آج اس بات کی ضرورت ہے کہ کرنسی کے بارے میں دینی تعلیمی مرکز اپنی رائے دے۔ پیسوں، مالی اور معاشی مسائل کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں رائے دے۔ کرپٹو کرنسی کے بارے میں رائے دے۔
بیروت میں صیہونی حکومت کے پیجر حملوں کے دہشت گردانہ اقدام میں زخمی ہونے ایران کے سفیر جناب مجتبیٰ امانی نے اتوار 17 نومبر 2024 کو رہبر انقلاب سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران رہبر انقلاب نے ان سے حال چال پوچھا۔
فاطمہ زہرا اسلامی خاتون کی بلند ترین سطح پر فائز ہیں مگر یہی عورت جو فضائل و مناقب کے اعتبار سے پیغمبر ہونے کی اہلیت رکھتی تھی، ماں کے فرائض انجام دیتی ہے، زوجہ کا کردار ادا کرتی ہے، امور خانہ داری انجام دیتی ہے۔ امور خانہ داری کی انجام دہی کا مطلب ہے انسان کی تربیت۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ایک حقیقی رہبر کے کردار میں نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر فاطمہ زہرا مرد ہوتیں تو یقیناً پیغمبر ہوتیں۔ ایسا جملہ امام خمینی جیسی شخصیت کے علاوہ جو عالم بھی تھے، فقیہ بھی تھے، عارف بھی تھے، کسی اور کے منہ سے ادا نہیں ہو سکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 30 دسمبر 2019 کو اپنے فقہ کے درس خارج میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی آخری گفتگو کے بارے میں ایک حدیث کی تشریح کی۔
رہبر انقلاب اسلامی سے انتھک مجاہد شہید سید حسن نصر اللہ کی ملاقاتوں کے پہلی بار سامنے آنے والے کچھ گوشے ایک ویڈیو ڈاکیومینٹری کی صورت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
حزب اللہ مضبوط ہے، لڑ رہی ہے۔ جی ہاں! جناب سید حسن نصر اللہ جیسی نمایاں اور اہم شخصیت ان کے درمیان نہیں ہے لیکن حزب اللہ طاقت اور جذبے کے ساتھ بحمد اللہ موجود ہے اور دشمن اس تنظیم پر غلبہ حاصل نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی کر سکے گا۔
آج بحمد اللہ یہ جو مجاہدت پوری طاقت اور قوت کے ساتھ جاری ہے، لبنان میں بھی اور غزہ اور فلسطین میں بھی، قطعی طور پر اس مجاہدت کا نتیجہ حق کی فتح ہوگا، حق کے محاذ کی فتح ہوگا، مزاحمت کے محاذ کی فتح کی صورت میں سامنے آئے گا۔
حافظ شیرازی کہتے ہیں: "ہر چہ دارم ہمہ از دولت قرآن دارم" مطلب یہ کہ ان کے اشعار بھی قرآن ہی کے ہیں، ان کا فن بھی قرآن ہی کا ہے، ان کی معرفت بھی قرآن ہی کی ہے، ان کا عرفان بھی قرآن ہی کا ہے، ان کی بیخودی بھی قرآن ہی کی ہے، انھیں ہر چیز قرآن سے ملی ہے۔
ہمارے وطن عزیز کی تمدنی خصوصیات میں سے ایک، جس پر ہمیشہ توجہ دینی چاہیے، یہ ہے کہ یہ دین، شجاعت اور فن و ہنر کی آمیزش میں کامیاب رہا ہے۔ ایران اسلامی میں ان تینوں عناصر کی آمیزش اسلام سے ماخوذ ہے۔
ہمارے ملک میں پہلی نرم جنگ (سافٹ وار) میرزا شیرازی نے کی تھی؛ تمباکو کو حرام قرار دینا، نرم جنگ تھی، سب سے بڑی جنگ اور وہ بھی ایسی جنگ جس نے ملک میں انگریزوں کے معاشی تسلط کی بساط لپیٹ دی۔ یہی کام گاندھی نے ہندوستان میں کیا لیکن میرزا شیرازی کے تیس سال بعد۔
اے مسلمانوں کے ولئ امر! میں آئی ہوں تاکہ یہ کہہ سکوں کہ میں شرمندہ ہوں، خجل ہوں کہ میرے حمزہ تو اسلام، اسلامی نظام اور رہبر کی حفاظت کی راہ میں گزر گئے لیکن مجھے اور میرے بچوں کو ان کی ہمراہی کا موقع نہ مل سکا۔
اس بات پر بھی توجہ دیجیے کہ ان کی شہادت کتنی نمایاں اور اہم شہادت ہے اس وجہ سے کہ وہ سب سے خبیث دشمن کے مقابلے میں ملک کے دفاع کے لیے ڈٹ گئے، ان باتوں پر توجہ رکھیے۔
سامراج کے مقابلے میں ایرانی قوم کی تیاری کے لیے جو بھی ضروری اقدام کرنا چاہیے، چاہے وہ فوجی لحاظ سے ہو، چاہے ہتھیاروں کے لحاظ سے ہو اور چاہے سیاسی کاموں کے لحاظ سے ہو ہم یقیناً کریں گے اور بحمد اللہ اس وقت بھی ذمہ داران وہ کام انجام دینے میں مصروف ہیں۔
سیکورٹی یقینی بنانے کا راستہ طاقت ہے۔ ہم ایرانی قوم اور ملک کے ذمہ داران کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے۔ مضبوط ایران ہی خود کا دفاع کر سکتا ہے، اپنی سلامتی اور پیشرفت کو یقینی بنا سکتا ہے، اس پیشرفت اور طاقت کی برکت سے دوسروں کی بھی مدد کر سکتا ہے۔
دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایرانی قوم کون ہے؟ ایران کے جوان کیسے ہیں؟ یہ سوچ، یہ جذبہ، یہ شجاعت اور یہ آمادگي جو آج ایرانی قوم میں ہے، یہ خود سیکورٹی پیدا کرنے والی ہے۔ ہمیں اسے باقی رکھنا چاہیے۔
یہ ایران کو نہیں جانتے، ایران کے جوانوں کو نہیں جانتے، ایرانی قوم کو نہیں جانتے۔ ابھی وہ ایرانی قوم کی طاقت، توانائي، جدت عمل اور عزم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکے ہیں۔ یہ بات ہمیں انھیں سمجھانی ہوگي۔
فلسطین کس کا ہے؟ یہ قابض کہاں سے آئے ہیں؟ کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ملت فلسطین پر اعتراض کا حق نہیں رکھتا کہ وہ کیوں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سینہ سپر ہوکر کھڑی ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے۔ جو لوگ ملت فلسطین کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی در اصل اپنے فریضے پر عمل کر رہے ہیں۔
اگر شہید سنوار جیسے افراد نہ ہوتے جو آخری لمحے تک لڑتے رہتے تو خطے کا مستقبل کسی اور طرح کا ہوتا۔ اگر شہید سید حسن نصر اللہ جیسے باعظمت افراد نہ ہوتے تو حرکت کسی اور طرح کی ہوتی، اب جب ایسے لوگ ہیں تو، حرکت کسی اور طرح کی ہے۔
جو قوم بھی چاہتی ہے کہ دشمن کے مفلوج کن محاصرے میں گرفتار نہ ہو، اسے چاہئے کہ پہلے ہی اپنی آنکھیں کھلی رکھے، جیسے ہی دیکھے کہ دشمن کسی دوسری ملت کی سمت بڑھا ہے، خود کو اس مظلوم اور ستم رسیدہ قوم کے دکھ درد کا شریک جانے، اس کی مدد کرے، تاکہ دشمن وہاں کامیاب نہ ہو سکے۔
ملت ایران کا جو دشمن ہے وہی ملت فلسطین کا بھی دشمن ہے، وہی ملت لبنان کا بھی دشمن ہے، وہی ملت عراق کا بھی دشمن ہے، وہی ملت مصر کا بھی دشمن ہے، وہی ملت شام کا بھی دشمن ہے، ملت یمن کا بھی دشمن ہے۔ دشمن ایک ہی ہے۔ بس الگ الگ ملکوں میں دشمن کی روشیں مختلف ہیں۔
سید حسن نصر اللہ ظالم اور لٹیرے شیاطین کے مقابلے میں مزاحمت کا بلند پرچم تھے، مظلوموں کی بولتی زبان اور بہادر محافظ تھے، مجاہدین اور حق پرستوں کی جرئت و ڈھارس کا موجب تھے۔
آپریشن طوفان الاقصی کی سالگرہ پر، Khamenei.ir کی جانب سے صیہونی حکومت پر گہری ضرب لگانے والے اس آپریشن سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کے بیانوں پر مبنی ایک ڈاکیومنٹری پبلش کی جا رہی ہے۔
ہمارے اس علاقے میں اُس مشکل کی جڑ، جو ٹکراؤ، جنگوں، تشویشوں، عداوتوں وغیرہ کو وجود میں لاتی ہے، ان لوگوں کی موجودگي ہے جو خطے کے امن و امان کا دم بھرتے ہیں۔
اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔
دشمن کے پاس پیسے ہیں، ہتھیار ہیں، وسائل ہیں، عالمی پروپیگنڈہ ہے، لیکن اس کے باوجود جو فاتح ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا مجاہد ہے۔ فلسطینی مزاحمت فاتح ہے۔ حزب اللہ فاتح ہے۔
اگر پوری دنیا کے دو ارب مسلمان متحد ہو جائیں، متحد رہیں تو صیہونی حکومت کا انجام کیا ہوگا؟ صیہونی حکومت کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ یقیناً وہ صفحۂ ہستی سے مٹ جائے گي۔
ہمارے لیے پیغمبر کی حیات طیبہ کے سب سے بڑے دروس میں سے ایک، امت کی تشکیل ہے۔ امت مسلمہ کا، جس کی بنیاد ایک امت کی حیثیت سے پیغمبر اکرم نے مدینے میں رکھی تھی، آج فقدان ہے۔
آپ دیکھیے کہ صیہونی حکومت کیا کر رہی ہے۔ یعنی وہ لوگ جو جرائم کر رہے ہیں وہ بڑی ڈھٹائي سے، بغیر چھپائے ہوئے، غزہ میں کسی طرح، غرب اردن میں دوسری طرح، لبنان میں کسی اور طرح، شام میں کسی اور طرح۔
آج ہمیں امت مسلمہ کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ سیاستداں، علماء، دانشور، پروفیسر، بارسوخ طبقے، صاحبان فکر، شعراء، مصنفنین، سیاسی و سماجی تجزیہ نگار، یہ لوگ اس سلسلے میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
امت مسلمہ کی اندرونی طاقت، صیہونی حکومت کو، کینسر کے اس خبیث پھوڑے کو اسلامی معاشرے کے دل یعنی فلسطین سے دور کر سکتی ہے، زائل کر سکتی ہے اور اس خطے میں امریکا کے رسوخ، تسلط اور منہ زوری والی مداخلت کو ختم کر سکتی ہے۔