اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العّْلَمين. حمد کا مطلب کسی انسان یا کسی موجود کی اس کے کسی ایسے عمل یا صفت کے لیے ستائش کرنا ہے جو وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہو۔ اگر کسی میں کوئي ایسی خصوصیت ہو جو اس کے ارادہ و اختیار سے نہ ہو تو اس خصوصیت کی تعریف کو حمد نہیں کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کے حسن کی تعریف کرنا چاہیں تو اسے عربی میں اس کے حسن کی حمد کرنا نہیں کہا جائے گا لیکن کسی کی بہادری کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کی سخاوت کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کے نیک کام کی حمد کی جا سکتی ہے، یا ایسی صفت کی، جو اس نے اپنے اختیار سے اپنے اندر پیدا کی ہے، حمد کی جا سکتی ہے۔ اَّلحَمدُ ساری حمد اور ستائش، لِلہ اللہ سے مخصوص ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ جو بات ہمیں سمجھاتا ہے، جس نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام نیکیاں، تمام حسن اور تمام وہ چیزیں جن کی حمد کی جا سکتی ہے، اللہ سے مخصوص ہیں۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
خداوند عالم تمام موجودات کے سلسلے میں ایک رحمت رکھتا ہے: انھیں خلق کرنے کی رحمت، اس نے انھیں خلق کیا ہے اور یہ وہ رحمت ہے جو پروردگار کی جانب سے ہر مخلوق کے لیے ہے۔
رحمان اور رحیم، دونوں لفظ رحمت سے ماخوذ ہیں لیکن دونوں کے الگ الگ پہلو ہیں۔ رحمان، مبالغے کے لیے استعمال ہوتا ہے اور رحمت میں کثرت اور اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔ رحیم بھی رحمت سے ہی لیا گيا ہے لیکن صفت مشبہہ ہے یعنی صفت میں ثبات اور پائيداری کو ظاہر کرتا ہے۔ ہم ان دونوں الفاظ سے دو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں: الرحمن سے ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند عالم بہت زیادہ رحمت کا مالک ہے اور اس کی رحمت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ الرحیم سے ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند عالم کی رحمت دائمی اور لگاتار ہے، یہ رحمت کبھی زائل نہیں ہوتی۔
امام خامنہ ای
13 مارچ 1991
جب آپ اللہ کے نام سے کوئي کام شروع کرتے ہیں تو آپ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہ کام اللہ کے لیے ہے، جس طرح سے کہ آپ سمجھاتے ہیں کہ اس کا انجام بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔
تفسیر کی بین الاقوامی کانفرنس کے منتظمین سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب، جو سنیچر 22 فروری 2025 کو انجام پایا، آج پیر 24 فروری 2025 کو قم میں اس کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر جاری کیا گيا۔