Skip to main content
  • English
  • Français
  • Español
  • Русский
  • हिंदी
  • Azəri
  • العربية
  • اردو
  • فارسی
  • پہلا صفحہ
  • خبریں
  • خطاب
  • ملٹی میڈیا
  • سوانح زندگی
  • فکر و نظر
  • نگارش
  • استفتائات و جوابات
نگارش
کتب
مقالات

"ساری یرغمال عورتیں مار دی گئیں؟!!!" پروپیگنڈا اور سچ

"حماس نے جن بیس زندہ قیدیوں کو اسرائيلی حکومت کے حوالے کیا ہے وہ سبھی مرد ہیں اور حماس نے تمام خواتین قیدیوں کو مار دیا ہے!" یہ الفاظ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران سوشل میڈیا پر صیہونی حکومت کے حامی پیجز کی طرف سے لگاتار دوہرائے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کمزور یادداشت والے یا معلومات نہ رکھنے والے بعض افراد پر ان الفاظ کا کچھ اثر ہو جائے لیکن یقینی طور پر جو لوگ پچھلے دو سال سے غزہ میں جنگ اور نسل کشی کے واقعات پر نظریں رکھے ہوئے تھے، ان کے لیے یہ بات انتہائی مضحکہ خیز اور افسوسناک ہے۔
2025/10/15

قیدیوں کا تبادلہ اور مزاحمت کی فتح کا استحکام

شرم الشیخ معاہدے کے تحت فلسطینی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ، حالیہ دو سالہ جنگ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف غزہ میں دو سال سے جاری تھکا دینے والی جنگ کے خاتمے کا باعث بنا ہے بلکہ اس میں خطے میں طاقت کے نئے توازن کے بارے میں اہم سیاسی اور اسٹریٹیجک پیغامات بھی ہیں۔
2025/10/14

محمد الدرہ سے ہند رجب تک

ایران میں فلسطینی بچوں سے یکجہتی کے قومی دن کے موقع پر صیہونیوں کے ہاتھوں بچوں کے قتل پر ایک نظر  
2025/09/30

گریٹر اسرائیل؛ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی کا ایک بڑا خواب

ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔
2025/09/23

حضرت خدیجہ: قریش کی ملکہ سے ام المؤمنین تک کا سفر

حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ذکر کے بغیر اسلام کے طلوع کی داستان ادھوری ہے کیونکہ وہ اس عظیم دین کے بانیوں میں سے ہیں۔ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی یا پہلی مسلمان خاتون نہیں تھیں بلکہ وہ اسلام کی پہلی حامی، اس کی سب سے بڑی مالی مددگار، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذباتی سہارا اور خدا کے رسول کی روحانی و معنوی ہمدم تھیں۔ ان سب کے باوجود جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہا ہے، تاریخ میں ان کی عظیم شخصیت کی طرف سے غفلت برتی گئی ہے اور اسے نظر انداز کیا گيا ہے۔(1)
2025/09/03

ایرانی قوم کے عزم کے خلاف دہشت گردی

"اسلامی جمہوریہ ایران، دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے شکاروں میں سے ایک ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے لے کر اب تک سترہ ہزار سے زیادہ ایرانیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے جن میں عام لوگ بھی ہیں جنھیں منافقین (ایم کے او) کے دہشت گردوں نے صرف ظاہری مذہبی شکل و صورت کی بنیاد پر سڑکوں پر گولیوں سے بھون دیا ہے اور جنرل قاسم سلیمانی جیسے کمانڈر بھی ہیں جنھیں امریکی صدر کے براہ راست حکم پر شہید کیا گیا۔ ایران کے خلاف دہشت گردی مختلف شکل و صورت میں سامنے آئی ہے: انتہا پسندانہ دہشت گردی، جو مذہبی تعالیم کی غلط سمجھ کا نتیجہ تھی اور "فرقان" جیسے گروہوں میں ظاہر ہوئی اور فیلڈ مارشل محمد ولی قرنی اور آیت اللہ مرتضیٰ مطہری جیسی عظیم شخصیات کی شہادت کا باعث بنی۔"
2025/08/31

اسپتال پر بمباری میں شہید ہونے والی صحافی

"غیث، تم اپنی ماں کا دل و جان ہو۔ میں تم سے چاہتی ہوں کہ تم مجھ سے وعدہ کرو کہ تم میرے لیے روؤگے نہیں تاکہ میں خوش رہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم مجھے سرفراز کرو اور ایک ہوشیار اور بڑے انسان بنو اور اپنی ساری صلاحیتیں  بروئے کار لاؤ اور ایک کامیاب تاجر بنو۔ میرے پیارے بیٹے! مجھے بھولنا نہیں، میرے پیارے! میں نے تمھاری خوشی اور تمھارے آرام کے لیے ہر ممکن کام کیا، میں نے تمھارے لیے تمام مشکلیں برداشت کیں۔ جب تم بڑے ہو جانا اور شادی کرنا اور تمھارے یہاں کوئی بیٹی پیدا ہو تو اس کا نام میرے نام پر 'مریم' رکھنا۔ تم میرے عزیز، میری جان، میرا سہارا، میری روح اور میرے بیٹے ہو جو میری سرفرازی کا سبب ہو اور تمھارے وجود سے میں ہمیشہ خوش ہوتی ہوں۔ میں تم سے وصیت کرتی ہوں کہ نماز کو مت بھولنا، میرے بیٹے! نماز، نماز!تمھاری ماں، مریم
2025/08/27

امریکا کے ہاتھ سے نکل جانے والی وراثت: اسلامی انقلاب سے پہلے اور بعد میں ایرانی قوم سے امریکا کی دشمنی کے بنیادی اسباب کا جائزہ

"آپ نے ہمیں جو اطمینان دلایا ہے اور کہا ہے کہ ایران اور عراق میں ہمارے تیل کے ذخیروں پر آپ کی لالچ کی نظر نہیں ہے، ہم بہت شکر گزار ہیں۔"(1) یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی جانب سے امریکی صدر روزویلٹ کو لکھے گئے خط کا ایک جملہ ہے۔ یہ خط سنہ 1944 میں یورپ میں امریکا کی جنگ سے کچھ مہینے پہلے لکھا گيا تھا۔ یہ جملہ، جو برطانیہ کو امریکا کی شدید مالی اور فوجی مدد کی ضرورت کے زمانے میں لکھا گيا تھا، برطانیہ کے لیے ان ذخائر کی ناقابل بیان اہمیت کو نمایاں کرتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس تیل کی کہانی کیا تھی؟
2025/08/23

