رہبر انقلاب اسلامی نے یورپ میں اسٹوڈنٹس کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی 58ویں نشست میں دنیا کے اہم مسائل اور نئے پرانے زخموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان مسائل اور زخموں میں "معاشی و سماجی انصاف کے موضوع سے لبرل ڈیموکریسی کی مرگ بار خاموشی" کو سب سے عبرت انگیز مسئلہ بتایا۔ سوال یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریٹک سیاسی نظاموں میں سماجی انصاف کا مقام کیا ہے اور اس سے غفلت کیوں مرگ بار ہے؟
بہت سارے سیاسی نظاموں میں لبرل ڈیموکریسی کو سب سے اچھے سیاسی نظام کے طور پر سراہا جاتا ہے اور اس نے انفرادی آزادی، سیاسی نمائندگي اور معاشی پیشرفت جیسی کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں لیکن اس ظاہری چکاچوندھ کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوئي ہے: سماجی انصاف کے نام کی کلیدی حقیقت سے جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے کی جانے والی غفلت۔ یہ صرف ایک عام سی بے توجہی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری آگہی سے کیا گيا ایک انتخاب ہے جس کے ریشے اس سسٹم میں پھیلائے گئے ہیں۔
مساوات کا فسانہ
لبرل ڈیموکریسی کے حامی قانون کے مقابلے میں انفرادی حقوق اور مساوات کے احترام پر فخر کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ عملی طور پر اکثر اس وسیع عدم مساوات کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں جو ان کے معاشروں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ اسے صرف عدم توجہ کا نام نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ موجودہ حالت زار کو جاری رکھنے کے لیے ایک آگاہانہ انتخاب ہے، ایسی صورتحال جو مالدار اور تمام عیش و آرام کی مالک اقلیت کے حق میں اور تہی دست اکثریت کے نقصان میں ہے۔ اکثر لبرل ڈیموکریٹک ممالک میں معاشی عدم مساوات دہشت ناک ہے۔ لوگوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کے پاس دولت و ثروت اور ذخائر کا زیادہ بڑا حصہ ہے جبکہ کروڑوں لوگ اپنی روزانہ کی ضروریات پورا کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ یہ صرف بازار کی صورتحال کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو دولت مندوں اور کمپنیوں کے حق میں اور زیادہ تر مزدوروں، غریبوں اور حاشئے پر دھکیل دیے گئے گروہوں اور سوسائٹیوں کے نقصان میں اپنائي جاتی ہیں۔ دولتمندوں کے لیے ٹیکس میں کمی، صنعتوں کے لیے قانون میں سہولیات اور غریبوں کو متاثر کرنے والے غیر منصفانہ سخت اقدامات، اس حقیقت کے نمونے ہیں کہ کس طرح سسٹم جان بوجھ کر معاشی عدم مساوات کو وجود میں لایا ہے اور اسے جاری رکھنے پر بضد ہے۔
"مساوات" جیسے بڑے بڑے اور جاذب نظر نعروں کے باوجود لبرل ڈیموکریسی والے ملکوں میں بدستور نسل، قومیت، جنسیت اور دوسری سماجی پہچانوں کی بنیاد پر منظم طریقے سے امتیازی سلوک جاری ہے۔ یہ صرف انفرادی تعصب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اداروں اور معاشرے کے ڈھانچوں تک میں یہ اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے اور با اقتدار لوگوں کے ذریعے، جو موجودہ صورتحال کے جاری رہنے سے فائدہ اٹھاتے ہیں، باقی اور جاری رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان میں سے بہت سے معاشروں میں عدالتی سسٹم تناسب کے اصول کی پابندی کیے بغیر اقلیتی افراد کو اپنا ہدف بناتا ہے اور انھیں سزائيں دیتا ہے۔ کبھی کبھی ان معاشروں میں "اقلیت" لفظ کا اطلاق، کسی ایک سماجی گروہ کی تعداد کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں ہوتا۔ جس کی مثال ریاستہائے متحدہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سیاہ فام، تعداد کے لحاظ سے امریکا کے بہت سے دوسرے سماجی گروہوں سے زیادہ ہیں۔ یہی صورتحال تھوڑی کم یا زیادہ شدت کے ساتھ لبرل ڈیموکریسی کے تعلیمی نظام میں بھی دکھائي دیتی ہے۔ یہ سسٹم زیادہ تر، سبھی کو مساوی مواقع فراہم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ سماجی انصاف سے جان بوجھ کر کی جانے والی اس غفلت نے ایک ایسے معاشرے کو جنم دیا ہے جس میں کسی فرد کی آئندہ زندگي، اس کی صلاحیت اور کوشش پر نہیں بلکہ بڑی حد تک اس کی پیدائش کے حالات سے طے ہوتی ہے۔
