رہبر انقلاب اسلامی: خدا رحمت کرے، مرحوم جناب خوشوقت پر، انھوں نے بتایا کہ ایک عارف نے ایک #مکاشفے کے دوران دیکھا کہ ایک بلندی ہے۔ کچھ نوجوان وہاں آتے ہیں اور ایک ہی چھلانگ میں اس بلندی پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس عارف نے بھی کئي بار چھلانگ لگائي، لاکھ کوشش کی، لیکن اس بلندی پر نہیں پہنچ سکا اور زمین پر گر گيا۔ بعد میں اس کی سمجھ میں آيا کہ وہ #نوجوان ہیں اور وہ خود بوڑھا ہے۔ روحانیت اور معنویت کی دنیا بھی ایسی ہی ہے، عرفان کی دنیا بھی ایسی ہی ہے، خدا کے جمال کی دید اور اس کا مشاہدہ بھی ایسا ہی ہے؛ وہاں بھی جوان کی تیاری زیادہ ہے؛ وہ بہتر طریقے سے پرواز کر سکتا ہے اور زیادہ اونچے راستوں پر چھلانگ لگا سکتا ہے۔ بوڑھے جب تک کوشش کر کے آگے بڑھیں گے تب تک وقت گزر چکا ہوگا اور پھر ان کی توانائي بھی جواب دے جائے گي۔ 9 نومبر 2016
جب تیرہ آبان (مطابق چار نومبر 1979) کا واقعہ ہوا تو ہم ایران میں نہیں تھے۔ میں اور ہاشمی (رفسنجانی) صاحب مکے میں تھے، حج کے ایام تھے اور مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم مکے میں چھت پر بیٹھے ہوئے تھے یا لیٹے ہوئے تھے اور سونا چاہ رہے تھے۔ ہم ریڈیو سن رہے تھے، ایران کے ریڈیو کے بارہ بجے کے خبرنامے میں بتایا گيا کہ امام خمینی کے پیروکار مسلمان طلباء نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا ہے۔ ہمیں یہ بات بہت اہم لگي، البتہ تھوڑی تشویش بھی ہوئي کہ یہ لوگ کون ہیں؟ جن طلباء نے یہ کام کیا ہے وہ کس دھڑے کے ہیں، کس گروہ کے ہیں؟ کیونکہ اس بات کا بھی امکان تھا کہ بائیں بازو کے دھڑے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کچھ اقدامات کریں اور شاید کچھ دلچسپ اور اشتعال انگیز نعرے بھی لگائيں۔ ہمیں سخت تشویش ہو رہی تھی لیکن بارہ بجے کے خبرنامے میں بتایا گيا کہ یہ کام امام خمینی کے پیروکار مسلمان طلباء نے کیا ہے۔
جیسے ہی ہم نے مسلمان اور امام خمینی کے پیروکار طلباء کا نام سنا، ہمیں اطمینان ہو گيا۔ یعنی ہم سمجھ گئے کہ نہیں، یہ کام بائیں بازو والوں، منافقوں اور موقع سے فائدہ اٹھانے والوں کا نہیں ہے بلکہ یہ اپنے ہی مسلمان طلباء ہیں جنھوں نے یہ کام کیا ہے۔ اس کے بعد ہم وطن واپس لوٹے۔ جب ہم ایران لوٹے تو ابتدائي دنوں کے ہنگاموں کا سامنا ہوا۔ بہت زیادہ کھینچ تان تھیں، ایک طرف عبوری حکومت سخت ناراض تھی کہ یہ کیا صورتحال ہے؟ یہ کیسا واقعہ ہے؟ دوسری طرف عوام میں زبردست جوش و ولولہ تھا جس کی وجہ سے آخرکار عبوری حکومت کو استعفی دینا پڑا۔
ہم اس معاملے کو ان لوگوں کی نظر سے دیکھ رہے تھے جو صحیح معنی میں امریکا سے مقابلے پر یقین رکھتے ہیں۔ انقلابی کونسل میں بھی ہم طلباء کی اس کارروائي کا دفاع کر رہے تھے۔
میں نے اسی وقت جاسوسی کے اڈے کے اندر ایک تقریر بھی کی، ان لوگوں نے دس بارہ دن، وہاں مجلس بھی منعقد کی کیونکہ محرم کے ایام آ گئے تھے۔ تہران کی تمام انجمنیں، ماتم کرتے ہوئے وہاں جاتی تھیں۔ ہر رات وہاں اکٹھا ہوتے تھے اور مجلس و ماتم کا انعقاد ہوتا تھا۔ ہر رات ایک ذاکر وہاں جاتا تھا۔ ایک رات میں بھی وہاں گيا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ تقریر بڑی زبردست اور پرجوش ہوئي۔
جمہوری اسلامی پارٹی کی طلباء تنظیم سے رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے انٹرویو کا ایک حصہ (29/10/1984)
جنرل حجازی کی دسمبر 2020 کی ایک گفتگو سے اقتباس
سردار قاسم سلیمانی کی شخصیت کا ایک خاص پہلو جو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ان کی مذاکراتی صلاحیت تھی۔ رہبر انقلاب اسلامی بھی فرما چکے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کی گفتگو موثر اور قائل کر دینے والی ہوتی تھی۔
طاغوت (شاہ) کے اس دور میں، قرآن اور تفسیر کی کلاس میں جو نوجوان آیا کرتے تھے، میں ان سے کہا کرتا تھا کہ اپنی جیب میں ایک قرآن رکھا کیجئے، جب بھی وقت ملے یا کسی کام کے انتظار میں رکنا ہو تو ایک منٹ، دو منٹ، آدھا گھنٹہ، قرآن کھولئے اور تلاوت کیجئے، تاکہ اس کتاب سے انسیت ہو جائے۔
صدام کی لشکر کشی جس نے آٹھ سال تک ہمیں جدوجہد اور جنگ کی مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا کوئی حیرت انگیز واقعہ نہیں تھا۔ خود مختار اور حریت پسند اقوام کے خلاف استکبار کی دائمی روش یہی ہے۔ میری صدارت کے ابتدائی برسوں کی بات ہے گنی کوناکری کے صدر احمد سیکوتورے جو افریقا کی ممتاز انقلابی، باوقار، علمی و سیاسی شخصیت کے حامل تھے اور ساری دنیا میں اور یورپ میں بھی ان کی بڑی عزت تھی، ایران آئے۔ مجھ سے گفتگو میں انھوں نے یہ بات کہی کہ انقلاب کے بعد آپ پر بغداد کا حملہ شروع ہوا تو ہمیں اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ بیشتر خود مختار ممالک کے خلاف سامراج نے یہ ایک حربہ ضرور استعمال کیا کہ سرحدوں کی طرف سے اس پر فوجی دباؤ بڑھا دیا تاکہ اس ملک کے مالیاتی اور انسانی وسائل تباہ ہو جائیں اور وہ ملک ان قوتوں کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ بننے کے قابل نہ رہے۔ تو یہ ہمارے خلاف دشمن کا طے شدہ منصوبہ تھا۔
یہی امریکی اور ان کے موجودہ وزیر دفاع جو آئے دن اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں، ان افراد میں تھے جو صدام سے، خود تعاون کر رہے تھے، اس کی سائنسی، اسلحہ جاتی اور انٹیلیجنس مدد کر رہے تھے تاکہ وہ ایران کو شکست دے سکیں۔ مگر وہ ناکام رہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ بیدار ہیں اور جب تک عہدیداران حقیقی معنی میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی محسوس کر رہے ہیں، اس وقت تک امریکہ اور دوسری طاقتیں اس ملت اور اس نظام کا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گی۔
امام خامنہ ای
14 اکتوبر 2003
میں کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں کہ امریکہ ہمیں جو جنگی طیارے اور دیگر وسائل فروخت کرتا تھا ان کے بارے میں شرط یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح کی مرمت اور تعمیر خود امریکی کریں گے ہمیں پرزو کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں تھی۔ ان وسائل کو فروخت کرنے کا طریقہ بھی بڑا عجیب تھا۔ اس زمانے میں ایران اور امریکہ کا ایک مشترکہ فنڈ ہوا کرتا تھا۔ انقلاب کے اوائل میں جب میں وزارت دفاع میں گیا اور وہاں کام میں مصروف ہوا تو مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی۔ اس کے بعد میں نے پارلیمنٹ میں جاکر اس مسئلے کو اٹھایا۔ امریکیوں نے آج تک اس کا جواب نہیں دیا ہے۔ ایک فنڈ تھا جس کا مخفف تھا F.M.S۔ ایران کی حکومت اسی فنڈ میں پیسے جمع کروا دیتی تھی اور ایران کو کیا سامان فروخت کیا جانا ہے، کس قیمت پر بیچنا ہے اور فنڈ سے پیسے نکالنے کا کیا طریقہ ہے یہ سب کچھ امریکیوں کے اختیار میں تھا! جب انقلاب کامیاب ہوا تو اس فنڈ میں اربوں ڈالر کی رقم موجود تھی جس کے بارے میں آج تک امریکیوں نے جواب نہیں دیا ہے۔ وہ پیسہ انھوں نے ملت ایران کو لوٹایا نہیں ہے۔