عرب اراضی کے کھنڈروں پر "گریٹر اسرائیل" کی تعمیر کا خواب؛ اسرائيل سیکورٹی دینے والا ہے یا چھیننے والا؟

"1948 کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ یہ جنگ، ان جنگی سلسلوں کا محض ایک دور ہے جن میں شامل ہونے کے لیے اسرائیل کو مکمل تیاری رکھنی چاہیے تاکہ اس کے ذریعے وہ ہر سمت میں اپنی سرحدوں کو پھیلا سکے۔" یہ جملہ، جو صیہونی فوج کے جنرل اسٹاف سے تعلق رکھنے والے دستاویزات کا ایک حصہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ "گریٹر اسرائیل" کے خواب کو پورا کرنے کے لیے "زمینی اور سرحدی توسیع" کوئی عارضی پالیسی نہیں بلکہ صیہونی حکومت کی ایک بنیادی اسٹریٹیجی ہے؛ یہ اسٹریٹیجی غاصب صیہونی ریاست کے قیام کے وقت سے ہی ہمیشہ اس کے ایجنڈے میں شامل رہی ہے۔(1) 
2025/08/19

غزہ، پوری دنیا کے حریت پسندوں کی توجہ کا مرکز

وہ تصویریں جو غزہ سے آ رہی ہیں انھوں نے اسرائيل کو واقعی پوری دنیا میں نفرت انگیز بنا دیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم سے ہر جگہ نفرت کی جاتی ہے۔ پوری دنیا ہمارے خلاف ایک ہو گئی ہے۔ ان جملوں کو بولنے والے بالترتیب ایک صیہونی رپورٹر، ایک صیہونی ٹور لیڈر اور صیہونی وزیر اعظم ہیں۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ میڈیا میں یہ جملے اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے اور غیر ملکی امداد حاصل کرنے کے لیے کہے گئے ہیں لیکن یہ علامت ہے، اس میدان میں شکست کی علامت جس میں صیہونی حکومت ہمیشہ فاتح رہی ہے۔
2025/06/05

مستقبل بیں خط کے ایک سال بعد بدستور "تاریخ کی صحیح سمت میں"

اب سے ایک سال پہلے رہبر انقلاب اسلامی نے امریکی اسٹوڈنٹس کے نام ایک خط لکھ کر ان سے کہا تھا کہ وہ غزہ میں کھلے جرائم پر خاموش نہ رہیں۔ البتہ فلسطین کی حمایت کی تعریف سے قطع نظر یہ خط، امریکی سماج کی صورتحال کے عمیق تجزیے پر مشتمل تھا جس میں کہا گيا تھا کہ آپ اسٹوڈنٹس تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑے ہیں اور تاریخ اس پر فخر کرے گی۔
2025/05/29

اگر لوگ فلسطین کے بارے میں یہ حقیقت جان جائيں تو کیا ہوگا؟

مغرب کی ہم عصر تاریخ کے ایک بے مثال دور میں یورپ اور امریکا کے بڑے شہروں کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے زبردست مظاہروں سے بھر گئیں۔ یہ لہر اکتوبر 2023 کے اواسط میں شروع ہوئي تھی جب لندن میں ایسے مظاہرے ہوئے تھے جنھیں دیکھ کر سیاستداں اور تجزیہ نگار حیرت زدہ رہ گئے تھے۔
2025/04/12

امریکا کی پراکسی فورس

سنہ 1956 کی نہر سویز کی جنگ مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے علاقے میں امریکا کے گھسنے کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئي۔ جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے سوویت یونین کی حمایت سے مشرق وسطی میں برطانیہ اور فرانس کی طاقت کو کنٹرول کرنے کے لیے نہر سویز کو قومیانے کا قدم اٹھایا تو اس وقت کی دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے ذریعے اور صیہونی حکومت کی مداخلت سے ایک جنگ ہوئي جو اس خطے میں ایک نئے نظام کے سامنے آنے پر منتج ہوئي۔ جمال عبدالناصر نے سنہ 1948 میں اسرائیل سے عربوں کی شکست کے بعد، عربوں کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے نہر سويز کو قومیانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس قدم کے ذریعے خطے میں پیرس اور لندن کے اثر و رسوخ کو ختم کر دیں۔ ان کی یہ خواہش، قاہرہ پر ان کے اقتدار کا خاتمہ کرنے ہی والی تھی کہ اچانک سوویت یونین اور امریکا میدان میں کود گئے اور انھوں نے لندن کو الٹیمیٹم دے کر جنگ کو روک دیا۔ یہی چیز خطے میں واشنگٹن کی آمد کا سبب بن گئی۔
2025/04/09

بزم رہبر میں شب شعر

حسینیہ امام خمینی میں پہنچا تو شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے۔ مغربین کی نماز میں ابھی تقریبا دو گھنٹے بچے تھے۔ تاہم صفیں مرتب رکھنے کے لئے کپڑے کی پٹیاں بچھا دی گئي تھیں جو سجدے اور کھڑے ہونے کی جگہ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ پہلی صف نصف سے کچھ کم تھی اور دوسری صف اس سے کچھ اور چھوٹی۔ ایک صاحب براؤن رنگ کا کردی لباس پہنے ہوئے نظر آئے جس میں پیراہن اور شلوار ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور کمر پے کپڑے کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ اہل سنت فرقے سے تھے اور عصر کی نماز ادا کر رہے تھے۔ مغرب کی نماز جماعت میں وہ مجھ سے آگے والی صف میں تھے۔
2025/03/18

صیہونی حکومت غزہ میں کیوں ہار گئي؟ عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا فتح نہیں ہے۔

غزہ کی جنگ اگرچہ اس علاقے کے عوام کے لیے بھاری تباہی و بربادی لے کر آئي لیکن اس کا نتیجہ، صیہونی حکومت کے تصور کے برخلاف مزاحمت کے حق میں نکلا۔ جنگ میں فتح کو صرف مرنے والوں کی تعداد یا تباہی کی کسوٹی پر نہیں تولا جاتا بلکہ کسی بھی جنگ کا ہدف، اسٹریٹیجک مقاصد تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس جنگ میں صیہونی حکومت کو نہ صرف یہ کہ اس کے اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں ہوئے بلکہ بہت سے میدانوں میں اسے ناقابل تلافی شکست کا بھی منہ دیکھنا پڑا۔ اس مضمون میں فلسطین کی مزاحمت کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی شکست کے 14 اصل اسباب کا جائزہ لیا گيا ہے۔
2025/02/08

