جناب ڈاکٹر سید عباس عراقچی نے سنیچر 26 اکتوبر 2024 کی شام KHAMENEI.IR ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے مفادات اور ارضی سالمیت کی حفاظت اور دفاع میں ایران کے لیے کوئي حدبندی نہیں ہے اور خطے کے حالیہ دوروں میں ایران کی دفاعی طاقت اور ایران پر حملے کا ارادہ رکھنے والوں کے خلاف جوابی کارروائي کی اس کی توانائي سے غیر ملکی فریقوں کو آگاہ کر دیا گيا ہے۔ اس انٹرویو کا متن حسب ذیل ہے:
رہبر انقلاب اسلامی سے تحریک حماس اور تحریک جہاد اسلامی کے مشترکہ وفد کی ملاقات کے کچھ گھنٹے بعد KHAMENEI.IR نے شہید اسماعیل ہنیہ اور جناب زیاد النخالہ سے گفتگو کی۔ اس گفتگو میں، جو شہید ہنیہ کا آخری تفصیلی انٹرویو بھی ہے، فلسطین کے دو اسلامی مزاحمتی گروہوں کے رہنماؤں نے فتح کے یقینی ہونے پر تاکید کی اور امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا۔
تفصیلی انٹرویو حسب ذیل ہے:
جمعرات 25 جولائي 2024 کو ویب سائٹ Khamenei.ir نے منتخب صدر جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔ ذیل میں اس کے کچھ منتخب حصے پیش کیے جا رہے ہیں۔
حماس کے رہنما شہید اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے رہنما جناب زیادہ النخالہ نے ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے پہلے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ان دونوں شخصیات سے ویب سايٹ KHAMENEI.IR نے ایک انٹرویو کیا تھا، جس کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔
رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔
میلبورن آسٹریلیا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ابو القاسم رضوی نے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے اس سال کے حج کو حج برائت کا نام دیے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
یاد رہے کہ 8 فروری 2024 کو میٹا کمپنی نے آيت اللہ خامنہ ای کے فارسی انسٹاگرام اور اسی طرح انگریزی انسٹاگرام اور فیس بک پیجز کو بند کر دیا۔ ان پیجز کے پچاس لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے۔ ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے اسی مناسبت سے ایران میں بولیویا کی سفیر محترمہ رومینا پیرز سے ایک انٹرویو میں میٹا کمپنی کے اس اقدام کی وجوہات کا جائزہ لیا ہے۔
سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوتے ہی یمن کے لوگوں نے مختلف طرح سے فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرائيل مخالف مزاحمت و استقامت کی حمایت کا اعلان کیا اور صیہونیوں کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے بعد وہ براہ راست صیہونیوں کے خلاف میدان جنگ میں اتر گئے۔ انھوں نے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں پر حملہ کر کے اور اسی طرح صیہونی حکومت کی معاشی شریانوں کو کاٹ کر، اس غاصب حکومت اور اس کے حامیوں پر زبردست وار کیا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں یمن کے اقدامات بدستور جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے اسلامی جمہوریہ ایران میں یمن کے سفیر جناب ابراہیم محمد الدیلمی سے گفتگو کی ہے۔