امام خامنہ ای
12 مارچ 2001
اکتوبر سنہ 1970 کی بات ہے کہ میں جیل میں تھا اور ماہ رمضان آ گیا۔ رمضان کی آمد سے میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ کیونکہ بچپن سے ہی مجھے اس مہینے سے بڑی انسیت تھی۔ اس مہینے میں روزمرہ کی زندگی کی تصویر بدل جاتی ہے اور روزہ دار انسان ایک خاص روحانی لذت حاصل کرتا ہے۔
میں نے ایک بار آپ (امام خمینی) سے دریافت کیا کہ ان معروف دعاؤں میں آپ کو کن دعاؤں سے زیادہ عقیدت اور شغف ہے؟ آپ نے تھوڑی دیر سوچا اور اس کے بعد فرمایا: "دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ"۔
ایک دن ایسا بھی تھا کہ ہمارے عزیز رہبر (امام خمینی) تنہا تھے۔ اس ملک میں دو مزاحمتی تنظیمیں تھیں اور دونوں ہی ہمارے رہنما کے طرز فکر سے عدم اتفاق رکھتی ہیں، اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ ایک گروہ آرام طلب سیاسی افراد کا تھا جو کرسی پر بیٹھے رہنے اور پر تعیش زندگی گزارنے کے عادی تھے۔ ان افراد کی عادت تھی کہ بیٹھیں، کھائیں پیئیں، سہولیات حاصل کریں، لوگ ان کے آگے پیچھے گھومیں اور یہ تکبر میں ڈوبے رہیں اور کبھی دو چار لفظ بول دیں، ملت کے سرکردہ افراد مانے جائیں، کبھی کوئی سیاسی مسئلہ در پیش ہو تو دو لفظ اس کے بارے میں کچھ کہہ دیں، لیکن کوئی تکلیف اٹھانے پر آمادہ نہیں! یہ افراد ہمارے رہبر کی روش کے مخالف تھے۔ کہتے تھے کہ یہ جناب بلا وجہ شاہ سے الجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شاہ تو اس ملک سے جانے والا نہیں ہے۔ امام بہت ٹھوس انداز میں اپنے موقف پر قائم رہے اور آپ نے کہہ دیا کہ جو ہمارے نعرے سے اتفاق نہیں رکھتا ہم سے ملنے نہ آئے! پیرس میں امام سے ملاقات کے لئے جانے والے بڑبولے سیاستدانوں کے سامنے یہ شرط رکھی جاتی تھی سب سے پہلے آپ ایران میں سلطنتی نظام اور شاہی نظام سے اظہار بیزاری کیجئے، اس کی مذمت کیجئے، اس کے بعد ہی آپ کو امام سے ملاقات کا موقع مل سکتا ہے۔ امام ایسے افراد سے بات کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھے۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو بڑے تند مزاج تھے اور قربانیاں پیش کرنے کے دعوے کے ساتھ میدان میں قدم رکھتے تھے۔ وہ مسلحانہ جنگ کے طرفدار تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آقا بلا وجہ اس روش پر مصر ہیں، اس انداز کی تحریک سے کامیابی ملنے والی نہیں ہے۔ وقت ضائع نہ کیجئے بلکہ مسلحانہ جنگ شروع کیجئے۔ مگر امام کبھی ہیجان میں نہیں آئے، کبھی سراسیمہ نہیں ہوئے اور ہرگز اپنی روش کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ کہتے تھے کہ سیاسی جدوجہد سے اس حکومت کا گلا اس طرح ہم دبائیں گے کہ وہ خودکشی کر لے گی یا فرار ہو جائے گی۔ ہم نے دیکھا کہ یہی ہوا۔ مزاحمتی تنظیمیں امام کی روش کی مخالف تھیں۔ راحت طلب اور رجعت پسند تنظیموں کی تو بات ہی الگ ہے جو جدوجہد کی مذمت کرتی تھیں۔ مگر وہ اکیلے ہی «انّ ابراهیم کان امّة» ایک ملت تھے۔ ایک بے آب و گیاہ بیابان میں اکیلا درخت طوفانوں، ریت کی آندھیوں، جھلسا دینے والے آفتاب، تشنگی اور بے آبی سب کو شکست دیتا ہے اور فضا کو شاداب اور معطر بنا دیتا ہے۔
'پیغمبروں کی جدوجہد کی سرگزشت کی ہمارے دور میں جھلک' عنوان کی تقریر سے اقتباس
22 اگست 1979
خیر خواہ اور ہمدرد افراد نے ہمیشہ یہ کہا اور میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں کہ پابندیاں بہت سے مواقع پر ملک کے مفاد میں رہیں، ملت ایران کے فائدے میں رہیں۔ یہ بات باخبر، ہمدرد اور وابستگی رکھنے والے افراد بیان کرتے ہیں۔
یہ خبر مجھے یکبارگی نہیں دی گئی۔ مجھے تدریجی طور پر اس سانحے کی تفصیلات کا علم ہوا۔ مجھے ہوش میں آئے ایک دو دن ہوئے تھے تو کسی نے بس یہ اطلاع دی کہ پارٹی کے دفتر میں دھماکہ ہوا تھا۔
میں بیماری سے ابھی ابھی اٹھا تھا اور اسپتال سے گھر پہنچ کر آرام کر رہا تھا۔ گھر ہی سے حالات کی اطلاع بھی حاصل کرتا رہتا تھا۔ شہید رجائی، شہید باہنر اور دیگر احباب تشریف لاتے تھے اور حالات سے مجھے آگاہ کر جاتے تھے تاہم میں امور میں براہ راست سرگرم عمل نہیں تھا۔
رفتہ رفتہ مجھے افاقہ ہوا اور میں نے جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ حادثے سے قبل والی شب میں نے رجائی مرحوم کے کمرے میں ایک اجلاس میں شرکت کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس طرح میں جائے وقوعہ سے دور رہا۔ بیماری کی وجہ سے کمزوری تھی اور میں گھر میں سویا ہوا تھا، بیدار ہوا تو میرے پاس موجود احباب مجھے سراسیمہ نظر آئے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ دفتر وزیر اعظم میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہاں کون لوگ موجود تھے؟ جواب ملا کہ جناب رجائی اور جناب باہنر بھی حاضرین میں تھے۔ مجھے شدید تشویش لاحق ہو گئی۔ میں شدید نقاہت کے عالم میں ٹیلی فون تک گیا اور ادھر ادھر ٹیلی فون کرنا شروع کیا۔ لوگ مختلف طرح کی باتیں کر رہے تھے جس سے تشویش اور بھی بڑھ گئي۔ کوئي کہتا تھا کہ وہ بخیر و عافیت ہیں، کوئی کہتا تھا کہ بال بال بچ گئے، کوئی کہتا تھا کہ ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں، کوئي کہتا تھا کہ انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اسی عالم میں وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مجھے تفصیلی خبر ملی۔
