عالمی یوم قدس کی ریلی، اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایرانی قوم اپنے اہم سیاسی و بنیادی اہداف پر پوری طاقت سے ڈٹی رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ فلسطین کی حمایت کا نعرہ لگائے اور ایک دو سال گزرنے کے بعد اسے چھوڑ دے۔ ایرانی قوم چالیس پینتالیس سال سے یوم قدس کی ریلی میں شرکت کر رہی ہے۔
آج صیہونی ریاست کی بے رحمی نے، بلکہ بے رحمی کا لفظ بھی کم ہے، بہت سی غیر مسلم قوموں کے دلوں کو درد سے بھر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں صیہونی ریاست کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکی، یورپی اور ان جیسے دوسرے سیاستداں جو ایک بڑی غلطی کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خطے میں مزاحمت کے مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز کہتے ہیں۔ یہ ان کی توہین کرتے ہیں۔
غزہ پر غاصب صیہونی حکومت کا دوبارہ حملہ ایک بہت بڑا جرم اور المیہ پیدا کرنے والا ہے۔ پھر بچے قتل ہو رہے ہیں، گھر تباہ ہو رہے ہیں، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں۔ امت مسلمہ کو متحد ہو کر اس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔
بے شک پرہیزگار لوگ بہشتوں اور باغوں میں ہوں گے۔ (51:15) اور ان کا پروردگار جو کچھ انھیں عطا کرے گا وہ لے رہے ہوں گے۔ بے شک وہ اس (دن) سے پہلے ہی (دنیا میں) نیکوکار تھے۔ (51:16) یہ لوگ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ (51:17) اور صبح سحر کے وقت مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔ (51:18) اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے محتاج سب کا حصہ تھا۔ (51:19) اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے (ہماری قدرت کی) نشانیاں ہیں۔ (51:20)
ہندوستانی شاعر کا کلام سننے کے بعد رہبر انقلاب کا تبصرہ: اہم یہ ہے کہ جس کی مادری زبان فارسی نہیں ہے، وہ اتنی صاف ستھری فارسی میں شعر کہے۔ فارسی میں بات کرنا ایک بات ہے اور فارسی میں شعر کہنا دوسری بات ہے۔
اگر مذاکرات کا مقصد پابندیاں ختم کرانا ہے تو امریکا کی اس حکومت سے مذاکرات سے پابندیاں ختم نہیں ہوں گي یعنی وہ پابندیاں نہیں ہٹائے گي۔ وہ پابندیوں کی گرہ کو اور زیادہ پیچیدہ کر دے گی۔
مذاکرات میں انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ فریق مقابل اس چیز پر عمل کرے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ جب ہم جانتے ہیں کہ وہ عمل نہیں کرے گا تو پھر کیسے مذاکرات؟
مذاکرات میں انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق اپنے وعدے پر عمل کرے گا۔ جب ہم جانتے ہیں کہ وہ عمل نہیں کرے گا، تو پھر مذاکرات کا کیا فائدہ؟ لہٰذا، مذاکرات کی دعوت دینا اور مذاکرات کا اظہار کرنا، رائے عامہ کو دھوکہ دینا ہے۔
نمایاں شخصیات کو کھو دینا کسی بھی طرح سے پیچھے ہٹنے، پسپا ہونے اور کمزور ہو جانے کے معنی میں نہیں ہے۔ بس دو عناصر ہونے چاہیے، ان میں سے ایک ہدف ہے اور دوسرا کوشش۔
انسان دعا کر کے، اللہ کے حضور گڑگڑا کر، روزہ رکھ کر، خواہشوں پر قابو کے ذریعے جو روزے کی حالت میں پیدا ہوتا ہے یہ ذکر اور یہ توجہ وجود میں لا سکتا ہے اور خود کو اس خود فراموشی سے نجات دلا سکتا ہے۔
رمضان کا مہینہ، ذکر کا مہینہ ہے، قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن ذکر کی کتاب ہے: قرآن ذکر ہے، ذکر کا باعث ہے، ذکر کی کتاب ہے۔ "ذکر" کا کیا مطلب ہے؟ ذکر، غفلت اور فراموشی کی ضد ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا، ٹھیک ہے، آپ نے ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل کیا؟ آپ نے اپنا وعدہ توڑا، پھر ایک دوسرا وعدہ کیا، دوسرے وعدے کو بھی توڑ دیا۔ آخر ڈھٹائی کی بھی ایک حد ہوتی ہے!
