بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

آپ محترم حاضرین کو فردا فردا خوش آمدید کہتا ہوں اور اللہ تعالی سے آپ حضرات کی توفیقات میں اضافے کا دعاگو ہوں۔ یاد کرنا چاہوں گا ان برادران اور احباب کو جو اس جماعت کا حصہ ہوا کرتے تھے اور گزشتہ ایک سال میں دیار رحمت خداوندی کی سمت کوچ کر گئے۔ ان میں آخری فرد آقائے امامی مرحوم رضوان اللہ علیہ (2) ہیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ انہیں اور ہم سب کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے۔

جناب بوشہری (3) نے آپ حضرات کی جو باتیں نقل کیں بہت اچھی اور جامع نکات کی حامل باتیں تھیں۔ یعنی در حقیقت وہ ساری چیزیں یا بیشتر چیزیں جو ایک ملک کے لئے، عہدیداران کے لئے اس اجلاس میں ہم سب کے لئے بیان کرنا ضروری ہیں، کہہ دی گئیں، بیان کر دی گئیں۔ خداوند عالم ہمیں اور عہدیداران کو توفیق دے کہ ان سفارشات پر ان شاء اللہ عمل پیرا ہو سکیں۔

ایک بات ماہ مبارک شعبان کے ان باقی بچے ایام کے تعلق سے عرض کر دوں۔ ماہ شعبان بشارتوں کا مہینہ ہے، مسرتوں کا مہینہ ہے، دلوں کی تطہیر اور دلوں کو نورانی بنانے کا مہینہ ہے۔ استغفار کے ذریعے، دعا  کے ذریعے، مناجات کے ذریعے۔ ماہ مبارک رمضان کی بیکراں اور لا متناہی برکتوں میں داخل ہونے کی آمادگی کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اللہ تعالی سے انسان جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے وہ بڑی خاص نوعیت کی چیز ہے: ھَب‌ لی‌ کَمَالَ‌ الِانقِطَاعِ‌ اِلَیک (۴) «ھَب لی‌ قَلباً یُدنیہِ‌ مِنکَ شَوقُہُ وَ لِساناً یَرفَعُہُ الَیکَ صِدقُہ» (۵) یہ التجائیں سراپا نورانیت ہیں، سراپا لطف ہیں، سراپا روحانیت ہیں۔ اس مہینے کا بیشتر حصہ گزر چکا ہے۔ ہمیں عرض کرنا چاہئے: «اَللھُمَّ اِن لَم تَکُن غَفَرتَ لَنا فیما مَضی مِن شَھرِ شَعبانَ فَاغفِر لَنا فیما بَقیَ مِنہ»(۶) ان شاء اللہ۔ خداوند عالم مدد فرمائے کہ ان باقی ماندہ چند دنوں سے ہم کسب فیض کر سکیں۔ شاید اللہ تعالی ہم پر کوئی کرم فرمائی کر دے۔

اس سال 'بہمن کا مہینہ' اور 'اسفند کا مہینہ' (ایرانی کیلنڈر کا گیارہواں اور بارہواں مہینہ) اسلامی جمہوریت کی علامتوں کے دوسرے برسوں کی نسبت زیادہ ظہور کا مہینہ تھا۔ عشرہ فجر (اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع کے دس دن) اور گیارہ فروری (اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن) کی پرجوش ریلیوں سے لیکر، 'اسفند' مہینے میں ہونے والے انتخابات تک اور ماہرین اسمبلی کی تشکیل تک یہ سب نشانیاں اور علامتیں ہیں جو اسلامی جمہوریہ اور دینی جمہوریت سے نسبت رکھتی ہیں۔ لہذا میں اسلامی جمہوریہ سے متعلق چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ماہرین اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین کے لئے ایک بات عرض کرنا چاہوں گا اور چند باتیں مجلس شورائے اسلامی (ایران کی پارلیمنٹ) کے بارے میں بیان کروں گا۔ یہ ہمارے آج کے معروضات کی فہرست ہے۔