اس وقت میری جو حالت ہوئي اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دو عزیز ترین دوست، دو انقلابی جانباز، اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے دو عہدہ دار یکلخت جدا ہو گئے۔ مجھے شدید نقصان کا احساس ہو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ بہت بڑا خسارہ ہو گیا۔ مجھ پر غم و غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ واقعے کے ذمہ داروں کے لئے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلی صبح میں نقاہت کے عالم میں اٹھا اور تشییع جنازہ کے لئے پارلیمنٹ پہنچا۔ ڈاکٹر مجھے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے میں دور رہوں لیکن مجھ میں برداشت اور صبر کا یارا نہ تھا۔ میں نے وہیں پارلیمنٹ میں ایک جذباتی تقریر بھی کی۔ لوگ مجھے سہارا دئے ہوئے تھے کہ کہیں گر نہ پڑوں چونکہ میری عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا تلخ واقعہ تھا۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ اس وقت تک میری زندگی کا یہ سب سے تلخ واقعہ تھا۔ سات تیر کا واقعہ بھی میرے لئے تلخ ترین واقعہ ہو سکتا تھا لیکن اس وقت میں بیہوش تھا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ بعد میں رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئي۔ لیکن یہ ناگہنای سانحہ تھا۔
سامراج کے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے لوگوں کو عیسائي بنانے کے لئے پادری روانہ کئے گئے۔ ان پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ کس ہدف کے تحت وہ سر گرم عمل ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کو ہدف سے آگاہی نہیں تھی لیکن آپ غور کریں کہ انہوں نے اس ہدف کے لئے کتنی مشقتیں اور زحمتیں برداشت کیں۔ ان کڑی زحمتوں کا نعم البدل پیسہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے ایک شخص آدم خوروں کے نزدیک واقع علاقے میں جاکر سات سال کا طویل وقت گزاردیتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے، دستاویزی فلموں میں دیکھتا ہے اور ناولوں میں پڑھتا ہے۔ مجھے ان ناولوں اور فلموں کی حقیقت کی بھی اطلاع ہے اور مجھے پتہ ہے کہ سامراجی دور میں کیا کچھ انجام دیا گیا ہے۔ یہیں ہمارے ملک میں ہی ایک یورپی پادری کو تہران، اصفہان اور دیگر علاقوں میں لایا گیا۔ برسوں کا طولانی عرصہ اس پادری نے اپے وطن سے دور سختیاں برادشت کرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزارا۔ لوگ اس کی جانب سے بدگمان بھی تھے، کہتے تھے یہ تو کافر ہے، نجس ہے۔ اس دور میں جب عوام میں اس سلسلے میں بڑی حساسیت تھے لوگ دینی عقائد کے پابند تھے، پادری یہاں آتےتھے اور اسی ماحول میں ایک موہوم سی امید پر زندگی بسر کرتے تھے کہ شائد دو چار افراد عیسائیت قبول کر لیں۔ انہوں نے افریقہ کا تجربہ یہاں دہرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنےہدف میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن یہاں انہوں نے کئی برس گزار دئے۔ قاجاریہ دور کی تاریخ کا آپ مطالعہ کیجئے، ایک ماہر مشرقیات نے ایران میں برسوں کا عرصہ گزارا اور تاریخ ایران کے عنوان سے دو جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ ماہر مشرقیات، جنوبی خراسان، بیرجند، زابل اور انہی علاقوں میں رہا اور اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔ آپ پڑھئے کہ اس نے اپنے پادریوں کے بارے میں کیا باتیں لکھی ہیں۔
(صوبہ سیستان بلوچستان کے برادران اہل سنت کے امور کے لئے ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے علما سے ملاقات کے دوران 1992)
والد گرامی اور والدہ محترمہ میں جو عجیب و غریب حصوصیات تھیں اور جو میں بہت کم ہی لوگوں میں دیکھتا ہوں، دنیوی مال و اسباب کی فراہمی اور افزائش میں ان کی بے رغبتی اور عدم دلچسپی تھی۔ اس عادت اور خصوصیت کی ہم سب کو مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار تبریز کے امام جعمہ شہید قاضی طباطبائی ہمارے یہاں تشریف لائے وہ کہنے لگے کہ چالیس سال قبل میں اپنے والد کے ساتھ مشہد آیا تھا۔ آپ (قائد انقلاب کے والد گرامی) سے ملاقات کے لئے آیا تو دیکھا کہ اسی جگہ پر بیٹھے تھے جہاں اس وقت تشریف فرما ہیں اور میں اس وقت اس جگہ بیٹھا ہوں جہاں میرے والد بیٹھے تھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کمرے میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں ہوئي ہے ـ یعنی ایک نسل گزر چکی تھی اور والد گرامی اپنی چالیس سال قبل والی حالت پر تھے۔ جب برادر گرامی (حسن صاحب) شادی کر رہے تھے تو اس وقت جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم نے اس کمرے کو گرا کر اسی جگہ دو کمرے بنوائے، تہہ خانے میں ایک حمام بنوا دیا گيا اس طرح ہمارا گھر حمام والا گھر ہو گیا۔ البتہ اس وقت ہم لوگ وہاں نہیں تھے۔
اسلامی انقلاب کی فتح و کامرانی کے ایام سے وابستہ یادیں؛
ان دنوں ہماری یہ حالت تھی کہ ہم مبہوت ہوکر رہ گئے تھے۔ اس زمانے میں ہم تو تمام سرگرمیوں میں شریک تھے۔ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہم انقلابی کونسل کے بھی رکن تھے لہذا دائمی طور پر ہر معاملے میں موجود رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی ہم سب پر حیرانی کی کیفیت طاری تھی۔ میں ایک بات عرض کروں، اس پر شاید آپ کو بڑی حیرت ہوگی۔ 22 بہمن (مطابق گیارہ فروری) کا دن گزر جانے کے ایک عرصے بعد تک بارہا میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کہیں ہم خواب تو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر خواب دیکھ رہا ہوں تو کسی صورت سے بیدار ہو جاؤں۔ یعنی اگر میں نیند میں یہ سنہری خواب دیکھ رہا ہوں تو اس خواب کا سلسلہ رکے۔ تو یہ معاملہ ہمارے لئے اس درجہ باعث حیرت تھا۔
سجدہ در راہ؛
اس لمحہ جب ریڈیو سے پہلی دفعہ نشر ہوا "صدائے انقلاب اسلامی" یا اسی سے مشابہ کوئی فقرہ، تو اس وقت میں ایک کارخانے کا دورہ کرکے گاڑی سے امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی اقامت گاہ کی جانب جا رہا تھا۔ ایک کارخانہ تھا جہاں کچھ آشوب پسند عناصر نے جمع ہوکر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ وہ انقلاب کے اوج کا زمانہ تھا، میرے خیال میں اس وقت بختیار ملک کے اندر ہی موجود تھا۔ شاید چھے یا سات فروری تھی، ابھی مشکلات جوں کی توں باقی تھیں اور کوئی کام مکمل نہیں ہو پایا تھا، ان عناصر نے باج خواہی کی کوشش کی۔ ایک کارخانے میں جمع ہوکر اشتعال انگیزی شروع کر دی تھی۔ ہم وہاں گئے کہ گفت و شنید کے ذریعے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔ واپسی میں ریڈیو سے یہ فقرہ نشر
ہوا "صدائے انقلاب اسلامی"۔ میں نے وہیں گاڑی روکی اور نیچے اتر کر زمین پر سجدے میں گر گیا۔ یعنی یہ کامیابی ہمارے لئے اس درجہ ناقابل یقین اور ناقابل تصور تھی۔ اس وقت کا ایک ایک لمحہ اپنے اندر تغیرات کا گویا ایک سمندر سموئے ہوئے تھا۔ میں اگر انقلاب کی فتح کے قبل و بعد کے بیس دنوں کی تمام یادیں بیان کرنا چاہوں تو ہرگز بیان نہیں کر پاؤں گا، ان چند دنوں کے دوران ہمارے ذہن اور ہماری زندگی میں جو کچھ گزر رہا تھا وہ قابل بیان نہیں ہے۔
امام خمینی کی آمد!
