لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ شہید سید حسن نصر اللہ اور فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سربراہ شہید یحیی سنوار نے اپنی شہادت سے کافی پہلے کچھ وعدے کیے تھے جو "وعدۂ صادق" تھے۔ کچھ وعدے ان کی حیات میں ہی پورے ہوئے اور کچھ ان کی شہادت کے بعد۔ اس مقالے میں ان کے انہی سچے وعدوں پر ایک نظر ڈالی گئي ہے۔
صیہونی حکومت نے 7 اکتوبر 2023 کو فوجی، سیکورٹی اور انٹیلیجنس کے لحاظ سے ناقابل تلافی شدید ضرب کھانے کے بعد غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے خلاف بھیانک جرائم اور ان کے نسلی تصفیے کو اپنا ایجنڈا بنا لیا۔
اس مضمون میں فلسطینی معاملوں کے محقق و مضمون نگار علی رضا سلطان شاہی نے تاریخ کے پس منظر میں خطے میں صیہونی حکومت کو تسلیم کروانے اور اس کے وجود کو مستحکم کرنے کی مغرب کی کوششوں اور اس سازش کی اسلامی انقلاب کے ہاتھوں ناکامی اور اس کے خطےمیں پھیلتے اثرات کا کہ جس کا عروج آپریشن طوفان الاقصیٰ کی شکل میں سامنے آیا، تجزیہ کیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ آپریشن اور سات اکتوبر کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد آج عالم یہ ہے کہ غزہ نے 42 ہزار سے زیادہ شہیدوں اور 95 ہزار زخمیوں کے ساتھ، جن میں 70 فیصد خواتین اور بچے ہیں(1) انسانی تاریخ کے سب سے بڑے نسلی تصفیوں میں سے ایک کا سامنا کیا ہے۔ یہ نسل کشی، جسے صیہونی حکومت نے امریکا کی مکمل اور قطعی شراکت سے انجام دیا، اور امریکی اور اسرائیلی حکام کے اعتراف کے بموجب ایک سال تک اس کا تسلسل صرف امریکی حمایت سے ممکن تھا۔ امریکی کانگریس میں صیہونی حکومت کی مدد کے لیے مالی پیکجز کی منظوری، اسرائيل کو اسمارٹ بموں اور دفاعی سسٹموں کی فراہمی اور مقبوضہ علاقوں کے قریب امریکی بحری بیڑوں کی تعیناتی جیسی مختلف اسلحہ جاتی امداد، عالمی فورمز میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کرنا، اعلیٰ امریکی عہدیداروں کے تل ابیب کے مختلف دورے، اسرائیل میں امریکی فوجی افسران اور فوجیوں کی موجودگی اور پورے امریکا میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے احتجاجات کی سرکوبی، غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا ساتھ دینے میں گزشتہ ایک سال میں امریکا کی سیاہ کارکردگي کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
تاہم صیہونی حکومت کے جرائم میں امریکا کی شراکت یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ حالیہ دنوں میں دنیا نے اس "جرائم پیشہ گینگ" کے ساتھ امریکا کی شراکت کا ایک نیا پہلو دیکھا ہے۔ یہ جرم 17 ستمبر کو پورے لبنان میں بیک وقت سینکڑوں پیجرز اور وائرلیس سیٹوں کے دھماکوں سے شروع ہوا۔ ان دہشت گردانہ دھماکوں کے نتیجے میں 12 افراد، جن میں دو بچے اور دو میڈیکل اسٹاف شامل تھے، جاں بحق اور 2800 افراد زخمی بھی ہوئے۔(2) یہ جرم بین الاقوامی اداروں اور حتیٰ کہ مغربی حکام کی نظر میں بھی ایک واضح "دہشت گردانہ عمل" تھا۔ مثال کے طور پر، سی آئی اے کے سابق سربراہ لیون پنیٹا نے چند دن قبل ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا: "ایک جدید ٹیکنالوجی میں، جو آج کل بہت زیادہ رائج ہے، دھماکہ خیز مواد رکھنا اور اسے دہشت گردانہ جنگ میں تبدیل کر دینا، واقعی ایک دہشت گردانہ جنگ، ایک نئی چیز ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی شک ہے کہ یہ ایک قسم کی دہشت گردی ہے۔"(3) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی ایک رپورٹ میں لبنان میں صیہونی حکومت کے اس دہشت گردانہ عمل کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی اور خوفناک خلاف ورزی قرار دیا۔(4)
اسی طرح حالیہ کچھ دنوں میں صیہونی حکومت کے فضائی حملوں کے نتیجے میں لبنان کے مختلف علاقوں میں اب تک 2 ہزار سے زائد افراد شہید اور ہزاروں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ البتہ ان صیہونی جرائم کے ایک اہم شکار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بچے ہیں اور صرف پچھلے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں لبنانی بچے شہید ہو چکے ہیں۔(5)
بلاشبہ صیہونی حکومت کی یہ دہشت گردانہ کارروائی ہمیشہ کی طرح امریکا کی حمایت اور تائيد سے ہی ہوئی ہے۔ اگرچہ امریکی حکام سرکاری بیانات میں خود کو ان جرائم سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن عالمی رائے عامہ بخوبی واقف ہے کہ چاہے امریکا کو پیشگی اطلاع ہو یا نہ ہو، اسرائیل جو بھی کارروائی کرتا ہے، امریکا اس کی حمایت کرتا ہی ہے۔ کچھ ماہ قبل بین الاقوامی تعلقات کے مشہور پروفیسر جان مرشائیمر نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا: "اسرائیل کی لابی نے امریکی کانگریس پر قبضہ کر رکھا ہے اور وہ جو چاہتی ہے اسے حاصل کر ہی لیتی ہے۔"(6)
گزشتہ چند دہائیوں کا عالمی تجربہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ امریکا کی طرف سے صیہونیوں کے تمام وحشیانہ اقدامات کے لیے ایک دائمی اور مستقل گرین سگنل موجود رہتا ہے۔ مثال کے طور پر شہید ہنیہ کے قتل کے معاملے کو ہی لیجیے، امریکی حکومت کی جانب سے اس قتل کی باضابطہ حمایت نہ کیے جانے کے باوجود، مزاحمتی محور کے ممکنہ ردعمل کے پیش نظر اس نے فوراً USS لنکن جیسے اپنے کئی بحری جنگي جہاز اسرائیل کی حمایت میں علاقے میں تعینات کر دیے۔ اس کے علاوہ، صیہونی حکومت کی حمایت کے لیے سینٹکام کے کمانڈر کی علاقے میں موجودگی کی کئي خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔(7) اس کے علاوہ امریکی حکومت کی مالی اور اسلحہ جاتی امداد بھی ہے جو صیہونیوں کی ہر کارروائي کے بعد ان کی غیر قانونی حیات کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ ان کے کام آئی ہے۔ اس کی آخری مثال اگست میں شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کے لیے امریکا کی فوجی امداد ہے جو شہید ہنیہ کے قتل کے بعد صیہونی حکومت کو دی گئی تھی۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اسرائیلی حکام بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقے میں جو بھی اقدام کریں گے، چاہے اس اقدام سے پہلے واشنگٹن اس کا مخالف ہی کیوں نہ ہو، آخرکار انھیں امریکا کی دونوں جماعتوں کی حمایت حاصل ہوگی ہی۔ یہ وہ مستقل اور دائمی گرین سگنل ہے جو امریکا کی طرف سے اسرائیل کی کارروائيوں کے لیے ہمیشہ آن رہتا ہے۔
اس کے علاوہ، اس بات پر بھی توجہ ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں لبنان میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں کیے جانے والے بہت سے قتل براہ راست امریکا کے گرین سگنل پر بھی ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر حزب اللہ کے کئی اعلیٰ کمانڈروں کو قتل کرنے کے لیے، جو حال ہی میں شہید کیے گئے، کئی سال پہلے خود امریکیوں نے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔(8) صیہونی حکومت کے جرائم کے لیے امریکا کا جدید ترین گرین سگنل نیویارک اور اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں دکھایا گيا اور فوراً ہی اس پر عمل کیا گيا۔ صیہونی وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران مزاحمت کے بارے میں جھوٹے دعوے پیش کر کے رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانے کی کارروائي کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی اور اس تقریر کے کچھ ہی منٹ بعد بیروت کے جنوب میں واقع ضاحیہ کی چھے رہائشی عمارتوں پر امریکا کے دو ہزار پونڈ کے بموں سے بمباری کی گئي اور اس کے بعد صبح تک شہر کے رہائشی علاقوں پر چالیس سے زیادہ حملے کیے گئے۔ اس وحشیانہ بمباری کے دوران ہی امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے صیہونی حکومت کے خلاف کسی طرح کا منفی ردعمل ظاہر کیے بغیر، تنازعات کو حل کرنے کے لیے سفارتکاری کی ضرورت کے بارے میں بات کی!