ہم خالی ہاتھوں انقلاب لائے

3 فروری 2025 کی صبح ساڑھے آٹھ بجے باب الحوائج قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت اور یوم 'جانباز' کی مناسبت سے خیابان دانشگاہ (یونیورسٹی اسٹریٹ) سے ہم اہلبیت ورلڈ اسمبلی کے سابق سیکریٹری جنرل اور رہبر انقلاب کے نمائندے حجت الاسلام اختری کی قیادت میں نارمک علاقے کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ ہماری منزل شہید گلستانی روڈ پر واقع شہید محمود رضا عند اللہ گلی ہے۔ وہی شہید جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نظام آباد علاقے میں ثقافتی لحاظ سے سب سے بااثر شخص تھے۔
2025/02/05

غزہ کی خواتین کی افسانوی مزاحمت

برسوں سے مغربی دنیا نے مسلمان عورت کی ایک ایسی شبیہ پیش کی ہے جو مغربی حکومتوں کے نظریاتی اور جیو پولیٹکل اہداف کے تناظر میں رہی ہے۔ اس شبیہ کے تحت مسلمان خاتون کو ایک لاچار، مظلوم اور عدم تشخص والی عورت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو مردانہ نظام کے زندان میں اور مذہبی عقائد کی بیڑیوں میں محبوس ہے۔ یہ تصویر تحریف شدہ تصویر ہے جس کا پرچار دخالت پسندانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے کیا جاتا تھا تاکہ مسلم معاشروں میں عورت کی افادیت و کارکردگي کا انکار کیا جا سکے۔
2025/01/26

فتح کی بشارت

رہبر انقلاب سے قم کے عوام کی ملاقات جو بدھ 9 جنوری 2025 کو ہوئي، قم کے لوگوں کے فیصلہ کن قیام کی برسی کی مناسبت سے تھی۔ اس موقع پر رہبر انقلاب کے خطاب نے اس قیام کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ہی، پالیسیوں اور نتیجہ خیز اقدامات کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے ایک روڈ میپ اور واقعات کا صحیح تجزیہ پیش کیا۔
2025/01/13

مغربی سرمایہ داروں کے خلاف افریقی خواتین کی جنگ

سینیگال میں بچوں کی پیدائش کے سات دن بعد اس خاندان کے رشتہ دار اور اقرباء "گانتہ" نام کے ایک جشن میں شرکت کر کے زچہ اور بچہ کو دیکھنے جاتے ہیں۔ اس یادگار جشن میں، جو شادی کے جشن سے بھی زیادہ پرشکوہ طریقے سے منعقد ہوتا ہے، سبھی ماں کے لیے تحفے تحائف لاتے ہیں۔ کپڑے، زیور، ملبوسات وغیرہ ان تحائف میں شامل ہیں جو ان ماؤں کے لیے لائے جاتے ہیں تاکہ اپنے بچے کی پیدائش سے اس کی یادیں خوشگوار رہیں کیونکہ وہ لوگ بچے کو خداوند عالم کا تحفہ اور اس کا لطف و کرم مانتے ہیں۔ نائیجیریا کے بہت سے دیہاتوں میں کسی نومولود کی پیدائش کی خبر سنتے ہی پورا گاؤں جشن مناتا ہے اور وہ دن اس گاؤں کے لیے ایک یادگار دن ہوتا ہے۔ یہ اور اسی طرح کی دوسری شیریں یادیں بہت سے افریقی جوانوں کے ذہن میں باقی ہیں لیکن افریقی گھرانوں اور ماؤں کے بارے میں ہمارے ذہن میں جو تصویر ہے وہ ایسی تصویر ہے جو مغربی میڈیا اور مغربی سیاستدانوں نے دنیا کو دکھائي ہے۔ سختی، بھوک، مصائب اور ازدحام کی تصویر۔
2025/01/07

عورت، سرمایہ داری اور فریب

سنہ 1920 میں، عین اس وقت جب الیکشن میں امریکی خواتین نے پہلی بار شرکت کی، ریاستہائے متحدہ امریکا میں شراب بنانے اور نقل و حمل پر پابندی کا قانون، فیڈرل قانون میں  تبدیل ہو گيا۔ امریکی خواتین کی طرف سے شراب کے استعمال پر پابندی کی حمایت، اس قسم کے مشروبات کی لت کے نقصانات اور امریکا کے روایتی کلچر کے سلسلے میں ان کی سماجی سمجھ کی غماز تھی۔ اسی سال اولیو تھامس کامیڈی فلم فلیپر میں شراب اور سگریٹ پی رہا تھا اور ساتھ ہی اسے اپنے روایتی گھرانے کے ظلم کا شکار دکھایا جا رہا تھا۔ ایک ہی چیز کے بارے میں سماج کی عمومی خواہش اور میڈیا کی تصویر سازی کے درمیان یہ کھلا تضاد، اس بڑی مقابلہ آرائي کا ایک چھوٹا سا منظر تھا جو امریکی کلچر میں جاری تھی یعنی سماجی روایات اور سرمایہ داروں کی کبھی نہ مٹنے والی بھوک کے درمیان مقابلہ آرائي۔
2024/12/30

دیگر ممالک کے علاقوں پر قبضے کے سلسلے میں امریکا کا دوہرا معیار

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 11 دسمبر 2024 کو اپنے خطاب میں کہا کہ صیہونی حکومت نے شام کے علاقوں پر قبضہ تو کیا ہی، ساتھ ہی اس کے ٹینک دمشق کے قریب تک پہنچ گئے۔ جولان کے علاقے کے علاوہ، جو دمشق کا تھا اور برسوں سے اس کے ہاتھ میں تھا، دوسرے علاقوں پر بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ امریکا، یورپ اور وہ حکومتیں، جو دنیا کے دیگر ممالک میں ان چیزوں پر بہت حساس ہیں اور ایک میٹر اور دس میٹر پر بھی حساسیت دکھاتی ہیں، اس مسئلے میں نہ صرف یہ کہ خاموش ہیں، اعتراض نہیں کر رہی ہیں بلکہ مدد بھی کر رہی ہیں۔ یہ انہی کا کام ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے دوسرے ملکوں کے علاقوں پر اس طرح کے قبضے کا کیا حکم ہے اور اس سلسلے میں امریکا اور یورپ کی بے عملی کی وجہ کیا ہے؟
2024/12/23