اس انٹرویو کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے جنگ غزہ کے 100 دن گزرنے پر صیہونی حکومت کی شکست کے اسباب و علل پر اسٹریٹیجک امور کے ماہر جناب علی رضا سلطان شاہی سے انٹرویو کیا ہے جس کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہر ڈاکٹر مسعود اسد اللہی نے khamenei.ir ویب سایٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینی مزاحمت کے مجاہدوں کا ایمانی جذبہ اور زمینی محاذ پر اترنے کی صیہونی حکومت کی اسٹریٹیجک غلطی، صیہونی حکومت کی شکست کے اہم ترین اسباب ہیں۔ ان کے اس انٹرویو کے کچھ اہم حصے پیش خدمت ہیں۔
مسلح فورسز کے سینیر کمانڈروں میں سے ایک اور سپاہ پاسداران انقلاب کے خاتم الانبیاء سینٹرل ہیڈکوارٹرز کے کمانڈر میجر جنرل غلام علی رشید ان افراد میں سے ہیں جو مقدس دفاع کے دوران برسوں شہید الحاج قاسم سلیمانی کے ساتھ رہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے اس سینیر فوجی جنرل سے گفتگو کی۔ ذیل میں ان کے انٹرویو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ تہران میں شب آٹھ محرم 1445 ہجری کی مجلس سید الشہدا برپا ہوئی جس میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے بھی شرکت کی۔ اس مجلس سے خطاب میں حجت الاسلام والمسلمین علی اکبری نے حضرت علی اکبر علیه السلام کی شخصیت پر نوجوانوں کی اسلامی تربیت کے لئے مثالی ہستی کے عنوان سے روشنی ڈالی۔ KHAMENEI.IR کی اردو ویب سایٹ پر اس خطاب کی تلخیص پیش کی جاتی ہے۔
تہران کے حسینیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں شب نو محرم 1445 ہجری کی مجلس سید الشہدا برپا ہوئی جس میں رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بھی شرکت کی۔ اس مجلس سے خطاب میں حجت الاسلام والمسلمین مسعود عالی نے حضرت عباس ابن علی علیہ السلام کی شخصیت، بصیرت اور وقت کی شناخت کے موضوع پر روشنی ڈالی۔ KHAMENEI.IR میڈیا ہاؤس اس خطاب کے چند اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش کرتا ہے۔
KHAMENEI.IR کے ساتھ خصوصی گفتگو میں، ستمبر2022 میں ایران میں شروع ہونے والے بلوؤں کی شکل میں دشمن کی ہائبرڈ جنگ کے بارے میں سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ کا تجزیہ
"15 اکتوبر 2022 کو تہران میں ایک سفارتخانے میں یورپی سفیروں کی میٹنگ، ایران کے اہم فوجی، خلائی اور ایٹمی سائنسدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی اور امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کی جانب سے انقلاب مخالف کرد گروہوں کی اسلحہ جاتی حمایت کو ان بلوؤں کے تعلق سے دشمن کے اہم اور قابل توجہ اقدامات میں شمار کیا جا سکتا ہے جو سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس سروس کی نگاہوں سے پنہاں نہیں تھے۔"
KHAMENEI.IR نے گزشتہ برس کے بلوؤں کے حقائق کو سامنے لانے کی غرض سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے انٹیلیجنس چیف بریگیڈ یئر محمد کاظمی کے ساتھ تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ بریگیڈ یئر کاظمی کے مطابق ان بلوؤں کو شعلہ ور کرنے میں تقریبا بیس ملکوں کی جاسوسی تنظیمیں ملوث رہی ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رمضان المبارک میں ملک کے عہدیداروں سے اپنی ملاقات میں، امریکہ کے زوال کی طرف بڑھتے قدم کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”میں نے کہا کہ ہمارے مقابلے میں موجود محاذ کمزور ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارا سب سے بڑا مخالف امریکہ ہی تو ہے۔ اوباما کا امریکہ بش کے امریکہ کی بہ نسبت کمزور تھا، ٹرمپ کا امریکہ اوباما کے امریکہ کی بہ نسبت کمزور تھا، ان صاحب (بائیڈن) کا امریکہ ٹرمپ کے امریکہ کی بہ نسبت زیادہ کمزور ہے۔ “ (4/4/2023)