غفلت کی تاریخی جڑیں
سماجی انصاف سے یہ جان بوجھ کر کی جانے والی غفلت کوئي نئي بات نہیں ہے۔ اس کی جڑیں سامراج کے تاریخی ورثے، بردہ داری اور منظم مظالم میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ ان ورثوں نے گہری عدم مساوات کی کیفیت پیدا کر دی ہے جو اب بھی مغربی معاشروں کو تکلیف پہنچا رہی ہے اور یہ زیادہ تر ان افراد کے توسط سے جاری رہتی ہے جنھیں طاقت اور اقتدار ورثے میں ملا ہے۔ نوآبادیاتی علاقوں کے لوگوں سے مشقت والے کام کروانا، افریقا میں بردہ داری اور خواتین اور اقلیتوں کے خلاف منظم امتیازی سلوک، یہ ساری چیزیں اس اندھیری تاریخ کا حصہ ہیں جو آج تک مغربی انسان کی روزمرہ کی زندگي پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ بیسویں صدی کے اواخر میں نیو لبرلزم کے سامنے آنے سے ان مسائل میں شدت آ گئي۔ بڑے صنعتکاروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے قوانین میں ڈھیل، سرمایہ داروں اور دولتمندوں کو سہولیات کی فراہمی اور کمزور طبقوں کے لیے سختی جیسی باتیں پرامن سماجی نیٹ ورک کے بکھر جانے اور سماجی خدمات میں عمومی سرمایہ کاری میں جان بوجھ کر کمی کا سبب بنی ہیں۔ ترجیحات میں یہ تبدیلی بری طرح سماج کے سب سے کمزور طبقوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئي اور اس نے امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج مزید بڑھا دی۔ یہ سرمائے کے مفادات کو ترجیح دینے اور عوامی رفاہ کی ترجیح کو ختم کرنے کا ایک آگاہانہ انتخاب تھا جو ایک ایسے معاشرے کی تشکیل پر منتج ہوا جس میں امیر، زیادہ امیر اور غریب، زیادہ غریب بنتا جاتا ہے۔
اگرچہ عالمگيریت، معاشی ترقی اور ملکوں کی سرنوشت ایک دوسرے سے جڑ جانے کا سبب بنی لیکن اس نے مذکورہ بالا مشکل کو بھی بڑھا دیا۔ منافع پر مبالغے کی حد تک توجہ زیادہ تر مزدروں کے استحصال، ماحولیات کی تباہی اور مزدوری نیز کام کے حمایتی معیارات میں کمی کے کمپیٹیشن کا سبب بنی ہے۔ اسے عالمگیریت کا صرف ایک ناگوار سائڈ افیکٹ نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ یہ عوام کے بجائے منافع کو ترجیح دینے کے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکومتوں کے آگاہانہ انتخاب کا نتیجہ ہے۔ بہت سے ملکوں میں نوکریوں کی آؤٹ سورسنگ، مزدور یونینوں کی سرکوبی اور ماحولیات کے کمزور قوانین اس بات کا نمونہ ہیں کہ کس طرح سسٹم جان بوجھ کر سماجی انصاف کو پیروں تلے روندتا ہے اور اسے معاشی فوائد کی بلی چڑھا دیتا ہے۔
خاموش قاتل: سماجی بے انصافی لبرل ڈیموکریسی کے نظام میں ایک مرگبار کمی
ماڈرن تمدن کے قلب میں ایک خاموشی بحران اپنے پیر پھیلاتا اور مغربی معاشروں کی بنیاد کو کھوکھلا بناتا جا رہا ہے۔ یہ بحران نہ تو یوکرین کی جنگ سے زیادہ بڑی کوئي جنگ ہے، نہ کوئي قدرتی آفت ہے اور نہ ہی کورونا سے زیادہ خطرناک کوئي متعدی بیماری بلکہ یہ لبرل ڈیموکریسی کے بظاہر عیش و آرام والے اور مستحکم ڈھانچوں میں سماجی انصاف کو دھیرے دھیرے کھانے والی دیمک ہے۔ یہ عدم توجہ صرف ایک اخلاقی شکست نہیں ہے بلکہ ایک مہلک زہر ہے جو سیاست کے جسم میں اتر چکا ہے اور جس کے اثرات کنارے لگا دیے گئے گروہوں کے مصائب و آلام سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
