بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلواۃ والسّلام علی سیّدنا ونبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

 یہ سالانہ اجتماع عوام کی ضرورت اور ایک اہم ہدف کا حامل ہے اور وہ امام بزرگوار ( امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی یاد کی تجدید  اور ملک کو چلانے نیز آگے بڑھانے اور انقلاب کے اعلی اہداف کے حصول میں آپ کے دیے ہوئے دروس سے استفادہ ہے۔  امام  کے درس سے استفادہ کریں جو آپ کی تقاریر اور تحریروں کی شکل میں ہمارے پاس ہے یا آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے استفادہ کریں۔ امام بزرگوار کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں میں سے ہر ایک ہمارے لئے ایک درس ہے۔

آج میں امام بزرگوار کے نقطہ نگاہ، آپ کے زاویہ نگاہ سے دو اہم موضوعات کے بارے میں جو گزشتہ ماہ خرداد (جون 2023) سے آج تک کے درمیان رونما ہوئے ہیں، چند جملے عرض کرنا اور کچھ باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔

ان دونوں اہم موضوعات میں سے ایک، مسئلہ فلسطین ہے جو آج دنیا کا اولین مسئلہ ہے اور ایک عظیم  حملے سے شروع ہوا اور اس کے بعد  اس کے نتائج نے آج تک دنیا والوں کی نگاہیں خود پر مرکوز کر رکھی ہیں اور اس کو دنیا کے اولین مسئلے میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوسرا واقعہ ہمارے عزیز صدر جمہوریہ کے فقدان کا تلخ حادثہ ہے (2) جو بڑا حادثہ ہے اور ہمارے صدر جمہوریہ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت ملک کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی نتائج کی حامل ہے اور تاریخ انقلاب کے اہم مسائل میں شمار ہوتی ہے۔ ان دونوں موضوعات کو امام کے زاویہ نگاہ سے دیکھنا اور ان کا جائزہ لینا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ان شاء اللہ انتخابات کے تعلق سے جو عوامی اور ملی فریضہ ہے، چند جملے عرض کروں گا۔

امام کے نمایاں ترین درس اور روش کا مشاہدہ ہم مسئلہ فلسطین میں کرتے ہیں۔ امام بزرگوار نے اسلامی تحریک شروع ہونے کے پہلے دن سے ہی مسئلہ فلسطین پر زور دیا ہے، باتیں کی ہیں، مستقبل پرنظر رکھی ہے اور مسلم اقوام نیز خود فلسطینی قوم کی رہنمائیاں کی ہیں۔ امام بزرگوار نے پچاس برس اور اس سے بھی زیادہ عرصے قبل جو پیش گوئی کی تھی وہ آج تدریجی طور پر پوری ہو رہی ہے۔ مسئلہ فلسطین میں امام کی یہ دوراندیشی اور مستقبل پر آپ کی نگاہ اور حوادث کے تعلق سے آپ کی یہ دقت نظر صرف مسئلہ فلسطین سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ ملک کے بہت سے موجودہ اور اہم معاملات میں بھی امام کی نگاہ، دقت نظر اور پیش بینی جن لوگوں نے سنی تھی، ان کے لئے صحیح ثابت ہوئی اور اس کے نمونے بہت زیادہ ہیں۔ اس کا ایک نمونہ تحریک کے ابتدائی دنوں سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ جب امام بزرگوار کی قیادت میں اسلامی تحریک اپنے ابتدائی قدم اٹھا رہی تھی اور شاہی حکومت قم کے مدرسہ فیضیہ میں، قم کی سڑکوں پر اور تہران میں ہر تحریک کو سختی سے کچل رہی تھی۔ ایک طرف تھوڑے سے انقلابی مجاہدین تھے اور ان کے مقابلے میں بے رحم اور جابر حکومت تھی۔ ان حالات میں امام بزرگوار نے ہم سے خطاب میں، جو اس وقت نوجوان طلبا تھے، فرمایا کہ "یہ جانے والے ہیں، آپ رہیں گے۔" (3) ان دنوں جو مبصرین تھے، مختلف ملکوں اور مجاہدتوں وغیرہ  کے  مسائل پر نظر رکھنے والے تھے، وہ اس طرح کی باتوں پر تعجب کرتے تھے لیکن آپ نے فرمایا اور ویسا ہی ہوا جو آپ نے فرمایا تھا۔   

ایک اور نمونہ آپ کی با برکت عمر کے اواخر کا ہے اور وہ سابق سوویت یونین کے اس وقت کے سربراہ کے نام آپ کا خط ہے۔ (4) جس میں آپ نے جاویدانی تاریخی عبارت تحریر فرمائی۔ اس زمانے میں جب سابق سوویت یونین کا اعتبار اور شوکت عروج پر نظر آ رہی تھی، آپ نے فرمایا کہ کمیونسٹ حکومت کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ اس وقت کوئی اس صورتحال کا تصور بھی نہیں کر رہا تھا۔ لیکن آپ نے فرمایا اور زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ آپ نے جو پیش گوئی کی تھی وہی ہوا۔ 

