حسینی تحریک کے اہداف

جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں۔

1999 April
میں امام حسین علیہ السلام کے اقوال او خطبوں میں، کہ جو اہم نکات سے لبریز ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ لوگوں سے ر‎‎سا و واضح زبان میں بات کرنے کے لئے آپ امام حسین علیہ السلام کے اقوال اور خطبوں سے زيادہ سے زیادہ استفادہ کریں، اس جملے کو اس نشست کے لئے مناسب سمجھتا ہوں جس میں آپ نے فرمایا ہے : «اللّهم انّك تعلم انّ الّذى كان منا لم يكن منافسة فى سلطان ولاالتماس شى‏ء من فضول الحطام»؛ پروردگارا! یہ جو ہم نے اقدام کیا ہے، یہ جو ہم نے قیام کیا ہے، یہ جو ہم نے فیصلہ کیا ہے اس کے بارے میں تجھے معلوم ہے کہ وہ اقتدار کے لئے نہیں ہے۔ اقتدار کسی انسان کا ہدف نہيں ہو سکتا۔ ہم عنان حکومت ہاتھ میں نہیں لینا چاہتے تھے، دنیوی جاہ و مقام کے لئے بھی ہمارا قیام نہیں ہے کہ ہم پر تعیش زندگی گزاریں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھائيں، مال و دولت جمع کریں ۔ ان سب چیزوں کے لئے نہيں ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کس لئے ہے ؟ آپ نے کچھ جملے فرمائے ہیں جو اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کی تبلیغ کے سلسلے میں ہر دور کے لئے یہ ایک درس اور رہنمائی ہے ۔ «ولكن لنرى المعالم من دينك» دین کے پرچم لوگوں کے لئے لہرائيں اور (یہ پرچم) اس(دین) کی نشانیاں ان(لوگوں) کی نظروں کے سامنے لے آئيں۔  نشانیاں اہم ہیں۔ شیطان ہمیشہ اہل دین کے درمیان تحریف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور غلط راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا بس چلے تو لوگوں کو دین سے علاحدگی پر اکساتا ہے تاکہ زہریلے پروپیگنڈوں اور نفسانی خواہشات کی آگ بھڑکا کر لوگوں سے ان کا دین و ایمان چھین لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہوا تو یہ کرتا ہے کہ دین کی علامتوں اور مظاہر کو غلط جگہوں پر نصب کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ جب کسی سڑک پر چل رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ علامت کسی ایک سمت کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔ اب اگر کسی بدعنوان شخص نے اس علامت کوبدل دے اور اسے دوسری سمت میں موڑ دے۔ (تو اس کا نتیجہ راہرو کی گمراہی کی صورت میں نکلے گا۔) امام حسین علیہ السلام اپنا اولین ہدف یہ قرار دیتے ہیں : «لنرى المعالم من دينك و نظهر الاصلاح فى بلادك»؛اسلامی ممالک سے بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اصلاح کریں۔ اصلاح یعنی کیا ؟ یعنی بدعنوانی کا خاتمہ۔ بد عنوان یعنی کیا ؟ بدعنوان کی بہت سی قسمیں ہیں: چوری بدعنوانی ہے، غداری بدعنوانی ہے، دھونس و دھاندلی بدعنوانی ہے، اخلاقی انحطاط بدعنوانی ہے، غبن بدعنوانی ہے، اپنوں سے دشمنی بد عنوانی ہے، دین کے دشمنوں کی طرف جھکاؤ بد عنوانی ہے، دین مخالف چیزوں میں دلچسپی کا مظاہرہ بدعنوانی ہے۔ سب کچھ دین کے سائے میں وجود پاتا ہے۔ اس کے بعد کے جملوں میں آپ فرماتے ہيں: «و يأمن المظلومون من عبادك»؛ تاکہ تیرے مظلوم بندے محفوظ رہیں، اس سے مراد سماج کے مظلوم لوگ ہیں، نہ کہ ظالم، نہ ظالمانہ روش رکھنے والے، نہ ظلم کی تعریف کرنے والے، نہ ظالموں کے ہرکارے ! مظلوم وہ لوگ ہیں کہ جن کے پاس کچھ نہ ہو، کوئی چارہ نہ ہو۔ مقصد یہ ہے کہ سماج کے ستائے ہوئے لوگ اور کمزور افراد چاہے جس سطح پر اور چاہے جہاں ہوں انہیں تحفظ حاصل ہو۔ عزت آبرو سلامت رہے، مال و دولت سلامت رہے، انصاف کے تقاضے پورے ہوں، یہ وہ چیزیں ہیں جو آج دنیا میں نہيں ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اس صورت حال کے بالکل مخالف سمت میں جانا چاہ رہے تھے جو اس ظالمانہ دور پر محیط تھی۔ آج بھی اگر آپ دنیا کو دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پھر وہی حالات ہیں۔ دین کے پرچم کو ہٹایا جا رہا ہے، خدا کے مظلوم بندوں پر مزید ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور ظالم کے ہاتھ مظلوموں کے خون میں سنتے جا رہے ہیں۔  