اس بحران کے مرکز میں عدم مساوات کا مسلسل بڑھتا اضافہ ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان کا فرق بدستور بڑھتا جا رہا ہے اور ثروت مندوں اور تہیدستوں کا ایک معاشرہ تشکیل دے رہا ہے۔ یہ نہ صرف معاشی عدم توازن ہے بلکہ سماجی بدامنی کی آگ کے لیے تیل کے جیسا ہے۔ جب آبادی کا ایک اچھا خاصا بڑا حصہ یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ معاشی پیشرفت کے پھلوں سے محروم ہے تو عدم اطمینان شدت اختیار کر لیتا ہے اور سماجی اتحاد و یکجہتی کو فنا کر دیتا ہے۔
تاریخ ایسے سماجوں سے بھری پڑی ہے جو شدید عدم مساوات کی وجہ سے بکھر گئے۔ انقلاب فرانس، انقلاب روس اور بہت سے دوسرے تغیرات، ان لوگوں کے غصے اور مایوسی کا نتیجہ تھے جو معاشی پیشرفت سے پیچھے رہ گئے تھے مگر اس کا انھیں کوئي فائدہ حاصل نہیں ہوا تھا۔ ہمارے عہد میں وال اسٹریٹ پر قبضے کی تحریک، عدم مساوات کی تباہ کن طاقت کا ایک نمونہ ہے۔ لبرل ڈیموکریسی والے ملکوں میں سماجی سمجھوتہ مساوی مواقع اور ذخائر کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے۔ جب یہ سمجھوتہ ٹوٹ جاتا ہے تو سیاسی نظام کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ یہ چیز جمہوری اداروں پر سے یقین اٹھ جانے کا سبب بن سکتی ہے اور اقتدار پرستی اور شدت پسندی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، یہ وہ چیز ہے جو بہت سے مغربی ممالک میں سامنے آنے لگي ہے۔
معاشی عدم استحکام، ریت پر بنا گھرا
عدم مساوات، سماجی بدامنی تو پیدا کرتا ہی ہے ساتھ ہی معاشی استحکام کو بھی کمزور بنا دیتا ہے۔ جب دولت، معدودے چند لوگوں کے ہاتھوں میں محدود ہو جاتی ہے تو صارفین کی ڈیمانڈ کم ہو جاتی ہے اور معاشی پیشرفت مندی کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہ چیز مزید کساد بازاری، بے روزگاری اور سماجی بدامنی پر منتج ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ عدم مساوات، ذخائر کے طے شدہ استعمال کو بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ جب سیاسی و معاشی فیصلوں پر دولت مند طبقے کا حد سے زیادہ رسوخ ہوتا ہے تو زیادہ تر سرمایہ کاری، پورے سماج کے حق میں کام کرنے والے شعبوں میں نہیں بلکہ قیمتی اشیاء کی تجارت میں ہونے لگتی ہے۔ یہ چیز مالی بحرانوں، سرمائے کے غلط استعمال کا سبب بن سکتی ہے اور طویل مدت معاشی پیشرفت میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔
سیاسی پولرائزیشن
سماجی انصاف کی طرف عدم توجہ، سیاسی پولرائزیشن میں بھی شدت پیدا کر دیتی ہے۔ جب کسی ملک کے شہری یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی تشویشوں پر سیاسی مشینری کی طرف سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے تو وہ جمہوری عمل کی طرف سے بددل ہونے لگتے ہیں۔ یہ چیز عوام کو فریب دینے والے سیاستدانوں کا کام آسان کر دیتی ہے کہ وہ سماجی عدم اطمینان سے اپنے ذاتی مفادات کے لیے غلط فائدہ اٹھائيں۔
سماجی انصاف کی طرف سے لبرل ڈیموکریسی کی غفلت کے برے نتائج، صرف سیاسی و معاشی شعبوں تک محدود نہیں ہیں۔ عدم مساوات کا عمومی صحت و سلامتی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ معاشی و سماجی صورتحال اور لوگوں کی صحت و سلامتی کے درمیان بڑا واضح اور مضبوط رشتہ ہے۔ جو لوگ غربت میں زندگي گزارتے ہیں وہ بیماریوں کی زد میں زیادہ آتے ہیں، زندگي کے سلسلے میں ان کی امید کم ہوتی ہے اور حفظان صحت سے متعلق سہولیات تک ان کی دسترسی دوسروں سے کم ہوتی ہے۔
یہ لوگوں کی بدقسمتی نہیں ہے بلکہ یہ ایک سسٹم کی ناکامی ہے۔ جب کوئي سماج اپنے سب سے کمزور ارکان کی صحت اور آرام و آسائش کی طرف سے غفلت کرتا ہے تو وہ اس کی قیمت، حفظان صحت کے اخراجات میں اضافے کی صورت میں چکاتا ہے۔
ہونا یا نہ ہونا مسئلہ یہ ہے