امام فلسطین کے مسئلے کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے تھے کہ آپ نے فلسطین کے بارے میں فرمایا کہ سازباز کے مذاکرات سے امید نہ رکھی جائے۔ ان مذاکرات سے امیدیں وابستہ نہ کریں، یہ امید نہ رکھیں کہ سازباز کے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ فلسطین حل کر لیں گے اور مسئلہ فلسطین میں کسی منصفانہ مرحلے تک پہنچ جائيں گے۔ یہ فلسطین کے بارے میں امام کی باتوں کا خلاصہ تھا۔ آپ کا نظریہ تھا کہ خود فلسطینی عوام میدان عمل میں اپنا حق حاصل کریں اور دشمن کو یعنی صیہونی حکومت کو پسپائی پر مجبور کریں، اس کو کمزور کریں اور دنیا کی سبھی اقوام بالخصوص مسلم حکومتیں فلسطینیوں کی حمایت کریں۔ آپ مسلسل یہ کہا کرتے تھے کہ اگر اقوام میدان میں آ جائيں، خود فلسطینی اقدام کریں، عمل کے لئے کمر کسیں، اگر یہ ہو جائے تو صیہونی حکومت پسپائی پر مجبور ہو جائے گی۔ آج یہ ہوا ہے۔ اس بات کی میں وضاحت کروں گا۔

آپریشن طوفان الاقصی میں فلسطینی میدان میں آئے، عمل کیا، اقدام کیا اور دشمن کو میدان کے ایسے گوشے میں پہنچا دیا کہ جہاں سے فرار اور نجات  کا اس کے لئے کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ ہاں امریکا صیہونی  حکومت کی حمایت کر رہا ہے، بہت سی مغربی حکومتیں اس کی حمایت کر رہی ہیں لیکن سبھی یہ اعتراف بھی کر رہی ہیں اور قبول کر رہی ہیں کہ  صیہونی حکومت کے لئے جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ ایسے ہیں کہ ان میں اس حکومت کے لئے راہ نجات نہیں ہے۔

فلسطینی عوام کے اس عظیم اقدام کی میں یہاں چند جملوں میں وضاحت کروں گا۔

آپریشن طوفان الاقصی میں دو بنیادی نکات پائے جاتے ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ دو بنیادی اور اہم نکات۔ ایک یہ ہے کہ آپریشن طوفان الاقصی جو 7 اکتوبر 2023 کو انجام پایا، علاقے کی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ ہمارے علاقے کو اس کی ضرورت تھی۔ یہ علاقے کی ایک بڑی ضرورت کے مطابق تھا جس کی میں وضاحت کروں گا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ آپریشن صیہونی حکومت کے پیکر پر فیصلہ کن وار تھا۔ ایسا وار تھا کہ جس کی کوئی تلافی نہیں ہے اور صیہونی حکومت اس ضرب سے ایسی مصیبتوں میں مبتلا ہوئی ہے کہ جن سے اس کو نجات نہیں ملے گی۔

پہلا نکتہ جو میں نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصی علاقے کی ضرورت کے عین مطابق تھا، اس کی وضاحت یہ ہے کہ امریکا، صیہونی عناصر، ان کی پیروی کرنے والوں اور علاقے کی بعض حکومتوں نے ایک منصوبہ تیار کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ  علاقے کے تعلقات، معاملات اور توازن کو تبدیل کر دیا جائے۔ علاقے کی حکومتوں کے ساتھ صیہونی حکومت کے روابط خود اس حکومت کی مرضی کے مطابق  ترتیب دیے جس کا مطلب یہ تھا کہ مغربی ایشیا بلکہ پوری اسلامی دنیا کی سیاست اور معیشت پر صیہونی حکومت کا مکمل تسلط ہو۔ ایک وسیع منصوبہ تیار کیا تھا کہ جس کا نتیجہ یہ نکلنا تھا۔ اس منصوبے کو کافی تمہیدات کے ساتھ آگے بڑھایا تھا، صیہونیوں کی عالمی تنظیم اس منصوبے کی پشت پر تھی۔ علاقے کی بعض حکومتیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس منصوبے میں تعاون کر رہی تھیں۔ یہ منصوبہ اپنے آخری مرحلے میں پہنچ چکا تھا اور اس طویل المیعاد منصوبے پرعمل درآمد کا وقت آ گیا تھا۔ ان حساس حالات میں آپریشن طوفان الاقصی شروع ہوا اور دشمن کے سارے سازشی منصوبے نقش بر آب ہو گئے۔ سات اکتوبر کے آپریشن نے بہت ہی باریک بینی سے تیار کئے جانے والے دشمن کے منصوبے پر پانی پھیر دیا اور گزشتہ آٹھ  ماہ میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس میں اس منصوبے کے دوبارہ زندہ ہونے کی کوئی امید باقی نہیں بچی ہے۔ بہت بڑا کام ہوا ہے۔

یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی حکومت اتنی شدت اور بے رحمی کے ساتھ غزہ کے نہتےعوام پر حملہ کر رہی ہے، یہ اس منصوبے پر پانی پھر جانے پر اس کا غصہ اور ردعمل ہے۔

 یہ جو آپ دیکھ رہے کہ امریکی حکومت دنیا والوں کی نگاہوں کے سامنے ان جرائم میں مدد کر رہی ہے، یہ اس منصوبے کے خاک میں مل جانے پر اس کا غصہ ہے جو بڑی محنت سے تیار کیا گیا تھا۔  

آپریشن طوفان الاقصی نے ایسا معجزہ کر دکھایا ہے۔ یہ آپریشن طوفان الاقصی بالکل ٹھیک وقت پر انجام پایا ہے۔ البتہ میں یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ آپریشن طوفان الاقصی کی منصوبہ بندی کرنے والے جانتے تھے یا نہیں کہ وہ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں۔ میں نہیں جانتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کام جو انھوں نے انجام دیا کوئی اور کام اس کی جگہ نہیں لے سکتا تھا۔ انھوں نے مغربی ایشیا کے لئے ایک بڑی بین الاقوامی سازش کو اپنے آپریشن طوفان الاقصی سے ختم کر دیا۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ میں نے یہ عرض کیا کہ آپریشن طوفان الاقصی صیہونی حکومت کے پیکر پر ایک فیصلہ کن وار تھا، ایک ایسا وار تھا کہ جس کی کوئی تلافی نہیں ہو سکتی اور اس نے صیہونی حکومت کو ایسے راستے پر ڈال دیا ہے کہ جو کمزوری اور نابودی پر منتج ہوگا۔

  اس نکتے کے حوالے سے ہم نے کافی باتیں کی ہیں۔ آپریشن طوفان الاقصی کے آغاز سے اب تک اس کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے(5)  میں آج اس بارے میں دوسروں کی باتیں نقل کرنا چاہتا ہوں، اپنا نظریہ بیان نہیں کروں گا۔ میں ان کا نظریہ بیان کروں گا جن کا زاویہ نگاہ اور روش ہم سے مختلف ہے۔    

  سبھی مغربی مبصرین، یورپی، امریکی حتی خود صیہونی حکومت سے وابستہ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں صیہونی حکومت اپنے تمام تر ظاہری نام ونمود اور ہیبت کے باوجود ایک چھوٹے سے گروہ سے شکست کھا گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ طوفان الاقصی کے آٹھ مہینے بعد بھی اتنی کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت کمترین اہداف تک بھی نہ پہنچ سکی۔ یہ مغربی مبصرین کہتے ہیں۔ اس سے بھی بڑی بات ایک مغربی مبصر اس طرح کہتا ہے کہ آپریشن طوفان الاقصی اکیسویں صدی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ میں اس کا نام نہیں لینا چاہتا۔ ایک اور مغربی مبصر کا تجزیہ، یہ ہے کہ آپریشن طوفان الاقصی دنیا کو بدل دے گا۔ ایک صیہونی سیکورٹی مبصر، خود صیہونی حکومت کے اندر کا مبصر، اعلی صیہونی حکام کےاندرجوخلفشار پایا جاتا ہے، جو وحشت اور یہ صورتحال پائی جاتی ہے کہ وہ چکرا گئے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کریں،ان کے بارے میں کہتا ہے کہ اسرائیلی حکام کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں اور جو بحثیں ہوتی ہیں اگر وہ میڈیا میں آ جائيں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائيں گے۔ الٹی مہاجرت کریں گے۔ یعنی اسرائيلی حکام کے درمیان وحشت، خلفشار اور یہ صورتحال کہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں، اس حد پر پہنچ چکی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔

ایک اسرائیل مورخ کہتا ہے کہ "صیہونی  پروجکٹ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔" یہ ایک صیہونی مورخ اور تجزیہ نگار کہتا ہے۔ اور ہم صیہونی حکومت کے خاتمے کا آغاز دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل کے شمال اور جنوب میں یہودیوں کی حفاظت میں فوج ناکام ہو چکی ہے۔ وہ فوج جو اس بات کی مدعی تھی کہ دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہے، وہ خود اپنی قلمرو کے اندر شکست کھا چکی ہے۔ کس سے شکست کھائی ہے؟ ایک طاقتور حکومت سے؟ نہیں استقامتی گروہوں سے، حماس سے اور حزب اللہ وغیرہ سے شکست کھائی ہے۔ آپریشن طوفان الاقصی یہ ہے۔

