رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی جانب سے مسلط کردہ حالیہ جنگ میں شہید ہونے والوں کے چہلم کے موقع پر منعقدہ مجلس ترحیم میں اپنے خطاب کے دوران اس جنگ میں جو کچھ ہوا اس پر ایک بار پھر روشنی ڈالی اور اس جنگ میں ایرانی قوم کی فتح کو ایک عظیم افتخار قرار دیا۔ انھوں نے زور دے کر کہا: "یہ واقعات اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے نئے نہیں تھے۔ ابتدائے انقلاب سے بارہا، اس طرح کے واقعات کا سامنا ہوا ہے، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے علاوہ مختلف قسم کے فتنے کھڑے کئے گئے، ملت ایران کے مقابلے میں کمزور ارادے کے لوگوں کو کھڑا کیا گیا، انواع و اقسام کے فوجی، سیاسی اور سیکورٹی کے فتنے کھڑے کئے گئے اور بغاوت کی کوشش کی گئی لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے سب پر غلبہ حاصل کیا۔ 45 برس (سے زائد ) کے اس عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے سختیاں برداشت کیں لیکن سبھی سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے سبھی میدانوں میں دشمنوں کو مغلوب کیا۔ جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس بات پر توجہ رکھیں کہ ایران اسلامی، دین اور دانش کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ دو بنیادی عناصر دین اور دانش نے اسلامی جمہوریہ کو تشکیل دیا ہے۔ اسی بناپر ہمارے عوام کے دین اور نوجوانوں کی دانش نے مختلف میدانوں میں دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔" (2025/7/29)
اس بنا پر رہبر انقلاب کی ویب سائٹKHAMENEI.IR نے صیہونی حکومت کی طرف سے حالیہ مسلط کردہ بارہ روزہ جنگ میں اسلامی جمہوریۂ ایران کی فتح اور ملک کی قیادت میں رہبر انقلاب اسلامی کے کردار کے جامع تجزیے کے لیے "روایت فتح" کے عنوان سے انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں ملک کے مختلف شعبوں کے ماہرین سے گفتگو کی گئی ہے۔
زیر نظر انٹرویو رہبر انقلاب کے مشیر، اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری اور اس کونسل میں رہبر انقلاب کے نمائندے، جناب ڈاکٹر علی لاریجانی کا ہے۔ انھوں نے KHAMENEI.IR سے اس تفصیلی انٹرویو میں، جنگ بندی کے دوران صیہونی حکومت کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے سامنے موجود مسائل اور چیلنجز منجملہ: جوہری مذاکرات، اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے فرائض، مزاحمتی محاذ کے مسئلے، اسنیپ بیک میکنزم کی صورتحال، دفاعی خامیوں کے دور کرنے اور فوجی حملے کی صلاحیت کی تقویت اور اسی طرح کے کچھ دیگر مسائل پر روشنی ڈالی ہے، اس انٹرویو کا متن حسب ذیل ہے۔
سوال: سب سے پہلے یہ بتائيے موجودہ حالات میں، جب آپ کو یہ نئي ذمہ داری سونپی گئي ہے، اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے ذمہ کون سا اہم فریضہ ہے؟ کیونکہ چیلنجز مختلف ہیں اور انھیں دیکھتے ہوئے کیا اس سلسلے میں ڈھانچے میں، طرز عمل میں یا رویے میں آپ کچھ تبدیلیاں کریں گے؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ میں کہوں گا کہ اس کونسل کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ چیلنجز کو اس طرح منظم کرے کہ جس کے نتیجے میں قومی ترقی کے لیے ایک پرسکون ماحول بنے اور عوام اپنی امید اور پلاننگ کے مطابق زندگی گزار سکیں، کیونکہ چیلنجز ہمیشہ رہتے ہیں؛ ہو سکتا ہے آج جنگ دیگر معاملات کی صورت میں ہو، کل کچھ دیگر معاملات رہے ہوں، علاقائی مسائل ہیں، بین الاقوامی مسائل بھی ہیں۔ آخر میں، ڈپلومیسی کے میدان میں مہارت اور مزاحمتی فورسز اور عسکری فورسز کے حالات ان کے ایک دوسرے سے مل جانے کے متقاضی ہوں تاکہ ملک کے قومی مفادات کا تحفظ ہو سکے اور درحقیقت، ملک اور حکومت کے لیے ترقی یا پیشرفت کا متوازن راستہ فراہم ہو سکے۔ ظاہر ہے اب چونکہ ہم ایک جنگ میں الجھے ہوئے ہیں اور فی الحال فائر بندی کی حالت ہے، لہٰذا یہ ایک اہم موضوع ہے جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے اور ایسی صلاحیتیں پیدا کرنی چاہیے کہ دشمن دوبارہ کارروائی کی جرئت نہ کر سکے؛ اسی کے ساتھ اس کونسل کے سامنے جوہری مسائل، علاقائی معاملات اور دیگر مسائل بھی ہیں۔
سوال: اس تیاری کے لیے کونسل کی کیا تدابیر ہیں؟ شاید یوں کہنا بہتر ہوگا: ممکنہ طور پر ان دنوں وہ افراد جن تک آپ کی کسی نہ کسی طرح رسائی ہے، ان کا پہلا سوال یہ ہے کہ دوبارہ جنگ ہوگی یا نہیں؟ آج کا عام سؤال یہی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنا تیار ہیں؟
جواب: اس سوال کا جواب کسی حد تک ہم سے متعلق ہے اور کسی حد تک دشمن سے متعلق ہے، کیونکہ تمام معاملات ہمارے ہاتھ میں نہیں ہیں؛ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ دیکھنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے، جو کیے جا سکتے ہیں، جنگ کو کیسے پسپا کیا جا سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں کئی عوامل مؤثر ہو سکتے ہیں۔
