام ، وطن اور عزت نفس کا دفاع تھی ۔ دیکھیں دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف کیا کیا جنہوں نے اپنی سب سے قیمتی شئے یعنی اپنی جان خدا کی راہ میں قربان کر دی ۔ آپ دیکھیں کہ دشمنوں نے ان شہدا کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر ، ریڈیو ، ٹی وی اخبارات رسالوں اور کتابوں کے ذریعے سادہ لوح افراد کے دل و دماغ میں کیسے کیسے خیالات بھر دئے ۔  یہاں تک تک کہ کچھ سادہ لوح اور نادان لوگ ہمارے ملک میں بھی ، جنگ کے ان ہنگامہ خیز حالات میں کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتے تھے جو در اصل نادانی اور حقیقت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہوتی تھی ۔ یہی سب باتیں امام خمینی کو آشفتہ خاطر کر دیتی تھیں اور آپ اپنی ملکوتی پکار کے ذریعے حقائق بیان کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے ۔  اگر ان پروپگنڈوں کے مقابلے میں حقائق کو بیان نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے اور اگر ایرانی قوم ، مقررین ، رائٹروں اور فنکاروں کی آگاہی اس ملک کے حقائق کے لئے وقف نہ ہوگی تو دشمن پروپـگنڈوں کے میدان میں کامیاب ہو جائے گا ۔ پروپگنڈوں کا میدان بہت بڑا اور خطرناک ہے ۔ البتہ ، ہماری عوام کی بھاری اکثریت انقلاب کی برکتوں سے حاصل ہونے والی آگاہی کی وجہ سے ، دشمنوں کے پروپگنڈوں سے محفوظ ہے ۔ دشمن نے اتنے جھوٹ بولے اور عوام کے سامنے آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں کے بارے میں ایسی غلط بیانی سے کام لیا کہ عوام میں عالمی تشہیراتی مشنری کی باتوں پر سے اعتماد مکمل طور پر ختم ہو گیا ۔  ظالم و جابر یزیدی تشہیراتی مشنری اپنے پروپگنڈوں میں امام حسین علیہ السلام کو قصور وار ٹھہراتی تھی اور یہ ظاہر کرتی تھی کہ حسین بن علی وہ تھے جنہوں نے عدل و انصاف پر مبنی اسلامی حکومت کے خلاف ، حصول دنیا کے لئے قیام کیا تھا اور کچھ لوگوں کو اس پروپگنڈے پر یقین بھی آ گیا تھا! اس کے بعد بھی جب امام حسین علیہ السلام کو صحرائے کربلا میں اس مظلومیت کے ساتھ شہید کر دیا گیا تو اسے فتح و کامیابی کا نام دیا گیا !! لیکن امامت کی صحیح تشہیرات نے ، اس قسم کے تمام پروپگنڈوں کا قلع قمع کر دیا۔
1989/09/20