البتہ اس بار صورتحال کچھ الگ تھی۔ اس بار یہ لوگ اپنے نیم جاں جسموں کو جنگ کی تاریکی سے اپنے گھروں تک لا رہے تھے۔ اس بار ان کی ہجرت جبری نہیں تھی، یہ خود فتح تھی، یہ خود مزاحمت تھی! جو غزہ کی گلیوں میں قدم بڑھا رہی تھی۔ جنگ بندی کے اگلے دن النصیرات کیمپ میں شاید ہی کوئی رہ گیا ہو۔ پانچ لاکھ افراد، جو ایک مکمل نسل کشی سے زندہ بچ نکلے تھے، پیدل ہی غزہ کے مختلف گوشہ و کنار سے شمال اور مرکز کی طرف چل پڑے۔ پانچ لاکھ افراد، جنھوں نے ایک بار پھر طوفان برپا کر دیا، شاید اس طوفان سے بھی بڑا جس کا نام طوفان الاقصیٰ تھا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ انھیں پتہ نہیں تھا کہ غزہ میں کوئی گھر صحیح سلامت نہیں بچا ہے؟! یا سڑکیں ایسی ہو گئی ہیں جیسے ان پر ہل چلا دیا گیا ہو اور ملبہ ایسا ہے جیسے اس نے زمین و آسمان کو آپس میں جوڑ دیا ہے؟! کیا آپ کو لگتا ہے انھیں یہ یاد نہ تھا کہ ان کے اہل خانہ اس ملبے تلے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہیں جسے وہ کبھی 'گھر' کہتے تھے اور ان کے زیتون اور مالٹے کے درختوں کا کوئی نام و نشان نہیں بچا؟! انھیں معلوم تھا... انھیں پتہ تھا کہ اسرائیل نے واپسی کے راستے میں ان کے لیے ہر انچ پر موت کے جال بچھا رکھے ہیں، استعمال شدہ کھانے کے ٹن کے ڈبوں میں، بچوں کے پلاسٹک کے فٹبالوں میں یا لیڈیز بیگوں میں۔ وہ جانتے تھے کہ بیت حانون کی ہریالی اور اس کے بے شمار زیتون کے درختوں کے بجائے صرف راکھ اور کنکریٹ ہے۔ وہ، یہ سب جانتے تھے لیکن زندگی کی صدائے بازگشت ان سب سے بلند تھی، اس ہاتھ گاڑی کی آواز، جس پر سات آٹھ خاندانوں کا سامان لدا ہوا تھا اور وہ شجاعیہ کی طرف جا رہی تھی۔ بچوں کا شور اور غزہ کی بنجر بنا دی گئی زمین پر پرانے جوتوں اور چپلوں کی آواز ... جو کچھ بھی تھا، زندگی کی آواز سب سے بلند تھی!

غزہ میں گویا زندگی کے لیے موت نہیں ہے، چاہے تم پورے شہر کو اس طرح قبرستان میں بدل دو کہ راستوں کے ماہر بھی راستہ نہ پہچان سکیں اور سڑک کے کناروں سے انسانوں کی بوسیدہ ہڈیاں تمھارے قدموں تلے چٹخنے لگیں، تب بھی زندگی کسی بھی دوسری جگہ سے زیادہ پرنشاط طریقے سے کونپلیں دیتی ہے۔ غزہ والے زندگی کے لائق ہیں بلکہ یوں کہیے کہ زندگی درحقیقت یہی لوگ ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنھیں کوئی موت مار نہیں سکتی اور نہ ہی کوئی جنگ ختم کر سکتی ہے، جیسا کہ غزہ کے رپورٹر صالح الجعفراوی نے اپنی شہادت کے آخری لمحات میں کہا تھا: "خدا کی قسم! تمھیں اس قوم کے عزم کو توڑنے کے لیے دس لاکھ سال درکار ہوں گے اور پھر بھی تم یہ نہیں کر سکو گے۔ جنگ بندی کے دوسرے دن ہی بلڈوزر راستے کھولنے آ گئے تھے اور لوگوں نے انتظار نہیں کیا۔ انھوں نے خود ہی اپنے گھر بنانے شروع کر دیے، وہ ان کی تعمیر نو کر رہے ہیں اور ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ مرحبا اے قوم! خدا کی قسم! ہم زندگی کے مستحق ہیں ..."

