پوری تاریخ میں مساجد، اسلامی بیداری اور ظلم کے مقابلے میں مزاحمت کا محور رہی ہیں؛ ایران کے اسلامی انقلاب سے لے کر فلسطین کے قیام تک۔ عالمی یوم مسجد کو پرشکوہ طریقے سے منانے کا مطلب ہے ایمان و مزاحمت کے محاذ کی حیثیت سے مسجد کے کردار کو زندہ رکھنا۔
صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے "نیل سے فرات تک" کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں!
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے معروف اور نمایاں فنکار جناب محمود فرشچیان کے انتقال پر تعزیت پیش کی ہے۔
رہبر انقلاب کا تعزیتی پیغام حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے نمائندے حجت الاسلام محمدی گلپایگانی نے شہر قم میں آیت اللہ نوری ہمدانی کی عیادت کی اور ان کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔
"1948 کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ، ان جنگی سلسلوں کا محض ایک دور ہے جن میں شامل ہونے کے لیے اسرائیل کو مکمل تیاری رکھنی چاہیے تاکہ اس کے ذریعے وہ ہر سمت میں اپنی سرحدوں کو پھیلا سکے۔" یہ جملہ، جو صیہونی فوج کے جنرل اسٹاف سے تعلق رکھنے والے دستاویزات کا ایک حصہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو پورا کرنے کے لیے "زمینی اور سرحدی توسیع" کوئی عارضی پالیسی نہیں بلکہ صیہونی حکومت کی ایک بنیادی اسٹریٹیجی ہے؛ یہ اسٹریٹیجی غاصب صیہونی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی ہمیشہ اس کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔(1)
امام خامنہ ای نے 31 مارچ 2025 کو کہا تھا کہ ممتاز شخصیات کا قتل، صیہونی حکومت کے عام معمولات میں سے ایک ہے اور امریکا اور بعض مغربی حکومتیں ان جرائم کی حمایت کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں ان معزز شخصیات کا تعارف کرایا جا رہا ہے جو اس ریاستی دہشت گردی کا شکار ہوئی ہیں۔
اربعین حسینی کی مناسبت سے جمعرات 14 اگست 2025 کو حسینیۂ امام خمینی میں طلباء انجمنوں کی ایک مجلس عزا منعقد ہوئی جس میں ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے ہزاروں اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔ سب سے پہلے زیارت اربعین پڑھی گئی اور پھر حجت الاسلام و المسلمین رحیم شرفی نے الہی سنّتوں کی بنیاد پر نصرت الہی کے حصول کی راہوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد جناب میثم مطیعی نے حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا اور اسیران کربلا کے مصائب بیان کیے اور نوحہ پڑھا۔
اگر اسلامی ممالک کی صلاحیتیں، ایک ساتھ جمع ہو جائیں، اگر یہ صلاحیتیں ایک دوسرے سے متصل ہو جائیں، تو امت مسلمہ دکھا دے گی کہ عزت الہی کیا ہوتی ہے۔ وہ عظیم اسلامی تمدن دنیا کے تمام معاشروں کے سامنے پیش کر دیں گی۔ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہیے اور اربعین کا یہ مارچ اس ہدف کو عملی جامہ پہنانے کا نمایاں ذریعہ بن سکتا ہے۔
امام خامنہ ای
18 ستمبر 2019
کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اربعین مارچ میں شامل ہیں اور زیارت اربعین سے مشرف ہوں گے اور اربعین کے دن گراں قدر مضمون کی حامل یہ زیارت حضرت کو خطاب کرکے پڑھیں گے۔ ہم یہاں شوق و حسرت سے ان قدموں کو دیکھ رہے ہیں۔
هزاران گام در راه است و دل مشتاق و من حیران
که چون ره میتوانم یافتن سوی درون من هم
(ہزاروں قدم رواں دواں ہیں، دل اشتیاق میں ڈوبا ہے اور میں حیران ہوں کہ اس بارگاہ میں کیسے جگہ پاؤں۔)
6 نومبر 2017