آخر میں؛ رہبر انقلاب اسلامی نے 25 ستمبر 2024 کے اپنے حکمت آمیز خطاب میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی ہمہ گير اور مستقل حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "اس جنگ میں بھی کافر اور خبیث دشمن سب سے زیادہ اسلحوں سے لیس ہے۔ امریکا اس کی پشت پر ہے۔ امریکی کہتے ہیں کہ ہمارا کوئي دخل نہیں ہے، ہمیں خبر نہیں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں! انھیں خبر بھی ہے، وہ دخل بھی دے رہے ہیں اور انھیں صیہونی حکومت کی جیت کی ضرورت بھی ہے۔"
https://www.aljazeera.com/news/longform/2023/10/9/israel-hamas-war-in-maps-and-charts-live-tracker
https://www.hrw.org/news/2024/09/18/lebanon-exploding-pagers-harmed-hezbollah-civilians
https://thehill.com/policy/international/4893900-leon-panetta-lebanon-explosions-terrorism/
https://www.ohchr.org/en/press-releases/2024/09/exploding-pagers-and-radios-terrifying-violation-international-law-say-un
https://www.aljazeera.com/news/liveblog/2024/9/24/israel-attacks-lebanon-live-global-calls-for-restraint-as-492-killed
https://www.youtube.com/live/f4opzJiXAz0?si=he5WGEdmVuNfxAoy
https://www.aa.com.tr/en/politics/with-possible-iranian-attack-looming-us-central-command-chief-visits-middle-east/3294678
https://www.france24.com/en/live-news/20240920-ibrahim-aqil-the-hezbollah-elite-unit-commander-wanted-by-the-us
11 ستمبر کے واقعے کو 23 سال ہو گئے۔ اس واقعے کے بہانے امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سنجیدگي کے ساتھ اپنی موجودگي شروع کی اور خطے کے مختلف ملکوں کے خلاف اپنے فوجی حملے شروع کیے۔ اس واقعے کے بعد کے بالکل ابتدائي دنوں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں، جو ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہوئي، کہا: "دہشت گردی کے خلاف القاعدہ سے ہماری جنگ شروع ہو رہی ہے لیکن وہ یہیں پر ختم نہیں ہوگي۔ جب تک پوری دنیا میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو روکا اور ختم نہیں کیا جاتا، یہ جنگ ختم نہیں ہوگي۔"(1) اسی تقریر کے بعد مغربی ایشیا پر امریکا کے غیر قانونی حملے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے پہچانے گئے۔ دو سال بعد جارج ڈبلیو بش نے صدام کے سقوط اور عراق پر قبضے کے بعد اپنی تقریر میں دنیا سے ایک بڑا وعدہ کیا اور کہا: "عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک بھیجی جائے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم کی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ، عالمی ڈیموکریٹک انقلاب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔" یہ ایسا وعدہ تھا جو ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہا اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا کی دو عشرے سے زیادہ کی موجودگي کا پھل ڈیموکریسی اور عمومی رفاہ نہیں بلکہ تباہی اور غربت کی صورت میں سامنے آيا۔
براؤن یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکا کی جنگوں میں اب تک براہ راست نو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق پچھلے 23 برس میں ان جنگوں کی وجہ سے 36 لاکھ سے 38 لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر مارے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اب تک 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری جانب یہ جنگيں اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے بے گھر کر چکی ہیں اور دسیوں لاکھ بے قصور لوگوں کے گھر مسمار یا تباہ ہو چکے ہیں۔(2)
صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سال تک جاری رہنے والی فوجی کارروائيوں میں 30 ہزار سے زیادہ عام شہریوں سمیت 1 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام اور افغانستان پر امریکا کے 50 ہزار سے زیادہ فضائي حملوں نے دسیوں ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔(3) امریکی فوج کے وحشیانہ قتل عام کی ایک تازہ مثال، افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی جانب سے افغان شہریوں پر ڈرون حملہ ہے جس میں سات بچوں سمیت کم از کم 10 افغان شہری مارے گئے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر 2 سال تھی۔(4)
اس کے علاوہ آج کل دنیا نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی ان تازہ تصاویر اور تفصیلات سے حیرت زدہ ہے جن میں حدیثہ کے قتل عام میں امریکی فوج کی قلعی کھولی گئي ہے۔(5) اس مجرمانہ کارروائي کے تحت امریکی میرینز کے ایک گروپ نے سنہ 2005 میں حدیثہ شہر میں عراق کے 24 عام شہریوں کا قتل عام کر دیا تھا جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔(6) امریکی فوجیوں نے اس وقت بہت سی تصویریں کھینچ کر اپنے جرائم کے ثبوت اکٹھا کر لیے تھے تاہم امریکی فوج اب سے کچھ ہفتے پہلے تک ان تصویروں کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔
البتہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عوام بھی اپنی بے رحم حکومت کی جنگي مشین کی ایک بڑی قربانی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اب تک امریکا پر 9 ٹریلین ڈالر کا مالی بوجھ لاد دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندگان آج تک ہر گھنٹے اوسطاً 9 کروڑ تیس لاکھ ڈالر امریکا کی جنگ افروزی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں۔(7) اسی طرح امریکی فوج کو ہونے والا جانی نقصان عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کی جنگوں کے بعد خود کشی کر کے مرنے والے امریکا کے فوجی اسٹاف کے موجودہ اور سابق کارکنوں کی تعداد میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔(8)
اس کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر جنسی جارحیتوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغانستان کی جنگ میں امریکا کی 24 فیصد خواتین فوجیوں اور 1.9 فیصد مرد فوجیوں کو جنسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(9)
اب نائن الیون کے واقعے اور خطے پر امریکا کے فوجی حملے کے آغاز کو 23 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد سبھی کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ساری بے حساب مالی، فوجی اور انسانی قیمت صرف امریکا اور اس ملک کے مجرم حکام کی عسکری صنعت کے کامپلکس کی خوشنودی کے لیے چکائي گئي تھی۔ بش، اوباما، ٹرمپ اور بائيڈن جیسے افراد نے امریکی عوام کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر لاکھوں بے قصور لوگوں کو دہشت گردی سے جنگ کے بے بنیاد بہانے کی بھینٹ چڑھا دیا اور علاقائي اقوام کے درمیان بہت زیادہ غیظ اور نفرت پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے، مغربی ایشیا سے امریکی حکومت کو نکال باہر کیے جانے کا سبب بنے۔
یہ وہ بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے کئي سال پہلے بڑے حکیمانہ انداز میں اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالباً عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو، اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کیے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔"(10)
محمد مہدی عباسی، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار
1 https://edition.cnn.com/2001/US/09/20/gen.bush.transcript/
2 https://watson.brown.edu/costsofwar/figures
3 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911
4 https://en.wikipedia.org/wiki/August_2021_Kabul_drone_strike
5 https://www.newyorker.com/podcast/in-the-dark/the-haditha-massacre-photos-that-the-military-didnt-want-the-world-to-see
6 https://en.wikipedia.org/wiki/Haditha_massacre
7 https://www.nationalpriorities.org/cost-of/war/
8 https://watson.brown.edu/costsofwar/papers/2021/Suicides
9https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/veterans#:~:text=Amongst%20active%2Dduty%20service%20members,assault%20prevalence%20in%20the%20military.
