ہمارے ذرائع ابلاغ دھیان رکھیں کہ عورت کے بارے میں مغرب اور سرمایہ داری کی غلط اور باطل سوچ کی ترویج کا ذریعہ نہ بن جائيں، ان کا آلۂ کار نہ بن جائیں۔ آپ اسلام کی ترویج کیجیے، اسلام کی رائے کو بیان کیجیے، اسلام کی رائے افتخار آمیز ہے۔
آزادی کے نام پر جنسی بے راہ روی کی روز افزوں ترویج، شاید مغربی سرمایہ داری کے کلچر اور منطق کا شاید سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ وہ یہ سارے برے کام کرتا ہے اور ان کا نام آزادی رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ میں یہ دکھا دیا گيا کہ ایک مسلمان اور دیندار خاتون، ایک پردہ دار اور اسلامی پردے کی پابند خاتون تمام میدانوں میں دوسروں سے زیادہ پیشرفتہ انداز میں آگے بڑھ سکتی ہے۔
مرد کی آمدنی، مثال کے طور پر آفس کی ایک لگی بندھی آمدنی ہے، چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں لیکن گھر چلتا رہتا ہے۔ دوپہر کو کھانا تیار ہے، کون ہنرمند ہے جو گھر کو چلاتا ہے؟
امریکی تو اپنے دوستوں سے بھی غداری کرتے ہیں یعنی جو لوگ ان کے دوست ہیں، ان سے بھی غداری کرتے ہیں۔ تیل اور زیر زمین ذخائر کی خاطر وہ دنیا میں کہیں بھی جنگ کی آگ بھڑکانے کو تیار ہیں۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں امریکا کی مداخلت ان اسباب میں سے ایک ہے جو روز بروز امریکا کو دنیا میں مزید الگ تھلگ کر رہے ہیں، چاہے بعض ملکوں کے سربراہ اس کی خوشامد کریں لیکن یہ چیز اقوام کے درمیان امریکا کو روز بروز زیادہ نفرت انگیز بنا رہی ہے۔
غزہ کے المیے میں صیہونی حکومت بری طرح رسوا اور بدنام ہو گئی اور امریکا بھی اس بدنامی اور رسوائی میں اس غاصب اور ظالم حکومت کے ساتھ کھڑا ہوا وہ بھی رسوا ہو گیا اسے بھی شدید نقصان پہنچا۔
اس بارہ روزہ جنگ میں امریکا کو شدید نقصان ہوا، زبردست نقصان ہوا۔ امریکا کے مقابلے میں ایرانی قوم کا اتحاد مزید بڑھ گيا اور ایرانی قوم حقیقی معنی میں فریق مقابل کو ناکام کرنے میں کامیاب رہی۔
بارہ روزہ جنگ میں ایرانی قوم نے امریکا کو بھی دھول چٹائی اور صیہونیوں کو بھی شکست دی، اس میں کوئی شک نہیں۔ انھوں نے شیطنت کی، مار کھائی اور خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ یہ حقیقی معنی میں شکست ہے۔
ایران کی میزائیل صنعت کے پدر، بریگیڈیر جنرل شہید حسن طہرانی مقدم کے یوم شہادت کی مناسبت سے ان کی اہلیہ، محترمہ الہام حیدری سے گفتگو میں KHAMENEI.IR اس عظیم ہستی کی سرگرمیوں اور زندگی کے بعض گوشوں پر روشنی ڈال رہی ہے۔
امریکا اور مغرب، تسلط پسندی کے خواہاں ہیں ورنہ آپ سے کیا مطلب ہے کہ آپ ایران کے میزائیلوں کے بارے میں اظہار خیال کریں؟ کیا آپ یہ بات تسلیم کریں گے کہ ہم کہیں کہ جب تک یورپ کے پاس میزائيل اور ایٹمی ہتھیار ہے، وہ ہم سے جنگ کے لیے تیار رہے؟
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے مسئلۂ فلسطین کے حل کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانوں پر مشتمل کتاب "فلسطین پر ریفرنڈم" کا اردو نسخہ پاکستانی سینیٹ کے چیئرمین کو پیش کیا۔