اگر قرآن کی تلاوت صحیح طریقے سے کی جائے اور سنی جائے تو تمام بیماریاں دور ہو جائيں گي۔ قرآن ہمیں علاج بھی بتاتا ہے، اگر ہم صحیح طریقے سے توجہ دیں تو وہ ہمیں علاج بھی بتاتا ہے اور راستہ بھی دکھاتا ہے اور ہمارے اندر جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔
ابھی ایک مہینہ -کچھ کم یا کچھ زیادہ- کی مدت میرے ایران کے سفر اور رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کو نہیں گزری تھی کہ فلسطین کی تحریک انتفاضہ شعلہ ور ہو گئی۔
ہم جب بھی رہبر انقلاب اسلامی کی خدمت میں پہنچتے اور خطے کے حالات کے بارے میں ان سے بات کرتے تھے، تو وہ مسکراتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں مزاحمت کی راہ کو جاری رکھنا ہوگا اور ان شاء اللہ سمجھوتے کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔
رہبر انقلاب کے نمائندوں نے، جو شہید نصر اللہ اور شہید صفی الدین کے جلوس جنازہ میں شرکت کے لیے لبنان پہنچے تھے، آج دوپہر کو صور شہر کے علاقے دیر قانون النہر میں شجاع اور فداکار مجاہد شہید سید ہاشم صفی الدین کے جسد اطہر کے جلوس جنازہ اور تدفین کے پروگرام میں شرکت کی۔
ہم سب سید عزیز کی شہادت پر غمزدہ اور ان کے سوگوار ہیں۔ البتہ ہماری عزاداری افسردگی، ذہنی انتشار اور مایوسی کے معنی میں نہیں ہے۔ یہ سید الشہداء امام حسین ابن علی علیہما السلام کی عزاداری جیسی ہے۔
حزب اللہ اور شہید سید نے غزہ کا دفاع اور مسجد الاقصیٰ کے لیے جہاد کرکے اور غاصب و ظالم صیہونی حکومت پر وار کر کے پورے علاقے کی حیاتی خدمت کی راہ میں قدم بڑھایا۔ خدا کا سلام ہو شہید قائد نصر اللہ پر۔
اپنے جوانوں، اپنے سائنسدانوں، اپنے ٹیکنالوجی کے ماہرین کی کوششوں کی برکت سے، آج ہارڈ ڈیفنس کے لحاظ سے، دشمن کے ہارڈ وئير خطروں سے نمٹنے کے لحاظ سے ہمیں کوئی تشویش اور مشکل نہیں ہے۔
اسلامی انقلاب اپنی ایک مستقل پہچان بنانے میں کامیاب رہا ہے، ایک بڑے اور امید بخش مرکز کی حیثیت سے خطے کی اقوام بلکہ خطے سے باہر کی بعض اقوام تک کے لیے اپنا وجود قائم رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔
اتنے سارے نقائص والے اسی معاہدے کو بھی فریق مقابل نے تباہ کر دیا، خلاف ورزی کی، پھاڑ دیا۔ اس طرح کی حکومت سے مذاکرات نہیں کرنے چاہیے، اس سے مذاکرات کرنا عقلمندی نہیں ہے۔
ایرانی قوم میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ امریکا جارح ہے، امریکا جھوٹا ہے، امریکا فریبی ہے، امریکا سامراجی ہے۔ دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ امریکا انسانی اصولوں میں سے کسی بھی اصول کا پابند نہیں ہے لیکن ان میں اسے بیان کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
سفارتکاری کی مسکراہٹوں کے پیچھے اس طرح کی دشمنیاں، اس طرح کے کینے، اس طرح کے خبیث باطن چھپے ہوئے ہیں، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا سامنا کس سے ہے، ہم کس سے ڈیل کر رہے ہیں، کس سے بات کر رہے ہیں۔
مزاحمت، اسی بعثت کی ایک کرن ہے۔ مزاحمت ایران اسلامی سے شروع ہوئي، اس نے مسلم اقوام کو بیدار کیا۔ بعض مسلم اقوام کو میدان میں لے آئي، عمومی طور پر اس نے مسلم اقوام کو بیدار کیا اور بہت سے غیر مسلموں کے ضمیروں کو بھی بیدار کر دیا۔