10 https://urdu.khamenei.ir/news/2465
اس غیر انسانی اور مجرمانہ کارروائي سے امریکا کا واحد ہدف خوفناک ایٹمی ہتھیار کے سائے میں دنیا بالخصوص اپنے دیرینہ حریف سوویت یونین کے سامنے اپنی ایسی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا جس کا کوئي جواب نہ ہو۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 110 نے منتخب صدر کی صدارت کے حکمنامے پر دستخط کو رہبر معظم انقلاب کے فرائض و اختیارات کے دائرے میں رکھا ہے۔ تنفیذ (الیکشن میں صدر کو ملے عوامی مینڈیٹ کی توثیق) فقہی لحاظ سے ایک پرانی اور مشہور اصطلاح ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد یہ لفظ ملک کے قانونی نصاب میں شامل ہو گيا ہے۔ سب سے پہلے "تنفیذ" کے قانونی مفہوم اور ماہیت کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کے قوانین کی رو سے اس سلسلے میں پائے جانے والے اہم ترین سوالوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ جیسے یہ سوال کہ تنفیذ کے عمل کا اعتبار کہاں تک اور کس طرح کا ہے؟ کیا تنفیذ محض ایک پروٹوکول ہے جو ولی فقیہ کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے یا یہ ایک قانونی اقدام ہے؟ تنفیذ کے کیا قانونی اثرات ہیں؟
غزہ کی جنگ نے فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے اپنے تمام تر مصائب و آلام اور ہر آزاد منشن انسان کے لیے تمام تر دکھوں کے ساتھ ہی یورپ اور امریکا کے بہت سے نعروں اور مفاہیم کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ مغرب کے جمہوریت، انسانی حقوق اور سب سے بڑھ کر اظہار رائے کی آزادی جیسے مفاہیم غزہ کی جنگ کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ آزادئ اظہار رائے جس کی سب سے بڑی دعویدار پچھلی دہائیوں میں مغربی حکومتیں رہی ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہی پابندیوں، بیانوں اور عالمی اداروں میں تشویش ظاہر کرنے جیسے ہتھکنڈوں کے ساتھ اسے دیگر اقوام کے خلاف دباؤ کے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہےغزہ میں مغرب کا ڈھونگ بن کر رہ گئی ہے۔ غزہ کی جنگ نے دکھا دیا ہے کہ اس سے پہلے تک غلط طریقے سے فریادی اور ملزم کی جگہ بدل دی گئي تھی اور یہ لبرل ڈیموکریسی ہے جسے آزادئ اظہار رائے کی خلاف ورزی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ پچھلے 9 مہینوں میں دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ بخوبی اس دعوے کی دلیل ہے۔
7 اکتوبر اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے اگلے کچھ ہی دنوں میں ہم نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم پر بہت سے اخبار نویسوں اور صحافیوں کے سخت احتجاج کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس احتجاج پر مغربی حکومتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ کے صیہونی مالکوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ امریکی میڈیا وائس نیوز کے خبر نگار لاما آریان نے لکھا: "میں نے آف دی ریکارڈ اپنے بہت سے ساتھیوں سے سنا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کے بارے میں ٹویٹ کرنا بھی انھیں بے روزگار بنا سکتا ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ خاموش ہیں۔"(1) مغرب میں اسرائیل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد جتنی بڑھتی جا رہی تھی، اتنی ہی روز بروز کام سے نکالے جانے والے اخبار نویسوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ مشہور جریدے Elife(2) کے مدیر اعلیٰ مائیکل آئزن سے لے کر اخبار نیویارک ٹائمز(3) کے فوٹوگرافر حسام سلام تک فلسطین کی حمایت کے سبب اپنی نوکری سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتے پہلے ہی امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت میں اسٹوڈنٹس کے احتجاج کے اوج کے دنوں میں ایک بار پھر مغرب کی اظہار رائے کی آزادی کے دعوے کی پول کھل گئي۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں اس احتجاج کے دوران 3200 لوگ جن میں سے تقریبا 100 پروفیسر اور باقی سب یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس تھے، پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ذریعے حراست میں لے لیے گئے۔(4) اسی طرح پچھلے کچھ مہینوں کے دوران میڈیا میں خبریں آئي ہیں کہ بہت سے اسٹوڈنٹس اور پروفیسروں کو فلسطین کی حمایت کے جرم میں یونیورسٹیوں سے نکال دیا گيا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ کچھ ہی دن پہلے کا ہے جس میں کولمبیا یونیورسٹی کے تین پروفیسروں کو، صیہونیت مخالف ایس ایم ایس بھیجنے کے بہانے نوکری سے معطل کر دیا گيا۔(5) یہ یونیورسٹی آزادی کی خلاف ورزی کا ایک طویل ماضی رکھتی ہے اور سات اکتوبر کے بعد اس یونیورسٹی میں "JVP" یا Jewish Voice for Peace جیسے گروہوں تک کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئي۔(6)
اس کے علاوہ مغرب میں آرٹ اور اسپورٹس کی دنیا کے سیلیبریٹیز بھی اظہار رائے کی آزادی سے لبرل ڈیموکریسی کی کھلی جنگ کے گزند سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ مشہور فلم سیریز اسکریم (Scream) میں مرکزی کردار ادا کرنے والی میلیسا بریرا کو صرف اس وجہ سے اس فلمی پروجیکٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گيا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر غزہ کی حمایت میں کچھ باتیں پوسٹ کی تھیں۔(7) یا ہالینڈ کے فٹبالسٹ انور الغازی کو غزہ میں صیہونیوں کے جرائم پر صرف اعتراض کرنے کی وجہ سے جرمنی کے مائنز فٹبال کلب کی ٹیم سے باہر نکال دیا گيا۔(8)
دلچسپ بات یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی دعویدار لبرل ڈیموکریسی، مغرب کے ان انگشت شمار سیاستدانوں کو بھی برداشت نہیں کرتی جو غزہ میں صیہونی فوج کے بھیانک جرائم پر اعتراض کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی کچھ مہینے پہلے ہی امریکی کانگریس کی فلسطینی نژاد رکن رشیدہ طلیب کے صیہونیت مخالف بیان کی، کانگریس کے 234 اراکین کے ووٹوں سے مذمت کی گئي اور بہت سے اراکین نے کانگریس میں ان کی رکنیت ختم کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔(9)
حالیہ کچھ مہینوں میں ٹیکنالوجی کی کچھ بڑی کمپنیوں کے اقدامات نے بھی یہ بات بخوبی عیاں کر دی ہے کہ مغرب میں پرائیویٹ سیکٹر بھی آزادئ اظہار رائے کو محدود کرنے کے معاملے میں حکومتوں سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ گوگل کمپنی سے لے کر، جس نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اور صیہونی کمپنیوں سے تعاون کے خلاف دھرنے میں شرکت کی وجہ سے اپنے 20 ملازمین کو نوکری سے نکال دیا،(10) میٹا کمپنی تک جس نے ابھی کچھ ہی دن پہلے اپنے پلیٹ فارمز پر "صیہونی" لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔(11)
ایسا لگتا ہے کہ اس بار مغرب والوں نے ظاہری تکلف کو بھی برطرف کر دیا ہے اور بہت سے شہروں میں عوام کی جانب سے چفیہ (Keffiyeh) جیسے مزاحمت کے سمبل کے استعمال کو بھی جرم قرار دے دیا ہے۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جرمن پارلیمنٹ نے کچھ روز پہلے غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی مزاحمت و استقامت کا مظہر سمجھے جانے والے "لال مثلث" کے استعمال پر پابندی کے بل کو بھی منظوری دے دی ہے!
رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ دن پہلے یورپ میں اسٹوڈنٹس کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی 58ویں نشست کے نام اپنے پیغام میں "آزادئ اظہار رائے پر عملدرآمد میں لبرل ڈیموکریسی کی ناتوانی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ ناتوانی غزہ کی جنگ کے بعد سب کے لیے پوری طرح عیاں ہو گئي ہے اور اب مغرب، ماضی کی طرح مختلف اقوام پر اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اب دنیا اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ مغرب والوں کی آزادئ اظہار رائے کوئي بڑی چیز نہیں ہے اور یہ لبرل ڈیموکریسی ہے جو دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرتی ہے۔
تحریر:
محمد مہدی عباسی؛ امریکی مسائل کے محقق
[1] https://twitter.com/lalarian/status/1717951032343376222?t=GraWFIeYS3besn5C9FFtPA&s=19
2 https://www.nbcnews.com/science/science-news/firing-science-journal-editor-gaza-post-sparks-free-speech-rift-rcna122128
3 https://thecradle.co/articles-id/2564
4 https://theappeal.org/prosecutors-charges-protesters-arrested-gaza-colleges-april/
5 https://www.aljazeera.com/news/2024/7/9/columbia-ousts-deans-over-texts-with-antisemitic
6 https://www.columbiaspectator.com/news/2023/11/10/columbia-suspends-sjp-and-jvp-following-unauthorized-thursday-walkout/
7 https://www.bbc.com/news/entertainment-arts-67494374
8 https://aje.io/56dh9m
9 https://www.theguardian.com/us-news/2023/nov/07/house-vote-censure-rashida-tlaib-palestine-criticize-israel
10 https://www.instagram.com/p/C6HFrT3P_Zw/?igsh=MTdicnIzY2E3bnd2ag%3D%3D
11 https://edition.cnn.com/2024/07/09/tech/meta-posts-zionists-hate-speech/index.html
رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ میں اسٹوڈنٹس کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی 58ویں نشست میں دنیا کے اہم مسائل اور نئے پرانے زخموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان مسائل اور زخموں میں "معاشی و سماجی انصاف کے موضوع سے لبرل ڈیموکریسی کی مرگ بار خاموشی" کو سب سے عبرت انگیز مسئلہ بتایا۔ سوال یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک سیاسی نظاموں میں سماجی انصاف کا مقام کیا ہے اور اس سے غفلت کیوں مرگ بار ہے؟
بہت سارے سیاسی نظاموں میں لبرل ڈیموکریسی کو سب سے اچھے سیاسی نظام کے طور پر سراہا جاتا ہے اور اس نے انفرادی آزادی، سیاسی نمائندگي اور معاشی پیشرفت جیسی کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن اس ظاہری چکاچوندھ کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئي ہے: سماجی انصاف کے نام کی کلیدی حقیقت سے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے کی جانے والی غفلت۔ یہ صرف ایک عام سی بے توجہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری آگہی سے کیا گيا ایک انتخاب ہے جس کے ریشے اس سسٹم میں پھیلائے گئے ہیں۔
مساوات کا فسانہ
لبرل ڈیموکریسی کے حامی قانون کے مقابلے میں انفرادی حقوق اور مساوات کے احترام پر فخر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عملی طور پر اکثر اس وسیع عدم مساوات کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں جو ان کے معاشروں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ اسے صرف عدم توجہ کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ موجودہ حالت زار کو جاری رکھنے کے لیے ایک آگاہانہ انتخاب ہے، ایسی صورتحال جو مالدار اور تمام عیش و آرام کی مالک اقلیت کے حق میں اور تہی دست اکثریت کے نقصان میں ہے۔ اکثر لبرل ڈیموکریٹک ممالک میں معاشی عدم مساوات دہشت ناک ہے۔ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے پاس دولت و ثروت اور ذخائر کا زیادہ بڑا حصہ ہے جبکہ کروڑوں لوگ اپنی روزانہ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہ صرف بازار کی صورتحال کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو دولت مندوں اور کمپنیوں کے حق میں اور زیادہ تر مزدوروں، غریبوں اور حاشئے پر دھکیل دیے گئے گروہوں اور سوسائٹیوں کے نقصان میں اپنائي جاتی ہیں۔ دولتمندوں کے لیے ٹیکس میں کمی، صنعتوں کے لیے قانون میں سہولیات اور غریبوں کو متاثر کرنے والے غیر منصفانہ سخت اقدامات، اس حقیقت کے نمونے ہیں کہ کس طرح سسٹم جان بوجھ کر معاشی عدم مساوات کو وجود میں لایا ہے اور اسے جاری رکھنے پر بضد ہے۔
"مساوات" جیسے بڑے بڑے اور جاذب نظر نعروں کے باوجود لبرل ڈیموکریسی والے ملکوں میں بدستور نسل، قومیت، جنسیت اور دوسری سماجی پہچانوں کی بنیاد پر منظم طریقے سے امتیازی سلوک جاری ہے۔ یہ صرف انفرادی تعصب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اداروں اور معاشرے کے ڈھانچوں تک میں یہ اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے اور با اقتدار لوگوں کے ذریعے، جو موجودہ صورتحال کے جاری رہنے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، باقی اور جاری رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں سے بہت سے معاشروں میں عدالتی سسٹم تناسب کے اصول کی پابندی کیے بغیر اقلیتی افراد کو اپنا ہدف بناتا ہے اور انھیں سزائيں دیتا ہے۔ کبھی کبھی ان معاشروں میں "اقلیت" لفظ کا اطلاق، کسی ایک سماجی گروہ کی تعداد کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں ہوتا۔ جس کی مثال ریاستہائے متحدہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیاہ فام، تعداد کے لحاظ سے امریکا کے بہت سے دوسرے سماجی گروہوں سے زیادہ ہیں۔ یہی صورتحال تھوڑی کم یا زیادہ شدت کے ساتھ لبرل ڈیموکریسی کے تعلیمی نظام میں بھی دکھائي دیتی ہے۔ یہ سسٹم زیادہ تر، سبھی کو مساوی مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ سماجی انصاف سے جان بوجھ کر کی جانے والی اس غفلت نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا ہے جس میں کسی فرد کی آئندہ زندگي، اس کی صلاحیت اور کوشش پر نہیں بلکہ بڑی حد تک اس کی پیدائش کے حالات سے طے ہوتی ہے۔
غفلت کی تاریخی جڑیں