پہلا مسئلہ قومی یکجہتی ہے، جیسا کہ بارہ روزہ جنگ میں بھی قومی یکجہتی کا مسئلہ واقعی بہت مؤثر تھا۔ یہ کہ ان دنوں میں ایرانیوں کا ادراک بہت اعلیٰ قسم کا تھا اور انھوں نے دشمن اور حریف کا صحیح تجزیہ کیا اور تمام اختلاف آراء کے باوجود، اس بات کو قبول کیا کہ ایران اور ایران کے مفادات کا دفاع کرنا چاہیے، یہ بہت بڑی ذہانت ہے۔ اس کی حفاظت کی جانی چاہیے؛ اس معنی میں کہ حکومت، قوم اور سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ یکجہتی اور ہم آہنگی قائم رہے۔ یہ ایک نکتہ ہوا۔ ہم نے جو دورے کیے، ان میں سے ایک میں، ایک ملک کے رہنما نے کہا تھا کہ دنیا نے ایرانیوں کی اس قومی یکجہتی کو محسوس کیا! لہٰذا یہ ایک قومی سرمایہ ہے اور اس کی حفاظت کے مختلف عوامل ہیں جن پر میں ابھی آپ کا وقت نہیں لینا چاہتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پائیداری کے اہم عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ عوام کو اپنی زندگی میں ایک کمترین سطح کی سہی، سہولیات حاصل رہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جنگ ہے، لیکن پھر بھی عوام کی زندگي کے امور کو اس طرح چلانا چاہیے کہ ان میں پائیداری رہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ایک ہے جن پر ہم اس وقت بات کر رہے ہیں اور میرے خیال میں حکومت اور خود صدر مملکت بھی اس معاملے کے پابند ہیں اور توجہ دیتے ہیں اور اسے انصاف کا ایک حصہ یہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا، عوام کی ضروریات کی ایک سطح کو اچھی طرح پورا کیا جانا چاہیے جو کہ غیر جنگی حالات میں ایک طرح سے ہے اور جنگی حالات میں دوسری طرح سے ہے۔ یہ دوسرا نکتہ بھی ہے جس کے بارے میں میرے خیال میں چارہ جوئی کی جانی چاہیے۔
اگلا نکتہ فوجی وسائل کی حفاظت اور پیشرفت ہے۔ ہمارے پاس اچھے وسائل تھے جبھی تو دشمن، خود ہی جنگ شروع کرنے کے باوجود جنگ کے خاتمے کے لیے چھٹپٹانے لگا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ باہر پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ہم بہت کامیاب رہے لیکن تقریباً تمام اہم ممالک اور اقوام نے اس بات کو سمجھ لیا کہ ہمارا دشمن اس جنگ میں اسٹریٹجک شکست کھا گیا، جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ یہ بات ایران کے لیے بھی مفید ہے اور دشمن کے لیے بھی ترغیب دلانے والی ہو سکتی ہے کیونکہ جو دشمن اسٹریٹجک طور پر کامیاب نہیں ہوا، وہ فطری طور پر اس بات کی کوشش کرے گا کہ کسی طرح دوبارہ کامیابی حاصل کر لے۔ اسے مایوس کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس طرح سے کہ ہمیں ملک کے فوجی وسائل اور سلامتی کے وسائل کو بہتر بنانا ہوگا اور ہمارے کام میں جو کچھ خامیاں تھیں انھیں دور کرنا ہوگا۔ تو ہمارا کچھ وقت اس پر صرف ہوگا کہ ہماری خامیاں کہاں تھیں، انھیں دقت نظر اور حقیقت بینی کے ساتھ دیکھیں اور پھر خامیوں کو دور کریں اور اپنے وسائل کو زیادہ مضبوط بنائیں۔ تو یہ بھی کام کا ایک حصہ ہے۔
میری سفارش واقعی یہ ہے کہ ملک کے اندر اس نکتے پر توجہ دی جائے کہ ہماری جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے؛ سیاسی دھڑوں کے ساتھ ساتھ وہ افراد بھی جن کے پاس پلیٹ فارم ہیں، اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم ایک اہم پوزیشن میں ہیں۔ البتہ ایران کی ڈیٹرنس کی صلاحیت بھی بہت زیادہ ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اس وقت جنگ ہو رہی ہے لیکن ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ایک جنگ شروع ہو چکی ہے اور اس جنگ میں ابھی صرف فائر بندی ہوئی ہے؛ لہٰذا ہمیں تیار رہنا چاہیے اور اپنی یکجہتی برقرار رکھنی چاہیے۔
بہر حال، اس جنگ کے اہم نکات میں سے ایک رہبر معظم کی تدابیر تھیں۔ انھوں نے پہلے دن سے ہی بہت غور سے امور پر نظر رکھی، تدبیر کی، کمانڈروں کو مقرر کیا، جنگی امور کی انجام دہی کی اور عوام سے بات کی۔ لہٰذا ان حالات میں، اس رہنما اور اس رہبر کی مکمل حمایت کی جانی چاہیے، البتہ اس بات کا عقلی پہلو بھی بہت مضبوط ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ سیاسی معاملات میں لوگوں کی مختلف آراء ہوں لیکن جب ہم ایک بڑے بحران میں ہوں تو ہمیں ضرور اس شخص کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے جو رہبر ہے اور درحقیقت جنگ کی قیادت کر رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ زمانے کے حالات کی سمجھ کا ایک اہم حصہ ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اختلاف رائے نہیں ہے؛ معاشرے میں اختلافات بہت ہو سکتے ہیں، سیاست دانوں کے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں، جماعتوں کے بھی اختلافات ہو سکتے ہیں؛ مسئلہ یہ ہے کہ زمان و مکان کے حالات اور اس صورتحال سے بے خبر نہیں ہونا چاہیے جس میں عوام ہیں کیونکہ یہ چیز کبھی کبھی ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے جو دشمن کو ہمارے خلاف کارروائی کے لیے ترغیب دلاتے ہیں۔ لہٰذا یہ پہلو بھی میرے خیال میں اہم ہے اور اس پر توجہ دینی چاہیے۔
سوال: کیا اعلیٰ قومی سلامتی کونسل اس لحاظ سے بھی کسی طرح معاملات میں داخل ہو سکتی ہے؟
جواب: اعلیٰ قومی سیکورٹی کونسل کے پاس ہمیشہ اس سلسلے میں میکینزم موجود رہے ہیں، اس سلسلے میں کچھ باتیں منظور بھی ہوئی ہیں؛ لہٰذا ضروری نہیں کہ پھر سے کچھ چیزیں منظور کی جائيں کیونکہ یہ پہلے سے موجود تھیں اور مجھے علم ہے کہ ماضی میں بھی وہ اس سمت میں کام کر رہے تھے؛ یعنی اہم بات یہ ہے کہ یہ میکینزم اپنی سرگرمیاں انجام دے؛ مطلب، ماہرین، صحافیوں اور اہل قلم کے ساتھ رابطہ رکھے اور انھیں قائل کرے۔ ہم نے ماضی میں بھی یہ میٹنگیں کیں اور ان کے لیے حالات کی وضاحت کی۔ البتہ میرے خیال میں ان میں سے اکثر افراد میں فکری پختگی بھی موجود ہے؛ جب ان کے لیے اچھی طرح سے حالات کی وضاحت کر دی جاتی ہے تو وہ اصولی فیصلے کرتے ہیں۔