اسلامی جمہوریہ کا موضوع، آپ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کے وجود میں آنے کے عالمی اثرات ہوئے۔ ایک زلزلہ سا آ گيا، یہ ایک بین الاقوامی سطح کا واقعہ تھا۔ یہ صرف ایک علاقائی واقعہ اور ایک ملک تک محدود رہنے والا واقعہ نہیں تھا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی قیادت اور پورے ملک میں ملت ایران کی بلند ہمتی، شجاعت اور قربانیاں ایسے واقعے پر منتج ہوئیں جن سے دنیا میں دو محاذ وجود میں آ گئے۔ ایک محاذ لبرل ڈیموکریسی کی روش پر چلنے والی جمہوریاؤں کا محاذ، میں اسے مکتب فکر کا نام نہیں دینا چاہتا، ایک محاذ یہ، دوسرا محاذ دین و اسلام سے مربوط جمہوری محاذ، بلکہ دین سے اور اسلام سے نکلا ہوا۔ یہ دو محاذ وجود میں آ گئے۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ کی تشکیل سے قبل دو محاذوں کی یہ صورت حال نہیں تھی۔ یہ محاذ بندی ظاہر ہے کہ دونوں فریقوں کے لئے کچھ نتائج و عواقب کا باعث بنی۔ ان دونوں محاذوں کے درمیان نااتفاقی فطری تھی۔ یہ نا اتفاقی روز اول سے شروع ہو گئی۔

یہ نہیں تصور کرنا چاہئے کہ یہ نا اتفاقی صرف دینی احکامات کی پابندی کے باعث ہے کہ ایک فریق دینی احکام کا پابند ہے اور دوسرا فریق دین کے معاملے میں کوئی اعتنا نہیں کرتا، کسی طرح کی پابندی نہیں کرتا۔ بات صرف اتنی نہیں تھی۔ البتہ ظاہری طور پر یہ چیز تھی لیکن مخالفت اور نا اتفاقی اور بسا اوقات مقابلہ آرائی کی وجہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ وہ رائج مغربی ڈیموکریسی یہ محسوس کرنے لگی کہ یہ نیا نمونہ جو سامنے آیا ہے اس کے بنیادی مفادات اور آگے چل کر شاید اس کے پورے وجود کے مخالف ہو اور اس سے تضاد رکھتا ہو۔ اس نے یہ محسوس کیا۔ بالکل شروع سے جب اسلامی جمہوریہ وجود میں آئی فریق مقابل کے اندر کم و بیش یہ احساس موجود تھا اور روز بروز اس میں شدت آتی گئی اور یہ خیال جڑ پکڑتا گیا۔

یہ سنجیدہ مخالفت اور ٹکراؤ اس لئے ہے کہ لبرل ڈیموکریسی پر استوار نظام میں اور اس منطق اور اس روش کی بنیاد پر تشکیل پانے والی سرکاروں اور حکومتوں میں، ان کی سرشت میں 'استکباریت' پائی جاتی ہے۔ جارحیت اور تعرض پایا جاتا ہے۔ استکباریت اسی معنی میں جو ہم اسلامی انقلاب کے دائرے میں سمجھتے ہیں۔ یعنی قوموں پر ظلم، جارحیت اور تعرض، یہ اس کی ماہیت کا حصہ ہے۔ ان حکومتوں اور سرکاروں کو کمزور اقوام اور کمزور ملکوں کے خلاف جارحیت اور تعرض میں اپنا سرمایہ، اپنی قوت اور اپنی بے لگام حاکمیت نظر آئی اور محسوس ہوئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس دھڑے کے نعروں کے اوج کے زمانے میں، یعنی جمہوریت کے نعروں، آزادی کے نعروں اور انسانی حقوق کے نعروں کے اوج کے زمانے میں، اس کا اوج 19ویں صدی میں تھا، ان نعروں کے ساتھ ساتھ اس دھڑے کی زیادہ سے زیادہ استعماری سرگرمیاں اسی دور میں انجام پائیں۔ یعنی ایشیا میں ملکوں کو نوآبادیات میں تبدیل کرنا، افریقا اور لاطینی امریکہ میں ملکوں پر استعماری قبضہ اسی انیسویں صدی میں اوج پر پہنچا جس کا تھوڑا تسلسل بیسویں صدی میں بھی رہا۔ یعنی یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہوئیں۔ وہ نعرے بھی انیسویں صدی میں بلند ہوئے اور یہ استعماری اور استکباری سرگرمیاں بھی جو ظلم اور قوموں کے حقوق کو نظر انداز کرنے سے جڑی ہوئی تھیں، وہ بھی ان نعروں کے ساتھ اسی انیسویں صدی میں انجام دی گئیں۔

