"اس جنگ کے اہم نکات میں سے ایک رہبر معظم کی تدابیر تھیں۔ انھوں نے پہلے دن سے ہی بہت غور سے امور پر نظر رکھی، تدبیر کی، کمانڈروں کو مقرر کیا، جنگی امور کی انجام دہی کی اور عوام سے بات کی۔ لہٰذا ان حالات میں، اس رہنما اور اس رہبر کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے، البتہ اس بات کا عقلی پہلو بھی بہت مضبوط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سیاسی معاملات میں لوگوں کی مختلف آراء ہوں لیکن جب ہم ایک بڑے بحران میں ہوں تو ہمیں ضرور اس شخص کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جو رہبر ہے اور درحقیقت جنگ کی قیادت کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ زمانے کے حالات کی سمجھ کا ایک اہم حصہ ہے۔"
سلامتی کونسل کے رکن ایک رہنما سے میں نے کہا کہ جب وہ ہم پر حملہ کرتے ہیں اور آپ لوگ جو سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں، کچھ نہیں کرتے، تو پھر یہ بین الاقوامی قوانین کس لیے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ قوانین فضول ہیں، اس لیے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم کا مطلب طاقت ہے!
اگر ڈپلومیسی اس لیے ہو کہ ہمیں جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم صلح کرنا چاہتے ہیں تو یہی حقیقی ڈپلومیسی ہے۔ میں اس وقت حالات کو اس طرح نہیں پاتا، یعنی مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ جو ڈپلومیسی اختیار کیے ہوئے ہیں وہ بہانے پیدا کرنے کی ڈپلومیسی ہے۔
رہبر انقلاب کی ویب سائٹ KHAMENEI.IR نے صیہونی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ حالیہ بارہ روزہ جنگ کے تجزیے کے تناظر میں رہبر انقلاب اسلامی کے مشیر، اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری اور اس کونسل میں رہبر انقلاب کے نمائندے ڈاکٹر علی لاریجانی سے ایک انٹرویو میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ اس گفتگو میں صیہونی حکومت کے ساتھ فائر بندی کے دوران سامنے آنے والے واقعات، ان ایام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے موجود چیلنجز اور انھیں کنٹرول کرنے کے طریقوں پر بات ہوئی۔