سورۂ حمد میں ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والوں کی نشانیاں بتائی گئی ہیں: صِراطَ الَّذينَ اَنعَمتَ عَلَيھِم۔ صراط مستقیم یا سیدھا راستہ، ان لوگوں کا راستہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ نعمت کھانا، پینا نہیں ہے، ہدایت الہی کی نعمت ہے ... معنوی نعمت ہے جو سب سے بڑی الہی نعمت ہے۔ یہ ان لوگوں کی راہ ہے جنھیں تو نے نعمت عطا کی ہے، ان پر غضب نہیں کیا ہے اور وہ گمراہ بھی نہیں ہوئے۔ یہ تین خصوصیات ہونی چاہیے: خدا نے انھیں ہدایت کی نعمت عطا کی ہو، انھوں نے اپنے برے اعمال سے اس نعمت کو غضب الہی میں تبدیل نہ کیا ہو اور گمراہ بھی نہ ہوئے ہوں۔ اس راہ کے مصادیق آپ اپنے زمانے میں، گزشتہ زمانے میں، اسلام کے ابتدائي زمانے میں اور تاریخ میں بڑی آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔
امام خامنہ ای
11 جون 1997
عالمی یوم قدس کی ریلی، اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایرانی قوم اپنے اہم سیاسی و بنیادی اہداف پر پوری طاقت سے ڈٹی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت کا نعرہ لگائے اور ایک دو سال گزرنے کے بعد اسے چھوڑ دے۔ ایرانی قوم چالیس پینتالیس سال سے یوم قدس کی ریلی میں شرکت کر رہی ہے۔
نئے ہجری شمسی سال کے آغاز، عید سعید فطر کی آمد اور اسلامی جمہوریہ کی سالگرہ کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے عدالتوں سے سزا پانے والوں اور قیدیوں کی سزائیں معاف کرنے یا ان میں تخفیف کی عدلیہ کے سربراہ کی تجویز کو منظوری دی۔
شرعی احکام کے مطابق ہر مکلّف انسان کو (جس پر دینی فرائض واجب ہوں) اپنے اور ان سبھی افراد کے لیے، جو اس کے نان خور ہیں، فی کس ایک صاع (تقریباً تین کلو) گیہوں، جو، کھجور، کشمش، چاول یا مکئي وغیرہ فطرے کے طور پر کسی مستحق کو دینا چاہیے اور اگر وہ ان میں سے کسی ایک کی نقد قیمت بھی فطرے کے طور پر دے تو کافی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اے خدا ہماری ہدایت کرتا رہ، اس "ہدایت کرتا رہ" کے کیا معنی ہیں؟ ایک راستہ دکھانا ہے، ایک منزل تک پہنچانا ہے۔ راستہ دکھانے کا کیا مطلب ہے؟ کہتے ہیں ہدایت یعنی ہمیں راستہ دکھاؤ۔ منزل تک پہنچانے کا مطب یہ ہے کہ آپ کسی کا ہاتھ پکڑیں اور اسے وہاں لے جائيں جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔ انسان کے سلسلے میں ہدایت الہی ان دونوں میں سے ایک بھی نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہے، یعنی ہدایت الہی رہنمائی اور مدد کا مجموعہ ہے۔ مدد کا کیا مطلب ہے؟ یعنی توفیق عطا کرنا، انسان کے لیے راستہ کھولنا۔ یعنی جب انسان عزم کرے اور قدم بڑھائے اور خدا نے ہر مرحلے میں رہنمائي کی تو وہ اگلے مرحلے میں قدم بڑھانا انسان کے لیے آسان کر دیتا ہے اور کبھی کبھی لغزش کے مقامات پر اس کی مدد بھی کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
8 مئی 1991
قرآن مجید کی ابتدا میں ہی سورۂ حمد میں پروردگار عالم سے ہماری درخواست "اِيّاكَ نَعبُدُ وَ اِيّاكَ نَستَعين" سے شروع ہوتی ہے۔ اس مدد طلب کرنے کا ایک بڑا مصداق اگلی آيت میں آتا ہے: "اِھدِنَا الصِّراط المستقیم" گویا یہ ساری تمہیدیں، اس عبارت کے لیے ہیں: سیدھے راستے کی طرف ہماری ہدایت کرتا رہ۔ پھر سورۂ حمد کے آخر تک اس صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی تشریح کی جاتی ہے۔ صراط مستقیم، خدا کی عبادت کا راستہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے اپنی نفسانی خواہشات کو لگام لگانا۔ اسلام نفسانی خواہشات کو ختم نہیں کرتا، انھیں کنٹرول کرتا ہے، کیونکہ یہ خواہشات، آگے بڑھنے کا محرک ہیں۔ اسلام ان خواہشات کو لگام لگاتا ہے اور ان کی ہدایت کرتا ہے۔ اسلام جنسی خواہشات کو ختم نہیں کرتا لیکن ان پر لگام لگاتا ہے، مال و ثروت کی خواہش کو ختم نہیں کرتا کیونکہ یہ پیشرفت کا ذریعہ ہے لیکن اسے کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی ہدایت کرتا ہے۔