ظاہر ہے وہاں روحانیت تو تھی نہیں، ظلم، سرکشی اور تجاوز کی زمین ہموار ہو گئی۔ جب کسی جماعت کے اندر اپنی طاقت کا احساس پیدا ہو جائے اور وہ ہندوستان جیسے ملک کی ثروت کو جو اس زمانے میں دولت مند بھی تھا، صنعتوں کا مالک بھی تھا اور اس دور کی نسبت پیشرفتہ ملک شمار ہوتا تھا، اپنی طاقت اور اپنے دباؤ کے ذریعے حاصل کر لینے میں کامیاب ہو جائے، اپنے ہاتھ میں لے لے اور اس کی دولت کو استعمال کرے، اپنی ثروت، اپنی طاقت اور اپنی توانائیوں میں اضافہ کرے تو ایسیا کرنے سے کیوں چوکے گی؟ جب روحانیت نہیں ہے تو پھر کون سی چیز اسے روکے گی؟ وہ ایسا کر سکتی تھی اور اس نے ایسا ہی کیا۔ استعمار ایشیا کے بڑے حصے میں، مشرقی ایشیا میں، ہندوستان میں، ہندوستان کے ارد گرد کے ملکوں میں نظر آیا۔ یہ افریقا میں ہوا، لاطینی امریکہ میں ہوا۔ ویسے شمالی امریکا میں بھی یہ تھا لیکن وہ اس سے پہلے بہت زیادہ جدوجہد کے ذریعے بڑی لڑائیاں کرکے خود کو نجات دلا چکے تھے ورنہ استعمار وہاں بھی تھا۔ اس محاذ کی خاصیت ہی یہ ہے۔

اس کے مد مقابل محاذ جو دینی جمہوریت کی تشکیل کے بعد وجود میں آیا اس کا سب سے اہم ایشو انہی واقعات کا مقابلہ کرنا ہے۔ یعنی ظلم کا مقابلہ، استکبار کا مقابلہ، جارحیت کا مقابلہ۔ یہ صورت حال ہے۔ یعنی اس حکومت کا اصلی طریقہ کار جو دین کی اساس پر اور اسلام کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے: «لا تَظلِمونَ وَ لا تُظلَمون»(7)‌ ہے۔ اس کے طریقہ کار کی بنیاد ہی ظالم کا مقابلہ اور ظالم سے لڑنا ہے۔ اَلَّذینَ آمَنوا یُقاتِلونَ فی‌ سَبیلِ ‌اللہ۔ (8)‌ یہی وجہ ہے کہ یہ مقابلہ آرائی، یہ دو طرفہ تصادم، خود بخود پیدا ہو گیا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو رونما ہوئی۔ البتہ اس کی تفصیلات کافی زیادہ ہیں۔ یعنی اس بارے میں بیان کرنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں اور ایک خصوصیت یہی استعمار ہے جو میں نے عرض کیا۔