ان لوگوں کے لیے اپنی سرزمین اور اپنے وقار کے سوا کسی اور چیز کی کوئی قیمت نہیں۔ جب تک یہ سرزمین موجود ہے، اس پر ہزار بار گھر بنائے جا سکتے ہیں۔ اسی لیے اس بار اگر آپ ان کی صفوں پر نظر دوڑائيں تو دیکھیں گے کہ ان کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اور آزادی کے ترانے بند نہیں ہوتے اور ان کے ہاتھ فتح کے نشان کے علاوہ کچھ نہیں دکھاتے ... یہ صحیح بھی ہے کیونکہ اگر آپ بغور دیکھیں تو یہ جنگ بندی نہیں بلکہ ایک مکمل فتح ہے۔ پورے دو سال تک اسرائیل کی نسل کشی کی مشینری نے اربوں ڈالر خرچ کیے اور ستر ہزار ٹن بم ان لوگوں پر برسائے تاکہ ان سے زندگی چھین لے، اس نے اجتماعی ایذا رسانی کے سب سے غیر انسانی طریقے استعمال کیے تاکہ گھر واپسی کا راستہ ان کے لیے بند ہو جائے اور وہ اپنی سرزمین چھوڑ دیں لیکن آخرکار طویل عرصے کی اس آخری زمانے کی جنگ کے بعد، یہ غزہ والے ہیں جو اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور ان کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔

اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میرا جواب ہوگا کہ غزہ عجائبات کی سرزمین ہے! وہ گھر، جن میں لوٹنے کا غزہ والوں کو بے انتہا اشتیاق ہے، سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ یہ تو سیمنٹ کے بلاکس اور لوہے کے چھوٹے بڑے ٹکڑوں کا ایک ڈھیر ہے جسے انھوں نے خود "پتھریلا صحرا" نام دے رکھا ہے! یہ کیمپ جیسا نہیں جہاں قلیل مقدار میں ہی سہی، پانی اور بجلی ہو، یہاں تک کہ اس شہر کے محلوں میں کھانا بھی نہیں ملتا لیکن پھر بھی وہ ہنستے رہتے ہیں، تباہ حال سڑکوں کے پتھروں پر سجدۂ شکر بجالاتے ہیں اور کہتے ہیں: الحمد للہ، گھر کے لیے ...

البتہ یہ بھی ان کا ورثہ ہے جو انھیں اپنے آبا و اجداد سے ملا ہے۔ گھر واپسی! ان کی زندگی کے انسائیکلوپیڈیا میں اگرچہ ایک سادہ سی چیز ہے لیکن فتح کا درجہ رکھتی ہے؛ اس کی گواہ وہ چابیاں ہیں جو 1948 سے اب تک ان کے بزرگوں کی جیبوں میں محفوظ ہیں اور ان کی نانیوں اور دادیوں کے اسکارف کے گوشوں سے بندھی ہوئی ہیں۔ ان کی جڑیں فلسطین کے گلی کوچوں میں پیوست ہیں، ایسی جڑیں جنھیں اکھاڑنے کے لیے اسرائیل نے دو سال تک غزہ کی ہر انچ زمین کو کھود دیا لیکن وہ ان لوگوں کی روح اور جڑوں کی گہرائی تک کبھی نہ پہنچ سکا اور آج اس نے وہی کھدے اور اجڑے ہوئے محلّوں کو پھر سے اپنے ہاتھوں سے، غزہ کے لوگوں کے حوالے کر دیا ہے۔

اب وہ پانچ لاکھ افراد اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں، اگرچہ راستہ دشوار گزار اور روح فرسا تھا۔ کبھی ایک بوسیدہ لاش، جو مٹی سے باہر آ گئی تھی، جنگ کی ساری تکلیفوں کو پھر سے تازہ کر دیتی تھی اور پانی اور خوراک کی قلت اب بھی نسل کشی سے بچ جانے والوں کے نحیف و لاغر جسموں کو تکلیف پہنچا رہی تھی لیکن مزاحمت کے ہیروز نے راستے کی دشواریوں کو ہنسی خوشی برداشت کیا اور واپس آ گئے۔

افسوس کہ حقیقت یہ ہے کہ غزہ پٹی میں 90 فیصد سے زیادہ گھر جنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ جیسے تین بچوں کی ماں، 50 سالہ فلسطینی خاتون سہیر العبسی کا گھر، جو جب شیخ رضوان محلے میں پہنچیں تو وہ اپنے گھر کا ملبہ تک پہچاننے سے قاصر تھیں۔ انھیں پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ گرے ہوئے ستونوں اور بڑے بڑے پتھروں کے درمیان کون سا گھر ان کا ہے؟ انھیں کے الفاظ میں، ایسا لگتا تھا جیسے محلے کے درمیان ایک ایٹم بم گرا دیا گیا ہو۔

پورا محلہ اسی طرح کھنڈر بن چکا تھا، کنکریٹ کا ایک ستون تک صحیح سالم نہیں بچا تھا لیکن سہیر اور ان کے پڑوسی اپنے گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے ملبے پر خیمہ نصب کر دیا ہے، کپڑوں کے ٹکڑوں سے سائبان بنا لیا ہے اور یہی زندگی کے لیے ان کا چھوٹا محل بن گیا ہے۔ آپ ان سے بات کریں تو وہ کہتی ہیں: "میں اسی تباہ شدہ علاقے میں رہوں گی، جہاں میں پلی بڑھی ہوں۔ ایک شخص صرف اسی جگہ پر تحفظ اور سکون محسوس کر سکتا ہے جہاں سے اس کا تعلق ہے۔"