امام خمینی کی آمد والے دن، آپ کی آمد کے دن ہم یونیورسٹی سے جہاں ہم نے دھرنا دیا تھا، گاڑی میں جا رہے تھے آپ سے ملنے۔ یہ پورا ماجرا میں نے ایک دفعہ خود امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے بھی بیان کیا۔ سب مسرت میں ڈوبے ہوئے تھے، شادماں تھے۔ مجھے یہ تشویش
تھی کہ امام خمینی کے لئے کوئی ناگوار واقعہ نہ ہو جائے، اسی خیال سے میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل رہے تھے، معلوم نہیں تھا کہ امام خمینی کے ساتھ کیا واقعہ ہو سکتا ہے! کیونکہ کچھ خطرات تو تھے ہی۔ ہم ایئرپورٹ پہنچے اور پھر ان تمام مراحل کے بعد امام خمینی نے سرزمین وطن پر قدم رکھے۔ امام خمینی کے چہرے پر سکون و طمانیت دیکھ کر ساری تشویش اور سارا اضطراب ختم ہو گیا۔ امام خمینی نے اپنے اس پرسکون چہرے سے میری اور مجھ جیسے بہتوں کی ہر تشویش اور اندیشے کو دور کر دیا۔ برسوں کی طویل مدت کے بعد امام کو دیکھا تو اب تک کی ساری سختیاں اور جدوجہد کی ساری تھکن دور ہو گئی۔ آپ کو دیکھ ایسا محسوس ہو رہا
تھا کہ ساری آرزوئیں اور ساری تمنائیں آپ کی صورت میں مجسم ہو گئی ہیں اور تمام آرزوئیں مقتدرانہ انداز میں پوری ہوئی ہیں۔ جب ہم ایئرپورٹ سے شہر کے اندر پہنچے اور اس درمیان جو کچھ ہوا اس کے آپ سب گواہ ہیں، بحمد اللہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں وہ سارے مناظر نقش ہیں۔ آپ کو یاد ہے کہ امام خمینی شام کے وقت بہشت زہرا (تہران کا قبرستان) سے ایک نامعلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ نام بھی ذکر کر دوں کہ برادر عزیز جناب ناطق نوری صاحب امام خمینی کو اغوا کرکے ایک محفوظ مقام پر لے گئے، کیونکہ عقیدتمندوں اور عشاق کا ایک بیکراں سمندر تھا جو امام خمینی کے ارد گرد متلاطم تھا۔ امام خمینی گزشتہ شب پیرس سے روانہ ہوئے تھے اور اس کے بعد پورے دن آپ نے بالکل آرام نہیں فرمایا تھا۔ لہذا ضرورت تھی کہ امام خمینی کو کچھ استراحت کا موقع ملے۔
امام خمینی مدرسہ رفاہ میں؛
ہم لوگ مدرسہ رفاہ گئے تھے جہاں ہمارے کام انجام پاتے تھے۔ امام خمینی کی تشریف آوری سے قبل ہم سب وہاں اپنے برادران گرامی کے ہمراہ بیٹھے ہوئے تھے اور امام خمینی کے قیام اور آپ کی آمد کے بعد کے ضروری انتظامات کے بارے میں ہماری کچھ گفتگو بھی ہوئی تھی اور ایک پروگرام ترتیب دیا جا چکا تھا۔
ہم ایک رسالہ نکالتے تھے جس میں کچھ خبریں وغیرہ شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اسی مدرسہ رفاہ سے نکلا کرتا تھا۔ اس کے کچھ شمارے شائع ہوئے۔ البتہ ہڑتال کے زمانے میں ہم نے وہاں سے بھی ایک رسالہ نکالا اور اس کے بھی دو
تین شمارے شائع ہوئے۔
تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ہم سب وہاں جمع تھے اور انتظار کا ایک ایک لمحہ گزار رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ ہمیں اطلاع ملی کہ امام خمینی کسی جگہ تشریف لے گئے ہیں جہاں آپ تھوڑا آرام کریں گے۔ غالبا آپ نے ظہرین کی نماز نہیں پڑھی تھی اور غروب کا وقت ہونے والا تھا۔ لہذا آپ نماز وغیرہ سے فارغ ہونا چاہتے تھے۔ اندھیرا ہو گیا اور رات گزرنے لگی، میں آنے والے دن کے لئے رسالے کی خبریں مرتب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ رات کے تقریبا دس بجے ہوں گے کہ اچانک میں نے دیکھا کہ مدرسہ رفاہ کے داخلی صحن میں کہ جس کا ایک دروازہ بغل والی گلی میں کھلتا تھا، کچھ لوگوں کے بات چیت کرنے کی آواز آ رہی ہے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ کچھ ہوا ہے۔ میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو میری نظر امام خمینی پر پڑی۔ آپ اکیلے دروازے سے اندر داخل ہوئے، آپ کے ہمراہ کوئی بھی نہیں تھا۔ محافظین، یعنی ہمارے یہی برادران عزیز جو اس وقت محافظت کے کام پر مامور تھے، انہوں نے امام خمینی کو اچانک اپنے سامنے پایا تو سب بوکھلا گئے، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا
تھا کہ کیا کرنا چاہئے۔ سب نے امام خمینی کا حلقہ کر لیا۔ امام خمینی نے دن بھر کی تھکن کے باوجود سب سے، بڑی خوشروئی اور خندہ پیشانی سے گفتگو کی۔ سب آپ کے ہاتھوں کے بوسے لے رہے تھے۔ کل دس پندرہ لوگ رہے ہوں گے۔ اسی عالم میں صحن سے گزر کر سب زینے کے قریب پہنچے جو پہلی منزل پر جاتا تھا۔ یہ زینے اسی کمرے کے پہلو میں تھے جس میں میں موجود تھا۔ میں کمرے سے نکل کر ہال میں آ گیا کہ امام خمینی کو قریب سے دیکھ سکوں۔ امام خمینی ہال میں داخل ہوئے، وہاں کچھ بچے بھی تھے سب امام خمینی کی طرف دوڑے انہیں گھیر لیا اور ہاتھوں کے بوسے لینے لگے۔
میرا بہت دل چاہ رہا تھا کہ امام خمینی کے ہاتھ چوموں لیکن میں نے سوچا آپ تھکے ہوئے ہیں، اس تھکن میں مجھے اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لئے لاکھ دل چاہ رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنے جذبات کو دبایا اور کنارے کھڑا ہو گیا۔ امام خمینی دو میٹر کے فاصلے سے میرے سامنے سے گزرے۔
میں قریب نہیں گیا، کیونکہ آپ کے ارد گرد لوگ جمع تھے اور میں اس ازدہام میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہی خیال ایئرپورٹ پر بھی میرے ذہن میں تھا۔ ایئرپورٹ پر سب امام خمینی کی طرف جھپٹ جھپٹ کر آگے بڑھ رہے تھے، دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ دوڑ پڑوں لیکن میں نے اپنے آپ کو روکا، میں نے کچھ اور لوگوں کو بھی یہی بات سمجھائی۔
امام خمینی اندر آئے اور زینوں سے اوپر تشریف لے گئے، اسی اثنا میں زینے کے نیچے چالیس پچاس لوگ جمع ہو گئے تھے۔ امام خمینی زینے طے کر چکے تھے، اچانک آپ پلٹے اور زینے پر جمع لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، ان افراد میں سے کسی صاحب نے خیر مقدم کے چند جملے کہے۔ اس کے بعد امام خمینی نے مختصر گفتگو کی اور اوپر تشریف لے گئے اس کمرے میں جو آپ کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اسی طرح ایک ایک لمحہ بڑے یادگار انداز میں گزرا۔
عشرہ فجر کی مناسبت سے ہفتہ وار میگزین کے لئے دئے گئے انٹرویو کے اقتباسات؛ 24/10/1362ہجری شمسی مطابق 14/1/1984 عیسوی
میں بیماری سے ابھی ابھی اٹھا تھا اور اسپتال سے گھر پہنچ کر آرام کر رہا تھا۔ گھر ہی سے حالات کی اطلاع بھی حاصل کرتا رہتا تھا۔ شہید رجائی، شہید باہنر اور دیگر احباب تشریف لاتے تھے اور حالات سے مجھے آگاہ کر جاتے تھے تاہم میں امور میں براہ راست سرگرم عمل نہیں تھا۔ رفتہ رفتہ مجھے افاقہ ہوا اور میں نے جلسوں اور اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی۔ حادثے سے قبل والی شب میں نے رجائی مرحوم کے کمرے میں ایک اجلاس میں شرکت کی اور اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ اس طرح میں جائے وقوعہ سے دور رہا۔ بیماری کی وجہ سے کمزوری تھی اور میں گھر میں سویا ہوا تھا، بیدار ہوا تو میرے پاس موجود احباب مجھے سراسیمہ نظر آئے۔ میں نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ دفتر وزیر اعظم میں بم دھماکہ ہوا ہے۔ میں نے سوال کیا کہ وہاں کون لوگ موجود تھے؟ جواب ملا کہ جناب رجائی اور جناب باہنر بھی حاضرین میں تھے۔ مجھے شدید تشویش لاحق ہو گئی۔ میں شدید نقاہت کے عالم میں ٹیلی فون تک گیا اور ادھر ادھر ٹیلی فون کرنا شروع کیا۔ لوگ مختلف طرح کی باتیں کر رہے تھے جس سے تشویش اور بھی بڑھ گئي۔ کوئي کہتا تھا کہ وہ بخیر و عافیت ہیں، کوئی کہتا تھا کہ بال بال بچ گئے، کوئی کہتا تھا کہ ان کی لاشیں نہیں مل سکی ہیں، کوئي کہتا تھا کہ انہیں اسپتال لے جایا گیا ہے۔ اسی عالم میں وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ مجھے تفصیلی خبر ملی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئي اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دو عزیز ترین دوست، دو انقلابی جانباز، اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے دو عہدہ دار یکلخت جدا ہو گئے۔ مجھے شدید نقصان کا احساس ہو رہا تھا مجھے لگ رہا تھا کہ بہت بڑا خسارہ ہو گیا۔ مجھ پر غم و غصے کی کیفیت طاری ہو گئی۔ واقعے کے ذمہ داروں کے لئے شدید نفرت کا احساس ہو رہا تھا۔ اگلی صبح میں نقاہت کے عالم میں اٹھا اور تشییع جنازہ کے لئے پارلیمنٹ پہنچا۔ ڈاکٹر مجھے روک رہے تھے، کہہ رہے تھے میں دور رہوں لیکن مجھ میں برداشت اور صبر کا یارا نہ تھا۔ میں نے وہیں پارلیمنٹ میں ایک جذباتی تقریر بھی کی۔ لوگ مجھے سہارا دئے ہوئے تھے کہ کہیں گر نہ پڑوں چونکہ میری عجیب کیفیت تھی۔ بہرحال میرے لئے یہ بڑا تلخ واقعہ تھا۔ یہ کہنا شائد غلط نہ ہو کہ اس وقت تک میری زندگی کا یہ سب سے تلخ واقعہ تھا۔ سات تیر کا واقعہ بھی میرے لئے تلخ ترین واقعہ ہو سکتا تھا لیکن اس وقت میں بیہوش تھا۔ اس وقت مجھے کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔ بعد میں رفتہ رفتہ واقعے کی تفصیلات سے آگاہی ہوئي۔ لیکن یہ ناگہنای سانحہ تھا۔
