رعب میں آ جانے، ڈر جانے، مضطرب ہو جانے، ذہنی انتشار کے حالات میں انسان کے حتمی نظریات بھی فراموشی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مرعوب ہونے والا انسان ایسا ہی ہوتا ہے۔ 'ڈر' عقل کو بھی زائل کر دیتا ہے، عزم کو بھی۔ خوفزدہ اور ڈرپوک انسان نہ تو صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے عزم و ارادے پر عمل کر سکتا ہے، وہ مستقل شش و پنج میں رہتا ہے، کبھی آگے بڑھتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امیرالمومنین سے اپنی مشہور وصیت میں فرمایا ہے: "و لا تشاورنّ جبانا لانہ یضیّق علیک المخرج." ڈرپوک انسان سے ہرگز مشورہ نہ لینا کیونکہ وہ بچنے کا راستہ اور امید کا دریچہ تم پر بند کر دے گا۔ جب انسان خوفزدہ نہیں ہوتا تو وہ صحیح طریقے سے سوچ سکتا ہے، فیصلہ کر سکتا ہے اور رکاوٹ کو عبور کر سکتا ہے لیکن جب وہ خوفزدہ ہوتا ہے تو "یضیّق علیک المخرج" ادھیڑ بن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہاتھ باندھ کر سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اس لیے سکون و اطمینان بہت اہم ہے۔
امام خامنہ ای
27/5/2003