KHAMENEI.IR نے تہران یونیورسٹی کے فیکلٹی ممبر و بین الاقوامی معاملوں کے تجزیہ نگار ڈاکٹر سید محمد مرندی سے بات چیت میں امریکہ کے زوال اور یوکرین جنگ شروع کروانے میں امریکہ کے کردار پر گفتگو کی۔
انٹرویو: عالم اسلام کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر سعد اللہ زارعی
رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ کچھ برسوں میں بارہا، صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے کچھ عرب ملکوں کے اقدام کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں سے غداری بتایا ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے علامہ طباطبائي یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر اور عالم اسلام کے مسائل کے ماہر جناب ڈاکٹر سعد اللہ زارعی سے ایک گفتگو میں صیہونی حکومت سے تعلقات کی بحالی اور خطے کی اقوام پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔
حالیہ چند مہینوں میں رہبر انقلاب اسلامی نے جن اہم موضوعات کا مکرر ذکر کیا ان میں ایک موجودہ عالمی نظام میں بنیادی تبدیلی اور ایک نئے عالمی نظام کی تشکیل کی طرف دنیا کی پیش قدمی ہے۔ ان کے بقول اس تبدیلی کی اہم خصوصیت، مغرب اور امریکہ کی طاقت کا زوال ہے۔ KHAMENEI.IR وب سائٹ نے اس موضوع پر روشنی ڈالنے اور اس کا جائزہ لینے کے لئے عدلیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سیکریٹری ڈاکٹر جواد لاریجانی سے گفتگو کی ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ Khamenei.ir نے، ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے رکن ڈاکٹر محمد رضا مخبر دزفولی سے اسلامی انقلاب کے بعد، یونیورسٹیوں کی سطح پر آنے والی بنیادی تبدیلیوں کے بارے میں گفتگو کی۔
تشخیص مصلحت نظام کونسل کے رکن سید مرتضی نبوی کا انٹرویو
رہبر انقلاب اسلامی نے 4 نومبر (اسکولی بچوں کے دن) کی مناسبت سے اسکولوں کے طلبہ سے ملاقات میں، دشمن کی جانب سے حالیہ ہنگاموں میں تمام وسائل اور توانائیوں کا استعمال کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایرانی قوم کے خلاف ایک ہائبرڈ جنگ بتایا۔ انھوں نے زور دے کر کہا: "پچھلے کچھ ہفتوں میں ہونے والے ہنگامے، صرف سڑک پر ہونے والے ہنگامے نہیں تھے، اس کی پشت پر بڑی گہری سازشیں تھیں۔ دشمن نے ایک ہائبرڈ جنگ شروع کی ہے، ایک ہائبرڈ جنگ، یہ بات میں آپ کو ٹھوس اطلاعات کی بنیاد پر بتا رہا ہوں۔ دشمن یعنی امریکا، اسرائيل، بعض موذی اور خبیث یورپی طاقتوں، بعض گروہوں اور گینگس نے اپنے تمام وسائل میدان میں اتار دیے ہیں۔" (2/11/2022)
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے تشخیص مصلحت نظام کونسل (ایکسپیڈیئنسی ڈیسرنمنٹ کونسل) کے رکن انجینئیر سید مرتضی نبوی سے ایک انٹرویو میں حالیہ ہنگاموں میں ایرانی قوم کے خلاف دشمن کی ہائبرڈ جنگ کا جائزہ لیا۔
سوال : رہبر انقلاب اسلامی نے امام حسن مجتبی ڈیفنس اکیڈمی میں اپنے حالیہ خطاب میں کہا کہ دشمن، بہت پہلے سے اس سال 'ماہ مہر' کے آغاز (23 ستمبر) سے ملک میں بلوے اور بد امنی پھیلانے کی کوشش میں تھا " رہبر انقلاب کا یہ بیان در اصل بہت سے شواہد اور قرائن پر استوار ہے۔ آپ کی نظر میں اس خیال کے پیچھے کون سے شواہد تھے اور ان حالات کے بارے میں وزارت انٹلی جنس کا اندازہ کیا تھا؟