سوال: یہ بات صحیح ہے کہ دشمن اس جنگ میں اسٹریٹیجک شکست سے دوچار ہوا لیکن ہمارے یہاں بھی فوجی معاملات اور کچھ دیگر معاملات میں ٹیکٹکل اور حقیقی میدان میں کمیاں تھیں۔ چونکہ اس سلسلے میں نظام کی منصوبہ بندی کا مرکز اعلیٰ قومی سلامتی کونسل ہے اس لیے شاید رائے عامہ اس بات کی خواہاں ہو کہ ممکنہ حد تک اسے ایک رپورٹ دی جائے اور بتایا جائے کہ آنے والے ممکنہ تصادم سے پہلے، اگر وہ ہونے والا ہو، ان سلامتی، فوجی، دفاعی اور میڈیا کمیوں کو دور کرنے کے لیے کیا ہو رہا ہے؟
جواب: جہاں تک دفاعی پہلو کی بات ہے تو اس سلسلے میں اعلیٰ قومی سلامتی کونسل میں ایک اہم فیصلہ کیا گیا اور وہ ڈیفنس کونسل کا قیام تھا۔ یہ ڈیفنس کونسل، اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کی ایک ذیلی کونسل ہے اور اس کا فریضہ صرف دفاعی امور کو دیکھنا اور مسلح فورسز کی کمیوں کو دور کرنا اور ان ہی معاملات میں چارہ جوئی کرنا ہے، جس کا میکینزم فراہم کر دیا گیا ہے اور وہ کام میں مصروف ہے، اس کی ایک میٹنگ بھی ہو چکی ہے اور کاموں پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں، مسلح فورسز کے جنرل اسٹاف نے کچھ ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور ان پر کام کر رہا ہے، وزارت دفاع ضروریات کی تکمیل میں مصروف ہے؛ سبھی کام کر رہے ہیں، خاص طور پر سپاہ کے کمانڈر اور ایرو اسپیس شعبے کے کمانڈر، سب کوشش کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے اس راہ میں کچھ خامیاں پائی تھیں تو جہاں تک ممکن ہو انھیں دور کریں۔ خاص طور پر ماہرین اور ہونہار اور ماہر نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھی اچھی طرح فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ہم نے سیکریٹریئیٹ میں بھی اس وجہ سے کہ ہم واقعی جدید جنگوں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں، دفاعی ٹیکنالوجی کا ایک شعبہ قائم کیا ہے جو اسی موضوع پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور کام میں مصروف ہے۔ بنابریں ہم نے اس سلسلے میں اقدامات شروع کر دیے ہیں اور میں ذاتی طور پر بہت پرامید ہوں کیونکہ یونیورسٹیوں کے بہت سے ماہرین اس عمل سے جڑ گئے ہیں۔
سوال: اس سلسلے میں کیا نئے آلات و وسائل کی خریداری کا معاملہ بھی درپیش رہا؟
جواب: جی ہاں، وہ بھی تھا؛ بہرحال، ہماری زیادہ توجہ داخلی شعبوں پر ہے لیکن ہم دوسروں کی مدد سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک اور پہلو ان خامیوں کو دور کرنا ہے جو سیکورٹی کے شعبوں میں موجود ہیں جن پر اس سلسلے میں نشستیں بھی ہو رہی ہیں؛ یہ ایک ایسی خامی ہے جسے ضرور دور ہونا چاہیے۔ البتہ اس میں صرف انسانی پہلو نہیں ہے؛ یعنی مثال کے طور پر جب ہم "دراندازی" کہتے ہیں، تو یہ نہ سوچا جائے کہ ضرور کوئی انسانی عنصر اس میں ملوث ہے، جی ہاں، یہ بھی ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انسانی عنصر نہیں ہے، لیکن دوسرے عناصر بھی ہیں۔
سوال: ہماری داخلی رائے عامہ کے سامنے ایک ابہام ہے اور اب تک اس کا مناسب جواب نہیں دیا گیا اور دشمن نے پروپیگنڈے کے میدان میں اس سے غلط فائدہ بھی اٹھایا ہے، وہ یہ ہے کہ "دراندازی" کے بارے میں عوام اور رائے عامہ کو ایک واضح رپورٹ نہیں دی گئی ہے کہ وہ کس حد تک تھی۔ اگر ملک کے سیکورٹی عہدیدار کے لیے اس موضوع پر زیادہ واضح طور پر بات کرنا ممکن ہے تو براہ کرم اس بارے میں کچھ وضاحت کریں۔
جواب: بہت ضروری نہیں کہ ہم زیادہ تفصیل میں جائیں کیونکہ یہ یقینی طور پر نقصان دہ ہو سکتا ہے لیکن ان معاملات پر ضرور کام کیا جانا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دی گئی ہے اور اس پر کام کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی سوچ یہ ہے کہ اصل مسئلہ وہ لوگ ہیں جو مثال کے طور پر گلیوں میں، سڑکوں پر یا کہیں اور گھوم رہے ہیں اور دشمن کو معلومات فراہم کر رہے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے؛ یعنی جب آپ دراندازی کے میدان کو دیکھتے ہیں، تو آپ سمجھ جاتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجیز اور بہت ساری معلومات کا باہمی ربط، ان سے کہیں زیادہ باہری ایجنسیز کی مدد کر سکتا ہے۔ بنابریں معلومات پر تکنیکی تسلط اس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے اور یہ پہلو سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذا دوسرے جو کام کرتے ہیں وہ صرف افرادی قوت کو وہاں بھیجنا نہیں ہے؛ یہ پرانا طریقہ ہے، البتہ یہ بھی ہے، یہ نہیں کہ نہیں ہے، لیکن زیادہ اہم یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیز حاصل کردہ معلومات اور ان کے باہمی ربط سے کچھ اہم معلومات حاصل کر سکتی ہیں اور کارروائیوں کے دوران انھیں بہترین طریقے سے استعمال کر سکتی ہیں۔ بنابریں، معاملے کے اس پہلو پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! شاید اس عرصے میں آپ کی رہبر انقلاب کے ساتھ بھی کچھ نشستیں ہوئی ہوں گی اور اب بھی ہو رہی ہوں گی۔ پہلی ملاقات اور پہلی میٹنگ میں جو آپ نے یہ نئی ذمہ داری اور عہدہ سنبھالنے کے بعد ان کے ساتھ کی، ان کا آپ سے سب سے اہم مطالبہ کیا تھا اور کیا ہے؟