امام خامنہ ای
6 مارچ 2000
سورۂ انعام کی آيت نمبر 161 میں پیغمبر سے کہا گيا ہے: کہہ دیجیے کہ بے شک میرے پروردگار نے سیدھے راستہ کی طرف میری رہنمائی کر دی ہے جو حضرت ابراہیم کے دین اور طرز زندگي سے عبارت ہے۔ یعنی دین کا مطلب دینی افکار، شناخت اور عمل ہے اور اسے صراط مستقیم کہا گيا ہے۔ سورۂ نساء کی آيت نمبر 175 میں کہا گيا ہے: تو جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور جنھوں نے خدا کے ذریعے اپنے آپ کو عصمت میں بچائے رکھا، عصمت یعنی خطا سے محفوظ رکھا گيا جس میں لغزش کا امکان نہ ہو، تو اللہ انھیں اپنی رحمت اور فضل کے عظیم دائرے میں داخل کرے گا اور سیدھے راستے کی جانب ان کی رہنمائی کرے گا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صراط مستقیم پر پہنچنے کا ذریعہ، اللہ سے جڑے رہنا ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئی 1991
سورۂ صافات کی آیت نمبر 118 میں موسیٰ اور ہارون کے بارے میں کہا گيا ہے: اور ہم نے (ہی) ان دونوں کو راہِ راست دکھائی۔ اگر آپ حضرت موسیٰ اور ہارون کی زندگي پر نظر ڈالیں تو یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ ان دونوں کی زندگي، طاغوت کی اطاعت اور غیر اللہ کی حاکمیت سے سرتابی اور اس راہ میں یعنی لوگوں کی ہدایت، انھیں طاغوت کی حاکمیت سے نجات دینے اور انھیں اللہ کی حاکمیت کے دائرے میں لانے کے لیے مستقل جدوجہد اور مصائب برداشت کرنے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 3 اور 4 میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہوا ہے: یقیناً آپ (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں (اور) سیدھے راستے پر ہیں۔ جیسا کہ آپ نے حضرت موسیٰ کی زندگي میں دیکھا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سیرت، ان کا موقف اور ان کی راہ بھی وہی صراط مستقیم ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
صراط مستقیم کیا ہے؟ یہ کیا چیز ہے کہ ہم خداوند عالم سے اس کی جانب اپنی ہدایت کی دعا کر رہے ہیں؟ قرآن مجید کی آیتوں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ صراط مستقیم کیا ہے؟ سورۂ آل عمران کی آيت نمبر 51 میں کہا گیا ہے: بے شک اللہ، میرا اور تمھارا پروردگار ہے تو تم اس کی عبادت کرو، یہی صراط مستقیم ہے، سیدھا راستہ ہے۔ تو اس آيت میں صراط مستقیم کیا ہے؟ عبادت و بندگي، بندگی کے مقام تک پہنچنا۔ انسانی تاریخ میں یہ جو کثرت سے مظالم، گمراہیاں اور پریشانیاں دکھائی دیتی ہیں، یہ اس وجہ سے ہیں کہ کسی نے یا کچھ لوگوں نے خدا کی بندگي کو تسلیم نہیں کیا، اپنی یا دوسروں کی نفسانی خواہشات کے بندے بن گئے۔ سورۂ یاسین کی آيت نمبر 61 میں کہا گيا ہے: اور میری ہی عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے۔ تو ان آيتوں کے مطابق صراط مستقیم کا مطلب ہے خدا کی عبادت، خدا کی بندگي، خدا کے سامنے سر تسلیم خم رکھنا۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