بے شک ہم شیعوں کا یہ افتخار ہے کہ ہم امام حسین علیہ السلام کے پیرو ہیں، لیکن امام حسین علیہ السلام صرف ہمارے نہیں ہیں، امام حسین علیہ السلام سب کے ہیں۔
اپنے گھر سے ہی نذرانہ عقیدت پیش کریں۔ اربعین کے دن سب بیٹھ کر زیارت اربعین توجہ سے پڑھیں اور امام حسین کی بارگاہ میں شکوہ کریں اور کہیں کہ اے سید الشہدا! ہمارا دل تو بے تاب تھا لیکن نہیں آ سکے۔
21 ستمبر 2020
"ای صبا ای پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاکشان رسان"
(اے باد صبا اے دور افتادہ لوگوں کے پیغام لے جانے والی! ہمارے یہ آنسو ان کی پاکیزہ قبر تک پہنچا دے۔)
"میں نے جب بھی جناب فرشچیان کی پینٹنگ کو دیکھا، جسے انہوں نے کئی سال پہلے مجھے دیا تھا، رویا ہوں؛ ہم ایسی حالت میں کہ مرثیہ پڑھنا جانتے ہیں، جناب فرشچیان ایسا مرثیہ پڑھتے ہیں کہ ہم سب کو رلاتے ہیں۔ یہ کتنا فائدہ مند اور با معنی فن ہے کہ ایک مصوّر اس میں ایسی حالت پیدا کر دے۔
امام خامنہ ای
1 ستمبر 1993
اربعین کا عظیم الشان پروگرام ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ہم اپنے دل و دماغ میں سیدالشہدا کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ پر خلوص و عقیدتمندانہ سلام و درود ہم اس عظیم ہستی اور شہیدوں کی پاکیزہ خاک کو ہدیہ کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں:
ای صبا ای پیک دور افتادگان
اشک ما بر خاک پاکشان رسان
(اے باد صبا، اے دور افتادہ لوگوں کی قاصد، ہمارے آنسوؤں کو ان ہستیوں کی پاکیزہ خاک تک پہنچا دے۔)
امام خامنہ ای
4 اکتوبر 2018
27 جولائی سنہ 1988 کو آیت اللہ خامنہ ای نے جو اس وقت صدر جمہوریہ تھے، اھواز کے ایک فوجی اسپتال کا 19 گھنٹے معائنہ کرتے ہیں۔ جس کے دوران وہ کیمیکل بمباری کے قریب 750 متاثرین میں سے ہر ایک سے ملتے، اس کی عیادت کرتے اور اسے تحفہ دیتے ہیں۔
آپ کے پاسبان حرم شہدا کی قربانی جو اس دور میں ملک سے باہر جاکر شہید ہوئے، در حقیقت ان افراد کی قربانی جیسی ہے جنہوں نے اپنی جانیں دیکر امام حسین کی قبر کی حفاظت کی۔ جاکر قربانیاں دینے کا یہی عمل تھا کہ جو اربعین کے دو کروڑ پیدل زائرین کے نتیجے تک پہنچا۔ اگر اس وقت ان افراد نے قربانیاں نہ دی ہوتیں تو آج امام حسین علیہ السلام کا عشق اس انداز سے دنیا پر محیط نہ ہوتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اربعین کے مارچ میں مختلف ملکوں سے، فارس، ترک، اردو زبان بولنے والے، یورپی ممالک یہاں تک کہ امریکہ سے لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا؟ اس کا پہلا سنگ بنیاد اور بنیادی کام انھیں افراد نے کیا کہ جنہوں نے در حقیقت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے اپنی جان کی بھی قربانی دی۔
امام خامنہ ای
12/10/2018
اس وقت عالمی انسانی حقوق کے اعلانیے کا امتحان ہو رہا ہے۔ یہ اعلانیہ، جو مغربی مفکرین کے ہاتھوں اور دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا پر ان کا تسلط قائم ہو جانے کے بعد تحریر کیا گیا تھا، آج غزہ میں روزانہ صیہونیوں کے ذریعے روندا جا رہا ہے۔ اور "عالمی برادری" خاموش رہ کر، نہ صرف اپنے ہی لکھے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کی حمایت کر رہی ہے بلکہ صیہونیوں کو مالی اور عسکری امداد بھی فراہم کر رہی ہے۔
غزہ میں یہ وحشیانہ اقدام جو صیہونی حکومت نے کیا، اس نے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو رسوا کر دیا بلکہ امریکا کی عزت بھی خاک میں ملا دی۔ مشہور یورپی ملکوں کی آبرو بھی ختم کر دی بلکہ مغربی تہذیب و تمدن کو خاک میں ملا دیا۔