ان تمام باتوں کو چھوڑ دیں، جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور جو ہم دیکھ رہے ہیں، جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین دنیا کا اولین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ 

امریکا اور دولت مند صیہونی مراکز سے وابستہ ذرائع  ابلاغ عامہ نے طویل برسوں تک اپنے پروپیگنڈوں سے فلسطین کا نام اور مسئلہ فلسطین کو تدریجی طور پر اذہان سے نکال دینے اور فراموشی کے حوالے کر دینے کی کوشش کی کہ لوگ بھول جائيں کہ فلسطین نام کی بھی کوئی چیز تھی! برسوں کوشش کی اس کام پر دولت خرچ کی، لیکن آج ان کی کوششوں کے برخلاف مسئلہ فلسطین دنیا کا اولین مسئلہ بن چکا ہے۔ لندن کی سڑکوں پر، پیرس کی سڑکوں پر، امریکا کی یونیورسٹیوں میں فلسطینی عوام کی حمایت میں اور صیہونی حکومت کے خلاف نعرے لگ رہے  ہیں۔  امریکا بھی دنیا کی اقوام کے عالمی اجماع کے سامنے دفاعی پوزیشن میں آ گیا ہے اور جلدی یا دیر میں، صیہونی حکومت کی پشت پناہی ترک کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔

البتہ غزہ کی مصیبتیں، غزہ کے المناک حوادث، نہتے عوام پر حملہ، تقریبا چالیس ہزار لوگوں کا قتل عام، تقریبا  پندرہ ہزار یا اس سے زیادہ بچوں کا قتل عام جن میں نوائیدہ اور شیرخوار بھی شامل ہیں، یہ مصیبتیں ہیں۔ یہ وہ قیمتیں ہیں جو فلسطینی قوم اپنی نجات کے لئے ادا کر رہی ہے، یہ قیمتیں چکا رہی ہے لیکن استقامت و پائیداری کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے اور استقامتی محاذ  کے مجاہدین اور عظیم رزمیہ کارنامے رقم کرنے والوں کا دفاع کر رہی ہے۔ فلسطینی قوم نے ان تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود استقامتی محاذ سے منہ نہیں موڑا ہے، روگردانی نہیں کی ہے۔ اسلامی ایمان اور قرآنی آیات پر اعتقاد کی برکت سے  استقامتی محاذ کا دفاع کر رہی ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اندازے کی غلطی کی ہے، اس نے استقامتی محاذ کی عظیم توانائیوں کا غلط تجزیہ کیا۔ آج استقامتی محاذ کے نام سے ہمارے علاقے میں ایک بڑا محاذ موجود ہے جس کی توانائیاں بہت ہیں۔ صیہونی حکومت نے اس حقیقت کو سمجھنے  میں غلطی کی ہے۔

صیہونی حکومت نے خود ہی خود کو ایک بند گلی میں پھنسا دیا ہے کہ جس میں اس کو یکے بعد دیگرے مسلسل ناکامیوں اور شکستوں کا سامنا ہوگا اور اس بند گلی سے اس کو نجات نہیں ملے گی۔

آج صیہونی حکومت دنیا کی آنکھوں کے سامنے تدریجی طور پر نابود اور ختم ہو رہی ہے۔ یہ دنیا کے عوام دیکھ رہے ہیں۔ البتہ پرپیگنڈوں میں بولتے ہیں لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ وہ خود بھی جانتے ہیں اور دنیا کے بہت سے سیاستداں بھی جانتے ہیں، بہت سی اقوام بھی سمجھ رہی ہیں اور فلسطینی قوم بھی یہ سمجھ گئی ہے۔ یہ پہلا مسئلہ ہے جس کے لئے میں نے شروع میں کہا تھا کہ اس پر گفتگو کروں گا یعنی مسئلہ فلسطین اور آپریشن طوفان الاقصی۔