قرآن مجید میں راہ یا راستے کے لیے کئي الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ "طریق" جب ایک فرضی راستے پر کوئی آگے بڑھتا ہے جبکہ اس پر نہ کوئي علامت ہے، نہ اسے پتھروں سے ہموار کیا گيا ہے، بس کوئي ایک فرضی راستے پر چلنے لگے تو اسے طریق کہتے ہیں، اس راہ میں کوئي خصوصیت نہیں سوائے اس کے کہ ایک راہرو اس پر چلے۔ تو یہ ایک عمومی معنی ہے۔ "سبیل" کے معنی اس سے زیادہ محدود ہیں، یہ وہ راستہ ہے جس پر چلنے والے زیادہ ہیں۔ سبیل، ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والوں کی کثرت کی وجہ سے وہ ہموار ہو گيا ہے اور واضح ہو گيا ہے، البتہ ممکن ہے کبھی انسان اس راستے کو کھو دے۔ "صراط" پوری طرح سے واضح راستے کو کہتے ہیں۔ یہ راستہ اتنا واضح ہے کہ اس راستے کو کھو دینے کا امکان ہی نہیں ہے۔ "اِھدِنَا الصِّراط" یعنی بالکل واضح راستہ دکھا، اس پر "المستقیم" کی قید بھی لگا دی یعنی ہمیں بالکل واضح اور سیدھا راستہ دکھا۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
1404 ہجری شمسی سال کے پہلے دن 21 مارچ 2025 کو عوام کے مختلف طبقات کے اجتماع سے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے سال نو کے آغاز، ماہ رمضان المبارک کی روحانیت اور نئے سال کے نعرے کے سلسلے میں بات کی۔ آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی دھمکیوں کا دنداں شکن جواب دیا۔(1)
خطاب حسب ذیل ہے:
آج صیہونی ریاست کی بے رحمی نے، بلکہ بے رحمی کا لفظ بھی کم ہے، بہت سی غیر مسلم قوموں کے دلوں کو درد سے بھر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں صیہونی ریاست کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سنہ 1404 ہجری شمسی کے پہلے دن مختلف عوامی طقبات سے ملاقات میں، متبرک مقامات پر دعا و توسل کے ساتھ نیا سال شروع کرنے کی ایرانیوں کی روایت کو نوروز کے سلسلے میں ایرانی قوم کے معنوی رجحان کے پہلو کی ایک نشانی بتایا اور پوری تاریخ میں حق کے محاذ کی عظیم فتوحات میں دعا اور استقامت کے اثرات کی تشریح کرتے ہوئے پچھلے سال کو ایرانی عوام کے صبر، استقامت اور معنوی طاقت کے ظہور کا سال قرار دیا۔
امریکی، یورپی اور ان جیسے دوسرے سیاستداں جو ایک بڑی غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خطے میں مزاحمت کے مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز کہتے ہیں۔ یہ ان کی توہین کرتے ہیں۔
جمعہ 21 مارچ 2025 کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا سالانہ خطاب، جو ہر سال مشہد مقدس میں ہوا کرتا تھا، اس سال نوروز کے ایام، شبہائے قدر میں پڑنے کی وجہ سے اس سال عوام کے مختلف طبقوں کی موجودگي میں حسینیۂ امام خمینی میں ہوا۔
ایک چوتھی قسم کی بھی ہدایت ہے جس کا نام ہم نے "خواص کی ہدایت" رکھا ہے، یہ سارے مومنین کے لیے بھی نہیں ہے بلکہ ان میں سے بھی خاص لوگوں سے مختص ہے۔ یہ وہ بہت ہی اعلیٰ سطح کی ہدایت ہے جو پیغمبروں اور اولیائے الہی سے مختص ہے۔ سورۂ انعام کی آيتیں پیغمبر سے کہتی ہیں کہ "اُولئكَ الَّذينَ ھَدَى اللّہ" یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے۔ "فَبِھُدٰھُمُ اقتَدِہ" آپ ان کی ہدایت کی پیروی کیجیے۔ خدا کے برگزیدہ بندے اس کی جانب سے کچھ چیزیں، کچھ اشارے، کچھ خاص ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ کسی کو قرآن کی کوئي آيت سنائي جاتی ہے تو وہ کچھ اشارے حاصل کرتا ہے، اس آيت کے کچھ الفاظ ان کے لیے ایک ہدایت لیے ہوئے ہوتے ہیں جو ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہ سبھی اللہ کی ہدایت ہیں، ہدایت کے معنی یہ ہیں۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ ایک بہت بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔ پھر بچے قتل ہو رہے ہیں، گھر تباہ ہو رہے ہیں، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔
یمن کے عوام پر، یمن کے عام لوگوں پر حملہ بھی ایک جرم ہے جسے یقینی طور پر روکا جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز 1404 سے اقتباس (20 مارچ 2025)
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے پیغام نوروز میں گزشتہ ہجری شمسی سال کے اہم واقعات کا ذکر کیا اور نئے ہجری شمسی سال میں کوششوں اور منصوبوں کی سمت و جہت معین کرنے کے لئے نعرہ معین فرمایا: پیداوار کے لئے سرمایہ کاری۔
پیام حسب ذیل ہے:
ایک ہدایت ہے جو مومنوں سے مختص ہے: ھُدًى لِلمُتَّقين، یہ اُس ہدایت کے اوپر ہے جو خود انسان کے اندر پائي جاتی ہے، جسے ایمانی ہدایت کہتے ہیں۔ اسی ہدایت کا ذکر سورۂ نحل میں ہے کہ جو لوگ خدا کی آيتوں پر ایمان نہیں لاتے، خدا ان کی ہدایت نہیں کرتا۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ خدا ہدایت نہیں کرتا؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پھر کبھی مومن نہیں بن سکتے؟ انھیں کبھی ہدایت ایمانی حاصل نہیں ہو سکتی؟ کیوں نہیں، جو ایمان نہیں رکھتا، ممکن ہے کہ اس کے پاس آج ایمان نہ ہو، کل وہ اپنی عقل اور اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے اور ایمان لے آئے، تو یہ ایمانی ہدایت نہیں ہے، تیسری قسم کی ہدایت ہے، وہ ہدایت مومنین سے مختص ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
ہدایت کے معنی رہنمائي کرنے اور راستہ دکھانے کے ہیں۔ ہدایت الہی کے کئي مرحلے اور کئي معنی ہیں۔ ایک طرح کی ہدایت عام ہدایت الہی ہے جس میں تمام موجودات شامل ہیں۔ یہ تکوینی ہدایت ہے، عام اور عالمگیر ہے، اس کے ذریعے تمام موجودات کی رہنمائي ہوتی ہے۔ جس محرک کے تحت چیونٹیاں یا شہد کی مکھیاں خاص طریقے سے اپنا گھر بناتی ہیں اور اجتماعی طور پر زندگي گزارتی ہیں، اس کا سرچشمہ ہدایت الہی ہے۔ ہمارا مقصود یہ ہدایت نہیں ہے۔ ہدایت کی ایک قسم بنی نوع انسان سے مختص ہے کہ جو فطرت انسان سے عبارت ہے۔ انسان کے خمیر میں ایک احساس ہے، ایک پنہاں ادراک ہے جو اللہ کے وجود اور بعض دینی معارف کی طرف اس کی رہنمائي کرتا رہتا ہے۔ آپ اللہ کو اپنی عقل سے پہچانتے ہیں اور فطرت و عقل کے علاوہ اللہ کو پہچاننے کا کوئي ذریعہ نہیں ہے، یہی انسانی عقل کی ہدایت ہے لیکن مقصود یہ ہدایت بھی نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
1 مئي 1991
حسینیہ امام خمینی میں پہنچا تو شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ مغربین کی نماز میں ابھی تقریبا دو گھنٹے بچے تھے۔ تاہم صفیں مرتب رکھنے کے لئے کپڑے کی پٹیاں بچھا دی گئي تھیں جو سجدے اور کھڑے ہونے کی جگہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پہلی صف نصف سے کچھ کم تھی اور دوسری صف اس سے کچھ اور چھوٹی۔ ایک صاحب براؤن رنگ کا کردی لباس پہنے ہوئے نظر آئے جس میں پیراہن اور شلوار ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور کمر پے کپڑے کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اہل سنت فرقے سے تھے اور عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ مغرب کی نماز جماعت میں وہ مجھ سے آگے والی صف میں تھے۔
تمام طاقتیں اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔ جہاں خدا ارادہ کر لیتا ہے وہاں دنیا کی سب سے مضبوط طاقتیں بھی اپنے کام انجام نہیں دے پاتیں۔ امریکا، ایران میں گھسنا چاہتا ہے، طبس میں اس پر مصیبت آ جاتی ہے حالانکہ اس کے پاس ظاہری طاقت تھی۔ اس وقت بھی سامراجی طاقتیں، بڑے صیہونی اور سرمایہ دار، ایک اسلامی حکومت سے بری طرح خوفزدہ ہیں۔ کوشش کر رہے ہیں کہ اسے ختم کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے ہیں جبکہ ظاہری طور پر ان کے پاس سب کچھ ہے۔ جب خداوند عالم ارادہ کرتا کہ ان کی طاقت، اثر نہ کر پائے تو وہ اثر نہیں کرتی۔ کبھی مشیت الہی یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت اثر کرے، تو اثر کرتی ہے۔ مومن اور یکتا پرست انسان، طاقت کو صرف اور صرف اللہ سے مخصوص سمجھتا ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