سماجی انصاف سے یہ جان بوجھ کر کی جانے والی غفلت کوئي نئي بات نہیں ہے۔ اس کی جڑیں سامراج کے تاریخی ورثے، بردہ داری اور منظم مظالم میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ان ورثوں نے گہری عدم مساوات کی کیفیت پیدا کر دی ہے جو اب بھی مغربی معاشروں کو تکلیف پہنچا رہی ہے اور یہ زیادہ تر ان افراد کے توسط سے جاری رہتی ہے جنھیں طاقت اور اقتدار ورثے میں ملا ہے۔ نوآبادیاتی علاقوں کے لوگوں سے مشقت والے کام کروانا، افریقا میں بردہ داری اور خواتین اور اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک، یہ ساری چیزیں اس اندھیری تاریخ کا حصہ ہیں جو آج تک مغربی انسان کی روزمرہ کی زندگي پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں نیو لبرلزم کے سامنے آنے سے ان مسائل میں شدت آ گئي۔ بڑے صنعتکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے قوانین میں ڈھیل، سرمایہ داروں اور دولتمندوں کو سہولیات کی فراہمی اور کمزور طبقوں کے لیے سختی جیسی باتیں پرامن سماجی نیٹ ورک کے بکھر جانے اور سماجی خدمات میں عمومی سرمایہ کاری میں جان بوجھ کر کمی کا سبب بنی ہیں۔ ترجیحات میں یہ تبدیلی بری طرح سماج کے سب سے کمزور طبقوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئي اور اس نے امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج مزید بڑھا دی۔ یہ سرمائے کے مفادات کو ترجیح دینے اور عوامی رفاہ کی ترجیح کو ختم کرنے کا ایک آگاہانہ انتخاب تھا جو ایک ایسے معاشرے کی تشکیل پر منتج ہوا جس میں امیر، زیادہ امیر اور غریب، زیادہ غریب بنتا جاتا ہے۔
اگرچہ عالمگيریت، معاشی ترقی اور ملکوں کی سرنوشت ایک دوسرے سے جڑ جانے کا سبب بنی لیکن اس نے مذکورہ بالا مشکل کو بھی بڑھا دیا۔ منافع پر مبالغے کی حد تک توجہ زیادہ تر مزدروں کے استحصال، ماحولیات کی تباہی اور مزدوری نیز کام کے حمایتی معیارات میں کمی کے کمپیٹیشن کا سبب بنی ہے۔ اسے عالمگیریت کا صرف ایک ناگوار سائڈ افیکٹ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ عوام کے بجائے منافع کو ترجیح دینے کے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکومتوں کے آگاہانہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔ بہت سے ملکوں میں نوکریوں کی آؤٹ سورسنگ، مزدور یونینوں کی سرکوبی اور ماحولیات کے کمزور قوانین اس بات کا نمونہ ہیں کہ کس طرح سسٹم جان بوجھ کر سماجی انصاف کو پیروں تلے روندتا ہے اور اسے معاشی فوائد کی بلی چڑھا دیتا ہے۔
خاموش قاتل: سماجی بے انصافی لبرل ڈیموکریسی کے نظام میں ایک مرگبار کمی
ماڈرن تمدن کے قلب میں ایک خاموشی بحران اپنے پیر پھیلاتا اور مغربی معاشروں کی بنیاد کو کھوکھلا بناتا جا رہا ہے۔ یہ بحران نہ تو یوکرین کی جنگ سے زیادہ بڑی کوئي جنگ ہے، نہ کوئي قدرتی آفت ہے اور نہ ہی کورونا سے زیادہ خطرناک کوئي متعدی بیماری بلکہ یہ لبرل ڈیموکریسی کے بظاہر عیش و آرام والے اور مستحکم ڈھانچوں میں سماجی انصاف کو دھیرے دھیرے کھانے والی دیمک ہے۔ یہ عدم توجہ صرف ایک اخلاقی شکست نہیں ہے بلکہ ایک مہلک زہر ہے جو سیاست کے جسم میں اتر چکا ہے اور جس کے اثرات کنارے لگا دیے گئے گروہوں کے مصائب و آلام سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
اس بحران کے مرکز میں عدم مساوات کا مسلسل بڑھتا اضافہ ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان کا فرق بدستور بڑھتا جا رہا ہے اور ثروت مندوں اور تہیدستوں کا ایک معاشرہ تشکیل دے رہا ہے۔ یہ نہ صرف معاشی عدم توازن ہے بلکہ سماجی بدامنی کی آگ کے لیے تیل کے جیسا ہے۔ جب آبادی کا ایک اچھا خاصا بڑا حصہ یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ معاشی پیشرفت کے پھلوں سے محروم ہے تو عدم اطمینان شدت اختیار کر لیتا ہے اور سماجی اتحاد و یکجہتی کو فنا کر دیتا ہے۔
تاریخ ایسے سماجوں سے بھری پڑی ہے جو شدید عدم مساوات کی وجہ سے بکھر گئے۔ انقلاب فرانس، انقلاب روس اور بہت سے دوسرے تغیرات، ان لوگوں کے غصے اور مایوسی کا نتیجہ تھے جو معاشی پیشرفت سے پیچھے رہ گئے تھے مگر اس کا انھیں کوئي فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ہمارے عہد میں وال اسٹریٹ پر قبضے کی تحریک، عدم مساوات کی تباہ کن طاقت کا ایک نمونہ ہے۔ لبرل ڈیموکریسی والے ملکوں میں سماجی سمجھوتہ مساوی مواقع اور ذخائر کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے۔ جب یہ سمجھوتہ ٹوٹ جاتا ہے تو سیاسی نظام کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ یہ چیز جمہوری اداروں پر سے یقین اٹھ جانے کا سبب بن سکتی ہے اور اقتدار پرستی اور شدت پسندی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، یہ وہ چیز ہے جو بہت سے مغربی ممالک میں سامنے آنے لگي ہے۔
معاشی عدم استحکام، ریت پر بنا گھرا
عدم مساوات، سماجی بدامنی تو پیدا کرتا ہی ہے ساتھ ہی معاشی استحکام کو بھی کمزور بنا دیتا ہے۔ جب دولت، معدودے چند لوگوں کے ہاتھوں میں محدود ہو جاتی ہے تو صارفین کی ڈیمانڈ کم ہو جاتی ہے اور معاشی پیشرفت مندی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ چیز مزید کساد بازاری، بے روزگاری اور سماجی بدامنی پر منتج ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عدم مساوات، ذخائر کے طے شدہ استعمال کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ جب سیاسی و معاشی فیصلوں پر دولت مند طبقے کا حد سے زیادہ رسوخ ہوتا ہے تو زیادہ تر سرمایہ کاری، پورے سماج کے حق میں کام کرنے والے شعبوں میں نہیں بلکہ قیمتی اشیاء کی تجارت میں ہونے لگتی ہے۔ یہ چیز مالی بحرانوں، سرمائے کے غلط استعمال کا سبب بن سکتی ہے اور طویل مدت معاشی پیشرفت میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
سیاسی پولرائزیشن
سماجی انصاف کی طرف عدم توجہ، سیاسی پولرائزیشن میں بھی شدت پیدا کر دیتی ہے۔ جب کسی ملک کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی تشویشوں پر سیاسی مشینری کی طرف سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے تو وہ جمہوری عمل کی طرف سے بددل ہونے لگتے ہیں۔ یہ چیز عوام کو فریب دینے والے سیاستدانوں کا کام آسان کر دیتی ہے کہ وہ سماجی عدم اطمینان سے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غلط فائدہ اٹھائيں۔
سماجی انصاف کی طرف سے لبرل ڈیموکریسی کی غفلت کے برے نتائج، صرف سیاسی و معاشی شعبوں تک محدود نہیں ہیں۔ عدم مساوات کا عمومی صحت و سلامتی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشی و سماجی صورتحال اور لوگوں کی صحت و سلامتی کے درمیان بڑا واضح اور مضبوط رشتہ ہے۔ جو لوگ غربت میں زندگي گزارتے ہیں وہ بیماریوں کی زد میں زیادہ آتے ہیں، زندگي کے سلسلے میں ان کی امید کم ہوتی ہے اور حفظان صحت سے متعلق سہولیات تک ان کی دسترسی دوسروں سے کم ہوتی ہے۔
یہ لوگوں کی بدقسمتی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سسٹم کی ناکامی ہے۔ جب کوئي سماج اپنے سب سے کمزور ارکان کی صحت اور آرام و آسائش کی طرف سے غفلت کرتا ہے تو وہ اس کی قیمت، حفظان صحت کے اخراجات میں اضافے کی صورت میں چکاتا ہے۔
ہونا یا نہ ہونا مسئلہ یہ ہے