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔ شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب13 مارچ 1995
والد گرامی اور والدہ محترمہ میں جو عجیب و غریب حصوصیات تھیں اور جو میں بہت کم ہی لوگوں میں دیکھتا ہوں، دنیوی مال و اسباب کی فراہمی اور افزائش میں ان کی بے رغبتی اور عدم دلچسپی تھی۔ اس عادت اور خصوصیت کی ہم سب کو مشق کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بار تبریز کے امام جعمہ شہید قاضی طباطبائی ہمارے یہاں تشریف لائے وہ کہنے لگے کہ چالیس سال قبل میں اپنے والد کے ساتھ مشہد آیا تھا۔ آپ (قائد انقلاب کے والد گرامی) سے ملاقات کے لئے آیا تو دیکھا کہ اسی جگہ پر بیٹھے تھے جہاں اس وقت تشریف فرما ہیں اور میں اس وقت اس جگہ بیٹھا ہوں جہاں میرے والد بیٹھے تھے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس کمرے میں معمولی سی بھی تبدیلی نہیں ہوئي ہے ـ یعنی ایک نسل گزر چکی تھی اور والد گرامی اپنی چالیس سال قبل والی حالت پر تھے۔ جب برادر گرامی (حسن صاحب) شادی کر رہے تھے تو اس وقت جگہ کی کمی کی وجہ سے ہم نے اس کمرے کو گرا کر اسی جگہ دو کمرے بنوائے، تہہ خانے میں ایک حمام بنوا دیا گيا اس طرح ہمارا گھر حمام والا گھر ہو گیا۔ البتہ اس وقت ہم لوگ وہاں نہیں تھے۔
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔ 1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
سامراج کے تسلط کے لئے راہ ہموار کرنے کی غرض سے لوگوں کو عیسائي بنانے کے لئے پادری روانہ کئے گئے۔ ان پادریوں کو بھی بخوبی علم تھا کہ کس ہدف کے تحت وہ سر گرم عمل ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کو ہدف سے آگاہی نہیں تھی لیکن آپ غور کریں کہ انہوں نے اس ہدف کے لئے کتنی مشقتیں اور زحمتیں برداشت کیں۔ ان کڑی زحمتوں کا نعم البدل پیسہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ آپ دیکھئے ایک شخص آدم خوروں کے نزدیک واقع علاقے میں جاکر سات سال کا طویل وقت گزاردیتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی کتابوں میں پڑھتا ہے، دستاویزی فلموں میں دیکھتا ہے اور ناولوں میں پڑھتا ہے۔ مجھے ان ناولوں اور فلموں کی حقیقت کی بھی اطلاع ہے اور مجھے پتہ ہے کہ سامراجی دور میں کیا کچھ انجام دیا گیا ہے۔ یہیں ہمارے ملک میں ہی ایک یورپی پادری کو تہران، اصفہان اور دیگر علاقوں میں لایا گیا۔ برسوں کا طولانی عرصہ اس پادری نے اپے وطن سے دور سختیاں برادشت کرتے ہوئے ہمارے ملک میں گزارا۔ لوگ اس کی جانب سے بدگمان بھی تھے، کہتے تھے یہ تو کافر ہے، نجس ہے۔ اس دور میں جب عوام میں اس سلسلے میں بڑی حساسیت تھے لوگ دینی عقائد کے پابند تھے، پادری یہاں آتےتھے اور اسی ماحول میں ایک موہوم سی امید پر زندگی بسر کرتے تھے کہ شائد دو چار افراد عیسائیت قبول کر لیں۔ انہوں نے افریقہ کا تجربہ یہاں دہرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنےہدف میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن یہاں انہوں نے کئی برس گزار دئے۔ قاجاریہ دور کی تاریخ کا آپ مطالعہ کیجئے، ایک ماہر مشرقیات نے ایران میں برسوں کا عرصہ گزارا اور تاریخ ایران کے عنوان سے دو جلدوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ ماہر مشرقیات، جنوبی خراسان، بیرجند، زابل اور انہی علاقوں میں رہا اور اس نے اپنی کتاب مکمل کی۔ آپ پڑھئے کہ اس نے اپنے پادریوں کے بارے میں کیا باتیں لکھی ہیں۔ (صوبہ سیستان بلوچستان کے برادران اہل سنت کے امور کے لئے ولی فقیہ کے نمائندہ دفتر کے علما سے ملاقات کے دوران 1992)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
انقلاب سے قبل کبھی کبھی کسی گوشے میں کچھ لوگ جمع ہوکر تلاوت کلام پاک کرلیتے تھے۔ روز بروز نوجوانوں میں قرآن کے سلسلے میں بڑھتی دلچسپی اور قرآنی علوم میں یہ قابل ستائش ترقی، اسلامی انقلاب کا ثمرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ عالم تھا کہ شاذ و نادر ہی کوئي عالمی شہرت کا قاری ایران آتا تھا اور اگر آ بھی جاتا تھا تو اس کے بارے میں کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ قاری کب آیا اور کب چلا گیا۔ انقلاب سے پہلے وقف بورڈ کی دعوت پر شیخ ابوالعینین مشہد مقدس آئے تھے۔ میں ان کی تلاوت کی متعدد کیسٹیں سن چکا تھا اس طرح ان سے غائبانہ تعارف تھا اور میں ان کی تلاوت بہت پسند کرتا تھا۔ مجھے ان سے ملنے اور ان کی تلاوت روبرو سننے کا بڑا شوق تھا لیکن جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی ہم نے ان کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا لہذا جو پروگرام وہ کروا رہے تھے میں اس میں شریک نہیں ہوا۔ مشہد میں مسجد گوہر شاد میں تلاوت قرآن کریم کی ایک محفل منعقد ہوئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ رہی ہوگی، لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تلاوت سن رہے تھے۔ سردی کا زمانہ تھا میرے بیٹے مجتبٰی جو اس وقت چھوٹے تھے وہ بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ہم محفل میں نہیں جانا چاہتے تھے لہذا باہر سردی میں ہی بیٹھ کر ہم نے تلاوت سنی۔ اس زمانے میں تلاوت سننے والوں کی تعداد سو ۱۰۰ تھی لیکن آج آپ تلاوت سننے والے مجمع کو دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیں گے۔(قاریان قرآن سے ملاقات کے دوران9/02/1991)
رمضان المبارک کا مہینہ تھا، میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے کیا بیان کیا جائے جو مفید ہو۔اپنی دلچسپی کے لحاظ سے میں نے سوچا کہ سورہ کہف کی تفسیر بیان کی جائے۔اس کے لئے میں مختلف تفاسیر اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتا اور رمضان المبارک کی راتوں میں با ذوق افراد کی نشست میں اس واقعے کو بیان کرتا تھا۔ میں نے اس کے علاوہ بھی کئی بار اصحاب کہف کا قصہ بیان بھی کیا ہے،سنا بھی ہے،پڑھا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو میں نے آپ لوگوں سے سمجھا ہے۔جس رات آپ لوگوں نے یہ خوبصورت، پیچیدہ اور بہترین منظر پردے پر دکھایا اس رات میری سمجھ میں آیا کہ ''اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض‘‘ کے معنی کیا ہیں۔ یعنی اس رات میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا آپ لوگوں نے واقعاً ایک قرآنی داستان کو مجسم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔یہ ایک عظیم کام ہے۔(اصحاب کہف سیریل بنانے والے افراد سے ملاقات کے دوران 27/02/1999)