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سماجی انصاف کے سلسلے میں لبرل ڈیموکریسی کی بے توجہی کوئي عقدۂ لا ینحل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں اس مشکل کے حل کے لیے کچھ اہم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، جیسے تعلیم، حفظان صحت اور سستی رہائش کے شعبوں میں سرمایہ کاری، سبھی کے لیے معاشی مواقع کی فراہمی اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے قدم اٹھا کر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ قدم ہیں جنھیں عملی طور پر آزمایا بھی جا چکا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ان تمام آزمائشوں کا نتیجہ غلط ہی رہا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کی مشکل، اس کے طریقے اور وسائل نہیں بلکہ اس کی ماہیت ہے۔ ان تمام اقدامات کو مختلف علاقوں اور مختلف حالات میں آزمایا جا چکا ہے لیکن موجودہ فاصلوں کے مزید بڑھنے کے علاوہ ان کا کوئي نتیجہ نہیں نکلا۔ مشکل یہ ہے کہ لبرل ڈیموکریسی انہی فاصلوں کی وجہ سے زندہ ہے۔ سماجی گروہوں کے درمیان یہی فاصلہ اور یہی فرق، مالدار طبقے کو اپنی سہولیات کی حفاظت کی امید میں معاشی شعبے میں اپنی مشارکت جاری رکھنے کے لیے ترغیب دلاتا ہے اور اس کے مقابلے میں غریب اور تہی دست طبقے کو مختلف طرح کے حربوں کے ذریعے اس بات کے لیے پرامید رکھتا ہے کہ شاید کسی دن، ایک بہتر زندگی کے لیے ان کی مستقل تگ و دو کا خاتمہ ہوگا اور ثروت مند طبقے سے اس کا فاصلہ کچھ کم ہو جائے گا۔ آج اور ماضی میں صرف یہ فرق ہے کہ مغربی رائے عامہ اس حقیقت کو سمجھ چکی ہے کہ لبرل ڈیموکریسی کے پاس اب کوئي چال اور حربہ باقی نہیں رہ گيا اور معاشرے کی اکثریت کے سامنے اس کا ناکارآمد ہونا پہلے سے زیادہ نمایاں ہو چکا ہے۔ اس وقت معدودے چند ثروت مندوں کے علاوہ سبھی کے لیے مسئلہ، ڈھانچوں کی اصلاح یا انھیں پھر سے تیار کرنے کا نہیں بلکہ ہونے یا نہ ہونے کا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی اپنا سب سے اہم سرمایہ کھوتی جا رہی ہے: ڈھانچے کے کارآمد ہونے کے سلسلے میں غریبوں اور تہی دستوں کی امید۔
غزہ میں مغربی تمدن نے خود کو ظاہر کر دیا ... تیس ہزار لوگ صیہونی حکومت کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں، یہ لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو! ان میں سے بعض پشت پناہی کرتے ہیں، ہتھیار دیتے ہیں ... یہ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی ہے، یہ نہ تو لبرل ہیں اور نہ ہی ڈیموکریٹ، یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
امام خامنہ ای
اسلامی جمہوریہ کا ظہور ایک زلزلہ تھا جس نے دنیا میں دو محاذ کی ضرورت حال پیدا کی۔ ایک لبرل ڈیموکریسی کا محاذ اور دوسرا اسلام پر استوار جمہوری محاذ۔ لبرل ڈیموکریسی کے نظام کی ماہیت میں جارحیت اور تجاوز شامل ہے جبکہ دینی جمہوریت کا سب سے اہم مشن ظلم کا مقابلہ ہے۔
امام خامنہ ای
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے جمعرات کی صبح رہبر انقلاب کا انتخاب کرنے والی اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے والی ماہرین اسمبلی کے سربراہ اور ارکان سے ملاقات میں استکباری محاذ کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی مزاحمت و استقامت کا فلسفہ بیان کیا اور گزشتہ جمعے کو ہونے والے ماہرین اسمبلی اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات کے بارے میں کچھ نکات بیان کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے رہبر انقلاب کا انتخاب کرنے اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے والی ماہرین اسمبلی کے ارکان سے 7 مارچ 2024 کو اپنے خطاب میں اسلامی جمہوریت اور مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کے بنیادی فرق پر روشنی ڈالی۔ آپ نے انتخابات سمیت کچھ دیگر موضوعات کا بھی جائزہ لیا۔ (1)
خطاب حسب ذیل ہے؛
ایک جھوٹا محاذ ہے جو خود کو لبرل ڈیموکریسی کہتا ہے۔ حالانکہ وہ لبرل ہے نہ ڈیموکریٹک! اگر آپ لبرل ہیں تو استعماری حرکتوں کا کیا تک ہے؟ آپ کیسے حریت پسند ہیں؟
امام خامنہ ای