  دوسرا مسئلہ ہمارے عزیزاور محنتی صدر جمہوریہ اور ان کے ساتھیوں کی غم انگیز شہادت ہے۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ اہم تھا۔ جنہیں میں قریب سے جانتا تھا، شہر تبریز کے لائق، فعال اور عوامی امام جمعہ اور صوبہ مشرقی آذربائيجان میں نمائندہ ولی فقیہ مرحوم آقائے آل ہاشم، عوام  کے ساتھ، نوجوانوں کے ساتھ، یونیورسٹی طلبا کے ساتھ، فنکاروں کے ساتھ، کھلاڑیوں کے ساتھ عام لوگوں کے ساتھ قلبی رابطہ رکھتے تھے۔ درحقیقت بہت اہم ہستی تھے۔ فعال، محنتی اور منفرد  وزیر خارجہ اور قوی مذاکرات کار مرحوم آقائے امیرعبداللّہیان۔ بعض معاملات میں میں نے ان کے مذاکرات کی رپورٹ دیکھی ہے۔ بہت ہی محکم، ذہین، اور بنیادی اصولوں کے پابند تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں میں قریب سے  پہچانتا تھا۔ دوسرے بھی اسی طرح، چاہے وہ آذربائیجان کے گورنر ہوں یا صدرمملکت کی سیکورٹی کے افراد ہوں  یا وہ تین افراد جو ہیلی کاپٹر کے عملے سے تعلق رکھتے تھے، جولوگ انہیں جانتے تھے وہ کہتے ہیں کہ بہت لائق، ممتاز اور مومن تھے۔ ان کا فقدان درحقیقت ملک کا نقصان ہے۔

مصیبت پر ہمارا ردعمل کیا ہو؟ یہ اہم ہے۔ میں اس فقدان کے بارے میں بحث کا آغاز اس نورانی آیہ شریفہ سے کروں گا کہ"ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتا بل احیاءولکن لا تشعرون۔"(6) جولوگ راہ خدا میں قتل ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو۔ یہ زندہ ہیں۔ اس آیہ کریمہ کے سیاق و سباق میں، اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، فوجی اقدام، جنگ اور قتال وغیرہ کی بات نہیں ہے۔ فرمایا ہے "فی سبیل اللہ" یہ دعوی نہیں کیا جا سکتا کہ "یقتل فی سبیل اللہ" کا مطلب میدان جنگ میں قتل ہونا ہے، اس لئے کہ اس آیہ کریمہ میں اس کا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ سورہ آل  عمران کی آیت " ولا تحسبنّ الذین  قتلوا" (7)  کیوں نہیں، یہ آیت مسائل جہاد کے بیان میں ہے۔ لیکن یہ آیت مطلق ہے۔ "جو بھی راہ خدا میں مارا جائے۔ راہ خدمت عوام، راہ خدا ہے۔ عوام کے جہادی کام کا راستہ راہ خدا ہے۔ ملک کو چلانے کا راستہ راہ خدا ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی پیشرفت کا راستہ راہ خدا ہے۔

آقائے رئیسی اور ان کے ساتھی ملک کی پیشرفت کی راہ میں، عوام کی خدمت کی راہ میں، اسلامی جمہوریہ کی سربلندی کی راہ میں مارے گئے، لہذا ان پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے۔ انہیں مردہ نہ سمجھیں۔ بل احیاء یہ زندہ ہیں۔ وہی تعبیر جو شہدا کے لئے پائی جاتی ہے۔ بنابریں انہيں ہم شہدائے خدمت سمجھتے ہیں جیسا کہ عوام کہتے ہیں، شہید جمہور اور شہید خدمت کی تعبیریں عوام کے دل سے نکلی ہیں اور بہت اہم ہیں۔ یہ واقعی ملک کے لئے بہت بڑی مصیبت تھی۔

چند جملے خود مرحوم صدر جمہوریہ کے بارے میں عرض کروں گا، اور چند جملے عوام اور اپنی قوم کے بارے میں کہ اس واقعے پر ان کا ردعمل کیا رہا۔ یہ درس ہے۔ ہمیں حوادث سے درس حاصل کرنا چاہئے۔ یہ حوادث ہمارے لئے درس ہیں۔

