دین اسلامی کی بقا، راہ خدا کی بقا، خدا کے بندوں کی جانب سے اس راہ پر چلتے رہنے پر منحصر ہے، اس راہ نے حسین ابن علی علیہ السلام اور زینب کبریٰ کے کام سے مدد اور توانائي حاصل کی ہے۔
8 فروری 2010
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے دو باتیں اجاگر کر دیں: ایک یہ کہ عورت، صبر و تحمل کا ایک بحر بے کراں ہو سکتی ہے؛ دوسرے یہ کہ عورت، تدبیر و عقلمندی کی منزل کمال پر پہنچ سکتی ہے۔
امام خامنہ ای
12 دسمبر 2021
حضرت زینب جب قتل گاہ پہنچیں تو کسی بھی طرح کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے نانا رسول خدا کو مخاطب کر کے کہا: اے میرے جد عزیز! ذرا ایک نظر کربلا کی گرم ریت پر ڈالیے، یہ آپ کا حسین ہے جو زمین پر پڑا خاک و خون میں غلطاں ہے۔ پھر ان کی آواز بلند ہوئي: اے پروردگار! آل محمد کی اس قربانی کو قبول کر۔
امام خامنہ ای
اس عظیم شخصیت، حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے تشریح کا جہاد، روایت کا جہاد شروع کیا۔ انھوں نے واقعے کے بارے میں دشمن کی بات اور دشمن کی روایت کو غلبہ حاصل نہیں کرنے دیا۔ انھوں نے ایسا کام کیا کہ حسینی روایت نے رائے عامہ پر غلبہ حاصل کر لیا۔
امام خامنہ ای
12/12/2021
آیت اللہ خامنہ ای کا سفر شام اور بی بی زینب کے روضے کی زیارت (ستمبر 1984)
میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے معاشرے کی بچیاں اور خواتین حضرت زینب کبری کی شخصیت میں موجود آئیڈیل پر غور کریں اور اپنی شخصیت کے لئے اسی کو پیمانہ بنائیں۔ باقی چیزیں تو فروعی ہیں۔
امام خامنہ ای
16 جون 2005
حضرت زینب کبری ایک عظیم خاتون ہیں۔ اس عظیم خاتون کو مسلم اقوام میں جو عظمت حاصل ہے، وہ کس وجہ سے ہے؟ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس لئے ہے کہ آپ علی بن ابیطالب کی بیٹی یا حسین بن علی یا حسن بن علی (علیہم السلام) کی بہن ہیں۔ نسبتیں ایسی عظمت کا سبب نہیں بن سکتیں۔ ہمارے تمام ائمہ کی مائیں اور بہنیں تھیں لیکن حضرت زینب کبری کے مثل کون ہے؟
حضرت زینب کبری کی اہمیت و عظمت فریضہ الہی کے مطابق آپ کی عظیم اسلامی اور انسانی تحریک اور موقف کی وجہ سے ہے۔ اس عظمت کا ایک حصہ یہ ہے کہ آپ نے پہلے موقع کو پہچانا، امام حسین( علیہ السلام ) کے کربلا جانے سے پہلے کے موقع کو بھی، یوم عاشور کے بحرانی موقع کو بھی اور شہادت امام حسین ( علیہ السلام) کے بعد کے ہولناک واقعات کے موقع کو بھی پہچانا اور پھر ہر موقع کی مناسبت سے ایک اقدام کا انتخاب کیا اور اسی قسم کے فیصلوں نے حضرت زینب کی شخصیت کی تعمیر کی۔
کربلا کی جانب روانگی سے پہلے ابن عباس اور ابن جعفر جیسی صدر اسلام کی معروف ہستیاں جو فقاہت، شجاعت اور صدارت کی دعویدار تھیں، گومگو کا شکار تھیں، نہ سمجھ سکیں کہ انہیں کیا کرنا چاہئے۔ لیکن حضرت زینب کبری تذبذب کا شکار نہیں ہوئیں اور آپ سمجھ گئیں کہ آپ کو اس راستے کا انتخاب کرنا چاہئے اور اپنے امام کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہئے اور آپ گئیں۔ ایسا نہیں تھا کہ آپ نہ سمجھتی ہوں کہ یہ راستہ بہت سخت ہے۔ آپ دوسروں سے بہتر اس بات کو محسوس کر رہی تھیں۔ آپ ایک خاتون تھیں۔ آپ ایک ایسی خاتون تھیں جو اپنے فریضے کی ادائيگی کے لئے اپنے شوہر اور کنبے سے دور ہو رہی تھیں، اسی بناء پر اپنے چھوٹے بچوں کو اپنے ساتھ لیا۔ آپ بخوبی محسوس کر رہی تھیں کہ سانحہ کیسا ہے۔
امام خامنہ ای
13 نومبر 1991
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کارنامے کا موازنہ تاریخ کے بقیہ بڑے واقعات سے نہیں ہو سکتا۔ اس کا موازنہ خود واقعہ عاشورا سے کرنا چاہئے۔ واقعی یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں۔
ہمارے اندر اتنی قوت پرواز نہیں ہے، وہ ہمت و حوصلہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہہ سکیں کہ اس عظیم ہستی کی سیرت ہمارا نمونہ عمل ہیں، ہماری یہ بساط نہیں ہے۔ لیکن بہرحال ہماری حرکت و پیش قدمی کی سمت وہی ہونا چاہئے جس سمت میں جناب زینب کے قدم بڑھے ہیں۔ ہمارا نصب العین اسلام کا وقار، اسلامی معاشرے کی توقیر اور انسان کا احترام ہونا چاہئے۔
امام خامنہ ای
20 نومبر 2013