جواب: ان کا اصل مطالبہ یہ تھا کہ مجموعی طور پر ہم اپنی پوری کوشش کریں کہ ملک کے قومی مفادات کا اچھی طرح تحفظ ہو اور ہم پائیدار سلامتی حاصل کر سکیں۔ یہ ایک جامع بات ہے اور اس میں مختلف داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ ان کی اصولی سوچ یہ ہے کہ استقامت، پائیداری اور صلابت کے ساتھ، یہ کام جاری رکھا جائے۔ ان کی روش بھی یہی ہے۔ میں نے اس پوری جنگ کے دوران ان میں کبھی بھی اس راستے کے بارے میں ذرہ برابر پس و پیش نہیں دیکھا جس پر وہ چل رہے ہیں۔
سوال: آپ اُس دوران بھی ان سے رابطے میں تھے؟
جواب: جی ہاں، رابطے میں تھا اور ان کی ہدایات مکمل طور پر ہمیں ملتی تھیں۔ ہماری کچھ نشستیں بھی ہوئی تھیں، ہم اپنے خیالات و نظریات مسلسل انھیں بھیجتے رہتے تھے، ان کی فیڈ بیک بھی ہمیں ملتی تھی اور یہ بات پوری طرح واضح تھی۔ اب جنگ کے بعد تو ہمارے روابط پہلے سے بھی زیادہ ہیں۔ وہ اپنی راہ پر بہت اعتماد کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں اور ان کا یہ طرز عمل امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے رویے سے بہت شباہت رکھتا ہے۔ امام خمینی جب پیرس میں تھے تو ایک بار مرحوم شہید مطہری ان سے ملنے گئے تھے اور کچھ دن ان کی خدمت میں رہے؛ جب وہ واپس لوٹے، تو میں اور ان کے فرزند علی مطہری انھیں لینے کے لیے ائیر پورٹ گئے۔ راستے میں ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نے امام خمینی کو کیسا پایا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے انھیں راہ پر ایمان رکھنے والا، عوام پر ایمان رکھنے والا، خدا پر ایمان رکھنے والا اور خدا پر توکل کرنے والا پایا۔ انھوں نے بعد میں ایک کتاب میں بھی یہ بات بیان کی کہ امام خمینی کے چار ایمان بڑے نمایاں تھے: ہدف پر ایمان، راہ پر ایمان، قوم پر ایمان، خدا پر ایمان۔ حالیہ جنگ کے دوران میں نے حضرت آیت اللہ خامنہ ای میں یہی کیفیت دیکھی؛ یعنی ان کے قدم پورے یقین و اطمینان کے ساتھ ہیں اور یہ ان رہنماؤں کی خصوصیت ہے جو الہی راہ پر چلتے ہیں اور ہدف پر نظر رکھتے ہیں۔
سوال: اب ایک دوسرے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے بھی ایک سرسری سا اشارہ کیا، ہم مذاکرات کر ہی رہے تھے کہ دشمن نے عملی طور پر مذاکرات کی میز پر بمباری کر دی اس لیے یقینی طور پر موجودہ حالات میں مذاکرات اور 13 جون کے مذاکرات کے بارے میں ہماری سوچ الگ ہے۔ آپ کے خیال میں کیا اب بھی ممکن ہے کہ ان حالات میں ڈپلومیسی کام کرے اور اگر کام کرتی ہے تو اس کے شرائط کیا ہیں؟
جواب: میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ایران کبھی بھی ڈپلومیسی کو ترک نہ کرے کیونکہ ڈپلومیسی خود ایک ذریعہ ہے۔ رہبر انقلاب نے ایک بار کہا تھا کہ ہمیشہ آپ کے ہاتھوں میں مذاکرات کا پرچم رہے، یہ بالکل صحیح ہے۔ اصل میں ڈپلومیسی، حکومت کے کام کا ایک حصہ ہے اور اسے ترک کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ ہم کب اور کس طرح اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر دشمن ڈپلومیسی کے پلیٹ فارم کو ڈرامے کے پلیٹ فارم میں بدل دے تو اس ڈپلومیسی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر اس کا مقصد یہ ہو کہ اس ڈپلومیسی کو کسی دوسرے کام کا جواز پیش کرنے کے لیے استعمال کرے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ڈپلومیسی، حقیقی ڈپلومیسی نہیں ہے اور اس نے اس سے فائدہ اٹھانا ہی نہیں چاہا۔ لیکن اگر ڈپلومیسی اس لیے ہو کہ ہمیں جنگ سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ہم صلح کرنا چاہتے ہیں تو یہی ڈپلومیسی کا مقام ہے اور یہی حقیقی ڈپلومیسی ہے۔ میں اس وقت حالات کو اس طرح نہیں پاتا، یعنی مجھے لگتا ہے کہ یہ لوگ جو ڈپلومیسی اختیار کیے ہوئے ہیں وہ بہانے پیدا کرنے کی ڈپلومیسی ہے لیکن اسی کے ساتھ ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم ڈپلومیسی کو بند کر رہے ہیں۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ مذاکرات کے شرائط کیا ہوں اور ان کا نتیجہ کب نکلتا ہے؟ تو مذاکرات اس وقت ثمر بخش ہوتے ہیں جب فریق مقابل یہ سمجھ جائے کہ جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور مثال کے طور پر وہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنا چاہے لیکن اگر وہ مذاکرات کو ایک دوسرے آپریشن کا بہانہ بنانا چاہے تو یہ صحیح مذاکرات نہیں ہیں۔ بنابریں اس سلسلے میں ہماری شرط یہ ہے کہ ہم حقیقی مذاکرات کریں۔ اگر آپ جنگ کے در پے ہیں تو جائیے اپنا کام کیجیے، جب آپ پچھتانے لگیں تب مذاکرات کے لیے آئیے گا لیکن اگر آپ حقیقت میں اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ آپ اس انتھک اور ڈٹی رہنے والی قوم کو جنگ کے ذریعے جھکا نہیں سکتے، یہ جو بکواس کرتے ہیں کہ ہمیں ایران کو سرینڈر کرانے کے لیے اس پر دباؤ ڈالنا چاہیے، جس کا رہبر انقلاب نے جواب بھی دیا اور اس جنگ میں فریق مقابل سمجھ بھی گيا کہ ایرانی لوگ سرینڈر ہونے والے نہیں ہیں، حقیقی مذاکرات کی شرط یہ ہے کہ آپ اس بات کو سمجھیں۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! بارہ روزہ جنگ کے بعد مزاحمتی محاذ اور مزاحمتی گروہوں کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کا نقطۂ نظر کیا ہوگا۔ آپ نے عراق کا ایک دورہ کیا تھا، ایک دورہ لبنان کا بھی کیا تھا۔ اس وقت لبنان میں حزب اللہ پر ترک اسلحہ کے لیے بہت بھاری دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جو کام براہ راست فوجی جنگ میں اسرائيلی بھی نہیں کر پائے تھے! دوسری طرف عالمی میڈیا میں یہ تجزیہ بھی پایا جاتا ہے کہ وہ گروہ کمزور ہوتے جا رہے ہیں جن کی اسلامی جمہوریہ "مزاحمتی محاذ" کی حیثیت سے حمایت کرتی تھی۔