خود عزیز صدر جمہوریہ کے بارے میں، ان پر خدا کی رحمت ہو، سب نے اعتراف کیا کہ محنتی تھے، مرد عمل و مرد خدمت تھے، مرد صفا و صداقت تھے۔ اس کا سب نے اعتراف کیا۔ دن اور رات نہیں دیکھتے تھے۔ ملک کی خدمت میں انھوں نے نیا نصاب متعارف کرایا۔ ان سے پہلے بھی خدمت کرنے والی ہستیاں تھیں، لیکن اس حد تک، اتنی زیادہ اور اس کیفیت اور اتنی صداقت کے ساتھ نہیں۔ اتنی محنت کہ رات اور دن نہ دیکھیں، نہیں تھی، قوم کی خدمت کا یہ ایک نیا نصاب جناب آقائے رئیسی (رحمت اللہ علیہ) نے متعارف کرایا ہے۔  خارجہ مسائل میں انھوں نے مواقع سے بہت اچھی طرح استفادہ کیا۔ اتنے بیرونی اقدامات، بیرون ملک کے دوروں کے اہم اور با برکت اثرات ہیں، ملک کے آج کے لئے بھی اور کل کے لئے بھی۔ انھوں نے دنیا کے سیاستدانوں کی نگاہ میں ایران کو عظیم اور ممتاز بنایا۔ اسلامی انقلاب کو ملت ایران کو اپنے بیانات میں اور بیرون ملک اپنی گفتگو میں اچھی طرح متعارف کرایا اور پہچنوایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سیاستداں انہیں ایک ممتاز ہستی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے جو طویل برسوں سے بیرونی مسائل سے سروکار رکھتے ہیں، نئی اور اہم بات ہے۔ اپنے رفقائے  کار کے درمیان ان کا مینجمنٹ کا اپنا خصوصی طریقہ تھا جس میں خلوص تھا۔ وہ اپنے رفقائے کار کے ساتھ، وزیروں کے ساتھ، حکومتی عہدیداروں کے ساتھ خلوص اور محبت سے پیش آتے تھے۔ عوام کے لئے احترام کے قائل تھے۔ عزت کے قائل تھے۔ عوام کو نوجوانوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیتے تھے۔ عوام کی حرمت محفوظ رکھتے تھے، نوجوانوں پراعتماد کرتے تھے، نوجوانوں کی عزت کرتے تھے۔ جن لوگوں نے ان کے ساتھ برائی کی تھی،ان سے بھی احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ جن لوگوں نے ان کی توہین کی تھی، انہیں سخت اور برا جواب  دیا تھا، غصے والا جواب نہیں دیتے تھے۔ لیکن دشمنان انقلاب سے صراحت کے ساتھ دوری رکھتے تھے، انقلاب کے ساتھ برا کرنے والوں کے مخالف تھے، دشمن کے مخالف تھے، مبہم نہیں کرتے تھے، صراحت کے ساتھ بات کرتے تھے، ان کی حد بندی صریحی تھی، دشمن کی مسکراہٹ پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ یہ اہم باتیں ہیں، یہ درس ہے۔ ان میں سے ہر بات ہمارے سیاستدانوں کے لئے، ہمارے مستقبل کے صدور کے لئے، ان تمام لوگوں کے لئے جو کسی بھی طرح قوم کے اعتماد کا مرکز بنتے ہیں، نمونہ عمل ہے۔  

 ان کے فقدان کے بعد میں نے دیکھا کہ تقریبا سبھی اخبارات، سبھی جرائد، سوشل میڈیا پر، مختلف تحریکوں اور دھڑوں سے تعلق رکھنے والے مختلف لوگ ان کی رات دن کی کوششوں کی بات کر رہے ہیں، ان کی تحسین کر رہے ہیں، تعریف کر رہے ہیں تو میرا دل تڑپ گیا۔ میرا دل رئیسی کے لئے تڑپ اٹھا۔ ان میں سے بعض ان کی زندگی میں ان باتوں کا ایک جملہ بھی کہنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ ان کی زندگی میں ان باتوں کو دیکھتے تھے لیکن چھپاتے تھے بلکہ اس کے برعکس بولتے تھے اور انہیں تکلیف دیتے تھے۔ البتہ وہ زیادہ تر جواب نہیں دیتے تھے لیکن بعض اوقات میرے پاس آکر شکایت کرتے تھے۔ خداوند عالم اس عزیز ہستی کے جو کہ برکتوں کا سرچشمہ تھے، درجات بلند کرے۔ خدا ان سب کے درجات بلند کرے جو ان کے ہمراہ تھے اور ان کے لواحقین کو صبر عنایت فرمائے۔ یہ چند جملے ان عزیزوں کے بارے میں تھے۔

اب چند جملے عوام کے بارے میں۔ میری نظر میں، یہ عوام سے متعلق باب بہت ممتاز ہے۔ مصیبت بہت بھاری تھی۔ سنگین مصیبت پر ہم کیا کرتے ہیں؟ مصائب پر، چاہے وہ مصائب انفرادی اور ذاتی ہوں یا قومی ہوں، ردعمل کیسا ہوتا ہے؟ ایک ردعمل یہ ہے کہ انسان مصیبت پڑنے پر افسردہ ہو جائے۔ گوشہ نشین ہو جائے، مصیبت سے ہار جائے، مایوس ہو جائے۔ یہ مصیبت پر ایک ردعمل ہے۔ ایک رد عمل مصیبت پر یہ ہے کہ مصیبت پر صبر۔ یعنی مصیبت پر ڈٹ جانا۔ صبر کرے۔ بلکہ صبر کے ساتھ ہی مصیبت کو ایک موقع میں تبدیل کر دے، مثالی کام کرے، تلخ حادثے سے شیریں نتیجہ حاصل کرے۔ ایرانی عوام نے اس دوسرے کا انتخاب کیا۔ ایرانی عوام نے اس تلخ حادثہ پر مثالی کام کیا۔ یہ عظیم اجتماعات، ان عزیزوں کو الوداع کہنے کے لئے ایرانی قوم کے یہ عظیم الشان اجتماعات، اس کے ممتاز اور مثالی کام ہیں۔

