سنہ 1990 کے عشرے میں مسئلۂ فلسطین کے طویل ہو جانے کے سبب امریکا کی قیادت میں مغربی ملکوں نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں دو ریاستی فارمولا پیش کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس تناظر میں اس وقت کے صیہونی حکومت اور پی ایل او کے سربراہان کے درمیان سنہ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اوسلو معاہدہ ایک طے شدہ فارمولے کو نافذ کرنے کی کوشش تھی جو اسرائيل اور فلسطین کے تنازع کے مکمل حل پر منتج ہو۔ پچھلے 30 سال کے عرصے نے یہ عیاں کر دیا کہ اس معاہدے کے تمام وعدے جھوٹے تھے اور اس کا اہم ترین نتیجہ، بیت المقدس کو یہودی شہر بنانا اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں صیہونی کالونیوں میں اضافہ تھا۔ ایڈورڈ سعید عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حامیوں میں سے ایک رہنما کے طور پر پہچانے جاتے ہیں اور دوسری طرف وہ خود دو ریاستی فارمولے کی حمایت میں پیش پیش رہنے والوں میں سے ایک تھے۔ غیر قانونی یہودی بستیوں کے سلسلے میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں کے پیش نظر انھوں نے اپنی عمر کے آخری حصے میں کھل کر کہا تھا کہ اس فارمولے پر عمل درآمد ناممکن ہے۔(1) اور آج بھی اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے اسرائيل کے اقدامات کو، دو ریاستی فارمولے کے سلسلے میں غلط قدم بتایا ہے۔(2)
ذیل کی تحریر میں قاری کو یہ حقیقت سمجھانے کی کوشش کی گئي ہے کہ صیہونی حکومت صرف ایک ہدف کے حصول کے درپے ہے اور وہ ہے مقبوضہ علاقوں میں اپارتھائيڈ جیسی ایک صیہونی حکومت کا قیام اور دو ریاستی راہ حل، خطے میں اس حکومت کی گھٹیا چال پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
1. اوسلو معاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات
اس وقت مقبوضہ علاقوں میں جو فلسطینی علاقے ہیں، ان میں غرب اردن ہے جس کا کنٹرول پی ایل او کے ہاتھ میں ہے جبکہ دوسرا علاقہ غزہ پٹی ہے جس کا انتظام حماس کی حکومت چلاتی ہے۔ اگر اوسلومعاہدے کے بعد صیہونی حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ یہ حکومت کسی بھی صورت، دو ریاستی فارمولے کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ اس فارمولے کے سلسلے میں صیہونی حکام کی اسٹریٹیجی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ پہلے بعض فلسطینی سربراہوں اور عرب ملکوں کی جانب سے اپنی قانونی حیثیت اور جواز حاصل کر لیں، اس وقت (اسّی کی دہائي کے اواخر اور نوّے کی دہائي کے اوائل میں) رائے عامہ کی نظروں میں اپنی مثبت شبیہ بنا لیں اور پھر فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر غاصبانہ قبضے کے لیے وقت حاصل کر لیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 1 اس بات کو واضح کرتا ہے کہ غرب اردن کا علاقہ بھی پوری طرح، صیہونی حکومت سے صلح اور اسے قانونی حیثیت دینے کی خواہاں خودمختار فلسطینی انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہیں دیا گيا جبکہ اوسلو معاہدے اور دو ریاستی فارمولے کے تحت اس کا کنٹرول اسے دیا جانا چاہیے تھا۔
صیہونی حکومت کے ہاتھوں غرب اردن کے علاقوں پر قبضہ بڑھانے کا ایک راستہ اس علاقے میں صیہونی کالونیاں کی تعداد بڑھانا اور یہاں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں 28 مارچ 2023 کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں کہا گيا ہے کہ یہودی کالونیوں میں رہنے والی غیر قانونی آبادی کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ سنہ 1993 میں یہی آبادی، ڈھائي لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔(3) صیہونی حکومت کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کو ہڑپنے کی ایک اور چال مختلف بہانوں سے زمینوں کو سرکاری اراضی بنا دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہفنگٹن پوسٹ(4) اور لی مونڈ(5) جیسے اخباروں کی رپورٹوں پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ ہفنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق اسرائيلی حکومت نے درۂ اردن کے قریب 1270 ہیکٹیر زمین پر قبضے کی توثیق کی ہے اور اوسلو معاہدے کے بعد اس قسم کے اقدام کی کوئي مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح لی مونڈ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پیس ناؤ (6) تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2024 کے ابتدائي چھے مہینوں میں صیہونی حکام نے 2370 ہیکٹیر زمین کو سرکاری زمین ڈکلیئر کر دیا ہے جس سے انھیں اس بات کی اجازت مل گئی ہے کہ وہ ان زمینوں کو صرف یہودی کالونیوں میں رہنے والوں (Settlers) کو کرائے پر دے دیں۔
غزہ کے علاقے میں، جو صیہونی حکومت کی منہ زوریوں کے مقابلے میں مزاحمت کر رہا ہے، صیہونی حکومت کی اسٹریٹیجی کچھ الگ ہے۔ صیہونی حکومت نے سنہ 2007 سے لے کر اب تک غزہ کے علاقے کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں غزہ کے عوام بنیادی ترین انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ دوسرے الفاظ میں غزہ کے لوگوں کو دوسرے ممالک کی جانب بھگانے کے مقصد سے ان کے خلاف اپارتھائيڈ حکومت والی پالیسیاں اختیار کی گئي ہیں۔ اس سلسلے میں نقشہ نمبر 2 اس موضوع کی عکاسی کرتا ہے کہ سنہ 2007 سے لے کر سنہ 2023 تک صیہونی حکومت نے اس خطے پر پانچ فوجی حملے کیے ہیں۔
سنہ 2023 کی جنگ اور پچھلے پانچ حملوں کے درمیان جو بنیادی فرق ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ "ضاحیہ ڈاکٹرین"(7) کے تناظر میں کی جا رہی ہے۔ یہ وہ حکمت عملی ہے جس کا ہدف غزہ کے لوگوں کو زبردستی اس علاقے سے باہر نکالنا، اس علاقے کو پوری طرح باشندوں سے خالی کروانا اور پھر صیہونی حکومت کی جانب سے اس پر آسانی سے قبضہ کر لینا ہے۔ ضاحیہ ڈاکٹرین ایک طرح کی فوجی اسٹریٹیجی ہے جس کے تحت ایک غیر مساوی شہری جنگ میں فوج، جان بوجھ کر غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بناتی ہے تاکہ غیر فوجی افراد پر دباؤ بڑھا کر اور ان پر سختیاں مسلط کر کے اپنی ڈیٹرنس کو بڑھایا جائے۔(8) یہ رپورٹ لکھے جانے تک اور جنگ کو 9 مہینے سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بعض ذرائع نے اس جنگ میں مارے جانے والوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ بتائی ہے جبکہ The Lancet جیسے میڈیکل جرائد نے اپنی رپورٹ میں بالواسطہ طور پر مرنے والوں کی تعداد 1 لاکھ 86 ہزار سے زیادہ بتائي ہے۔ اگر انفراسٹرکچر کی بات کی جائے تو سیٹلائٹ تصاویر کی بنیاد پر اقوام متحدہ نے 31 مئي 2024 کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ کا 55 فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔ (نقشہ نمبر 3) اور پوری غزہ پٹی میں تقریبا 65 فیصد سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں۔(9) (نقشہ نمبر 4)
دو ریاستی فارمولا، وقت حاصل کرنے کی ایک چال
اوسلو معاہدے اور دو ریاسی فارمولا پیش کیے جانے کو کئي عشرے گزر جانے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 جو فلسطین کے پارٹیشن پلان کے نام سے بھی مشہور ہے، 29 نومبر 1947 کو پاس ہوئي لیکن صیہونی حکومت نے، اس بات کے پیش نظر کہ سنہ 1980 کے عشرے کے اواخر میں اسے عالمی برادری میں قانونی جواز کے بحران کا سامنا رہا تھا، اس بات کی کوشش کی کہ 1948 کی جنگ، 1967 کی چھے روزہ جنگ یا 1973 کی جنگ کے برخلاف جن میں وہ خانہ جنگي کی کیفیت اور عرب ملکوں کی جانب سے تیل کی سپلائی روک دیے جانے کی وجہ سے مغربی ملکوں کی عدم حمایت والی پچھلی جنگوں کے برخلاف فلسطینی آبادی والے باقیماندہ علاقوں پر قبضے کے لیے ایک نئي حکمت عملی اختیار کرے۔ اس کے نتیجے میں دو ریاستی فارمولا ایک طرف تو صیہونی حکومت کے لیے وقت حاصل کرنے اور اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کا ایک حربہ اور دوسری طرف فلسطینی کاز کی پیٹھ میں ایک خنجر سمجھا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ آج صیہونی حکام اسی فارمولے کو اپنے زیادہ بڑے اہداف کے حصول کے لیے پیمان ابراہیم (Abraham Accords) کے ڈھانچے میں آگے بڑھانے کی کوشش میں تھے لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اس منصوبے کو شروع میں ہی ناکام بنا دیا۔ دوسرے الفاظ میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای 3 جون 2024 کے اپنے خطاب میں کہتے ہیں: "آپریشن طوفان الاقصیٰ علاقے کی ضرورت کے عین مطابق تھا، اس کی وضاحت یہ ہے کہ امریکا، صیہونی عناصر، ان کی پیروی کرنے والوں اور علاقے کی بعض حکومتوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ علاقے کے تعلقات، معاملات اور توازن کو تبدیل کر دیا جائے۔ علاقے کی حکومتوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے روابط خود اس حکومت کی مرضی کے مطابق ترتیب دیے جس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی ایشیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کی سیاست اور معیشت پر صیہونی حکومت کا مکمل تسلط ہو۔"
ہر آزاد منش انسان جو قومی اور مذہبی تعصب کے بغیر مسئلۂ فلسطین پر غور کرے، وہ مقبوضہ علاقوں میں امن و ثبات کا واحد حل تمام اقوام و مذاہب کی شرکت سے فلسطین میں ایک ریفرنڈم کو مانے گا۔ اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ خامنہ ای نے پہلی مئي سنہ 2024 کو کہا تھا: "مشکل اس وقت حل ہوگی جب فلسطین اس کے اصلی مالکین یعنی فلسطینی عوام کو واپس مل جائے۔ فلسطین، فلسطینی عوام کا ہے، ان میں مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، یہودی بھی ہیں۔ فلسطین ان کا ہے۔ فلسطین انھیں واپس کر دیں، وہ اپنی حکومت، اپنا نظام تشکیل دیں، اس کے بعد یہ نظام فیصلہ کرے کہ صیہونیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ انھیں باہر نکالا جائے یا رہنے دیا جائے ... یہ وہ راہ حل ہے جس کا اعلان ہم نے کچھ برس قبل کیا تھا ... جب تک یہ نہیں ہوگا مغربی ایشیا کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔"
1. Yi LI (2011) Edward Said’s Thoughts and Palestinian Nationalism, Journal of Middle Eastern and Islamic Studies (in Asia), 5:3, 105-120, DOI: 10.1080/19370679.2011.12023187 (P. 118)
2. https://www.leparisien.fr/international/israel/israel-5-minutes-pour-comprendre-les-nouvelles-implantations-de-colonies-en-cisjordanie-05-07-2024-BEDGKFVFWVH3VKXY7Y2OHUZ3LI.php
3. https://www.un.org/unispal/document/human-rights-council-hears-that-700000-israeli-settlers-are-living-illegally-in-the-occupied-west-bank-meeting-summary-excerpts/
4. https://www.huffingtonpost.fr/international/article/en-cisjordanie-israel-approuve-la-plus-grosse-saisie-de-terres-depuis-30-ans_236417.html
5. https://www.lemonde.fr/idees/article/2024/07/06/l-avancee-de-la-colonisation-en-cisjordanie-doit-cesser_6247358_3232.html
6. Peace Now
7. Dahiya Doctrine
8. https://www.theguardian.com/commentisfree/2023/dec/05/israel-disproportionate-force-tactic-infrastructure-economy-civilian-casualties
9. https://unosat.org/products/3883
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے 3 جون 2024 کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی 35ویں برسی پر امام خمنیی کے مزار پر عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بانی انقلاب اسلامی کے مکتب فکر اور ان کے دروس کا جائزہ لیا۔ (1)