جواب: اگر وہ کمزور ہو گئے ہیں تو یہ لوگ اس پر اتنا اصرار کیوں کر رہے ہیں اور اتنا دباؤ کیوں ڈال رہے ہیں؟ اگر وہ کمزور ہو گئے تو کمزور ہو گئے ہیں نا؟ عام طور پر وہاں دباؤ ڈالا جاتا ہے جہاں سامنے والا مضبوط ہو۔ جب وہ کمزور ہے تو کمزور ہے نا! میرے خیال میں یہ ان عجیب و غریب باتوں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم ان واقعات سے پہلے اور چار پانچ سال پہلے میڈیا کے تجزیوں کی بات کریں تو اس وقت مزاحمتی محاذ کے کمزور پڑنے کی بات نہیں تھی، ٹھیک ہے نا؟ لیکن دیکھیے کہ وہ مزاحمت اور مزاحمت سے ایران کے تعلقات کے بارے میں کیا کہتے تھے: وہ کہتے تھے کہ ایران غلطی کر رہا ہے، یہ کوئی چیز نہیں ہیں، یہ ایران کے لیے بوجھ ہیں! عام طور پر وہ یہی کہتے تھے کہ یہ کوئی اہم چیز نہیں ہیں، ایران خود کو ان کے لیے ضائع کر رہا ہے اور یہ تو کسی شمار میں ہی نہیں ہیں! اب وہ کہہ رہے ہیں کہ مزاحمتی محاذ کمزور ہو گیا ہے، لیکن اس وقت جب ان کے خیال میں یہ کمزور نہیں تھا، تب بھی وہ یہی بات دوسری طرح سے کہتے تھے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کمزور ہیں؛ اچھا اگر یہ کمزور ہیں، تو انھیں چھوڑ دو، ان کا پیچھا چھوڑ دو؛ تم ان کے لیے اتنی سازشیں کیوں کر رہے ہو؟
میرے خیال میں انھوں نے پچھلے دو سال میں خود اپنے لیے اور خطے کے لوگوں کے لیے بہت مصیبتیں پیدا کی ہیں؛ لوگوں کو مارا، لوگوں کو زخمی کیا، لوگوں کو بھوکا رکھا لیکن یہ ایسی حکومت کے جرائم ہیں جس کی اپنے لیے کوئی ریڈ لائن نہیں ہے، وہ جو چاہتی ہے، کرتی ہے اور مغربی دنیا نے اس بربریت کو مان لیا ہے۔
اب سوال یہ ہے: تم جو کہتے ہو کہ تم نے حماس کو ختم کر دیا ہے، تو اب تم غزہ پر قبضہ کرنے سے کیوں خائف ہو؟ تم نے لوگوں کو قتل کیا، شہید کیا، لوگوں کو بھوکا رکھا، لیکن پھر بھی تم حماس کو ختم نہیں کر سکے۔ یہ ختم کیوں نہیں ہو رہا؟ یہ ان کے اپنے ہاتھ میں ہے؛ جب تم لوگوں کو مارتے ہو اور ختم کرتے ہو، ان کے اہل خانہ ہوتے ہیں، نوجوان ہوتے ہیں؛ تم انھیں اس موقف پر لا کھڑا کرتے ہو کہ وہ تمھارا مقابلہ کریں۔ حزب اللہ کب وجود میں آئی؟ حزب اللہ تب وجود میں آئی جب اسرائیل نے سیدھے بیروت پر قبضہ کر لیا؛ جب اس نے بیروت پر قبضہ کر لیا، تو کس ملک کے لوگ کسی دوسرے ملک کے تسلط اور قبضے کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں؟ اس لیے کچھ نوجوانوں نے کہا کہ ہمیں اپنا دفاع کرنا چاہیے اور یہ حزب اللہ کی تشکیل کی بنیاد بنا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ حزب اللہ کو ایران نے بنایا! نہیں، انھوں نے خود اپنے رویے سے حزب اللہ کو پیدا کیا۔ جی ہاں، ہم نے مدد کی؛ ہم جھوٹ نہیں بولتے، ہم کہتے ہیں کہ ہم نے مدد کی، آگے بھی مدد کریں گے، لیکن حزب اللہ کی بنیاد خود لبنانی قوم نے رکھی اور یہ اس کے لیے ایک سرمایہ بن گئی؛ یعنی ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے قابل ہو گیا۔
حماس بھی ایسا ہی ہے؛ جب تم آئے اور ایک ملک پر قبضہ کر لیا اور پھر کہتے ہو کہ تمھاری کوئی جگہ نہیں ہے، تم اپنی زمینیں دوسروں کو دے دو، تو لوگ تمھارے مقابلے میں ڈٹ جائیں گے۔ عراق میں بھی یہی حالات پیدا ہوئے؛ جب امریکیوں نے عراق پر قبضہ کیا، تو مزاحمتی تحریکیں وجود میں آئیں؛ کیونکہ تم نے قبضہ کیا اور لوگوں پر ظلم کیا، اور وہ بھی اس احمقانہ رویے کے ساتھ جو تمھارے فوجیوں کا تھا۔ یمن میں مزاحمت کیوں پیدا ہوئی؟ حوثی ہمیشہ سے تھے اور حکومت سے اختلاف رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے یمن پر بمباری شروع کی، تو انھوں نے کہا کہ اب ہمیں مزاحمت کرنی ہوگی اور مزاحمتی تحریک وجود میں آئی۔
بنابریں مزاحمت ان کے اپنے رویے سے پیدا ہوتی ہے اور یہ جتنا زیادہ دباؤ ڈالیں گے، مزاحمت اتنی ہی زیادہ گہری ہوتی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے وار کر دیا ہے، ٹھیک ہے، حزب اللہ پر وار کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی تعمیر نو کی یا نہیں؟ ان کے اندر اتنے زیادہ نوجوان مجاہد تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو پھر سے تیار کرنا شروع کیا۔ مسٹر بریجنسکی جو کبھی امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر تھے، ان کی ایک کتاب ہے جس میں انھوں نے کچھ فنکاروں کے بعض اشعار کو بھی تحریر کیا ہے، اس کتاب میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مشرق وسطیٰ میں ایک نئے رجحان کا سامنا ہے اور وہ نوجوانوں کی سیاسی بیداری اور امریکا سے نفرت ہے۔ پھر وہ مثال دیتے ہیں کہ جیسے ایک سینیگالی شاعر نے اس طرح نظم کہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ جب امریکی دباؤ ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا نظریہ "طاقت کے بل پر امن و صلح" ہے، تو طاقت کے بل پر امن و صلح کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا زمینی ترجمہ کریں۔
یعنی سرینڈر ہو جانا۔
