تبلیغ حقیقت کے مقام میں، امام حسین علیہ السلام کی تحریک حق و انصاف کی برقراری کے لئے تھی: «انّما خرجت لطلب‏الاصلاح فى امّة جدّى اريد ان امر بالمعروف وانهى عن‏المنكر ...» زیارت اربعین میں جو بہترین زیارتوں میں سے ہے ہم پڑھتے ہیں : «و منح‏النّصح و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من‏الجهالة و حيرةالضّلاله» آپ راستے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی معروف حدیث بیان کرتے ہیں «ايهاالنّاس انّ رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه عليه و اله و سلّم قال: من رأى سلطانا جائرا مستحلّا لحرم‏اللَّه ناكثا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول‏اللَّه صلّى‏اللَّه عليه و اله و سلم يعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان فلم يغيّر عليه بفعل و لاقول كان حقّا على‏اللَّه ان يدخله مدخله». آپ کے تمام اقوال اور افعال نیز آپ کے بارے میں معصومین سے منقول تمام اقوال ثابت کرتے ہیں کہ مقصد، حق و انصاف کا قیام و دین خدا کی تبلیغ اور شریعت کی حکمرانی اور ظلم و جور و سرکشی کی بیخ کنی تھا۔ مقصد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور دیگر انبیاء کے راستے کو نمایاں رکھنا تھا۔ يا وارث ادم صفوةاللَّه يا وارث نوح نبىّ‏اللَّه ...» اور یہ بھی واضح ہے کہ پیغمبروں کو کس لئے بھیجا گیا تھا : «ليقوم‏النّاس بالقسط». یعنی عدل و انصاف کے قیام اور اسلامی حکومت و نظام کی تشکیل کے لئے۔ جس چیز نے ہماری تحریک کو سمت عطا کی وہ وہی چیز ہے جس کی راہ میں حسین بن علی علیھما السلام نے قیام کیا تھا۔ آج ہم اپنے ان شہدا کا جو مختلف محاذوں پر اس نظام کی راہ میں اور اس کے تحفظ کے لئے شہید ہوتے ہيں، سوگ مناتے ہیں۔ جو شہید مسلط کردہ جنگ یا پھر انواع و اقسام کے دشمنوں، مناففوں اور کفار لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرتا ہے اس کے سلسلے میں ہمارے عوام میں کسی طرح کا شبہہ نہيں پایا جاتا کہ وہ شہید اسی نظام کی راہ میں شہید ہوا اور اسی نظام اور انقلاب کی بنیادوں کو استحکام بخشنے کے لئے شہید ہوا ہے۔ حالانکہ آج کی شہادت کی کیفیت، کربلا کے ان شہدا سے مختلف ہے جنہوں تنہائی اور بے کسی کے عالم میں قیام کیا اور کسی نے بھی انہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب نہيں دی تھی بلکہ تمام لوگ اور اسلام کی بڑی شخصیتیں انہیں منع کر رہی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا ایمان و ایقان اتنا زیادہ تھا کہ وہ گئے اور مظلومیت کے عالم میں شہید ہو گئے۔ شہدائے کربلا کی حالت، ان شہدا سے مختلف ہے جنہیں تمام تشہیراتی وسائل اور سماج کے اہم لوگ ترغیب دلاتے ہیں کہ جاؤ آگے بڑھو اور وہ چلے جاتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ البتہ یہ شہید بھی عظیم مرتبہ رکھتا ہے لیکن ان شہداء (کربلا) کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں اور آپ سب لوگوں کو، خاص طور پر شہدا کے گھر والوں اور ان جوانوں اور نوجوانوں کو جو ہمارے ملک کے سب سے زیادہ محبوب و اور جاں نثاری کے پیکر جانبازوں کی یادگار ہیں اور اسی طرح جنگ میں زخمی ہونے والوں اور ان کےگھر والوں کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملکی امور میں اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں، خوش آمدید کہتا ہوں ۔ اس نشست میں موجود تقریبا سب یا آپ میں سے اکثر ، پر جوش نوجوان اور ملک و انقلاب کے حال و مستقبل کی امیدیں ہیں۔ آپ ملک کے حال و مستقبل میں اہم کردار کے حامل اور جوش و ولولے سے سرشار ہیں۔ آپ لوگوں کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ملک و قوم کے لئے عزت و سربلندی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بہتر ہے کہ اس نشست میں امام حسین علیہ السلام کی تحریک اور ان کی قربانیوں کا ذکر ہواور ہم ان سے درس حاصل کریں خاص طور پر اس لئے بھی کہ یہ ایام، ماہ صفر کے آخری ایام ہیں اور یہ دو مہینے جن کے دوران عاشور کے واقعے کی یاد تازہ کی جاتی ہے، ختم ہو رہے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کی ایک زیارت میں، جو چہلم کے دن پڑھی جاتی ہے ایک بہت ہی پر معنی جملہ ہے اور وہ یہ ہے : «و بذل مهجته فيك ليستنقذ عبادك من‏الجهالة». حسین ابن علی علیھما السلام کی قربانی کا فلسفہ اس جملے میں پوشیدہ ہے ۔ زائر خداوند عالم سے عرض کرتا ہے تیرے اس بندے(حسین) نےاپنا خون قربان کر دیا تاکہ لوگ جہالت سے نجات پا جائيں۔ «وحيرةالضّلالة» لوگوں کوگمراہی کی پریشانی و سرگردانی سے نجات دلا دیں۔ غور کریں یہ جملہ کتنا پر معنی و پر مغز ہے اور اس میں کتنے جدید معانی و مفاہیم ہیں