خانہ جنگي یا غیر ملکی مداخلت؟ شام کے بحران میں امریکا کا ہاتھ

شام میں خانہ جنگي کی آگ، جس کے شعلے سنہ 2011 میں بھڑکے تھے، بڑی تیزی سے عالمی طاقتوں کی مداخلت کے میدان میں بدل گئي۔ اس بحران میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی سب سے اہم عالمی طاقت، ریاستہائے متحدہ امریکا تھا۔ وہ امریکا جو ان برسوں کے دوران، شامی جمہوریت پسندوں کی حمایت کے نعرے کے ساتھ میدان میں آيا تھا، اس نے عملی طور پر ان گروہوں کی حمایت اور پشت پناہی کی جو پوری طرح سے دہشت گردانہ ماہیت رکھتے تھے۔ چاہے وہ سنہ 2014 سے سنہ 2017 کے درمیان کا عرصہ ہو جب اس نے دہشت گرد گروہ داعش کو بنا کر یا کم از کم اس کی حمایت کر کے شام کو آشوب اور بدامنی میں غرق کر دیا اور چاہے آج کل کا وقت ہو جب وہ ایک نئي خانہ جنگي کی سازش اور القاعدہ گروہ سے وابستہ دہشت گردوں کی خفیہ تقویت کے ذریعے شام کے حصے بخرے کرنے پر تلا ہے۔
2024/12/15

انسانی حقوق کا علمبردار یا دشمن؟

انسانی حقوق ایک ایسا مفہوم ہے جس کے پوری دنیا میں دفاع کا امریکا ہمیشہ سے سب سے بڑا دعویدار رہا ہے اور پچھلے عشروں میں اس نے اسے اپنے تسلط کے فروغ اور دوسری حکومتوں پر تنقید کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کتنے سارے ممالک ہیں جن پر پچھلے عشروں میں امریکا کی مختلف حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گيا اور کتنے علاقے ہیں جن پر امریکا نے جمہوریت کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے نام پر چڑھائي کی۔ مگر مختلف رپورٹیں اور تحقیقات اس حقیقت کی گواہ ہیں کہ آج امریکا ہی پوری دنیا میں انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرتا ہے۔
2024/12/10

امریکا میں غلامی کی رسم کا خاتمہ ہوا ہی نہیں

دو دسمبر کو بردہ داری کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کوشش کی جاتی ہے کہ ہیومن ٹریفکنگ، لوگوں کے جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، بچوں کی جبری شادی اور جنگوں میں ان کے استعمال جیسی جدید دور کی بردہ داری کی شکلوں پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ ان چیزوں کے خلاف عالمی تحریک شروع ہو سکے۔ اس بات میں کوئي شک نہیں ہے کہ مذکورہ بالا جرائم، انسانوں کے سلسلے میں ہونے والے سب سے زیادہ گھناؤنے جرائم میں شامل ہیں لیکن کیا کسی کام کے لیے انسانوں کو مجبور کیا جانا صرف بردہ داری کی شکل میں ہی ہوتا ہے؟ کیا فکری، معاشی اور ثقافتی زنجیریں، انسانوں کو غلامی میں نہیں جکڑ سکتیں؟
2024/12/02

بند راستوں کو کھولنے والی سوچ

کسی گھرانے کے نوجوان رکن کی موت شاید اس فیملی کے لیے سب سے تلخ واقعہ ہو۔ اس نوجوان کی آرزؤوں، اس کے آنے والے اچھے دنوں، اس کی بچپن کی یادوں کے بارے میں سوچنا یا اس بارے میں سوچنا کہ جب پہلی بار اس نے اپنے ماں باپ کو پکارا تھا یا پہلی بار جب وہ چند قدم چلا تھا، ہر دل کو غمزدہ کر دیتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تلخ وہ موقع ہوتا ہے جب گھر والوں کو پتہ چلتا ہے کہ ان کے بچے نے اپنی زندگي کا اپنے ہاتھوں سے خاتمہ کر لیا ہے۔ جس گھرانے کے کسی رکن نے خود کشی کر لی ہو وہ گھرانہ ایک طویل عرصے تک یا بعض گھرانے تو عمر کے آخری حصے تک اس واقعے کو بھلا نہیں پاتے اور ان پر اس واقعے کا اثر کم نہیں ہو پاتا۔ اس واقعے سے گھر والوں میں گناہ اور اپنے قصوروار ہونے کا جو احساس پیدا ہوتا ہے وہ کسی عزیز کو کھونے کی مصیبت سے کم نہیں ہوتا۔ یہ باتیں اس لیے بیان کی گئيں تاکہ ذیل کے دہلا دینے والے اعداد و شمار پیش کیے جا سکیں۔
2024/12/01

جنگ بندی اور سرحد کے دونوں طرف، دو مختلف حقیقتیں

جب جنوبی لبنان کے پہاڑی ٹیلوں پر صبح کا سورج نمودار ہوا تو گاڑیوں کا ایک قافلہ آگے کی طرف بڑھنے لگا اور ان کے ہارن سے وطن واپسی کے نغمے کی گونج سنائي دینے لگي۔ لبنان کے لوگ، جو صیہونی حکومت کی جارحیت کی وجہ سے ایک مدت سے بے گھر ہو گئے تھے، بدھ کی صبح مقامی وقت کے مطابق چار بجے جنگ بندی شروع ہونے کے فوراً بعد اپنے اپنے دیہاتوں کی طرف تیزی سے واپس لوٹنے لگے۔ کھڑکیاں کھلنے لگیں اور ہاتھ، حزب اللہ کا زرد پرچم لہرانے لگے جو آسودگي اور رہائي کی علامت ہے۔
2024/11/28

رہبر انقلاب کی نوید نے رضاکاروں کا مستحکم عزم اور بڑھا دیا

ملک بھر سے آئے ہوئے ہزاروں رضاکاروں نے پیر 25 نومبر 2024 کو رہبر انقلاب سے ملاقات کی۔ جوش و عقیدت سے لبریز اس پروگرام کے ماحول، لوگوں کے جذبات اور دوسری اہم باتوں کے بارے میں ایک رپورٹ پیش خدمت ہے۔
2024/11/27