یا تو سرینڈر یا پھر جنگ۔ کون غیرت مند انسان اس سرینڈر ہونے کو تسلیم کرے گا؟ پھر یہ نیتن یاہو، جو اس سے بھی زیادہ احمق ہے، یہ بھی یہی دوہراتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا بھی یہی نظریہ ہے! وہ خود کو اس بات میں شامل کرنا چاہتا ہے۔ نہ تو اس کا کوئي نتیجہ نکلتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا۔ جب نیتن یاہو کہتا ہے کہ میں ایک چھوٹے ملک کے طور پر طاقت کے ذریعے امن قائم کرنا چاہتا ہوں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خطے کے ممالک جیسے سعودی عرب، مصر، اردن یا کویت سے کہہ رہا ہے کہ تم سب کو یا تو میرے سامنے سرینڈر ہونا ہوگا یا جنگ کرنی ہوگی! تو اس طرح وہ سب کو حساس کر دیتا ہے اور اسی لیے خطے کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سب اسرائیل کے خلاف ایک دفاعی موقف رکھتے ہیں۔ البتہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم سے بھی اختلاف رکھتے ہوں، میں نہیں کہتا کہ وہ ہماری طرح سوچتے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے رویے پر اعتراض کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ایران اس کے مقابلے میں ایک محاذ ہے۔ تو، یہ ایک نکتہ ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں، مزاحمت نہ صرف زندہ ہے بلکہ حرکت میں بھی ہے۔
سوال: بارہ روزہ جنگ کے بعد اسلامی جمہوریہ کی پالیسی اب بھی وہی پرانی پالیسی یعنی مزاحمتی محاذ کی حمایت اور تقویت کی ہے:
جواب: دیکھیے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمیشہ وقت کے حساب سے فیصلہ کرنا چاہیے لیکن اسلامی جمہوریہ نے ہمیشہ مزاحمت کی حمایت کی ہے کیونکہ وہ اسے ایک اصل تحریک اور سرمایہ سمجھتی ہے۔ کیا ان لوگوں نے اسرائیل کو چھوڑ دیا؟ کیا اس وقت امریکا نے اسرائیل کو چھوڑ دیا ہے؟ وہ بدستور اس کی حمایت کر رہا ہے۔ اگر ایران موجودہ صلاحیتوں اور گنجائشوں کی حمایت نہ کرے، کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے مفادات کی حمایت کرتے ہیں اور ایران کے ہمدرد ہیں، تو یہ ایک طرح سے سیاسی کم عقلی ہوگی۔ ایران کو اپنے وسائل سے استفادہ کرنا چاہیے۔ جب دشمن، اپنی تمام چھوٹی بڑی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو ہم کیوں اپنی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھائيں۔
جی ہاں! میں نے دیکھا کہ کبھی کبھار کہا جاتا ہے کہ مزاحمت نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا! درحقیقت، وہ آپ کے ذہن پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں اور آپ پر یہ تاثر مسلط کرنا چاہتے ہیں کہ مزاحمتی گروہ آپ کے گلے کا طوق ہیں اور آپ پر بوجھ ہیں، انہیں چھوڑ دیجیے، شرطوں پر صلح ہو سکتی ہے۔ ایک دفعہ میں دنیا کے ایک ایسے رہنما سے بات کر رہا تھا جو اس وقت سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں؛ میں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین آپ نے کیوں بنائے ہیں؟ جب وہ ہم پر حملہ کرتے ہیں اور آپ لوگ جو سلامتی کونسل کے رکن بھی ہیں، کچھ نہیں کرتے، تو پھر یہ بین الاقوامی قوانین کس لیے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ قوانین فضول ہیں، اس لیے کہ بین الاقوامی پلیٹ فارم کا مطلب طاقت ہے! بات یہ ہے۔ اگر آپ اپنی طاقت کا تحفظ نہیں کریں گے، تو آپ چوٹ کھائيں گے۔ یہ بہت بری چیز ہے؛ بین الاقوامی پلیٹ فارم ایسا ہی ہے، جنگل کی طرح ہے تاہم یہ ایسی حقیقت ہے جو موجود ہے۔ اب آپ اسے مانیں یا نہ مانیں؛ اگر نہیں مانتے، تو زیادہ چوٹ کھائیں گے۔
لہٰذا آپ کو اپنی طاقت کے عناصر کی تقویت کرنی چاہیے۔ چاہے وہ ملک کے اندر ہوں، آپ کے عوام، اہم آپ کے عوام ہیں، عوام کا خیال رکھیے، ان کے اتحاد و یکجہتی کا خیال رکھیے، ان کی ضرورتیں پوری کیجیے، لوگوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیے، لوگوں کے ساتھ آمرانہ طریقے سے بات نہ کیجیے، ان کے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ خطے میں بھی آپ کے پاس وسائل ہیں؛ اپنے وسائل کے ساتھ خطے میں متحد رہیے۔ یہ سوچنا کہ مثال کے طور پر حزب اللہ یا مزاحمتی فورسز ہمارے اوپر بوجھ ہیں، ایک اسٹریٹجیک غلطی ہے۔ میرے خیال میں، انھیں بھی ہماری مدد کی ضرورت ہے، اور ہمیں بھی ان کی مدد سے فائدہ اٹھانا چاہیے؛ کیونکہ گوشہ نشینی اختیار کرنا ایران کی قومی سلامتی کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
سوال: آپ نے لبنان کا جو دورہ کیا تھا اس میں جناب شیخ نعیم قاسم سے بھی ملاقات کی تھی۔ ذرا تفصیل سے بتائیے کہ اس دورے میں اور دورے کے دوران جو ملاقاتیں ہوئیں ان کے پیش نظر حزب اللہ کی تجدید حیات اور اس کے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جواب: میں پہلے بھی اس بارے میں بات کر چکا ہوں۔ میں نے حزب اللہ کے مجاہدین اور ان کے رہنما کو اپنے راستے میں بہت پُرعزم پایا۔ آج بھی حزب اللہ کی قیادت اور ان کے نوجوان سب کے سب پُرعزم ہیں۔ اور نوجوان بھی، استقبالیہ تقریب میں یا شہید نصر اللہ کے مزار پر جہاں ہم نے ان سے بات کی، آپ نے وہ نسل دیکھی جو اس کا صرف ایک چھوٹا سا نمونہ تھا، کسی نے انہیں مدعو بھی نہیں کیا تھا، بلکہ وہ خود آئے تھے۔ ان کا جذبہ یہ ہے؛ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے، اس لیے وہ لبنان کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ اب کچھ لوگ آ کر کہتے ہیں کہ تمھیں ہتھیار ڈال دینے چاہیے! ہم کیوں ہتھیار ڈالیں؟ ہم کس کے سامنے ہتھیار ڈالیں؟ وہ دکھی ہیں۔