غزہ کے سبھی لوگوں کا یہی کہنا ہے۔ ان سے اس کے علاوہ کسی اور بات کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ وہ لوگ، جو اپنے اہل خانہ کی اجتماعی شہادت پر بھی نہیں ٹوٹے اور "حسبی اللہ" (میرے  لیے اللہ کافی ہے) کے طلائی ذکر کے ساتھ مزاحمت کرتے رہے، بڑی سادہ لوحی ہوگی کہ اگر آپ یہ سوچیں کہ وہ لوہے اور پتھر کے چند ٹکڑوں کے لیے سوگ منائیں گے۔ اب "ہم اپنا گھر دوبارہ تعمیر کریں گے" ان کے "حسبی اللہ و نعم الوکیل" کے نعرے کے ساتھ جڑ چکا ہے اور وہ اپنے گھر میں ہی رہنے اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا عزم لیے ہوئے ہیں۔

اور وہ صحیح کہتے ہیں، فلسطینی رہنے اور تعمیر کرنے کے لیے بہت صبر رکھتے ہیں۔ اس کی گواہ غزہ کی مواید جیسی نوجوان لڑکی ہے۔ وہی جو جنوری 2025 میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد اپنے محلے میں واپس آئی اور اپنے جزوی طور پر تباہ شدہ گھر کو دوبارہ تعمیر کیا۔ وہ گھر جو اب مکمل طور پر زمین پر بکھرے ہوئے پتھروں کا ڈھیر ہے، لیکن وہ پھر بھی کہتی ہے: ہم تعمیر کریں گے!!!

یہاں غزہ کی خواتین کا کردار پھر سے عیاں ہوتا ہے، وہی خواتین جنھوں نے پوری جنگ کے دوران زندگی کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا تاکہ اس قبرستان میں کسی کو مایوسی اور موت کی تلخی محسوس نہ ہو۔ ان دنوں غزہ کی گلی کوچوں میں، خواتین زندگی کو ایک ایک کر کے اپنے گھروں کے ملبے سے نکال رہی ہیں، ایک عطر کی بوتل جو اب بھی سانس لے رہی ہے، ایک کپڑا جو جنگ میں محفوظ رہ گیا، ایک ہانڈی جو چٹخ گئی ہے لیکن اب بھی کھانے کا بوجھ اٹھا سکتی ہے اور چولھے پر بیٹھ سکتی ہے ... پھر وہ عمارت کے کوڑے کو اکٹھا کرتی ہیں اور گھر کے باقی بچے اسی ایک کمرے کو زندگی کے ایسے رنگوں سے سجا دیتی ہیں کہ جیسے کبھی کوئی میزائل اس گھر پر گرا ہی نہیں تھا۔

البتہ گھر واپسی کچھ لوگوں کے لیے زیادہ دردناک ہے، ان لوگوں کے لیے جن کی پوری فیملی گھر کے ملبے تلے دفن ہے، اور اس سے پہلے جنگ نے انھیں بھاری کنکریٹ اور لوہے کے ٹکڑوں کو ہٹا کر اپنی فیملی کو دوبارہ اکٹھا کرنے کا موقع ہی نہیں دیا، البتہ اس بار ان کی لاشوں کو۔ مثال کے طور پر ایک جوان لڑکی لینا کے لیے، جو اپنی فیملی کی زندہ بچ جانے والی واحد فرد ہے۔ وہ ہر دن اپنے گھر کے ملبے کے پاس بیٹھ کر ملبے میں دبے اپنی فیملی کے ایک ایک رکن کو آواز دیتی ہے: "امی، مینا، دعا، عبدو ..." اور پھر اس کا کبھی نہ ختم ہونے والا غم آنسو کی صورت اس کی آنکھوں سے رواں ہو جاتا ہے۔ لینا جیسے لوگ غزہ میں بہت ہیں بلکہ کیا آج غزہ میں کوئی ایسا بھی ہے جس کا کوئی عزیز ملبے تلے دبا ہوا نہ ہو؟

بات اس وقت اور بھی تلخ ہو جاتی ہے جب آپ گھر کے مختلف گوشوں میں اپنی ماں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے پاتے ہیں یا اپنے بچے کے جلے ہوئے جسم کا ایک حصہ کسی پتھر پر دیکھتے ہیں! یہ منظر غزہ میں بار بار دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بات ناقابل یقین ہے کہ اگر کہا جائے کہ غزہ کے لوگ اسی قبرستان میں بھی قدم قدم پر زندگی کی رسمیں نبھا رہے ہیں، وہ لکڑیاں اکٹھا کرتے ہیں، پانی ابالتے ہیں اور چائے بناتے ہیں۔ وہ چائے بنا رہے ہیں اور زندگی گزار رہے ہیں۔ غزہ میں زندگی جاری ہے کیونکہ حق کی راہ میں موت نہیں ہوتی اور جو کچھ بھی ہوتا ہے، وہ زندگی ہے۔

 

تحریر: زینب ناد علی، صحافی