اقتدار کے لئے بے پناہ جنگ افروزی اور خونریزی اس نام نہاد ڈیموکریٹک مگر روحانیت سے دور، دین سے دور، دینی مفاہیم سے بے بہرہ اور دینی معارف و دینی تعلیمات سے عاری حکومت کی خصوصیات میں ہے۔ خود یورپ میں ایسے تلخ واقعات بہ کثرت ہوئے ہیں۔ لیکن جب غیر یورپیوں سے مقابلہ ہوتا ہے تو وہ سب آپس میں متحد ہو جاتے ہیں، مگر انہیں فرصت کا وقت ملتا ہے تو ان میں آپسی اختلافات بہت سارے ابھرتے ہیں۔ اتفاق سے اسی انیسویں صدی میں یورپ میں جو مشکلات اور واقعات ہوئے، جنگیں، قتل عام، ایک دوسرے پر حملے، ظالمانہ فتوحات وغیرہ جیسے واقعات، ان کی بڑی تفصیلات ہیں، البتہ ان کا ہمارے امور سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اس بیان سے میں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں؟ میری بات کا لب لباب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی جن لوگوں سے مقابلہ آئی ہے، وہ مقابلہ آرائی ظلم سے ہے، وہ مقابلہ آرائی استکبار سے ہے، وہ مقابلہ آرائی جارحیت سے ہے۔ یہ سوال نہ کیا جائے کہ آپ فلاں ملک کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ حکومتوں سے، قوموں سے اور ملکوں سے بذات خود ہماری کوئی مخالفت نہیں ہے۔ ہم ظلم کے مخالف ہیں، استکبار کے مخالف ہیں، جارحیت کے مخالف ہیں، ان واقعات کے مخالف ہیں جن کا آج آپ غزہ میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایک ملت، ایک سرزمین کی مالک قوم، اپنے گھر میں، اپنی سرزمین کے اندر اس انداز سے بڑے مظالم کا نشانہ بنتی ہے، ان کی عورتیں، ان کے بچے، ان کے کنبے، ان کے مکانات، ان کا انفراسٹرکچر، ان کی املاک نہایت بے رحمی کے ساتھ، بڑی سنگدلی سے ختم کر دی جاتی ہیں، مٹا دی جاتی ہیں اور ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ مخالفت نہیں کرتے، روکتے نہیں بلکہ مدد بھی کر رہے ہیں۔ امریکہ مدد کر رہا ہے، برطانیہ تعاون کر رہا ہے، بعض دیگر یورپی ممالک مدد کر رہے ہیں۔ ہمارا یہ موقف ہے، ہم اس کے مخالف ہیں۔ جو چیز اسلامی جمہوریہ کو مد مقابل فریق کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے وہ یہی چیزیں ہیں جن کی عقل بھی، عرف عام بھی، شریعت بھی، دین بھی اور انسانی ضمیر بھی مذمت کرتے ہیں، ہم ان چیزوں کے مخالف ہیں۔ اسلامی جمہوریہ کی مخالفت ان چیزوں سے ہے، مخالفت ان سب سے ہے۔ ورنہ قرآن کریم نے کفار کے سلسلے میں بھی فرمایا ہے کہ: لا یَنھاکُمُ اللَہُ عَنِ الَّذینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَ لَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوھُم وَ تُقسِطوا اِلَیھِم (9) چنانچہ اگر کوئی کافر ہے جو اسلام میں لین دین کے لئے طے کئے گئے ضوابط کی پابندی کرتا ہے تو اس کے سلسلے میں کسی طرح کی کوئی مشکل نہیں ہے۔

لشکر اسلام جب اسی شامّات کے علاقے کی سمت گیا اور ایسے علاقوں کو جو رومن سامراج کا حصہ تھے فتح کر لیا گیا تو ان علاقوں میں آباد یہودیوں نے مسلمانوں سے کہا خوش آمدید! آپ کے عدل نے ہمیں نجات دلا دی! یعنی یہ صورت حال تھی۔ جب وہ کہیں پہنچتے تھے تو ان کا عدل اور انصاف پسندی نظر آتی تھی اور لوگ مشاہدہ کرتے تھے۔ وہ کافر کے ساتھ بھی اس طرح پیش آتے ہیں۔ مسئلہ جارحیت، تجاوز، ظلم اور استعمار کا ہے۔ تو یہ پہلی بات ہے تاکہ واضح ہو کہ ڈیموکریسی کے نام کے پیچھے، انسانی حقوق کے نام کے پیچھے اور لبرلزم کے نام کے پیچھے خود کو چھپانے والی جمہوری حکومتوں سے اسلامی جمہوریہ کی مخاذ آرائی اور محاذ بندی ان کے کاموں اور سرگرمیوں کے باطن کی وجہ سے ہے۔ ان کے کام اور عمل کی اصلی حقیقت ظلم، استکبار وغیرہ سے عبارت ہے۔ تو یہ پہلا نتیجہ ہے جو میں نے اپنی اس گفتگو سے پیش کیا ہے۔