ہمارا موقف بھی ہمیشہ یہی رہا ہے کہ یہ لوگ قومی مذاکرات کے ذریعے اپنے مسائل خود حل کریں اور آج بھی ہمارا یہی اصولی موقف ہے۔ البتہ ہم نے کبھی بھی مزاحمتی فورسز پر کوئی چیز مسلط نہیں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایران سے منسلک ہیں؛ ہاں، وہ منسلک ہیں، کیونکہ وہ ہمارے بھائی ہیں، اس معنی میں نہیں کہ وہ ہمارے تابع فرمان ہیں۔ ہمارا طریقۂ کار ہرگز یہ نہیں ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ خود پختگی رکھتے ہیں اور فیصلے کر سکتے ہیں۔ ایران کے برتاؤ اور دوسروں کے برتاؤ میں فرق بالکل یہیں پر ہے؛ ان کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ یا تو ہمارے سامنے ہتھیار ڈال دو یا پھر جنگ کرو، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی عقلی پختگی کا احترام کیجیے۔ ہم کہتے ہیں کہ خطے کو خودمختار اور مضبوط ہونا چاہیے، نہ صرف ہمیں مضبوط ہونا چاہیے بلکہ لبنان کی حکومت بھی مضبوط ہونی چاہیے، عراق کی حکومت بھی مضبوط ہونی چاہیے، سعودی حکومت بھی مضبوط ہونی چاہیے۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ نچلے درجے پر ہوں اور ہم ان پر حاوی ہوں؛ ہم غلبے کے درپے نہیں ہیں؛ ہم بھائی چارے اور عاقلانہ تعاون کو مانتے ہیں اور خطے میں خودمختار اور طاقتور حکومتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ مزاحمت کی حمایت کریں گے اور اسلامی جمہوریہ کی اسٹریٹیجی، مزاحمت کی حمایت پر مبنی ہے۔
سوال: اب ایٹمی اینرجی کے مسئلے کی طرف آتے ہیں۔ آپ کو ایٹمی مسئلے اور آئی اے ای اے کے ساتھ کام کرنے کا کافی تجربہ ہے۔ حالیہ واقعات اور اس جنگ کے سلسلے میں اس ایجنسی کی کارکردگی پر آپ کا کیا تجزیہ ہے اور یہ بھی بتائیے کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون اور قانونی امور سے نمٹنے کے بارے میں ایران کا کیا پروگرام ہے؟
جواب: جہاں تک مجھے اطلاع ہے البرادعی صاحب کے زمانے سے لے کر اب ان صاحب کے ہاتھوں میں پہنچنے تک واقعی آئي اے ای اے اتنی خراب حالت میں کبھی نہیں رہی! مطلب یہ کہ ایجنسی میں تھوڑی بہت عقل مندی پائی جاتی تھی، یہ ٹھیک ہے کہ وہ مغرب کے زیر تسلط کام کرتی ہے لیکن اس کے لوگ کسی حد تک عالمی تعلقات کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اس کے موجودہ سربراہ نے گویا صیہونی دشمن اور امریکا کو بلینک چیک دے دیا ہے، اس جنگ کے معاملے میں اسی نے آگ لگائی ہے۔ بہت ہی شرمناک بات ہے کہ سیف گارڈ کے اصولوں میں کہا گیا ہے کہ آئي اے ای اے کو ان ممالک کا دفاع کرنا چاہیے جو این پی ٹی کے رکن ہیں، فوری طور پر بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ بلانی چاہیے اور اس کا نتیجہ سلامتی کونسل میں پیش کرنا چاہیے لیکن اس شخص نے کھڑے ہو کر تماشا دیکھا، یہاں تک کہ مذمت بھی نہیں کی! کیا ایسا شخص ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل ہونے کی لیاقت رکھتا ہے؟ جب البرادعی صاحب تھے تو وہ بہت عقل مندی سے کام کرتے تھے۔ بہرحال ان لوگوں پر عالمی دباؤ ہمیشہ ہوتا ہے لیکن وہ کسی نہ کسی طرح ایک پیشہ ورانہ ادارے کی عزت کسی حد تک بچائے رکھتے تھے۔ میں سو فیصد نہیں کہہ رہا ہوں لیکن کسی حد تک وہ آئي اے ای اے کی عزت محفوظ رکھتے تھے۔ ایجنسی کے موجودہ سربراہ نے پوری طرح سے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ جنگ سب سے آخری کام ہے، ہمارے ساتھ جنگ کی گئي، ہماری ایٹمی تنصیبات پر بمباری کی گئی، آئي اے ای اے نے اس کی مذمت میں ایک بیان تک جاری نہیں کیا۔ یہ واقعی بہت شرم ناک ہے۔
میرے خیال میں سب سے پہلے تو خود آئي اے ای اے کے بارے میں سوچا جانا چاہیے کہ اس کی کیا خصوصیت ہے۔ واقعی اب ملکوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ ایجنسی کی کیا خصویت ہے۔ ہم این پی ٹی کے رکن ہیں، ایجنسی کے ساتھ کام کرنے میں ہمارا کیا فائدہ ہے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم این پی ٹی سے نکل جائیں، بلکہ میں کہہ رہا ہوں کہ ہمارے عوام اور تمام ملکوں کے لیے یہ ایک منطقی سوال ہے۔
سوال: کیا این پی ٹی سے باہر نکل جانا، اسلامی جمہوریہ ایران کے سامنے موجود آپشنز میں سے ایک ہے؟
جواب: یہ مفروضہ ہمیشہ رہتا ہے۔ البتہ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ابھی کوئی ایسا کر رہا ہے کیونکہ یہ کام بھی حکمت عملی سے ہونا چاہیے اور ہمیں دیکھنا ہوگا کہ اس کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں۔ ہم ایٹم بم کے درپے نہیں ہیں، جب کوئی ملک ایٹم بم کا خواہاں ہو تو اسے این پی ٹی قبول نہیں کرنا چاہیے اور جب وہ بم کے درپے نہ ہو تو اسے این پی ٹی ضرور قبول کرنا چاہیے اور اسے قبول نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لیے این پی ٹی کی کوئی خاصیت نہیں رہی ہے۔
دیکھیے! جب بھی آپ ان امور کے مقابلے میں طاقت کے ساتھ عمل کریں گے تو آپ کا کام آگے بڑھے گا، بین الاقوامی پلیٹ فارم ایسا ہی ہے، لیکن اگر آپ یہ سوچیں کہ مثال کے طور پر ڈپلومیسی کے میدان میں نرم رویہ اختیار کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے، تو ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس طاقت ہوگی، تو آپ کا کام چلے گا؛ اس لیے ایران کو طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سوال: اس بات کا ہماری جوہری پالیسی میں کیا ترجمہ ہوگا؟