2006 کی جنگ اور حزب اللہ کے حالیہ آپریشنوں میں بنیادی فرق

شمالی اسرائيل میں صبح کے پرسکون سماں میں، بنیامینا کے قریب گولانی بریگيڈ کے ٹریننگ کیمپ میں پوری طرح سے فوجی ماحول حکم فرما تھا۔ سپاہی مشقوں اور تیاریوں میں مصروف تھے، جیسے وہ ہمیشہ ہی اس اہم فوجی چھاؤنی میں، آپریشنوں کے لیے مشقوں اور تیاریوں میں مصروف رہتے تھے۔ یہ وہ چھاؤنی تھی جہان غاصب صیہونی حکومت کے اہم جنگي ماہرین کو ٹریننگ دی جاتی تھی لیکن اس دن اچانک ہی مرگبار واقعہ رونما ہوا جس نے حالات کو پوری طرح بدل دیا۔
2024/11/16

'مُرجِفون' معاشرے کی نفسیاتی سیکورٹی کو متزلزل کرنے والے

سیکورٹی کسی بھی معاشرے کی سب سے اہم ضرورت ہوتی ہے۔ سیکورٹی کی مختلف قسموں کے درمیان، نفسیاتی سیکورٹی معاشرے کی پیشرفت میں اہم کردار کی حامل ہے۔ "معاشرے کی نفسیاتی سیکورٹی یعنی لوگوں کو مضطرب نہ کرنا، لوگوں کو خوف اور کشمکش میں مبتلا نہ کرنا۔" (2024/10/27) قرآن مجید کی ایک اہم آيت جو واضح طور پر اس سلسلے میں بات کرتی ہے، سورۂ احزاب کی ساٹھویں آيت ہے۔ خداوند عالم اس آيت میں منافقین، بیمار دل والے اور افواہیں پھیلانے والے جیسے تین گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: "اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینے میں افواہیں پھیلانے والے (اپنی حرکتوں سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان کے خلاف حرکت میں لے آئیں گے پھر وہ (مدینے) میں آپ کے پڑوس میں قلیل مدت کے علاوہ نہیں رہ سکیں گے۔" ان تین گروہوں کے درمیان، مرجفون (افواہیں پھیلانے والوں) کا گروہ، بہت زیادہ شناسا نہیں ہے اور اس کے بارے میں کم ہی بات کی گئی ہے۔ چونکہ اس گروہ کی شناخت، معاشرے کی نفسیاتی سلامتی سے براہ راست جڑی ہوئي، اسی لیے اس تحریر میں اس تناظر میں اس آيت کے اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔
2024/11/13

لبنان میں مزاحمت کی جڑیں کتنی مضبوط ہیں اور کیوں؟ حزب اللہ، نصر اللہ کا لازوال ورثہ

حزب اللہ کی ماہیت، اس کے ڈھانچے اور اس کے عقائد پر روشنی ڈالنے والی ایک تحریر۔ اس میں حزب اللہ کے قیام، اس وقت کے حالات اور ناقابل شکست سمجھی جانے والی صیہونی حکومت کے مقابلے میں اس کی حکمت عملی کا جائزہ لیا گيا ہے۔
2024/11/10

نصر اللہ سے لے کر سنوار تک؛ شہدائے مزاحمت کا "وعدۂ صادق"

لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ شہید سید حسن نصر اللہ اور فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ شہید یحیی سنوار نے اپنی شہادت سے کافی پہلے کچھ وعدے کیے تھے جو "وعدۂ صادق" تھے۔ کچھ وعدے ان کی حیات میں ہی پورے ہوئے اور کچھ ان کی شہادت کے بعد۔ اس مقالے میں ان کے انہی سچے وعدوں پر ایک نظر ڈالی گئي ہے۔
2024/10/28

حماس زندہ ہے اور زندہ رہے گي

صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو فوجی، سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے لحاظ سے ناقابل تلافی شدید ضرب کھانے کے بعد غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف بھیانک جرائم اور ان کے نسلی تصفیے کو اپنا ایجنڈا بنا لیا۔
2024/10/24

انسانیت کی ڈھالیں؛ یحییٰ سنوار غزہ کے بچوں کی ڈھال بن گئے

یحی سنوار کی قربانیوں کے بے شمار پہلو ہیں مندرجہ ذیل مقالہ اس کے ایک پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔
2024/10/23

آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نام پر صیہونی حکومت کو قانونی درجہ دلانے کا منصوبہ بری طرح ناکام

اس مضمون میں فلسطینی معاملوں کے محقق و مضمون نگار علی رضا سلطان شاہی نے تاریخ کے پس منظر میں خطے میں صیہونی حکومت کو تسلیم کروانے اور اس کے وجود کو مستحکم کرنے کی مغرب کی کوششوں اور اس سازش کی اسلامی انقلاب کے ہاتھوں ناکامی اور اس کے خطےمیں پھیلتے اثرات کا کہ جس کا عروج آپریشن طوفان الاقصیٰ کی شکل میں سامنے آیا، تجزیہ کیا ہے۔
2024/10/23

غزہ کی نسل کشی سے لے کر لبنان میں جرائم تک، تل ابیب کے دہشت گرد گینگ کو امریکا کا دائمی گرین سگنل

طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4) اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر  زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5) بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6) گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS  لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی! آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"   https://www.aljazeera.com/news/longform/2023/10/9/israel-hamas-war-in-maps-and-charts-live-tracker https://www.hrw.org/news/2024/09/18/lebanon-exploding-pagers-harmed-hezbollah-civilians https://thehill.com/policy/international/4893900-leon-panetta-lebanon-explosions-terrorism/ https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/09/exploding-pagers-and-radios-terrifying-violation-international-law-say-un https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/9/24/israel-attacks-lebanon-live-global-calls-for-restraint-as-492-killed https://www.youtube.com/live/f4opzJiXAz0?si=he5WGEdmVuNfxAoy https://www.aa.com.tr/en/politics/with-possible-iranian-attack-looming-us-central-command-chief-visits-middle-east/3294678 https://www.france24.com/en/live-news/20240920-ibrahim-aqil-the-hezbollah-elite-unit-commander-wanted-by-the-us
2024/10/21

دہشت گردی کے خلاف دو عشرے کی جنگ؛ خطے اور خود اپنے عوام کے لیے امریکا نے کیا حاصل کیا؟

