آپ نے یہ حدیث تو بارہا سنی ہے، البتہ انسان جب احادیث کو سنے تو ضروری ہے کہ اس کے رخ کو سمجھنے کی کوشش کرے، اسے علم ہونا چاہئے کہ اس کا رخ کیا ہے، کس چیز کی جانب رخ ہے۔ ہارون حج کے سفر پر جاتا ہے۔
جب وہ مدینے پہنچتا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حرم میں داخل ہوتا ہے تو یہ ثابت کرنے کے لئے کہ اس کی خلافت کی بنیاد صحیح ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرکے کہتا ہے؛ "السلام علیک یابن عمّ" درود ہو آپ پر اے چچا زاد بھائی!
ظاہر ہے کہ چچیرے بھائی کی خلافت چچیرے بھائی کو ملے گی، دور کے رشتہ داروں کو تو نہیں ملے گی۔ یہ بالکل فطری بات ہے۔ بالکل واضح ہے۔ چچا زاد بھائی قریبی ہوتا ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ آپ جانتے ہیں یا نہیں کہ بنی عباس کا بھی ایک سلسلہ ہے بنی علی کی مانند۔ ہم کہتے ہیں کہ امام موسی ابن جعفر نے امام صادق سے حاصل کیا، انھوں نے امام باقر سے، انھوں نے امام سجاد سے، انھوں نے امام حسین سے، انھوں نے امام حسن سے اور انھوں نے علی ابن ابی طالب علیہم السلام سے اور انھوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے۔ بنی عباس نے بھی روایتوں کے لئے اپنا ایک سلسلہ تیار کر لیا تھا۔ کہتے تھے کہ منصور نے عبد اللہ سفاح ابو العباس سے حاصل کیا، اس نے اپنے بھائی ابراہیم امام سے، اس نے اپنے والد محمد سے اور اس نے اپنے والد علی سے اور اس نے اپنے والد عبد اللہ سے اور اس نے اپنے والد عباس سے اور عباس نے پیغمبر اکرم سے! انھوں نے اپنے لئے یہ سلسلہ تیار کر لیا تھا اور وہ خود کو امامت و خلافت کا حقدار ظاہر کرتے تھے۔
ہارون اسے ثابت کرنے کے لئے کہتا ہے؛ "السلام علیک یابن عمّ" امام موسی ابن جعفر حرم میں موجود ہیں۔ آپ نے جیسے ہی سنا کہ ہارون نے "السلام علیک یابن عمّ" کہا ہے آپ نے بلند آواز میں کہا؛ "السلام علیک یا اباہ"(بحارالانوار، علّامه محمّد باقر مجلسی، جلد 48، صفحہ 135 اور 136) سلام ہو آپ پر اے پدر! یعنی آپ نے فورا ہارون کو دنداں شکن جواب دیا کہ تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ رسول کے چچازاد بھائی ہو لہذا خلافت تمہارا حق ہے تو میں رسول کا فرزند ہوں۔ اگر معیار یہ ہے کہ چچازاد بھائی کی حلافت قربت اور رشتہ داری کی وجہ سے چچازاد بھائی کو ملتی ہے تو پھر اپنے والد کی میراث یعنی خلافت و ولایت کا زیادہ حقدار میں ہوں۔ امام خامنہ ای،
کتاب ھمرزمان حسین
راوی کہتا ہے کہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ امام موسی ابن جعفر علیہما السلام کے حجرے میں تین چیزیں رکھی ہیں۔ ایک شمشیر ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ ہدف جہاد ہے۔ موٹا اور کھردرا لباس ہے جو سخت کوشی، جہادی اور انقلابی زندگی کی علامت ہے اور ایک قرآن ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ نصب العین یہی ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 1985
امام موسی کاظم علیہ السلام کے حجرے میں تین چیزیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں: ایک تلوار جو جہاد کی علامت ہے، جنگی لباس اور ایک قرآن۔ یہ اس کی علامت ہے کہ جہاد کا مقصد قرآنی طرز زندگی ہے۔
امام خامنہ ای
12 اپریل 1985