جواب: ہماری جوہری پالیسی میں اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آپ مذاکرات کو کبھی ترک نہ کریں لیکن مذاکرات میں ہتھیار بھی نہ ڈالیں، بلکہ معقول اور عاقلانہ راہ حل پیش کریں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ لچک نہ دکھائی جائے تاہم لچک اسی جگہ دکھائی جائے جہاں ان کا مقصد مسئلہ حل کرنا ہو۔ مثال کے طور پر، کبھی رہبر معظم نے بھی "شجاعانہ لچک" کی بات کی تھی۔ یہ اُس جگہ کے لیے ہے جہاں فریق مقابل بھی ایسا ہی کرنا چاہتا ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ آپ کو ہتھیار ڈالنا ہوگا، تو یہاں ہتھیار نہیں ڈالنا چاہیے، بلکہ ڈٹ جانا چاہیے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب! آنے والے ہفتوں میں، ہم اسنیپ بیک میکینزم کے معاملے کا سامنا کر رہے ہیں، جس پر کئی مہینے پہلے سے بحث جاری ہے۔ اس معاملے میں یورپ والوں کا مرکزی کردار ہے اور وہ اسے ایران کے خلاف دھمکی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کا اس ہتھیار اور یورپ والوں کے رویے کے بارے میں کیا تجزیہ ہے؟
جواب: یورپ والوں کا رویہ واضح ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں، اس کے تجزیے کی ضرورت نہیں ہے، یہ روز روشن کی طرح واضح ہے، وہ امریکا کی پلاننگ کے ایک حصے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں لیکن اس معاملے میں اختلاف راۓ پایا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک جیسے روس اور چین نے بھی بیان جاری کیے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ یہ میکینزم اس وقت کے لیے بنایا گیا تھا جب کوئی ایک فریق جوہری معاہدے پر عمل نہ کرے۔ کون پابندی نہیں کر رہا تھا؟ انھوں نے ہماری تنصیبات پر بمباری کی، تو پھر آپ ہمارے خلاف اسنیپ بیک میکینزم کیوں استعمال کر رہے ہیں؟ بین الاقوامی حقوق پر عمل کے لحاظ سے یہ منظر نامہ انتہائی افسوسناک ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کرے کوئي، بھرے کوئی۔ بین الاقوامی منظر نامہ واقعی ایک عجیب و غریب چیز ہے اور اس میں ایسے افسوسناک واقعات ہوتے ہیں۔ بنابریں اختلاف راۓ موجود ہے۔
اگلا اختلاف راۓ یہ ہے کہ اگر آپ اسنیپ بیک میکینزم استعمال کرنا چاہتے ہیں، تو آپ فوری طور پر سلامتی کونسل نہیں جا سکتے، پہلے آپ کو اپنا مطالبہ پیش کرنا ہوگا، ماہرین کی کمیٹی ایک ہے، پھر وزراء کی ایک کمیٹی ہے، پھر ان کا جائزہ لیا جائے گا، پھر اسے سلامتی کونسل میں لے جایا جائے گا۔ یہ لوگ براہ راست سلامتی کونسل چلے گئے ہیں!
اگلا نکتہ یہ ہے کہ امریکا تو معاہدے سے نکل چکا ہے؛ اب کتنے لوگ باقی ہیں؟ چھے لوگ باقی ہیں؛ یعنی ایران ہے، روس ہے، چین ہے اور تین یورپی ممالک ہیں۔ تو یہ تین کے مقابل تین ہو گئے۔ آپ کیسے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں؟ لہٰذا اگر سات ممالک ہوتے تو اکثریت کا کوئی مطلب نکلتا۔ اس وقت تو تین کے مقابل تین ہیں۔ یعنی اگر وہ اصولوں کے مطابق عمل کرنا چاہیں، تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
اس کا منطقی راستہ یہ تھا کہ وہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرتے لیکن یہ لوگ دباؤ کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ دباؤ بھی دو قسم کا ہوتا ہے: ایک امریکی طریقۂ کار ہے جس میں انھوں نے بمباری کی اور دوسرا ان کا طریقۂ کار ہے جس میں انھوں نے اسے ہمارے سر پر مسلط کر دیا ہے کہ یا تو ہم یہ کریں گے یا وہ! لیکن جو کچھ معاہدے کے متن میں ہے، وہ یہ ہے۔ لہٰذا اس پر اختلاف راۓ پایا جاتا ہے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب پچھلی بات کے تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ اسنیپ بیک میکینزم نافذ کیا جا رہا ہے اور وہ اسے ایکٹیو کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ایران کا جواب کیا ہوگا؟
جواب: اس وقت اس سلسلے میں ملک کے اندر جائزہ لیا جا رہا ہے اور جہاں تک میری معلومات ہیں کچھ ممالک بھی مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ عمل روکا جا سکے۔ روس اور چین کا بھی ایک مختلف موقف ہے اور وہ اس کے خلاف ہیں۔
سوال: اگر وہ مدت میں توسیع کی تجویز دیں، تو کیا ایران اسے قبول کرے گا؟
جواب: اس معاملے میں اختلاف راۓ پایا جاتا ہے۔ ہمارا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ کچھ ممالک نے یہ پیشکش کی ہے لیکن ایران اسے تسلیم نہیں کرتا۔ یعنی اس کا ماننا ہے کہ یہ بھی ایک نئی ترتیب بن جائے گی جہاں وہ وقتاً فوقتاً آ کر کہیں گے کہ چھ ماہ ہو گئے ہیں، اگلی بار ایک سال کر دیں۔ ہمارا ایک معاہدہ تھا کہ دس سال کے اندر یہ ختم ہو جانا چاہیے تھا، اب مزید اس میں کھینچا تانی کرنے اور اضافہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایران واقعی اسے تسلیم نہیں کرتا۔ البتہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ ہم یہ چھے ماہ کی بات مان لیں لیکن مجموعی طور پر ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔
سوال: مطلب یہ کہ سلامتی کونسل نے ابھی اس بارے میں فیصلہ نہیں کیا ہے؟
جواب: نہیں، اس معاملے کے لیے سلامتی کونسل میں کچھ مراحل ہیں جنھیں ضرور طے کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، اسنیپ بیک میکینزم کے استعمال کے طریقۂ کار پر اختلاف راۓ پایا جاتا ہے اور اہم ممالک بھی اس اختلاف میں شامل ہیں۔ اگر معاملہ سلامتی کونسل میں پہنچتا ہے، تو وہاں بھی یہ قابل بحث ہے۔ وہاں یہ فیصلہ کیا جا سکے گا کہ اسے ایکٹیو کیا جائے یا نہیں۔
سوال: اگر ایسا ہوتا ہے تو اس مسئلے کے لیے اسلامی جمہوریہ کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ یہ شاید سب سے بری ممکنہ صورت ہے!
جواب: ہم اُس وقت بھی سوچ سمجھ کر قدم اٹھائيں گے۔ آپ بدترین ممکنہ صورت کو مدنظر رکھیں گے لیکن ابھی اس صورت حال تک پہنچنے میں وقت ہے۔