11 ستمبر کے واقعے کو 23 سال ہو گئے۔ اس واقعے کے بہانے امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سنجیدگي کے ساتھ اپنی موجودگي شروع کی اور خطے کے مختلف ملکوں کے خلاف اپنے فوجی حملے شروع کیے۔ اس واقعے کے بعد کے بالکل ابتدائي دنوں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں، جو ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہوئي، کہا: "دہشت گردی کے خلاف القاعدہ سے ہماری جنگ شروع ہو رہی ہے لیکن وہ یہیں پر ختم نہیں ہوگي۔ جب تک پوری دنیا میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو روکا اور ختم نہیں کیا جاتا، یہ جنگ ختم نہیں ہوگي۔"(1) اسی تقریر کے بعد مغربی ایشیا پر امریکا کے غیر قانونی حملے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے پہچانے گئے۔ دو سال بعد جارج ڈبلیو بش نے صدام کے سقوط اور عراق پر قبضے کے بعد اپنی تقریر میں دنیا سے ایک بڑا وعدہ کیا اور کہا: "عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک بھیجی جائے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم کی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ، عالمی ڈیموکریٹک انقلاب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔" یہ ایسا وعدہ تھا جو ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہا اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا کی دو عشرے سے زیادہ کی موجودگي کا پھل ڈیموکریسی اور عمومی رفاہ نہیں بلکہ تباہی اور غربت کی صورت میں سامنے آيا۔ براؤن یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکا کی جنگوں میں اب تک براہ راست نو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق پچھلے 23 برس میں ان جنگوں کی وجہ سے 36 لاکھ سے 38 لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر مارے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اب تک 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری جانب یہ جنگيں اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے بے گھر کر چکی ہیں اور دسیوں لاکھ بے قصور لوگوں کے گھر مسمار یا تباہ ہو چکے ہیں۔(2) صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سال تک جاری رہنے والی فوجی کارروائيوں میں 30 ہزار سے زیادہ عام شہریوں سمیت 1 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام اور افغانستان پر امریکا کے 50 ہزار سے زیادہ فضائي حملوں نے دسیوں ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔(3) امریکی فوج کے وحشیانہ قتل عام کی ایک تازہ مثال، افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی جانب سے افغان شہریوں پر ڈرون حملہ ہے جس میں سات بچوں سمیت کم از کم 10 افغان شہری مارے گئے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر 2 سال تھی۔(4) اس کے علاوہ آج کل دنیا نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی ان تازہ تصاویر اور تفصیلات سے حیرت زدہ ہے جن میں حدیثہ کے قتل عام میں امریکی فوج کی قلعی کھولی گئي ہے۔(5) اس مجرمانہ کارروائي کے تحت امریکی میرینز کے ایک گروپ نے سنہ 2005 میں حدیثہ شہر میں عراق کے 24 عام شہریوں کا قتل عام کر دیا تھا جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔(6) امریکی فوجیوں نے اس وقت بہت سی تصویریں کھینچ کر اپنے جرائم کے ثبوت اکٹھا کر لیے تھے تاہم امریکی فوج اب سے کچھ ہفتے پہلے تک ان تصویروں کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ البتہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عوام بھی اپنی بے رحم حکومت کی جنگي مشین کی ایک بڑی قربانی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اب تک امریکا پر 9 ٹریلین ڈالر کا مالی بوجھ لاد دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندگان آج تک ہر گھنٹے اوسطاً 9 کروڑ تیس لاکھ ڈالر امریکا کی جنگ افروزی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں۔(7) اسی طرح امریکی فوج کو ہونے والا جانی نقصان عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کی جنگوں کے بعد خود کشی کر کے مرنے والے امریکا کے فوجی اسٹاف کے موجودہ اور سابق کارکنوں کی تعداد میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔(8) اس کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر جنسی جارحیتوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغانستان کی جنگ میں امریکا کی 24 فیصد خواتین فوجیوں اور 1.9 فیصد مرد فوجیوں کو جنسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(9) اب نائن الیون کے واقعے اور خطے پر امریکا کے فوجی حملے کے آغاز کو 23 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد سبھی کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ساری بے حساب مالی، فوجی اور انسانی قیمت صرف امریکا اور اس ملک کے مجرم حکام کی عسکری صنعت کے کامپلکس کی خوشنودی کے لیے چکائي گئي تھی۔ بش، اوباما، ٹرمپ اور بائيڈن جیسے افراد نے امریکی عوام کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر لاکھوں بے قصور لوگوں کو دہشت گردی سے جنگ کے بے بنیاد بہانے کی بھینٹ چڑھا دیا اور علاقائي اقوام کے درمیان بہت زیادہ غیظ اور نفرت پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے، مغربی ایشیا سے امریکی حکومت کو نکال باہر کیے جانے کا سبب بنے۔ یہ وہ بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے کئي سال پہلے بڑے حکیمانہ انداز میں اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالباً عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو، اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کیے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔"(10)   محمد مہدی عباسی، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار   1 https://edition.cnn.com/2001/US/09/20/gen.bush.transcript/ 2 https://watson.brown.edu/costsofwar/figures 3 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911 4 https://en.wikipedia.org/wiki/August_2021_Kabul_drone_strike 5 https://www.newyorker.com/podcast/in-the-dark/the-haditha-massacre-photos-that-the-military-didnt-want-the-world-to-see 6 https://en.wikipedia.org/wiki/Haditha_massacre 7 https://www.nationalpriorities.org/cost-of/war/ 8 https://watson.brown.edu/costsofwar/papers/2021/Suicides 9https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/veterans#:~:text=Amongst%20active%2Dduty%20service%20members,assault%20prevalence%20in%20the%20military. 10 https://urdu.khamenei.ir/news/2465
2024/09/11

مزاحمتی معاشرہ اور غاصب قابضوں کی بھیڑ

"میرے پاس نہ گھر ہے اور نہ گاڑی کیونکہ اس حکومت نے انھیں تباہ کر دیا لیکن میرے پاس ایک عقیدہ ہے جس کے لیے میں موت کو گلے لگاؤں گا۔"(1)
2024/09/08

ہیروشیما سے غزہ تک؛ بے شرمانہ جواز

 اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائي سے امریکا کا واحد ہدف خوفناک ایٹمی ہتھیار کے سائے میں دنیا بالخصوص اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کے سامنے اپنی ایسی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا جس کا کوئي جواب نہ ہو۔
2024/08/05