جس زمانے میں مجھے شہر بدر کرکے ایران شہر بھیج دیا گیا تھا، ہم لوگ مختلف مواقع پر وہاں کے ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا کرتے تھے۔مجھے بتایا گیا کہ گورنر کا ایک بھی نمایندہ آج تک ایران شہر نہیں آیا ہے!۱۹۷۸ میں ایرانشہر میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں اسی فیصد شہر بالکل تباہ ہو گیا۔میں نے خود شہر کی ایک ایک جگہ جا کر دیکھی، پچاس دن تک ہم لوگ امداد رسانی کا کام کرتے رہے مرکز تو دور کی بات زاہدان سے بھی کسی اہم شخصیت نے آ کر نہیں پوچھا کہ یہاں کیا ہوا ہے۔کہنے کو تو شیر و خورشید ادارے کی طرف سے کچھ امداد بھیجی جا رہی تھی لیکن ہم شہر بدر افراد نے جو امداد جمع کی تھی اس کا وہ دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ تو ایک طرف تو اس کی مقدار بہت کم تھی اور دوسری طرف اس قلیل مقدار امداد کا بھی بڑا حصہ امداد رساں ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یعنی ایران شہر جو کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا ثقافتی مرکز تھا ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ زاہدان کا بھی یہی حال تھا۔دسیوں سال بعد کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ اونٹ کی سواری اور شراب خوری کے لئے حکام بیرجند جاتے تھے۔ چونکہ حکام بیرجند میں عیاشیاں کرنے جاتے تھے اس لئے وہاں ایر پورٹ تھا اور چونکہ یہاں عیاشی کے وسائل فراہم نہیں تھے لہذا بلوچستان ان کا آنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کا ہر پسماندہ علاقہ بے توجہی کا شکار تھا۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور علاقہ۔مازندران میں خوب ترقیاتی کام ہوئے تھےکیونکہ وہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے حکام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔انقلاب سے پہلے کی حکومت کا یہ عالم تھا۔ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں، مازندران میں پانچ ایئرپورٹ ہیں جو شاہی حکومت کے دور میں بنائے گئے تھے۔رامسر کا ایئر پورٹ جو رامسر ہوٹل استعمال کرنے کے لئے تھا آپ جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لئے تھا۔ایک صوبے میں پانچ پانچ ایئرپورٹ، اور وہ بھی صرف طاغوتی حکومت کے عناصر کے لئے! آپ بخوبی واقف ہیں کہ نوشہر کا ایئرپورٹ شاہ کی سالانہ سیر و تفریح کے لئے تھا، وہاں شاہ اور اس کے افراد عیاشی فرماتے تھے۔ایک ایئر پورٹ ایک فوجی کیمپ کے لئے تھا یہ ایک مخصوص فوج تھی۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی عیاشی کا سامان تھا۔ساری کے نزدیک دشت ناز ایئر پورٹ جو آج کل مازندران کا سرکاری ایئرپورٹ ہے اور عوام کے استعمال میں ہے، انقلاب سے پہلے رضا خان کی بدکار و بدمعاش اولادوں کے لئے تھا۔ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین پر قبضہ کر کے ٹھیک اس کے وسط میں ایئرپورٹ بنایا گیا تھا۔ مینودشت میں شاہی نوکروں کے لئے ایک ایئرپورٹ تھا۔حکومت اور اس سے مربوط مشینری کے لئے پانچ ایئرپورٹ موجود تھے لیکن عوام، اساتذہ، بیماروں اور دیگر ضرورتمند افراد کہ لئے نہ ایئرپورٹ تھا نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی کوئي اور سہولت۔حکومت کے لوگ سال میں کئی مرتبہ مازندران آتے جاتے تھے لیکن زاہدان ہی کی طرح ایک بار بھی عام لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔ اسے کہتے ہیں غبار فراموشی۔ (صوبہ سیستان و بلوچستان کی ممتاز شخصیات سے ملاقات کے دوران 24/02/2003)
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
ایک قیدی کی ماں نے مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا قید میں تھا، آج خبر ملی ہے کہ شہید ہو گیا ہے۔ آپ جایئے اور امام خمینی(رہ) سے کہیے کہ میرا بچہ آپ پر قربان ہوا، مجھے کوئی غم نہیں ہے. جب میں امام کی خدمت میں پہنچا تو کہنا بھول گیا۔ باہر نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا تو وہاں موجود حضرات سے میں نے کہا امام سے کہیے کہ ایک جملہ رہ گیا ہے۔آپ اندرونی صحن میں آ گئے تو میں بھی وہیں چلا گیا اور جب اس خاتون کا جملہ امام سے کہا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ان پر رقت طاری ہوگئی میں اپنے کہے پر شرمندہ ہو گیا۔ یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے اتنے شہدا کی قربانی پیش کی ہے یہ کوئي ہنسی کھیل نہیں ہے۔ انقلاب کے بہترین افراد قربان ہو گئے لیکن امام پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہے۔ آج یہ سن کر کہ ایک قیدی قتل کر دیا ہے آپ رونے لگتے ہیں سبب کیا ہے؟ میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔آدمی ایسی شخصیت کی توصیف کرنے سے عاجز ہے۔(امام خمینی کی برسی کے مہتمم ادارے کے اراکین سے ملاقات کے دوران 22/05/1990)
میں، جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب اور ایک اورشخص جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ایک ساتھ تہران سے قم گئے اور وہاں امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ آخر ان جاسوسوں کا کیا کریں؟ انہیں پکڑے رکھیں یا چھوڑ دیں؟ چونکہ عبوری حکومت کے اندر بھی اس سلسلے میں الگ الگ موقف تھے۔جب ہم لوگ امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ساتھیوں نے حالات کی وضاحت کی کہ ریڈیو پر یہ کہا جا رہا ہے، امریکہ یہ کہہ رہا ہے، حکومت کے عہدہ دار ایسا کہہ رہے ہیں۔آپ نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ایک سوال پوچھا کہ کیا آپ لوگ امریکہ سے ڈرتے ہیں؟ہم نے کہا نہیں۔آپ نے فرمایا کہ بس پھر انہیں پکڑے رکھئے۔واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ ظاہری اور مادی طاقت اور گوناگوں وسائل سے لیس امریکی حکومت کی، امام خمینی (رہ) کی نظر میں کوئی وقعت نہ تھی۔ان کی یہ دلیری اور شجاعت اس دانشمندانہ قوت کا نتیجہ تھی جو آپ کے وجود کا احاطہ کئے رہتی تھی۔عقلمندانہ شجاعت اور ہے، اور غفلت و عدم واقفیت کی بے خوفی کچھ اور۔مثلاً ایک بچہ بھی ایک طاقتور آدمی یا ایک خطرناک حیوان سے نہیں ڈرتا ہے اور ایک طاقتور انسان بھی نہیں ڈرتا لیکن دونوں میں فرق ہے۔آج بہت سی قومیں اور انسانی معاشرے اپنی طاقت اور بہت سی صلاحیتوں سے بے خبر ہیں نتیجتا خود اعتمادی سے محروم ہیں۔(تشخیص مصلحت کونسل کے سکریٹریئیٹ کے اراکین سے ملاقات کے دوران 17/4/1999)
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔ فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہنوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
جس زمانے میں مجھے شہر بدر کرکے ایران شہر بھیج دیا گیا تھا، ہم لوگ مختلف مواقع پر وہاں کے ذمہ دار افراد سے رابطہ کیا کرتے تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ گورنر کا ایک بھی نمایندہ آج تک ایران شہر نہیں آیا ہے!
۱۹۷۸ میں ایرانشہر میں سیلاب آیا اور اس کے نتیجے میں اسی فیصد شہر بالکل تباہ ہو گیا۔
میں نے خود شہر کی ایک ایک جگہ جا کر دیکھی، پچاس دن تک ہم لوگ امداد رسانی کا کام کرتے رہے مرکز تو دور کی بات زاہدان سے بھی کسی اہم شخصیت نے آ کر نہیں پوچھا کہ یہاں کیا ہوا ہے۔
کہنے کو تو "شیر و خورشید" ادارے کی طرف سے کچھ امداد بھیجی جا رہی تھی لیکن ہم شہر بدر افراد نے جو امداد جمع کی تھی اس کا وہ دسواں حصہ بھی نہیں تھی۔ تو ایک طرف تو اس کی مقدار بہت کم تھی اور دوسری طرف اس قلیل مقدار امداد کا بھی بڑا حصہ امداد رساں ہی ہڑپ کر جاتے تھے۔ یعنی ایران شہر جو کہ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا ثقافتی مرکز تھا ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہا ہے۔ زاہدان کا بھی یہی حال تھا۔
دسیوں سال بعد کبھی ایسا اتفاق ہوتا تھا کہ اونٹ کی سواری اور شراب خوری کے لئے حکام بیرجند جاتے تھے۔ چونکہ حکام بیرجند میں عیاشیاں کرنے جاتے تھے اس لئے وہاں ایر پورٹ تھا اور چونکہ یہاں عیاشی کے وسائل فراہم نہیں تھے لہذا بلوچستان ان کا آنا ہی نہیں ہوتا تھا۔ ملک کا ہر پسماندہ علاقہ بے توجہی کا شکار تھا۔ بلوچستان ہو یا کوئی اور علاقہ۔
مازندران میں خوب ترقیاتی کام ہوئے تھےکیونکہ وہاں کی آب و ہوا سے لطف اندوز ہونے کے لئے حکام کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
انقلاب سے پہلے کی حکومت کا یہ عالم تھا۔
ایک دلچسپ بات آپ کو بتاؤں، مازندران میں پانچ ایئرپورٹ ہیں جو شاہی حکومت کے دور میں بنائے گئے تھے۔
رامسر کا ایئر پورٹ جو رامسر ہوٹل استعمال کرنے کے لئے تھا آپ جانتے ہیں کہ کن لوگوں کے لئے تھا۔
ایک صوبے میں پانچ پانچ ایئرپورٹ، اور وہ بھی صرف طاغوتی حکومت کے عناصر کے لئے!