ایران کی وزارت انٹیلیجنس اور سپاہ پاسداران انقلاب کی انٹیلیجنس نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے ایران میں ہنگامے اور بلوے کروانے کی سی آئی کی قیادت میں خفیہ ایجنسیوں کی سازشوں کی تفصیلات بیان کیں۔ اس بیان کا عنوان ہے ایران کو ویران کرنے کا ایجنڈا شرمناک شکست سے دوچار ہوا۔
وینیزوئیلا کے صدر نکولس مادورو نے اپنے حالیہ دورۂ تہران میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ انھوں نے اس ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف اور مدد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی حکومت کی سامراج مخالف پالیسیوں پر زور دیا۔ KHAMENEI.IR نے اسی سلسلے میں وینیزوئیلا کے صدر سے گفتگو کي۔
شام کے صدر بشار اسد نے اتوار کو تہران کا دورہ کیا جہاں انہوں نے صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقات کے ساتھ ہی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللھیان کے مطابق باہمی تعلقات اور تعاون کی نظر سے یہ سفر بہت اہم ہے جبکہ اس کے دیگر اہم پہلو بھی ہیں۔
اسلامی انقلاب کی تینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی اردو ویب سائٹ urdu.khamenei.ir نے بر صغیر کے ممتاز علماء و اسلامک اسکالرز حجت الاسلام و المسلمین آقا سید حسن الموسوی، حجت الاسلام و المسلمین عالی جناب مولانا روح ظفر رضوی، حجت الاسلام و المسلمین علامہ شہنشاہ نقوی سے انٹرویو کئے۔ تینوں دانشوروں کے تاثرات ملاحظہ فرمائيے۔
پندرہویں صدی عیسوی میں دنیا میں مسلمان اور مسیحی طاقتوں کے درمیان ایک طرح کا بنیادی توازن پایا جاتا تھا۔ یعنی مادی طاقت کے لحاظ سے ان دونوں تمدنوں میں سے کسی کو بھی دوسرے پر واضح برتری نہیں تھی لیکن بعد میں یہ توازن بگڑ گیا۔ سولہویں صدی اور اس کے بعد مغربی دنیا میں جو تبدیلیائي آئيں ان کے تحت مغربی دنیا کو مادی طاقت کے لحاظ سے برتری حاصل ہو گئي۔ دور سے وار کرنے والے ہتھیاروں، بندوق، توپ وغیرہ کی ایجاد، توازن کی اس تبدیلی کا بنیادی سبب تھی۔ فزکس اور ریاضی جیسے علوم کا فروغ اور سائنسی علوم کا دوسری راہ پر چل پڑنا - وہ راستہ جسے نیوٹن نے شروع کیا اور ریاضی دانوں اور فزکس دانوں نے اسے جاری رکھا - فطرت پر مغربی دنیا کے زیادہ تسلط میں مؤثر ثابت ہوا۔
20 ویں صدی، سنہ 1979 تک کہ جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سال ہے، دنیا میں مسلمانوں کی ناکامیوں کی صدی ہے۔ سیاہ اور تلخ صدی، مسلسل شکستوں کی صدی اور مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے زوال کی صدی ہے۔
20 ویں صدی میں خاص طور پر اس کے نصف دوم میں، دوسری جنگ عظیم کے بعد نوآبادیاتی ممالک کو ظاہری خودمختاری حاصل ہو گئی لیکن ان تبدیلیوں سے عالم اسلام کو عملی طور پر کوئي بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ یعنی دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی تبدیلیاں، دنیا میں کسی بھی جگہ اسلامی طاقت کی بحالی پر منتج نہیں ہوئيں۔ بیسویں صدی میں عالم اسلام میں جو سب سے اہم واقعہ رونما ہوا وہ عثمانی سلطنت کا خاتمہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ ایک ایسی طاقت تھی جس کے قبضۂ اختیار میں آج کا پورا مشرق وسطی، شمالی افریقا اور خلیج فارس و بلقان کے کچھ حصے تھے اور یہ طاقت یورپ میں ویانا کے دروازے تک پہنچ چکی تھی لیکن پہلی جنگ عظیم میں اسے شکست ہوئي اور پھر وہ واقعہ رونما ہوا جس کے نتائج آج بھی مسلمان بھگت رہے ہیں۔