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سماجی انصاف کے سلسلے میں لبرل ڈیموکریسی کی بے توجہی کوئي عقدۂ لا ینحل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں اس مشکل کے حل کے لیے کچھ اہم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جیسے تعلیم، حفظان صحت اور سستی رہائش کے شعبوں میں سرمایہ کاری، سبھی کے لیے معاشی مواقع کی فراہمی اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے قدم اٹھا کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ قدم ہیں جنھیں عملی طور پر آزمایا بھی جا چکا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام آزمائشوں کا نتیجہ غلط ہی رہا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کی مشکل، اس کے طریقے اور وسائل نہیں بلکہ اس کی ماہیت ہے۔ ان تمام اقدامات کو مختلف علاقوں اور مختلف حالات میں آزمایا جا چکا ہے لیکن موجودہ فاصلوں کے مزید بڑھنے کے علاوہ ان کا کوئي نتیجہ نہیں نکلا۔ مشکل یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریسی انہی فاصلوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ سماجی گروہوں کے درمیان یہی فاصلہ اور یہی فرق، مالدار طبقے کو اپنی سہولیات کی حفاظت کی امید میں معاشی شعبے میں اپنی مشارکت جاری رکھنے کے لیے ترغیب دلاتا ہے اور اس کے مقابلے میں غریب اور تہی دست طبقے کو مختلف طرح کے حربوں کے ذریعے اس بات کے لیے پرامید رکھتا ہے کہ شاید کسی دن، ایک بہتر زندگی کے لیے ان کی مستقل تگ و دو کا خاتمہ ہوگا اور ثروت مند طبقے سے اس کا فاصلہ کچھ کم ہو جائے گا۔ آج اور ماضی میں صرف یہ فرق ہے کہ مغربی رائے عامہ اس حقیقت کو سمجھ چکی ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کے پاس اب کوئي چال اور حربہ باقی نہیں رہ گيا اور معاشرے کی اکثریت کے سامنے اس کا ناکارآمد ہونا پہلے سے زیادہ نمایاں ہو چکا ہے۔ اس وقت معدودے چند ثروت مندوں کے علاوہ سبھی کے لیے مسئلہ، ڈھانچوں کی اصلاح یا انھیں پھر سے تیار کرنے کا نہیں بلکہ ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی اپنا سب سے اہم سرمایہ کھوتی جا رہی ہے: ڈھانچے کے کارآمد ہونے کے سلسلے میں غریبوں اور تہی دستوں کی امید۔
منگل کو عید غدیر کے دن تہران کے حسینیۂ امام خمینی میں "جشن ولایت و اخوت" کے نام سے ایک جشن کا انعقاد کیا گيا تھا جس میں ایران کے پانچ صوبوں کے لوگ مدعو تھے۔ اس جشن سے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای خطاب کرنے والے تھے۔
"ممکن ہے کہ میں اس تاریکی کو ختم نہ کر پاؤں لیکن میں اپنی اسی چھوٹی سی روشنی سے نور و ظلمت اور حق و باطل کا فرق دکھاؤں گا اور جو نور کا متلاشی ہے، یہ نور چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو، اس کے دل میں بڑا ہوگا۔" یہ جملہ ان کی اہلیہ غادہ نے ان کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ غادہ نے کہا تھا کہ وہ یہ جملے ایک پینٹنگ کے نچلے حصے میں پڑھ کر، جو پوری طرح سیاہ تھی اور اس کے بیچ میں ایک چھوٹی سی شمع جل رہی تھی اور اس کا نور بہت چھوٹا دکھائي دے رہا تھا، ان پر اور زندگي کے سلسلے میں ان کے نظریے پر فریفتہ ہو گئي تھیں۔ شاید ہی کسی کو اس بات پر یقین آئے کہ ایک فوجی کمانڈو، جو ہمیشہ ہی بہت ٹھوس اور مقتدرانہ طریقے سے میدان میں آتا ہے، اس طرح کے لطیف جذبات اور نرم دلی کا حامل ہوگا لیکن اس کی شخصیت اضداد کا مجموعہ تھی، ایک سدابہار مرد؛ ڈاکٹر مصطفیٰ چمران۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنے خطاب کے ایک حصے میں مسئلۂ فلسطین کو امام خمینی کے ایک سب سے نمایاں درس اور نظریے کے طور پر موضوع گفتگو قرار دیا اور طوفان الاقصیٰ کے حالیہ واقعات اور مسئلۂ فلسطین پر اس کے حیرت انگیز اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے صیہونی حکومت کی موجودہ ابتر صورتحال پر بعض مغربی اور صیہونی ماہرین کے بیانوں کے حوالے سے روشنی ڈالی۔
اس رپورٹ میں KHAMENEI.IRویب سائٹ رہبر انقلاب کی جانب سے نقل کیے گئے ان اقوال کا جائزہ لیا کہ یہ کن تجزیہ نگاروں اور ماہرین کے ہیں۔
حج "امت مسلمہ کے عقیدے کے اظہار اور موقف کے اعلان کی ایک جگہ" ہے اور امت مسلمہ اپنے صحیح اور قابل قبول اور قابل اتفاق رائے موقف کو بیان کر سکتی ہے، قابل قبول اور قابل اتفاق رائے... اقوام، مسالک۔ ممکن ہے حکومتیں کسی اور طرح سوچیں، کسی اور طرح کام کریں لیکن اقوام کا دل، الگ چیز ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اقوام مختلف معاملات میں اپنے موقف کا اظہار کر سکتی ہیں۔ اگرچہ برائت، ابتدائے انقلاب سے ہی حج میں موجود رہی ہے لیکن غزہ کے بڑے اور عجیب واقعات کے پیش نظر خاص طور پر اس سال کا حج، حج برائت ہے۔ اور مومن حجاج کو اس قرآنی منطق کو پوری اسلامی دنیا میں منتقل کرنا چاہیے۔ آج فلسطین کو اسلامی دنیا کی پشت پناہی کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے 8 مئی 2024 کو پانچویں امام رضا علیہ السلام بین الاقوامی کانفرنس کے اکیڈمک بورڈ کے ارکان سے ملاقات میں ائمہ علیہم السلام کی زندگی کے معنوی و سیاسی پہلوؤں اور ان کی تعلیمات کی تشریح کو ضروری قرار دیا۔ عشرۂ کرامت اور امام رضا علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مناسبت سے تشیع کی حفاظت کے لیے امام رضا علیہ السلام کی سیاسی جدوجہد پر رہبر انقلاب کے تجزئے کی روشنی میں ایک نظر ڈالی جا رہی ہے۔
سنہ 1979 میں ایران کے اسلامی انقلاب کی شاندار کامیابی کے بعد امریکہ نے، جو ایران اور خطے میں اپنے غیر قانونی مفادات کو اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ رہا تھا، اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک ہمہ گير جنگ شروع کر دی۔ براہ راست فوجی مداخلت (واقعۂ طبس) اور بغاوت کی پلاننگ اور پشت پناہی سے لے کر نئے تشکیل شدہ اسلامی نظام کی سرنگونی کے ارادے سے ایران پر حملے کے لیے عراق کی بعثی حکومت کو ترغیب دلانے اور اسے سر سے پیر تک مسلح کرنے تک امریکہ نے ایرانی قوم کے عظیم انقلاب کو چوٹ پہنچانے کے لیے کسی بھی کام سے دریغ نہیں کیا۔ آخرکار فوجی محاذ پر شکست کے بعد اس نے ایران کی مسلم قوم کے خلاف ایک دوسری یلغار شروع کی۔ اس بار اس نے معاشی، عسکری، دفاعی، سائنسی و تکنیکی، صنعتی اور تجارتی میدانوں میں یکطرفہ طور پر انتہائي سخت پابندیاں نافذ کر کے بزعم خود اس بات کی کوشش کی کہ اپنے مطالبات کے آگے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔
امام خامنہ ای نے 24 اپریل 2024 کو اپنی تقریر میں مغرب کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پر پابندیاں عائد کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے کہا تھا: "ان پابندیوں کا مقصد کیا ہے؟ وہ کچھ اہداف بیان کرتے ہیں لیکن جھوٹ بولتے ہیں، اہداف وہ نہيں ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ جوہری توانائی کی بات کرتے ہیں۔ جوہری اسلحے کی بات کرتے ہیں، انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، مسئلہ یہ سب نہیں ہے۔ ہم ایران پر اس لئے پابندی لگاتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے! دہشت گرد کون ہیں؟ غزہ کے عوام!"
