ظلمات وہ تمام چیزیں ہیں جنہوں نے پوری تاریخ میں انسان کی زندگی کو تاریک اور تلخ کر دیا ہے، زہر آلود کر دیا ہے۔ پیغمبر اعظم نے تمام مسائل کا حل، فکری حل بھی اور عملی حل بھی بشریت کے سامنے پیش کیا ہے۔ ان کی شریعت اور قرآنی تعلیمات، بشریت کے مسائل کا علاج ہیں۔ یہ، پیغمبر اسلام نے بشریت کو پیش کیا ہے۔
امام خامنہ ای
3 اکتوبر 2023
مال و ثروت جمع کرنا اور انفاق (یا راہ خدا میں خرچ) نہ کرنا اقدار کے خلاف اور ایک گناہ اور شاید گناہ کبیرہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ اپنے سرمائے سے کاروبار کرنا جائز و مباح ہے تو اس کی بنیاد پر انسان حق رکھتا ہے، چاہے حلال اور شرعی طریقوں سے ہی کیوں نہ ہو، کہ دولت و ثروت اکٹھا کرے اور بچاتا چلا جائے۔ جبکہ معاشرے کو اس کے مال و ثروت، وسائل، اثاثوں اور سرمائے کی ضرورت ہو اور وہ اسے اجتماعی مفادات کی راہ میں اور خدا کی راہ میں خرچ نہ کرے، یہ جائز ہو اور مباح ہو، ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں انفاق ایک بنیادی اصول ہے، خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے۔ یہ نہیں کہا گيا کہ سودا نہ کیجئے، پیسے نہ کمائيے، یہ کام کیجیے لیکن (راہ خدا میں) خرچ کیجئے۔
امام خامنہ ای
06 نومبر 2009
تمام شرعی واجبات کی ادائیگی اور تمام حرام کاموں سے دوری کا حکم؛ انسان کی روحانی جڑوں کی تقویت اور اس کے دنیا و آخرت کے تمام امور کی اصلاح کے لیے، چاہے وہ انفرادی اصلاح ہو یا اجتماعی اصلاح ہو، پروردگار عالم کی طرف سے تجویز شدہ دواؤں کا ایک مجموعہ ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ اس مجموعے میں بعض عناصر کلیدی عناصر ہیں چنانچہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو کہ ان عناصر میں نماز سب سے بنیادی عنصر ہے۔ اگر ہم نماز پڑھتے ہیں، اندرونی طور پر انسان کی روح اور انسان کے قلب سے لے کر معاشرے کی سطح تک معاشرے پر حکمران افراد کی سطح تک، جو کچھ بھی اس عظیم معاشرے کے اندر موجود ہو، نماز کے ذریعہ امان پیدا کر لیتا ہے، اسے امن و تحفظ حاصل ہو جاتا ہے ملک کے جوان طبقے میں دوسروں سے زیادہ نماز کو اہمیت دی جانی چاہیے۔ نماز کے ذریعے ایک جوان کا دل روشن ہو جاتا ہے، امیدوں کے دریچے کھل جاتے ہیں، روح تارہ ہو جاتی ہے، سرور و نشاط کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یہ حالات زیادہ تر جوانوں کا خاصہ ہیں۔
امام خامنہ ای
10 اگست 1992
اعلی ترین شکل اور کامل ترین طریقہ زندگی پر گامزن وہ انسان ہے جو خدا کی راہ پر چل سکے اور اپنے خدا کو خود سے راضی رکھ سکے، خواہشیں اس کو اپنا اسیر نہ بنا سکیں، مادی انسان جو خواہشات، غضب نفسانی، ہوا ؤ ہوس اور اپنے جذبات و احساسات کا قیدی بن جائے ایک حقیر انسان ہے، چاہے وہ ظاہر میں کتنا ہی بڑا نظر آتا ہو اور صاحب مقام و منصب ہو۔ استغفار آپ کو اس حقارت سے نجات دلا سکتا ہے، استغفار آپ کے دل کی سیاپہوں کو ہٹا کر وہ نورانیت جو اللہ نے آپ کو عطا کی تھی دل کو صاف و منور کر دیتا ہے، ہر انسان نورانی ہے حتی وہ انسان جو خدا سے کوئی رشتہ اور آشنائی نہیں رکھتا، اپنی حقیقت اور جوہر میں نورانیت رکھتا ہے، البتہ معرفت نہ ہونے کے سبب گناہ اور خواہشات نے صفحہ دل کو زنگ آلود کر دیا ہے۔ استغفار اس زنگ کو صاف کر دیتا ہے اور پھر سے نورانیت بخش دیتا ہے۔
امام خامنہ ای
31/جنوری/1997
رعب میں آ جانے، ڈر جانے، مضطرب ہو جانے، ذہنی انتشار کے حالات میں انسان کے حتمی نظریات بھی فراموشی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مرعوب ہونے والا انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔ 'ڈر' عقل کو بھی زائل کر دیتا ہے، عزم کو بھی۔ خوفزدہ اور ڈرپوک انسان نہ تو صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے عزم و ارادے پر عمل کر سکتا ہے، وہ مستقل شش و پنج میں رہتا ہے، کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیرالمومنین سے اپنی مشہور وصیت میں فرمایا ہے: "و لا تشاورنّ جبانا لانہ یضیّق علیک المخرج." ڈرپوک انسان سے ہرگز مشورہ نہ لینا کیونکہ وہ بچنے کا راستہ اور امید کا دریچہ تم پر بند کر دے گا۔ جب انسان خوفزدہ نہیں ہوتا تو وہ صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے اور رکاوٹ کو عبور کر سکتا ہے لیکن جب وہ خوفزدہ ہوتا ہے تو "یضیّق علیک المخرج" ادھیڑ بن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہاتھ باندھ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اس لیے سکون و اطمینان بہت اہم ہے۔
امام خامنہ ای
27/5/2003