دیکھیں دنیا مں کیا ہو رہا ہے؟! دیکھیں کوسوو کے مسلمانوں کےساتھ کیا ہوا؟! پانچ لاکھ بلکہ اس سے بھی زيادہ، انسانوں، بچوں، بڑوں، عورتوں، مردوں اور بیماروں کے ساتھ کیا کیا گیا؟! صحراؤں میں، سرحدوں پر، وہ بھی پر امن سرحدوں پر نہيں، دشمن کے سامنے وہ بھی ایسے دشمن کے سامنے جو ان کے راستے پر بارودی سرنگ بچھاتے ہيں ، اور پیچھے سے گولیاں برساتے ہيں، مقصد ان سب کو ختم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں میں یہاں تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، بس یہ عرض کر دوں کہ منصوبہ یہ ہے کہ بلقان میں مسلمانوں کو تباہ اور بکھیر دیا جائے۔ منصوبہ یہ ہے کہ ایک اسلامی حکومت، ایک اسلامی گروہ کی تشکیل کو روک دیا جائے۔ خواہ وہ جیسی اسلامی حکومت ہو۔ چاہے ایسا اسلامی گروہ ہو جس کے کانوں تک سو برسو‎‎‎ں سے صحیح اسلامی تعلیمات نہ پہنچی ہوں۔ کیونکہ وہ بھی ان کے لئے خطرناک ہے! انہیں معلوم ہے کہ اگر بلقان کے مسلمانوں کی آج کی نسل مثال کے طور پر اسلام سے آشنا نہ بھی ہو تب بھی ان کی کل کی نسل اسلام سے آشنا ہو جائے گی۔ ان کے اندر اسلامی شناخت اور اسلامی بیداری خطرناک ہے۔ ان کے کچھ لوگوں نے اپنے بیانوں میں اس جانب اشارہ بھی کیا ہے۔ حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں لیکن اس ٹکراؤ اور لڑائی میں جس چیز پر توجہ نہیں ہے اور جس چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور بس زبانی طور پر کچھ باتیں کہی جاتی ہيں وہ مظلوم مسلمانوں کی حالت زار ہے۔ «يأمن المظلومون من عبادك». ہر قیام ، ہر انقلاب، ہر اسلام پسندانہ اقدام بلکہ دین خدا کے اقتدار کا مقصد، مظلوموں کی حالت پر توجہ اور الہی فرائض و احکام پر عمل در آمد ہے۔ امام حسین علیہ السلام آخر میں فرماتے ہیں : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك». آپ کا مقصد یہ چیزیں ہیں ۔ اب مثال کے طور پر کوئی صاحب کہیں سے آتے ہیں اور اسلامی علوم اور امام حسین علیہ السلام کے بیانات سے معمولی سی آشنائی اورعربی زبان کے ایک لفظ سے بھی واقفیت کے بغیر، قیام حسینی کے بارے میں خامہ فرسائی کرتے ہيں کہ امام حسین علیہ السلام نے فلاں ہدف کے لئے قیام کیا تھا ! (تو سوال اٹھتا ہے کہ) آپ یہ کہاں سے کہ رہے ہیں؟ یہ امام حسین علیہ السلام کا کلام ہے : «و يعمل بفرائضك و احكامك و سننك»؛ یعنی امام حسین علیہ السلام اپنی اور اس دور کے پاکیزہ ترین انسانوں کی جانیں قربان کرتے ہیں تاکہ لوگ الہی احکام پر عمل کریں۔ کیوں؟ کیونکہ سعادت الہی احکام پر عمل میں ہے ۔ کیونکہ انصاف، دینی احکام پر عمل میں ہے کیونکہ انسان کی آزادی و حریت، دینی احکام پر عمل میں ہے۔ وہ آزادی کہاں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ دینی احکام کے زیر سايہ ہی انسانوں کی آرزوئيں پوری ہوتی ہیں ۔  آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہيں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتيں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہيں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہيں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہيں؟  اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائيں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائيں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔  امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفيق فيما يأمر و رفيق فيما ينهى‏» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔  آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہيں ہے۔ جی نہيں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہيں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہيں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہيں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہيں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔  لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہيں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائيں۔ انہيں ڈرائيں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہيں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہيں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائيں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہيں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم يكن منافسة فى سلطان ولا التماس شى‏ء من فضول الحطام».