ہماری قوم نے انقلاب کے دوران اور اس کے بعد کے برسوں میں عظیم کام بہت کئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہی ہے کہ شہید سلیمانی اور شہید رئیسی اور ایسے ہی دیگر عزیزوں کے غم میں اس کا سوگ بھی مثالی اورعظیم الشان تھا۔ تہران میں، مشہد میں، تبریز میں، قم میں، ری شہر میں، دو دن تک لگاتار زنجان میں، مراغہ میں، نجف آباد میں، بیر جند میں عوام کے یہ عظیم الشان اجتماعات، ان مثالی اور عظیم الشان اجتماعات نے ثابت کر دیا کہ یہ قوم اس طرح کی مصیبتوں پرشکست نہیں کھاتی بلکہ اس کی استقامت بڑھ جاتی ہے۔ 

ان پرجوش اجتماعات کے پیغامات تھے۔ ایک پیغام یہ تھا کہ ایرانی قوم جوش و جذبے سے پر ہے، تھکنے والی نہیں ہے، ڈٹی ہوئی ہے، زندہ ہے، مختلف حوادث پر میدان میں موجود رہتی ہے، اپنے جوش و جذبے کی نشاندہی کرتی ہے۔ دوسرا پیغام یہ ہے کہ عوام اور اعلی سطح کے حکام کے درمیان جذباتی لگاؤ اور رابطہ پایا جاتا ہے۔ اور یہ وہ  چیز ہے جو دشمن کی خواہش کے برعکس ہے۔ دشمنوں نے باہر مسلسل یہ کہا  اور افسوس کہ بعض نے ملک کے اندر اس کو دوہرایا کہ "اسلامی جمہوری نظام کے ہاتھ سے اس کا ملی سرمایہ نکل گیا " نہیں، یہ جو صدرجمہوریہ کے بچھڑ جانے پر عوام دسیوں لاکھ کی تعداد میں ‎سڑکوں پر آ گئے، یہ ملی سرمایہ ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی نقطے میں، کسی بھی ملک میں یہ نہیں دیکھا گیا ہے۔ بعض ممالک میں ایسے صدور رہے ہیں جنہیں عوام چاہتے تھے، ان کی موت پر لوگوں نے سوگ منایا، مجھے بعض واقعات یاد ہیں۔ لیکن یہاں جو ہوا، اس سے ان کا موازںہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں عوام اتنی عظمت کے ساتھ میدان میں آئے۔ یہ بے نظیر ہے۔ دنیا میں کہیں بھی یہ چیر نہیں ہے۔ یہ عوام اور حکام کا رابطہ ہے۔ عوام اور سرداران ملت کا رابطہ ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا مسئلہ تو اس سے بالکل الگ ہے۔ امام کی رحلت پر جو ہوا وہ ان باتوں سے بالاتر ہے۔ یہ ایک دوسری حقیقت تھی۔ لیکن یہی دوسرے درجے کے عہدیداران، جیسے سلیمانی، جیسے رئیسی، لوگ ان کے سلسلے میں اس طرح میدان میں آئے۔

 ان اجتماعات کا ایک اور پیغام یہ تھا کہ عوام انقلابی امنگوں کے طرفدار ہیں۔ اس کو چھپاتے بھی نہیں ہیں، چونکہ مرحوم رئیسی (رضوان اللہ علیہ) صراحت کے ساتھ انقلابی نعرے دیتے تھے، انقلابی امنگوں کے مظہر تھے، اس لئے جب عوام ان کی تعریف کرتے ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں تو درحقیقت انقلابی امنگوں سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں اس لئے کہ وہ  انقلابی امنگوں کے مظہر تھے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ عوام خدمت کرنے والوں کے قدردان ہیں۔ حکام یہ جان لیں اور اس پر توجہ رکھیں۔ حکام یہ نہ سمجھیں کہ اگر انھوں نے خدمت کی تو عوام اس کو بھول جائيں گے۔ نہیں عوام پہچانتے ہیں، سمجھتے ہیں، قدر کرتے ہیں اور خدمت گزار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

عوام کے اجتماعات کی یہ باتیں علاقے کے سیاسی امور پراثر انداز ہوں گی۔ علاقے میں طاقت کے اظہار اور طاقت کی تقسیم پر اثر انداز ہوں گی۔ دنیا کے بڑے سیاستداں اور سیاسی تجزیہ نگار دیکھیں کہ اس جوش و جذبے کے ساتھ، میدان میں اس موجودگی اور آمادگی کے ساتھ یہ ملت ایران ہے۔ یہ باتیں ایران اور ایرانیوں کے حقائق دنیا والوں کے سامنے بیان کرتی ہیں۔  