یونیورسٹیاں، خاص طور بشریات کی یونیورسٹیاں مغربی نظریوں کے کنٹرول میں تھیں اور کوئي بھی اسلامی ملک، مغربی تمدن میں پیدا ہونے والے اور اسلامی ملکوں میں انڈیل دئے جانے والے بشریات کے علوم کے علاوہ یونیورسٹی میں کسی دوسری طرح کے انسانی علوم کو تیار کرنے کی فکر اور جذبہ نہیں رکھتا تھا۔
اس موضوع کی اہمیت کو بہتر طریقے سے اجاگر کرنے کے لیے میں نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کے ایک حصے کو چنا ہے جو انھوں نے 9 ستمبر سنہ 1964 کو قم میں کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں: "مسلمان وہ تھے جن کی عظمت پوری دنیا پر چھائی ہوئي تھی، ان کا تمدن، تمام تمدنوں پر بھاری تھا، ان کی معنوی چیزیں، تمام معنویات سے بالا تھیں، ان کی ہستیاں، تمام ہستیوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھیں، ان کی مملکت کی توسیع، تمام ملکوں سے زیادہ تھی، ان کی حکومت کا دائرہ پوری دنیا تک پھیلا ہوا تھا، ان لوگوں نے دیکھا کہ اس دائرۂ حکومت اور اسلامی حکومتوں کے اس اتحاد کی وجہ سے ان پر وہ چیزیں مسلط نہیں کی جا سکتیں جو وہ چاہتے ہیں۔ ان کے خزانوں پر، ان کے کالے سونے پر، ان کے پیلے سونے پر اور دوسری چیزوں پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا، تو انھوں نے اس کے لیے چارہ اندیشی کی۔ طریقہ یہ تھا کہ اسلامی ممالک کے درمیان تفرقہ پیدا کر دیں۔
شاید بہت سے لوگوں کو، آپ میں سے بعض کو عالمی جنگ یاد ہو، پہلی عالمی جنگ میں مسلمانوں اور بڑی عثمانی حکومت کے ساتھ کیا کیا گيا؟ سلطنت عثمانیہ ان حکومتوں میں سے ایک تھی کہ جو اگر سوویت یونین سے ٹکرا جاتیں تو عین ممکن تھا کہ اسے زمین بوس کر دیتیں۔ دوسری حکومتیں، میدان میں اس کی حریف نہیں تھیں۔ عثمانی حکومت، ایک اسلامی حکومت تھی جس کا دائرۂ اقتدار تقریبا مشرق سے مغرب تک پھیلا ہوا تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ اس اسلامی حکومت کا، جو اتنی طاقتور ہے، کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا، اس کے خزانوں کو لوٹا نہیں جا سکتا۔ جب اس جنگ میں، اس طرح سے انھوں نے غلبہ حاصل کر لیا تو عثمانی حکومت کو بہت چھوٹی چھوٹی حکومتوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے بھی ہر ایک کے لیے یا تو امیر مقرر کر دیا، یا سلطان معین کر دیا یا پھر صدر طے کر دیا۔"
البتہ ناکامیاں، سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے تک محدود نہیں تھیں۔ تاہم سب سے اہم ناکامی عثمانی حکومت کا شیرازہ بکھرنا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام خمینی، عثمانی سلطانوں کے تمام کاموں کو اسلام کے مطابق مانتے تھے۔ ان باتوں سے الگ، امام خمینی کا ایک اور نظریہ تھا۔ ایک دوسرا واقعہ بھی رونما ہوا جو بیسویں صدی کا ایک دوسرا خسارہ تھا اور وہ روس میں مارکسسٹ انقلاب کی کامیابی اور سوویت یونین کا وجود میں آنا تھا جو اس بات کا سبب بنا کہ قفقاز، تاجکستان، ترکمنستان، قزاقستان، قرقیزستان اور وسطی ایشیا کے کروڑوں مسلمان، دین مخالف اور الحادی مارکسسٹ حکومت کے تحت آ جائيں اور اسلام اور عالم اسلام سے ان کا رابطہ ستّر سال کے لیے کٹ جائے۔