1999/04/12
1990 September
تبلیغ حقیقت کے مقام میں، امام حسین علیہ السلام کی تحریک حق و انصاف کی برقراری کے لئے تھی: «انّما خرجت لطلب‏الاصلاح فى امّة جدّى اريد ان امر بالمعروف وانهى عن‏المنكر ...» زیارت اربعین میں جو بہترین زیارتوں میں سے ہے ہم پڑھتے ہیں : «و منح‏النّصح و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من‏الجهالة و حيرةالضّلاله» آپ راستے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی معروف حدیث بیان کرتے ہیں «ايهاالنّاس انّ رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه عليه و اله و سلّم قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم‏اللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه عليه و اله و سلم يعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لاقول كان حقّا على‏اللَّه ان يدخله مدخله». آپ کے تمام اقوال اور افعال نیز آپ کے بارے میں معصومین سے منقول تمام اقوال ثابت کرتے ہیں کہ مقصد، حق و انصاف کا قیام و دین خدا کی تبلیغ اور شریعت کی حکمرانی اور ظلم و جور و سرکشی کی بیخ کنی تھا۔ مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر انبیاء کے راستے کو نمایاں رکھنا تھا۔ يا وارث ادم صفوةاللَّه يا وارث نوح نبىّ‏اللَّه ...» اور یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کو کس لئے بھیجا گیا تھا : «ليقوم‏النّاس بالقسط». یعنی عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے لئے۔ جس چیز نے ہماری تحریک کو سمت عطا کی وہ وہی چیز ہے جس کی راہ میں حسین بن علی علیھما السلام نے قیام کیا تھا۔ آج ہم اپنے ان شہدا کا جو مختلف محاذوں پر اس نظام کی راہ میں اور اس کے تحفظ کے لئے شہید ہوتے ہيں، سوگ مناتے ہیں۔ جو شہید مسلط کردہ جنگ یا پھر انواع و اقسام کے دشمنوں، مناففوں اور کفار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے اس کے سلسلے میں ہمارے عوام میں کسی طرح کا شبہہ نہيں پایا جاتا کہ وہ شہید اسی نظام کی راہ میں شہید ہوا اور اسی نظام اور انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لئے شہید ہوا ہے۔ حالانکہ آج کی شہادت کی کیفیت، کربلا کے ان شہدا سے مختلف ہے جنہوں تنہائی اور بے کسی کے عالم میں قیام کیا اور کسی نے بھی انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب نہيں دی تھی بلکہ تمام لوگ اور اسلام کی بڑی شخصیتیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایمان و ایقان اتنا زیادہ تھا کہ وہ گئے اور مظلومیت کے عالم میں شہید ہو گئے۔ شہدائے کربلا کی حالت، ان شہدا سے مختلف ہے جنہیں تمام تشہیراتی وسائل اور سماج کے اہم لوگ ترغیب دلاتے ہیں کہ جاؤ آگے بڑھو اور وہ چلے جاتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ شہید بھی عظیم مرتبہ رکھتا ہے لیکن ان شہداء (کربلا) کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں اور آپ سب لوگوں کو، خاص طور پر شہدا کے گھر والوں اور ان جوانوں اور نوجوانوں کو جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محبوب و اور جاں نثاری کے پیکر جانبازوں کی یادگار ہیں اور اسی طرح جنگ میں زخمی ہونے والوں اور ان کےگھر والوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملکی امور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس نشست میں موجود تقریبا سب یا آپ میں سے اکثر ، پر جوش نوجوان اور ملک و انقلاب کے حال و مستقبل کی امیدیں ہیں۔ آپ ملک کے حال و مستقبل میں اہم کردار کے حامل اور جوش و ولولے سے سرشار ہیں۔ آپ لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس نشست میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہواور ہم ان سے درس حاصل کریں خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ ایام، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں اور یہ دو مہینے جن کے دوران عاشور کے واقعے کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ختم ہو رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں، جو چہلم کے دن پڑھی جاتی ہے ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے اور وہ یہ ہے : «و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من‏الجهالة». حسین ابن علی علیھما السلام کی قربانی کا فلسفہ اس جملے میں پوشیدہ ہے ۔ زائر خداوند عالم سے عرض کرتا ہے تیرے اس بندے(حسین) نےاپنا خون قربان کر دیا تاکہ لوگ جہالت سے نجات پا جائيں۔ «وحيرةالضّلالة» لوگوں کوگمراہی کی پریشانی و سرگردانی سے نجات دلا دیں۔ غور کریں یہ جملہ کتنا پر معنی و پر مغز ہے اور اس میں کتنے جدید معانی و مفاہیم ہیں
1990/09/12