ایک اوربات جو اہم ہے، یہ ہے کہ ملک نے صدر جمہوریہ کو کھو دینے کے بعد بھی سکون اور سلامتی کو پوری طرح محفوظ رکھا۔ 

خواہران و برادران عزیز! میری گزارشات ختم ہوئيں۔ چند جملے انتخابات کے بارے میں عرض کروں گا۔ ہمارے سامنے جو انتخابات ہیں وہ بہت عظیم ہیں۔ یہ انتخابات برکات کے حامل ہیں۔ ہمارے سامنے جو انتخابات ہیں، ان شاء اللہ اگر اچھی طرح عظمت وشکوہ کے ساتھ منعقد ہوئے تو یہ ملت ایران کے لئے بہت بڑی کامیابی پر منتج ہوں گے۔ یہ بات کہ ایک تلخ حادثے کے بعد آئندہ سربراہ مملکت عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہو، دنیا پر اس کا غیر معمولی اثر ہوگا لہذا یہ انتخابات بہت اہم ہیں۔ انتخابات کے عظیم کارنامے سے شہیدوں کو عظیم الشان انداز میں الوداع کہنے کے مثالی اور عظیم الشان کارنامے کی تکمیل ہوگی۔

ایرانی قوم کو پیچیدہ  بین الاقوامی معاملات میں اپنے مفادات کی حفاظت کرنے، اپنی اسٹریٹیجک گہرائیوں کو مستحکم تر کرنے، اپنی قدرتی اور انسانی استعدادوں کو ظہور اور بروئے کارلانے کے مرحلے تک پہنچانے کے لئے، عوام کو خوشیاں دینے کے لئے اور اسی طرح اقتصادی، معاشی اور ثقافتی خلاؤں کو پر کرنے کے لئے ایک فعال، محنتی،باخبراور انقلاب کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھنے والے صدر جمہوریہ کی ضرورت ہے۔

 میری سفارشات کو بھی سن لیں: یہ عظیم کام جو ہمارے سامنے ہے، امیدواروں کے درمیان رقابت میں اخلاق کی بالادستی باقی رہنی چاہئے۔ برائي  کرنا، تہمت لگانا، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا، کام کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں کرتا بلکہ ملی عزت و آبرو کو نقصان پہنچاتا ہے۔ انتخابات کا میدان، عزت و قار کا میدان ہے، عوام کی خدمت میں مسابقت کا میدان ہے، کش مکش اور اقتدار حاصل کرنے کا میدان نہیں ہے۔ جو برادران انتخابی مسابقت کے میدان میں اتر رہے ہیں، وہ اس کو اپنا فریضہ سمجھیں۔ اپنے فریضے پر عمل کریں، خداوند عالم لوگوں کے دلوں کی ان  شاء اللہ  ہدایت فرمائے گا کہ وہ بہترین کا انتخاب کریں اور ان شاء اللہ ایرانی قوم کے لئے ایک لائق صدر منتخب ہوگا۔ 

 والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1۔ اس پروگرام میں جو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے مزار اقدس پر منعقد ہوا،  پہلے روضہ امام خمینی کے متولی حجت الاسلام سید حسن خمینی نے تقریر کی

2۔ ہیلی کاپٹرسانحے کی طرف اشارہ جس میں صدر حجت الاسلام والمسلمین سید ابراہیم رئیسی،  وزیر خارجہ آقائے حسین امیر عبداللّہیان، صوبہ مشرقی آذربائیجان میں نمائندہ ولی فقیہ حجت الاسلام والمسلمین سید محمدعلی آل ہاشم، صوبہ مشرقی آذربائیجان کے گورنر آقائے مالک رحمتی، صدر کی سیکورٹی ٹیم کے کمانڈر بریگیڈیئرسید مہدی موسوی،  بریگیڈیئرپائلٹ سید طاہر مصطفوی، پائلٹ محسن دریا نوش اور انجینیئر کرنل بہروز قدیمی شہید ہوگئے تھے۔    

3۔ صحیفہ امام جلد 2 صفحہ 130 ۔ 16-4-1967 کو قم، مشہد اور تہران کے دینی مدارس کے لئے پیغام

4۔ صحیفہ امام، جلد 21 صفحہ 220 یکم جنوری 1988 کو میخائیل گوربا چف کے نام پیغام

5۔ دس اکتوبر2023 کو مسلح افواج کی کیڈٹ یونیورسٹیوں کی سالانہ مشترکہ پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب، یکم نومبر 2023 کو عالمی سامرج  کے خلاف مجاہدت کے قومی دن پر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا کی ایک جماعت سے خطاب اور29 نومبر 2023 کو ہفتہ بسیج کی مناسبت سے ملک کے بسیجی رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب

6۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 156

7۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 169 " جولوگ راہ خدا میں قتل کئے گئے انہیں مردہ ہرگز نہ سمجھو۔۔۔۔۔"