دوسرا نتیجہ جو ہم لینا چاہتے ہیں یہ ہے کہ ہم استکبار سے مقابلے کا پرچم ہمیشہ اپنے ہاتھ میں بلند رکھیں۔ خیال رکھیں کہ اسلامی جمہوریہ کسی بھی دور میں یہ موقع نہ دے کہ استکبار سے مقابلہ آرائی کا پرچم اس کے ہاتھ سے لے لیا جائے۔ ہمیں پیش قدم رہنا چاہئے، پیش پیش رہنا چاہئے۔ اس پرچم کو روز بروز زیادہ وسیع اور زیادہ بلند کرنا چاہئے۔

تیسرا اور آخری نتیجہ یہ ہے کہ ہم نو بہ نو وجود میں آنے والی اپنی نسلوں کے لئے بھی اس حقیقت کو واضح کرتے جائیں۔ ہمارے نوجوانوں کو معلوم ہو، موجودہ نسل کے نوجوانوں کو اور آئندہ آنے والی نوجوان نسلوں کو یہ معلوم ہو کہ اسلامی جمہوریہ کی روش کار کیا ہے۔ یہ مزاحمت کیا ہے۔ البتہ چار عشروں سے زیادہ کی اسلامی جمہوریہ کی جو عمر گزری ہے اس دوران ہم علاقے میں اور دنیا میں کامیاب رہے کہ اسلامی جمہوریہ کے بارے میں اس تصویر کو، اس محاذ کو اور اس رجحان کو عالم انسانیت کے سامنے پیش کریں۔ یہ ہماری پہلی عرضداشت تھی۔

ماہرین اسمبلی کے بارے میں میری گزارش یہ ہے کہ ماہرین اسمبلی کے دوش پر در حقیقت بہت اہم  ذمہ داری ہے۔ یہ 'رہبر انقلاب کا انتخاب' اور 'رہبر انقلاب کے اندر لیاقت موجود رہنے کی نگرانی' انتہائی اہم کاموں میں ہے۔ یعنی اسلامی جمہوریہ کے اندر ایرانی معاشرے کے انتظام و انصرام کے سلسلے میں شاید یہ سب سے بڑا کام ہے۔ ماہرین اسمبلی چننے اور انتخاب کرنے میں اس بات کا خیال رکھے کہ اسلامی جمہوریہ کے پائيدار اصولوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہ بہت اہم ہے۔ یعنی رہبر انقلاب کا انتخاب مستقل اصولوں کو ملحوظ اور مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ اسلامی جمہوریہ میں وہ اصول مسلّمات اور دائمی ضوابط کا حصہ ہیں۔ ہمارے یہاں دو طرح کے احکام ہوتے ہیں۔ دائمی احکام اور تبدیل ہونے والے احکام۔ اسلام میں بھی ثانوی عناوین کے تحت کچھ احکام ہیں جو تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ بعض احکام الگ الگ تقاضوں کی بنیاد پر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ خود آئین میں بھی ذکر ہے۔ مثال کے طور پر آرٹیکل 44 میں کچھ چیزیں اس دفعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیل ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں۔ کچھ دائمی اصول ہیں جو تبدیل نہیں ہوتے۔ آئین میں اس طرح کے اصول تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بیانوں میں یہ اصول تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ اسلامی معارف و تعلیمات میں بھی ایسے اصول دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ جیسے عدل قائم کرنا، جیسے کرپشن کے خلاف لڑائی، جیسے معاشرے میں اسلامی معرفت کی سطح کو بلند کرنا اور اسلامی عمل کی سطح کو بہتر کرنا۔ یہ دائمی اصول ہیں جو بدل نہیں سکتے۔ یہ اس حقیر کی طرف سے انتباہات اور نصیحتیں ہیں ان کے لئے جو اس عرصے میں ماہرین اسمبلی میں موجود ہیں اور فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔

مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کے بارے میں بھی چند باتیں عرض کرتا چلوں۔ ہر نئی پارلیمنٹ (10) نئی امید اور نئی توقعات کی حامل ہوتی ہے۔ جب کوئی نئی پارلیمنٹ تشکیل پاتی ہے تو اس کے ساتھ نئی امیدیں بھی پیدا ہوتی ہیں اور نئے افق پیدا ہو سکتے ہیں۔ نئی پارلیمنٹ میں نئے نمائندے آتے ہیں۔ ان کے ساتھ گذشتہ دور یا گذشتہ ادوار کے بھی کچھ ارکان پارلیمنٹ موجود ہوتے ہیں۔ یہ بہت اچھی آمیزش ہوتی ہے۔ بہت اچھا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس میں جدت عمل بھی ہے، اس میں نئی پہل بھی ہے اور اس میں تجربہ بھی ہے۔ سابقہ کامیاب تجربات سے استفادہ کرتے ہیں اور جدت عملی بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہ بڑا قیمتی سرمایہ ہے۔

ہر بار نئی پارلیمنٹ کی تشکیل سے ملک کو قیمتی سرمایہ حاصل ہوتا ہے اور اسے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔ یہ تازہ خون کی طرح ملک کے سیاسی و سماجی ڈھانچے کی رگوں میں دوڑتا ہے اور ان شاء اللہ اس کا اثر ہوگا۔ ایک شیریں واقعہ ہے۔ البتہ اس شیریں واقعے کو تلخی میں بھی بدلا جا سکتا ہے۔ دنیا کے تمام شیریں حقائق کی طرح۔ کچھ چیزیں ہوتی ہیں، کچھ عوامل ہوتے ہیں جو اس حلاوت کو ختم کر سکتے ہیں۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے۔ وہ چیزیں جو نئی پارلیمنٹ کی شیرینی کو نابود کر سکتی ہیں اختلاف پیدا کرنے والی باتیں کرنا، تنازعہ پیدا کرنا اور دشمن کو پسند آنے والے جھگڑے ہیں۔ نئی پارلیمنٹ کی مٹھاس کو اس طرح کی چیزیں ختم کر سکتی ہیں۔ بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے، بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

نئی پارلیمنٹ میں جو کچھ ہی عرصے میں تشکیل پائے گی، ہمارے جو بھائی اور بہن ہیں انہیں خیال رکھنا چاہئے کہ نئی پارلیمان کی تشکیل کی حلاوت کو ضائع نہ ہونے دیں اور تلخی پیدا نہ ہونے دیں۔ اگر انہوں نے اس کا خیال نہ رکھا تو اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوگا کہ عوام میں کڑواہٹ پھیل جائے گی، ملک کا سیاسی ماحول تلخی کا ماحول بن جائے گا۔ جبکہ انتخابات، نئی پارلیمان کی تشکیل اور نئے افراد کی آمد وغیرہ سے سیاسی فضا فطری طور پر تازگی کی فضا ہے، یہ ختم ہو جائے گی۔ اس کا پہلا اثر یہ ہوگا۔

اس کا الگلا اثر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کارکردگی متاثر ہو جائے گی۔ یعنی جب مجلس شورائے اسلامی جھگڑے، تنازعے، مقابلہ آرائی اور گوناگوں محاذ بندیوں کا شکار ہو گئی تو فطری طور پر اپنے اصلی کاموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ محاذ بندی اور رسہ کشی ان کے کاموں میں رکاوٹ پیدا کر دے گی۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے یہاں اسلامی جمہوریت ہے نا! یہ 'اسلامی' کا عنوان بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ صرف سیاسی شعبے تک کام نہیں کرتا۔ یعنی اسلامی ہونا اور اسلامی جمہوریہ ہونا صرف یہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک سیاسی نظام کا نمونہ پیش کر دیا ہے۔ بے شک یہ کام کا بہت اہم حصہ ہے لیکن ماجرا صرف اتنا ہی نہیں ہے۔