آپ بخوبی واقف ہیں کہ نوشہر کا ایئرپورٹ شاہ کی سالانہ سیر و تفریح کے لئے تھا، وہاں شاہ اور اس کے افراد عیاشی فرماتے تھے۔
ایک ایئر پورٹ ایک فوجی کیمپ کے لئے تھا یہ ایک مخصوص فوج تھی۔ میں نام نہیں لینا چاہتا۔ یہ بھی عیاشی کا سامان تھا۔
ساری کے نزدیک دشت ناز ایئر پورٹ جو آج کل مازندران کا سرکاری ایئرپورٹ ہے اور عوام کے استعمال میں ہے، انقلاب سے پہلے رضا خان کی بدکار و بدمعاش اولادوں کے لئے تھا۔
ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین پر قبضہ کر کے ٹھیک اس کے وسط میں ایئرپورٹ بنایا گیا تھا۔ مینودشت میں شاہی نوکروں کے لئے ایک ایئرپورٹ تھا۔
حکومت اور اس سے مربوط مشینری کے لئے پانچ ایئرپورٹ موجود تھے لیکن عوام، اساتذہ، بیماروں اور دیگر ضرورتمند افراد کہ لئے نہ ایئرپورٹ تھا نہ ہوائی جہاز اور نہ ہی کوئي اور سہولت۔
حکومت کے لوگ سال میں کئی مرتبہ مازندران آتے جاتے تھے لیکن زاہدان ہی کی طرح ایک بار بھی عام لوگوں سے نہیں ملتے تھے۔
اسے کہتے ہیں غبار فراموشی۔
(صوبہ سیستان و بلوچستان کی ممتاز شخصیات سے ملاقات کے دوران 24/02/2003)
میں، جناب ہاشمی رفسنجانی صاحب اور ایک اورشخص جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ایک ساتھ تہران سے قم گئے اور وہاں امام خمینی(رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہ پوچھنے کے لئے کہ آخر ان جاسوسوں کا کیا کریں؟ انہیں پکڑے رکھیں یا چھوڑ دیں؟ چونکہ عبوری حکومت کے اندر بھی اس سلسلے میں الگ الگ موقف تھے۔
رمضان المبارک کا مہینہ تھا، میں سوچ رہا تھا کہ لوگوں کے سامنے کیا بیان کیا جائے جو مفید ہو۔
اپنی دلچسپی کے لحاظ سے میں نے سوچا کہ سورہ کہف کی تفسیر بیان کی جائے۔
اس کے لئے میں مختلف تفاسیر اور تاریخی کتب کا مطالعہ کرتا اور رمضان المبارک کی راتوں میں با ذوق افراد کی نشست میں اس واقعے کو بیان کرتا تھا۔
میں نے اس کے علاوہ بھی کئی بار اصحاب کہف کا قصہ بیان بھی کیا ہے،سنا بھی ہے،پڑھا بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کو میں نے آپ لوگوں سے سمجھا ہے۔
جس رات آپ لوگوں نے یہ خوبصورت، پیچیدہ اور بہترین منظر پردے پر دکھایا اس رات میری سمجھ میں آیا کہ ''اذ قاموا فقالوا ربنا رب السموات والارض‘‘ کے معنی کیا ہیں۔
یعنی اس رات میں نے خود اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا آپ لوگوں نے واقعاً ایک قرآنی داستان کو مجسم کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
یہ ایک عظیم کام ہے۔
(اصحاب کہف سیریل بنانے والے افراد سے ملاقات کے دوران 27/02/1999)
احمد سکوٹور نامی ایک افریقی لیڈر گنی کوناکری کے صدر جمہوریہ تھے میری صدارت کے دوران کئی مرتبہ ایران آئے۔
ایک مرتبہ جنگ کے زمانے میں آئے، کہنے لگے آپ کے اوپر یہ جو جنگ مسلط کی گئی ہے اس پر تعجب نہ کیجیئے۔ سامراجی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے خلاف جب بھی کوئی انقلاب آتا ہے تو سب سے پہلے یہ جو کام کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کسی پڑوسی ملک کو انقلاب کی نابودی پر مامور کر دیتی ہیں۔
آپ کا مسئلہ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ لہذا تعجب نہ کیجئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے اوپر ایک طرف سے (ایک سرحد سے) حملہ کیا گیا ہے لیکن ہم پر پانچ طرف سے(پانچ سرحدوں سے) حملہ کیا گیا، پانچ ملکوں نے حملہ کیا ہے۔ گنی کوناکری ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کے اطراف میں کئی ممالک واقع ہیں۔ سکوٹور بھی ایک انقلابی لیڈر تھے اور ایک انقلاب کے ذریعہ ہی آگے آئے تھے لہذا ان پر حملہ کیا گیا۔
) تہران یونیورسیٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران 12/5/1998)
میں جس مسجد میں نماز پڑھاتا تھا اس میں مغرب و عشا کی نماز میں بڑا ازدحام رہتا تھا اور باہر تک صفیں لگتی تھیں۔
(نماز میں شرکت کرنے والے)اسی۸۰ فیصد جوان ہوتے تھے، وجہ یہ تھی کہ نوجوان طبقے سے ہمارا باقاعدہ رابطہ رہتا تھا۔
ان دنوں الٹی جیکٹ پہننے کا فیشن تھا لہذا نوجوان الٹی جیکٹ پہنے نظر آتے تھے۔
ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک جوان الٹی جیکٹ پہنے پہلی صف میں میرے مصلے کے پیچھے بیٹھا ہے، ایک حاجی صاحب نے جن کا بڑا احترام تھا اور جو ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھا کرتے تھے، اس جوان کے کان میں کچھ کہا۔ میں نے دیکھا نوجوان کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
میں نے فوراً حاجی صاحب سے پوچھا آپ نے کیا کہہ دیا۔
ان سے قبل نوجوان نے جواب دیا کہ کچھ بھی نہیں۔
میں سمجھ گیا کہ انہوں نے اس سے کہا ہے اس طرح کا لباس پہن کر پہلی صف میں بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔
میں نے نوجوان سے کہا کہ، آپ کو پہلی ہی صف میں بیٹھنا ہے آپ یہاں سے کہیں اور مت جایئے۔
میں نے حاجی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ نوجوان پیچھے چلا جائے، یہ سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ الٹی جیکٹ پہننے والا جدیدیت پسند نوجوان بھی نمازی ہو سکتا ہے اور نماز جماعت میں شرکت کرتا ہے۔
برادران ایمانی اگر ہمارے پاس دولت اور وسائل نہیں ہیں اگر ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے تو کم از کم ہم اچھا اخلاق تو پیش کر سکتے ہیں۔
"فی صفۃ المومن بشرہ فی وجھہ و حزنہ فی قلبہ"
نوجوانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے تاکہ ان کا ذہن و دل متاثر ہو اور ان کی صحیح تربیت ہو سکے۔ (انجمن تبلیغات اسلامی کے عہدہ داران سے ملاقات کے دوران 16/6/1997)
سابق سویت یونین اور اس کے زیر انتظام شیعہ اکثریتی علاقے آذر بایجان کے امور کے ماہر ایک شخص نے بتایا کہ جب کمیونسٹوں نے اس علاقے (آذربائیجان) پر قبضہ کیا تو تمام اسلامی علامتیں مٹا دیں۔
مسجدیں گوداموں میں تبدیل کر دی گئیں، دینی مراکز اور امام بارگاہوں کو کچھ اور بنا دیا گیا، دین اور شیعیت کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا بس ایک چیز کی اجازت دی گئی تھی اور وہ تھی قمہ زنی۔
کمیونسٹ آقاؤں کی طرف سے کارندوں کو حکم تھا کہ مسلمانوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نماز پڑھیں، نماز جماعت قائم کریں، قرآن پڑھیں، عزاداری کریں، المختصر یہ کہ کوئی بھی دینی کام نہیں کر سکتے مگر ان کو قمہ زنی کا حق ہے، کیوں؟ صرف قمہ زنی ہی کیوں؟
اس لئے کہ یہ دین اور تشیع کے خلاف پروپگنڈے کے لئے بہترین چیز تھی۔
لہذا کبھی کبھی دشمن اس طرح سے کچھ چیزوں کو دین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ جہاں بھی خرافات آ جائیں دین بدنام ہو جائے گا۔
(نئے سال کے آغاز پر مشہد میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب)21/03/1997
