الرشید کی پتلی ساحلی سڑک پر ایک بار پھر لوگوں کا ہجوم تھا جو اپنی زندگی کا بچا کچھا اثاثہ پلاسٹک کی تھیلیوں اور بوریوں میں ڈال کر وہاں سے ہجرت کر رہے تھے۔ ان تھکے ماندے لوگوں کے چہرے جنگ کے مصائب سے ضعیف سے دکھائی دینے لگے تھے تاہم دو سال کے اس عرصے میں غزہ کے لوگوں نے جو ہزاروں مصائب برداشت کیے تھے، یہ ہجرت، ان میں سے ایک تھی۔ جبالیا سے خان یونس، خان یونس سے رفح، رفح سے النصیرات وغیرہ وغیرہ۔ جبری ہجرت اور جلاوطنی کا یہ سلسلہ بار بار دوہرایا جا رہا تھا۔
اس عظیم خاتون کی تاریخ، رسالت کی تاریخ سے پوری طرح وابستہ ہے۔ پیغمبر گرامی کے آغاز رسالت کے کچھ ہی عرصے بعد اس عظیم ہستی نے طلوع کیا اور رسالت و پیغمبر اکرم کی رحلت کے کچھ ہی عرصے بعد ان کا غروب ہو گیا، مطلب یہ کہ ان کی زندگي پوری طرح عرصۂ رسالت کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔
امیر المومنین علیہ السلام تاریک اور اندھیری رات میں پیغمبر کے بستر پر سونے کے لیے تیار ہو گئے تاکہ پیغمبر اس گھر اور اس شہر سے باہر نکل جائيں۔ اس رات، اس بستر پر سونے والے کا مارا جانا، قریب قریب یقینی اور قطعی تھا۔