21 اپریل برصغیر کے مشہور فلسفی، مفکر، اسلامی اسکالر، شاعر اور سیاستداں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے۔ اگرچہ علامہ اقبال عوام کی نظروں میں اپنے اشعار خاص طور پر فارسی کلام کی وجہ سے ہند و پاک کے بلند پایہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ایک دانشور ہیں جس نے اپنے گہرے افکار و نظریات کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر مشرقی اقوام خاص طور پر امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا ہے۔
جب بھی فلسطینی مجاہدت کی تاریخ لکھی جائے گي تب 7 اکتوبر اور 14 اپریل کا بہت بڑی تبدیلی لانے والے لمحات کے طور پر ذکر ہوگا۔ اگرچہ ماضی میں غاصبانہ قبضہ کرنے والی صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ کی طرف سے مسلسل چیلنجز مل رہے تھے لیکن ان دونوں تاریخوں میں ایسا کچھ ہوا جو اپنی ہمہ گيریت اور اسکیل کے لحاظ سے اب تک بے مثال رہا ہے۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے شروع ہونے اور ہیومنزم کے افکار کے پھیلاؤ کے ساتھ ہی یونیورسٹی کا مفہوم بھی تبدیل ہو گيا۔ یونیورسٹی کی جہت دینی علوم سے ان علوم کی طرف مڑ گئي جو قانون، زبان کے قواعد، سیاست اور فلکیات جیسے روز مرہ کی انسانی زندگي میں سرگرم کردار ادا کرتے ہیں۔ پندرھویں صدی کے اواسط سے یورپ کی یونیورسٹیوں میں ہیومنزم کے افکار اور نئے فلسفے کو مزید فروغ حاصل ہوا اور رفتہ رفتہ وہ ان علمی مراکز کے دوسرے دیگر افکار و خیالات پر چھا گئے۔ سترہویں اور اٹھارویں صدی میں یورپ کے مفکرین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو ایک بڑی ذمہ داری ملی اور وہ مذہبی التزام سے عاری انسانی زندگي کے لیے اخلاقی حدود کی تعریف اور ان کا تعین تھا۔
غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم سے متعلق خبریں روزانہ ہی نیوز چینلز اور اخبارات میں آتی رہتی ہیں۔ اسی طرح غزہ کا بحران خبری ٹاک شوز، سیاسی تبصروں اور خبری مباحثوں کے روزمرہ کے موضوع میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں جو سب سے اہم سوال پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک، غزہ کے موجودہ بحران سے باہر نکلنے اور اس علاقے میں جاری بھیانک قتل عام اور تخریب کاری کے خاتمے کا راستہ ہے۔
رہبر انقلاب کے اس جملے پر قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صفوی بھی ہنستے ہوئے کہتی ہیں جی ہاں، آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تالیاں بجانے لگتی ہیں اور حاضرین بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔
گرفتاریاں، ایذائیں، تفتیش، اسپتال کے اندر لوگوں کا قتل، لاشوں کو باہر لے جانے پر پابندی، اسپتالوں میں امداد آنے پر روک، میڈیکل اسٹاف پر براہ راست فائرنگ، اسپتالوں کے در و دیوار کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دینا، قبروں سے لاشوں کو باہر گھیسٹنا اور پھر انہیں بلڈوزروں سے کچل دینا، صیہونیوں کے موجودہ وحشی پن کے نمونے ہیں۔
آج امریکا اور مغرب میں شاید ہی کوئي بیدار ضمیر انسان ہوگا جو حالیہ ایک صدی کے سب سے بھیانک جرائم میں سے ایک کے بارے میں خاموش اور لاتعلق ہو۔ اس جرم کے سبب غزہ میں اب تک بتیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار کے بقول یہ روانڈا میں نسل کشی کے بعد سے دنیا کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔(1) کوئي صیہونی حکومت کے سفارتخانے کے سامنے خودسوزی کر کے اس نسل کشی میں اپنے ملک کی شرکت پر اعتراض کرتا ہے(2) کوئي امریکی وزارت خارجہ کے اہم عہدے سے استعفیٰ دے کر(3) تو کوئي واشنگٹن، نیویارک اور سان فرانسسکو کی سڑکوں پر ہفتوں جنگ مخالف مظاہرے کر کے۔
رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے 20 مارچ 2024 کو عید نوروز کی تقریر میں غزہ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے صیہونی حکومت کی حالت ان الفاظ میں بیان کی: غزہ کے واقعے میں پتہ چلا کہ صیہونی حکومت نہ صرف اپنے تحفظ کے سلسلے میں بحران سے دوچار ہے بلکہ بحران سے باہر نکلنے میں بھی اسے ایک بحران کا سامنا ہے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کے داخل ہونے سے اس کے لئے ایک دلدل پیدا ہو گئی۔ اب اگر وہ غزہ سے باہر نکلے تو بھی شکست خوردہ ہے اور باہر نہ نکلے تب بھی شکست خوردہ مانی جائے گی۔
غزہ کی رہنے والی ایک ماں اپنے ننہے شہید بچے کا جنازہ آغوش میں اٹھائے ہوئے ہے۔ اسے چومتی ہے، پیار کرتی ہے، نہ جانے کن احساسات و جذبات کے ساتھ اس کی آخری آرام گاہ کی سمت لے جاتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے 5 مارچ 2024 کو ایران میں یوم شجرکاری کی مناسبت سے تین پودے لگائے جن میں سے ایک زیتون کا پودا تھا۔ انھوں نے زیتون کا پودا لگانے کے بعد کہا کہ "زیتون کا درخت لگانے کا مقصد فلسطین کے عوام سے یکجہتی اور ہمدلی کا اظہار ہے کہ وہ جگہ زیتون کا مرکز ہے اور ہم دور سے ان مظلوم، عزیز اور مجاہد عوام کو سلام کرنا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ ہم ہر طرح سے آپ کو یاد کرتے ہیں، جیسے یہ کہ آپ کی یاد میں زیتون کا درخت لگاتے ہیں۔"
تحریر: بنیامین منیعات :
امام خامنہ ای سے، پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں اور شہداء کے اہل خانہ کی ملاقات کی ایک نجی روداد، 28 فروری 2024ـ