صدارت کے زمانے میں میرے والدین اپنے اسی قدیمی گھر میں رہتے تھے، نہ انہوں نے کبھی سوچا اور نہ میرے ذہن میں آیا کہ اب جب عہدہ صدارت میں نے سنبھال لیا ہے تو اپنے گھر کی شکل بدل دینی چاہئے۔ یہاں تک کہ ہمارے ہمسائے نے ہمارے آنگن سے لگا ہوا اپنا گھر ایک اونچی عمارت میں تبدیل کرنا شروع کر دیا اور والدہ کے لئے بغیر پردے کے آنگن میں جانا نا ممکن ہو گیا تو بعض احباب نے کہا کہ اس ہمسائے سے کہیں کہ گھر کی اونچائي ذرا کم رکھے تاکہ آنگن کا استعمال کیا جا سکے۔ ہم نے اس ہمسائے کو پیغام دلوایا لیکن اس نے کوئي توجہ نہیں دی۔ چونکہ میرے پاس اس ہمسائے کے گھر کی اونچائی کم کرنے کے لئے کوئي قانونی راستا نہیں تھا اس لئے میں نے اس پر کوئي دباؤ نہیں ڈالا۔ کسی ملک اور نظام میں یہ صورت حال بہت خوش آئند اور پسندیدہ ہے۔ کوئي بڑا عہدہ مل جائے تو انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنی سماجی زندگی میں دوسروں سے زیادہ عیش و آرام کی فکر میں پڑ جائے۔
1995 میں مشہد مقدس میں آبائي گھر کے معائنے کے موقع پر
نوروز کے معنی ہیں نیا دن، ہماری روایات بالخصوص معلی بن خنیس کی معروف روایت میں اس پر خصوصی توجہ دی گئي ہے۔ معلی بن خنیس بڑے گرانقدر راوی تھے اور ہمارے نزدیگ وہ ثقہ ( قابل اعتماد راوی ) ہیں۔ آپ ایک برجستہ شخصیت اور خاندان اہل بیت نبوت کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آپ نے اپنی زندگی فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں بسر کی اور پھر جام شہادت نوش فرمایا۔ یہی عظیم شخصیت یعنی معلی ابن خنیس حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سے وہ نوروز کا دن تھا۔ حضرت نے ان سے پوچھا کہ کیا تم نوروز سے آگاہ ہو؟ بعض افراد خیال کرتے ہیں کہ اس روایت میں حضرت نے تاریخ بیان فرمائي ہے کہ اس دن حضرت آدم زمین پر اترے۔ حضرت نوح کا واقعہ پیش آیا، مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کو ولایت کے لئے منتخب کیا گيا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس روایت سے میں کسی اور نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت نے نو نوروز کی تاریخ نہیں اس دن کی ماہیت بیان فرمائي ہے۔ اور یہ سمجھایا ہے کہ نیا دن یا نوروز کسے کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے ذریعے خلق کئے جانے والے تمام دن مساوی ہیں اب ان دنوں میں کون سا دن نوروز بنے؟ ظاہر ہے اس کے لئے کچھ الگ خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ یا تو یہ خصوصیت ہو کہ اس دن کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہو یا پھر یہ خصوصیت ہو کہ اس دن آپ کوئی اہم کام انجام دے سکتےہوں۔ حضرت مثال دیتے ہیں کہ جس دن حضرت آدم و حوا نے زمین پر قدم رکھے۔ وہ نوروز تھا۔ یہ بنی آدم اور نوع بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ جس دن حضرت نوح علیہ السلام نے عظیم طوفان کےبعد اپنی کشتی کو ساحل نجات پر پہنچایا وہ نوروز تھا۔ وہ ایک نیا دن تھا اور اس دن سے نئي تاریخ شروع ہوئی۔ جس دن پیغمبر اسلام پر قرآن مجید کا نزول ہوا وہ بشر کے لئے ایک نیا دن تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جس دن مولائے متقیان کو مسلمانوں کا ولی بنایا گيا وہ نیا دن تھا۔ یہ سب کے سب نوروز اور نئے دن ہیں اب خواہ یہ واقعے ہجری شمسی سال کے پہلے دن اور نوروز والے دن رونما ہوئے ہوں یا کسی اور دن۔ ان واقعات کے رونما ہونے کا دن نوروز اور نیا دن ہے۔ حضرت نے یہ نہیں کہا ہے کہ یہ سارے واقعات ہجری شمسی سال کے پہلے دن رونما ہوئے بلکہ یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ جس دن ایسا کوئي واقعہ رونما ہو وہ نوروز اور نیا دن ہے۔ اب میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا وہ نوروز ہے۔ جس دن امام خمینی وطن واپس آئے وہ ہمارے لئے نوروز تھا۔ امریکہ، نیٹو، سویت یونین، وارسا اور نہ جانے کہاں کہاں سے کمک پانے والے فوجیوں پر ہمارے مومن اور جاں نثار جوانوں کی فتح کا ہر دن نوروز تھا۔
شہید انقلاب اسلامی ادارے کے عہدہ داروں سے خطاب
13 مارچ 1995
انقلاب سے قبل کبھی کبھی کسی گوشے میں کچھ لوگ جمع ہوکر تلاوت کلام پاک کرلیتے تھے۔ روز بروز نوجوانوں میں قرآن کے سلسلے میں بڑھتی دلچسپی اور قرآنی علوم میں یہ قابل ستائش ترقی، اسلامی انقلاب کا ثمرہ ہے۔ انقلاب سے پہلے یہ عالم تھا کہ شاذ و نادر ہی کوئي عالمی شہرت کا قاری ایران آتا تھا اور اگر آ بھی جاتا تھا تو اس کے بارے میں کسی کو پتہ تک نہیں چلتا تھا کہ قاری کب آیا اور کب چلا گیا۔
انقلاب سے پہلے وقف بورڈ کی دعوت پر شیخ ابوالعینین مشہد مقدس آئے تھے۔ میں ان کی تلاوت کی متعدد کیسٹیں سن چکا تھا اس طرح ان سے غائبانہ تعارف تھا اور میں ان کی تلاوت بہت پسند کرتا تھا۔
مجھے ان سے ملنے اور ان کی تلاوت روبرو سننے کا بڑا شوق تھا لیکن جن لوگوں نے انہیں دعوت دی تھی ہم نے ان کا مکمل بائیکاٹ کر رکھا تھا لہذا جو پروگرام وہ کروا رہے تھے میں اس میں شریک نہیں ہوا۔
مشہد میں مسجد گوہر شاد میں تلاوت قرآن کریم کی ایک محفل منعقد ہوئی تھی۔ مجھے نہیں لگتا اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد سو سے زیادہ رہی ہوگی، لوگ دائرے کی شکل میں بیٹھے تلاوت سن رہے تھے۔ سردی کا زمانہ تھا میرے بیٹے مجتبٰی جو اس وقت چھوٹے تھے وہ بھی میرے ساتھ تھے۔ چونکہ ہم محفل میں نہیں جانا چاہتے تھے لہذا باہر سردی میں ہی بیٹھ کر ہم نے تلاوت سنی۔ اس زمانے میں تلاوت سننے والوں کی تعداد سو ۱۰۰ تھی لیکن آج آپ تلاوت سننے والے مجمع کو دیکھئے تو دیکھتے رہ جائیں گے۔
(قاریان قرآن سے ملاقات کے دوران9/02/1991)
ایک قیدی کی ماں نے مجھ سے کہا کہ میرا بیٹا قید میں تھا، آج خبر ملی ہے کہ شہید ہو گیا ہے۔ آپ جایئے اور امام خمینی(رہ) سے کہیے کہ میرا بچہ آپ پر قربان ہوا، مجھے کوئی غم نہیں ہے.
جب میں امام کی خدمت میں پہنچا تو کہنا بھول گیا۔ باہر نکلنے کے بعد مجھے یاد آیا تو وہاں موجود حضرات سے میں نے کہا امام سے کہیے کہ ایک جملہ رہ گیا ہے۔
آپ اندرونی صحن میں آ گئے تو میں بھی وہیں چلا گیا اور جب اس خاتون کا جملہ امام سے کہا تو آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ان پر رقت طاری ہوگئی میں اپنے کہے پر شرمندہ ہو گیا۔
یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ ہم نے اتنے شہدا کی قربانی پیش کی ہے یہ کوئي ہنسی کھیل نہیں ہے۔ انقلاب کے بہترین افراد قربان ہو گئے لیکن امام پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہے۔ آج یہ سن کر کہ ایک قیدی قتل کر دیا ہے آپ رونے لگتے ہیں سبب کیا ہے؟ میری سمجھ میں تو نہیں آتا۔
آدمی ایسی شخصیت کی توصیف کرنے سے عاجز ہے۔
(امام خمینی کی برسی کے مہتمم ادارے کے اراکین سے ملاقات کے دوران 22/05/1990)