اَلحَمدُ لِلہ رَبِّ العّْلَمين. حمد کا مطلب کسی انسان یا کسی موجود کی اس کے کسی ایسے عمل یا صفت کے لیے ستائش کرنا ہے جو وہ اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہو۔ اگر کسی میں کوئي ایسی خصوصیت ہو جو اس کے ارادہ و اختیار سے نہ ہو تو اس خصوصیت کی تعریف کو حمد نہیں کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی کے حسن کی تعریف کرنا چاہیں تو اسے عربی میں اس کے حسن کی حمد کرنا نہیں کہا جائے گا لیکن کسی کی بہادری کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کی سخاوت کی حمد کی جا سکتی ہے، کسی کے نیک کام کی حمد کی جا سکتی ہے، یا ایسی صفت کی، جو اس نے اپنے اختیار سے اپنے اندر پیدا کی ہے، حمد کی جا سکتی ہے۔ اَّلحَمدُ ساری حمد اور ستائش، لِلہ اللہ سے مخصوص ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ جو بات ہمیں سمجھاتا ہے، جس نکتے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام نیکیاں، تمام حسن اور تمام وہ چیزیں جن کی حمد کی جا سکتی ہے، اللہ سے مخصوص ہیں۔

امام خامنہ ای

13 مارچ 1991