اسلامی جمہوریہ کا ایک اساسی اشاریہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے عہدیداران و کارکنان پابند شریعت ہوں، حلال، حرام، دروغگوئی، غیبت اور تہمت وغیرہ جیسی چیزوں کا خیال رکھیں۔ جس طرح ہمیں اپنے ذاتی امور میں محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، تقوی کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے اور حرام چیزوں سے اجتناب کرنا ہوتا ہے، سیاسی میدان میں اور سیاسی کاموں میں بھی بالکل اسی طرح یہ چیز ہے، حرام چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے، اسے سب سے اوپر رکھنا چاہئے۔ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: لَو لَا التُّقىٰ لَکُنتُ اَدھَى العَرَب (11) تقوی انسان کو بہت سے کاموں سے روک دیتا ہے۔ امیر المومنین علیہ  السلام ان خطوط میں اور ان فرامین میں جو آپ نے نہج البلاغہ میں اپنے گورنروں کو دئے ہیں، ان میں سے بعض میں، یہ نہیں کہہ سکتے کہ بیشتر میں لیکن ان میں بہت سوں میں بات کا آغاز اس طرح ہوتا ہے: کتابی الی فلان، اَمَرَہُ‌ بِتَقوَى‌ اللہ (12) پہلی ہی سفارش میں: «اَمَرَہُ‌ بِتَقوَى‌ اللہ» ہے۔ مالک اشتر کے بارے میں اور مالک اشتر کے لئے جاری کئے گئے حکم اور معروف فرمان میں آپ فرماتے ہیں: «اَمَرَہُ‌ بِتَقوَى‌ اللہِ وَ اِیثارِ طاعَتِہ»‌(13) یعنی امیر المومنین علیہ السلام اس طرح تاکید فرماتے ہیں۔ یا «اِنطَلِق‌ عَلى تَقوَى اللَہ»‌ (14) تقوائے الہی کی سفارش کرتے ہیں۔ معلوم ہوا ک سیاسی امور میں، سیاسی طرز عمل میں، سیاسی گروہ بندی میں، ظاہر ہے فکر کے تنوع کی وجہ سے ایک طرح کی گروہ بندی ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تقوی کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ شرعی طور پر حرام چیزوں سے سختی کے ساتھ اجتناب کرے۔ اگر ایسا ہوا توا ان شاء اللہ کاموں کے نتائج بھی پسندیدہ ہوں گے اور اللہ تعالی کاموں میں برکت دے گا۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم بیان کرنے والے کو ان باتوں پر عمل کرنے والا بنائے اور سننے والوں کو بھی ان شاء اللہ توفیق دے کہ ان باتوں کا ان کے دل پر اثر ہو اور ہم شرعی فریضے کے مطابق اپنے کاموں کو اور اپنے فرائض کو انجام دے سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

  1. اس ملاقات کے آغاز میں جو پانچویں ماہرین اسمبلی کے 13ویں سیشن کے بعد ہوئی اسمبلی کے سربراہ آیت اللہ احمد جنتی اور اسمبلی کی صدارتی کمیٹی کے رکن حجت الاسلام و المسلمین سید ہاشم حسینی بو شہری نے کچھ نکات بیان کئے۔
  2. آیت اللہ محمد امامی کاشینی 2 مارچ 2024 کو انتقال فرما گئے۔
  3. ماہرین اسمبلی کے سکریٹریئیٹ کے سربراہ
  4. اقبال الاعمال جلد 2 صفحہ 687: "اے معبود! اپنی بارگاہ کی جانب مکمل ارتکاز عطا فرما۔"
  5. اقبال الاعمال جلد 2 صفحہ 687: "اے خدا! مجھے ایسا قلب دے جو تیرے قرب کا مشتاق ہو، ایسی زبان دے جس کی راست گوئی تیری سمت بلندیوں کا سفر طے کرے۔"
  6. اقبال الاعمال جلد 1 صفحہ 9
  7. سورہ بقرہ آیت نمبر 279 کا ایک حصہ: نہ تم ظلم کروگے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔
  8. سورہ نساء آیت نمبر 76 کا ایک حصہ: "جو لوگ ایمان لائے ہیں راہ خدا میں جنگ کرتے ہیں۔"
  9. سورہ ممتحنہ آيت نمبر 8 کا ایک حصہ: اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں کرتا کہ جن لوگوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو اور ان کے ساتھ انصاف کرو۔
  10. بارہویں پارلیمنٹ کے انتخابات 1 مارچ 2024 کو ہوئے۔
  11. کافی جلد 8 صفحہ 24 "اگر تقوی اجازت دیتا تو میں دنیائے عرب کا سب سے حیلہ باز اور زیرک انسان ہوتا۔"
  12. منجملہ نہج البلاغہ مکتوب 26
  13. نہج البلاغہ مکتوب 53
  14. منجملہ نہج البلاغہ مکتوب 25