ایک دوسرا تباہ کن واقعہ، سن انیس سو اڑتالیس میں دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطی میں اسرائيل کے نام سے ایک جعلی حکومت کا وجود میں آنا تھا جو ایک خنجر کی طرح عالم اسلام کے جسم میں گھس گيا اور جو امام خمینی کے الفاظ میں 'کینسر کا پھوڑا' تھا۔ اس جعلی و غاصب حکومت کے معرض وجود میں آنے کے بعد کے ان برسوں میں، فلسطینی عوام، عربوں اور مسلمانوں پر کیا کیا مصائب ڈھائے گئے ہیں اور عالم اسلام کو کیا کیا مصیبتیں برداشت کرنی پڑی ہیں۔
عالم اسلام کے مشرق میں رونما ہونے والا ایک دوسرا واقعہ، مملکت پاکستان کا تشکیل پانا تھا۔ پاکستان کے بانیوں کی نیت یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان ملک بنائيں اور مسلمانوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے اقتدار میں پہنچائيں لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئي۔ افسوس کہ پاکستان ایک طاقتور اسلامی ملک میں تبدیل نہیں ہوا۔ ہندوستان سے پاکستان کی علیحدگي کے آغاز سے ہی دونوں ملکوں کی سرحدیں، امن کی سرحدیں نہیں تھیں بلکہ جنگ کی سرحدیں تھیں۔ کشمیر کا یہ پرانا زخم بدستور ٹکراؤ کا سبب ہے۔ دشمنوں نے نہیں چاہا کہ یہ مسئلہ حل ہو۔
ہندوستان، سوویت یونین کی طرف جھک گيا جبکہ پاکستان، امریکا کے جال میں پھنس گيا۔ اس کے بعد خود پاکستان کے بھی دو حصے ہو گئے، مشرقی پاکستان، بنگلادیش کے نام سے مغربی پاکستان سے الگ ہو گيا اور ایک بار پھر علیحدگي اور تفرقہ سامنے آیا۔
ان حالات میں عالم اسلام کے ایک بڑے ملک اور ایک نسبتا بڑی آبادی والے ملک یعنی ایران میں، قدیمی ایران میں، تاریخی ملک ایران میں مغربی دنیا کی مبہوت نظروں کے سامنے سنہ 1979 میں ایک عالم دین، ایک فقیہ اور ایک مرجع تقلید کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے نام سے ایک انقلاب کامیاب ہوا۔
یہ انقلاب، اسلامی افکار کی بنیاد پر ایک ایسی تحریک تھا جو سامراج مخالف تھی، ظلم کے خلاف تھا، حریت پسندانہ تھی لیکن اپنے آپ پر منحصر تھی، فکری و ثقافتی لحاظ سے بھی اور جدوجہد کے طریقوں کے لحاظ سے بھی۔ یہ وہ انقلاب تھا جسے امام خمینی نے فتح سے ہمکنار کیا تھا اور جو مشرق و مغرب سے کسی طرح وابستہ نہیں تھا۔ 'لاشرقیہ و لاغربیہ' کا نعرہ اس انقلاب کی فکری و سیاسی خودمختاری کو اس وقت کی حکمراں طاقتوں کے سامنے عیاں کر رہا تھا اور تمام اسلامی ملکوں کو بتا رہا تھا کہ یہ انقلاب، 'ازم' کے مختلف مغربی عناوین کے ساتھ اسلامی ملکوں میں سامنے آنے والے تمام قیاموں اور تحریکوں سے پوری طرح الگ ہے۔ یہ مشرقی کمیونزم کا بھی مخالف ہے اور مغربی سرمایہ داری کے بھی خلاف ہے۔
امام خمینی نے جدوجہد کی روش میں سرمایہ دارانہ مغرب اور کمیونسٹی مشرق میں رائج اور جانے پہچانے طریقوں کی پیروی نہیں کی؛ انھوں نے نہ تو مغرب کے پارٹی سسٹم کا اتباع کیا اور نہ ہی کمیونسٹ ملکوں کے مزدوروں، چھاپہ ماروں، کسانوں، نچلے طبقوں، انڈر گراؤنڈ رہ کر کام کرنے والوں اور مسلحانہ جدوجہد کی روش اپنائي۔ اللہ پر توکل کرنا، تمام عوامی گروہوں کی حمایت اور خالی ہاتھ جدوجہد، امام خمینی کی روش تھی۔ پھر جب انقلاب کامیاب ہو گيا تو انھوں نے فرمایا: "اسلامی جمہوریہ! نہ ایک لفظ کم، نہ ایک لفظ زیادہ۔"