اسلامی جمہوریہ میں عوامی مینڈیٹ کی توثیق کا مفہوم اور اہمیت

اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 110 نے منتخب صدر کی صدارت کے حکمنامے پر دستخط کو رہبر معظم انقلاب کے فرائض و اختیارات کے دائرے میں رکھا ہے۔ تنفیذ (الیکشن میں صدر کو ملے عوامی مینڈیٹ کی توثیق) فقہی لحاظ سے ایک پرانی اور مشہور اصطلاح ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد یہ لفظ ملک کے قانونی نصاب میں شامل ہو گيا ہے۔ سب سے پہلے "تنفیذ" کے قانونی مفہوم اور ماہیت کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کے قوانین کی رو سے اس سلسلے میں پائے جانے والے اہم ترین سوالوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ جیسے یہ سوال کہ تنفیذ کے عمل کا اعتبار کہاں تک اور کس طرح کا ہے؟ کیا تنفیذ محض ایک پروٹوکول ہے جو ولی فقیہ کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے یا یہ ایک قانونی اقدام ہے؟ تنفیذ کے کیا قانونی اثرات ہیں؟
2024/07/27

دو ریاستی راہ حل؛ صیہونی حکومت کے لیے وقت حاصل کرنے کی چال

سنہ 1990 کے عشرے میں مسئلۂ فلسطین کے طویل ہو جانے کے سبب امریکا کی قیادت میں مغربی ملکوں نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں دو ریاستی فارمولا پیش کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس تناظر میں اس وقت کے صیہونی حکومت اور پی ایل او کے سربراہان کے درمیان سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اوسلو معاہدہ ایک طے شدہ فارمولے کو نافذ کرنے کی کوشش تھی جو اسرائيل اور فلسطین کے تنازع کے مکمل حل پر منتج ہو۔ پچھلے 30 سال کے عرصے نے یہ عیاں کر دیا کہ اس معاہدے کے تمام وعدے جھوٹے تھے اور اس کا اہم ترین نتیجہ، بیت المقدس کو یہودی شہر بنانا اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں میں اضافہ تھا۔ ایڈورڈ سعید عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حامیوں میں سے ایک رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود دو ریاستی فارمولے کی حمایت میں پیش پیش رہنے والوں میں سے ایک تھے۔ غیر قانونی یہودی بستیوں کے سلسلے میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں کھل کر کہا تھا کہ اس فارمولے پر عمل درآمد ناممکن ہے۔(1) اور آج بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے اسرائيل کے اقدامات کو، دو ریاستی فارمولے کے سلسلے میں غلط قدم بتایا ہے۔(2) ذیل کی تحریر میں قاری کو یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی گئي ہے کہ صیہونی حکومت صرف ایک ہدف کے حصول کے درپے ہے اور وہ ہے مقبوضہ علاقوں میں اپارتھائيڈ جیسی ایک صیہونی حکومت کا قیام اور دو ریاستی راہ حل، خطے میں اس حکومت کی گھٹیا چال پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔ 1. اوسلو معاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات اس وقت مقبوضہ علاقوں میں جو فلسطینی علاقے ہیں، ان میں غرب اردن ہے جس کا کنٹرول پی ایل او کے ہاتھ میں ہے جبکہ دوسرا علاقہ غزہ پٹی ہے جس کا انتظام حماس کی حکومت چلاتی ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ یہ حکومت کسی بھی صورت، دو ریاستی فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ اس فارمولے کے سلسلے میں صیہونی حکام کی اسٹریٹیجی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ پہلے بعض فلسطینی سربراہوں اور عرب ملکوں کی جانب سے اپنی قانونی حیثیت اور جواز حاصل کر لیں، اس وقت (اسّی کی دہائي کے اواخر اور نوّے کی دہائي کے اوائل میں) رائے عامہ کی نظروں میں اپنی مثبت شبیہ بنا لیں اور پھر فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر غاصبانہ قبضے کے لیے وقت حاصل کر لیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 1 اس بات کو واضح کرتا ہے کہ غرب اردن کا علاقہ بھی پوری طرح، صیہونی حکومت سے صلح اور اسے قانونی حیثیت دینے کی خواہاں خودمختار فلسطینی انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہیں دیا گيا جبکہ اوسلو معاہدے اور دو ریاستی فارمولے کے تحت اس کا کنٹرول اسے دیا جانا چاہیے تھا۔ صیہونی حکومت کے ہاتھوں غرب اردن کے علاقوں پر قبضہ بڑھانے کا ایک راستہ اس علاقے میں صیہونی کالونیاں کی تعداد بڑھانا اور یہاں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں 28 مارچ 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں کہا گيا ہے کہ یہودی کالونیوں میں رہنے والی غیر قانونی آبادی کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ سنہ 1993 میں یہی آبادی، ڈھائي لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔(3) صیہونی حکومت کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کو ہڑپنے کی ایک اور چال مختلف بہانوں سے زمینوں کو سرکاری اراضی بنا دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہفنگٹن پوسٹ(4) اور لی مونڈ(5) جیسے اخباروں کی رپورٹوں پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ہفنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اسرائيلی حکومت نے درۂ اردن کے قریب 1270 ہیکٹیر زمین پر قبضے کی توثیق کی ہے اور اوسلو معاہدے کے بعد اس قسم کے اقدام کی کوئي مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح لی مونڈ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیس ناؤ (6) تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 کے ابتدائي چھے مہینوں میں صیہونی حکام نے 2370 ہیکٹیر زمین کو سرکاری زمین ڈکلیئر کر دیا ہے جس سے انھیں اس بات کی اجازت مل گئی ہے کہ وہ ان زمینوں کو صرف یہودی کالونیوں میں رہنے والوں (Settlers) کو کرائے پر دے دیں۔ غزہ کے علاقے میں، جو صیہونی حکومت کی منہ زوریوں کے مقابلے میں مزاحمت کر رہا ہے، صیہونی حکومت کی اسٹریٹیجی کچھ الگ ہے۔ صیہونی حکومت نے سنہ 2007 سے لے کر اب تک غزہ کے علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں غزہ کے عوام بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں غزہ کے لوگوں کو دوسرے ممالک کی جانب بھگانے کے مقصد سے ان کے خلاف اپارتھائيڈ حکومت والی پالیسیاں اختیار کی گئي ہیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 2 اس موضوع کی عکاسی کرتا ہے کہ سنہ 2007 سے لے کر سنہ 2023 تک صیہونی حکومت نے اس خطے پر پانچ فوجی حملے کیے ہیں۔ سنہ 2023 کی جنگ اور پچھلے پانچ حملوں کے درمیان جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ "ضاحیہ ڈاکٹرین"(7) کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس کا ہدف غزہ کے لوگوں کو زبردستی اس علاقے سے باہر نکالنا، اس علاقے کو پوری طرح باشندوں سے خالی کروانا اور پھر صیہونی حکومت کی جانب سے اس پر آسانی سے قبضہ کر لینا ہے۔ ضاحیہ ڈاکٹرین ایک طرح کی فوجی اسٹریٹیجی ہے جس کے تحت ایک غیر مساوی شہری جنگ میں فوج، جان بوجھ کر غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتی ہے تاکہ غیر فوجی افراد پر دباؤ بڑھا کر اور ان پر سختیاں مسلط کر کے اپنی ڈیٹرنس کو بڑھایا جائے۔(8) یہ رپورٹ لکھے جانے تک اور جنگ کو 9 مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بعض ذرائع نے اس جنگ میں مارے جانے والوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ بتائی ہے جبکہ The Lancet جیسے میڈیکل جرائد نے اپنی رپورٹ میں بالواسطہ طور پر مرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ بتائي ہے۔ اگر انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو سیٹلائٹ تصاویر کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے 31 مئي 2024 کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ کا 55 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ (نقشہ نمبر 3) اور پوری غزہ پٹی میں تقریبا 65 فیصد سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔(9) (نقشہ نمبر 4) دو ریاستی فارمولا، وقت حاصل کرنے کی ایک چال اوسلو معاہدے اور دو ریاسی فارمولا پیش کیے جانے کو کئي عشرے گزر جانے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 جو فلسطین کے پارٹیشن پلان کے نام سے بھی مشہور ہے، 29 نومبر 1947 کو پاس ہوئي لیکن صیہونی حکومت نے، اس بات کے پیش نظر کہ سنہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں اسے عالمی برادری میں قانونی جواز کے بحران کا سامنا رہا تھا، اس بات کی کوشش کی کہ 1948 کی جنگ، 1967 کی چھے روزہ جنگ یا 1973 کی جنگ کے برخلاف جن میں وہ خانہ جنگي کی کیفیت اور عرب ملکوں کی جانب سے تیل کی سپلائی روک دیے جانے کی وجہ سے مغربی ملکوں کی عدم حمایت والی پچھلی جنگوں کے برخلاف فلسطینی آبادی والے باقیماندہ علاقوں پر قبضے کے لیے ایک نئي حکمت عملی اختیار کرے۔ اس کے نتیجے میں دو ریاستی فارمولا ایک طرف تو صیہونی حکومت کے لیے وقت حاصل کرنے اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کا ایک حربہ اور دوسری طرف فلسطینی کاز کی پیٹھ میں ایک خنجر سمجھا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج صیہونی حکام اسی فارمولے کو اپنے زیادہ بڑے اہداف کے حصول کے لیے پیمان ابراہیم (Abraham Accords) کے ڈھانچے میں آگے بڑھانے کی کوشش میں تھے لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اس منصوبے کو شروع میں ہی ناکام بنا دیا۔ دوسرے الفاظ میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای 3 جون 2024 کے اپنے خطاب میں کہتے ہیں: "آپریشن طوفان الاقصیٰ علاقے کی ضرورت کے عین مطابق تھا، اس کی وضاحت یہ ہے کہ امریکا، صیہونی عناصر، ان کی پیروی کرنے والوں اور علاقے کی بعض حکومتوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ  علاقے کے تعلقات، معاملات اور توازن کو تبدیل کر دیا جائے۔ علاقے کی حکومتوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے روابط خود اس حکومت کی مرضی کے مطابق ترتیب دیے جس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی ایشیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کی سیاست اور معیشت پر صیہونی حکومت کا مکمل تسلط ہو۔" ہر آزاد منش انسان جو قومی اور مذہبی تعصب کے بغیر مسئلۂ فلسطین پر غور کرے، وہ مقبوضہ علاقوں میں امن و ثبات کا واحد حل تمام اقوام و مذاہب کی شرکت سے فلسطین میں ایک ریفرنڈم کو مانے گا۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے پہلی مئي سنہ 2024 کو کہا تھا: "مشکل اس وقت حل ہوگی جب فلسطین اس کے اصلی مالکین یعنی فلسطینی عوام کو واپس مل جائے۔ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے، ان میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں۔ فلسطین ان کا ہے۔ فلسطین انھیں واپس کر دیں، وہ اپنی حکومت، اپنا نظام تشکیل دیں، اس کے بعد یہ نظام فیصلہ کرے کہ صیہونیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ انھیں باہر نکالا جائے یا رہنے دیا جائے ... یہ وہ راہ حل ہے جس کا اعلان  ہم نے کچھ برس قبل کیا تھا ... جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔"   1.            Yi LI (2011) Edward Said’s Thoughts and Palestinian Nationalism, Journal of Middle Eastern and Islamic Studies (in Asia), 5:3, 105-120, DOI: 10.1080/19370679.2011.12023187 (P. 118) 2.            https://www.leparisien.fr/international/israel/israel-5-minutes-pour-comprendre-les-nouvelles-implantations-de-colonies-en-cisjordanie-05-07-2024-BEDGKFVFWVH3VKXY7Y2OHUZ3LI.php 3.            https://www.un.org/unispal/document/human-rights-council-hears-that-700000-israeli-settlers-are-living-illegally-in-the-occupied-west-bank-meeting-summary-excerpts/ 4.            https://www.huffingtonpost.fr/international/article/en-cisjordanie-israel-approuve-la-plus-grosse-saisie-de-terres-depuis-30-ans_236417.html 5.            https://www.lemonde.fr/idees/article/2024/07/06/l-avancee-de-la-colonisation-en-cisjordanie-doit-cesser_6247358_3232.html 6.            Peace Now 7.            Dahiya Doctrine 8.            https://www.theguardian.com/commentisfree/2023/dec/05/israel-disproportionate-force-tactic-infrastructure-economy-civilian-casualties 9.            https://unosat.org/products/3883
2024/07/22
  • 1
  • 2
  • 3
  • اگلا>
  • آخری »

آخری فتح جو زیادہ دور نہیں، فلسطینی عوام اور فلسطین کی ہوگی۔

2023/11/03
خطاب
  • تقاریر
  • فرمان
  • خطوط و پیغامات
ملٹی میڈیا
  • ویڈیو
  • تصاویر
  • پوسٹر
  • موشن گراف
سوانح زندگی
  • سوانح زندگی
  • ماضی کی یاد
فورم
  • فیچرز
  • مقالات
  • انٹرویو
نگارش
  • کتب
  • مقالات
مزيد
  • خبریں
  • فکر و نظر
  • امام خمینی
  • استفتائات و جوابات
All Content by Khamenei.ir is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.