امریکی سفارت خانے کا معاملہ یہ تھا کہ وہ انقلاب کے خلاف سازش کا مرکز تھا۔ لوگوں سے ملیں، لوگوں کو ورغلائيں، گروہ بنائيں، پچھلی حکومت کی ناخوش باقیات کو استعمال کریں اور اگر ممکن ہو تو فوج کو ایک ساتھ اکٹھا کریں اور انقلاب کے خلاف کارروائي کریں۔
امریکا کی سامراجی فطرت اور انقلاب کی خود مختارانہ فطرت آپس میں میل نہیں کھاتی تھی۔ اسلامی جمہوریہ اور ایران کا اختلاف ایک ٹیکٹکل اختلاف نہیں ہے، ایک جزوی اختلاف نہیں ہے، بلکہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔
بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم امریکا کے سامنے نہیں جھکے لیکن کیا امریکا سے ہمارے تعلقات بھی ابد تک نہیں ہوں گے؟ جواب یہ ہے کہ اول تو امریکا کی سامراجی ماہیت، سرینڈر کے علاوہ کسی بات کو تسلیم نہیں کرتی۔
اگر امریکا پوری طرح سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی ختم کر دے، اس علاقے سے اپنی فوجی اڈوں کو ختم کر دے، اس خطے میں مداخلت بند کر دے تب اس مسئلے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
ایرانی میزائلوں کے حملوں نے صرف مادی تباہی نہیں مچائی بلکہ ایرانی میزائيلوں کا ہر وار، اس حکومت کی حیثیت پر ایک کاری ضرب اور محفوظ جزیرے کی اس تصویر پر سوالیہ نشان لگا رہا تھا۔
نرس بیمار کے لئے فرشتۂ رحمت ہے۔ یہ حقیقی تعبیر ہے، اس میں کسی طرح کا مبالغہ نہیں ہے۔ نرس حقیقت میں مریض کے لیے غمگسار، شفیق اور باعث آسودگی ہے۔ یہ بہت اہم کردار ہے۔
میرزا نائینی ایک حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہیں اور اسے سیاسی فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اگر ہم آج کے دور کی اصطلاح میں اس اسلامی اور عوامی حکومت کو بیان کرنا چاہیں تو وہ "اسلامی جمہوریہ" کہلائے گی۔
ہماری مسلح فورسز کے پاس یہ میزائیل پہلے سے تیار تھے، انھوں نے انھیں استعمال کیا، ان کے پاس مزید میزائيل ہیں، ضروری ہوا تو وہ کسی اور وقت بھی انھیں استعمال کریں گی۔
امریکا، غزہ کی جنگ کا اصلی شریک جرم ہے، بلاشبہہ۔ خود ٹرمپ نے اپنی باتوں میں اعتراف کیا، کہا کہ غزہ میں ہم نے ساتھ میں کام کیا، اگر وہ نہیں کہتے تب بھی واضح تھا۔
خطے اور حتیٰ کہ دنیا کے لیے اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ ایک چھوٹی اقلیت ہیں لیکن وہ بڑی طاقتوں کے سہارے خطے اور دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے آج ہی سے مزاحمت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ایک یہ کہ خود انحصاری کی حفاظت کرے، دوسرے یہ کہ جنگوں کے نئے عنصر پر جو انفارمیشن اور ادراکی (Cognitive) جنگ ہے، تسلط حاصل کرے تاکہ دشمنوں کا جواب دے سکے، تیسرے یہ کہ عوام پر بھروسے اور قومی یکجہتی کی، جو معاشرے میں پیدا ہوئی ہے، بدستور حفاظت کرے۔
صدر مملکت اور وزیر خارجہ کے اسی حالیہ دورۂ نیویارک میں بہت کوشش کی گئی کہ آخر لمحات میں ہی سہی، صحیح مذاکرات ہوں اور نتیجہ تک پہنچیں لیکن مخالف فریق نہیں مانے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری منطق مضبوط ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے ایران ہمدل نامی پروگرام کے نام ایک ویڈیو پیغام میں رہبر انقلاب اور ایرانی قوم و حکومت کی جانب سے مزاحمت کی حمایت کا شکریہ ادا کیا۔