ناامیدی سے بھری اس دنیا میں، ناکامیوں سے پر اس صدی میں، اس دور میں اسلامی دنیا کے افق پر جب کہیں سے کوئي بھی کرن مسلم نوجوان کے دل کی ڈھارس نہیں بن رہی تھی، امام خمینی کا کام یہ تھا کہ انھوں نے دنیا میں دینی حکومت کا احیاء کیا۔ یہ وہ نظریہ تھا جسے مغرب چار سو سال پہلے ختم شدہ اعلان کر چکا تھا اور اسے نظریات کی تاریخ کے حوالے کر چکا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک بار پھر دین، مسند حکومت پر براجمان ہو جائے گا۔ امام خمینی نے، دینی حکومت کا اعلان کیا اور جہاد و شہادت کی ثقافت کو پھر سے زندہ کر دیا۔ انھوں نے جہاد اور شہادت کے بھلائے جا چکے احکام کو ایک بار پھر زندہ کر دیا۔ انھوں نے جو کام کیا وہ اس ہمہ گير دین مخالف نظریے کی نفی تھی جو مشرق و مغرب اور اسلام ملکوں میں شرق و غرب زدہ افراد کے افکار پر چھایا ہوا تھا۔ امام خمینی نے اسلام کی سیاسی طاقت کا احیا کیا اور ساتھ ہی دینی حکومت کے نظریے کی تدوین کی اور اس نظریے میں عوام اور خدا کے رابطے، وحی اور احکام الہی کی پوزیشن، عوام کے مقام اور عوام کے کردار کو نظریاتی طور پر بیان کیا۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ انھوں نے عملی طور پر ایک حقیقی نمونہ ایجاد کیا۔ انھوں نے ایک حکومت کو وجود بخشا تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ یہ باتیں عملی جامہ نہیں پہن سکتیں اور صرف کاغذ پر ہیں اور کتابوں کی الماریوں کو زیب دیتی ہیں۔
اب دیگر مسلمانوں کے لیے سوال یہ نہیں ہے کہ دین کے ساتھ حکومت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس سوال کا جواب دیا جا چکا ہے؛ اب سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح اپنے اپنے ملکوں میں یہ کام کر سکتے ہیں اور اس ممکن کام کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟
پابندیوں، دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی استقامت اور اسلامی جمہوریہ میں ہونے والی سائنسی و صنعتی پیشرفت اور مختلف طرح کے سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر نظاموں کی تشکیل، تمام مسلمانوں کے لیے پیغام ہے۔
معروف اسلامک اسکالر، نظریہ پرداز، مصنف اور سیاستداں ڈاکٹر غلام علی حداد عادل کی تقریر کے چند اقتباسات
شہید الحاج جنرل قاسم سلیمانی کی دوسری برسی ایسے عالم میں منائی گئي کہ ان کا نام اور ان کی یاد، عالم اسلام میں پہلے سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ سپاہ پاسداران کی قدس فورس کے کمانڈر کے قتل نے نہ صرف یہ کہ ان کے مشن میں کوئي رکاوٹ نہیں ڈالی بلکہ دلوں میں ایسی حرارت پیدا کر دی ہے کہ جو اب پورے عالم اسلام کو سامراجیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور جہاد کی دعوت دے رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران عالم اسلام میں اتحاد کے لئے دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے 12 -17 ربیع الاول کو ہفتے وحدت اعلان کیا۔ تب سے آج تک اسلامی دنیا میں اتحاد کے لئے بے شمار کانفرنسیں، سیمینار اور پروگرام ہو چکے ہیں۔
امت مسلمہ پیکر واحد، وحدت اسلامی کے راستے کی رکاوٹیں، مزاحمتی محاذ بیک وقت سامراج مخالف طاقت اور اتحاد بین المسلمین کا مظہر، ہفتہ وحدت منانے کا نظریہ جیسے نکات پر اہم گفتگو
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان آئی ایس او کے مرکزی صدر جناب عارف حسین نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ Khamenei.ir کے لئے اپنے انٹرویو میں اتحاد کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ آئی ایس کے صدر نے اتحاد کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی کے نظریات کی روشنی میں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت، اس کے ثمرات، اس راہ کی رکاوٹیں جیسے نکات کا احاطہ کیا۔
