خطے اور حتیٰ کہ دنیا کے لیے اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔ اگرچہ وہ ایک چھوٹی اقلیت ہیں لیکن وہ بڑی طاقتوں کے سہارے خطے اور دنیا پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لیے آج ہی سے مزاحمت کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
صدر مملکت اور وزیر خارجہ کے اسی حالیہ دورۂ نیویارک میں بہت کوشش کی گئی کہ آخر لمحات میں ہی سہی، صحیح مذاکرات ہوں اور نتیجہ تک پہنچیں لیکن مخالف فریق نہیں مانے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری منطق مضبوط ہے۔
رہبر انقلاب نے 23 ستمبر 2025 کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "جب ہم کہتے ہیں کہ (امریکا سے مذاکرات) ہمارے فائدے میں نہیں ہیں، ہمارے لیے سود مند نہیں ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی فریق مذاکرات کے نتائج پہلے ہی سے طے کر چکا ہے، یعنی اس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف ان مذاکرات کو قبول کرتا ہے اور وہ ایسے مذاکرات چاہتا ہے جن کا نتیجہ ایران میں جوہری سرگرمیوں اور یورینیم کی افزودگی کا خاتمہ ہو۔ یعنی ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور اس سے ہونے والی گفتگو کا نتیجہ وہی بات ہو جو اس نے کہی ہے کہ "یہ ہونا چاہیے!" یہ پھر مذاکرات نہیں رہے، یہ ڈکٹیشن ہے، یہ زبردستی ہے۔"
اسی مناسبت سے KHAMENEI.IR نے ایران کی خارجہ تعلقات کی اسٹریٹیجک کونسل کے سربراہ اور سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر کمال خرازی سے ان کے ماضی کے تجربات کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کے اصولوں اور اسی طرح بارہ روزہ جنگ سے ملنے والے سبق اور عبرتوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