ہم کہتے ہیں "اِيّاكَ نَعبُد وَ اِيّاكَ نَستَعين" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی دوسرے سے مدد نہیں لینی چاہیے؟ ہم لوگوں سے، انسانوں سے، بھائي سے، دوست سے مدد لیتے ہیں۔ خود قرآن مجید میں کار خیر میں ایک دوسرے سے مدد لینے کی سفارش کی گئي ہے: "تَعاوَنوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقويّْ" نیک کام اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یکتا پرست انسان، ہر طاقت اور ہر توانائي کو خدا سے مختص مانتا ہے اور جو بھی آپ کی مدد کرتا ہے، وہ قادر نہیں ہے بلکہ قادر خدا ہے۔ حقیقی قدرت اور طاقت، اللہ کی ہے۔ یہ ہماری طاقتیں، مجازی طاقتیں ہیں۔ اگر آپ کسی سے خدا کو نظر انداز کر کے مدد لیں اور اسے قدرت و طاقت کا مالک سمجھیں تو یہ شرک ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل
بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور باغوں میں ہوں گے۔ (51:15) اور ان کا پروردگار جو کچھ انھیں عطا کرے گا وہ لے رہے ہوں گے۔ بے شک وہ اس (دن) سے پہلے ہی (دنیا میں) نیکوکار تھے۔ (51:16) یہ لوگ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ (51:17) اور صبح سحر کے وقت مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔ (51:18) اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے محتاج سب کا حصہ تھا۔ (51:19) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے (ہماری قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (51:20)
اللہ سے مدد چاہنے کا اصل مطلب یہ ہے کہ میں ناقص اور قصوروار انسان، اگر اپنی تمام تر توانائيوں کو بھی تیری عبادت و عبدیت کی راہ میں یکجا کر دوں، تب بھی میں نے تیری عبادت و عبدیت کا حق ادا نہیں کیا ہے، تجھے میری اضافی مدد کرنی چاہیے تاکہ میں یہ حق ادا کر سکوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ علیہم السلام جیسے بزرگان دین کہتے ہیں کہ اے خدا ہم تیری عبادت کا حق ادا نہیں کر سکے۔ حضرت علی علیہ السلام اور حضرت امام زین العابدین جیسی شخصیات کما حقہ خدا کی عبادت نہ کر پانے کی بات کرتی ہیں جبکہ یہ شخصیات اللہ کی عبادت میں جو کام کرتی تھیں، ہم اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
فارسی زبان و ادب کے بعض شاعروں اور اساتذہ نے سنیچر 15 مارچ 2025 کی رات امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شب ولادت با سعادت کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای سے ملاقات کی۔
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی شب ولادت با سعادت کی مناسبت سے فارسی زبان و ادب کے بعض شاعروں اور اساتذہ نے سنیچر 15 مارچ 2025 کی رات رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اس سے پہلے مغرب و عشاء کی نماز رہبر انقلاب کی امامت میں ادا کی گئي۔
ہندوستانی شاعر کا کلام سننے کے بعد رہبر انقلاب کا تبصرہ: اہم یہ ہے کہ جس کی مادری زبان فارسی نہیں ہے، وہ اتنی صاف ستھری فارسی میں شعر کہے۔ فارسی میں بات کرنا ایک بات ہے اور فارسی میں شعر کہنا دوسری بات ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے 14 رمضان المبارک مطابق 15 مارچ 2025 کو امام حسن مجتبی علیہ السلام کے یوم ولادت کی مناسبت سے فارسی ادیبوں اور شاعروں سے ملاقات میں تقریر کرتے ہوئے شعر و ادب کے شعبے سے متعلق کلیدی نکات کا جائزہ لیا۔ رہبر انقلاب نے شاعری کا معیار مزید اوپر لے جانے کی تاکید کی اور کہا کہ موجودہ دور میں یہ صلاحیت ہے کہ سعدی و حافظ و نظامی جیسے شعرا پیدا ہو سکتے ہیں۔ (1)