ہفتہ وحدت اسلامی کے موقع پر علامہ محمد امین شہیدی، سربراہ امت واحدہ پاکستان نے آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ khamenei.ir کو ایک انٹرویو دیا جس میں ممتاز رہنما اور مفکر علامہ محمد امین شہیدی نے اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے رہنما نظریات کا جائزہ لیا اور اتحاد کے گوناگوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
ہفتہ اتحاد بین المسلمین کے موقع پر معروف عالم دین اور ممتاز مفکر حجت الاسلام و المسلمین سید حسین مہدی حسینی نے ویب سائٹ Khamenei.ir کے لئے ایک وائس نوٹ بھیجا جس میں اتحاد بین المسلمین پر بانی انقلاب اسلامی امام خمینی اور رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے موقف پر روشنی ڈالی۔
کورونا وائرس کی وبا پھیلی تو دنیا کے بعض ممالک نے اس کی ویکسین بنانے کے لئے ریسرچ کا کام شروع کر دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں بھی میڈیکل سائنس کے شعبے کے کئی تحقیقاتی مراکز نے مغربی ممالک کی سخت پابندیوں کے باوجود ایرانی ویکسین بنانے کے لئے ریسرچ کا آغاز کیا۔ اب کورونا وائرس کی ایرانی ویکسین 'کوو ایران برکت' بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے 'فرمان امام ادارے' کی ایگزیکٹیو کمیٹی کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر حسن جلیلی سے گفتگو کی تاکہ اس مرکز کی تحقیقاتی سرگرمیوں کی کچھ تفصیلات منظر عام پر آئیں۔
8 فروری سنہ 2021 کو روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے نام رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کا پیغام ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر محمد باقر قالیباف کے توسط سے روسی کی پارلیمنٹ ڈیوما کے اسپیکر اور پوتین کے خصوصی نمائندے کے سپرد کیا گيا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 جنوری 2021 کو ٹی وی پر اپنے ایک خطاب میں ایٹمی معاہدے 'جے سی پی او اے' کے سلسلے میں ایران کے روئے اور اس سلسلے میں امریکہ کے فرائض کے سلسلے میں کہا کہ "ہمیں ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر کوئي اصرار نہيں ہے، بنیادی طور پر ہمارا یہ مسئلہ ہی نہيں ہے کہ امریکہ 'جے سی پی او اے' میں واپس لوٹے یا نہ لوٹے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 جنوری 2021 کو ٹی وی پر اپنے ایک خطاب میں جوائنٹ کامپریہینسیو پلان آف ایکشن 'جے سی پی او اے' کے سلسلے میں ایران کے طریقہ کار اور اس سلسلے میں امریکہ کے فرائض کے سلسلے میں کہا کہ "ہمیں ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی پر کوئي اصرار نہيں ہے، بنیادی طور پر ہمارا یہ مسئلہ ہی نہيں ہے کہ امریکہ جے سی پی او اے میں واپس لوٹے یا نہ لوٹے۔
رہبر انقلاب اسلامی آيۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 8 جنوری 2021 کو ٹی وی سے نشر ہونے والی اپنی تقریر میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں ایران کے رویے اور اس مسئلے میں امریکا کے کمٹمنٹس کے بارے میں کہا: "ہمیں کوئي اصرار نہیں ہے، بالکل جلدبازی نہیں ہے کہ امریکا ایٹمی معاہدے میں لوٹ آئے؛