حزب اللہ لبنان کے عظیم کمانڈر شہید فؤاد علی شکر کی جہادی زندگي کی ایکی جھلک، ان کی بیٹی خدیجہ شکر کی زبانی اور شہید فؤاد شکر کے جہاد اور جدوجہد کے زمانے کی خاص تصویریں اور اسی طرح امام خامنہ ای کے ساتھ شہید کی کچھ تصاویر۔
کوئی بھی چیز اس سے بڑھ کر نہیں ہے کہ کوئی انسان اپنے ہاتھوں سے، اپنے ارادے اور اختیار سے اپنی جان اور اپنا وجود ایک بڑے اور عظیم الہی مقصد کے لیے قربان کر دے۔ شہادت کے معنی یہ ہیں۔
امام خامنہ ای
27 ستمبر 1998
حزب اللہ اور مزاحمتی فورسز کے وجود کی برکت سے لبنان ایک آئيڈیل سرزمین میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس پورے خطے پر اس کا اثر ہے۔ یہ آپ (حزب اللہ اور مزاحمتی فورسز) کے شہیدوں کے خون کی برکت کی وجہ سے ہے۔
امام خامنہ ای
26 مئی 2016
وایزمین انسٹی ٹیوٹ کو اسرائیل کا "ایٹمی برین" بھی کہا جاتا ہے۔ وایزمین کے سربراہ نے اعتراف کیا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کے "دل" پر ایران کے نپے تلے حملوں نے بھاری تباہی مچائی ہے۔
اسلامی جمہوریہ اور ایران کی عزیز قوم نے اپنی طاقت، اپنا عزم و ارادہ، اپنی استقامت اور اپنی صلاحیتیں دنیا والوں کو دکھا دیں۔ انھوں نے قریب سے اسلامی جمہوریہ کی طاقت کو محسوس کیا۔
حزب اللہ کے کمانڈر شہید فؤاد شکر کی بیٹی محترمہ خدیجہ شکر نے ویب سائٹ .khamenei.ir کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں اپنے والد، ان کی جدوجہد، حزب اللہ میں ان کی شمولیت، ان کے کردار اور ان کی شہادت کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ انھوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ اگر صیہونی ریاست کا مقصد حزب اللہ کا خاتمہ تھا، تو حالیہ تجربے نے ثابت کیا کہ کمانڈروں کی شہادت، اسلحے کے ذخائر کی نابودی، اور حزب اللہ کے بڑی تعداد میں شہداء اور عام شہریوں کے نقصانات کے باوجود، اس کا کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہوا۔ دشمن نہ تو مزاحمت کو ختم کر پایا اور نہ ہی اس کی عوامی حمایت کو کمزور کر سکا۔ یہ حقیقت سید حسن کی تشییع جنازہ میں واضح طور پر نظر آئی۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 29 جولائی 2025 کو بارہ روزہ جنگ کے شہیدوں کے لئے منعقد کی گئی مجلس عزا سے اپنے خطاب میں جنگ میں ملت ایران کی عظیم کارکردگی کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
خطاب حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی سوانح حیات کا اردو ترجمہ "زنداں سے پرے رنگ چمن" کے نام سے گزشتہ سال منظر عام پر آيا تھا۔ اب اس کی آڈیو بک بھی قارئین کی دسترس میں ہے۔
ایرانی قوم نے (اس جنگ میں) جو عظیم کامیابیاں حاصل کیں، جن کا اعتراف آج دنیا والے بھی کر رہے ہیں، ان کے علاوہ اسلامی جمہوریہ نے اور ایران کی عزیز قوم اپنی طاقت، اپنا عزم و ارادہ، اپنی استقامت اور اپنی صلاحیتیں بھی دنیا کو دکھا دیں۔
حالیہ مسلط کردہ جنگ میں شہید ہونے والے افراد کے چہلم کا پروگرام منگل 29 جولائی 2025 کی صبح حسینیۂ امام خمینی میں منعقد ہوا۔ اس میں رہبر انقلاب اسلامی، شہیدوں کے اہل خانہ، بعض سول اور عسکری عہدیداروں اور عام لوگوں نے شرکت کی۔
ایرانی قوم پر صیہونی حکومت کی جانب سے مسلط کی گئی حالیہ بارہ روزہ جنگ کے شہیدوں کے چہلم کی مناسبت سے منگل 29 جولائی 2025 کو رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک پروگرام منعقد ہوا جس میں شہیدوں کے اہل خانہ، بعض سول اور عسکری عہدیداروں اور عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی۔