اگر مذاکرات کا مقصد پابندیاں ختم کرانا ہے تو امریکا کی اس حکومت سے مذاکرات سے پابندیاں ختم نہیں ہوں گي یعنی وہ پابندیاں نہیں ہٹائے گي۔ وہ پابندیوں کی گرہ کو اور زیادہ پیچیدہ کر دے گی۔
اگر انسان اس غاصب بادشاہ پر جو اس کے اندر ہے یعنی اس حقیقی ڈکٹیٹر پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گيا تو پھر وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقتوں پر بھی غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ شعر نہیں، مضمون نہیں ہے، یہ کھلے ہوئے حقائق ہیں۔ ہم نے اسلامی انقلاب کے دوران پوری طرح سے ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے اپنے نفس پر غلبہ حاصل کر لیا تو قربانی دیں گے اور اگر کوئي ملت قربانی دے تو کوئي بھی طاقت اس پر غلبہ حاصل نہیں کر سکے گی۔ دشمن تب ہم پر فتحیاب ہوتا ہے جب ہم اپنے نفس پر فتحیاب نہیں ہو پاتے۔ انسان کی شکست کا پہلا مرحلہ، خود اس کی اندرونی شکست ہے۔ جب حسد اور دکھاوے کی چاہت اور اسی طرح کی چیزیں انسان پر غالب آ جاتی ہیں تو کام میں انسان کے ہاتھوں میں لرزش پیدا کر دیتی ہیں اور جب آپ کا ہاتھ لرزنے لگتا ہے تو دشمن کا ہاتھ مضبوط ہو جاتا ہے، یہ ایک فطری بات ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
"وَ اِيّاكَ نَستَعين" اور صرف تجھ ہی مدد چاہتے ہیں۔ کس چیز میں تجھ سے مدد چاہتے ہیں؟ اس چیز میں کہ ہم صرف تیری ہی بندگي کریں، کسی دوسرے کی نہیں، غیر اللہ کی بندگي نہ کرنا زبان سے تو بہت آسان ہے لیکن عمل میں یہ سب سے مشکل کاموں میں ہے؛ انفرادی زندگي میں بھی سخت ہے اور اجتماعی زندگي میں بھی سخت ہے، ایک قوم کی حیثیت سے بھی سخت ہے اور آپ اس کی سختیوں کو دیکھ رہے ہیں کہ جب اسلامی جمہوریہ نے بڑی طاقتوں کے مقابلے میں توحید کا پرچم بلند کر رکھا ہے، اس سے بھی زیادہ سخت ہمارے اندر کے اس شیطان اور طاغوت کو بھگانا ہے، یہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ نفسانی خواہشات اور نفسانی شہوات سے مقابلے کی نسبت امریکا سے مقابلہ آسان ہے، نفس سے جنگ سب سے سخت ہے، اُس جنگ کی بنیاد بھی یہ جنگ ہے۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991
مذاکرات میں انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ فریق مقابل اس چیز پر عمل کرے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ جب ہم جانتے ہیں کہ وہ عمل نہیں کرے گا تو پھر کیسے مذاکرات؟
ہم تیری ہی عبات کرتے ہیں، یہ "ہم" کون لوگ ہیں؟ ایک تو میں ہوں۔ میرے علاوہ، سماج کے دوسرے افراد ہیں۔ "ہم" صرف دنیا کے یکتا پرست نہیں بلکہ تمام انسان ہیں کیونکہ غیر موحّد بھی اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے کہا، ان کی فطرت اللہ کی عبادت کرنے والی ہے، وہ اندر سے خدا کے عابد ہیں چاہے ان کا ذہن اس بات کی طرف متوجہ نہ ہو۔ دائرہ اس سے بھی زیادہ بڑھایا جا سکتا ہے اور کون و مکان کی ہر چیز کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے یعنی میں اور دنیا کی ہر شئے تیری عبادت کرتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ، پروردگار کی عبادت کر رہا ہے۔ اگر انسان اس چیز کو محسوس کر لے تو وہ عبودیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچ جائے گا۔
امام خامنہ ای
24 اپریل 1991