پہلی بار ووٹ دینے والوں سے رہبر انقلاب اسلامی کی ملاقات کی جگہ یعنی حسینیۂ امام خمینی پر جا کر ختم ہونے والی سڑک کے کنارے نالی کا صاف پانی گزشتہ دنوں سے کہیں زیادہ تھا۔ موسم سرما کے ان آخری دنوں میں برفباری نے پہاڑوں کو مزید برف سے ڈھک دیا تھا اور ہمیں بغیر پانی کی قلت والے موسم گرما کی طرف سے زیادہ پرامید کر دیا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای اپنی اہلیہ کے بارے میں: "انھوں نے مجھ سے کبھی بھی لباس خریدنے کے لیے نہیں کہا ... انھوں نے کبھی اپنے لیے کوئی زیور نہیں خریدا۔ ان کے پاس کچھ زیور تھے جو وہ اپنے والد کے گھر سے لائی تھیں یا بعض رشتہ داروں نے تحفے میں دیے تھے۔ انھوں نے وہ سارے زیور فروخت کر دیے اور اس سے ملنے والے پیسوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیا۔ اس وقت ان کے پاس زر و زیور کے نام پر کچھ بھی نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک معمولی سی انگوٹھی بھی نہیں ہے۔"
سید حسن نصر اللہ: "جب یہ کتاب میرے پاس پہنچی تو میں نے اسی رات اسے پڑھ ڈالا۔"
سنہ 2023 ایسے عالم میں ختم ہوا کہ جب غاصب صیہونیوں کے مظالم و جرائم کے سامنے فلسطینی مجاہدین کی شجاعت اور غزہ کی عورتوں اور بچوں کی استقامت نے اپنے روز افزوں فروغ کو باقی رکھا اور نئے سال میں بھی جاری رہی۔ اس دوران صیہونی حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ کھل گيا ہے جس نے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کی عالمی حیثیت کو پہلے سے زیادہ داغدار کر دیا ہے بلکہ اس پر بھاری معاشی بوجھ بھی لاد دیا ہے۔
حالیہ برسوں میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے تشریح و جہاد کے بیان پر مسلسل زور دیا جانا، اس موضوع کی خصوصی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے جو آج اسلامی انقلاب کی کلیدی بحثوں میں شامل ہو چکا ہے۔
پچھلے کچھ عشروں کے دوران عالمی اداروں اور قانونداں سوسائٹی کے سامنے جو ایک بڑا اہم مسئلہ رہا ہے وہ امن اور جنگ کے مختلف حالات میں میڈیا اہلکاروں کی حفاظت کا ہے۔ اگرچہ بیسویں صدی کے ابتدائي برسوں میں جنگ کے حالات میں قیدی اخبار نویسوں کی حمایت میں ہیگ کے سنہ 1907 کے کنوینشن جیسے عالمی قوانین بنائے گئے لیکن اس صدی کے دوسرے نصف میں اخبار نویسوں کے کام کے قانونی مسائل پر خاص توجہ دی گئي۔ اس سلسلے میں جینوا کے چار فریقی 1977 کے پہلے ایڈیشنل پروٹوکول کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں اخبار نویس کی اصطلاح میں، جسے ایڈیشنل پروٹوکول میں استعمال کیا گيا ہے، ان تمام افراد کو شامل کیا گيا ہے جو میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں جن میں رپورٹر، کیمرہ مین، وائس ٹیکنیشین وغیرہ شامل ہیں۔
غزہ کے سلسلے میں پیش گوئیاں صحیح ثابت ہو رہی ہیں۔ شروع سے ہی حالات پر نظر رکھنے والوں نے یہاں بھی اور دوسری جگہوں پر بھی یہ پیش گوئی کی تھی اس قضیے میں فلسطین کی استقامتی تحریک فاتح ہوگی۔ اس جنگ میں شکست، خبیث اور ملعون صیہونی حکومت کو ہوگی۔
9 جنوری کو فقیہ، مفسر قرآن اور عالم ربانی حجت الاسلام و المسلمین شیخ محسن علی نجفی نے پاکستان میں اسلامی تعلیمات کی ترویج اور علوم اہلبیت علیہم السلام کے نشر و اشاعت کی راہ میں ایک طویل عمر تک مجاہدت کے بعد داعئ اجل کو لبیک کہا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک پیغام جاری کر کے اس بزرگ عالم دین کی وفات پر پاکستان کے عوام، علمائے دین اور دینی مدارس کو تعزیت پیش کی۔
امام خامنہ ای نے 23 دسمبر 2023 کو خوزستان اور کرمان کے عوام سے ملاقات میں غزہ کے عوام کی استقامت و مزاحمت کی تعریف کرتے ہوئے کہا: "غزہ کا واقعہ فلسطینی عوام اور فلسطینی مجاہدین کے پہلو سے بھی بے نظیر ہے کیونکہ ایسی مزاحمت اور صبر و استقامت اور دشمن کو اس طرح بدحواس کر دینا، کبھی دیکھا نہیں گیا۔ غزہ کے عوام پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔ کھانا، پانی، دوائیں اور ایندھن نہیں پہنچ رہا ہے لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور جھک نہیں رہے ہیں۔ یہی گھٹنے نہ ٹیکنا انھیں فاتح بنائے گا۔ "ان اللہ مع الصابرین" (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ سورۂ انفال، آیت 46) فلسطینی عوام کا یہ صبر، جنگ کے ابتدائي دنوں سے قابل توجہ تھا اور اس وقت توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
سوربھ کمار شاہی کا کہنا ہے کہ اپنے آپریشنل یا حتی ٹیکٹکل اہداف حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے جھلاہٹ کا شکار صیہونی حکومت ایک بار پھر فلسطینی شہریوں پر حملے کر رہی ہے۔
آج سے کچھ مہینے پہلے شاید ہی کوئي یہ سوچ سکتا تھا کہ امریکی حکومت کی ایک سب سے بڑی تشویش اور بنیادی مشکل، خارجی پالیسی کا ایک مسئلہ ہوگا کیونکہ کبھی بھی ریاستہائے متحدہ امریکا میں عالمی مسائل، انتخابات پر چنداں اثر انداز نہیں ہوتے اور وہ اس ملک کے صدر کی مقبولیت میں بہت زیادہ تبدیلی لانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
تاریخ بشر میں ہم نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ظالم، ظلم کی گوناگوں روشوں سے یہ کوشش کرتا رہا کہ ستم رسیدہ افراد پر غلبہ حاصل کر لے اور اپنے دائمی تسلط کی بنیادیں مضبوط کر لے لیکن زمینی حقیقت اس کے برخلاف ظاہر ہوئی۔ فراعنہ مصر سے لے کر یزیدوں تک سب کے سب اپنے اپنے زمانے کے موسی و حسین کے سامنے مٹ گئے۔ مستضعفین نے عارضی سختیوں کا مضبوطی سے سامنا کیا اور سرانجام مستکبرین کو مغلوب کر لیا۔