آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ ایک طولانی وقفے کے بعد ایران اور ازبکستان کے رشتوں کو نئی زندگی ملنے پر خوشی ہے۔ افسوس کہ برسوں تک ایران اور ازبکستان کے روابط بہت محدود رہے، امید کرتے ہیں کہ یہ سفر اور تہران میں ہونے والے مذاکرات دونوں ملکوں کے روابط کے بہتر مستقبل کا سر آغاز بنیں گے۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار کی شام ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیایف اور انکے ہمراہ وفد سے ملاقات میں ایران اور ازبکستان کے مابین بے نظیر تاریخی، ثقافتی اور علمی قربت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان اشتراکات سے مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لئے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔
انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان لمبے وقفے کے بعد تعلقات کو ملنے والی حیات نو پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ایران اور ازبکستان کے درمیان مسلسل کئی برسوں تک تعلقات بہت محدود سطح پر رہے اور مجھے امید ہے کہ یہ دورہ اور تہران میں ہونے والی گفتگو، دونوں ملکوں کے مابین نئے مستقبل کا سر آغاز ثابت ہوگی۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ازبکستان کو ترکمنستان اور افغانستان کے راستے سے بڑی آسانی سے بین الاقوامی پانیوں سے جوڑ سکتا ہے۔ آپ نے کہا کہ تجارت اور نقل و حمل سے ہٹ کر بھی باہمی تعاون کے وسیع تر میدان موجود ہیں اور نئے طریقوں پر غور کرکے سائنس و ٹکنالوجی سمیت مختلف میدانوں میں آپسی تعاون کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
آیت خامنہ ای نے مزید کہا کہ ایران و ازبکستان کے مابین تعلقات میں فروغ کی مخالفت کرنے والے بھی ہیں، لیکن ان مخالفتوں کو درکنار کرتے ہوئے دونوں ملکوں کو قومی مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا اور آپسی تعاون کو جہاں تک ممکن ہو فروغ دینا چاہیئے۔
اس ملاقات میں صدر مملکت حجت الاسلام سید ابراھیم رئیسی بھی موجود تھے۔
ازبکستان کے صدر شوکت میر ضیایف نے رہبر انقلاب سے اپنی ملاقات کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں وقفے اور تعاون کی سطح کے کم رہنے پر افسوس تھا تاہم مجھے امید ہے کہ تہران میں ہوئی گفتگو تجارت، نقل و حمل، سائنس و ٹکنالوجی اور سیاحت کے شعبے میں باہمی تعاون کو مطلوبہ سطح تک لے جانے کی بنیاد بنے گی۔
ازبکستان کے صدر نے پابندیوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کی ثابت قدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم کی کامیابیاں خاص طور پر سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں جس کی جھلک نمائش میں ہم نے دیکھی، یہ بتاتی ہیں کہ کس طرح ایک قوم اپنے رہبر کی دانشمندانہ قیادت میں اور اتحاد کے زیر سایہ، دباؤں کے باوجود بڑے بڑے اہداف حاصل کر سکتی ہے۔